تیسری فصل
وہابیت کے فکری سر چشمے
وہابی فرقہ کے عقائد دو طرح کے ہیں:
وہ عقائد جن کے بارے میں قرآن یا سنت میں کوئی نص موجود ہے، اس سلسلہ میں وہابیوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ایسے عقائد کو براہ راست کتاب و سنت سے حاصل کرتے ہیں اوراس بارے میں کسی مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرتے چاہے وہ مجتہد صحابی ہو یا تابعی اوریا کوئی امام ہو۔
دوسرے وہ عقائد جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے اس کے لئے وہ اپنے خیال کے مطابق امام احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کے فقہی فتووں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
لیکن ان دونوں ہی مقامات پر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تضاد گوئی کے جال میں پھنس کر رہ گئے، اسی وجہ سے وہ عجیب و غریب حرکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر چند نمونے ملاحظہ فرمایئے:
الف: وہابی حضرات نے بعض آیات و روایات کے جو معنی خود سمجھے ہیں وہ اسی پر مصرہیں چاہے وہ اجماع امت کے سراسر خلاف ہی کیوں نہ ہو ں،اسی لئے شیخ محمد عبدہ نے ان کی یہ پہچان بیان کی ہے ''وہابی حضرات ہر تقلید کرنے والے (مقلد) سے زیادہ تنگ نظر اور غصہ ور ہیں اسی لئے جن قواعد و ضوابط پر دین کا دارو مدار ہے یہ ان سے تمسک کئے بغیر جس لفظ سے انہیں جو کچھ سمجھ میں آتا ہے اسی پر عمل کرنے کو واجب سمجھتے ہیں۔ ]الاسلام والنصرانیہ،مؤلفہ محمد عبدہ ،با حاشیہ ٔرشید رضا، ص٩٧، طبع دوم)
ب: وہابی حضرات اگرچہ امام احمد بن حنبل کی پیروی کے مدعی ہیں مگر وہ اپنے ہی امام کے نظریات کے مخالف ہیں. کیونکہ یہ لوگ اپنے مخالف کو کافر سمجھتے ہیں جب کہ امام احمد بن حنبل کے فتووں میں وہابیوں کو اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ملی ہے بلکہ اس کے برعکس امام احمدبن حنبل کے تمام نظریات ان کے دعووں کے برخلاف نظر آتے ہیں یعنی امام حنبل کسی اہل قبلہ (مسلمان) کو گناہ کبیرہ یا صغیرہ کرنے کی وجہ سے کافر نہیں سمجھتے مگر یہ کہ وہ بے نمازی ہو۔]العقیدة لاحمد بن حنبل، ص ١٢٠[
اسی طرح ابن تیمیہ کے یہاں بھی وہابیوں کے اس عقیدہ کی کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ ابن تیمیہ سے منقول چیزوں میں تو ان کے بالکل مخالف بات نظر آتی ہے۔
اس سلسلہ میں ابن تیمیہ کے الفاظ یہ ہیں: ''جو شخص اپنے موافقین سے دوستی رکھے اور اپنے مخالفین کا دشمن ہو اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرے اور جو لوگ فکری یا اجتہادی اعتبار سے اس کے مخالف ہیں (موافق نہیں ہیں) انہیں کافر و فاسق قرار دے اور ان سے جنگ کرنے کو مباح کہے وہ خود اہل تفرقہ و اختلاف ہے۔ ]فتووں کامجموعہ: ابن تیمیہ، ج٣، ص٣٤٩[
اس طرح ابن تیمیہ کے نظریہ کے مطابق وہابی فرقہ، اہل تفرقہ و اختلاف ہے۔
ج: قبروں اور مزاروں کی زیارت کے بارے میں وہابیوں کے عقیدہ کا لازمہ یہ ہے کہ خود امام احمد بن حنبل یا ان کے ہم خیال گذشتہ اور موجودہ تمام علماء بلا استثناء سب ایسے مشرک ہیں جن سے دور رہنا اور انہیں قتل کرنا اور ان کے اموال کو تاراج کر نا واجب ہے جبکہ خود ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے کہ امام احمدبن حنبل نے امام حسین کی قبر کی زیارت اور زائر ین کے لئے کچھ ضروری آداب پر مبنی ایک رسالہ لکھا ہے. مزید یہ کہ ابن تیمیہ نے ہی یہ بھی تحریر کیا ہے کہ:'' امام احمدبن حنبل کے زمانہ میں لوگ امام حسین کی زیارت کے لئے کربلا جاتے تھے''۔ ]کتاب راس الحسین، ابن تیمیہ جو کتاب استشہاد الحسین طبری کے ساتھ طبع ہوئی ہے، ص٢٠٩[
ایک طرف وہابیوں کے عقیدہ کے مطابق قبروں کی زیارت کرنا اور مزارات پر حاضری دینا ایک ایسا شرک ہے جس کے مرتکب ہونے والے کی جان و مال مباح ہے دوسری طرف ابن تیمیہ اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک کچھ آداب کے ساتھ زیا رت کی جا سکتی ہے اب ہر شخص خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ ان حضرات نے اپنے اس عقید ہ میں خود امام احمدبن حنبل (جن کو اپنا پیشو ا قرار دیتے ہیں) اور ان کے دورکے علماء کے علاوہ ایسے تمام علماء کو مشرک ،نیزان کے خون (جان) اور مال کو مباح قرار دیا ہے جو قبروں کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور ان کی نظر میں زیارت قبور ایک مستحب عمل تھا۔
بلکہ وہابیوں کے اس عقیدہ کا لازمہ تو یہ ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک پوری امت مسلمہ ہی کافر ہے جس میں صحابۂ کرام بھی شامل ہیں۔
اگر حق یہی ہے تو پھر یہ حضرات کس بنا پر اپنے کو امام احمدبن حنبل یاگذشتہ مسلمانوں سے وابستہ سمجھتے ہیں؟۔
د: اسی طرح شفاعت پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے متعلق وہابیت کا دوسرا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں: ''جو شخص پیغمبر اکرصلىاللهعليهوآلهوسلم
م کی وفات کے بعد آپ سے شفاعت طلب کرے وہ ایک عظیم شرک کا مرتکب ہوا ہے کیونکہ ایسے شخص نے پیغمبر اکرصلىاللهعليهوآلهوسلم
م کو بت بنا دیا اور اس نے غیر خدا کی عبادت کی ہے'' لہذا یہ حضرات اس کے خون اور مال کو مباح جانتے ہیں۔ ]تطہیر الاعتقاد،: صنعانی، ص٧[
جب کہ صحیح روایات کے ذریعہ یہ ثابت ہے کہ بہت سے صحابہ اور تابعین اس عمل کو انجام دیتے تھے اور ان کی دعا بھی بہت جلد مستجاب ہوتی تھی اور وہ اپنی حاجت حاصل کرلیتے تھے۔
ابن تیمیہ نے اپنی کتاب، الزیارة، ج٧ میں، ص٦ ۔ ١٠١ پر اس بات کو صحیح قرار دیا ہے اور چند سندوں کے ساتھ اسے بالتفصیل بیہقی، طبرانی، ابن ابی دنیا، احمد بن حنبل اور ابن سنی سے نقل کر نے کے علاوہ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس بات کی دلیل اور برہان موجود ہے اگرچہ وہ اپنے نظریہ کے مطابق اس کی مخالفت پر مصر بھی ہیں لیکن پھر بھی ابن تیمیہ نے مسئلہ شفاعت کو وہابیوں کی طرح شرک اکبر نہیں قرار دیا ہے۔
لہذا وہابیوں کے نظریہ کے مطابق، اصحاب پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ان کی پیروی کرنے والے تمام حضرات ایسے مشرک ہیں جو واجب القتل ہیں بلکہ عقیدۂ وہابیت کے مطابق نہ صرف یہ کہ یہی حضرات مشرک ہیں بلکہ اگر کوئی شخص یہ سن لے کہ صحابہ اور ان کے تابعین نے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے شفاعت طلب کی تھی اور وہ ان کے اس عمل سے بیزاری کا اظہار نہ کرے اورانھیں کافر نہ سمجھے تو اس کی جان و مال بھی مباح ہے۔
سبحان اللہ!!
وہابیت اپنے اس عقیدہ اور مذہب کے بعد امت مسلمہ میں کس کو مسلمان سمجھتی ہے اوراپنے اسلاف میں کس کی پیرو باقی رہ جاتی ہے؟؟!