خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات18%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 371905 / ڈاؤنلوڈ: 5577
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

سزا كا پيش خيمہ ۴

عاقبت :اُخروى عاقبت ميں موثر عوامل ۵

عمل :عمل كا اُخروى مواخذہ ۱;عمل كا جوابدہ ۳;عمل كے اثرات ۵;عمل كے مواخذہ كا پيش خيمہ ۴

قران كريم :قران كريم كا تجزيہ كرنے والوں كا اُخروى مواخذہ ۲

قيامت :قيامت ميں مواخذہ ۱،۲;قيامت ميں مواخذہ كا معيار ۵

كفار:كفار كا اُخروى مواخذہ ۲

آیت ۹۴

( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ )

پس آپ اس بات كا واضح اعلان كرديں جس كا حكم ديا گيا ہے اور مشركين سے كنارہ كش ہوجائيں _

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واضح ، اشكارااور بغير كسى ابہام كے اپنے الہى منصبى فرائض اور رسالت كے ابلاغ پر مامور تھے_

فاصدع بما تو مر

لغت ميں ''صدع''واضح و اشكار بات كرنے كو كہتے ہيں _

۲_بعثت كے اغاز (مكى دور) ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت بعض مخفى كاموں ،رازدارى اور تقيہ كے ہمراہ تھي_

فاصدع بما تو مر

دعوت كو اشكار كرنے كا لازمہ اُس كا مخفى ركھنا ہے خواہ وہ كچھ وقت كے لئے ہى كيوں نہ ہو _

۳_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منصبى فرائض ،فرامين خدا كے دائرے ميں تھے_فاصدع بما تو مر

۴_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، كفار و مشركين كى عہد شكنى ،اذيت و ازار سے بے اعتنائي اور اُن سے منہ موڑنے اور اپنى دعوت ميں ثابت قدم رہنے پر مامور تھے_فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين

''مشركين سے منہ موڑنے ''سے مراد يہ نہيں كہ اُن سے كنارہ گيرى كى جائے _چونكہ يہ ايت كے پہلے حصے( فاصدع بما تو مر ) كہ جس ميں اشكارا دعوت كا اظہار ہے،كے ساتھ ساز گار نہيں بلكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ ميں مشركين و كفار كى جانب سے بہت زيادہ ستائے گئے تھے لہذا مراد وہى ہے جو مذكورہ بالا مطلب ميں ايا ہے _ياد رہے كہ بعد والى ايت (انا كفينك المستهزء ين ) بھى اسى حقيقت كى تاكيد كر رہى ہے_

۳۲۱

۵_دينى نظريات اور اُصول كو بيان كرنے ميں صراحت و قاطعيت ،دينى راہنمائوں پرايك واجب اور ضرورى فريضہ ہے_

فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين

۶_''عن عبيداللّه بن على الحلبى قال: سمعت ا باعبداللّه عليه‌السلام يقول: مكث رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بمكة بعد ماجاء ه الوحى عن اللّه تبارك وتعالى ثلاث عشرة سنة منها ثلاث سنين مختفياً خائفاً لايظهر، حتى ا مره اللّه عزّوجلّ ا ن يصدع بما ا مره به، فا ظهر حينئذ الدّعوة; (۱) عبيد الله بن على الحلبى كا كہنا ہے كہ ميں نے امام صادق عليہ السلام سے سنا كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا: جب خداوند متعال كى جانب سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى نازل ہوئي اس كے بعد اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تيرہ سال تك مكہ ميں رہے _كہ جن ميں سے تين سال مخفى اور پنہاں تھے اور اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (اجتماعات ميں ) ظاہر نہيں ہوتے تھے_يہاں تك كہ خدا نے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرمان ديا كہ جو كچھ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو امر كيا گيا ہے اُسے اشكارا بيان كرو _اس كے بعد اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى دعوت كو علنى كر ديا_

۷_''عن محمد بن على الحلبى عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام قال: اكتتم رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بمكة مختفياً خائفاً خمس سنين ليس يظهر ا مره ثم ا مره اللّه عزّوجلّ ا ن يصدع بما ا مر به فظهر رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و ا ظهر ا مره; (۲) محمد بن على الحلبى نے امام صادقعليه‌السلام سے روايت كى ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پانچ سال تك مكہ ميں اپنى رسالت كو پنہاں ركھا _اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مخفى اور خوفزدہ تھے اور اپنى رسالت كو اشكار نہيں كرتے تھے پھر خداوند عزوجل نے اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرمان ديا كہ اپنى رسالت كو اشكار كرو _پس انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اشكار ہو گئے اور اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علنى دعوت شروع كر دي_

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اشكار دعوت ۶،۷; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى استقامت ۴; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغ ۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ۷; آنحضرت كى رسالت۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شرعى ذمہ دارى ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صراحت۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخفى دعوت۲،۶،۷; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اذيت۴

احكام :۵

____________________

۱) كمال الدين ،ص۳۴۴، ح۲۹، ب۳۳; نور الثقلين ، ج ۳، ص۳۲ ،ح۱۲۳_

۲) كمال الدين ،ص۳۴۴، ح۲۸، ب۳۳; نور الثقلين ،ج ۳، ص۳۲ ، ح۱۲۱_

۳۲۲

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۲،۶،۷

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۳

تبليغ :تبليغ ميں صراحت ۱،۵;تبليغ ميں قاطعيت ۵

دين :دين كى تبليغ ۵

دينى قائدين :دينى قائدين كى شرعى ذمہ دارى ۵

روايت :۶،۷

مشركين :مشركين كى اذيتيں اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴;مشركين سے منہ موڑنا ۴

واجبات :۵

آیت ۹۵

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ )

ہم ان استہزاء كرنے والوں كے لئے كافى ہيں _

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مشركين اور دشمنوں كى اذيت وازار اور استہزاء كے مقابلے ميں خداوند متعال كى حمايت حاصل تھي_انا كفينك المستهزء ين

۲_خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاء كرنے والوں كے شر كو دفع كرنے كى خوشخبرى دينا_

انا كفينك المستهزء ين

۳_دشمنوں اور مشركين سے بے اعتنائي كرنے اور اپنى دعوت كو علنى و اشكارا كرنے ميں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كاسب سے بڑا پشت پناہ،دشمنوں كے مقابلے ميں خداوند متعال كاپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حمايت كرنا تھا_

فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين _انا كفينك المستهزء ين

جملہ ''انا كفينك '' جملہ '' فاصدع بما تو مرو '' كے لئے تعليل كى حيثيت ركھتا ہے ;يعنى چونكہ ہم تمہارى حمايت كرتے ہيں پس جس چيز كا تجھے حكم ديا گيا ہے اُس پر عمل كرو اور مشركين سے منہ موڑ لو_

۴_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنى رسالت كے پہلے دور (دوران

۳۲۳

مكہ) ميں مشركين كى طرف سے تمسخر،شديد مخالفتوں اور روحانى اذيت وازار كا سامنا كرنا پڑا تھا_

و ا عرض عن المشركين _انا كفينك المستهزء ين

۵_استہزا اور تمسخر كرنا،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين اور دشمنوں كاطريقہ تھا _انا كفينك المستهزء ين

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين اور دشمنوں كو ''استہزاء كرنے والوں ''كے نام سے ياد كيا جانااس نكتے كى طرف اشارہ ہے كہ وہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مقابلہ كرنے كے لئے ہميشہ اس طريقے سے استفادہ كرتے تھے_

۶_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اپنى دعوت كو اشكار اور علنى كرنے كى صورت ميں مشركين و كفار كيطرف سے دشمنى اور روحانى اذيت وازار سے پريشان تھے_فاصدع بما تو مر ...انا كفينك المستهزء ين

احتمال ہے كہ جملہ''انا كفينك المستهزئين'' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پريشانيوں كا جواب ہو كہ جو اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخدا كے فرمان: '' فاصدع بما تو مر واعرض عن المشركين ''كے بعد اپنى دعوت كو علنى كرنے كى وجہ سے لاحق تھيں _

۷_'' عن ا بان بن عثمان الا حمر رفعه قال: المستهزئون برسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خمسة، الوليد بن المغيرة المخزومى والعاص بن وائل السهمى والا سود بن عبديغوث زهرى والا سود بن مطلّب والحارث بن الطُلاطلة الثقفي; (۱) ابان بن عثمان احمد كى ايك مرفوعہ روايت ميں ايا ہے كہ (معصومعليه‌السلام )نے فرمايا:''پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاء كرنے والے پانچ شخص تھے:۱_وليد بن مغيرہ محزومى ،۲_عاص بن وائل سھمى ،۳_اسود بن عبد يغوث زھري،۴_اسود بن مطلب ،۵_حارث بن طلا طلة الثقفي''

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والوں كے شر كا دور كرنا ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والے ۷; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا استہزا ۱،۴،۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اذيت ۴ ،۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشارت ۲; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اشكارا دعوت ۳،۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :كى پريشانى ۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دشمنوں سے بے اعتنائي ۳; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مشركين سے بے اعتنائي۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حامى ۱ ، ۳ ;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن ۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كا استہزا ۱،۵ ;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كى اذيتيں ۱ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كے ساتھ مقابلے كا طريقہ ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كا استہزا ۵ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كے ساتھ مقابلے كا طريقہ ۵; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين ۴

____________________

۱)خصال شيخ صدوق ،ص۲۷۹،ح ۲۴;نور الثقلين ،ج۳، ص۳۶، ح۱۲۷_

۳۲۴

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۴،۷

الله تعالى :الله تعالى كى بشارتيں ۲

الله تعالى كى حمايتيں :الله تعالى كى حمايتيں جن كے شامل حال ہيں ۱،۳

روايت:۷

قران كريم :قران كا استہزاء كرنے والوں كا شر دور كرنا ۲

كفار:كفاركى دشمنى ۶;كفار كے استہزاء ۶

مشركين مشركين اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴;مشركين كى اذيتيں ۱، ۴ ; مشركين كى دشمنى ۶;مشركين كے استہزا ۱،۴،۶

آیت ۹۶

( الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللّهِ إِلـهاً آخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ )

جو خدا كے ساتھ دوسرا خدا قرار ديتے ہيں اور عنقريب انہيں ان كا حال معلوم ہوجائے گا_

۱_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ استہزا كرنے والے، مشرك اور الله تعالى كے سوا كسى اور معبود كے معتقدتھے_

المستهزء ين_الذين يجعلون مع الله الهًا ء اخر

۲_الله كے سوا كسى اور كى خدائي كا عقيدہ اور شرك ،مكہ كے اكثر لوگوں كا مذہب اور دين تھا_

و ا عرض عن المشركين ...الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر

۳_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٹھٹھہ مذاق كرنے والے مشركين كو شديد عذاب كى دھمكى دى گئي ہے_

الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

جملہ '' فسوف يعلمون ''(عنقريب جان ليں گے)تہديد و دھمكى كى حيثيت ركھتا ہے_

۴_قيامت ،حقائق كے منكشف ہونے اور حق و باطل كے روشن ہونے كا دن ہے_

الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

مندرجہ بالا مطلب اس نكتے پر مبنى ہے كہ جب ''جاننے ''كا وقت ،روز قيامت ہو_

۳۲۵

۵_خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنى رسالت اور مقاصد ميں اس طرح كامياب وموفق ہونے كى بشارت دينا كہ جس كا مشركين اور دشمن محسوس كرتے ہوئے نظارہ كريں گے_

انا كفينك المستهزء ين_الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

مذكورہ بالا مطلب اس احتمال پر مبنى ہے كہ جب ''يعلمون''كامفعول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اپنى رسالت ميں كاميابى ہو كہ جو مشركين اور دشمنوں كى شكست اور ناكامى كے ہمراہ ہے_

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والوں كا عقيدہ ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاكرنے والوں كا شرك ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشارت ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاكرنے والوں كو ڈرانا۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے

آیت ۹۷

( وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ )

اور ہم جانتے ہيں كہ آپ انكى باتوں سے دل تنگ ہو رہے ہيں _

۱_خداوندمتعال،نے مشركين كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور استہزا كى وجہ سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دل تنگى اور غم واندوہ سے اپنى اگاہى كا اظہار كيا_انا كفينك المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۲_مشركين كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور اذيت

۳۲۶

ناك استہزا كے مقابلے ميں خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى و تشفى دينا _

المستهزء ين فسوف يعلمون_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۳_غلط پروپيگنڈا اور اذيت ناك ٹھٹھہ و مذاق، اسلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف كفار و مشركين كا دائمى حربہ تھا _

المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

فعل مضارع '' يقولون ''مشركين اور دشمنوں كے پروپيگنڈے اور باتوں كے دائمى اور مستمر ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۴_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مشركين اور دشمنان اسلام كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور اذيت ناك استہزا سے غمگين اور اندوہ ناك رہتے تھے_المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۵_انبياءے كرامعليه‌السلام بھى دوسرے انسانوں كى طرح اذيت و ازار سے متاثر ہوتے تھے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۶_اسلامى معاشرے كے مصلحين اوردينى قائدين ہميشہ سے دشمنوں كے غلط پروپيگنڈے اور اذيت ناك ٹھٹھہ و مذاق سے دوچار رہے ہيں لہذا اُنہيں خدا كى حمايت اور لطف الہى سے اُميد وار رہنا چاہيے _

المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۷_خداوند متعال انسان كے ضمير اور روحى و نفسياتى احساسات اور عواطف سے كاملاً اگاہ ہے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواذيت ۲،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا ۱،۲،۳،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كااندوہ وغم ۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف پروپيگنڈا ۱،۳،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سازش ۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن ۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ۲

اسلام :دشمنان اسلام كى اذيتيں ۴;دشمنان اسلام كے استہزا ۴،۶

الله تعالى :الله تعالى اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا غم واندوہ ۱;الله تعالى اور انسان كا ضمير ۷;الله تعالى كا علم ۱;الله تعالى كا علم غيب ۷

اُميد وارى :الله تعالى كى حمايت سے اُميد وار ى ۶;الله تعالى كے لطف سے اُميد وارى ۶

انبياء :انبياء كا بشر ہونا ۵;انبيا ء كا متاثر ہونا ۵

۳۲۷

دينى قائدين :دينى قائدين كى اُميد وارى ۶;دينى قائدين كے خلاف پروپيگنڈا ۶

مشركين :مشركين كى اذيتيں ۲،۴;مشركين كے استہزا ۱،۲ ،۳ ،۴;مشركين كا مقابلہ كرنے كا طريقہ ۳

آیت ۹۸

( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ )

تو آپ اپنے پروردگار كے حمد كى تسبيح كيجئے اور سجدہ گذاروں ميں شامل ہوجايئے

۱_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حمد و ستائش خدا كے ساتھ تسبيح كرنے كاحكم _

فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

''بحمد '' ميں ''با'' مصاحبت كے لئے ہے ;يعنى تسبيح كو خداوند متعال كى حمد وستائش كے ساتھ ہونا چاہيے_

۲_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواپنى رسالت اور دشمنوں كى مخالفتوں كے سبب پيدا ہونے والے مصائب اور مشكلات ميں نماز، عبادت اور پرورد گار كى ياد سے مدد طلب كرنے كا حكم _

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون_فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

مندرجہ بالا مطلب ،''فسبح ''كى ''فا'' سے اخذ كيا گيا ہے كہ جو گذشتہ ايت سے اس جملے كى تفريع كے لئے ايا ہے_يعنى :خدا وند متعال كاپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے غم واندوہ اور دل تنگى سے اگاہ ہونے كے بعد خدا كى جانب سے تسبيح اور حمد كے حكم سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ عبادات ،غم واندوہ اورپريشانى كو ختم كرنے ميں موثر ہيں _

۳_اسلامى معاشرے كے راہنمائوں اور حكمرانوں كو اپنے فرائض كى ادائيگى ميں مشكلات كے مقابلے ميں ذكر و عبادت اور نماز كے ذريعے پرورد گار سے مدد طلب كرنے كى ضرورت ہے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

۴_ذكر و عبادت ميں تسبيح پرورد گار كے ساتھ خدا كى حمد و ستائش كا ہونا ايك نيك اور پسنديدہ امر ہے_فسبّح بحمد ربك

۵_خداوند متعال كى طرف سے اپنے بندوں كى حمايت

۳۲۸

مقتضى ہے كہ اُس كا شكر اور تسبيح و عبادت كى جائے_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك

''فسبّح '' ميں ''فا'' گذشتہ ايت پر تفريع ہے (گذشتہ ايت مشركين كى اذيت ناك باتوں كے مقابلے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى و تشفى پر مشتمل تھى ) اُس پر اس ايت كى تفريع ہو سكتا ہے مذكورہ بالا نكتے كى جانب اشارہ ہو_

۶_خدا وند متعال كے بارے ميں ہر قسم كے شرك اور ناروا، بات كے مقابلے ميں اُس كى تسبيح و عبادت كرنا ضرورى ہے_ولقد نعلم بما يقولون_فسبّح بحمد ربك

''فسبّح '' ميں گذشتہ ايت پر تفريع ہو سكتا ہے اس معنى ميں ہو كہ اب جبكہ وہ خدا كے بارے ميں ناروا باتيں كہتے ہيں اور پرورد گار كى تنقيص كرتے ہيں ،پس تو اُس كى حمد و ستائش اور تسبيح كر_

۷_ خدا وندمتعال كاذكر اور عبادت;مثلاً نماز، پريشانيوں اور غم واندوہ كو ختم كرنے ، ثابت قدمى وحوصلہ بلند كرنے اور اطمينان خاطر كا باعث بنتى ہے_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

مفسرين كى اكثريت كا كہنا ہے كہ اس ايت ميں سجدہ سے نماز مرادہے _اور اس كى تائيد ايك روايت سے بھى ہوتى ہے جس كے مطابق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھى پريشان اور دل تنگ ہوتے تو نماز پڑھتے تھے_(مجمع البيان )

۸_سجدہ اور خضوع ،نماز كى روح اور اصلى ركن ہے جس كو تمام عبادات ميں خصوصى مقام حاصل ہے _

فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

ہو سكتا ہے'' سجدہ ''سے نماز مراد ہو چونكہ نماز كے بجائے سجدے كا حكم ديا گيا ہے_ شايديہ اس حقيقت كو بيان كر رہا ہو كہ سجدہ نماز كا اہم ركن اور اُس كى روح ہے_ياد رہے كہ تسبيح و حمد كى نصيحت كے بعد خدا كى طرف سے سجدہ كا حكم كہ ہر دو ايك طرح كى عبادت شمار ہوتى ہيں ، اس كے خاص مقام ومنزلت كو ظاہر كرتا ہے_

۹_خداوند متعال كى ربوبيت، اس بات كے لائق ہے كہ اُس كى تسبيح وحمد كى جائے اورانسان اُس كى بارگاہ ميں فروتنى اور سجدہ بجا لائے_فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو وصيت ۱،۲

استقامت :استقامت كے عوامل ۷

استمداد :الله تعالى سے استمداد ۲،۳;عبادت سے استمداد

۳۲۹

۲;نماز سے استمداد ۲

الله تعالى :الله تعالى كى تسبيح كى اہميت ۱،۶;الله تعالى كى تسبيح كے عوامل ۵،۹;الله تعالى كى ربوبيت ۹;الله تعالى كى حمايتيں ۵;الله تعالى كے سامنے سجدہ كے عوامل۹;الله تعالى كے وصايا ۱،۲

حمد :حمد خدا كى اہميت ۱;حمد خدا كے عوامل ۵،۹

حوصلہ بلند ہونا :اس كے عوامل ۷

دينى قائدين :دينى قائدين كى ضروريات ۳

ذكر :الله تعالى كے ذكركى اہميت ۲،۳;الله تعالى كے ذكر كے اداب ۴;الله تعالى كے ذكر كے اثرات ۷; الله تعالى كے ذكر ميں تحميد ۴الله تعالى كے ذكر ميں تسبيح ۴

سختى :سختى ميں تسہيل كى روش ۲،۳

عبادت:الله كى عبادت كى اہميت ۲،۳،۶;الله كى عبادت كے عوامل ۵;الله كى عبادت ميں تحميد ۴; الله كى عبادت ميں تسبيح ۴;عبادت كے اداب ۴;عبادت كے اثرات ۷

عمل :پسنديدہ عمل ۴

غم واندوہ:غم واندوہ ختم ہونے كے عوامل ۷

قلبى اطمينان:قلبى اطمينان كے عوامل ۷

نفسيات :تربيتى نفسيات ۷

نماز :نماز كى اہميت ۲،۳;نمازكے اثرات ۷;نماز كے اركان ۸;نماز ميں خضوع كى اہميت ۸;نماز ميں سجدے كى اہميت ۸

۳۳۰

آیت ۹۹

( وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ )

اور اس وقت تك اپنے رب كى عبادت كرتے رہيے جب تك كہ موت نہ آجائے _

۱_خداوند متعال كى طرف سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوعمر كے اخر تك عبادت كرنے كا حكم _

واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''يقين '' سے موت مراد ہو _جيسا كہ سورہ ''مدثر'' كى ايت ۴۷ ميں بھى موت كو ''يقين '' سے تعبير كيا گيا ہے _قابل ذكر ہے كہ ''تحصيل يقين ''كے بجائے ''انے''(يا تي) كى تعبير سے بھى اس مطلب كى تائيد ہو سكتى ہے_

۲_ پورى عمرپرورد گار كى عبادت كرنا، بندوں كا فريضہ ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

۳_انسان موت كے بعد ہى حقائق سے اگاہ ہوتا ہے اور اُسے اُن كا يقين اتا ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب كو موت كى وجہ تسميہ''يقين ''

سے اخذ كيا گيا ہے_يعنى موت كو اس لئے ''يقين'' كہا جاتا ہے چونكہ انسان پر حقائق اشكار ہو جاتے ہيں اوراُسے اُنكا يقين اجاتا ہے_

۴_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يقين كے مرتبے پر فائز ہونے تك پرورد گار كى عبادت كرنے كى نصيحت _

واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب اس بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب كلمہ ''يقين''اپنے لغوى و اصطلاحى معنى ميں استعمال ہوا ہو_

۵_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوند متعال كى خصوصى تربيت اور خاص توجہ كے تحت تھے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

ہو سكتا ہے مذكورہ مطلب اس لئے اخذ كيا گيا ہوكہ صفت ''ربّ'' ،كاف خطاب كى طر ف مضاف ہے كہ جس كا مرجع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _لہذااس نكتہ كى بنا ء

۳۳۱

پر خداوند سب بندوں كا ''ربّ'' ہے _

۶_يقين ،ايمان و معرفت كے بلند ترين مراتب كى علامت ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

چونكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كہ جو ايمان كا مظہر ہيں كو نصيحت كى جاتى ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يقين پر فائز ہونے كے لئے عبادت كريں _اس سے مندرجہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۷_يقين كے بلند ترين مرتبے پر فائز ہونا ہى عبادت كا فلسفہ اور مقصد ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

''حتى '' غايت كى انتہاكے لئے ہے جو ''الى '' كے معنى ميں ہے اوراس ايت ميں ''يقين'' كو ''عبادت'' كے لئے غايت و مقصد كے طور پر ليا گيا ہے(واعبد ...)_

۸_خداوند متعال كى ربوبيت ،اُس كى بار گاہ ميں عبادت كى مقتضى ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كامربى ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نصيحت ۴ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شرعى ذمہ دارى ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عبادات ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عبوديت ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۵

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۸;الله تعالى كى نصيحتيں ۴;الله تعالى كے اوامر ۱

انسان:انسانوں كى شرعى ذمہ دارياں ۲

ايمان :ايمان كے مراتب ۶

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كا سب كےلئے ہونا ۲

شناخت :شناخت كے مراتب ۶

عبادت:خدا كى عبادت ۲،۴;خدا كى عبادت كے عوامل ۸;عبادت كا فلسفہ ۷

لطف خدا :لطف خدا جن كے شامل حال ہے ۵

يقين :موت كے بعد كے حقائق كا يقين ۳;يقين كى اہميت ۶،۷

۳۳۲

۱۶- سوره نحل

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( أَتَى أَمْرُ اللّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ )

بنام خدائے رحمان و رحيم

امر الہى آگيا ہے لہذا اب بلاوجہ جلدى نہ مچاؤ كہ خدا ان كے شرك سے پاك و پاكيزہ اور بلند و بالا ہے_

۱_ خداوند عالم كى طرف سے اسلام و توحيد كى فتح اور شرك و مشركين كى رسوائي كا فرمان جارى ہونا_

آتى امرالله فلا تستعجلوه سبحانه و تعالى عمّا يشركون

مذكورہ با لا تفسير اس بناء پر ہے كے جب ''امر'' كا معنى فرمان ہو ليكن فرمان كس چيز كے بارے ميں ہے آيت كا ذيل (سبحانه و تعالى عَمّا يشركون ) ممكن ہے اس بات پر قرينہ ہو كہ امر سے يہاں مراد شرك كى شكست و رسوائي اور توحيد كى فتح ہے_

۲_ صدر اسلام كے مسلمان توحيد اور اسلام كى حاكميت اور خدائي و عدے كے جلد متحقق ہونے كے خواہاں تھے_

آتى امرالله فلا تستعجلوهسبحانه و تعالى عمّا يشركون

''لا تستعجلوه '' كے مخاطب كے بارے ميں دو احتمال ہے ايك يہ كہ اس سلسلے ميں عجلت مسلمانوں كى طرف سے پائي_ دو سرا يہ كہ مشركين يہ چاہتے تھے كہ وعدہ الہى (عذاب يا توحيد كى حاكميت يا قيامت ) جلد از جلد وقوع پذير ہو_ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۳_ مؤمنين كا وظيفہ ہے كہ وہ صبر و شكيبائي سے كام ليتے ہوئے خدائي وعدوں كے جلد تحقق كى خواہش سے پرہيز كريں _

آتى امرالله فلا تستعجلوه سبحانه و تعالى عمّا يشركون

اس بات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ''لاتستعجلوه'' مخاطب اور'' يشركون'' غائب كا صيغہ ہے ايسے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے فعل كے مخاطب ،مؤمنين ہوں _

۴_ صدر اسلام كے مشركين، دشمنى اور مذاق اڑانے كى خاطر الہى و عدوں (عذاب، اسلام كى حاكميت اور قيامت) كے جلد وقوع پذير ہونے كے خواہاں تھے_آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۳۳۳

يہ احتمال ہے كہ ''تستعجلوہ'' كا مخاطب مشركين ہوں جو الہى وعدوں كے تحقق كے خواہش مند تھے كيونكہ عام طور پر كوئي بھى اپنے دشمن كى فتح اور اپنى شكست و رسوائي كا خواہشمند نہيں ہوتا اس ليے يہ كہا جاسكتا ہے كہ نزول عذاب كے سلسلے ميں مشركين كى جلد بازى ، دشمنى اور تمسخر كى خاطر تھي_

۵_ خدائي و عدوں كے جلد وقوع پذير ہونے كے سلسلے ميں عجلت اور بے صبرى كا مظاہرہ كرنا جائز نہيں ہے_

آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۶_ خدائي وعدے حتمى اور اپنے مقررہ وقت پرانجام پذير ہوتے ہيں _آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۷_ خداوند عالم ہر قسم كے شريك سے منزہ و مبرّہ ہے_سبحنه ...عمّا يشركون

۸_ خداوند عالم كى ذات اقدس اس چيز سے بالاتر ہے كہ اس كے ليے كسى طرح كے شريك كا تصور كيا جائے_

سبحنه و تعالى عمّا يشركون

۹_ شرك كى ناپائيدارى كا سرچشمہ اس كا حقيقت سے عارى اور بے بنياد ہونا ہے _

۱۰_''عن بعض اصحابناعن ابى عبداللّه عليه‌السلام قال: مسئلة عن قول الله : ''اتى امر الله فلا تستعجلوه قال: ...انّ اللّه اذا اجز أن شيائً كائن فانه قد كانّ'' (۱)

ايك صحابى كا بيان ہے : كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس كلام''آتى امراللّہ فلا تستعجلوہ'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: جب بھى خداوند عالم كسى چيز كے تحقق كے بارے ميں خبر ديتا ہے تو اسے متحقق ہى سمجھا جاتا ہے_

۱۱_قال رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبل الساعة سحابة سودائ ثم ينادى منادي: ايّها الناس ''اتى امر اللّه فلد تستعجلوه'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: كہ روز قيامت سے پہلے بادل ظاہر ہوگا ...پھر منادى ندا،د ے گا اے لوگوںاتى امرى الله فلا تستعجلوه

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ ص۲۵۴ ح۲ ، نورالثقلين ص۳۸ ح۵ _

۲)الدرالمنشور ج۵ ص۱۰۸_

۳۳۴

اسلام:اسلام كى فتح۱،۲

الله تعالى :الله تعالى اور اس كاشريك ۷،۸; الله تعالى كا علّو ۸;الله تعالى كا منزہ ہونا ۷،۸; الله تعالى كى خبروں كا حتمى ہونا۱۰; الله تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا۶; الله تعالى كے وعدوں كے تحقق پر صبر ۳;الله تعالى كے وعدوں كے تحقق ميں جلد بازى كى درخواست ۲ ، ۴;اوامر الہي۱،۱۰; الہى وعدوں ميں تعجيل سے اجتناب ۳

روايت ۱۰، ۱۱

شرك:شرك كى شكست ۱; شرك كى ناپائيداري۹; شرك كے بطلان كے آثار۹

عجلت:عجلت كى سرزنش۵

قيامت :قيامت كى نشانياں ۱۱

مسلمين:صدراسلام كے مسلمانوں كے تقاضے ۲

مؤمنين:مؤمنين كى ذمہ داري۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا استہزاء ۴; صدرا سلام كے مشركين كى دشمنى ۴; صدرا سلام كے مشركين كے تقاضے ۴; مشركين كى ذلت۱

آیت ۲

( يُنَزِّلُ الْمَلآئِكَةَ بِالْرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُواْ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاتَّقُونِ )

وہ جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حكم سے ملائكہ كو روح كے ساتھ نازل كرديتا ہے كہ ان بندوں كو ڈراؤ اور سمجھاؤ كہ ميرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے لہذا مجھى سے ڈريں _

۱_خداوند عالم، اپنے برگزيدہ بندوں پر ملائكہ كو روح (وحى الہي) ساتھ نازل كرتا ہے_

ينزلالملائكة بالروح من امره على من يشاء من عباده

آيت ميں روح سے كيا مراد ہے اس بارے ميں مفسرين نے مختلف احتمالات ذكر كئے ہيں _

جيسے حضرت جبرائيل ، وحى اور وہ چيز كہ جس كے ذريعہ زندگى متحقق ہوتى ہو_ مذكوربالا مطلب ميں ''روح'' وحى سے كنايہ ہے_

۳۳۵

۲_ ''روح '' خداوند عالم كے مختص امور اور شان ميں سے اور اسى كے ساتھ مربوط ہے_

ينزل ملائكه بالروح من امره على من يشاء من عباده

''امر '' كا ايك معنى شان بھى ہے مذكورہ بالا تفسير اسى معنى كى بناء پر ہے_

۳_ خدا كے برگزيدہ بندوں پر ملائكہ كا نزول حكم خداوندى كے تحت ہے_ينزّل الملائكة بالروح من امره

''امر'' كا ايك معنى فرمان اور حكم ہے اور ''من'' يہاں ''با'' كے معنى ميں ہوسكتى ہے لہذا اس صورت ميں ''من امرہ'' كا معنى يعنى حكم وفرمان خداہے_

۴_''وحي''انسان اور معاشرہ كے ليے سرمايہ حيات ہے_ينزّل الملائكه بالروح من امره على من يشاء

جيسا كہ مفسرين نے كہا ہے كہ ''الروح'' سے مراد وحى ہوسكتى ہے_وحى كى جگہ پر كلمہ''الروح'' كا استعمال ،استعارہ ہے_ اس استعارہ كى وجہ شبہ وحى كا سرمايہ حيات ہونا ہے_ جيسا كہ روح موجودات كے ليے سرمايہ حيات ہوتى ہے_

۵_ ملائكہ، خداوند عالم كے برگزيدہ بندوں پر ابلاغ وحى كا ايك واسطہ ہيں _

ينزل الملائكةبالروح من امره على من يشاء من عباده

بعد والے جملات (ان انذروا ...) كہ جو وحى اور رسالت كے ابلاغ كے بارے ميں ہے كے قرينے كى بناء پر آيت ميں ''روح'' سے مراد وحى ہوسكتى ہے_

۶_ انسان كے ليے وحى كو دريافت كرنے كے ليے خداوند كى عبوديت، ايك شائستہ پيش خيمہ ہے_

ينزّل الملائكهبالروح من امره على من يشاء من عباده

''من يشائ'' كى ''من عبادہ'' كے ذريعہ وضاحت كرنا اور ''ناس '' اور خلق وغيرہ جيسے كلمات كى جگہ پر لفظ ''عباد'' كا استعمال ممكن ہے مذكورہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۷_ وحى كے دريافت كے ليے انبياء كا انتخاب، مشيّت الہى كے تابع ہے_ينزل الملائكه بالروح من امره على من يشاء من عباده

۸_ انبياء، خداوند عالم كے منتخب بندے ہيں _من يشاء

۹_ برگزيدہ افراد پر وحى كے ابلاغ كے ليے ملائكہ كا نزول ، حكم الہى كے يقينى اور حتمى ہونے كا ايك پر تو

۳۳۶

ہے_آتى امراللّه ينزّل الملائكه بالروح من امره

۱۰_ لوگوں كو انذار اور خبردار كرنا، انبياء كا بنيادى وظيفہ ہے_ينزل الملائكهبالروح من عباده ان انذرو

۱۱_ منتخب بندوں پر فرشتوں كے نزول كا مقصد، ان تك الہى پيغام پہنچانا ہے _

ينزل الملائكه ان انذروا انّه لا اله الّا أن

۱۲_ ملائكہ كے ذريعہ، الہى فرامين كا اجراء ہوتا ہے_ينزل الملائكه ان انذرو

۱۳_ تقوى اور حقوق الله كى رعايت، غير معمولى قدر وقيمت كى مالك ہے_انهّ لا الهالّا أنا فاتقون

كيوں كہ روح اور ملائكہ كو توحيد كے ابلاغ كے ليے بھيجا جاتا ہے اور توحيدكو تقوى تك پہنچنے كا ايك مقدمہ قرار ديا گيا ہے اس سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتاہے _

۱۴_ انبياء كى دعوت كا خلاصہ ، توحيد كى طرف دعوت اور خوف الہى ہے _لا اله الا أنا فاتقون

۱۵_ خدائے يكتا پر اعتقاد ، تقوى اور خوف الہى كا پيش خيمہ ہے_ان انذروا انّه لا اله الّا أنا فاتقون

''فاتقون'' ميں ''فا'' تفريع كے ليے ہے اس بناء پر يہ مطلب اخذ ہوتا ہے كہ : اگر كوئي توحيد اور خدائي يگانگت پر ايمان لے آئے تو اس كے ليے تقوى الہى كا زمينہ بھى فراہم ہوجاتا ہے _

۱۶_ توحيدى فكر ، انسان كو اس كے مناسب عمل كرنے كى دعوت ديتى ہے_لا اله

۱۷_آتى رجل امير المؤمنين عليه‌السلام يسأله عن الروح أليس هو جبرئيل عليه‌السلام : فقال له اميرالمؤمنين عليه‌السلام جبرئيل من الملائكة و الروح غير جبرئيل يقول اللّه تعالى لنبيّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' ينزّل الملائكه بالروح'' و الروح غير الملائكة (۱)

ايك شخص امير المؤمنينعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور سوال كيا كہ كيا روح سے مراد وہى جبرائيل ہيں ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا : جبرئيل تو ملائكہ ميں سے اور روح، جبرئيل سے ہٹ كر ہيں خداوند عالم اپنے پيغمبر كو ارشاد فرما رہا ہے_

''ينزل الملائكہ بالروح'' ( اس آيت كى بناء پر) وہ ملائكہ سے عليحدہ چيز كرہے(۱)

۱۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''على من

____________________

۱) كافي، ج۱ ص ۲۷۴ ح ۶، نورالثقلين ، ج۳، ص ۳۹ ح ۷_

۳۳۷

يشاء من عباده ان اذروا انّه لا اله الّا انا فاتقون؟ يقول: بالكتاب و النبوة'' (۱)

امام محمد باقرعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول''على من يشاء من عباده ان انذرو ا انّه لا اله الاّ فاتقون'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: كہ كتاب ونبوت كے ذريعے(لوگوں كو ڈرايئے(۲)

اقدار:۱۴

الله تعالي:الله تعالى كى خصوصيات ۳; الله تعالى كى مشيّت ۷ ; الله تعالى كے احكام كو اجراء كرنے والے۱۲; الله تعالى كے افعال ۱; الله تعالى كے اوامر۳; الله تعالى كے اوامر كا حتمى ہوتا ۹; الله تعالى كے عمّال۱۲;الله تعالى كے مختصات۲

انبياء:انبياء كا انتخاب ۷ ،۸; انبياء كى دعوتيں ۱۴; انبياء كى ذمہ دارى ۱۰;انبياء كے انذار۱۰، ۱۸; انبياء كے فضائل۹

انسان:انسان كا مايہ حيات۴

توحيد:توحيد كى اہميت ۱۳; توحيد كى طرف دعوت۱۴

تقوي:تقوى كا پيش خيمہ ۱۵; تقوى كى اہميت ۱۳،۱۴; تقوى كى طرف دعوت ۱۳;تقوى كى قدرو قيمت۱۳

خدا كے برگزيدہ افراد۸

برگزيدہ افراد پر ملائكہ كا نزول۱، ۳، ۱۰، ۱۲; برگزيدہ افراد پر وحى ۱، ۵

خوف:خوف الہى كا پيش خيمہ۱۵

روايت:۱۷ ،۱۸

روح:روح سے مراد ۱۷; روح كى حقيقت۲

عبوديت :عبوديت كے آثار۶

عقيدہ :توحيد پر عقيدہ كے آثار ۱۵،۱۶;پسنديدہ عمل كى دعوت۱۶

كتب آسمانى :كتب آسمانى كے انذار ۱۸

لوگ:لوگوں كو ڈرانا۱۰

____________________

۱) تفسير قمي، ج۱ ص ۳۸۲; نورالثقلين، ج۳ ص ۳۹ ح ۸_

۳۳۸

معاشرہ:معاشرہ كا مايہ حيات ۴

ملائكہ :ملائكہ كا كردار ۵،۱۲; ملائكہ كو وحى ۵; ملائكہ كے

نزول كا فلسفہ۱۱

وحي:وحى كا كردار۴; وحى كو دريافت كرنے كا پيش خيمہ۶

آیت ۳

( خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ تَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ )

اسى خدا نے زمين و آسمان كو حق كے ساتھ پيدا كيا ہے اور وہ ان كے شريكوں سے بہت بلند و بالاتر ہے _

۱_ زمين و آسمان (كائنات) كا خالق خداوند عالم ہے_خلق السموات والأرض

۲_ كائنات (زمين و آسمانوں ) كى خلقت منظّم ، با مقصد ، متقن اور محكم ہونے كے ساتھ ساتھ ہر قسم كى بے نظمى اور بطلان سے دور ہے_خلق السموات والأرض بالحق

حق كا ايك معنى ، باحكمت مقصد اور متقن ہونا ہے لہذا ،خلق السموات والارض بالحق ، كا معنى يوں ں ہوگا كہ خداوند عالم نے كائنات كو مقصد كے تحت اور نہايت ہى متقن اور محكم خلق كيا ہے_

۳_ كائنات ميں متعدد آسمان ہيں _خلق السموات

۴_ زمين و آسمانوں كے بر حق مدار كى خلقت ، خداوند عالم كى وحدانيت اور اس كے لا شريك ہونے پر دليل ہے _

ان أنذروا أنّه لا إله الّا أنا فاتقون، خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

جملہ'' خلق السماوات والأرض'' گذشتہ آيت ميں''لا اله الاّ انا'' كے مطلب كے ليئے بہ منزلہ علّت ہے _

۵_خداوند عالم كى ذات اس سے بلند و برتر ہے كہ خلقت ميں اسكے ليے كسى شريك كا تصور كيا جائے_

خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

۳۳۹

۶_ خداوند عالم كے ليے كسى قسم كا شريك قرار دينا، اس كے غلط اور غير واقعى تصور كى علامت ہے_تعلى عمّا يشركون

۷_ آسمانوں اور زمين (كائنات ) كى خلقت، اس بات پر دليل ہے كہ خداوند عالم اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادرہے_

اتى امراللّه خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

''خلق السماوات ...'' كا جملہ اس بات كى وضاحت كے ليے تعليل كى حيثيت ركھتا ہے كہ خداوند عالم اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادر ہے_

۸_ صدراسلام كے مشركين، خداوند عالم كو آسمانوں اور زمين كا خالق سمجھتے تھے_

آتى امر اللّه ...سبحنه و تعلى عما يشركون خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

''تعالى عمّا يشركون'' كا تعلق ''بالحق '' كے ساتھ ہے نہ كہ ''خلق السماوات'' كے ساتھ اس بناء پر آيت سے يہ استفادہ ہوتا ہے كے مشركين كو كائنات كى اصل خلقت كے بارے ميں اعتراض نہيں تھا بلكہ اس كى حقانيت اور بطلان پر توہم كا شكار تھے_

آسمان:آسمانوں كا خالق۱،۸;آسمانوں كا متعدد ہونا۳; آسمانوں كى خلقت۴،۷

الله تعالى :الله تعالى كا علّو۵; الله تعالى كى خالقيت۱; الله تعالى كى قدرت كے دلائل ۷; الله تعالى كے بارے ميں غلط فكر۶; الله تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا۷

الله تعالى كى نشانياں :الله تعالى كى آفاقى نشانياں ۴

توحيد:توحيد افعالي۵; توحيد كے دلائل ۴; خالقيت ميں توحيد۵

زمين:زمين كا خالق ۱،۸; زمين كى خلقت ۳،۷

عقيدہ :خدا كى خالقيت پر عقيدہ ۸; شرك پر عقيدہ ۶

كائنات:كائنات كا بامقصد ہونا ۲; كائنات كا خالق ۱; كائنات كا متقن ہونا۲; كائنات كا نظم۲; كائنات كى حقانيت۳; كائنات كى خلقت ۷

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ۸

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430