ضریع اور بارگاہ بنانا
فواد : جعفر ، اگر اجازت ہو تو آپ سے ایک اختلافی موضوع پر کچھ پوچھوں ؟
جعفر : پوچھئے ، میں پسند کرتا ہوں کہ انسان تحقیق کے ساتھ مطالب کو سمجھے نہ یہ کہ ان کے بند کر گئے ہر آواز پر دوڑ پڑے ۔
فواد:اگر ہم اہل سنت کی بات حقیقت پر ہو ، تو آپ اسے مان لیں گے ؟
جعفر:میں ان لوگوں میں ہوں کہ فقط حقیقت جاننے کے بعد تمام تن کے ساتھ اس کو مانتا ہوں اور چونکہ میں نے اس مذہب کو حقیقت پر پایا اس لئے اس کو قبول کیا آپ جانتے ہیں کہ میرے تمام رشتہ دار سب سنی مذہب پر ہیں اگر تمہاری بات مجھے حقیقت لکھی تو بے شک میں پہلا فرد ہوں گا جو اس طرف قدم بڑھائے ۔
فؤاد:آپ شیعہ
لوگ اپنے پیغمبروں ، اماموں ،صالحین اور علماء کی قبروں پر گنبد اور بارگاہ بناتے ہیں ، ان قبروں کے نزدیک نماز ادا کرتے ہیں ،آپ کا یہ کا م قطعی طور پر شرک ہے اور مشرکوں کے طرح آپ لوگ بھی اپنے اولیاء کی قبروں کی پرستش کرتے ہیں ۔
جعفر : انسان کو تعصب سے دوری اختیار کرنی چاہیئے اور واقیت کو جان کر بات کرنی چاہیئے حقیقت وہ ہے جو کتاب خدا ، سنت پیغمبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور صلح لوگوں کی سیرت کو مد نظر قرار دیا جائے ۔
فؤاد:صحیح ہے ، میں بھی یہی عقیدہ رکھتا ہوں ، اور پسند کرتا ہوں کہ علم و فھم کہ ذریعہ حقیقت کو جانوں نہ کہ اندھی تقلید کے ذریعہ !
جعفر: دو چیزوں کا بیان ضروری سمجھتا ہوں ،
(۱) فقط ہم شیعہ نہیں یہی جو بزرگوں اور اولیاء کی قبروں پر تعمیرات کرتے ہیں ، بلکہ تمام مسلمان اپنے پیغمبروں م اماموں ، اور بزرگوں کے مرقد بناتے ہیں ۔ مثال کے طور پر چبد کا ذکر کرتاہوں ،پیغمبر اسلام(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور دو خلیفہ کی قبر جو عظیم گنبد اور تعمیرات پر مشتمل ہے ۔
۔چند پیغمبروں کی قبر جن میں سے حضرت ابراہیم (ع) کی قبر شہر (الخلیل) اردن میں موجود ہے جس پر ضریع ، گنبد ،وغیرہ موجود ہے ۔
۔قبر حضرت موسیٰ (ع) جو کہ اردن میں بیت المقدس اور عمان کے بیچ میں واقع ہے اور اس پر تعمیرات موجود ہیں ۔
۔’’امام ابو حنیفہ‘‘کی قبر جو کہ بغداد میں ہے ان جگہ میں سے ایک ہے جس پر گنبد موجود ہے ۔
۔’’ابو ہریرہ‘‘ کی قبر جو کہ مصر میں ہے اس پر بھی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے ،اور بلڈنگ اور گنبد موجود ہے ۔
۔قبر ’’عبد القادر جیلانی‘‘جو بغداد میں ہے اور صحن ، ضریع اور گنبد پر مشتمل ہے ۔ مسلم و اسلامی ممالک میں جگہ جگہ پر پیغمبروں اور اولیاؤں کی قبر یں موجود ہیں جن پر گبند وغیرہ جوجود ہیں ۔ بہت سے چیز اور زمین ان کے نام پر وقف ہیں ، اور ان وقفوں سے حاصل دولت ان مزاروں کی تعمیرات اور نگہداشت پر خرچ ہوتی ہے ۔
شروع سے مسلمان اس کام کو پسند کرتے تھے اور انجام دیتے آئے ہیں اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ اس کام کو کریں ، ایک بار بھی لوگ اس کام کو کرنے سے نہیں روکا گیا ، اس بنا پر فقط ہم شیعہ نہیں ہے جو بارگاہ بناتے ہیں بلکہ دوسرے مسلمان بھی ہمارے ساتھ ساتھ اپنے اماموں اور پیشوا کی قبروں پر تعمیرات کرتے ہیں اور ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ۔
(۲)ہم شیعہ اور دیگر مسلمان جب حرم کے اندر یا اولیای خدا کے قبر کے نزدیک نماز پڑھتے ہیں تو در اصل وہ نماز خدا کے لئے ہوتی ہے نہ کہ اولیاء خدا کے لئے ، کیونکہ ان جگہ پر ہم نماز کے لئے رو بہ قبلہ نماز پرھتے ہیں ، اگر نماز اولیاء یا پیغمبر کے لئے ہوتی تو نماز کے حال میں ان کی قبر کا رخ کرنا چاہئے تھا ۔
فؤاد: پھر آپ لوگ ان قبروں کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز کیوں ادا کرتے ہیں اور ان قبروں کو اپنا قبلہ قرار دیتے ہیں ؟ جعفر: جس وقت ہم ان قبروں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو ہمارا قبلہ فقط وفقط کعبہ ہوتا ہے اور یہ قبریں طبیعی طور پر ہمارے سامنے پڑجاتی ہیں اور ہمارا قصد ان کو قبلہ قرار دینا ہر گز نہیں ہوتا ، ایسی حالت میں نماز گزار کی مثال اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ وہ رو بہ قبلہ کھڑا ہو اور اس کے سامنے ایک عمارت کھڑی ہو تو کیا اس نمازی کی نماز اس عمارت کے لئے مانی جائے گی ؟
اس سے بھی آگے چل کر علماء اسلام کا کہنا ہے کہ : نماز کا رو بہ قبلہ پڑھنا صحیح ہے حتی اگر مشرکین کے معبد (مندر) میں پڑھی جائے چاہے اس کے سامنے ایک بت ہی کیوں نہ رکھا ہو ، جو کہ خدا کی طرح پوجا جاتا ہے ، کیونکہ نماز گزار کی توجہ خدا کی طرف ہے نہ کہ اس بت کی طرف ۔ اس حال میں کیا نمازی کی نماز اس بت کے لئے مانی جائے گی !
فؤاد: اگر اس طرح ہے جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ قبروں پر تعمیرات کرنا شرک نہیں تو پھر علماء حجاز نے آپ کے اماموں کی قبروں پر بنی ضریح اور بارگاہوں کو ویران کردیا ۔
جعفر: تمام علماء حجاز نے اس کام کے لئے فتویٰ نہیں دیا بلکہ ان میں سے بعض نے فقط اس زمانہ میں اس کام کے لئے فتویٰ دیا ۔ ( مدینہ کے ایک بوڑھے نے مجھ سے نقل کیا) جس وقت ائمہ بقیع کے حرم اور بارگاہ کو ویران کرنے کا حکم دیا گیا حجاز کے چند علماء نے اس استدلال کے ساتھ کہ قبروں پر عمارت تعمیر کرنا شرک نہیں بلکہ شریعت اسلامی کی نظر میں ایک پسندیدہ اور مستحب کا م ہے ، کیونکہ خدا وند عالم فرماتا ہے ’’ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب".حج ۳۲۔وہ جس نے اللہ کی نشانیوں کا احترام کیا در اصل وہ اپنے دلوں کی پاکیزگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
قبروں پر تعمیرات کو شرک جاننے کے دعووں کو باطل قرار دیا اس عمل کا سبب یہ ہوا کہ ان علماء میں سے بعض کو اپنے مذہبوں سے ہاتھ دھوناپڑا اس بنا پر فقط چند علماء حجاز نے اس کام کے شرک ہونے پر فتویٰ دیا۔
فؤاد: میں خود اس فکر میں تھا کہ اگر ضریح اور گنبد کا بنانا شرک اور حرام ہے تو پھر مسلمان پیغمبر کے زمانہ سے آج تک اس مسئلہ کو کیوں نہ سمجھ سکے اور ان تعمیرات کو کیوں نہیں روکا ؟ کیا تیرہ صدیوں میں وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ کام حرام ہے ؟
جعفر: غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ خود پیغمبر اسلام(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ضریح اور تعمیر کے کام کو منع نہیں فرمایا ۔
(حجر اسماعیل ) جو کہ حضرت اسماعیل(ع) اور جناب ھاجرہ کی قبر کا مقام ہے اس دعوے کے لئے بہتریں ثبوت ہے حضرت ابراہیم (ع) اور جناب موسیٰ (ع) کی قبر یں بھی ان مقامات میں شامل ہیں جو پیغمبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانہ سے آج تک حرم اور بارگاہ رکھتے ہیں لیکن پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور خلفاء نے اس چیز میں کوئی قباحت نہیں دیکھی اور نہ ہی لوگوں کو وہاں زیارت کرنے سے روکا چنانچہ اگر اس کام کو حرام اور شرک ماننے والوں کا دعویٰ صحیح ہے تو بیشک پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ایک حکم سے ان تمام مقامات کو ویران کر سکتے تھے اور ان کی زیارت کو بھی منع کر سکتے تھے ، لیکن چونکہ پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ایسا نہیں کیا اس بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اماموں اور صالحین کی قبروں پر تعمیرات کرنا ان کی زیارت کرنا اور وہاں نماز پڑھنا جائز ہے
دوسری طرف جس وقت رسول خدا ؐ نے رحلت فرمائی تو آپ کو آپ ہی کے حجرہ مین دفن کیا گیا اور اس کا دروازہ بند کردیا گیا ، اور اس طرح آپ کی قبر ایک کمرے میں آگئی جس کے چاروں طرف دیوار تھی اور چھت بھی تھی اس بنء پر اگر آپ کے صحابیوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کام کے حرام یا ناجائز ہونے پر آنحضرت (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے کچھ سنا ہوتا تو بی شک وہ اعلان کرنا اور رسول کو وہاں دفن نہ ہونے دیتا یا اگر رسول وہاں دفن ہوگئے تھے تو اس حجرہ کو ویران کردیتا تا کہ وہ زبر پر تعمیرات کے حکم میں نہ آسکے لیکن چونکہ نہ ہی صحابہ آپ کے نزدیک رشتہ داروں نے ایسا کام کیا اور نہ ہی اس کو حرام جانا ، ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قبر پر تعمیرات کرنا شرک اور حرام نہیں ہے ۔
فؤاد: حقیقت سے آشنا کردنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ قبروں پر تعمیرات شرک نہیں اور وہ تمام کام جو اس زمینہ میں ( خراب و ویران کے سلسلہ میں )کئے گئے ہیں کوئی شرعی سند نہیں رکھتے ،آپ کا شکر گزار ہوں ۔
جعفر: میں بھی آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے حقیقت کو جان کر اس کو تہہ دل سے مانا اور صحیح راستہ دیکھنے پر اس کی طرف قدم بڑھایا اور عقل و منطق کی روشنی میہں صحیح کام انجام دیا ۔ اور اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ حقیقت اور دین سے اور زیادہ آشنا ہوں لہٰذا اگر آپ کے پاس وقت ہے تو آپ سے کچھ اور گفتگو کی جاسکے ۔
فؤاد: حق بات کا طلب گار ہوں اور تمام دل و جان سے تیار ہوں کہ آپ کی بات کو سنو جو بھی چاہیں بات کریں ؟
جعفر: ہماری بحث و گفتگو میں ثابت ہوا کہ اولیاء خدا کی قبروں پر تعمیرات کرنا جائز ہے اور کوئی حرمت نہیں رکھتی ؟
فؤاد: جی ہاں ، اور اس مسئلہ میں ، میں آپ کا ہم عقیدہ ہوں ۔
جعفر: اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اولیاء خداکی قبروں پر ضریع بنانا اور دوسری تعمیرات کرنا مستحب ہے اور جو بھی اس کام کو انجام دے گاوہ خدا سے اس کی جزاء خیر پائے گا ۔
فؤاد : کس طرح ؟
جعفر: خدا وند عالم ارشاد فرماتاہے ’’(
ومن یعظم شعائرالله فانهامن تقوی القلوب
)
".حج ۳۲ (اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی ۔
اس بنا پر ہر وہ چیز جو ’’شعار الٰھی ‘‘ہو اس کا احترام کرنا اسلام کی نظر مستحب ہے ۔
فؤاد: صحیح ، لیکن اولیاء خدا کی قبروں پر تعمیر کس طرح سے ’’شعار الھی ‘‘ہوسکتی ہے ؟
جعفر: ’’شعار‘‘اس چیز کو کہا جاتا ہے جو ’’دین ‘‘کو دنیا کی نظر میںبڑا اور عظیم دیکھائے اور اس کی حرمت پر کوئی (نص) دلیل موجود نہ ہو ۔
فؤاد: کیا ان عمارتوں اور گنبدوں سے دین کو عظمت حاصل ہوتی ہے ؟
جعفر:ہاں
فؤاد: وہ کس طرح ؟
جعفر: اس با ت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ بزرگان اسلام کی قبروں پر عمارت بنانا اور اسی طرح ان عمارتوں کو خراب اور ویران کونے سے روکنا ، ان بزرگو ں کا احترام کانا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی قبر کے پاس ایک پیڑ لگادے تو کیا اس کا یہ کام ان قبر کا احترام کرنا نہیں مانا جائے گا ؟
فؤاد: بالکل اسی طرح ہے ۔
جعفر: اب اگر کوئی کسی قبر پر عظیم عمارت بنائے اور اس پر قبہ وغیرہ بنائے تو یہ کام اس صاحب قبر کا احترام کرنا ہے تو پھر دین کے بزرگوں کی قبروں کا احترام اصل میں اسلام کا احترام اور اس کی عظمت کو دیکھنا ہے ،کہ یہ بزرگان اس دین کی طرف دعوت دیتے تھے ، اور لوگوں کی اسی دین کی طرف راہنمائی کرتے تھے اگر کوئی شخص کسی پارٹی کے صدر یا کسی ...........کا احترام کرتا ہے تو کیا یہ احترام اس بڑی یا ....کا احترام نہیں مانا جائے گا ؟
فؤاد : بالکل ایس ہی ہے۔
جعفر :اسی بنا پر ،اولیاء خدا کی قبروں پر عمارت بنانا اور اس کا احترام کرنا ، خدا کا اکرام اور اسلام کا حترام کرنا ہے ۔ اور اسی طرح ہر وہ چیز جو جس کے ذریعہ خدا کی عظمت آشکار ہو اور اسلام کی سر بلندی کا باعث بنے وہ شعار (نشانی) ہے کہ جس کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ :(
ومن یعظم شعائرالله فانهامن تقوی القلوب
)
.حج۳۲ (اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی)
فؤاد: اس صورت میں تو ان قبروں کا ویران کرنا اور عمارتوں کو نقصان پہچانا دین کی ہے حرمتی ہے اور اسلام کی منزلت کو گٹھنا ہے ، کیونکہ اس کام سے ہماری بزرگوں کی ہے حرمتی ہے ،اور ان کی ہے حرمتی اسلام کی توہین ہے اور ان کی منزلت کو گٹھانا خود اسلام کی منزلت کو کم کرنا ہے ۔
جعفر: اسی وجہ سے میں نے مذہب اہل بیت (ع) کو چنا اور شیعہ ہوگیا ۔ اور اپنا نام ’’ولید ‘‘سے (جعفر) تبدیل کرلیا ۔ جس وقت دوسروں کی رائے پر عمل کرتا تھا خود کو حق پر سمجھتا تھا ، لیکن جس وقت ’’حق‘‘کا خواہاں ہوا اور اس کی تلاش میں لگا تو اسی کو حقیقت پایا ۔اگر انسان مذہبی تعصب کو کنارے رکھ دے اور کشادہ روی کے ساتھ حق کو مانے تو یقینی طور پر اسے حاصل کرلے گا ۔
فؤاد : آج کے بعد میں حقیقت کی تلاش میں لگا رہوں گا اور جس جگہ بھی جس کسی کے پاس اس کو پاؤنگا اس کی پیروی کرونگا ۔اور آپ کا ہمیشہ شکر گزار رہوں گا کہ آپ نے مجھے حقیقت سے آگاہ کیا ۔ اگر اجازت ہو تو میں جانا چاہوں گا۔ کہ کسی سے ملنے کا وعدہ ہے ۔
جعفر: بالکل تشریف لے جائیے،خدا حافظ
فؤاد: خدا حافظ ۔