خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات13%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 371631 / ڈاؤنلوڈ: 5563
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

۴_ تمام انسان حتى كہ انبياءعليه‌السلام بھى اپنے سود و زيان كى آگاہى سے عاجز ہيں _قل لا أملك لنفسى نفعاً و لا ضراً

گذشتہ آيت كے پيش نظر كہ جو قيامت كے وقت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عدم آگاہى پر دلالت كرتى ہے نيز بعد والے جملے كو سامنے ركھتے ہوئے كہ جو پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے علم غيب سے عدم آگاہى كا تذكرہ كررہاہے يہ كہا جاسكتاہے كہ ''لا أملك'' كا جملہ سود و زيان كے بارے ميں علمى حوالے سے قدرت ركھنے كو بھى مدنظر ركھ رہاہے_ لہذا'' لا املك ''اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ انسان اپنے نفع و نقصان كى پہچان سے بھى عاجز ہے_

۵_ انسان، فقط خواست خداوند كے مطابق، اپنے نفع و نقصان سے آگاہ ہوتاہے_

قل لا أملك لنفسى نفعا و لا ضرا إلا ما شاء الله

۶_ انسانوں كے تمام امور اور پورى كائنات پر خداوند، اور اس كى مشيت حاكم ہے_

قل لا أملك لنفسى نفعا و لا ضرا إلا ماشاء الله

۷_ زمانہ بعثت كے بعض لوگوں كے خيال ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غيبى امور سے آگاہ تھے_

لو كنت أعلم الغيب لا ستكثرت من الخير

۸_ تمام انسان، حتى انبياء الہيعليه‌السلام كائنات كے غيبى امور سے آگاہ نہيں ہيں _و لو كنت أعلم الغيب

۹_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا زندگى ميں مشكلات و سختيوں كا سامنا كرنا اور بہت سے فوائد و منافع تك رسائی حاصل نہ كرسكنا اس بات كى علامت ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (على الاطلاق) غيبى امور اور پنہان چيزوں سے آگاہ نہيں تھے_

و لو كنت أعلم الغيب لاستكثرت من الخير

جب (استكثرت'' كے مصدر) ''استكثار'' كے بعد ''من'' كو لايا جائیے تو بہت زيادہ منافع حاصل كرنے اور فراوان چيز ہاتھ لگنے كے معنى ميں ہوتاہے بنابرايں ''استكثرت من الخير'' يعنى ميں نے بہت زيادہ منافع، فوائد حاصل كيئے ہيں _

۱۰_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوند كى جانب سے مامور تھے كہ اپنى قدرت و توان كے خداوند كى مشيت سے وابستہ ہونے اور غيبى امور سے اپنے آگاہ نہ ہونے كے

۴۰۱

بارے ميں لوگوں كو بتائیں _قل لا أملك ...و لو كنت أعلم الغيب

۱۱_ علم، رفاہ و آساءش كا مقدمہ اور ضرر و سختى سے بچنے كا باعث بنتاہے_

لو كنت أعلم الغيب لاستكثرت من الخير و ما مسنى السوئ

۱۲_ جہالت، انسان كى زندگى ميں مشكلات اور خسارے و زيان كے وارد ہونے كا پيش خيمہ بنتى ہے_

لو كنت اعلم الغيب ...ما مسنى السوئ

۱۳_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دينى معارف و حقائق پر استدلال كرنے كے سلسلے ميں وحى اور الہى ہدايت و تعليم كے تابع تھے_

قل لا أملك لنفسى نفعا ...و لو كنت أعلم الغيب

آيہء شريفہ اس توہّم كو ختم كرنے پر ايك استدلال ہے كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غيب اور قيامت كے برپا ہونے كے وقت سے آگاہ و عالم تھے_ آيت كا كلمہ ''قل'' سے شروع ہونا اس نكتے كى طرف اشارہ ہے كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حتى تبيين استدلال ميں بھى وحى كے تابع ہيں اور استدلال كرنے كا طريقہ و روش بھى خداوند سے سيكھتے ہيں _

۱۴_ قيامت برپا ہونے كا وقت، غيبى امور ميں سے ہے_لو كنت أعلم الغيب لاستكثرت من الخير

جو لوگ خيال كرتے تھے كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قيامت كے برپا ہونے كے وقت سے آگاہ ہيں ، ان كے جواب ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جملہء ''لو كنت اعلم الغيب ...'' كے ذريعے واضح كررہے ہيں كہ ميں غيب كا علم نہيں ركھتا، يعنى قيامت كے برپا ہونے كا وقت كائنات كے غيبى امور ميں سے ہے_

۱۵_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيات مباركہ دوسرے لوگوں كى طرح، رنج و سختى سے بھرى پڑى تھي_و ما مسنى السوئ

۱۶_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بنيادى فرائض ميں سے ايك، لوگوں كو انذار كرنا (ڈرانا) اور كفر پيشہ افراد كے برے انجام سے آگاہ كرنا تھا_إن أنا إلا نذير

ہوسكتاہے ''لقوم'' ميں لام ''لام تقويت'' ہو اور ہوسكتاہے ''لام'' انتفاع كے طور پر ليا گيا ہو، پہلے احتمال كى بناء پركلمہ ''قوم'' ''نذير و بشير'' كيلئے مفعول ہوگا، اور آيت كا معنى يہ ہوگا كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مؤمنين كو انذار كريں گے اور انھيں بشارت ديں گے، اور دوسرے احتمال كى بناء پر ''نذير و بشير'' كا مفعول تمام لوگ ہيں اور ''لقوم يؤمنون'' سے ظاہر ہوتاہے كہ فقط مؤمنين انذار و بشارت سے بہرہ مند ہونگے_

۱۷_ لوگوں كو بشارت دينا اور انھيں اہل ايمان كے نيك و مبارك انجام سے آگاہ كرنا، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بنيادى

۴۰۲

فرائض ميں سے ہے_إن أنا إلا نذير و بشير

۱۸_ فقط مؤمنين اور اعتقاد و تصديق كا سرمايہ ركھنے والے لوگ ہى انبياءعليه‌السلام كے انذار و بشارت سے اثر قبول كرنے والے اور ان كے پيام سے بہرہ مند ہونے والے ہيں _إن أنا إلا نذير و بشير لقوم يؤمنون

۱۹_ زمانہء بعثت كے بعض لوگ، غيبى امور سے آگاہى كو رسالت و نبوت كا لازمہ سمجھتے تھے_

لو كنت أاعلم الغيب لاستكثرت من الخير ...إن انا إلا نذير

جملہء ''إن انا ...'' ميں حصر ،ان توہمات و خيالات كو مدنظر ركھ رہاہے كہ جو لوگوں كے درميان پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں پھيلے ہوئے تھے، ان ميں سے ايك، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا علم غيب ركھنا بھى تھا، جملہء ''إن أنا ...'' بيان كررہاہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقط نذير و بشير ہيں يعنى غيب كا عالم ہونا نبوت و رسالت كا لازمہ نہيں _

۲۰_عن أبى عبدالله عليه‌السلام : ...إن اللّه تعالى يقول: و لو كنت أعلم الغيب لاستكثرت من الخير و ما مسنى السوئ'' يعنى الفقر (۱) امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ آپعليه‌السلام نے آيہء مجيدہ ''و لو كنت أعلم الغيب ...'' كى تلاوت كرنے كے بعد فرمايا: اس آيت ميں ''سوئ'' سے مراد فقر ہے_

آفرينش:آفرينش و خلقت كا حاكم ۶;آفرينش و خلقت كےغيب ۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى حاكميت ۶; اللہ تعالى كى مشيت ،۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۰

امور:غيبى امور ۱۴

انبياءعليه‌السلام :انبياء كا علم غيب ۸;انبياء كى بشارتيں ۱۸;انبياء كے انذار ۱۸;انبياء كے علم غيب كى محدوديت ۸; ضعف انبياء ۱، ۴

انجام:برا انجام ۱۶;نيك انجام ۱۷

انذار:انذار كى تا ثير كى شرائط ۱۸

انسان:انسانوں كا حاكم، ۶;انسان كى جہالت ۸;انسان كى كمزورى ۱، ۴ ;قدرت انسان ۲

بشارت:تا ثير بشارت كى شرائط ۱۸

____________________

۱)معانى الاخبار ص ۱۷۲ ح ۱; نورالثقلين ج/۲ ص ۱۰۷ ح ۳۹۵_

۴۰۳

جہالت:جہالت كے اثرات ۱۲

حق پذيري:حق پذيرى كا حوصلہ ۱۸

خسارہ:خسارے كى راہ ہموار ہونا ۱۲

رفاہ:رفاہ و آساءش كى راہ ہموار ہونا ۱۱

سختي:سختى و مشكل سے نجات كے علل و اسباب ۱۱;سختى و مشكل كا زمينہ ۱۲

ضرر:دفع ضرر، ۱، ۲ ;دفع ضرر كے علل و اسباب ۱۱ ;ضرر كا منشاء ۳;ضرر و نقصان كى پہچان ۴، ۵

علم:علم كے اثرات ۱۱

علم غيب:علم غيب كى اہميت ۱۹

قيامت:قيامت برپا ہونے كا وقت ۱۴

كفار:كفار كا انجام ۱۶

مؤمنين:مؤمنين كا انجام ۱۷;مؤمنين كا حق كو قبول كرنا ۱۸

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :علم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى محدوديت ۹، ۱۰; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور وحى ۱۳; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا علم غيب ۷، ۹، ۱۰; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بشارتيں ۱۷;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغى سيرت ۱۳; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى ۱۵; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى قدرت ۱۰; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انذار ۱۶;مسؤليت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۰، ۱۶، ۱۷ ;مشكلات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۹، ۱۵

لوگ:صدر اسلام كے لوگوں كا عقيدہ ۷، ۱۹

منفعت:تشخيص منفعت ۴، ۵ ;حصول منفعت كى شرائط ۳; منفعت كا حصول ۱، ۲

نبوت:نبوت كى شرائط ۱۹;

وحي:وحى كا كردار ۱۳

۴۰۴

آیت ۱۸۸

( قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلاَ ضَرّاً إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )

وہى خدا ہے جس نے تم سب كو ايك نفس سے پيدا كيا ہے اور پھر اسى سے اس كا جوڑا با يا ہے تا كہ اس سے سكون حاصل ہو اس كے بعد شوہر نے زوجہ سے مقارت كى تو ہلكا سا حمل پيدا ہوا جسے وہ لئے پھرتى رہى پھر حمل بھارى ہوا اور وقت ولادت قريب آيا تو دونوں نے پروردگار سے دعا كى كہ اگر ہم كو صالح اولاد ديدے گا تو ہم تيرے شكر گذار بندوں ميں ہوں گے (۱۸۹)

۱_ تمام انسانوں كو پيدا كرنے والا خداوند ہے_هو الذى خلقكم

۲_ تمام انسانوں كا منشاء و مبداء ايك ہى شخص (آدمعليه‌السلام ) ہے_خلقكم من نفس واحدة

مندرجہ بالا مفہوم اور اسى جيسے دوسرے مفاہيم كى بنياد يہ ہے كہ نفس واحدہ سے مراد ،آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام دونوں ہيں _

۳_ خداوند نے آدمعليه‌السلام كى زوجہ كو خود انہى سے خلق كيا_جعل منها زوجها

يہ مفہوم اس بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''منھا'' ميں ''من'' نشويہ ہو_ اس بناء پر ''جعل منھا زوجھا'' يہ ظاہر كررہاہے كہ آدمعليه‌السلام ہى خلقت حواعليه‌السلام كا منشاء ہے_

۴_ آدمعليه‌السلام كى زوجہ (حواعليه‌السلام ) جنس و نوع ميں انہى كى طرح انسان ہيں _

جعل منها زوجها

يہ مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''منھا'' ميں ''من'' جنسيہ ہو بنابرايں جملہ ''جعل ...'' يہ بيان كررہاہے كہ آدمعليه‌السلام كى زوجہ انسان تھيں اور انہى كى جنس و نوع سے تھيں _

۴۰۵

۵_ خداوند نے حواعليه‌السلام كو خلق كيا تا كہ آدمعليه‌السلام ان سے تسكين پائیں _ليسكن إليها

''إليھا ...'' كى ضمير ''زوج ...'' كى طرف اور ''يسكن'' كى ضمير ''نفس واحدة'' كى طرف پلٹتى ہے نفس واحدہ كى جانب مذكر ضمير كا لوٹايا جانا، اس كے معنى و مراد (آدمعليه‌السلام ) كى وجہ سے ہے_

۶_ بيوي، انسان كيلئے راحت و سكون كا باعث ہے_جعل منها زوجها ليسكن إليها

۷_ حواعليه‌السلام كے ساتھ آدمعليه‌السلام كى آميزش كے بعد، اسے ہلكا سا حمل ہوگيا_فلما تغشها حملت حملًا خفيفاً

''تغشى '' يعنى ''ڈھانكا'' اور آيت ميں آميزش سے كنايہ ہے ''تغشى '' كى ضمير ''نفس واحدة كى طرف پلٹتى ہے كہ جس سے مراد آدمعليه‌السلام ہيں _

۸_ حمل كى ابتداء ميں ، اس كے ہلكے و ناچيز ہونے كى وجہ سے حواعليه‌السلام اس كى جانب متوجہ نہيں تھيں اور اس كے بارے ميں انھيں كوئي فكر و انديشہ نہيں تھا_حملت حملًا خفيفاً فمرت به

''بہ'' كى ضمير ''حملا'' كى طرف پلٹتى ہے كہ جس سے مراد جنين ہے ''مروراً'' ''مرت'' كا مصدر ہے جسكا مطلب چلنا پھرنااور گذر كرناہے اور يہاں بے اعتنائی سے كنايہ ہے_

۹_ رشد جنين كى وجہ سے حواعليه‌السلام كے بھارى ہوجانے كے بعد، آدمعليه‌السلام اور حواعليه‌السلام نے بارگاہ خداوند ميں دعا و نياءش كي_

فلما أثقلت دعوا اللّه ربهما

۱۰_ آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام نے بارگاہ خداوند ميں دعا كرتے ہوئے اس سے ايك صالح و سالم بچہ مانگا كہ جو زندہ رہے_

دعو اللّه ربهما لئن ء اتيتنا صا لحاً لنكونن من الشكرين

لغت ميں صالح اس شخص كو يا اس چيز كو كہا جاتاہے كہ جس ميں خرابى نہ ہو_ بحث كى مناسبت سے، اس سے مراد ہر عيب و نقص سے پاك، صحيح و سالم بچہ ہے كہ جو زندہ رہنے كى استعداد ركھتا ہو_

قابل ذكر ہے كہ جملہ''فلما ء اتهما صلحاً ...'' اس بات پر دلالت كررہاہے كہ صالح سے شرع كے مطابق عام معنى (يعنى نيك و پاكدامن) مراد نہيں _

۱۱_ بچے كے شكم مادر ميں ہونے كے دوران، والدين كو چاہيئے كہ وہ خداوند كى طرف رجوع و توجہ كريں اور اس سے صحيح و سالم اولاد طلب كريں _

۴۰۶

فلما أثقلت دعوا اللّه ربهما لئن ء اتيتنا صلحاً

اگر نفس واحدہ سے مراد، آدمعليه‌السلام اور ان كى زوجہ حوّاعليه‌السلام ہوں تو ان كے بارے ميں بيان ہونے والے حقائق، پہلے ماں باپ ہونے كے عنوان سے، قصے و داستان كا پہلو نہيں ركھتے بلكہ انسان كى فطرت نوعى كى طرف اشارہ ہے_

۱۲_ بچے كے شكم مادر ميں ہونے كے دوران، والدين فقط خداوند كو، صحيح و سالم اولاد و فرزند عطا كرنے ميں موثر سمجھتے ہيں _لئن ء اتيتنا صلحا

۱۳_ آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام نے بارگاہ خداوند ميں كہا كہ صحيح و سالم فرزند عطا ہونے كى صورت ميں وہ ہميشہ اس كے شكر گذار رہيں گے_دعوا اللّه ربهما لئن ء اتيتنا صلحاً لنكونن من الشكرين

۱۴_ خداوند، انسانوں كا پروردگار اور ان كے امور كى تدبير كرنے والا ہے_دعو اللّه ربهما

۱۵_ سالم و شاءستہ فرزند، خدا كى نعمتوں ميں سے ہے اور اس كى خاطر بارگاہ خدا ميں شكر بجا لانا چاہيئے_

لئن ء اتيتنا صلحاً لنكونن من الشكرين

آدمعليه‌السلام :آدمعليه‌السلام كا خدا سے عہد ۱۳; آدمعليه‌السلام كا سكون و قرار ۵; آدم كى دعا ۹، ۱۰ ; آدم كى زوجہ ۳، ۴; آدمعليه‌السلام كى طلب ۱۰;آميزش آدمعليه‌السلام ۷;شكر آدمعليه‌السلام ۱۳;قصہء آدمعليه‌السلام ۷، ۹، ۱۰

آرام و سكون:آرام و سكون كے علل و اسباب ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كيتدبير ،۱۴; اللہ تعالى كى خالقيت ،۱

انسان:انسانوں كا باپ ۲;انسانوں كا خالق ۱;انسانوں كى پيداءش كا منشاء ۲;انسانوں كے امور كى تدبير ۱۴

اولاد:صالح فرزند كى نعمت ۱۳، ۱۵;صحيح و سالم اولاد كى درخواست ۱۰، ۱۱;صحيح و سالم اولاد كى نعمت ۱۳، ۱۵

حمل:حمل كے آداب ۱۱;حمل كے وقت دعا ۱۱

حوا:حوا كا حمل ۷، ۸، ۹;حوا كا خدا سے عہد ۱۳;حوا كا شكر ۱۳; حوا كى جنس ۴; حوا كى خلقت ۳ ; حوا كى خواہش ۱۰;حوا كى دعا ۹، ۱۰ ; خلقت حوا كا فلسفہ ۵;قصہء حوا ۳، ۴، ۷، ۸، ۹، ۱۰

زوجہ :زوجہ كے ساتھ آرام و سكون ۶;زوجہ كى اہميت ۶

شاكرين: ۱۳

۴۰۷

شكر:نعمت شكر ۱۵

نومولود:نومولود كى سلامتى كا سرچشمہ ۱۲

آیت ۱۹۰

( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحاً جَعَلاَ لَهُ شُرَكَاء فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) ۰

اس كے بعد جب اس نے صالح فرزند دے ديتا تو اللہ كى عطا ميں اس كا شريك قرار دے ديا جب كہ خدا ان شريكوں سے كہيں زيادہ بلند و برتر ہے (۱۹۰)

۱_ خداوند نے آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى درخواست قبول كرتے ہوئے انھيں ايك صحيح و سالم اور شاءستہ فرزند عطا كيا_

دعوا اللّه ربهما لئن ...فلما ء اتهما صلحاً

۲_ خداوندہى بندوں كى دعا قبول كرنے والا ہے_دعوا اللّه ربهما ...فلما ء اتهما صلحاً

۳_اولاد عطا كرنا اور اسكى صحت و سلامتى كے تقاضوں كو پورا كرنا خداوند كے ہاتھ ميں اور اس كے اختيار ميں ہے_

فلما ء اتهما صلحاً

۴_ آدمعليه‌السلام اور حوّاعليه‌السلام غير خدا كو اپنے بچوں كى خلقت اور صحت و سلامتى ميں مؤثر خيال كرنے لگے اور شرك كي

طرف مائل ہوگئے_فلما ء اتهما صلحاً جعلا له شركاء فيما ء اتهما

جملہ ''جعلا لہ شركاء'' (اسكے لئے انھوں نے شريك ٹھہرائے) كى وجہ سے بعض مفسرين كا نظريہ ہے كہ نفس واحدہ اور اس كى زوجہ سے مراد آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام نہيں ہيں چونكہ وہ شرك سے منزہ و پاك ہيں ، بلكہ مطلق ماں باپ مراد ہيں ، بعض دوسرے مفسرين كا خيال ہے كہ يہاں شرك سے مراد طبيعى علل و اسباب كى طرف توجہ ہے گويا كہ يہ (توجہ) اخلاص كامل كے منافى ہے ليكن اصل توحيد كے ساتھ ناموافق نہيں اور آدمعليه‌السلام كى طرف اس معنى كو منسوب كرنا كوئي عيب نہيں ہے_

۵_ آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام نے خداوند كے ساتھ كيئے گئے اپنے عہد كو وفا نہيں كيا (يعنى وہ صالح اولاد عطا ہونے پر شكر بجانہيں لائے)_

۴۰۸

لنكونن من الشكرين_ فلما ء اتهما صلحاً جعلا له شركائ

۶_ عام طور پر سب انسان مشكلات اور پريشانيوں سے نجات پانے كے بعد اپنے نجات بخش (خداوند) كو فراموش كرديتے ہيں اور اسكے لئے شريك ٹھہرانے لگتے ہيں _لئن ء اتيتنا ...فلما اتهما صلحاً جعلا له شركائ

۷_ انسان، صحيح و سالم اولاد عطا ہوجانے كے بعد اپنے جنين كى خلقت و سلامتى ميں خداوند كى يگانگى كا اعتقاد ركھنے كے باوجود، شرك كى طرف مائل ہوجاتے ہيں اور اپنے بچوں كى خلقت و سلامتى ميں غير خدا كو مؤثر جاننے لگتے ہيں _

لئن ء اتيتنا صلحاً ...فلما ء اتهما صلحاً جعلا له شركائ

۸_ انسان، بارگاہ خداوند ميں دعا و نياءش كے بعد اور اپنى آرزوئيں اور حاجات حاصل كرلينے كے بعد، خدا كے ساتھ باندھے گئے اپنے اپنے عہد و پيمان بھول جاتے ہيں اور انھيں توڑ ڈالتے ہيں _لئن اتيتنا صلحاً ...فلما ء اتهما صلحاً جعلا له شركائ

۹_ خداوند اس سے برتر ہے كہ اس كے ساتھ كسى كو شريك ٹھہرايا جائیے_فتعلى اللّه عما يشركون

''تعالي'' (تعالى كا مصدر ہے) جس كا معنى بلند مرتبہ اور برتر ہونا ہے ''عما'' ''عن'' بمعنى مجاوزہ اور ''ما'' مصدريہ سے مركب ہے_ بنابراين''تعالى اللّه عما يشركون'' يعنى خداوند، اپنے بلند مرتبہ ہونے كى وجہ سے، پاك و منزہ ہے كہ اس كا كوئي شريك ٹھہرايا جائیے_

۱۰_ خداوند كى عظمت و كبريائی كى طرف توجہ و دھيان، انسان كو اسكے ساتھ شريك قرار دينے كے توھم سے روكے ركھتاہے_فتعلى اللّه عما يشركون

گذشتہ مفہوم كى وضاحت كے مطابق جملہ ''فتعالى ...'' سے يہ نكتہ اخذ ہوتا ہے كہ خداوند كيلئے شريك قرار دينا، در حقيقت اسكى عظمت و كبريائی كو نہ پہچاننے كى وجہ سے ہے_

۱۱_على بن محمد بن الجهم قال: حضرت مجلس المأمون و عنده الرضا عليه‌السلام ...فقال له المأمون: فما معنى قول اللّه عزوجل: ''فلما أتاهم صالحاً جعلا له شركاء فيما آتاهما'' فقال له الرضا عليه‌السلام : ...إن آدم و حواء ...قالا: ''لئن آتيتنا صالحاً لنكونن من الشاكرين فلما آتيهما صالحاً'' من النسل خلقا سويا بريئا من الزمانة والعاهة و كان ما آتاهما صنفين صنفاً ذكراناً و صنفاً اناثا فجعل الضنفان لله تعالى ذكره

۴۰۹

شركاء فيما آتاهما (۱)

على بن محمد جہم كہتے ہيں : ميں مامون كے دربار ميں تھا اور امام رضاعليه‌السلام بھى وہاں تشريف فرما تھے مامون نے امام رضاعليه‌السلام سے عرض كى كہ قرآن مجيد كى اس آيت كا كيا مطلب ہے؟''فلما اتهما صلحا جعلا له شركائ'' ؟ امام رضاعليه‌السلام نے فرمايا: ...آدمعليه‌السلام و حوا ...نے خداوند سے عرض كى ''اگر ہميں صالح اولاد عطا كى توہم تيرا شكر ادا كريں گے، اب خداوند نے انھيں دو صالح (صحيح و سالم) بچے عطا كيئے _ يعنى خلقت و صحت و سلامتى كے لحاظ سے ايك كامل نسل (انھيں عطا كى گئي) اور اس نسل كے دو گروہ تھے_ مذكر و مؤنث اور ان دونوں قسموں (مذكر و مؤنث) نے ،جو كچھ خداتعالى نے ان كو ديا، اس ميں شرك شروع كرديا

آدمعليه‌السلام :آدمعليه‌السلام اور شرك ۴;آدمعليه‌السلام كا خدا سے عہد ۵; آدمعليه‌السلام كو اولاد عطا ہونا ۱، ۴، ۵; آدمعليه‌السلام كى دعا قبول ہونا ; آدمعليه‌السلام كى عہد شكنى ۵; آدمعليه‌السلام كے تقاضے ۱; آدم كے رجحانات ۴; قصہء آدمعليه‌السلام ۱، ۴; كفران آدمعليه‌السلام ۵

اضطراب:رفع اضطراب كے اثرات ۶ اللہ تعالى :اللہ تعالى كامنزہ ہونا ،۹;اللہ تعالى كو فراموش

كرنے كى وجوہات ۶، ۸;اللہ تعالى كى وحدانيت ۹;اللہ تعالى كے اختيارات ۳;اللہ تعالى كے افعال۲

انحراف:انحراف كے علل و اسباب ۶

انسان:انسانوں كا خدا سے عہد ۸;انسانوں كى عہد شكنى ۸

اولاد:اولاد عطا ہونا ۳

توحيد:توحيد افعالى ۷

حوّاعليه‌السلام :حوا كا خدا سے عہد ۵;حوا كو اولاد عطا ہونا ۱، ۴، ۵ ; حوا كى درخواست ۱; حوا كى دعا قبول ہونا،۱ ; حوا كى عہد شكنى ۵;حوا كے رجحانات ۴; قصہء حوا، ۱، ۴ ; كفران حوا ۵

دعا:اجابت دعا ۲

ذكر:ذكر خدا كے اثرات ۱۵

شرك:شرك افعالى كى راہ ہموار ہونا ۷;شرك كى راہ ہموار ہونا ۶;موانع شرك ۱۰

____________________

۱) عيون اخبار الرضا، ج۱، ص ۱۹۶، ح،۱، باب ۱۵; نورالثقلين، ج۲، ص ۱۰۸، ح ۳۹۷_

۴۱۰

عہد شكني:عہد شكنى كى راہ ہموار ہونا ۸

نومولود:نومولود كى سلامتى كا منشاء ۳، ۷

آیت ۱۹۱

( أَيُشْرِكُونَ مَا لاَ يَخْلُقُ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَ )

كيا يہ لوگ انھيں شريك بناتے ہيں جو كوئي شے خلق نہيں كر سكتے اور خود بھى مخلوق ہيں (۱۹۱)

۱_ مشركين ان موجودات كو خداوند كا شريك ٹھہراتے ہيں كہ جو كمترين اور (معمولى سي) چيز خلق كرنے پر بھى قادر نہيں _

أيشركون ما لا يخلق شيئا

اس مفہوم ميں كلمہ ''كمترين'' ''شيئاً'' كے نكرہ ہونے كى وجہ سے لايا گيا ہے_

۲_ كائنات كى تدبير كرنے ،ربوبيت كے قابل ہونے اور سچا و حقيقى معبود ہونے كے معيار ميں سے ايك خلق كرنے پر قادر ہوناہے_أيشركون ما لا يخلق شيئا

گذشتہ اور بعد ميں آنے والى آيات سے معلوم ہوتاہے كہ شرك سے مراد، ربوبيت و عبادت ميں شرك كرنا ہے_

۳_ مشركين ان موجودات كو خداوند كا شريك ٹھہراتے تھے كہ جو خود مخلوق تھيں _أيشركون ما ...هم يخلقون

''ھم''كى ضمير ہوسكتاہے ''ما لا يخلق'' ميں ''ما'' موصولہ كى طرف پلٹتى ہو اور يہ بھى امكان ہے كہ ''مشركين'' كى طرف پلٹ رہى ہو_ مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناء پر ہے_ يعنى اس چيز كو خدا كا شريك خيال كرتے ہيں كہ جو خود خلق كى گئي ہے_ بعد والى آيت بھى اس احتمال كى تائی د كرتى ہے_

۴_ كائنات كى تدبير كرنے كى قابليت ركھنے كے معيار ميں سے ايك، خود مخلوق نہ ہونا اور وجود ذاتى كا حامل ہونا ہے_

أيشركون ما ...و هم يخلقون

۵_ فقط خداوند ہى عبادت كے لائق اور انسانوں كے امور كى تدبير كرنے كے قابل ہے_

هو الذى خلقكم ...أيشركون ما لا يخلق شيئا

۴۱۱

۶_ كائنات اور انسان كے امور كى تدبير ميں خداوند كے ساتھ شريك ٹھہرانے كا خيال، ايك باطل خيال ہے اور ايسا اعتقاد ركھنے والے افراد، قابل مذمت ہيں _أيشركون ما لا يخلق شيئا و هم يخلقون

''أيشركون'' ميں استفہام، انكار توبيخى ہے يعنى سرزنش و مذمت كيلئے يہ استفہام كيا گيا ہے_

آفرينش:آفرينش كى تدبير كا معيار ۴;آفرينش و خلقت كى تدبير ۲، ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۵; اللہ تعالى كى قدرت ۵

انسان:انسان كے امور كى تدبير ۵، ۶

باطل معبود:باطل معبودوں كا عجز،۱ ;باطل معبودوں كا مخلوق ہونا ۳

توحيد:توحيد عبادى ۵

ربوبيت:ربوبيت كا معيار ۲، ۴

شرك:شرك افعالى كا ناپسنديدہ ہونا ۶

مشركين:مشركين كے معبود، ۱، ۳

معبود:سچے معبود كا معيار ۲

آیت ۱۹۲

( وَلاَ يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْراً وَلاَ أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ )

اور ان كے ختيار ميں خود انى مدد بھى نہيں ہے اور وہ كسى كى نصرت بھى نہيں كر سكتے ہيں (۱۹۲)

۱_ مشركين ان موجودات كى پرستش كرتے ہيں اور انھيں خدا كا شريك ٹھہراتے ہيں كہ جو ان كى مدد كرنے سے عاجز و ناتوان ہيں _أيشركون ما ...لا يستطيعون لهم نصرا

''لا يستطيعون'' كى ضمير فاعلي،''ما لا يخلق'' كے ''ما'' موصولہ كى طرف پلٹ رہى ہے اور ''لھم'' ميں ''ھم'' كا مرجع مشركين ہيں _ يعنى

۴۱۲

اہل شرك كے معبود، اپنى پرستش كرنے والوں كى مدد كرنے سے عاجز ہيں _

۲_ مشركين كے معبود، اپنا دفاع تك نہيں كرسكتے_أيشركون ما ...لا أنفسهم ينصرون

''أنفسھم'' اور ''ينصرون'' كى ضماءر ''ما لا يخلق'' كى طرف پلٹ رہى ہيں كہ جو اہل شرك كے معبود ہيں _ يعنى يہ معبود اپنى مدد نہيں كرسكتے_ يعنى اپنا دفاع نہيں كرسكتے_

۳_ حقيقى و سچے معبود ہونے اور ربوبيت كے معيار ميں سے ايك، اپنا دفاع كرنے اور اپنے بندوں كى مدد كرنے پر قادر ہونا ہے_لا يستطيعون لهم نصرا و لا أنفسهم ينصرون

۴_ اہل شرك كے معبودوں كا اپنا اور اپنى پرستش كرنے

آیت ۱۹۳

( وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لاَ يَتَّبِعُوكُمْ سَوَاء عَلَيْكُمْ أَدَعَوْتُمُوهُمْ أَمْ أَنتُمْ صَامِتُونَ )

اور اگر آپ انھيں ہدايت كى طرف دعوت ديں تو ساتھ بھى نہ ائیں گے ان كے لئے سب برابر ہے انھيں بلائیں يا چپ رہ جائیں (۱۹۳)

۱_ مشركين اپنے معبودوں سے جس قدر بھى راہنمائی و ہدايت كا تقاضا كريں وہ ان سے كوئي جواب نہيں سنيں گے_

والوں كا دفاع كرنے سے عاجز و ناتوان ہونا، انكے ربوبيت و عبادت كے لائق نہ ہونے پر دليل ہے_

أيشركون ما ...لا يستطيعون لهم نصرا و لا أنفسهم ينصرون

ربوبيت:ربوبيت كے معيار ۳، ۴;ربوبيت ميں قدرت ۳، ۴

مشركين:مشركين كے خدا، ۱;مشركين كے معبود ،۱، ۲، ۴

معبود:سچے معبود كا معيار ۳;سچے معبود ميں قدرت ۴

باطل معبود:باطل معبودوں كاعجز او رناتوانى ۱، ۲، ۴

و إن تدعوهم إلى الهدى لا يتبعوكم

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پرہے كہ ''تدعوھم'' كے مخاطب مشركين ہوں _ اس بناء پر ''ھم'' كى

۴۱۳

ضمير، معبودوں كى طرف پلٹتى ہے_ اور''إلى الهدى '' كا معنى يہ ہوگا''إلى أن يهديهم أصنامهم'' بنابراين، آيت كا معنى يہ ہوگا_ ''اگر آپ (مشركين) اپنے بتوں سے راہنمائی چاہو تو وہ آپ لوگوں كى بات نہيں سنيں گے، بعد والا جملہ كہ جس ميں كلمہ ''عليكم'' استعمال كيا گيا ہے نہ كہ ''عليھم'' يہ بھى اس معنى كا مؤيد ہے_

۲_ اہل شرك كے معبود، اپنى پوجا و پرستش كرنے والوں كى ہدايت كرنے سے عاجز و ناتوان ہيں _

و إن تدعوهم إلى الهدى لا يتبعوكم

۳_ سچے و حقيقى معبود كے معيار (و شرائط) ميں سے ايك بندوں كے ہدايت طلب كرنے پر ان كى ہدايت كرناہے_

و ان تدعوهم الى الهدى لا يتبعوكم

۴_ اہل شرك كے معبودوں كا ان كى ہدايت كرنے اور ان كے پكارنے پر جواب دينے سے عاجز و ناتوان ہونا، شرك كے بطلان اور ان (معبودوں ) كے عبادت و پرستش كے لائق نہ ہونے كى دليل ہے_

و ان تدعوهم الى الهدى لا يتبعوكم

۵_ جھوٹے معبودوں سے درخواست كرنايا نہ كرنا، درخواست كرنے والے كيلئے مساوى اور بلا ثمر ہے_

سواء عليكم أدعوتموهم أم ا نتم صمتون

۶_ مشركين كے معبود اپنى پوجا و پرستش كرنے والوں كے تقاضے و حاجات پورى كرنے سے عاجز ہيں _

سواء عليكم أدعوتموهم أم ا نتم صمتون

۷_ سچے و حقيقى معبود كى پہچان و معرفت كے طريقوں ميں سے ايك ،دعا كا قبول ہونا ہے_

سواء عليكم أدعوتموهم أم ا نتم صمتون

باطل معبود:باطل معبودں سے درخواست ۵;باطل معبودوں كا عجز، ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

دعا:اجابت دعا ۷

شرك:بطلان شرك كے دلائل ۴

مشركين:مشركين كے معبود ،۱، ۲، ۴، ۶

معبود:سچے معبود كا معيار ۳;سچے معبود كا ہدايت كرنا ۳;سچے معبود كى قدرت ۳;سچے و حقيقى معبود كى پہچان ۷

۴۱۴

آیت ۱۹۴

( إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

تم لوگ جن لوگوں كو اللہ كو چھوڑ كر پكارتے ہو سب تمھيں جيسے بندے ہيں لہذا تم انھيں بلاؤ اور وہ تمھارى آواز پر لبيك كہيں اگر تم اپنے خيال ميں سچّے ہو(۱۹۴)

۱_ جھوٹے معبود بھى اپنى پوجا و پرستش كرنے والوں جيسى مخلوق ہيں _إن الذين تدعون من دون اللّه عباد أمثالكم

۲_ مشركين اپنے معبودوں كو اپنے آپ سے زيادہ طاقتور اور اپنے كاموں ميں زيادہ مؤثر سمجھتے ہيں _

إن الذين تدعون من دون الله عباد امثالكم

۳_ سب موجودات، خواہ وہ (جھوٹے و خودساختہ) معبود ہوں يا ان كى پوجا كرنے والے (انسان) خداوند كے مملوك اور بندے ہيں _إن الذين تدعون من دون اللّه عباد أمثالكم

''عباد'' ''عبد'' كى جمع ہے جس كا معنى ، بندہ اور مملوك ہے_

۴_ سب موجودات خداوند كے سامنے ناتوان ،محتاج اور ناچيز ہيں _إن الذين تدعون من دون اللّه عباد أمثالكم

''مثل''ا مثال كى جمع ہے جس كا معنى ''مانند'' ہے يعنى ايك جيسا اور ''ايك طرح كا ہونا ، '' كلمہ ''عباد'' كہ جو ناتوانى و نيازمندى كو ظاہر كررہاہے، معبودوں اور ان كى عبادت كرنے والوں كے درميان وجہ شبہ ہے، يعنى تمہارے معبود بھى تمہارى مانند نيازمند اور ناتوان ہيں _

۵_ اہل شرك كو متوجہ كرانا كہ وہ اور ان كے معبود ناتوانى و نيازمندى (احتياج) ميں ايك جيسے ہيں ،يہ شرك كے بطلان اور ان كے معبودوں كے لائق عبادت نہ ہونے كے اعتقاد كا پيش خيمہ بنتاہے_إن الذين تدعون من دون اللّه عباد أمثالكم

۶_ خداوند نے مشركين سے چاہا كہ وہ امتحان و آزماءش

۴۱۵

كى خاطر، اپنے معبودوں سے اپنى حاجات طلب كريں _فادعوهم فليستجيبوا لكم

۷_ بندوں كى حاجات پورى كرنا، سچے معبود كى نشانيوں ميں سے ہے_فادعوهم فليستجييبوا لكم ان كنتم صدقين

۸_ اپنى پوجا و پرستش كرنے والوں كى حاجات پورى كرنے سے (جھوٹے) معبودوں كى ناتوانى و عجز سے مشركين كے جھوٹے اور باطل نظريئے (يعنى خداوند كے ساتھ شريك قرار دينے كے خيال) كا فاش ہوجانا_

فادعوهم فليستجيبوا لكم إن كنتم صدقين

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى مالكيت ۳; اللہ تعالى كے اوامر ۶

انسان:ضعف انسان ۴;انسان كى نيازمندى (محتاج ہونا) ۴

باطل معبود:باطل معبودوں كا عجز ۵، ۶، ۸ ; باطل معبودوں كى آزماءش ۶;باطل معبودوں كى حقيقت ۱، ۳، ۵;باطل معبودوں كى مملوكيت ۳

شرك:شرك كا بطلان ۵، ۸

مشركين:مشركين كا عقيدہ ۲ ; مشركين كے تقاضے ۸; مشركين كے معبود ۲، ۶، ۸

معبود:سچے معبود كى نشانياں ۷;سچے معبود ميں قدرت ۷

موجودات:موجودات كى مملوكيت ۳

ہدايت:روش ہدايت ۵;ہدايت كا پيش خيمہ ۵

۴۱۶

آیت ۱۹۵

( أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُواْ شُرَكَاءكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلاَ تُنظِرُونِ )

كيا ان كے پاس چلنے كے قابل پير_ حملہ كرنے كے قابل ہاتھ ديكھنے كے قابل آنكھيں اور سننے كے لائق كان ہيں جن سے كام لے سكيں _آپ كہہ ديجئے كہ تم لوگ اپنے شركاء كو بلاؤ اور جو مكر كرنا چاہتے ہو كرو اور ہرگز مجھے مہلت نہ دو ( ديكھوں تم كيا كرسكتے ہو)(۱۹۵)

۱_ مشركين اپنے معبودوں اور بتوں كو ، ہاتھ، پاؤں ، آنكھ اور كان والے مجسموں كى صورت ميں بناتے تھے_

ألهم أرجل يمشون بها ...أم لهم ء اذان يسمعون بها

''يمشون بھا'' جيسے جملے، ہوسكتاہے وضاحت كيلئے ہوں اور يہ بھى ہوسكتاہے احترازى قيد كے طور پر ہوں _ پہلے احتمال كى بناء پر جملے كا معنى ''ألھم أرجل ...'' يعنى آيا بتوں كے پاؤں ہيں كہ وہ ان سے راستہ طے كرتے ہيں ؟ يعنى ان كے پاؤں نہيں ہيں _ دوسرے احتمال كى بناء پر معنى يہ ہوگا، آيا بتوں كے پاؤں ہيں كہ جن سے راستہ طے كريں _ يعنى وہ پاؤں ركھتے ہيں ليكن ان كے ساتھ چل نہيں سكتے_ مندرجہ بالا مفہوم دوسرے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۲_ بتوں ميں بنائے گئے اعضاء، ہر قسم كے مطلوبہ اثر اور قدرت سے تہى ہوتے ہيں _

ألهم أرجل يمشون بها ...أم لهم ء اذان يسمعون بها

۳_ بتوں ميں بنائے گئے اعضاء ميں مطلوبہ اثر و توانائی نہ ہونا، دليل ہے كہ وہ اپنى پرستش كرنے والے بندوں سے زيادہ ناتوان و عاجز ہيں _ألهم أرجل يمشون بها ...أم لهم ء اذان يسمعون بها

جملہ''عباد أمثالكم'' بتوں اور ان كى پرستش كرنے والوں كے، ناتوانى اور نيازمندى ميں مساوى ہونے كى طرف اشارہ تھا_ جبكہ مذكورہ آيت، مشركين كو اس بات كى طرف متوجہ كرتے

۴۱۷

ہوئے كے ان ميں بنائے گئے اعضاء سے كوئي فائدہ نہيں اٹھايا جاسكتا_ يہ نكتہ بتارہى ہے كہ جھوٹے معبود اور بت اپنى پرستش كرنے والوں سے بھى زيادہ عاجز اور ناتوان ہيں _

۴_ خداوند نے بتوں كى ناتوانى اور عاجزى كى وضاحت كرتے ہوئے، مشركين كے شرك اور مشركانہ اعتقاد كے بطلان كى طرف توجہ مبذول كروائی ہے_ألهم أرجل يمشون بها ...أم لهم ء اذان يسمعون بها

۵_ اپنے آپ سے زيادہ عاجز اور ناتوان چيز كى پرستش كرنا، بے عقلى ہے اور باعث حيرت ہے_

ألهم أرجل يمشون بها ...أم لهم ء اذان يسمعون بها

جملہ ''ألھم ...'' ميں استفہام، تعجب كى وجہ سے لايا گيا ہے اور بحث كى مناسبت سے تعجب كا منشاء بتوں كى پوجا كرنے والوں كى بے عقلى ہے_

۶_ مشركين مكہ كا يہ خيال تھا كہ ان كے معبود (بت) پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف ان كى مدد كرنے كى طاقت ركھتے ہيں _

قل ادعوا شركاء كم ثم كيدون فلا تنظرون

۷_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم ، خداوند كى جانب سے مامور تھے كہ بتوں كى ناتوانى و عجز كو ثابت كرنے كيلئے، مشركين كو اپنے خلاف مبارزے اور تحدى كى دعوت ديں _قل ادعوا شركاء كم ثم كيدون فلا تنظرون

۸_ خداوند نے مشركين سے كہا كہ اگر ان كے خداؤں (بتوں ) ميں كسى قسم كى توانائی اور قدرت ہے تو وہ ان كى مدد سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سازش كريں اور چال چليں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ختم كرنے ميں كسى قسم كى تاخير نہ كريں _

قل ادعوا شركاء كم ثم كيدون فلا تنظرون

''كيدون'' فعل امر ''كيدوا'' (كيد، يعنى فكر كرنا اور سازش كرنا) سے اور نون وقايہ سے مركب ہے_ نون كا كسرہ ''يائے متكلم'' كے حذف ہونے پر دلالت كررہاہے_ بنابراين ''كيدون'' (كيدوني) يعنى ميرے خلاف چال چلو و سازش كرو ''انظار'' ''لا تنظروا'' كا مصدر ہے جس كا معنى مہلت دينا ہے''لا تنظرون'' بھى فعل نہى اور نون وقايہ سے مركب ہے، يعني: ''فلا تنظروني'' مجھے مہلت نہ دو_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے افعال۴;اللہ تعالى كے اوامر ۸

باطل معبود:باطل معبودوں كا مجسمہء ،۱;باطل معبودوں كى ناتوانى ۳، ۷، ۸

بت:

۴۱۸

بتوں كا عجز ۲، ۳، ۴، ۷;بتوں كے اعضاء و جوارح ۱ ، ۲، ۳

بے عقلي:بے عقلى كى نشانياں ۵

تحدي(چيلنج):تحدى كى دعوت ۷، ۸

شرك:بطلان شرك كى دليل ۸;شرك كا بطلان۴

عبادت:باطل معبودوں كى عبادت ۵

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مسؤليت ۷; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مبارزہ ۸

مشركين:مشركين اور باطل معبود ۶، ۸;مشركين كى بت تراشى ۱;مشركين كے معبود ۱، ۷

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا عقيدہ ۶

آیت ۱۹۶

( إِنَّ وَلِيِّـيَ اللّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ )

بيشك ميرا مالك و مختار وہ خدا ہے جس نے كتاب نازل كى ہے اور وہ نيك بندوں كا والى و وارث ہے(۱۹۶)

۱_ خداوند، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سرپرست اور مشركين كى چالوں و سازشوں كے مقابلے ميں آپعليه‌السلام كا مدد گار ہے_

ثم كيدون فلا تنظرون _ إن ولى اللّه

۲_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن نازل كرنے والا خداوند ہے_الذى نزل الكتب

۳_ خداوند نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن نازل كرنے كى وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مشركين كى سازشوں اور مكر و فريب كے

خطرے سے محفوظ ركھنے كى ضمات دے ركھى ہے_إن ولى اللّه الذى نزل الكتب

''اللّہ'' كى ''الذى نزل الكتب'' كے ذريعے توصيف كرنا، خداوند كى طرف سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خصوصى مدد و سرپرستى كى علت بيان كرناہے، يعنى چونكہ خداوند نے مجھ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن نازل كيا ہے لہذا وہ تم مشركين كے مقابلے ميں ميرى مدد كرےگا_

۴_ خداوند ،تمام صالحين كا سرپرست اور ان كى مدد

۴۱۹

كرنے والا ہے_و هو يتولى الصلحين

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خداوند كے صالح بندوں ميں شمار ہونا اور اسكى بے دريغ حمايت و مدد سے بہرہ مند ہونا_

إن ولى اللّه ...و هو يتولى الصلحين

۶_ صالحين كا اپنے اوپر خداوند كى سرپرستى اور ولايت كى طرف توجہ كرنا، مشركين كے ساتھ ان كے مبارزے ميں استقامت كا عامل اور ان كى سازشوں سے نہ ڈرنے كا باعث بنتاہے_ثم كيدون فلا تنظرون ...هو يتولى الصلحين

مشركين كى سازش دور كرنے كے بعد صالحين پر خدا كى ولايت كو بيان كرنے كا مقصد يہ ہے كہ صالحين كو ہميشہ خداوند كى نصرت اور مدد كى طرف توجہ ركھنى چاہيئے اور ہرگز مشركين كے مكر و فريب سے نہيں ڈرنا چاہيئے_

۷_ غير خدا كى عبادت اور شرك كرنا، ايك ناروا عمل ہے جو خداوند كى حمايت اور ولايت سے محروميت كا باعث بنتاہے_

و هو يتولى الصلحين

گذشتہ آيات كے قرينے سے صالحين اور صلاح كا مطلوبہ مصداق، توحيد اور موّحد مؤمنين ہيں اور اس كے مقابلے ميں شرك اور مشركين ہونگے_

بنابراين جملہ ''و ھو يتولي ...'' كا مفہوم خداوند كا مشركين كى حمايت نہ كرنا ہے_

استقامت:استقامت كے علل و اسباب ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے افعال ۲;ولايت الہى سے محروميت ۷

خوف (ڈر):خوف كے موانع ۶

ذكر:ولايت خدا كے ذكر كے آثار ۶

شرك:شرك عبادى كا ناپسنديدہ ہونا۷;شرك عبادى كے آثار ۷

صالحين: ۵صالحين كا عقيدہ ۶;صالحين كى امداد ۴;صالحين كے مقامات ۴

عمل:ناپسنديدہ عمل ۷

قرآن:قرآن كى اہميت ۳;نزول قرآن ۲، ۳

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430