ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 416
مشاہدے: 203306
ڈاؤنلوڈ: 4286


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 203306 / ڈاؤنلوڈ: 4286
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 1

مؤلف:
اردو

کسریٰ نے دوسرے افراد سے سوال کیا : کیا یہ سچ کہہ رہا ہے ؟

انھوں نے جواب میں کہا: ہاں :

اس کے بعد عاصم نے مٹی کو اپنے کندھوں پر رکھ کر کسریٰ کے محل کو ترک کیا اور فورا ًاپنے گھوڑے کے پاس پہنچ کر مٹی کو گھوڑے پر رکھ کر دیگر افراد سے پہلے تیز ی کے ساتھ اپنے آپ کو سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا دیا ۔اور دشمن پر کامیابی پانے کی نوید دیتے ہوئے کہا: خدا کی قسم ،بیشک خدائے تعالیٰ نے ان کے ملک کی کنجی ہمیں عنایت کردی ۔جب عاصم کے اس عمل اور بات کی اطلاع ایرانی فوج کے سپہ سالاررستم کو ملی تو رستم نے اسے بدشگونی سے تعبیر کیا ۔

یہاں پر یعقوبی نے سیف کی بات کو حق سمجھ کر اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔

لیکن اس سلسلے میں بلاذری لکھتا ہے :

عمر نے ایک خط کے ذریعہ سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند افراد کو کسریٰ کی خدمت میں مدائن بھیجے تاکہ وہ اسے اسلام کی دعوت دیں ،سعد نے خلیفہ عمر کے حکم پر عمل کرتے ہوئے عمروابن معدی کرب اور اشعث بن قیس کندی کہ دونوں قحطانی یمانی تھے کو ایک گروہ کے ہمراہ مدائن بھیجا ۔ جب یہ لوگ ایرانی سپاہیوں کے کیمپ کے نزدیک سے گزررہے تھے تو ایرانی محافظوں نے انھیں اپنے کمانڈر انچیف رستم کی خدمت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی ۔رستم نے ان سے پوچھا : کہاں جا رہے تھے اور تمھارا ارادہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : کسریٰ کی خدمت میں مدائن جا رہے تھے

بلازری لکھتا ہے :

ان کے اور رستم کے درمیان کافی گفتگو ہوئی ۔اس حد تک کہ انھوں نے کہا :

پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں نوید دی ہے کہ تمھاری سرزمین کو ہم اپنے قبضے میں لے لیں گے رستم نے جب ان سے یہ بات سنی تو حکم دیا کہ مٹی سے بھری ایک زنبیل لائی جائے ۔اس کے بعد ان سے مخاطب ہو کر کہا:یہ ہمارے وطن کی مٹی ہے تم لوگ اسے لے جائو ۔رستم کی یہ بات سننے کے بعد عمرو بن معدی کرب فورا ًاٹھا اپنی رد ا پھیلا دی اور مٹی کو اس میں سمیٹ کر اپنے کندھوں پر لئے ہوئے وہاں سے چلا ۔اس کے ساتھیوں نے اس سے سوال کیا کہ کس چیز نے تمھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ اس نے جواب میں کہا : رستم نے جوعمل انجام دیا ہے اس سے میرے دل نے گواہی دی کہ ہم ان کی سر زمین پر قبضہ کر لیں گے اور اس کا م میں کامیاب ہوں گے ۔

۳۰۱

سند کی تحقیق :

اس داستان کی سند میں دو راویوں کے نام اس طرح آئے ہیں '' عن بنت کیسان الضبیة عن بعض سبا یا القاد سیہ ممن حسن اسلامہ ''(۱) یعنی کیسان ضبیی کی بیٹی سے اس نے جنگ قادسیہ کے ایک ایرانی اسیر سے روایت کی ہے ۔جس نے اسلام قبول کیا ۔

اب ہم سیف سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیسان کی بیٹی کا کیا نام تھا؟ خود کیسان کون تھا؟ ایک ایرانی اسیر کا اس کے خیال میں کیا نام ہے ؟ تاکہ ہم راویوں کی کتاب میں ان کو ڈھونڈ نکالتے !!

تحقیق کا نتیجہ اور داستان کا ماحصل:

سعد وقاص ،عمرو ابن معدی کرب اور اشعث بن قیس قندی کہ دونوں قحطانی یمانی

تھے و چند افراد کے ہمراہ ایلچی کے طور پر کسریٰ کے پاس بھیجا ہے کہ ان لوگوں کی راستے میں ایرانی فوج کے کمانڈرانچیف رستم فرخ زاد سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ،ان کے اور رستم کے درمیان گفتگو ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں عمرو ایران کی سرزمین کی مٹی بھری ایک زنبیل لے کر واپس ہوتا ہے ۔سیف بن عمرتمیمی خاندانی تعصب کی بنا پر یہ پسند نہیں کرتا کہ اس قسم کی مسئولیت خاندان قحطانی یمانی کا کوئی فرد انجام دے جس سے سیف عداوت و دشمنی رکھتا ہے ۔اس لئے اس کے بارے میں تدبیر کی فکر میں لگتاہے اورحسب سابق حقائق میں تحریف کرتا ہے ۔اس طرح قبیلہ مضرکے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو ان دو افراد کی جگہ پر رکھ کر اس گروہ کے ساتھ دربار کسریٰ میں بھیجتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے

____________________

الف )۔ تاریخ طبری طبع یورپ (٢٢٣٨١ ٢٢٤٥)

۳۰۲

کہ اس کے اور کسریٰ کے درمیان گفتگو ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں کسریٰ کے ہاں سے مٹی اٹھا کر لانا عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے دشمن پر فتحیابی کا فال نیک ثابت ہو تاہے ۔

سیف خاندانی تعصب کی بناء پر ایک تاریخی حقیقت میں تحریف کرکے عمرو بن معدی کرب جیسے یمانی و قحطانی فرد کی ماموریت ،جرأت اور شجاعت کو قلم زد کردیتا ہے اور اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو رکھ دیتا ہے ۔ایرانی فوج کے کمانڈر انچیف رستم فرخ زاد کے پاس منعقد ہونے والی مجلس و گفتگو کو کسریٰ کے دربار میں لے جاکر رستم کے حکم کو کسریٰ کے حکم میں تبدیل کردیتا ہے اور اس طرح کے افسانے جعل کرکے محققین کو حیرت اور تشویش سے دو چار کرتا ہے

عاصم کی تقریر

طبری نے قادسیہ کی جنگ کے آغاز میں سیف سے یوں نقل کیا ہے:

اسلامی فوج کے کمانڈرانچیف سعد وقاص نے اپنی فوج میں ایک گروہ کو حکم دیا کہ نہر ین کے آبادی والے علاقوں پر حملہ کریں ۔اس گروہ کے افراد نے حکم کی تعمیل کی اور اچانک حملہ کرکے اپنے کیمپ سے بہت دور جا پہنچے ۔اس حالت میں ایک ایرانی فوج کے سوار دستہ سے دو چار ہوئے اور یہ محسوس کیا کہ اب نابودی یقینی ہے ۔جوں ہی یہ خبر سعد وقاص کو ملی تواس نے فوراً عاصم بن عمرو تمیمی کو ان کی مدد کے لئے روانہ کیا ۔ایرانیوں نے جوں ہی عاصم کو دیکھا تو ڈر کے مارے سب فرار کر گئے !! جب عاصم اسلامی سپاہ کے پاس پہنچا تو اس نے حسب ذیل تقریر کی :

'' خدائے تعالیٰ نے یہ سرزمین اور اس کے رہنے والے تمھیں عطا کئے ہیں ، تین سال سے تم اس پر قابض ہو اور ان کی طرف سے کسی قسم کا صدمہ پہنچے بغیر ان پر حکمرانی اور برتری کے مالک ہو''

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا شیوہ بنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے اور اچھی طرح تلوار چلائوگے اور خوب نیزہ اندازی کروگے تو خدا ئے تعالیٰ تمھارے ساتھ ہے ،اس صورت میں ان کا مال و منال ، عورتیں ، اولاد اور ان کی سر زمین سب تمھارے قبضہ میں ہوگی ۔

۳۰۳

لیکن اگر خدا نخواستہ کسی قسم کی کوتاہی اور سستی دکھائو گے تو دشمن تم پر غالب آجائے گا اور اس ڈر سے کہ کہیں تم لوگ دو بارہ منظم ہوکر ان پر حملہ کرکے ان کو نیست و نابود نہ کر دو ،انتہائی کوشش کرکے تم میں سے ایک آدمی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے ۔

اس بنا پر خدا کو مد نظر رکھو ،اپنے گزشتہ افتخارات کو یاد رکھو اور خدا کی عنایتوں کو ہر گز نہ بھولو ۔ اپنی نابودی اور شکست کے لئے دشمن کو کسی صورت میں بھی فرصت نہ دو ۔کیا تم اس خشک و بنجر سرزمین کو نہیں دیکھ رہے ہو ۔نہ یہاں پر کوئی آبادی ہے اور نہ پناہگاہ کہ شکست کھانے کی صورت میں تمھارا تحفظ کر سکے ؟ لہٰذا ابھی سے اپنی کوشش کو آخرت اور دوسری دنیا کے لئے جاری رکھو ۔

ایک اور تقریر

طبری سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

سعد وقاص نے دشمن سے نبرد آزمائی کے لئے چند عقلمند اور شجاع افراد کا انتخاب کیا جن میں عاصم بن عمرو بھی شامل تھا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا:

''اے عرب جماعت !تم لوگ قوم کی معروف اور اہم شخصیتیں ہو جو ایران کی معروف اور اہم شخصیتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے منتخب کئے گئے ہو ،تم لوگ بہشت کے عاشق ہو جب کہ وہ دنیا کی ہو او ہوس اور زیبائیوں کی تمناّ رکھتے ہیں ۔ اس مقصد کے پیش نظر ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے دنیوی مقاصد میں تمھارے اخروی مقاصد کے مقابلے میں بیشتر تعلق خاطر رکھتے ہوں !تو اس صورت میں ان کی دنیا تمھاری آخرت سے زیادہ زیبا و آباد ہوگی ۔''

لہٰذا آج ایسا کام نہ کرناجو کل عربوں کے لئے ننگ و شرمندگی کا سبب بنے !

جب جنگ شروع ہوئی تو عاصم بن عمرو تمیمی حسب ذیل رجز خوانی کرتے ہوئے میدان جنگ کی طرف حملہ آور ہوا ۔

سونے کی مانند زرد گردن والا میرا سفید فام محبوب اس چاندی کے جیسا ہے جس کا غلاف سونے کا ہو ۔وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ایک ایسامرد ہوں جس کا تنہا عیب دشنامی ہے ۔اے میرے دشمن !یہ جان لو کہ ملامت سننا مجھے تم پر حملہ کے لئے بھڑکاتاہے ۔''

۳۰۴

اس کے بعد ایک ایرانی مرد پر حملہ آور ہوا، وہ مرد بھاگ گیا ،عاصم نے اس کا پیچھا کیا ، حتی وہ مرد اپنے سپاہیوں میں گھس گیا اور عاصم کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔عاصم اس کا تعاقب کرتے ہوئے دشمن کے سپاہیوں کے ہجوم میں داخل ہوا اور اس کا پیچھا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اس کی ایک ایسے سوارسے مڈبھیڑ ہو ئی جو ایک خچر کی لگام پکڑکر اسے اپنے پیچھے کھینچ رہا تھا سوار نے جب عاصم کو دیکھا تو خچر کی لگام چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو سپاہیوں کے اندر چھپا دیا انھوں نے بھی اسے پناہ دے دی عاصم خچر کو بار کے سمیت اپنی سپاہ کی طرف لے چلا اس خچر پر لدا ہو ابار ، ایرانی کمانڈرانچیف کے لئے انواع و اقسام کے کھانے ، جیسے حلوا ،شہد اور شربت وغیرہ تھے معلوم ہوا کہ وہ آدمی کمانڈر انچیف کا خانساماں تھا ۔

عاصم نے کھانوں کو سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا اور خود اپنی جگہ لوٹا ۔ سعد وقاص نے انھیں دیکھ کر حکم دیا کہ تمام مٹھائیوں کو عاصم کے افراد میں تقسیم کر دیا جائے اور انھیں پیغام بھیجا کہ یہ تمھارے سردار نے تمھارے لئے بھیجا ہے،تمھیں مبارک ہو!

۳۰۵

ارماث کادن

سیف کی روایت کے مطابق : عاصم کی تقریر کے بعد قادسیہ کی جنگ شروع ہو گئی یہ جنگ تین دن تک جاری رہی اور ہر دن کے لئے ایک خاص نام رکھا گیا ،اس کے پہلے دن کا نام '' ارماث'' تھا۔(۱)

طبری نے سیف سے روایت کرکے ارماث کے دن کے بارے میں یوں لکھا ہے :

اس دن ایرانی پوری طاقت کے ساتھ اسلامی فوج پر حملے کر رہے تھے اور جنگ کے شعلے قبیلہ اسد کے مرکز میں بھڑک اٹھے تھے ،خاص کر ایران کے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کی سوار فوج کا شیرازہ بالکل بکھر چکا تھا ۔سعد وقاص نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے عاصم بن عمرو کو پیغام بھیجا کہ : کیا تم تمیمی خاندان کے افراد اتنے تیز رفتار گھوڑوں اور تجربہ کار اور کارآمد اونٹوں کے باوجود دشمن کے جنگی ہاتھیوں کا کوئی علاج نہیں کر سکتے ؟ قبیلہ تمیم کے لوگوں نے اور ان کے آگے آگے اس قبیلہ کے جنگجو پہلوان اور شجاع عاصم بن عمرو نے سعد کے پیغام کا مثبت جواب دیتے ہوئے کہا: جی ہاں !خد اکی قسم ہم یہ کان انجام دے سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کا م کے لئے کھڑے ہوگئے

عاصم نے قبیلہ تمیم میں سے تجربہ کار اور ماہر تیر انداز وں اور نیزہ بازوں کے ایک گروہ کا انتخاب کیا اور جنگی ہاتھیوں سے جنگ کرنے کی حکمت عملی کے بارے میں یوں تشریح کی :

تیر اندا ز قبیلہ تمیم کے نیزہ بازوں کی مدد کریں ،ہاتھی بان اور ہاتھیوں پر تیروں کی بوچھار کریں گے اور نیزہ باز جنگی ہاتھیوں پرپیچھے سے حملہ کریں گے اور ہاتھیوں کی پیٹیاں کاٹ کر ان کی پیٹھ پر موجود کجاوے الٹ کر گرا دیں ،عاصم نے خود دونوں فوجی دستوں کی قیادت سنبھالی ۔

____________________

الف )۔ قعقاع کی داستان میں ان تین دنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

۳۰۶

قبیلہ اسد کے مرکز میں جنگ کے شعلے بدستور بھڑک رہے تھے ۔میمنہ اور میسرہ کی کوئی تمییز نہیں کر سکتا تھا ۔عاصم کے جنگجو ئوں نے دشمن کے ہاتھیوں کی طرف ایک شدید حملہ کیا ۔اس طرح ایک خونین جنگ چھڑ گئی عاصم کے افراد ہاتھیوں کی دموں او ر محمل کے غلاف کی جھالروں سے آویزاں ہو کر ان پر حملے کر رہے تھے اور بڑی تیزی سے ان کی پیٹیاں کاٹ رہے تھے اور دوسری طرف سے تیر انداز اور نیزہ باز بھی ہاتھی بانوں پر جان لیوا حملے کر رہے تھے اس دن (ارماث کے دن) دشمن کے ہاتھیوں میں سے نہ کوئی ہاتھی زندہ بچا او ر نہ ہاتھی سوار اور کوئی محمل بھی باقی نہ بچی ۔خاندان تمیم کے تجربہ کار تیر اندازوں کی تیر اندازی سے دشمن کے تمام ہاتھی اور ہاتھی سوار بھی نابود ہوئے اور اس طرح جنگی ہاتھیوں کے اس محاذ پر دشمن کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی وقت دشمن کے جنگی ہاتھی غیر مسلح ہوئے اور خاندان اسد میں جنگ کے شعلے بھی قدر ے بجھ گئے ۔سوار فوجی اس گرماگرم میدان جنگ سے واپس آرہے تھے ۔اس دن عاصم لشکر اسلام کا پشت پناہ تھا۔

قادسیہ کی جنگ کے اس پہلے دن کا نام ''ارماث'' رکھا گیا ہے ۔اسی داستان کے ضمن میں سیف کہتا ہے :

جب سعد وقاص کی بیوی سلمیٰ جو پہلے مثنی کی بیوی تھی نے ایرانی فوج کے حملے اور ان کی شان وشوکت کا قبیلہ اسد کے مرکز میں مشاہدہ کیا تو فریاد بلند کرکے کہنے لگی:کہاں ہو اے مثنی ! ان سواروں میں مثنی موجود نہیں ہے ،اس لئے اس طرح تہس نہس ہورہے ہیں ،اگر ان میں مثنی ہوتا تو دشمن کو نیست ونابود کرکے رکھ دیتا!

سعد ،بیمار اور صاحب فراش تھا،اپنی بیوی کی ان باتوں سے مشتعل ہوا اور سلمیٰ کو ایک زور دار تھپڑ مار کے تند آواز میں بولا : مثنی کہاں اور یہ دلیر چابک کہاں !جو بہادری کے ساتھ میدان جنگ کو ادارہ کر رہے ہیں ۔سعد کا مقصود خاندان اسد ،عاصم بن عمرو اور خاندان تمیم کے افراد تھے ۔

۳۰۷

یہ وہ مطالب تھے جنھیں طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرکے روز '' ارماث'' اور اس دن کے واقعات کے تحت درج کیا ہے ۔

حموی لفظ ''ارماث'' کی تشریح میں قمطراز ہے :

گویا ''ارماث'' لفظ ''رمث'' کی جمع ہے ۔یہ ایک بیابانی سبزی کا نام ہے ۔

بہر حال ''ارماث'' جنگ قادسیہ کے دنوں میں سے پہلا دن ہے۔ عاصم بن عمرو اس کے بارے میں اس طرح شعر کہتا ہے :

'' ہم نے ''ارماث '' کے دن اپنے گروہ کی حمایت کی اور ایک گروہ نے اپنی نیک کارکردگی کی بناء پر دوسرے گروہ پر سبقت حاصل کی ''

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنھیں سیف نے ''ارماث'' کے دن کی جنگ اور عاصم کی شجاعت کے بارے میں ذکر کیاہے ۔دوسرے دن کو روز ''اغواث'' کا نام رکھا گیا ہے ۔

روز ''اغواث''

روز ''اغواث''کے بارے میں طبری نے قادسیہ کی جنگ کے دوسرے دن کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

اس دن خلیفہ عمر بن خطاب کی طرف سے ایک قاصد ،چار تلوار یں اور چار گھوڑے لے کر جنگ قادسیہ کے کمانڈرانچیف سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا کہ وہ انھیں بہترین جنگجوئوں اور مجاہدوں میں تحفے کے طور پر تقسیم کرے ۔سعد نے ان میں سے تین تلوار یں قبیلہ اسد کے دلاوروں میں تقسیم کیں اور چوتھی تلوار عاصم بن عمرو تمیمی کو تحفے کے طور پر دی اور تین گھوڑے خاندان تمیم کے پہلوانوں میں تقسیم کئے اور چوتھا گھوڑا بنی اسد کے ایک سپاہی کو دیا ۔اس طرح عمر کے تحفے صرف اسد اور تمیم کے دو قبیلوں میں تقسیم کئے گئے ۔

۳۰۸

روز'' عماس''

جنگ قادسیہ کا تیسرا دن ''عماس'' ہے۔

طبری '' عماس'' کے دن کے جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے یوں بیان کرتا ہے :

قعقاع نے روز '' عماس'' کی شام کو اپنے سپاہیوں کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے بچاکر مخفی طور سے اسی جگہ لے جاکر جمع کیا ،جہاں پر روز ''اغواث''کی صبح کو اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے میدان جنگ میں آنے کا حکم دیا تھا ۔فرق صرف یہ تھا کہ اب کی بار حکم دیا کہ پو پھٹتے ہی سو ،سو افراد کی ٹولیوں میں سپاہی میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ اسلام کے سپاہی مدد پہنچنے کے خیال سے ہمت پیدا کر سکیں او ر دشمن پر فتح پانے کی امید بڑھ جائے ،قعقاع کے بھائی عاصم نے بھی اپنے سواروں کے ہمراہ یہی کام انجام دیا اور ان دو تمیمی بھائیوں کی جنگی چال کے سبب اسلام کے سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔

سیف کہتا ہے : ''عماس'' کے دن دشمن کے جنگی ہاتھیوں نے ایک بار پھر اسلامی فوج کی منظم صفوں میں بھگدڑ مچا کر '' ارماث'' کے دن کی طرح اسلامی فوج کے شیرازہ کو بکھیر کر رکھ دیا ۔سعد نے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کا مشاہدہ کیا ،تو خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو بھائیوں قعقاع و عاصم ابن عمرو کو پیغام بھیجا اور ان سے کہا کہ سر گروہ اور پیش قدم سفید ہاتھی کا کام تمام کرکے اسلام کے سپاہیوں کو ان کے شر سے نجات دلائیں ۔کیوں کہ باقی ہاتھی اس سفید ہاتھی کی پیروی میں آگے بڑھ رہے تھے ۔

قعقاع اور عاصم نے دشمن کے جنگی ہاتھیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا انھوں نے دو محکم اور نرم نیزے اٹھالئے اور پیدل اور سوار فوجوں کے بیچوں بیچ سفید ہاتھی کی طرف دوڑ ے اور اپنے سپاہیوں کو بھی حکم دیا کہ چاروں طرف سے اس ہاتھی پر حملہ کرکے اسے پریشان کریں جب وہ اس ہاتھی کے بالکل نزدیک پہنچے تو اچانک حملہ کیا اور دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ اپنے نیزے سفید ہاتھی کی آنکھوں میں بھونک دئے ۔ہاتھی نے درد کے مارے تڑپتے ہوئے اپنے سوار کو زمین پر گرا دیا اور زور سے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے اپنی سونڈ اوپر اٹھا ئی اور ایک طرف گر گیا ۔قعقاع نے تلوار کی ایک ضرب سے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی ۔

۳۰۹

سیف نے عاصم بن عمرو کے لئے '' لیلة الھریر '' سے پہلے اور اس کے بعد کے واقعات میں بھی شجاعتوں ،دلاوریوں کی داستانیں گڑھی ہیں اور ان کے آخر میں کہتا ہے :

جب دشمن کے سپاہیوں نے بری طرح شکست کھائی اور مسلمان فتحیاب ہوئے تو ایرانی فوجی بھاگ کھڑے ہوئے ۔بعض ایرانی سردار وں اور جنگجوئوں نے فرار کی ذلت کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی جگہ پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ان کے ہی برابر کے چند مشہور اور نامور عرب سپاہی ان کے مقابلے میں آئے اور دوبارہ دست بدست جنگ شروع ہوئی ۔ان مسلمان دلاوروں میں دو تمیمی بھائی قعقاع اور عاصم بھی تھے ۔عاصم نے اس دست بدست جنگ میں اپنے ہم پلہ ایک نامور ایرانی پہلوان زاد بھش ،جو ایک نامور اوربہادر ایرانی جنگجو تھا ،کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٦ اور اسی طرح قعقاع نے بھی اپنے ہم پلہ پہلوان کو قتل کر ڈالا۔

تاریخ اسلام کی کتابوں میں اس داستان کی اشاعت :

جو کچھ یہاں تک بیان ہو ا یہ سیف کی وہ باتیں تھیں جو اس نے ناقابل شکست پہلوان ، شہسوار،دلیر عرب، شجاع، قعقاع بن عمرو تمیمی نامی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی نامور سیاستداں اور جنگی میدانوں کے بہادر اس کے بھائی اور صحابی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمر تمیمی کے بارے میں بیان کی ہیں ۔سیف بن عمر تمیمی کے ان دو افسانوی بھائیوں جو سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں کی داستانوں کو امام المؤرخین طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی معتبر اور گراں قدر کتاب میں درج کیا ہے ، اور اس کے بعد دوسرے مورخین ،جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی ان روایتوں کی سند کا اشارہ کئے بغیر طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ اس طرح ابن کثیر نے اس داستان کو طبری سے نقل کرتے ہوئے گیارہ جگہوں پر سیف کا نام لیا ہے ۔

۳۱۰

سند کی تحقیق :

ان داستانوں کی سند میں جند راوی مثل نضربن سری تین روایتوں میں ،ابن رخیل اور حمید بن ابی شجار ایک ایک روایت میں ذکر ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد اور زیادہ کا نام بھی راویوں کے طور پر لیا گیا ہے ۔ان سب راویوں کے بارے میں ہم نے مکرر لکھا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے اور سیف کے جعلی راوی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ

یہاں تک ہم نے عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں '' گائے کادن '' اور قاسیہ کی جنگ کے تین دنوں کے بارے میں پڑتال کی اور حسب ذیل نتیجہ واضح ہوا :

سیف منفرد شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ علاقۂ میسان کے کچھار میں گائے نے عاصم بن عمرو سے گفتگو کی اور حجاج بن یوسف ثقفی کی تحقیق کو اس کی تائید کے طور بیان کرتا ہے حجاج بن یوسف ثقفی برسوں بعد اس داستان کے بارے میں تحقیق کرتا ہے،عینی شاہد اس کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ داستان بالکل صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں ہے اگرچہ آپ اسے با ور نہ کریں گے ،کیوں کہ اگر ہم بھی آپ کی جگہ پر ہوتے اور ایسی داستان سنتے تو ہم بھی یقین نہ کرتے ۔اس وقت حجاج اس مرد خدا (عاصم) اور کامل روحانی شخص جس کی تلاش اسے پہلے ہی سے تھی کے بارے میں سر ہلاتے ہوئے تصدیق کرتا ہے اور خاص کر تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام افراد جنھوں نے جنگ قادسیہ میں شرکت کی ہے ،وقت کے پارسااور نیک افراد تھے ۔یہ سب تاکید پر تاکید گفتگو ،تائید و تردید اس لئے ہے کہ سیف بن عمر جس نے تن تنہا اس افسانہ کو جعل کرکے نقل کیا ہے ،دوسروں کو قبول کرائے کہ یہ واقعہ افسانہ نہیں ہے اور کسی کے ذہن کی تخلیق نہیں ہے اور اس قصہ میں کسی قسم کی بد نیتی اورخود غرضی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت تھی جو واقع ہوئی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس قسم کے افسانوں کو طبری کی کتاب تاریخ میں پڑھیں اور یقین کریں کہ طبری کے تمام مطالب حقیقت پر مبنی ہیں ۔نتیجہ کے طور پر اسلام کے حقائق آیات الٰہی اور پیغمبروںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معجزات کا آسانی کے ساتھ انکار کرنا ممکن ہو جائے گا اور ایسے موقع پر سیف اور سیف جیسے دیگر لوگ خوشیوں سے پھولے نہیں سمائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ سیف کے ہم مسلک اور ہم عقیدہ لوگ طبری کو شاباش اور آفرین کہتے ہیں اور اسے پیار کرتے ہیں ۔اور ہم بھی کہتے ہیں : '' شاباش '' ہو تم پر طبری !!

۳۱۱

بہر حال سیف نے میسان کے کچھار میں چھپا کے رکھی گئی گائے کی عاصم سے باتیں کرنے کا افسانہ گڑھا ہے ،جب کہ دوسرے مورخوں نے کہا ہے کہ : جب سعد کی سپاہ کو مویشیوں کے لئے چارہ اور اپنے لئے کھانے کی ضرورت ہوئی تھی تو سعد وقاص حکم دیتا تھا کہ دریا ئے فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار کر کے اپنی ضرورت توں کی چیزیں حاصل کریں ۔ان دنوں سپاہ کے حالا ت کے پیش نظر یہی موضوع بالکل مناسب اور ہماہنگ نظر آتا ہے ۔

اسی طرح سیف کہتا ہے کہ کسریٰ نے اس کی خدمت میں آئے ہوئے شریف اور محترم قاصدوں کے ذریعہ سر زمین ایران کی مٹی بھیجنے کاحکم دیا عاصم بن عمرو تمیمی مضری ،کسریٰ کے اس عمل کو نیک شگون جانتا ہے اور مٹی کو اٹھا کر سعدوقاص کے پاس پہنچتا ہے اور دشمن پر فتح و کامرانی کی نوید دیتا ہے ۔جب کہ دوسروں نے لکھاہے کہ ایرانیوں کے سپہ سالار رستم نے ایسا کیا تھا اور جو شخص مٹی کو سعد کے پاس لے گیا وہ عمر بن معدی کرب قحطانی یمانی تھا۔

اس کے علاوہ سیف وہ منفرد شخص ہے جو عاصم کی جنگوں ،تقریروں ،رجز خوانیوں ، جنگ قادسیہ میں '' ارماث'' ،''اغواث'' اور'' عماس'' کے دن اس کی شجاعتوں اور دلاوریوں کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے ،جب کہ دینوری اوربلاذری نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں مکمل اور مفصل تشریح کی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی ''ارماث'' ،''اغواث'' اور ''عماس'' کا نام تک نہیں لیا ہے اور سیف کے یہ تمام افسانے بھی ان کے ہاں نہیں ملتے ۔ہم نے یہاں پر بحث کے طولانی ہونے کے اندیشہ سے جنگ قادسیہ کے بارے میں بلاذری اور دینوری کی تفصیلات بیان کرنے سے پرہیز کیا ہے اور قارئین کرام سے اس کے مطالعہ کی درخواست کرتے ہیں ۔

۳۱۲

قادسیہ کے بارے میں سیف کی روایتوں کے نتائج :

١۔ میسان کے کچھار میں گائے کا اس کے ساتھ فصیح عربی زبان میں بات کرنے کا افسانہ کے ذریعہ صحابی بزرگوار اور خاندان تمیم کے نامور پہلوان عاصم بن عمرو کے لئے کرامت جعل کرنا ۔

٢۔ دربارکسریٰ میں بھیجے گئے گروہ میں عاصم بن عمرو کی موجودگی اور اس کا اچانک اور ناگہانی طور پر مٹی کو اٹھا کر سعد وقاص کے پاس لے جانا اوراس فعل کو نیک شگون سے تعبیر کرنا۔

٣۔عمروتمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کو ایسی بلندی ،اہمیت اور مقام و منزلت کا حامل دکھانا کہ تمام کامیابیوں کی کلیدانہی کے پاس ہے ۔کیا یہ عاصم ہی نہیں تھا جس کے حکم سے خاندان تمیم کے تیر اندازوں اور نیزہ برداروں نے دشمن کے ہاتھیوں اور ان کے سواروں کو نابود کرکے رکھ دیا اور ہاتھیوں کی پیٹھ پر جو کچھ تھا ''ارماث'' کے دن انھوں نے اسے نیچے گرا دیا؟!

٤۔یہ کہنا کہ: مثنی کہاں اور عاصم جیسا شیر دل پہلوان کہاں !! تاکہ مثنی کی سابقہ بیوی سلمیٰ پھر کبھی زبان درازی نہ کرے اور ایسے لشکر شکن پہلوان جوجنگ کرتا ہے اور دوسرے مجاہدوں کی مدد بھی کرتا ہے کوحقیر نہ سمجھے ۔

٥۔سب سے آگے آنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کرنے کے بعد ہاتھی سوار فوجی دستے کو درہم برہم کرکے ایرانیوں کو بھگا کر دو افسانوی پہلوانوں قعقاع اور عاصم کے لئے فخر و مباہات میں اضافہ کرنا۔

قبیلہ نزار اور خاندان تمیم کے لئے سیف نے یہ اوراس قسم کے دسیوں افتخارات جعل کئے ہیں تاکہ طبری ،ابن عساکر ،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے مورخین انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کریں اور صدیاں گزر جانے کے بعد دین کو سطحی اور ظاہری نگاہ سے دیکھنے والے انھیں آنکھوں سے لگا ئیں اورمضر ،نزار اور خاص کر خاندان تمیم کو شاباشی دیں !اور اس کے مقابلے میں ان کے دشمنوں ، یعنی قحطانی یمانی قبیلوں جن کے بارے میں سیف نے بے حد رسوائیاں اور جھوٹ کے پوٹ گڑھے ہیں سے لوگوں کے دلوں میں غصہ و نفرت پیدا ہو جائے اوروہ رہتی دنیا تک انھیں لعنت و ملامت کرتے رہیں ۔

۳۱۳

عاصم ''جراثیم'' کے دن !

قتلوا عامتهم ونجا منهم عورانا

اسلام کے سپاہیوں نے دشمن کے سپاہیوں کایک جا قتل عام کیا ۔ان میں صرف وہ لوگ بچ رہے جو اپنی آنکھ کھو چکے تھے ۔

( سیف بن عمر)

سیف نے ''جراثیم کے دن''کی داستان ،مختلف روایتوں میں نقل کی ہے ۔یہاں پر ہم پہلے روایتوں کو بیان کریں گے اور اس کے بعد ان کے متن و سند پر تحقیق کریں گے :

١۔ جریر طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

سعد وقاص سپہ سالار اعظم قادسیہ کی جنگ میں فتح پانے کے بعد ایک مدت تک دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران و پریشان سوچتا رہا کہ اس وسیع دریا کو کیسے عبور کیا جائے ؟! کیوں کہ اس سال دریائے دجلہ تلاطم اور طغیانی کی حالت میں موجیں مار رہا تھا ۔

سعد وقاص نے اتفاقاً خواب دیکھا تھا کہ مسلمانوں کے سپاہی دریائے دجلہ کو عبور کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ چکے ہیں ۔لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے اس نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور خدا کی بارگاہ میں حمد و ثنا کے بعد یوں بولا:

تمھارے دشمن نے تمھارے خوف سے اس عظیم اور وسیع دریا کی پناہ لی ہے اور ان تک تمھاری رسائی ممکن نہیں ہے ،جب کہ وہ اپنی کشتیوں کے ذریعہ تم لوگوں تک رسائی رکھتے ہیں اور جب چاہیں ان کشتیوں کے ذریعہ تم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اس نے کہا:

۳۱۴

یہ جان لو کہ میں نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ دریا کو عبور کرکے ان پر حملہ کروں گا ۔سپاہیوں نے ایک آواز میں جواب دیا : خدائے تعالیٰ آپ کا اور ہمارا راہنما ہے ،جو چاہیں حکم دیں !اور سپاہیوں نے اپنے آپ کو دجلہ پار کرنے کے لئے آمادہ کیا ۔سعد نے کہا: تم لوگوں میں سے کون آگے بڑھنے کے لئے تیار ہے جو دریا پار کرکے ساحل پر قبصہ کرلے وہاں پر پائوں جمائے اور باقی سپاہی امن و سکون کے ساتھ اس سے ملحق ہوجائیں اور دشمن کے سپاہی دجلہ میں ان کی پیش قدمی کو روک نہ سکیں ؟ عربوں کا نامور پہلوان عاصم بن عمر و پہلا شخص تھا جس نے آگے بڑھ کر سعد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ۔عاصم کے بعد چھہ سوشجاع جنگجو بھی عاصم سے تعاون کرنے کے لئے آگے بڑھے سعد و قاص نے عاصم کو ان چھہ سوافراد کے گروہ کا کمانڈر معین کیا ۔

عاصم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے پر پہنچ گیا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا : تم لوگوں میں سے کون حاضر ہے جو میرے ساتھ دشمن پرحملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ہم دریا کے دوسرے ساحل کو دشمنوں کے قبضہ سے آزاد کردیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے تاکہ باقی سپاہی بھی ہم سے ملحق ہو جائیں ؟ ان لوگوں میں سے ساٹھ آدمی آگے بڑھے ،عاصم نے انھیں تیس تیس نفر کی دو ٹولیوں میں تقسیم کیا اور گھوڑوں پر سوار کیا تاکہ پانی میں دوسرے ساحل تک پہنچنے میں آسانی ہو جائے ۔اس کے بعد ان ساٹھ افراد کے ساتھ خود بھی دریائے دجلہ میں اتر گیا۔

جب ایرانیوں نے مسلمانوں کے اس فوجی دستے کو دریا عبور کرکے آگے بڑھتے دیکھا ،تو انھوں نے اپنی فوج میں سے ان کی تعداد کے برابر فوجی سواروں کو مقابلہ کے لئے آمادہ کرکے آگے بھیج دیا ۔ایران کے سپاہیوں کا ساٹھ نفری گروہ عاصم کے ساٹھ نفری گروہ جوبڑی تیزی کے ساتھ ساحل کے نزدیک پہنچ رہے تھے کے مقابلے کے لئے آمنے سامنے پہنچا ۔اس موقع پر عاصم نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں کہا : نیزے !نیزے ! اپنے نیزوں کو ایرانیوں کی طرف بڑھائو اور ان کی آنکھوں کو نشانہ بنائو !اور آگے بڑھو !عاصم کے سواروں نے دشمنوں کی آنکھوں کو نشانہ بنا یا اور آگے بڑھے ۔ایرانیوں نے جب یہ دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے ۔لیکن تب تک مسلمان ان کے قریب پہنچ چکے تھے اور تلواروں سے ان سب کا کام تمام کرکے رکھ دیا ۔جو بھی ان میں بچا وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا ۔اس فتح کے بعد عاصم کے دیگر افرادبھی کسی مزاحمت اور مشکل کے بغیر اپنے ساتھیوں سے جا ملے ۔

۳۱۵

سعد وقاص جب عاصم بن عمرو کے ہاتھوں ساحل پر قبضہ کرنے سے مطمئن ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو آگے بڑھنے اور دریائے دجلہ عبور کرنے کا حکم دیا اور کہا: اس دعا کو پڑھنے کے بعد دریائے دجلہ میں کود پڑو:

'' ہم خدا سے مدد چاہتے ہیں اورا سی پر توکل کرتے ہیں ۔ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہ بہتر ین پشت پناہ ہے ۔ خدائے تعالیٰ کے علاوہ کوئی مدد گار اور طاقتور نہیں ہے ''

اس دعا کے پڑھنے کے بعد سعد کے اکثر سپاہی دریا میں کود پڑے اور دریاکی پر تلاطم امواج پر سوار ہو گئے ۔دریا ئے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے سپاہی آپس میں معمول کے مطابق گفتگو کر رہے تھے ایک دوسرے کے دوش بدوش ایسے محو گفتگو تھے جیسے وہ ہموار زمین پر ٹہل رہے ہوں ۔

ایرانیوں کو جب ایسے خلاف توقع اورحیرت انگیز حالات کا سامنا ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح مسلمان ١٦ھ کو صفر کے مہینہ میں مدائن میں داخل ہو گئے ۔

٢۔ ایک اور حدیث میں ابو عثمان نہدی نامی ایک مرد سے سیف ایسی ہی داستان نقل کرتا ہے ،یہاں تک کہ راوی کہتا ہے:

دریائے دجلہ سپاہیوں ،منجملہ پیدل ،سواروں اور چوپایوں سے اس قدر بھر چکا تھا کہ ساحل سے دیکھنے والے کو پانی نظر نہیں آتا تھا ،کیوں کہ اسلام کے سپاہیوں نے حد نظر تک پورے دریا کو ڈھانپ رکھا تھا۔

دجلہ کو عبور کرنے کے بعد سواروں نے ساحل پر قدم رکھا۔گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور اپنی یال و گردن کو زور سے ہلا رہے تھے اور اس طرح ان کی یال و گردن سے پانی کے قطرات دوردور تک جا گرتے تھے ۔جب دشمن نے یہ عجیب حالت دیکھی تو فرار کر گئے ۔

۳۱۶

٣۔ایک اورروایت میں کہتاہے :

سعد وقاص اپنی فوج کو دریا میں کود نے کا حکم دینے سے پہلے دریائے دجلہ کے کناے پر کھڑا ہوکر عاصم اور اس کے سپاہیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا جو دریا میں دشمنوں کے ساتھ لڑرہے تھے ،اسی اثناء میں وہ اچانک بول اٹھا : خدا کی قسم !اگر '' خرسائ'' فوجی دستہ قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کو سیف نے خرساء دستہ نام دے رکھا تھا ان کی جگہ پر ہوتا اور دشمن سے نبرد آزما ہوتا تو ایسی ہی بہتر اور نتیجہ بخش صورت میں لڑتا ۔اس طرح اس نے فوجی دستہ ''اھوال'' عاصم کی کمانڈ میں افراد کو سیف نے اھوال نام رکھا تھا جو پانی اور ساحل پر لڑرہے تھے ،کی خرسا فوجی دستے سے تشبیہ دی ہے یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

جب عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ '' اھوال '' کے تمام افراد نے ساحل پر اتر کر اس پر قبضہ کر لیا توسعد وقاص اپنے دیگر سپاہیوں کے ساتھ دریائے دجلہ میں اترا ۔سلمان فارسی سعد وقاص کے شانہ بہ شانہ دریا میں چل رہے تھے یہ عظیم اور وسیع دریا اسلام کے سوار سپاہیوں سے بھر چکا تھا ۔اس حالت میں سعد وقاص نے یہ دعا پڑھی :

'' خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ ہمارے لئے بہترین پناہ گاہ ہے خدا کی قسم !پرور دگار اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے ،اس کے دین کو واضح کرتا ہے اور اس کے دشمن کو نابود کرتا ہے ، اس شرط پر کہ فوج گمراہی اور گناہ سے پاک ہو اوربرائیاں خوبیوں پر غلبہ نہ پائیں ''

سلمان نے سعد سے مخاطب ہو کر کہا :اسلام ایک جدید دین ہے ،خدا نے دریائوں کو مسلمانوں کا مطیع بنادیا ہے جس طر ح زمینوں کوان کے لئے مسخر کیا ہے ۔ا س کی قسم ،جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے !اس عظیم دریا سے سب لوگ جوق در جوق صحیح و سالم عبور کریں گے ،جیسے انھوں نے گروہ گروہ دریا میں قدم رکھا تھا ان میں سے ایک فرد بھی غرق نہیں ہوگا۔

دریائے دجلہ اسلام کے سپاہیوں سے سیاہ نظر آرہا تھا اور ساحل سے پانی دکھائی نہیں دیتا تھا اکثر افراد پانی میں اسی طرح آپس میں گفتگو کر رہے تھے جیسے خشکی پرٹہلتے ہوئے باتیں کرتے ہوں ۔سلمان کی پیشنگوئی کے مطابق سب سپاہی دریا سے صحیح و سالم باہر آگئے ۔نہ کوئی غرق ہوا اور نہ ان کے اموال میں سے کوئی چیز کم ہوئی ۔

۳۱۷

٤۔ایک دوسری روایت میں ایک اور راوی سے نقل کرکے کہتا ہے :

...سب خیریت سے ساحل تک پہنچ گئے ۔لیکن قبیلہ بارق کا غرقدہ نامی ایک مرد اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گرگیا ۔گویا کہ میں اس وقت بھی اس گھوڑے کو دیکھ رہا ہوں جو زین کے بغیر ہے اور خود کو ہلارہا ہے اور اپنی یال و گردن سے پانی کے چھینٹے ہوا میں اڑا رہا ہے ۔غرقدہ ،جو پانی میں ڈبکیاں لگا رہا تھا ،اسی اثنا میں قعقاع نے اپنے گھوڑے کا رخ ڈوبتے ہوئے غرقدہ کی طرف موڑلیااور اپنے ہاتھ کو بڑھا کر غرقدہ کا ہاتھ پکڑلیا اور اسے ساحل تک کھینچ لایا ۔قبیلہ بارق کا یہ شخص،غرقدہ ایک نامور پہلوان تھا ،وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہو کر بولا :''اے قعقاع بہنیں تم جیسے شخص کو پھر کبھی جنم نہیں دیں گی !وجہ یہ تھی کہ قعقاع کی ماں اس مرد کے قبیلہ ،یعنی قبیلہ بارق سے تھی۔

٥۔ایک اور روایت میں ایک دوسرے راوی سے اس طرح نقل کرتا ہے :

اس لشکر کے مال و اثاثہ سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوئی ۔صرف مالک بن عامر نامی ایک سپاہی

جو قریش کے ہم معاہدہ قبیلہ عنز سے تھا کا برتن بندھن فرسودہ ہو کر ٹوٹنے کی وجہ سے پانی میں گرگیا تھا اور پانی اسے بہالے گیا تھا ۔عامر بن مالک نام کا ایک شخص مالک کے شانہ بہ شانہ پانی میں چل رہاتھا ، اس نے مالک سے مذاق کرتے ہوئے کہا:تقدیر تمھارا برتن بہا لے گئی !مالک نے جواب میں کہا: میں سیدھے راستے پر ہوں اور خدائے تعالیٰ اتنے بڑے لشکر میں سے میرے برتن کو ہر گز مجھ سے نہیں چھینے گا !جب سب لوگ دریا سے عبور کرگئے، تو ایک شخص جو دریا کے نچلے حصے میں محا فظت کر رہا تھا ۔اس نے ایک برتن کو دیکھا جسے دریا کی لہریں ساحل کی طرف پھینک چکی تھیں ۔وہ شخص اپنے نیزے سے اس برتن کو پانی سے نکال کر کیمپ میں لے آیا۔مالک نے اپنے برتن کو حاصل کرتے ہوئے عامر سے مخاطب ہوکر کہا :کیا میں نے سچ نہیں کہا تھا؟

۳۱۸

٦۔ سیف ایک اور راوی سے نقل کرتے ہوئے ایک دوسری روایت میں یوں کہتاہے:

جب سعد وقاص نے لوگوں کوحکم دیاکہ دریا ئے دجلہ کوعبور کریں ،سب پانی میں اتر گئے اور دو دوآدمی شانہ بہ شانہ آگے بڑھتے رہے ۔دریائے دجلہ میں پانی کی سطح کافی حدتک اوپر آچکی تھی۔سلمان فارسی ،سعدوقاص کے شانہ بہ شانہ چل رہے تھے ۔اسی اثناء میں سعد نے کہا :یہ ''خدائے تعالیٰ کی قدرت ہے !!''دریائے دجلہ کی پرتلاطم لہریں انہیں اپنے ساتھ اوپرنیچے لے جارہی تھیں ۔ مسلمان آگے بڑھ رہے تھے ۔اگر اس دوران کوئی گھوڑاتھک جاتا تودریاکی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑااوپر اٹھ کر تھکے ہوئے گھوڑے کے چارپائوں کے بالکل نیچے آجاتاتھااوروہ گھوڑااس پر رک کر تھکاوٹ دور کرتاتھا،جیسے کہ گھوڑاکسی خشک زمین پرکھڑاہو!!مدائن کی طرف اس پیش قدمی میں اس سے بڑھ کرکوئی حیرت انگیز واقعہ پیش نہیں آیا۔اس دن کو ''یوم المائ''یعنی پانی کادن یا''یوم الجراثیم '' یعنی زمین کے ٹکڑے کادن کہتے ہیں ۔

٧۔ پھر ایک حدیث میں ایک راوی سے نقل کرکے لکھتاہے:

بعض لوگوں نے روایت کی ہے کہ جس دن اسلام کے سپاہی دریائے دجلہ سے عبور کرنے کے لئے اس میں کود پڑے اس دن کو زمین کے ٹکڑے کادن نام رکھاگیا ہے ۔کیونکہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتاتھا توفوراًدریا کی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑا اوپر اٹھ کر اس کے پائوں کے نیچے قرارپاجاتاتھا اور وہ اس پر ٹھہر کراپنی تھکاوٹ دور کرتاتھا۔

٨ ۔ ایک اور حدیث میں ایک اور راوی سے نقل کرتاہے:

ہم دریائے دجلہ میں کود پڑے جب کہ اس کی مو جوں میں تلاطم اور لہریں بہت اونچی اٹھ رہی تھیں ۔جب ہم اس کے عمیق ترین نقطہ پر پہنچ گئے تھے تو پانی گھوڑے کی پیٹی تک بھی نہیں پہنچتا تھا

٩۔سر انجام ایک دوسری حدیث میں ایک اور راوی سے روایت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ راوی کہتا ہے :

جس وقت ہم مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے ،ایرانیوں نے ہمیں دریائے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے دیکھا تو وہ ہمیں بھوتوں سے تشبیہ دے رہے تھے اور فارسی میں آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے : بھوت آگئے ہیں !بعض کہتے تھے : خدا کی قسم ہم انسانوں سے نہیں بلکہ جنوں سے جنگ کر رہے ہیں ۔

اس لئے سب ایرانی فرار کر گئے َ

۳۱۹

تاریخ کی کتابوں میں سیف کی روایتوں کی اشاعت:

مذکورہ تمام نو روایتوں کو طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور جو تاریخ لکھنے والے طبری کے بعد آئے ہیں ،ان سبوں نے روایات کی سند کا کوئی اشارہ کئے بغیر انھیں طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ابو نعیم نے بھی احادیث میں سے بعض کو بلا واسطہ سیف سے لے کر ''دلائل النبوة'' نامی اپنی کتاب میں درج کیاہے۔

لیکن دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے سلسلے میں دوسرے کیا لکھتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائیے :

حموی ،کوفہ کے بارے میں کی گئی اپنی تشریح کے ضمن میں ایرانی فوج کے سپہ سالار رستم فرخ زاد اور قادسیہ کی جنگ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

ایرانی کسان ،اسلامی فوج کو ایرانی سپاہیوں کی کمزوریوں کے بارے میں راہنمائی کرکے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہمدردی اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے اس کے علاوہ ان کو تحفے تحائف دے کر اور ان کے لئے روز انہ بازار قائم کرکے اپنے آپ کو بیشتر اسلام اور اس کی سپاہ کے نزدیک لاتے تھے ،سعد بن وقاص نے بزرگ مہر (ایرانی کمانڈر) کو پکڑنے کے لئے مدائن کی طرف عزیمت کی. یہاں تک کہ وہ لکھتا ہے :

اس نے دریائے دجلہ پر کوئی پل نہیں پایا کہ اپنی فوج کو دریا کے اس پار لے جائے بالآخر مدائن کے جنوب میں صیادین کی جگہ اس کی راہنمائی کی گئی جہاں پر ایک گزرگاہ تھی ۔اس جگہ پر دریا کی گہرائی کم ہونے کی وجہ سے سوار و پیادہ فوج کے لئے آسانی کے ساتھ دریا کو عبور کرنا ممکن تھا ۔سعد وقاص نے وہاں پر اپنی فوج کے ہمراہ دریا کو عبور کیا۔

خطیب ،ہاشم کی تشریح کے ضمن میں اپنی تاریخ میں لکھتا ہے:

جب قادسیہ کی جنگ میں خدائے تعالیٰ نے ایرانیوں کوشکست دیدی تووہ مدائن کی طرف پیچھے ہٹے ،سعد نے اسلامی فوج کے ہمراہ ان کا تعاقب کیا۔دریائے دجلہ کوعبور کرنے کے لئے مدائن کے ایک باشندہ نے ''قطر بل ''نام کی ایک جگہ کی راہنمائی کی جہاں پر دریا کی گہرائی کم تھی ۔سعد نے بھی اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اسی جگہ سے دریاکوعبور کرکے مدائن پرحملہ کیا ۔

۳۲۰