خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات18%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 371635 / ڈاؤنلوڈ: 5563
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

انشا كم'' پر متفرع ہو اہے_

۲۲_ خداوند متعال، انسانوں سے بہت قريب اور ان كى دعاؤں كو قبول فرماتا ہے_ان ربّى قريب مجيب

۲۳_ خداوندعالم كا اپنے بندوں كے نزديك ہونے كى وجہ سے اس كا تقرب حاصل كرنا ايك آسانى اور سہل امر ہے_

ثم توبوا اليه ان ربّى قريب

خداوند عالم كى طرف سے اور اس كے تقرب كے حصول كے ليے نصيحت كرنے كے بعد اس سے نزديكى كو بيان كرنے كا مقصد عارف لوگوں كو يہ خوشخبرى دينا ہے كہ خداوند عزوجل آپ سے دور نہيں ہے تا كہ اس تك پہنچنے كے ليے بڑى سے بڑى سختيوں كو جھيلنا پڑے بلكہ وہ آپ سے بہت ہى نزديك ہے اور اسكا تقرب حاصل كرنا بہت آسان ہے_

۲۴_ خداوندمتعال، مغفرت طلب كرنے والوں كى دعا كو قبول اور ان كے گناہوں كو معاف فرماتا ہے_

فاستغفروا ان ربى قريب مجيب

جملہ''استغفروہ ''اور ''توبوا اليہ'' سے ربط كى خاطر(قريب)اور (مجيب) كو لف و نشر غيرمرتب كى صورت ميں بيان كيا گيا ہے_

۲۵_''جأ رجل من اهل شام الى على بن الحسين عليه‌السلام فقال : انت على بن الحسين ؟ قال : نعم ، قال : ابوك الذى قتل المؤمنين ؟ فقال : و يلك كيف قطعت على ابى انه قتل المؤمنين ؟قال : قوله : اخواننا قد بغوا علينا فقاتلنا هم على بغيهم _ فقال : و يلك أما تقرا القرآن ؟ قال : بلى ، قال : فقد قال اللّه تعالى (و الى ثمود اخاهم صالحاً) ا فكانوا اخوانهم فى دينهم او فى عشيرتهم ؟ قال له الرجل : لا بل فى عشيرتهم : قال عليه‌السلام فهولاء اخوانهم فى عشيرتهم وليسو اخوانهم فى دينهم (۱)

اہل شام كا ايك شخص حضرت امام زين العابدين على بن الحسينعليه‌السلام كے پاس آيا اور كہا : كيا تم على بن الحسينعليه‌السلام ہو ، تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں _ اس نے كہا كہ تم اس كے فرزند ہو جس نے مومنين كو قتل كيا حضرتعليه‌السلام نے جواب ديا :كہ افسوس ہے تم پر، تو نے كس طرح يقين كے ساتھ يہ كہہ ديا كہ ميرے والد بزرگوار نے مومنين كو قتل كيا؟ اس شخص نے جواب ديا كہ يہ اسكى بات ہے (اميرالمؤمنين) جويہ كہتا ہے كہ ہمارے بھائيوں نے ہمارے خلاف بغاوت كى اور ہم نے بھى انكى بغاوت كى وجہ سے ان سے جنگ كى ہے_

____________________

۱)تفسير عياشى ، ج ۲ ص ۲۰، ح ۵۳، بحار الانوار ج ۳۲ ، ص ۳۴۵، ح ۳۲۹_

۱۸۱

پھر حضرت نے فرمايا افسوس ہے تم نے پر كيا تم نے قرآن ميں نہيں پڑھا كہ خداوند متعال فرماتا ہے:( و الى ثمود اخاہم صالحاً) كيا حضرت صالحعليه‌السلام قوم ثمود كے دينى بھائي تھے يا ان سے رشتہ دارى تھى _ تو اس نے كہا رشتہ دارى تھي_ تو پھر حضرتعليه‌السلام نے جواب ديا كہ وہ بھى ہمارے رشتہ ميں بھائي تھے نہ كہ دينى بھائي_

استغفار :استغفار كى اہميت ۱۷; استغفار كے آثار ۱۹; استغفار كے بارے ميں تاكيد ۲۰; استغفار كے عوامل ۲۱;شرك سے استغفار ۲۰

اسماء و صفات :قريب ۲۲; مجيب ۲۲

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام سے رشتہ دارى ۳

انسان :انسان كا جھكاؤ ۹، ۱۵; انسانوں كا خالق ۱۲;انسان كى توانائيوں كا مركز ۱۵،۱۶;انسانوں كى خلقت كا عنصر ۱۴; زمين كا انسان ۱۴

ايمان :ايمان كے آثار ۲۱; خالقيت خداوند پر ايمان ۲۱; خدا پر ايمان ۷

تقرب :تقرب كا سبب ۱۹;تقرب كى اہميت ۱۸; تقرب كى سہولت ۲۳

توبہ :توبہ كرنے كى تاكيد ۲۰

توحيد :توحيد افعالى ۱۲; توحيد خالقيت۱۲;توحيد عبادى ۱۱; توحيد عبادى كى اہميت ۵;توحيد عبادى كى دعوت ۵; توحيد عملى كا پيش خيمہ۱۰;توحيد نظرى كى اہميت ۱۰

حركت ميں لانا:حركت ميں لانے كے عوامل ۲۱

حضرت صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود ۳، ۴، ۲۰، ۲۵; حضرت صالح كى تعليمات ۵، ۲۰; حضرت صالحعليه‌السلام كى دعوت ۵;حضرت صالح(ع) كى رسالت كا علاقہ ۲; حضرت صالح كى مہربانى ۴; حضرت صالح(ع) كى نبوت ۱; حضرت صالح(ع) كے رشتہ دار ۳; حضرت صالح(ع) كے فضائل ۴; حضرت صالح(ع) كے مقامات ۱; حضرت صالحعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۴

خدا :خدااور زمين كى آبادكاري۱۵;خالقيت خدا ۱۲; خدا شناسى كى تاريخ ۷;خداوندكى عنايات ۱۵ ،۱۶ ; خداوند متعال كى بخشش ۲۴; خداوند متعال كے خواص ۱۱،۱۲،۲۱;قرب خداوند ى ۲۲ ;قرب

۱۸۲

خداوند ى كے آثار ۲۳

خدا كى طرف لوٹنا ۱۸،۲۰:خدا كى طرف لوٹنے كى اہميت ۱۸

دعا :دعا كى اجابت ۲۲

رسل الہى : ۱

روايت : ۲۵

شرك :شرك سے اجتناب كے عوامل ۲۱;شرك كے آثار سے اجتناب ۱۹

عبادت :عبادت خدا كے آثار ۱۹; عبادت خدا كے دلائل ۱۶; عبادت خدا كے عوامل ۲۱

عقيدہ:عقيدہ كى تاريخ ۶،۷

كائنات كى شناخت:كائنات كى توحيدى شناخت ۱۱،۱۲; كائنات كى شناخت كا نظريہ۲۱

قوم ثمود :قوم ثمود كا باطل عقيدہ ۸; قوم ثمود كا شرك ۸; قوم ثمود كا عقيدہ۶;قوم ثمود كو دعوت حق دينا ۵; قوم ثمودكى خدا كى پہچان ۶;قوم ثمود كے انبياء ۲، ۶ ; قوم ثمود كے باطل خدا ۸

گناہ :ترك گناہ كے عوامل ۲۱

گناہگار :گناہگاروں كى اجابت دعا ۲۴; گناہگاروں كى بخشش ۲۴

مشركين :۸

معبود :معبود كى خالقيت ۱۳

معبوديت :معبوديت كا ملاك ۱۳

ميلان:زمين كى آبادكارى كا ميلان۱۵; عبادت كى طرف ميلان ۹; معبود كى طرف ميلان۹

۱۸۳

آیت ۶۲

( قَالُواْ يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوّاً قَبْلَ هَـذَا أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ )

ان لوگوں نے كہا كہ اے صالح اس سے پہلے تم سے بڑى اميديں وابستہ تھيں كيا تم اس بات سے روكتے ہو كہ ہم اپنے بزرگوں كے معبودوں كى پرستش كريں _ ہم يقينا تمھارى دعوت كى طرف سے شك اور شبہ ميں ہيں (۶۲)

۱_حضرت صالح(ع) ، قوم ثمود ميں اپنى نبوت سے پہلے ہى عاقل اورايك خاص استعداد كے مالك انسان تھے_

قالوا يا صالح قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذ

مذكورہ بالا معنى دو چيزوں پر موقوف ہے ( الف) ''يہ جملہ كہ قوم ثمود كى تم پر اميديں تھيں '' جو جملہ (قد كنت ...) كے مضمون سے حاصل ہوتا ہے يہ حضرت صالحعليه‌السلام كے نابغہ اور استعداد خاص ركھنے اور نيك سيرت انسان سے حكايت كررہا ہے_

(ب) (ہذا) كے لفظ كا اشارہ، حضرت صالحعليه‌السلام كى نبوت كے دعوى اور انكے اعلان توحيد اوروحدہ لا شريك كى پرستش كے لازمى ہونے كى طرف ہے_

۲_ قوم ثمود ، حضرت صالحعليه‌السلام كى خاص استعداد اور انكى مثبت خصوصيات كى معترف تھى _قالوا يا صالح قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا

۳_ قوم ثمود، حضرت صالحعليه‌السلام كى خصوصيات اور مخصوص استعداد كى وجہ سے انہيں اپنى قوم كے ليے مايہ ناز اور ترقى سمجھتے تھے_قد كنت فينا مرجواّ

۴_ خداوند متعال، انبياء كو ان انسانوں ميں سے كہ جو نيك نام اور نيك سيرت مشہور ہوتے ہيں انتخاب كرتا ہے_

قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا

۵_ حضرت صالحعليه‌السلام كى قوم اور ان كے آباو اجداد ، مشرك اورغير الله كى پرستش كرتے تھے_

أتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۶_ حضرت صالح(ع) لوگوں كو غير الله كى عبادت سے منع فرماتے تھے اور قوم ثمود كى شرك پرستى سے نبرد آزما ہوتے تھے_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۸۴

۷_ قوم كو يكتا پرستى كى دعوت اور جھوٹے خداؤں كى تكذيب باعث بنى كہ قوم ثمود، حضرت صالح(ع) كى سرزنش اور ان پر اعتراض كرتى تھي_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

جملہ ( اتنہنا ان نعبد ) ميں استفہام توبيخى ہے_

۸_ قوم ثمود، حضرت صالح(ع) كے شرك كے خلاف جہاد كى خاطر ان سے وابستہ اپنى اميدوں پر پانى پھر تا ہوا ديكھ رہى تھى _قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

(قبل ہذا) اس پر دلالت كرتا ہے كہ قوم ثمود ، حضرت صالح سے اميديں لگا بيٹھے تھے اور (أتنہنا ) كا جملہ اس كے ليے دليل و علت كو بيان كررہا ہے_

۹_قوم ثمود كا اپنے اجداد كے آداب و رسوم پر كار بند ہونا، حضرت صالحعليه‌السلام اورانكى تعليمات كى مخالفت كا سبب بنا _

اتنهنا ان نعبد ما يعبدءُ اباؤنا

لفظ (ما ) سے آيت ميں مراد مشركين كے خيالى معبود ہيں اوران كوجملہ (يعبد ء اباؤنا ) سے توصيف كرنا، (نعبد)سے پہلے حكم كى علت كى طرف اشارہ ہے يعنى ہم بتوں كى عبادت كرتے ہيں كيونكہ ہمارے ا با و اجداد انكى عبادت كرتے تھے_

۱۰_ حضرت صالح(ع) كى دعوت توحيداور يكتا پرستى كے بنيادى مخاطب، قوم ثمود كے نوجوان اور در ميانى عمر كے افراد تھے_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

فعل مضارع (يعبد )كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت صالحعليه‌السلام كے مخاطب وہ لوگ تھے جنكے والدين زندہ تھے اور وہ اپنے خداؤں كى عبادت ميں مشغول تھے_

۱۱_ معاشروں كى قوم و قبائل كے باطل افكار ونظريات سے وفاداري، ركاوٹ بنتى ہے كہجديد و بر حق نظريات اپنا مقام پيدا كريں _اتنهنا ا ن نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۲_ خاندانى تعصبات، اندھى تقليد و پيروى كا سبب ہيں _اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۸۵

۱۳_حضرت صالح(ع) اپنى رسالت كى انجام دہيكے سلسلہ ميں انتھك اور مسلسلكوشش ميں مشغول تھے_مما تدعونا اليه

(تدعو) فعل مضارع ہے جو استمرار پر دلالت كرتا ہے جس سے انتھك اور مسلسل كوشش سے تعبيركى گئي ہے_

۱۴_قوم ثمود ، خدا كى وحدانيت اور يكتا پرستيكى ضرورت كو شك كى نگاہ سے ديكھتے تھے _و انّنا لفى شك مما تدعونا اليه مريب

۱۵_ حضرت صالحعليه‌السلام كى توحيد اور يكتا پرستى كى طرف دعوت،اس چيز كا باعث بنى كہ قوم ثمود ،حضرت صالح(ع) كى ہوشيارى اور عقل مندى ميں شك و ترديد كرنے لگے_و انّنا لفى شك مما تدعونا اليه مريب

لفظ ( مريب)(ترديد ميں ڈالنا) (شك) كے ليے صفت واقع ہوا ہے اور اسكا متعلق ،حضرت صالحعليه‌السلام كى ہوشيارى اور عقلمندى ہے جيسا كہجملہ (قد كنت فينا مرجواً) كے قرينے سے ظاہر ہوتا ہے لہذا جملہ ( انّنا لفى ...) كا معنى يہ ہے كہ ہميں تمہارى ان تعليمات كے صحيح ہونے ميں شكہے اور يہ شك سبب بنا ہے كہ ہم تمہارى ہوشيارى اور عقلمندى ميں بھى شك كريں _

۱۶_عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: ان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سأل جبرئيل : كيف كان مهلك قوم صالح عليه‌السلام ؟ فقال: يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان صالحاً بعث الى قومه و هو ابن ستة عشر سنة و كان لهم سبعون صنماً يعبدونها من دون اللّه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہآپ(ع) نے فرمايا : جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئيل(ع) سے سوال كيا كہ قوم صالحكى ہلاكت كيسے ہوئي تو حضرت جبرئيل نے جواب ديا : اے رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب حضرت صالحعليه‌السلام اپنى قوم ميں معبوث ہوئے تو ۱۶ سال كے تھے اور انكى قوم كے ستر ۷۰ بت تھے كہ خدا كے علاوہ جنكى وہ پوجا كرتے تھے_

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا انتخاب ۴; انبياءعليه‌السلام كا خوشنام ہونا ۴; انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ۴; گذشتہ انبياء

تقليد :اندھى تقليد كا زمينہ ۱۲;نيك افراد كى تقليد ۹

توحيد :توحيد عبادى كى طرف دعوت ۷،۱۰،۱۵

حق :حق كو قبول كرنے كے موانع ۱۱

____________________

۱) كافى ، ج ۸ ; ص ۱۸۵، ح ۲۱۳; بحار الانوار ج ۱۱ ، ص ۳۷۷، ح ۳_

۱۸۶

رشد :فكرى رشد كے موانع ۱۱

روايت : ۱۶

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كا اپنى ذمہ دارى پر عمل پيدا ہونا ۱۳; حضرت صالح(ع) كا شرك كے خلاف جہاد ۶،۷ ، ۸ ;حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۶، ۱۳; حضرت صالحعليه‌السلام كا نابغہ ہونا ۱;حضرت صالح(ع) كى تبليغ ۶; حضرت صالح(ع) كى دعوت۷، ۱۰، ۱۳، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت ۱۳; حضرت صالحعليه‌السلام كى سرزنش ۱۷; حضرت صالحعليه‌السلام كى صلاحتيں ۲; حضرت صالح(ع) كى كوشش ۱۳;حضرت صالح(ع) كى ہوشيارى ۱۵ ; حضرت صالح(ع) كے انذاز ۶; حضرت صالح(ع) كے فضائل ۱، ۲; حضرت صالح(ع) كے مخاطبين ۱۰; حضرت صالح(ع) كے نابغہ ہونے كے آثار ۳; حضرت صالحعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۱

قومى تعصب :قومى تعصب كے آثار ۱۱، ۱۲

قوم ثمود :قوم ثمود اورتوحيد عبادى ۱۴; قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام ۱، ۲، ۳، ۷، ۸، ۹، ۱۵; قوم ثمود اور درميانى عمر كے لوگ ۱۰; قوم ثمود اور نيك لوگ ۵; قوم ثمود كا اقرار ۲; قوم ثمود كا شرك ۵،۶;قوم ثمود كا شك ۱۴، ۱۵; قوم ثمود كا عقيدہ ۱۴;قوم ثمود كو حق كى دعوت ۷; قوم ثمود كى اميديں ۸;قوم ثمود كى بت پرستى ۱۶;قوم ثمود كى تاريخ ۳،۵، ۷، ۹، ۱۴، ۱۵; قوم ثمود كى ترقى كے عوامل ۳;قوم ثمود كى فكر ۳;قوم ثمود كى مخالفت كاسبب ۹;قوم ثمود كى مخالفتيں ۷;قوم ثمود كى نااميدى ۸; قوم ثمود كى ہلاكت ۱۶;قوم ثمود كے جوان ۱۰

متحرك كرنا:متحرك كرنے كے اسباب۹

مشركين : ۵

۱۸۷

آیت ۶۳

( قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَى بَيِّنَةً مِّن رَّبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَن يَنصُرُنِي مِنَ اللّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ )

انھوں نے كہا كہ اے قوم تمھارا كيا خيال ہے كہ اگر ميں اپنے پروردگار كى طرف سے دليل ركھتا ہوں اور اس نے مجھے رحمت عطا كى ہے تو اگر ميں اس كى نافرمانى كروں گا تو اس كے مقابلہ ميں كون ميرى مدد كرسكے گا تم تو گھاٹے ميں اضافہ كے علاوہ كچھ نہيں كرسكتے ہو(۶۳)

۱_ حضرت صالح(ع) ، كے پاس اپنى رسالت كے ليے معجزہ اورواضح دليل تھي_قال يا قوم ارأيتم ان كنت على بيّنة

۲_ خداوند متعال، پيغمبروں كو معجزہ اور روشن دليليں عطا كرتا ہے_ان كنت على بينة من ربّي

۳_ خداوند متعال، پيغمبروں كى تربيت اور ان كے امور كى تدبير كرنے والا ہے_ان كنت على بينة من ربّي

مذكورہ بالا معني، لفظ (ربّ) سے استفادہ كيا گيا ہے جو مربى اور مدّبر كا معنى ديتا ہے_

۴_ پيغمبروں كو معجزہ اور روشن دليليں عطا كرنے كا مقصد ، نبوت كے امور كى تدبير اور رسالت كے مقاصد ميں پيش قدمى ہے_ان كنت على بيّنة من ربّي

۵_ حضرت صالح(ع) ،ہمدرداور كفار سے شفقت اور رحم دلّى سے پيش آتے تھے_يا قوم ارايتم

''يا قوم'' (انے ميرى قوم) كى تعبير حضرت صالح(ع) كى شفقت اور رحم دلّى سے حكايت ہے_

۶_ خداوند عالم نے حضرت صالح(ع) كو اپنى خصوصى رحمت

۱۸۸

سے بہرہ مند فرمايا اور انہيں نبوت عطا فرمائي و آتانى منہ رحمةً مقام كى مناسبت سے يہاں ''رحمة'' سے مر اد مقام نبوت و رسالت ہے_

۷_ خداوند متعال كى نبوت اور رحمت خاص اس كے پيغمبروں كے ليے ہے_و اتانى منه رحمة

لفظ (رحمة) كا نكرہ لانا ، اسكى عظمت كى دليل ہے جسے يہاں رحمت خاص سے تعبير كيا گيا ہے_

۸_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ذمہ داري، توحيد كى تبليغ اور شرك و بت پرستى سے مقابلہ تھا_ان كنت على بيّنة من ربّى فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

جملہ ( ان عصيتہ ) جسكا معنى يہ ہے كہ ( اگر ميں خداوند متعال كى نافرمانى كروں )يہ بتا تا ہے (و ا مرنى بابلاغ رسالاتہ) جيسا جملہ (فمن ينصرنى ) سے پہلے تقدير ميں ہے_ اسى بناء پر حاصل معنييہ ہوگا ( ان كنت ...) تم خود اسكا فيصلہ كرو كہ اگر ميں خدا كا رسول ہوں اور وہ مجھے رسالت كے پہنچا نے كا حكم فرمائے_اور اگر اسميں ميں كوشش نہ كروں تو كون ہے جو مجھے خدا كے عذاب سے بچالے گا _

۹_ حضرت صالحعليه‌السلام نے اپنى قوم ميں اعلان كيا: اگرميں نے تمھارى بات كو قبول كرليا ( يعنى توحيد پرستى كى دعوت كوترك كردوں ) توگنہگار اور مستحق عذاب ٹھہرايا جاؤں گا_فمن ينصرنى من الله ان عصيته

۱۰_ پيغمبر بھى اگر رسالت اور توحيد كى تبليغ كے سلسلہ ميں سہل انگارى كريں تو گنہگار ہيں _

فمن ينصرنى من الله ان عصيته

۱۱_ فرمان الہى سے سرپيچى كرنے والے اگر چہ انبياء ہى كيوں نہ ہوں خدائي عذاب و سزا سے دوچار ہونے كے خطر ے ميں ہيں _فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

(من اللّہ ) كا معنى (من عذاب اللّہ ) ہے_

۱۲_ تمام مخلوق، خداوند متعال كے عذاب كو دور كرنے اور عذاب الہى ميں گرفتار لوگوں كو بچانے ميں ناتواں ہے_

فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

(ينصر ) كا فعل چونكہ(من) سے متعدى ہوا ہے لہذا (ينجي) (نجات دے گا) كا معنى اس ميں متضمن ہے _

۱۳_ خداوند متعال كى قدرت، تمام طاقتوں سے بالاتر ہے_فمن ينصرنى من اللّه

۱۴_ قوم ثمود كے كفار، حضرت صالح(ع) سے يہ چاہتے تھے كہ وہ اپنے مدعى سے دستبرد ار ہو جائيں اور توحيد

۱۸۹

پرستى كى طرف لوگوں كو دعوت دينے سے گريز كريں _فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته فما تزيدوننى غير تخسير

(فماتزيدونى )ميں حرف فأ، فأ فصيحہ ہے اور ايك مقدر جملے سے حكايت كررہى ہے جس پر اور گذشتہ آيت ميں (اتنھنا ...) كے قرينے كى بناء پر آيت كا معنى يوں ہوگا _ اگر ميں تمہارے كہنے ميں آكر ( توحيد كى تبليغ سے) ہاتھ بھى اٹھالوں توتم مجھے گھا ٹے اور نقصان كے كچھ نہيں دے سكتے_

۱۵_ حضرت صالح(ع) اپنى قوم كے كفار كى درخواست (جو توحيد كى تبليغ كو ترك كرنا تھا) كيطرف توجہ كرنے كو بھى اپنے ليے تباہى اور خسارت كا موجب سمجھتے تھے_فما تزيدوننى غير تخسير

(تخسير) خسارت ڈالنے كےمعنى ميں ہے _ اور اسكا فاعل قوم ثمود ہے_

۱۶_ اپنے كافر رشتہ داروں كى خاطر خدائي ذمہ داريوں كو ترك كردينا ،خسارت اور تباہى كا موجب ہے_

فما تزيدوننى غير تخسير

۱۷_حضرت صالح(ع) كى قوم كا آپ(ع) كو دعوت توحيد سے دسبتردار ہونے پر اصرارسبب بنا كہ انہيں اپنى قوم كى خسارت و بتاہى كا بہت زيادہ يقين ہوگيا_فما تزيدوننى غير تخسير

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں حاصل ہوگا جب (تخسير ) كا معنى خسارت اور تباہى كى طرف نسبت دينا ہو جسطرح ( تكفير و تفسيق ) كا معنى كفر و فسق كى طرف نسبت دينا ہے _ اس بناء پر فعل تخسير كا فاعل حضرت صالحعليه‌السلام ہيں _اور جملہ (فما تزيدوننى ) كا معنى يوں ہوگا كہ تم مجھے توحيد پرستى كى دعوت سے منع كرنے پر جو اصرار كر رہے ہو اسكا نتيجہ فقط يہ ہے كہ ميں تمھيں تباہى و بر بادى ميں ديكھوں _

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام اور عذاب ۱۱; انبياءعليه‌السلام اور گناہ ۱۰; انبياء ء اور معصيت ۱۱;ابنياءعليه‌السلام پر رحمت الہى ۷;انبياءعليه‌السلام كا مدبر ہونا ۳;انبياءعليه‌السلام كا مربى ۳;انبياءعليه‌السلام كى رسالت كى اہميت ۴;انبياءعليه‌السلام كى نبوت كى اہميت ۴; انبياءعليه‌السلام كے اہداف كى تكميل كا زمينہ ۴;انبياءعليه‌السلام كے روشن دلائل ۲; انبياءعليه‌السلام كے ليے روشن دلائل كا فلسفہ ۴; انبياءعليه‌السلام كے معجزہ كا فلسفہ ۴;انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۷

انسان :انسانوں كا عاجز ہونا ۱۲/بت پرستى :بت پرستى سے مقابلے كى اہميت ۸

توحيد :توحيد كى تبليغ كى اہميت ۸; توحيد كى دعوت كو ترك كرنا ۱۴، ۱۷; توحيد كى دعوت كو ترك كرنے كا گناہ

۱۹۰

ہے ۹، ۱۰

خدا :افعال خداوندى ۳; خداوند متعال كى ربوبيت ۳; خداوند متعال كى رحمت خاصہ۶، ۷; خداوند متعال كے خصائص ۱۳ ;خدا وند متعال كے عذاب سے مقابلہ ۱۲;خداوند متعال كے عطايا ۲; قدرت الہى كى خصوصيات ۱۳ ;قدرت خداوند كى بالادستى ۱۳; خدا كے عذابوں كاحتمى ہونا ۱۲

رحمت :رحمت كے شامل حال افراد۶، ۷

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كو ترك كرنے كے آثار ۱۶; شرعى ذمہ دارى ميں سہل انگارى كے آثار ۱۰

شرك:شرك سے مقابلہ كى اہميت ۸

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود ۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود كى خواہشات ۹، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور كفّار ۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور گناہ ۹; حضرت صالحعليه‌السلام اور مشركين ۵; حضرت صالحعليه‌السلام پر رحمت ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كا اطمينان ۱۷; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۹، ۱۴، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام كا معجزہ ۱;حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت ۸; حضرت صالحعليه‌السلام سوچ ۹، ۱۵ ; حضرت صالحعليه‌السلام كى گفتگو كا طريقہ ۵; حضرت صالح(ع) كى نبوت ۶;حضرت صالحعليه‌السلام كى مہرباني۵; حضرت صالحعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۱; حضرت صالحعليه‌السلام كے درجات ۶;حضرت صالح(ع) كے روشن دلائل ۱

عذاب :اہل عذاب كى امداد ۱۲;عذاب سے نجات ۱۲; عذاب كے اسباب ۹

قوم ثمود :اصرار قوم ثمود كے آثار ۱۷; قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام ۱۴;قوم ثمود كا نقصان و خسارت ۱۴

كفار :كفار كو خوش كرنے كا بے اہميت ہونا ۱۶

گنہگار :۱۰///معجزہ :معجزہ كا سبب ۲

معصيت كار :معصيت كاروں كى سزا ۱۱

نبوت :مقام نبوت ۷

نقصان :نقصان كے اسباب ۱۵، ۱۶

۱۹۱

آیت ۶۴

( وَيَا قَوْمِ هَـذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللّهِ وَلاَ تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ )

اے قوم يہ ناقہ اللہ كى طرف سے ايك نشانى ہے اسے آزاد چھوڑدوتا كہ زمين خدا ميں چين سے كھائے اور اسے كسى طرح كى تكليف نہ دينا كہ تمھيں جلد ہى كوئي عذاب اپنى گرفت ميں لے لے (۶۴)

۱_ اونٹى كا ارادہ الہى سے عادى اسباب و علل كے بغير پيدا ہونا، حضرت صالح(ع) كى اپنى رسالت كو ثابت كرنے كے ليے معجزہ تھا_و يا قوم هَذه نَاقَةُ الله لكم آية

۲_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ ، بڑا معجزہ و نشانى اور ايك خاص اہميت كى حامل تھى _و يَا قوم هَذه نَاقَةُ الله لكم آية

لفظ (ناقة ) كا (الله ) كيطرف مضاف ہونا ، جہاں ناقہ صالح(ع) كى عادى اسباب كے بغير خلقت كى طرف اشارہ كررہا ہے وہاں اس اونٹى كى بزرگى و عظمت كو بھى بيان كررہا ہے _

۳_ حضرت صالحعليه‌السلام ،اپنى قوم كو گفتگو كى لطافت سے معجزہ كى خصوصيات سے روشناس كروايا _و يا قوم هذه ناقة الله

تعبير ( يا قوم ) يعنى اے ميرى قوم عطوفت اور مہربانى كو بتاتى ہے _

۴_ حضرت صالحعليه‌السلام نے اپنى قوم سے درخواست كى كہ اس اونٹنى كو چرنے كيلئے آزاد چھوڑ ديں _

فذروها تأكل فى ارض الله

۵_ حضرت صالحعليه‌السلام نے قوم ثمود كو خبردار كيا كہ اس اونٹنى كو كسى قسم كى تكليف اور اذيت نہ ديں _ولاتمسوها بسوء

۶_ حضرت صالح(ع) نے اپنى قوم كو متنبہ كيا كہ اگر انہوں نے اونٹنى كو چرنے سے منع كيا اوراسے اذيت دى تو جلدہى عذاب نازل ہوجائے گا _

ولا تمسوها بسوء فيأخذكم عذاب قريب

۷_ زمين اور جو اس پر اگتا ہے وہ خداوند متعال كى ملكيت ہے _فذروها تأكل فى ارض الله

مذكورہ بالا معنى لفظ ( ارض) كو (الله ) كى طرف اضافت دينے سے حاصل ہوا ہے _

۸_ چراگاہوں كا خدا كى ملكيت ہونا،يہ حضرت صالحعليه‌السلام كى دليل تھى كہ ناقہ كو زمين پر كہيں بھى چرنے سے منع نہ كيا جائے _هذه ناقة الله ...فذروها تأكل فى ارض الله

۱۹۲

''ناقہ خدا'' اور'' زمين خدا'' كى تعبيرات كا استعمال يہ حقيقت ميں حضرت صالحعليه‌السلام كا اپنى قوم كے ليے استدلال تھا كہ اس ناقہ كو كہيں بھى چرنے سے منع نہ كيا جائے كيونكہ يہ ناقة الله ہے اور زمين بھى الله تعالى كى ہے اور يہ مناسب نہيں ہے كہ اسكو چرنے سے روكا جائے _

۹_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كو چرنے ميں آزاد ركھنا، قوم ثمود كے منافع كے خلاف تھا_

فذروها تأكل فى ارض الله و لا تمسوها بسوء

قوم ثمود كو خبردار كيا جاناكہ اگر انہوں نے ناقہ كو چرنے سے منع كيا تو عذاب ميں گرفتار ہوجائيں گے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ اونٹنى كى سلامتى ان كى طرف سے خطرے ميں تھى اور وہ لوگ اونٹنى كے آزاد چرنے كو اپنے فائدے ميں نہيں ديكھ رہے تھے _

۱۰_عن ابى جعفر عليه‌السلام : قال : ان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سأل جبرئيل عليه‌السلام ... فقال : يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان صالحاً بعث الى قومه قالوا : يا صالح(ع) ادع لنا ربك يخرج لنا من هذا الجبل الساعة ناقة حمراء شقراء و براء عشراء بين جنبيها مبل فسا ل الله تعالى صالح عليه‌السلام ذلك فانصدع الجبل صدعاً ، ثم اضطرب ذلك الجبل ثم لم يفجأهم الَّا را سها ثم خرج سائر جسدها ثم استوت قائمة على الأرض (۱)

ترجمہ : امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قوم صالح كے بارے ميں جبرائيلعليه‌السلام سے سوال كيا_ جبرائيل(ع) نے عرض كي: صالحعليه‌السلام اپنى قوم كى طرف مبعوث ہوئے تو ان سے انہوں نے كہا كہ اے صالحعليه‌السلام اپنے خدا سے درخواست كرو كہ ابھى اس پہاڑسے اونٹى پيدا كرے _ جو گہرے سرخ رنگ كى ہو اور اسكو حمل سے آزاد ہوئے دس مہينے گذر چكے ہوں اور اس كے دونوں پہلووں كے درميان ايك ميل ( چار ہزار ہاتھ) فاصلہ ہو اس وقت حضرت صالحعليه‌السلام نے خدا سے دعا كى ، تو پہاڑ ميں بہت بڑا شگاف ہوا پھر ايك لرزہ آيا اچانك ايك ناقہ كا سر پہاڑ سے باہر آيا ...پھر باقى جسم باہر نكلا اور وہ زمين پر كھڑى ہوگئي_

____________________

۱)كافى ، ج۸ ، ص ۱۸۵ج ۲۱۳ ; تفسير برہان ج۲ ص ۲۲۵; ح ۳_

۱۹۳

جڑى بوٹياں :جڑى بوٹيوں كا مالك ۷

خدا :ارادہ خداوندى ۱; خدا كى مالكيت ۷، ۸

روايت : ۱۰

زمين :زمين كا مالك ۷

صالحعليه‌السلام :حضرت صالح(ع) ا ور قوم ثمود۳،۴،۵،۸; حضرت صالح(ع) كا استدلال۸; حضرت صالح(ع) كا اونٹنى كو اذيت دينے سے منع كرنا۵; حضرت صالح(ع) كا ڈرانا ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصّہ ۴، ۵، ۶، ۸; حضرت صالحعليه‌السلام كا معجزہ ۱، ۱۰;حضرت صالحعليه‌السلام كي اونٹى كو اذيت دينے كے آثار ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كى آزادى ۹ ; حضرت صالح(ع) كى اونٹى كى آزادى پر دلائل ۸; حضرت صالح(ع) كى اونٹى كى چراگاہ ۴، ۸ ;حضرت صالح(ع) كى تبليغ كا طريقہ ۳;حضرت صالح(ع) كى خواہشات ۴; حضرت صالح(ع) كى عطوفت ۳; حضرت صالح(ع) كى نبوت پر دلائل ۱; حضرت صالح(ع) كے معجزے كى اہميت ۲; حضرت صالحعليه‌السلام كے نواہي۵

عذاب :عذاب سے خبردار كرنا ۶

قوم ثمود :قوم ثمود سے احتجاج ۸; قوم ثمود كو ڈرانا ۶; قوم ثمود كے منافع ۹

معجزہ :حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا معجزہ ۱، ۲

آیت ۶۵

( فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ )

اس كے بعد بھى ان لوگوں نے اس كى كونچيں كاٹ ديں تو صالح نے كہا كہ اب اپنے گھروں ميں تين دن تك اور آرام كرو كہ يہ وعدہ الہى ہے جو غلط نہيں ہوسكتا ہے (۶۵)

۱_ قوم ثمود كے كافروں نے حضرت صالحعليه‌السلام كے خوف دلانے كى پروا نہ كرتے ہوئے ناقہ كا پيچھا كركے

۱۹۴

اسكو ہلاك كرديا _فعقروه

''عقرٌ'' (عقروا) كا مصدر ہے_ عربى زبان ميں اسكا معنى اونٹ كا پيچھا كرنا اور اس كے پاؤں كو تلوار سے قلم كرنے كو كہتے ہيں اور اونٹ كو نحر اور ذبح كرنے كو بھى ( عقر ٌ ) كہتے ہيں _

۲_ قوم ثمود، نے حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹنى كا پيچھا كركے ان كى رسالت كى نشانى كو مٹا كراپنے ليے عذاب الہى كو يقينى قرار ديا _فعقرواها فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايام _

۳_ قوم ثمود، كوحضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كے قتل كے بعد دنيا ميں تين دن سے زيادہ رہنے اور اس كے مال و متاع سے استفادہ كرنے كى مہلت نہ مل سكي_فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايّام

۴_ قوم ثمود كے لوگ دنيا اور اسكى لذّات سے بہت دل لگائے ہوئے تھے _فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايّام

حضرت صالح كے فرمان (تمتعوا ) سے مراد يہ نہيں تھى كہ وہ انہيں دنيا كى لذتوں سے بہرہ مند ہونے كيلئے كہہ رہے تھے بلكہ بعد والے جملہ كے قرينہ كى بناء پر تين دن كى مہلت كا اعلان كررہے تھے تين دن دنيا كے مال و متاع سے استفادہ كرنے كيلئے مہلت دينا قوم ثمود كى طرز فكر كى طرف اشارہ ہے يعنى تم جس دنيا سے دل لگائے ہوئے ہو اور اسے چاہتے ہو اور اس كى خاطر تم نے آئين الہى كو پس پشت ڈال ديا ہے اب فقط تمھيں اس دنيا سے لذت وفائدہ اٹھانے كى تين دن كى مہلت ہے_

۵_ قوم ثمود پر نزول عذاب الہى كا وعدہ، سچا اور تخلف ناپذير تھا _ذلك وعد غير مكذوب

۶_ قوم ثمود پر عذاب الہى كے نزول كا وعدہ، خداوند متعال كى طرف سے حضرت صالحعليه‌السلام كو تھا _

ذلك وعد غير مكذوب

۷_(عن ابى عبدالله عليه‌السلام (فى حديث قوم صالح ) قالوا اعقروا هذه الناقة ثم قالوا : من الذى يلى قتلها و نجعل له جعلاً ما احب ، فجائهم رجل شقى من الأشقياء فجعلوا له جعلاً فقعد لها فى طريقها فضربهابالسيف ضربة فلم تعمل شيئا فضربها ضربةٌ اخرى فقتلها و اقبل قوم صالح فلم يبق احد منهم الَّا شركه فى ضربته فأوحى الله تبارك و تعالى الى صالح عليه‌السلام ... قل لهم: انى مرسل عليكم عذابى الى ثلاثة ايام فان هم تابوا و رجعوا قبلت

۱۹۵

توبتهم وصددت عنهم فا تاهم صالح عليه‌السلام فقال لهم يا قوم انكم تصبحون غداً و وجوهكم مصفرّة و اليوم الثانى وجوهكم محمّرة و اليوم الثالث وجوهكم مسودّة (۱)

امام جعفر صادق عليہ سے ( حضرت صالحعليه‌السلام كے قصے ميں ) روايت ہے كہ انكى قوم نے كہا : اس ناقہكو راستے سے ہٹا دو پھر اس كے بعد انہوں نے كہا : كون ہے جو اسكو ہلاك كرنے كا كام انجام دے گا ہم اس كے ليے اسكى مرضى كى اجرت مقرر كريں گے تو اسوقت ايك شقى شخص آگے بڑھا اس كے اس كام كى اجرت مقرر ہوئي _ پھراس شخص نے ناقہ كے راستے ميں كمين لگائي اور جب اونٹنى آئي تو اس نے پہلا وار كيا جو كارساز نہ ہوا پھر دوسرے وار ميں اس نے اونٹى كو قتل كرديا پھر حضرت صالح(ع) كى قوم آئي اور اسكو اجرت ادا كرنے ميں سب شريك ہوئے پھر حضرت صالحعليه‌السلام كو وحى ہوئي كہ ان كو كہہ دو كہ ميں تين دن تك تم پر عذاب نازل كروں گا اگر وہ ان تين دنوں ميں توبہ كرليں اور ( خدا كى طرف) لوٹ آئيں تو ميں انكى توبہ قبول كرلوں گا اور ان سے عذاب كوٹال دوں گا پھر حضرت صالح(ع) اپنى قوم كے پاس تشريف لائے اور فرمايا كل كے دن تمہارى صورتيں زرد اور اس كے بعد والے دن سرخ پھر تيسرے دن سياہ ہوجائيں گى

اعداد :تين كا عدد ۳، ۷

خدا :خداوند متعال كے وعدے ۶

روايت :روايت ۷

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كا ڈرانا ۱; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۳، ۷; حضرت صالحعليه‌السلام كو وعدہ دينا ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا قتل ۱، ۷;حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كو قتل كرنے كے آثار ۲، ۳

عذاب :عذاب كے اسباب ۲

قوم ثمود :قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى ۱، ۲;قوم ثمود سے توبہ كى درخواست ۷; قوم ثمود كو خوف دلوانا ۵، ۶; قوم ثمود كو مہلت ۳;قوم ثمود كى دنيا طلبى ۴;قوم ثمود كى صفات ۴;قوم ثمود كى تاريخ ۳،۵،۶;قوم ثمود كے عذاب كا حتمى ہونا ۲، ۵

____________________

۱) كافى ،ج ۸، ص ۱۸۷، ح ۲۱۴; بحارالانوار ، ج ۱۱; ص ۳۸۸ح ۱۴_

۱۹۶

آیت ۶۶

( فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحاً وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ )

اس كے بعد جب ہمارا حكم عذاب آپہنچا تو ہم نے صالح اور ان كے ساتھ كے صاحبان ايمان كو اپنى رحمت سے اپنے عذاب اور اس دن كى رسوائي سے بچاليا كہ تمھارا پروردگار صاحب قوت اور سب پر غالب ہے (۶۶)

۱_ قوم ثمود نے تين دن كى مہلت سے كچھ فائدہ نہ اٹھايا اور ناقہ كے قتل پر پشيمان نہ ہوئے نيزاپنے شرك اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے انكار پر مصّر رہے _فلما جاء امرنا

۲_ خداوند متعال نے قوم ثمود كے شرك اختيار كرنے پر اصرار اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے انكار كى وجہ سے ان پر سخت عذاب نازل كيا _فلما جاء امرنا

(امر) سے مراد قوم ثمود پرنازل ہونے والا عذاب ہے (نا) ضمير كى طرف مضاف ہونا، عذاب كے عظيم ہونے سے حكايت ہے_

۳_ قوم ثمود پر نازل شدہ عذاب، ذليل اور خوار كرنے والا عذاب تھا_نجّينا صالحاً و من خزى يؤمئذ

۴_ كائنات ميں خداوند متعال كا حكم بغير كسى كمى وزيادتى كے متحقق ہوتا ہے_فلمّا جاء امرنا

عذاب كو لفظ ( امر ) كہ جس كا معنى فرمان ہے سے تعبير كرنے كا مقصد اس نكتہ كى طرف اشارہ كرنا ہے كہ خداوند متعال جس چيز كا حكم ديتا ہے وہ بغير كسى كمى و زيادتى كے متحقق ہوتا ہے اس طرح كہ گويا موردحكم فقط وہى حكم ہے _

۵_ قوم ثمودكے كچھ لوگوں نے توحيد كو قبول كيا اور

۱۹۷

حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان لائےنجّينا صالحاً و الذين ء امنوا معه

۶_ خداوند متعال نے حضرت صالحعليه‌السلام اور ان پر ايمان لانے والوں كو قوم ثمود پر نازل شدہ عذاب سے بچاليا اور ان كو انجام كى ذلت سے محفوظ ركھا_نجّينا صالحاً و الذين ء امنوا ومن خزى يومئذ:

۷_ حضرت صالحعليه‌السلام اور انكے پيرو كاروں كونازل شدہ عذاب سے نجات دينا، خداوند متعال كى ان پر رحمت كا جلوہ تھا _

معه برحمة منّا

۸_اہل ايمان اس كے لائق ہيں كہ رحمت الہى ان كے شامل حال رہے _نجّينا صالحاً و الذين ء امنو معه برحمة منّ

۹_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كو ذليل و خوار كرنے والے عذاب سے ڈرايا _

و من خزى يومئذ ان ربّك هوالقويُّ العزيز

قوم ثمود كے كفار پر نزول عذاب كے بيان كے بعد( ان ربّك ...) كے جملے ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب قرار دے كر يہ بتايا جارہا ہے كہ قوم ثمود كے كفار پر جس طرح عذاب الہى نازل ہوسكتا ہے اسى طرح رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين بھى عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے خطرہ سے دوچارہيں _

۱۰_ كفر اختيار كرنے اور معارف دين كى مخالفت كرنے والے الہى عذاب سے دو چار ہونے كے خطرہ ميں ہيں _

فلمّا جاء امرنا نجّينا صالحاً و من خزى يومئذ انّ ربك هوالقوى العزيز

۱۱_ خداوند متعال ،قوى ( طاقتور ) اور عزيز ( ناقابل شكست ) ہے _انّ ربّك هوالقوى العزيز

۱۲_ خداوند متعال كے عذاب و عقوبت كو كوئي نہيں ٹال سكتا _ان ربّك هوالقوى العزيز

حصرپرمشتمل جملہ كے ذريعہ خداوند متعال كى حكومت اور ناقابل شكست ہونے كو بيان كرنا او ر دوسروں سے قدرت و طاقت كى نفى كرنا، اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ ارادہ خداوندى كے مقابلے ميں كسى ميں استقامت كى طاقت نہيں ہے_

۱۳_ خداوند متعال، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مربيّ اور ان كے امور كا مدبرّ ہے_ان ربّك

۱۴_ خداوندعالم كى قدرت كا ناقابل شكست ہونا، اہداف رسالت كى پيش قدمى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كے امور كى تدبير كے سلسلہ ميں معاون و مددگار ہے_ان ربك هوالقوى العزيز

۱۹۸

اسما و صفات :عزيز ۱۱; قوى ،۱۱

اعداد :تين كا عدد ۱

انسان :انسانوں كا عجز ۱۲

خدا :اوامرالہى كى خصوصيات ۸;خدا كا عذاب سے ڈرانا۹; خدا كى ربوبيت ۱،۱۴; خدا كى قدرت كے آثار۱۴; خدا كے احكام كا حتمى ہونا ۴; خدا كے عذاب۲،۱۰; خدا كے عذابوں كا حتمى ہونا۱۲; رحمت الہى كى نشانياں ۷

دين :دشمنان دين كا عذاب ۱۰;دين كى مخالفت كے آثار ۱۰

رحمت :رحمت الہى كے حق دار ۸

صالح(ع) :حضرت صالحعليه‌السلام پر ايمان لانے والے ۵; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصّہ ۲، ۳، ۵، ۶;حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا قتل ۱;حضرت صالحعليه‌السلام كى نجات ۶، ۷;حضرت صالحعليه‌السلام كے پيروكاروں كى نجات ۶،۷; حضرت صالحعليه‌السلام كے جھٹلائے جانے كے آثار ۲

عذاب :ذلت بار عذاب سے ڈرانا ۹;سخت عذاب ۲;عذاب سے نجات ۶، ۷; طلب كيا ہوا عذاب ۷; عذاب كے اسباب ۱۰; عذاب كے مراتب ۲، ۳، ۹

قوم ثمود :قوم ثمود اور حضرت صالح(ع) كى اونٹى ۱;قوم ثمود اور حضرت صالح(ع) كى تكذيب۱;قوم ثمود اور ذلّت بار عذاب ۳; قوم ثمود اور معاشرتى گروہ ۵; قوم ثمود كا شرك پراصرار ۱; قوم ثمود كى تاريخ ۱،۲،۵،۶;قوم ثمود كى لجاجت ۱; قوم ثمود كى لجاجت كے آثار ۲;قوم ثمود كى مہلت ۱;قوم ثمود كے آثار شرك ۲;قوم ثمود كے عذاب كے اسباب ۲; قوم ثمود كے موحدين ۵;قوم ثمود كے مومنين ۵

كفار:كافروں كا عذاب ۱۰

كفر :كفر كے آثار ۱۰

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مدبر ۱۳، ۱۴; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، كا مربى ۱۳ ، ۱۴ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كينبوت كى اہميت : ۱۴; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حامى ۱۴;۱۳، ۱۴;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كو ڈرانا ۹

مؤمنين :مؤمنين كے فضائل ۸

۱۹۹

آیت ۶۷

( وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ )

اور ظلم كرنے والوں كو ايك چنگھاڑنے اپنى لپيٹ ميں لے ليا تو وہ اپنے ديار ميں ادندھے پڑے رہ گئے (۶۷)

۱_ قوم ثمود كے كفار ،چيخ اور ڈرؤنى آواز كے ذريعہ ہلاكت كوپہنچ گئے_و أخذ الذين ظلموا الصيحة

۲_ قوم ثمود كے لوگ ستم كرنے والے تھے _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

۳_ قوم ثمود كى ستمكاري، ان كے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كا سبب بني_و اخذ الذين ظلموا الصيحة

۴_ قوم ثمود كا حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹنى كو قتل كرنا، ان كى ستم ظريفيوں ميں سے ايك تھى _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

اس وجہ سے كہ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كو قتل كرنا بھى عذاب الہى كے نزول ميں دخيل تھا _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جملہ (الذين ظلموا ...)ميں ظلم سے ناقہ كے قتل كى طرف اشارہ ہے_

۵_ شرك ،اور پيغمبروں كى رسالت سے انكار كرنا ستمگرى ہے _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

( الذين ظلموا ) سے مراد، مشركين اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے منكرين ہيں ان كو سمتگروں سے ياد كرنا ،مذكورہ بالا تفسير كى طرف اشارہ ہے_

۶_ ستم كرنے والے مشركين اور كفار، دنياوى عذاب (عذاب استيصال) ميں گرفتار ہونے والے ہيں _

واخذ الذين ظلموا الصيحة

۷_ قوم ثمود كے كفار، عذاب الہى كے سبب زمين پر اوندھے گر كرہلاك ہوگئے _فأصبحوا فى ديارهم جاثمين

( جثوم ) جاثمين كا مصدر ہے جو زمين سے چمٹ جانے اور حركت نہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ ليكن بعض افراد نے زمين پر سينے كے بل گرنے كا معنى كيا ہے _(لسان العرب)

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430