دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)16%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 84366 / ڈاؤنلوڈ: 4703
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہے ہم نے سنا ہے کہ ایک دین اسلام اور ایک مذہب شیعہ نام کا پایا جاتا ہے اور ہم نے اس کو قبول کیا ہے؛ لیکن کیا ہم نے حقیقت میں کبھی اس بات پر غور کیا اور سوچا کہ اس کی عقلی دلیل کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اجتماعی اسباب اور عوامل سے متاثر ہو کر شیعہ مذہب کو قبول کیا ہے؛ اور اصلاً ان لوگوں نے اس سلسلہ میں کوئی تحقیق اور جستجو نہیں کی ہے اور نہ اس کی کوئی دلیل تلاش کی ہے ؛ہاں مجلس ،اسکول اور مدرسے میں کبھی اس سلسلے میں کچھ پڑھا اور سنا ہے لیکن خود سے اپنے اندر ابتدائی طور پر یہ جذبہ اور خواہش نہیں ہوئی کہ اس بارے میں جاکر تحقیق اور جستجو کریں ، اگر ہے بھی تو بہت کم لوگوں میں ۔اکثر لوگ جذبات اور احساسات سے متاثر ہوکر یا مادی اور معنوی جذبوں کے تحت حرکت کرتے ہیں منطق اور دلیل کے ساتھ بہت کم لوگ متوجہ ہوتے ہیں ؛ عام انسانوں کے اندر جو چیز اصلی محرّک ہے وہ فائدہ یا نقصان اور خوف یاامیدہے وہی چیز جو کہ اسلامی تہذیب میں خوف ورجا کے نام سے پائی جاتی ہے یعنی انسان کسی چیز سے خوف رکھتا ہے یا اس چیز میں اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہیتو وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا یہ کہ اس چیز میں دولت ، بلندی اور شہرت تو اس کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا پھر یہ کہ بھوک ، بیکاری، تازیانہ، قید خانہ اور سزا کے خوف کی وجہ سے مجبور ہو کر اس کام کو کرتا ہے،

۱۸۱

یہ مثل بہت مشہور ہے کہ انسان خوف و امید کی وجہ سے زندہ ہے ؛عام طور سے یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر سبق اور درس پڑھے گا تو اس کی وجہ سے دوستوں اور ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہ جائے گا یا تعلیم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس کے بعد کوئی مفید کام کرے گا اور پیسہ وغیرہ کما سکے گا یا اس لئے کہ سبق پڑھ کر ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار اور دوسروں کے طعنہ سے محفوظ رہے گا کیونکہ اکثر لوگ ایسے ہی ہیں ،لہذٰا جیسا کہ آیہ کریمہ میں ہے کہ پہلے حکمت کا لفظ ہے اور اس کے بعد موعظہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے '( 'ادع الیٰ سبیل ربّک با لحکمة و الموعظةالحسنة''یعنی ) برہان و دلیل کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اس کام کو انجام دو گے اور کرو گے تو اس سے یہ فائدہ حاصل ہو گا اور اگر اس کام کو نہیں کروگے تو یہ نقصان ہو گا یا اس کے بر عکس اگر اس کام کو کروگے تویہ نقصان ہوگا اور اس کو چھوڑ دو گے تو تم کو یہ فائدہ ہوگا ۔

اگر قرآن کریم میں انبیاء کے اوصاف کا ہم غور سے مطالعہ کریں تو ان کی صفتوں میں بہت سی جگہوں پر مبشر اور منذر کالفظ آیا ہے کہ انبیاء بشارت اور انذار کے لئے آئے ہیں ، خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے( وما نرسل المرسلین الاّ مبشرین و منذرین ) ( ۱ ) ہم نے پیامبروں کو صرف مبشر اور منذر بنا کر بھیجا ہے یعنی وہ صرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں ۔

انبیاء نے دعوت اور تبلیغ کے مرحلے میں صرف برہان و دلیل (حکمت )پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ ،جس کو میں نے پہلے بیان کیا او ر شروع میں مختصر طور سے اس کی

____________________

(۱) سورہ انعام آیہ ۴۸.

۱۸۲

وضاحت کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں سے یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہماری باتوں کو تم لوگ قبول کرو گے اور ان پر عمل کرو گے تو اس کے بدلے تمھارے حصّہ بے پناہ نعمتیں اور ہمیشہ رہنے والی بہشت آئے گی اور اگر تم نے ہماری باتوں کو قبول نہیں کیا اور مخالفت کی تو جہنم اور اس کا عذاب تمھارا منتظر رہے گا ؛اب اس جگہ پر لوگ مواقفت یا مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

اس کی تاثیر اس وقت زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے جب اس کے عملی نمونے یا وہ واقعے جو کہ پہلے زمانے میں ہو چکے ہیں ان کے کانوں تک پہونچتے ہیں ؛ اسی لئے آپ قرآن مجید میں دیکھیں گے کہ پچھلی امتوں کے واقعات اور جو عذاب ان پر نازل ہوئے ہیں ان کا تذکرہ ہے اور اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے کہ ہرگز تم بھی ایسا کام نہ کرنا ورنہ تمھارا حشر بھی ویسا ہی ہوگا ؛اس جگہ انسان کے ضمیر کے اندر ایک بیچینی اوراضطرابی کیفیت اور تحریک پیدا ہوتی ہے؛ البتہ نفع اور فائدہ کی امیداورنقصان کے خوف ،ان دونوں میں نقصان کا خوف انسان کوکام پر زیادہ ابھارتاہے ؛ یعنی اگر کچھ حد تک دنیاوی اور مادی نعمتوں کو حاصل کر لیتے ہیں اور پھر ا س سے کہا جائے اگر ایسی کوشش اور ز حمت کرو گے تو دولت و نعمت اور شہرت اس سے زیادہ حاصل ہو گی؛ممکن ہے کہ اگر وہ جذبہ و حوصلہ نہ رکھتا ہو تو یہی کہے گا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہی کافی ہے ؛لیکن اگر اس سے کہا جائے کہ اگر کوشش نہیں کروگے تو تمھاری دولت اور ثروت کم ہو جائے گی اور رتبہ کم ہو جائے گا ؛چونکہ نقصان کا خوف ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ نقصان نہ ہونے پائے، اور شاید اسی لئے قران کریم میں بشارت اور انذار ساتھ ساتھ ذکرہوئے ہیں لیکن پھر بھی انذار سے متعلق زیادہ تاکید ہے ، خدا وندتباک وتعا لیٰ کا ارشادہوتا ہے:( و ان من امّةٍ الّاخلا فیها نذیر ) ( ۱ ) یعنی کوئی امت ایسی نہیں گذری ہے جس میں نذیر ( ڈرانے والے )نہ ہوںاسی وجہ سے دعوت و تبلیغ کے آغاز میں جاذبہ اور دافعہ دونوں ایک ساتھ ہونے چاہئیں کیونکہ اس میں حکمت اور استدلال بھی ے اور جنت کا وعدہ اور جہنم سے ڈرانا بھی ہے اور جہنم کے سلسلے میں جو روایات ہیں ان میں دلچسپ اور نہایت ہی وحشتناک طریقے سے ڈرانے والے کے وصف کو بیان کیا گیا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ فاطر : آیہ ۲۴۔

۱۸۳

(ب) موعظہ حسنہ ]نیک اور درست[ ہونا چاہئے

جو نکتہ یہاں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ جب حکمت کے بعد موعظہ کا موقع آئے تو موعظہ حسنہ ہو نا چاہئے یعنی اگر چہ موعظہ بشارت اور انذار دونوں پر مشتمل ہوتاہے اور اس کے معانی و مطالب اچھے نہیں لگتے لیکن اسکے بیان کی کیفیت اوراندازاچھا اور دلپذیر ہونا چاہئے یہاں تک کہ اگر انذار کا مخاطب فرعون جیسا گمراہ انسان بھی کیوں نہ ہو ؟بھی خداوند عالم موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون سے کہتا ہے:( اذهباالیٰ فرعون انه طغیٰ وقولاله قولا لینا ) ۔۔( ۱ ) فرعون کی طرف جائو اس نے سرکشی کی ہے اس سے نرم لہجہ میں گفتگو کرو ،شاید کہ وہ قبول کرے یا خوف ا ختیار کرلے ،یعنی فرعون سرکش ہے پھر بھی تمہارے ا لفاظ اور ڈرانے کاطریقہ ایسا ہو کہوہ ڈر جائے؛ لیکن ڈرائیں تو اپنے الفاظ کونرمی اور ملائمت کے ساتھ بیان کروپہلے سختی اورخشونت کے ساتھ اسکے سامنے نہ جائو۔ دعوت اور تبلیغ کے وقت اگر شروع ہی میں چیخ اور تند کلامی سے اسکو متوجہ کروگے تو وہ اصلاًتوجہ نہیں کرے گا کہ تم کیا کہہ رہے ہو لیکن اگر اس دافعہ والے الفاظ اور اسکے مطلب کو نرمی اورخوش اخلاقی کے ساتھ کہو گے تو ممکن ہے تمھاری بات اس پر اثر کرے ۔

____________________

(۱) سورہ طٰہ : آیہ۴۲ الیٰ ۴۴۔

۱۸۴

(ج)مناظرہ

اس آیہ شریف میں موعظہ کے بعد مجادلہ کو بیان کیا گیا ہے( ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظةالحسنة وجادلهم بالتی هی احسن ) ( ۱ ) یعنی اچھی نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف بلائو اور ان سے بہترین طریقہ سے مجادلہ کرو اس لئے کہ ان کی ہدایت کی طرف راہنمائی کرو تو اچھی طرح سے بحث ومناظڑہ کرو ،مناظرہ کے موقع پر اگر سامنے والا مغلوب بھی ہوجائے اور اسے علمی حیثیت سے شکست دیدو لیکن پھر بھی انصاف وعدالت اور ادب سے باہر نہ نکلو اسکو شکست دینے کے لئے مغالطہ کا سہارا نہ لواس بات کی کوشش کرو کہ اسکو قانع اور مطمئن کردو تاکہ حقیقت اسکو معلوم ہوجائے ؛ساری کوشش اس بات میں صرف نہ کرو کہ چاہے جیسے بھی ممکن ہو ہر قیمت پر اسکو میدان مناظرہ سے خارج کر دو۔

____________________

(۱) سورہ نحل : آیہ ۱۲۵۔

۱۸۵

دعوت وتبلیغ میں دافعہ کے استفادہ نہ کرنے کی وجہ

لہٰذایہ کہا جاسکتاہے کہ دعوت و تبلیغ کے ہر مرحلہ حکمت ،موعظہ ، مجادلہ میں سے کسی میں بھی خشونت ودشمنی اور دافعہ مناسب نہیں ہے اگرچہ مجموعہ کلام و گفتگومین ممکن ہے کہ بات جہنم، اسکی آگ اور عذاب سے متعلق ہو ،لیکن گفتگو کا اندازایسا دلپذیر اور شیرین ہو کہ سامنے والا اس کو سننے اوراس پر غوروفکر کرنے پر آمادہ ہوجائے جب آپ اس انداز سے بات کریں گے کہ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہو جائے تو وہ اس کے متعلق فکر کرے گا اور خود سے یہ کہے گاکہ اگر یہ جہنم اور عذاب واقعاً صحیح ہیں تو میں ہمیشہ کے لئے اس عذاب میں گرفتارہو جائوںگا پس بہتر یہ ہے کہ تحقیق اور جستجو کی جائے اور حقیقت ماجرا سے آگاہی حاصل کی جائے، خاص طور سے جب اس طرف متوجہ ہو کہ نفع اور نقصان کی تعیین میں صرف احتمال کی مقدار کافی نہیں ہے احتمال کا نتیجہ ، محتمل (جس چیز کا احتمال ہو )میں ہے کیونکہ محتمل ہی آخری نتیجہ کو مشخّص و معےّن کرتا ہے یعنی ممکن ہے کہ احتمال کے مواقع اور مواردمیں اگرچہ نفع یا نقصان کا احتمال بہت کم ہولیکن اگر محتمل قوی ہے تو وہ ہمارے لئے حرکت کا سبب ہوگا مثلاًاگر پانچ سال کا بچہ آپ سے کہے کہ اس سیڑھی پر جس سے آپ اوپر جارہے ہیں ایک بجلی کا تارٹوٹ گیا ہے احتیاط سے کام لیجئے گا آپکا پیر اس پرنہ پڑے، یہاں پرمسئلہ،احتمال کے اعتبار سے بہت کمزور ہے کیونکہ پانچ سال کا بچہ کیسے بجلی کے تار کو پہچان سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے ٹیلی فون کا تار یا رسّی تا اور کوئی دوسری چیز ہو، اسے کہاں سے معلوم کہ تارمیں بجلی ہے ؟شاید کوئی ایک تار ہے جو ایسے ہی سڑھیوں پر پڑا ہو ،خلاصہ یہ کہ یہ پانچ سال کے بچے کی بات کوئی خاص احتمال آپ کی نظر میں پیدا نہیں کرتی لیکن پھر بھی یہ مسئلہ موت اور زندگی سے متعلق ہے بجلی سے کوئی مذاق نہیں کرسکتا ، لہذااگرچہ احتمال بہت ضعیف اور کم ہے لیکن محتمل بہت قوی ہے، آپ سیڑھی سے اوپر جانے میں بہت محتاط اور ہوشیار رہیں گے، اگر تار مل جائے تو بہت ہی احتیاط کے ساتھ اس سے بچ کر وہاں سے گذریں گے ۔

۱۸۶

ہماری بحث میں بھی محتمل بہت مضبوط اور قوی ہے یہ مسئلہ موت اور زندگی سے بھی بڑھ کر ہے، مسئلہ عذاب اورجہنم میں ہمیشہ رہنے کا ہے وہ عذاب اور جہنم جس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اگر اسی آگ اور جہنم کو نرم وآسان زبان، دردمند احساس اور مخلصانہ اندازکے ساتھ بیان کیا جائے تو اس بات کا احتمال زیادہ ہے کہ میری بات کو سنیں گے بلکہ اس سے متا ثر بھی ہوں گے۔

انسان کے شخصی اور خصوصی افعال کے سلسلے میں اسلام کا طرزعمل

لیکن اگر دعوت وتبلیغ کے مرحلہ سے آگے بڑھ کر قوم ،معاشرہ اور عوام کے عمل نیز معاشرہ پر اس کے اثر کے متعلق بحث ہوتو بات جدا ہوگی اور مسئلہ یہاں پر فرق کرتا ہے ،کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک پوشیدہ کام ہے اور اس کا فائدہ یا نقصان پوری طرح سے ایک خاص شخص سے مربوط ہے اور اس کا اثر سماج اورمعاشرہ پر کچھ بھی نہیں ہے مثلاً ایک انسان نماز شب پڑھنے کے لئے آدھی رات کو بستر سے اٹھتا ہے اور بغیر کسی کو اطلاع دئیے ہوئے نمازمیں مشغول ہو جاتاہے، یا العیاذ باللہ ایک بوتل شراب نکال کر گھر کے کسی گوشہ میں چھپ کرپینا شروع کر دیتاہے، ان جیسے موارد میں جاذبہ سے استفادہ کرنابہت اچھا ہے یعنی اس کے لئے نماز شب کے فوائد کو بیان کیا جائے تا کہ اس کے اندر حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو اور وہ نماز شب پڑھے ، یامخلصانہ اور دوستانہ طریقے نیز اچھے اور نرم لہجے میں شراب کے نقصانات کو اس کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اس برے کام سے باز آجائے ،لیکن اسلام میں ایسے مسائل ( جو کہ پوری طرح ایک خاص فرد سے مربوط ہوں ) میں طاقت و قوت اور سختی و عناد کے ساتھ منع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ،یہاں تک کہ اگر آپ کسی شخص کے ایسے کام سے مطلع ہوتے ہیں تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ اس بات کو اس کے سامنے بیان کریں اور کہیں کہ ہاں میں نے تم کو یہ برا کام کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر کیسے صحیح ہے کہ آپ اس کے غلط کام کو دوسرے کے سامنے بیان کریں ؟

۱۸۷

یہ مومن کا راز ہے اس کو چھپانا چاہئے اور کوئی بھی اس کو ظاہر کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی انسان تنہائی میں گناہ کرنے میں مصروف تھا اور آپ نے اس کو دیکھ لیا اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس سے یہ کہیں کہ میں نے تم کو یہ برا کام کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو ممکن ہے آپ کا یہی کہنا اس بات کا سبب ہو کہ وہ فکر کرے اب تو میرا گناہ عام ہو ہی چکا ہے چھپا کر کروں یا ظاہری طور،پراب کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ،اس کے بعد کھل کر گناہ کروں گاکیونکہ گناہ تو ظاہر ہو چکا ہے لہذٰا ایسے گناہ کو ظاہرکرنااسلام کی نظر میں جائز نہیں ہے ؛پھر کیا حق بنتا ہے کہ جبری اور قہری طور پر اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے ؟ہا ںاگر ایک ایسے بالواسطہ طور پر کہ وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ آپ اس کے برے کام سے واقف ہو گئے ہیں تو ایسی جگہ پر ممکن ہے اس کو نصیحت کی جائے، تا کہ وہ اس برے کام سے باز آجائے، توپھر ایسا کرناصحیح ہے۔

اجتماعی افعال کے ساتھ اسلام کا برتائو

بہت سے اعمال ایسے پائے جاتے ہیں کہ اس کا نفع یا نقصان ایک شخص سے کر پورے معاشرہ پر پڑتا ہے البتہ یہ تاثیر کبھی بلا واسطہ (ڈائریکٹ)ہوتی ہے اور کبھی بالواسطہ ہوتی ہے،بلا واسطہ تاثیر اس طرح کہ مثلاً کسی کو مارا پیٹا جا رہا ہو یا اس پر ظلم ہو رہا ہو؛ معاشرہ پر لوگوں کے عمل کی بالواسطہ تاثیر کے مصداق اور اس کے دائرہ کے متعلق اختلاف رائے کا ہونا ممکن ہے لیکن جو چیز مسلّم ہے اور اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے وہ یہ کہ اگر چہ اس عمل کا اثر ظاہراً بعض جگہوں پرمعاشرہ کے تمام افراد پر نہ پڑتا ہو لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے مثلاً برے کام کو اگر کوئی لوگوں کے سامنے انجام دے، تو یہ ایک بالواسطہ طور پر سکھانے کا طریقہ ہے اور یہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ دھیرے دھیرے اس کا برا ہونا ختم ہو جاتا ہے، اگر ماں اور باپ بچوں کے سامنے جھوٹ بولیں تو گویا یہ بالواسطہ طور پر ان کو سکھاتے ہیں کہ جھوٹ بولنا کوئی قباحت نہیں رکھتا ہے اسی بالواسطہ تاثیر کی وجہ سے( جوکہ معاشرہ پر پڑتی ہے) اسلام نے تجاہر بہ فسق یعنی علی الاعلان گناہ کرنے کو منع کیا ہے اور بعض افعال کے متعلق یہ کہا ہے کہ اسکو علانیہ لوگوں کے سامنے انجام نہیں دے سکتے؛ یعنی اگر ایسے اعمال کو کسی نے تنہائی مین چھپ کر انجام دیا ہے تو صرف گناہ کیا ہے؛ لیکن حقوقی طور پراس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور حکومت اسلامی بھی اسکو کچھ کہنے والی نہیں ہے؛ لیکن اگر اسی عمل کو وہ لوگوں کے سامنے کھل کر انجام دیتا ہے تو وہ مجرم شمار کیا جائیگا اور اسکو سزا ہو گی ۔

۱۸۸

بہر حال وہ اعمال جو کہ اجتماعی تاثیر رکھتے ہیں اور انکے انجام دینے سے لوگوں کے حقوق پر تجاوز ہوتا ہے انکی نسبت اگر انکی تاثیر بلا واسطہ ہوتی ہے تو اس صورت میں دنیا کے تمام عقلاء کہتے ہیں کہ ایک اجتماعی قوت یعنی حکومت تا کہ ان غلط کاموں کو جن کو دوسرے کے حقوق پر تجاوز کہا جاتا ہے، روک سکے ،یہ مطلب اسلام اور دین الہیٰ سے مخصوص نہیں ہے۔ ان موارد کے علاوہ اگر کسی جگہ کوئی عمل سماج کے لئے معنوی ضرر کا باعث ہو تو اسلام نے حکومت کو اجازت دی ہے بلکہ اس کو مکلف کیا ہے کہ اس میں دخل دے اور اس کام کو روکے؛ اور اسلام کا یہ کام ایک بنیادی اور جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے بر خلاف دوسرے نظاموں جو کہ ڈموکراسی اورلیبرل نظام پر قائم ہیں جمہوری اور لیبرل نظام حکومت میں مثلاً اگر کوئی نیم عریاں یا نا مناسب لباس پہن کر سڑک پر آتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس انسان کی خاص رفتارہے اور اس کا ذاتی معاملہ ہے اوراس کو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا ، اس میں وہ پوری طرح سے آزاد ہے ؛لیکن اسلام نے اس عمل سے منع کیا ہے اس نے کہا کہ یہ عمل معنوی و تربیتی اعتبار سے تباہ کن اثرات کا حامل ہے ،اگر کوئی شخص ایسے عمل انجام دیتا ہے تو اسلام نے اس کو خطا کار کہا ہے اور اس کے ساتھ مجرم کے عنوان سے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔

جزائی اورکیفری قوانین، اجتماعی نظم قائم کرنے کا سبب

وہ اعمال جو کہ اجتماعی خرابیاں رکھتے ہیں اور دوسروںکے حقوق کی پامالی کا سبب بنتے ہیں ان کو ہر حالت میں روکا جانا چاہئے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ظاہر سی بات یہ ہے کہ حکومت ان کاموں کو انجام دینے کے لئے قانون بنانے کی محتاج ہے وہ قوانین جو کہ ایک معاشرہ اور سماج میں ہوتے ہیں ، ا ن کی دو قسم ہے: (۱) مدنی قانون (۲) جزائی قانون

۱۸۹

مدنی قانون (مدنی حقوق )

لوگوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کو بیان کرتا ہے جیسے تجارت،شادی بیاہ،طلاق،میراث اور ان جیسے قانون ۔

جزائی قانون(کیفری قانون)

اس حکم کو بیان کرتا ہے جو مدنی قانون کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتا ہے یعنی جب مدنی قانون نے لوگوں کی آزادی اور حقوق کو بیان کر دیا ؛اگر کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جزائی قانون اس کی سزا کو بیان کرتا ہے اور تمام حکومتوں کا ایک اہم قا نون یہی جزائی قانون ہے ؛حکومت اس قانون کو بناتی ہے اور اس کو لاگو بھی کرتی ہے؛ اس کی اصل وجہ اجتماعی نظم کو برقرار رکھنا اور اس کو جاری رکھنا ہے اور وہ سب اسی جزائی قانون سے مربوط ہے؛ اگر حکومت صرف مدنی قانون کے بنانے پر اکتفا کرے اور صرف لوگوں کے حقوق کو بیان کرے اور جب لوگ اس قانون کی خلاف ورزی کریں،ان کے لئے کوئی قانون نہ ہو تو ہم بہت سے مواقع اس مدنی قانون کی مخالفت اور خلاف ورزی کا مشاہدہ کریں گے ۔ہم خود اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگرراہنما پولیس وغیرہ اور جرما نہ نہ ہو تو بہت کم ہی لوگ لال بتیّ،ممنوعہ جگہ پر گاڑیوںکا پارک کرنا ، یک طرفہ راستے سے نہ گذرنا ان سب قوانین کی رعایت کوئی بھی نہیں کرے گا، جو چیز چوروں اور قاتلوںکو ان کے کام سے خوف زدہ کرتی ہے زندان اور قتل کا ڈر ہے اگر یہ ڈر نہ ہو تو لوگوں کے مال و دولت کو آرام سے لوٹ لیں اور ان لوگوں کو قتل کردیں ،بس اسی وجہ سے حکومتوں کا ایک سب سے اہم اور بنیادی کام جزائی قانون کا بنانا اور اس کو جاری کرنا ہے اس قانون کے بغیر اجتماعی نظم اور حکومت کا نظم و نسق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔

۱۹۰

دافعہ، جزائی قوانین کی فطری ماہیت ہے

یہ فطری بات ہے کہ جزائی قانون کے لاگو ہونے کے لئے دافعہ کا ہونا ضروری ہے ؛کیونکہ کوئی بھی قید،کوڑے اور جرمانے سے خوش نہیں ہوتا ہے اور یہ سب کام سخت اور درشت ہیں چاہے یہ سب مسکراہٹ اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام دیئے جائیں؛ اگر کوئی انسان غلط کام کئے ہو اس سے بہت ہی ادب اور مسکراہٹ کے ساتھ کہا جائے مہربانی کرکے پندرہ سال اس قید خانہ میں محبوس ہوجایئے؛ یا یہ کہیں کہ ذرا مہربانی کرکے اپنے جسم سے کپڑے کو ہٹایئے تاکہ اس جسم پر سو کوڑے لگائے جائیں، یا یہ کہا جائے مہربانی کر کے اپنی گردن کو آگے بڑھائیے تا کہ اس کو کاٹا جائے تویہ مسکراہٹ اور احترام کسی چیز کو نہیں بدلے گا اور جن کاموں میں ذاتی طور پر خشونت اور نفرت موجود ہے ان کے اثر کو نہیں بدلے گا ؛کس کو یہ آرزو ہے کہ پندرہ سال بیوی،بچے اور دوستوں سے دور قید خانوں میں جاکر زندگی بسر کرے؟ اگر ایک پولیس افسربہت ہی اچھے اخلاق،نہایت ادب اور عزت و احترام کے ساتھ ہم کو صرف لال بتی سے گذرنے کی وجہ سے نا قابل معافی پانچ ہزارروپئے کا جر مانہ کر دے تو ہم اس بات پر ناخوش ہوتے ہیں ؛ اگر چہ ہم زبان سے کچھ نہ کہیں لیکن دل ہی دل میں ضرور اس کو برا بھلا کہیں گے اب اگرجرمانہ پانچ لاکھ روپئے ہو یا قید خانہ کی سزا ،کوڑے اور جسمی اذیت کے ساتھ ہو تو ایسی جگہوں پر دافعہ کا پایا جانا لازمی ہے؛ بہر حال کوئی بھی انسان جزائی قوانین میں خشونت اور ذاتی دافعہ کا انکارنہیں کر سکتا ہے اور جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی عرض کیا ان جیسے قوانین کے بغیر حکومت کا ہونا بھی ناممکن ہے؛ لہذٰاساری حکومتیں لازمی اورفطری طور پر دافعہ اور خشونت رکھتی ہیں ۔

۱۹۱

البتہ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ عرف عام میں خشونت کا اطلاق اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں جسمانی اذیت اور تکلیف ہو مثلاً کسی کا ہاتھ کاٹا جائے؛ یا کسی کو مارا جائے لیکن پھر بھی ہر حال میں جہاں جرمانہ، قید خانہ اور اس جیسی سزائیں ہیں ،اگروہاں خشونت کا اطلاق نہ ہوتا ہو تو کم سے کم تھوڑا بہت دافعہ ضرورپایا جاتا ہے اور اکثر لوگ اپنے متعلق اس طرح کی سزائوں سے راضی اور خوش نہیں ہوتے ہیں ؛ لہذٰا حکومت، جزائی قانون کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جزائی قوانین ہمیشہ خشونت اور دافعہ کا پہلواپنے دامن میں رکھتے ہیں ۔ اور حکومت بغیر دافعہ کی طاقت کے ،صرف قوت جاذبہ رکھتی ہو ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور بغیر اس کے حکومت بیکار ہے، کیونکہ حکومت کا ایک اصلی اور اہم مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی انسان قانون کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس کو زبر دستی اس کام کے لئے مجبور کیا جائے، تاکہ وہ قانون پر عمل کرے؛ البتہ یہ زبر دستی اور سختی بہت سے مراحل اور مراتب رکھتی ہے کبھی جر مانہ ہے ،کبھی قید خانہ، کبھی جلا وطنی اور کبھی کو ڑے مارنا ہے اور سب سے آخری حد قتل اور پھانسی ہے۔

۱۹۲

عمل کے شخصی اور اجتماعی پہلو کے درمیان فرق پر توجہ

اس بنا پر دافعہ اس جگہ فائدہ مند ہے جہاں پر اجتماعی قوانین کی مخالفت پیش آتی ہو اور جب تک کوئی برا کام شخصی، فردی اورخصوصی پہلورکھتا ہو اور اس میں کوئی بھی اجتماعی پہلو نہ پایا جاتا ہو، حکومت کو سزا دینے یا دافعہ کا کوئی حق حاصل نہیں ہے؛ البتہ اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی شخص اکیلے میں گناہ انجام دے رہا ہے اور وہ یہ چاہتا ہو کہ کوئی بھی اس کے گناہ سے واقف نہ ہو اوریہ حقوق مدنی قانون کے اعتبار سے بھی مجرم ہے اگر کسی صورت سے یہ گناہ قاضی کے نزدیک عدالت میں ثابت ہو جائے تواس انسان پر اسلامی دستور کے مطابق سزا اور حد جاری ہوگی ؛اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر چہ اس نے یہ گناہ تنہائی میں انجام دیا ہے اور اس نے اس بات کی کوشش کی کہ کوئی اس کے گناہ سے مطلع نہ ہو؛ لیکن چونکہ کسی طریقے سے لوگ اس کے اس گناہ سے واقف ہو گئے ہیں اور یہ بات عام ہو گئی ہے اور اس صورت میں اس گناہ نے اجتماعی رخ اختیار کر لیا ہے تواس لحاظ سے کہ ممکن ہے اس کے اجتماعی اثرات تباہ کن ہوں،اس وجہ سے اس پر سزا ہوگی ؛یہاں تک کہ اگر ایک انسان بھی اس کے اس غلط کام سے واقف ہوگیا ،اس وقت بھی اس پر( اشاعہ فاحشہ )برے عمل کو پھیلانے کا عنوان صدق کر رہا ہے جوکہ اسلامی قانون کے مطابق حرام اور ممنوع ہے ؛ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے( ان الّذین یحبّون ان تشیع الفاحشة فی الّذین آمنوا لهم عذاب الیم فی الدّنیا والآخرة'' ) ( ۱ ) جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں کے درمیان برے کام کو پھیلائیں ؛ان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر سخت دردناک عذاب ہے ۔

____________________

(۱) سورہ نور : آیہ ۱۹۔

۱۹۳

غیراسلامی ممالک اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ اسلام کابرتائو

وہ لوگ جو کہ اسلامی ممالک اور اس کی حدوں سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے متعلق جاذبہ اور دافعہ کا کیا حکم ہے، یہ ایک تفصیلی اور تفصیلی بحث ہے جس کے لئے بہت زیادہ وقت چاہئے؛ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، چونکہ آئیندہ جلسے سے ایک نئی بحث شروع کرنے کا ارادہ ہے، لہذٰا اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے یہاں پر مختصر طور پر] جو اس بحث سے مربوط ہے[ اس کو پیش کیا جا رہا ہے۔

جو لوگ اسلامی مملکت کے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں وہ دو حال سے خالی نہیں ہیں ؛ یا وہ لوگ ہیں جو کہ اسلام کے خلاف سازش اور تخریب کرتے ہیں اور اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی چال چلتے رہتے ہیں ؛یا ایسے نہیں ہیں ؛دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ایسے لوگ ہیں جو کہ اسلامی ممالک اور وہاںکے لوگوں سے دشمنی رکھتے ہیں اور ان کے لئے اذیت کا سبب بنتے ہیں یا ایسے لوگ نہیں ہیں ۔ اگر باہری ممالک کے لوگ مسلمانوں کی اذیت اور ان کو کمزور اورنابودکرنے ارادہ نہ رکھتے ہوں تو اس صورت میں مسلمان ان کے خلاف کو ئی بھی تجاوز کا حق نہیں رکھتے ہیں

۱۹۴

اور مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے ساتھ عدل و احسان کا برتائو رکھیں ،قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:( لا ینهاکم اللّه عن الّذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوهم و تقسطوا الیهم'' ) ( ۱ ) وہ تمھیں ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو ، جب تک وہ لوگ تم سے دشمنی اختیار نہ کریں اور تمھارے خلاف سازش نہ رچیں؛ تم کو چاہئے کہ ان کے ساتھ احسان کرو ؛یہاں تک کہ اپنے ملک میں رہنے والے افراد سے بھی زیادہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، تا کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ ان جگہوں میں جہاں زکواة خرچ کی جاسکتی ہے ان میں ایک وہ جگہ بھی ہے کہ اصطلاح میں جس کومولّفة القلوبکہا جاتا ہے یعنی وہ کفار جو کہ اسلامی ملک کے اطراف میں رہتے ہیں ؛ صرف اس لئے کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں اور اسلام کی دوستی اور محبت داخل ہو زکواة کے مد سے ان کو ہدیہ وغیرہ دیاجائے لہذٰا کفار کے اس گروہ کی بہ نسبت نہ صرف یہ کہ خشونت اور دافعہ نہ رکھنے کا حکم ہے؛ بلکہ انکے متعلق جاذبہ بھی اختیار کرنا چاہئے۔

لیکن وہ لوگ جو کہ مسلمان اور اسلام کے خلاف دشمنی اور سازش اختیار کرتے ہیں ؛ ان کے ساتھ تو خدا وند عالم نے فیصلہ کن انداز اختیار کرنے کا حکم دیا ہے،

____________________

(۱) سورہ ممتحنہ: آیہ ۸۔

۱۹۵

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:( انّما ینهاکم الله عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاهروا علیٰ اخراجکم ان تولوهم ) ( ۱ ) وہ تمھیں صرف ان لوگوںکی دوستی سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمھیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمھارے نکالنے پر دشمنوں سے مدد کی ہے۔

پہلے گروہ کے لئے جاذبہ رکھو، لیکن یہ گروہ کہ جو اسلام اور مسلمان کے دشمن ہیں ان کے ساتھ پوری طرح سے دافعہ رکھو، ان کی زندگی کو قید کیے رہو اور ان کوہلنے کی مہلت نہ دو اس بات کی پھر تاکید کروں گا کہ دافعہ کا سہارا فقط ان کے لئے استعمال کر لینا چاہئے جو لوگ کھلے طور اور عام طریقے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرتے ہیں اور اس گروہ کے علاوہ کسی کے متعلق ایسا حکم نہیں ہے؛ یہاں تک کہ قران میں حکم ہے کہ جنگ کا عالم ہو اور کفار کا لشکر ایک طرف اور مسلمانوں کا لشکردوسری جانب اوراگرجنگ بھی ہو رہی ہو؛ اگر مشرکین میں سے کوئی ایک شخص سفید پرچم اٹھائے]جو کہ صلح اور جنگ بندی کی نشانی ہے [ یا کسی طرح بھی آپ تک پیغام پہونچائے کہ میں ایک علمی سوال کرنا چاہتا ہوں اور یہ بات میرے نزدیک ظاہر نہیں ہو پارہی ہے کہ اسلام حق ہے یا نہیں اور میری آپ سے جنگ حق اور صحیح ہے یا غلط ہے ؟اسلام یہاں پر کہتا ہے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس شخص کوحفاظت کے ساتھ اسلامی کیمپ میں لایا

____________________

(۱) سورہ ممتحنہ: آیہ ۹۔

۱۹۶

جائے، اور وہاں بیٹھا کر اس کے سوال کا جواب دیا جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ دلیل وبرہان سے اس کو مطمئن کیا جائے اور اس کے بعدبھی اگر وہ واپس ہونا چاہے تو اس کو اسی طرح پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی اذیت کے اس کی پہلی جگہ جو کہ اسلامی لشکر کی پہونچ سے باہر ہو وہاں تک پہونچا دیا جائے؛ پھراگر وہاں اس نے جنگ کا ارادہ کیا تواس کے ساتھ جنگ کی جائے؛ ورنہ اس کوچھوڑ دیں اور وہ جہاں جانا چاہے وہاں چلا جائے، قرآن مجید میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے( و ان احد من المشرکین استجارک فا جره حتیٰ یسمع کلام الله ثم ّابلغه ما منه ) ( ۱ ) اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ کا طلب گار ہوتو اس کو پناہ دے دو تا کہ وہ خدا کے کلام کو سنے؛پھر اس کے بعد اس کو امن کی جگہ پر واپس کردو ۔آپ دنیا کے کسی حقوقی نظام میں ایسی چیزوں کا سراغ اور نشان رکھتے ہیں ؟اسلام یہ کہتا ہے مسلمان طالب علم تو اپنی جگہ اگر کوئی دشمن کافر کہ جس کے ہاتھ میں تلوارہے اور وہ تم سے جنگ کر رہا ہے اوراسی جنگ کی حالت میں وہ تم سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو اسلام کا حکم یہ ہے کہ تم اس کا جواب دو ۔ہم ایسے مکتب و مذہب کے پیرو ہیں ۔کون کہتا ہے کہ اسلام اور اس کا نظام حکومت سوالوں کے جواب نہیں دیتااور سوال کا جواب تلوار سے دیتا ہے ؟ وہ اسلام جو کہ کافر( اس حال میں بھی کہ تلوار اس کے ہاتھ میں ہو اور جنگ کاعالم ہو)

____________________

(۱) سورہ توبہ آیہ ۶.

۱۹۷

کے ساتھ اس طرح کے سلوک کا حکم دیتا ہے وہ خودمسلمانوں کے درمیان آپس میں اس کے برخلاف کیسے دستور اور حکم دے گا؟

اسلام کی پہلی سیاست یہ ہے کہ وہ پہلے دلیل ،موعظہ اور جدال احسن کا حکم دیتا ہے ؛لیکن اگر بات دشمنی اور تخریب تک پہونچ جائے اور اس بحث کا کوئی علمی جواب نہ ہو اور وہ لوگ اسلام اور اس حکومت کے خلاف سازش میں لگے ہوں اور اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے ہوں تو ان کے مقابلہ میں سوئی برابر بھی نہیں جھکنا چاہئے اور ان پر ذرہ برابر بھی رحم و کرم نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ان کا پوری سختی اور فیصلہ کن انداز میں سامنا کرنا چاہئے ۔

قوت دافعہ یا سختی کے استعمال کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ

لہٰذااسلام صرف دو جگہوں پر خشونت کو اختیار کرنے اورقوت دافعہ کا سہارا لینے کا حکم دیتا ہے۔ پہلی وہ جگہ جہاں مسلمان یا غیر مسلمان اسلامی معاشرہ میں دوسرے کے حقوق غصب کررہے ہوں اور کسی بندئہ خدا پر ظلم و ستم ہوتا ہو یا کسی کے ساتھ خیانت کی جارہی ہو دوسری وہ جگہ جہاں اسلامی مملکت کے باہراسلام اور اسلامی ملکوں کے خلاف دشمنی کی جا رہی ہو۔اور سازش رچی جارہی ہو۔ البتہ ان سزائوں کی حد اور حدود کیا ہیں ،اورکتنے اور کیسے ہیں ؟ جوکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں یا دوسرے کے حقوق کو غصب کرنے والوں کے متعلق ہوتی ہیں ، عقل بہت سی جگہوں پر ان کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یہ سزا ئیں براہ راست خود خدا وند عالم کی طرف سے اور صاحب شریعت کی طرف سے معین ہوئی ہیں ، لیکن سزا جو بھی ہو جب سزا معین ہو جائے تویہ سزا پوری سختی کیخلاف ورزی کرنے والوں کے متعلق جاری کرنا چاہئے۔ جو لوگ غلط اور برے کام انجام دیتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:( الزانية والزانی فا جلدوا کل واحد منهما مائة جلدة ولا تاخذکم بهما را فة فی دین الله ان کنتم تومنون بالله والیوم الآخر )

۱۹۸

( ولیشهد عذابهماطائفة من المومنین' ) ( ۱ ) زنا کرنے والے مرد اور عورت کو سو سو تازیانے مارو؛ اگر تم خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو احکام الہیٰ میں ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ کرو؛ اور جس وقت ان کو یہ سزا دو تو مومنین کا گروہ گواہ کے طور پر وہاں حاضر رہے ایسا خلاف اور غلط کام کرنے والے کے ساتھ جتنی بھی سختی ممکن ہو سکے اسے انجام دیاجائے اور کوئی بھی مسلمان جو واقعی طورسے خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو ذرہ برابر بھی اس کواس خطا کار پر رحم اور مہربانی نہیں کرنی چاہئے ، اس سزاکی شدّت و سختی اس وقت اور زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ یہ کوڑے لوگوں کے سامنے مارے جائیں اور عوام ان دونوںکی سزا پر گواہ ہوں تو یہ بات فطری ہے کہ اس کڑی اور سخت سزا کے برداشت کے ساتھ ساتھ وہ بے آبرو بھی ہوجاتے ہیں لہذا ان کو اس طرح سے سزا دی جائے کہ کوئی دوسرا شخص اس طرح کے کام کی جرائت نہ کر سکے ۔

____________________

(۱) سورہ نور آیہ ۲.

۱۹۹

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی بحث کا خلاصہ

اس حصّہ کی بحث کا نتیجہ اور خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی حدیہ ہے کہ اگر کسی کے حق پر اسلامی معاشرہ میں چاہے وہ مادی حق ہو یا معنوی ،بالواسطہ یا بلا واسطہ طریقے سے تجاوز کیا جائے یا اسلامی حکومت کی حدود سے باہر رہ کر اسلام اور اسلامی حکومت کے خلاف سازش ہو؛ تو ان دو صورتوں میں ایسا کرنے والے کے ساتھ خشونت اور سختی کرنی چاہئے ،اس کے علاوہ بقیہ جگہوں پر صرف جاذبی رخ اختیار کرنا چاہئے یا پھر نرم لہجہ اور رفتار کے ساتھ جس قدر کم سے کم امکان ہو جاذبہ کے ساتھ دافعہ کی قوت کو استعمال کرنا چاہئے ؛جس جگہ دافعہ اور خشونت کی اجازت ہے اس کی حد اور اس کے طریقہ کو بہت سی جگہوں پر خدا وند عالم نے خود براہ راست معین فرما دیا ہے یا ایک کلی قانون کو اس نے بتا دیا ہے( کہ اسی قانون کے تحت سزا دی جانی چاہئے )لہذا کسی بھی حال میں خشونت کو اختیار کرتے وقت ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:( تلک حدود الله فلا تعتدوها ومن یتعدّ حدود الله فاو لٰئک هم الظالمون'' ) ( ۱ ) یہ احکام اللہ کے حدود ہیں

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیہ ۲۲۹

۲۰۰

لہذٰا اس سے تجاوز نہ کرنا اور جو لوگ اللہ کے حد ودسے آگے بڑھ جاتے ہیں وہی للوگ ظالم ہیں ۔

آخر میں ایک مرتبہ پھر پچھلے جلسے کی باتوں کو دہرائوں گا ۔اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی بحث تین شکل اور تین عنوان سے قابل تصور ہے :

(۱)اسلام کے سارے احکام اور معارف ایسے ہیں کہ دیندار افراد کے لئے صرف بعض چیزوںکے جذب کا سبب بنتے ہیں یا ایسے ہیں کہ ان کے لئے صرف بعض چیزوںکے دفع کا سبب بنتے ہیں یاان میں دونوں صورتیں ہیں ؟

(۲)اسلام کے تمام معارف مسائل ایسے ہیں کہ عام انسانوں کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں یا ایسے ہیں کہ ان کے لئے دافعہ رکھتے ہیں ؟

(۳)اسلام مسلمانوں اورغیر مسلمانوں کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے جاذبہ رکھنے والے طریقے کا سہارا لیتا ہے یا پھردافعی روش کو استعمال کرتا ہے یا ان دونوں طریقوں کا سہارا لیتا ہے ؟جو کچھ ہم نے اس بحث میں زیادہ توجہ کا مرکز بنایا حقیقت میں وہ تیسرے سوال کا جواب تھا اور اسی تیسری قسم پر زیادہ بحث رہی اور پہلے دو سوالوں سے متعلق زیادہ بحث نہیں ہوئی ،چونکہ اور دوسرے موضوعات کی اہمیت کی بنا پر آئندہ جلسوں سے ایک نئے موضوع کو شروع کرنے کا ارادہ ہے؛ لہذٰا جاذبہ اور دافعہ کی بحث کو یہیں پر ختم کرتے ہیں ؛ بعدمیں کبھی اس بحث کو مکمل کریںگے ۔ انشاء اللہ۔

۲۰۱

سوال اور جواب

سوال :

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ دونوں پائے جاتے ہیں اس سلسلہ میں کوئی بحث نہیں ہے لیکن لفط خشونت کے مفہوم کے بارے میں د و پہلو سے دقت کرنے کی ضرورت ہے ۔پہلے یہ کہ کیا یہ مفہوم ایک دینی اصطلاح ہے اور قرآن و حدیث میں یہ استعمال ہواہے ؟ میری نگاہ میں ایسا نہیں ہے ؛کیونکہ قرآن میں مطلق طور سے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اور روایات میں بھی تقریباًیہ لفظ نہیں آیا ہے یعنی بہت ہی کم استعمال ہوا ہے خلاصہ یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ قرآن و روایات کے الفاظ میں خشونت کو فضیلت کے طور پر پیش کیا گیا ہو، فارسی زبان میں بھی کلمہ خشونت اچھی نظرسے نہیں دیکھا جاتا؛اس کے مساوی جو لفظ استعمال ہوتاہے وہ بے رحمی کاہے اور یہ قاطعیت سے جدا ہے قاطعیت(قانون کی سخت پاندی) لفظ ایک اچھا عنوان رکھتا ہے لہذاخشونت کو اس کے مترادف نہیں سمجھنا چاہئے۔ ایک فوجی افسر ممکن ہے قاطع ہو اور کبھی ممکن ہے کہ بہت ہی خشن (درشت)ہو اور یہ دونوں لفظ ایک نہیں ہیں ،ممکن ہے انسان ایک جذباتی کام مثلاً چومنے کو بھی خشونت کے ساتھ انجام دے۔

دوسرا نکتہ جو لفظ خشونت سے متعلق ہے وہ یہ کہ فرضاًہم اس بات کو قبول کر بھی لیں کہ یہ اصطلاح قرآن و روایات اور اسلامی الفاظ میں استعمال ہوئی ہے اور اس کو بھی قبول کر لیں کہ خشونت کا مفہوم قاطع کے مترادف ہے اور ایک اچھا پہلو بھی رکھتا ہے لیکن حالات اور مسائل کو دیکھتے ہوئے عقل و نقل دونوں کے اعتبار سے اس لفظ کو استعمال کرنا صحیح نہیں ہے؛ لہذٰا ہم کو اس کے عوض دوسرے الفاظ کو استعمال کرنا چاہئے؛ عقلی لحاظ سے اس بنا پر کہ عقل یہ کہتی ہے کہ جس سماج اور ماحول میں آپ گفتگو اور کلام کر رہے ہیں وہاں پر خشونت کے معنی اچھے نہیں سمجھے جاتے ہیں اور اس سے بے رحمی کے معنی سمجھے جاتے ہیں ؛ اس معنی کو یہاں استعمال کرکے دافعہ کو بلا وجہ نہیں لانا چاہئے ؛جب کہ دوسرے لفظ کو ہم اسی معانی کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح آسانی سے اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں ۔

۲۰۲

اور نقل ]قرآن وحدیث [کے اعتبار سے اس طرح کہ قران میں ارشاد ہو رہا ہے:( یا ایها الذین آمنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا'' ) ( ۱ ) اے وہ لوگو !جو کہ ایمان لائے ہو'' راعنانہ کہو بلکہ'' انظرناکہا کرو۔ کیونکہ دشمن راعنا کہہ کے غلط معنی مراد لیتے تھے، اسی مراد کو دوسرے لفظ کے ذریعہ لے سکتے ہیں لہذٰ اانظرنا کہو تاکہ دشمن جو غلط معنی مراد لے رہا ہے اس کا سد باب کیا جا سکے ۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خشونت کی بحث کبھی فعلی اعتبار سے حسن وقبح رکھتی ہے اور کبھی فاعلی اعتبار سے حسن و قبح رکھتی ہے مثلاًقتل کرنا یہ قتل ،ایک کام اور فعل ہے جو کہ ماہیت کے اعتبار سے خشن اور سخت ودرشت ہے ،ایک مرغے یا بھیڑ کا سر جدا

____________________

(۱) سورہ بقرہ :آیہ ۱۰۴۔

۲۰۳

کرنا ماہیت کے لحاظ سے سخت اور خشن کام ہے لیکن کبھی بحث فاعل سے مربوط ہوتی ہے فاعل وہ ہے جو کہ اس مرغ یا بھیڑکا سر جدا کرنا چاہتا ہے، اب اس کام کو ممکن ہے وہ بے رحمی اور خشونت کے ساتھ انجام دے؛ یا یہی کام وہ بغیر خشونت کے انجام دے ہماری اس وقت بحث فاعلی خشونت میں ہے نہ کہ فعلی خشونت میں ؛یعنی احکام اسلامی کو جاری کرنے میں ہمیں سخت اور خشن چہرہ ظاہر نہیں کرنا چاہئے؛ ہم کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت دیکھنا چاہئے آپ عالمین کے لئے رحمت تھے اور اخلاق حسنہ رکھتے تھے آپ اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز تھے لیکن پھر بھی آپ اپنی جگہ پر کفاّر اور دشمنوں کے مقابلہ میں شدّت وقاطعیت اختیار کرتے تھے ؛لیکن کبھی بھی آپ کے فعل میں خشونت کو نہیں دیکھا گیا ۔

خلاصہ ، سوال یہ ہے کہ جب لفظ خشونت تمام زبانوں میں بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے منفی اثر پڑتا ہے تو بے وجہ ہم اس کے استعمال پر زور دیتے ہیں اور دافعہ ایجاد کرکے دشمن کے لئے غلط فائدہ اٹھانے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں ؛جب کہ اس کی جگہ پر دوسرا لفظ استعمال کر کے ہم اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں ۔

۲۰۴

جواب :

البتہ اس سوال کے جواب میں جو مطالب بیان کئے جائیںگے وہ اسی خشونت کے سلسلے میں جو ٹیلیویژن پر مناظرہ ہوا تھا اس میں بیان کئے جا چکے ہیں ،اور جو دوست ان مباحث کا مطالعہ کرناچاہتے ہیں وہ ہفتہ نامہ'' پرتومیں ملاحظہ کر سکتے ہیں اس میں یہ مطالب چھپ چکے ہیں ، اور یہاں پر جتنا ممکن ہے اس کی توضیح کچھ اس طرح ہے :

کبھی بحث اس میں ہے کہ یہ لفظ ہماری تہذیب اور کلچر میں کیا معنی رکھتا ہے اور کبھی بحث اس میں ہے کہ یہ لفظ مختلف عرف، سماج او رتہذیب میں کس معنی میں استعمال ہوتا ہے؛ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمارے کلچر میں خشونت کا لفظ بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ پہلے رحم کے معنی کو واضح کریں تاکہ اس کے مقابلہ میں جو لفظ بے رحمی اور خشونت کاہے اس کے معنی و مفہوم واضح ہوجائے۔ اگر چہ ہماری تہذیب میں ممکن ہے کہ خشونت کامفہوم اکثر بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن عرف اور دوسرے کلچر میں ایسا نہیں ہے جیسے حقوقی اور سیاسی اصطلاح میں خشونت کے معنی یہ نہیں ہیں یہ لفظ بنیادی طور پر عربی ہے عربی کی کسی لغت میں بھی کسی نے خشونت کے معنی میں بے رحمی نہیں لکھا ہے، بلکہ خشن یعنی سخت ودرشت کے معنی میں ہے خشونت یعنی سختی اوردرشتی، اس کے مقابلہ میں لےّن کالفظ استعمال ہوتا ہے جو کہ نرم کے معنی میں ہے لہذٰا عربی لغت کے مطابق خشونت رحم کے مقابل نہیں ہے تا کہ بے رحمی کے معنی میں ہو ،بلکہ یہ محکم اور سخت کے معنی میں ہے جو کہ لینہ اور نرمی کے مقابل ہے۔ البتہ عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ جب مفہوم طبیعی اور مادی علوم سے انسانی اور اجتماعی علوم کی طرف منتقل ہوتا ہے تو اس کے نئے مصداق ہو جاتے ہیں ، لیکن ہر حال میں پھر بھی لغوی معنی کی اصل اسی طرح باقی رہتی ہے ۔

۲۰۵

اور جو سوال میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ لفظ اصلاً قرآن میں استعمال نہیں ہوا ہے اور روایات میں بھی بہت کم آیا ہے اور ہر حال میں قرآنی اور روائی اعتبار سے اس کے لئے کوئی فضیلیت بیان نہیں کی گئی ہے تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ اگر چہ خود قرآن میں مادہخ ش نا ور خشونت کا لفظ نہیں آیا ہے لیکن اس کے ہم معنی لفظ استعمال ہوا ہے اور ادبیات اور زبان کے دستور کے مطابق ہم اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ہم معنی اور مرادف لفظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر سکتے ہیں ؛ لہذٰا اگرلفظ خشونت کے مترادف اگر کوئی لفظ قرآن میں آیا ہو تو یہ دعویٰ کہ قرآن میں خشونت کے مفہوم کو بیان نہیں کیا گیا ہے ،صحیح نہیں ہے؛ خشونت کے مترادف (ہم معانی )لفظ جو قرآن کریم میں آئے ہیں وہ لفظغلظت'' اوراس کا مادہ ((غ ل ظ ))ہے، سورہ توبہ میں ارشاد ہو رہا ہے :( ولیجدوا فیکم غلظة'' ) ( ۱ ) اور وہ (کفاّر ) تم میں خشونت اور غلظت کا احساس کریں، یا قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :( یا ایها النبیّ جاهد الکفاّر والمنافقین و اغلظ علیهم و ماوٰهم جهنّم ) ( ۲ ) اے نبی !کافروں اور منافقوںسے جہاد کیجئے اور ان کے لئے سخت رویہ اپنائیے اور ان لوگوں کی جگہ جہنم ہے ۔ یہ آیہ قرآن مجید میں دو بار، سورہ توبہ اور سورہ تحریم میں آئی ہے۔ یا دوسری جگہ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے :( فبما رحمة من الله لنت لهم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک ) ( ۳ ) اے پیغمبر! یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان( ۱ ) سورہ توبہ :آیہ۱۲۳۔

____________________

(۲)سورہ تحریم :آیہ ۹۔

(۳)سورہ آل عمران :آیہ ۱۵۹۔

۲۰۶

لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تویہ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔

اور پھریا اسی قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے :( علیها ملائکة غلاظ شداد ) ( ۱ ) یعنی اس (جہنم کی آگ )پر سخت اور خشن فرشتے معین ہیں ؛پورے طور سے (غ ل ظ )کامادہ ۱۳ بار قران میں استعمال ہوا ہے اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا غلظت اور خشونت مترادف یعنی ہم معنی ہیں اور پورے طور پرایک معنی رکھتے ہیں اور جب لفظ غلظت قران مجید میں استعمال ہوا ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ خشونت کا مفہوم قرآن میں نہیں آیا ہے؛ اسی طرح ایک جگہ پر رحم کا مفہوم شدّت کے مفہوم کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :محمد( رسول الله والذین معه اشدّاء علی الکفّار رحماء بینهم'' ) ( ۲ ) محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں مہربان اور رحم دل ہیں ۔

روایات میں بھی خشن لفظ استعمال ہوا ہے اور کئی جگہوں پر فضیلت کے طور پر استعمال ہوا ہے مثلاً حضرت علی کے بارے میں ہے کہ آپ اللہ کی ذات میں یعنی اس کے حقوق ادا کرنے میں خشن تھےخشن فی ذات الله'' ( ۳ ) اس اعتبار سے لغت ، آیت اور روایات سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ سوال میں جس چیز کا دعویٰ کیا گیا

____________________

(۱) سورہ تحریم :آیہ ۶۔

(۲) سورہ فتح :آیہ ۲۹۔

(۳) بحار الانوار :جلد ۲۱ ،روایت دہم ،باب ۳۶۔

۲۰۷

ہے وہ صحیح نہیں ہے لیکن پھر بھی لغوی بحث اور استعمال کے موارد سے صرف نظر کرتے ہوئے

یہ سوال کہ خشونت کے معنی بے رحمی ہیں یا نہیں ؟ میں آپ سے سوال کروں گا :جیسا کہ اسلام کے جزائی قانون میں ہے ؛اگر کوئی کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور اس کے بدلے اس کا داہنا ہاتھ قطع کیا جائے ،اور اس کے بائیں پیر کو بھی کاٹا جائے اور برادری سے اس کا بائیکاٹ بھی کیا جائے اور کوئی اس کا احترام نہ کرے ، یہ بے رحمی ہے یا رحم ؟یا اگر جیسا کہ اسلام کے جزائی قا نون میں ہے ،آگ روشن کرکے کسی کو سزا کے طور پر اس آگ میں ڈالا جائے اور اس کو اس میں جلایا جائے، یا اس کے ہاتھ اور پیر کو باندھ کر پہاڑ سے نیچے پھینک دیاجائے ؛یا ایک دینار طلا کے برابر چوری کے سبب کسی کی چار انگلیاں کاٹی جائیں؛ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام رحم ہے یا بے رحمی ہے ؟

سوال میں فعلی اور فاعلی خشونت اور فعلی اور فاعلی حسن و قبح میں تفریق وتفکیک کی گئی ہے اور اسی طرح قاطعیت اور خشونت میں فرق کو قبول کیا گیا ہے، لیکن مثلاً اگر کوئی لال بتّی جلنے کے بعدعبورکرے اور پولیس اس کو گرفتار کرلے اور سلام و احوال پرسی کے بعدمسکراتے ہوئے ادب کے ساتھ اس سے کہے کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے لہذٰا پانچ ہزار روپئے آپ پر جرمانہ کیا جاتا ہے ،یہاں پر قاطعیت ہے خشونت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، لیکن بحث اس میں ہے کہ جس خشونت کے ہم اسلام میں قائل ہیں وہ صرف قاطعیت نہیں ہے؛ بعض اعمال ماہیت کے اعتبار سے خشن ہیں اور ان کو قاطعیت کے ساتھ انجام دینے میں ہمیشہ ایک طرح کی خشونت پائی جاتی ہے ؛ جس وقت جلّادشمشیر اور تلوار کے ساتھ آتا ہے اور کسی کا سر جدا کرتا ہے اور خون کا فوّارہ جاری ہوتا ہے ، اس کام کی ماہیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کو ہنسی خوشی اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام نہیں دیا جا سکتا ؛یہ منظر ہی ایسا ہے کہ بہت سے لوگ اس کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے؛ اور اس منظر کو دیکھنے سے ہی ان کے چہرہ کا رنگ اڑ جاتا ہے،ہنسنا ،مسکرانا بھول جاتے ہیں یہاں تک کی بعض لوگ اس کو دیکھ کر بیہوش ہو جاتے ہیں ، اس وقت یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ خود اس کام کو انجام دینے والا صرف قاطعیت کے ساتھ لیکن مسکراہٹ اور مہربانی سے اس کو انجام دے ؟یہ فعل ہی در حقیقت خشن ہے اور جو شخص یہ انجام دیتا ہے وہ فطری طور پرخشن اور خشونت کا طرفدار شمار کیا جاتا ہے اور ان جگہوں پر فعلی اور فاعلی خشونت میں فرق پیدا کرنا نا ممکن ہے۔

۲۰۸

اس کے علاوہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں اس کا مورد اور مقام خشونت فاعلی نہیں ہے ( یعنی یہ بحث کام کرنے والے کی خشونت سے متعلق نہیں ہے )بلکہ ان کا اعتراض خشونت فعلی سے متعلق ہے ؛وہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کام تم لوگ انجام دیتے ہو وہ کام خشن ہے اور اس کو نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم اس کام کو ہنسی خوشی اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام دیں تو بھی مشکل حل نہیں ہونے والی ہے ؛بحث قاطعیت میں اور خشن نہ ہونے میں نہیں ہے بلکہ سارے اعتراضات انھیں مجازات اور سزائوں پر ہیں ۔اصل میں یہ سارے مطالب عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کی طرف پلٹتے ہیں ؛وہ حقوق جو عالمی انسانی حقوق کے منشور میں ہے اس کا ایک بند یہ ہے کہ جتنی سزائیں بھی خشونت کا سبب بنتی ہیں ان سب کو ختم ہونا چاہئے۔ ان سزائوں میں سب سے واضح او رظاہر ی سزا جو ہے اور اس پر بہت زیادہ تاکید ہو رہی ہے قتل اور پھانسی کی سزا ہے اور اس جیسی سزائیں مثلاًہاتھ کاٹنا ،کوڑے مارنا اور دوسری سزائیں جو کہ جسمانی تکلیف کے ساتھ ہوں؛ آج جب انسانی حقوق کی گفتگو ہوتی ہے اور دنیا کے ممالک خاص طور پران کا سرغنہ امریکہ ہم مسلمانوں پر انسانی حقوق پامال کرنے کا الزام لگاتے ہیں ؛ ان لوگوں کا اعتراض یہ نہیں ہے کہ مجرموں کو پھانسی دیتے وقت یا ان کو کوڑا مارتے وقت مسکراتے کیوں نہیں اور سختی کیوں کرتے ہو ،بلکہ بات اصل میں ایسی سزائوں کے وجودکے بارے میں ہے کہ ایسی سزائیں کیوں پائی جاتی ہیں ؟وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سزائیں اصل میں اس وقت تھیں جب انسان تمدن اور کلچر نہیں رکھتا تھا؛ لوگ ہمیشہ جنگ کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کو قتل و غارت کرنے میں مشغول رہتے تھے؛ لیکن آج انسان تمدن یافتہ ہو چکا ہے اور سب کے سب با ادب ہیں ؛ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور فرض کیجئے اگر کسی شہر پر ایٹمی بم بھی گرائیں تو بہت ہی باادب خاموشی کے ساتھ بغیر شور و غل کے وہ لوگ اتٹمی بم گراتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں !! آج کے دور میں ،یہ خشونت آمیز سزائیں پھانسی اور کوڑے وغیرہ نہیں ہونے چاہئیں، اس طرح کی تبلیغات کی ہوا اتنی مضبوط اور موثر ہے کہ افسوس صد افسوس، بعض وہ لوگ جو کہ روحانی (مولانا )ہیں اور سر پر عمامہ بھی رکھتے ہیں وہ بھی اس سے متائثرہو جاتے ہیں اور واضح طور پر اخبارات میں لکھتے ہیں کہ ایسی سزائیں جو کہ انسانیت کے خلاف اور خشونت آمیز ہیں ان کو ختم ہونا چاہئے؛ البتہ یہ اظہار کوئی نئی بات نہیں ہے، انقلاب کے شروع میں بھی ہم کو یاد ہے جبہہ ملّی کے جو حقوق دان تھے انھوںنے بیانیہ دیا تھا کہ اسلامی قصاص کے قانون خشونت آمیز اور انسانیت کے خلاف ہیں اور ان کو ختم ہونا چاہئے، ان دنوں حضرت امام خمینی ان باتوں کے مقابلہ میں سختی کے ساتھ کھڑے ہوئے اور آپ نے ان کے مرتد ہونے کا حکم دیا، اور امام خمینی کے فتوے سے وہ اتنا خوف زدہ ہو گئے کہ وہ سالوں اپنے سوراخوں میں چھپے رہے؛ لیکن آج پھر یہ پست اور جسارت سے مملو باتیں اٹھائی جارہی ہیں اور کھلے عام عمومی جگہوں اور اخبارات میں پیش کی جاری ہیں ۔

۲۰۹

لہذٰ ا بات اس کام کو انجام دینے والے (فاعل )سے مربوط نہیں ہے کہ کیوں وہ مسکراتا نہیں اور با ادب نہیں ہے بلکہ اعتراض ان سزائوں پر ہے کہ یہ ا نسانیت کے خلاف اور خشونت آمیز ہیں ،سوال یہ ہے کہ یہ سزائیں جن کووہ لوگ خشونت آمیز جانتے ہیں ،ا ن کو ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے ؟ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خشونت نہیں ہونا چاہئے ان کی مرا د خشونت سے یہی پھانسی، قتل ،قصاص اورکوڑے وغیرہ ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کی باتوں کو غلط ثابت کریں ، لہذا ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے کہ ہم اسی لفظ کو استعمال کریںاور کہیں کہ ہماری نظرمیں خشونت کو ہونا چاہئے؛ البتہ ہماری مراد خشونت سے پھانسی ،قتل ، قصاص و تازیانہ مارنے کا حکم ہے ۔ہم کو اس بات پر کوئی ضد نہیں ہے کہ ہم لفظ خشونت کو درمیان میں لائیں؛ لیکن چونکہ انسانی حقوق کے بیانیہ اور منشور میں ایسا آیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ حقوق انسانی کے بیانیہ کی رد کریں اور اس کو غلط ثابت کریں اور اس کے مقابل کھڑے ہو جائیں؛ اس لئے مجبوراً ہم لفظ خشونت کو استعمال کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ یہ باتیں جو تآپ کی نگاہ میں خشونت آمیز ہیں ان کا ہونا ضروری ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح طور سے قران میں بیان ہوا ہے اور اس پر قرآن کی نص اور دلیل موجود ہے اور ہم ، العیاذ با اللہ ، قرآن کا انکار کریں یا عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کا ، اور ایک مسلمان واقعاًکبھی بھی انسانی حقوق کے بیانیہ کی خاطر قرآن کی مذمت نہیں کر سکتا اور قرآن کوچھوڑ نہیں سکتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:( الزانية والزانی ) ..۔''( ۱ ) ہر زنا کرنے والا چاہے مرد ہو یا عورت اس کو سو کوڑے لگائواور اگر تم لوگ خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اس خدا کے کام میں ان دونوں کی نسبت کوئی رحم اور دل سوزی نہ کرو ۔اس آیہ کے واضح اعلان کے بعد اگر کوئی خدا اور قیامت پر حقیقی ایمان رکھتا ہے تو اس کو ان دونوں زنا کرنے والوں کی نسبت جنھوں نے زنا جیسے برے فعل کو انجام دیا ہے تھوڑا سا بھی رحم نہیں ہونا چاہئے؛ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب رحم نہیں

____________________

(۱)سورہ نور : آیہ ۲۔

۲۱۰

ہوگا توبے رحمی پائی جائے گی ۔قرآن میں ارشاد ہو رہا ہے مومن وہ ہے جو ایسی جگہوں پر رحم نہ کرتا ہو؛ البتہ ایسی بے رحمی نہیں جو کہ ظالمانہ بے رحمی کہی جائے ۔بہر حال مسلمان یا قران کی اس آیت کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرے یا عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کے پیچھے جائے اور اس کی حمایت کرے قرآن مجید میں پھر خدا وند عالم ارشاد فرماتاہے( و السّارق والسّارقة فا قطعوا ایدیهما جزائً بما کسبا'' ) ( ۱ ) مرد اور عورت نے جو چوری کی ہے اس کی سزا میں ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں۔ اور عالمی انسانی حقوق کا بیانیہ کہتا ہے کہ یہ حکم وحشیانہ اور انسانیت کے خلاف ہے۔ مسلمان کو چاہئے کہ یہاں قرآن اور عالمی حقوق انسانی کے بیانیہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔

اسی طرح قرآن کا یہ نظریہ بھی ہے کہ( ولکم فی القصاص حیوٰة یا اولی الالباب'' ) ( ۲ ) ائے عقلمندو! تمھارے لئے قصاص اور بدلہ لینے میں زندگی ہے؛ قرآن کی نگاہ میں معاشرہ کی سلامتی اور زندگی اس وقت ضمانت پائے گی جب قاتل انسان سزا قتل ہے؛ لیکن عالمی انسانی حقوق کابیانیہ یہ کہتا ہے کہ قتل کی سزا ایک غیر انسانی کام ہے اور اس کو ختم ہونا چاہئے۔

____________________

(۱) سورہ مائدہ :آیہ ۳۸ ۔

(۲)سورہ بقرہ آیہ ۱۷۹

۲۱۱

یہ ایک سازش ہے اور اس شور و غل اوروسیع تبلیغات کے ذریعہ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا کام کریں کہ وہ ہم کواتنامنفعل اور متاثر کر دیں کہ ہمارے مراجع تقلید بھی یہ بات کہنے کی جرائت نہ کر پائیںکہ ہمارے یہاں ایسا قانون پایا جاتا ہے۔ لہذٰااس کے مقابلہ میں ہم کو مضبوطی اور فیصلہ کن انداز میں سختی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنا چاہئے، اور کہنا چاہئے کہ ہاں اسلام میں سزا، قتل ،ہاتھ کاٹنا ،جلانا اور آگ میں ڈالنا ہے اگر آپ ان سب کا نام خشونت رکھتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ ہاں اسلام میں خشونت ہے اور ہم کو اس سے کوئی ڈر بھی نہیں ہے کہ ہم کو خشونت طلبی سے متہم کیا جائے ، ہم کسی سے تکلّف نہیں کر تے ہیں اور الفاظ سے کھیلنا نہیں چاہتے ہیں ؛ اگر ہم قرآن کے ماننے والے ہیں تو قرآن نے ان چیزوں کو جس کو عالمی انسانی حقوق کا بیانیہ خشونت جانتا ہے، جائز قرار دیا ہے بلکہ قرآن نے ان سب کو لازم اور واجب جانا ہے، قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے:( ولیجدوا فیکم غلظة ) ( ۱ ) اور وہ کافر تمھارے اندر خشونت کو پائیں [ قران نے یہ نہیں کہا( ولیجدوا فی عملکم ) بلکہ اس نےفیکم''کہا ہے یعنی خشونت کو تمھارے اندر لمس کریں اور تمھارا برتائو ان کے ساتھ ایسا ہو کہ وہ سمجھیں اور کہیں کہ یہ ایسے افراد ہیں جو احساسات اور جذباتسے متاّثر نہ ہوں گے اور اگر ہم کوئی کام بھی خلاف کریں گے تو وہ رحم نہیں کریں گے ہم اگرقرآن

____________________

(۱) سورہ توبہ : آیہ ۱۲۳۔

۲۱۲

کو قبول کرتے ہیں اور مسلمان ہیں تو ہم کو چاہئے کہ ہم کہیں یہ چیزیں قرآن اور اسلام میں ہیں اور اس سلسلہ میں کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے:( الذین یبلّغون رسالات الله و یخشونه ولا یخشون احداً الّالله ) ( ۱ ) جو لوگ اللہ کے پیغام کو پہونچاتے ہیں وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتے ہیں صرف خدا سے ڈرتے ہیں ۔لہذاہم اگرخدا سے ڈرتے ہیں تو قرآن اور خدا کے حکم کو بیان کریں؛ کم از کم ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ان کی باتوں کی تائید کریں اور ان کی باتوں کی موافقت اور تائید میں مقالہ لکھیں اور یہاں وہاں تقریر کرتے پھریں۔ البتہ ہر انسان اس میدان میں داخل ہونے اور ایسی شجاعت و ہمت دکھانے کی طاقت و ہمّت نہیں رکھتا ہے ؛ صرف وہ لوگ اس میدان میں قدم رکھ سکتے ہیں جو دوست ودشمن کی ملامت اورسرزنش کا کوئی ڈر نہ رکھتے ہوں۔قرآن کریم میں خدا وندعالم ارشاد فرماتا ہے :( یجاهدون فی سبیل الله ولا یخافون لومة لائم'' ) ( ۲ ) وہ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔

اگر ہم کہیں اسلام قاطعیت رکھتا ہے ،یہ عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ کا جواب نہیں ہے انسانی حقوق کا بیانیہ کہتا ہے کہ اسلامی سزائیں خشن اور سخت ہیں اور اس کو ختم ہونا چاہئے؛ ہم کو بھی یہ کہنا چاہئے کہ یہ سخت سزائیں اسلام میں ہیں اور ان کو

____________________

(۱) سورہ احزاب : آیہ ۳۹۔

(۲) سورہ مائدہ :آیہ ۵۴۔

۲۱۳

ختم ہونا چاہئے۔ ہم کو نہیں چاہئے کہ دوسروں کی خوشی اور چاپلوسی کے لئے بعض قرآنی اور اسلامی احکام و قوانین کو قبول کریں اور بعض کا انکار کریں۔ بعض کا انکار اور بعض کا اقرار بھی حقیقی کفر ہے ، اسی کی حکایت خدا وندعالم قرآن مجید کر رہاہے :( انّ الّذین ویقولون نومن ببعض و نکفر ببعض اولٰئک هم الکافرون حقاّ ) ً ''( ۱ ) یعنی جو لوگ .....اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکارکریں گے .....تو حقیقت میں یہی لوگ کافر ہیں ۔مسلمان اگر واقعاً مسلمان ہے اور قرآن پر اعتقاد رکھتا ہے تو وہ عالمی حقوق انسانی کی خاطر قرآن کریم کے واضح حکم سے چشم پوشی کرے اور اپنے دین کو انسانی عالمی حقوق کے بیانیہ کے بدلے میں بیچ ڈالے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا ہے ۔

اگریہ ہوکہ جو کام لوگوں کو اچھا نہ لگتا ہو وہ انجام نہ دیا جائے تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لات و عزّی کو برا نہ کہتے اور مکہ کے بتوں کو نہ توڑتے؛ قرآن مجید کادستور یہ ہے کہ تم کھلے عام خدا اور اس کے دین کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرو اور زبان وکلام سے بھی دافعہ رکھتے رہو۔ اس ضمن میں قرآن کریم حکم دیتا ہے تم عمل میں حضرت ابراہیم کی ذات کو نمونہ عمل قراردو :( و قد کانت لکم اسوةحسنة فی ابراهیم و الذین معه ) '( ۲ ) یقیناًتمھارے لئے ابراہیم کی ذات اور ان کے ساتھیوں

____________________

(۱) سورہ نساء : آیہ ۱۵۰و۱۵۱۔

(۱) سورہ ممتحنہ :آیہ ۴۔

۲۱۴

میں بہترین نمونہ عمل ہے حضرت ابراہیم اور ان کے ماننے والوں کا عمل اور فعل کیا تھا کہ وہ ہم لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہے ؟ اس کا جواب اسی کے بعد فوراً خود قرآن مجید نے ذکر کیا ہے :( اذ قالوا لقومهم انّا برآوا منکم و ممّا تعبدون من دون الله و کفرنابکم ) ( ۱ ) جب انھوں نے اپنی قوم والوں سے کہا کہ ہم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بیزار ہیں اورہم نے تمھارا انکار کر دیا ہے قرآن مجید حکم دیتا ہے کہ ابراہیم کی پیروی کرو ؛ جب وہ لوگوں کے مقابل بہت ہی واضح انداز سے کھڑے رہے اور کہا کہ میں تم لوگوں سے بیزار ہوں اور تمھارے خدائوں سے بھی بیزار ہوں ؛یہ قرآن کا دستور اور اس کا حکم ہے ، نہ یہ کہ ہم کو لچکدار رویہ اختیار کرنا چاہئے اور یہ کہیں کہ ہم کو لوگوں کی سنت اور روش کا احترام کرنا چاہئے اور ان کے بتوں کے سامنے جاکر احترام کرنا چاہئے چونکہ ان کے نزدیک بت قابل احترام ہیں !!!قرآن اس کی اجازت کسی کو نہیں دیتا ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ واضح انداز سے کہے بت کچھ بھی نہیں ؛ اسی آیہ میں اس نے آگے بڑھ کر کہا صرف اسی پر خاموش نہیں رہنا چاہئے ؛بلکہ اس سے بھی زیادہ سختی اور تلخی کے ساتھ یہ کہو:( وبدا بیننا وبینکم العداوة والبغضاء ابداً حتیّٰ تومنوا بالله وحده ) ( ۲ ) اور ہمارے تمھارے درمیان ہمیشہ کی عداوت اور

____________________

(۱) اور (۲)سورہ ممتحنہ: آیہ ۴۔

۲۱۵

دشمنی ہو گئی ہے جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہیں لاتے ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ جب تک تمھارا ایسا عمل اور ایسی فکر رہے گی ؛ہم تمھارے دشمن ہیں اور یہ دشمنی کبھی ختم نہیں ہوگی ؛ہم کو یہ کہنا چاہئے :تم پر لعنت اور تمھارے بتوں پر لعنت ہو ؛اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: اف لکم و لما تعبدون تم پر اور جو کچھ تم پوجتے ہو ان سب پر تف اور وائے ہو؛ یہ نظریات اور با تیں ایک سر پر عمامہ رکھنے والے یزدی بندہ کی نہیں ہیں ،بلکہ یہ قرآن کا واضح حکم ہے کہ ان دشمنوں سے کہہ دو ہم تمھارے ہمیشہ دشمن رہیں گے اور تم سے کینہ و دشمنی ہمیشہ رکھیں گے ، مگر یہ کہ تم لوگ خدا کی طرف آئو ؛مسئلہ اس وقت اور دلچسپ نظر آتاہے، جب ہم آیہ کے بعد کے حصّہ کو دیکھتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کو ابرہیم کا اتباع کرنا چاہئے اور ان کے عمل کو نمونہ عمل قرار د ینا چاہئے یہاں پر ایک چیز کو اس سے جدا کیا گیا ہے کہ ابراہیم کے اس کام کو تم نہ کرو :الّااقول ابراهیم لا بیها لا ستغفرنّ لک '' ،صرف ابراہیم کا یہ کہنا اپنے چچاسے کہ میں تمھارے لئے خدا سے ضرور آمرزش طلب کروں گا ،ابراہیم جو کہ دشمن کے مقابلہ میں پوری قاطعیت کے ساتھ تھے لیکن اپنے چچا

____________________

(۱) سورہ انبیاء : آیہ ۶۷۔

۲۱۶

آزر سے متعلق تھوڑا رحم و مروت سے پیش آئے اور انھوں نے کہا کہ میں خدا سے چاہوں گا کہ وہ تم کو بخش دے؛ قرآن میں خدا وند عالم فرماتا ہے ابراہیم کے اس کام کو

اختیار نہ کرو اور کسی بھی مشرک سے یہ وعدہ نہ کرو کہ میں تمھارے لئے خدا وند عالم سے مغفرت طلب کروں گا اور یہ چا ہوں گا کہ وہ تم کو بخش دے؛ اگر ہم قرآن کو قبول کرتے ہیں تو بسم اللہ؛ یہ قرآن کا دستور اور تعلیم ہے جو وہ اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے۔ اس آیت کا معنی اور مفہوم بھی بالکل واضح اور روشن ہے اس میں کوئی دوسری قرائت بھی نہیں پائی جاتی ہے ؛بس دوسری قرائت یہ ہے کہ ہم قرآن میں تحریف کریں یا اس کے معانی کو پامال کردیں اور دنیا کی خوشی اور عالمی اداروں کی خوشنودی کے لئے اس کے مطالب کو قبول نہ کریں ؛ہم کو اپنی ذمہ داریوں کو واضح کرنا چاہئے یا ہم قرآن کے ماننے والے ہیں ؛ یا یہ کہ عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ کے پیرو ہیں ؟ ہم کو چاہئے کہ جو کچھ قرآن میں ہے اس کو قبول کریں نہ یہ کہ فقط ان موارد کو قبول کریں جو حقوق انسانی کے بیانیہ سے میل کھاتے ہوں ؛ اور چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم اور زنا کرنیوالے کو تازیانہ مارنے کا حکم یا پھر قاتل کو قتل کرنے کا حکم یہ سب قرآن میں آیا ہے؛ لہذٰا حقوق انسانی کے بیانیہ کے بعد بھی ہمیں ان سب کو قبول کرنا ہوگا ۔اگر آیہ شریفہ:' '( ادع الیٰ سبیل ربّک بالحکمة و الموعظة الحسنة'' ) ( ۱ ) آیہ:( و قاتلوهم حتیّٰ لا )

____________________

(۱) سورہ نحل : آیہ ۱۲۵۔

۲۱۷

( تکون فتنة ً ) ( ۱ ) اور ان سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ فتنہ ختم نہ ہو جائے، قرآن آیا ہے اور ہم کو چاہئے کہ ہم ان دونوں پر عمل کریں؛ اگر کوئی انسان خدا کوارحم الرّٰحمین'' کے طور پہچانتا ہے تو اس کو چاہئے کہشدید العقاب''کے عنوان سے بھی اس کو جانے ،یہ نہیں ہو سکتا کہ جہاں قرآن میں خدا کہے کہ میں ارحم الراحمین یعنی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہوں وہاں تو انسان بہت خوشی سے اس کو قبول کرے لیکن جہاں وہ اپنے کو'' شدید العقابکہے یعنی بہت سخت عذاب دینے والاہوں تو وہاں پر کہے کہ یہ تو خشونت ہے اور ہم اس کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔ خدا وندعالمارحم الرٰحمین فی موضع العفو و الرّحمة بھی ہے اورا شّد المعاقبین فی موضع النکال و النقمه ( ۲ ) بھی ہے یہ ہماری کمزوری ہے

____________________

(۱) سورہ انفال : آیہ ۳۹۔

(۲) ارحم الرٰحمین کا لفظ سورہ اعراف : آیہ ۱۵۱، اور اشدّالمعاقبین کا لفظ سورہ مائدہ :آیہ ۲ میں آیا ہے اس کے علاو ہ روایات اور اددعیہ میں بھی یہ دونوںلفظ استعمال ہوئے ہیں ملاحظہ ہو مفاتیح الجنان (دعائے افتتاح) مولفہ مرحوم شیخ عبّاس قمّی۔

۲۱۸

کہ ہم نے اسلام کے حقائق کو ظاہر نہیں کیا ہے اور نص قرآن کے اعتبار سے اسلام کے حقائق بیان کرنے کی شجاعت ہمارے اندر نہیں ہے؛ ہم ان حقائق کو بیان کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں ؟ مرحوم امام خمینی جس وقت فرماتے تھے تم ان لوگوں کی اس بات سے نہ ڈرو کہ یہ تم کو خشونت اور سنگدلی سے متہم کریں توآپ کا اشارہ ایسی ہی باتوںکی طرف تھا ۔جس اسلام کی طرف ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ ایک مجموعہ کا نام ہے جس کے اندر یہ سزائیں بھی ہیں جن کا،عالمی حقوق انسانی کا بیانیہ انکار کرتا ہے اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم لوگوں کوقرآن مجید کی طرف اس کی دس آیہ یا سو آیہ یا تمام آیتوں سے ایک ہی آیت چھوڑ کردعوت دیں۔

دوسراسوال اور اس کا جواب

سوال : ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن اور دین اسلام یکبارگی نازل نہیں ہوا ہے بلکہ دھیرے دھیرے معاشرہ اور ماحول کی مناسبت سے اور لوگوں کے فہم و رشدکے اعتبارسے جو پیغمبرکے مخاطب تھے،لایا گیاہے؛ اسی طرح اس بات کے پیش نظرکہ ہم ایک اسلامی ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور نوّے فیصدی سے زیادہ یہاں کے لوگ مسلمان ہیں ،لہذٰ اہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اسلام کے تمام مطالب کو بغیر کمی اور زیادتی کے قبول کریں اور بعض کا اقرار یا بعض کا انکار نہ کریں؛ اس میں کوئی بھی بحث نہیں ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ آج ہم نے انقلاب برپا کیا ہے اور ہمارے انقلاب کے اثر کی وجہ سے اسلام کو ،جس کی حقیقت دھیرے دھیرے مٹتی جارہی تھی،دوسری حیاتم مل گئی ہے، اس وقت ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو دنیا والوں کے سامنے پیش کریں، اس کو پہچنوائیں اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیں۔دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مغربی اور سامراجی ذرائع ابلاغ اس بات میں مصروف ہیں کہ وہ اسلام کو ایک خشن اورسنگدل دین کے طور پر پیش کریں اور مسلمانوں خاص کر ایرانی مسلمانوں کو دہشت گرد ،بے منطقی اور خشونت طلب کے عنوان سے پیش کریں ؛اب اگر ان حالات میں ہم یہ چاہیں کہ چور کے ہاتھ کاٹنے یا زنا کار کو سنگسار کرنے جیسے احکام کو جاری کریں تو لازمی طور پر دنیا کے لوگوں کے ذہن میں اس کا منفی اثر ہوگا اور مغربی رسالے اور جرائد ان کی تصویر کشی کرکیاسلام اور مسلمانوں کے چہروں کو بہت ہی بری اور نفرت انگیز انداز سے دنیا والوں کے سامنے پیش کریںگے۔

۲۱۹

یہ بات ظاہر ہے کہ اگر دنیا کے سامنے اسلام اس طرح پیش ہوا تو ہم اسلام اور قرآن کے پیغام کو دنیا والوں تک نہیں پہونچا پائیں گے اور کوئی شخص اسلام کی طرف مائل نہ ہوگاسوال یہ ہے کہ کیا ہم مذکورہ مسائل کے سبب ایک بڑی اوراہم مصلحت (یعنی اسلام کی ترویج اور تبلیغ ) کی خاطر بعض اسلامی احکام میں تغیر و تبدل انجام دے سکتے ہیں ؟ جیسے قتل کے بارے میں اسلام کا پہلا حکم یہ ہے کہ سو اونٹ دیت میں دئیے جائیں؛ لیکن آج ہم نے اس کے برابر دوسری چیز کو بنا لیا ہے اور وہ ستر لاکھ نقد روپیہ دیا جانا ہے اسی طرح کیا ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم چند جگہوں پر اس کے برابر کوئی دوسری چیز معین کرکے اسلام کی جو کریہہ صورت پیش کی جاتی ہے اس کو دور کر دیں اور لوگوں کو اسلام کے دائرہ میں داخل کریں۔

جواب : البتہ اس کا جواب دینے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جملہ پر بحث کی جائے؛ لیکن پھر بھی جس قدر یہاں ممکن ہوگا وہ مطلب بیان کروں گا ۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232