مورد سہ طلاق :۔
اس مسئلہ کی حقیقت یہ ہے کہ شرح اسلام نے اجتماع ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے طلاق کا قاون وضع کرکے اس کی ترتیب یوں قرار دی کہ اگر کوئی اپنی زوجہ کو طلاق دے تو اسے دوبارہ بلا عقد رجوع کرنے کا حق ہے۔ اگر رجوع کرکے دوبارہ پھر طلاق دے دی تو پھر رجوع کرنے کا حق ہے لیکن اگر اب رجوع کے طلاق دے دی تو جب تک دوسرے کے عقد میں جاکر پھر خارج نہ ہو اس کے لیے اس عورت سے عقد جاءز نہیں ہے۔ قرآ ن کریم نے اس کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔
علامہ زمحشری (کشاف ۱ ص ۲۰۷) نے بھی آیت کی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ طلاق کو دو مرتبہ الگ الگ ہونا چاہیے۔ پھر عورت کو روک لے یا آزاد کر دے۔ اب اگر اس کو زوجیت سے آزاد کرے کے لیے تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو پھر انسا کو رجوع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس خدائی ترتیب کو بدل کر یہ انداز اختیار کر لیا ہے کہ ایک ہی مجلس میں ایک ساتھ تین طلاق دے دیتے تھے اور عورت کو اپنے سے بے تعلق فرض کرلیتے تھے۔ حضرت عمر کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا تو انہوں نے اسی انداز کو پسند کر لیا اور اسی کے مطابق حکم بھی صادر کر بیٹھے جیسا کہ حسب ذیل اخبار سے اندازہ ہوتا ہے۔
صحیح مسلم ۱۰ ص ۷۱ میں یہ روایت ہے کہ ابوالصبہاء نے ابن عباس سے دریافت کیا رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ۳ طلاق کا ایک مفہوم نہیں تھا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ صحیح ہے لیکن حضرت عمر نے لوگوں کی طبیعت کے مطابق اس قانون کو بدل دیا (مسلم ج ۱۷۱۰ ) اس کتاب میں چند صحیح طریقوں سے ابن عباس کو قول مروی ہے کہ طلاق الہٰی دستور کے مطابق زمانہ رسالت اور خلافت اول بلکہ دوم کے دو سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضرت عمر نے لوگوں کی تنبیہہ کے لیے بدل دیا (المنارج ۲ ص ۳۸۶) حاکم نے اس واقعہ کو مستدرک میں اور ذہبی نے اس کی تلخیص میں درج کیا ہے امام احمد نے اس روایت کو اپنی مسند ج ۱ ص ۳۱۴ میں اور اس کے علاوہ بہیقی نے ج ۷ ص ۳۳۶ اور قرطبی نے اپنی تفسیر کے ج ۳ ص ۱۳۰ میں درج کیا ہے۔
علامہ شیخ رشید رضا نے ""المنار کے ج ۲ ص ۳۸۴"" پر ان روایات کو نقل کرنے کے بعد یہ روایت بھی نقل کی ہے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا طرز عمل اس کے خلاف تھا آپ نے رکانہ کو باوجود تین طلاق کے رجوع کا حکم دے دیا۔ چونکہ وہ تینوں ایک مجلس میں تھیں۔ نسائی نے اپنی کتاب ج ۲ ص ۱۴۲ میں یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ایک شخص نے مجلس واحد میں تین طلاق دے دی تو جب حضرت کو معلوم ہوا تو غصہ میں اٹھ کھڑے ہوئے فرمایا میری زندگی میں قرآن کے ساتھ یہ کھیل ہورہا ہے ۔ ایک شخص نے عرض کیا یا حضرت اسے قتل کردیں؟ (الطرق الحکمتیہ ص ۱۷)
مختصر یہ ہے کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا طرز عمل جملہ اسلامی کتابوں سے بالکل واضح ہے۔ یہاں تک کہ علامہ دہر محمد خالد بصری نے اپنی کتاب و بمقراطیہ ص ۱۵۰ میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب نے اپنے مصالح کی بناء پر بہت سے صریحی نصوص کو ٹھکرایا بلکہ بہت سے آیات کو ناقابل عمل تصور کرلیا۔ چنانچہ قرآن نے زکوہ میں مولفہ القلوب کا حصہ قرار دیا انہوں نے ترک کر دیا۔ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت ابوبکر نے ام ولد کی تجارت کو جائز رکھا اور انہوں نے حرام کر دیا۔ سنت رسول کی بناء پر طلاق کا شمار ایک ہوتا تھا۔ انہوں نے تین تصور کرکے حکم کر دیا۔ وغیرہ وغیرہ ۔
علامہ دوالیسی نے اپنی کتاب اصول فقہ ص ۲۴۶ میں تحریر کیا ہے کہ احکام زمانہ کے تغیرات سے بدلتے رہتے ہیں چنانچہ اس سلسلہ سے حضرت عمر نے ایک مجلس کے ۳ طلاق کو ۳ قرار دے کر حکم فرمادیا تھا حالانکہ زمانہ رسالت بلکہ زمانہ خلافت اولی اور ابتدائے خلافت دوم میں ایسا ہرگز نہ تھا جیسا کہ ابن عباس کے روایات سے معلوم ہوتا ہے لیکن حضرت عمر نے یہ دیکھا کہ لوگ طلاق کو مذاق سمجھے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک ساتھ تین طلاق دے دیتےہیں۔ تو انہوں نے اس پر اکتفا کرنا شروع کر دیا تاکہ ان کی تنبیہہ ہوجائے۔ جیسا کہ علامہ ابن قیم نے بیان فرمایا ہے ۔ ص ۱۶ صحابہ کرام چونکہ حضرت عمر کی سیاست و ہوش مندی سے واقف تھے اس لیے انہوں نے بھی اس کا اتباع کیا۔ اور اسی کے مطابق حکم کرنے لگے۔ اور اس طرح زمانہ کے ساتھ حکم بدل گیا ۔ یہ اور بات ہے کہ خود ابن قیم نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ عصر حاضر کے لحاظ سے قانون رسالت کو پھر جاری ہونا چاہیے اس لیے کہ سلسلہ عمریہ سے محلل
کا رواج ہوجائے گا حالانکہ یہ عہد صحابہ میں نہ تھا اور ظاہر ہے کہ عقاب
____________________
اگر خود ہی مفسدہ کو مستلزم ہوجائے تو اس کا بدل دینا ہی خدا اور رسول کے نزدیک محبوب و مرغوب ہے۔ ابن تیمیہ کا کہنا تھا کہ اگر خود حضرت عمر نے یہ منظر دیکھ لیا ہوتا کہ لوگ محلل کے بارے میں کس قدر کثافت کاریوں سے کام لے رہے ہیں تو وہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے عہد سے اتفاق کرلیتے۔ بظاہرین ابن قیم اور اب تیمیہ کے ان بیانات کا مقصد یہ تھا کہ مصر کے تازہ محکموں کو پھر سے عہد رسالت کے قوانین کی طرف پلٹا دیں۔ تاکہ وہ قانو اپنی جگہ پر رہے کہ زمانہ کے تغیر کے ساتھ احکام کا تغیر ناگزیر ہے
(اقول )
تاکہ یہ قانون مسلم رہے کہ نصوص قرآن و سنت کی مخالفت حرام اور موجب ندامت ہے۔ (چراکارے کند عاقل الخ)
مورد صلوہ تراویح :۔
یہ بات تاریخی اعتبار سے مسلم ہے کہ تراویح کا کوئی ذکر عہد رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
بلکہ زمانہ خلافت اول میں نہ تھا۔ سرکار رسالت نے علاوہ نماز استقاء کے باقی سنتی نمازوں میں جماعت کو غیر مشروع قرار دیا تھا اور یہی طرز عمل عہد حضرت ابوبکر میں ہا۔ ۱۳ ہجری میں حضرت ابوبکر کا انتقال ہوا۔ اس سال بھی سنت رسول ہی پر عمل رہا لیکن ۱۴ ہجری (موطاء ۱ ص ۱۵۴) کے رمضان میں حضرت عمر نے اپنی خلافت کی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مسجد کی سیر کی تو دیکھا کہ لوگ مختلف حالات میں مشغول عبادات ہیں۔ انہیں یہ شان پسند نہ آئی ۔ اور انہوں نے فوراً نماز تراویح کی ایجاد کردی۔ (حیوہ الحیوان ۱ ص ۳۴۶) دو امام مدینہ میں مقرر کر دیئے ۔ ایک مردوں کے لیے اور ایک عورتوں کے لیے ۔ اور باقی کے لیے دیگر شہروں میں حکم فرما دیا صحیح بخاری و مسلم میں (مسلم ج ۶ ص ۳۹) اگرچہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف سے ادائے مستجبات کی تاکید مذکور ہے لیکن ماہ رمضان کی راتوں میں تراویح کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ بخاری کی کتاب تراویح میں تو عبد قاری سے یہ روایت درج ہے کہ وہ حضرت عمر کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے انہوں نے سب کے لیے ابی بن کعب کو امام مقرر کر دیا۔ اور دوسری رات میں اس اجتماعی منظر کو دیکھ کر کمال مسرت سے اعلان کیا کہ یہ بہترین بدعت ہے ۔
علامہ قسطلانی نے شرح بخاری ج و پر اس حدیث کی شرح میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمر نے اس کو بدعت سے اس لیے تعبیر کیا کہ عہد رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
یا عہد حضرت ابوبکر میں نہ اس قسم کا کوئی اجتماع تھا نہ یہ ترتیب نہ ایسی نماز تھی اور نہ اتنی تعداد اس کے علاوہ دیگر شرحوں میں بھی اس قسم کے کلمات پائے جاتے ہیں۔
علامہ ابن شحنہ نے روضتہ المناظر میں سنہ ۲۳ کے حوادث کے ذکر میں حضرت عمر کے ان خصوصیات کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ام ولد کے بیع سے منع کیا۔ نماز میت میں چار تکبیریں کردی اور نماز تراویح کی ایجاد کی سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص ۵۳ میں عسکری کی کتاب اوائل سے حضرت عمر کے اولیات کو نقل کیا ہے کہ انہوں نے متعہ کو حرام کیا تراویح کی ایجاد کی ۔ نماز میت میں چار تکبیریں قرار دیں اور پہلے پہل امیرالمومنین کا لقب پایا ابن سعد نے طبقات ج ۳ میں حضرت عمر کے خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ انہوں نے سنہ ۱۴ میں نماز تراویح ایجاد کرکے مدینہ میں اس کے لیے دو امام مقرر کئے اور باقی شہروں میں اس کا حکم بھیج دیا ۔ ابن عبدالبر نے استیعاب میں تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر نے ماہ رمضان کو اس نماز سے روشن کر دیا ج ۲ ص ۴۵۲ ہامش اصابہ۔
اقول :۔
ان علماء کا خیال ہے کہ حضرت عمر نے اپنے تدبیر سے ایک ایسی حکمت کی ایجاد کر دی کہ جس سے خود سرکار سالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
بھی غافل تھے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ خود حضرت عمر بھی سرکار رسالت کے حکام کی حکمت سے بے بہرہ تھے۔ دین اسلام نے نماز مستحب میں جماعت کو اس لیے غیر مشروع قرار دیا ہے کہ نماز مستحب انسان اپنے رب سے مناجات کے لیے اختیاری طور پر ادا کرتا ہے لہذا اسے ایسی خلوت حاصل ہونی چاہیے کہ وہ باقاعدہ اپنے رب سے تضرع و زاری گریہ و بکا امید و بیم رغبت اور رہبت اناتبہ و توبہ کے ساتھ مناجات کرسکے۔ پھر اس کا دوسرا اجتماعی فائدہ یہ ہو کہ گھر کے بچے نماز کے عادی بنیں۔ اس لیے کہ وہ گھر میں ماں باپ کے افعال کی پیروی کرتے ہیں اور پھر انہیں سے اعمال کا درس حاصل کرتے ہیں۔ علاوہ اس کے کہ انسان کا گھر ماز کی برکت سے بالکل محروم نہ رہ سکے گا۔ اور شاید یہی راز تھا کہ جب عبداللہ ب مسعود نے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال کیا کہ نماز گھر میں افضل ہے یا مسجد میں تو آپ نے فرمایا کہ میرا مکان مسجد سے بے حد قریب ہے لیکن میں غیر واجب نماز کو گھر میں زیادہ پسند کرتا ہوں (احمد ج ۱ ص ۹۰) و (مسلم ج ۱ ص ۳۱۳) میں روایت نقل کی گئی کہ ہے کہ حضرت نے بیت با نماز و بیت بے نماز کو مردہ اور زندہ سے تثبیہہ دی ہے۔ جابر ناقل ہیں کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہ جب نماز واجب ہوجائے تو کچھ نمازیں گھر میں پڑھا کرو کہ اس میں خبر ہے ۔ (موطاء شرح سیوطی ج ۱ ص ۱۴۰ بخاری ابوداؤد)
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود خلیفہ وقت نے اپنی تدبیر و تنظیم سے مرد مسلم کو ان تمام اجتماعی مذہبی اور تربیتی فوائد سے محروم کردیا جن کے لیے سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے نماز مستحب کو فرادی قرار دیا تھا۔
مورد "نماز جنازہ "
رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا طرز عمل یہ تھا کہ نماز جنازہ میں پانچ تکبیری فرمایا کرتے تھے لیکن عمر کو یہی اچھا معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک تکبیر کم کر دی جیسا کہ سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص ۳۵ میں اور ابن شحنہ نے روضتہ المناظر میں درج کیا ہے ۔ علامہ محمد خالد کا بیان طلاق کے بارے میں گزر چکا ہے امام احمد نے عبدالاعلی سے روایت کی ہے کہ زید بن ارقم نے ایک جنازہ پر ۵ تکبیریں کہی تو ایک شخص نے ٹوک دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ یونہی پڑھی ہے میں اسے ابدا ترک نہ کروں گا۔ ج ۴ ص ۳۷۰ ۔
اس طرح زید بن ارقم نے سعد بن بحیر کے جنازہ پر بھی نماز ادا کی تھی۔ اصابہ ترجمہ سعد ص ۳۱ ۔ معارف بن قنیبہ احوال ابو یوسف۔ امام احمد نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ یحیی نے عیسی غلام حذیفہ کے ساتھ نماز پڑھی انہوں نے ۵ تکبیریں کہہ کر یہ اعلان کیا کہ میں نے سہود نسیان نہیں کیا ہے بلکہ میرے مولا حذیفہ نے بھی یونہی پڑھی تھی ۔ اور اعلان کیا تھا کہ میں نے سنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر عمل کیا ہے ۔ ج ۵ ص ۴۰۶ ۔ میزان الاعتدال ترجمہ یحیی بن عبداللہ۔
مورد ""میراث خواہر و برادر ""
قرآ کا صریحیی حکم ہے کہ میت کے برادر و خواہر کو اسی وقت میراث مل سکتی ہے جبکہ خود مرنے والے کے اولاد نہ ہو۔ لیکن حضرت عمر نے اولاد سے صرف لڑکے کو مراد لے کر یہ حکم کر دیا کہ میت کی لڑکی کے ساتھ بہن کو میراث مل سکتی ہے۔ اور اسی پر مذاہب اربعہ نے ان کا اتباع بھی کر لیا ہے لیکن ائمہ اہل بیت کا یہ اتفاق حکم ہے کہ اولاد کے ہوتے ہوئے ان قرابتداروں کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآ نے بعض اقرباء کو بعض پر مقدم کیا ہے بلکہ بعض روایات سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات اس مسئلہ کے شدت سے مخالف تھے حتیٰ کہ ابن عباس سے جب اس مسئلہ عمر یہ کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ بہتر واقف ہویا خدا۔ راوی کہتا ہے کہ میں اس کا مطلب نہ سمجھ سکا تو میں نے ابن طاوس سے سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ وہ ابن عباس سے نقل کر رہے تھے کہ اس سے مراد آیت قرآنی ہے کہ جس میں بہن کی میراث کو عدم اولاد پر معلق کیا گیا ہے ۔ (مستدرک ج ۴ ص ۳۹)
مورد عول فرائض :۔
مسلمانوں میں یہ اختلاف ہے کہ آیا عول فرائض میں ممکن ہے یا نہیں اور عول کی معنی یہ ہیں کہ ترکہ حقداروں کے حق سے کم ہوجائے۔ مثلاً کسی مرنے والی ورثہ میں دو بہنیں ہوں اور شوہر ۔ تو قرآن کی رو سے دونوں کو دو ثلث ( ۳ ۔ ۲) مل گئے اور شوہر کو نصف ( ۲ ۔ ۱) حالانکہ یہ غیر معقول ہے حضرت عمر کے سامنے جب یہ مسئلہ پیش ہوا تو انہوں نے ناسمجھی کی بناء پر یہ حکم دیا کہ سب کا حق تھوڑا تھوڑا کم کر دیا جائے۔ لیکن ائمہ اہل بیت ؑ نے یہ بتایا ہے کہ مقدم کو مقدم کیا جائے اور موخر کر موخر ۔ چنانچہ امام باقر فرمایا کرتے تھے کہ ریگزار کے ذرات کا حساب جاننے والا اس امر سے بھی واقف ہے کہ حق میں زیادتی نہیں ہوسکتی مگر تم نہیں جانتے ابن عباس تو یہاں تک کہتے تھے کہ میں حجر اسود کے پاس مباہلہ کرسکتا ہوں کہ یہ حکم خدا کے خلاف ہے۔ سارے ذرات کا عالم اس سے واقف نہیں ہے کہ ایک مال میں دو ثلث اور ایک نصف کیسے ہوگا؟ در حقیقت یہ قوم کی جہالت کا نتیجہ ہے ۔
حضرت عمر کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا تھا (تاریخ الخلفاء ص ۵۳) ( مختصر کنزل العمال حاشیہ مسند احمد ج ۴ ص ۲۰۸) تو انہوں نے سب کے حق کو کم کر دیا۔ حالانکہ اگر انہیں موخر و مقدم کا علم ہوتا تو یہ بات نہ ہوتی۔ یاد رکھو مقدم وہ ہوگا جس کے حق کو دو مرتبہ بیان کیا گیا ہو۔ پہلے ایک درجہ پھر اگر غیر ممکن ہو تو دوسرا درجہ اورموخر وہ ہے جس کے لیے دوسرے درجہ کی تعین نہ مثلا شوہر کو اس کا حق نصف ہے اگر اولاد بھی ہو تو ۴ ۔ ۱ اس سے کم نہ ہوگا برخلاف دختران و خواہران ان کا حق ۳ ۔ ۲ ہے۔ اس سے کم کی مقدار معی نہیں ہے۔ اب اگر مقدم کو مقدم کر دیا ص ۳۵۳ حاکم نے اسی روایت کے آخری اجز کو مستدرک ج ۴ ص ۳۴۰ پر نقل کیا ہے اور پھر اس کی صحیح بھی کی ہے۔ اس قانون کی بناء پر اگر ورثہ میں شوہر مادر اور دو دختر ہوں تو شوہر کو ۴ ۔ ۱ مادر کو ۶ ۔ ۱ اور باقی دختران کو دیا جائے گا۔ لیکن اس مسئلہ میں اگر بجائے دختران خواہران پر تقسیم ہوتی ہے۔ اہل بیت ؑ کے نزدیک میراث کے تین طبقات ہیں ( ۱) ماں باپ اور اولاد ( ۲) براردران و خواہاران و اجداد ( ۳) اعمام و اخوال ! طبقہ مقدم کی ہوتے ہوئے طبقہ موخر میراث سے محروم رہے گا۔ یہی مذہب ائمہ عترت کا ہے ۔ اور اسی پر اجماع امامیہ ہے اور یہی ازروئے قرآن حکم خداو رسول ہے واللہ اعلم۔
مورد میراث جد و اخوت :۔
بہیقی نے اپنے سنن اور شعب الایمان (مختصر کنز العمال ج ۴صلىاللهعليهوآلهوسلم
۲۲۱ حاثیہ مسند احمد) میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے اس میراث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ سوال بے فائدہ ہے۔ تم اس کے علم سے پہلے مرجاؤ گے ۔ سعید بن مسیب راوی حدیث کا قول ہے کہ ایسا ہی واقعہ بھی ہوا۔
اقول :۔ اس مسئلہ میں حضرت عمر کی رائے بے حد مضطرب تھی۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں کا قول ہے کہ انہوں نے ستر مختلف حکم صادر کیے ۔ عبیدہ سلمانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کے سو مختلف حکم یاد کیے ہیں (طبقات بن سعد سنن بیہقی ج ۶ ص ۲۴۵) خود حضرت عمر کا قول ہے کہ میں نے جدہ کے بارے میں مختلف حکم کیے ہیں لیکن کسی میں کوتاہی نہیں کی (کنز العمال ج ۶ ص ۱۵) زہری کا کہنا ہے کہ حضرت عمر نے اس مسئلہ میں مختلف حکم کے۔ آخر کار ایک دن صحابہ کو جمع کرکے یہ طے کر لیا کہ جد کو باپ کے حکم میں درج کیا جائے۔ کہ اتنے میں ایک سانپ نکل آیا اور سب بھاگ گئے ۔ حضرت عمر نے کہا یہ خدا کو منظور نہ تھا۔ یہ کہہ کر زید بن ثابت کے پاس آئے اور اپنی خواہش بیان کی انہوں نے کہا کہ وہ باپ نہیں بن سکتا یہ بگڑ کر چلے آئے اور پھر آدمی بھیجا زید نے اپنی رائے لکھ کر بھیج دی انہوں نے مجمع میں اعلان کر دیا کہ مجھے زید کی رائے پسند ہے۔ (حیواہ الحیوان مادہ حیہ ۱ ص ۲۸۱)
مورد فریضہ حماریہ :۔
اس واقعہ کی حقیقت یہ ہے کہ عہد حضرت عمر میں ایک عورت نے انتقال کیا جس کے ورثاء میں شوہر ماں دو مادری بھائی اور دو حقیقی بھائی تھے۔ حضرت عمر شوہر کو نصف ماں کو ۶ ۔ ۱۱ اور مادری بھائیوں کو ۳ ۔ ۱ دے کر حقیقی بھائیوں کو محروم کر دیا اتفاقا دوسری مرتبہ پھر یہی مسئلہ آیا اور انہوں نے یہی حکم کیا تو ایک بھائی نے کہا کہ فرض کرو میرا باپ گدھا تھا یا پتھر تھا تو بہر حال ماں میں تو ہم سب شریک ہیں۔ یہ سنکر انہوں نے ۳ ۔ ۱ میں چاروں کو شریک کر دیا۔ یہ مسئلہ علماء اسلام میں بے حد مشہور ہے ۔ چنانچہ ابوحنیفہ حنبل زفر ابن ابی لیلی وغیرہ نے حضرت عمر کی پہلی رائے کو اختیار کیا ہے۔ اور مالک و شافعی نے دوسری رائے کو اس مقام پر ائمہ اہل بیت کا مسلک واضح ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک میراث طبقاتی حیثیت رکھتی ہے اور ظاہر ہے کہ چونکہ ماں پہلے طبقہ میں ہے اس لیے اس کے ہوتے ہوئے کسی بھائی کا کوئی حصہ نہیں ہوسکتا بلکہ میراث یوں تقسیم ہوگی۔ شوہر ۲ ۔ ۱ اور ماں باقی مال یہ واقعہ اسی انداز سے بہیقی اور ابن ابی کے سنن میں درج ہے (کنز العمال ج ۶ ص ۷) پر بھی یہ واقعہ مندرج ہے احمد امین نے (فجر الاسلام ج ۲ ص ۲۳۷) میں بھی نقل کیا ہے۔
مورد قومیت درمیراث :۔
قرآن مجید کے جملہ آیات میراث میں یہ بات واضح طور پر پائی جاتی ہے کہ ان احکام میں کسی قسم کا قومیاتی تفرقہ نہیں ہے۔ اور یہی مذہب سارے علماء اسلام کا بھی ہے۔
چنانچہ امام صادق نے فرمایا کہ اسلام شہادتیں کا نام ہے اور اس پر حفظ نفس نکاح اور میراث کا دارومدار ہے اور یہی تفصیل تقریباً امام باقر سے بھی مروی ہے ۔ کو یہ کہتے سنا تھا کہ حضرت عمر نے عجم کو میراث دینے سے منع کیا تھا جب تک کہ اس کی ولادت عرب میں نہ ہو خود مالک نے یہ تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی حاملہ عورت عجم سے گرفتار ہوکر آئے اور اس کا بچہ عرب میں پیدا ہو تو وہ وارث ہوگا ۔ ورنہ وہ اس کا بیٹا شمار نہ ہوگا۔ (موطاء مالک ج ۱ ص ۳۴۰ مطبوعہ مصر ۱۳۶۵ ھ )
مورد میراث خال
سعید بن منصور نے اپنی سنن میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے گرفتار شدگان میں سے ایک عورت کو دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ اس کی بہن ہے ۔ اس کے بعد اس کی ساتھ ایک لڑکا دیکھا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا باپ کون ہے ۔ چنانچہ اس نے دونوں کو خرید کر آزاد کر دیا اور پھر لڑکے نے کچھ مال بھی پیدا کرلیا اور مرگیا۔ ابن مسعود کی پاس یہ شخص میراث کا سوال کر گیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر سے پوچھو اور جواب مجھ سے بیان کرو۔ وہ حضرت عمر کے پاس گیا انہوں نے فرمایا کہ تم پدری قرابتدار نہیں ہو تمہارا کوئی حق نہیں ہے ۔ اس نے پلٹ کر ابن مسعود سے بیان کیا وہ اسے لے کر حضرت عمر کی پاس آئے اور بتایا کہ یہ قرابتدار بھی ہے۔ چونکہ ماموں ہے اور محسن بھی ہے اس لئے کہ آزاد کیا ہے ۔ لہذا اس کا حق ہے حضرت عمر نے اپنی رائے بدل دی (صاحب مختصر کنزل العمال نے اس واقعہ کو ج ۴ ص ۲۱۰) پر نقل کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت صحیح ہوگا جبکہ اس کی ماں پہلے مرچکی ہو ورنہ اس کے ہوتے ہوئے ماموں وارث نہیں ہوسکتا۔
مورد عدہ حاملہ :۔
بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر سے ایک عورت نے یہ سوال کیا کہ میرا شوہر مرگیا ہے میں حاملہ تھی اب بچہ پیدا ہوگیا ہے میرا فریضہ کیا ہے حضرت عمر نے کہا کہ ابھی چار مہینوں تک انتظار کرو۔ ابی بن کعب نے اس مقام پر اعتراض کر دیا کہ اس کا عدہ وضع حمل ہے۔ انہوں نے کچھ سوچ کر اسی رائے کو اختیار کر لیا اور اسے دوسرے عقد کی اجازت دے دی اور یہی تمام علماء اسلام کا مذہب بن گیا۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم میں اس مسئلہ میں ایک ظاہری اختلاف ہے۔ ایک آیت میں مدت عدہ کی انتہا وضع حمل کو قرار دیا گیا ہے اور دوسری میں چار مہینہ دس دن کا حکم ہے۔ بنا بریں بہتر اور احوط یہی ہے کہ وہ زیادہ مدت تک انتظار کرے تاکہ دونوں آیتوں پر عمل ہوجائے۔ اور یہی مذہب ائمہ اہل بیت ؑ کا بھی ہے جیسا کہ صاحب کشاف نے بیان کیا ہے۔
یہ واضح رہے کہ عام مسلمین عدہ وفات کی ابتداء اصل وفات سے قرار دیتے ہیں۔ لیکن ہم علماء امامیہ اس کی ابتداء اس وقت سے قرار دیتے ہیں کہ جب عورت کو شوہر کے مرنے کا علم ہوجائے۔ تاکہ اس پر وہ انتظار صادق آسکے جس کا قرآن کریم نے حکم دیا ہے۔ اور وہ سوگ بھی مناسکے کہ جس کو شرع اسلام نے واجب کیاہے۔
مورد تزویج زوجہ غائب :۔
فاضل دوالیسی نے اصول فقہ ص ۲۴۱ پر اس واقعہ کی نقل کیا ہے ۔ کہ حضرت عمر نے ایک ایسی عوت کے بارے میں جس کا شوہر غائب تھا۔ یہ حکم دیا کہ وہ چار سال گزرنے کے بعد اپنا دوسرا عقد کرلے۔ اس لیے کہ بیکار بیٹھنے میں ضرر ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ حنفی اور شافعی حضرات اسکے مخالفین ہیں ان کی نظر میں اتنا انتظار لازم ہے۔ کہ اس کی موت ہوجائے۔ یا اس کے ہم سن مرجائیں لیکن حضرت عمر کی رائے بہتر ہے اس لیے کہ احکام حالات زمانہ سے بدلتے رہتے ہیں اور در حقیقت حضرت عمر کا یہ فتوی خلاف قرآ ن و حدیث نہیں ہے۔ بلکہ قرآن و حدیث کی زمانی اصلاح ہے ۔ قرآن نے بھی ہرج و ضرر کو باطل قرار دیا ہے ہم شیعوں کا مذہب یہ ہے کہ ایسی عورت اگرلاوارث ہو تو حاکم شرع سے درخواست کرے وہ چار سال تحقیقات کرے گا۔ اور اس کے بعد طلاق دے دے گا عورت عدہ وفات رکھے گی۔ اگر زمانہ عدہ میں وہ آگیا تو خیر ورنہ اسے حق رجوع نہ ہوگا۔ عورت جس سے چاہے گی اپنا عقد کرلے گی، یہی مذہب ائمہ اہل بیت کا بھی ہے۔
مور بیع ام ولد :۔ جمہور مسلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ام ولد کی بیع و شرا کو حضرت عمر نے حرام قرار دیا ہے ۔ ورنہ یہ چیز زمانہ رسالت اور عہد خلافت اول بلکہ عہدہ ثانی کی ابتداء تک مباح تھی بعض حضرات نے تو اس امر کو حضرت عمر کے فضاءل میں بھی شمار کیا ہے ۔ (دیمقراطیہ خالد) (الطرق الحکیمہ ص ۱۷ تاریخ الخلفاء ص ۵۳)
اگر کوئی شخص
احادیث بویہ میں چھان بین کرے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ شئے زمانہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
می بھی حرام تھی اور حضرت عمر نے انہیں روایات کا لحاظ کرتے ہوئے حرام کیا تھا یہ کوئی خاص ایجاد طبع نہ تھی چنانچہ خود ابن عمر راوی ہے کہ حضرت نے ام ولد کی بیع، ہبہ ، وقف، میراث سب سے منع فرمایا تھا۔ آپکا حکم تھا کہ زندگی بھر آقا کے تصرف میں رہے اور اس کے بعد آزاد ہوجائے یہی بات ابن عباس کی روایت سے ظاہر ہوتی ہے ۔ ان دونوں روایتوں کو شیخ طوسی نے کتاب خلاف میں نقل فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ یہ حجرت عمرکا فعل ایجادی نہ تھا لیک اس کے باوجود شیخ نے آئمہ اہل بیت ؑ کے روایات کے پیش نظر ان دونوں روایتوں کی تاویل اس طرح فرمائی ہے کہ ان روایات سے مراد وہ صورت ہے کہ جب لڑکا زندہ رہے ورنہ اس کے مرجانے پر تو خرید و فروخت وقطعا جائز ہے۔
____________________