مورد تیمم :۔
قرآن مجید میں دو آیتوں میں صریحی طور پر یہ حکم موجود ہے کہ اگر کسی محدث کو پانی نہ مل سکے تو اس کا فریضہ ہے کہ وہ تیمم کرکے نماز ادا کرے اس کے علاوہ اس باب میں بکثرت روایات بھی موجود ہیں بلکہ تمام امت اسلامیہ کا اجماع و اتفاق ہے لیکن اس کے باوجود قسطلانی نے ارشاد الساری میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے ایسے شخص کو ترک صلوہ کا حکم دیا تھا ۔ بخاری و مسلم دونوں میں یہ روایات موجود ہے ۔ کہ ایک شخص نے حضرت عمر سے اس مسئلہ کا سوال کیا تو انہوں نے ترک صلوۃ کا حکم دے دیا۔ عمار یاسر موجود تھے ۔ انہوں نے ٹوک دیا ۔ کیا یاد نہیں ہے کہ ایسے ہی موقع پر ہم نے زمین پر لوٹ کر نماز پڑھ لی تھی ۔ اور تم نے ترک کر دی تھی۔ تو حضرت پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ہماری بات پسند فرما کر تیمم کا طریقہ تعلیم فرمایا تھا ۔ حضرت عمر نے کہا عمار خدا سے ڈرو انہوں نے فرمایا کہ اگر تمہاری مرضی نہیں تو میں نہیں بیان کروں گا۔ حضرت عمر نے دھمکی دی ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابن مسعود حضرت عمر کی رائے سے متفق تھے۔ چنانچہ بخاری وغیرہ نے شفیق سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے کہ میں ابن مسعود اور ابو موسی کے پاس تھا کہ ایک مرتبہ ابو موسی نے یہی مسئلہ چھیڑ دیا ابن مسعود نے ترک نماز کا فتوی دیا تو اس نے کہا کہ پھر عمار کی روایت کا کیا حشر ہوگا انہوں نے کہا کہ عمر نے قبول نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ اچھا آیت کا کیا انجام ہوگا۔ یہ سنکر ابن مسعود چپ ہوگئے! میرا خیال ہے کہ ابن مسعود اس اس فتوی میں حضرت عمر سے خائف تھے۔
مورد ""نافلہ بعد عصر""
(صحیح مسلم سنن نسائی ج ۱ ص ۲۸۱ مختصر کنزالعمال ج ۳ ص ۱۵۹ بخاری ج ۱ ص ۱۱۸ طبع مکہ) میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ سرکار رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے عصر کے بعد دو رکعت نماز زندگی بھر ترک نہیں کی دوسری روایت میں ہے کہ دو رکعت قبل فجر اور دو بعد عصر تیسری روایت میں حضرت عائشہ کی گواہی مذکور ہے لیکن ان تمام روایات کے باوجود حضرت عمر نے اسے ممنوع کر دیا۔ اور اس پر لوگوں کی مرمت شروع کر دی۔ امام مالک نے موطاء میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے مکندر کو اسی نماز پر مارا عبدالرزاق کی روایت کی بنا پر حضرت عمر نے زید بن خالد کو مارا تو اس نے حدیث پیش کی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اس لیے مارتا ہوں کہ کہیں یہ سلسلہ نماز شب تک نہ پہنچ جائے۔ (زرقانی) تمیم رازی کی روایت میں یہ علت مذکور ہے۔ کہ اس طرح لوگ عصر سے مغرب تک نماز پڑھیں گے جس کا نتیجہ ہو ہوگا کہ اس ساعت میں نماز ہونے لگے گی جس سے سرکار دو عالمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے منع فرمایا ہے ۔ یعنی وقت غروب۔
کاش خلیفہ نے اس احتیاط کو منع تک محدود رکھا ہوتا اور اس طرح نماز گزار مسلمان آپ کے تازیانہ سے محفوظ رہ سکتے۔
کاش خلیفہ نے اس احتیاط کو منع تک محدود رکھا ہوتا اور اس طرح نماز گزار مسلمان آپ کے تازیانہ سے محفوظ رہ سکتے۔
مورد تاخیر مقام ابراہیم:۔
قرآن حکیم کا صریحی حکم ہے کہ مقام ابراہیم مصلی بناؤ۔ جس کی بنا پر حاجی حضرات آج تک اس کی قریب ہی نماز ادا کرتے ہیں ، مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر آپ کعبہ کی دیواریں بلند کر رہے تھے آپ کے زمانہ میں یہ پتھر دیوار سے متصل تھا لیکن بعد میں عرب نے اسے الگ کر دیا۔ حضرت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے پھر ملادیا۔ لیکن حضرت عمر نے زمانہ خلافت میں الگ کرکے پھر وہیں رکھ دیا۔ جہاں آج تک موجود ہے۔ (طبقات ابن سعد تاریخ الخلفاء ص ۵۳ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۱۳) ( دمیری مادہ دیک ۱ ص ۳۴۶ ابن جوزی تاریخ عمر ص ۶۰)
۱۷ ہجری میں حضرت عمر نے مسجد حرام میں توسیع کرائی اور اس سلسلے میں کچھ مکانات خریدنے کا قصد کیا۔ ان لوگوں نے بیچنے سے انکار کر دیا۔ تو آپ نے مکانات گروائے اور قیمت بیت المال میں جمع کرادی ۔ آخر کار وہ لوگ آکر لے گئے۔
مورد گریہ برمیت :۔
کسی عزیز کی ومت پر گریہ وزاری ان لوازم بشریت اور متقضیات رحمت میں ہے کہ جن سے ممانعت کرنا عقلا غیر مناسب ہے۔ جب تک کہ ان میں کوئی ناپسندیدہ فعل یا غیر مناسب قول کی آمیزش نہ ہو چنانچہ خود سرکارسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ فرمایا کہ چشم و دل کے آثار کا تعلق اللہ سے ہے اور دست و زبان کی فریاد کا تعلق شیطان سے (مسند احمد ج ۱ ص ۳۳۵) مسلمانوں کی سیرت مستمرہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اہل اسلام میں مرنے والے پر گریہ ایک عام امر تھا یہاں تک کہ خود حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بھی مختلف مواقع پرگریہ فرمایا ہے ۔ ابن عبدالبر نے استیعاب میں تحریر کیا ہے کہ حضراتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت حمزہ کی لاش کی بے حرمتی دیکھ کر اتنا گریہ فرمایا کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔
واقدی نے نقل کیا ہے کہ جیسے جیسے حضرت صفیہ کا گریہ بڑھتا تھا حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حالت متغیر ہوتی جاتی تھی۔ حضرت فاطمہ ؑ کا گریہ دیکھ کر حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
مسلم روتے تھے۔
انس راوی ہیں کہ جب جنگ موتہ میں اسلامی علمدار شہید ہورہے تھے تو حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس خبر کو مسلمانوں میں اس حالت سے نقل کر رہے تھے کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے (بخاری ج ۲ ص ۱۱ طبع مکہ)
(استیعاب ج ۱ ص ۵۲۹) میں زید کے حالات میں یہ فقرہ درج ہے ہے کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے زید و جعفر پر گریہ فرما کر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں میرے بھائی اور میرے مونس تھے۔ بخاری جلد ۲ ص ۸۳ میں انس سے دوسری روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب ابراہیم کا دم اکھڑا ہو ا تھا ۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ابن عوف نے عرض کیا یا حضرت آپ اور یہ حالت ؟ فرمایا کہ یہ لازمہ انسانیت ہے! آنکھ گریاں ہوگی دل محزون ہوگا یہ اور بات ہے کہ ہماری زبان شکایت سے آشنا نہ ہوگی۔ اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ایک صاحبزادی نے یہ کہلا بھیجا کہ میرا فرزند عالم احتضار میں ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ معاذ بن جبل ابی بن کعب اور زیب بن ثابت کے ہمراہ تشریف لائے کیا دیکھا کہ بچہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے ۔ یہ دیکھ کر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی چشم مبارک سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت سعد نے ٹوک دیا۔ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا یہ علامت رحمت ہے۔ اور اللہ بھی رحم دلوں ہی پر رحم کرتا ہے۔ (بخاری ج ۲ ص ۸۴ مسلم ج ۱ ص ۳۶۷)
ابن عمر راوی ہے کہ سعد بن عبادہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے ۔ جب حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
ان کی عیادت کو تشریف لے گئے تو آپ کے ہمراہ ابن عوف ابن وقاص اور ابن مسعود بھی تھے ۔ حالات کو دیکھ کر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے سوال کیا کیا سعد کا انتقال ہوگیا؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے گریہ شروع کر دیا۔ اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ سب رونے لگے ۔ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا دیکھو آنکھوں کے آنسو اور دلوں کے حزن والم پر کوئی عتاب نہیں ہوسکتا ۔ عذاب تو صرف زبان کی زیادتی پر ہوتا ہے۔
استیعاب ج ۱ ص ۱۱۲ میں حضرت جعفر کے حالات میں مذکور ہے کہ جب حضرت جعفر کی شہادت کی اطلاع آئی تو حضرت اسماء کو تعزیت دینے تشریف لے گئے۔ ادھر حضرت فاطمہ زہراؑ بھی آگئیں اور آکر انہوں نے رونا شروع کر دیا ۔ ابن اثیر جلدصلىاللهعليهوآلهوسلم
۱۱۳ ابن کثیر ابن عبدربہ ج ۳ ص ۱۶۸ وغیرہ نے اس روایت کا ذکر کیا ہے کہ جنگ احد کے بعد تمام عورتوں نے اپنے وارثوں پر گریہ شروع کیا تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ دیکھ کر فرمایا ہائے افسوس حمزہ کا رونے والا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہ عالم تھا کہ ہر رونے والی عورت پہلے حضرت حمزہ ؑ کا ذکر کرتی تھی تب اپنے وارثوں پر روتی تھی ۔ استیعاب ج ۱ ص ۲۷۴ نے واقدی سے نقل کیا ہے کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس فرمان کے بعد سے کوئی عورت حضرت حمزہ ؓ پر روئے بغیر کسی دوسرے پر نہیں روئی۔ (البدایہ والنہایہ ج ۴ ص ۴۷ )
نقد و نظر :۔
ان تمام اقوال کی روشنی میں یہ بات بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے کہ گریہ و بکا مسلمانوں میں ایک سنت جاریہ اور سیرت مستمرہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں تک کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے نہ رونے پر تنبہیہ کی ہے اور اظہار افسوس فرمایا ہے کہ بلکہ حضرت جعفر کی شہادت پر رونے کا حکم بھی دیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ ان تمام روایات کے باوجود خلیفہ ثانی کو رائے یہی تھی کہ مردہ پر گریہ نہ کیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ رونے والوں کو عصا اور پتھر سے تنبہیہ فرماتے تھے۔ (بخاری ج ۲ ص ۸۴)
امام احمد نے ابن عباس کے حوالے سے حضرت رقیہ کے انتقال کا ذکر کیا ہے اور اس میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رونے والوں کی تنبہیہ تازیانہ سے فرما رہے تھے تو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا انہیں رونے دو اور پھر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
قبر کے کنارے بیٹھ گئے ادھر حضرت فاطمہ ؑ نے رونا شروع کر دیا ۔ آپ اپنے رومال سے آنسو خشک کرتے جاتے تھے ۔ دوسری روایت میں ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کےسامنے سے ایک جنازہ گزرا جس میں عورتیں رو رہی تھیں۔ حضرت عمر نے انہیں جھڑک دیا تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ٹوک کر فرمایا ''رونے دو! ان پر مصیبت پڑی ہے لہذا آنکھ سے آنسو ضرور جاری ہوں گے""
اس مسئلہ میں حضرت عاءشہ اور حضرت عمر متضاد رائے کے حامل تھے۔ حضرت عمر اور ابن عمر کی رائے تھی کہ رونے سے مرنے والے پر عذاب ہوتا ہے ۔ اور حضرت عائشہ کا خیال تھا کہ ان دونوں نے اشتباہ کیا ہے خود قرآن کریم کا اعلان ہے ایک شخص کا بار دوسرا نہیں اٹھائے گا۔ تو کیا وجہ ہے کہ زندہ کے رونے سے مردہ پر عذاب ہو۔ ان دونوں کا یہ اختلاف شدت پکڑتا گیا۔ یہاں تک کہ جب حضرت ابوبکر کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ نے حسب دستور عرب رونے والیاں مقرر کر دیں ۔ جب حضرت عمر کو معلوم ہوا تو انہوں نے دروازہ پر آکر روکا ۔جب کسی نے سماعت نہ کی تو ہشام بن ولید کو حکم دیا کہ تم منع کرو۔ حضرت عائشہ نے اسے گھر میں داخل ہونے سے منع کیا۔ حضرت عمر نے حکم دیا کہ زبردستی گھر میں گھس جاو۔ چنانچہ وہ گھس کر ام فروہ کو پکڑ لایا اور حضرت عمر نے تازیانہ سے ان کی مرمت کر دی (طبری ج ۲ ص ۱۶۴) ۔
ہمارا دل چاہتا ہے کہ اس مقام پر ناظرین کو اس نکتہ کی طرف بھی متوجہ کردیں جس کی بنا پر حضرت فاطمہ ؑ کے انتقال کے بعد آبادی سے باہر بقیع می جاکر گریہ فرمایا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ جب لوگوں نے درخت کاٹ ڈالا تو جناب امیر ؑ نے آپ کے لیے ایک بیت الحزان تعمیر کر دیا اور آپ نے اسی میں تا عمر گریہ فرمایا اور یہ عمارت مسلمانوں کے لیے جائے زیارت بنی رہی ۔ یہاں تک کہ ۸ شول سنہ ۱۳۴۴ ہجری کو ابن مسعود نے اسے منہدم کرادیا۔ اور اس طرح صدر اسلام کا مدعی حاصل ہوگیا۔
مورد قضیہ حاطب :۔
بخاری ج ۵ ص ۷۷ نے روایت کی ہے کہ ابو عبدالرحمن اور حبان ب عطیہ میں نزاح واقع ہوئی۔ ابو عبدالرحمن نے حبان سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ خونریزی پر اتنے جری کیوں تھے؟ اس نے کہا خدا تمہیں غارت کرے وہ کیا ہے ؟ جواب دیا کہ ایک بات ہے جو کہ میں نے ان سے سنی ہے ۔ پوچھا وہ کیا؟ اس نے کہا واقعہ یہ ہے کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے زیبر ابو مرشد اور مجھے حکم دیا کہ فلاں باغ میں جاکر ایک عورت کے پاس حاطب کا خطہ ہے اسے لے آؤ ۔ چنانچہ ہم لوگ پہنچے۔ ہم نے اس عورت سے سوال کی جب اس نے انکار کیا تو ہم نے تلاشی بھی لی لیکن جب کچھ برآمد نہ ہوا تو اس کو برہنہ کرنے کی دھمکی دی۔ اس نے وہ کاغذ دے دیا۔ ہم اسے لیے ہوئے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے خدمت میں پہنچے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حاطب سے مواخذہ کیا اس نے جواب دیا کہ میں نے یہ خط صرف اس لیے لکھا تھا کہ مشرکین پر میرا احسان ہوجائے اور وہ مجھے اذیت نہ کریں۔ حضرت عمر نے کہا کہ یہ خیانت ہے ہم اسے قتل کریں گے۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حاطب کے عذر کو قبول فرمالیا۔ لیکن حضرت عمر نے دوبارہ قتل کی دھمکی دی (البدیہ و النہایہ ۴ ص ۲۸۳)
سوال صرف یہ ہے کہ کیا رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ارشاد کے بعد بھی قتل کی دھمکی ضروری تھی؟ کیا فیصلہ رسالت پر سکوت لازم نہ تھا؟
مورد شرائط قاصد :۔
امام مالک اور بزاز نے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے روایت کی ہے کہ حضرت نے اپنے امراء کو دستور عنایت فرمایا کہ جب کوئی قاصد روانہ کیا کریں تو ایسا شخص ہو جس کا نام اچھا ہو اور صورت کے لحاظ سے بھی وجیہہ ہو۔ حضرت عمر کو غصہ آگیا بولے کہہ دوں کہ نہ کہوں۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہو ۔ کہنے لگے ہم کو فعال سے منع کرتے ہیں اور خود بد شگونی کے قائل ہیں ۔ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا یہ بدشگونی کی بات نہیں ہے حسن انتخاب کی بات ہے۔ (حیوہ الحیوا دمیری مادہ ج ۲ ص ۳۱۸)
مورد تقسیم صدقہ :۔
امام احمد نے سلمان بن ربیعہ سے روایت کی ہے کہ ہم نے حضرت عمر سے یہ سنا ہے کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ایک موقع پر صدقہ تقسیم کیا تو میں نے ٹوکا کہ ان لوگوں سے زیادہ حقدار افراد موجود ہیں۔ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا مجھے بخل و تعدی سے متہم نہ کرو۔ میں بخیل نہیں ہوں پھر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی مثبت اور الہٰی مصلحت کے مطابق تقسیم فرمایا۔
مور ستر اسلام :۔
ابن عربی نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت عمر اسلام لائے تو سرکار رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے انہیں اطہار سے منع کیا۔ لیکن انہوں نے زبردستی اعلان کر دیا۔ (تاریخ فلسفہ اسلام لطفی ص ۳۰۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس دور میں اسلام کا پوشیدہ رکھنا ہی زیادہ مناسب تھا اور مخفی دعوت ہی اسلام کے حق میں زیادہ مفید تھی لیکن اسے کیا کیا جائے کہ حضرت عمر کی شجاعت اس سے راضی نہ تھی۔
مورد حلیت مباشرت :۔
اسلام میں روزہ کے متعلق یہ حکم تھا کہ غروب کے بعد تمام مضطرات حلال ہوجاتے تھے۔ یہاں تک کہ نماز عشا ادا کرلی جائے یا اسان سوجائے اس کے بعد پھر تمام چیزیں دوسری شام تک کے لیے حرام ہوجاتی تھی لیکن حضرت عمر نے نماز عشا کے بعد اپنی محترمہ سے جماع کرکے غسل کیا اور پھر پشیمان ہوکر حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں حاضر ہوئے جب واقعہ بیان کیا تو بہت سے اصحاب نے ایسی ہی حرکت کا اعتراف کیا۔ اس وقت حکم نازل ہوا کہ اس امر میں کوئی مضائقہ ہیں ہے۔ عورتی تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ طلوع فجر تک جملہ لذات مباح ہیں۔ اس کے قبل کی خطاوں کو معاف کیا جاتا ہے اگرچہ آیت نے معافی کا ذکر کر دیا ہے لیکن ہمارا موضوع تو مخالفت حکم الہٰی کا بیان کرنا ہے۔
(اسباب النزول ص ۳۳)
مورد تحریم خمر :۔
قرآن حکیم نے شراب کی حرمت کا ذکر تین مرتبہ نافذ کیا ہے پہلے پہل یہ آیت نازل ہوئی ۔ ""اے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ان سے کہہ دو کہ شراب میں منافع ہیں لیکن اس کا گناہ زیادہ ہے"" اس کے بعد مسلمانوں نے شراب ترک کر دی لیکن بعض پیتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے حالت نشہ میں نماز می بکواس شروع کر دی تو دوسری ایک آیت نازل ہوئی کہ حالت نشہ میں نماز جائز نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی بعض لوگ اپنی عادت پر باقی رہے چنانچہ بعض اخبار میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عمر نے شراب پی اور حالت نشہ میں ابن عوف کو زخمی کر دیا۔ اور اس کے بعد کفار بدر کا نوحہ پڑھنا شروع کر دیا۔ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر حضرت عمر نے رسالت کے غصہ سے پناہ مانگی اور آیت نازل ہوئی کہ شیطان شراب و قمار کے ذریعہ مسلمانوں میں عداوت پھیلانا چاہتا ہے ۔ اور اس کا مقصد ہے کہ لوگ ذکر خدا سے غافل ہوجائیں کیا واقعتاً تم لوگ غافل ہوجاو گے یہ سنکر حضرت عمر نے کہا بس بس (مستطرف ج ۲ ربیع الابرار ز فحشری تفسیر رازی اشارہ )
مورد قتل عباس :۔
جنگ بدر کے موقع پر عین عالم حرب میں رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اشارہ فرمایا کہ بہت سے لوگ کفار کی ساتھ مجبوراً شریک ہوگئے ہیں لہذا تم لوگ بنی ہاشم ابوالجنتری اور عباس کو قتل مت کرنا یہ لوگ مجبور کرکے میدان میں لائے گئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ بنی ہاشم کے ذکر کے بعد حضرت عباس کا تذکرہ اس امر کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عباس بالکل مجبور تھے۔ جب حضرت گرفتار ہوکر آئے تو حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نیند اڑ گئی۔ لوگوں نے سوال کیا۔ فرمایا کہ چچا قید میں رہے اور میں سو جاوں۔ یہ سنکر لوگوں نے حضرت عباس کو رہا کر دیا۔ کنزالعمال سے یہ روایت نقل ہے کہ جب حضرت عباس گرفتار ہوئے تو حضرت عمر نے انہیں باقاعدہ کس کر باندھنا چاہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس طمانچہ کا جواب ہے جو تم رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بارے میں کھا چکے ہو۔ لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ کی۔ جب حضرت کو حضرت عباس کے کراہنے کی آواز پہنچی تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے سونا ترک کر دیا یہاں تک کہ حضرت عباس کو چھوڑ دیا گیا۔ اصحاب رسول پر یہ بات بالکل واضح تھی کہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
حضرت عباس کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب ابو حذیفہ کی یہ گفتگو حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
تک پہنچی کہ ہم اپنے آباو اقرباء کو قتل کریں اور حضرت عباس کو چھوڑ دیں یہ نہیں ہوسکتا تو حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو غیظ آگیا۔ اور آپ نے حضرت عمر کو غیرت دلائی کہ تمہاری موجودگی میں میرا چچا قتل ہوگا۔ (البدیہ النہایہ ج ۳ ص ۲۸۵) ادھر جنگ کا خاتمہ ہوا ادھر ستر آدمی گرفتار کرکے لائے گئے ۔ یہ دیکھنا تھا کہ حضرت عمر کو غیظ آگیا اور کہنے لگے یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہم انہیں قتل کریں گے۔ انہوں نے آپ کی مخالفت کی ہے۔ آپ مجھے فلاں شخص کے بارے میں اور حضرت علی ؑ کو عقیل کے بارے میں اور حضرت حمزہ کو حضرت عباس کے بارے میں اجازت دیجے کہ ہم ان سب کو قتل کردیں۔
اقول :۔
اے سبحان اللہ ! ابھی تو مخالفین کے قتل کی تحریک تھی اور اب حضرت عقیل و باس کی نوبت آگئی جنہوں نے حضرت ص کے ساتھ شعب ابوطالب کی زحمتیں برداشت کیں اور میدان بدر میں زبردستی لائے گئے۔ تعجب تو یہ ہے کہ حالت حرب میں ان کے قتل کی ممانعت ہوگئی تھی ۔ اور اب بعد جنگ ان کے قتل کا تقاضا ہورہا ہے جبکہ حضرت عباس کا اسلام قبل ہجرت تاریخی مسلمات میں سے ہے۔