شیعہ اوراتہامات

شیعہ اوراتہامات 0%

شیعہ اوراتہامات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

شیعہ اوراتہامات

مؤلف: صادق حسینی الشیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 6284
ڈاؤنلوڈ: 3920

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6284 / ڈاؤنلوڈ: 3920
سائز سائز سائز
شیعہ اوراتہامات

شیعہ اوراتہامات

مؤلف:
اردو

قبروں کی زیارت

جمال: تم شیعہ حضرات اپنے لئے یہ کیا جنجال درست کرتے ہو ۔

جواد: کون سا جنجال ۔

جمال: یہی کہ رسول امام اور صالحین کی قبروں کو جاتے ہو ۔

جواد: اس کام میں کوئی پریشانی دکھتی ہے۔

جمال: یہ کام حرام ہے اور خدا کا شریک قرار دینا ہے ۔

جواد : تعجب کی بات ہے میں نہیں سمجھتا تھا کہ آپ بھی نادان اور کم آگاہ لوگوں کی طرح گفتگو کریں گے ،میں نہیں سمجھتا تھا کہ آپ کے جیس انسان بغیر کسی دلیل و برہان کے ایک تعصب سے بھری ہوئی بات کہے بہت پہلے سے میں آپ کی حقیقت جوئی کا احترا م کرتا تھا ۔

جمال: آپ کی نظر میں میری یہ بات تعصب سے بھری ہوئی ہے ۔

جواد : با لکل اس کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں ،

جمال: آپ اس نتیجہ تک کیسے پہنچے ۔

جواد : اپنے دعویٰ کو روشن کرنے کے لئے ہم قبروں کی زیارت کے موضوع پر بحث کریں گے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ حق پر کون ہے اور کون گمراہ ہے اور تعصب کی آگ میں جل رہا ہے۔

جمال: میں تیار ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ قبروں کی زیارت شرک ہے ۔

جواد: کس طرح اس کو شرک سمجھتے ہو ۔

جمال: اس طرح کہ یہ کام مشرکوں کی بت پرستی سے مشابہ ہے ۔

جواد: کیا اسی نقطہ سے اس کو شرک سمجھتے ہو

جمال: ہاں کیوں کہ جس طرح مشرکین کے گرد جمع ہوئے تھے یہ لوگ بھی قبروں کے گرد جمع ہوئے تھے ۔

جواد: یعنی قبروں کے گرد جمع ہونا ہی قبور کی زیارت کو شرک قرار دیتا ہے ۔

جمال: جی ہاں ۔

جواد: تو پھر تمام مسلمان مشرک ہیں اور تم بھی مشرک ہو

جمال: کیوں بھائی ، کس طرح ۔

جواد : حج پر گئے ہو۔

جمال : ہاں اللہ کا کرم ہے ۔

جواد : مسجد الحرام میں نماز بھی پڑھی ہوگی ۔

جمال: ہاں پڑھی ہے ۔

جواد: تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ نماز پڑھنے کی حالت میں لوگ کعبہ کی طرف رخ کر رہے ہونگے ، لیکن کچھ لوگ مغرب کی طرف کھڑے ہونگے تو کچھ لوگ شمال و جنوب کی طرف اور کچھ لوگ مشرق کی طرف ، ۔

جواد : اسی دلیل سے تمام مسلمان مشرک ہیں اور تم بھی مشرک ہو ۔

جمال: کیوں ۔

جواد : کیوںکہ عبادت کرتے وقت کعبہ کی طرف رخ کرنا بالکل اسی طرح ہے جس طرح بت پرست بتوں کی طرف رخ کرتے تھے فرق اتنا ہے کہ وہ لوگ عبادت کرتے وقت بتوں کی طرف رخ کرتے تھے اور تم ایک پھتر کی طرف رخ کرتے ہو ۔

جمال: کعبہ کی طرف رخ کرتے اور بتو کی طرف رخ کرنے میں ایک بہت بڑا فرق ہے ۔

جواد: کیا فرق ہے ۔

جمال : ہم اور دوسرے مسلمان جب حالت نماز میں کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کعبہ کی پرشتس کرتے ہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ایسا کرتے ہیں لیکن بت پرست بتوں کو خدا مانتے تھے ،اور ان کی پرشتس کرتے تھے اور عبادت کی حالت میں ان کی طرف رخ کرتے تھے ، اس وجہ سے جب وہ عبات کے وقت بتوں کی طرف رخ کرتے تھے تو اپنے تمام وجوہ کے ساتھ اللہ سے لو لگاتے ہیں وہ اپنے کام کی وجہ سے ایک کھلے ہوئے شرک میں مبتلا تھے اور ان کا کام شرک تھا لیکن یہ کہ ہم جب کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں اور اللہ کے حکم کو بجالاتے ہیں تو ہم مشرک کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ہمارے اور ان کی عبادت کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے ۔

جواد: اس لحاظ سے عمل کا مشابہ ہونا مشرک ہونے کی دلیل نہیں ہے کیوںکہ اگر شباہت شرک کی دلیل ہوتی تو پھر تمہارا کام بھی بت پرست کی طرح شرک ہوتا ،لیکن جو چیز بت پرستوں کے کام کو شرک اور تمہاے کام کو عبادت بتاتی ہے وہ ان کی نیت ہے نہ کہ عمل ، اور اسی وجہ سے تمہارا کعبہ کی طرف سجدہ کرنا ایک عمل شرک نہیں ہے کیونکہ تمہاری نیت کعبہ کی پرستش نہیں ہے

جمال: بالکل یہی بات ہے

جواد: ہم شیعہ اور دوسرے مسلمان جب مرقد پیغمبر (ص) امام یا صالحین کی زیارت کرتے ہیں تو ہماری نیت ان کی پرستش نہیں ہوتی اور اگر آپ ہمارے اور مشرکین کے عمل کو مشابہ قرار دیں تو فقط یہ شباھت دیکھنے کی ہے جب کہ ہماری نیت ان کی پرستش کی نہیں ہے ، اور جب ہم یہ مان لیں کہ کسی عمل کی شباہت کہ جس کے اندر غیر خدا کے پرستش کی نیت نہ ہو تو پھر زیارت نہ تو حرام ور نہ ہی شرک جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ نیت کے حساب سے جزا و سزا دی جائیگی(۲۵) ( اس رخ سے اگر ایک عمل غیر خدا کی پرستش کے لئے انجام نہ دیا جائے اور ایسی کوئی نیت ہمارے اندر نہ ہو تو وہ عمل جائز ہے مثال کے طور پر اگر آپ ایک ایسی جگہ نماز پڑھ رہے ہیں جہاں آپ کے سامنے ایک بت رکھا ہو تو اگر آپ کی نیت اس بت کی پرستش ہو تو آپ کی نماز باطل ہے اور آپ مشرک ہیں لیکن نماز اللہ کے لئے پڑھی جارہی ہے اور آپ کی نیت میں اس بت کے لئے کوئی جگہ نہ ہو تو آپ کی نماز صحیح ہے اور اس کام سے آپ مشرک نہیں ہونگے ۔ جمال: ( بہت دیر فکر کرنے کے بعد ) جو کچھ آپ نے فرمایا وہ بالکل صحیح ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کع جزا دے کہ آپ نے ایک اہم مسئلہ کو میرے لئے روشن کردیا جب کہ میں تعصب کی وجہ سے اس سے غافل تھا اب آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں

جواد : پوچھئے ۔

جمال: اب تک کی گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ قبروں کی زیارت حرام نہیں ہے بلکہ جائز ہے لیکن یہ کیا راز ہے کہ آپ شیعہ حضرات اس کام کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس کی دلیل کیا ہے ۔

جواد : کیوںکہ یہ کام مستحب موکد ( وہ مستحب جس کی زیادہ تاکید کی گئی ہو ) ہے ۔

جمال: کیا یہ کام مستحب ہے ؟

جواد: جی ہاں اور اس کام کے مستحب ہونے پر بہت تاکید کی گئی ہے ۔

جمال: کیا ایسی کوئی حدیث موجود ہے کہ جو پیغمبر (ص) اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے مستحب ہونے پر دلالت کرتی ہو

جواد : جی ہاں بہت زیادہ اور اس کے علاوہ پیغمبر (ص) اور اسلام کے اوائل سے آج تک مسلمانوں کی سیرت اس کام کے مستحب ہونے پر تاکید کرتی ہے ۔

جمال : مہر بانی کرکے ان میں سے کچھ کو بیان کیجیئے ۔

جواد : ۱ ۔روایت میں آیا ہے پیغمبر اسلام (ص) شہدا ء احد کی قبروں کی زیارت کے لئے گئے(۲۶)

۲ ۔یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ پیغمبر بقیع کی قبروں کی زیارت کے لئے گئے۔

۳ ۔سنن النسائی اور سنن ابن ماجہ اور احیاء العلوم میں ابوہریرہ نے پیغمبر (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا ۔زورو القبور فانھا تذکر کم علیٰ آخرۃ ۔قبروں کی زیارت کے لئے جاؤ کیونکہ یہ آخرت کو یاد دلاتی ہیں ۔(۲۷)

۴ ۔ابو ہریرہ سے یہ بھی روایت ہے کہ پیغمبر (ص) اپنی ماں آمنہ بنت وہب کی قبر کی زیارت کے لئے گئے اس قبر کے کنارے کھڑے ہوکر روئے اور حضرت کے چاروں طرف کھڑے لوگ بھی روئے پھر آپ نے فرمایا فزورو القبور فانھا تذکرکم با لآخرۃ ، قبروں کی زیارت کے لئے جاؤ کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں(۲۸)

۵ ۔ بہت سی حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ اہل قبور کی زیارت کس طرح کی جائے کہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی زائر بقیع جائے تو کہے ،السلام علیکم اهل الدیار من المؤمنین والمسلمین ...........سلام ہو آپ پر اے مومنو اور مسلمانو ں جو اس دیار میں رہتے ہیں(۲۹) .

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا وہ صالحین اور مؤمنین کی اس قبروں کی زیارت کے مستحب ہونے کے بارے میں تھا ۔

اور بہت سی روایتوں میں خود پیغمبر (ص) کی قبر کی زیارت کے بارے میں اشارہ ہوا ہے کہ ان میں سے کچھ کو میں بیان کرتا ہوں ۔

( ۱) دار قطنی ، غزالی اور بہیقی نے روایت کی ہے کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا ۔من زارنی وجبت لہ شفا عتی ،جس نے میری زیارت کی میری شفاعت اس کے لئے واجب ہے(۳۰)

( ۲) پیغمبر (ص) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:"...من زارنی با لمدینۃ محتسبا کنت لہ شفیعا و شھید ا یوم القیامۃ" ۔ جس کسی نے بھی خدا کے لئے مدینہ میں میری زیارت کی قیامت کے دن میں اس کا شفیع اور گواہ بنوں گا(۳۱)

( ۳) نافع نے عمر سے نقل کیاہے کہ پیغمبر (ص) نے نقل فرمایا:".من حج ولم یزرنی فقد جفانی "

.جو کوئی بھی حج کرے اور میری زیارت نہ کرے اس نے مجھ پر ظلم کیا (۳۲ )

( ۴) ابو ہریرہ نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:"..من زارنی بعد موتی نکانما زارنی حیا "

.جس نے میرے مرنے کے بعد میری زیارت کی وہ اسی طرح ہے کہ جس نے میری زندگی میں زیارت کی ۔(۳۳)

( ۵)من حج و قصد نی فی مسجدی کانت له حجتا ن مبرورتان ۔۔۔۔جس نے حج کیا اور میری مسجد میں میری زیارت کے لئے آیا اس کے لئے دو حج مقبول لکھے جائیگے(۳۴)

اور بہت سی روایتین موجود ہیں جو کافی شدت سے اس عمل کی تاکید کرتی ہیں کہ رسول خدا(ص) اور دوسرے مومنین کی قبروں کی زیارت کی جائے ۔کیا رسول (ص)کا یہ کہنا کہ جو حج کرے اور میری زیارت نہ کرے اس نے مجھ پر ظلم کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ(ص) کی زیارت کرنا مستحب ہے اور یہ عبارت کہ" مجھ پر اس کی شفاعت واجب ہے" اس بات کی دلیل نہیں کہ پیغمبر (ص) کی زیارت کرنا مستحب موکد ہے اور وہاں جہاں پر آپ نے فرمایا کہ قبروں کی زیارت کو جاؤ کیا یہ زیارت کا حکم نہیں ؟ البتہ یہ حکم اگر وجوب پر دلالت نہ کرے۔لیکن اس کے مستحب ہونے پر یقینا دلالت کرتا ہے ،

جمال: یہ روایت کہاں آئی ہے ۔

جواد: حدیثوں کی کتاب اس طرح کی روایتوں سے بھری ہوئی ہیں اگر آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو حقیقت معلوم ہوجائیگی ۔

جمال : میں نے آج تک ان میں سے ایک بھی روایت نہ پڑھی اور نہ ہی سنی ۔

جواد : صحیح بخاری(۳۵) پڑھی ہے ۔

جمال: یہ کتاب میرے پاس نہیں ہے ۔

جواد : صحیح مسلم(۳۶) پڑھی ہے ۔

جمال: میرے والد کے پاس یہ کتاب تھی لیکن ان کی موت کے بعد میرے چچا اسے لے گئے ۔

جواد: سنن نسائی(۳۷) ؟ کیا اس کو پڑھا ہے ۔

جمال: یہ کون سی کتاب ہے اور کس چیز کے بارے میں ہے ۔

جواد: حدیث کی کتاب ہے ۔

جمال: نہیں اس کو میں نے نہیں دیکھاہے ۔

جواد: تو پھر حدیث میں کیا پڑھا ہے ۔

جمال: معاف کیجیئے گا ،میں میڈیکل کا طالب علم ہوں ، اور میری تمام کوشش اپنے درس کو حاصل کرنے میں رہتی ہے باوجود اس کے کہ میں حدیث کو پڑھنا چاہتا ہوں لیکن اس کے لئے فرصت نہیں ملی پاتی ۔

جواد: جب آپ نے حدیث نہیں پڑھی ہے اور اس کے متعلق کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا ہے ،اور علم حدیث سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے تو پھر آپ نے اپنے کو یہ اجازت کیسے دی کہ پیغمبر اور اماموں کی قبروں کی زیارت کو محکوم کریں ،آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ زیارت اہل قبور کو شرک کہنا بے بنیاد ہے ۔

جمال: میں نے ، میرے باپ دادا نے ، اور میرے دوستوں مے اب تک جو کچھ بھی قبروں کی زیارت کے بارے میں سنا تھا وہ فقط ان کو محکوم کرنے والی باتیں تھیں ، اور ایک بھی ایسی بات یار وایت جو آپ نے بیان کیں میرے کانوں سے نہیں ٹکرائی تھیں ۔

جواد: انسان کو چاہیئے کہ حقیقت تک پہنچنے کے لئے تحقیق و مطالعہ کرے تا کہ ایسا عقیدہ اور کردار حاصل کرسکے جیسا کہ خدا چاہتا ہے اور دوسروں کے کہنے پر اکتفا نہ کرے ۔

جمال: میں مانتا ہوں کہ پیغمبر (ص) اماموں (ع) اور صالحین کی قبروں کی زیارت صرف یہ کہ مستحب موکد اور پسندیدہ عمل ہے بلکہ اس کی طرف بلایا گیا ہے ۔

جواد: آپ سے ایک درخواست ہے ۔

جمال: میں اس کو سننے کے لئے تیار ہوں کہئے ۔

جواد: بہت اصرار کے ساتھ میں آپ سے چاہتا ہوں کہ ہر آواز اور مہیا ہو کی طرف نہ بڑ ھو اور اپنے عقیدے کو تسلیم نہ کرو مگر یہ کہ تحقیق کے راستے سے اس آواز کی حقیقت کو سمجھو یا اس عقیدے کی اصیت تک پہونچو کہ اس صورت میں تم کامیاب ہوجاؤگے ۔

جمال: اب سے پہلے میں یہ مانتا تھا کہ قبروں کی زیارت شرک ہے لیکن اب جب کہ آپ نے اسلامی روایت کے ذریعہ یہ روشن کردیاکہ وہ مستحب موکد ہے تو میں اس کا قائل ہوں اور اس نتیجے پر بھی پہونچا ہوںکہ اختلافی مسائل کے حل کے لئے مطالعہ کروں اور آپ کی رہنمائی سے بھی استفادہ کروں ۔

ہمارے درمیان جو باتیں ہوئیں تو اس مسئلہ پر میں اپنے بزرگوں سے اور دوستوں سے بحث کروں گا ، کہ شاید وہ بھی صحیح راستہ پر چل پڑیں ۔

جواد: آپ کا شکر گذار ہوں ۔

جمال: میں بھی آپ کی روشب فکری کہ جس کی وجہ سے میں ہدایت پائی آپ کا شکر گزار ہوں ..............خداحافظ

متعہ

عبداللہ : جب تمام مسلمان متعہ کے حرام ہونے پر اجماع رکھتے ہیں تو آپ شیعہ حضرات اس کو جائز کیوں مانتے ہیں ۔

رضا: عمر خطاب کے قول کے مطابق ’’رسول خدا (ص) اس کو حلال اور جائز سمجھتے تھے ‘‘ہم بھی اس کو جائز مانتے ہیں ۔

عبد اللہ : پیغمبر (ص) نے کیا کہا تھا ۔

رضا : جاحظ ، قرطبی ، سرخسی حنفی ، فخر رازی اور بہت سے دوسرے اہل سنت اماموں نے نقل کیا ہے کہ عمر نے خطبہ میں کہامتعتان کانتا علیٰ عهد رسول الله (ص) و انا انهی عنها و اعاقب علیها متعة الحج و متعة النساء رسول (ص) کے زمانہ میں دو متعہ جائز تھے میں انہیں منع کررہا ہوں اور جو اس کا مرتکب ہوا اس کو سزادوں گا ، متعہ حج(۳۸) اور متعہ نسائ(۳۹) ( ازدواج موقت )۔

تاریخ ابن خلکان میں آیا ہے کہ عمر نے کہا دو متعہ پیغمبر (ص) اور بوبکر کے زمانہ میں جائز تھے اور انھیں منع کرتا ہوں۔(۴۰)

آپ کا اس کے بارے میں کیا نظریہ ہے کیا عمر کا یہ کہنا کہ دومتعہ رسول (ص) کے زمانے میں جائز اور حلال تھے ایک سچی بات ہے یا جھوٹ ہے ۔

عبداللہ: عمر سچ کہہ رہے ہیں ۔

رضا : تو پھر رسول (ص) کے کہنے کو چھوڑ دینا اور عمر کے کہنے کو مان لینے کی کیا وجہ ہے ۔

عبد اللہ: اس بات کی وجہ عمر کا منع کرنا ہے

رضا: تو پھر ( حلال محمد(ص) روز قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد (ص) روز قیامت تک حرام ہے(۴۱) ) کا کیا مطلب یہ ایک ایسی بات ہے جس پر تمام علمائے اسلام بغیر کسی استثناء کے متفق ہیں ۔

عبداللہ: ( کچھ فکر کرنے کے بعد ) صحیح کہہ رہے ہیں ، لیکن پھر عمر بن خطاب نے اس کو حرام کیسے کردیا اور انکے پاس اس کے لئے کیا سند تھی ۔

رضا: یہ ان کا پنا اجتہاد تھا اگر چہ ہروہ اجتھاد جو نص کے مقابلہ میں کیا جائے قابل قبول نہیں ہے ۔

عبداللہ : حتی اگر وہ اجتہاد عمر بن خطاب کا ہو ؟!

رضا: اگر اس سے بھی بزرگ کا ہو تب بھی اس پر توجہ نہیں کی جاسکتی آپ کی نظر میں خدااور رسول(ص) کا فرمان پیروی کرنے لائق ہے یا عمر بن خطاب کی بات ؟

عبداللہ : کیا قرآن میں متعہ اور اس کے جائز ہونے کے سلسلہ میں کوئی آیت آئی ہے ؟

رضا: ہاں خداوند عالم فرماتا ہے :( فما استمتعتم به منهن فأتوهن اجورهن فریضة ) ۔۔۔۔ ؛؛؛سورہ نساء ۲۴ ۔ پس جو بھی ان عوتوں سے تمتح(متعہ)کرے ان کی اجرت انھیں بطور فریضہ دیدے ۔۔۔۔)

مرحوم علامہ امینی نے اہل سنت کی کتابوں سے بہت زیادہ مدارک اکٹھا کیے ہیں کہ جن میں سب کے سب اس آیت کی شان نزول کو متعہ کے بارے میں مانتے ہیں اور اسی کو متعہ کے جائز ہونے کی سند قرار دیتے ہیں(۴۲)

عبد اللہ: آج تک اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا ۔

رضا: کتاب الغدیر کا مطالعہ کرنے سے آپ دیکھیں گے کہ اس میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو میں نے کہیں اور یہ کہ حلال خدا ورسول(ص) کو صرف عمر کے کہنے سے کیسے کنارہ کردیا جئے ؟ آخر ہم کس کی امت ہیں رسول خدا(ص) کی یا عمر کی ؟

عبد اللہ : ہم تو رسول (ص) کی امت ہیں ، اور عمر کی فضیلت اس لئے ہے کہ وہ رسول کی امت میں سے ہیں ۔

رضا: تو پھر وہ کیا چیز ہے جو تم کو رسول کو کہے پر چلنے سے روکتی ہے ؟

عبد اللہ : متعہ کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق مجھے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔

رضا: لیکن یہ مسئلہ مسلمانوں کا مورد اتفاق نہیں ہے ۔

عبداللہ : کس طرح ۔

رضا: جس طرح کہ تم نے ابھی کہا کہ شیعہ متعہ کوجائز سمجھتے ہیں شیعہ مسلمانوں میں تقریبا ً آدھے ہیں جو کہ ایک عرب تک ہیں(۴۳) اب جبکہ شیعوں کی اتنی بڑی جماعت اس کو جائز اور حلال سمجھتی ہے توپھر یہ اتفاق نظر کیسے وجود میں آئیگا ؟ ۔

اس بھی آگے بڑھ کر معصوم اماموں کہ جو رسول کے خاندان سے تھے کہ جن کی مثال پیغمبر(ص) نے کشتی نوح سے دی تھی

’’مثل اهل بیتی فیکم کمثل سفینة نوح ‘‘(۴۴) میرے اہل بیت(ع) کی مثال تمہارے درمیان کشتی نعح کی طرح ہے

اور یہ بھی فرمایا’’انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعتری اهل بیتی ‘‘(۴۵) ۔میں تمہارے دو گرانقدر چیزیں چھوڑیں جارہا ہوں ایک کتاب خدا دوسرے میرے اہل بیت‘‘۔ یہ بزرگان ( اہل بیت جن کی پیروی نجات کا راستے اور اللہ سے قربت حاصل کرنا ہے اور ان سے منھ پھیرنا اور دوسروں کی بات ماننا گمراہی ہے ) متعہ کو جائز سمجھتے تھے اور اس کے منسوخ ہونے کو نہیں مانتے تھے شیعوں نے بھی اس مسئلہ میں ان کی پیروی کی ہے ،امیرالمؤمنین (ع) سے روایت ہے کہ آپ (ع) نےفرمایا’’لولا ان عمر نهی عن المتعة ما زنی الاشقی ۔ اگر عمر متعہ سے نہ روکتے تو بیشک شقی کے علاوہ کوئی اپنے دامن کو زنا سے آلودہ نہ کرتا۔(۴۶)

حضرت علی (ع) کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عمر کے متعہ کو روکنے کی وجہ سے لوگ متعہ نہ کرسکے اور چونکہ ہر ایک دائمی بیوی کا خرچ نہیںاٹھا سکتا تو ناچار ہو کر وہ اپنے دامن کو زنا سے آلودہ کرتا ۔

مسلمانوں کے رہبروں کا متعہ کو جائز ماننا اور یہ کہ بہت سے صحابی ،تابعین اور مسلمانوں نے قرآن اور رسول کی اجازت سے استدلال کیا ہے اور عمر کے منع کرنے کو باطل مانا ہے تو پھر یہ کہنا کہاں جائز ہے کہ اس بات میں مسلمانوں پر اجماع ہے اور کس اتفاق نظر کی بات کہی جارہی ہے یہاں پر میں ان لوگوں میں سے کچھ کا ذکر کرتا ہوں جنھوں نے متعہ کو جائز مانا ہے ۔

( ۱) عمران بن الحصین کہتے ہیں: متعہ کی آیت قرآن میں آئی ہے اور دوسری آیت نے اس کو منسوخ نہیں کیا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے ہم کو اس کی اجازت دی اور ہم نے ان کے ساتھ حج تمتع کیا اور جس وقت انھوں نے وفات کی انھوں نے اس تمتع سے نہیں روکا لیکن اس شخص ( عمر بن خطاب ) نے رسول کی وفات کے بعد اپنی رائے سے جو چاہا کہا(۴۷)

( ۲) جابر بن عبداللہ اور ابوسعید خذری ۔ یہ دونوں کہتے ہیں عمر کی خلافت کے درمیانی زمانہ تک ہم متعہ کرتے تھے ،یہاں تک کہ عمر نے عمر وبن حریث کے معاملہ میں اس کو لوگوں کے لئے حرام کردیا ۔

( ۳) ابن حزم نے ’’المحلی‘‘میں اور زرقانی نے ’’شرح المؤطا ‘‘میں عبداللہ بن مسعود کو ان لوگوں میں شامل کیا ہے جو متعہ کو جائز مانتے تھے حافظان حدیث نے بھی ان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا غزوہ میں رسول (ص) کے ساتھ جنگ کررہے تھے اور اپنی بیوی کو اپنے ساتھ نہیں لایا تھا ہم نے رسول (ص) سے کہا اور فرمایا یارسول خدا(ص)

رسول نے ہم کو اس کام سے روکا اور اجازت دی کہ ایک معین مدت تک کے لئے بیوی حاصل کرلیں ( متعہ کرلیں ) پھر یہ آپ آیت پڑھی:

"( یا ایها الذین امنوا لا تُحرموا طیبٰت ما احل الله لکم و لا تعتدوا اِنّ الله لا یُحب المعتدین ) " ( سورہ مائدہ آیت ۸۷ ) اے ایمان والو جن چیزوں کو خدا نے تمہاتے لیے حلال کیا ہے انھیں حرام نہ بناءو اور حد سے اگے نہ بڑھو کہ خدا تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(۴۸)

۴) عبد اللہ بن عمر ۔احمد بن حنبل ( حنبلیوں کے امام ) اپنی سند کے ذریعہ عبداللہ بن نعیم اعرجی سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ عبداللہ بن عمر کے پاس تھا ، ایک شخص نے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا خدا کی قسم رسول (ص) کے زمانہ میں ہم زنا کار نہیں تھے (اپنی احتیاج کو متعہ کے ذریعہ پورا کرلیتے )(۴۹) ۔

۵) سلمہ بن امیہ بن خلف ابن حزم نے ’’المحلی ‘‘ میں اور زرقانی نے شرح المؤطامیں نقل کیا ہے کہ مسلمہ بن امیہ متعہ کو جائز اور مباح جانتے تھے

۶) معبدین امیہ بن خلف ،ابن حزم نے ان کو متعہ مباح جاننے والوں میں شمار کیا ہے ۔

۷) زبیر بن العلوام ، راغب کہتا ہے عبداللہ بن زبیر نے عبداللہ بن عباس کے متعہ کو جائز سمجھنے کی وجہ سے سر زنش کی ابن عباس نے اس سے کہا اپنی ماں سے پوچھو کہ کیسے .................اس نے اپنی ماں سے جاکر سوال کیا اس کی ماں نے جواب دیا تم متعہ کے ذریعہ دنیا میں آئے ہو(۵۰) یہ داستان متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

۸) خالد بن مہاجربن خالد مخزمی ، وہ ایک شخص کے نزدیک بیٹھا تھا کہ ایک دوسرا آدمی آیا اور متعہ کے بارے میں سوال کیا خالد نے اس کے مباح ہونے کا جواب دیا ۔

ابن ابی عمرہ انصاری نے اس سے کہا ، آہستہ ( اتنی آسانی سے کیوں فتویٰ دے رہے ہو ) خالد نے کہا خدا کی قسم اس کام کو میں نے پرہیز گاروں کے سردار کے زمانہ میں انجام دیا ہے(۵۱)

۹) عمر بن حریث حافظ عبد اللہ الرزاق نے اپنی کتاب ’’مصنف ‘‘ میں ابن حریح سے نقل کیا ہے کہ ابوالزبیر نے میرے لئے نقل کیا کہ جابر نے کہا کہ عمربن حریث کوفہ آیا ، اور وہں ایک کنیز سے متعہ کیا اس کنیز کو جب وہ حاملہ تھی عمر کے پاس لایا گیا ، عمر نے اس ماجر ہ کو عمر سے پوچھا اس نے بھی تائید کی اسی وجہ سے عمر نے متعہ کو روک دیا(۵۲)

۱۰) ابن ابی کعب

۱۱) ربیعہ بن امیہ

۱۲) سمیر (سمرۃ ) بن جندب

۱۳) سعید بن جبیر

۱۴) طاؤس یمانی

۱۵) عطاابومحمد مدنی

۱۶) سدی

۱۷) مجاھد

۱۸) زفربن اوس مدنی ، اور دوسرے بزرگ صحابہ ، تابعین ، اور بزرگ مسلمانوں نے عمر کے اس فتویٰ واجتہاد کو محکوم کیا ہے ۔

اے عبد اللہ اتنی تفصیل کے ساتھ کہ اب بھی تم متعہ کے حرام ہونے پر مسلمانوں کے اجماع کی بات کرو گے ۔

عبداللہ۔ میں معافی چاہتا ہوں جو کچھ میں نے آپ سے کہا وہ سب میری سنی ہوئی باتیں تھیں اور ان کے صحیح ہونے کے بارے میں کوئی مطالعہ و تحقیق نہیں تھی اب میں اس نتیجہ تک پہونچ ہوں کہ اسی طرح کے سائل میں تحقیق و مطالعہ کروں تاکہ حقائق کو بے جاتعصب مذہبی سے دور ہوکر حاصل کرسکوں اور ان کی حقیقت کو سمجھ سکوں ۔

رضا۔ تو اب آپ مانتے ہیں کہ متعہ جائز و مباح ہے ۔

عبدا للہ ۔ جی ہاں ، اور یہ بھی سمجھتاہوں کہ اس کے منع کرنے والوں صرف اپنی خاہشات پر عمل کیا اور قرآ ن نے جو حکم اس کے جائز ہونے کے لئے دیا ہے اس کو کسی دوسری آیت کے ذریعہ منسوخ نہیں کیا اور اس نتیجہ پر بھی احکام خدا کو نہیں بدل سکتے ، میں ابھی تک تعجب کررہا ہوں کہ کس طرح عمر نے یہ فتویٰ دیا اگر آپ یہ مہربانی کریں کہ مجھے کچھ کتابو ں کے نام بتادیں کہ جو بغیر کسی تہمت کے ان موضوع پر بحث کرتی ہو ۔

رضا ۔ علامہ امینی کی ’’الغدیر ‘‘علامہ شرف الدین کی ’’النص والاجتہاد ‘‘اور ’’الفصول المہمہ ‘‘ اور استاد توفیق الفکیکی کی ’’المتعہ‘‘ایسی کتابیں ہیں جن کا مطالعہ آپ کرسکتے ہیں ، ان کتابوں کو دقت کے ساتھ پڑھو ۔

عبد اللہ ۔ یقینا ایسا ہی کروں گا داور خدا سے آپ کے لئے نیکی چاہوں گا ۔

رضا۔ یہاں پر اہل سنت پر ایک اور اشکال وارد ہوتا ہے کہ جو ان کے عمر کے فتوء کو ماننیکے بارے میں ہے ۔

عبد اللہ ۔ کیا اشکال ہے ۔

رضا ۔عمر نے متعہ زنان اور متعہ حج دونوں سے روکا ہے پھر اہل سنت متعہ حج کو جائز کیوں مانتے ہیں اور متعہ زنان کو حرام کہتے ہیں اگر عمر کا فتویٰ صحیح تھا تو پھر دونوں متعہ حرام ہے اور اگر باطل تھا تو دونوں متعہ جائز ہے ۔

عبداللہ ۔ کیا اہل سنت متعہ حج کو جائز مانتے ہیں ۔

رضا ۔ ہاںاگر آپ ان کی کتابوں کی طرف رجوع کریں تو اس حقیقت کی طرف آگاہ ہوجائیں گے ۔

عبد اللہ ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ۔

( سبحان ربک رب العزة عمایصفون و سلام علی المرسلین والحمد لله رب العالمین ) (صافات آیت ۱۸۰ ۔ ۱۸۲)

صادق حسینی الشیرازی