کا تعلق اموال سے ہوتا ہے ۔ یہ لفظ علم و حکمت و میں مجازا استعمال ہوتی ہے ۔ اور وہ اس وقت بے محل ہے۔ اب ہم حضرت صدیقہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے موقف کو واضح کرتے ہیں۔ آپ ے مطالبہ میراث کیا۔ حضرت ابوبکر نے انکار کر دیا تو آپ بے حد غضبناک ہوئیں۔ یہاں تک کہ جنازہ میں شرکت کی ممانعت کر دی۔ پھر آپ ؑ کا تاریخی خطبہ آپ کے رنگ استدلال اور غیظ و ملال کا شاہد عادل ہے۔ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ کیا تم نے عمدا حکم خدا کو ترک کر دیا ہے۔ کہ وہ تو انبیاء میں میراث قرار دیتا ہے ۔ یا تم عموم و خصوص سے میری اور میرے پدر بزرگوار کی نسبت سے زیادہ واقف ہو۔ یا تم میرے اور میرے باپ کی مذہب کو جدا جدا تصور کرتے ہو؟ ذرا ملاحظہ کریں بنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے پہلے آیات ارث انبیاء سے استدلال کیا اس کے بعد عموم میراث سے استدلال کیا۔ اس کے بعد قوم کی حمیت و غیرت کو چیلنج کیا جو حکم خدا اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی مخالفت پر آمادہ تھی۔ اہل انصاف بتاءیں کیا یہ ممکن تھا کہ ایسا واضح حکم (یعنی عدم وراثت اولاد انبیاء) بنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو معلوم نہ ہو جبکہ اس کا براہ راست تعلق آپ ہی سے تھا۔ کیا رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
احکام کو چھپا لیا کرتے تھے ۔ اور مکمل طور پر تبلیغ نہ فرماتے تھے؟ کیا امیرالمومنین علی السلام جن کو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے باب العلم اقضی امت باب حطہ سفینہ نجات قرار دیا تھا اس حکم سے واقت نہ تھے؟ کیا امہات المومنین کو یہ حکم معلوم نہ تھا کہ حضرت عثمان سے میراث کا مطالبہ کر بیٹھیں؟ معلوم ہوا کہ معاملہ احکام سے متعلق نہ تھا بلکہ سیاست سے متعلق تھا۔ اور سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کو ان کے حق سے محروم کردیا جائے ۔ اسی لیے آپ نے ایک کلمہ سے تمام امات اسلامیہ کی غیرت و حمیت کو چیلنج کر دیا۔ اور وہ اس وقت کہ جب آپ کی زبان اقدس سے یہ الفاظ نکل رہے تھے۔
""اے ابو بکر کیا ہمیں ہمارے باپ کے دین سے الگ تصور کر لیا ہے جو ہمیں ان کا وارث نہیں قرار دیتا؟ حیف صد حیف بنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
باپ کے انتقال کے فوراً بعد ایسے دلخراش اور جگر سوز نالوں پر مجبور ہوجائے"" انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مورد عطیئہ زہرا :۔
جب پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے خیر کے قلعے فتح کئے اور اہل فدک نے مرعوب ہوکر نصف اراضی پر آپ سے مصالحت کرلی تو آپ نے اپنی خاص ملکیت ہونے کی بنا پر آیت حق ذوی القربی کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو عطا کر دیا۔ اور پھر یہ مال آپ کے زیر تصرف رہا۔ یہاں تک کہ غصب کر لیا گیا ہے ۔ یہ ہے امت اسلامیہ کا وہ اجماعی مسئلہ جسے تمام علماء نے نقل کیا ہے۔
امام رازی کہتے ہیں کہ حضرت زہرا علیہا السلام نے عطیہ کا دعوے کیا۔ تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ مجھے تمہاری صداقت کا اعتبار نہیں۔ آپ نے گواہ پیش کیئے لیکن نصاب ناتمام کہا گیا ۔ ابن حجر کہتا ہے کہ دعوی عطیہ میں حضرت فاطمہ کا نصاب شہادت نا تمام تھا یہ ہی بیان ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ کا بھی ہے۔
اقول :۔
خدا مجھے معاف کرے اور حضرت ابوبکر سے حضرت فاطمہ ؑ اور ان کے آباو اولاد کو راضی کرے کاش انہوں نے ایسا اقدام نہ کیا ہوتا کہ جس سے امت اسلامیہ کے دل مجروح ہوگئے اور حکایت پر از حز والم ہوگئی ۔ کاش حضرت فاطمہ ؑ کو مال دے دیا ہوتا اور اس طرح اپنی نرم دلی اور شدت احتیاط کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا۔ کاش حق رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہی کا خیال کیا ہوتا۔ اور حضرت فاطمہ ؑ کو مایوس نہ پلٹایا ہوتا۔
یہی وہ امور ہیں کہ جن کی تمنا خلیفہ سے ان کے قدیم و معاصر معتقدین نے بھی کی ہے۔ چنانچہ اس مقام پر استاد ابو ریاح کا قول بھی خالی از لطف نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبرواحد سے کتاب کریم کے عمومات
کی تخصیص ہوسکتی ہے اور حدیث لانرث ولانورث صحیح ہے تو اتنا تو بہر حال کہہ سکتے ہیں کہ حق ولایت کی بنا پر حضرت ابوبکر کے لیے ممکن تھا کہ ایک حصہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کو بھی دے دیتے جس طرح کہ زبیر اور محمد ابن مسلمہ کو متروکات رسالت می حصہ دیا۔ یا جس طرح کہ حضرت عثمان نے خود فدک کو مردان کے حوالہ کیا۔
ابن ابی الحدید نے بعض بزرگوں سے یہ کلام نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر کا یہ اقدام دین سے قطع نظر شرافت و کرامت کے بھی خلاف تھا اور اس کے بعد کہا ہے کہ یہ اعتراض لاجواب ہے۔
____________________
تنقید:۔
ہمیں کسی کے رحم و کرم کی ضروری نہیں ہے ۔ ہمارا سوال تو یہ ہے کہ کیا واقعا انصاب حکم نا تمام تھا ؟ کیا خود حاکم کا حضرت فاطمہ ؑ کی صداقت کے متعلق یقین حکم کے لیے ناکافی تھا؟ جسے روز مباہلہ کے لیے متخب کیا تھا جس کے جلال و جمال سے متاثر ہوکر نصاری نے مباہلہ کا خیال ترک کیا تھا جس کو وحی الہٰی نے مرکز تطہیر قرار دیا تھا جس کی محبت کو قرآ نے واجب کیا تھا اور جس پر صلوات شافعی کی نزدیک شرط صحت و قبولیت نماز ہے جس کی شان میں سورہ دہر قصیدہ بن کر نازل ہوا تھا۔ یقیناً ایسی ذات مقدس کا کلام شہادت دبینہ سے مافوق ہونا چاہئے تھا۔ لیکن حقیقتاً معاملہ وہ تھا جو علی ب فاروقی نے اس وقت ظاہر کیا کہ جب ابن ابی الحدید نے پوچھا کہ اگر حضرت فاطمہ ؑ صادقہ تھیں تو حضرت ابوبکر نے فدک کیوں نہ دے دیا۔ اور انہوں نے جواب دیا کہ اگر آج ان کے قول کا اعتبار کر لیئے تو کل اپنے شوہر کے لیئے خلافت کا دعوی کرتیں اور حضرت ابوبکر لاجواب رہ جاتے۔
شاید یہی فلسفہ تھا جس نے حضرت علی کی گواہی مانتے سے روک دیا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ حضرت علی کی ذات وہ ہے جسے یہود خیبر بھی عادل و معتبر جانتے تھے۔ پھر طرفہ تماشایہ ہے کہ صاحب یدیعنی قابض سے گواہ مانگے گئے پھر گواہوں میں حضرت علی جیسے صادق القول کے کلام کو ٹھکرا دیا گیا ۔ جبکہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فقط خزیمہ کے قول کا اعتبار فرما لیا تھا۔ اور حضرت علی خزیمہ سے قطعاً افضل تھے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت فاطمہ ؑ کی گواہی کی ضرورت تھی اور حضرت علی ؑ کی گواہی ناکافی تھی تو خلیفہ نے حضرت فاطمہ ؑ سے قسم کیوں نہ لی۔ جیسا کہ قانون شریعت ہے اور پھر جبکہ حضرت فاطمہ ؑ کی وہ شخصیت ہے کہ بضعتہ النبی اور حضرت علی ؑ کی ذات وہ ہے کہ جسے آیت مباہلہ نے نفس رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
قرار دیا ہے ۔ یہ وہ مصیبت ہے کہ جس پر اہل اسلام کو اناللہ و انا الیہ راجعون کی تلاوت کرنا چاہیے۔
مورد ایذاء زہراسلام اللہ علیہا:۔
یہ یاد رہے کہ تمام اسباب و علل سے قطع نظر یہ امر قبیح خود بھی نصوص صریحہ کے مخالف ہے اس لیے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکم بعض لوازم کی بنا پر بدل جاتا ہے ۔ مثلاً فعل مباح اگر موجب عقوق والدین ہوجائے تو خود ہی حرام ہوجائیگا اب ذرا وہ نصوص ملاحظہ کریں کہ جن میں نبوت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی عظمت بیان کی گئی ہے۔
اصابہ میں ابن ابی اعسم سے اور ""شرف موید"" میں طبرانی سے روایت ہے کہ اللہ تو حضرت فاطمہ ؑ کے غضب سے غضبناک ہوتا ہے ۔ بخاری و مسلم نے بھی یہ روایت نقل کی ہے نبہانی نے بھی تصریح کی ہے اور جامع صغیر میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ خود بنت رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بھی حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو گواہ بنا کر اس روایت کو بیان کیا تھا۔ ""الامت و السیاست""
اقول :۔
ان احادیث کے انداز پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اخبار میں حضرت صدیقہ طاہرہ کی عصمت عظمت کا صراحتا اعلان کیا گیا ہے آپ ہی کی رضا و غضب پر خدا و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے رضا و غضب کا دارو مدار ہے امام احمد حاکم طبرانی ترمذی اصابہ استاد عقاد وغیرہ نے حدیث غضب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم کو بھی نقل کیا ہے۔
ان تمام احادیث کے پیش نظر امت کے اہل حل و عقد کا فریضہ تھا کہ ایسے غمناک موقع پر اہل بیت کا احترام کرتے اور ان کو تسکین دیتے لیکن حیف کہ بجائے تعظیم و تکریم کے مصائیب کا پورا رخ انہیں کی طرف موڑ دیا گیا۔
(قصہ احراق بیت الشرف العقد الفرید ۵ ص ۱۲ )
یہاں تک کہ اہل بیت کی آواز کو صدا بصحرا بنا دیا گیا۔اور ان کے ابدی وقار کو ظاہرا ان سے سلب کر لیا گیا۔ اناللہ و اناللہ راجعون۔
مورد قتل ذوالثدیہ:۔
حرقوس بن زہیر جو ایک خارجی محض آدمی تھا اور ذوالثدیہ کے لقب سے مشہور تھا ایک مرتبہ حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو اس کے قتل کا حکم دیا لیکن دونوں نے اس کو حالت نماز میں دیکھ کر چھوڑ دیا۔ اور اس طرح فتنہ کی جڑ باقی رہ گئی۔ اس روایت کی مفصل طریقہ سے ابو لیلی نے اپی مسند میں انس سے نقل کیا ہے اور حافظ محمد ب موسی شیرازی نے اپنی کتاب میں بعض تفاسیر سے ابن عبدربہ نے اسے ارسال مسلمات کے طور پر بیان کیا ہے ۔ جس میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا یہ قول بھی درج ہے کہ اگر یہ شخص قتل ہوجاتا تو اسلام فتنوں سے محفوظ رہ جاتا۔ مگر افسوس کہ جب حضرت علی ؑ کو حکم قتل ملا تو یہ ظالم فرار کر چکا تھا۔
مورد قتل ذوالثدیہ:۔
علامہ نوری نے مجھ سے یہ بیان کیا تھا کہ اس واقعہ کے بعد ایک مرتبہ حضرت ابوبکر نے اسے ایک وادی میں مشغول نماز دیکھا اور آکر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سفارش کی تو آپ نے دوبارہ قتل کا حکم دیا۔ لیکن انہوں نے مثل حضرت عمر دوبارہ پر پھر حکم سے سرتابی کی اور اس کی نماز کو حکم رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر مقدم کیا جب کہ رسول عالم الغیب بھی تھا۔ میں اس روایت کے ماخذ کی تلاش میں تھا کہ دفعتاً مسند ابن حنبل کے جزو سوم میں سے یہ روایت یونہی نظر پڑی۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا دوسرا حکم باقاعدہ شناخت کے بعد تھا لیکن صحابہ نے اپنی رائے و فکر کو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر مقدم کر دیا۔ اور اس طرح نص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا۔
مورد قتال اہل قبلہ:۔
تاریخ سے باخبر افراد پریہ امر واضح ہے کہ وفات رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد مسئلہ خلافت میں شدید اختلاف واقع ہوا۔ مسلمانوں نے ایک کمیٹی کرکے حضرت ابوبکر کا خلیفہ بنالیا لیکن عرب کے مختلف قبائل ایسے تھے جنہوں نے اس خلافت کو قبول نہیں کیا اور اسی نظریہ کے زیر اثر حضرت ابوبکر کو مال زکوہ دینے سے انکار کر دیا۔ خلیفہ نے اپنی خصوصی میٹنگ میں ان افراد کے متعلق مشورہ کیا حضرت عمر نے شدت سے اصرار کیا کہ ان سے جنگ نہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ سب مسلمان ہیں۔ لیکن حضرت ابوبکر نے یہ اہتمام رکھا کہ یہ سب زکوۃ کے منکر ہیں لہذا ان سے جہاد ضروری ہے ۔ چنانچہ اسی بناء پر مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور اس طرح حضرت عمر کے مشورے کو نظر انداز کر دیا گیا۔
اقول :۔
خدا بھلا کرے خلیفہ کا ماشاء اللہ کتنی ذہانت اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے منکر زکوہ بنا دیا حالانکہ وہ بیچارے امر ولایت و امامت میں مشکوک تھے اور ایسی حالت میں زکوہ دینا ناجاءز تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ حاکم ناگہانی کو انصاف سے کیا مطلب ؟ ہم نے یہ مان لیا کہ زکوہ حق مال ہے لہذا اس کی اہمیت زیادہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مانع زکوۃ کو کافر بنا دیا جائے جبکہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے کلمہ توحید کو باعث حفظ جان و مال قرار دیا ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ جنگ خیبر کے موقع پر رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے جناب امیر ؑ سے یہ فرمایا تھا کہ بعد قبول اسلام جنگ جاءز نہیں ہے ۔ اسی نے مجروح کر دیا تھا تو رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اتنی نفرت کا اظہار فرمایا کہ میں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کاش میں آج کے بعد اسلام لاتا تو یہ دن دیکھنے میں نہ آتے بخاری ہی نے ایک روایت میں خالد کے متعلق نقل کیا ہے کہ ایک جسور آدمی کے قتل کی اجازت پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مانگی تو آپ نے نماز گزار کہہ کر روک دیا۔ انہیں دونوں کتابوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت نے مقام منی میں نفس مسلم کو شہر حرام بلد حرام اور روز حرام کے مانند محترم قرار دیا ہے غرض کتب احادیث میں احترام مسلم کی روایات بے شمار موجود ہیں جن کی صریحی مخالفت اس وقت کی گئی جب انکار ادائے زکوہ سے خلافت کی بنیادیں متزلزل نظر آنے لگیں۔ حالانکہ واضح ہے کہ ناگہانی خلافت اور فسادی حکومت میں تشکیک بلکہ اس کا انکار ہر مرد مسلم کا فطری حق تھا۔
مورد یوم سطاح:۔
وہ قیامت خیز دن جب حضرت ابوبکر کے جرنیل حضر خالد نے مالک اور ان کی قوم پر حملہ کرکے آزادانہ طور پر قتل و غارت قید و بند فسق و فجور سے کام لیا تھا۔
مالک؟ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا صحابی نویرہ کا فرزند بنی یربوع کی آبرو بنی تمیم کا تاج اور اسلامی زکوہ کا والی جسے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس عہدہ پر فاءز کیا تھا۔
مالک کا جرم؟ مالک کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر کے پاس مال زکوٰۃ بھیجنے سے انکار کر دیا اور اس کا تاریخی راز یہ تھا کہ وفات رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد مدینہ میں ہنگامی حالت نے تمام عالم اسلام کو مدہوش و متحیر کر دیا تھا کہی بن رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اموال کو غصب کرکے ان کے پسلیاں توڑی جارہی ہیں، کہیں شاہد رسالت کی گواہی مشکوک بنائی جارہی ہے کہیں بیت رسالت کی توہین کی جارہی ہے اور ایسے حالات میں ایک ایسی خلافت تیار ہوتی ہے کہ جس میں ایک طرف فخر عرب بنی ہاشم اور ایک طرف انصار و مہاجرین ظاہر ہے کہ ایسے حالات طبعی طور پر انسان کو اقدام سے اس وقت تک روک دیتے ہیں جب تک کوئی قطعی فیصلہ نہ ہوجائے لیکن افسوس کہ مالک کے لیے تحقیق و تفتیش بھی جرم عظیم و باعث قتل و غارت بن گئی ۔ ورنہ مالک کا قصد نہ جنگ کا تھا نہ جہاد کا وہ نماز کے منکر تھے نہ روزہ کے ہاں بنیادی طور پر خلافت حضرت ابوبکر کے منکر ضرور تھے۔
خالد اور سطاح:۔
اسد و غطفان کے قتل و غارت سے فراغت کے بعد جب خالد نے سطاح کا قصد کیا تو انصار نے روکا اور یہ کہ خلیفہ کی اجازت کے بغیر یہ اقدام کیسا؟ خالد نے جواب دیا کہ میں ولی امر ہوں تمہیں اعتراض کا حق نہیں ہے اور یہ کہہ کر روانہ ہوگیا۔ جب یہ لوگ وارد سطاح ہوئے تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ اس لیے کہ مالک نے قوم کو اس خوف سے منتشر کر دیا تھا کہ مبادہ حضرت ابوبکر ارادہ قتل و غارت کا الزام رکھ دیں۔ (الصدیق ابوبکر ہیکل ص ۱۴۴)
تلاش مالک :۔
خالد نے اپنے لشکر کو قوم کی تلاش میں روانہ کر دیا۔ چنانچہ مالک کو مع افراد قوم کے گرفتار کیا گیا۔ رات بھر انہیں نگرانی میں رکھا گیا۔ ان لوگوں نے اپنے اسلحہ سنبھال لیے۔ ابو قتادہ رئیس لشکر خالد نے اعتراض کیا انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم سے جہاد جاءز ہے تو تم سے بھی جائز ہے تو تم سے بھی جائز ہوگا ہم دونوں ہی مسلمان ہیں۔ غرض دونوں نے اسلحے رکھ کر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد لشکر سے اسلحے سنبھال لیے ۔ اور اب خالد و مالک میں بات چیت شروع ہوگئی ۔ مالک کے پہلو میں ان کی زوجہ بھی تھیں کہ جو ""بقول استاد عقاد"" اپنے وقت کی حسین ترین خاتون تھیں۔ مالک نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر نے ہمارے قتل کا حکم دیا ہے؟ خالد نے کہا ہم بہر حال قتل کریں گے۔ مالک نے مطالبہ کیا کہ ہمیں دیگر مجرمین کی طرح حضرت ابوبکر کے پاس لے چلو۔ وہاں فیصلہ ہوجائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور ابو قتادہ نے سفارش بھی کی لیکن حضرت خالد نے ایک نہ سنی اور قتل کا حکم دیدیا۔ اس وقت مالک نے اپنی زوجہ کے متعلق کہا کہ باعث قتل اس کا حسن و جمال ہے خالد نے جواب دیا کہ باعث قتل کفرو ارتداد ہے۔ مالک نے کلمہ اسلام زبان پر جاری کیا اور جاں بحق تسلیم ہوگئے ۔ خالد نے قوم کو گرفتار کرکے رات بھر سردی میں رکھا۔ اور اس کے بعد اپنی قوم کو حکم دیا کہ گرم کرو۔ اس کلمہ کے معنی ان کی زبان میں قتل کے تھے۔ چنانچہ اس بہانہ سے پوری قوم مالک کا خون حلال کر دیا گیا۔ مالک کی زوجہ سے اسی شب میں ۔۔۔۔۔۔ بالجبر کیا گیا ۔ یہ ہے یہ قضیہ مالک کی حقیقت جو محقق بصیر تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ باقی افسانے حکومت وقت کے خوشامدی اور نمک خوار افراد کے افکار کی پیداوار ہیں۔
ابو قتادہ و حضرت عمر کے حملات :۔ استاد ہیکل کا بیان ہے کہ اس حادثہ کو دیکھ کر ابو قتادہ اس قدر متاثر ہوئے کہ مالک کے بھائی کو لےکر مدینہ کی طرف یہ کہہ کر روانہ ہوگئے کہ ایسے شخص کے زیر علم رہنا ننگ و عار ہے۔ اور یہاں آخر حضرت ابوبکر سے شکایت کی۔ حضرت ابوبکر نے کوئی توجہ نہ کی تو حضرت عمر کے پاس گئے اور خالد کی بیحد مذمت کی۔ حضرت عمر متاثر ہوکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے ۔ اور انہوں نے زور دیا کہ خالد سے مواخذہ کیا جائے ۔ حضرت ابوبکر نے ٹال دیا۔ پھر اصرار کیا تو کہہ دیا۔ کہ وہ سیف اللہ ہے ۔ پھر تاکید کی تو بلایا ۔ خالد نے عمامہ میں تیر پیوست کرلیے حضرت عمر نے نکال کر پھینک دیے لیکن حضرت خالد نے ایسی باتیں بنائیں کہ حضرت ابوبکر نے خطائے اجتہادی قرار دے کر معاف کر دیا۔ اور یہ کہا کہ مالک کی زوجہ سے تعلق قانون عرب میں مناسب نہ تھا۔
اقول :۔
قانون اسلام میں بھی بیوہ سے قبل عدہ عقد حرام ہے۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ مالک کی زوجہ گرفتار کے حکم میں تھی تو کنیزہ کا استبراء
بھی شرعاً واجب ہے
____________________
""استاد ہیکل"" کا بیان ہے کہ حضرت عمر کے تاثرات اپنی حالت پر باقی رہے یہاں تک کہ جب انہیں خلافت ملی تو پہلا کام یہ کیا کہ خالد کو معزول کر دیا۔
یا للعجب خلاف اولی ہی کے زمانہ میں اس طرح خونریزی آبرو ریزی اور توہین شریعت اسلامیہ ہو اور پھر ایسے فاسق و فاجر انسان سے کوئے مواخذہ بھی نہ ہو یہاں تک کہ خلیفہ دوم کو معزول کرنا پڑے۔ شاید تاریخ انسانیت کا پہلا واقعہ ہے کہ جس میں کتاب و سنت کا باقاعدہ مذاق اڑایا گیا ہے۔
تاویل استاد ہیکل نے حضرت ابوبکر کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ زمانہ کے ناگفتہ بہ حالات اسی امر کے مقتضی تھے کہ اس اسلامی فاتح کی آزادیوں پر پابندی نہ لگائی جائے۔ اور اس کی صلاحیتو کو محدود نہ بنایا جائے۔ اسلام پر چار طرف سے حملے ہورہے تھے۔ اگر اس چہیتے جرنیل کو معزول کر دیا جاتا تو آج اسلام کا نام نہ ہوتا دوسری بات یہ ہے کہ ایک عورت سے خلاف قانون عرب تعلقات پیدا کر لینا کوئی اتنا اہم امر نہیں ہے کہ اس پر خالد جیسے افراد سے مواخذہ کیا جائے ۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ قوانین شرع پر عمل ہی ضروری ہے اور زنا کار پر سنگ ساری کرنا ہی فریضہ ہے تو ایسے افراد کی ذات عالی پر ایسے قوانین نافذ نہیں کیے جاسکتے اسلام پر ایسا وقت آگیا تھا کہ حضرت ابوبکر کو خالد کی تلوار کی بے حد ضرورت تھی۔ سطاح کے قریب ہی یمامہ تھا وہاں مسیلمہ نے ۴۰ ہزار افراد میں فتنہ نبوت برپا کر رکھا تھا۔ اب اگر اس فاتح اعظم کو مفرول کر دیا جائے تو اسلام کا کیا حشر ہوگا اور وہ بھی صرف ایک صحابی کے قتل کی بناء پر یا اس کی عورت سے زنا کی وجہ سے ۔ بڑی عمیق فکر سے کام لیا حضرت ابوبکر نے اس وقت کہ جب مطالبہ معزولی کو نظر انداز کر کے خالد کو یمامہ کی فتح کے لیے روانہ کر دیا اور شاید یہ قیادت صرف اس لیے تھی کہ اہل مدینہ کو خالد کی عظمت کا اندازہ ہوجائے ۔ اور یہ خیال کر لیں کہ خالد ایسے سخت مواقف کا انسان ہے اور دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اگر خالد قتل ہوگیا تو اس کے سابق جرم کی پاداش ہوجائے گی۔ اور اگر بچ گیا تو اسلام کا فاتح قرار پائے گا۔ لیکن حضرت عمر نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ان کی نظر میں خون مسلم عرض مسلمان کی قیمت تھی وہ کتاب و سنت کو قابل عمل سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے خالد کے وجود کو گوارا نہ کیا۔ ایسا نہ ہو کہ فاتح اسلام زانی کے لقب سے مشہور ہوجائے کسی کا سیف اللہ ہوجاا اس کے جرم کو سبک نہیں بنا سکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زمانہ خلافت میں خالد کو نکال باہر کیا۔
اقول :۔
استاد کے بیان سے واضح ہوگیا کہ خلفاء کرام اپنے مصالح کو نصوص رسالت پر بے تحاشہ مقدم کر دیا کرتے تھے۔ اور یہی نظریہ آج بھی علماء ازہر کا ہے جیسا کہ اہوں نے مجھ سے بالمشافہ ۱۳۲۹ ء میں بیان کیا تھا جب میں وہاں وارد ہوا تھا اور ان لوگوں سے مشغول مناظرہ تھا۔
انصاف :۔ استاد عقاد نے خالد کے متعلق جملہ اقوال نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر تاریخ اسلام سے قضیہ ۔ سطاح کو حذف کر دیا جائے تو شاید یہ امر خالد کے حق میں زیادہ مناسب ہوگا بہ نسبت اس جوانمردی اور شان فاتحانہ کے جس میں بلاوجہ شرعی مسلمانوں کا خون بہایا جائے اورمخدرات عصمت کی آبروریزی کی جائے۔
خاتمہ کلام :۔
آخر کلام میں ہم ان مورخین و علماء کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے مالک کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شرافت و بزرگی بلندی نفس اور عزم قوی کا تزکرہ کیا ہے۔ ان حضرات میں سے طبری جمہرہ النسب کامل الروہ والفتوح موفقیات اغافی الدلائل نزہتہ المناظر مختصر شرح النہج وغیرہ کے مصنفین ہیں۔
ابن خلکان نے وثمیہ کے حالات میں مالک کی شرافت و کرامت عظمت و بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی عظمت کو ضرب المظل قرار دیا ہے ۔ انہیں اپنی قوم کا رئیس رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا والئی صدقات تسلیم کیا ہے ۔ اور اس کے بعد مالک اور خالد کی گفتگو کو تفصیلا بیان کیا ہے جس میں خالد نے مالک کے اسلام کی پرواہ کئے بغیر لیلی کے عشق میں مالک کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ اسی ذیل میں حضرت عمر کے اعتراض اور حضرت ابوبکر کے عذر خطائے اجتہادی کا ذکر بھی موجود ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے بھی مالک کی عظمت کا اعتراف کیا ہے ۔ مرزبانی نے بھی کی قومی بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی ولایت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح مالک کے موقف کو واضح کیا ہے۔
مگر افسوس کہ اللہ کی برہنہ شمشیر نے نہ صحابیت کا خیال کیا اور نہ حدود الہیہ کا قتل کی حرمت کو قابل توجہ قرار دیا اور نہ زنا کی رذالت کو اور اس طرح خطائے اجتہادی کا گزر نصوص صریحہ تک ہوگیا۔انالله و اناالیه راجعون
مورد منع کتابت حدیث :۔
حاکم نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے کہ خود حضرت ابوبکر نے حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جو میری حدیث لکھے گا اللہ اس کے لیے بقائے حدیث تک اجر لکھتا رہیگا لیکن افسوس کہ اس حدیث کے باوجود دور شیخین میں تالیف کا کام نظر نہیں آتا بلکہ حضرت ابوبک نے ایک مرتبہ قصد کرکے چند احادیث کو جمع کیا اور پھر رات بھر کی فکر کے بعد انہیں نذر آتش کر دیا۔ (حاکم نیشاپوری کنزالعمال ج ۵ حدیث ۴۸۴۵)
زہری نے عروہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے کتابت احادیث کا قصد کرکے اصحاب سے مشورہ کیا اور اس کے بعد ایک مہینہ فکر کرکے یہ نتیجیہ نکالا کہ کام غلط ہے اس طرح کتاب خدا کی عظمت خاک میں مل جائیگی (کنرل العمال)
ابو وہب نے مالک سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے چند حدیثیں لکھیں اور پھر یہ کہہ دیا کہ کتاب خدا کے ساتھ دوسری کتاب ناجائز ہے (کنر العمال حدیث ۴۸۶۱)
بلکہ بقول یحیی تمام شہرو میں محو کرا دینے کا حکم جاری کرادیا (جامع ابن عبدالبر) قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ حضرت عمر نے اپنے عہد میں تمام احادیث کو جمع کر کے نذر آتش کر دیا (طبقات ۵ ص ۱۴۰)
ابن ابی الحدیدہ وغیرہ نے یہاں تک نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عمر کے پاس کچھ کتابیں لایا اور اس نے کہا کہ یہ علوم فتح مدائن سے حاصل ہوئے ہیں انہوں نے ان کتابوں پر اتنے درے لگائے کہ پارہ پارہ ہوگئیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصحاب سیرکا اتفاق ہے کہ حضرت عمر نے کتاب احادیث سے شدت کے ساتھ روک دیا تاکہ یہ لوگ احادیث نشر نہ کرسکیں۔ (کنز العمال ج ۵)
کاش خلفاء وقت نے اس قدر دور اندیشی سے کام نہ لیا ہوتا۔ اور اگر خود کم استعداد تھے تو خاندان رسالت ہی کو اتا موقع دیا ہوتا کہ وہ علوم رسالت کو ایک مفصل کتاب کی شکل میں جمع کرکے امت کے سامنے پیش کرتے اور اس طرح امت اسلامیہ قرآن کے دقیق مطالب اور مشکل مسائل حل کر سکتی اور آج دنیائے اسلام میں یہ ابتری نہ ہوتی۔
پھر اگر اسی عہد میں یہ تمام حدیثیں ایک مقام پر جمع ہوجائیں تو کذابین اور وضاعین کو اتنا موقع نہ مل سکتا کہ وہ روایات وضع کرکے ان میں بانی اسلام کی طرف منسوب کرسکیں۔ مگر افسوس کہ خلفاء کی شدت احتیاط سے اسلام کو اس خسارہ سے بھی دوچار ہونا پڑا۔
آہ ! کچھ ایسے اغراض سد راہ ہورہے تھے کہ جن کا ذکر اس مقام پر مناسب نہیں ہے ان حضرات کا ذوق تو اسی دن معلوم ہوگیا تھا جب رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
خود کچھ لکھنے کی فکر میں تھے لیکن اغراض و خواہشات نے آنے والی نسلوں کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
یہ یاد رہے کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنے فریضہ سے غافل نہ تھے آپ نے اپنی تمام روایتوں کو حضرت علی بن ابی طالب ؑکے پاس بعنوان کتاب محفوظ کر دیا تھا لیکن اس وصیت کے ساتھ کہ ناگزیر حالات کی بنا پر ان کا اظہار اس وقت تک نہ ہو جب تک عالمی حالات روبہ اصلاح نہ ہوجائیں۔
مورد شفاعت مشرکین :۔
احمد بن حنبل نے اپنی مسند (ص ۱۵۵) میں اس واقعہ کو درج کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے پاس چند مشرکین آئے اور کہنے لگے کہ بعض لوگوں نے آپ کے دین کو قبول کر لیا ہے ۔ حالانکہ انہیں دین و دیانت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف قبضہ و اختیار سے نکلنے کی فکر می ہیں لہذا آپ انہیں واپس کر دیجئیے۔ حضرت نے حضرت ابوبکر کی طرف اشارہ کیا کہ ان لوگوں کو سمجھا دو۔ حضرت ابوبکر ے حضرت سے کہہ دیا کہ یہ لوگ حق پر ہیں آپ واپس کر دیجئیے آپ نے غصہ میں آکر حضرت عمر کی طرف رجوع کیا۔ حضرت عمر نے مزید سفارش کر دی تو آپ کا رنگ غیظ و غضب سے متغیر ہوگیا۔ بلکہ بقول نسائی آپ نے فرمایا اے گروہ قریش عنقریب وہ شخص تم پر مسلط ہوگا کہ جس کے قلب کی آزمائش ایمان کے لیے ہوچکی ہوگی۔ وہ تمہیں دین کے بارے میں مار مار کر درست کرے گا۔ یہ سنکر حضرت ابوبکر تڑپ اٹھے عرض کی یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
وہ میں ہوں؟ آپ نے فرمایا نہیں حضرت عمر بول اٹھے تو حقیر ہوگا فرمایا ہرگز نہیں بلکہ وہ شخص ہے کہ جو اس وقت میری جوتیو کی مرمت کر رہا ہے علی ""خاصف النعل""