النص و الاجتہاد

النص و الاجتہاد0%

النص و الاجتہاد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

النص و الاجتہاد

مؤلف: سید شرف الدین العاملی
زمرہ جات:

مشاہدے: 11840
ڈاؤنلوڈ: 3269

تبصرے:

النص و الاجتہاد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11840 / ڈاؤنلوڈ: 3269
سائز سائز سائز
النص و الاجتہاد

النص و الاجتہاد

مؤلف:
اردو

مورد ""فدیہ بدر""

جب اسلام جنگ بدر میں فتحیاب ہوا اور کفار گرفتار کئے گئے تو لوگوں نے حضرت کی طرف سے یہ محسوس کیا کہ آپ ان نتائج کے پیش نظر جو بعد کو ظاہر ہونے والے ہیں انہیں معاف کردیں گے لیکن حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاف کرنے کے ساتھ ان پر فدیہ مقرر کر دیا تاکہ ان کی جان بچ جائیگی اور ان کا ایمان حضرت عمر کا خیال تو یہی تھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے۔ اس لیے کہ ان لوگوں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تکذیب کی اور مخالفت کی ہے۔ لیکن حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہہ کر ٹال دیا کہ ہم تابع وحی الہٰی ہیں۔ ہمارا کوئی اختیار نہی ہے ۔ اس کے بعد حضرت نے فدیہ لے کر ان سب کو آزاد کر دیا۔ تو جاہل مسلمانوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اجتہاد تھا۔ ورنہ حضرت عمر کی رائے حالت کی پیش نظر زیادہ بہترتھی ۔ چنانچہ اس پر یہ روایت حضرت عمر کی طرف سے وضع کی گئی کہ جب حضرت عمر کے پاس آئے تو کیا دیکھا کہ آپ اور حضرت ابوبکر رو رہے ہیں سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں عمر کی مخالفت کی بنا پر عذاب نہ نازل ہوجائے تو ان پر یہ آیت نازل ہوئی ""رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بغیر جہاد کے اسیروں کا اختیار ہیں ہے تم دنیا کو آخرت پر مقدم کرتے ہو اور اللہ صد افسوس صاحب ""مالیطق عن الہوی"' کی طرف اجتہاد کی نسبت اور اس اہتمام کے ساتھ کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بغیر جہاد کئے اسیروں پر اپنا حکم چلا دیا۔ تاکہ فدیہ مل جائے اور اس طرح دنیا کو آخرت پر مقدم کردیا۔ لا حول ولا قوۃ الا بااللہ ۔

کیا اتنا عظیم معرکہ بدر جہاد نہ تھا ؟ کہ ستر روسا قریش کا قتل جنگ میں شمار نہیں کہ جسکے بعد مسلمان یہ کہتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بغیر جگ و جدل اسیرو پر حکم نافذ کر دیا۔ اے کاش یہ مسلمان اسلام کی لاج رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت ا ن لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ کہ جو اونٹوں کو جہاد پر مقدم کرتے تھے۔ جس کا مشہور واقعہ یہ ہے کہ حضرت نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ وہ لوگ مختلف اونٹوں پر سوار ہوکر نکلے ہیں۔ اب تمہارا کیا خیال ہے؟ اونٹ چاہتے ہو یا جنگ لوگوں نے اونٹ کو مقدم کیا بلکہ بعض لوگوں نے تو جنگ پر اصرار دیکھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں پہلے کیوں نہ بتایا تھا ہم جنگ کے لیے تیار ہرکر آتے ہیم تو اونٹ کی فکر میں آئے تھے نہ کہ لڑنے کے فکر میں چنانچہ اس وقت آیت شریفہ نازل ہوئی۔۔۔ جس طرح کہ تمہارے رب نے تمہیں گھر سے نکال دیا اس وقت جبکہ مومنین کی ایک جماعت اسے ناپسند کرتی تھی۔ گویا کہ یہ لوگ موت کی طرف زبردستی لے جائے جارہے ہیں۔

اس وقت خالق عالم نے چاہا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عذر کو واضح کر دے چنانچہ اس نے فرمایا کہ کسی نبی کو بھی اس وقت تک اسیروں پر تسلط نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ شدید جنگ نہ کرے اس لیے نبی جہاد پر مجبور ہے۔ لیکن تم لوگ مال دنیا کے طالب ہو اور اللہ آخرت کا خواہاں ہے اور وہی عزیز و حکیم ہے۔ یاد رکھو کہ اگر اللہ نے اپنے علم ازلی کی بنا پر تم کو منع نہ کر دیا ہوتا اور تم اونٹوں پر قبضہ کرلیتے تو عذاب عظیم میں گرفتار ہوجاتے۔ یہ ہے آیت کا صحیح و صریح مفہوم جس کو بظاہر مجھ سے پہلے آج تک کسی نے نہیں بیان کیا اور نہ اس صریح مطلب کے بعد کسی انسان کو مزید تاویل کا حق ہے۔

مورد قضیہ حنین :۔

جب جنگ حنین میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہوا زن پر فتح حاصل ہوئی۔ تو آپ نے اعلان فرمادیا کہ ان کے گرفتار شدگان کو قتل نہ کیا جائے۔ لیکن حضرت عمر کی نظر ابن اکوع پر پڑگئی جو سابقا بنی ہذیل کی طرف سی جاسوسی کر رہا تھا۔ تو انہوںنے حکم دے دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے مسلمانوں نے قتل کر دیا جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبر ملی تو بہت ناراض ہوئے اور لوگوں کی مذمت فرمائی (ارشاد مفید)

اس کے بعد جمیل بن معمر کو قتل کر دیا گیا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مزید غیظ و غضب کا اظہار فرمایا۔ انصار نے معذرت کی کہ ہم نے یہ سب حضرت عمر کے حکم سے انجام دیا ہے ۔ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سنکر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ عمیر بن وہب نے معافی طلب کی اس کے علاوہ ایک عورت کو خالد بن ولید نے قتل کر دیا تو حضرت نے فرمایا کہ خالد کو اطلاع کر دو کہ کسی عورت بچہ یا مزدور کو قتل کرنے کا حق نہیں ہے۔ (ابن اسحاق)

اسی روایت کو ایک معمولی فرق کے ساتھ امام احمد (البدایہ و النہایہ ج ۴ ص ۳۳۷) ابو داود نسائی اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے۔

مورد فرار :۔

قرآن مجید کا صریحی حکم ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد کسی مسلمان کو میدان جنگ سے علیحدہ ہونے کا حق نہیں ہے لیکن مسلمانوں نے اپنے مصالح کی بنا پر آیت میں تاویل کرلی اور صرف ایک جنگ میں نہیں بلکہ مختلف معرکوں میں جنکی تفصیل یہ ہے :۔

احد :۔

جبکہ ابن قمہ نے معصب بن عمیر پر حملہ کرکے انہیں رسول تصور کرکے قتل کر دیا اور یہ اعلان کر دیا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوگئے تو اصحاب نے فرار شروع کر دیا یہاں تک کہ قرآن کو کہنا پڑا۔۔۔ تم لوگ پہاڑ پر بھاگ رہے تھے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہیں پکار رہے تھے لیکن تم مڑ کر بھی نہیں دیکھتے تھے طبری ج ۲ ص ۱۹۴ کامل ج ۲ ص ۱۱۰ نے نقل کیا ہے کہ بھاگنے والوں میں حضرت عثمان بھی تھے۔ یہ مقام اعوص تک بھاگ کرگئے اور تین روز کے بعد پلٹے توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھ کر فرمایا اچھی دوڑ لگائی انہیں تاریخوں میں یہ واقعہ بھی ہے کہ انس بن نفر نے مہاجرین کی ایک جماعت جن میں حضرت عمر و طلحہ بھی تھے ان کو سپر انداختہ دیکھ کر پوچھا کہ یہ سستی کیوں ہے ۔ تو انہوں جواب دیا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو قتل ہوگئے۔ یہ سن کر حضرت انس نے کہا تو پھر اب زندگی کا کیا لطف؟ اور یہ کہہ کر حملہ کر دیا یہاں تک کہ ستر زخم کھا کر شہید ہوگئے ۔ آپ کے زخموں کا یہ عالم تھا کہ آپ کی لاش کو بہن نے انگلیوں کے ذریعہ پہچانا۔

بعض لوگوں کا کہنا ہی کہ اس جماعت کے لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کاش ہمارے لیے کوئی ابو سفیا سے امان لے لیتا۔ اور وہ ہمیں قتل نہ کرتے۔ چنانچہ یہ سنکر انس کو غیظ آگیا اور فرمایا کہ اگر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگئے ہیں تو رب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہے اور یہ کہہ کر بارگاہ احدیت میں ان خرافات سے اظہار نفرت کیا اور پھر جہاد کرکے شہید ہوئے۔

حنین :۔

جبکہ مسلمانوں کو اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن یہ کثرت کا نہ آئی اور سب بھاگ گئے (البدایہ و النہایہ ج ۴ ص ۳۳۲) تو اللہ نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے سچے اصحاب کے لیے سکون نازل کیا ۔ بخاری کا کہنا ہے کہ بھاگنے والوں میں حضرت عمر بھی تھے۔ اور جب ان سے پوچھا گیا کہ انجام کیا ہوگا تو فرمایا کہ اللہ جانے۔

خیبر :۔

جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر کو روانہ کیا اور وہ سلامتی واپس چلے آئے (مستدرک حاکم) پھر حضرت عمر کو بھیجا اور وہ بھی بھاگ آئے اس طرح کہ وہ قوم کو بزدل بتا رہے تھے اور قوم انہیں (مستدرک حاکم) بردایت جابر تب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اعلان فرمادیا کہ کل علم دوں گا۔ پھر جب تمام قوم جمع ہوگئی تو آپ نے حضرت علی کو بلا کر حکم جہاد دیا۔ انہوں نے آشوب چشم کا ذکر کیا آپ نے لعاب دہن سے علاج فرمایا انہوں نے سوال کیا یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کب تک جنگ کروں؟ فرمایا جب تک کلمہ نہ پڑھیں ۔ غرض اس طرح آپ تشریف لے گئے اور فاتح بن کر واپس آئے۔ حاکم کا کہنا ہے کہ شیخین بخاری و مسلم نے اس طریقہ حدیث کو ترک کر دیا ہے ۔ حالانہ یہ طریق صحیح ہے۔

ایاس کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے پدر بزگوار نے بیان کیا کہ جب حضرت علی کو روانہ کیا ہے تو میں موجود تھا ادھر مرحب نے رجز پڑھا کہ اہل خیبر مجھے خوب پہچانتے ہیں، میں ایک تجربہ کار اور جنگ آزما بہادرر ہوں اور ادھر حضرت علی نے جواب دیا کہ میں وہ ہوں جس کا نام اس کی ماں نے حیدر رکھا ہے اور پھر اس کے بعد وار کرکے مرحب کا سرشگافتہ کر دیا اور اس طرح اسلام فاتح و مظفر قرار پایا۔ (مستدرک حاکم)

غزوہ سلسلہ :۔

جبکہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر و عمر کو مثل خیبر روانہ کیا اور دونوں حضرات بھاگ آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بھیجا اور وہ فتح کرکے مال غنیمت سمیت واپس آئے اس جنگ کے تفصیلی حالات شیخ مفید نے ارشاد نقل کیے ہیں یہ یاد رہے کہ یہ جنگ سنہ ۷ ہجری کی جنگ ذات السلاسل نہیں ہے جس میں سردار لشکر عمروبن عاص تھا اور لشکری حضرت عمرو ابوبکر و ابو عبیدہ وغیرہ ۔

جس کا مشہورہ واقعہ ہے کہ عمرو نے آگ روشن کرنے سے منع کیا تو حضرت عمر کو غصہ آگیا اور قریب تھا کہ وہ سردار ہی پر حملہ کر بیٹھتے کہ دفعتاً حضرت ابوبکر نے روک دیا اور فرمایا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ سوچ کر عمر کر سردار بنایا ہے (مستدرک حاکم روایت صحیحہ)

تنبیہ

(رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کے فضائل و مناقب بیان کرنے میں ایسے دقیق و لطیف اختیار فرمائے ہیں ۔ جنہیں ایک ذی ہوش اور باشعور انسان ہی سمجھ سکتا ہے ۔ چنانچہ آپ کسی شخص کو بھی حضرت علی پر حاکم نہیں بنایا ۔ جبکہ حضرت ابوبکر و عمر وغیرہ پر عمرو بن عاص اور اسامہ جیسے اصحاب کو حاکم بنایا ہے پھر اگر کسی جنگ میں دو سردار بناتے تو حضرت علی کو الگ کر دیا اور ان کی فوج الگ ترتیب دی۔ جیسا کہ یمن میں ہوا یا انہیں بعد میں روانہ کیا جیسا کہ خیبر میں ہوا۔ کبھی ایسا ہوا کہ پہلے دوسرے افراد کو بھیج دیا اور جب وہ ناکام پلٹے تو حضرت علیؑ کو روانہ کیا تاکہ دونوں کا معیار شجاعت نمایاں ہوجائے ۔ اس طرح کہ اگر وہ لوگ پہلے نہ جاتے تو ان کا کمال شجاعت تشنہ اطہار رہ جاتا۔ انتہا یہ ہے کہ اگر کبھی کسی کو مصلحت روانہ بھی کر دیا تو بعد میں نبص ظاہری پھر واپس بلالیا۔ تاکہ دنیا پر تبلیغی ذمہ داریوں کے حامل کا تعارف واضح طریقہ پر ہوجائے۔

مورد جواب ابو سفیان :۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روز احد ۷۰۰ مجاہدین کے ساتھ جن میں ۲۰۰ زرہ پوش اور ۲۰۰ سوار تھے پہاڑ کی طرف پشت کرکے وادی میں قیام فرمایا۔ ادھر مشرکین تین ہزار کی تعداد میں تھے۔ جن میں ۷۰۰ زرہ پوش ۲۰۰ سوار اور ۱۵ عورتیں بھی تھیں۔ جب طرفین آمادہ جنگ ہوئے تو حضرت نے پہاڑ کی طرف ۵۰ تیر انداز فوجیوں کو عبداللہ بن جبیر کی سر کوردگی میں یہ کہہ کر معین کر دیا کہ ہم فتح کریں تاکہ شکست کھائیں تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا اس لے کہ خطرہ اسی راہ سے ہے۔ ادھر طلحہ بن عثمان سردار لشکر کی حیثیت سے نکل کر رجز خواں ہوا کون ہے جو اپنی تلوار سے مجھے واصل جہنم کرے یا میری تلوار سے خود جنت حاصل کرے۔

ابن اثیر لکھتا ہے کہ یہ سنکر حضرت علی ؑ نے حملہ کیا اور اس کے پیر کاٹ دیے۔ وہ گر کہ برہنہ ہوگیا اور طلب رحم کرنے لگا۔ آپ اسے چھوڑ کر ہٹ آئے۔ ادھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نعرہ تکبیر بلند کرکے مسلمانوں میں نعروں کی بنیاد ڈال دی۔ یہاں تک کہ میدان تکبیر سے گونجنے گا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب امیر ؑ سے سوال کیا کہ اس کو قتل کیوں نہیں کیا؟ عرض کیا کہ اس نے طلب مرحمت کی۔ اس کے بعد آپ نے تمام علمداروں کو نہ تیغ کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ پرچم کفر کا حامل کوئی نہ رہا۔ اور ایک عورت نے اسے بلند کیا یہ دیکھ کر صواب نے علم لے لیا اور اس کے زیر سایہ قتل ہوگیا۔ ابو رافع کا قول ہے کہ جملہ علمداروں کے قاتل حضرت علیؑ تھے۔ اس کے علاوہ حضرت حمزہ حضرت علیؑ اور حضرت ابودجانہ کی پامردی اور شجاعت کا اثر یہ تھا کہ مشرکین شکست کھا کر بھاگ نکلے اور مسلمان لوٹ مار میں مشغول ہوگئے ۔ ادھر کمانداروں نے یہ منظر دیکھا تو ان کے منہ میں پانی آگیا۔ اور محاذ چھوڑ کر ٹوٹ پڑے اور اس طرح مشرکین کو موقع مل گیا۔ خالد بن ولید نے سب کو جمع کرکے دوبارہ حملہ کر دیا اور اس قدر شدید مقابلہ ہوا کہ خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رخسار مبارک مع پیشانی زخمی ہوگیا۔ دندان مبارک شہید ہوگئے۔ حضرت حمزہ قتل ہوگئے لیکن اس کے باوجود جناب امیرؑ پانچ انصار کے ساتھ مصروف جہاد رہے۔ حضرت ابودجانہ اپنے کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سپر بنائے رہے۔ یہاں تک کہ ابن قمسہ نے مصعب کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شبہ میں قتل کرکے آپ کے قتل کا اعلان کر دیا۔ اور مسلمانوں میں پھوٹ پڑگئی۔ کعب بن مالک نے آپ کو پہچان کر اعلان کر دیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحیح و سالم ہیں۔آپ نے اشارے سے منع کر دیا۔ حضرت علیؑ نے آپ کو بحفاظت سعب تک پہنچادیا۔ طبری ج ۲ ص ۱۹۷ کامل ج ۲ ص ۱۰۷ میں یہ واقعہ درج ہے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک جماعت کو دیکھ کر حضرت علی کو حکم جہاد دیا ۔انہوں نے اس کا خاتمہ کر دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوسری جماعت کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے اسے بھی ختم کیا تو جبرئیل ؑ نے مبارکباد دی کہ واقعا یہ مواسات و ہمدردی ہے آنحضرت نے فرمایا کیوں نہ ہو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ حضرت جبرئیل نے کمال مسرت سے عرض کیا اور میں آپ دونوں سے ہوں۔ اس وقت یہ آواز غیبی سنی گئی۔ ""لاسیف الا ذوالفقار ولا فتی الا علی ""

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زخموں کو دیکھ کر جناب امیرؑ نے پانی لالا کر انہیں دھونا شروع کیا اور جب خون منقطع نہ ہو اتو حضرت فاطمہ الیہا السلام نے ٹاٹ کا ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ سے خون کس سلسلہ بند کیا اسی عالم میں ہند اپنی ہم جولیوں کو لے کر شہداء کی لاشوں پر ٹوٹ پڑی اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا شروع کردیئے ۔ یہاں تک کہ حضرت حمزہ کے اجزاء بدن کا ہار بلایا اور آ پ کا کلیجہ نکال کر چبایا ادھر ابوسفیا نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلاش جاری کردی ۔ حضرت نے اصحاب کو منع فرمایا کہ کوئی پتہ نہ بتائے لیک جب اس نے حضرت عمر سے سوال کیا تو انہوں نے بتادیا (طبری ج ۲ ص ۲۰۵ کامل ج ۲ ص ۱۱۱ طبقات، سیرت حلبی، دحلانی، البدایہ والنہایہ ج ۴ ص ۲۵)

یہی وہ منزل تھی کہ جہاں حضرت عمر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رائے کو اپنے مخصوص مصالح و نظریات کی بنا پر ٹھکرا دیا اور ابوسفیان کو آپ کی حیات کی اطلاع دے دی۔

مورد تجسس:۔

قرآن مجید اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صریحی حکم ہے کہ مسلمانوں کے لیے عیب جوئی بدظنی اور غیبت جیسے افعال حرام و ناجاءز ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے لیے ان تمام عیوب کو جائز و حسن بنالیا۔ چنانچہ ایک شب آپ اسلامی جاسوسی میں نکلے تو ایک مکان سے گانے کی آواز سنی آپ دیوار پر چڑھ گئے تو کیا دیکھا کہ ایک عورت بھی ہے اور شراب بھی ۔ آپ نے فوراً تحدید کی کیا سمجھتے ہو کہ معصیت چھپ جائی گی؟ اس نے جواب دیا ہرگز نہیں میں نے ایک گناہ کیا اور آپ نے تین۔ قرآن نے تجس سے منع کیا ہے دروازے سے آنے کا حکم دیا۔ داخلہ کے وقت سلام مقرر کیا۔ اور آپ نے سب کی خلاف ورزی کی۔ یہ سن کر آپ اسے معاف کرکے باہر نکل آئے۔ (مکارم الخلاق خراطی۔ کنزالعمال ج ۲ ص ۱۶۷ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۹۶ احیاء العلوم)

سدی نے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ابن مسعود کے ساتھ رات کے وقت کلے تو ایک روشنی نظر آئی۔ اس کے سراغ میں چلے یہاں تک کہ ایک گھر میں داخل ہوگئے تو معلوم ہوا کہ ایک چراغ جس کے زیر سایہ ایک ضعیف العمر انسان ایک مغیہ اور جام شراب ہے۔ وہ متوجہ نہ تھا کہ آپ نے اعتراضات کی بھرمار کردی ۔ اس نے عرض کیا اور حضور کے لیے تجس کب جائز تھا کہ آپ بلا اجازت گھس آئے۔ آ پ روتے ہوئے باہر نکل آئے۔ اس نے ایک عرصہ تک آپ کے یہاں حاضر ہونا ترک کر دیا اور ایک د چھپ کر آیا اور گوشہ میں بیٹھ گیا آپ کی نظر پڑگئی۔ تو آپ نے قریب بلایا اور فرمایا کہ میں نے تیرے واقعہ کو ابن مسعود تک سے نہیں بیان کیا ہے۔ کہ جو اس وقت میرے ساتھ تھے۔ (القطع والسرقہ کنرالعمال ج ۲ ص ۱۴۱)

شعبی کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک دن اپنے ایک صحابی کو نہیں دیکھا تو ابن عوف سے فرمایا کہ چلو اس کے گھر چلیں۔ جب دونوں وہاں پہنچے تو کیا دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس کی عورت ایک برتن میں کچھ انڈیل رہی ہے۔ آپ نے فرمایا انہیں چیزوں نے حاضری سے غافل کر دیا ہے ابن عوف نے کہا آپ کو کیا معلوم کہ یہ کیا ہے؟ فرمایا تو کیا میں نے تجس کیا عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا پھر توبہ ۔ لیکن اب کسی کو اطلاع نہ ہو۔ (کنر العمال ج ۲ حدیث نمبر ۳۶۹۴)

مسور بن مخزمہ ابن عوف سے ناقل ہیں کہ وہ ایک دن حضرت عمر کے ساتھ شب گردی میں نکلے تو ایک چراغ نظر آیا جب اس کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایک گھر سے آوازیں بلند ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ رابعیہ بن امیہ کا مکان ہے اور سب شراب میں مشغول ہیں۔ ابن عوف نے کہا اور تو تجس ہے فرمایا واپس چلو۔ (مکارم الاخلاق)

ابو قلابہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر کو یہ خبرپہنچی کہ ابو محجن اپنے گھر میں شراب پی رہا ہے۔ آپ فوراً وہاں پہنچے اور کچھ کہنا چاہتے تھے کہ اس نے اعتراض کر دیا یہ تو تجس ہے آپ نے زید بن ثابت اور عبدالرحمن ابن ارقم سے تصدیق چاہی انہوں نے تصدیق کردی اور آپ پلٹ آئے۔ (کنز العمال ج ۲ ص ۱۴۱)

اقول :۔

ان تمام روایات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت عمر سیاسیات میں کس قدر ماہر تھے اور آپ تنظیم امت کے لیے کس قدر زحمتی برداشت کیا کرتے تھے اور گویا کہ آپ کی نظر میں حاکم کا گناہ مجرم کی سزا کو ساقط کر دیا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی ندامت کے بعد کسی پر حد جاری نہیں فرمائی اور میرا خیال ہے کہ اس کمال تنظیم کا اتنا اثر تو ضرور ہوا ہوگا کہ مسلمان معصیت پر بڑی حد تک جری ہوگئے ہوں گے ۔ جیسا کہ واقعات کی کثرت سے اندازہ ہوتا ہے۔

مورد مغالات مہر :۔

مہر کا مشہور اسلامی قانون یہ ہےکہ اسے مرد مسلم کی ملکیت کے قابل ہونا چاہیے خواہ مال ہو یا منفعت مقدار کی تعیین کا اختیار خود طرفین کو ہے۔ البتہ مستحب یہ ہےکہ مہر سنت سے زائد نہ ہو۔ اور لازم یہ ہے کہ اتنا کم نہ ہو کہ مالیت سے خارج ہوجائے۔

لیکن حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں ازدواجی زندگی کی سہولت اور نسل مسلم کی کثرت کا لحاظ کرتے ہوئے منبر پر یہ اعلان کیا کہ آج کے بعد سے جس کا مہر ازواج(۱)

(میرا خیال یہ ہے کہ خلیفہ ثانی کا یہ نظر یہ بھی عقدام کلثوم کے افسانہ کو باطل قرار دیتا ہے کہ جس میں مہر کی مقدار ہزاروں درہم بیان کیا گئی ہے۔)

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ ہوگا اس کا مہر چھین لیا جائے گا۔ اتفاقا درمیان سے ایک ضعیفہ کھڑی ہوکر عرض کرنے لگی کہ جناب کو یہ حق نہیں ہے ۔ قرآن کا حکم ہے کہ جو مال دے دیا ہے اسے واپس نہ لو یہ سنکر آپ نادم ہوئے اور قوم سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے تمہیں تعجب نہیں ہوتا ہے کہ امام خطا کرے اور عورت اس کی اصلاح کرے۔ (ابن ابی الحدید وغیرہ)

کثاف کے الفاظ یہ ہیں ""تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ میری باتیں سن کر خاموش رہتے ہو اور عورتیں ٹوک دیتی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ سب ہی عمر سے بہتر ہیں""۔

امام رازی کا بیان ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ تمام انسان عمر سے زیادہ واقف ہیں اور یہ کہہ کر اپنا حکم واپس لے لیا۔

____________________

(۱) (جائے حیرت ہے خود خلیفہ ثای تو قرابت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بیکار تصور فرماتے ہیں اور ان کے چاہتنے والے قرابت قائم کرنے کے لیے عقدام کلثوم کی داستان واضح کرتے ہیں)

اقول :۔

آپ کے عدل و انصاف اور عدم تشدد کے ایسے واقعات تاریخ میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ جہاں آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہو بلکہ بسا اوقات اس پر اظہار مسرت بھی فرمایا ہے چنانچہ بخاری ج ۹ ص ۹۵ میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک مرتبہ سرکار رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بڑے بے ربط سوالات کئے گئے ۔ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا۔ کہ اچھا اب پوچھو۔ ابن حذافہ نے سول کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ فرمایا حذافہ۔ ابن سالم نے بھی یہی سوال کیا۔ فرمایا سالم ۔ بظاہر ان لوگوں کا مقصد دوسروں پر تعریض کرنا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر بھانپ گئے۔ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غصہ سے توبہ کرنے لگے اور ان لوگوں کے نسب کی صحت پر خوش بھی ہوئے۔

صحیح مسلم میں یہ ہے کہ ابن حذافہ کسی دوسرے کی طرف منسوب تھا ۔ اس کی ماں کو اس سوال کی اطلاع ملی تو بگڑ کر بولی کہ تو مجھے سر دربار رسوا کرنا چاہتا تھا۔ یہ سنکر حضرت عمر نے خدا کا شکر کیا کہ اس نے بہت سی عورتوں کا پردہ رکھ لیا۔

مورد تبدیل حد شرعی :۔

فجر الاسلام ص ۲۳۸ میں یہ واقعہ اعلام الموقعین کے حوالہ سے اس طرح درج کیا گیا ہے کہ حاطب بن بلتعہ کے غلاموں نے مزینہ کے ایک شخص کے ناقہ کو چرالیا۔ جب ان لوگوں کو گرفتار کرکے حضرت عمر کے پاس حاضر کیا گیا تو آپ نے ان کے اقرار کی بنا پر کثیر بن الصلت کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ قطع کردے۔ لیکن اس کے بعد انہیں واپس بلالیا اور حاطب کے فرزند کو بلا کر تنبہیہ کی کہ اگر تم نے ان بیچاروں کو بھوکا نہ مارا ہوتا تو ہرگز سرقہ نہ کرتے خیراب ان کا تاوان تم سے وصول کروں گا۔

اقول :۔ یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ قحط و فاقہ کے حالات میں سرقہ کا شرعی اثر ختم ہوجاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خلیفہ کے پاس اس کا کیا ثبوت تھا! جبکہ خود مجرم اقرار کر رہا تھا کہ یہ تنبہیہ و جرمانہ مجرم کے جرم کو سبک بنا سکتے ہیں؟

مورد دیہ غیر مشروع :۔

واقعہ یہ ہے کہ ابو خرہش بذلی کی پاس یمن کے کچھ مہمان وارد ہوگئے وہ مشک لے کر تیزی سے گیا کہ ان کے لیے پانی لے آئے۔ اتفاقا راستہ میں ایک سانپ نے ڈس لیا لیکن اس کے باوجود اس نے پانی پہنچادیا اور اس واقعہ کا اظہار نہیں کیا۔ جب وہ لوگ سوگئے اور صبح کو اٹھے تو دیکھا کہ ابو خرہش زہر کے اثر سے انتقال کر چکا ہے ۔ حضرت عمر کو یہ خبر پہنچائی گئی ۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مہمانی سنت نہ ہوتی تو میں اہل یمن کی مہمانی کو ممنوع کر دیتا اور اور سارے عالم میں اس کا اعلان کرادیتا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مہمانوں سے ابو خرہش کی دیت وصول کرے اور ان کو سخت سزا دے ( استیعاب ج ۴ ص ۵۸ احوال ابو خرہش حیوہ الحیوان ج ۱ ص ۲۸۱ مادہ حیہ)

مورد حد غیر مشروع :۔

ابن سعد نے طبقات میں یہ واقعہ سند معتبر سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ برید حضرت عمر کے پاس آئے تو ان کے سامان سے ایک پرچہ گرگیا ۔ آپ نے اٹھا کر پڑھاتو اس میں چند اشعار درج تھے جن کا مفہوم یہ تھا کہ کوئی ابو حفص کو خبر کردے کہ جعدہ ہماری لڑکیوں سے خوش فعلیاں کرتا ہے ۔ اور اس طرح ان کی آبرو ریزی کرنا چاہتا ہے آپ نے یہ دیکھ کر جعدہ کو طلب کیا اور اس کو سو کوڑے لگا دیئے۔

اقول :۔ کیا صرف ایسے اشعار جن کا شاعر تک نامعلوم ہو حد شرعی کا باعث بن سکتے ہیں؟ اور کیا تنہا خوش فعلی و مزاح زنا کے احکام میں داخل ہوسکتے ہیں؟ ان سوالات کی ذمہ داری خلیفہ وقت کی گردن پر ہے کاش اسی قانون کو مغیرہ بن شعبہ پر نافذ کیا ہوتا۔

مورد احسان برمغیرہ :۔

غالبا کوئی تاریخ ایسی نہیں ہے کہ جس نے سنہ ۱۷ ہجری کے واقعات میں مغیرہ کا واقعہ نقل نہ کیا ہو۔ لیکن ہم اس واقعہ کو ابن خلکان کی زبانی نقل کرتے ہیں:۔

""حضرت عمر بن خطاب نے مغیرہ کو بصرہ کاامیر قرار دیا ۔ تو اس کا دستور یہ تھا کہ روزانہ دوپہر کے وقت باہر نکلتا تھا ایک مرتبہ ابوبکر نے ٹوکا کہ یہ شان امیر کے خلاف ہے تو ایک ضرورت کا بہانہ کر دیا اور اس سلسلہ کو جاری رکھا اتفاقاً ایک دن ابوبکر اپنے بھائیوں کے ساتھ حجرہ میں بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سامنے ام جمیل کا حجرہ تھا ہوا سے دروازہ کا پردہ ہٹ گیا تو کیا دیکھا کہ ام جمیل مغیرہ کے نیچے ہے۔ اس نے ان بھائیوں کو گواہ بنالیا اور جب وہ باہر نکلا تو اسے اپنے مشاہدہ کی اطلاع دی وہ مسجد کی طرف چلاگیا۔ ابوبکر نے اعلان کیا کہ یہ امامت کی لائق نہیں ہے لیکن قوم نے اس کی اقتداء کرلی اور حضرت عمر کو اطلاع دی۔ انہوں نے لوگوں کو طلب کیا اور شہادت چاہی۔ ابوبکر نے بیان کیا کہ میں نے واقعہ یوں دیکھا ہے کہ سرمہ دانی میں سلائی۔ آپ نے قبول کر لیا اس کے بعد نافع کو بلایا۔ اور ان سے جرح کی لیکن انہوں نے اصرار کے ساتھ یہی شہادت دی پھر شبل کو بلایا۔ اس نے بھی صراحتاً یہی بیان کیا اتفاقاً زیاد وہاں موجود تھا۔ جب وہ بلایا گیا تو مغیرہ نے اس سے فریاد کی اور اسے کچھ اشارات بھی مل گئے۔ چنانچہ اس نے کہا میں صرف اتنے کا شاہد ہوں کہ یہ اوپر تھا اور وہ نیچے۔ سانس کے چڑھنے اور ٹانگوں کے اٹھنے کا منظر نگاہوں کے سامنے تھا اس کے بعد کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ بس یہ سننا تھا کہ آپ نےمغیرہ کو حکم دے دیا کہ تینوں کو تازیانے لگائے۔ چنانچہ اس نے سب کو ۸۰ ۔ ۸۰ کوڑے لگائے ۔ ابوبکر نے اس کے بعد پھر کہا میں زناہ کا شاہد ہو آپ نے چاہا کہ پھر کوڑے لگائیں لیکن حضرت امیر نے ٹوک کر فرمایا کہ اب مغیرہ کا نمبر ہے۔ حضرت عمر نے ابوبکر کو توبہ کا حکم دیا اس نے کہا کہ توبہ گواہی کی قبولیت کے لیے ہوتی ہے اور اب میں گواہی نہ دوں گا۔ عمر بن شیبہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوبکر کی ماں نے ایک بکری ذبح کرکے ان کی پشت پر اس کی کھال باندھ دی اس لیے کہ بے حد زخمی ہوگئے تھے عبدالرحمن ابن ابی بکر کہتے ہیں کہ میرے باپ نے زیادہ سے بات نہ کرنے کی قسم کھالی تھی۔ یہاں تک کہ وصیت بھی کر دی کہ ابوہریرہ نماز جنازہ پڑھی وہ بصرہ سے کوفہ چلا گیا اور مغیرہ نے شکریہ کے ساتھ اس کا احترام کیا۔ ایک دن اتفاقاً ام جمیل حضرت عمر کے پاس آئی اس وقت جبکہ مغیرہ بھی موجود تھا آپ نے پوچھا اسے جانتے ہو؟ کہا یہ ام کلثوم ہے۔ فرمایا جھوٹ بولتا ہے ۔ خدا کی قسم ابوبکر نے غلط نہیں کہا تھا اورمجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں آسما سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے۔ ابواسحق رازی نے بھی اس واقعہ کو مجمل طور پر نقل کیا ہے اس کے بعد فرماتے ہیں کہ فقہاء کے درمیان حضرت علی ؑ کا قول محل اختلاف ہے۔ ابو نصر بن صباغ کا کہنا ہے کہ حضرت کا مطلب یہ تھا کہ ابوبکر کا دوسرا قول اگر تکرار ہے تو حد جاری ہوچکی اور اگر قول جدید ہے تو مغیرہ پر حد جاری ہونے کا نصاب پورا ہوگیا۔

اقول :۔

اس واقعہ کو حاکم نے مستدرک میں ذہبی نے تلخیص میں اور دیگر اہل تراجم نے حضرت مذکورین کے حالات میں اجمالاً یا تفصیلاً ضرور نقل کیا ہے۔