ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 416
مشاہدے: 203294
ڈاؤنلوڈ: 4286


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 203294 / ڈاؤنلوڈ: 4286
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 1

مؤلف:
اردو

طبری نے بھی اس داستان کی تفصیل میں ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کی ہے :

جب اسلامی فوج تمام سازوسامان ومال ومنال لے کر دریائے دجلہ کے ساحل پر پہنچی ، توسعددریاسے گزرنے کی ایک جگہ تلاش کرنے لگا۔لیکن دجلہ کوعبور کرنے کی کوئی راہ نہ پائی ۔بالآخر شہر مدائن کاایک باشندہ راہنمائی کے لئے سعد کی خدمت میں آیا اور سعد سے کہا:میں تم لوگوں کو ایک کم گہری جگہ سے عبور کراسکتا ہوں تاکہ تم لوگ دشمن کے دور ہونے سے پہلے اس تک پہنچ سکو ۔ اس کے بعد اس نے سعد کی سپاہ کو قطر بل نام کی ایک گزرگاہ کی طرف راہنمائی کی ۔ جس شخص نے اس گزرگاہ پر سب سے پہلے دریا میں قدم رکھاوہ ہاشم بن عتبہ تھاجو اپنے پیدل فوجیوں کے ہمراہ دریا میں کود پڑا ۔ جب ہاشم اوراس کے پیادہ ساتھی دریاسے گزر ے تو ہاشم کے سوار بھی دریا میں اترے ۔اس کے بعد سعد نے حکم دیاکہ عرفطہ کے سوار بھی دریائے دجلہ کوعبور کریں ۔اس کے بعد عیاض بن غنم کوحکم دیا کہ اپنے سوار فوجیوں کے ہمراہ دجلہ کوعبور کرے ۔اس کے بعد باقی فوجی دریا میں اترے اور اسے عبور کرگئے

ابن حزم بھی اپنی کتاب ''جمہرہ''میں لکھتا ہے :

اسلام کے سپاہیوں میں بنی سنبس کا سلیل بن زید تنہا شخص تھا جو مدائن کی طرف جاتے ہوئے دریائے دجلہ عبور کرنے کے دن غرق ہوا ۔اس کے علاوہ اس دن کوئی اور غرق نہیں ہواہے،

سند کی تحقیق:

طبری نے سیف کی پہلی روایت ،یعنی داستان کے اس حصہ کے بارے میں ،جہاں سے وہ سعد وقاص کے دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران حالت میں کھڑے رہنے کا ذکر کرتا ہے، وہاں سے سپاہیوں سے خطاب کرنے،عاصم کے پیش قدم ہونے ،سرانجام ساحل پرقبضہ کرنے اور ماہ صفر ١٦ھ میں مدائن میں داخل ہونے تک کسی راوی کاذکر نہیں کرتاہے اور نہ کسی قسم کی سند پیش کرتاہے۔

۳۲۱

لیکن دوسری روایت میں ،سیف داستان کو''ایک مرد''کی زبانی رو ایت کرتاہے ۔ ہمیں معلوم نہ ہوسکاکہ سیف نے اپنے خیال میں اس مرد کا کیا نام رکھاہے؟!تاکہ ہم راویوں کی فہرست میں اسے تلاش کرتے۔

اس کی پانچویں اور ساتویں روایت کے راوی محمد ،مھلب اور طلحہ ہیں کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں یہ سیف کی ذہنی تخلیق اور جعل کردہ راوی ہیں ۔

اسی طرح پانچویں روایت میں عمیر الصائری کوبھی راوی کی حیثیت سے پیش کرتاہے کہ ہم نے عمیر الصائری کانام سیف کی حدیث کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔اس نباء پرعمیر کوبھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کر تے ہیں ۔

لیکن تیسری اور چوتھی روایت کو ایسے رایوں سے نسبت دیتا ہے کہ جو در حقیقت موجود ہیں ایسے راوی تھے ۔لیکن ہم ہر گز یہ گناہ نہیں کرسکتے کہ سیف کے خود ساختہ جھوٹ کو ان کی گردنوں پر بار کریں جب کہ ہم نے پورے اطمینان کے ساتھ یہ معلوم کر لیا ہے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسے مطالب ان راویوں سے منسوب کئے ہیں اور دوسرے مورخین و مولفین نے ان راویوں سے اس قسم کی چیزیں نقل نہیں کی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ:

مدائن کی طرف جاتے وقت دریائے دجلہ سے عبور کرنا ایک مقامی راہنما کی راہنمائی سے انجام پایا ہے ۔اس نے اس گزرگاہ کی نشاندہی کی جہاں پر پانی کی گہرائی کم تھی اور جس شخص نے سب سے پہلے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم رکھا ،وہ ہاشم اور اس کی پیادہ فوج تھی ۔اس کے بعد ہاشم کے سوار فوجیوں نے دجلہ کو عبور کیا ۔اس کے بعد خالد اور اس کے بعد عیاض نے دریا میں قدم رکھا اوراسے عبور کیا ۔جب کہ سیف اپنے افسانے میں یوں ذکر کرتا ہے :

۳۲۲

سعد دریائے دجلہ ک کنارے پر متحیر و پریشان کھڑا تھا ۔دریا تلاطم اور طغیان کی حالت میں تھا کہ اس کا دیکھا ہوا خواب اس کی آنکھوں سے پردہ اٹھا تاہے ۔ وہ اپنی بات دوسرے سپاہیوں کے سامنے بیان کرتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں کہ: خدائے تعالیٰ ہماری اور تمھاری راہنمائی کرے ،جو چاہو حکم دو یہ باتیں اسے امید بخشتی ہیں عاصم بن عمرو وہ پہلوان ہے جو دریائے دجلہ عبور کرنے کے لئے سب سے پہلے آمادگی کا اعلان کرتاہے ۔سعد اسے چھ سو جنگجو ئوں اور دلیروں کی قیادت سونپتا ہے جو دریاکو عبور کرنے کے لئے آمادہ تھے ۔عاصم ساٹھ افراد کے ساتھ دریا میں قدم رکھتا ہے ،پانی میں دشمنون سے نبرد آزما ہوتا ہے اور ان پر فتح پاتا ہے ۔اس موقع پر سعد وقاص عاصم کے ''اھوال'' فوجی دستہ کو قعقاع کے ''خرساء '' فوجی دستے سے تشبیہ دیتا ہے ۔

سیف اس بات کی تشریخ کرتا ہے کہ دریا کے ساحل پر عاصم کے قدم جمانے کے بعد کسی طرح باقی سپاہیوں نے دریائے دجلہ میں قدم رکھا کہ ان کی کثرت کی وجہ سے ساحل سے دریا کی طرف دیکھنے والا پانی نہیں دیکھ سکتا تھا ،اور کیسے وہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اپنی حالت یعنی دریا میں چلنے کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے تھے ،جیسے کہ خشکی میں ٹہل رہے تھے سیف تشریح کرتا ہے کہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتا تھا ،تو دریا کی تہہ سے فورا ًزمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر اوپر اٹھ آتا تھا اور بالکل اس شخص کے پائوں کے نیچے قرار پاجاتا تھا اور وہ شخص اس پر ٹھہر کر تھکاوٹ دور کرتا تھا ۔اسی سبب سے اس دن کو '' یوم الجراثیم'' یعنی زمین کے ٹکڑے کا دن کہا گیا ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ اس دن غرقدہ کے علاوہ کوئی جنگجو دریا ئے دجلہ میں غرق نہیں ہوا ،غرقدہ قبیلہ بارق سے تھا اور ایک نامور جنگجو اور شجاع سپاہی تھا ،وہ اپنے سرخ گھوٹے سے دریا میں گر گیا اور پانی میں ڈپکیاں لگا نے لگا جب مرد میدان اور خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع نے یہ ماجرا دیکھا تو اپنے گھوڑے کو غرقدہ کی طرف موڑا اوراپنا ہاتھ بڑھا کر غرقدہ کے ہاتھ کو پکڑ کر اسے کھینچ کے ساحل تک لے آیا اور اسے نجات دی ۔اس وقت غرقدہ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا: اے قعقاع بہنیں تجھ جیسے کسی اور پہلوان کو جنم نہیں دے سکتیں !

۳۲۳

وہ مزید حکایت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : سپاہیوں میں سے ایک سپاہی کا برتن بندھن فرسودہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ کر دریا میں گر گیا اور دریا کی موجیں اسے اپنے ساتھ بہا لے گئیں آخر ان موجوں نے برتن کو ساحل تک پہنچا دیا ۔ساحل پر موجود ایک محافظ اسے دیکھتا ہے اور اپنے نیزہ کے ذریعہ پانی سے باہر کھینچ لیتا ہے اور سپاہ تک پہنچا دیتا ہے ۔برتن کا مالک اسے پہچان کر لے لیتا ہے ۔

سیف اپنے افسانوں کو اس صورت میں جعل کرکے اسلام کے حقائق کو توہمات کے پردے کے پیچھے چھپانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر غرقدہ کے پائوں کے نیچے کیوں نہ آگیا کہ وہ بیچارہ پانی میں گرکر نہ ڈوبا ہوتا اور قعقاع کو اسے نجات دینے کی ضرورت نہ پڑتی ؟کیا اس داستان میں یہی طے نہیں کیا گیا ہے کہ ایسی حالت میں بھی قعقاع اور خاندان تمیم افتخار حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں ۔اسی لئے غرقدہ کو غرق کیا جاتا ہے تاکہ یہاں پر بھی قعقاع کا نام نجات دہندہ ،بہادر اور بشر دوست کی حیثیت سے زبان زد خاص و عام ہو جائے ؟جب فوج کے تمام سپاہی ،حتی گھوڑے بھی اس فضیلت کے لائق تھے کہ دریا ئے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ٹکڑا جد ا ہوکر ان کے پائوں کے نیچے قرار پائے تاکہ وہ تھکاوٹ دور کریں ،تو بیچارہ غرقدہ کیوں اس فضیلت سے محروم کیا گیا ؟ شائد سیف نے غرقدہ کے نام اور لفظ ''غرق'' کے درمیان موجود یکسانیت سے فائدہ اٹھاکر ایک بامسمیٰ داستان گڑھ لی ہے !!

سیف نے اپنے اس افسانے میں قعقاع اور عاصم نامی دو تمیمی بھائیوں کے لئے خاص فضائل ،شجاعتیں اور بہادریاں ذکر کی ہیں اور عام سپاہیوں کے بھی منقبت و فضائل بیان کئے ہیں تاکہ سیف کی کرامتیں اور فضائل درج کرنے والوں کو ایک جذبات بھرا اور جوشیلا افسانہ ہاتھ آئے ،چنانچہ ابونعیم نے اس افسانہ کو معتبر اور قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب '' دلائل النبوہ'' میں درج کیا ہے۔

سیف نے سپاہیوں کے دریائے دجلہ عبور کرنے کے افسانہ کو مستقل اور ایک دوسرے سے جدا چند روایات کی صورت میں اور مختلف راویوں کی زبانی نقل کرکے پیش کیا ہے تاکہ اس کی روایت پائدار اور ناقابل انکار ثابت ہو۔

۳۲۴

سیف اس افسانہ کو بھی اپنے اکثر افسانوں کی شکل و صورت بخشتا ہے اور اپنی مخصوص مہارت سے اپنے افسانہ کے سورمائوں کی سرگوشیاں ،باتیں اور حرکات و سکنات کی ایسی منظر کشی کرتا ہے کہ گویا پڑھنے والا انھیں زندہ اپنے سامنے مشاہدہ کرتا ہے ،ان کے ساتھ قدم بہ قدم چلتا ہے ،ان کے حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہوتا ہے ،ان کی باتوں حتی سانس لینے کی آوازدجلہ کے پانی کے ساتھ لگنے والی گھوڑوں کی سموں کی آواز ،دریا کی لہروں کی آواز اور لوگوں کا شور وغل سب سن رہا ہوتا ہے ۔اور لوگوں کا پانی میں ایک دوسرے کے ساتھ اوپر نیچے ہونا ،حتی دریائے دجلہ کی تہہ سے اٹھنے والے زمین کے ٹکڑوں کے اوپر نیچے جانے کے منظر کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ،اس قسم کے زندہ اور محسوس افسانہ کے لئے راوی اور سند کی کیا ضرورت ہے کہ اسے قبول کریں اس کے سورمائوں کو پہچانیں اور باور کریں ؟کیا آپ نے سیف کی اس روایت کو غور سے نہیں پڑھا ہے جس میں وہ غرقدہ کے غرق ہونے کے بارے میں لکھتا ہے :

غرقدہ اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گر گیا ،برسوں گزرنے کے بعد بھی میں اس وقت اس منظر کو جیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں غرقدہ کا گھوڑا اپنے سرگردن دراز کرکے تیز ی کے ساتھ ہلا رہا ہے اور پانی کی چھینٹیں اس کے گردن اور یال سے ہوا میں چھٹک رہی ہیں ڈوبنے والا پانی میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اپنے گرد گھوم رہا ہے اور دریا کی موجیں اسے غرق نہیں کرتیں اسی اثنا میں مرد میداں اور بیچاروں کا دادرس ،قعقاع متوجہ ہوتا ہے ،اپنے گھوڑے کی لگام کو غرقدہ کی طرف موڑلیتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے پاس پہنچاتاہے ،اپنا ہاتھ بڑھا تا ہے اور غرقدہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اسے کھینچ کر ساحل تک لے آتا ہے ،غرقدہ قبیلہ بارق سے ہے اور قعقاع کی ماں بھی اسی قبیلہ سے ہے وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہوکر کہتا ہے : اے قعقاع بہنیں تم جیسے سورما کو پھر جنم نہیں دے سکتیں ۔

سیف کے ایسے افسانے کڑھنے کا اصلی مقصد شائد یہی ہے کہ : صرف قبیلہ بارق کی عورتیں ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کی عورتیں قعقاع تمیمی جیسا دلاور اور پہلوان جنم دینے سے قاصر ہیں ۔

سیف اپنے افسانہ میں قعقاع کے بھائی عاصم کی شجاعتیں اور دلاوریاں بھی ایک ایک کرکے گنواتاہے کہ وہ اتنے افسروں اور دلاوروں میں پہلا شخص تھا جس نے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم بڑھایا اور پانی و خشکی میں دشمنوں سے نبرد آزما ئی کی اور سب کو نابود کرکے رکھ دیا اور اگر کوئی بچ بھی نکلا تو وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا اور کس طرح اس دلاور پہلوان نے ساحل پر قبضہ جمایا کہ باقی سپاہی امن و سلامتی کے ساتھ دریا ئے دجلہ کو عبور کرگئے ۔

۳۲۵

داستان جراثیم کے نتائج

١۔ سعد وقاص کا ایک خطبہ ،جو عبارتوں کی ترکیب ،نثر نویسی اور خطابہ کے فن کے لحاظ سے ادبی کتابوں کی زینت بنے ۔

٢۔ سعد وقاص کی دعائیں جو دعائوں کی کتابوں میں درج ہو جائیں ۔

٣۔اسلامی جنگوں میں '' یوم جراثیم '' '' زمین کے ٹکڑوں کا دن'' کے نام سے ایک ایسے دن کی تخلیق کرنا جو تاریخ کی کتابوں میں ثبت ہو جائے ۔

٤۔ اسلام کے سپاہیوں کے لئے فضیلت و منقبت کی تخلیق ،جیسے تھکاوٹ دور کرنے کے لئے دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کے ٹکڑے کا جدا ہوکر اوپر اٹھنا اور سپاہ اسلام کے پائوں کے نیچے قرار پاجانا تاکہ وہ فضائل و مناقب کی کتابوں میں ثبت ہو۔

٥۔گزشتہ افسانوں کی تائید وتاکید ،جیسے دوتمیمی بھائیوں کی کمانڈمیں سپاہ کے دو دستے ''اھوال'' اور '' خرسائ'' اور ان دو تمیمی بہادر بھائیوں کے دسیوں بلکہ سیکڑوں فضائل بیان کرنا

۳۲۶

عاصم ،سرزمین ایران میں !

قال سیف و کان عاصم من الصحابه

سیف کہتا ہے کہ عاصم ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا۔

جندی شاپور کی فتح کی داستان :

طبری ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے روایت کرتا ہے :

علاء بن خضرمی یمانی بحرین میں تھا ۔سعد وقاص نزاری کا سخت رقیب تھا جب اسے پتا چلا کہ قادسیہ کی جنگ میں سعد کو فتحیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور وہ ارتداد کی جنگوں کی نسبت اس جنگ میں بیشتر جنگی غنائم حاصل کرکے شہرت پا چکا ہے ،تو اس نے بھی فیصلہ کیا کہ اپنے طورپر جنوب کی طرف سے ایران پر حملہ کرکے سعد کے نمایاں کارناموں کے مقابلہ میں قابل توجہ کا رنامے انجام دے ۔ لہٰذا اس نے خلیفہ کی اطاعت یا نافرمانی وسرکشی کے موضوع کو اہمیت دئے بغیر جنوب کے سمندری راستے سے ایران پر حملہ کیا ،جب کہ خلیفہ عمر نے پہلے اسے ایسا کام کرنے سے منع کیا تھا۔

اپنے اس بلا منصوبہ حملہ کی وجہ سے علاء اور اس کے سپاہی ایرانی سپاہیوں کے محاصرے میں پھنس گئے ،سرانجام خلیفہ عمر ابن خطاب نے حکم دیا کہ عتبہ بن غزوان اپنے سپاہیوں کے ساتھ علاء اور اس کے سپاہیوں کو نجات دینے کے لئے بصرہ کی جانب سے فوراً روانہ ہو جائے ۔ایران کی طرف عزیمت کرنے والی عتبہ کی فوج کے نامور سرداروں میں عاصم بن عمرو تمیمی بھی تھا ۔

عتبہ ،عاصم اور بصرہ کے سپاہیوں نے علاء اور اس کے سپاہیوں کی مدد کی اور سر انجام دشمنوں کے محاصرہ کو توڑ کر ان پر فتح پانے میں کامیاب ہوئے ۔

۳۲۷

طبری نے یہ داستان سیف سے نقل کی ہے اور ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کرتے ہوئے اس کی سند کی روایت کا اشارہ کئے بغیر اپنی تاریخ میں درج کیاہے۔ابن کثیر نے بھی اس داستان کے مطالب کو اس جملہ کے ساتھ کہ :'' طبری نے یہ روایت سیف سے نقل کی ہے'' طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیاہے۔

طبری اس داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد روایت کرتاہے کہ اسلامی فوج نے ایران میں مختلف شہروں کو فتح کیا اور ان کا آخری شہر''جندی شاپور''تھا۔

طبری نے ،''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے یوں لکھاہے:

انھوں نے ،یعنی عتبہ ،عاصم اور علاء نے ایک دوسرے کے تعاون اور مدد سے شہر کامحاصرہ کیا اور محاصرہ کے دوران ایرانیوں سے نبرد آزمارہے۔ایک دن اچانک اور خلاف توقع مسلمانوں کے لئے قلعہ کے دروازے کھل گئے اور قلعہ کے محافظوں نے مسلمانوں سے کہا:تم لوگوں نے جوامان نامہ ہمارے لئے اپنے ایک تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکا تھا،ہم نے اسے قبول کیاہے۔مسلمانوں نے ان کی یہ بات آسانی سے قبول نہیں کی اور امان نامہ کو تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکنے پر یقین نہیں کیا ۔ اس موضوع پر کافی تحقیق کے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ مکنف نام کے ایک غلام نے یہ حرکت کی تھی جو حقیقت میں ''جندی شاپور'' کا باشندہ تھا ۔اس نے تیر کے ذریعہ امان نامہ دشمن کے قلعہ کے اندر پھینکا تھا۔اس موضوع کی رپورٹ خلیفہ عمر کی خدمت میں بھیجی گئی تا کہ ان سے ہدایت حاصل کی جائے۔عمر نے ان کے جواب میں مکنف کے اقدام کی تائید اور امان نامہ کو منظور فرمایا۔

۳۲۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

طبری نے سیف کی بات کی یہیں تک روایت کی ہے اور دوسرے مؤرخین نے اس چیز کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں لکھاہے۔

لیکن حموی ''جندی شاپور''نام کے تحت اس داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھتاہے کہ عاصم بن عمرو نے ''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''اپنی جان کی قسم!مکنف نے بہترین صورت میں رشتہ داری کی رعایت کی ہے اور قطع رحم نہیں کیاہے۔اس نے ذلالت ،خواری،رسوائی اور شہروں کے ویران ہونے کے خوف سے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا، اور خلیفہ نے بھی غلام کے دئے گئے امان نامہ کو برقرار رکھ کر منظور فرمایاباوجود یکہ ہم ان سے اختلاف رکھتے تھے ۔جن امور کے بارے میں جنگ ہورہی تھی ،انھیں ایک ایسے منصف کو سونپاگیا جو صحیح فیصلہ کرتاہے اور اس حاکم نے بھی کہا کہ امان نامہ کو توڑا نہیں جاسکتاہے''۔

اس کے بعد حموی حسب ذیل صورت میں سلسلہ جاری رکھتاہے :

یہ سیف کا کہنا ہے ،جب کہ بلاذری فتح تستر(شوشتر)کی تشریح کے بعد لکھتاہے :

ابو موسیٰ اشعری نے وہاں سے ''جندی شاپور'' پر حملہ کیا۔لیکن شہر کے باشندوں نے انتہائی خوف کے سبب اس سے امان مانگی،ابوموسیٰ نے بھی موافقت کی اور مان لیا کہ سب باشندے امان میں ہوں گے،کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اسیر بنائے جائیں گے اور جنگ سے مربوط سازوسامان کے علاوہ کسی چیز پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا.....

یہ وہ مطالب تھے جنھیں حموی نے لفظ ''جندی شاپور'' کے بارے میں اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیاہے ۔

حمیری نے بھی اپنی کتاب ''روض المعطار '' میں لفظ''جندی شاپور '' کے بارے میں سیف سے نقل کرکے مندرجہ بالا داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں عاصم بن عمرو کے چوتھے شعر کے بعد پانچویں شعر کا حسب ذیل اضافہ کیاہے :

''خدا جانتاہے !''جندی شاپور'' کتنا زیبا ہے !کتنا اچھا ہوا کہ ویران اور مسمار ہونے سے بچ گیا،اتنے شہروں کے تباہ ہونے کے بعد''۔

۳۲۹

تحقیق کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جو علاء خضرمی یمانی اور سعد وقاص کے در میان حسد اور رقابت کی خبر دیتاہے اور وقت کے خلیفہ عمر بن خطاب کے حکم کی علاء کی طرف سے نافرمانی اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ محاصرہ میں پھنسنے کی خبر لکھتاہے کہ ہم نے اس کتاب کے آغاز میں ،جہاں پر خاندانی تعصبات کی بات کی ہے ،اس داستان کی طرف اشارہ کرکے اس کا سبب بھی بیان کیاہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے،جو عاصم بن عمرو کا نام لیتاہے اور اس کی شجاعتیں شمار کراتا ہے اور بعض رجز خوانیوں کو اس سے منسوب کرتاہے ۔

یہ طبری ہے جو سیف کی روایتوں کو رجز خوانیوں اور رزم ناموں کی وضاحت کئے بغیر اپنی کتاب میں نقل کرتا ہے ۔جب کہ حموی نے اسی داستان کو عاصم کے چار اشعار اور اس کے مصدر یعنی سیف کی وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ثبت کیا ہے ،اور حمیری نے اس داستان کو اس کے مصدر کے بارے میں اشارہ کئے بغیر عاصم کے پانچ اشعار کے ساتھ اپنی کتاب '' روض المعطار'' میں درج کیا ہے ٨

سند داستان کی تحقیق :

افسانوی سورما عاصم بن عمرو کے بارے میں بیان کی گئی سیف کی زیادہ تر احادیث میں راوی کے طور پر محمد اور مہلب کے نام نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد بھی اس کے بیانات میں جہاں عاصم کا نام آئے ،یہ دو اشخاص راویوں کے طور پر ملتے رہیں گے ۔اور ہم بھی مکرر کہتے رہیں گے کہ ان دو راویوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ سیف کے جعل کردہ راوی ہیں ۔

سیف ایک بار پھر شوش کی فتح کے بارے میں اپنی روایت کی سند کا یوں ذکر کرتا ہے : ''...اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے ...'' جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وہ کون ہے؟ اور اس کا نام کیا تھا ؟ کچھ معلوم نہیں ہے کہ اس کی تلاش کی جاتی ۔ ٩

۳۳۰

داستان کے نتائج:

١۔یمانی قحطانی صحابی کی مذمت و بدگوئی کرنا جو ایک مضری نزاری شخص سے حسد و رقابت کی بناء پر جنگ کے لئے اٹھتا ہے ،مضری خلیفہ سے سرکشی اور اس کے حکم کی نافرمانی جیسی لغزش سے دو چار ہوکر ایک بڑی اور ناقابل بخشش گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور ان دو فاحش غلطیوں کی وجہ سے نزدیک تھا کہ اپنے سپاہیوں سمیت ہلاک ہو جائے ۔

٢۔ کبھی واقع نہ ہوئی جنگوں کی تفصیلات اور تشریح بیان کرنا اور ایسی فتوحات کا سبب صرف افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا وجود ہوا کرتا تھا۔

٣۔ رزمیہ اشعار بیان کرنا تاکہ ادبیات عرب کے خزانے میں اضافہ ہو ۔

٤۔ سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمر وتمیمی کے درخشان اور قابل تحسین کارناموں کا اظہار۔

فتح سیستان کی داستان

طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرتے ہوئے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں اس طرح روایت کی ہے :

خلیفہ عمر ابن خطاب نے ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج کے سات سرداروں کا انتخاب کیا اور ان علاقوں کی فتح کا حکم اور پرچم انھیں دیا ،ان میں سیستان کی فتح کا پرچم عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے بھیجا اور اسے اس علاقے کو فتح کرنے پر مامور کیا۔

یہاں پر سیف صراحتاًکہتا ہے کہ : عاصم بن عمرو اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے تھا ۔

طبری ٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے سیستان کی فتح کے بارے میں یوں روایت کرتا ہے :

۳۳۱

عاصم بن عمرو نے سیستان کی طرف عزیمت کی ۔اس علاقے کے مرکز تک پیش قدمی کرنے کے بعد وہاں کے باشندوں سے اس کا سامنا ہو اان کے ساتھ سخت جنگ کرنے کے بعد اس نے انھیں بری طرح شکست دی ۔سیستانی مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹے اور سیستان کے دارالحکومت شہر ''زرنج '' میں پناہ لے لی اور چاروں طرف دیوار کھینچ دی ۔عاصم نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے شہر'' زرنج'' کا محاصرہ کیا اور وہاں کے باشندوں کا قافیہ تنگ کر دیا ۔لوگوں نے جب اپنے اندر عاصم سے لڑنے کی ہمت نہ پائی تو مجبور ہوکر صلح کی تجویز پیش کی ،اس شرط پر کہ عاصم ان کی کاشت کی زمین انھیں واپس کردے ۔عاصم نے یہ تجویز منظور کی اور ان کی زمینیں انھیں واپس کر دیں اس طرح اس نے منطقۂ سیستان ،جو منطقہ خراسان سے بھی وسیع تھا ،کواپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس علاقہ کی سرحدیں وسیع و عریض تھیں اور مختلف علاقوں کے لوگوں ،جیسے قندہار ،ترک اور دیگر قوموں کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے کافی جنگ و جدال ہوا کرتی تھی۔

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے عاصم بن عمرو کے ذریعہ سیستان کو فتح کرنے کے سلسلے میں ذکر کیا ہے اور تاریخ لکھنے والوں نے طبری کے بعد ،ان ہی مطالب کو اس سے نقل کیاہے ۔

حموی لفظ '' زرنج'' کے بارے میں لکھتا ہے :

...اور سیستان کو خلافت عمر کے زمانے میں عاصم بن عمرو نے فتح کیا ہے اور اس نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں :

'' زرنج کے بارے میں مجھ سے پوچھو !کیا میں نے زرنج کے باشندوں کو بے سہارا اور پریشان نہیں کیا جب میں ان کے ہاتھ کی ضرب کو اپنے انگوٹھے کی ضرب سے جواب دیتا تھا ؟!''

طبری ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں روایت کرتا ہے :

وقت کے خلیفہ عثمان بن عفان نے سیستان کی حکومت کسی اور کو سونپی ،اس کے بعد دو بارہ یہ عہد ہ عاصم بن عمرو کو سونپا ۔عثمان نے اپنی خلافت کے چوتھے سال عاصم بن عمر و کو صوبہ کرمان کا گورنر منصوب کیا اور وہ مرتے دم تک اسی عہدہ پر باقی رہا۔

عاصم کے مرنے کے بعد ایران کے علاقے میں شورش و بغاوتیں شروع ہوئیں اور علاقہ میں افرا تفری پھیل گئی ۔

۳۳۲

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

عاصم کے ذریعہ فتح سیستان اور سیستان و کرمان پراس کی حکومت کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور دوسرے مورخین نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ،جب ک بلاذری فتح سیستان کے بارے میں لکھتا ہے:

عبد اللہ بن عامر بن کریز نے ربیع بن زیاد حارثی کو سیستان کی جانب بھیجا ۔ ربیع نے سیستان کے باشندوں سے صلح کی اور دو سال تک سیستان پر حکومت کی ،اس کے بعد عبداللہ بن عامر نے عبدالرحمن بن سمرہ کو سیستا ن کی حکومت کے لئے منصوب کیا اور خلافت عثمان کے زوال تک یہی عبدالرحمن سیستان پر حکومت کرتا رہا ۔ ١٠

تحقیق و موازنہ کا نتیجہ :

سیف تنہا فرد ہے جو ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے خلیفہ عمر کے واضح حکم کی روایت کرتا ہے اور فتح سیستان کے پرچم کو عمر کی طرف سے عاصم بن عمرو کے حوالے کرکے نتیجہ حاصل کرتا ہے کہ یہ عاصم بن عمرو ہی تھا جس نے سیستان کے دارالحکومت زرنج کو وہاں کے باشندوں

سے صلح کرکے اپنے قبضے میں لے لیا اور حموی بھی سیف پر اعتماد کرکے فتح سیستان کے

مطالب کو لفظ ''زرنج'' کے سلسلہ میں اپنی کتاب میں درج کرتاہے ،جب کہ زرنج کا فاتح

ربیع بن زیاد ہے۔

اور سیف تنہا فرد ہے جس نے عاصم بن عمرو کی سیستان پر حکومت اور کرمان کی گورنری کی روایت کی ہے اور عاصم کی وفات کی کرمان میں روایت کی ہے۔

۳۳۳

داستان کا نتیجہ:

١۔خلیفہ کی جانب سے عاصم کے لئے حکومت سیستان اور کرمان کا حکم جاری کرکے عاصم بن عمرو کے لئے افتخار کا اضافہ۔

٢۔خراسان سے زیادہ سے وسیع علاقہ پر عاصم بن عمرو کی فتحیابی جتلانا،کیونکہ سیستان وسعت اور مختلف اقوام سے ہمسائیگی نیز فوجی اور سیاسی لحاظ سے بہت اہم تھا۔

٣۔اس بات کی وضاحت اور تاکید کرنا کہ عاصم بن عمرو تمیمی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا۔

٤۔عاصم کی تاریخ وفات اور جگہ معین کرنا۔

۳۳۴

عمرو بن عاصم

یہاں تک ہم نے سیف کے ان افسانوں کا ایک خلاصہ پیش کیا جو اس نے عمرو تمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کے بارے میں تخلیق کئے ہیں ۔مناسب ہے کہ ان دو بھائیوں کے سلسلے کو یہیں پر ختم نہ کیاجائے بلکہ اگلی فصل میں بھی ان دو ''نامور''اور ''بے مثال''بھائیوں میں سے ایک کے بیٹے کے بارے میں سیف کی زبانی روایت سنیں ۔

عاصم کا بیٹا اور اس کا خاندان

ھذا عن القعقاع وعن اخیہ عاصم

یہ ہے سیف کے ان مطالب کا خلاصہ ،جو اس نے قعقاع اور اس کے بھائی عاصم کے بارے میں جھوٹ کے پل باندھ کربیان کئے ہیں ۔

(مؤلف)

عمرو بن عاصم

سیف نے اپنی ذہنی تخلیق ،عاصم کے لئے عمرو نام کا ایک بیٹا بھی خلق کیاہے اور اس کے بارے میں ایک داستان بھی گڑھی ہے۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میں گڑھی گئی اپنی داستانوں میں سے ایک کے ضمن میں سیف یوں لکھتاہے:

شہر کوفہ کے چند جوانوں نے رات کے وقت ابن حیسمان کے گھر میں نقب زنی کی وہ ننگی تلوار لے کر ان کے مقابلے میں آیا۔جب اس نے دیکھا کہ نقب زنوں کی تعداد زیادہ ہے،تو اس نے شور مچاتے ہوئے لوگوں سے مدد طلب کی ۔مذکورہ جوان جو آشوب وفتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے انھوں نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا:چپ ہوجاؤ!تلوار کا صرف ایک وار تجھے اس وحشتناک شب کے خوف سے آزاد کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کے بعد انھوں نے اس کو سخت زدو کوب کرکے قتل کر ڈالا۔

۳۳۵

اس کے فریاد اور شور وغل سے جمع ہوئے لوگوں نے فتنہ گر جوانوں کا محاصرہ کرکے انھیں پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دئے ۔اس موضوع کی مکمل روداد خلیفہ عثمان کی خدمت میں بھیجی گئی ۔ عثمان نے ان کے لئے سزائے موت کا حکم صادر کیا۔اس کے بعد انھیں کوفہ کے دار الامارة پر پھانسی پر لٹکادیاگیا۔عمرو بن عاصم تمیمی جو اس ماجرا کا عینی شاہد تھا،یوں کہتاہے:

''اے فتنہ انگیزو!حکومت عثمان میں کبھی اپنے ہمسایوں پر جارحانہ حملہ کرکے انھیں ہلاک کرنے کی کوشش نہ کرنا،کیونکہ عثمان بن عفان وہی ہے جسے تم لوگوں نے آزمایا ہے۔وہ چوروں کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق چوری کرنے سے روکتاہے اور ہمیشہ ان کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ کر احکام قرآن نافذ کرتاہے''۔

سیف نے عثمان کے دور حکومت کے لئے بہت سے افسانے تخلیق کئے ہیں اور خاندان مضر کے ان سرداروں کا دفاع کیاہے جو اس زمانے میں بر سر اقتدار تھے۔اور حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اس زمانے کی اسلامی شخصیات پر جھوٹے الزامات عائد کرکے انھیں اخلاقی برائیوں ،کم فہمیوں اور برے کاموں سے منسوب کیاہے اور اس کے مقابلے میں صاحب اقتدار افراد کو سادہ دل،پاک،نیک صفات اور نیک کردار ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے ۔ہم نے یہاں پراس سلسلہ میں اپنے موضوع سے مربوط کچھ مختصر نمونے پیش کئے ۔ ان تمام مطالب کی تحقیق کرنا اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔صرف یہ مطلب بیان کرنا ضروری ہے کہ مندرجہ بالا داستان سیف کی دیگر داستانوں کی طرح صرف اس کے ذہن کی تخلیق ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ۔ ١١

داستان کا نتیجہ :

١۔ عثمان کے زمانے میں واقع ہونے والے حوادث سے خاندان مضر کو مبرّا قرار دینا۔

٢۔عاصم کے لئے عمرو نامی ایک بیٹے کا وجود ثابت کرنا تاکہ اس کانام خاندان تمیم کے نیک تابعین کی فہرست میں قرار پائے۔

۳۳۶

تاریخ میں عمرو کا خاندان

سیف کی روایتوں کے مطابق عاصم کے باپ،عمرو تمیمی کے گھرانے کے بارے میں ایک اور زاوئے سے مطالعہ کرنا بے فائدہ نہیں ہے :

١۔ قعقاع :سیف قعقاع کی کنیت ،ابن حنظلیہ بتاتاہے ۔اس کے لئے قبیلۂ بارق میں چند ماموں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی بیوی کوہنیدہ بنت عامر ہلالیہ نخع نام دیتاہے اور اصرار کرتاہے کہ وہ صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھا اور اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے۔

قعقاع سقیفہ بنی ساعدہ میں حاضر تھااور وہاں پر واقع ہونے والے حالات کی خبر دیتاہے۔

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں کمانڈر کی حیثیت سے شرکت کرتاہے اور عراق کی فتوحات میں خالد بن ولید کے ہمراہ شرکت کرتا ہے ، اس کے ساتھ اسلامی فوج کے سپہ سالارکی مدد کرنے کے لئے شام کی طرف عزیمت کرتاہے اور وہاں سے ایران کی جنگوں مین اسلامی فوج کے سپہ سالار سعد وقاص کی مدد کے لئے ایران عزیمت کرتاہے ۔قادسیہ کی جنگ میں اور اس کے بعد والی جنگوں جیسے :فتوح مدائن ،جلولاء اور حلوان میں شرکت کرتاہے اس کے بعد ابو عبیدہ کی مدد کرنے کے لئے دوبارہ شام جاتاہے اور سرانجام حلوان کے گورنرکے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

قعقاع نے نہاوند کی جنگ ''فتح الفتوح ''میں اور اس کے بعدہمدان وغیرہ کی فتح میں شرکت کی ہے اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں عظیم مملکت اسلامیہ کے مشرقی علاقوں ۔جن کا مرکز کوفہ تھا۔ کے وزیر دفاع کے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قعقاع فتنہ اور بغاوتوں کے شعلوں کے بجھانے کی کوشش کرتاہے ،حتی خلیفہ عثمان کی جان بچانے کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتاہے لیکن اسے یہ توفیق حاصل نہیں ہوتی ہے اور اس کے مدینے پہنچنے سے پہلے ہی عثمان شورشیوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں ۔

۳۳۷

ہم اسے امام علی ں کی خلافت کے زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کوفہ کے لوگوں کو اسلامی فوج سے ملحق ہونے کی ترغیب دیتاہے اور خود امام علی ں اور عائشہ ،طلحہ وزبیر کے درمیان صلح کرانے کے لئے سفیر صلح بن کر نمایاں سرگرمیاں انجام دیتاہے لیکن عبد اللہ ابن سبا اور اس کے چیلوں کی تخریب کاریوں کے نتیجہ میں اس مصلح اعظم کی کوششوں پر پانی پھر جاتاہے اور جنگ جمل شروع ہوجاتی ہے۔قعقاع جنگ جمل میں امام کے پرچم کے تلے شرکت کرتاہے عائشہ کے اونٹ کاکام تمام کرتاہے اور جنگ کے خاتمے پر جمل کے خیرخواہوں کو عام معافی دیتاہے۔

سرانجام یہی قعقاع اتنے درخشا ں کارناموں کے باوجود معاویہ ابن ابوسفیان کی حکومت میں ''عام الجماعہ''کے بعد امام علی ں کی محبت اور ان کی طرفداری کے جرم میں فلسطین کے علاقہ ایلیا میں جلا وطن کیاجاتاہے ۔اور اس کے بعد سیف کے اس افسانوی سورما اور ''تابناک اور بے مثال'' چہرے کاکہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔

٢۔عاصم :سیف نے اپنے افسانوں اور داستانوں میں عاصم کے بارے میں جوکچھ بیان کیاہے اس کا حسب ذیل خلاصہ یوں کیاجاسکتاہے:

عاصم کو جو سیف کے کہنے کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا خالد،ارتداد کی جنگوں کے بعد اپنے ہراول دستہ کے سردار کے طور پر عراق کی طرف روانہ کرتاہے اور وہ خالد کی قیادت اور پرچم کے تحت عراق کے شہروں کی فتوحات میں شرکت کرتاہے،اس کے بعد مثنی اور ابو عبیدہ کی سر کردگی میں عراق کی جنگوں کو جاری رکھتاہے۔ان دو نامور سرداروں کے بعد قادسیہ ومدائن کسریٰ کی جنگوں میں سعد وقاص کی قیادت میں شرکت کرتاہے ۔اس کے بعد عتبہ بن غزوان کی سر کردگی میں علاء خضرمی یمانی کی نجات کے لئے ایران کے جنوبی علاقوں کی جنگ میں شرکت کرتاہے اور یہ لوگ ''جندی شاپور ''کوا یک دوسرے کی مدد سے فتح کرتے ہیں ۔اس کے بعد عمر کے زمانے میں ایک فوجی دستی کے کمانڈر کی حیثیت سے سیستان کی فتح کے لئے انتخاب ہوتاہے اور خلیفہ اسے فوج کا علم عطاکرتے ہیں ۔عاصم اپنی ماموریت کی طرف روانہ ہوتاہے ،سیستان کو فتح کرتاہے اور خلافت عمر کے زمانے مین وہاں کی حکومت کو سنبھالتاہے ۔

خلیفہ عثمان بن عفان بھی سیستان میں عاصم کی حکومت کی تائید کرتے ہیں ۔اور صوبہ کرمان کی حکومت بھی اسی کو سونپتے ہیں ۔سر انجام خلیفہ عثمان کی خلافت کے چوتھے سال جب کہ عاصم سیستان اور کرمان پر حکومت کررہاتھا ،وفات پاجاتاہے،اور عمرو کے نام سے اس کاایک بیٹا باقی بچتاہے جو تابعین میں سے ہے اور اپنے چند اشعار کے ذریعہ امت اسلامیہ میں خلافت عثمان کے زمانے میں شورشوں اور بغاوتوں کے وجود کی خبر دیتاہے اور اشرار ومجرمین کے خلاف خلیفہ کے شدید اقدامات کو بیان کرتاہے ۔

۳۳۸

عاصم کے بارے میں

سیف کے راویوں کاسلسلہ

وردت اسطور عاصم عند سیف فی نیف واربعین حدیثاً

عاصم کا افسانہ چالیس سے زیادہ روایات میں ذکر ہواہے۔

(مولف)

جن لوگوں سے سیف نے عاصم کا افسانہ نقل کیاہے

سیف نے عاصم کے افسانے کو چالیس سے زائد روایات کے ضمن میں درج ذیل راویوں سے نقل کیاہے :

١۔محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ ٢٨ روایات میں

٢۔زیاد بن سرجس احمری ١٦ روایات میں

٣۔مھلب بن عقبہ اسدی ٩ روایات میں

٤۔نضر بن سری ٣ روایات میں

٥۔ابو سفیان ،طلحہ بن عبد الرحمن ٢ روایات میں

٦۔ حمید بن ابی شجار ١ روایت میں

٧۔ ابن الرفیل

٨۔وہ اپنے باپ سے جب کہ باپ بیٹوں نے ایک ہی صورت میں ایک دوسرے سے روایت کی ہے۔

٩۔ظفر بن دہی

١٠۔عبد الرحمن بن سیاہ

۳۳۹

اور یہی راوی ہیں جنھوں نے قعقاع کی روایات نقل کی ہیں اور سیف ان ہی کی زبانی قعقاع کے افسانے بھی بیان کرتا تھا اور ہم نے ثابت کیا کہ ان میں سے ایک راوی بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا تھا ۔یہ سب کے سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور اس کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

درج ذیل نام بھی عاصم کے افسانوں کی روایات میں سے ہر ایک روایت کی سند میں راوی کے طور پر ذکر ہوئے ہیں لیکن قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں میں ان کا نام نظر نہیں آتا ۔

١١۔حمزة بن علی بن محفز

١٢۔عبداللہ بن مسلم عکلی

١٣ ۔کرب بن ابی کرب عکلی

١٤۔عمیر صائدی

ان کے بارے میں بھی ہم نے اپنی جگہ پر وضاحت کی ہے کہ چونکہ ان ناموں کو ہم نے سیف کے علاوہ کسی بھی روایت میں کہیں نہیں پایا اور راویوں کی فہرست میں بھی ان کے نا م نظر نہیں آتے۔لہٰذا انھیں بھی ہم سیف کے دیگر راویوں کی طرح اس کے اپنے ذہن کی تخلیق محسوب کرتے ہیں اور انشاء اللہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے دیگر جعلی راویوں کے ساتھ ایک الگ کتاب میں بیان کریں گے ۔

اس کے علاوہ چند مجہول راویوں کے نام بھی لئے گئے ہیں ،جیسے عطیہ ،بنی بکر سے ایک مرد، بنی اسد سے ایک مرد، ایک مرد سے ،اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وغیرہ ۔چوں کہ ان کا کامل طور سے ذکر نہیں کیا گیا ہے اور ان کے نام بھی ذکر نہیں کئے گئے ہیں اس لئے ان کی پہچان کرنا ممکن نہیں ہے ۔

اسی طرح بقول سیف جو روایت موسیٰ ابن طریف نے محمد بن قیس سے نقل کی ہے ،اس سلسلے میں علمائے رجال کے ہاں وہ تمام راوی مشخص و معلوم ہیں جن سے موسیٰ ابن طریف نے روایت کی ہے لیکن ان میں محمد بن قیس نام ١٢ کا کوئی راوی موجود نہیں ہے ۔

۳۴۰