دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)0%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 77679
ڈاؤنلوڈ: 4175

تبصرے:

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 77679 / ڈاؤنلوڈ: 4175
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

اسلامی اقدار کو کم کرنے کے لئے اسلام دشمنوں کا منصوبہ

وہ عوامل اور اسباب جو ان باتوں کی حقیقت و ماہیت سے مربوط ہیں ان کے علاوہ بیرونی عوامل و اسباب بھی اسلامی رنگ کو پھیکا کرنے کے لئے موثر اور اہم ہیں ؛ انقلاب کے ابتدائی دنوں میں امریکہ اور دوسرے مشرقی اور مغربی ممالک، نے یہ سوچا تھا کہ یہ انقلاب بھی دوسرے دنیاوی انقلابوں کی طرح اپنے زمانے پر کچھ اثر نہیں ڈال پائے گا اور پھیل نہیں سکے گا؛ لیکن آج بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا دنیا میں کتنے تغّیرات ہوئے ان لوگوں نے یقین کر لیا کہ اسلام ایک بہترین اور ترقی دینے والا ،لوگوں کی زندگیاں بنانے ،دنیا کوچلانے اور معاشرہ کو بلندیوں کی طرف لے جانے کے لئے طاقت و قوت رکھتا ہے ؛آج ان لوگوں نے اس خطرہ کو پوری طرح سے محسوس کر لیا ہے اور اس کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اسی وجہ سے عظیم سرمایہ اور وسیع پروگرام کے ساتھ اس تحریک کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے ہر طرح سے آمادہ ہو گئے ہیں اور اس کے مٹانے کے در پے ہو گئے ہیں ۔آج دشمن کے تجزیہ کاروں نے ہمارے انقلاب کی قوتوں،کمزوریوں اور ان کے شگاف کو پہچان لیا ہے جن کے ذر یعہ وہ اس محکم قلعہ میں نفوذ کر سکتا ہے اور ایسے پلان اور کارناموں کے ساتھ جن کو ہم تصّور بھی نہیں کر سکتے انقلاب کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں لگا ہوا ہے۔ البتہ بعض باتوں اور ان سے متعلق پلانوں کا ظاہر ہونا مشکل بھی نہیں ہے ایک معمولی تجزیے اور تجربے سے مشخّص کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی حرکتوں اور افعال کے اصلی عنصر اور قلب کو دو چیزوں سے یعنی اسکی شناخت و معرفت اور اس کے یقین و اعتقاد سے معلوم کیا جا سکتا ہے لہٰذا جب بھی کسی انسان کے بارے میں ارادہ ہو کہ اس کی حرکت اور رفتار کو بدلیں تو فقط اس کی شناخت اوراس کے اعتقاد کا جائزہ لیں ؛اسی وجہ سے اسلام اور اس ملّت کے دشمنوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف لوگوں کے اعتقادات دینی کو کمزور کریں اور دوسری طرف اس بات میں لگے ہوئے ہیں کہ مادّی اور مغربی چیزوں کی اہمیت کو دینی اہمیت کی جگہ پیش کریں اور لوگوں کے اعتقاد کو بدل دیں ؛یہ حکمت عملی یعنی لوگوں کے اعتقاد و معرفت کو بدلنے کی کوشش خاص طور سے نوجوان نسلوں میں بہت ہی موثر ہے

۴۱

کیونکہ یہ نسل اعتقادی اور فکری اصول میں اتنی محکم اور مضبوط نہیں ہوئی ہے، زیادہ تر سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر استوار ہے اور سرسری طور سے صرف چند مسائل کو جانتی ہے اور ان پر اعتقاد رکھتی ہے ان کے پاس محکم تحقیقی اور استدلالی چیزیں نہیں ہیں ،اعتقادات کے اعتبار سے بھی جوانی کی عمر خاص خواہشیں رکھتی ہیں یہ انسانی زندگی کا بہت ہی بحرانی مرحلہ ہوتا ہے جب مختلف طرح کا انسانی جسم میں خواہشوں کا طوفان ہوتا ہے،فطری طور سے نوجوان اپنی زندگی کی ظاہری اور مادی چیزوں کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے ۔

ا لبتہ مغربی حکومتیں یہ حکمت عملی صرف مسلمان ملت وقوم اور تیسری دنیا کے لوگوں کے لئے استعمال نہیں کرتی بلکہ یہحکمت عملی اپنے ملک کے ا فراد کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں وہ مغرب کے اکثر جوانوں کو سیکس، جنسی مسائل ، الکحل، شراب اوربیگ جوتے چپّل،لباس ،چہرہ اوربال وغیرہ کے ماڈلوںمیں لگا دیتے ہیں اور ان چیزوں کو نئے نئے انداز سے پیش کرتے ہیں نیز کھیل کود سنیما ،اسباب آرائش اور اسی طرح کے دوسرے لوازمات میں مشغول رکھتے ہیں ، ان لوگوں میں فقط کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہ اچھی صلاحیت رکھتے ہیں یہ لوگ ان کی تشخیص کرتے ہیں اور ان کو علمی و تحقیقی شعبوں میں لگا دیتے ہیں اور ان پر سرمایہ خرچ کرتے ہیں ان کے خیالات اور تفکّرات سے نئی چیزوں کی ایجادات میں (جو کہ مختلف میدانوں میں ترقی کا ذریعہ ہیں ) استفادہ کرتے ہیں ۔

لہٰذا جس ملک کا اساسی قانون اسلام کے فرامین پر استوار ہو اور اس میں اصل محور ولایت فقیہ ہو اور وہاں پر اسلامی اقدار حاکم ہو اور اس ملک کا سربراہ فقیہ، اسلام کو پہچاننے اور اس کے احکام کو جاننے والا،تقویٰ کے عظیم مرتبہ پر فائز اور الٰہی اقداراور انسانی کا حامل ہو، وہاں پر کیا کرنا چاہئے کہ دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوں ؛اس کا واضح سا جواب ہے کہ مختلف ثقافتی طریقوں جیسے کلاس، مدرسہ،یو نیورسٹی ، اخبارات ومطبوعات ، فلم ، سنیما، ریڈیو،کتاب ،کھیل کود اور ان جیسی دوسری چیزوں کے ذریعہ وارد ہونا چاہئے اور یہ روش اور طریقے انسان کی شناخت اوراس کے اعتقاد کو پوری طرح سے بدل دیتے ہیں اور حقیقت میں اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ شاید آپ کے ذہن میں وہ ریڈیوئی گفتگوہوگی کہ جس وقت کسی نامہ نگار نے ایک عورت سے سوال کیا کہ تمھارا آئیڈیل کون ہے تو اس نے جواب دیا کہاوشین''مرحوم امام خمینی نے فوراًریڈیو اسٹیشن کوٹیلی فون کیا اور اس ریکارڈینگ کے نشر ہونے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ عورت مرتد ہونے والی ہے آپ خود ہی غور کریں اور دیکھیں کہ علی اور فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہماکے ملک میں خود امام خمینی کی زندگی میں کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شیعہ عورت کا آئیڈیل اور نمونہ زینب و زہرا علیہما السلام نہیں بلکہ اوشین ہو سب سے اہم وہی پہلا قدم ہے اگرمعرفت اور اعتقاد کی دیوار ٹوٹ گئی تو دشمن کے لئے پھر پورا راستہ آسان ہو جائیگا ۔

۴۲

قانون اور اجراء قانون کے شعبے میں دشمن کی دخل اندازی

دشمن کا دوسرا سب سے اہم پلان لوگوں کے اعتقادات اور یقین کو کمزور کرنے کے لئے یہ ہے کہ ملک کی سیا ست کے شعبہ میں دخل اندازی کی جائے ایسے لوگوں کو حکومت اور عہدوں پر لایا جائے جن کے اعتقاد اور فکری اصول اور خیالات کچھ حد تک امام سے دور ہوں اور ان کے تفکرّات مغربی فرہنگ وتہذیب سے متاثرہوں ؛ اس لئے کہ دیوار کو توڑیںکچھ اخبارات میں با واسطہ یا بلا واسطہ اپنااثرو رسوخ جماتے ہیں اور پھر اسلام پر حملہ شروع کرتے ہیں اور اسلامی قوانین کو زیر سوال لاتے ہیں اور مقدّسات کی توہین کرتے ہیں جو لوگ اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں اور اسلامی اقدار کے پیرو اور طرف دار ہیں ان کی شخصیتوں کو مخدوش اور مجروح کرتے ہیں اور اسلامی و دینی اقدار پر تاکید کے بجائے نیشنلزم اور قومی اقدار کو پیش کرتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اس کے علاوہ اور دسیوں باتیں ہیں جن کا ہم آج مشاہدہ کرتے ہیں ،دشمن دھیرے دھیرے تمام شعبوں میں آگے اپنا قدم بڑھا رہا ہے ایسا نہیں ہے کہ یکبارگی شروع ہی میں وہ اپنامدّعا اور ہدف بیان کر دے گااوراپنے مطالب کو پہلی ہی مرحلے میں پایہ تکمیل تک پہونچا دے گا۔

لیکن اگر اخبار والے چاہیں کہ ان تمام باتوں کو لکھیںتو ان کے سامنے قانونی مشکل ہے لہٰذا وہ قانونی مشکل کو حل کرنے کے لئے اور مطبوعات کی آزادی کے لئے قانون بدلنا چاہتے ہیں قانون بدلنے کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ ان کے بقول اعتدال پسند حکومت وجود میں آئے، ابتدا ہی میں یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں بے اسلامی کا نعرہ لگائیں؛ بلکہ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو لچکدار رویےّ کے حامل ہوں اور بہت ہی زیادہ سخت و متعصّب نہ ہوں اور بعض اسلامی مسائل میں سستی اور کوتاہی کا مظاہرہ کریں اعتدال پسندوں کو بر سر اقتدار لانے کے لئے وہ یہ کام کرتے ہیں کہ پچھلے جو متدّین عہدہ دار افرادگذرے ہیں ؛ ان کی معمولی غلطیوںکو ( جو کہ ابتدائے انقلاب یا اور دوسرے مشکلات کے سبب ہو گئی تھیں) بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں

۴۳

اور ان س سوء استفادہ کر کے ان ذمہ داروں اور عہدہ داوں کی عوامی مقبولیت کو کمزور کر دیتے ہیں تاکہ وہ طاقتیں جو کسی حد تک اسلامی اقدار سے دور ہیں اور کم و بیش مصالحت پر آمادہ ہیں اوران کے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف ہو جائے۔ اس درمیان ہم کو یونیورسٹی اور وہاں رہنے والوں سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ لوگ ہر حال میں سماج کے موثر اور آئندہ کے ملک کی باگ ڈورسنبھالنے والے ذمہ دار افراد ہیں ان کے لئے ہم کو الگ سے سوچنا ہو گا اور علیحدہ نظام و پلان بنانا ہوگا، خلاصہ یہ کہ یہ مفصّل اورمنظّم طور پر بنائے ہوئے ایک فلمی ڈرامے کے مانند ہے کہ دشمن جس کے پردوں کو یکے بعد دیگرے اٹھا رہا ہے اس ڈرامے میں آپ اجنبی یا ان افرادکو جو کہ اسلام اور انقلاب کے دشمن ہیں یا ظاہری طور پر انقلاب یا اسلام کے مخالف ہیں بہت ہی کم دیکھئے گا اکثر آپ ڈرامہ میں ان لوگوں کو کھیلتے ہوئے دیکھئے گا جو اسلام کا اعتقاد رکھتے ہوں چاہے وہ ظاہری ہی کیوں نہ ہو، ضروری نہیں ہے کہ امریکہ کا ایک آدمی یا سی آئی اے تنظیم کا ایک جاسوس آئے اور وہ یہ کام انجام دے بلکہ آپ خود دیکھتے ہیں کہ ایک وزیر یا نائب وزیر جو نمازی اور روزہ دار بھی ہے کربلا اور سوریہ کی زیارت بھی کی ہے حج پربھی گیا ہے اکثر خمس و زکوٰة بھی ادا کرتا ہے اور یہاں تک کہ کبھی وہ حافظ قرآن بھی ہوتا ہے لیکن اس کی فکر اور چال ایک سو اسیّ درجہ امام خمینی سے مختلف ہوتی ہے ،یہاں تک کی آپ بعض ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کا نظریہ آج پہلے سے بہت حد تک بدلا ہوا دکھائی دیگا ،مثال کے طور پر ایک ایسا شخص جو امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرنے میں شریک تھا اور اس کام میں اس شخص نے اہم رول ادا کیا تھا لیکن آج وہی شخص اس کام کی مذمت کر رہا ہے اور مغربی مملک میں جاکر ایک ٹی وی کے پروگرام میں اسی جاسوس سے ہاتھ ملاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک میز پر بیٹھتا ہے اور سب کے سب ایک ساتھ کھاتے پیتے ہیں اور ہنسی مذاق کرتے ہیں ۔ وہی شخص جو دو تین سال پہلے اس بات پر معترض تھا کہ ایک پارلیمنٹ کا ممبرانگلینڈ کے سفرمیں نا مناسب باتیں کیوں کرتا ہے اور اس پر امریکی ہونے کا الزام لگارہا تھا آج وہی شخص امریکہ سے رابطہ اور گفتگو کے لئے مشورے دے رہا ہے، کل تک امریکہ مردہ باد کا نعرہ خود لگاتا تھا آج اس کے متعلّق کہتا ہے کہ چند سر پھرے لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہیں ۔ آج میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوںجو جنگ کے زمانے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ جنگ کے حق میں تھے آج اسی جنگ پر اعتراض کرتے ہیں

۴۴

البتہ حقیقت یہ ہے کہ انھیں لوگوں میں بہت سے لوگ جو انقلاب کے ابتدائی دنوں میں سخت نعرے لگاتے تھے اس پر ان کا دلی اعتقاد نہیں تھا زیادہ تر جذبات اور ماحول کے زیر اثران نعرو کو وہ دہراتے تھے اس طرح کے لو گ خود اپنے بقول دلیلوں کے تابع ہو گئے ہیں اور اپنے تصور میں جذبات کی وادی سے نکل کر عقل کے مرحلہ میں داخل ہوگئے ہوں اور کہتے ہیں کہ ہماری پہلے کی حرکتیں اور باتیں غلط تھیں ۔میں مناسبت کی وجہ سے اسی جگہ اشارہ کررہا ہوںکہ اس حساب سے جو لوگ ماضی میں انقلابی کردار ادا کئے ہوں اور انقلاب کے سلسلے میں امام خمینی کے معین و مدد گار ہوں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ان کے عقاید اور نظریات کو پوری طرح سے قبول کر لیں ؛کیونکہ ہم امام خمینی کے بہت سے ساتھیوں اور دوستوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ امام خمینی کے افکار اور بنیادی اصول میں شک رکھتے ہیں اور امام خمینی کے افکار کو صحیح نہیں جانتے ہیں ، البتہ بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہین کہ ان کا اختلاف ہم سیزیادہ تر سلیقہ اور روش کی حد تک ہے اور یہ معمولی اختلاف اس چیز کا سبب نہ بننے پائے کہ ہم ان کو پوری طرح سے امام خمینی کے دوستوں سے جدا کر دیں اور ان کو دوسروں کا کارندہ و حامی تصور کریں اور ان سے سیاسی کشمکش اور اختلاف کو اختیار کریں ۔

پچھلی گفتگو کا خلاصہ

بہر حال اس جلسے اور پچھلے جلسے کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب کے شروع میں شناخت و تفکّر کے اسباب بہت کم رکھتے تھیاور خاص سبب جو اس بات کا باعث ہوا کہ لوگ امام خمینی کے پیچھے حرکت کریں اور انقلاب لاکر اسکو محفوظ رکھیںوہ ان کے دینی احساسات اور جذبات تھے البتہ یہ صرف امام خمینی کا ہنر تھا کہ آپ نیان احساسات اور جذبات کو انقلاب کی سمت میں لا کر رہبری فر مائی اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیالیکن انقلاب کی تحریک کو باقی رکھنے اور اس کو جاری رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ فکری اور ثقافتی کام کرنا لازم ہے

۴۵

آج یہ سوچنا غلط ہے کہ ہم اس تصوّر میں رہیں کہ جب چاہیں لوگوں کے دینی احساسات پر بھروسہ کرتے ہوئے ماتم اور حسین حسین کے ذریعہ اس انقلاب کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں وہ صرف امام خمینی کی ذات تھی جو کہ روحانی، عرفانی اور الٰہی شخصیت کی مالک تھی ؛اپنی اس عظیم شخصیت کے ذریعہ وہ دلوںپرحکومت کرتے تھے اور لوگوں کے احساسات اور جذبات کو اپنے تابع کر لیتے تھے ایسی بات اگر ہم کرنا چاہیں تو ممکن نہیں ہے ہم کو چاہئے کہ ہم اسلام کو اچھّی طرح پہچانیں اور دوسروں کو پہچنوائیں

آج بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی فکر و عمل میں غلطی اور انحراف رکھتے ہیں حقیقت میں یہ جان بوجھ کر اپنے کام میں غلطی نہیں کرتے ہیں یہ کمزوری صرف شناخت نہ ہونے کا نتیجہ ہے یہ ایسے لوگ ہیں کہ اپنی تعلیم کے دوران اگر بہت زیادہ مسلمان تھے تو بس اتنا کہ نمازی اور روزہ دار تھے ان چیزوں کا ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اسلام کے اصول ومبانی کی شناخت اور تحقیق کریں ؛اس کے بعد جب ملک کے کسی اہم عہدہ پر متمکن ہوئے تو اتنی فرصت کہاں ملتی ہے ؛اپنے ہی کام کے لئے وقت نہیں ملتا تو بھلا پھر کیسے وہ اسلام کے اصول و مبانی کے متعلق تحقیق کریں گے؟ آج ہی ہم کو یہ کام کرنا چاہئے اور اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ یہ لوگ اسلام کو بہتر طریقے سے پہچانیں یہ کوئی شرم کی بات نہیں ہے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ تعلیمات صرف مدرسے کے بچوّں اوریونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے ہے ایسا نہیں ہے بلکہ سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ ہم وزیر یا اس کے نائب سے کہیں آؤ کلاس میں بیٹھ کریہاں پڑھو

ہاں یہ ممکن ہے کسی ذریعہ اور بالواسطہ طور سے ان کے کانوں تک یہ بات پہونچا دی جائے اور کسی نہ کسی طرح سے وہ لوگ ان باتوں سے واقف ہو جائیں؛ جو لوگ آج کل ملک کی سیاست میں اہم عہدہ رکھتے ہیں ان کے علاوہ ہم کو ان لوگوں کے بارے میں بھی فکر ہونی چاہئے جو آگے چل کر اس عہدے پر فائز ہونے والے ہیں اور وہ در اصل یہی طالب علم ہیں جو آج کل مدرسوں یا یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں ؛ مستقبل کے ذمہ داروں اور عہدے داروں کے متعلق ہم کو ابھی سے فکر کرنی ہوگی اور ہم کو اس کی پلاننگ کرنی ہوگی ،یہاں پر مناسب ہوگا کہ ان باتوں سے متعلق ایک مثال کو بیان کروں:

۴۶

ایک بڑے اسلامی ملک جسکی آبادی ہمارے ملک سے زیادہ ہے وہاںکے صدر جمہوریہ سے پوچھا گیا کہ آپ اس طرح امریکہ پر کیوں منحصر ہیں انھوں نے جواب دیا کہ امریکہ نے ہمارے ملک کے دو ہزار بڑے اور تعلیم یافتہ افراد کو مختلف حصّوں سے ذخیرہ کر لیا ہے او رانھیں میں سے ہر مرتبہ چالیس افراد ملک کے بڑے عہدوں پر بنے رہتے ہیں یہ ذخیرہ اندازی برابر جاری رہتی ہے آپ اس ملک سے جہاں کے دو ہزار لوگ سیاست کے بلند مقام پر ملک میں فائز ہوں اور ان لوگوں کی تعلیم اور تربیت امریکہ میں ہوئی ہو، کیا توقّع رکھتے ہیں ؟

امریکہ نے اس سیاست کو پچاس سال پہلے اپنایاتھا اور آج ا س کا فائدہ حاصل کر رہا ہے؛ اگر ہم آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں آگے پچاس سال تک اسلامی حکومت قائم رہے تو اس کے لئے آج ہی سے پلاننگ کرنی ہوگی اور آیندہ ہونے والے ذمہ دار افراد کے بارے میں فکری اورثقافتی کام کو انجام دینا ہوگا یہ نہیں کہ ہم بیٹھے رہیں اور جب کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کو دور کرنے کے لئے نئے سرے سے غوروفکر کریں یہ عقلی اور منطقی کام نہیں ہے بلکہ اس کی فکر ہم کو پہلے سے کرنی ہوگی۔

اساتید کرام! میں نے اس گفتگو میں جو وقت لیا ہے اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کہ انھیں طالب علموں سے جو آپ کے ماتحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں آگے چل کر ملک کے ذمہ دار صدر جمہوریہ سے لیکر وزیر اور نائب وزیر ،پار لیمنٹ کے ممبر اور تعلیم و تربیت کے مدیر ہونگے ؛ لہذٰا آپ لوگوں کو خود اسلام کے اصول اورعقیدے کے بارے میں گہری نظر اور شناخت رکھنی چاہئے تا کہ آپ طالب علموں کو منتقل کر سکتے ہوں۔لیکن اگر کسی طالب علم نے آپ سے کوئی سوال کیا اور آپ اس کو مطمئن نہیں کر سکے تو وہ یہی کہے گا کہ جب یونیورسٹی کے بزرگ استاد سے جواب نہیں ہو سکا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اس کے بعد اگر ہم جیسے عالم دین سے پوچھا اور جواب اس نے بھی نہیں دیا تو اس کے لئے یقینی ہو جائے گا کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے لہٰذایہ لوگ جو خدا، رسول، اسلاماور مسلمانوںکے متعلّق گفتگو کرتے ہیں اس کی کوئی اساس ا و ربنیاد نہیں ہے ۔

آخری نتیجہ یہ ہے کہ میں عالم دین ہونے کی وجہ سے اور آپ لوگ یونیورسٹی کے استاد ہونے کی حیثیت سے اہم ذمہ داری رکھتے ہیں جس کے ذریعہ سے ہم لوگ کلچر کی اصلاح نیز اس ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں دوسروں کے بہ نسبت ہم لوگوں کی ذمہ داری زیادہ سنگین اور عظیم ہے لہٰذاہم کو چاہئے کہ اپنے علم کو وسیع اور مضبوط کر کے اور اسلام کے اصول و مبانی کو پہچان کر اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے قدم آگے بڑھائیں۔

۴۷

دینی پلورالزم-۱

ہمارے زمانے کا عظیم بحران

جس زمانے اور جس دور میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں خاص طور سے آخری دس سالوں کا عرصہ اگر اس کو بحران کے دور کے نام سے یاد کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ؛ انسانی تمدّن کی تاریخ میں مختلف زمانے دیکھے گئے ہیں جو کہ مختلف مناسبتوں کی وجہ سے الگ الگ ناموں سے یاد کئے گئے ہیں لیکن کسی بھی زمانے میں ایسا عظیم ثقافتی بحران نہیں دیکھا گیا کہ ایک اعتبار سے اسے بحرانی ہو ےّت کا نام دیا گیا ہے۔ اگر آج ہم ترقی یافتہ ممالک کے ثقافتی مسائل کے بارے میں توجہ کریں اور گفتگو کریں تو ایک عجیب آشفتگی،سرگردانی،ابہام اور شدید فکری شکّاکیت(شک پرستی)کو دیکھیں گے کہ ایسا شکّاکیت سے لبریز زمانہ کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

پہلے زمانے میں یونانی کلچر میں سوفسٹ'' نام سے گروہ پیدا ہوا تھا چند دنوں تک تو ان کا نام و نشان رہا ؛لیکن بہت جلد ہی ختم ہو گئے ۔پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں ایک مرتبہ پہر شک پرستی کا طوفانپیرناور اس کے چاہنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوا ؛ اور وہ بھی بہت جلدی ختم ہو گیا ؛اس کے بعد شک پرستی کا تیسرا دوررنسانس'' کے بعد شروع ہوا ؛اس کا اثرپہلے کی بہ نسبت زیادہ رہا ؛لیکن اتنا بھی نہیں کہ دنیا کے تمام اسکولوں،یونیورسٹیوں اور ثقافتی جگہوں پرچھا جائے مگر آخر کے دس سالوں میں شک پرستی کی ایک نئی موج اٹھی ہے جس کی وسعت و شدت گذشتہ موجوں سے بہت زیادہ ہے وہ اس طرح کہ اس نے چند جگہوں کو چھوڑ کر دنیا کے تمام علمی اورتمدّنی مراکز کو خاص طور سے اسکولوں اور یو نیورسٹیوںکو پریشانی اور درد سر میں مبتلا کر دیا ہے؛ تمام طرح کے شکی مکاتب فکر اور فلسفے بہت زیادہ رواج پا گئے ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ ظاہری طور پر وہ شکاکیت کا نام نہ رکھتے ہوں ،لیکن ان کے مطالب شک پرستی کے عناصر سے خالی نہیں ہیں ۔اور دنیا کا ثقافتی ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں یقین اور حقیقت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کو برا اور ناسمجھ سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی کو بے عزّت کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ یقین پرست اور ڈگما تیزم کا حامی ہے، آج کل یقین پرست ہوناایک علمی گالی شمار کیا جاتا ہے؛ اور شک پرستی، نسبیت اورمطلق انگاری کی نفی ، اس طرح سے دنیا کی فکری اور معاشرتی فضاوئں پر چھا گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں یقینی طور پر اعتقاد رکھتا ہے اور دعوے سے کہتا ہے کہ ہم اس چیز پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو پوری طرح سے صحیح سمجھتے ہیں تو اس آدمی کو ناسمجھ ،سادہ لوح اور علم وفہم سے خالی تصور کرتے ہیں اور اس کو جاہل افراد میں شمار کرتے ہیں ۔

۴۸

ایک مرتبہ میں نے ایک جگہ پر کہا کہ اگر ہم اس زمانے کو نئی جاہلیت زمانہ کے نام سے یاد کریں تویہ اسم با مسّمیٰ ہوگا کیونکہ آج کل قابل فخر بات یہ کہناہے کہ ہم نہیں جانتے ہیں وہ لوگ کہتے ہیں آج ہمیں اس مقام پر پہونچنا چاہئے کہ اچھّی طرح سمجھ لیں کہ تمام چیزیں مشکوک ہیں اور کوئی چیز یقینی وجود نہیں رکھتی ہے یعنی یہ قابل فخر ہے کہ ہم ہر چیز میں شک و جہل کا اقرار کریں یہ ایک نئی جاہلیت ہے جس کا ہم کو آج کل سامنا ہے؛ یہ اس جاہلیت کے مقابل ہے جس کو قرآن کریم نےجاہلیت اولیٰکے نام سے یاد کیا ہے( ۱ )

بہر حال ان لو گوں کی نظر میںڈگماتیزم اور یقین پرستی'' انسان کی ناسمجھی اور کج فہمی کی دلیل ہے، البتہ ہمارے نظریہ کے مطابق تمام چیزوں میں بھی شک پرستی اور نسبیت کا اعتقادآج جس کا دفاع کیا جا رہا ہے، جہالت اور ناسمجھی کے علاوہ اور کوئی دوسری چیزنہیں ہے، ہم نے قرآن کریم سے سیکھاہے کہ یقین اور یقینی چیزوں کو حاصل کرو اور اس کو اختیار کرو اور شک وتردید کے پردوں کو اپنے سے دور کرو۔سورہ بقرہ کے شروع ہی میں اس جانب اشارہ ہوا ہےو باالآخرة ھم یوقنون''( ۲ ) یعنی مومنین وہ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہوں ؛ قرآن مجید کا دستور یہ ہے کہ جس جگہ وہ کسی کی سرزنش کرتا ہے یا اس کی مذّمت کرتا ہے اور غلط قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے: یہ لوگ شک والے ہیں بالکل اس کے خلاف جو کہ آج کی دنیا میں پایا جا رہا ہے کہ اگر کسی کی طرف علمی اعتبار سے نامناسب نسبت دینا ہو تو کہتے ہیں کہ یہ اہل یقین ہے۔

____________________

(۱) سورہ احزاب : آیہ ۳۳۔

(۲) سورہ بقرہ : آیہ ۴۔

۴۹

پلورالزم تساہل تسامح ،بحران پیدا کرنیوالوں کے ہتھکنڈے

بہر حال ہماری نظر میں شک پرستی اور نسبیت کا اعتقاد انسانی معاشرہ کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت اور آفت ہے کم سے کم ہمارے سماج کے لئے اس بات کا سبب ہے کہ ہماریاعتقادات اورثقافت جن کے لئے ہم نے قربانی پیش کی ہے اور ان کے وجود کے لئے صدیوں ہم نے زحمت برداشت کی ہے تا کہ وہ عالم وجود میں آئیں ، وہ سب ختم ہو جائے ؛اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عالمگیر شک پرستی کی موج و آفت] جو کہ ایک فاجعہ اور خطرناک بیماری ہے [کے مقابلہ میں کیا کیا جائے؟ ہم ایک اسلامی ملک اور حکومت ہونے کی وجہ سے جس طرح دوسرے شعبوں اقتصاد و صنعت وغیرہ میں مختلف کارنامے انجام دیتے ہیں ان کے علاوہ اس ادبی اورثقافتی میدان میں کون سا کام انجام دیں ؟البتہ ثقافت سے ہماری مرادنئی اصطلاح میں ر قص و سرود نہیں ہے بلکہ دینی اصولاعتقادات اور اقدار ہیں ہماری نظر میں اسلام ایک قطعی اصول اور محکم اقدار کا نام ہے ہمارا وظیفہ اور ذمہ داری یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم انکی حفاظت کریں اس کے بعد دوسروں کو ان کی جانب دعوت دیں نہ یہ کہ سیکو لرازم،لیبرال ازم، پلو رل ازم اور دوسرے کئی ازم اور نظریوںکے مقابلہ میں پیچھے ہٹ جائیں اور ان کے اثرات کو قبول کر لیں ۔آج اس ملّت کے دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف ثقافتی حیلوں کو وسیلہ بنا کرلوگوں خصوصاً جوانوںکے اعتقاد،اعتماد اوریقین ،کو زیر سوال لا کرمتزلزل کردیںاورانھیںحیلوں میں ایک حیلہپلو رالزم''نام کی ایک خطرناک فکر ہے جس کی وہ لوگ ترویج کرتے ہیں ؛ اس کی اہمیت کے اعتبار سے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں کچھ عرض کروں۔

۵۰

پلورالیسٹ کہتے ہیں انسان مختلف عقیدوں اور فکروں کے مجموعہ کا نام ہے اور وہ مختلف راہ و روش رکھتاہے اور ہر عقیدہ اور راہ وروشجو کسی بھی معاشرہ سے متعلق ہواور وہ اس کو پسندکرتا ہو تو وہ محترم ہے ہم کو چاہئے کہ ہم ان کی فکر و نظر کا احترام کریں البتہ دوسروں کو بھی ہماری فکر و نظر کا احترام کرنا چاہئے ۔ہم کو نہ تو کسی کی فکر ونظر سے چھیڑ چھاڑ کرنی چاہئے اورنہ تو اس بات کا انکار کرنا چاہئے کہ دوسروں کی فکریں ہماری فکروں کی جا نشین ہو جائیںکسی شخص کو بھی اپنی فکرکے حوالے سے مطلق تصوّرنہیں کرناچاہئے بلکہ اس بات کو نظر میں رکھنا چاہئے کہ دوسرے لوگ بھی الگ فکرونظرکے مالک ہیں اس پرکوئی دلیل نہیں ہے کہ ہماری فکرو نظر صحیح ہے اور دوسروں کی غلط ہے آپ کس اصول کی بناء پر دوسروں کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں اور فقط اپنی فکر کو صحیح جانتے ہیں ؟ اگر آپ مسلمان ہیں اور اسلام کو قبول کرتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی ہیں جو مسیحیت ، بودھ ایزم اور دوسرے مذاہب کو قبول کرتے ہیں اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ آپ کا اسلام ان سے افضل و برتر ہے؛ ہم سب کو چاہئے کہ ایک دوسرے کا بھی اور ان کے عقائد کا بھی احترام کریںاور تعصب و دشمنی نہ رکھیں اور اس بات کی کوشش میں نہ رہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی لازمی طور پر اپنے مذہب اور دین کے اندر داخل کریں ،ہم کو چاہئے کہ ہم دوسروں کے افکار و عقائد سے چشم پوشی کریں اور ان سے اتسامح و تساہل کے ساتھ برتاؤ کریں اور اس بات کا احتمال رکھیں کی شاید دوسرے لوگ بھی حق پر ہوں اور سچ کہتے ہوں ۔

۵۱

جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے یہ فکر حقیقت میں وہ ہتھیار ہے جس کو دنیا کی استعماری طاقتیں اسلامی کلچر کو روکنے خاص طور پر اسلامی انقلاب کے اثرات کو پھیلنے سے روکنے کے لئے استعمال کرتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ مغرب کے مادی اور الحادی کلچر کو رواج دینے کے لئے بھی یہ کوششیں ہیں ؛آج ہم خود اس بات کے شاہد ہیں کہ بعض نشریات ،اور تقریروں، جلسوں میں اسی فکر کو رواج دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کے نفوذو اثر کا دامن اتنا وسیع ہے کہ بعض ایسے افراد جن کے متعلق گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ان کو بھی اس فکر سے متاثر ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔

جوانوں سے متعلق ہماری اہم ذمہ داری

حضرت امام خمینی کی زندگی میں آپ کی بزرگ شخصیت کا لوگو ں پر اتنا اثر تھا کہ وہ لوگ آپ سے والہانہ محبت کرتے تھے بے چون و چرا آپ کی باتوں کو قبول کرتے تھے اور آپ کے نظریہ اور رفتار و گفتار کو مانتے تھے تمام ذمہ دار افراد کے درمیان حتیّٰ عوام الناس کے درمیان آپ کی بات حرف آخر رکھتی تھی؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف آپ ہی کی شخصیت ایسی تھی ۔یہ حقیقت ہے کہ ایسی چیزیں ہمیشہ اور ہر نسل میں باقی نہیں رہتی ہیں لہٰذا ہم کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ اگروہ راہ اور فکر حقیقت میں صحیح اور درست تھی تو ہم کومنطق اور دلیلوں کے ذریعہ اس کی حمایت کرنی چاہئے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہئے اور اس کو پھیلانا چاہئے ؛خاص طور پر آئندہ نسلوں کے لئے ہمارا صرف یہ کہنا (امام خمینی نے یہ کہا اور امام خمینی نے یہ کیا) کافی نہیں ہے،

وہ عشق و جذبہ جو کہ انقلاب کے شروع اور پہلی نسل میں پایا جاتا تھا اور ان کے اندر جو شہادت کا جذبہ تھا ،جس کو میدان جنگ میں دیکھتے تھے ظاہرہے آنے والی نسلوں (یا ان لوگوں میں جنھوں نے امام خمینی کے ملکوتی چہرے کو نہیں دیکھا ہے یا جو لوگ ہر ہفتے یا روز انہ امام خمینی کے حکیمانہ جملوں کو نہیں سنتے )کے اندر نہیں پایا جا سکتا لہذا ہم کو چاہئے کہ واضح دلیلوں اور منطقی باتوں سے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

۵۲

حقیقت میں اگر ہم ان نوجوانوں کی جگہ پر ہوں جو کہ ابھی جلدی ہی رشد و کمال پر پہونچے ہیں اور وہ مختلف نظریات اورمکاتب فکر سے روبرو ہوں تو ہم دیکھیں گے کہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں ۔ ان جوانوں کے لئے جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ اتنے نظریات جو کہ اس دنیا میں ضد و نقیض کی صورت میں پائے جاتے ہیں کیا دلیل پائی جاتی ہے کہ امام خمینی کا نظریہ ہی صحیح اور درست ہو؟ کون سی دلیل پائی جاتی ہے کہ اسلام ہی سب سے اچھا دین ہے اور اس کا راستہ سب سے اچھا راستہ ہے کیا دنیا میں مسیحی دین اور دوسرے دین کے ماننے والے کثیر تعداد میں نہیں پائے جاتے ہیں آپ کو کہاںسے معلوم ہوا کہ انکا عقیدہ اسلام اور امام خمینی سے بہتر نہیں ہے ،میں کیوں اسلام، انقلاب اور امام خمینی کو قبول کروں؟یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات اور مسائل ہیں جو کہ ہمارے جوانوںکے ذہن میں پائے جاتے ہیں اور انکے ذہنوں کو جھنجوڑ تے رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو واضح طریقہ سے ان باتوں کو زبان پر لاتے ہیں اور ان کا اظہار کرتے ہیں اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مناسب ذہنی میدان اور ماحول'' پلورا لیزمکی ترویج کے لئے دین وثقافت کے حدود میں میں پا یا جا رہا ہے۔

میں خود دنیا کے مختلف ملکوں میں ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو کہ مسیحی تھے لیکن کہتے تھے کہ اسلام بھی اچھا دین ہے لیکن جب میں نے ان سے سوال کیاکہ پھر کیوں نہیں مسلمان ہو جاتے تو جواب میں کہتے ہیں چونکہ مسیحیت بھی اچھا دین ہے۔حتیّٰ اس سے بھی بڑھ کر آج پاپ (مسیحیوں کا رہنما)بھی اعتراف کرتا ہے کہ اسلام ترقی یافتہ اور اچھا دین ہے لیکن کبھی یہ نہیں کہتا کہ مسیحیت برا دین ہے یا اسلام مسیحیت سے بہتر ہے جب مسیحیت کا راہبر یہ اعلان کرتا ہے کہ اسلام بہت سی خوبیوں کا دین ہے تویہ خودبخوداس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دو اچھے دین ہیں ایک اسلام اور ایک مسیحیت۔ اگر آپ بودھ مذہب کے رہبر(بودھ ایسا مذہب ہے جسکے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں )سے ملاقات کریں گے تو ممکن ہے وہ بھی کہے کہ بودھ اچھا دین ہے اسلام بھی اچھا مذہب ہے یہ وہی دینی پلورالیزم ہے یعنی ہم ایک اچھا اور برحق دین نہیں رکھتے بلکہ حق پر کئی دین ہیں کسی کو بلاوجہ یہ ضدنہیں کرنی چاہئے کہ جنت میں جانے اور سعاد ت مند بننے کے لئے مسلمان ہونا ضروری اور شرط ہے بلکہ مسیحی ،زرتشتی،بودھ اور دوسرے لوگ بھی جنت میں جاسکتے ہیں اور سعا د تمند بن سکتے ہیں اسی طرح ایک دین کے اندر بھی مختلف مکاتب فکر کوبھی ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دینی چاہئے ؛بلکہ سب کے سب اچھے اور حق پر ہیں جیسے اسلام مذہب میں سنی اورشیعہ ہیں یامسیحیت میں کیتھولک''پروتٹیسٹان اورارتڈوکس'' لہذا ایک دوسرے کے باطل یا غلط ہونے کانظریہ نہیں رکھنا چاہئے۔

۵۳

پلورالیسٹ کیا کہتے ہیں

پلورالیسٹ دینی پلورالزم کی تائید کے لئے پلو رالیزم کے دوسرے مظاہر کے ذریعہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ دینی پلورالیزم بھی صحیح ہے مثلاً کہتے ہیں آج د ونیاکے مملک مختلف حکومتی روش اور سسٹم کے تحت چل رہے ہیں ؛بعض ترقی یافتہ ممالک مثلاًانگلینڈ، جاپان وغیرہ میں با دشاہی حکومت پائی جاتی ہے اور دوسرے کئی ملکوں میں جمہوری حکومت پائی جاتی ہے؛ جمہوری حکومتوں میں بھی بعض جگہوں پر ریاستی اور کہیں پر پارلیمانی طریقہ حکومت پایا جاتا ہے۔ جب سیاست کے میدان میں حکومت کے مختلف قسم کے سسٹم سے متعلق بحث ہوتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ (ان تمام سسٹم میں کون سا سسٹم اچھا ہے؟ ) وہ لوگ کوئی آخری اور فیصلہ کن جواب نہیں دیتے ؛بلکہ کہتے ہیں کہ ان تمام سسٹم میں بعض اچھائیاں اور خوبیاںبھی پائی جاتی ہیں ؛اور بعض حد بندیاں اور کمیاں پائی جاتی ہے اور کسی سسٹم کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ برا ہے وہ تمام سسٹم اچھے ہیں یہ سیاسی پلو رالزم یعنی سیاسی حکومت کے انتخاب میں لازم نہیں ہے کہ ہم کہیں یہ طریقہ حکومت اچھا اور صحیح ہے اور بقیہ حکومت کے سسٹم اور طریقے غلط اور باطل ہیں اسی طرح ایک حکومت یا کابینہ کے بنانے اور تشکیل دینے میں کئی الگ الگ پارٹیاں ہوتی ہیں یہ بھی ایک سیاسی پلورالزم کا نمونہ ہے۔وہ مختلف پارٹیاں جو کہ ایک ملک میں پائی جاتی ہیں اور الگ الگ نظریات اور فکریں رکھتی ہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کی مخالف ہوتی ہیں ان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف ایک پارٹی صحیح اور باقی دوسری غلط ہیں اور ان کو چھوڑ دیا جائے۔

۵۴

اصولی طور پر اگر آج دنیا میں تمام لوگ متفقہ طور پر صرف ایک پارٹی کے طرف دار ہوں تویہ لوگ اسکو عقب ماندگی کی نشانی اور اس پارٹی کی تنزّلی کا سبب سمجھتے ہیں یہ لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اور متمدن معاشرہ ضروری طور پر مختلف سیاسی نظریات رکھتے ہوں اورلوگ الگ الگ گروہ کے طرف دار ہوتے ہیں بنیادی طور پر مختلف نظریوں کا پارٹیوں میں ہونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ آپس میں رقابت پیدا ہو،و پارٹی حکومت میں نہیں ہے وہ حکومتی پارٹی کے کارناموں کو دیکھے اور اس پر نظر رکھے نیز ہر پارٹی ایک دوسرے کی کمیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھے اس طرح ہر پارٹی اپنے کاموں پر نظر رکھتی ہے اور کوشش کرتی ہے کوئی کمی اور غلطی نہ ہونے پائے اگر غلطیاں اور کمزوریاں ہیں تو اس کا ازالہ کیا جائے نیز اس بات کی ہر پارٹی کوشش کرتی ہے کہ سبھی کام کو اچھے طریقے سے انجام دیا جائے تاکہ لوگوں کے ووٹوں کو اپنی طرف کھینچ سکیں؛ انھیں سب وجہوں سے ذمہ دار اور سیاسی افراد اپنے ملکوں میں ترقی دیتے ہیں کہ نتیجہ میں جس کا فائدہ اس معاشرہ کے تمام عوام کو پہونچتا ہے۔ اس بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی پلورالزم اور چند پارٹیوں کا ہونا ایک پسندیدہ اور فائدہ مند بات ہے اور وہ سیاسی سسٹم اور طریقہ کارجو ایک ہی پارٹی میں محدود ہوسیاسی پلورالزم کے مقابلہ میں نامناسب اور بیکار ہے ۔

۵۵

اسی طرح اقتصادی میدان میں بھی یہ بات بہت حد تک واضح ہے کہ مختلف اور متعدد نظریے اور کئی اقتصادی طاقتوںاور ذرائع کا ہونا ہی اچھا اور قابل قبول ہے اور ایک محور کا اقتصاد بہت زیادہ نقصاندہ اور عیب کا باعث ہے اور یہ قابل دفاع بھی نہیں ہے ۔ جس میدان میں کئی اقتصادی محور موجود ہونگے وہاں آپس میں رقابت پیدا ہو گی اور رقابت کے نتیجہ میں اچھی چیزیںبہتر صورت میں بہت کم قیمت پر استعمال کرنے والوں تک پہونچیں جائیں گی اور اقتصادی مارکیٹ میں اچھی طرح وسعت اور ترقی بھی اسی رقابت کے ذریعہ ہوتی ہے جبکہ ایک محوری اقتصاد میں محدودیت پیدا ہو جاتی ہے اور رقابت نہ ہونے کی وجہ سے عام طور پر چیزوں کی کیفیت اور بناوٹ اچھی بھی نہیں ہوتی اور قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس میں ترقی اور وسعت چند محوری اقتصاد کی بہ نسبت بہت کم ہوتی ہے لہٰذا ان سب باتوں کی وجہ سے اقتصادی پلورالزم قابل قبول اور فائدہ مند ہے ۔

پلورالیسٹ اس طرح کی باتیں ذکر کر کے نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس طرح پلورالزم اور کثرت خواہی مختلف جگہوں جیسے سیاست، اقتصاد اور دوسری چیزوں میں اچھی چیز ہے اسی طرح دین اور کلچر میں بھی پلورالزم اور کثرت گرائی پائی جانی چاہئے؛ تاکہ اس طرح سے تمام اد یان کے معاشرہ اور سماج کے اندر پوری طرح سے فراہم ہو نا چاہئے اور اعتقادی نظریہ سے بھی اس بات کا یقین رکھیں کہ مختلف ادیان میں کوئی برتری نہیں پائی جاتی ہے اوران میں کسی ایک دین کو قبول کرنے کی حیثیت بقیہ تمام ادیان قبول کرنے کے برابر ہے لہٰذا دینوں میں حق و باطل کا قائل ہونا اور ان کو اچھے برے میں تقسیم کرنا یا ان کوا چھے اور برے عنوان سے یاد کرنا یہ سب پوری طرح بے بنیاد اور بے فائدہ ہے اور عیسائی، مسلمان ،شیعہ اورسنی،کیتھولیکاور پروٹیسٹ خلاصہ یہ کہ تمام ادیان نیز فرق و مذاہب حقیقت تک پہونچنے کے راستے اور منزل مقصود اور ساحل نجات تک پہونچانے والے صراط مستقیم ہیں ،اور ان میں سے کسی ایک پر تعصب کرنا بے عقلی اور غیر منطقی ہونے کی دلیل ہے عقلمند انسان جس طرح اقتصادی اور سیاسی پلورالزم کو قبول کرتا اسی طرح وہ اس کو دین کے بارے میں بھی قبول کرتا ہے اور دین میں کثرت کا ہونا پوری طرح سے فطری اعتبار سے قابل قبول اور معقول ہے۔

۵۶

بہر حال آج کل یہ فکر ہمارے سماج میں مختلف طریقوں سے ترویج کی جارہی ہے ،جیساکہ پہلے اشارہ کیا جاچکاہے واقعاً ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حقیقت میں جس طرح ہم لوگ اقتصاداورسیاست کے میدان میں کثرت کو قبول کرتے ہیں مثلاًاقتصاد کے میدان میں اہل اقتصاد صادرات کو وسیع یا واردات کو کم کرنے اور مکمل طرح سے رشد و وسعت میں کسی ایک ملک سے متعلق ایک خاص نظریہ نہیں رکھتے ہیں ان کے درمیان اختلاف کا ہونا فطری چیز ہے یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب ایک نظریہ پر پہونچیں ؛پھر اب کیا مشکل ہے کہ دین اور ثقافت کے بارے میں بھی اسی چیز(پلورالزم اورکثرت گرائی) کو قبول کریں ؟سچ مچ اس بات پر کیوں ضد اور اصرار ہے کہ میں لازمی طور پر اسلام ہی کو نہ کہ مسیحیت کو قبول کروں ؟ حقیقت میں کیا یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دین کا پابنداور خدا کے وجودکا اعتقاد رکھوں؟ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں یا خدا کیوجود میں شک و شبہ رکھتے ہیں ،یہ بھی ایک عقیدہ دوسرے عقیدوںکے درمیان ہے اوردوسرے عقیدوں جیسا ہی ہے میں کیوں نہ اس عقیدے کو قبول کروں ؟

اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پوری طرح سے بہت ہی اہم ہے اور ایک مضمون یا کتاب سے زیادہ مطالب کا حامل ہے یہ مسئلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ ہمآمادہ ہو کر منطقی اور استدلالی جواب کے ساتھ نوجوان نسلوں کے سوالات کے جواب دینے کے لئے حاضر ہوں اور اس شبہ کو حل کریں۔

۵۷

پلورالسٹ کے پہلے بیا ن پرتنقید

مذکورہ بیان جو کہ پلورالزم کہ تائید کرتا ہے سب سے پہلے اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ منطقی لحا ظ سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر ہم اقتصاد و سیاست میں کثرت گرائی کو قبول کرتے ہیں تو دین اورکلچر میں بھی اس کو قبول کریں ؛پلورالزم کے مذکورہ بیان میں جو کچھ کہا گیا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہچونکہ سیاست و اقتصاد اور دوسرے امور میں کثرت گرائی فائدہ مند ہے اور لوگ اس کو پسند کرتے ہیں ؛لہٰذا دین و ثقافت کے مطالب میں بھی کثرت گرائی مفید و مطلوب ہے

ہماری اصلی بحث اسی میں ہے یہ مطلب صرف ایک دعویٰ ہے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی ہے یہ مطلب ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی کہےچونکہ فٹ بال کے کھیل میں گیارہ کھلاڑیوں کا ہونا مفید و مطلوب ہے لہٰذا والی بال کے کھیل میں بھی گیارہ کھلاڑیوں کا ہونا مفید ومطلوب ہے

حقیقت میں جس طرح یہ دوسرا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے اور تعجب انگیز ہے اسی طرح پہلا دعویٰ بھی ہے۔ اس کے بارے میں تھوڑی وضاحت اس طرح سے ملاحظہ ہویہ صحیح ہے کہ اقتصادی، سیاسی اور اس جیسے دوسرے بعض ایسے مسائل ہیں کہ ان کا جواب ایک نہیں ہے ان کے جواب میں کثرت اور زیادتی ممکن ہے بلکہ کبھی کبھی صحیح اور پسندیدہ بھی ہے لیکن بعض دوسرے مسائل ایسے بھی ہیں جن کا جواب صرف اور صرف ایک ہی ہے، ان کا جواب ایک سے زیادہ قابل قبول اور قابل تصّور نہیں ہے جیسے ریاضی،فزکس اور ہندسہ وغیرہ ،مثلاً حساب میں ۲ضرب ۲ کا جواب فقط ۴ ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا جواب صحیح نہیں ہے یا ہندسہ میں ۳ زاوئیے جو کہ مثلث اعتبار سے برابر ہوں جو کہ دلیل سے ثابت ہوتے ہیں اس کا جواب صرف ۱۸۰ درجہ ہی ہوگا اس کے علاوہ دوسرا کوئی جواب نہیں ہے یا ایک مسافت کا حساب لگایا جائے جو کہ ایک متحرک معین زمانہ میں مشخص رفتار کے ساتھ طے کرتاہو تو اس کا جواب ایک ہی ہوگا کہ جس d=v.t فارمولے کے ذریعہ حساب کیا جائے گا ،کیا کوئی یہاں پر یہ کہہ سکتا ہے کہ اقتصادی اور سیاسی مسائل میں جس طرح مختلف نظرئیے پائے جاتے ہیں

۵۸

اور اس کا ایک جواب نہیں پایا جاتا اسی طرح دو ضرب دو کے بارے میں بھی ہے اور تمام علم ریاضی کے جاننے والے دوسروں سے علیحدہ جواب دے سکتے ہیں اور ان میں یہ بھی احتمال ہو کہ کوئی صحیح اور کوئی غلط ہو ؟ ہاں اس نکتہ کی جانب توجہ ضروری ہے کہ ممکن ہے ریاضی اور اس جیسے مسائل کے جواب دو یا اس سے زیادہ راہ حل رکھتے ہوں؛ مگرآخر میں سارے مختلف راہ حلایک جواب تک پہونچیں گےاور چند راہ حل کا ہونا کئی صحیح جواب کے ہونے سے الگ اور جدا چیزہے۔

لہذٰا ممکن ہے کہ انسانی وجودات اور معارف میں ہمارے سامنے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے جواب ایک سے زیادہ ہوں اور ایسے مسائل بھی ہوں؛ جن کے جواب فقط ایک ہوں اور ہمارا اصلی سوال ان لوگوں سے جو پلورالزم دینی کے قائل ہیں یہ ہے کہ آپ کو کہاں سے معلوم کہ دین ان مسائل سے ہے جن کے جواب ایک سے زیادہ نہیں ہے ؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ دین اقتصاد اور سیاست کی طرح ہے جس کے کئی جواب ہیں اور اس کے اندر کثرت فائدہ مند اور مطلوب ہے تو ہم بھی اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا نہیں ہے، دین کے مسائل فیزیکس اور ریاضی جیسے ہیں جن کے جواب ایک سے زیادہ صحیح نہیں ہیں ،ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہخدا ہے یا نہیں ؟کا سوال دو ضرب دو یعنی دو دو چارمسئلہ جیسا ہے کہ صرف اور صرف اس کے جواب میں ایک ہی بات صحیح ہے ۔

۵۹

پلورالسٹوںکی دوسری دلیل

یہاں پر جو لوگ دینی پلورالزم اورکژت گرائی کے قائل ہیں وہ اپنے مدّعا کو ثابت کرنے کے لئے دوسری دلیل کا سہارا لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسان سے متعلق جوامورہیں وہ دو طرح کے ہیں کچھ امور حقیقی اور واقعی ہیں جبکہ کچھ قرار دادی اور اعتباری ہیں ، واقعی اور حقیقی امور ایسے ہی ہیں جیسا آپ کہتے ہیں یعنی ان کے جواب صرف ایک ہی ہیں یہ ایسی چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربہ سے ثابت ہیں ؛ لیکن جو امور قرار دادی اور اعتباری ہیں جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے وہ امور انسان کے ذوق اور سلیقے اور قرار داد واعتبار کے علاوہ کوئی حقیقت اور واقعیت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے افراد اور معاشروں کے ذوق اور سلیقہ اور قرار دادو اعتبار کے اختلاف کے سبب بدلتے رہتے ہیں ؛ اس کے بر خلاف واقعی امور ہیں مثلاً ایک خاص کمرے کی مساحت انسان کے معاملہ اور ذوق وسلیقے سے معین نہیں ہو تی؛بلکہ حقیقی طور پر اس کمرہ کی پیمائش اتنی ہی ہوگی جتنے میں موزائیک پتھر لگے ہوئے ہیں ۔

امور اعتباری میں اصلاًاس طرح کے جملوں کو جیسے بہتر ہے یا بدتر ہے اچھا یا برا ہے صحیح یا غلط ہے یا اس سے ملتے جلتے جملوں کو استعمال نہیں کیا جاتا ؛ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان جیسے جملوں کو استعمال کریں تو ہم کو کہنا ہوگا کہ سب ہی صحیح، اچھے اور بہتر ہیں خراب ،غلط اور برے کایہاں وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ایک شخص صورتی رنگ کو پسند کرتا ہے اور دوسرا ہرے رنگ کو تو اب کوئی بھی آدمی ایک دوسرے کو غلط نہیں کہہ سکتا ہے اور برے ،غلط یا باطل جیسے الفاظ کو استعمال نہیں کر سکتا ہے؛ بلکہ کہنا چاہئے کہ صورتی رنگ بھی اچھا ہے اور سبز رنگ بھی بہتر ہے خلاصہ یہ کہ جو اموراور مسائل اعتباری ہیں ان کا جواب ایک نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ان کے جواب ایک سے زیادہ ہوں ۔

۶۰