خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات13%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 372335 / ڈاؤنلوڈ: 5579
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

۱۴_ اسلامى معاشرے كے رہبر كيلئے انفاق كرنے والوں اور دينى خدمات انجام دينے والوں كى قدردانى كرنا اور ان كيلئے دعا كرنا ضرورى ہے_ويتخذ ما ينفق صلوات الرسول

پيغمبر (ص) كا انفاق كرنے والوں كيلئے دعا كرنا اور پھر خدا تعالى كا اسے ايك اچھائي كے طور پر ذكر كرنا مندرجہ بالا نكتے پر دلالت كرتا ہے_

۱۵_ خدا تعالى كے قريب ہونے اور معنوى اقدار كو حاصل كرنے كيلئے مادى وسائل سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_

من يؤمن بالله و يتخذ ما ينفق قربات عند الله و صلوات الرسول

۱۶_ خدا تعالى كا انفاق كرنے والے مومنين كو اپنے دريائے رحمت ميں غوطے دينے كا وعدہ _سيدخلهم الله فى رحمته

۱۷_ مومنين كا خلوص كے ساتھ انفاق انكى گذشتہ لغزشوں كى بخشش اور خدا تعالى كى رحمت واسعہ كے ان كے شامل حال ہونے كا سبب بنتا ہے_سيدخلهم الله فى رحمته ان الله غفور رحيم

۱۸_ انفاق كرنے والے مومنين كا رحمت خداوندى سے بہرہ مند ہونا اسكى بے پايان رحمت و بخشش كا نتيجہ ہے_

و من الاعراب من يؤمن و يتخذ ما ينفق قربات سيدخلهم الله فى رحمته

۱۹_ خدا تعالى غفور ( بہت بخشنے والا ) اور رحيم ( وسيع رحمت والا ) ہے_ان الله غفور رحيم

اسماو صفات :غفور ۱۹; رحيم ۱۹

اقدار :انكو حاصل كرنے كى اہميت ۱۵; ان ميں مؤثر عوامل ۴

انسان :اس كا اختيار ۳

انفاق :اسكى قدر و قيمت كا معيار ۴;اسكے اثرات ۱۰; اس ميں اخلاص كے عوامل ۷

انفاق كرنے والے:ان كا شكر يہ ادا كرنا ۱۴;انكے ساتھ وعدہ ۱۶; ان كيلئے دعا كرنا ۶،۱۴

ايمان:خدا پر ايمان كى اہميت ۲;خدا پر ايمان كے آثار ۷; قيامت پر ايمان كى اہميت۲;قيامت پر ايمان كے آثار ۷

۲۸۱

باديہ نشين لوگ:ان كا اخلاص ۵; انكا انفاق ۵ ; انكا تقرب ۵يہ اور حضرت محمد (ص) كى دعا ۵

بخشش:اس كاپيش خيمہ ۱۰،۱۲،۱۷

تقرب:اسكا پيش خيمہ ۱۳;اسكى اہميت ۱۵; اس كے عوامل ۱۰،۱۱،۱۲

تمايلات:ان ميں مؤثر عوامل ۳

خدا تعالى :اسكى بخشش كے آثار ۱۸; اسكى رحمت كا پيش خيمہ ۱۰،۱۲،۱۷;اسكى مہربانى كے آثار ۱۸; اسكے وعدے ۱۶

دعا:اسكى اہميت ۱۴

دين كے خدمت گزار لوگ:انكا شكر يہ ادا كرنا ۱۴; ان كيلئے دعا ۱۴

دينى راہنما :ان كى ذمہ دارى ۱۴;ان كى طرف سے شكر يہ ادا كرنے كى اہميت ۱۴،

رحمت:اس كا وعدہ ۱۶;يہ جنكے شامل حال ہے۱۶،۱۸

عقيدہ :اس ميں مؤثر عوامل ۳

عمل:اسكى قدر و قيمت كا معيار ۴;اس ميں اخلاص كے عوامل ۷; پسنديدہ عمل ۱۳

قيامت :اس پر ايمان ركھنے والے۱

كفار :باديہ نشين كفار ۱

كفر :اسكے درجے ۱

ماحول :اجتماعى ماحول كے آثار ۳; اجتماعى ماحول كا مجبور كرنا ۳

مادى وسائل :ان سے استفادہ كرنا ۱۵

محرك :اسكے آثار ۴

محمد(ص) :آپ(ص) كى دعا ۶; آپ(ص) كى دعا حاصل كرنا ۱۳;

۲۸۲

آپ(ص) كى دعا كا پيش خيمہ ۱۰; آپ(ص) كى دعا كى قدر و قيمت ۹;آپ(ص) كى دعا كے آثار ۹،۱۲; آپ(ص) كى دعا كے عوامل ۱۱

مومنين :انكى كوشش ۱۸;ان كے انفاق كے آثار ۱۱،۱۷; ان كے ساتھ وعدہ ۱۶; باديہ نشين مومنين ۱; خدا پر

ايمان لانے والے ۱; مومنين اور حضرت محمد(ص) كى دعا ۸;مومنين اور خدا كا تقرب ۸

نفاق:اسكے اثرات ۱

نيت :اسكے اثرات۴

آیت ۱۰۰

( وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )

اور مہاجرين و انصار ميں سے سبقت كرنے والے اور جن لوگوں نے نيكى ميں ان ا تباع كيا ہے ان سب سے خدا راضى ہوگيا ہے اور يہ سب خدا سے راضى ہيں خدا نے ان كے لئے وہ باغات مہّيا كئے ہيں جن كے نيچے نہريں جارى ہيں اور يہ ان ميں ہميشہ رہنے والے ہيں اور يہى بہت بڑى كاميابى ہے _

۱_ خدا تعالى ، مہاجرين و انصار ميں سے سب سے پہلے قدم بڑھانے والوں اور ان كے راستے كى پيروى كرنے والوں سے راضى ہے اور وہ بھى خدا تعالى سے راضى ہيں _

و السابقون الاولون من المهاجرين و الانصار و الذين اتبعوهم باحسان رضى الله عنهم و رضوا عنه

۲_ خدا تعالى كى بارگاہ ميں ايمان و عمل كى طرف سبقت كرنے كى خاص اہميت اور قدرو قيمت ہے_

و السابقون الاولون من المهاجرين و الانصار

۳_ سخت اور دشوار حالات ميں دين اور الہى اقدار كى حمايت كرنے كى بڑى قدر و قيمت ہے_

و السابقون الاولون من المهاجرين و الانصار

۴_ صرف نيكى كے راستے ميں مہاجرين و انصار كى پيروى قابل تعريف اور قابل قدر ہے نہ ہر قسم كى پيروي

و السابقون و الذين اتبعوهم باحسان

۲۸۳

۵_ مہاجرين و انصار كے قابل قدر ہونے كا لازمہ ان سے برے عمل كے صدور كى نفى نہيں ہے_

و الذين اتبعوهم باحسان

خدا تعالى نے متابعت كرنے والوں كے قابل قدر ہونے كو اس چيز كے ساتھ مشروط كيا ہے كہ وہ صرف نيكى كى بنياد پر اور نيكيوں ميں مہاجرين و انصار كى پيروى كريں نہ ہر قسم كے عمل ميں اورہر ہدف كے ساتھ اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ مہاجرين و انصار برے عمل سے مبرا نہيں تھے_

۶_ دل كے ساتھ خدا تعالى سے راضى ہونا اور ميل و رغبت كے ساتھ اسكے احكام و قوانين كو قبول كرنا ،نہ بے رغبتى كے ساتھ اور مجبور ہو كر، سچے مومنين كے اوصاف ميں سے ہے_

و السابقون الاولون و الذين اتبعوهم باحسان رضى الله عنهم و رضوا عنه

۷_ راہ خدا ميں ہجرت اور دين كى مدد كرنا رضائے الہى اور بہشت ميں دائمى حيات كے حصول كا ذريعہ ہے_

من المهاجرين و الانصار ...رضى الله عنهم

۸_ مہاجرين و انصار ميں سے سب سے پہلے اور برتر مومنين سے خدا تعالى كى برتر رضا كا اعلان _

و السابقون الاولون من المهاجرين رضى الله عنهم

ہو سكتا ہے '' الاولون '' كى قيد توضيحى نہ ہو بلكہ ''سابقون '' كو دو گرو ہوں ميں تقسيم كرنے كيلئے ہو، كہ جس كا مطلب يہ ہوگا كہ پيش قدم مہاجرين و انصار كے دو گروہ تھے بعض '' الاولون'' اور بعض دوسرے _قابل ذكر ہے كہ مندرجہ بالا نكتے كے علاوہ ہو سكتاہے '' السابقون '' اور ''الاولون '' كے الفاظ صرف سبقت زمانى بتانے كيلئے نہ ہوں بلكہ معنوى سبقت و اولويت پر بھى دلالت كرتے ہوں _

۹_ پيش قدم مہاجرين و انصار كے در ميان بھى فضل و كمال كا تفاوت اور تقدم و تا خر موجود تھا_

و السابقون الاولون من المهاجرين و الانصار

مندرجہ بالا نكتہ اس بنياد پر ہے كہ '' الاولون '' كى قيد احترازى ہو كہ اس صورت ميں يہ ''سابقون'' كو دو گروہوں ميں تقسيم كرے گى _

۱۰_ اقدار كى طرف پيش قدم ہونا خود بہت قابل قدر ہے_و السابقون الاولون

۲۸۴

۱۱_ خدا تعالى كى طرف سے مہاجرين و انصار اور انكا اتباع كرنے والے نيك كردار لوگوں كو، ان كيلئے بہشت كے آمادہ ہونے كى خوشخبرى _اعد لهم جنات تجرى تحتها الانهار

۱۲_مومنين آخرت ميں دائمى سعادت اور كاميابى كے ساتھ لبريز زندگى سے بہرہ مند ہوں گے_

خالدين فيها ابداً ذلك الفوز العظيم

۱۳ _ بہشت كے باغات، متعدد اور ان ميں فراوان نہريں ہيں _و اعد لهم جنات تجرى تحتها الانهار

۱۴_ ايمان كى طرف پيش قدم ہونے والے اور انكا اتباع كرنے والے نيك كردار لوگ آخرت ميں خداتعالى كے مادى و معنوى لطف و كرم سے بہرہ مند ہوں گے_رضى الله عنهم لهم جنات تجري

رضائے الہى ، معنوى لطف ہے اور دائمى بہشت مادى نعمت ہے_

۱۵_ بہشت كے گھنے درختوں كے نيچے نہروں كا جارى ہونا آخرت كى لذت آفرين اور پر كشش نعمتوں كا ايك جلوہ ہے_

لهم جنات تجرى تحتها الانهار

۱۶_ مومنين كا بہشت كى نعمتوں اوراس ميں زندگى كے زوال كى پريشانى سے آسودہ خاطر ہونا_خالدين فيها ابد

۱۷_ انسان كا رضائے الہى اور بہشت ميں حيات جاويد كا حاصل كرلينا عظيم كاميابى اور حقيقى سعادت ہے_

رضى الله عنهم جنات خالدين فيها ابداً ذلك الفوز العظيم

۱۸_ خدا كا انسان اور انسان كا خدا سے راضى ہونا انسان كے بہشت جاويد اور حقيقى كاميابى كو حاصل كرلينے كا عامل ہے_رضى الله عنهم و رضوا عنه و اعد لهم جنات ذلك الفوز العظيم

۱۹_ امام حسن مجتبى عليہ السلام سے روايت كى گئي ہے : '' ...فكان ابي(ع) سابق السابقين الى اللہ و الى رسولہ ...وذلك انہ لم يسبقہ الى الايمان احد وقد قال اللہ تعالى : ''والسابقون الا ولون من المہاجرين والانصار ...'' فہو سابق جميع السابقين ...'' ميرے پدر بزرگوار خدا و رسول كى طرف سب سے پہلے پيش گام لوگوں ميں سے بھى پيش گام تھے كيونكہ كسى نے بھى ايمان كے سلسلے ميں ان پر سبقت نہيں كى اور خدا تعالى نے فرمايا ہے '' مہاجرين و انصار ميں سے سب سے پہلے پيش قدم '' پس وہ سب سے پہلے سبقت

۲۸۵

كرنے والوں ميں سے بھى سب سے آگے والے تھے _(۱)

۲۰_ امام صادق (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان '' مہاجرين و انصار ميں سے سب سے پہلے سبقت كرنے والے اور جنہوں نے نيكى كے ساتھ انكى پيروى كى '' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا :''فبدء با لمها جرين الاولين على درجة سبقهم ثم ثنّى بالانصار ثم ثلّث بالتابعين لهم باحسان فوضع كل قوم عل قدر درجاتهم و منازلهم عنده ...'' ;پس خدا تعالى نے ايمان كى طرف سبقت كرنے كى بناء پر پہلے مہاجرين كو ذكر فرمايا پھر دوسرے نمبر پرانصار كو اور تيسرے نمبر پر نيكى كے ساتھ انكى پيروى كرنے والوں كو، خدا تعالى نے ہر گروہ كو اسى ترتيب كے ساتھ ذكر فرماياہے جسكے ساتھ وہ اسكے يہاں درجہ ركھتا تھا_(۲)

اتباع كرنے والے :ان سے راضى ہونا ۱;انكو بشارت ۱۱; انكى اخروى پاداش ۱۴; ان كے فضائل ۱۴

اقدار :۲،۳انكا معيار ۴،۵،۱۰; انكى حمايت كى قدر و قيمت ۳; ان ميں سبقت ۱۰

امام على (ع) :انكا ايمان ۱۹

انصار :ان سے راضى ہونا ۱،۸; ان كا راضى ہونا ۱; ان كا مرتبہ ۹; انكا مقام ۲۰; انكو بشارت ۱۱;انكى پيروى كى قدر و قيمت ۴; ان كے عمل كى قدر و قيمت ۵

ايمان :اس ميں سبقت كرنے والوں كى اخروى پاداش ۱۴; اس ميں سبقت كرنے والوں كے فضائل ۱۴; اس ميں سبقت كى اہميت ۲; اس ميں سبقت كى قدر و قيمت ۲;اس ميں سبقت كرنے والوں كے مادى وسائل ۱۴; اس ميں سبقت كرنے والوں كے معنوى وسائل ۱۴

بہشت:اسكى بشارت ۱۱; اسكى نعمتوں كا ہميشہ رہنا ۱۶; اسكى نعمتيں ۱۳،۱۵; اسكى نہروں كا متعدد ہونا ۱۳; اسكى نہريں ۱۵;اسكے اسباب ۱۸; اس كے باغات كا متعدد ہونا ۱۳;اسكے در خت ۱۵ ; اس ميں ہميشہ رہنا ۱۶; اس ميں ہميشہ رہنے كا پيش خيمہ ۷

بہشتى لوگ:۱۱

____________________

۱)امالى شيخ طوسى ج ۲ ص ۱۷۶_ تفسير برہان ج ۲ ص ۱۵۲ ح۱_

۲)كافى ج ۲ ص ۴۱ ح ۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۵ح ۲۸۲_

۲۸۶

حيات :اخروى حيات كا پيش خيمہ۷;اخروى حيات كى اہميت ۱۷

خدا تعالى :اسكا راضى ہونا ۱; اسكى بشارتيں ۱۱;اسكے راضى ہونے كا پيش خيمہ ۷; اسكے راضى ہونے كى اہميت ۱۷;اسكے راضى ہونے كے آثار ۱۸

خدا تعالى كى رضا:يہ جنہيں حاصل ہے۸

دين :اس كا قبول ہونا ۶; اسكى امداد كے آثار ۷; اسكى حمايت كى قدر و قيمت ۳

دينداري:اس ميں سختياں ۳

راضى ہونا :خدا سے راضى ہونا ۱;خدا سے راضى ہونے كے آثار ۱۸

روايت ۱۹،۲۰

سعادت :اسكے موارد ۱۷

كاميابى :اسكے عوامل ۱۸; اسكے مراتب ۱۷; اسكے موارد ۱۷

مسلمان :پہلے مسلمان ۱۹

مومنين :انكا اخروى سكون ۱۶; انكا بہشت ميں ہميشہ رہنا ۱۶; انكى اخروى حيات ۱۶; انكى اخروى سعادت ۱۲; انكى اخروى كاميابى ۱۲; انكى دائمى زندگى ۱۲; انكى صفات ۶

مہاجرين :ان سے راضى ہونا ۸; انكا راضى ہونا ۱،۸;انكا مقام ۲۰; انكو بشارت ۱۱; انكى پيروى كى قدر و قيمت ۴; ان كے عمل كى قدر و قيمت ۵; ان كے مراتب ۹

نعمت :اخروى نعمتيں ۱۵

نيك عمل :اسكى طرف سبقت كرنے والے ۲۰

ہجرت :اسكے آثار ۷

۲۸۷

آیت ۱۰۱

( وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ )

اور تمھارے گرد ديہاتيوں ميں بھى منافقين ہيں اور اہل مدينہ ميں تو وہ بھى ہيں جو نفاق ميں ماہر اور سركش ہيں تم ان كو نہيں جانتے ہو ليكن ہم خوب جانتے ہيں _ عنقريب ہم ان پر دو ہرا عذاب كريں گے اس كے بعد يہ عذاب عظيم كى طرف پلٹادئے جائيں گے_

۱_ خدا تعالى كا مومنين كو خبردار كرنا كہ باديہ نشين اور خود مدينہ والوں ميں سے بعض نا معلوم منافقين ان كے اطراف ميں موجود ہيں _و ممن حولكم من الاعراب منافقون و من اهل المدينة مردوا على النفاق

۲_اہل مدينہ كے درميان عادى اور پنہان منافقين كا وجود _و من اهل المدينة مردوا على النفاق

''مَرَدَ ''كا ايك معنى ہے '' استمر'' اور '' قرن'' (استمرار اور عادت )

۳_ مدينہ كے منافقين كى منافقانہ حركتيں ، باديہ نشين منافقين كى حركتوں اور چالوں سے زيادہ پيچيدہ اور سخت تھيں _

و ممن حولكم و من اهل المدينة مردوا على النفاق

۴_ منافقين اپنے سب پوشيدہ كاموں اور چيرہ دستيوں كے باوجود علم الہى كے دائرے سے باہر نہيں ہيں _

و ممن حولكم لا تعلمهم نحن نعلمهم

۵_ وحى كے سائے ميں پيغمبراكرم (ص) اور مومنين كا منافقين كے وجود سے مطلع ہونا _

و ممن حولكم نحن نعلمهم

۶_ مدينہ كے مرموز اور مخفى منافقين كو خدا تعالى كى طرف

۲۸۸

سے قيامت كے عظيم اور آخرى عذاب كے علاوہ دوہرے عذاب كى دھمكى _سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم

۷_ خدا تعالى كا غير محدود علم منافقين كى بجا رسوائي اورسزا كا سرچشمہ ہے_

نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم

۸_ اسلامى معاشروں كا پوشيدہ منافقين كے وجود اور سرگرميوں سے ہميشہ ہوشيار رہنا ضرورى ہے_

و ممن حولكم من الاعراب

۹_ مركز معرفت اور اسلام كے سنگر ميں رہنے سے ذمہ دارى بڑھ جاتى ہے اور اس ميں رہ كر منافقانہ چاليں چلنے سے دوگنا عذاب ہوتا ہے_*و ممن حولكم من الاعراب سنعذبهم مرتين

مذكورہ منافقين كا دوگنا عذاب ہو سكتا ہے اس وجہ سے ہو كہ انہوں نے مومنين كے قريب ( ممن حولكم ) اور تبليغ دين كے مركز ( مدينہ ) ميں رہتے ہوئے منافقت كا راستہ اپنايا_

۱۰_ چھپے ہوئے منافقين كو دنيا، برزخ اور پھر قيامت ميں عذاب ہوگا_سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بناپر ہے كہ آخرت سے پہلے عذاب سے مراد، ايك دنيا اور دوسرا برزخ كا عذاب ہو_

۱۱_ خدا تعالى كى طرف سے منافقين كو انكى جبرى واپسى اور پھر قيامت ميں عظيم عذاب ميں مبتلا ہونے كى دھمكي_

ثم يردون الى عذاب عظيم

۱۲_ شہر ميں رہنا علم و آگاہى كے ساتھ ساتھ منافقت و راہ انحراف ميں زيادہ پيچيدہ ہو جانے كا خطرہ بھى ركھتا ہے_

الاعراب اشد كفرا ً و نفاقاً و من اهل المدينة مردوا على النفاق

آيت ۹۷ ميں باديہ نشينوں كى انكى پست فكرى پر مذمت كے ساتھ ساتھ تلويحاً بڑے معاشروں كے ساتھ پيوستہ ہونے كى تعريف بھى ہے اور اس آيت ميں مدينہ كے منافقين كو نفاق ميں باديہ نشينوں كى نسبت زيادہ ماہر قرار ديا گيا ہے يعنى اس اچھائي كے مقابلے ميں يہ برائي بھى ہے_

اسلامى معاشرہ:اسكى ذمہ دارى ۹; اس كے ہوشيار ہونے كى اہميت ۹;يہ اور منافقين ۹

باديہ نشين لوگ:انكا نفاق ۴

خدا تعالى :

۲۸۹

اس كا علم ۸; اسكى تنبيہ ۱; اسكى دھمكياں ۷،۱۳ ; اسكے علم كا احاطہ ۵

شہر نشيني:اس كے آثار ۱۴; اس ميں انحراف كا خطرہ ۱۴; اس ميں نفاق كا خطرہ ۱۴

عذاب :اسكى دھمكى ۷; اسكے درجے ۷،۱۳

محمد(ص) :آپ(ص) اور باديہ نشين منافقين ۱۱;آپ(ص) اور غير معلوم منافقين ۲،۶;آپ(ص) اور مدينہ كے منافقين ۱۱; آپ (ص) كى آگاہى ۶; آپ(ص) كے علم كا دائرہ ۲،۱۱

مدينہ :اس ميں رہنے والوں كى ذمہ دارى ۱۰; اس ميں منافقت كا دوگنا عذاب ۱۰

مدينہ كے منافقين :انكا نفاق ۳; انكو دھمكى ۷; ان كے نفاق كى شدت ۴

منافقين :انكا اخروى عذاب ۱۲; انكا برزخ والا عذاب ۱۲ ; انكا تظاہر ۲;انكا دنيوى عذاب ۱۲; انكا دوگنا عذاب ۷; انكا عجز ۵; انكو دھمكى ۱۳; انكى رسوائي كے عوامل۸; انكى سزا ۸; انكے اخروى عذاب كا حتمى ہونا ۱۳;انكے ساتھ عملى سلوك ۲; انكے متعدد عذاب ۱۲

مومنين :انكو تنبيہ ۱; انكى آگاہى ۶; يہ اور باديہ نشين منافقين ۱،۱۱; يہ اور غير معلوم منافقين ۱،۶; يہ اور مدينہ كے منافقين ۱،۱۱

وحى :اس كا كردار ۶

آیت ۱۰۲

( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً عَسَى اللّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اور دوسرے وہ لوگ جنھوں نے اپنے گناہوں كااعتراف كيا كہ انھوں نے نيك اور بد اعمال مخلوط كردئے ہيں عنقريب خدا ان كى توبہ قوبل كرلے گا كہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے_

۱_ بعض گناہكاروں اور جنگ تبوك سے گريز كرنے والوں كا اپنے برے عمل كا اعتراف _و آخرون اعترفوا بذنوبهم

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ سابقہ آيات جنگ

۲۹۰

تبوك اورا س ميں شركت نہ كرنے والوں كے بارے ميں تھيں كہا جا سكتا ہے كہ يہ آيت بھى انہيں ميں سے بعض گريز كرنے والوں كے بارے ميں ہے_

۲_ گناہ كا اعتراف كر لينا اور اپنے كو مستحق تنقيد ٹھہرانا رحمت و بخشش الہى كے حصول كا ذريعہ اور توبہ كا ايك ركن ہے_اعترفوا عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم

۳_ انسان كے اعمال كے در ميان نيك كاموں كا وجود اسكے اپنى خطاؤں سے توبہ كرنے كا ذريعہ ہے_*

و آخرون اعترفوا بذنوبهم خلطوا عملا صالحا

ممكن ہے '' خلطوا عملا صالحاً ...'' يہ بتانے كيلئے ہو كہ عمل صالح كا وجودان كے توبہ كى طرف متوجہ ہونے ميں اثر ركھتا تھا_

۴_ خدا تعالى چاہتا ہے كہ انسان خوف و اميد كى حالت سے خارج نہ ہو _عسى الله ان يتوب عليهم

خدا تعالى نے قطعى طورپر نہيں فرمايا كہ انكى توبہ قبول ہو جائيگى بلكہ فرمايا اميدہے انكى توبہ قبول ہو جائے_

۵_ گناہگار كا اپنے عمل كے برا ہونے كى طرف متوجہ ہونا اور پھر اس كا اعتراف كركے اس پر نادم ہونا توبہ كے مترادف ہے اور خدا تعالى كى طرف سے گناہ كى بخشش كا ذريعہ ہے _اعترفوا بذنو بهم عسى الله ان يتوب عليهم

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خدا تعالى نے ''اعترفوا '' كے مقابلے ميں ''عسى اللہ ان يتوب '' كا وعدہ ديا ہے اور اعتراف كے بعد توبہ كا ذكر نہيں كيا _ مندرجہ بالا مطلب حاصل كيا جا سكتا ہے_

۶_ نادم اور پشيمان خطا كار كو خود سازى اور اپنى تربيت كا اميدوار ہونے كى ضرورت ہے_

عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم

۷_ نادم اور اعتراف كر لينے والے خطا كاروں كيلئے اسلام كى آغوش كا كھلا ہونا_عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم

۸_ توبہ قبول كر لينا خدا تعالى كى طرف سے بندوں پر فضل ہے ورنہ اس كيلئے لازم اور ضرورى نہيں ہے_

عسى الله ان يتوب عليهم

احتمال ہے كہ كلمہ '' عسى ''كا استعمال مندرجہ بالا نكتہ كو بيان كرنے كيلئے ہو يعنى توبہ كرنے والا خدا تعالى پر كسى قسم كا حق نہيں ركھتا _

۹_ نادم اور اعتراف كر لينے والے گناہكاروں كى توبہ كا قبول كر لينا خدا تعالى كى رحمت و بخشش كا ايك جلوہ

۲۹۱

ہے_عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم

۱۰_ خدا تعالى غفور ( بخشنے والا ) اور حيم ( مہربان ) ہے_ان الله غفور رحيم

۱۱_ راوى كہتاہے امام باقر (ع) نے فرمايا:''الذين خلطوا عملاً صالحاً و آخر سيئاً ''فاولئك قوم مؤمنون يحدثون فى ايمانهم من الذنوب التى يعيبها المؤمنون و يكرهونها فاولئك عسى الله ان يتوب عليهم'' ; '' جن لوگوں نے ملے جلے نيك اور برے اعمال كئے ہيں '' سے مراد وہ مومنين ہيں جو ايمان كے ساتھ ساتھ بعض گناہوں كے بھى مرتكب ہوتے ہيں كہ جنہيں يہ مومنين عيب سمجھتے ہيں اور ناپسند كرتے ہيں ان كے بارے ميں اميد ہے كہ خدا تعالى انكى توبہ قبول كر لے(۱) _

۱۲_ امام باقر (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان'' عسى الله ان يتوب عليهم '' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے: العسى من اللہ واجب ...'' '' عسى '' جو خدا فرماتا ہے وہ لازمى اور حتمى ہوتا ہے ( نہ صرف احتمال اور اميد كے معنى ميں ) _(۲)

۱۳_ ابوبكر حضرمى كہتے ہيں :'' قال محمد ابن سعيد: اسئل ابا عبدالله (ع) فاعرض عليه كلامى وقل له : انى اتولا كم وابرء من عدوكم اقول بالقدر ...قال: فعرضت كلامه على ابى عبدالله فحرك يده ثم قال:خلطوا عملاً صالحا وآخر سيئاً'' مجھے محمد بن سعيدنے كہا كہ امام صادق (ع) سے سوال كر اور ان كے سامنے ميرى باتيں پيش كر اور انہيں بتا كہ ميں آپ كى ولايت كو قبول كرتا ہوں اورآپ كے دشمنوں سے بيزار ہوں نيز قدر كا بھى قائل ہوں حضرمى كہتے ہيں ميں نے اسكى بات امام صادق (ع) كے سامنے پيش كى تو آپ نے ( تنقيد كى صورت ميں ) اپنے ہاتھ كو حركت دى اور فرمايا ان لوگوں نے اچھے اور برے عمل كو مخلوط كر ديا ہے ...''(۳)

اسلام :اس كا توبہ قبول كرنا ۷;اسكى جذابيت ۷;يہ اور پشيمان گناہگار۷

اسما و صفات :رحيم ۱۰; غفور ۱۰

____________________

۱)كافى ج ۲ ص ۴۰۸ ح ۲_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۷ ح ۲۹۲_

۲)تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۰۵ ح ۱۰۵_ بحار الانوار ج ۶۶ ص ۱۷۲ ح ۱۹_

۳)تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۰۶ ح ۱۰۸_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۷ ح ۲۹۵_

۲۹۲

اقرار :اقرار گناہ كے آثار ۲،۵; گناہ كا اقرار ۱; ناپسنديدہ عمل كا اقرار ۱

بخشش:اس كا پيش خيمہ ۲،۵

تربيت :اس ميں اميدوارى ۶

تزكيہ :اس ميں اميدوارى ۶

توبہ :اس كا قبول ہونا۸; اسكى قبوليت كا پيش خيمہ۳; اسكے اركان ۲; اسكے موارد ۵

خدا تعالى :اس كا فضل ۸; اس كا مطلوب ۴;اسكى بخشش كى نشانياں ۹; اسكى رحمت كا پيش خيمہ۲; اسكى رحمت كى نشانياں ۹;ا س كے كلام ميں عسى ۱۲

خوف:خوف و اميد ۴

روايت :۱۱،۱۲،۱۳

عمل صالح :اسكے آثار ۳; عمل صالح اور ناپسنديدہ عمل كا مخلوط ہونا ۱۳

غزوہ تبوك:اس سے گريز كرنے والوں كا اقرار ۱

گناہ:اس سے پشيمان ہونے كے آثار ۵

گناہگار لوگ:انكا اقرار ۱; انكى اميدوارى كى اہميت ۶; انكى توبہ كا قبول ہونا ۹; پشيمان ہونے والے گناہگاروں كى معنوى ضروريات ۶

مومنين :انكى توبہ ۱۱; گناہگار مومنين ۱۱

۲۹۳

آیت ۱۰۳

( خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ )

پيغمبر آپ ان كے اموال ميں سے زكوة لے ليجئے كہ اس كے ذريعہ يہ پاك و پاكيزہ ہو جائيں اور انھيں دعائيں ديجئے كہ آپ كى دعا ان كے لئے تسكين قلب كا باعث ہوگى اور خداسب كا سننے والا اور حاننے والا ہے _

۱_ خدا تعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو لوگوں سے صدقہ (زكات ) وصول كرنے كا حكم_خذ من اموالهم صدقة

۲_ انسان كے مختلف اموال ميں صدقہ ( زكات ) ہے_خذ من اموالهم صدقة

( اموال كى مفرد ) مال ،اسم جنس ہے جو انسان كى ہر كمائي كو شامل ہے_

۳_ پيغمبراكرم (ص) اور اسلامى معاشرے كے حاكم كى ذمہ دارى ہے كہ وہ لوگوں سے صدقہ ( شرعى ماليات ) دصول كرےں اور منتظر نہ رہيں كہ وہ خود ادا كرنے كا اقدام كريں _خذ من اموالهم صدقة

''تقبل'' كى بجائے كلمہ '' خذ'' كا استعمال كرنا بتاتا ہے كہ حاكم اسلامى كو صدقے كى ادائيگى كا منتظر نہيں رہنا چاہيے بلكہ ضرورى ہے كہ خود ان سے اخذ كرے _

۴_ صدقہ (زكات) كن اموال ميں واجب ہے اور اسكى مقدار كيا ہے ؟يہ پيغمبر(ص) اور حاكم اسلامى كے اختيار ميں ہے_

خذ من اموالهم صدقة

''صدقہ'' كا نكرہ آنا او راسكى مقدار كا معين نہ كرنا شايد اس وجہ سے ہے كہ يہ پيغمبر(ص) اور حاكم اسلامى كے اختيار ميں ہے_

۵_ اموال كا صرف كچھ حصہ بعنوان صدقہ و زكات ليا جاتا ہے نہ پورا مال _

خذ من اموالهم صدقة

مندرجہ بالا نكتہ '' من '' تبعيضيہ سے حاصل ہوتا ہے يعنى اموال كا كچھ حصہ صدقات كے طور پر وصول كرو _

۶_ خدا تعالى كى طرف سے جہاد سے گريز كرنے والے ان لوگوں سے صدقہ (زكات ) لينے كى اجازت جو اپنے گناہ كا اعتراف كرچكے تھے _و آخرون اعترفوا بذنوبهم خذ من اموالهم صدقة

مندرجہ بالا نكتہ آيت كے شان نزول سے حاصل ہوتا ہے كہ جنگ تبوك سے گريز كرنے والے بعض افراد نے نادم ہو كر اپنى غلطى كے مقابلے ميں اپنے تمام اموال بطور صدقہ ادا كرنے كى تجويز پيش كى _

۲۹۴

۷_ حاكم اسلامى كى طرف سے نادم خطاكاروں سے صدقہ ( زكات ) لينے كى غرض انكى روح كو پاكيزہ كرنا اور انكا معنوى تكامل ہونا چاہيے_خذ من اموالهم صدقة تطهرهم و تزكيهم

۸_ صدقات و زكات ادا كرنا انسان كى تطہير ( روح كا آلودگى گناہ سے پاكيزہ ہونا ) اور تزكيہ ( معنوى ترقي) كا سبب ہے_

خذ من اموالہم صدقة تطہرہم و تزكيہم

۹_نفس كى تطہير اور اسے آلودگى اور روحانى موانع سے پاك كرنا انسان كے معنوى رشد و تكامل كا پيش خيمہ ہے _

خذ ...تطهرهم و تزكيهم

۱۰_ معاشرے كى روحانى ترقى اور معنوى تكامل، اسلام كے اقتصادى اور اجتماعى پروگراموں كا اصلى ہدف ہے_

خذ من اموالهم صدقة تطهر هم و تزكيهم

۱۱_ صدقات ( زكات ) ادا كرنا معاشرے كى پاكيزگى اور اسكى اقتصادى رونق كى ضمانت ديتا ہے_*

خذ من اموالهم صدقة تطهرهم و تزكيهم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پرہے كہ تطہير اور ترقى سے مراد صرف انفرادى نہ ہو بلكہ اجتماعى بھى ہو دوسرے الفاظ ميں ، صدقات و زكات چونكہ دولت و ثروت ميں اعتدال كا سبب بنتے ہيں اسلئے معاشرتى عدالت كى ضمانت ديتے ہيں _

۱۲_ مال كے ساتھ دل لگا لينا اور صدقات ( زكات ) ادا كرنے كى طرف مائل نہ ہونا روح كى آلودگى اور انسان كے معنوى عدم تكامل كى علامت ہے_خذ من اموالهم صدقة تطهرهم و تزكيهم به

آيت كا مفہوم بتاتا ہے كہ تطہير و تزكيہ جو مورد توجہ ہے وہ صرف زكات ادا كرنے سے حاصل ہوتا ہے لہذا جو لوگ مال كے ساتھ دل لگا لينے كے نتيجے ميں صدقات ادا نہيں كرتے آلودہ ہيں اور ترقى نہيں كريں گے_

۱۳_ خدا تعالى كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) اور زكات وصول كرنے والوں كو زكات وصول كرتے وقت زكات دينے والوں كيلئے دعا كرنے كا حكم _خذ من اموالهم و صل عليهم

۱۴_ پيغمبراكرم(ص) اور حاكم اسلامى كا زكات دينے والوں كيلئے دعا كرنا ان كے قلبى سكون كا باعث بنتا ہے _

و صل عليهم ان صلوتك سكن لهم

۲۹۵

۱۵_ زكات ادا كرنا اہم كام اور اسلامى معاشرے كے رہبر كى طرف سے قدر دانى كے لائق ہے_

خذ من اموالهم صدقة و صل عليهم ان صلوتك سكن لهم

۱۶_ خدا تعالى كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كو پشيمان ہونے والے گناہگاروں كے صدقات قبول كر كے اور ان كيلئے دعا كركے انكى دلجوئي كرنے كا حكم _خذ من اموالهم صدقة و صل عليهم ان صلوتك سكن لهم

مندرجہ بالا نكتہ اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے كہ جو ان لوگوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں جنہوں نے جنگ تبوك ميں شركت نہيں كى تھى اور اس سے پشيمان ہوكر اپنے پورے اموال كے انفاق كا عزم ركھتے تھے_

۱۷_ دينى اور اجتماعى قوانين كے عملى كرنے ميں لوگوں كے جذبات كى طرف توجہ اور ا ن كے نفسيات كا لحاظ كرنا ضرورى ہے_خذ من اموالهم صدقة و صل عليهم ان صلوتك سكن لهم

۱۸_ پيغمبراكرم (ص) كے غير پر صلوات ( درود ) بھيجنا جائز ہے_صل عليهم

۱۹_ خدا تعالى مومنين كيلئے پيغمبر اكرم (ص) كى دعا قبول كرتا ہے اور اس كا قطعى اثر ہے_صل عليهم و الله سميع عليم

'' صل عليهم '' كے بعد '' سميع عليم '' كا ذكر كرنا پيغمبر اكرم (ص) كى دعا كے قبول ہونے كى طرف اشارہ ہے كيونكہ سننے كى اہميت اور قدر وقيمت اس پر اثر مترتب كرنے كے ساتھ ہے_

۲۰_ خدا تعالى كے احكام و دستورات او ر ہدايات كا سرچشمہ واقعى مصلحتوں اور انكى مثبت تاثير كے بارے ميں اس كا وسيع علم ہے_صل عليهم ان صلوتك سكن لهم و الله سميع عليم

ہو سكتا ہے صفت '' عليم '' خدا تعالى كے ان فرامين'' خذ من اموالہم '' اور '' صل عليہم '' كے عالمانہ ہونے كى طرف اشارہ ہو كيونكہ خداتعالى نے اپنے وسيع علم كى بنياد پر ہر ايك كے مثبت اثر كو بيان فرمايا ہے_

۲۱_ خدا تعالى كى طرف سے جنگ تبوك سے گريز كرنے والے تائبين كى توبہ كے واقعى اور سچا ہونے كى تائيد _

خذ من اموالهم و صل عليهم و الله سميع عليم

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ آيت كا اسكے شان نزول كو مدنظر ركھتے ہوئے معنى كريں كہ يہ آيت كريمہ جنگ تبوك سے گريز كرنے والوں كے بارے ميں نازل ہوئي _

۲۹۶

اس احتمال كى بنا پر ہو سكتا ہے صفت '' عليم '' اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو كہ خدا تعالى نے ان كے صدقات كو توبہ كيلئے سمجھا اور اسى وجہ سے انكى زكات وصول كرنے اور ان كيلئے دعا كرنے كا حكم ديا _

۲۲_ خدا تعالى سميع ( سب كچھ سننے والا ) اور عليم ( وسيع علم والا ) ہے_و الله سميع عليم

۲۳_ بعض اصحاب سے روايت ہے كہ :امام صادق (ع) سے سوال كيا گيا:''خذ من اموالهم صدقة ...'' جارية هى فى الامام بعد رسول الله؟ قال: نعم; خدا تعالى كا يه فرمان '' ان كے اموال سے صدقة وصول كر ...'' كيا پيغمبر (ص) كے بعد امام كے حق ميں بھى جارى ہے ؟ تو فرمايا ہاں _(۱)

۲۴_ امام جواد (ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا :انّ موالى اسئل الله صلاحهم او بعضهم قصروا فيما يجب عليهم فعلمت ذلك فاحببت ان اطهر هم وازكيهم بما فعلت فى عامى هذا من امرالخمس قا ل الله تعالى : خذمن اموالهم صدقة تطهّرهم و تزكّيهم بها '';ہمارے محبين، ان كيلئے خدا تعالى سے صلاح و خير چاہتا ہوں ، يا ان ميں سے بعض نے واجبات كى ادائيگى ميں كوتاہى كى اور ميں اس سے مطلع ہوا تو ميں چاہتا تھا كہ اس سال ميں نے خمس كا جو پروگرام بنايا ہے اسكے ذريعے انكا تزكيہ اور تطہير كروں _ خدا تعالى نے فرمايا ہے'' ان كے اموال سے صدقہ وصول كر تا كہ اسكے ذريعے انكاتزكيہ و تطہيرہو ...''(۲)

۲۵_ امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا :يجبر الامام الناس على اخذ الزكاة من اموالهم لان الله عزوجل قال : خذ من اموالهم صدقة ...'' امام لوگوں كو مجبور كرے گا كہ ان كے اموال سے زكات وصول كى جائے_كيونكہ خدا تعالى نے فرمايا ہے ''ان كے اموال سے صدقہ وصول كر ...''(۳)

۲۶_ امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا : ''يحبر الامام الناس على اخذ الزكاة من اموالہم لان اللہ عزوجل قال: خذ من اموالہم صدقة ...''جو يہ سمجھتا ہے كہ امام لوگوں كے اموال كا محتاج ہے وہ كافر ہے بلكہ يہ لوگوں كى ضرورت ہے كہ امام ان كے صدقات كو قبول كرے

____________________

۱)تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۰۶ ح ۱۱۱ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۹ ح ۳۰۲_

۲)تہذيب شيخ طوسى ج ۴ ص ۱۴۱ ح ۲۰ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۹ ح ۳۰۱ _

۳)دعائم الاسلام ج ۱ ص ۲۵۳ _ بحار الانوار ج ۹۳ ص ۸۶ ح ۷_

۲۹۷

خدا تعالى نے فرمايا ہے ''ان كے اموال سے صدقہ وصول كرتا كہ اسكے ذريعے انكا تزكيہ اور تطہير كرے''_(۱)

۲۷_ عبداللہ ابن سنان كہتے ہيں امام صادق(ع) نے فرمايا :''لما انزلت آية الزكاة ''خذمن اموالهم صدقة ...'' ...فامر رسول الله (ص) مناديه فنادى فى الناس ان الله فرض عليكم الزكاة ...ففرض الله عزوجل عليهم من الذهب والفضة و فرض الصدقة من الابل والبقر والغنم ومن الحنطة والثعيروالتمر والذبيب ...وعفا لهم عمّا سوى ذلك ...'' ; جب آيت زكات ''ان كے اموال سے زكات وصول كر ...'' نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے اپنے منادى كو حكم ديا اور اس نے لوگوں كے در ميان اعلان كيا كہ خدا تعالى نے تم پر زكات واجب فرمائي ہے پس خدا تعالى نے سونے اور چاندى ميں ( زكات ) واجب كى ہے نيز اونٹ ، گائے ، بھيڑبكرى ، گندم ، جو ، كھجور اور كشمش ميں صدقہ واجب كيا ہے_ اور اسكے علاوہ كو لوگوں كيلئے چھوڑ ديا ہے_(۲)

احكام :۲،۵،۱۸،۲۳،۲۵،۲۷ان كے اجرا كرنے كى روش ۱۷

اسما و صفات :سميع ۲۲; عليم ۲۲

اقتصاد :اقتصادى ترقى كا ذريعہ۱۱; اقتصادى سياست كا فلسفہ ۱۰

ائمہ :انكے اختيارات ۲۳

پاكيزگى :اس كا پيش خيمہ ۸;اسكے آثار ۹

پليدگى :اسكے عوامل ۱۲

تزكيہ :اس كا پيش خيمہ ۸; اسكى اہميت ۷; اسكے عوامل ۲۴،۲۶

تكامل :اسكا سرچشمہ ۹; اسكے موانع ۱۲

جذبات :انكى اہميت ۱۷

جہاد:اسكے ترك كرنے والے اور زكات ۶

خدا تعالى :

____________________

۱)اصول كافى ج ۱ ص ۵۳۷ ح ۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۶۰ ح ۳۰۴_

۲)كافى ج ۳ ص ۴۹۷ ح ۲ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۶۰ ح ۳۰۶_

۲۹۸

اس كا اذن ۶; اس كا علم ۲۰ ; اسكى نصيحتيں ۱۳; اسكے اوامر ۱،۱۶;اسكے اوامر كا سرچشمہ ۲۰

دينى راہنما:انكى دعا كے آثار ۱۴;انكى ذمہ دارى ۴،۱۵; انكى شرعى ذمہ دارى ۳;يہ اور زكات وصول كرنا ۳; يہ اور صدقات وصول كرنا ۳

روايت:۲۳،۲۴،۲۵،۲۶،۲۷

رہبر:اسكے اختيارات ۲۰

زكات :اس پر مجبور كرنا ۲۵;اس كا فلسفہ ۷;اسكى اہميت ۱۵; اسكے آثار ۸،۱۱; اس كے احكام ۲،۵،۲۵،۲۷; اسكے ترك كرنے كے آثار ۱۲;اس كے وصول كرنے والے كو نصيحت ۱۳; زكات دينے والے كے سكون كے عوامل ۱۴; زكات دينے والے كيلئے دعا ۱۳; يہ كن چيزوں ميں ہے۲،۴،۵،۲۷

صدقات :انكا فلسفہ ۷;انكے آثار ۸،۱۱،۲۴،۲۶;ان كے احكام ۲،۵،۲۳; ان كے ادا نہ كرنے كے آثار ۱۲; يہ كن چيزوں ميں ہے۲۷

صلوات :انكے احكام ۱۸

غزوہ تبوك :اس سے گريز كرنے والوں كى توبہ ۲۱; اس كے توبہ كرنے والوں كے صدقات ۲۱

قانون:اسكے اجرا كى روش ۱۷

گناہگا ر لوگ:انكے صدقات كا قبول ہونا ۱۶; پشيمان ہونے والے گناہگاروں كى دلجوئي ۱۶; پشيمان ہونے واے گناہگاروں كى زكات ۷; پشيمان ہونے والے گناہگاروں كيلئے دعا ۱۶

مال دوستى :اسكے ثار ۱۲

محمد (ص) :آپ(ص) اور جہاد سے گريز كرنے والے۶; آپ(ص) اور زكات وصول كرنا ۱،۶; آپ(ص) اور صدقات كن چيزوں ميں ہے۴;آپ(ص) اور صدقات وصول كرنا ۱،۳،۶;آپ (ص) اور مومنين ۱۹; آپ(ص) كو اجازت ۶; آپ(ص) كو نصيحت ۱۳;آپ(ص) كى دعا كا قبول ہونا ۱۹ ; آپ (ص) كى دعا كے آثار ۱۴;آپ(ص) كى ذمہ دارى ۴،۱۶; آپ (ص) كى شرعى ذمہ دارى ۱،۳

معاشرہ:اسكى پاكيزگى كاپيش خيمہ۱۱;اسكى پاكيزگى كى اہميت ۱۰; اسكى معاشرتى سياست كا فلسفہ ۱۰

مومنين :ان پر صلوات ۱۸

۲۹۹

آیت ۱۰۴

( أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ )

كيا يہ نہيں جانتے كہ اللہ ہى اپنے بندوں كى توبہ قبول كرتا ہے اور زكوة و خيرات كو وصول كرتا ہے اور وہى بڑا تو بہ قبول كرنے والا اور مہربان ہے _

۱_ توبہ قبول كرنا صرف خدا تعالى كا كام ہے_صل عليهم ان الله هو يقبل التوبة

مندرجہ بالا نكتہ اس جملے ( ان اللہ ہو يقبل التوبة ) ميں ضمير فصل كے آنے سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ اگر مبتدا كى خبر پر الف و لام جنس نہ ہو تو ضمير فصل حصر كا فائدہ ديتى ہے _

۲_ بندوں كى توبہ قبول كرنا خدا تعالى كا ان كے ساتھ حتمى وعدہ _الم يعلمون ان الله هو يقبل التوبة عن عباده

۳_ زكات وصول كرنے والا در حقيقت خدا ہے اور پيغمبراكرم (ص) اور حاكم اسلامى صرف واسطے ہيں _

خذ من اموالهم صدقة و يا خذ الصدقات

۴_ توبہ كر لينے والے گناہگاروں كے صدقات و خيرات كو خدا تعالى قبول كر ليتاہے_

و آخرون اعترفوا بذنوبهم خذ من اموالهم صدقة و يا خذ الصدقات

۵_ خدا تعالى كى طرف سے گناہگاروں كى توبہ قبول كرنا ان كى اپنى صداقت كے اظہار كيلئے عملى اقدامات كے ساتھ مشروط ہے_ان الله هو يقبل التوبة عن عباده و يا خذ الصدقات

۶_ گناہگاروں كى توبہ قبول كرنا ; اعتراف ، نيز گناہ كى جڑوں كو خشك كرنے كے بعد ہے نہ صرف ندامت كى صورت ميں _

و آخرون اعترفوا بذنوبهم هو يقبل التوبة عن عباده و يا خذ الصدقات

مندرجہ بالانكتہ شان نزول كو مد نظر ركھتے ہوئے

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430