شیعہ اوراتہامات

شیعہ اوراتہامات 0%

شیعہ اوراتہامات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

شیعہ اوراتہامات

مؤلف: صادق حسینی الشیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 6285
ڈاؤنلوڈ: 3920

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6285 / ڈاؤنلوڈ: 3920
سائز سائز سائز
شیعہ اوراتہامات

شیعہ اوراتہامات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

شیعہ اوراتہامات

صادق حسینی الشیرازی

پیش لفظ

ساری تعریف عالمیں کے پروردگار کے لئے مخصوص اور درور و سلام ہو ،بشیر اور نظیر،خراغ ہدایت ،ہمارے اقا حضرت محمد مصطفی(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور ان کے پاک اور معصوم اہل بیت پر ۔اور ان کے دشمنوں پر لعنت ابدی ہو۔

تشیع اور اس کی فکر کی ساری پریشانی یہ ہے کہ اس کے پاس ان وسائل کی کمی ہے جو ان افکار کو دنیا تک تیزی سے پہچا سکے ورنہ شیعت کے پاس یہ طاقت موجود ہے کہ وہ عقلی اور نقلی دلیلوں کے ذریعہ تمام حق جو افراد کو اس مکتب اسلام کی دعوت دے ۔ان دلائل کی باطل صرف ان لوگوں نے مانا ہے جو فکر اور اعتقادی طور پر منحرف ہیں اور ان کے قلب بیمار۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی سہولت ابھی بھی فراہم نہیں ہے۔تمام ان محدودیتوں اور دوسری طرف منحرف کرنے والوں کے وسائل کی بہتات کو دیکھتے ہوئے ایک عاقل انسان حق کو پہچان سکتا ہے کہ ایک طرف زور و زبر ،تکفیر ،قتل،سختی اور دوسروں کی نفی ہے اور دوسری طرف :گذشت،نرمی،مہربانی دوسروں کی تعظیم اور اکرام تو ان میں سے اسلام محمدی (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے کون قریب ہے۔ اس طرح کی فضا میں یہ بات بھی روشن ہے کہ امت اسلام کو حق( جس کے بارے میں رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:’’علی مع الحق والحق مع علی،یدور معہ حیثما‘‘علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ،جہاں بھی علی ہوں حق بھی وہیں ہے)کی بلکل پہچان نہیں ہے اور گروہ وہابیت اور وہ گروہ جو ان کے جیسے ہیں اس فکر خلا کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور تشیع کے چہرے کو داغدار کرنے کے لیئے ان پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں۔ جب کہ خدا وند عالم نے قرآن کریم میں لوگوں کو عقائد اور ایمان کو عقل اور دلیل کے ساتھ تولنے کا حکم دیا ہے۔ارشاد اقدس ہوتا ہے:

( قل هاتوا برهنکم ان کنتم صدقین ) (سورہ بقرہ آیت ۱۱۱)" اے رسول کہہ دیجیئے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لے کر آؤں"۔

دوسری طرف کم علمی اور علم تفسیر ،حدیث،تاریخ اور سیرت رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور ائمہ معصومیں سے سطحی اگاہی بھی نہ ہونے کی وجہ سے فتنہگروں کو فکری اور اعتقادی حملہ کرنے کا موقع ملتاہے۔ اسلئے امت مسلمہ کی دفاع اور اس کو بے راہی اور گمشدگی سے باہر نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ اہل تشیع اور اس کا درد رکھنے والے افراد کی فکری اور علمی معلومات ہو نکھار دیا جائے۔تاکہ حریف کی فکری چال سے ارشاد الہی کی روشنی میں سرفراز اور کامیاب میدان ہو سکیں۔ارشاد باری تعالی ہے:( وجدلهم بالتی هی احسن ) ۔۔۔سورہ نحل آیت ۱۲۵ "ان سے بہترین طریقہ سے بحث اور مجادلہ کرو" البتہ یہ ضمہداری ان لوگوں کیلئے اور بڑھ جاتی ہے جو فکری اور ثقافتی تحول ،اور دین اور راہ حق (محمد و ال محمد علیھم السلام)کو اپنا وظیفہ سمجھتے ہیں۔اسی لئے حقایق کو امت مسلمہ کے سامنے روشن کرنا ضروری ہے اور دوسری طرف تمام امتوں کو ہر طرح کہ تعصب سے دوری اختیار کرکے تشیع کے افکار کی تحقیق اور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان پر یہ بات روشن ہو سکے کہ شیعوں کے عقاید خاندان رسالت کی تعلیمات ہیں اور یہ عقاید فطرت انسان سے شازگاری رکھتے ہیں۔یہ وہی چیز ہے جو خدا نے بشریت کے لئے چنی اور پسند کی ہے۔

کتاب حاضر ،۔۔’’حقایق عن الشیعہ‘‘کا ترجمہ ہے جو متن کے لحاظ سے مختضر اور بہترین ہے اور اس میں کوشش کی گئی ہے کہ شیعوں پر لگائے گئے بعض الزامات کا جواب دیا جاسکے۔ مولف ،مرجع عالی قدر حضرت ایت اللہ العظمی سید صادق حسینی شیرازی (مد ظلہ العالی)نے اس کتاب کو گفتگو کے ابداز میں پیش کیا ہے ،زبان سلیس اور الفاظ سادہ اور اعم فہم ہیںجس سے اس کی جزابیت دوچندان ہو گئی ہے ۔ مولف نے اس کتاب میں بیجا بحث سے پرہیز کیا ہے تااور علمی حقیقت اور دلیلوں کو اپنا محور قرار دیا ہے۔اسی سادگی بیان اور موضوع پر دلیل کو پیش کرنے کی وجہ سے یہ کتاب اتنا مقبول ہوئی ہیاور مکتب اہل بیت (ع) کے چاہنے والوں نے اس کو متعدد بار نشر کیا۔(اس کتاب کی تعداد نشر صحیح طرح سے معلوم نہیں ہے کیونکہ یہ کئی ملکوں میں متعدد بار چھپ چکی ہے۔ کتاب آخر میں ہم نے چند دوسری کتابوں کا ذکر کیا ہے جو تشیع اور تسنن کے موضوع پر اہمیت رکھتی ہیں۔اسی طرح وہ اہل سنت جو شیعہ ہو گئے ہیں اور ان کے انترویو چند رسالوں میں آئے ہیں ان کا بھی ہم ذکر کیا ہے۔ شاید یہ کتاب اور اس سے مشابہ دوسری کتابیں حقیقت کی جستجو کرنے والوں کو راہ راست دیکنے میں مدد گارثابت ہوں۔اس امید کے ساتھ کہ ہماری اس کوشش کو حضرت بقیت اللہ العظم امام زمان (عج)قبول کریں بارگاہ خداوند میں دعا کرتے ہیں کہ آپ (ع) کے ظہور میں تعجیل کرے اور ہم کو ان کی رکاب میں قرار دے۔ان شاء اللہ

مقدمئہ مؤلف

استعمار اور اس کے عوامل ہمیشہ اس کوشش میں رہے ہیں کہ امت مسلمہ کو اسلام سے دور کرکے ان میں فرقہ ایجاد کئے جائیں اور ان کو ایک دوسرے کے مقابل میں لاکھڑا کیا جائے اور ’’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘‘کی غلیظ سیاست پر عمل کرتے ہوئے اسلامی ملکوں پر اپنی حکومت کو دوام بخشیں ۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سیاست کے عملی ہونے کے نتیجہ میں کچھ مسلمان ،اس بات سے غافل کہ قرآن نے تمام مسلمانوں کو بھائی قرار دیا ہے نادانی میں حقیقت کی جستجو کئے بغیر شیعوں پر الزامات لگاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس گروہ کے لوگ ان کے مذہب پر عمل نہیں کرتے اور اپنے فقہی مسائل کو ان کے امام یا فقیہ سے حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کے فقیہ اور امام دوسرے ہیں ۔ یہ اس حال میں ہے کہ آج کے مسلمان کو اپنی صفوں کو متحد اور مضبوط کرنا چاہئے ،استعمار اور دین کے دشمنوں کو شکست دینے کو اپنا ہدف اور مقصد بنانا چاہئے کیوں کہ تفرقہ تمام مذاہب اسلام کے لئے نقصان دہ ہوگا ۔

مذاہب اسلامی میں جن مسائل میں اختلاف ہے ان کو بھی آپس میں گفتگو اور بحث اور تنقید (ایسی تنقید جو گالی ،تہمت سے خالی ہو اور اصول اسلام جو تمام فرقوں کے درمیان قابل قبول ہیں )ان کے ذریعہ حل کیا جائے ۔ اور بعض مسلمان اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کو گالی اور ناسزاکہیں گے اور ایک اختلافی موضوع کی وجہ سے ایک دوسرے کی تکفیر کریں گے تو اسلام کی عظیم وحدت ختم ہوجائے گی اور فرقوں ،گروہ میں بٹ کر استعمار کی فکری، اقتصادی ،سماجی ...سلسلہ کا ضمینہ فراہم ہوجائے گا۔ لہذا ہم نے اس کتاب میں ان چیزوں (موضوعات)کی بررسی (جانچ)کی جن کو تفرقہ پھیلانے والے شیعوں کے خلاف دستاویز کی صورت میں استعمال کرتے ہیں ۔

شاید اس سے کوئی راستہ نکل آئے اور دیکھیں کہ شیعہ ان چیزوں پر عمل کرنے کی وجہ سے راہ گم کرگئے ہیں اور باطل کی طرف چلے گئے ہیں ؟یابہ معاملات عین حقیقت ہیں اور شیعہ امامیہ شاہراہ ہدایت پر گامزن ہیں ؟!

خدائے متعال سے دعا ہے کہ اس راہ میں ہمیں ثابت قدم رکھے اور حقائق کو دیکھنے کے لئے وہ آنکھ (بصیرت)دے جو تمام معنی اسلامی ہو تاکہ ہر چیز کو اسلامی مہک سے پر کرسکیں اور اس پر عمل کرسکیں !

وہ سننے والا اور اجابت کرنے والا ہے ۔

(۲۸ذی الحجہ ۱۳۸۰ھ؁ ق))

سجدہ گاہ پر سجدہ

سامی :

علی، (تم) آپ شیعہ لوگ سجدہ گاہ پر سجدہ کرکے جو ایک جمی ہوئی مٹی ہے شرک کرتے ہیں اور اس کو خدا کی جگہ پوجتے ہیں

علی:

اگر اجازت ہو تو ایک سوال کروں؟

سامی:

پوچھیئے !

علی:

کیا خدا کے (جسم) پر سجدہ واجب ہے ؟

سامی:

یہ بات کفر (محض) ہے ۔کیونکہ خداوند جسم نہیں رکھتا نہ آنکھ کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے،نہ ہی اسے ہاتھ کے لمس سے چھوا جاسکتا ہے ،اور اگر کوئی معتقد ہو کہ خدا جسم رکھتا ہے بی تردید کافر ہے ، اور سجدہ خدا کے لئے ہونا چاہیئے ،خدا پر سجدہ کفر ہے کیونکہ سجدہ کامقصد اللہ کے سامنے بندگی کا اقرار ہے ۔

علی:

آپ کا یہ بیان ثابت کرنا ہے کہ ہمارے سجدہ گاہ پر سجدہ شرک نہیں ہے کیونکہ ہم سجدہ گاہ پر سجدہ کو سجدہ نہیں کرتے۔

اور اگر (یہ فرض محال) ہو سجدہ گاہ کو خدا مانتے ( العیاذباللہ) تو ہم کو اس کے لئے سجدہ کرنا پڑتا نہ کہ اس کے اوپر کیونکہ سجدہ کرنے والا اپنے خدا پر سجدہ نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے سجدہ کرتا ہے ۔

سامی :

پہلی مرتبہ ایک صحیح تحلیل اس مسئلہ کے لئے سن رہا ہوں کہ اگر آپ لوگ سجدہ گاہ کو خدا مانتے تو اس پر سجدہ نہیں کرتے ، اس پر سجدہ کرنا ہی دلیل ہے کہ اس کے عبادت نہیں کرتے ۔

پھر علی سے کہا : اگر اجازت ہو تو ایک بات پوچھوں ؟

علی:

بسم اللہ

سامی:

پھر یہ اصرار کیوں کہ صرف سجدہ گاہ پر سجدہ کرتے ہیں اور دیگر اشیاء پر سجدہ نہیں کرتے ؟

علی:

تمام اسلامی فرقوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:’’جعلت لی الارض مسجدا وطهورا ‘‘زمیں میرے لئے مسجد ( سجدہ کرنے کی جگہ ) اور پاک کرنے والی قرار دی گئی ہے(۱).

سامی :

زمیں پر جو خاک سے ڈھکی ہوئی تھی!

علی:

اس بنا پر ، رسول (ص) نے اپنی تمام نمازیں زمیں پر پڑھیں اور خاک پر سجدہ کہا اور اس زمانہ اور اس کے بعد کے مسلمانوں نے خاک پر سجدہ کیا ،اس وجہ سے خاک پر سجدہ پر سجدہ قطعی طریقہ سے صحیح ہے اور ہم رسول(ص) کی پیروی میں خاک پر سجدہ کرتے ہیں اور بے تردید ہماری نمازیں صحیح ہیں ۔

سامی:

آپ شیعہ حضرات صرف اس سجدہ گاہ پر جواب اپنے ساتھ رکھتے ہیں کیوں سجدہ کرتے اور دیگر اشیاء پر سجدہ نہیں کرتے ؟

علی :

اس سوال کے دو جواب ہیں :

(۱) مذہب شیعہ تمام اجزای زمیں ( خاک یا پتھر ) پر سجدہ کو صحیح مانتا ہے ۔

(۲) محل سجدہ کا پاک ہونا نماز صحیح ہونے کی شرط ہے اور خاک نجس پر سجدہ صحیح نہیں ہے ، لہذا ہم مٹی کا ایک تکڑا ساتھا میں رکھتے ہیں تا کہ یہ اطمینان رہے کہ نماز کے وقت ہم پاک مٹی پر سجدہ کریں ۔ البتہ اس جگہ یا خاد پر سجدہ جائز ہے کہ جس کے مورد میں شک ہو کہ پاک ہے یہ نہیں ۔

سامی:

اگر آپ کا مقصد خالص اور پاک مٹی پر سجدہ کرنا ہے تو آپ کچھ مقدار مٹی (خاک) کی اپنے ساتھ کیوں نہیں رکھتے ؟

علی:

خاک یا مٹی کا ساتھ میں رکھنا ایک مشکل کام ہے کہ اس سے لباس بھی گندہ ہوجائے گا اس لیئے ہم کچھ خاک (مٹی) کو پانی میں ملاکر سخت کرہیتے ہیں اور پھر اس کو ساتھ رکھتے ہیں کہ جس سے لباس بھی خراب نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف سوکھی ہوئی مٹی پر سجدہ کرنے سے زیادہ خضوع حاصل ہوتا ہے ، کیونکہ سجدہ خضوع کا بلند ترین مرتبہ ہے او رفقط خدا کے لئے مخصوص ہے اس بنا پر اگر سجدہ کا مقصد خدا کے حضور میں بندگی اور انکساری ہے تو جس چیز پر سجدہ کیا جائے اگر کم ارض ہوتو بہتر اور سایستہ تر ہے ۔ اور اسی وجہ سے مستحب ہے کہ سجدہ کی جگہ ہاتھا اور پیر رکھنے کی جگہ سے نیچے ہو تاکہ خدا کے حضور میں یہ سجدہ زیادہ خضوع کی نشاندہی کرے ۔ اسی طرح مستحب ہے کہ سجدہ کی حالت میں اپنے ناک بھی زمین پر لگائے کہ یہ بھی بندگی کا ایک طریقہ اور خضوع میں اضافہ کرتا ہے ۔ لہذا مٹی پر سجدہ بہتر ہے دوسری چیزوں سے جن پر سجدہ صحیح ہے کیونکہ اس حالت میں جسم کا سب سے قیمتی عضو یعنی پیشانی کو خاک پر رکھا جاتا ہے جو کہ خود کو اللہ کے سامنے ناچیز دیکھا ہے اور اگر سجدہ کرتے وقت پیشانی کو کسی قیمتی فرش یا قیمتی کپڑے یا سونے چاندی عقیق وغیرہ پر رکھے گا تو یہ بعید نہیں کہ اس خضوع کم ہوجائے اور وہ اپنے آپ کو خدا کی عظمت اور جلالت کے سامنے چھوٹا اور ناچیز نہ سمجھے جو کچھ میں نے بیان کیا اس کی روشنی میں کیا ایسی چیز پر سجدہ کرنا شرک اور کفر جو خضوع کو بڑھائے ۔اور ان چیزوں پر سجدہ کرنا جو خضوع کو ختم کردیتی ہیں ’’وسیلہ تقرب‘‘ہے ؟ یہ بات ناحق اور نا درست ہے ۔

سامی:

آپ کی سجدہ گاہوں پر عبارتیں لکھیں ہوتی ہیں یہ عبارتیں کیا ہوتی ہیں ؟

علی:

تمام سجدہ گاہوں پر عبارت نہیں ہوتی ایسی بھی سجدہ گاہیں موجود ہیں جن پر کوئی عبارت نہیں ہوتی البتہ کچھ سجدہگاہوں پر عبادت کندہ ہوتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ یہ سجدہ گاہ خاک کربلا(۲) سے بنائی گئی ہے کیا آپ کے حساب سے یہ شرک ہے ؟ یا یہ کہ لکھنے کی وجہ سے اس پر سجدہ صحیح نہیں ہے ؟ نہیں یہ بات درست نہیں ہے! ۔

سامی:

وہ سجدہ گاہیں جو خاک کربلا سے بنائی جاتی ہیں کیا خصوصیت رکھتی ہیں کہ اکثر شیعہ حضرات اس پر سجدہ کرتے ہیں ۔

علی: اس کے بارے میں ایک حدیث آئی ہے جوکہ کہتی ہے،’’السجود علی تربة الحسین (ع)یحزق الحجب السبع ،(۳)

تربت حسین (ع) پر سجدہ سات حجابوں (آسمانوں )کو چاک کردیتا ہے )

اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سجدہ پر سجدہ (جو خاک کربلا سے بنی ہو ) قبولی نماز کا باعث بنتی ہے اور اس کے درجہ کو خدا بلند کرتا ہے ۔ البتہ اس کی وجہ خاک کربلا کی دوسری خاک پر برتری ہے ۔

سامی:

کیا خاک کربلا کی سجدہ گاہوں پر سجدہ کرنے سے باطل نماز بھی مقبول خدا وند ہو جاتی ہے ؟

علی۔:

شیعہ نظریہ ہے کہ وہ نمزیں جو شرایط صحت نماز نہ رکھتی ہوں اور صحیح طریقے سے نہ اداکی گئی ہوں وہ تمام باطل ہیں اور قابل قبول نہیں ہیں لیکن وہ نمازیں جو صحیح طریقہ سے بجالائی گئی ہوں مقبول خدا وند ہوتی اور کبھی کبھی مقبول نہیں ہوتی ہیں اور کوئی اجر نہیں پاتی ، لیکن اگر صحیح نماز تربت امام حسین(ع) پر پڑھی جائے تو وہ قبول و مقبول ہے اور اجر بھی زیادہ رکھتی ہے اس بنا پر نماز کا قبول ہونا ایک جدا مطلب ہے اور اس کا صحیح یا باطل ہونا ایک دوسری بحث ہے ۔

سامی:

کیا سرزمین کربلا دوسری زمینوں حتی مکہ مکرمہ اور مدینہ سے بھی با شرف اور برتر ہے کہ اس کی خاک پر سجدہ برتر اور فضیلت تر ہے ؟

علی:

آپ کی نظر میں یہ کیا معنی رکھتا ہے ؟

سامی:

کیا سر زمین مکہ جو ( آدم(ع)) کے زمانے سے ( حرم ) ہے اور زمین مدینہ کہ جس میں جسم مبارک رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) دفن ہے منزلت اور مرتبہ کے لحاظ سے کربلا سے کمتر ہے ؟ اور کیا حسین بن علی (ع) اپنے جد رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے برتر ہیں ؟ یہ بات عجیب و غریب ہے !

علی:

نہیں ، ایسا نہیں ہے ، حسین بن علی (ع) کی عظمت و بلندی رسول خدا(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی شرافت و عظمت کی ایک جھلک ہے ۔ امام حسین (ع) کو جو عظمت اور بندی حاصل ہوئی ہے وہ اس لئے کہ انھوں نے اپنے جد کے دین کے راستے پر چل کر شہادت پائی ،ہاں منزلت امام حسین ؐ منزلت رسول خداؐ کا ایک حصہ ہے لیکن چونکہ آپ ( امام حسین (ع) ) نے اپنے خاندان اور اصحاب کے ساتھ اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے اور باطل کو شکست کامل دینے کے لئے جان قربان کردی ، اس لئے اللہ نے عنایت اور محبت سے نوازا اور تین چیزیں آپ کو عطا کیں ۔

(۱)آپ قبہ (حرم ) کے نیچے کی جانے والی دعا ، مستجاب ہوگی ۔

(۲) امام آپ کی نسل میں قرار دیئے

(۳) تمام دردوں کی شفا آپ (ع) کی تربت میں قرار دئے ۔(۴)

خدا نے اس لئے امام حسین(ع) کو عظمت و منزلت عطا کی کہ آپ راہ خدا اور دین مقدس اسلام کی دفاع میں بد ترین اور مظلوم ترین طریقہ سے شہید ہوئے ، آپ کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کیا گیا ،آپ کے ساتھیوں کو میدان جنگ میں شہید کیا گیا ، اور آپ فقط اسلام اور خدا کے لئے یہ سب تحمل کرتے گئے ، کیا اس فداکاری کے بعد آپ دی گئی فضیلت کے معنی سمجھ میں آتے ہیں ؟

کیا امام حسین (ع) کی تربت یا سجدہ گاہوں کو مدینہ اور دیگر خاکوں سے برتر ماننا ہے ؟ میرے بھائی قضیہ بالکل بر عکس ہے ، امام حسین (ع) کی تربت کا احترام امام حسین (ع) کا احترام ہے اور امام حسین (ع) کا احترام رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور خدا کا احترام اور بزرگ ماننا ہے

سامی:

آپ کا یہ بیان کا ملاً درست اور صحیح ہے آپ سے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ آپ لوگ امام حسین (ع) کو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے افضل اور بر تر مانتے ہیں ، آج حقیقت روشن ہوگئی ، آپ کے اس بیان کا شکر گزار ہوں اور اتنی مفید معلومات سے نوازنے کا بھی شکر یہ عدا کرتا ہوں ۔

آج ہمیشہ خاک کربلا اپنے ساتھ رکھوں گا اور اسی پر سجدہ کروں گا اور فرش اور دیگر چیزوں پر سجدہ کو ترک کردوں گا ۔

علی:

میری کوشش تھی کہ آپ کو ان الزمات اور تہمت سے آگاہ کردوں جو دشمنوں نے ہم پر لگائے ہیں دشمن جو اپنے کو مسلمان کہتا ہے لیکن در حقیقت تمام مسلمانوں کا دشمت ہے ، آپ سے میری فقط ایک گزارش ہے کہ آج کے بعد جو بھی شیعہ کے بارے میں سنیں اسے حقیقت نہ مانیں اور تلاش کرکے حقیقت تک پہونچے ۔

ضریع اور بارگاہ بنانا

فواد : جعفر ، اگر اجازت ہو تو آپ سے ایک اختلافی موضوع پر کچھ پوچھوں ؟

جعفر : پوچھئے ، میں پسند کرتا ہوں کہ انسان تحقیق کے ساتھ مطالب کو سمجھے نہ یہ کہ ان کے بند کر گئے ہر آواز پر دوڑ پڑے ۔

فواد:اگر ہم اہل سنت کی بات حقیقت پر ہو ، تو آپ اسے مان لیں گے ؟

جعفر:میں ان لوگوں میں ہوں کہ فقط حقیقت جاننے کے بعد تمام تن کے ساتھ اس کو مانتا ہوں اور چونکہ میں نے اس مذہب کو حقیقت پر پایا اس لئے اس کو قبول کیا آپ جانتے ہیں کہ میرے تمام رشتہ دار سب سنی مذہب پر ہیں اگر تمہاری بات مجھے حقیقت لکھی تو بے شک میں پہلا فرد ہوں گا جو اس طرف قدم بڑھائے ۔

فؤاد:آپ شیعہ(۵) لوگ اپنے پیغمبروں ، اماموں ،صالحین اور علماء کی قبروں پر گنبد اور بارگاہ بناتے ہیں ، ان قبروں کے نزدیک نماز ادا کرتے ہیں ،آپ کا یہ کا م قطعی طور پر شرک ہے اور مشرکوں کے طرح آپ لوگ بھی اپنے اولیاء کی قبروں کی پرستش کرتے ہیں ۔

جعفر : انسان کو تعصب سے دوری اختیار کرنی چاہیئے اور واقیت کو جان کر بات کرنی چاہیئے حقیقت وہ ہے جو کتاب خدا ، سنت پیغمبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور صلح لوگوں کی سیرت کو مد نظر قرار دیا جائے ۔

فؤاد:صحیح ہے ، میں بھی یہی عقیدہ رکھتا ہوں ، اور پسند کرتا ہوں کہ علم و فھم کہ ذریعہ حقیقت کو جانوں نہ کہ اندھی تقلید کے ذریعہ !

جعفر: دو چیزوں کا بیان ضروری سمجھتا ہوں ،

(۱) فقط ہم شیعہ نہیں یہی جو بزرگوں اور اولیاء کی قبروں پر تعمیرات کرتے ہیں ، بلکہ تمام مسلمان اپنے پیغمبروں م اماموں ، اور بزرگوں کے مرقد بناتے ہیں ۔ مثال کے طور پر چبد کا ذکر کرتاہوں ،پیغمبر اسلام(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور دو خلیفہ کی قبر جو عظیم گنبد اور تعمیرات پر مشتمل ہے ۔

۔چند پیغمبروں کی قبر جن میں سے حضرت ابراہیم (ع) کی قبر شہر (الخلیل) اردن میں موجود ہے جس پر ضریع ، گنبد ،وغیرہ موجود ہے ۔

۔قبر حضرت موسیٰ (ع) جو کہ اردن میں بیت المقدس اور عمان کے بیچ میں واقع ہے اور اس پر تعمیرات موجود ہیں ۔

۔’’امام ابو حنیفہ‘‘کی قبر جو کہ بغداد میں ہے ان جگہ میں سے ایک ہے جس پر گنبد موجود ہے ۔

۔’’ابو ہریرہ‘‘ کی قبر جو کہ مصر میں ہے اس پر بھی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے ،اور بلڈنگ اور گنبد موجود ہے ۔

۔قبر ’’عبد القادر جیلانی‘‘جو بغداد میں ہے اور صحن ، ضریع اور گنبد پر مشتمل ہے ۔ مسلم و اسلامی ممالک میں جگہ جگہ پر پیغمبروں اور اولیاؤں کی قبر یں موجود ہیں جن پر گبند وغیرہ جوجود ہیں ۔ بہت سے چیز اور زمین ان کے نام پر وقف ہیں ، اور ان وقفوں سے حاصل دولت ان مزاروں کی تعمیرات اور نگہداشت پر خرچ ہوتی ہے ۔

شروع سے مسلمان اس کام کو پسند کرتے تھے اور انجام دیتے آئے ہیں اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ اس کام کو کریں ، ایک بار بھی لوگ اس کام کو کرنے سے نہیں روکا گیا ، اس بنا پر فقط ہم شیعہ نہیں ہے جو بارگاہ بناتے ہیں بلکہ دوسرے مسلمان بھی ہمارے ساتھ ساتھ اپنے اماموں اور پیشوا کی قبروں پر تعمیرات کرتے ہیں اور ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ۔

(۲)ہم شیعہ اور دیگر مسلمان جب حرم کے اندر یا اولیای خدا کے قبر کے نزدیک نماز پڑھتے ہیں تو در اصل وہ نماز خدا کے لئے ہوتی ہے نہ کہ اولیاء خدا کے لئے ، کیونکہ ان جگہ پر ہم نماز کے لئے رو بہ قبلہ نماز پرھتے ہیں ، اگر نماز اولیاء یا پیغمبر کے لئے ہوتی تو نماز کے حال میں ان کی قبر کا رخ کرنا چاہئے تھا ۔

فؤاد: پھر آپ لوگ ان قبروں کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز کیوں ادا کرتے ہیں اور ان قبروں کو اپنا قبلہ قرار دیتے ہیں ؟ جعفر: جس وقت ہم ان قبروں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو ہمارا قبلہ فقط وفقط کعبہ ہوتا ہے اور یہ قبریں طبیعی طور پر ہمارے سامنے پڑجاتی ہیں اور ہمارا قصد ان کو قبلہ قرار دینا ہر گز نہیں ہوتا ، ایسی حالت میں نماز گزار کی مثال اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ وہ رو بہ قبلہ کھڑا ہو اور اس کے سامنے ایک عمارت کھڑی ہو تو کیا اس نمازی کی نماز اس عمارت کے لئے مانی جائے گی ؟

اس سے بھی آگے چل کر علماء اسلام کا کہنا ہے کہ : نماز کا رو بہ قبلہ پڑھنا صحیح ہے حتی اگر مشرکین کے معبد (مندر) میں پڑھی جائے چاہے اس کے سامنے ایک بت ہی کیوں نہ رکھا ہو ، جو کہ خدا کی طرح پوجا جاتا ہے ، کیونکہ نماز گزار کی توجہ خدا کی طرف ہے نہ کہ اس بت کی طرف ۔ اس حال میں کیا نمازی کی نماز اس بت کے لئے مانی جائے گی !

فؤاد: اگر اس طرح ہے جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ قبروں پر تعمیرات کرنا شرک نہیں تو پھر علماء حجاز نے آپ کے اماموں کی قبروں پر بنی ضریح اور بارگاہوں کو ویران کردیا ۔

جعفر: تمام علماء حجاز نے اس کام کے لئے فتویٰ نہیں دیا بلکہ ان میں سے بعض نے فقط اس زمانہ میں اس کام کے لئے فتویٰ دیا ۔ ( مدینہ کے ایک بوڑھے نے مجھ سے نقل کیا) جس وقت ائمہ بقیع کے حرم اور بارگاہ کو ویران کرنے کا حکم دیا گیا حجاز کے چند علماء نے اس استدلال کے ساتھ کہ قبروں پر عمارت تعمیر کرنا شرک نہیں بلکہ شریعت اسلامی کی نظر میں ایک پسندیدہ اور مستحب کا م ہے ، کیونکہ خدا وند عالم فرماتا ہے ’’ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب".حج ۳۲۔وہ جس نے اللہ کی نشانیوں کا احترام کیا در اصل وہ اپنے دلوں کی پاکیزگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔(۶)

قبروں پر تعمیرات کو شرک جاننے کے دعووں کو باطل قرار دیا اس عمل کا سبب یہ ہوا کہ ان علماء میں سے بعض کو اپنے مذہبوں سے ہاتھ دھوناپڑا اس بنا پر فقط چند علماء حجاز نے اس کام کے شرک ہونے پر فتویٰ دیا۔

فؤاد: میں خود اس فکر میں تھا کہ اگر ضریح اور گنبد کا بنانا شرک اور حرام ہے تو پھر مسلمان پیغمبر کے زمانہ سے آج تک اس مسئلہ کو کیوں نہ سمجھ سکے اور ان تعمیرات کو کیوں نہیں روکا ؟ کیا تیرہ صدیوں میں وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ کام حرام ہے ؟

جعفر: غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ خود پیغمبر اسلام(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ضریح اور تعمیر کے کام کو منع نہیں فرمایا ۔

(حجر اسماعیل ) جو کہ حضرت اسماعیل(ع) اور جناب ھاجرہ کی قبر کا مقام ہے اس دعوے کے لئے بہتریں ثبوت ہے حضرت ابراہیم (ع) اور جناب موسیٰ (ع) کی قبر یں بھی ان مقامات میں شامل ہیں جو پیغمبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانہ سے آج تک حرم اور بارگاہ رکھتے ہیں لیکن پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور خلفاء نے اس چیز میں کوئی قباحت نہیں دیکھی اور نہ ہی لوگوں کو وہاں زیارت کرنے سے روکا چنانچہ اگر اس کام کو حرام اور شرک ماننے والوں کا دعویٰ صحیح ہے تو بیشک پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ایک حکم سے ان تمام مقامات کو ویران کر سکتے تھے اور ان کی زیارت کو بھی منع کر سکتے تھے ، لیکن چونکہ پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ایسا نہیں کیا اس بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اماموں اور صالحین کی قبروں پر تعمیرات کرنا ان کی زیارت کرنا اور وہاں نماز پڑھنا جائز ہے

دوسری طرف جس وقت رسول خدا ؐ نے رحلت فرمائی تو آپ کو آپ ہی کے حجرہ مین دفن کیا گیا اور اس کا دروازہ بند کردیا گیا ، اور اس طرح آپ کی قبر ایک کمرے میں آگئی جس کے چاروں طرف دیوار تھی اور چھت بھی تھی اس بنء پر اگر آپ کے صحابیوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کام کے حرام یا ناجائز ہونے پر آنحضرت (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے کچھ سنا ہوتا تو بی شک وہ اعلان کرنا اور رسول کو وہاں دفن نہ ہونے دیتا یا اگر رسول وہاں دفن ہوگئے تھے تو اس حجرہ کو ویران کردیتا تا کہ وہ زبر پر تعمیرات کے حکم میں نہ آسکے لیکن چونکہ نہ ہی صحابہ آپ کے نزدیک رشتہ داروں نے ایسا کام کیا اور نہ ہی اس کو حرام جانا ، ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قبر پر تعمیرات کرنا شرک اور حرام نہیں ہے ۔

فؤاد: حقیقت سے آشنا کردنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ قبروں پر تعمیرات شرک نہیں اور وہ تمام کام جو اس زمینہ میں ( خراب و ویران کے سلسلہ میں )کئے گئے ہیں کوئی شرعی سند نہیں رکھتے ،آپ کا شکر گزار ہوں ۔

جعفر: میں بھی آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے حقیقت کو جان کر اس کو تہہ دل سے مانا اور صحیح راستہ دیکھنے پر اس کی طرف قدم بڑھایا اور عقل و منطق کی روشنی میہں صحیح کام انجام دیا ۔ اور اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ حقیقت اور دین سے اور زیادہ آشنا ہوں لہٰذا اگر آپ کے پاس وقت ہے تو آپ سے کچھ اور گفتگو کی جاسکے ۔

فؤاد: حق بات کا طلب گار ہوں اور تمام دل و جان سے تیار ہوں کہ آپ کی بات کو سنو جو بھی چاہیں بات کریں ؟

جعفر: ہماری بحث و گفتگو میں ثابت ہوا کہ اولیاء خدا کی قبروں پر تعمیرات کرنا جائز ہے اور کوئی حرمت نہیں رکھتی ؟

فؤاد: جی ہاں ، اور اس مسئلہ میں ، میں آپ کا ہم عقیدہ ہوں ۔

جعفر: اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اولیاء خداکی قبروں پر ضریع بنانا اور دوسری تعمیرات کرنا مستحب ہے اور جو بھی اس کام کو انجام دے گاوہ خدا سے اس کی جزاء خیر پائے گا ۔

فؤاد : کس طرح ؟

جعفر: خدا وند عالم ارشاد فرماتاہے ’’( ومن یعظم شعائرالله فانهامن تقوی القلوب ) ".حج ۳۲ (اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی ۔(۷) اس بنا پر ہر وہ چیز جو ’’شعار الٰھی ‘‘ہو اس کا احترام کرنا اسلام کی نظر مستحب ہے ۔

فؤاد: صحیح ، لیکن اولیاء خدا کی قبروں پر تعمیر کس طرح سے ’’شعار الھی ‘‘ہوسکتی ہے ؟

جعفر: ’’شعار‘‘اس چیز کو کہا جاتا ہے جو ’’دین ‘‘کو دنیا کی نظر میںبڑا اور عظیم دیکھائے اور اس کی حرمت پر کوئی (نص) دلیل موجود نہ ہو ۔

فؤاد: کیا ان عمارتوں اور گنبدوں سے دین کو عظمت حاصل ہوتی ہے ؟

جعفر:ہاں

فؤاد: وہ کس طرح ؟

جعفر: اس با ت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ بزرگان اسلام کی قبروں پر عمارت بنانا اور اسی طرح ان عمارتوں کو خراب اور ویران کونے سے روکنا ، ان بزرگو ں کا احترام کانا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی قبر کے پاس ایک پیڑ لگادے تو کیا اس کا یہ کام ان قبر کا احترام کرنا نہیں مانا جائے گا ؟

فؤاد: بالکل اسی طرح ہے ۔

جعفر: اب اگر کوئی کسی قبر پر عظیم عمارت بنائے اور اس پر قبہ وغیرہ بنائے تو یہ کام اس صاحب قبر کا احترام کرنا ہے تو پھر دین کے بزرگوں کی قبروں کا احترام اصل میں اسلام کا احترام اور اس کی عظمت کو دیکھنا ہے ،کہ یہ بزرگان اس دین کی طرف دعوت دیتے تھے ، اور لوگوں کی اسی دین کی طرف راہنمائی کرتے تھے اگر کوئی شخص کسی پارٹی کے صدر یا کسی ...........کا احترام کرتا ہے تو کیا یہ احترام اس بڑی یا ....کا احترام نہیں مانا جائے گا ؟

فؤاد : بالکل ایس ہی ہے۔

جعفر :اسی بنا پر ،اولیاء خدا کی قبروں پر عمارت بنانا اور اس کا احترام کرنا ، خدا کا اکرام اور اسلام کا حترام کرنا ہے ۔ اور اسی طرح ہر وہ چیز جو جس کے ذریعہ خدا کی عظمت آشکار ہو اور اسلام کی سر بلندی کا باعث بنے وہ شعار (نشانی) ہے کہ جس کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ :( ومن یعظم شعائرالله فانهامن تقوی القلوب ) .حج۳۲ (اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی)

فؤاد: اس صورت میں تو ان قبروں کا ویران کرنا اور عمارتوں کو نقصان پہچانا دین کی ہے حرمتی ہے اور اسلام کی منزلت کو گٹھنا ہے ، کیونکہ اس کام سے ہماری بزرگوں کی ہے حرمتی ہے ،اور ان کی ہے حرمتی اسلام کی توہین ہے اور ان کی منزلت کو گٹھانا خود اسلام کی منزلت کو کم کرنا ہے ۔

جعفر: اسی وجہ سے میں نے مذہب اہل بیت (ع) کو چنا اور شیعہ ہوگیا ۔ اور اپنا نام ’’ولید ‘‘سے (جعفر) تبدیل کرلیا ۔ جس وقت دوسروں کی رائے پر عمل کرتا تھا خود کو حق پر سمجھتا تھا ، لیکن جس وقت ’’حق‘‘کا خواہاں ہوا اور اس کی تلاش میں لگا تو اسی کو حقیقت پایا ۔اگر انسان مذہبی تعصب کو کنارے رکھ دے اور کشادہ روی کے ساتھ حق کو مانے تو یقینی طور پر اسے حاصل کرلے گا ۔

فؤاد : آج کے بعد میں حقیقت کی تلاش میں لگا رہوں گا اور جس جگہ بھی جس کسی کے پاس اس کو پاؤنگا اس کی پیروی کرونگا ۔اور آپ کا ہمیشہ شکر گزار رہوں گا کہ آپ نے مجھے حقیقت سے آگاہ کیا ۔ اگر اجازت ہو تو میں جانا چاہوں گا۔ کہ کسی سے ملنے کا وعدہ ہے ۔

جعفر: بالکل تشریف لے جائیے،خدا حافظ

فؤاد: خدا حافظ ۔