تاویلات حضرت عمر
مورد حادثہ یوم خمس
یہ وہ قیامت خیز حادثہ تھا کہ جو وفات پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے چند روز قبل ۱۱ ھ میں پیش آیا۔ (امام بخاری نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مرض الموت میں اصحاب سے تقاضا کیا کہ قلم و دوات لاو تاکہ میں ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہوسکو۔
حضرت عمر نے جواب دیا کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر مرض کا غلبہ ہے اس تحریر کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصحاب میں بعض نے موافقت کی اور بعض نے مخالفت ، نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت نے سب کو گھر سے نکال دیا یہی حدیث مسلم اور احمد ے بھی نقل کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس روایت میں حضرت عمر کے صحیح الفاظ نقل نہیں کیے گئے ۔ بلکہ بلحاظ ادب ان کی معنوی ترجمای کی گئی ہے ورنہ حضرت عمر کے الفاظ میں ہذیان بھی داخل تھا اور اس کا شاہد یہ ہے کہ جوہری نے کتاب سقیفہ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر نے ایک ایسا کلمہ کہا کہ جس کے معنی غلبہ مرض کے تھے اور اسی طرح بخاری و مسند احمد وغیرہ میں جب صحیح لفظ کا ذکر ہوا ہے تو حضرت عمر کا نام حذف کرکے لوگوں کی طرف قول کی نسبت دی گئی ہے ورنہ حضرت عمر کے الفاظ میں ہذیان بھی داخل تھا اور اس کا شاہد یہ ہے کہ جوہری نے کتاب سقیفہ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر نے ایک ایسا کلمہ کہا کہ جس کے معنی غلبہ مرض کے تھے اور اسی طرح بخاری و مسند احمد وغیرہ میں جب صحیح لفظ کا ذکر ہوا ہے تو حضرت عمر کا نام حذف کرکے لوگوں کی طرف قول کی نسبت دی گئی ہے بہر حال روایت کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ ایک جماعت حضرت عمر کی ہم آواز تھی تو اگر یہ قول اس جماعت کا ہے تو بھی عمر اس قول میں مقدم ہے ۔ ابن عباس اس حادثہ پر مدتوں رویا کیے ۔ ہر صاحب عمل اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس اہم موقعہ پر اصحاب نے نص رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی کیونکہ مخالفت کی اور کس طرح اپنے ذاتی مصالح کو پیش نظر رکھ کر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو ہذیان والا قرار دے دیا۔ حالانکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے ما انا کم الرسول فخذوہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا اتباع فرض ہے یہ مجنون ساحر کاہن وغیرہ نہیں ہے ۔ لیکن افسوس ۔۔۔۔ باوجودیکہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی عصمت پر عقلی دلائل قائم تھے ۔ حضرت عمر نے اپنی سیاست کے ماتحت تمام تعلیمات کو نظر انداز کر دیا۔ اس سیاست کا نتیجہ شاید وہ کلام ہے جو انہوں نے ابن عباس سے کہا تھا اور جسے ابن ابی الحدید نے بھی نقل کیا ہے۔
یہ بات ادنی تامل ہے واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت نے اپنی تحریر کے وہی اوصاف بیان فرمائے ہیں جو حدیث ثقلین میں بیان فرما چکے تھے۔ لہذا حتما یہ کہا جاسکتا ہے کہ آخری وقت میں بھی اسی حدیث کی تفسیر فرمانا چاہتے تھے۔ چنانچہ اسی نکتہ پر نظر کرکے حضرت عمر نے مقابلہ کیا۔ یہاں تک صاحب خلق عظیم کو نکال دینا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ قوم کے ان ہذیانات پر آپ نے اپنی تحریر کو کیوں چھپا لیا؟ لیکن اس کا جوب بالکل واضح ہے اس لیے کہ اولاد تو اس تحریر کا پیش کرنا اس فتنہ کو ابھارنا تھا جس کا اندازہ صرف اعلان سے کر لیا گیا تھا۔ ثانیا یہ کہ اس تحریر سے دو جماعتیں قاءم ہو جائیں ایک اسے نتیجہ ہذیان قرار دیتی اور ایک اس پر بلا چون و چرا ایمان لاتی۔ ظاہر ہے کہ اب یہ تحریر دونوں کے لیے بیکار ہے اتمام حجت ہوہی چکا ہے پہلی جماعت بھی اپنے نظریہ پر ائل ہے اور دوسری جماعت بھی غائبانہ ایمان لائے ہوئے ہے اور مفاد حدیث ثقلین سے متمسک ہے۔
معاذ شیخ ازہر:۔
شیخ سلیم نے مجھ سے گفتگو کے دوران اس سخت حادثہ کے معاذیر کا ذکر کرتے ہوئے ان کا جواب دیا تھا اور پھر اپنا عذر پیش کیا تھا ظاہر اس تفصیل کا نقل کرنا خالی از لطف نہ ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے یہ عذر کیا ہے کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا قصد واقعاً تحیر کا نہ تھا بلکہ آپ اصحاب کا امتحان کرنا چاہتے تھے۔ حضرت عمر چونکہ اس نکتہ سے واقف تھے اس لیے انہوں نے منع کر دیا اور یہ ان کی الہامی صلاحیت کی واضح دلیل ہے لیکن ظاہر ہے کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا قول ""تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے"" امتحان پر حمل نہیں ہوسکتا، ورنہ کذب صریح کا ارتکاب لازم آئے گا پھر فرماتے ہیں بعض حضرات نے یہ عذر کیا ہے کہ یہ حکم واجبی نہ تھا ۔ بلکہ اصحاب سے ایک مشورہ تھا ۔ حضرت عمر نے یہ سوچ کر روک دیا کہ لکھنے میں آپ کو زحمت ہوگی اور یہ عالم مرض الموت کا ہے یا یہ خیال کیا ہو کہ ممکن ہے کہ عالم مرض میں ایسی باتیں لکھ دیں کہ امت ان پر عمل نہ کر سکے اور اس طرح جہنم کی مستحق ہوجائے ۔ پھر منافقین اس تحریر کو دیکھ کر قرآ کریم کی جامعیت میں بھی اشکال کریں گے۔ لیکن ظاہر ہے کہ عدم گمراہی کا ذکر ان تمام معاذیر کو باطن کر دیتا ہے پھر قومواعنی کہنا یہ بتایا ہے کہ یہ رائے اصحاب رسول کی نظریں نہایت درجہ مذموم تھی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ فعل واجب کسی کی مخالفت سے ترک نہیں کیا جاسکتا تو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے کیوں ترک کر دیا تو اس کا جواب واضع ہے کہ قلم و دوات کا لانا اصحاب پر فرض تھا نہ کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر حضرت کا فریضہ تو اس فریضہ کی ادائیگی پر موقوف تھا جب اصحاب نے انکار کر دیا تو آپ کا فریضہ بھی ساقط ہوگیا اور حجت تمام ہوگئی ہے ۔ اب تحریر کا اثر غیر از فتنہ نہیں ہوسکتا۔ پھر فرماتے ہیں ""بعض لوگوں نے یہ عذر کیا کہ اس میں ہر شخص کو گمراہی سے بچانے کی ضمانت ہوگی بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تمام امت گمراہ نہ ہو گی اور ظاہر ہے کہ قرآن کے ہوتے ہوئے یہ بات غیر معقول تھی اسی لیے انہوں نے عدم حاجت کا اعلان کر دیا گویا رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا یہ ارشاد کمال احتیاط اور شدت لطف و کرم کی با پر تھا لیکن ظاہر ہے کہ لن تضلوا کے ہوتے ہوئے یہ عذر انتہائی مہمل ہے اس کلام کا ظاہری یہ ہے کہ ہر ہر فرد کی ہدایت کی ضمانت ہے اور پھر قومواعنی تمام معاذیر کو باطل کرنے کے لیے موجود ہے ان تمام اشکلات کے پیش نظر ہماری نظر میں بہترین عذر یہ ہے کہ اس ایک واقعہ میں اصحاب سے غلطی ہو گئی ہے اور ظاہر ہے کہ انسان سے غلطی ہوتی رہتی ہے اب اس غلطی کی وجہ صحت کیا ہے ؟ اس کا علم صرف اللہ کے لیے ہے ۔ ہمیں زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
شیخ ازہر کے پورے کلام سے ناظرین نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ موصوف کس قدر سلیم الطبع اور مصنف مزاج واقع ہوئے تھے ۔ خدا ا پر رحمت نازل کرے۔ انہوں نے تاریخی حقاءق کو پوشیدہ کرنے کی فکر ہیں کی بلکہ صحاب کے معاذیر پر آزادانہ تبصرہ فرمایا ۔ لیکن ہم اب اپنے اعتراضات پیش کر رہے ہیں جو ہم موصوف کے سامنے پیش کیے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا مقصود امتحا تھا! آپ کے جواب کے علاوہ ہمیں یہ کہنا ہے کہ وقت آخر وصیت و تبلیغ کا وقت ہوتا ہے نہ کہ امتحا و مزاح کا، اگر حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پوری مدت حیات امتحا ن کے لیے کافی نہ ہوئی تو حالت مرض الموت کا زمانہ کس طرح کافی ہوگا؟ پھر یہ کہ اگر واقعتاً امتحان ہوتا تو قومواعنی سے خطاب نہ ہوتا۔ امتحان میں کامیاب ہونے پر قومواعنی کی سند نہیں ملتی۔ ممتحن کو ہذیان گو نہیں کہا جاتا اور صحابی رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
تا عمر گریہ نہیں کرتا۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت کا مقصود مشورہ تھا اور حضرت عمر اپنی نظر میں زیادہ صائب الرائے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا رسالت انہیں کی طرف منتقل ہوگئی تھی ؟ یا مرکز وحی سے غلطی کی امکانات پیدا ہوگئے تھے؟
کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو کتابت کی زحمت سے بچالیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس میں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو کوئی زحمت تھی تو ارادہ ہی کیوں فرمایا تھا؟ پھر آپ کے ارادہ کے مقابلے میں حضرت عمر کے ارادہ کی کیا قیمت ہے ؟ جبکہ قرآن نے عمومی ممانعت کر دی ہے ہے ۔ پھر کیا ہذیان و نعم کے الفاظ سے آپ کی زحمتوں میں تخفیف ہوگی یا درد دل میں اور بھی اضافہ ہوگیا؟
کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر کی نظر میں قلم دوات نہ دینا ہی اولی تھا پھر یہ اندیشہ تھا کہ کوئی ناممکن حکم نہ تحریر کردیں۔ مزید یہ کہ منافقین کے اعتراض کا بھی خیال تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضرت عمر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نسبت زیادہ صائب الرائے تھے؟ کیا رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ناممکن امر کا حکم دے سکتے تھے؟ کیا امت پر آپ کی مہربانیاں زائل ہوگئی تھیں؟ کیا لا تضلوا میں منافقین کے فتنوں سے بچنے کی ضمانت نہ تھی؟ اور اگر منافقین ہی کا خطرہ تھا تو ایسا سوال ہی کیوں اٹھایا؟ جس پر غیر منافق حضرات کو ہذیان کہنا پڑا۔
کہا جاتا ہے کہ حسبنا کتاب اللہ کی ضرورت ان آیات کے پیش نظر پڑی جن میں کتاب کی جامعیت کا ذکر ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ غلط ہے اس لیے کہ کتاب میں ہدایت کا ذکر ہے ضلالت سے حفاظت کی ضمانت نہیں ہے۔ اور آج کی تحریر میں یہ ضمانت بھی تھی۔ لہذا کتاب کے بعد بھی اسکی ضرورت تھی بلکہ اگر یہ تحریر سامنے آگئی ہوتی تو اصحاب کو ہذیان گو کہنے کی نوبت نہ آتی۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے اس کلام سے یہ استفادہ نہیں کیا تھا کہ اس میں ہر ہر فرد کی ہدایت کی ضمانت ہے سوال یہ ہے کہ حضرت عمر اس قدر کمزور دماغ کے آدمی نہ تھے کہ ان کی سمجھ میں وہ بات بھی نہ آئے جو ایک بدو عرب سمجھ سکتا ہے پھر لانجتمع امتی علی ضلال وغیرہ جیسی احادیث کے باوجود حضرت عمر نے یہ احتمام ہی کیسے دیا کہ حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے تمام امت کی گمراہی کا احتمال دے کر اسے دفع کرنا چاہا ہے پھر اگر سو فہم ہی کی بات ہوتی تو رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
یہ بتا دیتے کہ مفہوم وہ نہیں ہے جو تم لوگوں نے خیال کیا ہے ایسے آدمی کو نکال دینا تو مناسب نہ تھا ابن عباس کا گریہ بے وجہ تو نہ تھا بلکہ انصاف یہ ہے کہ بقول شمایہ ایک اتفاقی واقعہ تھا اگرچہ اسی ایک واقعہ نے اسلام کو تباہ کر دیا اور مسلمانوں میں داءمی افتراق پیدا کر دیا۔ اور بقول شیعہ یہ صحابہ کرام کا اجتہاد تھا جو نص رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے مقابلہ میں پیش کیا گیا اور اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ایک مسئلہ ہے ایک طرف اللہ کی رائے ہے اور ایک طرف حضرت عمر کی ۔
پسندیدگی :۔
ہمارے ان بیانات کو سن کر شیخ ازہر نے امتحا کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے تمام اہل عذر کے عذر کو بالکل باطل کر دیا ہے اور ان کے مذاہب کو ""صباءا"" ""منشورا"" بنا دیا ہے ۔ اب کسی شخص کو نہ عذر و معذرت کا حق ہے اور نہ حقائق میں تشکیک و تاویل کا۔
مورد صلح حدیبیہ :۔
رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بعض مصالح اسلامیہ کی بنا پر روز حدیبیہ صلح کو جنگ پر ترجیح دی اور اس طرح بعض مسلمانوں کو اپنی لاعلمی اور جہالت کی بنا پر موقع مل گیا کہ وہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر اعتراض کریں لیکن حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان کے اقوال کی طرف توجہ کئے بغیر اپنے عمل کو انجام دیا اور اسلام کو فتح مبین سے آشنا بنا دیا۔
تفصیل واقعہ :۔
ذی قعدہ سنہ ۶ ہجری میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
دو شنبہ کے دن ۔ عقد عمرہ مدینہ روانہ ہوئے چونکہ آپ کے دل میں خیال تھا کہ کفار مزاحمت کریں گے ۔ اس لیئے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اصحاب کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دے دیا۔ چنانچہ تقریبا ۱۴۰۰ افراد پر مشتمل ایک قافلہ روانہ ہوا۔ جس میں ۷۰ اونٹ تھے۔ مقام ذوالحلیفہ پر پہنچنے کے بعد آپ نے عمل تقلید
کے ذریعہ احرام باندھ لیا۔
____________________
تاکہ کفار یہ تصور نہ کریں کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کسی حرب و ضرب کے ارادے سے آرہے ہیں۔ جب کچھ راستہ طے ہوگیا تو آپ کو اطلاع ملی کہ خالد بن ولید ایک لشکر لیئے آمادہ جنگ ہے جس میں ۲۰۰ سوار بھی ہیں اور ان کا لیڈر عکرمہ بن ابی جہل ہے ۔ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اصحاب کو حکم دیا کہ راستہ بدل دیں تاکہ مزاحمت نہ ہونے پائے ۔ لیکن یہ دیکھ کر خالد خود آگے بڑھ آیا۔ تو پھر آپ نے بھی عبادہ بن بشر کو لشکر ساتھ نماز ادا فرمائی ۔ خالد کی قوم نے اس سے کہ نماز کے درمیان ان کو ختم کر دینے کا سنہرا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ یہ بہت ہی برا ہوا۔ اس نے کہا کہ ابھی ان کی ایک نماز باقی ہے جو ان کی نظر میں زیادہ محبوب ہے ۔ اس وقت ہم ان کی عبادت سے فائدہ اٹھائیں گے۔
ادھر خالق حکیم نے وحی نازل فرمائی کہ جب ایسا موقع ہو تو مسلمان دو حصو میں تقسیم ہوجائیں ایک جماعت نماز پڑھے اور جب وہ رخصت ہوجائے تو دوسری جماعت آکر شریک ہوجائے ۔ سب مسلح وہشیار رہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن موقع پاکر حملہ آور ہوجائے۔ چنانچہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اسی قانون کی بنا پر نماز عصر بطور صلوۃ خوف ادا فرمائی۔
قریش کی شدت اور نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حکمت
حدیبیہ پہنچ کر پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے قریش کی طرف سے کافی مصاءب و شداءد کا سامنا کیا۔ اور مشرکین نے بھی آپ کے اصحاب کے ہاتھوں کافی تکالیف برداشت کیں۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آپ نے اپنے خلق عظیم اور کرم عام کی بنا پر ان سے ایسی نرم گفتگو کی کہ ان کے آہنی قلوب بھی موم ہوگئے آپ کے چند کلمات یہ تھے۔ ""آخر قریش کو کیا ہوگیا ہے کہ جنگ کے اتنے مصائب برداشت کرنے کے باوجود بھی اس امر پر تیار نہیں کہ عرب کو میرے حوالے کر دیں۔ اور اس طرح اگر انہوں نے مجھے مغلوب کر لیا تو ان کا مقصد حاصل ہوجائے گا اور اگر میں نے ان پر غلبہ پالیا تو وہ سب مسلمان ہوجائیں گے۔ آخر یہ قریش اپنے کو کیا خیال کرتے ہیں، خدائے وحد لاشریک کی قسم میں ان سے اس وقت تک مقابلہ کرتا رہوں گا جب تک کہ دین غالب نہ ہوجائے یا میری گردن جدا نہ ہوجائے ۔ ""اس کے بعد آپ نے قریش کی طبعیت کے مطابق انداز کلام کو بدل کر انہیں طمع دلاتے ہوئے فرمایا۔ ""اگر قریش مجھ سے صلہ رحم کے طالب ہوں گے تو میں ان کے کسی بھی مطالبہ سے انکار نہ کروں گا"" اس خطاب کے بعد آپ نے اصحاب سے مشورہ کیا تو اکثریت نے جنگ پر آمادگی ظاہر کی۔ یہاں تک کہ جناب مقداد نے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے عرض کی یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہم قوم موسی نہیں ہیں جو کہہ دیں کہ آپ لڑیں ہم آرام سے تماشہ دیکھیں گے بلکہ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ برک الغماء (آخری قلعہ عرب) کو بھی فتح کرنا چاہیں تو ہم آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور آپ کے پسینے پر اپنا خون بہا دیں گے "" یہ سنکر آپ کی چہرے پر تبسم کی لہریں دوڑنے لگیں۔ اس کے بعد آپنے مسلمانوں سے موت کے لیے بیعت لی۔ اور سب ہی نے علاوہ الجد بن قیس کے بیعت کر لی۔ اگرچہ ان میں ان سلول جیسے منافقین بھی تھے۔
مطالبہ صلح :۔
جب قریش کو اس بیعت کا علم ہوا تو فطری طور پر ا کے قلوب پر عرب چھا گیا ۔ اور اس پر مزید یہ کہ عکرمہ کا ۵۰۰ کا لشکر بھی اس طرح پسپا ہوا کہ اصحاب رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے انہیں ان کے گھروں تک بھگا دیا ۔ ان ناکام حالات کو دیکھتے ہوئے اہل حل و عقد نے یہ رائے پیش کی کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے صلح کرلی جائے۔ حضرت نے اس صلح کا نہایت ہی خندہ پیشانی سے استقبل کیا جبکہ اس کا پیغام لے کر سہیل بن عمرو آپ کے پاس آیا۔ اگرچہ یہ بات مسلمانوں کو ناگوار گزری اور بعض لوگوں نے زیادتی سے بھی کام لیا۔ لیکن آپ مصلحت شناس اور تابع وحی الہٰی تھے ۔ پھر جب کہ آپ کفار سے وعدہ بھی کر چکے تھے تو اسکی مخالفت کا شرعی عقلی یا اخلاقی اختیار آپ کو حاصل نہ تھا۔
انکار حضرت عمر :۔
ادھر صلحنامہ کی تکمیل ہوئی اور ادھر حضرت عمر کی رگ غیرت و حمیت پھڑکنے لگی تو تڑپ کر حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور ان سے سوال کیا کہ کیا یہ خدا کے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہیں ! سوال کیا تو کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ جواب دیا ہیں ! پھر پوچھا تو کیا یہ سب مشرکین نہیں ہیں؟ جواب دیا ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ تڑپ کر بولے پھر ہم ان سے کیوں دب رہے ہیں اور یہ صلح کیوں ہورہی ہے؟ یہ سنکر آپ نے انہیں سمجھایا کہ وہ حکم خدا کے تابع ہیں وہ تمہاری باتو پر کوئی توجہ نہ کریں گے۔
صحیح مسلم میں یہ روایت یوں نقل ہوئی ہے کہ پہلے آپ خود رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
وآلہ وسلم کے پاس آئے۔ اور ان سے سول کیا کہ کیا ہم اہل حق اور یہ اہل باطل نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے کشتگان جہنمی نہیں ہیں؟ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے سب کی تائید کی تو اکڑ کر بولے پھر کیوں صلح کریں اور کیوں ان سے مرعوب ہوں۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حکم الہٰی سے مجبوری کا اظہار کیا لیکن غصہ فرو نہیں ہوا تو حضرت ابوبکر کے پاس آکر یہی گفتگو شروع کر دی۔ آخر کار انہوں نے بھی یہ سمجھایا تو خاموش ہوگئے ۔ دیگر کتب میں یہ مکالمہ اور بھی سخت لہجہ میں پایا جاتا ہے چنانچہ بخاری میں حضرت عمر کی زبانی ہے کہ میں نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جواب پر پھر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ ہم طواف کریں گے ۔ پھر اب اپنی بات سے پلٹنا کیسا؟ تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہ میں نے امسال کا وعدہ نہیں کیا ہے ۔ یہ سنکر مجھے اور بھی حیرت ہوئی اور میں حضرت ابوبکر کے پاس آیا ان سے گفتگو کی تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
روایت کہتی ہے کہ اس کے بعد آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ سر تر شوا لیں اور انٹوں کو نحر کر دیں لیکن کسی نے کوئی التفات نہ کیا۔ آپ نے تی مرتبہ حکم دیا اور جب قوم کی بے رخی دیکھی تو خیمہ کے اندر تشریف لے گئے ۔ اور پھر اپنے دست مبارک سے اونٹ کو نحر کیا۔ اور حجام کو بلا کر سر ترشوا لیا، یہ دیکھ کر اصحاب بھی اس عمل پر مجبور ہوگئے۔
اس حدیث کو احمد نے اپنی سند میں سعد بن مخزمہ سے نقل کیا ہے حلبی نے سیرت میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے اس قدر تکرار کی کہ ابو عبیدہ کو ٹوکنے کی نوبت آگئی۔ خود حضرت نے بھی فرمایا کہ میری رضامندی کے بعد تمہارا انکار کیسا؟ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عمر تاحیات صوم و صلوٰہ عتق و صدقات جیسے اعمال انجام دیتے رہے تاکہ ان کی گفتگو کا کفارہ ہوسکے۔
تکمیل صلح :۔
صحابہ کرام کے روکنے اور ٹوکنے کے باوجود پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کریں جس کا عنوان یہ ہو۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم آپ نے لکھنے کا قصد کیا تھا کہ سہیل بول پڑا۔ ہم اس طریقہ تحریر سے آشنا نہیں ہیں۔ لہذا باسمک اللھم لکھ جائے۔ آپ نے اسے قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ لکھا جائے۔ کہ یہ محمد رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا صلحنامہ ہے، سہیل ہے سہیل نے تڑپ کر کہا کہ اگر ہم رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے قائل ہوتے تو جھگڑا ہی نہ ہوتا لہذا محمد ابن عبداللہ لکھا جائے بعض مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوگئے۔ لیکن آپ نے تحریر کو یہ کہہ کر مٹا دیا کہ تمہارے انکار سے رسالت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ امیرالمومنینصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ تحریر بڑے ہی صابرانہ اندا زمیں تمام کی۔ اس وقت رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا یا علیؑ ! تمہیں بھی ایسی ہی بلا میں مبتلا ہونا ہے۔
صلح کے شراءط یہ تھے :۔
کہ اس سال رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
مع اصحاب کے واپس جائیں اور اگلے سال آئیں ۔ اس وقت قریش تین دن کے لیے مکہ کو خالی کر دیں گے۔
دس سال کے لیے جنگ موقوف کر دی جائے ۔ جو جس دین کو اختیار کرنا چاہے اسے آزاد رکھا جائے ۔ عداوتوں کا ظہور نہ ہو باہمی خیانت پر پابندی لگائی جائے۔
اگر کوئی دین قریش سے نکل کر ذمہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں آجائے تو اسے واپس کر دیا جائے۔ اور اگر کوئی دین رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مرتد ہوکر قریش کے پاس چلا جائے تو اس کی واپسی نہ ہو۔
یہ وہ شرط تھی جس پر مسلمانوں سے تحمل نہ ہوسکا اور ایک ہنگامہ برپا ہوگا، لیکن خلق مجسم اور حلم کمل رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جو دین سے مرتد ہوگیا اسے رحمت الہٰی سے قرب میسر ہیں ہوسکتا۔ اور جو کفر سے علیحدہ ہوگیا ہے اس کی فلاح و نجات کے لیے اللہ کوئی نہ کوئی انتظام ضرور کردے گا۔
ابھی صلحنامہ مکمل نہ ہوسکا تھا کہ سہیل کا بیٹا ابو جندل زنجیروں میں جکڑا ہوا رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سامنے آکھڑا ہوا۔ ابو جندل نے چونکہ اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس لئے سہیل نے اسے مار پیٹ کر مقید کر رکھا تھا ۔ جب اسے رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی آمد کی اطلاع ملی تو کسی صورت سے حبس سے نکل کر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں پہنچ گیا مسلمان بہت خوش ہوئے لیکن سہیل نے کہا کہ یہ ہمارے معاہدہ کے خلاف ہے اور یہ کہہ بیٹے کہ مارنا شروع کر دیا۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمیا کہ ابھی تو صلح کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ پھر ہم صلح پرتیار نہیں ہیں۔ حضرت اس کے لیے پناہ مانگی سہیل نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے صلح کرلی۔ آخر میں مکرو حو یقب نے مل کر اس کو پناہ دی اور حضرت ابو جندل کو صبر کی تلقین فرمائی۔
یہی وہ موقع تھا کہ جب حضرت عمر نے اپنی دینی غیرت کا مظاہرہ کیا اور ابو جندل کے سامنے تلوار پیش کی کہ اپنے باپ کو قتل کر دے۔ اور پھر باپ کے قتل کی داستانیں سنا سنا کر اسے کافی ترغیب بھی دلائی لیکن اس نے حکم رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا احترام کرتے ہوئے انکار کر دیا۔ اور یہ کہا کہ اگر اتنی ہی ہمدردی ہے تو آپ قتل کر دیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے منع کیا ہے ابو جندل نے بے ساختہ کہا۔ خود را فضیحت و دیگراں را نصیحت ۔ غرض ابو جندل اپنے باپ کے ساتھ مکہ واپس ہوا۔ اور مکرز و حویقب کی پناہ میں رہا۔ یہاں تک کہ اللہ نے کمزور مسلمانوں کے کشائش احوال کے اسباب مہیا کر دیئے اور مسلمانوں کو فتح مبین نصیب ہوئی۔
فوائد صلح :۔
صلح کے فوائد و منافع یہ بات کچھ کم نہیں ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو مشرکین کے ساتھ اختلاط کا موقع مل گیا۔ جس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ جب مشرکین مدینہ آتے تو انہیں رسول کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اخلاقیات قرآن کے آیات بینات اور دین مبین کے تعلیمات کا علم ہوتا اور اس طرح ان کے دلوں میں اسلام کی محبت رفتہ رفتہ جاگزین ہونے لگتی۔ اس طرح جب مسلمان اپنے اعزہ و اقرباء کے پاس مکہ جائے تو ان سے ان اخلاقیات اجتماعیات اور اقتصادیات کا تذکرہ کرتے جن میں وہ خود زندگی بسر کر رہے تھے اور اس طرح کفار کے عناد میں کمی اور ان کے قلوب میں نرمی پید اہوتی۔
اس کے علاوہ حدیبیہ میں کفار کا پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ساتھ اجتماع ایک اہم فائدہ کی غمازی کر رہا ہے اس لیئے بدر واحد کی لڑائی کے بعد اہل مکہ کے قلوب و اذہان میں یہ بات راسخ ہوگئی تھی کہ (معاذ اللہ ) مسلمانوں کا رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ایک سفاک اور مفسد انسان ہے ۔ ابو جہل و ابوسفیان وغیرہ نے ان کے دماغوں میں ایسے گزرے خیالات بری طرح اتار دیئے تھے۔ قدرت نے یہ چاہا کہ آج اخلاق رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا اسطرح مظاہرہ ہوجائے کہ ان بچارے ناواقف عوام کو بھی معلوم ہو جائے کہ ان تمام خونوں کی ذمہ داری انہیں کے بزرگوں پر ہے نہ کہ بانی اسلام پر ۔
قرآنی نصوص اور تاریخی شواہد سے اس امر کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
جہاد فرماتے تو مسلمانوں ہی کو فتح نصیب ہوتی بلکہ کفار کے دل میں بھی اس بات کا احساس تھا۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا جہاد سے صرف نظر کرکے ان تمام مصائب کا تحمل کر لینا جو تکمیل صلحنامہ میں پیش آئے اس امر کا واضح ثبوت تھا کہ یہ پیغمبر امن اور رسول صلح و سلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہے۔ اس کے قانون حیات میں جنگ و جدل قتل و غارت کا نام تک نہیں، کفار کے دلوں کا یہ تاثر اسلام کی طرف سے ا کے ذہن کے یہ پاکیزہ خیالات ہی وہ تھے کہ جنہیں قرآن کریم نے اسلام کی کھلی ہوئی فتح قرار دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں اس وقت ہرگز حاصل نہ ہوسکتیں اگر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
صحابہ کے کہنے میں آخر جنگ پر آمادہ ہوجاتے اور اس طرح اسلام قیامت تک کے لیے بدنام ہوجاتا۔
سرکار رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی واپسی :۔
حدیبیہ میں ۱۹ روز قیام کے بعد آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا قافلہ مدینہ کی طرف واپس ہوا۔ ابھی اثناء راہ ہی میں تھے کہ سورہ فتح نازل ہوا۔ آپ نے حضرت عمر جیسے افراد کی ذہنیت کو درست کرنے کے خیال سے اصحاب کو روک کر سورہ فتح سنایا لیکن بقول بخاری ایک صحابی نے کہہ دیا کہ یہ بھی اچھی فتح ہے مکہ سے نکالے گئے اذیتیں برداشت کیں اپنے آدمیوں کو پناہ نہ دے سکےاور پھر فتح بنی رہ گئی ۔ آپ نے جھلا کر فرمایا کہ یہ کیا بکواس ہے آج اسلام کو حقیقی فتح نصیب ہوئی ہے کیا وہ دن بھول گئے جب میں احد میں پکار رہا تھا اور تمہاری گرد قدم نہ ملتی تھی کیا احزاب کی جنگ ذہن سے نکل گئی کہ آج اعتراض کرنے بیٹھے ہو۔ یہ سن کر اصحاب نے تائید کی اور اظہار مسرت کیا لیکن حضرت عمر نے پھر اعتراض کیا کہ آپ نے تو دخول مکہ کی خبر دی تھی۔ پھر ایسا کیوں ہوا؟ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہ میں نے اسی سال کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ (سیرت و حلانی)
سعید ابن منصور نے شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ اسلام کو اس سے بہتر کوئی فتح نصیب نہ ہوئی ۔ جس کا طبعی اثر یہ ہوا کہ ہر صاحب عقل و بصیرت اسلام میں داخل ہونے لگا اور حدیبیہ کے بعد دو سال میں اتنے افراد مسلمان ہوئے کہ جتنے صدر تبلیغ سے لے کر اس وقت تک نہ ہوئے تھے۔ اس امر کا تاریخی شاہد یہ بھی ہے کہ حدیبیہ میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
صرف ۱۴۰۰ افراد لے کر گئے تھے اور دو سال کے بعد فتح مکہ میں آپ کے ساتھ دس ہزار لشکر تھا گویا کہ آج کی صلح کل کی فتح کا مقدمہ بن گئی ۔ اور ظاہر ہے کہ فتح کے مقدمہ کو کو بھی فتح ہی کہا جاتا ہے۔
کشائش حال :۔
یہ پہلے بیا کیا جاچکا ہے کہ اثناء صلح مین ابو جندل نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے پناہ طلب کی تھی ۔ تو آپ نے اپنے وعدہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسے تلقین صبر کرکے پلٹا دیا تھا اسی طرح کا دوسرا واقعہ ابوبصیر یعنی عتبہ ابن اسید کا ہے کہ وہ بھی قید خاہ سے نکل کر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں مدینہ پہنچ ئے ادھر قریش نے آپ کو لکھ بھیجا کہ یہ ہمارے معاہدہ کے خلاف ہے لہذا واپس کیجئے۔ آپ نے ابو بصیر کو ان دونوں آدمیوں کے حوالہ کر دیا یہ خط لے کر آئے تھے ۔ ابو بصیرہ چلے گئے جب ایک منزل پر قیام کیا تو بہانہ سے ایک کی تلوار لے کر اس کا خاتمہ کر دیا اور دوسرے کو بھی مارنا چاہا۔ مگر اس نے فرار کیا۔ انہوں نے پیچھا کیا، یہاں تک کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خدمت میں پہنچ گئے ۔ آپ نے حالت دریافت کی قاصد نے شکایت کی ۔ آپ نے ابو بصیرہ کی ہمدردی سے انکار کر دیا وہ وہاں سے نکل کر ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں سے قریش کے قافلے گزار کرتے تھے۔ ان کے پاس کچھ لوگ جمع ہوگٹے۔ ادھر ابو جندل بھی کسی طریقہ سے ۷۰ سواروں کا لشکر لے کر ان کے پاس پہنچ گئے۔ اور اب ان لوگوں کا کاروبار ہوگیا کہ قریش کے ہر قافلے کو اذیت کرتے اور اس کے افراد کو قتل کر دیتے۔ یہ حالت دیکھ کر قریش نے ابو سفیان کے ذریعہ بھیجا کہ ہم اس شرط کو ساقط کیئے دیتے ہیں جو مسلمان ہوجائے ۔ آپ اس کو پناہ دیں۔ آپ نے یہ دیکھ کر ابو جندل اور بوبصیرہ کو بلابھیجا۔ جس وقت قاصد پہنچا۔ ابوبصیرہ کا وقت آخر تھا۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو ابوجندل نے ان کی قبربنائی اور وہیں ایک مسجد کی بنیاد ڈالدی۔ پھر اس کے بعد اپنے ساتھیوں کو لیئے ہوئے خدمت سرکار رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں حاضر ہوگئے یہی وہ سنہرا موقع تھا کہ جب مسلمانوں کو رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی دور اندیشی اور انجام بینی اور حکمت عملی کا اندازہ ہوا۔ آج سمجھے کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا کلام بغیر وحی نہیں ہوتا۔ آج ان پر انکشاف ہوا کہ وقت صلح داءمی فتح کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے آج اس امر پشیمانی ہوئی کہ ہم نے اپنی ناقص عقل کے مطابق کیوں اعتراض کیا تھا اور رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے کیوں الجھے تھے۔ آج تو آپ مشرکین کو بھی حضرت کی دور رس نگاہوں کا انداز نظر معلوم ہوگیا اور وہ آپ کے صدق و صفا حس سیرت صلہ رحم اور ایفائے عہد پر ایمان لے آئے۔
مورد نماز بر جنازہ ابن ابی منافق :۔
یہ وہ سخت موقف تھا جب کہ حضرت عمر نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نہایت شدت کے ساتھ مخالفت کی اور آ پ کا دامن پکڑ کر کھینچ لیا۔ چنانچہ بخاری (ج ۴ ص ۳۵ بخاری معہ حاشیہ السندی) نے عبداللہ ابن عمر سے روایت کی ہے کہ جب عبداللہ ابن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے نے آکر حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مطالبہ کیا کہ کفن کے لیے اپنی قمیص دے دیجئیے ۔ اور اس کے نماز جنازہ پڑھ کر اس کے لیئے استغفار فرمایئے ۔ حضرت نے قمیص دے کر اطلاع کرنے کا حکم دیا۔ اس نے کفن دینے کے بعد مطلع کیا آپ تشریف لے گئے ۔ ادھر نماز کے لیئے کھڑے ہوئے ادھر حضرت عمر نے دامن پکڑ کر کھینچ لیا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہی اور خدا کا حکم ہے کہ منافقین کے لیئے استغفار مفید نہیں ہے خواہ وہ ستر مرتبہ کیوں نہ ہو۔ اس واقعہ کے بعد آیت نازل ہوئی کہ آئندہ سے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ مت پڑھاکیجئے اور ان کی قبر پر قیام مت کیا کیجئے۔
روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے آیت عدم افادیت استغفار سے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ نماز جنازہ حرام ہے۔ اسی لیئے اس شدت سے مقابلہ کیا۔ حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ استغفار غلط ہے ۔ آیت کا مفہوم عدم افادیت استغفار ہے نہ کہ حرمت صلوۃ بلکہ امت کا اجماع اس امر پر واقع ہے کہ حرمت نماز کا حکم اس واقعہ کے بعد نازل ہوا ہے جیسا کہ خود اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔ (بخاری و مسلم ج ۳۵۷۲ طبع مکہ) کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کی باتوں کو تحمل کرتے ہوئے نماز ادا کی اور قبر تک تشریف بھی لے گئے ۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار بھی مفید ہوتا تو میں ضرور دعا کرتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس معاملہ میں ظاہر شریعت کی بنا پر نہایت ہی صحیح اقدام کیا تھا۔ اس لیئے کہ مرنے والا کافر نہ تھا۔ کہ اس کی نماز جنازہ حرام ہوتی۔ بلکہ بظاہر مسلمان تھا۔ اور ظاہری مسلمانوں کے جنازہ میں شرکت یہ اسلامی آئین ہے بلکہ حضرت کے اس اقدام سے ایک ایسی فتح بھی نصیب ہوئی جو حضرت عمر جیسے جنگجو افراد کے لیئے ناگوار خاطر تھی۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس طرز عمل سے قبیلہ خزرج کے ایک ہزار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اور یہ وقت تھا جب حضرت عمر کو اپنے کئے پر ندامت رہی اور یہ اندازہ ہوا کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اقدامات مطابق شریعت و مصلحت ہوا کرتے ہیں، چنانچہ بقول (کنزالعمال ج ۱ ص ۲۴۷) خود انہوں نے بھی اپنی سخت کلامی پر ندامت کا اظہار کیا۔
مورد رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے تکرار
حضرت عمر کا یہ مقابلہ تاریخی اعتبار سے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ انہوں نے اس کے قبل و بعد بھی ایسے سلوک کئے ہیں چنانچہ ابن حجر عسقلانی نے ابو عطیہ کے حالات میں (اصابہ ج ۴ ص ۱۳۵ ) ان سے روایت کی ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوگیا تو حضرت عمر نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے کہا کہ آپ نماز نہ پڑھیں۔ آپ نے صحابہ سے سوال کیا کہ کسی نے اس کو کار خیر کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ ایک شخص نے جواب دیا کہ فلاں شب میں ہمارے ساتھ سرحدی محافظین میں سے تھا۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ سنکر نماز پڑھی اور قبر تک تشریف لے گئے ۔ مٹی دینے کے بعد فرمایا کہ لوگ تجھے جہنمی خیال کرتے ہیں۔ اور میں تیرے جنتی ہونے کی گواہی دیتا ہوں پھر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت عمر کو ڈانٹا۔
اس واقعہ کو (اصابہ ج ۴ ص ۱۸۵) می مصنف نے ابو منذر کے حالات میں بھی نقل کیا ہے ۔ طبرانی نے بھی ہشام بن سعد سے تقریباًء یہی روایت نقل کی ہے۔ اور اس کے آخر میں حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا یہ قول بھی درج کیا ہے کہ جو راہ خدا میں جہاد کرے اس پر جنت واجب ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل کتاب اصابہ سے معلوم ہوسکتی ہے۔
مورد بشارت پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
حکمت الیہ اور مصلحت خداوندی کا تقاضا یہ تھا کہ سرکار رسالت امت اسلامیہ میں امر کا اعلان فرماءیں کہ جو شخص اللہ کی بارگاہ میں باایمان بلاشک و شبہ حاضر ہوگا اسے جنت عطا کی جائے گی ۔ چنانچہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ابوہریرہ کو اس بشارت کے اعلان کا حکم دے کر روانہ کیا۔ راستہ میں حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے یہ اعلا سنکر ابوہریہ کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ زمین پر الٹ گئے اور روتے پیٹتے خدمت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں حاضر ہوئے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے استفسار حال کیا۔ انہوں نے قصہ بیان کیا۔ اتنے میں حضرت عمر پہنچ گئے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ا ن سے مواخذہ کیا تو کہا ایسے اعلانات مت کیا کیجئے۔ اس طرح امت عمل کو ترک کرکے بیٹھ جائے گی۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس مشورہ کی صحت کا اندازہ کرکے اپنی رائے بدل دی۔ (شرح مسلم نودی ج ۱ ص ۲۳۷)
علامہ نودی (شرح مسلم ۱ ص ۲۴۱) نے اس واقعہ کی توجہیہ قاضی عیاض وغیرہ سے یوں نقل کی ہے کہ در حقیقت حضرت عمر نے سرکار رسالت پر کوئی اور اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس اعلان سے امت میں فساد پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیئے اسے سینوں میں محفوظ رہنا چاہیے۔ چنانچہ آپ نے حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو بالمشافہ یہی نصیحت کی کہ یہ اعلان خلاف مصلحت ہے۔
تنقید :۔
یہ عذر در حقیقت میرے دعوی کی واضح دلیل ہے کہ یہ حضرات اپنی رائے کو حکم خدا و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر قدم کر دیا کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ بات اسی حد تک نہ رہی، بلکہ حضرت ابوہریرہ کی مرمت بھی ہوگئی اور رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو تنبہیہ بھی ۔ لیکن کیا کہنا مجسم اخلاق رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا کہ ان تمام ہفوات و خرافات کو سنتے ہوئے بھی نہایت ہی نرم دلی سے بات ٹال گئے اور حزب مخالف کو اس کا احساس نہ ہونے دیا کہ وہ کتنی بڑی جرات سے کام لے رہا ہے۔ جس کا قہری اثر یہ ہوا کہ یہ بشارت عام ہوکر عمر، عثمان، معاذ، عبادہ اور عتبہ بن مالک تک پہنچ گئی۔ اور اس روایت کو سجد تواتر تمام مسلمانوں نے قبول کر لیا اور آج بھی مسلمانوں میں اس پر عمل ہورہا ہے ۔ سب سے زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز بات اس مقام پر یہ ہے کہ علامہ نودی اور قاضی عیاض جیسے افراد نے اس واقعہ میں حق حضرت عمر کے ساتھ قرار دیا ہے ۔ بلکہ نودی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر رعیت کو حاکم کی رائے میں اعتراض ہو تو بے دھڑک اس کا اظہار کر دینا چاہئے ۔ تاکہ حاکم کو غور کرنے کا موقع ملے۔ اگر صحیح ہو تو وہ اپنی رائے بدل دے اور اگر غلط ہو تو غلطی سے مطلع کر دے۔
ایک نظر مجھے یہ تمام باتیں منظور ہیں اگر میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو بھی باقی حکام کی طرح فرض کرلوں لیکن اگر قرآن کریم نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی اطاعت مطلقہ کا حکم دیا ہو تو میں ایسے معاذیر کو کیونکر قبول کروں اور حضرت عمر کو کس طرح معذور قرار دوں میری نظر میں تو اگر حق حضرت عمر کے ساتھ ہے تو پھر حق سے پرہیز لازم ہے اور ایسے باطل پر عمل لازم ہے جو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا مسلک و مشرب ہو۔