اولیاء خدا سے توسل
وہ ایک درد بھری آہ بھر رہا تھا کہ وائے ہو ان مشرکین و کفار پر کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔
محمدنے اس سے سوال کیا کس کو کہہ رہے ہو
کمال: شیعوں کو کہہ رہا ہوں ،
محمد: ان کو گالی نہ دو اور نہ مشرک کہو کیونکہ وہ مسلمان ہیں
کمال: ان کو مارنا کافر کو مارنے بہتر ہے
محمد: اتنا جوش کس وجہ سے ہے اور کس دلیل سے ان کو مشرک کہہ رہے ہو ۔
کمال: خدا کے ساتھ ساتھ دوسرے خداؤں کو منتخب کر چکے ہیں اور خدا کی جگہ پر ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔
محمد: یہ بات کس طرح ممکن ہے ۔
کمال: وہ لوگ پیغمبروں اماموں اور اولیاء خدا سے توسل کرتے ہیں اور ان عبارتوں کے ساتھ ( کہ یا رسول اللہ یا علی ،یا حسین (ع) یا صاحب الزمان (ع) وغیرہ) ان سے چاہتے ہیں کہ اپنی حاجتوں کو حاصل کریں ، شیعہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگ اولیاء خدا ہیں اور یہ طاقت رکھتے ہیں کہ ان کی حاجتوں کو پورا کرسکتے ہیں ، آپ کی نظر میں یہ کام کھلا ہوا شرک نہیں ہے اور غیر خدا کی پرستش نہیں ہے ۔
محمد: اگر اجازت ہو تو ایک چھوٹی سی بات عرض کروں ۔
کمال: بولیئے
محمد: میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو شیعں کو گالیاں دیتا تھا اور ان پر بے جا الزامات لگا تا تھا ، جب بھی موقع ملتا تھا ان کو گالیاں دیتا تھا اور اپنا غصہ دکھاتا تھا ، کہ آخر کار ایک دفعہ حج کے سفر میں ایک شیعہ سے ملاقت ہوئی اور چونکہ میں شیعوں سے بد ظن تھا میں نے اپنی تمام نا گواری جتانے کے لئے سالوں سال کا غصہ ( جو ان سے تھا ) اپنی زبان پر لے آیا لیکن وہ (شیعہ ) خاموشی کے ساتھ ان تمام باتوں کو سنتا رہا اور صبر و تحمل سے کام لیتا رہا میری ان تمام باتوں کے جواب میں وہ صرف ہنستا تھا اور میں ہر چند اس کو گالی دیتا تھا تو وہ مسکرا کر میری طرف دیکھتا تھا یہاں تک کہ میرا غصہ اس کی محبت اور اخلاق کی وجہ سے ٹھنڈا پڑ گیا جب میں چپ ہوگیا تو اس نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا اے میرے بھائی محمد اگر اجازت ہو تو آپ سے کچھ باتیں کروں اس کے اور ہمارے درمیان مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں ان میں سے ایک موضوع کہ جس کی وجہ سے میں اس کی باتوں کو مان گیا یہی وہ موضوع (توسل بہ اولیا) تھا ۔
کمال: گویا آپ کے اور بھی ان کی شرک اور فریب کا اثر ہوگیا ہے دین اسلام سے تمہاری پہچان بہت کم ہے ۔
محمد : میں قرآن سنت اور صالحین کی سیرت پر اولیاء خدا سے توسل کے بارے میں تم سے بحث کرنے کو تیار ہوں ۔
کمال: خدا وند عالم تمام مخلوقات سے بر تر ہے اور اپنی مخلوق کے لئے سب سے زیادہ مہربان ہے اس کے اور مخلوق کے درماین کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے اور بغیر واسطہ کے بندہ جب اور جہاں چاہے اپنے خدا سے رابطہ بر قرار کرسکتا ہے اور اس سے توسل کرسکتا ہے اور غیر خدا سے توسل اگر چہ وہ پیغمبر امام فرشتے یا صالح بندے ہوں جائز نہیں ہے اگر چہ خداوند عالم کے نزدیک وہ ایک بلند ترین مقام رکھتے ہیں ۔
محمد: ان سے توسل کرنا کیوں جائز نہیں ہے ۔
کمال: انسان مرنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور اس طرح کے اس سے کوئی بھی کسی طرح کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا تو پھر آپ ایک ایسی چیز سے جو نابود ہوچکی ہے توسل کررہے ہیں ۔
محمد: کس دلیل سے آپ کہتے ہیںکہ مرنا نابود ہونا ہے اور کون یہ کہتا ہے ۔
کمال: امام محمد بن وہاب کہتے ہیں ( دنیا سے گذرجانے والے صالحین سے متوسل ہونا اصل میں ایک نابود چیز کی طرف ہاتھ بڑھانا ہے اور یہ کام عقل کی نظر میں ناپسند ہے اسی طرح انہی کہ ایک مرشد نے نقل کیا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کی موجودگی میں کہا گیا اور وہ اس سے راضی تھے کہ کہنے والے نے کہا کہ میرا یہ عصا محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بہتر ہے ( العیاذ باللہ ) اور فایدہ مند ہے کیونکہ اس عصا سے میں سانپ بچھو کو مارنے میں مدد لے سکتا ہوں جب کہ محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) مرچکے ہیں اور ان سے کوئی فایدہ حاصل نہیں ہوسکتا
اس وجہ سے جو بات پہلے کہی گئی کہ مردوں سے توسل کرنا بے فائدہ ہے اگر چہ وہ مرد رسول اعظم(ص) جیسا پیغمبرہی کیوں نہ ہو ۔
محمد: بات اس کے برعکس ہے کیونکہ انسان کے مرنے کے بعد وہ چیزیں اس کے لئے اشکار ہوجاتی ہیں جو اس کے لئے مخفی تھیں خداوند عالم اس بارے میں فرماتا ہے:(
فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید
)
سورہ ق ،آیۃ۲۲ تو ہم نے تمہارے پردوں کو اٹھا دیا اور اب تمھاری نگاہیں بہت تیز ہوگئی ہے۔
(
ولا تقوا الامن یقتلوا فی سبیل الله اموات بل احیاء ولا کن لا تشعرون
)
۔
وہ لوگ جو راہ خدا میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے: اور کہتا ہے "ولا تحسبن الذین قتلو افی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون" ہر گز ہرگز ان کو مردہ نہ سمجھنا کہ جو راہ خدا میں قتل کردئے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں آیا ہے کہ پیغمبر (ص) قلیب بدر ( وہ جگہ جہاں پر مشرکین کہ کشتوں کو ڈالا گیا تھا ) کے کنارے آئے اور مشرکین کہ کشتوں کو مخاطب کر کے فرمایا ’’خدا نے جو مجھ سے وعدہ کیا تھا اس کو میں نے حق پر پایا کیا تم لوگ اپنے خدا کے وعدوں کو پاسکے ؟ رسول اللہ (ص) سے کہا گیا مردوں سے جواب طلب کررہے ہیں ،
پیغمبر (ص) نے فرمایا ،تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو
اور غزالی ( مذہب شافعی کا ایک بزرگ ) نے بھی کہا ہے کہ کچھ لوگ موت کو نابود ی سمجھتے ہیں یہ عقیدہ ملحدوں ( اور کافروں ) کا ہے(
غزالی نے یہ بات احیاء العلوم
میں لکھی ہے اور تم اس کتاب میں اس چیز کو دیکھ سکتے ہو ۔
کمال : غزالی کی یہ بات عجیب و غریب ہے ۔
محمد: غزالی کی بات عجیب و غریب نہیں ہے بلکہ تمہاری نادانی تعجب کی بات ہے کیا پیغمبر (ص) کا بدر کے کشتوں سے خطاب تم نے نہیں سنا اگر مرد ے ختم ہوچکے ہوتے تو پھر نہ وہ سمجھ رکھتے ہیں اور نہ ہی سننے کی طاقت اور پیغمبر (ص) کہ رہے ہیں کہ تم ان سے بہتر نہیں سن سکتے ،
جو کچھ پیغمبر (ص) نے کہا اس بناء پر وہ ہماری طرح سنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی اب تو آپ میری بات مانیں گے ۔
کمال: جی ہاں ، لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے سالوں میں میں نے ان آیتوں کی تفسیر اور مطلب پر غور کیوں نہین کیا ، کہ ان کا مقصد سمجھ سکتا اور کس طرح میں نے ایک بار بھی پیغمبر (ص) کی اس حدیث اور امام غزالی کے قول کو نہیں سنا ۔
محمد : اب تو آپ یہ مان لیں گے کہ شیعوں کمی انسان کے مرنے کے بعد نابود نہ ہونے کا دعویٰ ایک منصفانہ بات ہے اور واقعی ایک حقیقت ہے یا ابھی بھی آپ شک و تردید میں مبتلا ہیں ۔
کمال: نہیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ایک دوسری چیز ہے جو مجھے پریشان کررہی ہے ۔
محمد: کیا چیز آپ کو پریشان کرہی ہے
کمال: یہی کہ غزالی اس عقیدے پر تھے اور اس کے خلاف کو وہ کافراور ملحد سمجھتے تھے اور رسول اللہ نے مردوں کے زندہ ہونے کی تائید کی ہے لیکن محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد نابود ہوجاتا ہے اور دوسری طرف محمد بن عبد الوہاب کمال جسارت میں کہتا ہے کہ میرے ہاتھ کی لکڑی پیغمبر سے بہتر ہے کیونکہ یہ فائدہ پہچاتی ہے ۔
اور پیغمبر (ص)کوئی فائدہ نہیں پہچاسکتے
یہی مسئلہ میرے لئے پریشان کھڑی کررہا ہے ۔
محمد: نہیں تم کو حیران اور متعجب نہیں ہونا چاہیئے بلکہ لوگوں کو قرآن و سنت اور صالحین کی سیرت کے ترازو پر تولنا چاہیئے اگر ان کا کردار و گفتار قرآن سنت اور صالحین کی سیرت سے مطابقت رکھتا ہو تو اس کو مؤمن مانیں ، اور ہرگز دین کو لوگوں سے نہ سمجھو اگر ایک انسان کو مؤمن اور مخلص ہم نے سمجھا تو اس کی ہر بات اگر چہ وہ قرآن وسنت اور سیرت کے خلاف ہو اور کفر کا ریشہ رکھتی ہو عین اسلام سمجھ لیں نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ جب بھی کسی میں کوئی انحراف دیکھیں تو اس سے بچیں اور حقیقت کی پیروی کریں ۔
کمال: صحیح بات ہے ابھی تک میں اس شخص ( محمد بن عبد الوہاب ) سے بے حد عقیدت رکھتا تھا لیکن اب جب کہ آپ نے اس کی بہت بڑی غلطی جو کہ دین میں کفر و الحاد میں گنی جاتی ہے سے آگاہ کیا میرا عقیدہ اٹھ چکا ہے اور آج کے بعد میں اس سے اس لائق نہیں سمجھوں گا کہ دین کے مسئلہ میں اس کی پیروی کروں ۔
محمد: اس کی باتوں کو چھوڑو ہم اپنی باتوں کو آگے بڑھاتے ہیں ۔
کمال: ٹھیک ہے میں مانتا ہوں کہ انسان مرنے کے بعد ختم نہیں ہوتا لیکن اس فکر کے ساتھ کہ جو کہتا ہے کہ ( خلق خدا سے توسل کرنا شرک ہے اور دین سے جدائی ہے ) کس طرح ہم پیغمبر (ص) امام اور کسی صالح سے متوسل ہوسکتے ہیں ۔
محمد: کسی زندہ سے کچھ مانگنا یا کسی چیز کی درخواست کرنا یا دعا کرنے کے لئے کہنا یا یہ کہنا کہ اے باقر ، اے جعفر ، اے رضا مجھے کچھ مال دیدو یا خدا سے میرے لئے مغفرت کی دعا کرو یا میرا ہوتھ پکر کر مسجد کی طرح لے چلو ( شرع کی نظر ) میں جائز ہے ؟
کمال: البتہ جائزہے ۔
محمد: جب کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مردہ زندہ انسان کی طرحٍسنتا ہے تو اس سے کسی چیز کی طرح درخواست کرنے میں کیا پریشانی ہے ۔
کمال: (کچھ دیر سونچنے کے بعد ) صحیح کہہ رہے ہو بالکل ویسے ہی ہے جیسے کہہ رہے ہو ۔
محمد: ایک دوسری دلیل بھی ہے جو پیغمبر اور دوسرے صالحین سے توسل کرنے کو جائز قرار دیتی ہے ۔
کمال : کیا دلیل ہے
محمد : صحابہ
نے پیغمبر (ص) کے زمانے میں اور ان کی وفات کے بعد ان سے توسل کیاہے پیغمبر (ص) نے اپنی زندگی میں اور ان کے بعد ان کے کسی ساتھی یا اصحاب نے اس کام کو کرنے سے نہیں روکا اور اگر غیر خدا سے توسل کرنا شرک ہوتا تو یہ اشخاص اس کام کو یقینا روکتے ۔
کمال: رسول اللہ کی وفات کے بود کون ان سے متوسل ہوا ۔
محمد: مثال کے طور پر میں چند نمونہ عرض کرتا ہوں ۔ بہیقی، اور ابن ابی شیبہ
نے اسناد کے ساتھ روایت کی ہے ، اور احمد بن زینی و حلان سے بھی روایت ہوئی ہے کہ ( خلافت عمر کے زمانہ میں لوگ قحط کا شکار ہوئے بلال بن حرث رسول کی قبر کے پاس گئے اور کہا اے رسول خدا (ص) امت کے لئے بارش طلب کریں کہ بھوک اور خشک سالی سے وہ مرنے والے ہیں
ہم یہ جانتے ہیں کہ بلال ایک مدت دراز تک رسول کے ہمنشین اور ساتھی تھے اور آپ کے صحابی تھے اور احکامات کو بلا واسطہ رسول سے حاصل کرتے تھے اگر رسول سے متوسل ہونا شرک ہوتا تو بلال ایسا کام نہیں کرتے ، یا اگر انہوں نے ایسا کیا بھی تو دوسرے اصحاب کو انہیں روکنا چاہییے تھا یہی بات ایک بہت مضبوط دلیل ہے کہ تسول سے متوسل ہوا جا سکتا ہے پھر بہیقی نے عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا کہ جب آدم (ع) سے خطا سر زد ہوئی تو انھوں نے فرمایایا رب اسئلک بحق محمد صلی الله و اله الا ما غفرت لی ،یا الله
تجھ سے چاہتا ہوں کہ محمد (ص) کے واسطہ میرے گنا کو بخش دے
اس وجہ سے اگر رسول اکرم (ص) سے حرام یا شرک ہوتا تو حضرت آدم (ع) ہرگز ایسا کام نہیں کرتے ۔ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ جب منصور دوانیقی حج کے لئے روانہ ہوا تو قبر پیغمبر(ص) کی زیارت کے لئے بھی گیا وہاں اس نے مالک جو مالکیوں کا امام تھا ( یعنی مالک بن ادنس مالک بن غسیما ن بن خثیل بن عمرو ) سے کہا ادے ابو عبداللہ رو بہ قبلہ کھڑا ہو کر اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہو کر دعا کروں یا پیغمبر (ص) کی قبر کی طرف رخ کروں ۔ مالک نے جواب دیا ، آخر پیغمبر (ص) کہ جو تمہارے اور تمہارے باپ آدم (ع) کے بارگاہ خدا میں وسیلہ بنے،ان سےکیوں منھ پھیررہے ہو، ان کی طرف رخ کرو اور ان کو اپنا شفیع قرار دو کہ بیشک خدا وند ان کی شفاعت کو تمہارے لئے قبول کریگا کہ خدا نے فرمایا ہے:"(
ولو انهم اذ ظلموا انفسهم جاءوک فاستغفروا و الله و استغفر لهم الرسول لوجدنوا الله تواباً رحیمً
)
(نساء ۶۴)
ترجمہ:جب ان لوگوں نے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا او ر مہربان پاتے
یہ عبارت کہ ( وہ تمہارے اور تمہارے باپ آدم (ع) کا بارگاہ خدا سند میں وسیلہ ہیں )
ایک محکم اور مضبوط دلیل ہے کہ رسول سے توسل کرنا جائز بلکہ مستحب ہے ۔
دار می نے اپنی صحیح میں ابو الجوزاء سے نقل کیاہے کہ ( مدینہ کے لوگ قحط سے دوچار ہوئے لہٰذا اپنی مصیبت کی شکایت عائشہ سے کی تو عائشہ نے کہا پیغمبر (ص) کی طرف نظر کرو اور اس کو اپنا وسیلہ قرار دو اس طرح سے کہ کوئی بھی چیز تمہارے اور آسمان کے درمیان حائل ہو ( یعنی خداوند کریم کی بارگاہ میں ان کو اپنا شفیع قرار دو ) ان لوگوں نے یہ کام انجام دیا جس کے نتیجہ میں آسمان پر بادل چھا گئے اور بارش کے بعد سبزہ اگ آیا ، اور اونٹ موٹے ہوگئے وہ سال ( موٹا پہ کا سال کے نام سے ) مشہور ہوگیا
ایسے سینکڑوں قصے روایت کی کتابوں میں موجود ہیں کہ جو سب کے سب رسول سے ان کی وفات کے بعد توسل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور جب کہ یہ ثابت ہوچکا کہ رسول سے توسل کرنا جائز ہے ، حرام اور شرک نہیں تو پھر اماموں فرشتوں اور صالحین سے توسل کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اگر یہ کام شرک ہے تو پھر پیغمبر (ص) کے لئے بھی منع ہونا چاہیئے اور اگر جائز ہے تو پھر صرف پیغمبر (ص) سے توسل کرنا صحیح نہیں بلکہ تمام صالحین سے توسل کرنا جائز ہوگا ۔ کمال: تعجب کی بات ہے ! جن روایتوں کی طرف آپ نے اشارہ کیا میں نے آج تک حتی ایک بار بھی نہ انھیں دیکھا تھا اور نہ ہی سنا تھا ۔
محمد : اگر آپ حدیثوں کی کتاب کی طرف رجوع کریں تو ایسی سینکڑوں مثالیں جو کہ رسول سے توسل کو جائز قرار دیتی ہیں کو آپ دیکھ سکتے ہیں جو کچھ میں نے بیان کیا وہ دریا کے مقابلہ میں ایک قطرہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپ کا حدیث اور صالحین کی سیرت کے سلسلہ میں مطالعہ کم ہے ۔
کمال: میں مصروفیت کی وجہ سے اس کام کو انجام نہیں دے سکتا جبکہ میں بہت زیادہ حدیث اور سیرت کی کتابوں کے مطالعہ کا مشتاق ہوں ۔
محمد: اب جب کہ آپ کا حدیث کے سلسلہ میں مطالعہ بہت کم ہے تو کیا یہ صحیح ہے کہ آپ محمد بن عبد الوہاب کے کہنے پر شیعوں ور دوسرے مسلمانوں کو گالیاں دیں اور انہیں مشرک قرار دیں ؟ یہ کام صحیح نہیں ہے اگر اجازت دیں تو آپ کو ایک بات بتاؤں ۔
کمال : ( اس حال میں کہ ہنس رہاتھا ) جو جی میں آئے کہیں ہم دو دوست ہیں اور اسی دلیل سے اس موضوع کو بیان کیا تاکہ تمہاری معلومات سے استعفادہ کرسکوں ۔
محمد : تم بالکل قریش کے کافروں کی طرح ہو کہ اپنے باپ دادا کی بت پرستی کو بہانہ بنا کر کہتے تھے
(
ان وجدنا اباء نا علی امة و انا علی آثار هم مقتدرون
)
۔(سورہ زخرف،ایۃ ۲۳)
ترجمہ:ہم نے اپنے باب دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم انہیں کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں
اور اپنی بت پرستی پر اڑے رہتے تھے جانتے ہو خدا نے ان کی مذمت کیوں کی ؟ اس لئے کہ انھوں نے پیغمبر (ص) کے کہے کو نہیں مانا تا کہ اپنے راستے کو صحیح کرلیں اور یا اس لئے کہ ان کی بات کو سننے کے بعد بھی بت پرستی پر اڑے رہے میں تم سے چاہتا ہوں کہ آنکھ بند کرکے اپنے اجداد کی پیروی نہ کرو بلکہ فکر کا استعمال کرو اور حق کو ڈھونڈ و اور اپنی زندگی کو اس کے اوپر گذار و ، حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ایک چھوٹا سا گروہ توسل تو شرک مانتا ہے اور باقی تمام اسلامی فرقے اس کو جائز مانتے ہیں کیا یہ بات تسلیم کروگے ۔
کمال: جی ہاں ، ظاہرا اس مسئلہ میں حق شیعوں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہے میں نے جو شیعوں کو گالیاں دیں اس کا کیا کروں ۔
محمد : خدا کی بارگاہ میں تو بہ کرو ہمیشہ حق کی جستجو کرو اور اسی کو مانو تا کہ خدا تمہیں معاف کر دے جو کچھ بھی شیعوں کے عقاید کے بارے میں سنو اس کی تحقیق کرو اور ان کی دلیلوں سے مطمئن ہو سکو اور تعصب سے دوری اختیار کرو کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ بے جا ہر تعصب اپنے لئے آگ رکھتا ہے ۔
کمال: ایسا ہی کروں گا اور مجھ پر حقیقت کو روشنی کرنے کے لئے آپ کا شکر گذار ہوں ۔