تاویلات حضرت عائشہ
مورد قصاص حضرت عثمان :۔
قرآن مجید کا صریحی حکم ازواج رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے لیے یہ تھا کہ گھروں میں بیٹھی رہیں۔ لیکن جناب عائشہ نے امام وقت کیخلاف خروج کرکے گھر چھوڑ دیا جبکہ طلحہ و زبیر جیسے بزرگ بیعت کرچکے تھے ۔ آپ بیت الشرف سے اس حالت میں برآمد ہوئیں کہ خود ناقہ پر مادر ملت کی حیثیت سے ساتھ ساتھ طلحہ و زیبر اور پیچھے پیچھے تقریباً تین ہزار عرب اس شامن سے آپ بصرہ پہنچیں۔ وہاں جناب امیر کی طرف سے عثمان بن حنیف عامل تھے۔ آپ نے وہاں انتہائی سفا کی و خون ریزی سے کام لیکر اسے فتح کیا جو تاریخ میں جمل اصغر کے نام سے مشہور ہے، یہ واقعہ ۲۵ ربیع الثانی ۳۶ سنہ ہجری کا ہے چند دنوں کے بعد جب جاب امیر بصرہ پہنچے تو حضرت عائشہ نے آپ پر حملہ کا قصد کیا۔ آپ نے نرم لہجہ میں معاملہ فہمی کی کوشش کی لیکن انہوں نے قبول نہ کیا اور جنگ پر آمادگی ظاہر کی تو آپ نےبمقتضائے حکم بغاوت جہاد کا قصد کیا۔ اور اسی طرح متعدد مسلمانوں کی جان دے کر ام المومنین مغلوب قرار پائیں۔ یہ واقعہ جمل اکبر کے نام سے مشہور ہے۔ جو کہ ۱۰ جمادی الاخر سنہ ۳۶ ہجری کو پیش آیا۔ کوئی مورخ سیرت نگار ایسا نہیں ہے جس نے اس واقعہ کو درج نہ کیا ہو اس لیے حوالہ کی ضرورت نہیں۔
واقعہ پر ایک نظر :۔
ابن ابی الحدید کے بیان کے مطابق ہر مورخ و سیرت نگار نے یہ نقل کیا ہےکہ حضرت عائشہ حضرت عثمان کے سخت ترین مخالفین میں تھیں حتیٰ کہ آپ نے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے پیراہین کو اپنے مکان میں نصب کر دیا تھا۔ اور ہر آنے والے سے کہتی تھیں کہ یہ پیراہین پرانا نہیں ہوا لیکن حضرت عثمان نے سنت رسول کر برباد کر دیا۔ آپ برابر حضرت عثمان کو نقل سے تعیبر کرتی تھیں اور ان کے کفر کا حکم فرماتی تھیں۔ آپ کے ہم آواز اس وقت طلحہ و زبیر تھے۔ مدائنی نے کتاب جمل میں نقل کیا ہے کہ وقت قتل حضرت عثمان جناب عائشہ مکہ میں تشریف فرما تھیں۔ آپ کا خیال تھا کہ خلافت طلحہ کو ملے گی۔ چنانچہ آپ نے اس امر پر اظہار مسرت بھی فرمایا۔ طلحہ نے بھی بیت المال کی کنجیاں حاصل کرلی تھیں، لیکن آخر جب مقصد حاصل نہ ہوسکا تو حضرت علی کے حوالہ کر دیا۔ طبری وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ مکہ واپس ہورہی تھیں کہ راستہ میں عبدالبن ام کلاب سے ملاقات ہوگئی۔ آپ نے اس سے حالات معلوم کئے اس نے قتل عثمان کی خبردی۔ آپ نے خلافت کا سوال اٹھایا۔ اس نے بتایا کہ بڑا اچھا ہوا کہ خلافت حضرت علیؑ کو مل گئی، یہ سننا تھا کہ آپ نے رخ موڑ دیا۔ اور فرمایا عثمان مظلوم تھا میں اس کا قصاص لونگی اس نے کہا کہ آپ ہی نے تو مخالف کی تھی۔ اب یہ کیا ؟ فرمایا کہ اس نے توبہ کرلی تھی۔ اور پھر دوسرا قول پہلے سے بہتر ہے۔ اس نے اس موقع پر اشعار بھی پڑھے۔ آپ پلٹ کر مکہ پہنچیں در مسجد پر اتر کر حجر اسود کے قریب آئیں اور مجمع کو خطاب کیا کہ حضرت عثمان مظلوم تھے میں ان کا انتقام لوں گے۔ عبد کہتے ہیں کہ اس کلام سے آپ نے حضرت علی کےخلاف فتنہ برپا کرنا چاہا تھا ورنہ آپ کو اس واقعہ سے کوئی ربط نہ تھا تاریخ کامل میں آپ کی تقریر کے یہ فقرات درج ہیں کہ ""اہل مدینہ کے غلاموں اور بعض اجنبیوں نے مل کر مظلوم کو قتل کر دیا اور اسے پر بے ربط اعتراضات کر دیئے جو اس کے قبل بھی رائج تھے۔ اس نے توبہ بھی کرلی کلیکن جب کوئی دوسرا عذر نہ مل سکا تو اس پر ہجوم کرکے اسے قتل کر دیا۔ اور اس طرح نفس حرام مال حرام شہر حرام اور بلد حرام سب کو ہتک حرمت کی۔ خدا کی قسم عثمان کی ایک انگلی پورے طبقہ ارض سے بہتر ہے خیر اگر وہ ان کے خیال میں گناہگار بھی تھا تو اب پاک ہوگیا۔ اس لیے کہ ان لوگوں نے اسے چوس لیا ""یہ سنکر عبداللہ عامر حضرمی نے کہ جو حضرت عثمان کا عامل تھالبیک کہی اور اس طرح بنی امیہ کو جو مدینہ سے بھاگ کر آئے تھے ہم آواز ہوگئے اور جنگ کی مہم شروع ہوگئی۔
موقف حضرت ام مسلمہ :۔
شرح الہنج وغیرہ میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت عائشہ جناب ام سلمہ کے پاس آئیں اور ان سے خوشامد کرکے ان کے فضائل شروع کردے انہوں نے مقصد پوچھا۔ فرمایا کہ حضرت عثمان کو لوگوں نے توبہ کے باوجود روزہ کی حالت میں قتل کر ڈالا ۔ اب میں انتقام کے لیے طلحہ و زبیر کو لے کر بصرہ جارہی ہوں آپ بھی چلئے۔ انہوں نے فرمایا کہ کل تک تو نقل سے تعیبر کرتی تھیں یہ کیا ہوا کیا تمہیں حضرت علی کے فضائل معلوم نہیں؟ کیا میں یاد دلاوں ؟ پولیس ہاں! فرمایا کیا یاد نہیں ہے وہ دن جب رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
حضرت علی سے مناجات کر رہے تھے اور تم نے طول کلام کو دیکھ کر ٹوکنے کا قصد کیا میں نے روکا لیکن ہم نے ٹوک دیا کہ یا علی ۹ دن میں ایک دن ملتا ہے اس میں بھی تم باتیں کرتے رہتے ہو ۔ تو حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یہ فرمایا کہ جو علی دشمن ہے وہ ایمان سے خارج ہے اور اس پر تم نادم ہوکر واپس آئیں؟ بولیں ہاں یاد ہے فرمایا کیا یاد نہیں ہے جب حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ہم لوگوں سے کلاب حواب کا ذکر کیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ عورت دین حق سے برگشتہ ہوگی اور اس کے بعد تمہاری پشت پر ہاتھ رکھ کر یہ فرمایا تھا کہ حمیرا کہیں تم نہ ہو؟ بولیں یاد ہے۔ فرمایا کیا یاد نہیں ہے کہ ایک سفر میں حضرت علی حضرت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تمام خدمت کر رہے تھے۔ کہ ایک دن اتفاق سے آپ کی نعلین شکستہ ہوگئی وہ مرمت کر رہے تھے کہ اتنے میں تمہارے باپ حضرت عمر کے ساتھ آگئے اور حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے کہنے لگے کہ ہمیں آپ کی زندگی کا اعتبار نہیں لہذا اپنے بعد کے لیے بتا دیجیے ۔ تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہ اگربتادوں گا تو تم لوگ یونہی مخالفت کرو گے ۔ جس طرح بنی اسرائیل نے ہارون کی مخالفت کی ۔ پھر ان کے چلے جانے کے بعد ہم اور تم گئے اور حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال کیا تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہ یہی جوتیاں ٹانکنے والا خلیفہ ہے پھر ہم نے دیکھا تو حضرت علی تھے۔ تم نے حضرت سے تصدیق چاہی تو آپ نےتصدیق کردی۔ بولیں یاد ہے۔
فرمایا کہ پھر اس خروج کا محؒ کیا ہے؟ بولیں کہ مجھے اصلاح مردم منظور ہے۔ ابن قنیبہ نے غریب الحدیث میں یہاں تک نقل کیا ہے کہ اس کے بعد جناب ام سلمہ نے بڑی شدت سے عائشہ کو روکا اور فرمایا کہ اسلام کی اصلاح عورتوں سے نہیں ہوسکتی۔ عورتوں کا کام عصمت و عفت کا تحفظ ہے نہ کہ مسافرت و مجاہدہ ، خدا کی قسم اگر میں تمہاری طرح نکل پڑوں اور کل مجھ سے جنت میں جانے کے لیے کہا جائے تو مجھے حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے شرم آئے گی کہ انکی پردہ داری پر حرف آگیا۔ (ابن البی الحدید ج ۲ ص ۷۹)
اس کے بعد جناب ام سلمہ نے امیرالمومنین کو خط لکھا کہ طلحہ و زبیر جیسے گمراہ افراد حضرت عائشہ و عبداللہ بن عامر کو لے کر آپ کے خلاف خروج کر رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ حضرت عثمان مظلوم قتل ہوا ہے خیر خدا ان کو دفع کرے گا لیکن اگر حکم خدا نہ ہوتا اور آپ کی ناراضگی کا خیال نہ ہوتا تو میں آپ کی مدد کے لیے آتی۔ اب میں اپنے بیٹے عمر ابن ابی سلمہ کو بھیج رہی ہوں۔ اس کو ہدایت فرمائیں چنانچہ جب عمر ابن ابی سلمہ آئے تو آپ نے ان کا کمال احترام فرمایا۔ اور پھر وہ تمام وقائع میں حضرت کے ہمرکاب رہے۔
موقف حضرت حفصہ :۔ اکثر اہل تاریخ نے نقل کیا ہے کہ جناب عائشہ نے حضرت حفصہ کو بھی دعوت دی کہ وہ بصرہ جنگ کے لیے چلیں۔ اور انہوں نے آمادگی بھی ظاہر کی۔ لیکن ان کے بھائی حضرت عبداللہ نے آکر روک دیا۔ (شرح النہج ج ۲ ص ۰۸)
موقف اشتر :۔ جناب اشتر نے مدینہ سے ایک خط حضرت عائشہ کو لکھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ سنا ہے کہ تم گھر سے نکل کر مسلمانوں کو اپنے محاسن دکھانا چاہتی ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ خلاف حکم خدا اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہے۔ لہذا تم گھر میں بیٹھو ورنہ اگر تم باہر نکلیں تو یاد رکھو کہ میں اس وقت تک تم سے جہاد کروں گی جب تک تم کو گھر واپس نہ کردوں۔
قیادت عامہ :۔
اس لشکر کی قیادت خود جناب عائشہ کے ہاتھوں میں تھی۔ آپ خود ہی تنظیم لشکر فرماتی تھیں اور خود ہی اوامر و احکام صادر کرتی تھیں۔ نصب و عزل کے فرائض بھی آپ کے ہی ذمہ تھے۔ چنانچہ آپ نے اکثر لوگوں کو جنگ کی دعوت دی جن میں سے اہل بصیرت افراد نے انکار کر دیا اور بنی امیہ جیسے طماع اشخاص نے لبیک کہی۔ آپ کے لشکر میں ایک مردان بھی تھا جس کے حملے دونوں طرف ہوتے تھے تاکہ جس کی فتح ہوجائے اسی سے ملحق ہوجائے چنانچہ بعض کا کہنا ہے کہ طلحہ اسی کے تیر کا نشانہ بنے تھے۔
مکہ سے بصرہ تک :۔
جب جناب عائشہ نے روانگی کا قصد کیا تو بنی امیہ وغیرہ سے مشورہ کیا ۔ بعض نے کہا کہ براہ راست مدینہ چلیں۔ آپ نے جواب دیا کہ وہاں حضرت علی ؑ سے مقابلہ مشکل ہے۔ بعض نے عرض کیا پھر شام چلیں فرمایا کہ وہاں معاویہ کافی ہے لہذا ہمیں بصرہ جانا چاہیے وہاں طلحہ و زبیر کے اثرات زیادہ ہیں لہذا فتح کی امید زیادہ ہے چنانچہ اسی پر اتفاق ہوگیا اور آپ نے کوچ کا حکم دیا۔ عبداللہ بن عامر نے بے حد و انتہا مال و دولت اور ناقوں سے مدد کی یعلی بن امیہ نے چار لاکھ دے دی اور اس طرح کافی مطمئن ہوکر لشکر روانہ ہوا۔ آپ کے لیے ایک بہترین اونٹ جس کا نام عسکر تھا چھانٹا گیا جسے دیکھ کر آپ محفوظ ہوئیں۔ لیکن جب ساربان نے اس کے فضائل میں اس کا نام ذکر کیا تو آپ نے تڑپ کر واپسی کا قصد کیا۔ اور فرمایا کہ یہ رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پیشین گوئی ہے ۔ لوگوں نے اونٹ تبدیل کرنا چاہا لیکن جب دوسرا نہ مل سکا تو اس کی پوشش بدل کر لے آئے اور آپ اس پر سوار ہوگئیں ۔ (شرح النہج ج ۳ ص ۸۰)
چشمہ حواب :۔
اکثر اہل اخبار و احادیث نے نقل کیا ہے کہ ایک دن سرکار رسالتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے ازواج سے خطاب کرکے چشمہ حواب سے ڈراتے ہوئے انہیں وہاں تک جانے سے روکا تھا ۔ چنانچہ جس وقت آپ وہاں پہنچیں اور کتوں نے شور مچایا تو لوگوں نے حواب کے کتوں کی شکایت کی۔ آپ یہ سن کر بے چین ہوگئیں اور فرمایا کہ مجھے واپس کر دو۔ ایک شخص نے کہا یہ غلط ہے حواب گزر چکا ہےاس پر پچاس اشخاص نے گوہی بھی دے دی۔آپ ان کی قسم پر اعتبار کرکے آگے بڑھ گئیں۔
موقف ابوالاسود :۔
جب یہ قافلہ بصرہ کے قریب پہنچا تو استخبار حال کے لیے عثمان بن حنیف نے ابو الاسود کو بھیجا۔ انہوں نے حضرت عائشہ سے ارادہ معلوم کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ میں خون عثمان کا قصاص لینے آئی ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہاں تو کوئی قاتل نہیں ہے ۔ فرمایا کہ قاتل حضرت علی ؑ کے ساتھ مدینہ میں ہیں ۔ میں فوج جمع کرنے آئی ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ کا فریضہ گھر میں بیٹھنا ہے آپ واپس جائیں۔ حضرت علی ؑ امام ہیں وہ خود قصاص کا انتظام کرینگے۔ آپ نے غصہ میں فرمایا میں ہرگز واپس نہ ہوں گی۔ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے انہوں نے کہا کہ پھر میں ایسا جہاد کروں گا کہ آپ بھی دیکھیں گی۔ یہ کہہ کر حضرت زبیر کے پاس گئے اور کہا کہ کل تو تم حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے اور آج یہ سرکشی؟ انہوں نے قصاص کا عذر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہیں نے تو حضرت علی ؑ کو خلیفہ بنایا اور پھر اب یہ کیا؟ وہ خاموش ہوگیا۔ آپ طلحہ کے پاس گئے۔ لیکن اسے بھی گمراہی پر ثابت قدم پایا تو آکر عثما کو خبر دے دی کہ آپ بھی تیار ہوجائیں۔
موقف ابن صوحان :۔
بصرہ سے ایک خط حضرت عائشہ نے زید ب صوحا کو لکھا اے میرے خالص فرزند تمہاری روحانی ماں کا حکم ہے کہ تم وہی رہو اور لوگوں کو حضرت علی کے خلاف ابھارتے رہو پھر مجھے مسرت آمیز خبیریں بھیجتے رہو۔ انہوں نے جواب دیا آپ کے اور ہمارے فریضہ میں فرق ہے آپ کا فریضہ ہے گھر میں بیٹھنا ہمارا فریضہ ہے جہاد اب آپ مجھے حکم خدا کے خلاف حکم دے رہی ہیں تو میں جواب سے قاصر ہوں ۔
موقف جاریہ ب قدامہ :۔
طبری نے نقل کیا ہے کہ یہ حضرت عائشہ کے پاس آئے اور کہنے لگے خدا کی قسم عثمان کا قتل ہوجانا آپ کے اس ناقہ پر سوار ہوکر جنگ کرنے سے بدر جہاسبک ترہے۔ لہذا اگر آپ خود آئی ہیں تو واپس جائیں اور اگر مجبوراً لائی گئی ہیں تو لوگوں کی کمک و امداد سے واپس ہوجائیں۔
جوان بنی سعد :۔
اس مرد غیور نے طلحہ و زبیر سے خطاب کرکے کہا ""افسوس کہ تم نے اپنی عورتوں کو گھر میں محفوظ رکھا ہے اور اماں جان کو میدان میں لے آئے ہو ان کا فریضہ تھا کہ گھر میں رہیں۔ یہ اپنی ہتک کرنے نکل آئیں اور صد حیف کہ تم بھی اس پر راضی ہوگئے۔
غلام بنی جہینہ و محمد بن طلحہ :۔
اس شخص نے ابن طلحہ سے دریافت کیا کہ آخر عثمان کا قاتل کون تھا؟ اس نے کہا ان کا خون تین آدمیوں کی گردن پر ہے۔ طلحہ، علیؑ اور یہ پردہ نشین مغطمہ یہ سنکر وہ ام المومنین سے پھر حضرت علی ؑ کے ساتھ ہوگیا اور کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ دو صحیح ہیں اور ایک غلط ۔
موقف احنف ب قیس :۔
بہیقی نے المحاس و المساوی ج ۱ ص ۳۵ میں حسن بصری سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ روز جمل احنف حضرت عائشہ کے پاس آئے اور کہنے لگ کیا یہ حکم رسول تھا کہ آپ جنگ کریں؟ فرمایا نہیں ۔ پوچھا کیا پھر قرآن کی کوئی آیت ہے؟ فرمایا کہ قرآن تو ہمارا تمہارا ایک ہے۔ سوال کیا تو کیا رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے کفار کے مقابلہ میں کبھی آپ سے مدد مانگی تھی؟ فرمایا نہیں، عرض کیا پھر ہم غریبوں کا کیا قصور ہے؟ دوسری روایات کی بنا رپ سوالات اور زیادہ سخت تھے۔ جس کے نتیجہ میں آپ نے صلح کی پیش کش کر دی تو انہوں نے جواب دیا کہ اب تلواروں کے بعد اور وہ بھی آپ کےہاتھوں پر ؟ چنانچہ آپ نے غصہ میں فرمایا ۔ اللہ یہ اولاد کس قدر نافرمان ہوگئی ہے۔
موقف عبداللہ بن حکیم :۔
آپ حضرت طلحہ کے پاس آئے اور فرمایا کہ یہ تمہارے خطوط موجود ہیں کہ جن میں قتل حضرت عثمان کا حکم مذکور ہے ۔ یہ آج کیا ہوگیا؟ آخر تم نے حضرت علی ؑ کی بیعت ہی کیوں کی تھی کہ آج یہ نوبت آگئی ؟ یہ سنکر حضرت طلحہ نے جواب دیا کہ اگر اس دین بیعت نہ کرتے تو آج یہ موقع نہ ملتا۔
موقف جشمی :۔
جس وقت یہ لشکر بصرہ کے قریب پہنچا اور لوگ جمع ہوئے تو جشمی نے قوم سے خطاب کیا۔ ""اگر یہ لوگ پناہ گزیں ہیں تو مکہ جائی پناہ وہاں ہے اور اگر طالب انتقام ہیں تو ہم لوگ حضرت عثمان کے وارث نہیں ہیں لہذا انہیں واپس کردو۔ ورنہ بڑی عظیم لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن قوم نے آپ کی ایک نہ سنی۔
خطبہ حضرت عائشہ :۔
اس کے بعد آپ نے اہل بصرہ سے خطاب کیا۔ اے قوم حضرت عثمان نے یقیناً غلطیاں کی تھیں لیکن بعد میں رفتہ رفتہ توبہ بھی کرلی تھی۔ پھر اس کے بعد بھی انہیں شہر حرام میں مظلوم ذبح کر ڈالا گیا یاد رکھو قریش نے اپنی تباہی خود مول لی ہے۔ عنقریب ان کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ حضرت عثمان نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا تھا کہ جس سے ان کا خون حلال ہوجاتا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اس کے تازیانے کی مخالفت کی جائے۔ اور ان پر علم ہونے والی تلواروں کی مخالفت نہ کی جائے۔ اس قوم نے ان پر ظلم کرکے انہیں بے گناہ قتل کر دیا اور پھر بلامشورہ حضرت علی ؑ کی بیعت کرلی ہے لہذا تم لوگ حضرت عثمان کے قاتلوں سے انتقام لو اور انہیں قتل کرنے کے بعد خلافت اس جماعت میں قرار دو کہ جس میں حضرت عمر نے مقرر کیا تھا""۔
تاریخوں میں ہے کہ اس خطبہ کے بعد شدید اختلا ف پھیل گیا بعض نے تائید کی اور بعض نے کہا کہ اس عورت کو گھر میں بیٹھنا چاہیے یہاں تک کہ طرفین میں جوتے چل گئے اور جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی فریق حضرت عائشہ اور فریق عثمان بن حنیف ۔
آغاز جنگ :۔
صبح ہوتے ہی طرفین سے جنگ کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ادھر عثمان بن حنیف حضرت عائشہ کے پاس گئے اور انہیں خدا و اسلام کا واسطہ دیا پھر حضرت طلحہ و زبیر کے پاس گئے اور ان سے ذکر کیا کہ تم تو حضرت عثمان کے مخالفین میں تھے تم نے حضرت علیؑ کی بیعت کی تھی۔ اب کیا ہوگیا؟ اب لوگوں نے قصاص کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ اصل یہ ہے کہ تم طالب خلافت تھے۔ وہ تمہیں نہیں ملی ۔ اس لیے تم نے یہ صورت اختیار کی ہے۔ ان لوگوں نے ماں کی گالی دے دی۔ آپ نے فرمایا کہ زبیر کی ماں تو حضرت صفیہ ہے اس لیے میں مجبور ہوں البتہ طلحہ کی ماں تو وہ ۔۔۔۔۔ ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے حملہ کر دیا اور اس طرح ایک شدید مقابلہ کے بعد طرفین میں صلح ہوگئی۔ اور یہ طے پایا۔ کہ جب تک امیرالمومنین نہ آجائیں اس وقت تک کوئی جنگ نہ ہو۔ لیکن حضرت طلحہ و زبیر اور حضرت عائشہ نے خفیہ طو رپر شیوخ عرب سے گفتگو اور مراسلت شروع کردی۔ اور اس طرح جب ایک لشکر کو اپنا ہم خیال بنا لیا تو ایک اندھیری رات میں سب اندر سے زرہ پہن کر دروازہ مسجد پر پہنچ گئے۔ جناب عثمان نماز صبح کے لیے کھڑے ہوئے تو قوم نے انہیں ہٹا کر حضرت زبیر کو آگے بڑھا دیا۔ پولیس نے اسے ہٹا دیا اور اس طرح نزاع شروع ہوگئی ۔ یہاں تک کہ طلوع آفتاب کا وقت ہوگیا تو حضرت زبیر کو قمدم کر دیا گیا اور نماز ہوگئ۔ اس کے بعد عثمان اور ان کے ۷۰ سپاہی گرفتار کرکے حضرت عائشہ کے پاس لائے گئے حالت یہ تھی کہ ان جانوروں نے حضرت عثمان کے تمام جسم کے بال نوچ ڈالے تھے۔ حضرت عائشہ نے دیکھر سب کے قتل کا حکم سنا دیا۔ عثمان نے کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میرا بھائی مدینہ میں ہے اگر میں قتل ہوگیا تو آپ کے خاندان کی خیر نہیں ہے۔ یہ سنکر لوگوں نے آپ کو چھوڑ دیا۔ لیکن سپاہیوں کو بری طرح ذبح کر دیا۔ یہ کام عبداللہ بن زبیر نے بحکم حضرت عائشہ سرانجام دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے بیت المال کا رخ کیا۔ وہاں کے معین سپاہیوں نے مدافعت کی لیکن آخر کار انہیں بھی گرفتار کیا گیا ااور وہ ۵۰ افراد بھی تہ تیغ کر دے گئے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام میں غداری اور بیدردی سے قتل کا یہ پہلا واقعہ تھا جس میں بقول ابن ابی الحدیہ ۴۰۰ مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ عثمان کو شہر بدر کر دیا گیا ۔ آپ حضرت علی ؑ کی خدمت میں روتے ہوئے پہنچے اورشکایت کی ۔ حضرت کلمہ استرجاع پڑھ کر بارگاہ الہٰی میں قوم کی حالت کا شکور کرتے ہوئے عرض کیا۔ مالک ! یہ قریش میری مخالف پر آمادہ ہوئے۔ میرا حق غصب کیا اور اب حرم رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو لے کر میدان تک آگئے ہیں اپنے ازواج کو گھر میں رکھا ہے اور زوجہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
میدان جنگ میں ان امور کی فریاد کرتا ہوں۔ اور تیری مدد کا طالب ہوں۔ افسوس کہ ان دونوں نے کل بخوشی میری بیعت کی تھی اور آج اس طرح میری مخالفت کر رہے ہیں کہ میرے سپاہیوں اور میرے چاہنے والوں کو بیدردی سے قتل کر رہے ہیں۔
موقف حکیم بن جبلہ :۔
جب آپ کو ان مظالم کی خبر ملی تو آپ ۳۰۰ آدمیوں کو لے کر نکل پڑے ۔ادھر سے حضرت عائشہ کی فوج نے مقابلہ کیا۔ اور طرفی میں شدید جنگ ہوئی اتفاقاً ایک ازدی نے آپ کا ایک پیر قطع کر دیا۔ آپ نے اسے اٹھا کر ازدی کو مار دیا وہ گرا اور آپ کھسکتے ہوئے اس کے قریب پہنچ گئے اور اسے دبا کر ختم کر دیا۔ ایک شخص نے یہ عالم دیکھ کر آپ سے سوال کیا یہ کس نے کیا ؟ فرمایا کہ میرے تکیہ نے ! اس نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آپ ازدی کو دبائے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کےبعد آپ مع پوری جماعت کے شہید کردیئے گئے اور بصرہ کا میدان صاف ہوگیا۔ یہ واقعہ جمل اصغر کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کے بعد طلحہ و زبیر میں امامت جماعت کا اختلاف پھیلا تو حضرت عائشہ نے یہ حکم دیا کہ ایک ایک دن امامت کریں۔ پھر جب بیت المال کا مال ہاتھ ایا تو زبیر نے آیت پڑھی۔ اللہ نے تم سے مال غنیمت کا وعدہ کیا تھا۔ اور یہ جلدی ہی عطا کر دیا اور کہا کہ اہل بصرہ سے زیادہ اس مال کے حقدار ہم ہیں ۔ (شرح النہج ج ۲ ص ۵۰۱)
اس کے بعد حضرت علی ؑ وارد بصرہ ہوئے ۔ آپ کے پہنچتے ہی حضرت عائشہ ے یہ کوشش کی کہ آپ کو روک دیں۔ لیکن آپ نے نہایت ہی خندہ پیشانی سے ان لوگوں سے گفتگو فرمائی۔ اور اس طرح داخل بصرہ ہوگئے۔ آپ کی نرم کلامی کا منظر طبری نے کھینچا ہے۔ کہ آپ نے حضرت زبیر کو بلا کر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی وہ حدیث یاد دلائی جس میں آپ نے حضرت زبیر سے کہا تھا کہ تم اپنے بھائی سے جنگ کرکے اس پر ظلم کرو گے تو زبیر نے قسم کھالی کہ جنگ نہ کروں گا۔ اور پھرپلٹ کر اپنےبیٹے سے ذکر کیا۔ کہ اس جنگ میں کوئی عقلمندی نہیں ہے اس نے کہا کہ مگہ سے بصیرت تھی اور اب ڈر گئے اس کو غصہ آگیا اور کہنے لگا کہ میں نے قسم کھالی ہے ۔ بیٹے نے جواب دیا کہ کفارہ میں اپنے غلام سر جس کو آزاد کر دیجیے ۔ اس نے غلام ٓازاد کر دیا۔ اور مقابلہ کے لیے آمادہ ہوگیا آپ نے زبیر سے یہ بھی فرمایا تھا کہ خون حضرت عثمان کا قصاص لینا چاہتا ہے حالانکہ واقعی قاتل تو ہے ۔ پھر آپ نے حضرت طلحہ کو نصیحت فرمائی کہ زوجہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو سر میدان لے آیا اور اپنے ناموس کو گھر میں چھوڑ آیا۔ آخر تو نے کل تو میری بیعت کی تھی۔ لیکن اس نے کوئی سماعت نہ کی۔ پھر آپ نے اپنی قوم سے خطاب فرمایا۔ کوئی ایسا ہے جو قرآن کو ان کے سامنے پیش کرے۔ اور اگر ایک ہاتھ قلم ہوجائے تو اسے دوسرے ہاتھ سے اٹھائے اور اگر دونوں ہاتھ قلم ہوجائیں تو اسے دانت سے سنبھاے۔ ایک نوجوان تیار ہوگیا۔ اور قرآن کریم لے کر گیا۔ ان لوگوں کو قرآن سے دعوت فیصلہ دی۔ انہوں نے اس کے دونوں ہاتھ قلم کردیئے۔ اس مجاہد نے دانت سے قرآن سنبھالا ۔ لیکن آخر کار شہید ہوگیا۔ اس وقت آپ نے اپنی فوج سے اعلان کر دیا۔ کہ اب جنگ جائز ہوگئی ہے۔ اس نوجوان کی ماں کی مرثیہ بھی طبری میں مذکور ہے۔
اس کے بعد خود نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پردہ نشین محترمہ میدان جنگ میں آئیں تیور بدلے ہوئے شیرانہ حملوں کا قصد دل میں لئے ہوئے۔ جوانوں کو جوش دلاتی ہوئیں صفوں کے درمیان کھڑی ہوئیں بائیں طرف خطاب کیا یہ کون ہیں ؟ سب نے جواب دیا بنوازد آپ نے داد شجاعت دی۔ ان لوگوں نے اونٹ کی مینگنی کو سونگھ کر مشک سے بہتر بتایا ۔ پھر دائیں جانب رخ کیا۔ یہ کون ؟ سب نے کہا قبیلہ بکر بن وائل فرمایا تمہاری شجاعت تو شہرہ آفاق ہے پھر سامنے نظر کی ۔ یہ کون؟ سب نے عرض کیا بنوناہیہ ! فرمایا تمہاری تلواروں کا لوہا تو دنیا مانے ہوئے ہے۔ اس کے بعد آپ نے جگن پر سب کو بھینٹ چڑھادیا۔ لیکن اسطرح کہ مہارناقہ کی حفاظت ہوتی رہے چنانچہ ۴۰ پہلوا اسی حفاظت میں ختم ہوگئے۔ اور آخر کار ناقہ پے ہوگیا۔ اب اس کے بعد آپ لاوارث ہوگئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آج حضرت علی ؑ کی غیرت نے آپ کا تحفظ نہ کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ یہ تو خدا کو معلوم ہے ہاں اتنا ضرور ہوا کہ آپ کے اس جہاد کے زیر اثر صفی و نہروان و کربلا کے حوادث رونما ہوگئے۔ جناب امیر نے گرتے ہوئے ہودج کے تحفظ کا انتظام کیا۔ محمد بن ابی بکر کو چند محترم عورتوں کے ساتھ متعین فرمایا اور اس طرح اپنی مکمل روحانی عظمت و شرافت کو دشمن کے سامنے ظاہر کردیا۔ مزید یہ کہ آپ نے تمام گرفتار شدگان کو بھی رہا فرما دیا۔
یہی واقعہ وہ ہے جسے جمل اکبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ ۱۰ جمادی الاخری سنہ ۳۶ ہجری کو رونما ہوا تھا۔ اس واقعہ میں ۱۳ ہزار حضرت عائشہ کے سپاہی اور تقریباًایک ہزار علوی مجاہد کام آئے۔
نقد و نظر :۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت عائشہ کو امیرالمومنی ؑ کی شخصیت کا مکمل علم تھا آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ برادر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
وصی بنی اور ہارون محمدی ہیں۔ پھر حجتہ الوداع میں آپ نے یہ بھی سن لیا تھا کہ یہ عدیل قرآن اور مولائے امت ہیں آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان سے جنگ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے جنگ اور ان سے صلح رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے صلح ہےجس کے شاہد امام احمد حاکم طبرانی ترمذی اصابہ وغیرہ ہیں۔ خود آپ کے باپ کی روایت ہے کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان حضرات سے جنگ کو اپنی جنگ سے تعبیر فرمایا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ ان کا دوست حلالی اور ان کا دشمن ۔۔۔۔۔۔ ہے۔ (عبقریتہ محمد عقاد)
کیا ان حقائق و معارف کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عائشہ اس اجر آخرت اور ثواب کی طلب میں گھر سے نکلی تھیں۔ جسے اللہ نے صالح زوجات رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے لیے مہیا کیا ہے یا یہ کہا جائے کہ انہوں نے اللہ سے کوئی قرار داد کرلی تھی۔ کہ وہ ان سے اس عذاب کو اٹھالے گا۔ جس سے ازواج رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو تہدید و تخویف کی ہے؟ یا یہ تصور کیا جائے کہ آپ نے اپنے خروج کو اللہ کی اطاعت اور عمل صالح کا درجہ دیا تھا ۔ جس پر اللہ نے ازواج سے رزق کریم کا وعدہ کیا ہے۔ یا آپ اس تقوی کی تمثیل پیش کرنے آئی تھیں کہ جس پر زوجہ رسول کی عظمت کا دارو مدار تھا؟ یا اللہ نے آپ کو ابن صبہ کے گھر ہی میں قرار کا حکم دیا تھا یا لشکر کی سرداری ہی کو بناو سنگار کی مخالفت اور اطاعت کی مصروفیت کہتے ہیں یا یہ ادائے اوامر و نواہی کا کوئی انوکھا انداز تھا جو آپ نے اختیار کیا تھا؟ مسلمانوں کا کیا خیال ہے اس خطاب کے بارے میں جس میں قرآن نے آپ کو کج دل کجرو سے تعبیر کیا ہے اور یہ تہدید کی ہے کہ ممکن ہے کہ اللہ تمہارے طلاق کے بعد رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو معقول ازواج عطا کر دے۔ کیا زوجہ نوح و لوط کی مثالیں عبرت کے لیے کافی نہیں ہیں کہ جہاں صرف خیانت پر زوجیت کے فوائد منقطع کر دیئے گئے ہیں۔
مورد نماز قصر :۔
سابق میں آیات محکمات و روایات و اضحات سے ثابت کیا جاچکا ہے کہ سفر میں نماز قصر ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے نماز تمام پڑھی مزید لطف یہ ہے کہ مسلم میں قصر کی روایت آپ کی طرف بھی منسوب ہے۔
مورد تزویج اسماء بنت النعمان :۔
مستدرک حاکم طبقات ابن سعد وغیرہ میں یہ روایت ہے کہ حضرت اسماء سے عقد کرنے کے بعد ابی اسید سے کہا کہ انہیں لے آو۔ وہ رخصت کراکر لے آئے ۔ اب حضرت عائشہ و حفصہ نے ان کے بالوں میں کنگھی کی خضاب لگایا اور پھر ان سے کہہ دیا کہ وقت قرابت کلمہ اعوذ بااللہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو بہت پسند ہے ۔ چنانچہ جب آپ قریب تشریف لے گئے تو انہوں نے کئی مرتبہ یہی کلمہ جاری کیا۔ آپ غصہ میں باہر نکل آئے اور ابواسید سے کہہ کر انہیں واپس کردیا۔ وہ زندگی بھر اپنے آپ کو بدبخت کہتی رہیں۔
مورد اتہام بر ابراہیم و حضرت ماریہ :۔
ایک دن حضرت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
حضرت ابراہیم کو لئے ہوئے حضرت عائشہ کے پاس گئے۔ حضرت ابراہیم حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے بہت مشابہ تھے۔ حضرت عائشہ نے آپ کو بدظن کرنے کے لیے کہہ دیا کہ ان کو آپ سے کوئی مشابہت حاصل نہیں ہے لیکن جناب امیر نے اس قول کو رد کر دیا۔ (مستدرک ۔ تلخیص )
مورد یوم المغافیر :۔
حضرت عائشہ راوی ہیں کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
حضرت زینب بنت حجش کے پاس بیٹھ کر شہد نوش فرمایا کرتے تھے۔ ایک د ہم نے اور حضرت حفصہ نے طے کیا کہ جب آپ باہر آئیں تو کہہ دیں کہ آپ نے گوند کھائی ہے۔ چنانچہ حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے کہا گیا آپ نے فرمایا میں شہد کھایا ہے لیکن اب آئیندہ ترک کردوں گا لہذا کسی کو اطلاع نہ ہونے پائے۔
مورد حکم توبہ :۔
ظاہر ہے کہ خود حکم توبہ ان کے گناہوں پر دلیل ہے پھر قرآن کریم نے کھلے لفظوں میں ان کی کجروی اور کجدلی پر نص کردی ہے۔
مورد مقابلہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
:۔
قرآن کریم کا حکم ہے کہ اگر یہ دونوں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مقابلہ کریں گی تو رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ناصر اللہ و جبرئیل اور صالح المومنین ہیں۔ عبیدبن حنین کہتے ہیں کہ مجھ سے ابن عباس نے بیان کیا کہ میں ایک آیت کے لیے سال بھر فکر کرتا رہا۔ کہ حضرت عمر سے پوچھ لوں۔ لیکن موقع نہ مل سکا۔ اتفاقاً ایک مرتبہ حج کے دوران موقع مل گیا۔ تو پہلے ہی میں نے یہ پوچھا۔ کہ ان دونوں سے مراد کون ہیں؟ فرمایا عائشہ و حفصہ ۔ صحیح البخاری ۱ ص ۳۳ ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی مدد کا اتنا عظیم انتظام کسی مقام پر نہیں کیا ہے ۔ خواہ تمام عالمین ہی مقابلہ پر کیوں نہ آجائیں۔ اس اہتمام سے مقابل کی نفسانی کیفیت کا صاف اندازہ ہوتا ہے۔
مورد تمثیل قرآنی :۔
قرآن کریم نے آخر سورہ تحریم میں زوجہ نوح و لوط اور زوجہ فرعون کی مثال دے کر واضح کر دیا ہے کہ زوجیت کسی وقت بھی مفید نہیں ہوسکتی جب تک کہ عمل صالح ساتھ نہ ہو۔ بلکہ نفس کی کجی اور خیانت تو جملہ شرافتوں کو ختم کر دینے والی چیز ہے۔
مورد نسبت شرافت :۔
حضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے وحیہ کلبی کی بہن شراف سے عقد کرنا چاہا تو حضرت عائشہ کو دیکھنے کے لیے بھیجا۔ آپ پلٹ کر آئیں تو فرمایا کہ کوئی نتیجہ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم ان سے جلتی ہو۔ تم نے غلط بیانی کی ہے انہوں نے عرض کیا کہ آپ سے تو کوئی بات چھپتی ہی نہیں (کنزالعمال ج ۶ ص ۲۹۴ طبقات ابن سعد)
مورد مخالفت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
:۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے باپ کے بارے میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے بحث کی۔ اور کہہ دیا کہ آپ انصاف کریں تو میرے باپ نے ایک طمانچے مار کر مجھے تنبہیہ کی اس طرح کی میری ناک سے خون جاری ہوگیا۔ (کنرالعمال احیاء القلوب)
مورد جسارت :۔
ایک دن حضرت عائشہ کو غصہ آگیا ۔ تو رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے فرمانے لگیں کہ آپ کو خیال ہے کہ آپ نبی ہیں (احیاء القلوب ج ۲ ص ۳۵ مکاشفقہ القلوب ص ۲۳۸)
مورد زم عثمان :۔
کسی مورخ و سیرت نگار کو اس میں شک نہیں ہے کہ قتل عثمان کے سلسلے میں آپ نے بڑے جہاد کئے ہیں بڑی زحمتیں برداشت کی ہیں چنانچہ ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ ہر مصنف نے اس بات کو ذکر کیا ہے کہ آپ حضرت عثمان کی سخت مخالفت تھیں۔ یہاں تک کہ آپ نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا پیراہین نکال کر فریاد کی اور ان کو نقل و کافر کہہ کر لوگوں کو ان کے قتل کی دعوت دی۔ مدائنی نے کتاب الجمل میں نقل کیا ہے کہ وقت قتل حضرت عثمان آپ مکہ میں تھیں۔ جب آپ کو خبر ملی تو خوش ہوئیں ۔ لیکن جب اطلاع ہوئی کہ خلافت طلحہ کو نہیں ملی تو حضرت عثمان کا نوحہ شروع کردیا۔ آپ کے اقدامات کی تفصیل گزر چکی ہے آپ کے کلمات میں ایک جملہ یہ بھی ہے کہ اب خلافت بنی تیم میں نہ جاسکے گی ۔ آہ !
مورد احادیث عائشہ :۔
آپ نے حضرت رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے جو احادیث نقل کے ہیں وہ قابل دید ہیں ۔ بخاری وغیرہ نے آپ سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر وحی کی ابتداء خواب سے ہوئی پھر آپ تخلیہ میں جاتے تھے اور ملک وحی لاتا تھا ۔ ایک دن غار حرا میں ملک نے آکر کہا اے محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
پڑھو۔ حضرت نے اپنے ان پڑھ ہونے کا عذر کیا ۔ اس نے خوب زور سے دبایا۔ اور کہا کہ اب پڑھو۔ آپ نے پھر عذر کیا اس نے پھر دبایا ۔ یہاں تک کہ تیسری مرتبہ اقراء پڑھ لیا۔ اور ہانپتے کانپتے حضرت خدیجہ کے پاس آئے آپ نے تشقی دی۔ اور ورقہ بن نوفل نصرانی کاتب انجیل کے پاس لے گئیں اس نے سنکر کہ یہی ناموس الہٰی ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوا تھا کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری ہی قوم تم کو وطن سے نکال دے گی (بخاری مسلم ترمذی نسائی)
اقول :۔
اس روایت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو رسالت قرآن ملک سب ہی میں شک تھا جس کے ازالہ کے لیے ایک مدد گار زوجہ اور تسلی دینے والے نصرانی کی ضرورت تھی (معاذ اللہ) ہم نے روایت میں بہت ہی غور کیا لیکن اس ملکوتی شدت کا کوئی سبب نظر نہیں آیا۔ جبکہ یہ حالت تاریخ میں سوائے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کسی اور نبی کے لیے درج نہیں کی گئی۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ملک کا مطلب سمجھنے سے بھی قاصر تھے۔ ملک کا مقصد تھا کہ ہمارے ساتھ پڑھو۔ اور آپ اس سے یہ سمجھے کہ خود سے پڑھنے کا حکم ہے جو کہ بناء برروایت محال تھا۔ کیا نبی کی یہی شان ہے؟ معلوم ہوا کہ روایت مضمون اور سند دونوں کے اعتبار سے ساقط ہے سند کے لیے لطیفہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی ولادت بعثت کے کم از کم ۴ برس بعد ہوئی ہے اور روایت پیدائش کے پہلے کی ہے ، یہ خیال نہ ہو کہ آپ نے کسی سے سنکر بیان کیا ہوگا۔ اس لیے کہ اس صورت میں جب تک واسطہ نہ معلوم ہو روایت بے کار ہوا کرتی ہے کیونکہ منافقین اس وقت تا بالاتفاق موجود تھے۔ یہ اور بات ہے کہ رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے انتقال کے ساتھ ہی صحابہ سے نفاق ختم ہوگیا۔