منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)0%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی (گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 127663
ڈاؤنلوڈ: 5514

تبصرے:

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127663 / ڈاؤنلوڈ: 5514
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

نام کتاب: منارۂ ہدایت،جلد ۱

(سیرت رسول خدا(ص))

تالیف:

سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی

(گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )

ترجمہ: نثار احمد زین پوری

تطبیق اورتصحیح : قمر عباس آل حسن

نظر ثانی : سید محمد جابر جوراسی

پیشکش : ادارہ ترجمہ معاونت فرہنگی ،مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

طبع اول : ۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ئ

تعداد: ۳۰۰۰

۲

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافوراور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی(ص) غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔اگرچہ رسول(ص) اسلام کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی،

۳

پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کے سامنے پیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت پر ٹکی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینے کو وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت(ص)و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر(عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۴

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،جس کو فاضل جلیل مولانا نثار احمد زین پوری صاحب نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

و السلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

عرض مؤلف

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد للّٰه الّذی اعطیٰ کلّ شیئٍ خَلْقَه ثم هدیٰ ثم الصلوٰة و السلام علیٰ من اختارهم هداة لعباده لا سیِّما خاتم الانبیاء و سید الرسل و الاصفیاء ابی القاسم المصطفیٰ محمد و علیٰ آله المیامین النجباء

حمد ہے بس اس اللہ کے لئے جس نے انسان کو عقل و ارادہ جیسی قوت عطا کی ہے، عقل کے ذریعہ وہ حق کا سراغ لگاتا ہے ،اسے دیکھتا ہے اور اسے باطل سے جدا کر لیتا ہے وہ ارادہ کے وسیلہ سے اس چیز کو اختیار کرتا ہے جو اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کا باعث اور اس کے حق میں مفید ہوتی ہے ۔

بھلے برے کو پہچاننے والی عقل کو خدا نے اپنی مخلوق پر حجّت قرار دیا ہے اور اپنی ہدایت کے ذریعہ اس کی مدد کی ہے ، اس نے انسان کو وہ چیز سکھائی جس کا اسے علم نہیں تھا اور اس کے مناسب حال، کمال کی طرف اسکی ہدایت کی اور اسے اس غرض ومقصد سے آگاہ کیا جس کے لئے اسے پیدا کیا اور جس کے لئے وہ اس دنیا میں آیا ہے ۔

قرآن مجید نے اپنی صریح آیتوںکے ذریعہ ربّانی ہدایتوں کے مناروں، اس کے آفاق ، اس کے لوازم اور اس کے راستوں کو واضح کیا اور پھر ایک طرف تو ہمارے لئے اس کے علل و اسباب کو بیان کیا اور دوسری طرف اس کے نتائج پرسے پردہ ہٹایا۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( قل انّ الهُدیٰ هو الهُدیٰ ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ ہدایت، بس اللہ کی ہدایت ہے ۔

( و اللّٰه یهدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم ) ( ۲ )

اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت کردیتا ہے ۔

___________________

۱۔انعام : ۷۱۔

۲۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۶

( واللّٰه یقول الحقّ و هو یهدی السّبیل ) ( ۳ )

اور خدا حق ہی کہتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔

( و من یعتصم باللّه فقد هدی الیٰ صراط مستقیم ) ( ۴ )

جو خدا سے وابستہ ہو جاتا ہے اسے صراط مستقیم کی ہدایت ہو جاتی ہے ۔

( قل اللّٰه یهدی للحق افمن یهدی الیٰ الحق احقّ ان یتّبع امّن لا یهدی الّا ان یُهدیٰ فما لکم کیف تحکمون ) ( ۵ )

کہدیجئے کہ خدا حق کی ہدایت کرتا ہے سپس جو حق کی طرف ہدایت کرے وہ قابل اتباع ہے یاپھر وہ لائق اتباع ہے کہ جو ہدایت نہیں کرتا ہے ،بلکہ خود محتاجِ ہدایت ہے ؟تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟

( و یری الّذین اوتوا العلم الذی انزل الیک من ربّک هو الحق و یهدی الیٰ صراط العزیز الحمید ) ( ۶ )

اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ اس چیز کوحق سمجھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور وہی عزیز و حمید کے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتی ہے ۔

____________________

۳۔ احزاب: ۴۔

۴۔آل عمران: ۲۱ ۔

۵۔یونس: ۳۵۔

۶۔ سبائ: ۶ ۔

۷

( و من اضلّ ممّن اتّبع هواه بغیر هدی من اللّٰه ) ( ۱ )

اور اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا جس نے خدا کی ہدایت سے سروکار رکھے بغیربس اپنی خواہش کی پیروی کی۔

ہدایت کا سرچشمہ صرف خدا ہے۔ اس کی ہدایت ، حقیقی ہدایت ہے وہی انسان کو صراط مستقیم اور حق کی راہ پر لگاتا ہے ۔

علم بھی انہیں حقائق کی تائید کرتا ہے اور علماء بھی انہیں کو تسلیم کرتے ہیں۔ بیشک خدا نے انسان کی فطرت میں یہ صفت ودیعت کر دی ہے کہ و ہ کمال و جمال کی طرف بڑھتا رہے ۔ پھر اس کمال کی طرف اس کی راہنمائی کی جو اس کے شایان شان ہے اس کو ایسی نعمتوں سے نوازا جن کے ذریعہ وہ کمال کے راستوں کو پہچان سکتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا ہے :( وما خلقتُ الجنَّ و الانسَ الا لیعبدون ) ( ۲ ) میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

واضح ہو کہ عبادت، معرفت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور معرفت و عبادت ہی ایسا راستہ ہے جو معراجِ کمال تک پہنچاتا ہے ۔

انسان کے اندر خدا نے غضب و شہوت جیسی دو طاقتیں رکھی ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعہ کمال کی طرف بڑھے لیکن اس پر غضب و شہوت غالب آسکتی ہے اور ان دونوں سے عشق و ہوس کی آگ بھڑک سکتی ہے اس لئے عقل اور معرفت کے دیگر اسباب کے علاوہ انسان کو ایسی چیز کی ضرورت ہے جو اس کی فکر و نظر کو محفوظ رکھ سکے اس پر خدا کی حجّت تمام ہو جائے اور اس کے لئے نعمت ہدایت کی تکمیل ہو جائے مختصر یہ کہ اس کے پاس ایسے تمام اسباب جمع ہو جائیں کہ جو اسے خیر و سعادت یا شر و بدبختی کا راستہ کامنتخب کرنے کااختیار دیدیں(کہ جس پر چاہے گامزن ہو جائے)۔

اس لئے ہدایت ربّانی کا تقاضاہوا کہ وحی اور خدا کے ان برگزیدہ ہادیوں کے ذریعہ عقل انسان کی مدد کی

____________________

۱۔قصص :۵۰۔

۲۔ذاریات: ۵۶۔

۸

جائے کہ جن کے دوش پر بندوں کی ہدایت کی ذمہ داری ہے اور یہ کام معرفت کی تفصیلوں اور زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی رہبری ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے ۔

ہدایت ربانیہ کی مشعل آغاز تاریخ ہی سے انبیاء اور ان کے اوصیاء کے ہاتھ میں رہی ہے خدا نے اپنے بندوں کو ، ہادی و حجت، ہدایت کرنے والے مناروں اور نور درخشاںچمکتے نور کے بغیرنہیں چھوڑا ہے جیسا کہ عقلی دلیلوں کی تائید کرتے ہوئے وحی کی نصوص نے بیان کر دیا ہے : زمین حجتِ خدا سے اس لئے خالی نہیں رہ سکتی تاکہ خدا پر لوگوں کی حجّت تمام ہو جائے، بلکہ خدا کی حجّت خلق سے پہلے بھی تھی، خلق کے ساتھ بھی ہے اور خلق کے بعد بھی رہے گی اگر روئے زمین پر دو انسان رہیں گے تو ان میں سے ایک حجّت ہوگا۔ اس چیز کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جس سے شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی؛ ارشاد ہے:

( انما انت منذر و لکل قوم هاد ) ( ۱ )

آپ تو بس ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔

انبیاء اور ان کے ہدایت یافتہ اور ہدایت کرنے والے اوصیاء نے ہدایتوں کی ذمہ داری اپنے دوش پر لی تھی ان کی صلاحیتوں کاخلاصہ درج ذیل شقوں میں ہوتا ہے:

۱۔ وحی کو مکمل طور سے درک کریں اورپیغامِ رسالت کو گہرائی سے حاصل کریں، رسالت و پیغام کے حصول کے لئے صلاحیت کامل ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ رسولوں کا انتخاب خدا نے اپنے ہاتھ میںرکھا ہے۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے:

( اللّٰه اعلم حیث یجعل رسالته ) ( ۲ )

خد ابہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔

( واللّٰه یجتبی من رسله من یشائ ) ( ۳ )

____________________

۱۔رعد:۷۔

۲۔انعام: ۱۲۴۔

۳۔ آل عمران ۱۷۹ ۔

۹

اور خدا اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے ۔

۲۔ خدائی پیغام کو بندوں تک اور ان موجودات تک پہنچانا جن کی طرف انہیں مبعوث کیا گیا ہے اور صحیح پیغام اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ جب پیغام کو مکمل اور صحیح طریقہ سے حاصل کیاگیا ہو،وہ رسالت اور اسکے تقاضوں سے واقف ہو اور خطا و لغزش سے معصوم و محفوظ ہو۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

( کان النّاس امة واحدة فبعث اللّٰه النبیین مبشّرین و انزل معهم الکتاب بالحق لیحکم بین النّاس فیما اختلفوا فیه ) ( ۱ )

سارے لوگ ایک امت تھے پس خدا نے بشارت دینے والے نبی بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کریں۔

۳۔الٰہی پیغام کی روشنی میں مومن امت کی تشکیل، اور رہبر و ہادی کی مدد کے لئے امت کو آمادہ کرناتاکہ رسالت کے مقاصد پورے ہو جائیں اور زندگی میں اس کے قوانین نافذ ہو جائیں، اس مشن کو قرآن مجید میں دو عنوان سے یاد کیا گیا ہے''تزکیہ و تعلیم'' خدا وند عالم فرماتا ہے:

( یزکّیهم و یعلّمهم الکتاب و الحکمة ) ( ۲ )

رسول(ص) ان کو پاک کرتا ہے انہیںکتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔

تزکیہ یعنی اس کمال کی طرف راہنمائی کرنا جو انسان کے شایان شان ہے، تربیت کے لئے ایسا نمونہ چاہئے کہ جس میں کمال کا ہر عنصر موجود ہو، چنانچہ خدا نے ایسا نمونہ بھی پیش کر دیا:

( لقد کان لکم فی رسول اللّٰه اسوة حسنة ) ( ۳ )

بیشک رسول(ص) میں تمہارے لئے اچھا نمونہ ہے ۔

____________________

۱۔بقرہ: ۲۱۳۔

۲۔ جمعہ: ۲ ۔

۳۔ احزاب:۲۱۔

۱۰

۴۔اور اس پیغام کو اپنی معینہ مدت میں تحریف و تبدیلی اور زمانہ کی دست برد سے محفوظ رہنا چاہئے اس مشن کے لئے بھی نفسانی اور علمی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ، اسی نفسانی و علمی صلاحیت کو عصمت کہتے ہیں۔

۵۔ معنوی رسالت کے مقاصد کی تکمیل اور لوگوں کے نفسوں میں اخلاقی اقدار کے نفوذ و رسوخ کے لئے کام کیا جائے اور یہ ربّانی مسائل کے نفوذ کے ساتھ (خدائی حکم کے نفوذ ہی سے ہو سکتا ہے) یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب معاشرہ میں ایک سیاسی نظام کے تحت دین حنیف کے قوانین نافذ ہوں اور امت کے مسائل و معاملات کو ان قوانین کے مطابق رواج دیاجائے جو خدا نے انسان کے لئے معین کئے ہیں ظاہر ہے کہ ان کے نفاذ کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو حکیم شجاع ، ثابت قدم، لوگوں کے مزاج اور معاشرہ کے طبقوں سے آشنا، فکری رجحان، سیاسی و سماجی دھارے سے آگاہ، نظم و نسق کے قانون اور زندگی کے طریقوں سے با خبر ہو، ایک عالمی اوردینی حکومت چلانے کے لئے مذکورہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے ، چہ جائیکہ عصمت جو کہ ایک نفسانی کیفیت ہے۔ یہ قائد کو کجروی اور ایسا غلط کام کرنے سے باز رکھتی ہے کہ جس کا خود قیادت پر منفی اثر ہوتا ہے اوراس صورت میں امت اپنے رہبر کی اطاعت بھی نہیں کرتی ہے اوریہ چیز رسالت کے اغراض و مقاصد کے منافی ہے۔

گذشتہ انبیاء اور ان کے برگزیدہ اوصیاء دائمی ہدایت کے راستہ پر گامزن ہوئے اور تربیت کی دشوار راہوں کو اختیار کیا اور رسالت کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے ،الٰہی رسالت کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں انہوں نے ہر اس چیز کی قربانی دی کہ ایک سر فروش اپنے عقیدہ کے لئے جس کی قربانی دے سکتا ہے ، وہ لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے موقف سے نہیں ہٹے اور چشم زدن کے لئے بھی بہانہ سے کام نہیں لیا چنانچہ ان کی صدیوں کی مسلسل کوشش و جانفشانی کے سلسلہ میں خدا نے محمد(ص) بن عبد اللہ کے سر پر ختم نبوت کا تاج رکھا عظیم رسالت اور ہر قسم کی ہدایت کی ذمہ داری ان ہی کے سپرد کر دی اور آپ(ص) سے کار رسالت کی تکمیل کی فرمائش کی چنانچہ آنحضرت (ص) نے اس پر خطر راہ میں حیرت انگیز قدم اٹھائے اور مختصر مدت میں انقلابی دعوت کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور یہ آپ(ص) کی دن رات کی کوشش و جانفشانی کا ثمرہ دو عرصوں کی دین ہے:

۱۱

۱۔ بشر کے سامنے ایک ایسا مشن پیش کیا جو اپنے دامن میں دوام و بقا کی دولت لئے ہوئے تھا۔

۲۔ بشریت کو ایسی چیزوں سے مالا مال کیا جو اسے کجروی و انحراف سے محفوظ رکھیں۔

۳۔ایسی امت کی تشکیل کی جو اسلام پر ایمان رکھتی ہے، رسول(ص) کو اپنا قائد سمجھتی ہے اور شریعت کو اپنا ضابطۂ حیات تسلیم کرتی ہے ۔

۴۔ اسلامی حکومت بنائی،اورایسے سیاسی نظام کی تشکیل کی جو پرچم اسلام کو بلند کئے ہوئے ہے اور آسمانی قانون کو نافذ کرتا ہے ۔

۵۔ ربّانی قیادت کے لئے صاحب حکمت اور ایسا جانا پہچاناانسان پیش کیا جو رسول(ص) کی قیادت میں جلوہ گر ہوا۔

رسالت و مشن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ:

الف۔ ایسی قیادت کا سلسلہ جاری رہے جو رسالت کے احکام نافذ کر سکے اور اسے ان لوگوں سے بچا سکے جو اسے مٹانے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔

ب۔ صحیح تربیت کا سلسلہ نسلوں تک جاری رہے اس کی ذمہ داری اس شخص پر ہو جو علمی اور نفسانی لحاظ سے انسان کامل ہو جو اخلاق و کردار میں رسول(ص) جیسا نمونہ ہو، جس کی حرکت و سکون میں رسالت کا عکس نظر آئے۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ خدائی منصوبہ تھا ۔ اس نے رسول(ص) پر یہ فرض کیا کہ رسول اپنے اہل بیت میں سے منتخب افراد کو تیار کریں اور ان کے نام اور کردار کو بیان کریں تاکہ وہ حکم خدا سے نبی(ص) کی تحریک اور خدائی ہدایت کی ذمہ داری کو قبول کر لیں رسالت الٰہیہ کو(جس کے لئے خدا نے دوام لکھدیا ہے-) جاہلوں کی تحریف سے اور خیانت کاروں کی دست برد سے بچائیں اور نسلوں کی تربیت اس شریعت کی رو سے کریں جس کی نشانیوں کو بیان کرنے اور ہر زمانہ میں جس کے اسرار و رموز کو واضح کرنے کی ذمہ داری اپنے دوش پرلی ہے یہاں تک کہ خدا انہیں زمین اور اس کی تمام چیزوںکا وارث بنا دے ۔

۱۲

یہ خدائی اور الٰہی منصوبہ رسول(ص) کی اس حدیث سے واضح ہوتا ہے:

''انّی تارک فیکم الثّقلین ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ، کتاب اللّٰه و عترتی و انّهما لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض''

میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں اگر تم ان دونوں سے وابستہ رہے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میری عترت یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوںگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) پر پہنچیں گے۔

امت کی قیادت و رہبری کے لئے نبی(ص) نے حکمِ خدا سے جن لوگوں کا تعارف کرایا تھا ان میں ائمہ اہل بیت سب سے افضل ہیں۔

بیشک اہل بیت میں سے بارہ اماموں نے رسول(ص) کے بعد اسلام کے حقیقی راستہ کی نشاندہی کی ۔ ان کی زندگی کی مکمل تحقیق و مطالعہ سے خالص اسلام کی تحریک کی پوری تصویرسامنے آتی ہے اب اس کے نقوش امت میں گہرے ہو رہے ہیں حالانکہ رسول(ص) کی وفات کے بعد اس کا جوش و ولولہ ماند پڑ گیا تھا۔ ائمہ معصومین نے امت کی روشن فکری اور اس کی طاقت کو صحیح سمت دینے کی کوشش کی اور شریعت و تحریک اور انقلاب رسول(ص) سے متعلق امت کے اندر بیداری پیدا کی حالانکہ وہ دنیا کی اس روش سے بھی نہیں ہٹے جو امت اور رہبر کے طرز عمل پر حاکم ہے۔

ائمہ معصومین کی پوری حیات اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی سنتِ رسول(ص) سے جدا نہیں ہوئے اور امت نے بھی ان سے اسی طرح استفادہ کیا جس طرح منارۂ ہدایت سے استفادہ کیا جاتا ہے یا جیسے اس چراغ سے استفادہ کیا جاتا ہے جس کو راستہ چلنے والوں کے لئے سر راہ رکھ دیا جاتا ہے پس وہ خدا اور اس کی رضا کی طرف راہنمائی کرنے والے، اس کے حکم پر ثابت و پابند ، اس کی محبت میں کامل اور اس کی ملاقات کے شوق میں گھلنے والے اور کمالِ انسانی کی چوٹیوں پر پہنچنے کے لئے سبقت لے جانے والے ہیں۔

۱۳

ان کی زندگی جفا کاروں کی جفا سے اورا طاعتِ خدا میں صبر و جہاد سے معمور ہے ۔ احکام خدا کے نفاذ کے سلسلہ میں انہوں نے بے مثال ثابت قدمی اور استقلال کا ثبوت دیا اور پھر ذلت کی زندگی قبول نہ کرتے ہوئے عزت کی موت قبول کر لی یہاں تک کہ ایک عظیم جنگ اور جہاد اکبر کے بعدخدا سے جا ملے۔

مورخین اور صاحبان قلم ان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بیان نہیں کر سکتے اور یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم نے ان کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کر لیاہے ظاہر ہے کہ ہماری یہ کاوش بھی ان کی زندگی کے بعض درخشاں پہلوئوں ہی کو پیش کرے گی۔ ہم نے ان کی سیرت و کردار اور موقف کے انہیں گوشوں کو بیان کیا ہے جو مورخین نے تحریر کئے ہیں۔

ہاں ہم نے ان کے منابع و مصادر کا مطالعہ کیا ہے ۔امید ہے کہ خدا اس کے ذریعہ فائدہ پہنچائے گا وہی تو فیق دینے والا ہے۔

اہل بیت کی رسالتی تحریک خاتم النبیین رسول(ص) اسلام محمد بن عبد اللہ سے شروع ہوتی ہے اور خاتم الاوصیاء محمد بن حسن العسکری حضرت مہدی منتظر (خدا ان کے ظہور میں تعجیل کرے اور ان کے عدل سے زمین کو منورکرے)پر منتہی ہوتی ہے۔

یہ کتاب رسول مصطفیٰ حضرت محمد(ص) بن عبد اللہ کی حیات سے مخصوص ہے کہ جنہوں نے اپنی فردی اور اجتماعی زندگی کے ہر موڑ پر اور حالات کی سیاسی و اجتماعی پیچیدگی میں اسلام کے ہر پہلو کو مجسم کر دکھایا اور اسلام کے مثالی اقدار کی بنیادوں کو فکر و عقیدہ کی سطح پر بلند کیا اور اخلاق و کردار کے آفاق پر اونچا کیا۔

ہم یہاں جناب حجة الاسلام و المسلمین سید منذر الحکیم حفظہ اللہ کی زیر نگرانی کام کرنے والی ہیئت تحریریہ اور ان تمام برادران کا شکریہ ادا کر دینا ضروری سمجھتے ہیں جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں حصہ لیاہے ہم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس مجموعے کی تکمیل کی توفیق مرحمت فرمائی وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین مددگار ہے ۔

مجمع عالمی اھل البیت علیہم السلام

قم المقدسہ

۱۴

پہلا باب

مقدمہ

سیرت و تاریخ کی تحقیق کے بارے میں قرآن کا نظریہ

پہلی فصل

خاتم النبیین (ص) ایک نظر میں

دوسری فصل

بشارت

تیسری فصل

خاتم النبیین (ص)کے اوصاف

۱۵

مقدمہ

سیرت و تاریخ کی تحقیق کے بارے میں قرآن کا نظریہ

قرآن مجید نے انبیاء کی سیرت کو پیش کرنے پر خاص توجہ دی ہے ان کی سیرت کو پیش کرنے میں قرآن کا اپنا خاص اسلوب ہے ۔

ان برگزیدہ افراد کی سیرت کو پیش کرنے کے لحاظ سے قرآن مجید کا یہ اسلوب کچھ علمی اصولوں پر قائم ہے ۔

قرآن مجید لہجۂ ہدایت میں بات کرتا ہے ، جو انسان کی اس کے شایان شان کمال کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، اور تاریخی حوادث کے ایک مجموعہ کے لئے کچھ حقیقت پر مبنی مقاصد کو مد نظر رکھتا ہے ، یہ حوادث فردی و اجتماعی زندگی میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ممکن ہے یہ علوم و معارف کے ان دروازوں کے لئے کلید بن جائیں جو انسان کے تکاملی سفر میں کام آتے ہیں۔

ان مقاصد تک پہنچنے کے لئے قرآن مجید نے وسیلے معین کئے ہیں چنانچہ وہ عقل اور صاحبان عقل کو مخاطَب قرار دیتا ہے اور انسان کے سامنے نئے آفاق کھول دیتا ہے،وہ فرماتا ہے:

۱۔( فاقصص القصص لعلهم یتفکرون ) ( ۱ )

آپ قصے بیان کر دیجئے ہو سکتا ہے یہ غور کریں۔

____________________

۱۔اعراف: ۱۷۶ ۔

۱۶

۲۔( لقد کان فی قصصهم عبرة لاولی الالباب ) ( ۱ )

یقینا ان کے قصوں میں صاحبان عقل کے لئے عبرت ہے ۔

بیشک گذشتہ قوموں کی تاریخ اور راہبروں کی سیرت کے بارے میں غور کرکے عبرت حاصل کرنا چاہئے یہی دونوں تاریخ کے بارے میں قرآنی روش کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔

واضح رہے کہ سارے مقاصد انہیں دونوں میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی دوسرے مقاصد ہیں جن کی طرف خدا کے اس قول میں اشارہ ہوا ہے:

( ما کان حدیثا یفتریٰ ولکنّ تصدیق الّذی بین یدیه و تفصیل کل شیء و هدی و رحمة لقومٍ یومنون ) ( ۲ )

یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو گڑھ لیا جائے قرآن گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اس میں مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

( وکلاً نقص علیک من انباء الرسل ما نثبت به فواد و جائک فی هذه الحق و موعظة و ذکریٰ للمومنین ) ( ۳ )

ہم آپ سے پہلے رسولوں کے قصے بیان کرتے رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ آپ کے دل کو مضبوط رکھیں، اور ان قصوں میں حق، نصیحت اور مومنین کے لئے عبرت ہے ۔

انبیاء و مرسلین کی خبروں کو پیش کرنے اور ان کے واقعات کو بیان کرنے کے لئے ہر آیت میں چار مقاصد بیان ہوئے ہیں۔

____________________

۱۔ یوسف:۱۱۱۔

۲۔ یوسف:۱۱۱ ۔

۳۔ہود:۱۲۰۔

۱۷

قرآن مجید اپنے منفرد تاریخی اسلوب میں مذکورہ چار اصولوں پر اعتماد کرتا ہے :

۱۔ حق

۲۔ علم

۳۔گردش زمانہ کا ادراک

۴۔ اس پر پورا تسلط

قرآن مجید جن تاریخی مظاہر اور ماضی و حال کے اجتماعی حوادث کو بیان کرتا ہے ان میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ قرآن نے ان کو حق اور علم کے ساتھ بیان کیا ہے ، خیال و خرافات کی بنیاد پر نہیں۔

خدا نے اس قول کے ذریعہ ان دونوں اصولوں کی تاکید کی ہے ،( ان هذا لهو القصص الحق... ) ( ۱ )

بیشک یہ برحق قصے ہیں۔

اور سورۂ اعراف کے آغاز میں فرماتا ہے :

( فلنقصّنّ علیهم بعلم وما کنا غائبین ) ( ۲ )

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ ہم جن واقعات کو بیان کر رہے ہیں وہ ہمارے سامنے رونما ہوئے ہیں۔

ان تمام باتوں کے علاوہ واقعات کے تجزیہ و تحلیل اور اس سے بر آمد ہونے والے نتیجہ میں قرآن مجید کا ایک علمی نہج ہے ایک طرف تووہ تحقیق و استقراء پر اعتماد کرتا ہے دوسری طرف استدلال کا سہارا لیتا ہے ۔

جب قرآن مجید عام طریقہ سے انبیاء کی حیات کو پیش کرتا ہے تو انہیں ایک صف میں قرار دیتا ہے ، سب کو

____________________

۱۔ آل عمران: ۶۲۔

۲۔ اعراف:۷۔

۱۸

ایک دوسرے کے برابر کھڑا کرتا ہے ، یہ اسلام کی عام روش ہے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( ان الدّین عند اللّه الاسلام ) ( ۱ )

پھر اولوالعزم انبیاء میں سے ہر ایک کی سیرت کی گہرائی میں جاتا ہے تاکہ ان کی سیرت کے ان پہلوئوں کو بیان کر دے جن میں وہ ایک دوسرے سے جدا ومنفرد ہیں اور ان کو پہلے والوں سے متصل کر دے اور ان کی سیرتوں سے ملحق ان حوادث کو پہچان لے جو حیات انسانی کے ساتھ جاری روش رسالت سے تعلق رکھتے ہیں۔

تاریخی بحث کا فطری یہ خاصہ ہے ، اس میں تحریف ہو جاتی ہے ، کہیں ایہام و چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے کبھی تاریخی حقائق پر پردے ڈال دئے جاتے ہیں یا دھیرے دھیرے حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے اور پھر اتنی واضح ہو جاتی ہے کہ جس سے انسانی معاشرہ تغافل نہیں کر پاتا ہے اور حقائق سے آنکھیں بند کر کے آگے نہیں بڑھ پاتا ہے ۔

سورۂ یوسف کی ۱۱۱ویں آیت میںاسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا کہ تاریخی حقائق میں مبالغہ آرائی، افتراء اور بغیر علم کے بحث و تحقیق کا امکان ہے ، لیکن جس حق پر، پردہ ڈال دیا گیاہے وہ کسی نہ کسی زمانہ میں ضرور ظاہر ہوگا۔

یہاں سے قرآنی مکتب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کے جو یا انسان کو ایسے متعلقہ اسلحہ سے لیس کر دے جو مکمل طریقہ سے حقیقت کا انکشاف کر دے۔

یقینا قرآن نے ایسا محکم و ثابت نظر یہ پیش کیاہے کہ جس سے فکر انسانی کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھ سکتی اس نظریہ کو محکمات اور امُّ الکتاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہی فکرِ انسانی کے لئے ثابت ،ناقابل تغیراور واضح حقائق ہیں؛ ان میں کسی شک و تردیدشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔

یہی محکم و ثابت حقائق فکر انسان کے لئے ہمیشہ وسیع زاوئیے اور بنیادی چیزیں پیش کرتے ہیں یہ حقائق ایسی چیزوں پر مشتمل ہیں کہ جو مادہ کی گرفت اور اس کی حد سے باہر ہیں۔ کیونکہ قرآن مبہم اورمتنازعہ پذیر

____________________

۱۔عمران:۱۹۔

۱۹

پذیرچیزوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہونے کو بھی جائز نہیں سمجھتا ہے ۔

قرآن مجید اپنے ذہین قاریوںکو دو ر استوں کی طرف ہدایت کرتا ہے ایک یہ کہ وہ مبہم اور متنازعہ چیزوں کے بارے میں کیا کرے تاکہ انسان ایسے واضح نتیجہ پر پہنچ جائے جو معیار قرار پائے دوسرے فکر انسانی کے سامنے آنے والی ہر چیز سے نمٹنے کے لئے ایک قاعدہ پیش کرتا ہے یہ اصل و قاعدہ ہر نئی چیز سے نمٹنے کے لئے جداگانہ صورت پیش کرتا ہے اور ذہنِ انسان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پیش آنے والی چیز کے لحاظ سے وہ اپنا موقف اختیار کرے۔

خداوند عالم نے اس جانب اشارہ کرنے کے بعد کہ قرآن وہ فرقان ہے جسے اللہ نے اپنے امین رسول(ص) پر نازل فرمایا ہے ۔یہ ارشاد فرمایا ہے:

( هو الّذی انزل علیک الکتاب منه آیات محکمات هن امُّ الکتاب و أُخَرُ متشابهات فامّا الّذین فی قلوبهم زیغ فیتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاویله وما یعلم تاویله اّلا اللّٰه و الرّاسخون فی العلم یقولون آمنا به کل من عند ربنا و ما یذکر الا اولوا الالباب ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هدیتنا و هب لنا من لدنک رحمة انک انت الوهاب ) ( ۱ )

وہ خدا وہی ہے جس نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کی آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہے اور کچھ متشابہہ ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کی پیروی کرتے ہیں تاکہ فتنے بھڑکائیںاور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا اور ان لوگوں کو ہے جو علم میں رسوخ رکھتے ہیں وہ تو یہی کہتے ہیں: ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ سب آیتیں تو خدا ہی کی طرف سے آئی ہیں، (لیکن)نصیحت تو صاحبان عقل ہی اخذ کرتے ہیں، پروردگارا ہم سب کو ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوںکو کج نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا کر بیشک تو بڑا فیاّض ہے ۔

____________________

۱۔ آل عمران: ۷ و ۸۔

۲۰