تاویلات حضرت معاویہ
موردالحاق زیاد :۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ نے زیاد کو اپنے نسب میں اس دعویٰ سے شامل کرلیا کہ میرے باپ حضرت ابوسفیان نے سمیہ کے ساتھ زنا کیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں زیاد کی ولادت ہوئی تھی اور اس پر ابو حریم نے شہادت بھی دی تھی۔ حالانکہ حدیث رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
صراحتاً اس امر پر دلالت کی رہی ہے کہ لڑکا صاحب فراش کا ہوتا ہے اور زانی کی قسمت میں صرف پتھر ہیں۔
یہ وہ جاہلی عمل تھا کہ جس پر مسلم اکثریت نے اعتراض بھی کیا لیکن حضرت معاویہ نے کوئی پرواہ نہ کی۔ بلکہ اس شخص سے نفرت شروع کردی جس نے زیاد کو اس کا بھائی تسلیم نہ کیا۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے اسے معاویہ اپنے باپ کی عفت سے نالاں ہے اور اس کے زنا سے راضی۔
مورد خلافت یزید :۔
حضرت معاویہ باوجودیکہ یزید کی حیثیت اور اس کے گردار سے واقف تھا لیکن اس نے یزید کو اپنا خلیفہ بنا دیا جبکہ اس وقت سبط رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
حضرت امام حسین ؑ کے علاوہ اکثر مہاجرین و انصار علماء و قراء بھی موجود تھے ۔ کہ جو جمہوری قانون کی بناء پر مستحق خلافت تھے۔ اس استخلاف کا نتیجہ یہ ہوا کہ یزید نے کربلا میں وہ واقعہ ایجاد کیا کہ جس نے انبیاء مرسلین کے ساتھ پتھروں کو بھی خون کے آنسو رلایا۔ اور پھر اپنے باپ کی وصیت کی بناء پر (مسلم ) بن عقبہ کے ذریعہ مدینہ طیبہ کو تاراج کرادیا۔ یہاں تک کہ مورخین کے بیان کے مطابق ایک ہزار خو بھی حلال کر لیا گیا۔ اور بعض روایات کی بنا پر سپاہیوں نے شیر خوار بچوں کو ماں کی گود سے لے کر دیوار پر اس طرح مار دیا کہ اس کا دماغ پاش پاش ہوگیا ۔ پھر ان تمام مظالم کے بعد اہل مدینہ سے غلامی کی بیعت لیکر ان کے سر امیر کے پاس روانہ کر دیئے گئے ۔ اور جب اس نے سر دیکھے تو مارے خوشی کے اشعار گنگنانے لگا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد مجرم نے مکہ کا رخ کیا۔ تاکہ ابن زبیر سے مقابلہ کرے ۔ اتفاقاً اثناء راہ میں واصل جہنم ہوگیا۔ تو حصین بن نمیر نے قیادت سنبھالی ۔ اور اس نے بھی مکہ معظمہ کو تباہ کرکے خانہ کعبہ کا غلاف جلادیا۔ اس پر منجنیق سے پتھراو کیا۔ یہ وہ کارنامے ہیں کہ جو صفحہ کاغذ پر لکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تو قلب تاریخ اور سینہ گیتی پر نقش ہیں۔
افسوس کہ حضرت معاویہ نے باوجود اس علم کے یزید شراب خواد قمار باز زنا کار اور فاسق و فاجر ہے اسے تخت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا وارث بنا دیا جبکہ حدیث رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
صراحتا اعلان کر رہی تھی کہ جو حاکم رعیت کے ساتھ خیانت کرے گا اس پر جنت حرام ہے (بخاری ج ۴ ص ۱۵۰) جو حاکم دوسرے کو بلاوجہ شرعی حاکم بنادے گا اس پر اللہ کی لعنت اور وہ جہنمی ہے۔ (مسند احمد) جو رعیت کا نگران ہوگا اور ان کو نصحیت نہ کرے گا وہ بوئے جنت سے محروم رہے گا (بخاری)
مورد مظالم یمن :۔
سنہ ۴۰ ہجری میں حضرت معاویہ نے بسر بن ارطاہ کو یمن روانہ کیا تاکہ وہ وہاں تباہی و بربادی برپا کرے ۔ چنانچہ وہ لشکر لے کر وہاں پہنچا ۔ عبیداللہ بن عباس وہاں جناب امیر کی طرف سے حاکم تھے۔ یہ دیکھ کر انہوںنے اپنے بچو کو نانا کے سپرد کیا اور خود فرار ہوگئےء ادھر اس منحوس لشکر نے قتل و غارت کے ساتھ ہمدان کی لڑکیوں کو گرفتار کرکے انہیں سربازار فروخت کرنا شروع کیا۔ (استیعاب) اس کے بعد ابن عباس کی خسر کو قتل کرکے ان کے بچوں کو تلاش کیا ۔ وہ ایک شخص کے پاس ملے۔ ان لوگوں نے انہیں قتل کرنا چاہا۔ اس نے مدافعت کی تو پہلے اسے قتل کیا۔ اس کے بعد بچوں کو ماں کے سامنے یہ تیغ کر دیا۔ جس کے زیر اثر زوجہ ابن عباس کا دماغ مختل ہوگیا۔ (استیعاب ) یہاں تک کہ یہ منظر دیکھ کر ایک عورت نے بسر سے کہا کہ ایسا عمل تو جاہلیت میں بھی نہ تھا خدا کی قسم جس سلطنت کی بنیاد ان مظالم پر ہو وہ بدترین سلطنت ہے۔ (فصول مہمہ)
مورد قتل صالحین :۔
معاویہ کے مظالم کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس نے فرزند رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو زہر سے شہید کرا دیا جیسا کہ ابوالحسن ( ۱) ( شرح النہج ج ۴ ص ۴ ) مدائینی لکھتا ہے ۔ امیر شام معاویہ نے جعدہ بنت اشعت سے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ امام حسن علیہ السلام کو قتل کر دے تو ایک لاکھ انعام دے گا اور یزید سے عقد بھی کر دیگا۔ اس نے آپ کو زہر دے دیا ۔ لیکن امیر شام معاویہ نے مال تو دے دیا البتہ عقد سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے یزید کی جان پیاری ہے حصین بن منذر کا کہنا ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت حسن ؑ کے ساتھ کسی ایک شرط پر بھی عمل نہیں کیا ۔چنانچہ حجر اور ان کے اصحاب کو قتل کیا۔ یزید کو خلافت دی۔ اور خود امام حسن ؑ کو زہر دلادیا۔ ابوالفرح اصفہانی مقاتل الطالسین میں لکھتا ہے کہ امیر شام معاویہ کے سامنے یزید کے مقابل دو قوتیں تھیں ۔ امام حسن ؑ سعد بن ابی وقاص اس نے دونوں کو زہر دلادیا۔
صاحب استیعاب نے لکھا ہے کہ امام حسن کو بنت اشعث نے زہر دیا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ اس کا محرک معاویہ تھا۔
اس حادثہ کے بعد دوسرا اہم حادثہ وہ ہی کہ جس میں حجر بن عدی اور ان کے اصحاب کو سنہ ۵۱ ہجری میں تہ تیغ کیا گیا۔ صرف اس جرم می کہ ان حضرات نے حضرت علیؑ پر لعنت نہیں کی۔ یہی وہ واقعہ تھا کہ جس پر تمام اصحاب و تابعین نے اس کی مذمت کی ہے اور تمام مورخین نے اسے نقل کیا ہے ۔ اس کے بعد ایک ظلم یہ ہوا کہ عمر بن الحمق الخزاعی کو صرف حضرت علی کی محبت کے جرم میں قتل کرکے ان کا سر نیزہ پر بلند کر دیا کہ جو تاریخ اسلام کا پہلا واقعہ تھا۔
یہ سلسلہ اسی مقام پر ختم نہیں ہوا بلکہ تاریخ میں یہاں تک موجود ہے کہ اگر کسی سے یزید کی خلافت کے سلسلہ میں اندیشہ پیدا ہوگیا تو اس کا فوراً خاتمہ کر دیا۔ خواہ وہ اپنا خاص دوست اور ہمدرد ہی کیوں نہ رہا ہو۔ جس کا شاہد عبدالرحمن بن خالد قتل ہے کہ جو تاریک میں آج تک نمایاں ہے۔
مورد افعال قبیحہ :۔
حقیقت امر یہ ہے کہ اگر معاویہ کے افعال قبیحہ اور اعمال شنیعہ کی فہرست تیار کی جائے تو شاید سمندروں کی سیاہی ختم ہوجائے انسانوں کے ہاتھ تھک جائیں اور یہ سلسلہ ختم نہ ہوسکے۔ یہی کیا کم ہے کہ اس شخص نے امت اسلامیہ کی گرد پر ابن شعبہ، ابن عاص ، ابن سعد، ابن ارطاہ ، ابن جذب ، مردا ، ابن اسمط، زیاد، ابن مرجانہ اور ولید جیسے اراذل و اوباش کو حاکم بنا دیا جس کی وجہ سے اسلامی احکام کی علی الاعلان ہتک حرمت ہوئی۔
مورد بغض علی ؑ :۔
امیر شام معاویہ کا بغض امیرالمومنین ؑ کے ساتھ اپنی شہرت و حقیقت میں وہی حیثیت رکھتا ہے کہ جو قضیہ شیطان و آدم کی ہے ۔ دنیا کا کون مورخ سیرت نگار تاریخ دان بلکہ اہل نظر ایسا ہے کہ جسے اس بغض و حسد کی خبر نہ ہو۔ حالانکہ ادھر احادیث صحیحہ میں امیر المومنین کی محبت و عداوت کے آثار و احکام صراحتا مذکور ہیں چنانچہ حضرت سلیمان فارسی پر اعتراض کیا گیا کہ آپ حضرت علی ؑ کو زیادہ دوست رکھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا ارشاد ہے ۔ ان کا دوست میرا دوست اور ان کا دشمن میرا دشمن ہے ۔ حضرت عمار نے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے روایت کی ہے کہ دوست علی ؑ کے طوبی اور دشمن علی ؑ کے لیے ویل ہے ۔ (مستدرک ۳ ص ۱۳۵)
حضرت ابو سعید خدری نے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل کیا ہے کہ ہم اہل بیت کا دشمن صرف جہنمی ہوسکتا ہے (مستدرک ) حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک منافقین کے علامات میں انکار رسول ترک نماز اور بغض علی تھا۔ (مستدرک ) ابن عباس کہتے ہی کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی ؑ کو دیکھ کر فرمایا کہ تم دنیا و آخرت کے سردار ہو۔ تمہارا دوست میرا دوست اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے ۔ عمرو بن شاس اسلمی کہتا ہے کہ میں حضرت علی کے ساتھ یم جارہا تھا راستہ میں آپ نے مجھے تکلیف دی۔ میں نے پلٹ کر مسجد میں ذکر کر دیا۔ ادھر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو خبر مل گئی۔ آپ نے بلا کر فرمایا کہ تم نے مجھے اذیت دی ہے ۔ اس لیے کہ حضرت علیؑ کی اذیت میری اذیت ہے۔ (مستدرک ) حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا اور جو مجھ سے الگ ہوا وہ اللہ سے الگ ہوگیا ۔ صاحب استیعاب نے آپ کے حالات می یہ حدیث نقل کی ہے کہ بقوول پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
۔ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا محب حضرت کا محب اور آپ کا دشمن حضرت کا دشمن ہے ۔ جس نے آپ کو اذیت دی اس نے خدا و رسول کو اذیت دی۔
طبرانی وغیرہ نے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا قول نقل کیا ہے کہ اقوام کو کیا ہوگیا ہے کہ جو حضرت علی سے بغض رکھتے ہیں حالانکہ اس سے بغض مجھ سے بغض ہے۔ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ہم دونوں طینت ابراہمبی سے خلق ہوئے ہیں اے بریدہ یاد رکھ کہ علی میرے بعد تم سب کا ولی ہے ایک مرتبہ چند لوگوں نے آپ کی شکایت آنحضرت سے کی تو حضرت نے فرمایا کہ تم سب علی سے کیا چاہتے ہو؟ وہ مجھ سے ہے اور میں اس ہوں ۔ وہ تم سب کا ولی ہے استیعاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ آنحضرت نے دوست علی ؑ کو مومن اور دشمن علی کو مناف سے تعبیر فرمایا ہے ۔
اقول :۔
ان روایات کے علاوہ مسلم نے بھی محبت امیر کی روایت نقل کی ہے۔جس کے تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں من کنت ومولا کے ساتھ اللہم و ال من والا کا کلمہ اثبات مطلب کے لیے بہت کافی ہے۔
مورد لعنت معاویہ :۔
وہ اہل بیت جنہیں اللہ نے ہر رجس ظاہری و باطنی سے پاک کیا جن کی محبت و اطاعت فرض قرار دی جن کو قرآن کا عدیل قرار دیا۔ جن کا ایک محبوب و محب خدا و رسول وزیر وصی نبی تو ایک نصعتہ الرسول اور بنت النبی دو سردار جوانان جنت مگر افسوس کہ معاویہ نے اان مقدس ہستیوں کو اپنے قنوت میں مورد لغت بنادیا۔ اور ان کسیاتھ ابن عباس کو بھی شامل کر دیا۔ حالانکہ اسے ضرورتا معلوم تھا کہ یہ مرکز وحی معدن علم اہل بیت نبوت اور موضح رسالت ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ امیرالمومنین برادر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر لغت کو ایک رسمی امر بنا کر تمام اعمال پر لازم قرار دے دیا۔ اور اس کے طرح جمعہ و عیدین کے خطبوں میں لغت جاری ہوگئی۔ اور یہ سلسلہ سنہ ۹۹ ہجری تک جاری رہا یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سلسلہ کو بند کیا اور ارواح طاہرہ کو یک گونہ سکون نصیب ہوا امام حسن ؑ نے باوجود یکہ شرائط صلح میں یہ طے کیا تھا کہ امام پر لغت کا سد باب ہوجائے۔ لیکن طبری کامل ابوالفداء ابن شحنہ سب نے نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہ نے اس شرط پر وفا نہیں کی۔ بلکہ امام حسن ؑ کے منبر کوفہ پر موجود ہوتے ہوئے امام پر سب و شتم کیا۔ اور جب امام حسین ؑ نے روکنا چاہا تو امام حسن نے منع کیا جیسا کہ مقاتل الطالیبین وغیرہ میں مذکور ہے حد ہوگئی کہ امیر شام معاویہ نے اس سب و شم کا حکم احنف بن قیس اور عقیل کو بھی دیا۔ لیکن انہوں نے قبول نہ کیا (ابوالفداء) عامر بن سعد بن ابی وقاص کہتے ہی کہ حضرت معاویہ نے میرے باپ کو سب و شتم کا حکم دیا تو انہوں نے کہا کہ اگر علی ؑ کے لیے یہ تین فضائل نہ ہوتے تو خیر اس لے کہ یہ ایک ایک فضل میری نظر میں ایک عالم سے بہتر ہے اول یہ کہ وہ نبص رسول مثل ہارو موسیٰ ہیں ۔ ثانیا یہ کہ انہیں خیبر میں ہم سب پر فوقیت حاصل ہوئی۔ اور ثالثا یہ کہ وہ مباہلہ میں نفس و اہل بیت قرار پائے۔ (مسلم) اہل نظر یہ بھی جانتے ہیں کہ معاویہ نے حجر بن عدی وغیرہ کو خون بھی اس جرم میں بہایا ہے کہ انہوں نے لغت سے انکار کر دیا تھا ۔ (آغانی طبری کامل) ان کتابوں میں یہاں تک مذکور ہے کہ عبدالرحمن بن حسان نے جب لغت سے انکار کیا تو انہیں زیاد کے پاس روانہ کرکے یہ لکھ دیا کہ ان کو اس طرح قتل کرو جس طرح آج تک کوئی قتل نہ ہوا ہو اس نے انہیں زندہ دفن کرادیا۔ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک اموی نے پوچھ لیا کہ اے امیر یہ سلسلہ کب تک ؟ تو کہا کہ جب تک کہ بچے جوان اور ضعیف قریب مرگ نہ ہوجائیں۔ تاکہ کسی کو حضرت علی ؑ کی فضیلت یاد نہ رہے۔ یہ تمام باتیں اس وقت تھیں جبکہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علی پر سہ و شتم کو اپنے سب و شتم کے برابر قرار دیا تھا۔ (حاکم احمد)
استیعاب میں بھی حضرت علی کے حالات میں اس قسم کے روایت مذکور ہیں اس کے علاوہ اسلام کا بدیہی مسئلہ ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں مذکور ہے (الالعنت اللہ علی الکافرین)
مورد حرب باعلی :۔
امیرالمومنین ؑ کے لیے بیعت تمام ہونے کے باوجود امیر شام معاویہ نے شام کے اوباشوں کا لشکر تیار کرکے آپ کے مقابلہ کا قصد کیا اور جس کے نتیجہ میں اپنی شقادت اور خباثت کا مظاہرہ کرکے لاتعداد صالحین و اصحاب و تابعین کو تہ تیغ کر دیا۔ حالانکہ قتال مسلم کفر ہے (بخاری و مسلم) تفریق جماعت مستوجب قتل ہے (مسلم) حضرت علیؑ ناکثین و قاسطین و مارقین کے جہاد پر مامود تھے (استیعاب) اور خود فرماتے تھے کہ اب سوائے جنگ یا کفر کے کوئی راہ باقی نہیں ہے ۔ امام کے لیے قرآن مجید کا صریحی حکم کافی تھا کہ اولاً مومنین میں اصلاح کی کوشش کرو اور اگر کوئی تعدی کرے تو اس سے جہاد کرو۔ پھر یہ کہ معاویہ کی بغاوت تو عصر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہی سے مسلمانوں کو معلوم ہوچکی تھی۔ جب کہ براویت حضرت ابوسعید خدری حضرت عمار تعمیر مسجد میں زیادہ حصہ لے رہے تھے ۔ اور حضرت نے فرمایا تھا کہ عمار کا قاتل ایک باغی فرقہ ہوگا جو لوگوں کو جہنم کی دعوت دے رہا ہوگا۔ قرآن مجید کے دوسرے حکم کے مطابق جہنم کی دعوت دینے والا امام دار دنیا میں لعنت کا حقدار ہو جاتا ہے افسوس کہ ان بدبخت نام نہاد مسلمانوں نے ان تمام نصوص کو نظر انداز بالخصوص یا جملہ اہل بیت سے جنگ کو اپنے قتال کے برابر قرار دیا تھا۔
مورد وضع احادیث :۔
ابن ابی الحدید ابو جعفر اسکانی سے نقل کیا ہے کہ امیر شام معاویہ نے حضرت ابوہریرہ ، عمروالعاص ، مغیرہ اور عروہ بن بن زبیر کے قسم کے لوگوں کو اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ حضرت علی ؑ کی منقصت میں روایات وضع کرے اور اس طرح حضرت معاویہ کی حکومت میں یہ کاروباری جاری ہوگیا۔ چنانچہ زہری کہتا ہے کہ مجھ سے عروہ نے حضرت عائشہ کے حوالے سے بیان کیا کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت علیؑ اور حضرت عباس ؑ کو د یکھ کر فرمایا تھا کہ یہ دونوں غیردین اسلام پر مریں گے۔ (نعوذ باللہ)
عبدالرزاق نے معمر سے نقل کیا ہے کہ عروہ کی دو روایات زہری کے پاس تھے ایک وہی جو ابھی ذکر ہوئی اور ایک کا مضمون یہ تھا کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان دونوں بزرگوں کے ناری ہونیکی خبر دی ہے۔ (العباذ اللہ)
عمروالعاص نے اپنے فریضہ کے مطابق یہ روایت تیار کی کہ آل ابو طالب میرے دوست نہیں ہیں میرا دوست اللہ ہے اور عباد صالحین (بخاری و مسلم ) ابوہریرہ نے یہ روایت وضع کی کہ حضرت امیر نے ابوجہل کی لڑکی کو پیغام دیا تو رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے غصہ میں منبر پر اعلان فرمایا کہ میری لڑکی دشمن خدا کی لڑکی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ۔ فاطمہ کو اذیت دینا مجھے اذیت دینا ہے۔ اگر حضرت علی کا قصد عقد ثانی کا ہے تو میری لڑکی کو چھوڑ دیں۔ (بخاری و مسلم)
سید مرتضیٰ نے بیان کی ہے کہ یہ روایت حسین کو بیسی کی ہے جس کا بغض و حسد معروف ہے۔ ابو جعفر نے اعمش سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب معاویہ کے ساتھ ابوہرہ عراق آیا تو مسجد کوفہ میں اس نے اعلان کیا کہ لوگ مجھے کاذب خیال کرتے ہیں حالانکہ خدا کی قسم میں نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سنا ہے کہ جو شخص حرم نبی میں کوئی حادثہ واقع کرے گا اس پر خدا و رسول اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی نے ایسا کیا ہے اس کے عوض میں معاویہ نے ابوہریرہ کو انعام کثیر دے کر مدینہ کا حاکم بنادیا حضرت سفیان ثوری نے عمر بن عبدالغفار سے نقل کیا ہے کہ جب ابوہریرہ کوفہ آیا تو اس نے روزانہ شام کے وقت اپنی نشست قائم کرلی ایک دن ایک شخص ( ۱ صبغ بن نباتہ) نے اس سے پوچھا کہ خدا کو حاضرو ناظر جان کر یہ بیان کرو کہ تم نے رسول اکرم ص سے یہ سنا ہے یا نہیں کہ حضرت علی ؑ کا دوست دوست خدااور علی ؑ کا دشمن دشمن خدا ہے اس نے اعتراف کیا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم تو حبیب کے خدا دشمن کا دوست ہے اور یہ کہہ کر روانہ ہوگئے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ معاویہ نے امیرالمومنین ؑ پر ظلم کی کوئی ترکیب باقی نہیں رکھی۔ وسیعلم الذین ظلمو ا ای منقلب ینقلبون
مورد نقص عہد :۔
جب امیر شام معاویہ نے امام حسن ؑ کو دعوت صلح دی اور آپ کی نظر میں بھی اس میں مصلحت نظر آئی تو آپ نے چند مخصوص شرائط کے ساتھ اسے منظور فرمالیا۔ جس کا واقعہ یہ ہے کہ معاویہ نے ایک سفید کاغذ مہرلگا کر روانہ کر دیا کہ آپ جو چاہیں تحریر کردیں۔ (طبری کامل) آپ نے بجائے اپنے دست مبارک سے لکھنے کے معاویہ کے قاصد عبداللہ بن عامر سے لکھوایا اور کاغذ روانہ کر دیا۔ حضرت معاویہ نے اس کی نقل امام حسن کے پاس روانہ کی جس کے آخر میں یہ ذکر تھا کہ اس قرار دار پر عمل عہد خدائی ہے کہ جس پر وفالازم ہے اس کے بعد اس امر کا تمام شام میں کبھی اعلان کرادیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ حضرت معاویہ کی نظر میں وفائے عہد سے زیادہ اہم استخلاف تھا۔ اس لیے اس نے تمام شرائط کو زیر قدم ڈال کر امام حسن کے سامنے امیرالمنومین ؑ پر سب و شتم کیا۔ جبکہ مسلمان صلح کا جشن منارہے تھے ۔ (صلح الحسن شیخ راضی آل یسین) اور اس طرح معاویہ کے مظالم قتل و غارت غصب و نہب ہتک و تذلیل وغیرہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس کے آثار اہل تاریخ سے مخفی نہیں ہیں۔ اور پھر ان مصائب و مظالم کا سلسلہ بظاہر اس دن ختم ہوا کہ جبکہ امام حسن کو زہر سے شہید کر دیا اور در پردہ اس کی خبریں اس وقت تک پھیلتی رہیں جب تک کہ سبط اصغر فرزند رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا قتل نہ ہوگیا اور حرم خدا و رسول کی ہتک حرمت ظہور میں نہ آگئی۔
(یہی وہ مظالم ہیں کہ جن سے آسمان کے شگاف اور زمین کے انقلاب کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں)