تاویلات حضرت ابی بکر
مورد سقیفہ
آہ! وہ وقت جب کہ حضرت ابی بکر نے خلافت کے لیے ہاتھ بڑھایا اور ایک جماعت نے ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی اور اس طرح حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے اس صریحی حق کا انکار کر دیا گیا جسے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
ے ابتداء تبلیغ سے آخر عمر تک بیان کیا تھا (میں نے ان تمام روایات و نصوص کو اپنی کتاب مراجعات میں ذکر کر دیا ہےجس میں مصر کے جامعہ ازہر کے رئیس سلیم شیخ سلیم سے مباحثہ کیا گیا ہے اور اس طرح ۱۱۲ مرتبہ خط و کتاب کی نوبت آئی میری خواہش ہے کہ اہل نظر کلام رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو نبض قرآن سند و دلیل تصور کریں)
انکار حدیث :۔
شاید ہی دنیا میں کسی حدیث کا اس طرح انکار کیا گیا ہو جس طرح کہ احادیث خلافت امیرالمومنین کا انکار کر دیا گیا۔ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ابتداءے تبلیغ سے تاحیات بلکہ آخری وقت میں بھی حدیث ثقلین کے ذریعہ اہل بیت کی عظمت اور ان کی قرآن سے ہم آہنگی کا اعلان کیا ۔ لیکن امت نے سقیفہ میں ان سب کو نظر انداز کر دیا۔
نبی ہاشم سے اعراض:۔
وہ اہل بیت کہ جن میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے باب حطہ سفینہ ، حبل ممدود، ثقل اکبر، باب العلم اور معدن نبوت قرار دیا تھا ان کے افکار کے ساتھ ساتھ نبی ہاشم کے ان ارباب فکر کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو ان افراد سے یقیناً بہتر تھے کہ جن میں اس وقت کی خود ساختہ اصطلاح میں اہل حل و عقد قرار دیا گیا تھا۔
بیعت پر اصرار:۔
اپنے احباب و اتباع سے بیعت لیے کے بعد حکومت وقت کی نظر بنی ہاشم کی طرف مڑ گئی اور ان سے جبریہ بیعت لینے کے منصوبے بننے لگے، یہاں تک کہ ان کے گھر کو آگ لگانے کا ارادہ کر لیا گیا ۔ ہم نے یہ مان لیا کہ اہل بیت کی شان میں کوئی نص وارد نہ ہوئی تھی انہیں علم و ادب ، شجاعت و سخاوت، اخلاق و اکرام کے میدان میں سبقت حاصل نہ تھی لیکن کم از کم ان کا مرتبہ ایک صحابی کا تو ضرورت تھا پھر کیا اتنا ممکن نہ تھا کہ اس قدر خلافت میں تاخیر کی جاتی کہ وہ دفن رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے فارغ ہوکر واپس آجاتے؟ کیا اس طرح ان کے دکھے ہوئے دلوں کا علاج اور زخم جگر کا مداوانہ ہوجاتا؟ کیا اس طرح نبوی تعلیمات اور اسلام اخلاقیات کے اقدار کا اظہار نہ ہوتا؟ یقیناً سب کچھ ہوتا لیکن وہاں تو خطرہ صلاحیتوں سے تھا ۔ اس لئے فکر تھی کہ مطلب کو جلد ختم کیا جائے۔ اور موقع سے فاءدہ اٹھالیا جائے ایسا نہ ہو کہ بنی ہاشم دفن سے فارغ ہوکر واپس آجائیں اور ہمارے منصوبوں میں داخل اندازی کریں ۔ ادھر سعد بن عبادہ سے بشیر و عویم و معن کا حسد کام آگیا اور انہوں نے صرف سعد کی مخالفت کرنے کے لیے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھا دیا اور اس طرح تین آدمیوں کا قدیم منصوبہ وقتی طور سے کامیاب ہوتا نظر آیا۔
نزاع مہاجری و انصار:۔
یہ تو ہم نہ ہونا چاہیئے کہ بیعت کا کام جلدی مکمل ہوگیا نہیں نہیں فضاوں میں آج تک کچھ شور و شغب کی صداءیں اور کچھ مخالف نعرے محفوظ ہیں جنہیں مصلحت وقت نے ہر امکانی قوت سے دبانا چاہا پہلے انصار کی مدح سراءی کی گئی پھر ان کی رائے میں افتراق ڈالا گیا۔ اور جب کام کسی حد تک روبراہ ہوگیا تو حرب و ضرب قتل و احتراق کی نوبت آگئی ، اور اس طرح پہلی بیعت کا معاملہ طے ہوا اور لوگ مسجد رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف یوں چلے جیسے کسی عروس کو گھر لے جاتےہیں۔
امام ؑ کی قربانی:۔
حضر امیرالمونین ؑ کو ان خفیہ ریشہ دوانیوں کا بھی علم تھا جو حیات رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے ہورہی تھیں اور ان واضح اقدامات کا بھی علم تھا جو وفات رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے غنیمت موقع پر کیئے جارہے تھے امام کے لئے ممکن تھا کہ جہاد کرکے اپنے جاءز حق کو حاصل کرلیں لیکن آپ نے بقاء اسلام اور حفظ احکام کی خاطر اپنی ذات کو قربان کر دیا۔
امام ؑ کا احتجاج:۔
حضرت امیر المومنین ؑ نے نزاکت وقت کا خیال کرتے ہوءے یہ مناسب خیال کیا کہ حکومت وقت کو کسی حد تک محسوس کرادیا جائے کہ وہ قطعی حق پر نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میری خاموشی سے وہ مکمل طریقہ پر ناجائز فائدہ اٹھالے اور آئندہ آنے والی سلوں کو صحیح مرکز کا پتہ نہ چل سکے۔ اس لئے آپ نے حضر ابو بکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہاری دلیل قرابت ہے۔ تو میرا تقریب رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے زیادہ ہے اور اگر تمہارا برہان ابرہان شوری ہے تو یہ کیسا مشورہ تھا کہ جس می اہل راءے و فکر موجود نہ تھے۔
ناگہانی بیعت:۔
ظاہر ہے کہ یہ بیعت ایسی ناگہانی تھی جس سے بقول حضرت عمر سوائے شرو فساد کے کوئی اور توقع نہ تھی ۔ اس لیئے انہوں نے دوبارہ ایسے اقدام سے منع کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس بیعت کے شروفساد سے بچا لیا۔ حالانکہ انصاف یہ تھا کہ شکریہ اسی امام کا ادا کیا جاءے جس کی خاموشی سے یہ شرو فساد ظاہر نہ ہوسکا اسلام ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے محفوظ ہوگیا اور اسے دوام و ثبات کی سند حاصل ہوگئی۔
مورد استخلاف :۔
آہ آہ وہ نامسعود ساعت کہ جس میں حضرت ابوبکر نے خلافت حضرت عمر کے سپرد کی۔ تعجب بالائے تعجب ! انسان زندگی بھر استغنا ظاہر کرے اور چلتے وقت اس طرح دوسرے کے حوالے کر جائے کہ گویا اس کی ذاتی ملکیت یا پدری میراث ہے حیف صد حیف! اس ثقل اکبر، سفینہ نجاب، باب حطہ، امان اہل ارض سہیم قرآن کے حق کو نظر انداز کر دیا گیا جس کے لیئے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے تصریح کی تھی جس کے اتباع کو نجات کا ضامن قرار دیا تھا۔
مورد جنگ موتہ:۔
۸ جمادی الاولی میں رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے لشکر بھیجا اور یہ ترتیب معین کی کہ پہلے امارت لشکر زید کے ہاتھوں ہوگی پھر جعفر کے پھر عبداللہ بن رواحہ یا بنا بر روایات امامیہ پہلے جعفر پھر زید پھر عبداللہ بہرحال یہ مسلم ہے کہ حضرت رسول اکرم نے زید کی صلاحیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی لہذا اب اگر زید کی امارت کی مخالفت کی جائیگی تو یہ اجتہاد مقابل نص صریح ہوگا۔ اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے صحابی حرث بن عمر ازدی کو بادشاہ بصری کے پاس دعوت اسلام کے لیے روانہ کیا راستہ میں سر جبل بن عمر نے روک کر سوال کیا کیا تم محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے قاصد ہو؟انہوں نے اعتراف کرتے ہوءے بتایا کہ شام کا قصد ہے اس بنیاد پر اس نے گرفتار کرکے قتل کرادیا۔تب حضرت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ فوج روانہ کی۔ اس کے علاوہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ایک فوج فتح شام کے لیئے اسامہ بن زید کے ساتھ روانہ کی تھی۔ اور ان دونوں کا یہ اثر ہوا کہ شام و روم کے قلوب پر اسلامی ہیبت چھا گءی۔
موقف جعفر:۔
کیا کہنا اس اطمینان نفس کا کہ انسان تین ہزار کا لشکر لے کر دو لاکھ فوج سے ٹکرا جائے اور وہ بھی اس طرح کہ اپنے گھوڑے کے یپر قطع کر دے اور خود اپنے دونوں ہاتھ کٹا دے لیکن سکون و اطمینان میں فرق نہ آنے پائے ۔ یہاں تک کہ خود پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
خبر دیں کہ میں نے جعفر کو کل رات ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
موقف زید و عبداللہ:۔
قابل صد تحسین ہے زید کا وہ اقدام کہ جس میں لاکھوں نیزوں کی پرواہ کیئے بغیر مجاہد آتش جنگ میں کود پڑا اور اسلام پر جان قربان کر دی۔ اور حیرت انگیز ہے عبداللہ کا وہ اطمینان نفس کہ جس میں دو لاکھ افراد سے ایسا مقابلہ کیا کہ جب ایک عزیز نے زخم کے علاج کا سامان مہیا کیا اور دفعتاً فوج میں غل پڑگیا تو تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہوءے۔ فرمایا افسوس کہ میں ابھی زندہ ہوں! کسی شخص نے مشورہ دیا کہ دشمن کی کثرت کی اطلاع حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو دے دی جائے۔تو فرمایا کہ ہم کثرت وقلت کے تابع نہیں ہیں۔ ہم اپنے ایمان و عقیدہ کی قوت سے جنگ کر رہے ہیں، ""فیالیتنا کنا معهم فنفوز فوزا عطیما
""۔
مورد سریہ اسامہ بن زید
۶ صفر ۱۱ ھ کو حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ایک فوج تیار کرکے اسامہ بن زید کہ اس کا رئیس قرار دے کر مسلمانوں کو حکم دیا کہ شام جاکر جنگ کریں اور تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیں یہ وہ اہم لشکر تھا جس میں اعیان مہاجری و انصار مثل حضرت ابوبکر و عمر و ابوعبیدہ و سعد سب شریک تھے اور حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے خود تمام اسباب مہیا کءے تھے ابھی دو د گزرے تھے کہ حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
مرض الموت میں مبتلا ہوگئے ایسی حالت میں آپ نے اصحاب کی سستی کا احساس کیا اور باہر تشریف لاکر دوبارہ حکم صادر فرمایا کہ سفر میں عجلت سے کام لینا چاہیے یہاں تک کہ اسامہ سے فرمایا کہ صبح سویرے یہاں سے سفر کرکے اہل انبی تک پہنچ جاؤ۔ اور اتنی تیز رفتاری سے چلو کہ تمہاری جگ کی خبریں تمہارے بعد پہنچیں لیکن افسوس کہ ان تمام تاکیدات کے باوجود لوگوں نے اسامہ کی امارت میں طعن و طنز شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ حالت مرض میں حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو باہر آنا پڑا اور مکرر یہ حکم دینا پڑا کہ تم لوگوں کو جانا چاہیے تم نے ایک د زید کی امارت پر اعتراض کیا تھا اور آج اسامہ کی امارت میں شک کر رہے ہو۔ خدا کی قسم اسامہ اس کا اہل ہے ۔ یہ فرما کر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اسامہ کو روانہ کیا، یہ لوگ روانہ ہوءے اور دو شنبہ بارہ ربیع الاول کہ جب بقول جمہور حضرت نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا وقت آخر تھا واپس آگئے ۔ رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے انتقال پر سارا لشکر مدینہ واپس آگیا اور اب یہ سر گوشیاں ہونے لگیں کہ اس تحریک کو ختم کر دیا جائے ۔ لیکن جب حضرت ابوبکر سے مشورہ ہوا تو انہوں نے شدت سے انکار کیا یہاں تک کہ حضرت عمر کی ریش پکڑ کر یہ کہا کہ ""تیری ماں تیرے ماتم پر بیٹھے۔ حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حکم کی صریحی مخالفت کرنا چاہتا ہے ""؟ آخر کار اسامہ تین ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے جس میں ایک ہزار گھوڑے تھے لیکن وہ حضرات نہ گئے جن کے لیے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا خاص اصرار تھا۔ یہاں تک کہ بقول صاحب ملل و نحل آپ نے نہ جانے والوں پر لعنت بھی فرماءی تھی اور ظاہر ہے کہ اس انکار کی وجہ اور کیا ہوسکتی ہے سواءے اس کے کہ ان حضرات نے کلام رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی صریحی مخالفت کی اور نص نبوی کے مقابلی میں اجتہاد سے کام لے کر یہ طے کر لیا۔ کہ ہمارا نہ جانا ہی اولی ہے اور وہ اس لئے کہ جنگ تو بغیر ہمارے بھی فتح ہوسکتی ہے لیکن خلافت میں اگر ہم نہ رہے تو وہ دوسرے خاندانوں میں منتقل ہوجائے گی اور اس طرح طمع وہ حرص نے اہیں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی صریحی مخالفت پر آمادہ کر دیا۔
مقصد رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
:۔
حقیقت امر یہ ہے کہ حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسے غیر مناسب حضرات مدینہ سے باہر چلے جاءیں کہ جو میرے بعد خلافت کے مدعی ہونے والے ہیں تاکہ امر خلافت باطمیان و سکون اپنی منزل حقیقی تک منتہی ہوسکے۔ اور اسی لیئے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس قوم پر ایک سترہ برس کے جوان کو امیر بنا دیا تھا تاکہ ا کی انانیت کا بھی علاج ہوسکے۔ لیکن قوم نے فوراً تاڑلیا اور پہلے تو امارت ہی پر اشکال کیا پھر جانے میں سستی برتی۔ اور جب یہ سب بیکار ثابت ہوگیا تو بعد وفات نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
لشکر کو معطل کرنے کی فکر کی اور پھر اسامہ کو معزول کرنے کی ٹھان لی۔ یہی وہ مقامات تھے جہاں ذاتی عقائد و افکار کو نصوص صریحہ پر مقدم کیا جارہا تھا تاکہ خلافت کو حکومت کا جامعہ پہنا کر اس پر قبضہ کر لیا جائے۔
معاذیر:۔
شیخ الاسلام بشری نے ہمارے بعض مراسلات میں ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوءے یہ بیان کیا ہے کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اگرچہ سرعت سیر اور تندی رفتار کا حکم دیا تھا لیکن افسوس کہ لشکر کی روانگی کے فورا بعد ہی آپ مرض الموت میں مبتلا ہوگئے ۔ اس لیئے صحابہ کرام نے کمال محبت کی بنا پر آپ کو اس وقت تک کے لیئے چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا جب تک کہ آپ کی موت و حیات کا فیصلہ نہ ہوجائے اور ظاہر ہے کہ رموزالفت اور رموز محبت سے ہر شخص آشنا ہی نہیں ہوتا نہ یہ باتیں قابل اعتراض ہوتی ہیں۔
اسامہ کی امارت پر اعتراض در حقیقت فطرت بشری کی ترجمانی تھی۔ اس لیئے کہ انسان طبعاً کسی کم سن کی حکومت کو قبول نہیں کرتا اگر وہ خود بزرگ ہو۔ اس میں قول رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی کوءی توہین نہیں ہے ۔ وفات رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد معزولی کے مطالبہ کی بھی بعض لوگوں نے یہ توجہیہ کی ہے کہ صحابہ کرام کو یہ توقع تھی کہ شاید حضرت صدیق بھی ہمارے راءے پسند فرمالیں (اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں) در حقیقت حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا مرض کی حالت میں وہ اہتمام اس امر سے سازگار نہیں ہے کہ صحابہ کرام اس قسم کے اقدامات کریں، لہذا اس مطالبہ کی مصلحت کا علم خدا کو ہے ۔
صحابہ کا اس امر پر اصرار کہ اب لشکر نہ بھیجا جائے صرف اس بنا پر تھا کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے انتقال کے بعد مدینہ کو کفار و مشرکین سے شدید خطرہ تھا اس لیئے ان حضرات نے نہ چاہا کہ اسلامی قوت کو دوسری طرف متوجہ کر دیا جائے اور اس طرح کفار کے لیئے راستہ ہموار ہوجائے ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت صدیق نے اس مطالبہ کو ٹھکرادیا۔ لہذا وہ محل اعتراض سے خارج ہیں۔ باقی حضرات حسن احتیاط کی بنا پر ممدوح ہیں حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے تخلف کا راز یہ تھا کہ اسلامی شوکت کا سارا دارومدار انہیں حضرات کی ذات پر تھا ۔ تو پھر ظاہر ہے کہ ایسے افراد کی امت اسلامیہ کو ایسے وقت میں کتنی ضرورت تھی ۔ جہاں تک شہرستانی کی نقل کا تعلق ہے اس کا جواب واضح ہے ۔ اس لیئے کہ یہ روایت مرسلہ
ہے اور احلانی و حلبی وغیرہ نے اس کا انکار بھی کیا ہے لہذا یہ محل اعتبار سے ساقط ہے۔
____________________
میں نے موصوف کے جواب میں یہ تحریر کیا تھا کہ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ آپ نے ہمارے تمام اعتراضات کو تسلیم کر لیا ہے ۔ اور ان کا یہ جواب دیا ہے کہ صحابہ نے مصلحت وقت کی بنا پر ایسے اقدامات کیئے تھے اور یہی ہمارا مدعی ہے کہ صحابہ اپنے افکار و آراء کو نص رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر مقدم کر دیا کرتے تھے ۔ اور جب اسامہ کے بارے میں اپنی خواہش کو مقدم کر سکتے ہیں تو کیا مانع ہے کہ خلافت کے بارے میں بھی ایسا ہی کریں۔ جب اسامہ کی کمسنی کو مانع حکومت قرار دے سکتے ہیں تو کیا عذر ہے ۔ اگر حضرت علی ؑ کی کمسنی کو بھی مانع قرار دیں۔ پھر آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ بڈھوں کی فطرت ہی کہ بچوں کی حکومت اور اطاعت سے انکار کریں حالانکہ قرآن کریم نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی اطاعت ہر شخص پر فرض کی ہے ۔ اور ایسی ناقص فطرت کو باعث عذاب اور موجب عقاب قرار دیا ہے ۔ جہاں تک روایت کے ارسال و اسناد کا تعلق ہے اس کے متعلق عرض ہے کہ شہرستانی نے اس روایت کے اسناد کو صرف اس لیئے ترک کر دیا تھا کہ یہ ایک مسلم مسئلہ تھا ورنہ جوہری کی کتاب سقیفہ ملاحظہ کریں۔ اس میں یہ روایت مفصل بااسناد درج کی گئی ہے اور پھر ابی ابن ابی الحدید نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے ۔
ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ ج ۲ ص ۲۰ طبع مصر۔
مورد سہم مولفتہ القلوب :۔
ظاہر ہے کہ قرآن کریم نے زکوۃ کے مصرف میں ایک حصہ مولفتہ کا بھی قرار دیا ہے ۔ اور حضرت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس ترتیب پر عمل بھی فرمایا ہے ۔ چنانچہ ایک جماعت کو مال اس لیئے دیا تاکہ ان کے دل نرم ہوں اور وہ اسلام قبول کریں ۔ ایک طائفہ کو اس لیئے عطافرمایا تاکہ اس کے اسلام میں قرار پیدا ہو جیسے ابوسفیان ، معاویہ ، عینیہ بن حصن، اقرعہ بن حابس، عباس بن مرواس وغیرہ ۔
بعض لوگوں کو اس لیے عطا کیا کہ اس کی وجہ سے دوسرے افراد اسلام لائیں اگرچہ ممکن ہے کہ پہلے جماعت کو حضرت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے خمس کے ۶/۱ سے عطا کیا ہو جو آپ کا حق خاص تھا بہر حال یہ مسلم ہے کہ یہ آپ کی سیرت تھی جسے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے تادم مرگ ترک نہیں کیا۔ وفات آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد جب یہ لوگ حضرت ابوبکر کے پاس آئے تو آپ نے انہیں ایک کاغذ لکھ کر دے دیا۔ وہ اسے لے کر حضرت عمر کے پاس گءے۔ حضرت عمر نے کاغذ کو پارہ پارہ کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ اسلام قوی ہوگیا ہے ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے
(فجر الاسلام ص ۲۳۸)
وہ لوگ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ خلیفہ ہیں یا حضرت عمر ؟ انہوں نے جواب دیا۔ انشاء اللہ عمر۔
پھر اس نظریہ کے بعد یہ حصہ زکوۃ ختم کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اجتہاد در مقابل نص ہے لیکن ہم اس وقت علامہ دوالیی کے بعض معاذیر نقل کرتے ہیں تاکہ حضرات ناظرین محظوظ ہوسکیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر کا اجہتاد حکم آیت کے مقابلہ میں نہیں تھا۔ اس لیئے کہ حکم شریعت ناقابل تغیر ہے ۔ بلکہ اس اجتہاد کا تعلق مقدمات حکم سے تھا گویا آپ نے یہ طے کر لیا تھا کہ یہ حکم اس دور کے لیئے تھا جب اسلام ضعیف تھا اور آج جبکہ وہ علت ختم ہوگئی تو حکم کی بقاء یعنی چہ! اس کے بعد انہوں نے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آج کی حکومت کا بھی یہی دستور ہے کہ اپنی قوت حاصل کرنے کے لیے غریب اور مخالف طبقہ پر رقمیں صرف کرتی ہیں اور جب کام نکل جاتا ہے تو انہیں نظر انداز کر دیتی ہے ۔ ان حالات سے حضرت عمر نے یہ اندازہ لگالیا کہ اس سہم کا تعلق زمانہ غربت و ضعف سے ہے اس لیئے آپ نے اسے بند کر دیا۔ بنا برین یہ حکم شریعت کی مخالفت نہیں ہے۔ بلکہ یہ اندازہ ہے کہ واقعاً حکم انہیں حالات سے مخصوص تھا۔
اقول :۔
علامہ موصوف نے بار بار اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت عمر نے اسی سہم کو روک لیا تھا اور یہ طے کر لیا تھا کہ اس کے مدت گزر چکی ہے ہمارا مدعی بھی صرف اتنا تھا کہ صحابہ اپنی راءے سے کچھ باتیں پیدا کرکے حکم شریعت کو باطل کر دیتے تھے ۔ ورنہ قرآن کریم میں تو آیت غیر معطل ہے۔ یعی اس میں اس حکم کی کوءی توجیہہ نہیں کی گئی۔ پھر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ہم ان لوگوں کے شر سے محفوظ ہوگئے (حالانکہ خلاف مشاہدہ ہے) تو یہ حقیقت تو ناقابل انکار ہے کہ ان کے اسلام کی امیدیں اب بھی باقی تھیں اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
جہاں اہل شر کو اس سہم سے عطا کیا کرتے تھے وہاں کفر پر بھی صرف کرتے تھے تاکہ وہ اسلام میں داخل ہوسکیں اس جواب کے بعد ہم موصوف کے اصل مسئلہ کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔
ہم شیعہ اثنا عشری حکم خدا کے اطلاق و عموم کے مقابلہ میں کسی مصلحت کی کوئی قیمت اس وقت تک نہیں لگاتے جب تک کہ اس کے متعلق خود شریعت میں کوئی نص نہ وارد ہوئی ہو اور یہی شافعی و حنفی حضرات کا قول ہے ۔ لیکن حنبلی حضرات ایسی مصلحتوں کو بھی معول بہ تصور کرتے ہیں صرف فرق اتنا ہے کہ یہ نص کہ مقابلہ میں ان مصالح
مرسلہ کو مقدم کر دیتے ہیں۔ البتہ صرف اس وقت جب نص کا تعلق خبرت واحد
سے ہو اور یا ان عمومات سے جو قابل تخصیص ہیں، اس بیان سے معلوم ہوگیا کہ اس کے پانچویں فرقے اس امر پر متفق ہیں کہ یہ آیت قابل تخصیص و تغیر نہیں ہے۔ بلکہ اگر مسلمانوں کو اجماع اس امر پر نہ ہوتا کہ حضرت عمر و حضرت ابوبکر نے اس حکم کو ختم کر دیا تھا تو ہم بطور حسن ظن یہ کہتے کہ آیت زکوۃ نے آٹھ قسموں کو زکوۃ کا مصرف قرار دیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مال زکوۃ کو تمام اضاف پر تقسیم کر دیا جائے تو فریضہ ادا ہوجاتا ہے ۔ اور یہ مسلمانوں کا اجماعی مسئلہ ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے خود ہی بالاتفاق طے کر لیا ہے کہ دونوں نے حکم شرعیت کی مخالفت کی اور اسی لیے تاویل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آخر کلام میں ہم علامہ موصوف کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ شیعہ امامیہ کسی وقت بھی مصالح کو نص پر مقدم نہیں کرتے اور نہ ان کے مذہب میں اس قسم کی خرافات کا وجود ہے ۔
___________________