• ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5111 / ڈاؤنلوڈ: 2382
سائز سائز سائز
وہابیت کے چہرے

وہابیت کے چہرے

مؤلف:
اردو

ساتویں فصل

وہابی اور خوارج

عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کو راہ حق سے منحرف کرنے کے بارے میں وہابیوں اور خوارج کے درمیان اس درجہ شباہت پائی جاتی ہے کہ ایک محقق اور صاحب علم یہی سمجھتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں اگرچہ زمانہ کے اعتبار سے ان کے درمیان کافی فاصلہ پایا جاتا ہے۔

اب آپ ان دونوں فرقوں کی شباہت کی وجہیں ملاحظہ فرمایئے:

الف: تمام مسلمانوں کے برخلاف خوارج نے یہ کہا ہے کہ: گناہ کبیرہ کرنے والا کافر ہے۔

اسی طرح وہابیوں نے بعض کاموں کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے۔ ]مزید تفصیل کے لئے محمد بن عبد الوہاب کی کشف الشبہات اور صنعانی کی تطہیر الاعتقاد ملاحظہ فرمایئے[

ب : جس اسلامی ملک اور علاقہ میں کسی گناہ کبیرہ کا رواج ہو جائے ،خوارج اس کو دار کفر اور دار حرب قرار دیتے ہیں اور رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار کے ساتھ جو سلوک کیا تھا یہ بھی ان کے ساتھ اسی سلوک کو جائز سمجھتے ہیں یعنی ان کی جان و مال کو جائز قرار دیتے ہیں۔

اسی طرح اگر کسی علاقہ کے مسلمان پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م یا دوسرے اولیائے الہٰی کی قبروں کی زیارت کو جائز سمجھیں اور ان سے شفاعت طلب کریں تو وہابی بھی ان کو کافر کہتے ہیں چاہے وہ اپنے زمانہ کے سب سے صالح اور عابد انسان ہی کیوں نہ ہوں۔

گذشتہ دونوں صورتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہابیوں کا عقیدہ خوارج کے عقیدہ سے بھی بدتر ہے کیونکہ خوارج اس گناہ کو معیار قرار دیتے ہیں جو تمام مسلمانوں کی نظر میں گناہ کبیرہ ہے لیکن وہابی ان باتوں کی بنا پر دوسروں کو کافر اور ایسے اعمال کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جو اصلاً گناہ نہیں ہیں بلکہ ان کے مستحب ہونے کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے اور( جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے) گذشتہ صالحین جیسے صحابہ، تابعین یا ان کے بعد آنے والے لوگوں کا بھی یہی عمل رہا ہے۔

ج: وہابیوں اور خوارج میں ایک شباہت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ہی دینی مسائل میں بیحد شدت پسند، ہٹ دھرم، متعصب مزاج اور عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں۔

جب خوارج نے قرآن مجید کی اس آیت''اِنِ الحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ'' حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔ ]سورۂ انعام، آیت٥٧[کو دیکھاتو انہوں نے کہہ دیا: جو شخص غیر خدا کو حکومت اور فیصلہ کا اختیار دے وہ مشرک ہے۔

مذکورہ آیت کو انہوں نے اپنا نعرہ ہی بنا ڈالا اوراس حق کلمے کا ناحق استعمال کرنے لگے. ان کی یہ حرکت ایک سراسر جہالت و نادانی یا ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھی کیونکہ اختلافات پیدا ہوجانے کی صورت میں فیصلہ کرنا یا کرانا قرآن و عقل اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ثابت ہے اور اس بارے میں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے صحابہ کی واضح سیرت موجود ہے۔

وہابیوں نے بھی جب ان آیتوں کو دیکھا( اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نستعین ) ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں (سورۂ فاتحہ، آیت٤)( مَن ذَا الَّذِی یَشفَعُ عِندَهُ اِلَّا بِاِذنِهِ ) کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟(بقرہ، آیت٢٥٥)( وَلایَشفَعُونَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضَیٰ ) اور فرشتے کسی کی سفار ش بھی نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا اسکو پسند کرے(سورۂ انبیائ، آیت ٢٨) تو یہ عقیدہ بنا لیا کہ جو شخص پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م یا اولیائے الہٰی سے شفاعت طلب کرے وہ مشرک ہے اور جو شخص پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی زیارت کرے اور آپ سے شفاعت طلب کرے اس نے آپ کی عبادت کی ہے اور آپ کو خدا قرار دے دیا ہے. مختصر یہ کہ وہابیوں کا نعرہ یہ ہوگیا''لامعبود اِلا اللّٰه، و لا شفاعة الا لِلّٰه'' اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور شفاعت کاحق صرف خداکو ہے۔ یہ وہ حق کلمہ ہے جس سے وہ غلط معنیٰ مراد لیتے ہیں،جو عجیب و غریب جہالت اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے جب کہ صحابہ اور تابعین کی سیرت سے ان چیزوں کا جواز ثابت ہے (جس کی طرف پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے)

د: ابن تیمیہ کا بیان ہے: ''خوارج کا عقیدہ وہ پہلی بدعت ہے جو اسلام میں ظاہر ہوئی ،اس عقیدہ کے پیرو مسلمانوں کو کافر اور ان کا خون بہانا حلال سمجھتے تھے۔ ''] ابن تیمیہ کے فتووں کامجموعہ، ج١٣، ص٢٠[

وہابیوں کی بدعت کی بھی بالکل یہی حالت ہے اور شائدیہ وہ آخری بدعت ہے جو اسلام میں ظاہر ہوئی ہے۔

ھ: وہ صحیح احادیث شریفہ جن میں خوارج اوران کے خروج کا تذکرہ ہے ان میں سے بعض وہابیت پر بھی صادق آتی ہیں... جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ''یخرج اناس من قبل المشرق یقرأون القرآن لایجاوز تراقیہم یمرقون من الدین کما یمرق السہم من الرمیة سیماہم التحلیق'' کچھ لوگ مشرق کی طرف سے خروج کریں گے جو قرآن پڑھتے ہونگے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ دین سے اس طرح باہر نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے، ان کی پہچان سرمنڈانا ہے۔ ]صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب ٥٧، ح٧١٢٣[

قسطلانی نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے: مشرق سے مراد مدینہ کا مشرقی علاقہ ہے. جیسے نجد اور اس کے بعد کا علاقہ۔]ارشاد الساری، ج١٥، ص٦٧٦، مطبوعہ دار الفکر، ١٤١٠ھ[

نجد وہی علاقہ ہے جہاں سب سے پہلے وہابیت وجود میں آئی اور یہیں سے اس نے سر ابھارا ہے. نیز سر منڈانا وہابیوں کی پہچان تھی اور یہ لوگ اپنے پیرووں کو اس کا حکم دیتے تھے، حتی کہ عورتوں کو بھی یہی حکم دیتے تھے، ان سے پہلے کسی بھی بدعتی فرقہ کی یہ پہچان نہیں رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہابیت کی ابتدا ہوتے ہی بعض علماء نے یہ کہا تھا ''کہ وہابیت کے ابطال کے لئے کتاب لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے ا بطال کے لئے یہ قول پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ]ان کی پہچان سر منڈانا ہے[ ہی کافی ہے'' کیونکہ ان کے علاوہ دین میں بدعت پیدا کرنے والے کسی بھی فرقہ کے یہاں یہ پہچان نہیں دکھائی دیتی۔ ]فتنة الوہابیہ، مولف: زینی دحلان، ص١٩[

و: خوارج کے بارے میں پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی یہ حدیث ہے: ''... یقتلون اہل الاسلام و یدعون اہل الاوثان'' مسلمانوں کو قتل کریں گے اور کافروں کو چھوڑ دیں گے'' ]ابن تیمیہ نے فتووں کے مجموعے میںج١٣، ص٣٢ پر اس کا تذکرہ کیا ہے[

بالکل یہی حال وہابیوں کا بھی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اہل قبلہ پر ہی حملے کئے ہیں اور کبھی بھی کفار یا مشرکین سے کوئی جنگ نہیں کی بلکہ ان کی کتابیں جہاں اہل قبلہ سے جنگ و جدال کے ضروری ہونے کے بارے میں بھری پڑی ہیں وہاں کفار سے جہاد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے!

ز: امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے خوارج کے بارے میں یہ کہا ہے: ''جو آیتیں کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہیں خوارج نے انہیں مومنین سے متعلق قرار دے دیا۔'' ]صحیح بخاری کتاب استتابة المرتدین باب ٥[

ابن عباس سے نقل ہواہے: ''خوارج کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اہل کتاب اور مشرکین (کفار) کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی تاویل اہل قبلہ کے بارے میں کی ہے اور وہ ان آیتوں کی معرفت سے بے بہرہ رہ گئے جس کے نتیجہ میں انہوں نے لوگوں کا مال لوٹا اور ان کا خون خرابہ کیا ''۔

یہی وہابیوں کا حال ہے کہ وہ بت پرستوں کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کا مصداق مومنین کرام کو قرار دیتے ہیں. اس سلسلہ میں ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور آج بھی ان کا یہی عقیدہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔

ح: ایک سنی اور ایک وہابی کے درمیان گفتگو:

وہابی نے کہا: وہابیوں کی کتابیں وہی ہیں جو حنبلیوں کی کتابیںہیں تم ان میں سے کس کا انکار کرسکتے ہو؟۔

لہذا تم وہابیوں پراس وقت تک انگلی نہیں اٹھا سکتے جب تک خود ان کی کتابوں میں اسے اچھی طرح نہ دیکھ لو چنانچہ ان کے بارے میں جو کچھ ان کے مخالفین کہتے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

سنی نے کہا: قرامطہ کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟۔

وہابی: وہ کافر و ملحد ہیں۔

سنی: قرامطہ کا کہنا یہ ہے کہ ان کا مذہب وہی ہے جو اہلبیت کا مذہب ہے. اور اہلبیت کی کتابیں ہی ان کی کتابیں ہیں کیا تمہیں اہلبیت کی کتابوں میں حق اور نور کے علاوہ کچھ اور دکھائی دیتا ہے؟۔

وہابی نے کہا: قرامطہ جھوٹے ہیں، خود آپ جیسے لوگوں اور مورخین نے ان کا جھوٹ ثابت کیا ہے۔

سنی نے کہا: کیا اہل تاریخ کے قول کی صحت کے بارے میں کوئی دلیل ہے؟۔

وہابی نے کہا: جی ہاں! کیونکہ امام شافعی نے کہا ہے کہ جب چند مورخین دوسرے مورخین سے کوئی چیز نقل کرتے ہیں تووہ محدثین کے اس قول سے بہتر ہے جہاں ایک محدث ایک ہی محدث سے کوئی قول نقل کرتا ہے۔

سنی نے کہا: لہذا اگر میں ان مورخین کا قول نقل کروں جو وہابیوں کے ساتھ رہے ہیں اور انہوں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اسی لئے انہوں نے وہابیت کے کفر کی تصریح کی ہے تو اسے قبول کرنا واجب ہے!

سنی نے مزید کہا: ہر انسان کا عمل اس کے خلاف حجت اور دلیل ہوتا ہے! چاہے وہ زبان سے اس کی تکذیب ہی کیوں نہ کرے اور چونکہ قرامطہ نے مسلمانوں کی جان و مال کو حلال قرار دیا ہے لہذا ان کے کفر میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے. اور تمہارے ارباب کا بھی یہی حال ہے۔

وہابی کو غصہ آگیا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔

سنی نے کہا: خوارج اور ان کے دین سے خارج اور منحرف ہونے سے متعلق روایات کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟نیز اِن روایات کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے کہ یہ لوگ جہنم کے کتے اور دنیا میں قتل ہونے والے بدترین مقتول ہیں۔

وہابی نے کہا: ان تمام روایات سے مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خوارج دین سے خارج اور عذاب خدا کے مستحق ہیں. لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہیں حضرت علی نے نہروان میں قتل کیا تھا. جب کہ وہابی ایسے نہیں ہیں۔

سنی نے کہا: خوارج عذاب خدا کے مستحق کیوں ہوئے؟

کیا اس لئے کہ صحابہ نے خوارج کی نماز اور روزوں کے مقابلہ میں اپنی نماز اور روزوں کو معمولی سمجھا؟

وہابی نے کہا: نہیں۔

سنی نے کہا: شائد اس لئے کہ وہ زاہد تھے دنیا کی لذتوں اور آسائشوں سے دور رہتے تھے قرآن پڑھتے تھے اور اپنی رائے کے مطابق اس کی تفسیر کرتے تھے اور مخلوق کی سب سے بہترین بات کو بیان کرتے تھے (اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو خوارج کے بارے میں ہے کہ ''خوارج سب سے اچھی مخلوق کا قول نقل کرتے ہیں'' یعنی اپنی زبان سے حق بات کہتے ہیں)۔

وہابی نے کہا: نہیں نہیں!!

سنی نے کہا: پھر یہ عذاب کیوں ؟۔

وہابی کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی اور وہ کوئی جواب نہ دے سکا۔

سنی نے جب یہ دیکھا کہ وہابی کے پاس اس کی بات کا کوئی جواب نہیں ہے تو اس نے خود ہی اس بحث کو ختم کرتے ہوئے کہا: خوارج صرف اس لئے خدا کے عذاب کے مستحق ہوئے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی جان و مال کو حلال سمجھا اور صرف اپنے ہی کو مسلمان سمجھتے تھے، اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی ایسا کرے گا اس کا بھی وہی انجام ہونے والا ہے!

آٹھویں فصل

وہابی اور غالی

ایک حقیقت

غُلاة یا غالی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی کے احترام میں اس حد تک افراط سے کام لیتے ہیں کہ اسے بشریت کے مقام و مرتبہ سے بالاتر قرار دیدیتے ہیں۔

جب محمد بن عبد الوہاب نے سر زمین نجد پر اپنی تبلیغ کا آغاز کیا اسی دور میں ایک اور مبلغ پیدا ہوا جس نے اپنی تبلیغ میں حضرت علی اور اہلبیت کے بارے میں غالیوں کے (فراموش شدہ ،غلو آمیز) عقائد کو پھر سے زندہ کرنا شروع کر دیا۔

یہ فرقہ اگرچہ اس لحاظ سے وہابیت سے بالکل مشابہت رکھتا ہے کہ یہ بھی اپنے مخالف کو کافر قرار دیتا ہے اور صحابہ پر لعن و طعن کرتا ہے لیکن یہ ان سے بھی چار قدم آگے، اکثر صحابہ کو کھلم کھلا کافر قرار دیتا ہے۔

اس فرقہ کا بانی شیخ احمد احسائی، متوفی ١٢٤١ھ ہے جس کے پیرؤوں کو '' شیخیہ'' کہا جاتا ہے۔

احسائی کے انتقال کے بعد کاظم رشتی اس کا جانشین ہوا جس کا قیام شہر ''کربلا'' میں تھا۔

دیکھنا یہ ہے کہ اپنے دور میں ابھرنے والے اس بدعتی فرقہ کے ساتھ وہابیوں کا رویہ کیسا تھا؟

جس زمانہ میں '' شیخیہ'' نے کربلا کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا اور کاظم رشتی کے ہاتھ میں ان کی باگ ڈور تھی اسی دور میں وہابیوں نے کربلا پر حملہ کیا تھا. اور یہاں بھی اپنی عادتوں کے مطابق ہزاروں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کر ڈالا ان کے اموال لوٹ لئے اور گھروں کو منہدم کردیا. لیکن ان سب باتوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ کاظم رشتی کو ہر اعتبار سے امان دی گئی بلکہ اس کے گھر کو بھی پناہ گاہ قرار دیدیا یعنی جس نے بھی اس گھر میں پناہ لی اسے امان دیدی گئی!! ]وہابیت تنقید ا ورجائزہ ،مؤلفہ: ڈاکڑ ہمایوں ہمتی، ص٢٤[

یہ واقعہ، وہابیت کے اصل چہرے سے نقاب اتارنے کے لئے کافی ہے! کہ یہ لوگ خالص توحید کی تبلیغ اور شرک سے مقابلہ کرنے کے بارے میں کس حد تک سچے اور کھرے ہیں؟۔

اس مقام پر وہابیوں کے قائد و سردار، ابن تیمیہ کا حال بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ ایک غالی فرقہ کے بارے میں ان کے نیک خیالات بھی بخوبی معلوم ہو جائیں۔

یزیدی فرقہ وہ ہے جس نے یزید بن معاویہ جیسے شخص کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اسی کا ایک ٹولہ ''عدویہ'' کے نام سے مشہور ہے جس کا بانی عدی بن مسافر تھا اور اسی کی بنا پر اس ٹولے کو ''عدویہ'' کہا جاتا ہے۔

یہ لوگ پہلے ''عدی بن مسافر'' اور پھر یزید کے بارے میں غلو کرتے ہیں۔

ایسے عقائد کی مخالفت کے بارے میں ابن تیمیہ کے تعصب اورہٹ دھرمی میں کوئی لچک نہیں دکھائی دیتی جس سے بے شمار شکوک و شبہات بھی پیدا ہوتے ہیں حتی کہ وہ آنکھ بند کر کے اپنے علاوہ تمام اسلامی فرقوں کو گمراہ، منحرف اور باطل پرست قرار دینے میں اپنی مثال آپ ہیں لہذا اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان مشرکین اور غالیوں کے بارے میں موصوف کا رول کیسا تھا؟۔

حیرت کی بات ہے کہ ابن تیمیہ نے ان خوارج کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان کے مسلمان اور مومن ہونے کی تعریف کی ہے اور اس میں انہیں برادرانہ شفقت و محبت کے ساتھ نصیحتیں کی ہیں جو کسی بھی اسلامی فرقے جیسے اشعریہ، امامیہ، زیدیہ، معتزلہ، مرجئہ وغیرہ کے بارے میں نہیں کہی ہیںحتی کہ ان لوگوں کے بارے میں اس اندازسے ایک جملہ بھی نہیں کہا ہے۔

ابن تیمیہ کے خط کا مضمون یہ ہے: ابن تیمیہ کی طرف سے کچھ مسلمان بھائیوں کی خدمت میں جواہل سنت و الجماعت سے منسوب اور پیر ،عارف ابو البرکات عدی بن مسافر اموی (خدا ان پر اور ان کی راہ پر چلنے والوں کے اوپر رحمت نازل کرے) کے پیرو ہیں. اللہ ان سب کو ان کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور اپنی اور اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرنے میں ان کی مدد کرے. تم پر اللہ کا درود و سلام اور اس کی رحمت ہو اما بعد..... ]الوصیة الکبریٰ: ابن تیمیہ ص٥[

اس طرح ابن تیمیہ نے ان خوارج کو اہل سنت و الجماعت میں شامل کردیا جب کہ یہ فرقہ ہر لحاظ سے غالی و گمراہ ہے اورتمام اسلامی فرقوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ غلاة، مشرک اور اسلام سے خارج ہیں کیونکہ انہوں نے عقیدۂ توحید کو مجروح کیا ہے ۔

کیا ان تمام حرکتوں کے بعد ان کے لئے کسی وعظ و نصیحت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟۔

نویں فصل

وہابیت کس کی خدمتگار ہے؟

کیا وہابیوں نے اتنے عظیم اسلامی سماج اور معاشرہ کی بھلائی کے لئے واقعاً کبھی غور و فکرسے کام لیا ہے؟۔

کیا انہوں نے اسلامی ممالک کو استعماری طاقتوں سے محفوظ رکھنے کے بارے میں کبھی کچھ سوچاہے؟۔

کیا اسلامی ممالک پر مغربی ملکوں کے تسلط کا وہابیوں کے اوپر کوئی اثر پڑا ہے؟۔

اسلامی ممالک میں عیسائیوں اور صہیونیوں کے نفوذ اور قبضوں کے مقابلہ میں آج تک وہابیوں نے کیا کیا ؟۔

واقعاً! ان کی طرفداری کرنے اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر ان کا استقبال کرنے، اور مسلمانوں کی دولت کو ان کے قدموں پر نثار کرنے، نیز ان کی عزت افزائی کے علاوہ ان لوگوں نے اور کیا حکمت عملی اختیار کی ؟۔

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو آدمی بھی اپنی آنکھیں کھول کر دیکھے گا اسے بخوبی یہ حقیقت نظر آ جائے گی کہ اسلامی ممالک کی سرحدوں کے اندر وہابی حضرات استعماری طاقتوں کے سب سے پہلے خدمتگار ہیں۔

صرف یہی نہیں! بلکہ اگر محمد بن عبد الوہاب اور ان کے بعد پیدا ہونے والے وہابیوں کے دوسرے لیڈروں کے باقیماندہ آثار کا جائزہ لیا جائے توان کے یہاں قوم کی تعمیر و ترقی، سماج میں عدل و انصاف کے نفاذ، مظلوم کی اعانت اور جہالت سے مقابلہ کا کوئی وجود نہیں ملتا ہے۔

حتی کہ اپنی روزہ مرہ کی زندگی کی فلاح و بہبود، علمی، اقتصادی اور سماجی پیشرفت کے لئے ان کا کوئی مثبت اقدام نظر نہیں آتا بلکہ صرف مسلمانوں کی تکفیر، انہیں واجب القتل قرار دینے یا انہیں قتل کرنے اور ان کا مال لوٹنے کے علاوہ آپ کو ان کے یہاں کسی قسم کی بھی صلح و آشتی کا کوئی پہلو نظر نہ آئے گا!!

وہابیوں کو اگر کسی چیز سے چڑھ ہے تو وہ قبر اور مسجد ہے یا وہ شخص جو انہیں یہ کہتا دکھائی دے: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ خدا کی بارگاہ میں میری شفاعت فرما دیجئے گا!!

وہابیوں کا صرف یہی ایک کام ہے اور اس کے علاوہ کوئی اورمشغلہ نہیں ہے یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اسی کی بنا پروہ مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں، محرمات کو حلال قرار دیتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیدا کرتے رہتے ہیں اوراگر مسلمانوں کے کسی نئے علاقہ پر عیسائیوں یا صہیونیوں کا قبضہ ہو جائے تو انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی ۔

صحابہ نے جناب حمزہ بن عبد المطلب کی جو زیارت کی تھی یا انہوں نے وہاں نماز ادا کی تھی اور دوسرے مسلمان بھی آج ان کی پیروی میں ایسا ہی کرتے ہیں. اسے دیکھ کر وہابیوں کا جتنا خون کھولتاہے کیا بیت المقدس، بوسنیا اور لبنان کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم دیکھ کر بھی ان کا یہی حال ہوتا ہے؟۔

یاجس طرح سبط رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت امام حسین کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے صحابہ، تابعین اور حتی امام احمد بن حنبل کے دور میں بھی سینکڑوں میل کا سفر کر کے لوگ جاتے تھے (جس کا تذکرہ ابن تیمیہ کے الفاظ میں گذر چکا ہے) اس کا نام سن کر جس طرح ان کی تیوریوں پر بل پڑ جاتے ہیں.کیا اسلامی ممالک کی تیل کی دولت پر امریکی تسلط کو دیکھنے کے بعد بھی انہیں اسی طرح غصہ آتا ہے؟۔

جس طرح قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پیش کئے جانے والے ہدایا و نذورات کو دیکھ کر وہ آگ بگولا ہو جاتے ہیں کیا بعض مسلم ممالک پر زبردستی لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کو دیکھنے کے بعد بھی ان کا یہی حال ہوتا ہے؟۔

اے کاش! ہمیں ایسی یا اس سے ملتی جلتی کوئی تصویر، ان کے یہاں نظر آجاتی....

واقعاً بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ قوت و طاقت نیز فکری اور جسمانی توانائیوں کا اتنا بڑا سرمایہ ان فضول کاموں میں صرف ہوجاتاہے اور چند جاہلوں، نادانوں اور سیدھے سادے یا پست طینت لوگوں کے علاوہ کوئی ان کی طرف دھیان بھی نہیں دیتا ہے۔

آخر وہابی حضرات ان مواقع پر اتنے جذباتی اورمتعصب کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں ۔

سب سے پہلے ان کی کوتاہ فکری اور تنگ نظری، کیونکہ انہیں اس کے علاوہ کچھ معلوم ہی نہیں ہے اوران کے ذہن میں اس کے علاوہ اور کوئی فکر پیدا ہی نہیں ہو پاتی۔

دوسرے یہ کہ یہ لوگ رسم زندگی اور زمانہ کے ساتھ پیشرفت کرنے کے صحیح معنی سمجھنے سے قاصر ہیں لہذا جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے دینی، علمی اور سماجی مسائل کا حل تلا ش نہیں کرسکتے اور اسی وجہ سے یہ اپنی انہیں قدیم روایتوں پر اڑے رہتے ہیں اوران کی تعظیم یا انہیں تقدس کا لبادہ اوڑھانے میں افراط کا شکار ہیں ،تاکہ اس طرح اپنے کواس ترقی یافتہ دنیا سے بالاتر سمجھ سکیں۔

تیسرے یہ کہ یہ تمام مسلمانوں کے بارے میں تنگ نظری اور کینہ پروری کے لئے اپنی مثال آپ ہیںیعنی یہ لوگ ان کی کوئی بھلائی دیکھنا پسند نہیں کرتے اور ان کے دل ،مسلمانوں کی بدخواہی سے بھرے ہوئے ہیں۔

جو شخص بھی ان کے کھوکھلے نعروں، جھوٹ اور افتراء سے مملو تہمتوں کو دیکھتا ہے وہ ان کی کوتاہ فکری، تنگ نظری، دشمنی اور نادانی نیز کم عقلی کا بخوبی احساس کرلیتا ہے۔

مزید یہ کہ یہ لوگ دشمنان اسلام کے علی الاعلان دوست ہیں جس کے لئے کسی دلیل اور ثبوت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ کی مغربی ممالک سے اتنی دوستی نہیں ہے جتنی گہری دوستی وہابیوں اور مغربی ممالک کے درمیان پائی جاتی ہے یہ لوگ ان کی جی حضوری کرتے ہیں ان کی قربت کے خواہشمند رہتے ہیں اور ان کی تمام حرکتوں کی حمایت اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔یہ وہابیوں کا ایک ایسا عقیدہ اور نظریہ ہے جس سے وہ کسی طرح دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اسلامی ممالک کے درمیان وہابیت کا وجود ایک ایسا شگاف ہے جس نے صہیونی اور صلیبی جلادوں کے لئے اسلامی ممالک کے دروازے کھول رکھے ہیں چنانچہ وہ جس طرح چاہتے ہیں آئے دن دنیائے اسلام کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہتے ہیں، لوگوں کو بدنام کرنا، اموال کی لوٹ مار، گھروں اورآبادیوں کو ویران کرنا اور بالآخران کی ہر چیز پر قبضہ کرلینا اور ہر روز اس میںتوسیع کرتے رہناہی ان کا بہترین مشغلہ ہے۔

جی ہاں! وہابی اپنے ان خونخوار بھائیوں کے لئے ہر جگہ زمین ہموار کرتے ہیں۔

یہ وہی عناصر ہیں جنہوں نے استعمار کے لئے ماضی میں ایسی راہ ہموار کی، کہ اسرائیل کا وہ بیج جو کہیں بھی جڑ نہیں پکڑ سکا تھا ان کی مدد سے اسے اسلامی ممالک کے قلب میں ایک تناور درخت بنا دیا گیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہر دور میں مغربی طاقتوں کی غلام حکومتوںکے ہاتھ مضبوط کئے ہیں اور ان سے آزادی پانے والی تحریکوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔

یہ وہی گندے جراثیم ہیں جو اسلامی دنیا کے قلب میں مغربی ممالک کے غلاموں کے قدموں کے نیچے پھول بچھانے کے لئے تیار ہیں اور اسرائیل کو قانونی طور پر اس طرح تسلیم کرانا چاہتے ہیں کہ کسی کے ذہن میں اس کی مخالفت کا خیال بھی پیدا نہ ہونے پائے۔

یہ لوگ وہ قابل ِنفر ت نوکرہیں جن کی حمایت مغربی ممالک صرف اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعہ اہل اسلام کی کامیابی اور بیداری پر روک لگا سکیں وہ اپنے اس مقصد کی برآوری کے لئے نوکر منافق حکومتوں کی پشت پناہی کرتے ہیں جوہر طرح کے سرد او رگرم اسلحوں سے اسلامی بیداری کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے وہابیوں نے عملی جامہ پہنایاہے اور آج بھی وہ اس پر اڑے ہوئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں بھی ان کا یہی پروگرام ہے۔ وہابی، مسلمانوں کی بیداری سے اسی طرح ڈرتے ہیں جس طرح اسرائیل ان سے خوفزدہ ہے کیونکہ ان دونوں کا انجام انہیں کے خاتمہ سے جڑا ہوا ہے۔

دسویں فصل

روایات زیارت و توسل

١۔ پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فرمایا ہے:''مَن زَا رَنِی بَعدَ مَماتِی فکأنَّما زا رنی فی حیاتی'' جو شخص میری وفات کے بعد میری (قبر کی) زیارت کے لئے آئے گویا اس نے میری زندگی میںہی مجھ سے ملاقات کی ہے۔ ]سنن دارقطنی، ج٢، ص٢٧٨، ح ١٩٣[

٢۔ پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا ارشاد ہے:''مَن زارنی الیٰ المدینة کنتُ له شهیداً و شفیعاً یوم القیامة'' جو شخص میری زیارت کے لئے مدینہ آئے گا میں روز قیامت اس کا گواہ اور شفیع بنوں گا۔ ]سنن ابو داؤد ج١، ص١٢،جیسا کہ ابن ابی دنیا نے کتاب وفاء الوفاء میں ص١٣٤٥ پر نقل کیا ہے[

٣۔ پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فرمایا ہے:''مَن زارنی مُحتسِباً الیٰ المدینة کان فی جواری یومَ القیامة'' جو شخص قرب خدا کے لئے میری زیارت کرنے مدینہ آئے وہ روز قیامت میرے جوار میں رہے گا۔ ]سنن کبریٰ: بیہقی، ج٥، ص٢٤٥[

٤۔ پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فرمایا ہے: ''مَن زارَ قبری وجبتْ لہ شفاعتی'' جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت ضرور کروں گا۔ ]سنن دارقطنی، ج٢، ص٢٧٨، ح١٩٤[

٥۔ امام مالک نے کہا ہے: ''جب بھی کوئی شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے لئے آئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رخ کر کے پشت بقبلہ کھڑا ہوجائے پھر آپ کے اوپر درود بھیجے اوردعا کرے'' ] رؤوس المسائل :نووی، وفاء الوفائ، ص ١٣٧٧[

٦۔ امام شافعی کے اصحاب سے نقل ہوا ہے: ''زائر اس طرح پشت بقبلہ کھڑا ہو کہ اس کا چہرہ ضریح اقدس کی طرف ہو یہ امام احمد بن حنبل کا قول ہے'' ]وفاء الوفاء ص١٣٧٨[

٧۔ امام احمد بن حنبل کی کتاب العلل و السوالات سے نقل ہوا ہے: ''وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ برکت حاصل کرنے کی نیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منبر پر ہاتھ پھیرنا، یا اسے چومنا،یا اسی طرح خدا سے اجر و ثواب حاصل کرنے کی غرض سے آپ کی قبر مبارک پر یہی کام انجام دینا کیسا ہے؟۔

انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ہے۔ ]وفاء الوفائ، ص١٤٠٤[

٨۔ محب طبری کہتے ہیں: ''قبر کو چھونا اور اسے چومنا جائز ہے اور یہ علماء و صلحاء کا عمل ہے۔ ]وفاء الوفائ، ص١٤٠٦[

٩۔ امام جعفر صادق نے اپنے اجداد طاہرین سے یہ روایت نقل کی ہے: ''جناب فاطمہ زہرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا ہر جمعہ کو جناب حمزہ کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتی تھیں۔ ]تفسیر قرطبی، ج١٠، ص٢٤٨[

توسل

١۔ پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی دعا: ''خدا یا! میں تجھے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو سوال کرنے والوں کا تیرے اوپر (حق) ہے۔ ]عمل الیوم و اللیلہ: ابن سنی، ص٨٢[

٢۔ ساوی حنبلی اپنی کتاب ''المستوعب '' میں، زیارت قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں یوں تحریر کرتے ہیں: ''زائر قبر کے پاس آئے اور اس کے روبرو ،پشت بقبلہ ہوکر منبر کے دا ہنی طرف کھڑا ہو جائے۔

اس کے بعد انہوں نے سلام اور دعا کا یہ طریقہ ذکر کیا ہے ،کہ یوں کہے:

''أللّٰهم اِنک قلتَ فی کتابک لنبیّک (وَ لَو أَ نَّهُم اِذ ظَلَمُوا أَنفُسَهُم جَاؤُوکَ فَاستَغفَرُوا اللّٰهَ وَ استَغفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ...) و اِنِّی قد أتَیتُ لِنَبِیِّک مُستَغفِراً فأسألُکَ أن تُوجِبَ لِیَ الْمَغفرَة کما اَوجَبْتَها لِمَن أَتاهُ فی حیاته. أللّٰهُمّ اِنِّی أتوجَّه اِلیک بنبیّک صلَّی اللّٰه علیه و آله''

پروردگارا! تو نے اپنی کتاب میں اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا ہے:

''اورکاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور اپنے گناہوں سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے ''(سورۂ نساء آیت٦٤)

چنانچہ اب میں تیرے نبی کے پاس استغفار کی غرض سے آیا ہوں اور تجھ سے میرا سوال ہے کہ مجھے اسی طرح بخش دے جس طرح تو انہیں بخش دیتا تھا جو آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کی حیات میںان کے پاس آتے تھے، بار الٰہا! میں تیری بارگاہ میں تیرے نبی کے وسیلہ سے حاضر ہوا ہوں....

٣۔ صحیفۂ سجادیہ میں امام زین العابدین کی یہ دعا بھی ہے:

''وخَلعتَنِی یاربِّ بحق محمد و آل محمد مِن کلِّ غَمّ'' پروردگار! میں تجھے محمد و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے ہر قسم کے ہم و غم سے نجات عطا فرما ۔ ]صحیفۂ سجادیہ، دعا٣٠[

٤۔ ابو علی خلال، حنبلیوں کے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ: ''جب کبھی مجھے کوئی اہم ضرورت پیش آتی تھی تو میںجناب موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جاکر آپ سے توسل کرتا تھا اور اپنی حاجت حاصل کرلیتا تھا'' ]تاریخ بغداد، ج١، ص١٢٠[

٥۔ امام شافعی لکھتے ہیں: ''میں ہر روز امام ابو حنیفہ کی قبر پر جاتا ہوں، اسکے وسیلہ سے برکت پاتاہوں اور جب کوئی حاجت ہوتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جاتا ہوں اور وہاں خدا سے اپنی حاجت طلب کرتا ہوں اور وہ کسی تعجب کے بغیر پوری ہو جاتی ہے''۔ ]تاریخ بغداد، ج١، ص١٢٣، مناقب ابی حنیفہ ،مؤلفہ: خوارزمی، ج٢، ص١٩٩[

٦۔ ابوبکر محمد بن مؤمل کہتے ہیں: ''ایک روز میں اہل حدیث کے امام ابوبکر بنی خزیمہ اور ان کے ساتھی ابو علی ثقفی اور دوسرے متعدد بزرگوں کے ساتھ تھا ہم سب لوگ حضرت علی رضا کی قبر پر (طوس میں) گئے وہاں ہم نے ابن خزیمہ کو آپ کے روضہ میں آپ کی قبر کے سامنے نہایت ادب و احترام اور تواضع کے ساتھ اس طرح گریہ کر تے دیکھا کہ اس سے ہم سب کو حیرت ہو رہی تھی''۔ ]تہذیب التہذیب، ج٧، ص٣٣٩، علی بن نزار بن حیان اسدی کے حالات زندگی[

٧۔ ابن تیمیہ نے تحریر کیا ہے: ''امام احمد بن حنبل سے کتاب (منسک المروزی) میں پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے توسل اور (آپ کی قبر کے پاس)دعا نقل ہوئی ہے ۔ابن تیمیہ نے اس کو ابن ابی دنیا سے اتنے ذریعوں سے نقل کیا ہے جو اس کی صحت کی بہترین دلیل ہیں۔ ]التوسل و الوسیلہ: ابن تیمیہ، ص٦۔١٠٥[

جو کچھ ذکر کیا گیا ہے یہ دریا کے ایک قطرہ کی مانند ہے ورنہ بزرگوںکی سیرت و اقوال میں اس موضوع سے متعلق بے پناہ ذخیرہ موجود ہے۔