النص و الاجتہاد

النص و الاجتہاد0%

النص و الاجتہاد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

النص و الاجتہاد

مؤلف: سید شرف الدین العاملی
زمرہ جات:

مشاہدے: 11921
ڈاؤنلوڈ: 3323

تبصرے:

النص و الاجتہاد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11921 / ڈاؤنلوڈ: 3323
سائز سائز سائز
النص و الاجتہاد

النص و الاجتہاد

مؤلف:
اردو

مورد متعہ حج :۔

یہ وہ عمل ہے جس کو خود سرکار رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بحکم الہٰی انجام دیا ہےاور قرآن کریم نے بصراحت بیان کیا ہے ۔ فمن تمتع بالعمرہ الی الحج۔

طریقہ تمتع :۔

اس حج کا طریقہ یہ ہے کہ انسان حج کے مہینوں میں میقات سے احرام باندھ کر مکہ آئے اور طواف وسعی سے فراغت کرکے تقصیر کرے۔ اور اس طرح جملہ قیود احرام سے آزاد ہوجائے۔ اور پھر اس کے بعد بروقت حج کا احرام مکہ سے باندھ کر عرفات جائے وہاں سے مشعر اور پھر اس کے بعد باقی افعال و ارکان حج بجالائے۔ اور اس طرح فریضہ حج سے سبکدوشی حاصل کرے۔

علامہ قرطبی (تفسیر قرطبی ج ۲ ص ۳۵۰) کا کہنا ہے کہ علماء میں یہ بات مسلم ہے کہ حج تمتع میں عمرہ حج سے سے پہلے ہوتا ہے لیکن صرف حج کے مہینوں میں۔

اقول :۔

یہ فریضہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو مکہ کے ۴۸ میل سے باہر رہتے ہوں۔ اس حج کو حج تمتع اس لیے کہتے ہیں کہ تمتع کے معنی لذت اندوزی کے ہیں۔ اور اس حج میں اتنا موقع مل جاتا ہے کہ انسان عمرہ حج کے درمیان اپنےعیال سے لذت اندوز ہوسکے۔ اور یہی وہ فریضہ تھا کہ جس کی حضرت عمر اور اس کے اتباع نے مخالفت کی ۔ یہاں تک کہ معنوں نے کہہ دیا کہ یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہ ہم واپسی حالت میں جائیں کہ ہمارے ۔۔۔۔۔ سے قطرات ٹپک رہے ہوں۔ (حاشیہ زرقانی ۲ ص ۲۶۵ طبع قاہرہ )

مجمع البیان نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے یہی عذر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیان کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اس پر ایمان نہیں لاسکتے۔

مسند احمد ج ۱ ص ۵۰ میں یہ روایت ہے کہ ابو موسیٰ اشعری نے حج تمتع کے جواز کا فتوے دیا تو لوگوں نے کہا کہ حضرت عمر نے منع کیا ہے۔ چنانچہ اس نے حضرت عمر سے ملاقات کی تو انہوں نے یہ عذر بیان کیا کہ اس طرح لوگ عورتوں سے تعلقات پیدا کریں گے اور پانی ٹپکاتے ہوئے حج کو جائینگے۔

ابو نقرہ ناقل ہے کہ ابن عباس اس فریضہ کا حکم دیتے تھے اور ابن زبیر اس سے روکتے تھے۔ تو میں نے اس کا ذکر جابر بن عبداللہ انصاری سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے خود حج رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کیا ہے۔ لیکن حضرت عمر نے اپنے زمانہ میں اعلان کرادیا کہ اللہ نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیےجو چاہا مباح کر دیا۔ اب تمہارا فریضہ ہے کہ بحکم قرآن حج و عمرہ کو تمام کرو اور اگر شخص درمیان میں عورتوں سے تعلق پیدا کرے گا تو میں پتھر سے سنگسار کروں گا۔ (مسلم ج ۸صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۶۸ شرح نودی) (مسند احمد ۱ ص ۵۲ و ۱۷)

بلکہ انہوں نے ایک دن تو منبر پر آزادی کے ساتھ اعلان کر دیا کہ دو متعہ زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حلال تھے اور میں دونوں کو حرام کرتا ہوں۔ متعہ حج، متعہ نساء، تفسیر رازی وغیرہ۔

بعض روایات میں تین چیزوں کا ذکر ہے جن میں ایک حی علی خیرالعمل بھی ہے ۔ اس مطلب کو علامہ قوشجی نے ارسال مسلمات کے طور پر بیان کیا ہے حالانکہ وہ بڑے متعصب سنی ہیں۔

فصل :۔

حضرت عمر کی یہ وہ حرکت ہے جس کی اءمہ اہل بیت ؑ نے صراحتاً مخالفت کی ہے۔ بلکہ بعض صحابہ نے بھی اس کے خلاف آوازیں بلند کی ہیں۔ چنانچہ شرح مسلم ۸ ص ۱۶۸ میں یہ روایت ہے کہ حضرت عثمان نے اس متعہ سے روکا اور حضرت علی ؑ نے جاءز قرار دیا ۔ آخر کار دونوں میں گفتگو ہوئی۔ تو حضرت علی ؑ نےحضرت عثمان کو زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد دلائی ۔ حضرت عثمان نے کہہ دیا کہ ہم خائف تھے۔

سعید بن مسیب راوی ہے کہ جب دونوں میں گفتگو ہوئی تو حضرت عثمان نے کہا آپ سے کیا مطلب ہم منع کرتےہیں۔ آپ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا۔ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جاءز قرار دیا ہے ۔ مسلم ہی میں غنیم بن قصیر سے روایت ہی کہ سعد بن ابی وقاص سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ بخدا ہم نے اور اس کافر دونوں نے یہ عمل کیا ہے (مراد معاویہ ہے)۔

ابو العلاء کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین نے کہا کہ میں ایک بات بتائے دیتا ہوں جو تمہارے کام آئے گی۔ رسول اکرم نے سنہ ۱۰ ہجری بعض لوگوں کو عمرہ کا حکم دیا ہےاس کے بعد یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی۔ اب لوگ جو چاہیں کریں انہیں اختیار ہے۔

ایسی ہی روایت حمید بن ہلال سے مروی ہے ۔ قتادہ بن مطرف نے بھی بیان کیا ہے۔ کہ عمران نے مجھے یہ مطلب بتایا تھا انہیں سے دوسری سند سے بھی یہ روایت وارد ہوئی ہے۔ عمران بن مسلم کی مسند میں بھی یہ روایت منقول ہے۔ مسلم کے علاوہ بخاری نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب (زرقانی ۲ ص ۲۶۵ ترمذی ۳ ص ۳۹)

مسند احمد میں مروی ہے کہ ابن عباس نے متعہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذکر کیا تو عروہ نے کہا کہ حضرت ابوبکرو عمر نے منع کیا ہے ۔ ابن عباس نے اس کو نظر انداز کرتے ہوئےکہا کہ یہ عروہ کا بچہ کیا کہتا ہے ؟ کہا گیا کہ حضرت ابوبکر و عمر نے منع کیا ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے ۔ میں حکم خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیان کرتا ہوں اور یہ حضرت ابوبکر و عمر کا ذکر کرتے ہیں ۔ (الطرق الحکمتیہ ص ۱۸)

ایوب کہتے ہیں کہ عروہ نے ابن عباس کو ٹوکا۔ تم خدا سے نہیں ڈرتے متعہ جاءز کرتےہو۔ ابن عباس نے کہا کہ اپنی اماں سےپوچھو عروہ نے کہا کہ حضرت ابوبکر و عمر نےکیا ہے ۔ ابن عباس نے جواب دیا کہ تم لوگ بغیر عذاب الہٰی کے باز نہیں آو گے ۔ میں حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نقل کرتا ہوں اور تم طریقہ شیخین (الطرق الحکمتیہ ص ۱۸ )

صحیح ترمذی میں منقول ہے کہ ابن عمر سے سوال ہوا تو انہوں نے حلال بتایا لوگوں نے کہا کہ تمہارے باپ نے حرام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کہا تو حضرت نےجاءز کیا تھا (ترمذی جلد ۳ ص ۳۹)

اس کے علاوہ صحاح میں متعدد روایات ایسے ہیں جن کا انکار ناممکن ہے بلکہ صحیح مسلم سے تو یہاں تک اندازہ ہوتاہے کہ حضرت نےحجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ آدمیوں کے درمیان اس حکم کا اعلان کیا تو سرافہ بن مالک نے پوچھ لیا کہ یہ حکم ۱ سال کا ہے یا دائمی ہے تو آپ نے فرمایا یہ حکم ہمیشہ ہمیشہ کا ہے (شرح مسلم ج ۸ ص ۱۶۵)

یہ روایت بھی نقل ہے کہ حضرت علی ؑ یمن سےرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے اونٹ لے کر آئے تو دیکھا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا محل ہوکر کر رنگین لباس پہنے ہیں۔ آپ نےسبب پوچھا انہوں نے حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے (سنن ابی داود ج ۱ ص ۴۱۷) ( مسلم ج ۱ ص ۵۱۱)

مورد متعہ نساء:۔

یہ وہ محبوب عمل ہے جسے خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مباح قرار دیا اور مسلمانوں نےاس پر زمانہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دور حضرت ابوبکر بلکہ ابتدائے دور خلافت حضرت عمر میں عمل بھی کیا۔ لیکن اس کےبعد حضرت عمر نےیہ اعلان کر دیا کہ دو متعہ زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حلال تھےاور میں ان کو حرام کرتا ہوں۔ بلکہ اس کےعامل پر عقاب بھی کروں گا۔ (تاریخ الخلفاء ص ۵۳ طبع مصر)

جہاں تک اس مسئلہ کے متعلق روایات کا سوال ہے تو وہ جملہ اصحاب صحابہ نے نقل کی ہیں جیسا کہ ہم نےسابق میں صحیح مسلم سے نقل کیا ہے اور حدیث سے یہ واضح کیا ہے کہ حضرت عمر نے اس عمل کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا۔ حالانکہ واضح ہے کہ حلال و حرام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابدی حیثیت رکھتےہیں ۔ قرآن کریم میں اس عمل کا صریحی ذکر موجود ہے ۔ جس کا اعتراف خود فخر رازی نے کیا ہے ۔ اگرچہ حضرت عمر کی طرف سے تاویل بھی لے۔

ہم نے موسی جاء اللہ کے جواب میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کی ہے ، لہذا اس رسالہ کا مطالعہ کیا جائے۔ ہمارا مقصد اظہار حق اور اعلان واقع ہے کسی مسلمان کے جذبات کو مجروح کرنا ہمارا کام نہیں ہے ہمارے رسالہ میں آٹھ موضوعات ہیں ( ۱) حقیقت و لوازم عقد متعہ ( ۲) اجماع امت اسلامیہ براصل جواز ( ۳) دلالت کتاب کریم ( ۴) دلالت نصوص احادیث ( ۵) ادلہ نسخ ( ۶) روایات دالہ برانتساب نسخ ، معمر ( ۷) مخالفین رائےحضرت عمر از صحابہ وتابعین ( ۸) رائے شیعہ امامیہ جو حضرات اس موضوع سے دلچسپی رکھتےہوں اور تحقیق کرنا چاہتے ہوں وہ ہمارے رسالہ کا بخلوص و رقت مطالعہ کریں۔ اور پھر فیصلہ کریں کہ آیا اس عمل کو حلال ہونا چاہیے یا نہیں؟

مورد تصرف دراذان :۔

ہم نے اپنےامکان بھر شیعہ و سنی دونوں قسم کی کتابوں کی چھان بین کی لیکن ہمیں کسی مقام پر یہ نہ مل سکا کہ زمانہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا زمانہ حضرت ابوبکر میں اذان میں ""اصلوہ خیر من النوم"" رہا ہو۔ بلکہ صراحتاً نقل کیا گیا ہےکہ اس کا اضافہ حضرت عمر نےاپنے زمانہ خلافت میں کرایا جس کے خلاف آئمہ عترت ؑ کی احادیث بکثرت موجود ہیں، بلکہ اہل سنت کے علماء نےبھی اس امر کا اظہار کیا ہے مالک نے (موطاء ج ۱ ص ۱۴۹) میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر نے سونے کی بناء پر موذن نےاس کلمہ کا اضافہ کردیا تو انہوں نےپسند کر لیا ۔زرقانی نے اس کی شرح میں بیان کیا ہے کہ یہ روایت دار قطنی نےدو مسندوں میں نقل کی ہے ۔ (شرح زرقانی ج ۱ ص ۱۴۹ و ج ۱ ص ۷ ) میں کہتا ہوں کہ اسے ابن ابی شیبہ وغیرہ نےبھی بیان کیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان صریح روایات کےہوتے ہوئے خالد بن عبداللہ واسطی کی اس روایت کی کوئی قیمت رہتی ہی نہیں ہےکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اعلان نماز میں تردد تھا تو ایک مرد انصاری اور حضرت عمر نےخواب دیکھ کر فصول اذان بیان کئے اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےاسی کا حکم حضرت بلال کو دےدیا۔ یا حضرت بلال نےاپنےپاس سے اس کلمہ کا اضافہ کر دیا تو آپ نے پسند فرمالیا۔ اس لیےکہ خاندان عبداللہ کو یحیی مرہ ابن عدی ابو زرعہ وغیرہ نےضعیف حقیر ناچیز بلکہ کذاب قرار دیا ہے اور ذہبی نےمیزان میں اس روایت کےرواہ پر نقدکیا ہےاس طریقہ سے وہ روایت بھی ہے جو ابو مخدورہ ے نقل کی ہے کہ میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اذان کا سول کیا۔ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام فصول کو تعلیم دے کر فرمایا کہ صبح کی اذان میں اس کلمہ کا اضافہ کر دیا کرو۔ اس روایت کو ابو داود نے محمد بن عبدالملک کے واسطہ سے نقل کیا ہے جس کو ذہبی نے ناقابل استدلال قرار دیا ہے اس کا دوسرا واسطہ عثمان بن سائب اور اس کا باپ ہے جو دونوں کے دونوں ضعیف ہیں بلکہ اسی روایت کو مسلم نے بعینہ نقل کیاہے ۔ اور اس می اس کلمہ کا ذکر نہیں ہے ۔ خود ابو داود کی دوسری روایت میں یہ کلمہ مذکور نہیں ہے ۔ علاوہ اس کے کہ ابو مخدورہ طلقاء اور مئولفہ القلوب میں سے ہے یہ فتح مکہ اور جنگ حنین کے بعد اسلام لایا ہے اس وقت یہ حضرت سے بے حد متنفر تھا۔ اور آپ کے موذن کی نقل کرکے اس کا مذاق اڑاتا تھا لیکن وہ چاندی کی تھییلیاں جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تقسیم فرماءی تھی اور وہ مال غنیمت جو کہ تقسم ہوا تھا وہ کفار کا اسلام میں بے تحاشا داخلہ اور وہ اسلام کی روز افزوں شوکت اس امر کی سبب بن گئی کہ یہ شخص بھی اسلام میں داخل ہوگیا اور پھر مکہ ہی میں مرگیا۔ (اصابہ ترجمہ ابو مخدورہ ج ۴ ص ۱۷۵) خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی ابو مخدورہ ابوہریرہ اور سمرہ سے یہ کہہ دیا تھا کہ تمہار آخری مرنے والا جہنمی ہے (اصابہ استیعاب ترجمہ سمرہ) اصابہ جلد ۴ ص ۷۸) اور یہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وہ بلیغ انداز بیان تھا کہ جس پر ہماری جانیں قربان ہیں اس اجمال کے ذریعہ حضرت نے مسلمانوں کو ان تینوں کے باطن کی طرف متوجہ کر دیا تاکہ شبہ اور اجمال کی بناء پر ان میں سی کسی کی روایت پر اعتبار نہ کیا جائے ۔ ورنہ یہ موقع پاکر دین کو تباہ برباد کر دیں گے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ضرور واضح فرما دیتے سچ ہے (فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمہ) اگر کوئی یہ احتمال دے کہ شائد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیان فرمایا تھا جو ہم تک نہیں پہنچ سکا تو ہم یہ کہیں گے کہ اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو علماء سب سے خوف ہ کرتے حالانکہ ان کی حالات سے ایسا ہی اندازہ ہوتا ہے علاوہ اس کے کہ ہمارے لیے تو بہر حال عمل مشکل ہے اس لیے کہ ہمارے اعتبار سے تو یہ تینوں اب تک مشکوک بنے ہوئے ہیں ۔ چاہے بیان صادر ہوکر غائب ہی کیوں نہ ہوگیا ہو۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ دو کے مرجانے کے بعد تو روایت کا مفہوم واضح ہوگیا تو ہم یہ کہیں گے کہ قانون عقل کی بنا پر ضرورت کے وقت مقصد کا بیان کر دینا ضروری ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ لوگ اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کی نماز شہادت فتوی وغیرہ میں محل ابتلاء بن گئے تھے ۔ لہذا اگر کوئی بھی قابل اعتبار ہوتا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ضرور بیان فرمادیتے ۔ لیکن آپ کا سکوت یہ بتارہا ہے کہ اس ابہام و اجمال سے تینوں کے اعتبار کو ساقط فرمانا چاہتے تھے۔ ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک معتبر و معقول آدمی کو آپ متہم بنا دیں۔ صرف اس لیے کہ اس کے رفقاء میں کوئی ایک غیر معتبر ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنےامکان بھر تاریخوں میں تفتیش کی کہ آخر ا میں کا آخری کون ہے لیکن خدا شاہد ہے کہ ہم کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرسکے۔ بعض نے (اصابہ ج ۲ ص ۷۸) سمرہ کو آخر کہا ہے اور بعض نے ابوہریرہ کو بعض نے تینوں کو ایک سال میں لکھا ہے اور روز و ماہ کی تعین نہیں کی۔ اس لیئے ہم تو بہرحال ان پر اعتبار کرنے سے معذور ہیں تیسری بات یہ بھی ہے کہ کسی کا بلاوجہ متہم کردینا اس خلق عظیم کے بھی منافی ہے جس پر قدرت نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فائز کیا تھا ۔ لہذا میرا یقین ہے کہ اگر یہ حکم نہ ہوتا تو حضرت ہرگز اس ابہام و اجمال سے معتبر صحابہ کو متہم نہ بتاتے۔

تنبہیہ :۔

اگر کوئی شخص ہمارے برادران اہل سنت کے مذہب سے واقفیت رکھتا ہے تو اسے امر سے قطعا تعجب نہ ہوگا کہ اذان میں کمی یا زیادتی کیونکر ہوسکتی ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک اذان کی ایجاد کسی آسمانی وحی کی بنا پر نہ تھی بلکہ اس کی بنیاد عبداللہ بن زید کے خواب پر تھی جو انہوں نے دیکھ کر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بتایا تھا اور یہ روایت ان حضرات کے نزدیک اس قدر معتبر ہے کہ اس پر دعوی اجماع و تواتر بھی کیا گیا ہے چنانچہ ابو داود (شرح زرقانی ۱ ص ۱۳۵) نے اپنے سنن میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اعلان نماز کے لیے اظہار تردد فرمایا تو بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ ایک پرچم نصب کرادیا کیجئے۔ اس کے ذریعہ تدریجا اطلاع ہو جائے گی۔ آپ نے اس رائے کو ناپسند کیا تو کہا گیا کہ سنکھ بجایا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے کسی نے کہا کہ ناقوس بجایا جائے فرمایا یہ نصاری کا انداز ہے لیکن پھر بھی فی الحال اس پر عمل کیا جائے ۔ چنانچہ تیار کیا گیا ۔ ادھر عبداللہ نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے اذان کو تعلیم دی اور صبح کو آکر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیان کیا۔ آپ نے بلال کو حکم دیا کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے پہلے کیوں نہ بیان کیا۔ تو کہا کہ عبداللہ کے بعد شرم محسوس ہوئی۔ دوسری روایت اسی انداز کی محمد بن عبداللہ نے اپنے باب سے نقل کی ہے جس میں فصول اذان و اقامت دونوں کا ذکر ہے ۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ عبداللہ بتاتے جاتے تھے اور بلال کہتے جاتے تھے۔

امام مالک نے موطاج ۱ ص ۷۳۵ میں اس روایت کومختصر طور پر نقل کیا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات یاد رہے کہ یہ واقعہ نماز صبح کا ہے لیکن اس اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کا ذکر نہیں ہے ۔ خدا جانے مسلمان اس کی کیا تاویل کریں گے۔

علامہ عبدالبر نے اس قصہ کے تواتر کا دعوی کیا ہے (شرح زرقانی ۱ ص ۱۳۵) گویا کہ تمام اہلسنت میں یہ واقعہ مسلم حیثیت رکھتا ہے

اقول ان احادیث کے ثبوت میں چند اشکالات ہیں :۔

۱ ۔ قرآن کریم کے نصوص سے واضح ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم احکام الہیہ عوام کے مشورہ سے وضع نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ آپکا صریحی اعلان ہے کہ میں وحی الہٰی کا تابع ہوں۔ (سورہ احقاف) قرآن نے بھی یہی تعلیم دی تھی۔ کہ جب تک تنزیل ختم نہ ہوجائے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بولنے کا حق نہیں ہے۔(سورہ قیامت) اور یہی صفت امتیاز رسالت ہے کہ بغیر وحی تکلم نہ کرے۔ (النجم) حیف کہ مسلمانوں نے اپنے اغراض و مقاصد کے لیے قرآ ن پو پس پشت ڈال دیا۔

۲ ۔ قرآن کریم سے قطع نظر کرنے کے بعد بھی عقل کا مستقل فیصلہ ہے کہ اس قسم کے مشورے رسول کے لیے محال ہیں، وہ اللہ پر اہتمام نہیں لاسکتا۔ وہ اپنے پاس سے بلاوحی سمادی کوئی حکم وضع نہیں کرسکتا۔ یہ ضرور ہے کہ بعض امور دنیا میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بحکم قرآنی مشوہ کیا کرتے تھے لیکن اس کا مقصد صرف تالیف قلوب تھا ورنہ عزم رسالت اور حکم ربوبی ان تمام مشوروں سے مافوق تھا جیسا کہ قرآ ن کریم نے بھی بیان کیا ہے۔

۳ ۔ ان روایات میں صراحت کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تحیرو پریشانی کا ذکر ہے ۔ حالانکہ ایسی باتیں اللہ کے وابستگان سے محال ہیں۔ بھلا یہ کیونکہ ممکن ہے کہ پہلے ناقوس کا حکم دیں۔ اس کے بعد اذان پر اعتماد کرلیں۔ حالانکہ وقت عمل بھی نہ آیا تھا اور یہ وہ بداء ہے کہ جو باجماع مسلمین محال ہے۔ بعد وقت عمل حکم کا منسوخ ہوجانا تو ممکن ہے لیکن قبل عمل حکم کا ختم ہوجانا غیر ممکن ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ شریعت اسلام میں باجماع امت غیر رسول کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس پر احکام کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔

۴ ۔ ان روایات میں اس شدت سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ ان پر اعتماد ناممکن ہے چنانچہ ابو داود ہی کی دو روایتیں آپس میں مختلف ہیں جیسا کہ وقت نظر سے واضح ہوتا ہے ۔پھر ان دونوں کا مفہوم یہ ہے کہ خواب عبداللہ اور حضرت عمر میں منحصر تھا حالانکہ طبرانی نے حضرت ابوبکر کی طرف نسبت دی ہے ۔ (زرقانی ۱ ص ۱۳۶) بلکی حلبی نے ( ۲ ص ۱۰۲) اپنی سیرت میں تو اور بھی غضب کر دیا اس نے یہ اقول بھی نقل کے ہیں کہ یہ خواب ۱۴ یا ۱۸ افراد نے دیکھا ہے بلکہ بعض روایات میں حضرت بلال کا بھی ذکر ہے (زرقانی ۱ ص ۱۳۶) حلبی نے ان تمام اقوال کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ غریب کیا کرتا جب بات ہی بے ربط تھی۔

۵ ۔ بخاری و مسلم (زرقانی ج ۱ ص ۱۳۵) نے اپنی کتابوں میں ان روایتوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا جس سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں یہ روایات بالکل مہمل تھیں۔ بلکہ ان کی روایات کی بناء پر جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشورہ کیا تو بعض نے سنکھ اور بعض نے ناقوس کا مشورہ دیا۔ حضرت عمر نے رائی دی کہ آواز لگائی جائے چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال کو حکم دیا اور انہوں نے اذان شروع کردی۔ بخاری و مسلم میں صرف اتنا ہی ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ روایت ان روایات سے بالکل مختلف ہے ۔ ان میں تشریع کا تعلق میں اس کا کوئی دخل ہی نہیں ہے۔ اس روایت میں یہ مضمون ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجلس مشورہ ہی میں حکم اذان دے دیا تھا اور ان میں یہ مفہوم ہے کہ صبح کے وقت عبداللہ کے خواب کے بعد حکم صادر ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ مشورہ سے کم از کم ایک رات کے بعد اذان ہوئی ہے اس کے علاوہ اس روایت می حضرت عمر کا وجود مذکورہ ہے ۔اور ان روایت میں حضرت عمر کی غیبت کا ذکر ہے یہاں تک کہ اذان کی آواز سننے کے بعد آئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے خواب کی بھی خبر دی۔ کوئی صاحب انصاف بتائے کہ کیا ایسے مختلف روایات بھی قابل جمع ہوتے ہیں یہ بھی یاد رہے کہ ان خواب آور احادیث کا ذکر حاکم نے بھی مستدرک میں ترک کر دیا ہے ۔ حالانکہ اس کی بنا پر تھی کہ بخاری و مسلم سے ترک شدہ صحیح روایات کو جمع کیا جائے اور اس میں کوئی شک نہی ہے کہ اس نے اپنے موضوع میں کافی محنت کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اعراض کرنا یقیناً دلیل بطلان ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ حاکم نے (زرقانی ۱ ص ۱۳۵) یہ فقرہ بھی درج کیا ہے کہ عبداللہ کے روایات کو ہم نے اس لیئے ترک کر دیا ہے کہ وہ وقت ایجاد موت کے گھاٹ اتر چکا تھا۔

اقول :۔

اس کا موید یہ ہے کہ جمہور مسلمین کے یہاں اذان کی ابتدا جنگ احد کے بعد ہوئی ہے۔ اور عبداللہ کے متعلق اس کی لڑکی کا یہ بیان ہے کہ میرا باپ جنگ بدر میں شریک ہوا اور احد میں مارا گیا ۔ حلیتہ الاولیاء ( ۱ صابہ ج ۲ ص ۳۰۴) نے اس روایت کو سند صحیح سے نقل کیا ہے ظاہر ہے کہ اگر روایت خواب صحیح ہوتی تو بیٹی اپنے باپ کے فضائل میں یہ کارنامہ بھی عمر بن العزیز سے بیان کرتی ۔ تاکہ انعام و اکرام کا زیادہ استحقاق پیدا ہوتا۔

۶ ۔ قرآن حکیم نے صریحی طور پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تقدیم سے منع کیا ہے۔ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تقدم حبط اعمال کا باعث ہوجاتا ہے ۔ اور بقول بخاری ( ۳ ص ۱۹۱) یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب نبی تمیم کی ایک جماعت نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک حاکم کا مطالبہ کیا تھا اور حضرت ابوبکر نے فوراً کہہ دیا تھا کہ قعقع بن معبد کو بنا دیجیئے اور عمر نے ٹوک کر کہا تھا کہ اقرع بن حابس کو بنائیے اور پھر دونوں میں جھگڑا شروع ہوگیا تھا قدرت نے فوراً ان آیات کے ذریعہ کو تنبہیہ کی اور یہ بتایا اب اگر کبھی مجھ (رسول) پر تقدم کیا اور میرے سامنے آواز بلند کی تو تمہاے اعمال حبط ہوکر رہ جائیں گے۔

ظاہر ہے کہ آواز بلند کرے کے معنی شور مچانے کے نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے مقصد یہ ہے کہ رسول کے سامنے اپنی بھی کوئی حیثیت خیال کی جائے۔ اور ان کی رائے سے پہلے اپنی رائے بیا کر دی جائے اور ظاہر ہے کہ ان روایات میں یہ بات صراحت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ کہ ان خواب زدہ افراد نے اپنی رائے فورا پیش کردی اور اس کا انتظار نہ کیا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی سماوی کی بنا پر کوئی حکم صادر فرمائیں ۔اور مسلمان اس پر عمل کرکے سعادت دارین حاصل کریں۔ اور حبط اعمال سے محفوظ رہیں۔

۷ ۔ ہر ذی فہم انسان اس امر کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ اذان و اقامت در حقیقت معدن نماز کے دو گوہر ہیں۔ ان کی نسبت اسی ذات کی طرف ہوسکتی ہے کہ جس کی طرف اصل نماز منسوب ہے۔ یہی وہ عمل ہے کہ جس کے ذریعہ اسلام کا امتیاز اس کا اعلان حق اور اس کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے ۔ اور یہی وہ نعمت ہے جو اسلام کے علاوہ کسی مذہب کو حاصل نہیں ہے۔ درحقیقت رات سناٹے میں موذن کی اذان واعئی حق کی ایک پکار ہے۔ جو جسم کی ساتھ روح کو بھی بیدار کر دیتی ہے۔ انسان یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس میں فطری تڑپ پید ا ہوگئی ہے ۔ پھر کلمات کی ترتیب نماز کا پورا نقشہ نظروں میں کھینچ دیتی ہے۔ ایک طرف عظمت الہٰی اور توحید ربوبی کے جلو سے اور دوسری طرف رسالت کا اعلان حق اور اس کی جلالت کا بیانگ دہل اظہار مرد مسلم میں وہ روحانی قوت پیدا کرتا ہے ۔ کہ جو عام تصورات سے مافوق ہے۔ اس کے بعد نماز فلاح کی دعوت انسان کو اس کے انجام کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اور آخر میں تکبیر و تہلیل کی تکرار انسان کو پھر اصلی مقصد کی طرف موڑ دیتی ہے۔

زرا انصاف کیجئے ایسی اہم ترتیب اور اتنے بامعنی کلمات ایسا موثر انداز کیا کسی غیر ربانی قوت سے حاصل ہوسکتا ہے ؟ کلا ول

مجھے حیرت ہے ان عقلوں پر جو ایسے اہم نکات کو جو گوہر نماز اور جوہر نماز ہیں انہیں عبداللہ و حضرت عمر جیسے افراد کی طرف منسوب کریں۔ اگر انسان ناقد بصیر ہے تو اس کی درایت ان روایات کی ابطال کے لیے کافی ہے۔

۸ ۔ تشریح اذان کے سلسلے میں اہل سنت کے جملہ روایات ان روایات کے مخالف ہیں۔ کہ جو ائمہ عترت سے ہم تک پہنچے ہیں اور ظاہر ہے کہ مرد مسلم ائمہ طاہرین کے مقابلہ میں کسی انسان کے قول کو محل اعتبار نہیں قرار دے سکتا۔ صاحب وسائل شیعہ نے امام صادق سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جبرئیل نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے اذان و اقامت کہی تو آپ نے حضرت بلال کو بلا کر تعلیم دی اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہی روایت شیخ کلینی شیخ صدوق اور شیخ طوسی جیسے مقدس اور محتاط افراد نے نقل کی ہے کہ جن پر اعتماد کرنا ہر ذی ہوش انسان کا فرض ہے ۔ اس کے علاوہ سیرت حلیہ ج ۲ ص ۱۰۳ نے ابوالعلاء سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے محمد بن حنفیہ سے خواب کی روایت ذکر کی تو آپ کو غصہ آگیا ۔ اور فرمانے لگے کہ اب جرات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اذان کو خواب کا نتیجہ کہتے ہیں جبکہ اکثر خواب غلط اور اوہام کے نتائج ہوتے ہیں۔ خدا کی یہ قسم یہ قول باطل ہے۔

سفیان بن لیل کہتے ہیں کہ میں امام حسن کے پاس مدینہ میں حاضر ہوا اور حضرت سے اذان کا ذکر چھیڑ دیا۔ بعض لوگوں نے خواب کی روایت نقل کی تو آپ نے فرمایا کہ اذان کی شان ان خرافات سے اجل وارفع ہے اس کو جبرئیل امین آسمان سے لائے ہیں (مستدرک حاکم ۳ ص ۱۷۱)

ہارون بن سعید نے زید شہید کے سلسلے سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی کے بیان کی بناء پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذان کی تعلیم شب معراج دی گئی ہے اور اسی وقت نماز بھی واجب کی گئی ہے۔ (مشکل الاثار طحاوی کنزل العمال ج ۶ ص ۲۷۷)

مورد ""حی علی خیرالعمل"

اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ عصر رسالت میں یہ فقرہ جز اذان و اقامت کی حیثیت سے استعمال ہوتا تھا لیکن بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمانہ خلافت دوم میں اولیاء امر نے مصلحت وقت کو دیکھتے ہوئے اس فقرہ کو اذان سے ساقط کر دیا۔ جس کا واضح سبب یہ تھا کہ اگر مسلمانوں کو یہ اندازہ ہوگیا کہ بہترین عمل نماز ہے تو وہ ثواب خدائی کو اس پر سکون عمل میں تلاش کریں گے اور اس طرح جنگ و جدل قتل و غارت کو جو اس وقت اسلامی شوکت کے لیے بے حد ضروری ہے اس کا سد باب ہوجائے گا اور مسلمان اس سے اعراض کرلیں گے ۔ انہیں مصالح کے پیش نظر (بقول علامہ قوشجی اشعری) حضرت عمر نے برسر منبر یہ اعلان کیا کہ تین چیزی عہد رسالت میں راءج تھیں میں انہیں حرام کیئے دیتا ہوں۔ اور اب ان کے عامل پر عقاب بھی کروں گا۔ حج تمتع متعہ حی علی خیر العمل ۔ حضرت عمر کے بعد ان کے جملہ اتباع نے علاوہ اہل بیت رسالت کے اس عمل میں ان کا اتباع کیا کہ ان حضرات نے اس فقرہ کو اپنا شعار قرار دے کر اپنے اسلام کی ترویج کو اسی نماز کے ذریعہ ضروری تصور کیا چنانچہ حسین بن علی الحسین شہید فخ نے زمانہ ہادی خلیفہ عباسی میں اس فقرہ کو راءج کیا تھا جیسا کہ مقاتل الطالسیبن ص ۱۵۶ طبع تہران میں مذکور ہے۔ اس کے علاوہ حلبی نے سیرت میں ذکر کیا ہے کہ ابن عمر اور حضرت سجاد دونوں اپنی اذانوں میں اس فقرہ کا ذکر فرماتے تھے۔ (سیرت حلبیہ ج ۲ ص ۱۰۵)

اقول علماء امامیہ کی کتابوں میں تویہ احادیث بتواتر نقل کیے گئے ہیں جس سے بالوضاحت ظاہر ہوتا ہے کہ ائمہ عترت کا مسلک یہی فقرہ تھا اور ان کی ترویج اسی عمل پر موقوف تھی۔

""فصیل ""

علماء امامیہ کے نزدیک اذان میں اٹھارہ فصلیں ہیں ۴ ۔ تکبیریں، ۲ شہادتیں، ۲ حی علی الصلوہ، ۲ حی علی الفلاح ، ۲ حی علی الخیرالعمل ، ۲ تکبیر ، ۲ تہلیل ، اقامت میں دو تکبیریں ابتداء سے کم ہوجائی ہیں۔اور ایک تہلیل آخر سے جس کے بدلے میں دو قدقامت الصلوہ کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح ۱۷ فصلیں تیار ہوجاتی ہیں یہ اور بات ہے کہ ان فصول تیار ہو جاتی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ان فصول کے علاوہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام پر صلوات مستحب ہے۔ جس طرح کہ حضرت کے بعد ذکر امیر المومنین مستحب ہے۔ مگر افسوس ہے۔ کہ بعض بدعتی افراد اس فقرہ شہادت کو بدعت قرار دے کر حرام بنانا چاہتے ہیں، حالانکہ اسلام میں شاید ہی کوئی موذن ایسا ہو جو اذان کے ساتھ ابتدا میں چند کلمات اور پھر وسط میں سرکار رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات نہ بھیجتا ہو۔ حالانکہ یہ سب اذان میں داخل نہیں ہیں بلکہ ان کا ذکر تبر کا ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے کہ اگر اس فقرہ کو اذان سے کوئی ربط ہو بلکہ یہ مستحب بھی نہ ہو تو سوال یہ ہے کہ اثناء اذان میں یہ بات کرنا ہی کب حرام ہے۔ ایسے افراد یہی فرض کرلیں کہ یہ ایک تکلم ہے آخر یہ حرام و بدعت کا سوال کہاں سے پیدا ہوا؟ کیا آج کی دنیا میں بھی افتراق بین المسلمین محبوب عمل ہے؟