دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)16%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 84446 / ڈاؤنلوڈ: 4713
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

پلورالسٹ والے دعوی ٰ کرتے ہیں کہ دین ثقافت اور افکار واقداراعتباری امور میں سے ہیں اور ذوق وسلیقہ اور قرار داد واعتبار کے تابع ہیں ؛ جس طرح اس سوال کے جواب میں کہ( کون سا رنگ اچھا ہے؟ ) ایک جواب نہیں ہے اور خاص طور سے ایسے سوال بے معنی اور نا مناسب ہیں لہذٰا اس سوال کے جواب میں کہکون سا دین اور کلچر اور مکتب فکربہتر اور صحیح ہے؟) ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی جواب کو اختیار کیا جائے ؛ایک لحاظ سے ایسا سوال ہی کرنا بے کار ہے اگر کوئی شخص اسلام کو پسند کرتا ہے اس کے لئے وہ اچھا ہے اگر کوئی مسیحیت کو پسند کرتا ہے تو اس کے لئے وہ بہتر ہے اگر کوئی یہ کہے کہ خدا ایک ہے تو ٹھیک ہے اگر کسی نے یہ کہا کہ خدا تین ہیں تو یہ بھی صحیح ہے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر کسی نے کہا خدا ہے اور کسی نے کہا کہ خدا نہیں ہے تو دونوں کی بات صحیح ہے اور دونوں حق پر ہیں ،میں چاہتا ہوںکہ بیت المقدس یعنی قبلہ اوّل کی طرف رخ کر کے نماز پڑھوں اور آپ چاہتے ہیں کہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں تو اس میں کوئی بھی مشکل نہیں ہے ،دونوں صحیح ہے ؛جس طرح آپ اس کھانے کو پسند کرتے ہیں ،اور میں اس کھانے کو پسند کرتا ہوں ؛ایسا ہی دین کا بھی معاملہ ہے میں اسلام کو پسند کرتا ہوں ،آپ بودھ کو پسند کرتے ہیں اورہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر ترجیح نہیں رکھتا دونوں میں کوئی بھی دشمنی اور جنگ نہیں ہے بلکہ دونوں ہی بہتر اور اچھے ہیں ۔ مثلاً کامیابی اور جیت کے موقع پر مغربی کلچر میں انگلیوں کو ایک خاص شکل میں گھمایا جاتا ہے یعنی] v [ بنایا جاتا ہے جب کہ اس حرکت کو ایرانی کلچر مین ایک بے عزتی اور گالی شمار کیا جاتا ہے لیکن اس حرکت پر ہم مغربی ممالک کے لوگون کو غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ایک قرار دادی اور اعتباری چیز ہے بالکل ایسے ہی دینی امور بھی ہیں ۔

۶۱

جس مسئلہ کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے اور پلورالیسٹدینی پلورالزم کی تائید کے لئے اسی طرف اشار ہ کرتے ہیں اصطلاح میں اس کو''افکار واقدار میں نسبیتکے نام سے یاد کیا جاتا ہے افکارو اقدار میں نسبیت کی بحث اس کا خلاصہ اور نتیجہ یہی ہے کہ اچھا اور برا ہونا نیز فائدہ مند مسائل اور اس کے علاوہ اخلاقی اقدارکی باتیں سلیقے اور قرار داد واعتبار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں مختلف لوگوں کی نسبت ممکن ہے تفاوت واختلاف ہو، جس طرح کھانے اور رنگ کے متعلق الگ الگ پسندہوتی ہے اورمختلف افراد کی نسبت پسندوںمیں فرق ہوتا ہے اچھائی اور برائی اور اس کے علاوہ افکار واقداربھی اسی طرح سے ہیں ؛جس طرح کھانے اور رنگ کے بارے میں کسی ایک کو مطلق طور پر اچھا نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ ممکن ہے ایک رنگ یا غذا ایک آدمی کے نزدیک پسندیدہ ہے اور وہی چیزدوسرے کے نزدیک بری اور ناپسند ہے اسی طرح افکار و اقدار اور اخلاقی مسائل کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی ہر انسان اور سماج کی نسبت مختلف ہوتی ہے اوربدلتی رہتی ہے ۔

۶۲

یہاں تک اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ صاحبان پلورالسٹوں نے پہلے تویہ کہا :

(۱) چونکہ اقتصاد اور سیاست میں پلورالزم اور کثرت گرائی صحیح اور فائدہ مندچیز ہے لہذا دینی امور میں بھی ہم اس بات کو قبول کریں کہ کثرت گرائی ایک اچھی اور مفید چیز ہے ،

اس بات کا جواب ہم نے یہ دیا کہ دینی مسائل بھی فیزیک اور حساب جیسے ہیں جو کہ ایک جواب رکھتے ہیں اس میں تکثر اورکثرت گرائی صحیح نہیں ہے۔

(۲)اس کے بعد پلورالسٹوں نے کہا کہ افکار واقدار میں نسبیت پائی جاتی ہے اور انھوں نے بعض اخلاقی و اجتماعی آداب و رسوم کو پیش کیا اور ثابت کرنا چاہا کہ عام فکری مسائل میں بھی نسبیت پائی جاتی ہے تاکہ بعد میں نتیجہ پیش کر سکیں کہ دین کے اموربھی نسبی ہیں ۔

پلورالزم کو ثابت کرنے کی تیسری کوشش

پلورالسٹ اس ذیل میں پچھلی باتوں سے بھی آگے بڑھ کر اس بات کا دعویٰ کر بیٹھے کہ حقیقت اور اصل میں تمام معارف اور مسائل چاہے وہ جس شعبہ کے ہوں ہر جگہ نسبیت پائی جاتی ہے اوراصولی طور پر کوئی شناخت اور معرفت بغیر نسبیت کے نہیں ہو سکتی ہیں بس فرق اتنا ہے کہ بعض جگہوں پر یہ نسبیت بالکل واضح اور روشن ہے اور سب لوگ اس کو جانتے ہیں لہذٰا آسانی سے قبول کر لیتے ہیں اور بعض جگہوں پر یہ نسبیت پوری طرح سے واضح نہیں رہتی ہے اور عام لوگوں کا نظریہ ایسی جگہوں پر یہ ہوتاہے کہ مطلق اورثابت معرفت کو حاصل کر لیا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے یہ وہی چیزیں ہیں جن کی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ معرفت و شناخت میں نسبیت کا قول اصل میں وہی شک پرستی ہے جو کہ آخری دس سالوں سے پہلے اور حضرت عیسیٰ سے پہلے اور ان کے بعدبھی دو تین بار فلسفیوں اور دانشوروں کے

۶۳

یہاں پائی گئی تھی ،لیکن یہ نظریہ اس وسعت سے نہیں پھیلا تھا اور اتناموثرنہیں ہواتھا لیکن ادھر آخری دس سالوں میں بہت زیادہ پھیل گیا ہے اس نے آج دنیاکی اکثر فکری اور ثقافتی مراکز کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے ،ایک عالم کو آج فخر اس بات پر ہے کہ وہ کہے میں اس بات کو نہیں جانتا اور اس چیز میں شک رکھتا ہوں ؛اگر کوئی شخص علم و یقین کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے دعوے کو نادانی کی علامت سمجھا جا تا ہے ۔

بہر حال اگر تمام معارف و شناخت نے نسبیت کے رنگ کو اختیار کر لیا تودین اور دینی معرفت بھی محفوظ نہیں رہ پائے گی اور وہ بھی نسبی اور تغیر پذیر بن جائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا اور ہم کہہ سکتے ہیں مثلاً سماج ]الف [کے نزدیک اور ان کے نظریہ کے مطابق مسیحی دین صحیح اور بہتر ہے اور وہ حق پر ہے، سماج ] ب[ کے نزدیک اسلام دین اچھا اور حق پر ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایک ہی سماج کے نزدیک ایک وقت میں ایک دین بہتر اور حق پر ہو اور دوسرے زمانے میں دوسرا دین بہتر اور حق پر ہو اور معلوم نہیں کہ حقیقت اور سچاّئی کیا ہے؟ اصلاًحقیقت بھی ایک نسبی مسئلہ ہے اس سماج اور اس زمان کی نسبت حقیقت ایک چیز ہے اور دوسرے زمانے اورسماج کی نسبت دوسری چیز ہے ۔

۶۴

مسلمان پلورالسٹ ( بہتر ہے کہ ہم ان کو وہ پلورالیسٹ کہیں جو کہ ظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں )دینی پلورالزم کی تائید میں کبھی کبھی قرآنی آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہیں اور کبھی مولوی،حافظ اور عطاّر وغیرہ کے اشعار پیش کرتے ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ،بت خانہ، مسجد،کلیسا یہ سب ظاہری طور پر اگر چہ الگ الگ ہیں لیکن سب کے سب ایک ہی خدا کی تلاش اور خدا پرستی کی ایک ہی حقیقت تک پہونچاتے ہیں جیسے یہ شعر بہت ہی شور و غل کے ساتھ پیش کیا جا تا ہے ۔

مقصود من از کعبہ و بت خانہ تویی تو

مقصود تویی کعبہ و بت خانہ بہانہ

اے خدامیری مراد کعبہ اور بت خانہ سے تو ہی ہے مقصود اور مراد تو ہی ہے کعبہ و بت خانہ تو ایک بہانہ ہے۔

اس طرح سے پلورالزم کی بحث اجتماعی مسائل میں کثرت پرستی سے شروع ہوتی ہے ا ور پھر آگے چل کرافکار واقدار میں نسبیت کی بحث پیش کی جاتی ہے اور آخر میں یہ بحث انسان کے تمام معارف میں نسبیت تک پہونچ جاتی ہے ۔یہ بات بہت ہی واضح ہے کہ اگر پلورالزم کے نظریہ اور فکر کو قبول کر لیا جائے تو اسلام ، انقلاب ، امام خمینی اور اسلامی افکار واقدار کاپابند رہنا لازم و ضروری نہیں رہ جاتا ہے ؛اور ہر طرح کے اعتقاد ،اعمال اور رفتار نیز تمام اخلاقی برائیوں کی توجیہ آسانی سے کی جا سکتی ہے اور ان تمام چیزوں کو قبول کر سکتے ہیں اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے ان تمام مطالب اور باتوں کی تحقیق وتنقید کریں گے اور مسئلہ کی حقیقت کو روشن کریں گے۔

۶۵

دینی پلورالزم-۲

پلورالزم کی بحث کو جاری رکھتے ہوئے مناسب ہے کہ اس جلسہ میں سب سے پہلے ان عقلی اسباب و علل کا ذکر کیا جائے جو کہ دینی پلورالزم کے پیدا ہونے میں دخالت رکھتے ہیں 'اس بات سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہ ممکن ہے اس فکر کے ہونے میں سیاسی اسباب و علل بھی ہوں ،،کون سا (ان کی نظر میں )منطقی یا عقلی سبب ہے جو اس بات کا موجب اور سبب بنا کہ یہ مسئلہ پیدا ہو ؟ سیاسی اسباب کے علا وہ ممکن ہے یہاں پر کم سے کم دو سبب اس مسئلہ کے پیدا ہونے میں دخالت رکھتے ہوں۔

پلورالزم کی پیدائش میں نفسیاتی عوامل کا دخل

پہلا سبب ایک نفسیاتی سبب ہے جس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے: اس وقت دنیا میں تقریباًچھ ارب لوگ زندگی گذارتے ہیں ؛جوکہ مختلف دین و فرقہ کے پیرو اور تابع ہیں اور ان کااعتقاد بھی کسی ایک دین اور فرقے پر دوسرے ادیان کے ساتھ بغض و دشمنی اورعنادکی وجہ یا انکار حق کی وجہ سے نہیں ہے ، بہت سے لوگ کسی خاص فرقے اور مذہب پر صرف اس لئے ہیں کہ وہ جغرافیائی اعتبار سے کسی خاص ملک کے حصّہ میں پیدا ہوئے ہیں ،یا یہ کہ ان کے ماں اور باپ کسی خاص مذہب یا دین کے پیرو ہیں اوران لوگوں نے بھی اس مذہب کو اسی لئے قبول کر لیا ہے اور بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ واقعی طور پراپنے دین کے احکام اور دستورات کو قبول کرتے ہیں اور اس کی پابندی کرتے ہیں ؛اور اس پر عمل کرنے کو لازمی جانتے ہیں ایسی حالت میں اگر ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اسلام کے علاوہ دوسرے تمام دین ناحق اور باطل ہیں اور ان کے ماننے والے جہنمی ہیں ، نیز اسلام میں بھی شیعہ اثنا عشری فرقے کے علاوہ جتنے فرقے ہیں سب کے سب باطل ہیں اوران کے معتقد اہل جہنم ہیں ،تو ہمیں کہنا چاہئے کہ بیس کروڑ افراد جو کہ شیعوں کی ایک تخمینی تعداد ہے اس کے علاوہ (وہ بھی ایمان اور عمل صالح کی شرط کے ساتھ ) سب کے سب پانچ ارب اسیّ کروڑ افرادگمراہی اور ضلالت میں ہیں اور وہ جہنمی ہیں

۶۶

اور ان سبھی پر عذاب ہوگا ۔کیا سچ مچ اس چیز کو قبول کیا جا سکتا ہے؟ کیا صرف اس لئے کہ وہ لوگ ایک مسیحی ملک میں پیدا ہوئے ہیں یا یہ کہ ان کے ماں باپ عیسائی تھے، انھوں نے عیسائی دین کو قبول کر لیا اور اسی عیسائیت بہت ہی مومن اور معتقد بھی ہیں ان لوگوں نے کون سی غلطی یا گناہ کیا ہے کہ مستحق عذاب ہوں اور جہنم میں جائیں؟ اس مسئلہ کو بھی دیکھنا ہوگا شیعوںکے درمیان بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کہ گناہان کبیرہ کو انجام دیتے ہیں اور فسق و فجور میں مبتلا ہیں اگر چہ ان کا عقیدہ صحیح ہے لیکن برے کام اور غلط عمل کی وجہ سے ان پر عذاب ہوگا اور وہ جہنم میں جائیںگے؛ اگر حقیقت میں ایسا ہوا تو تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ سب کے سب جہنم ہی میں جائیں گے پھر وہ مشہور مثالعلی باقی رہیں گے اور ان کا حوض ،، تو پھر قیامت کے دن کون باقی رہے گا ؟جس کو ساقی کوثر جام پلائیں گے؟

اس طرح یہ نفسیاتی مسئلہ جو انسان کی روح اور ذہن کو جھنجھوڑتا ہے اور بہت اذیت دیتاہے اور وہ اس کو قبول کرنے میں پریشانی محسوس کرتا ہے جس کے سبب وہ سوچتا ہے تمام مذہب والے کیوں نہ حق پر ہوں ؟اور کیوں نہ ان کو بھی نجات حاصل ہو ؟ہم کو یہ بات ماننا چاہئے کہ بارہ امام کو ماننے والے شیعہ بھی حق پر ہیں اور دوسرے مذاہب والے بھی صحیح عقیدے اور حق پر ہیں بلکہ ممکن ہے کہ دوسرے مذاہب والے ہم سے زیادہ نجیب،پاک وپاکیزہ اوراپنے دین پر عمل کرنے والے ہوں اور دینی عقائد میں ان کا عقیدہ ہم سے زیادہ راسخ ہو بہر حال کثرت ادیان کو قبول کرنے اور ان کو حق پر جاننے سے انسان اپنے اندر جو روحی اذیت اورنفسیاتی ا ضطراب محسوس کرتا ہے اس سے نجات پا سکتا ہے۔

۶۷

پلورالزم کی پیدائش میں اجتماعی عوامل کا دخل

دوسرا خاص سبب جولوگوں کے ذہن میں دینی پلورالزم کی فکر کے پیدا ہونے اور اس کی تقویت کا سبب ہے حقیقت میں وہ ایک اجتماعی اور کلی سبب ہے اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے :

ہم پوری تاریخ میں بہت سی جنگوں کو جو کہ گھروں کی بربادی اور اور ان کے جلنے کا سبب بنتی ہیں اکثردیکھا کرتے ہیں جن کا اصل سبب مذہب اور دین ہے اور انسان فقط دین اور فرقے کے اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتا اور جھگڑتا ہے اور قتل وغارت گری کرتا ہے اس کا واضح اور آشکار نمونہ صلیبی جنگ ہے؛ اس کے دوران ہزاروں مسلمان اور عیسائی مارے گئے اور کتنی بربادی ہوئی کس قدر ثروت اور جائیداد تباہ و برباد ہوئی اور بہت سی قوت و طاقت اس جنگ کی وجہ سے ضائع ہوگئی بہت سے امکانات جو کہ انسان کی آبادی اور رفاہ کے لئے استعمال ہو سکتے تھے وہ نیست و نابود ہو گئے ،آج بھی ایک ترقی پذیر ملک اور دنیاوی تعبیر میں ہم لوگ جس کو تمدن یافتہ ملک سمجھتے ہیں انگلستان ہے لیکن وہاں پر بھی عیسائیوں کے دو فرقے کاتھولیک اور پروٹسٹوں کے درمیان خونریزجھڑپ ہوا کرتی ہے، یا ہندوستان اور پاکستان اور افریقا کے بعض ممالک ہی میں دیکھ لیجئے اکیسویں صدی کے آغاز میں آج بھی فرقوں اور مذہبوں میں اکثر جنگیں اور قتل و غارت گری ہوتی رہتی ہے اور یہ سب مذہب و فرقہ کی وجہ سے ہے۔ اگر ہم اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیں تو بہت ہی آسانی کے ساتھ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے وہ اس طرح کہ ہم اس بات کا اعتقاد رکھیں کہ اسلام بھی اچھا دین ہے اور مسیحی مذہب بھی اچھا ہے پروٹسٹ اور کاتھولیک دونوں فرقے حق پر ہیں ، شیعہ اور سنّی دونوں فرقے صحیح راستے پر ہیں ؛اس طرح سے لڑائی اور جھگڑے کرنے والے انسانی سماج سے خود بہ خود ختم ہو جائیں گے ۔سچ مچ کیا یہ مناسب نہیں ہے آج کا انسان جو کہ تمدن یافتہ ہے وہ دشمنی اور جنگ و جدال نیز قہر و غضب کو بر طرف کر دے اور اس کے بجائے صلح وصفائی ' بھائی چارہ ' میل و محبت کے ساتھ'' ڈگما تزم' اور یقین پرستی کو دور کر کے تمام مذاہب اور ادیان کا احترام کرے اور دوسرے کے اعتقاد اور نظریہ کو اپنے عقیدہ اور نظریہ کی طرح حق پر جانے ؟دشمنی اور جنگ جاہل اور غیر متمدن افراد کا کام ہے آج کا انسان متمدن اور سمجھدار ہے ۔

۶۸

لہذانتیجہ اور خلاصہ یہ ہوا کہ سیاسی اسباب کے علاوہ کم سے کم دو سبب عقلی طور پر پلورالزم کے پیدا ہونے میں دخالت رکھتے ہیں ۔

ایک نفسیاتی تصوّرکہ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام انسان جہنم میں نہیں جا سکتے اور دوسرا یہ کہ جنگ اور خونریزی سے بچنے کے لئے ہم پلورالزم کو قبول کریں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنگ و خونریزی سے بچنے کے لئے صرف یہی ایک راہ حل ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مذہبی جنگ اور فرقوں کے اختلاف سے بچیں تو اس بات کے قائل ہوں کہ تمام دین صحیح اور حق پر ہیں ؟اور اگر بے شمار انسانوں کو ( جنکا گناہ کچھ بھی نہیں صرف بعض اجتماعی مسائل اور ان جیسے اختلاف کے سبب انھو ں نے راہ حق کو جو کہ ہماری نظر میں اسلام ہے نہیں پہچاناہے )جہنم میں جانے سے بچائیںتو کیا اس کا واحد راہ حل صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ ہندئوں کا بت پرست ہونا ،مسیحیوں کا تثلیث یعنی تین خدا کا قائل ہونا مسلمانوں کا توحید و یکتا پرست ہونا ؛یہ سب کا سب صحیح عقیدہ ہے ؟ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؟

۶۹

پلورالزم کے تصو ر میں نفسیاتی عوامل کا تجزیہ

نفسیاتی سبب کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ نظریہ رکھنا کہ شیعہ اثنا عشری مذہب کے علاوہ دوسرے مذہب کے ماننے والے تمام افراد جہنمی ہیں ، ایسا نظریہ صحیح نہیں ہے اسلام ایسی کوئی بات نہیں کہتا ہے۔ ہمارا یہ کہنا صحیح ہے کہ حق مذہب صرف ایک ہی ہے لیکن جہنمی ہونااورعذاب کا مستحق ہونا صرف ان لوگوں سے وابستہ ہے جو اہل عناد ہیں یعنی باوجودیکہ حق ان پر روشن ہوچکا ہے لیکن باطل اغراض کی وجہ سے یا دشمنی کے سبب وہ حق کو قبول نہیں کرتے ہیں ، اور اگر کوئی کسی وجہ سے حق کو پہچان نہیں سکا ہے وہ ایسا نہیں ہے یعنی وہ جہنمی اور عذاب کا مستحق نہیں ہے ،اس مسئلہ کی بنیاد مستضعف فکری اور جاہل قاصر اورجاہل مقصّر سے متعلق ہے جو کہ ایک فقہی اور کلامی بحث ہے، اسکی مختصر توضیح اور وضاحت اس طرح سے ہے:

مستضعف کا لفظ کبھی ان لوگوں پر بولا جاتا ہے جو کہ اجتماعی اعتبارسے ظالم و جابرحاکموںکے زیر سایہ زندگی بسر کر تے ہیں اور اپنے حق و حقوق سے محروم ہیں ؛لیکن مستضعف کیایک دوسری اصطلاح علم کلام سے مربوط ہے کہ مستضعف اس شخص کو کہتے ہیں جو معرفت و شناخت کی کمزوری کے باعث صحیح اور حق راستہ تک پہونچنے سے محروم ہے؛ معرفت اور شناخت کی کمزوری کے بھی کئی عوامل اور اسباب ہو سکتے ہیں مثلاً اسلام کے بارے میں اسے بتایا نہ گیا ہو یا اس نے اسلام کے بارے میں کچھ سنا ہی نہ ہو، یا اسلام کے بارے میں اسے بتایا گیا ہو لیکن معرفت کی قوتیں کمزور ہونے کے سبب وہ ادلہ کو سمجھنے سے عاجز رہا ہو، یا یہ کہ دلیلوں کو سمجھتا ہو لیکن ایسے ماحول میں زندگی بسر کر رہا ہے کہ ان دلیلوں کے مقابل اس کے شبہات اور اشکالات وارد کرتے ہوں ؛جن کا اس کے پاس جواب نہیں ہے، یا اس کے حل کے لئے کسی کے پاس رجوع بھی نہیں کر سکتا ہے، یا اس کے علاوہ اور د وسرے عوامل و اسباب بھی ہو سکتے ہیں ۔

۷۰

اسی طرح جہل کبھی جہل تقصیری ہوتا ہے اور کبھی جہل قصوری ہوتا ہے اور فطری اعتبار سے جاہل بھی دو قسم کے ہوتے ہیں جاہل مقصّر اور جاہل قاصر؛ جاہل مقصّراس کو کہتے ہیں کہ جس کے پاس تمام امکانات ہوں، منجملہ ان کے رشد فکری 'قدرت علمی' اجتماعی آزادی' اور اطلاعات تک دسترسی وغیرہ ،ان سب کے فراہم ہونے کے باوجود اس شخص نے کوتاہی اور سستی کی اور حق کی شناخت کے لئے تحقیق و مطالعہ نہیں کیا جس کے نتیجہ میں حق کو اس نے نہیں پہچانا ،جب کہ جاہل قاصر وہ ہے جس کے سامنے حق تک پہونچنے کے سارے راستے بند ہوں اور حقیقت کی تشخیص اس کے لئے ممکن نہ ہواس طرح حقیقت میں ہمارے سامنے تین قسم کے افراد ہیں :

(۱) وہ لوگ جو حق کو پہچانتے ہیں لیکن دشمنی اور تعصب یا اور دوسرے اسباب کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کرتے ۔

(۲) وہ لوگ ہیں جن کے پاس تمام امکانات حق کو پہچاننے کے لئے موجود ہیں ؛ لیکن وہ لوگ حق کو نہیں پہچانتے ہیں ۔

(۳) وہ لوگ ہیں جو حق کو نہیں پہچانتے ہیں اور اس تک پہونچنے اور اس کو پہچاننے کے لئے ان کے پاس کوئی ذریعہ اور وسیلہ بھی نہیں ہے ۔

اسلامی احکام اور معارف کے اعتبار سے جو چیز مسلّم ہے وہ یہ کہ پہلا گروہ عذاب کا مستحق ہے اور وہی ہمیشہ جہنم میں رہے گا ،جاہل مقصرنے جتنی تقصیراورغلطی کی ہے اتنا ہی اس پر عذاب ہوگا ؛ممکن ہے کہ اس پر ہمیشہ عذاب نہ ہو اور وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے اس کے بر خلاف جاہل قاصرکہ فکری مستضعف بھی جاہل قاصر شمار ہوتا ہے اس کے ساتھ قیامت کے دن وہ خاص برتا ئو ہوگا جوبعض احادیث میں واردہواہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو سیدھے اور بغیر کسی مقدمہ کے جہنم میں ڈال دیا جائے۔ اس بنا پر یہ عقیدہ کہدنیا میں فقط ایک ہی دین حق ہےاس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہدنیا کی اکثریت جہنّمی ہے

۷۱

پلورالزم کے تصوّر میں اجتماعی عوامل کا تجزیہ

دوسرا سبب جو ذکر ہوا تھا وہ یہ کہ دنیا میں جو لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں ان کا سبب دین اور فرقے کا اختلاف ہے اس ذیل میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ مختلف ادیان و مذاہب اور فرقوں کے ماننے والوں کو مذہبی اور عقیدتی اختلاف کی وجہ سے لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہئے ؛بلکہ مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہئے ۔لیکن اس کا راہ حل صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ تمام دین حق پر ہیں بلکہ اور دوسرے راستے بھی پائے جاتے ہیں جن کودین اسلام نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پیش کیا ہے ؛اسلام نے خود سب سے پہلے مسلمانوں اور دوسرے ادیان کے ماننے والوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنے عقیدوں سے متعلق ایک دوسرے سے علمی اور منطقی گفتگو کریں ؛ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے( و جادلهم با لتی هی احسن'' ) ( ۱ ) یعنی ان لوگوں سے اچھی روش اور بہتر طریقے سے بحث و جدال کرو ۔

دوسرے یہ کہ غیر مسلموں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہئے اور ان سے کیسے

____________________

(۱)سورہ نحل: ۱۲۵ ۔

۷۲

ملنا چاہئے اس کے لئے بھی اس نے مسلمانوں کو چند گروہ میں تقسیم کیا ہے:

(الف)آسمانی اورتوحیدی ادیان کے ماننے والے

بعض ادیان کے ماننے والوں کی بہ نسبت جیسے مسیحی 'یہودی' زر تشت وغیرہ اگر چہ ان دینوں میں تحریف کر دی گئی ہے ؛لیکن انکی اصل و بنیاد صحیح ہے اسلام نے ان کے مقابلہ میں ایک خاص طریقہ اختیار کیا ہے اور ان لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ؛اور انکے جان ومال اور ناموس محترم ہیں ان لوگوں کو اجازت ہے کہ یہ لوگ اسلامی معاشرہ میں اپنے کلیسا اور عبادت خانہ بنا کر عبادت کریں نکاح طلاق اور دوسرے معاملات کو اپنی شریعت اور دین کے مطابق انجام دیںاور مالیات جو اسلام نے مسلمانوں کے لئے خمس و زکات کی صورت میں رکھا ہے ؛ان کے لئے ان کے عوض میں خاص مالیات رکھا ہے جس کو جزیہ اور مالیات کہتے ہیں ؛اس کے مقابلہ میں اسلام نے ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا حکم دیا ہے اور تمام ضروری اجتماعی خدمات کو ان کے لئے قرار دیا ہے اور یہ لوگ بہت سے حقوق میں مسلمانوں کے برابر ہیں اور مسلمانوں سے کوئی فرق نہیں رکھتے ہیں ؛ہم نے یہ واقعہ سنا ہے کہ اسلام کے بے مثل و بے نظیر رہبر اسلامی عدالت کو پھیلانے والے حضرت علی نے جب یہ سنا کہ ایک غیر مسلم پر ظلم و ستم ہوا ہے تو آپ نے اس کی مذمت کی جس وقت معاویہ کی فوج کے ایک سپاہی نے ایک غیر مسلم عورت کے پیروں سے پا زیب چھین لیا توآپ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :''اگر کوئی مسلمان شخص اس قضیہ پر افسوس کرتے ہوئے مر جائے تو مناسب ہے اور اس پر کوئی ملامت نہیں ہے

۷۳

(ب)کفاّرمعاہد

غیر مسلموںکافروں کی ایک دوسری جماعت ہے جو دین توحیدی کے قائل نہیں ہیں لیکن وہ اسلامی حکومت سے معاہدہ اور معاملہ رکھتے ہیں ؛اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کے پڑو س حتیّٰ اسلامی معاشرہ کے اندر اور مسلمانوں کے درمیان بھی رہ سکتے ہیں ، عرف عام میں ایسے لوگوں کو کفاّر معاہد کہا جاتا ہے اگر چہ ان کے رہنے کے شرائط اور حقوق ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ جیسا معاملہ حکومت اسلامی کے ساتھ ہوتاہے اس کے اعتبار سے فرق رکھتے ہیں ؛لیکن بہر حال اسلام نے غیر مسلموں کے اس گروہ کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے اور اسلامی حکومت میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہے ۔

۷۴

(ج)کفاّراہل حرب

غیر مسلموں کا تیسرا گروہ ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کہ مشہور قول کی بنا پر کسی طرح بھی سیدھے راستے پر نہیں ہیں اور کسی بھی صلح و معاہدہ کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں ؛ یااگر کوئی معاہدہ وغیرہ کرتے ہیں تو اس کو توڑ دیتے ہیں ارشاد خدا وند عالم ہو رہا ہے:

''( لا یرقبون فیکم الاّ ولا ذمة'' ) ( ۱ ) یعنی آپ کے بارے میں نہ تو اپنائیت کو اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی معاہدہ کی رعایت کرتے ہیں

اسلام اس گروہ کے بارے میں کہتا ہیک کہ اگر یہ کسی بھی طرح بات چیت اور مناظرہ کے لئے حاضر نہیں ہیں اور کسی بھی معاہدہ اور اتفاق پر راضی نہیں ہیں تو ان سے جنگ کرو اور ان کو زبر دستی مجبور کرو کہ وہ تمھارے تابع ہو جائیں؛ لیکن اس مقام پر بھی اسلام یہ نہیں کہتا کہ ان کو مار ڈالو اور ان کی نسل کو ختم کر ڈالو بلکہ جنگ اس وقت تک ہو کہ یہ لوگ قبول کر لیں یا سیدھے راستے پر آجائیں اور فتنہ پھیلانے سے باز آجائیں۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام غیر مسلموں سے رابطہ کے متعلق پہلے تو ان کو بحث و مناظرہ کی دعوت دیتا ہے تا کہ اس منطقی اور استدلالی طریقے سے حقیقت کو سمجھ لیں اور معلوم ہو جائے کہ حق کس کے ساتھ ہے، اور دوسرے مرحلہ میں بھی اگر وہ لوگ حق کو قبول نہیں کرنا چاہتے تو بھی فردی یااجتماعی صورت میں ان سے جنگ و جدال نہیں کرتا بلکہ صلح و صفائی کے ساتھ رہنے کی دعوت دیتا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ توبہ :آیہ ۸۔

۷۵

غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ

یہاں پر مناسب ہے کہ اس واقعہ کی جانب اشارہ کرتا چلوں جس میں پیامبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ علمی مناظرہ کیا اور وہ لوگ مغلوب ہو گئے لیکن پھر بھی مسلمان ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے تو رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ ان کو مباہلہ کی دعوت دیںاور یہ طے ہوا کہ دوسرے دن وہ لوگ کسی معین اور مخصوص جگہ پر حاضر ہوں اور ایک دوسرے سے مباہلہ کریں تاکہ جو شخص باطل پر ہے اس پر خداکی لعنت ہو اور اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ نجران کے عیسائیوں نے پہلے تو مباہلہ کو قبول کیا لیکن جب دوسرے دن مباہلہ کرنے آئے تو دیکھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ اپنے سب سے زیادہ محبوب اور عزیز افراد یعنی بیٹی فاطمہ زہرا ،بھائی علی مرتضیٰ اور نواسے حسنین کو لے کر آئے ہیں تو وہ لوگ مباہلہ کرنے سے پیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوئے اور اس بات پر معاہدہ ہوا کہ اسلامی حکومت کو جزیہ دیں گے۔

بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی جنگ سے بچنے کے لئے فقط یہی راستہ نہیں ہے کہ ہم سارے ادیان اور مذاہب کو حق جان لیں اور اس بات کو قبول کر لیں کہ ان تمام مذاہب میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ اوربھی کئی راستے ہیں اور اسلام نے خود ایک منطقی حل اور ایک بہت ہی اچھا راستہ اس کے لئے پیش کیا ہے ۔

۷۶

اصل بحث کی طرف باز گشت

اب ہم اصل بحث کی طرف پلٹتے ہیں اور پلورالزم کی دلیلوں کی تحلیل وتنقید کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے شروع میں بھی اس جانب اشارہ کیا ،یہ بات ذہن نشین رہے کہ پلورالزم مختلف چیزوں میں قابل ذکر ہے لیکن فی الحال ہم یہاں پر صرف دینی پلورالزمم سے متعلق بحث و گفتگو کریں گے اور دوسری چیزیں جیسے سیاسی و اقتصادی پلورالزم وغیرہ سے بحث نہیں کریں گے اور کیا صحیح یا غلطہونا اور ان کی کمیت اور کیفیت ہماری گفتگو سے خارج ہے ۔اگر چہ اس زمانے میں دینی پلورالزم کی فکر پیش کرنے والا اور اس کا پرچم اٹھانے والاجان ہیکہیں اور اس کی چند کتابیں اس کے متعلق پائی جاتی ہیں ؛ لیکن دینی پلورالزم کی تفسیر کیا ہے اور اس سے کیا مراد ہے ؟ کوئی ایک خاص معنی مراد نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس کی مختلف طرح سے وضاحت کی گئی ہے ؛کم سے کم تین طرح سے اس کے معنی کو ذکر کیا جا سکتا ہے ۔

دینی پلورالزم کی پہلی تفسیر

پہلا بیان اس طرح ہے کہتمام ادیان میں حق اور باطل پایا جاتا ہے ان کے درمیان فقط حق یا فقط باطل کا ہونا ناممکن ہے۔اس بیان کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ اگر آپ دنیا کے مختلف ادیان کو دیکھیں گے تو آپ کو مکمل طریقے سے کوئی بھی دین ایسا نہیں ملے گا جو کہ حق یا باطل ہوبہت سی باتیں سب میں مشترک پائی جاتی ہیں بہت سے احکام اور عقیدے نیزخصوصیات جو ایک دین میں ہیں ممکن ہے وہ دوسرے دین میں بھی حاصل ہو ں یعنی دوسرا دین بھی وہی خصوصیات رکھتا ہو مثلاً قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے کہ جو چیزیں ہم نے بنی اسرائیل کے لئے قرار دی ہیں وہی تمھارے لئے بھی قرار دی ہیں منجملہ انھیں احکام میں ایک حکم قصاص کا بھی ہے جس کے متعلق وضاحت سے فرمایا ہے 'یہ وہی حکم ہے جو ہم نے مسیحیوں اور یہودیوں کے لئے قرار دیا تھا ۔( ۱ ) اسی طرح آپ بیہودہ عقیدے اور باطل باتیں تمام دین میں دیکھ سکتے ہیں تواب چاہے اعتقاد کی باتیں ہوں یا احکام یا افکارو اقدار کی باتیں ہوں، ان سب کے اندر دنیا میں بہت سے حق پائے جاتے ہیں لیکن ان کا مجموعہ ایک جگہ نہیں ملے گا؛

____________________

(۱) ملاحظہ ہو سورہ مائدہ : آیہ۴۵ تا ۴۸۔

۷۷

بلکہ ہر دین میں حقیقت کا کچھ حصہ پایا جاتاہے لہٰذایہ لازم نہیں ہے کہ آپ صرف ایک خاص دین کا اعتقاد رکھیں بلکہ ممکن ہے کہ آپ یہودی بھی رہیں ، مسیحی بھی، مسلمان بھی یا کسی اورمذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوںاس طرح کہ جس دین میں جو اچھا عنصر پایا جاتا ہو آپ اس کو اختیار کر لیں ؛یہاں تک کی بودھ مذہب جو کہ خدا کے وجود کا منکر ہے اس کے اندر بھی بعض اچھے عناصرہیں جیسے سکون روح، یکسوئی ، دنیا سے دوری وغیرہ آپ ان کو اختیار کر لیںالبتہ یہ بیان ایک افراطی رجحان رکھتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ تمام ادیان میں حق وبا طل کی آمیزش اس حد تک موجود ہے کہ ایک کو دوسرے سے بہتر نہیں کہا جا سکتا ؛بلکہ وہ سب ایک ہی جیسے ہیں ان میں ایک معتدل نظریہ یہ ہے کہ اگر چہ حق و باطل کاوجود تمام ادیان میں ہے لیکن حق و باطل کی مقدار ایک طرح نہیں ہے یعنی نسبی اعتبا ر سے تفاوت ہے جس کے ذریعہ ایک کو دوسرے پر فوقیت دی جا سکتی ہے، لیکن پھر بھی مطلق فوقیت نہیں پائی جاتی بلکہ تمام ادیان میں اچھائیاں اور برائیاں دوونوں ہی پائی جاتی ہیں ۔

دینی پلورالزم کی پہلی تفسیر کا تجزیہ

اس بیان کے جواب میں سب سے پہلے ہم یہ کہیں گے کہ ہر انصاف پسند شخص اگر تھوڑی سی بھی عقل اور ادیان سے متعلق سطحی معلومات بھی رکھتا ہوگا تو وہ اس بات کی تصدیق کرے گا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ادیان کے درمیان ایک دوسرے پر کوئی ترجیح نہیں ہے اور سب کے سب برابر ہیں ،بعض دین ایسے بھی ہیں کہ ان کے اندر ایسی باتیں پائی جاتی ہیں کہ زبان و قلم ان کے بیان کرنے اور لکھنے سے شرم محسوس کرتے ہیں کیا سچ مچ جانور ،گائے اور کتّے کو پوجنا خدا پرستی کے برابر ہو سکتا ہے ؟ کیا بت پرستوں کا وہ یقین و اعتقاد جو کہ ہندوستان کے بعض لوگوں میں ہے اور وہ آلہ تناسل کی پرستش کرتے ہیں اور اس کے سامنے زمین پر جھکتے ہیں اور بہت سے لا ولد افراد اپنے مرض کے علاج کے لئے اس پر پانی ڈال کر تبرکاًپیتے یا استعمال کرتے ہیں اس کا مقائسہ مذہب اسلام (جو کہ نجات دینے والا ہے اور اس کے اندر تمام کمالات اور لا تعداد اچھائییاں پائی جاتی ہیں اور جو خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبادت کا حکم دیتا ہے ) سے کیا جا سکتا ہے اور ان دونوں مذہب کو ایک فہرست میں شمار کیا جا سکتا ہے ؟

۷۸

بہر حال ہماری نظر میں یہ بات بہت ہی واضح ہے کہ تمام ادیان کوجیسا ایک قرار دینا اور سبھی کی خصوصیات اور اوصاف کو ایک جیسا قرار دینا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی منتخب کر لینا یہ ایسی باتیں ہیں جن کو کوئی بھی عقلمند انسان قبول نہیں کر سکتا ہے

دوسرے خاص کر ہمارے نظریہ میں کہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن و اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں یہ مطلب کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم قرآن کی بعض باتوں کو قبول کریں اور بعض کا انکار کریں اگر ہم نے بعض کا انکار کیا تو گویا سبھی کا انکار کیا اور قرآن کے بعض مطالب کا انکار کرکے کوئی بھی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا ہے۔ قرآن اس بارے میں واضح طور سے فرماتا ہے :( افتومنو ن ببعض الکتاب ) ۔۔۔( ۱ ) کیا تم لوگ قرآن کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو پس جو ایسا کرتا ہے وہ دنیا میں ذلت کے علاوہ کچھ بھی نہیں پائے گا اور قیامت کے روز سخت ترین عذاب دیکھے گا ۔دوسری جگہ ارشاد ہو رہا ہے: جو لوگ چاہتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کے درمیان جدائی ڈالیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اصل میں یہی لوگ کافر ہیں( ۲ ) بہر حال ہم مسلمانوں کی نظر میں اسلام اور قرآن کے عنوان سے جو کچھ بھی اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے لوگوں تک پہونچایا گیا ہے وہ سب کا سب صحیح اور حق ہے

____________________

(۱) سورہ بقرہ : آیت ۸۵.

(۲) سورہ نساء : آیت ۱۵ ۔

۷۹

اور اس میں کچھ بھی باطل نہیں ہے( وانّه لکتاب عزیز لا یاتیه ) ........۔( ۱ ) بے شک یہ کتاب عالی مرتبہ ہے جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے بھی باطل نہیں آسکتاہے۔

البتہ ان کا یہ کہنا کہ تمام ادیان میں حق کا عنصر پایا جاتاہے ہم اس کو قبول کرتے ہیں اور یہ بات کوئی مشکل بھی نہیں ہے مثلاً زر تشتیوں کا یہ مشہورمقولہ ہے 'نیک بات نیک سوچ نیک کردار ' یہ ایک اچھا مقولہ ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا ہے خاص کر یہودی ' مسیحی اور زرتشتی کہ خدائی اصل رکھتے ہیں ،اگر چہ ہمارے عقیدے کے مطابق ان ادیان میں تحریف اور کمی و بیشی ہوئی ہے لیکن پھر بھی حق اور صحیح عناصر اس میں پائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس بات کو قبول کر لیں کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح حق وباطل کا مجموعہ ہے اور ہم اس بات کے قائل ہو جائیں مسلمان ہو یا یہودی یا مسیحی اور زرتشتی سب کے سب برابر ہیں بلکہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہمارے عقیدے کے مطابق وہ مذہب اسلام جس کو خدا وندعالم نے پیامبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ بھیجا وہ پورا کا پورا حق ہے اور اس میں کچھ بھی باطل نہیں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ فصّلت : آیہ ۴۱ و ۴۲

۸۰

دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر

دوسرابیان جو کہ دینی پلورالزم کو واضح کرتا ہے وہ یہ ہے کہ''تمام ادیان اور ان کے راستے ایک ہی حقیقت کی طرف پہونچ کر منتہی ہوتے ہیں ۔

پہلا بیان یہ تھا کہ مختلف ادیان کے درمیان حقائق بٹے ہوئے ہیں اور ہر دین حقیقت کے کچھ حصّوں پر مشتمل ہے لیکن یہ بیان اس سے ہٹ کر اس چیز کو بتاتا ہے کہ حقیقت صرف ایک ہے ؛اور بہت سے راستے اس تک پہونچتے ہیں جو مختلف ادیان کی شکل میں پائے جاتے ہیں اس کی مثال اس طرح ہے مثلاً تہران تک پہونچنے کے لئے بہت سے راستے پائے جاتے ہیں اور لوگ مختلف راستوں سے تہران میں داخل ہو سکتے ہیں شمال، جنوب ،مشرق اورمغرب غرض کہ تہران جانے کے لئے ہر طرف سے راستہ ہے جس کوہر انسان چاہتا ہے وہ صرف ایک ہے لیکن مختلف راستوں سے جیسے اسلام ،مسیحیت ،یہودیت ،بودھ ازم،اور مختلف ادیان اس حقیقت تک پہونچا جا سکتا ہے۔

یہ بیان بھی پہلے بیان کی طرح دو طرح کا افراطی اور اعتدالی رجحان رکھتا ہے جو لوگ افراطی(شدت پسند)اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ تمام راستے کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے برابر ہیں اور ان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔ اعتدالی رجحان اس بات کا قائل ہے کہ اگر چہ راستے مختلف ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں لیکن مختلف راستوں میں دوری اور نزدیکی پائی جاتی اور کچھ پیچ وخم بھی رکھتے ہیں اور ان کے درمیان کمی اور زیادتی پائی جاتی ہے ایک راستہ بہت لمبا ہے تو ایک بہت چھوٹا ہے ایک بالکل سیدھا ہے تا دوسرا ٹیڑھا ہے ؛مثلاً اسلام مسیحیت کی نسبت سیدھا اور بہت کم فاصلہ رکھتا ہے لیکن اگر کوئی مسیحیت اور اس کے دستورات و احکام پر عمل کرتا ہو اور اعتقاد رکھتا ہو تو وہ بھی حقیقت تک پہونچ سکتا ہے ۔

۸۱

اس دوسرے بیان کو بھی ثابت کرنے کے لئے کبھی شعراء کے اشعار اور کبھی عرفاء کی مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے مثلاً شیخ بہائی کا یہ شعرپیش کیا جاتا ہے:

ہر جا کہ روم پر تو کاشانہ تو ئی تو

ہردر کہ زدم صاحب آنخانہ توئی تو

در میکدہ و دیر کہ جانانہ توئی تو

مقصود من از کعبہ و بتخانہ توئی تو

مقصود توئی کعبہ وبت خانہ بہانہ

یعنی میں جس جگہ بھی جاتا ہوں وہاں تیرا ہی جلوہ نظر آتا ہے جس گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں اس گھر کا مالک تو ہی ہے، بت خانہ اور میکدہ کے اندرمحبوب تو ہی ہے کعبہ اور بت خانہ سے میری مراد تو ہی ہے ؛ کعبہ اور بت خانہ تو ایک بہانہ ہے ورنہ حقیقت میں میرا مقصود تو ہی ہے خلاصہ یہ کہ اگرفکر و نظر کے پردہ کو چاک کیا جائے تو مسجد ، بت خانہ ، گرجا گھراور میکدہ ہر جگہ رخ محبوب کی تصویر دکھائی دیگیعباراتنا شتیّٰ وحسنک واحد''یعنی عبارتیں الگ الگ ہیں لیکن حسن سب کا ایک ہی ہے یعنی اگر چہ کلام سب کا الگ الگ ہے لیکن سب کے سب ایک ہی رخ زیبا کی تعریف کر رہے ہیں ۔

۸۲

دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر کاتجزیہ

کیا یہ بیان قابل قبول ہے اور اس کو سند قرار دیتے ہوئے ہم دینی پلورالزم کو قبول کر لیں ؟جو کہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہو یامسیحیت یا یہودیت و زر تشتی سب کے سب ایک ہی حقیقت اور سب کے سب انسان کو نیکی و کمال کی طرف پہونچاتے ہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ تصوّر اور ثبوت کے مرحلہ میں ایسا فرض کرنا ممکن ہے ،مثلاً ایک ایسے دائرہ کو فرض کیجئے کہ جس کے چاروں طرف سے مختلف شعائیںاس کے مرکز تک پہونچتی ہوں اور تمام شعاعیں ایک ہی نقطہ پر ختم ہوتی ہوں، لیکن کیا موجودہ ادیان کے بارے میں بھی ایسا کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسی طرح ہیں جیسا ان کا وہم و خیال ہے؟ تھوڑی سی بھی دقت اور توجہ کی جائے تو معلوم ہو جائیگا کہ ایسا نہیں ہے ( اور مختلف ادیان میں کوئی بھی یکسانیت نہیں ہے )۔سب سے پہلا مسئلہ جو کہ اسلام میں ہے وہ توحید اور خدا کو یکتا قبول کرنے کا ہے اسلام کی سب سے پہلی آواز ہے:قولوا لا اله ٰالاّ الله تفلحوا تم لوگ کہو کہ خدا ایک ہے تاکہ کامیاب ہو جائو !

لیکن مسیحیت کا نظریہ اس مسئلہ توحید میں کچھ اور ہے جس کی حکایت خدا وند عالم یوں کر رہا ہےا نّ اللہ ثالث ثلاثة'' یقیناً خدا تین میں سے ایک ہے ،یعنی ان کے یہاں تین خدا ہیں ؛ایک باپ کہ خدائے اصلی کہ جس کو خدائے اب کہتے ہیں ، ایک بیٹا کہ جو خدائے ابن ہے، اور تیسرا خدا روح القدس ہے ۔بعض عیسائی قائل ہیں کہ تیسرا خدا حضرت مریم ہیں ۔

۸۳

یہ اعتقاد جس کو تثلیث کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایسا اعتقاد ہے جس کی خدا نے سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے اور اس کو رد کیا ہے اس بات سے لوگوں کو روکا ہے اور اس کے ماننے والوں کو کافر کہا ہے،

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:( لقد کفرالذین قالو انّ الله ) ۔۔''( ۱ ) جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے یقیناًوہ لوگ کافر ہیں اور اللہ کے علاوہ کوئی بھی خدا نہیں ہے؛ اگر یہ لوگ اپنے قول سے باز نہیں آئینگے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر دردناک عذاب ہوگا ۔

مسیحیوں کے اس عقیدے کو (جو وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں یعنی ان کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں ) خدا نے بہت ہی عجیب جانا ہے، قرآن کریم میں ارشادہورہاہے :وقالوااتخذالرحمٰن ولداً۔۔''( ۲ ) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے ایک فرزند بنا لیا ہے یقیناًتم لوگوں نے بہت سخت بات کہی ہے قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اورزمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں؛

____________________

(۱) سورہ مائدہ: آیہ ۷۳۔

(۲) سورہ مریم :آیہ ۸۸تا ۹۰۔

۸۴

سچ مچ قرآن کی یہ تعبیر کتنی سخت ہے ؟تثلیث کا اعتقاد اور یہ کہ عیسی خدا کے بیٹے ہیں اس حد تک غلط ہے اور بربادی کا سبب ہے کہ اس کے اثر سے قریب ہے کہ تمام آسمان اور زمین نیز پہاڑ تباہ و برباد ہو جائیں ۔کیا اس طرح کی تعبیر کے بعد بھی یہ کہنا صحیح ہے کہ تثلیث کا اعتقاد اور توحید کا اعتقاد دونوں ایک حقیقت کی طرف لے جانے والے ہیں ! ایک مذہب اسلام ہے جو کہتا ہے کہ سور کا گوشت کھانا حرام اور نجس ہے اور دوسرے مذاہب یہ کہتے ہیں کہ سور کا گوشت لذیذاور اچھا ہے اور اس کا کھانا جائز ہے؛ اسلام کہتا ہے کہ شراب اور الکحل نہایت بری چیز ہے اور شیطانی پھندے ہیں جب کہ مسیحیت کہتی ہے کہ بعض شراب کے کچھ حصہ میں خدا کا خون ہوتی ہے، کشیش (عیسائی عالم ) لوگ عشائے ربّانی کے مراسم میں روٹی کے ٹکڑے کو شراب میں ڈبوتے ہیں پھر سب منھ میں ڈالتے اور کہتے ہیں کہ شراب جب انسان کے خون میں جاتی ہے تو خدا کا خون بن جاتی ہے ؛عاقل اور بالغ انسان کوجانے دیجئے ایک معمولی بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ یہ دو دین اس حالت میں کسی بھی صورت میں ایک نقطہ اور منزل پر نہیں پہونچ سکتے ؛آپ خود دیکھیں ایک مذہب کہتا ہے کہ جب تک شراب نہیں پیوگے تم خدا کے ماننے والے نہیں ہو سکتے ہو جب کہ دوسرا مذہب یہ کہتا ہے کہ شراب پینا شیطانی عمل ہے ؛اب اس کے بعد بھی ہم کہیں کہ دونوں مذہب ایک مقصد تک لے جاتے ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے اور افسانہ و شعر سے مشابہ ہے نہ کہ واقعیت اور حقیقت سے ؛مگر یہ کہ خدا اور شیطان کو بھی ایک جانیں اور کہیں کہکعبہ اور بت خانہ سے مراد فقط تو ہی ہے

۸۵

سچ مچ یہ بہت ہی تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اس کے باوجود'' بہت سے سیدھے راستوں'' کے قول پراصرار کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ سب اختلاف اور تعارض جو ادیان میں پایا جاتا ہے ان سب کا نتیجہ ایک ہی ہے ؛یعنی سب کے سب آخر میں ایک مقصد تک پہونچتے ہیں ؛آخر یہ کیسے ممکن ہے اسلام کا نظریہ کہخدا موجود ہےاور بودھ ازم کا نظریہ یہ کہکوئی بھی خدا موجود نہیں ہے' 'اور پھر بھی دونوں ایک حقیقت تک پہونچتے ہوں؟!یہ کیسے ہو سکتا ہے حضرت علی کو بھی مانا جائے اور معاویہ کو بھی ؛حضرت امام حسین کو بھی قبول کریں اور یزید و شمر ذی الجوشن کو بھی؟! اور یہ اعتقاد رکھیں کہ سب کے سب حق پر ہیں اور جس کے پیچھے بھی چلا جائے وہ سیدھا راستہ ایک ہے اور منزل مقصود تک پہونچانے والاہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک پورب کو جاتا ہے اور ایک پچھم کو، ایک اتر کو جاتا ہے اوردوسرا دکھن کو، اور ہر ایک کا الگ الگ راستہ ہے اور پھر بھی اسی بات پر اصرار ہے کہ سب کے سب سیدھے راستے پر ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں ۔

۸۶

شعر:

ترسم نہ رسی بہ کعبہ ای اعرا بی

این رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است

اے اعرابی !میں ڈرتا ہوں کہ تو کعبہ کو نہیں پہونچے گا اس لئے کہ جس راستے پر تو جا رہاہے وہ راستہ ترکستان کو جاتا ہے ۔

بہر حال پلورالزم دینی کی یہ دوسری تفسیر جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ادیان اور مذاہب ہم کو ایک منزل مقصود تک لے جاتے ہیں اگر چہ اشعار کے لحاظ سے ایک اچھی چیز ہے ہے لیکن حقیقت اور واقعیت سے خالی ہے اور اس کا باطل ہوناسورج سے بھی زیادہ روشن ہے ۔

دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر

تیسرابیان جو دینی پلورالزم کے لئے کیا جاتا ہے وہ اصل میں ایک معرفت شناسی پر منحصر ہے اس بنیاد پر وہ تمام چیزیں جو کہ غیر حسیّ اور غیر تجربی ہیں یعنی ان کو محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا تجربہ کیا جا سکتا ہے ؛وہ بے معنی ہیں اور نفی اثبات کے لائق نہیں ہے اگر چہ اس کی تفصیل معرفتی شناخت سے مربوط ہے لیکن اس کی مختصر وضاحت یہاں پر کی جارہی ہے :

معرفت شناسی کی بحث میں بعض (پوزٹیوسٹ)کہتے ہیں کہ جو پہچان اور معرفت والی چیزیں ہیں وہ دو حصّوں میں منقسم ہوتی ہیں

۸۷

پہلی قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ محسوس کی جاسکتی ہیں اور ان کو دیکھا جا سکتا ہے جیسے ہم کہیں کہ چراغ روشن ہے یہ بات تجربہ اور محسوس کرنے کے قابل ہے آپ بٹن کو دبائیں گے تو پورا کمرہ تاریک ہو جائیگا اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا پھر آپ بٹن کو دبائیںگے تو پورا کمرہ جگمگااٹھّے گا اور آپ جس چیز کو بھی دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں ،یا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آگ جلاتی ہے تو یہ تجربہ کرنے والی چیزہے ؛اور اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے؛ اگر آپ اپنے ہاتھ کو آگ کے قریب لے جائیں گے تو ہاتھ جل جائے گا۔ اس طرح کی چیزیں جو تجربہ کی جا سکتی ہیں اور ان کو محسوس کیا جا سکتا ہے تو ان کے متعلق یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ سچ ہے یا یہ جھوٹ ؟حق ہے یا باطل؟ صحیح ہیں یا غلط؟ کیونکہ معلوم کرنے کا راستہ یہی حس اور تجربہ ہے ۔

دوسری قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربے میں نہیں آسکتی ہیں یا وہ تجربے کے لائق نہیں ہیں ان چیزوںکا اقرار یا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے؛ یا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں کچھ معنی نہیں رکھتی ہیں ، اوران میں سچ یا جھوٹ نہیں پایاجا تا ہے لہذٰا ایسی چیزوں کے بارے میں کچھ بھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جو افراطی (شدّت پسند) پوز یٹوسٹ ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی چیزیں اصلاً بے معانی ہیں ان کا ہونا اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہاس چراغ کی روشنی کا مزہ کھٹّا ہےیا یہ کہیں کہاس چراغ کا نور انگلینڈ کا بادشاہ ہےجس طرح یہ دونوں چیزیں بے معنی ہیں اور کچھ مطلب نہیں رکھتی ہیں اسی طرح وہ چیزیں جو کہ تجربہ کے لائق نہیں ہیں اور محسوس نہیں کی جا سکتی ہیں وہ بھی ایسی ہی ہیں ؛دین سے متعلق باتیں بھی یہی حکم رکھتی ہیں مثلاً یہ بات کہ خداموجود ہے، خدا ایک ہے یا خدا تین ہے یا خدا نہیں ہے یہ سب بھی بے معنی اور بے مفہوم باتیں ہیں کہ ان کے حق یا باطل ہونے یا سچے اور جھوٹے ہونے کا دعویٰ کرناغلط اوربیکارہے اور کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس ایک کو مانتے ہیں چاہے آپ یہ کہیں کہ خدا ایک ہے یا یہ کہیں کہ خدا تین ہے دونوں باتیں فائدہ کے اعتبار سے برابر ہیں اور کچھ بھی معنی و مفہوم نہیں رکھتی ہیں ،یہ سب باتیں نہ ہی پیٹ کی غذا بنتی ہیں اور نہ ہی جسم کا لباس اور نہ ہی انسانی زندگی کی کسی بھی مشکل کا حل پیش کرتی ہیں ۔

۸۸

لیکن جو پوزیوٹیسٹ اعتدال پسند ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں ؛جن کو اصطلاح میں ما وراء طبعت کہا جاتا ہے ؛اس طرح کی چیزیں بے معنی نہیں ہیں ؛ لیکن چونکہ ہماری پہونچ سے باہر ہیں اور ہم ان کو محسوس اور ان کا تجربہ نہیں کر سکتے لہذٰا ان کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ثابت ہیں یا نہیں اس نظریہ کا نتیجہ نسبیت اور شکاکیت ہے یعنی غیر حسی اور غیر تجربی چیزوں کے بارے میں دینی باتوں کا بھی شمار انھیں میں ہوتا ہے ،یا یہ کہیں گے کہ ان کے حق یا باطل ہونے کو ہم نہیں جانتے ہیں ؛کیونکہ وہ ہمارے تجربے میں نہیں ہیں ، یایہ کہیں گے کہ ان کا جھوٹ اور سچ ہونا معاشرہ اور زمانے کے اعتبار سے فرق کرتا ہے کبھی کبھی سارے حق بھی ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی سب کے سب باطل بھی ہو سکتے ہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ان کو کس شخص ،کس زمانہ،کس معاشرہ اور کس ماحول کی نسبت دیکھتے ہیں ۔کبھی یہ کہا گیا ہے کہ افکار واقدار کے مفاہیم یا وہ چیزیں جن میں اچھائی اور برائی ہو سکتی ہے ان میں حق اور باطل نہیں پایا جاتا ہے اور اس طرح کی خبریں جیسے ' عدالت کے ساتھ انسان کو سلوک کرنا چاہئیے' ظلم نہیں کرنا چاہئیے' سچ کہنا اچھی بات ہے' جھوٹ بولنا بری بات ہے یہ سب باتیں احساس اور سلیقے اور جذبات وغیرہ سے متعلق ہیں ؛یہ اسی طرح ہے کہ جیسے ہر شخص اپنے اپنے ذوق و سلیقہ کے مطابق رنگ کو پسند کرتا ہے،

۸۹

اگرچہ یہ باتیں معنی رکھتی ہیں لیکن ان پر کوئی دلیل اور برہان نہیں ہے ۔

بہر حال دینی پلورالزم کی تیسری تفسیرکے مطابق ادیا ن اور دینی باتوں میں اختلاف کی مثال یا رنگ جیسی چیز ہے کہ مطلق طور سے نہیں کہا جا سکتا کہ سبز یا زرد رنگ اچھا ہے یا ایک اچھا ہے اور دوسرا خراب ہے بلکہ ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ دونوں اچھے اور بہتر ہیں ۔ یا یہ کہیں کہ ہم چونکہ ان کی حقیقت سے نا آشنا ہیں ؛اور ان کے قبول یا ردکرنے پر ہم کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے لہذٰا ان کے بارے میں ہم کو جھگڑا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ہم کو اس بات کا اعتقاد رکھنا چاہئیے کہ سب کے سب برابر ہیں ان ادیان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے اور جس کسی کو بھی چاہیں اختیار کر لیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر کاتجزیہ

اس تفسیرپر نقد وتبصرہ کے لئے جو راستہ ہمارے پاس ہے وہ یہ کہ اس کے معرفت شناسی ہی کے مبنیٰ اور اصول کو بحث کا موضوع قرار دیں اورا س میں غور وفکر کریں ؛اس کے لئے ہم کو سب سے پہلے اس بات پر توجہ کرنی چاہئے کہ معرفت شناسی کی بحث میں ہم کو مندرجہ ذیل سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

(۱) جیسا کہ افراطی''پوزیوٹیسٹدعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اشیاء جو کہ واقعی اعتبار سے حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں وہ بے معنی ہیں ؟

(۲) کیا وہ باتیں جو کہ افکار واقدار کے مفاہیم پر مشتمل ہیں اور کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے یا ان کے اچھے یا برے ہونے کو بتاتے ہیں ؛ ان کو سچ یا جھوٹ سے متصف نہیں کیا جا سکتا اور ان کے بارے میں حق و باطل کو پیش نہیں کیا جا سکتا ؟

(۳)کیا عام طور پر ہر معرفت چاہے صحیح اورحق ہونے سے متعلق ہو یا غلط اور باطل ہونے سے، نسبی ہے اور کوئی بھی بات مطلق و پائدار اور یقینی نہیں ہے ؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ ہم ان تمام جگہوں پر یقینی باتوں کو جان سکتے ہیں ۔

(۴) خاص طور پر دینی معرفت کیا دینی معرفت کے متعلق، یقینی ، مطلق اندازمیں اور ثابت طریقے سے پائی جاتی ہے؟ یا یہ کہ تمام دینی معرفیتں خود ہماری فہم اور سمجھ کی تابع ہیں کہ جسے آج کی اصطلاح میں ہماریمختلف قرائتیںکہا جاتا ہے ۔ یہ بحث وہی ہرمنو ٹکاور دینی باتوں کی ہر منو ٹک تفسیر کی بحث ہے۔

دینی پلورالزم کا یہ تیسرا بیان آیا صحیح ہے یا غلط ؟پہلے ان مذکورہ سوالات کے جواب واضح ہوںکہ انشااللہ ہم آئیندہ بحث میں جن کو بیان کریں گے۔

۹۰

دینی پلورالزم (۳)

پلورالزم نظریہ کی پیدائش میں نفسیاتی عوامل پر دوبارہ ایک سرسری نظر

پچھلے جلسہ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا تھا کہ پلورالزم کی فکر پیدا ہونے میں جو اسباب و عوامل ہیں ان میں ایک نفسیاتی سبب بھی ہے جو کہ بہت سے لوگوں 'خاص کر جوانوں 'میں پایا جاتا ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے ادیان و مذاہب پائے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ خلوص اورسچائی کے ساتھ اس کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ جہنم میں جائیں گے؟ اور فقط ایک مختصر سی جماعت جو کہ مسلمانوںہیں وہ بھی مسلمانوں کا ایک خاص گروہ (شیعہ)ہی جنت میں جائیں ؟ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ شیعوں میں بھی وہی لوگ جن سے کوئی گناہ نہ ہوا ہو یا اگر گناہ ہو گیا ہو تو انھوں نے توبہ کر لی ہو بس وہی جنت میں جائیں گے؛ چونکہ یہ بات عام طور سے لوگوں کے لئے ناممکن لگتی ہے اور وہ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں لہذا یہ مسئلہ ان کے ذہن میں تقویت کرجاتا ہے کہ تمام دین کے ماننے والے یا کم سے کم وہ لوگ جو کہ اپنے دین کے پابندبہیں اور ان کے احکام پر عمل کرتے ہیں وہ بھی نجات کے مستحق ہیں اور بہشت میں جائیں گے ۔

پہلے جلسہ میں ہم نے اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ اس شبیہ کو ذہن سے دور کرنے کے لئے اس نکتہ کی طرف توجہ دینا ہوگاکہ جس وقت ہم یہ کہتے ہیں :''دین حق فقط اسلام ہے اور اس کی پیروی انسان کے لئے کامیابی اور نجات کا سبب بنتی ہےاس کا نتیجہ اور لازمہ یہ نہیں ہے کہ دوسرے تمام انسان جہنم میں جائیں گے ۔بلکہ یہاں دوسرے تمام انسانوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (البتہ ان دو گروہوں میں اکثریت کس گروہ میں ہیں اور کون لوگ اقلیت میں ہیں یہ ایک حسابی بحث ہے جو کہ ہماری گفتگو سے مربوط نہیں ہے)،وہ دونوں گروہ یہ ہیں :

۹۱

( ۱ ) پہلے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو حق کو تلاش کرتے ہیں اور اس کی جستجو میں محنت ومشقّت کرتے ہیں ؛ اور واقعی طور سے اس بات کی کوشش میں ہیں کہ حق کو حاصل کر لیں لیکن کسی بھی سبب سے اس کو نہیں پا سکے ہیں ۔

( ۲ ) دوسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جوتحقیق کے حالات اور اسباب فراہم ہونے کے باوجود حق کو تلاش نہیں کرتے ہیں یا یہ کہ ان کے نزدیک حق واضح تھا کہ فقط مذہب اسلام حق ہے،پھر بھی اس کو قبول نہیں کیا جو لوگ جہنم میں جائیںگے یہی دوسرے گروہ والے ہیں ؛ لیکن پہلے گروہ والے جنھوں نے حق کے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے یا اس کو پہچاننے میں غلطی کر بیٹھے ہیں اور حق تک پہونچنے سے رہ گئے ہیں ان کے ساتھ دوسری طرح سے سلوک کیا جائیگا ان افراد کو علم فقہ و کلام کی روشنی میں مستضعف] کہ جس سے مراد یہاں پر مستضعف فکری ہے[ کہا جا تا ہے اگر ان لوگوں نے انھیں حقائق پر عمل کیا ہے یا جو اپنی عقل سیایک خاص دین کی تعلیمات کے ذریعہ ان کو حاصل کیا ہے تو وہ لوگ اپنے نیک عمل کی جزا پائیں گے ۔

البتہ یہ بات کہ کیا یہ لوگ جہنم کے نچلے طبقہ میں جگہ پائیں گے ،یا جنت و جہنم کے درمیان ان لوگوں کے لئے کوئی بیچ کا حصّہ مخصوص ہو گا ،یا یہ کہ قیامت کے میدان میں ایسے لوگوں کے لئے سوال و جواب کا کوئی امتحان منعقد ہوگا ،یہ سب دوسرے مسائل ہیں ( جو کہ تفصیلی بحث چاہتے ہیں ) لیکن بہر حال یہ گروہ ابدی عذاب میں گرفتار اور مبتلا نہیں رہے گا ۔

۹۲

آیہ''( ومن یبتغ غیرالاسلام دیناً ) کی توضیح

جو سوال اس جگہ سامنے آتا ہے ( در اصل گذشتہ مطالب کو مختصراً میں نے اس سوال کو پیش کرنے کے لئے بیان کیا تھا ) وہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا وند عالم فرماتا ہے :( ومن یبتغ غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منه ) ( ۱ ) اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ قیامت کے روز گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گا ۔یہ آیہ کریمہ بالکل واضح انداز میں اس بات کو بتاتی ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین قابل قبول نہیں ہے جب کہ آپ کے بیان کے مطابق دوسرے ادیان بھی کم و زیادہ کچھ نہ کچھ قبول کئے جائیں گے اس مشکل کو کس طرح حل کیا جائے گا ؟

یہ آیہ ایک تفسیری بحث رکھتی ہے اگر اس کی تفصیل میں جائیں گے تو اصلی بحث سے خارج ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اس مطلب کو مختصراً عرض کرتے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ آل عمران : آیہ ۸۵۔

۹۳

وہ دین جو کہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں لوگوں کے لئے آیا تھا ؛حقیقت میں وہ بھی دین اسلام تھا اور لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ اس دین پر عمل کریں جب تک کہ کوئی

نئی شریعت نہ آجائے ۔جس وقت حضرت موسیٰ شریعت لیکر آئے تو حضرت ابراہیم کی شریعت منسوخ ہو گئی ؛لیکن حضرت موسیٰ کا دین بھی دین اسلام تھا فرق صرف اتنا تھا کہ بعض احکام جو حضرت ابراہیم کی شریعت میں تھے وہ منسوخ ہو گئے ؛حضرت موسیٰ کی شریعت بھی حضرت عیسیٰ کی شریعت آنے کے بعد منسوخ ہوگئی ؛اور لوگوں پر ضروری ہو گیا کہ وہ نئی شریعت کے مطابق جو کہ حضر ت موسیٰ سے کچھ فرق رکھتی تھی اس پر عمل کریںلیکن پھربھی حضرت عیسیٰ کا دین وہی تھا جو کہ حضرت موسیٰ کا دین تھا اور آخر کار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے سے پچھلی شریعتیں منسوخ ہو گئی ؛اور لوگوں پر ضروری ہو گیا کہ لوگ شریعت محمدی پر عمل کریں ؛اور ہم جانتے ہیں کہ شریعت محمدی وہی دین اسلام ہے؛ لیکن یہ شریعت کچھ خاص اورا ہم قوانین و احکام لیکر آئی جو کہ اس شریعت کو دوسری شریعتوں ممتاز اور جدا کرتی ہے یہاں پر اسلام نے ایک خاص معنی پیدا کر لئے اور وہ وہی معنی ہیں جن کو ہم سمجھتے ہیں ۔ اس وضاحت سے یہ بات روشن ہو گئی کہ اسلام مختلف مصداق رکھتا ہے اسلام کا ایک مصداق شریعت ابراہیمی ہے ؛اس کا دوسرا مصداق حضرت موسیٰ کی شریعت ہے اسی طرح دوسرے اور مصداق بھی ہیں ؛ لہذااس آیہ کا مطلب اور مفہوم یہ ہوا کہ جو کوئی بھیان مصادیق اسلام سے جس مصداق کے زمانہ میں ہو تواس کو وہی قبول کرنا ہوگا اور دوسرا دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا؛ بہر حال اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ جس کسی نے بھی حضرت موسیٰ، عیسیٰ،یا ابراہیم کے دین کو قبول کیا ہے اس کا دین خدا کے یہاں قابل قبول ہے لہذا

۹۴

اس آیت کا یہ مطلب کہ (اس زمانے میں جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو قبول کرے گا اس کو خدا قبول نہیں کرے گا )اس کے معنی یہ ہیں کہ اس زمانے میں بھی خدا نے جو دین پیغمبروں کے ذریعہ بھیجا تھا اس کو بھی قبول کرے اور ان خاص احکام کو بھی جن کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لیکر آئیں ہیں قبول کرے۔البتہ ایک شریعت کے ذریعہ دوسری شریعت کے احکام کا نسخ ہونا مخصوص نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ایک ہی شریعت اپنے کچھ پچھلے احکام کو نسخ کر دے ؛مثلاً شروع اسلام ،میں مسلمانوں کو حکم تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں اور یہ حکم یہاں تک مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے بعدتک باقی رہا؛ لیکن جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کی اور مدینہ آئے تو خدا کے حکم سے قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی سمت ہو گیا۔ لہذٰا بعض احکام کا نسخ ہونا اصل دین کے بدلنے کا سبب نہیں ہوتا ہے؛ اصل دین توحید، نبوت ،قیامت کا اعتقاد ہے۔ تمام انبیاء پر ایمان رکھنا ہی نبوت کا اعتقاد ہے قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے :( آمن الرسول بما انزل الیه من ربّه'' ) ( ۱ ) رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے پرور دگار کی طرف سے نازل کی گئی ہیں اور مومنین بھی سب کے سب اللہ اور

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیہ ۲۸۵

۹۵

اس کے ملائکہ ،رسول اور ان کتابوں پر جو وہ لیکر آئے ان پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم رسولوں کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں یعنی ہم کسی بھی پیامبر کی تکذیب

نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا حق رکھتے ہیں اور سب کو واجب الا طاعت سمجھتے ہیں البتہ اگر موسیٰ، عیسیٰ بھی اس زمانے میں ہوتے تو وہ بھی شریعت محمدمصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرعمل کرتے۔

دین اختیار کرنے میں ہماری ذمہ داری اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا حکم

لہذٰا اس زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن ،پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام کے احکام پر عمل کریں اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے حکم پر عمل کریں گے تو وہ قبول نہیں ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دین حقیقی طور پر پچھلے ادیان سے جدا ہے اگر چہ ادیان بعض احکام میں جدا ہیں اور اختلاف رکھتے ہیں لیکن کلی اصول اوربہت سے احکام میں سارے ادیان ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اوروہ سب اسلام میں ہیں ،لہذٰا اگر کوئی شخص حق کو پہچاننے یا مشخص و معین کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ مستضعف ہے اور اس نے جتنا پہچانا ہے اتنا ہی اس کو عمل کرنا چاہئے ،اسی پر اس کو ثواب ملے گا لیکن اگر کسی نے کسی زمانے میں حق کو پہچانا اور اس کے باوجود اس کی مخالفت کی اور دشمنی اختیار کی تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلے گا، یہ مطلب دعائے کمیل کے اس فقرے سے بھی ظاہر ہوتا ہے، مولا علی فرماتے ہیں :اقسمت ان تملاهامن الکافرین من الجنة والناس اجمعین وان تخلدفیها المعاندین ائے خدا ! تو نے قسم کھا کر کہا ہے کہ اس جہنم کو تمام جن و انس کہ جو کافر ہوںگے بھر دوں گا اور وہ لوگ جو تیرے دین سے دشمنی رکھتے ہیں

۹۶

ان کو اس جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھے گا ، بہر حال جو لوگ بھی خدا کے دین سے دشمنی اور عناد رکھتے ہیں وہی لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، لیکن اگر کوئی شخص عناد و دشمنی نہیں رکھتا ہے اگر وہ عذاب میں مبتلا بھی ہوگا تو اسی مقدار میں جتنا اس نے گناہ اور کوتاہی کی ہے، مستضعفین بھی اسی مقدار میں عذاب سے معاف رہیں گے جتنا وہ حق کو نہیں پہچان سکے ہیں ۔ اس مقام پر جس مطلب کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اگر مسلمانوں (شیعوں) کے علاوہ جو لوگ جہنم میں نہیں جائیںگے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کا دین حق پر تھا بلکہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس عذر ہے ؛البتہ جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے جو لوگ پچھلی شریعت جیسے موسی یاٰ عیسیٰ کے دور میں زندگی بسر کر کر رہے تھے ان کی ذمہ داری اسی شریعت پر عمل کرنے کی تھی۔ بہر حال دین حق اور صراط مستقیم صرف ایک ہی ہے ،او رجو لوگ اس ایک صراط مستقیم یعنی اسلام کے علاوہ کسی دین پر رہ کر جہنم میں نہ جائیں گے تو اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ دین حق اور صراط مستقیم (سیدھے اور صحیح راستے) ایک سے زیادہ ہیں ۔

نفسیات سے متعلق ایک نکتہ

ایک نکتہ اس جگہ پر بہت اہم ہے وہ یہ کہ انسان ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ پہلے کسی چیز کی خوبی اور اچھائی کے بارے میں دلیل کو تلاش کرے اور جب دلیل مل جائے تو اس چیز کو اختیا رکر لے بلکہ کبھی کبھی مسئلہ اس کے بر خلاف ہوتا ہے یعنی پہلے کوئی چیز انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کو اچھی لگتی ہے ،اس کے بعد اس کے اچھے ہونے یا صحیح ہونے پر دلیل لاتا ہے؛ اس طرح کے موقعوںپر انسان اپنے دل کی حرکت کا تابع ہوتا ہے

۹۷

کبھی تو یہ اچھی اور صحیح چیز ہوتی ہے اور کبھی کبھی غلط ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ پہلے ان کا دل کسی چیز کو قبول کر لیتا ہے اس کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح بھی عقل کو دل کے ساتھ ہماہنگ کرلیں؛یعنی اس چیز کو ثابت کرنے کے لئے دلیل لاتے ہیں ۔یہ بات بہت سے ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے تھے؛ بہت سے لوگ ایسے نہیں تھے کہ پہلے تحقیق کریں اور اسلام کے اعتقاد کی تلاش و جستجو کریں اور جب تحقیق و جستجوکرلیا ہو اور توحید و خدا کی حقانیت ان کے لئے ثابت ہو گئی ہو تب ایمان لے آئے ہوں ؛بلکہ انھوں نے صرف رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رفتار اور ان کے اخلاق کو دیکھا تو ان کے دل نے کہا کہ وہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح ان کے ساتھ ہوں لہٰذاوہ ان کے ساتھ ہوگئے ؛پہلے ان کے دل نے قبول کیا اس کے بعد پھر اس پر دلیل پیش کی ۔یہ بات باطل میں بھی پائی جاتی ہے ؛یعنی چونکہ انسان ایک غلط چیز کی طرف رجحان رکھتا ہے اور اس کا دل اس کو چاہتا ہے تو وہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیہ کرے؛ بہت سے لوگوں نے گناہ ،اور برائی کی عادت کر لی ہے ان کا دل چاہتا ہے کہ ہر طرح آزاد رہیں ؛اور جس چیز کا بھی دل چاہے اس کو انجام دیں ؛ظاہر سی بات ہے ایسے لوگ اس بات کے لئے تیار نہیں ہیں کہ حساب و کتاب اور قبر و قیامت ہو؛ان کا دل اس بات کو گوارانہیں کرتا اور نہ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی عمر کا ہر لمحہ اور ان کی زندگی کا چھوٹا سا عمل بھی کسی کے زیرنظر رہے، اور ہر چیز کے بارے میں سوال و جواب ہوگا اسی لئے ان کا دل چاہتا ہے کہ حساب و کتاب نہ ہو ؛اور ان خواہشوں کے لئے انسان کوشش کرتا ہے کہ قیامت اور آخرت کے انکار کے لئے دلیل تلاش کرے، قرآن میں اسی سے متعلق خدا فرماتا ہے :( ایحسب الانسان ان لن یجمع عظامه بلیٰ ) ( ۱ ) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر پائیں

____________________

(۱) سورہ قیامت : آیہ ۳ الیٰ ۵ ۔

۹۸

گے؟ یقیناًہم تو اس بات پر بھی قدرت رکھتے ہیں کہ ان کی انگلیوںکے پور کو بھی از سر نو ویسے ہی درست کر دیں؛ بلکہ انسان تو فقط یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے وہ انسان جو قیامت کا انکار کرتا ہے واقعاً کیا وہ فکر کرتا ہے کہ ہم اس کو دوبارہ زندہ نہیں کر پائیں گے ؟ اگر وہ تھوڑی سی بھی فکر کرے اور عقل وفہم سے کام لے تو اچھی طرح سمجھ سکتا

ہے کہ وہ خدا جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا کیا دوبارہ اسی انسان کو زندہ نہیں کر سکتا ہے یقیناًیہ کام پہلے سے زیادہ آسان ہے چونکہ شروع میں انسان کچھ بھی نہیں تھا اور خدا نے اس کو پیدا کیا اور اب تو کم سے کم گوشت اور ہڈیّ تو ہے اگرچہ بوسیدہ اورسڑ گل گئی ہیں لہذٰا انسان کی عقل اس بات کو آسانی سے قبول کر لیتی ہے کہ جس ہاتھ نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی قدرت دوبارہ اسی بوسیدہ اور سڑی گلی ہڈیوں اورگوشت کو جمع کر کے زندہ کر سکتا ہے، لہذٰا قیامت کے منکر اس حد تک اپنی بات پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ وہ صرف اس لئے کہ''بل یرید الانسان لیفجر امامه ''یعنی انسان چاہتا ہے کہ آزاد رہے کسی کی قید و بند میں نہ رہے ،بلکہ اسکو اس بات کی بھی آزادی حاصل رہے کہ جس گناہ اوربرائی کو بھی اس کا دل چاہے اس کو انجام دے ؛اور اس کے کام میں کوئی بھی حساب و کتاب نہ ہو ،بس اس جگہ پہلے اس کے دل نے فتویٰ دیا کہ آخرت اور قیامت وغیرہ نہیں ہے اس کے بعد اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس بات پر دلیل لائے اجتماعی مسائل اکثر ایسے ہی ہیں کہ جن میں بجائے اس کے کہ دل عقل کے پیچھے ہو ،عقل دل کے پیچھے چلتی ہے ۔

۹۹

اس کا زندہ ثبوت ہمارے زمانہ میں پایا جارہا تھا وہ مرکس ازم کی طرف لوگوں کا رجحان اور اعتقاد تھا ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں نے پہلے جاکر ماٹریالزم اورڈیا للٹک کے اصول پر بحث اور جستجو کی ہو اور دلیل و برہان سے ان کے لئے ثابت ہوا ہو کہ مادہ کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے اورمارکسی اقتصاد اور اس سے متعلق سارے مسائل صحیح اور درست ہیں ۔میں خود ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ مسلمان نمازی اور روزہ دار تھے لیکن مارکسسٹ تھے اور ان کی فکر تھی کہ یہ دونوں چیزیں (اسلام اور مارکس ازم) جمع ہو سکتی ہیں ۔ آخر ان لوگوں نے مارکیزم کی طرف رجحان کیوں پیدا کر لیا تھا ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے سماج اور عوام کے درمیان ظلم و ستم اور دولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی کو دیکھا وہ اس بات کو دیکھ رہے تھے کہ کچھ لوگ دولت کی زیادتی کے سبب اس بات سے لا علم تھے کہ اس کو کس طرح سے خرچ کیا جائے ،اس کے مقابلے میں کچھ لوگ بہت ہی فقیری اور مفلسی میں زندگی بسر کر رہے تھے اس وقت ان لوگوں نے سوچا کہ یا تو سرمایہ داری کو قبول کر لیں یا مارکس ازم کو قبول کر لیں ،سرمایہ داری کا انجام معاشرہ میں یہی واضح اور افسوسناک طبقاتی فاصلہ تھا

لہذٰا ان لوگوں نے مارکس ازم کو قبول کر لیا ؛اس کے بعد مارکس ازم کو قبول کر لیتے تھے تو

رفتہ رفتہ علمی اصطلاح میں مارکس ازم کے لئے دلیل بھی تلاش کرنا شروع کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ماٹریا لیزم اور مادہ کی اصالت کو قبول کر لیتے تھے پلورالزم کے بارے میں بھی بعض جگہوں پر اکثر لوگوں کی ا یسی ہی کہانی ہے پہلے ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بات کو کس طرح قبول کریں کہ تمام کے تمام لوگ جہنم میں جائیں گے اور بہت کم ہی لوگوں کو نجات حاصل ہوگی ؟ ہم اس بات کو قبول نہیں کرسکتے ،ایک ایسا راستہ اختیار کریں کہ دوسرے لوگ بھی جنت میں جا سکیں۔ اس فکر کے پیچھے ان لوگوں نے اس نظریہ کو پیش کیا کہ' 'سارے دین حق پر ہیں اور اس بات کی کوشش کی کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیل بنائی جائے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232