منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)0%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی (گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 130023
ڈاؤنلوڈ: 5739

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130023 / ڈاؤنلوڈ: 5739
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

رسول(ص) جزیرہ عرب کے شمالی علاقہ کے سرداروں کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ طرفین میں سے کوئی بھی کسی پر حملہ و زیادتی نہیں کرے گا ۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خالد بن ولید کو دومة الجندل کی طرف بھیجا کیونکہ وہاں کے سرداروں سے یہ خوف تھا کہ وہ دوسرے حملہ میں کہیں روم کا ساتھ نہ دیں مختصر یہ کہ مسلمانوں نے وہاں کے حاکم کو گرفتار کر لیا اور بہت سا مال غنیمت ساتھ لائے۔( ۱ )

رسول(ص) کے قتل کی کوشش

مقام تبوک میں دس بارہ روز گزارنے کے بعد رسول(ص) اور مسلمان مدینہ کی طرف واپس لوٹے جن لوگوں کا خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہیں تھا ان کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ کیا اور انہوں نے رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور یہ منصوبہ بنایا کہ جب آپ(ص) کا ناقہ ان کے پاس سے گذرے گا تو اسے بھڑکا دیں گے تاکہ آپ(ص) کو گھاٹی میں گرا دے۔

جب یہ لشکر-مدینہ و شام کے درمیان-مقام عقبہ پر پہنچا تو رسول(ص) نے یہ فرمایا:''من شاء منکم ان یاخذ بطن الوادی فانه اوسع لکم'' جو تم میں سے وادی کے بیچ سے جانا چاہتا ہے وہاں سے چلا جائے کہ وہ تمہارے لئے زیادہ کشادہ ہے ۔ چنانچہ لوگوں نے وادی کا راستہ اختیار کیا اور آپ(ص) عقبہ والے راستہ پر چلتے رہے، حذیفہ بن یمان آپ(ص) کے ناقہ کی مہارپکڑے ہوئے تھے اور عمار یاسر اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے، رسول(ص) نے چاند کی روشنی میں کچھ سواروں کو دیکھا جو اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے اور پیچھے سے آہستہ آہستہ ناقہ کی طرف بڑھ رہے تھے، یہ دیکھ کر رسول(ص) کو غیظ آگیا آپ(ص) نے انہیں پھٹکارا اور حذیفہ سے فرمایا: ان کی سواریوں کے منہ پر مارو ! اس سے ان پر رعب طاری ہو گیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کو ہمارے دل کی حالت کا علم ہو گیا اور ہماری سازش بے نقاب ہو گئی لہذا وہ دیکھتے ہی دیکھتے عقبہ سے بھاگ گئے تاکہ لوگوں میں گم ہو جائیں اور ان کی شناخت نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۶۶ بحار الانوارج۲۱ص۲۴۶۔

۲۰۱

حذیفہ نے رسول(ص) سے درخواست کی کہ کسی کو ان کے تعاقب میں بھیج کر انہیں قتل کرا دیجئے کیونکہ انہوں نے ان کی سواریوں کو پہچان لیا تھا لیکن رسول(ص) رحمت نے انہیں معاف کر دیا اور ان کے معاملہ کو خدا پر چھوڑ دیا۔( ۱ )

جنگ تبوک کے نتائج

۱۔مسلمان ایک بڑی منظم طاقت بن کر ابھرے، ایسی قوت جو مضبوط عقیدہ کے حامل کو ملتی ہے، اس سے مضافات کی حکومتوں اور دیگر ادیان کو خوف لاحق ہوا یقینا اسلامی شہروں سے باہر، اور ان کے اندر کی طاقتوں کے لئے یہ حقیقی خطرہ تھاجس سے بچنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو نہ چھیڑیں۔

۲۔ مسلمانوں نے شمال کے علاقے کے سرداروں سے معاہدہ کرکے اس علاقہ کو محفوظ بنا لیا تھا۔

۳۔ اسلحہ و تعداد کے لحاظ سے بڑی فوج تیار کرکے مسلمانوں نے اپنی طاقت سے استفادہ کیا، تنظیم و آمادگی کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ ہوا، تبوک کی طرف یہ سفر میدان مبارزہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے مرادف تھا تاکہ آئندہ اس سے استفادہ کریں۔

۴۔ غزوہ تبوک مسلمانوں کی روحانیت و معنویت کا امتحان اور منافقین کو مسلمانوں سے جدا کرنے کے لئے تھا۔

۵۔ مسجد ضرار

یقینارسول(ص) آسان شریعت اور دینِ توحید لائے تھے، خدائی دستورات کے مطابق صالح اور صحیح سالم معاشرہ وجود میں لانے کے لئے ، سر فروشانہ طریقہ سے کوشاں تھے، انسان کو شرک کی نجاست، شیطانی وسوسوں ،نفسیاتی بیماریوں سے نجات دلانے کے لئے ،آپ(ص) نے بہت رنج و غم اٹھائے اور آپ کومتعدد جنگیں لڑنا پڑیں۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص۱۰۴۲، مجمع البیان ج۳ ص ۴۶، بحار الانوار ج۲۱ ص ۲۴۷۔

۲۰۲

بعض منافقین کے دل میں بغض وحسد کی چنگاری بھڑک اٹھی اور انہوں نے مسجد ''قبا'' کے مقابلہ میں ایک مسجد بنا ڈالی اور یہ ظاہر کیا کہ اس میں، ضرورت مند بارش وغیرہ کی راتوں میں نماز پڑھا کریںگے وہ رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور یہ درخواست کی کہ اس مسجد میں نماز پڑھئے اس سے ان کا مقصد اپنے عمل پر شریعت کی مہرلگوانا تھا، چونکہ رسول(ص) تبوک کی طرف روانگی کیلئے، تیاری کررہے تھے اس لئے ان کی درخواست منظور کرنے میں آپ(ص) نے تاخیر کی ، جب تبوک سے واپس تشریف لائے تو خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھئے گا، کیونکہ اس سے مسلمان میں تفرقہ پڑجائیگا اور امت کو نقصان پہنچے گا کتنا فرق ہے ان دو مسجدوںکے درمیان جن میں سے ایک کی بنیاد تقوے پر رکھی گئی ہے اور دوسری مسلمانوںکو نقصان پہنچا نے کے لئے بنائی گئی ہے اسی بنا پر رسول(ص) نے اسے منہدم کرنے کا حکم دیدیا۔( ۱ )

۶۔ وفود کا سال

جزیرہ نمائے عرب پر اسلام کا اقتدار مسلم ہو گیا، رسول(ص) قوت اور جنگ کا سہارا مجبوری میں ڈرانے کے بعد لیتے تھے مسلمانوں کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں، شرک کی طاقتیں حق کو نہیں سمجھتی تھیں وہ طاقت کے استعمال اور ڈرانے دھمکانے سے ہی راہ راست پہ آئی تھیں۔

جب مسلمان اپنی حکومت کے پائے تخت-مدینہ منورہ-واپس لوٹ آئے تو رسول(ص) نے کچھ دستے روانہ کئے تاکہ وہ شہروں کو شرک و بت پرستی کے مرکزوں سے پاک کریں۔

مسلمانوں کی طاقت اور ان کی پے در پے فتح سے جزیرہ نما عرب کے سردار اسلام کی ندا کھلے کانوں سن رہے تھے اور اس کے مقاصد و ہدایت کو بخوبی سمجھ رہے تھے لہذا ان کے وفود مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ رسول(ص) کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کریں، اس لئے اس سال کو ''عام الوفود'' کہتے ہیں۔( ۲ ) رسول(ص) ان ک

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲۰ ص ۵۳۰، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۵۳۔

۲۔ سیرت نبویہ، ابن ہشام: ہجرت کے نویں سال میں اس کا ذکر کیا ہے اور اسے سنة الوفود کے نام سے یاد کیا ہے ۔

۲۰۳

استقبال کرتے تھے ان کے ساتھ نیکی کرتے تھے اور ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجتے تھے جو انہیں قرآن اور شریعت اسلام کے فرائض کی تعلیم دیتا تھا۔

قبیلۂ ثقیف کا اسلام لانا

خدائی فتح و نصرت نے ہر شخص پر یہ فرض کر دیا کہ وہ اپنے امور کے بارے میں غور کرے اور اسلام کے سلسلہ میں اپنی عقل کو حاکم بنائے۔ یہ رسول(ص) کی حکمتِ بالغہ تھی کہ جب طائف والوں نے اپنے شہر میں داخل نہیں ہونے دیا تھا تو رسول(ص) نے فتح طائف کے لئے مہلت دیدی تھی اور آج وہ خود اپنے وفود بھیج رہے ہیں تاکہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں جبکہ پہلے انہوں نے شدید دشمنی اور مخالفت کی تھی اور اپنے سردار، عروہ بن مسعود ثقفی کو اس جرم میں قتل کر دیا تھا کہ وہ خود اسلام قبول کرکے ان کے پاس گیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔

رسول(ص) نے ثقفی وفد کو خوش آمدید کہا، مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ان کے لئے ایک خیمہ نصب کر دیااور ان کی میزبانی کے فرائض خالد بن سعید کے سپرد کئے۔ اس کے بعد انہوں نے رسول(ص) سے چند شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں گفتگو کی وہ شرطیں یہ تھیں: کچھ زمانہ تک ان کے قبیلے کا بت نہ توڑا جائے، آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ خالص توحید کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں ہے ان لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنی شرطیں ختم کر دیں بعد میں انہوں نے یہ کہا: ہم اسلام قبول کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات سے معاف رکھا جائے کہ اپنے بت خود توڑیں اسی طرح یہ شرط بھی رکھی کہ ہمیں نماز سے معاف رکھا جائے رسول(ص) نے فرمایا:''لا خیر فی دین لا صلٰوة فیه'' اس دین کا کیا فائدہ جس میں نماز نہیں۔ مختصر یہ کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ وفد ایک مدت تک رسول(ص) کے ساتھ رہا اور احکام دین کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے طائف کے بت توڑنے کیلئے، ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۵۳۷، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۶ ۔

۲۰۴

۷۔ فرزندِ رسول(ص) ، حضرت ابراہیم کی وفات

اسلام کی کامیابی اورپیغامِ رسالت کی توسیع سے رسول(ص) بہت خوش تھے، لوگ دین خدا میں گروہ درگروہ داخل ہو رہے تھے لیکن جب آپ(ص) کے فرزند جناب ابراہیم دوسرے سال میں داخل ہوئے تو وہ بیمار ہو گئے ان کی والدہ جناب ماریہ نے دیکھا کہ وہ مریض ہیں اور کسی بھی چیز سے انہیں افاقہ نہیں ہو رہا ہے تورسول(ص) کو خبر دی گئی کہ بیٹا احتضار کی حالت میں ہے ، آپ(ص) تشریف لائے دیکھا کہ ابراہیم اپنی ماں کی آغوش میں جاں بلب ہیں، رسول(ص) نے انہیں لے لیا اور فرمایا:

''یا ابراهیم انا لن نغنی عنک من اللّه شیئاً انا بک لمحزونون تبکی العین و یحزن القلب ولا نقول ما یسخط الرب ولولا انه وعد صادق و موعود جامع فان الآخر منا یتبع الاول لوجدنا علیک یا ابراهیم وجدا ً شدیداً ما وجدناه'' ۔( ۱ )

اے ابراہیم ہم تمہارے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے ، تمہارے غم میں ہماری آنکھیں اشکبار اور دل غم زدہ ہیں لیکن ہم ایسی بات ہر گز نہیں کہتے جو خدا کے غضب کا سبب ہو اگر خدا کا سچا وعدہ نہ ہوتا تو اے ابراہیم ہم تیرے فراق میں اس سے زیادہ گریہ کرتے اور بہت زیادہ غمگین ہوتے، اور ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔

رسول(ص) کے چہرہ اقدس پر غم و الم کے آثار ظاہر ہو گئے، تو بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول(ص)! کیا آپ(ص) نے ہمیں ایسی باتوں سے نہیں روکا ہے تو آپ نے فرمایا:

''ما عن الحزن نهیت و لکنی نهیت عن خمش الوجوه و شق الجیوب ورنة الشیطان'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۳۱۱، بحار الانوار ج۲۲ ص ۱۵۷۔

۲۔سیرت حلبیہ ج۳ ص ۳۱۱۔

۲۰۵

میں نے تمہیں عزیزوں کا غم منانے سے نہیں روکا ہے ہاں چہرے پر طمانچے مارنے، گریبان چاک کرنے اور شیطان کی طرح چیخنے چلّانے سے منع کیا ہے ۔

ایک روایت یہ ہے کہ آپ(ص) نے یہ فرمایا:

''انما هذا رحمة و من لا یرحم لا یرحم'' ( ۱ )

یہ تو بس رحمت ہے اور جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

خدا کی نظر میں نبی (ص) کی بڑی منزلت ہے اور آپ(ص) نے کتنے ہی معجزات دکھائے ہیں جن کے سبب لوگ آپ(ص) پر ایمان لائے ہیں لیکن جب آپ(ص) کے فرزند جناب ابراہیم کی وفات کے روز سورج کو گہن لگا تو بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ ان کی موت کے باعث سورج کو گہن لگا ہے ۔

رسول(ص) نے اس گمان کی نفی فرمائی اور اس خوف سے کہ کہیں یہ سنت نہ بن جائے اور جاہل اس کے معتقد نہ ہو جائیں فوراً فرمایا:

''ایها النّاس ان الشمس و القمر آیتان من آیات اللّه لا یکسفان لموت احد ولا لحیاته'' ۔( ۲ )

اے لوگو! چاند سورج خدا کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو کسی کی موت و حیات پر گہن نہیں لگتا ہے ۔

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۲ ص ۱۵۱۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۸۷۔

۲۰۶

تیسری فصل

جزیرہ نما عرب سے بت پرستی کا صفای

۱۔ مشرکین سے اعلانِ برائت

جب جزیرہ نما عرب میں اسلامی عقیدے اور شریعتِ سہلہ کا فروغ ہو گیا اور بہت سے لوگوں نے اسے قبول کر لیا تو وہاں شرک و بت پرستی پر چند ہی لوگ قائم رہے وہاں صریح طور پر ایہ اعلان کرنا ضروری تھا کہ عبادی و سیاسی مناسک میں شرک و بت پرستی کا مظاہرہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔

اب وقت آ گیا تھا کہ اسلامی حکومت ہر جگہ اپنے نعروں اور شعار کا اعلان کرے، نرمی اور تالیف قلوب کا زمانہ ختم ہو چکا تھا گذشتہ دور اس بات کا مقتضی تھاکہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔

اس اعلان کے لئے رسول(ص) نے زمانہ کے لحاظ سے قربانی کا دن اور جگہ کے اعتبار سے منیٰ( ۱ ) کو منتخب کیا اور ابوبکر کو سورۂ توبہ( ۲ ) کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لئے مقرر کیا گیا۔یہ آیتیں اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تھیں ان کے ضمن میں تمام مشرکین سے صریح طور پر برائت کا اعلان تھا، برائت کی شقیں درج ذیل ہیں:

۱۔ کافر جنت میں نہیں جائیگا۔

۲۔ برہنہ حالت میں کسی کو خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرنے دیا جائیگا۔( یہ جاہلیت کی رسم تھی)

۳۔ اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج نہیں کرنے دیا جائے گا۔

____________________

۱۔دس ذی الحجہ ۹ھ۔

۲۔سورۂ توبہ ۱۔۱۳۔

۲۰۷

۴۔ جس کا رسول(ص) سے معاہدہ ہے وہ اپنی مدت پر ختم ہو جائیگا لیکن جس کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے اس کے بعد دار الاسلام میں اگر مشرک پایاجائیگا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اسی اثنا میں رسول(ص) پر وحی نازل ہوئی:''انّه لا یؤدِّی عنک الا انت او رجل منک'' اس پیغام کو آپ(ص) یا وہ شخص پہنچا سکتا ہے جو آپ(ص) سے ہو۔ پس آنحضرت (ص) نے حضرت علی کو طلب کیا اور فرمایا: عضباء ناقہ پر سوار ہو کر ابو بکر کے پاس جائو اور ان سے وہ پیغام لے لو اور اسے تم لوگوں تک پہنچائو۔( ۱ )

علی بن ابی طالب حاجیوں کے مجمع میں کھڑے ہوئے اور ہمت و جرأت کے ساتھ خدا کے بیان (پیغام)کو پڑھا ہر چیز کو واضح طور سے بیان کیا، لوگوں نے اسے کھڑے ہو کربہت توجہ اور خاموشی کے ساتھ سنا مشرکین پر اس اعلان کا یہ اثر ہوا کہ وہ فرمانبردار ہو کر رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

۲۔ نصارائے نجران سے مباہلہ

نصارائے نجران کو رسول(ص) نے خط لکھ کر اسلام کی طرف دعوت دی، ان کے سردار اور صاحبان حل و عقد اس خط کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لئے جمع ہوئے لیکن کسی خاص و قطعی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے کیونکہ ان کے پاس ایسی تعلیمات کا علم تھا جو جناب عیسیٰ کے بعد ایک نبی (ص) کی آمد کی تاکید کرتے تھے اور محمد(ص) کے معجزات و افعال اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ آپ نبی (ص) ہیں۔ اس لئے انہوں نے یہ طے کیا کہ نبی (ص) کے پاس ایک وفد بھیجا جائے جو ان سے گفتگو کرے۔

یہ وفد رسول(ص) کے پاس پہنچا لیکن رسول(ص) نے ان کے ظاہر کو دیکھ کر انہیں کوئی اہمیت نہ دی یہ بھی بت پرستوں کی وضع قطع میں تھے۔ حر یرو دیبا کی ردا ڈالے ہوئے، سونا پہنے ہوئے اور گردنوں میں صلیب لٹکائے ہوئے تھے، دوسرے دن انہوں نے اپنی وضع قطع بدلی اور پھر حاضر ِ خدمت ہوئے تو رسول(ص) نے انہیں خوش آمدید کہا، ان کا احترام کیا اور انہیں ان کے مذہبی امور بجالانے کی سہولت فراہم کی۔( ۲ )

____________________

۱۔الکافی ۱/۳۲۶، الارشاد ۳۷، الواقدی ۳/۱۰۷۷، خصائص النسائی ۲۰، صحیح ترمذی۲/۱۸۳، مسند احمد ۳/۳۸۳، فضائل الخمسہ من الصحاح الستة۲/۳۴۳۔

۲۔سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۱، سیرتِ نبویہ ج۱ ص ۵۷۴۔

۲۰۸

اس کے بعد ان کے سامنے اسلام پیش کیا، قرآن مجید کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی لیکن انہوں نے قبول نہ کیا بہت زیادہ بحث و مباحثہ ہوا آخر کار رسول(ص) نے فرمایا کہ اب میں تم سے مباہلہ کرونگا یہ بات آپ(ص) نے حکم خدا سے کہی تھی اگلے روز مباہلہ کرنے پر اتفاق ہو گیا۔

حکم خدا کی اطاعت میں ان سے مباہلہ کے لئے رسول(ص) اس طرح بر آمد ہوئے کہ حسین کو(گود میں) اٹھائے اور حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپ(ص) کے پیچھے آپ(ص) کی بیٹی فاطمہ اور ان کے بعد آپ(ص) کے ابن عم علی بن ابی طالب تھے اس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے :

( فمن حاجک فیه من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتهل فنجعل لعنة اللّه علیٰ الکاذبین ) ( ۱ )

جب تمہارے پاس علم آ چکا تو اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں تم سے حجّت کرے تو تم ان سے یہ کہدو کہ تم اپنے بیٹوں کو لائو ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لائو ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنے مردوں کو لائو ہم اپنے مردوں کو لائیں پھر مباہلہ کریںاور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔

ان کے علاوہ رسول(ص) نے مسلمانوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ نہیں لیا۔یہ مباہلہ آپ(ص) نے اس لئے کیا تھا تاکہ آپ(ص) کی نبوت و رسالت کی صداقت سب پر ثابت ہو جائے۔ اس موقعہ پر نجران کے اسقف نے کہا: اے قوم نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے یہ دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو خدا اسے اس کی جگہ سے ہٹا دے گا۔ پس ان سے مباہلہ مت کرو، ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہیں بچے گا۔

جب نصارای نجران نے رسول(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت( ان پر خدا کا درود ہو)سے مباہلہ کرنے سے انکار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

''اما اذا ابیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین و علیکم ما علیٰ المسلمین'' ۔

____________________

۱۔ آل عمران:۶۱۔

۲۰۹

جب تم نے مباہلہ سے انکار کر دیا ہے تو اسلام قبول کرو اس طرح تم نفع و ضرر میں مسلمانوں کے شریک ہو جائو گے، لیکن انہوں نے یہ بات بھی قبول نہ کی تو رسول(ص) نے فرمایا:''انی انا جزکم القتال'' میں تم سے جنگ کرونگا، انہوںنے کہا: ہم عرب سے جنگ نہیں کر سکتے ہاں ہم آپ(ص) سے اس بات پر صلح کرتے ہیں کہ اگر آپ(ص) ہم سے جنگ نہیں کریں گے اور ہمیں ہمارے دین سے نہیں پلٹائیں گے توہم ہر سال آپ(ص) کودو ہزار حلے ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں دیا کریں گے اور لوہے کی تیس زرہیں دیا کریں گے۔ رسول(ص) نے اس پر ان سے صلح کر لی۔

''و الّذی نفسی بیده ان الهلاک قد تدلی علٰی اهل نجران، ولولاعنوا لمسخوا قردة وخنازیر ولا ضطرم علیهم الوادی ناراً، ولأُ ستاصِلَ نجران و اهله حتی الطیر علیٰ رؤوس الشجر، ولما حال الحول علیٰ النصاری کلهم حتی یهلکوا فرجعوا الیٰ بلادهم دون ان یسلموا'' ( ۱ )

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ہلاکت اہل نجران سے قریب آ چکی تھی ( عذاب ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا) اگر وہ لعنت کرتے تو وہ بندر اورسور کی صورت میں مسخ ہو جاتے اور پوری وادی آگ برساتی اور اہل نجران مع اہل یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی ہلاک ہو جاتے، ایک سال کے اندر سارے نصاریٰ ہلاک ہو جاتے، وہ اسلام لائے بغیر اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔

روایت ہے کہ نصاریٰ کے سرداروں میں سے سید اور عاقب اپنے اسلام کا اعلان کرنے کے لئے تھوڑی ہی دیر بعد رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر کبیر''رازی'' ج۸ ص ۸۵۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۳۵۷۔

۲۱۰

۳۔حجة الوداع

رسول(ص) ساری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ تھے، آپ(ص)خدا کی آیتوں کو اس طرح پہنچاتے تھے کہ ان کی تفسیر اور ان کے احکام واضح طور سے بیان کرتے تھے سارے مسلمان آپ(ص) کے قول و فعل کی اقتدا کرتے تھے- ہجرت کے دسویں سال ماہ ذی القعدہ میں رسول(ص) نے فریضہ حج کی ادائیگی کا قصد کیا-اس سے قبل آپ(ص) نے حج نہیں کیا تھا، اس حج کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ مسلمان حج کے احکام سے آگاہ ہو جائیں چنانچہ ہزاروںمسلمان مدینہ آ گئے اور نبی (ص) کے ساتھ حج پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ان مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ ہو گئی، ان میں اہل مدینہ ، بادیہ نشین اور دیگر قبائل کے لوگ شامل تھے۔ یہ لوگ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن ، جاہل اور کافر تھے لیکن آج انہیں سچی محبت، اسلامی اخوت نے رسول(ص) کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ایک جگہ جمع کردیا ہے ، اس سفر میں رسول(ص) نے اپنی تمام ازواج اور اپنی بیٹی فاطمہ زہرا(ص) کو ساتھ لیا، فاطمہ (ص) کے شوہر علی بن ابی طالب کو رسول(ص) نے ایک مہم سر کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اس سفر میں آپ(ص) کے ساتھ نہیں تھے، ابو دجانہ انصاری کو مدینہ کا عامل مقرر کیا۔

مقام ذو الحلیفہ پر آپ(ص) نے احرام باندھا دو سفید کپڑے پہنے، احرام کے وقت تلبیہ کہی''لبیک الّلهم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمة لک و الملک ، لبیک لا شریک لک لبیک'' ۔

چوتھی ذی الحجہ کو رسول(ص) مکہ پہنچے، تلبیہ کہنا بند کر دیا خدا کی حمد و ثنا اور شکر بجالائے، حجر اسود کو چوما، سات مرتبہ طواف کیا۔ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور حاجیوں کو اس طرح مخاطب کیا:''من لم یسق منکم هدیا فلیحل و لیجعلها عمره و من ساق منکم هدیا فلیقم علیٰ احرامه'' تم میں سے جس شخص نے قربانی کا جانور نہیں بھیجا ہے اسے احرام کھول دینا چاہئے اور اسے عمرہ قرار دنیا چاہئے اور جس نے قربانی کا جانور بھیجا ہے اسے اپنے احرام پر باقی رہنا چاہئے۔

بعض مسلمانوں نے رسول(ص) کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا انہوںنے یہ خیال کیا کہ ہمیں وہی کام انجام دینا چاہئے جو رسول(ص) نے انجام دیا ہے اور آپ(ص) نے احرام نہیں کھولا۔ ان کی اس حرکت پر رسول(ص) ناراض ہوئے۔

۲۱۱

اور فرمایا:

''لوکنت استقبلت من امری ما استدبرت لفعلت کما امرتکم'' ( ۱ )

اگر ماضی کی طرح مستقبل مجھ پر روشن ہوتا تو میں بھی وہی کام کرتا جس کا تم کو حکم دیا ہے ۔

حضرت علی بن ابی طالب یمن سے واپسی پر مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں خدمت رسول(ص) میں حاضر ہو جائیں آپ(ص) نے قربانی کے لئے ۳۴ جانور ساتھ لئے، مکہ کے قریب پہنچے تو آپ(ص) نے شہر میں داخل ہونے کے لئے اپنے دستہ پر کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خدمت نبی(ص) میں پہنچے، یمن میں آپ کی عظیم کامیابی کی خبر سن کر اور آپ کو دیکھ کر رسول(ص) بہت مسرور ہوئے اور فرمایا:

جائیے طواف کیجئے اور اپنے ساتھیوں کی طرح مکہ میںداخل ہو جایئے، آپ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! جس نیت سے آپ(ص) نے احرام باندھا ہے میں نے بھی اسی نیت سے باندھا ہے ۔ نیز عرض کی: میں نے احرام باندھتے وقت یہ کہا تھا اے اللہ میں اس نیت کے ساتھ احرام باندھتا ہوں جس نیت سے تیرے بندے، تیرے نبی(ص) اور تیرے رسول(ص) محمد(ص) نے احرام باندھا ہے، اس کے بعد رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: اپنے دستہ میں واپس جائیے اور ان لوگوں کے ساتھ مکہ آئیے۔ جب آپ کے ساتھی خدمت رسول(ص) میں پہنچے تو انہوں نے آنحضرت(ص) سے آپ کی شکایت کی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے حضرت علی کی عدم موجودگی میں بیت المال میں غلط طریقہ سے جو تصرف کیا تھا اسے آپ نے قبول نہیں کیا تھا۔ ان کی شکایت کا آنحضرت(ص) نے یہ جواب دیا:

''ایها النّاس لا تشکوا علیاً فو اللّه انه لا خشن فی ذات الله من ان یشتکی'' ۔( ۲ )

اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو کیونکہ وہ حکمِ خدا نافذ کرنے میں کسی کی شکایت کی پروا نہیں کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۱۹۔

۲۔سیرة نبویہ ج ۲ص۶۰۳، بحار الانوارج ۲۱ص۳۵۸۔

۲۱۲

۹ ذی الحجہ کو رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور غروب آفتاب تک وہیں رہے۔ تاریکی چھا جانے کے بعد اپنے ناقہ پر سوار ہوئے اور مزدلفہ پہنچے وہاں رات کا ایک حصہ گذرا اور طلوع فجر تک مشعر الحرام میں رہے ، دسویں ذی الحجہ کو منیٰ کا رخ کیا۔ وہاں کنکریاں ماریں قربانی کی اورسر منڈوایا اس کے بعد حج کے باقی اعمال بجالانے کے لئے مکہ چلے گئے۔

اس حج کو حجة الوداع اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں رسول(ص) نے مسلمانوں کو وداع کیا ، اسی میں آپ(ص) نے یہ خبر دی کہ آپ(ص) کی وفات کا زمانہ قریب ہے ، اس حج کو ''حجة البلاغ'' بھی کہتے ہیں کیونکہ اس حج میں آپ(ص) نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے نازل ہونے والے حکم کی بھی تبلیغ کی تھی، اس کو حجة الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ رسول(ص) کا پہلا حج تھا کہ جس میں آپ(ص) نے حج کے اعمال سے متعلق اسلام کے دائمی احکام بیان فرمائے تھے۔

حجة الوداع میں رسول(ص) کا خطبہ

روایت ہے کہ رسول(ص) نے ایک جامع خطبہ دیا خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

'' یا ایها النّاس اسمعوا منی ابین لکم فانی لا ادری لعلی لا القاکم بعد عامی هذا فی موقفی هذا ایها النّاس ان دمائکم و اموالکم علیکم حرام الیٰ ان تلقوا ربکم کحرمة یومکم هذا فی شهرکم هذا فی بلد کم هذا الاهل بلغت؟ الّلهم اشهد فمن کانت عنده امانة فلیؤدها الیٰ الذی ائتمنه و ان ربا الجاهلیة موضوع، و ان اول رباً ابدأ به ربا عم العباس بن عبد المطلب ان مآثر الجاهلیة موضوعة غیر السدانة و السقایة، و العمد قود و شبه العمد ما قتل بالعصا و الحجر ففیه مائة بعیر فمن زاد فهو من اهل الجهالیة

۲۱۳

ایها النّاس ان الشیطان قد یئس ان یعبد فی ارضکم هذه و لکنه رض ان یطاع فیما سویٰ ذلک مما تحتقرون من اعمالکم

ایها النّاس انما النسء زیادة ف الکفر یضل به الذین کفروا یحلونه عاماً و یحرمونه عاماً لیواطئوا عدة ما حرم الله و ان الزمان استدار کهیئته یوم خلق الله السموات و الارض و ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً ف کتاب الله یوم خلق السماوات والارض، منها اربعة حرم، ثلاثة متوالیات وواحد فرد:

ذو القعدة و ذو الحجة و المحرم و رجب الذ بین جمادی و شعبان الا هل بلغت؟ الّلهم اشهد

ایها النّاس ان لنسائکم علیکم حقاً و ان لکم علیهن حقاً لکم علیهن ان لا یوطئن فرشکم غیر کم ولا یدخلن احداً تکرهونه بیوتکم الا باذنکم ولا یأتین بفاحشة، فان فعلن فان اللّه قد اذن لکم ان تعضلوهن و تهجروهن ف المضاجع و تضربوهن ضرباً غیر مبرح، فان انتهین و اطعنکم فعلیکم رزقهن و کسوتهن بالمعروف، و انما النساء عندکم عوار لا یملکن لانفسهن شیئاً، اخذتموهن بامانة اللّه و استحللتم فروجهن بکلمة اللّه فاتقوا اللّه ف النساء و استوصوا بهن خیراً

ایها النّاس انما المؤمنون اخوة فلا یحل لا مرئٍ مال اخیه الا عن طیب نفس الا هل بلغت؟ الّلهم اشهد فلا ترجعوا بعد کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض؛ فانی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم به لن تضلوا کتاب اللّه و عترت اهل بیت الا هل بلغت ؟ اللهم اشهد

ایها النّاس ان ربکم واحد، و ان اباکم واحد، کلکم لآدم، و آدم من تراب، اکرمکم عند اللّه اتقاکم، لیس لعرب علی عجم فضل الا بالتقوی، الا هل بلغت؟ قالوا نعمقال(ص): فلیبلغ الشاهد منکم الغائب( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج ۲۱، ص ۴۰۵۔

۲۱۴

ایها النّاس ان اللّه قد قسم لکل وارث نصیبه من المیراث ولا یجوز لوارث وصیة ف اکثر من الثلث، و الولد للفراش و للعاهر الحجر، من ادع الیٰ غیر ابیه او تولی غیر موالیه فعلیه لعنة اللّه و الملائکة و النّاس اجمعین ، لا یقبل اللّه منه صرفاً ولا عدلاً... و السلام علیکم و رحمة اللّه ۔( ۱ )

اے لوگو! میری بات سنو تاکہ تمہارے سامنے یہ واضح کر دوں مجھے لگتا ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ تم لوگوں سے شاید میری ملاقات نہ ہو۔ اے لوگو! تمہارا خون اور تمہاری عزت تمہارے لئے مرتے دم تک اسی طرح محترم ہے جیسے تمہارے اس شہر میں آج کا دن محترم ہے۔ کیا میں نے بخوبی تم تک الٰہی پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ! گواہ رہنا۔ پس اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہو تو اسے اس شخص کے پاس پہنچا دے جس نے امانت رکھی تھی، زمانہ جاہلیت کا ہر سود باطل ہے سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سود کو لغو قرار دیتا ہوں اور جو خون زمانۂ جاہلیت میں بہایا گیا تھا اس کا انتقام و قصاص وغیرہ بھی باطل ہے اور سب سے پہلے میںعامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کی سزا کو لغو قرار دیتا ہوں اور خانۂ کعبہ کی دربانی و کلید برداری اور حاجیوں کو سیراب کرنے کے علاوہ کوئی کام باعثِ افتخار نہیں ہے جان بوجھ کر قتل کرنے اور عمداً شبہ کی وجہ سے لاٹھی یا پتھر سے مار ڈالنے کی دیت سو اونٹ ہیں اس سے زیادہ کا تعلق اہل جاہلیت سے ہے ۔

اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا کہ تمہاری اس سر زمین پر اس کی پوجا ہوگی لیکن وہ اس بات سے خوش ہے کہ تم بعض اعمال کو اہمیت نہیں دیتے ہو۔

اے لوگو!نسی یعنی مہینوںکو آگے پیچھے کرنا- کفر میں اضافہ کا سبب ہے ان کے ذریعہ کافر گمراہ ہوتے ہیں، کسی سال وہ اس ماہ کو حرمت کا مہینہ قرار دیدیتے ہیں اور کسی سال اسی ماہ میں جنگ و خونریزی کو حلال سمجھ لیتے ہیں اس سے ان کا مقصدان مہینوں کے حساب کو برابر کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کو خدا نے حرام کیا ہے ،

___________________

۱۔العقد الفرید ج۴ ص ۵۷، الطبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۸۴، الخصال: ص ۴۸۷، بحار الانوار ص۲۱ ص ۴۰۵، تاریخ کی دوسری کتابوں میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

۲۱۵

بیشک زمانہ گردش کرتاہے اسی روز سے جس دن خدا نے زمین و آسمانوںکو پیدا کیا تھا اور جیساکہ خداکی کتاب میں لکھاہے زمین و آسمان کی پیدائش کے دن ہی سے خدا کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، ان میں سے چار، ذی القعدہ، ذی الحجة اور، محرم ، تین پے در پے حرمت کے ہیں رجب کا ایک مہینہ جدا ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے ۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔

اے لوگو! بیشک تمہاری عورتوںپر تمہارا حق ہے اور اسی طرح تمہاری عورتوں کا تم پر بھی حق ہے ، ان کے اوپر تمہار ا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں تمہاری اجازت کے بغیر ان لوگوںکو داخل نہ ہونے دیں جن کو تم پسند نہیں کرتے اور ناشائستہ حرکت(زنا) نہ کریں پس اگر وہ ایسا کریں تو خدا نے تمہیں حق دیا ہے کہ ان پر سختی کر و اور ان کے پاس سونا ترک کر دو (اور اگر پھر بھی نہ مانیں تو) انہیں مارو! لیکن گہری چوٹ نہ آنے پائے، پھر اگر وہ باز آجائیں اور تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو تمہارے اوپر فرض ہے کہ انہیں معمول کے مطابق روٹی کپڑا دو۔ عورتیں تمہارے پاس امانت ہیں وہ اپنے اوپر اختیار نہیں رکھتی ہیں تم نے انہیں خدائی امانت کے عنوان سے اپنے اختیار میںلیاہے اور کتاب خدا کے مطابق انہیں اپنے لئے حلال کیا ہے۔ پس ان کے بارے میں خدا سے ڈرو! اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔

اے لوگو! مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا کسی شخص پر اس کے بھائی کا مال حلال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ خوش ہو، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔ دیکھو میرے بعد کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو، کیونکہ میں نے تمہارے درمیان جو چیز چھوڑی ہے اگر تم اس سے وابستہ رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے کتاب خد ااور میری عترت وہی میرے اہل بیت ہیںکیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا ۔

اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے ، اور تمہارا باپ ایک ہے ، تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے ہیں اور خدا کے نزدیک تم میں سے وہی زیادہ مکرم ہے جو زیادہ پر ہیزگار و متقی ہے ، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوے کے ساتھ، کیا میںنے پیغام پہنچا دیا؟ سب نے کہا: ہاں، پھر فرمایا: جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیں جو یہاںموجودنہیں ہیں۔

۲۱۶

اے لوگو! میراث میںاللہ نے ہر وارث کے حصہ کومعین کر دیا ہے اور کوئی شخص ایک تہائی مال سے زیادہ کے بارے میں وصیت نہیں کر سکتا اور بچہ اس کا ہے جس کی بیوی ہے ،ز نا کار کے لئے پتھر ہے جو شخص خود کو اپنے والد کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کرے؛ اورغلام خود کو مولا کے علاوہ کسی دوسرے سے وابستہ کرے تو اس پر خدا اوراس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، خدا ایسے لوگوں کی توبہ اور فدیہ قبول نہیں کرتا ہے۔ سلام اور خدا کی رحمت ہو تم پر۔

۴۔ وصی کا تعین( ۱ )

مسلمانوں نے اپنا حج اکبر مکمل کیا وہ پروانہ کی طرح نبی (ص) کے ساتھ ساتھ تھے۔ اپنے مناسک آپ(ص) سے سیکھ رہے تھے، رسول(ص) نے مدینہ کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کیا، جب حاجیوں کا عظیم قافلہ غدیر خم کے قریب مقام ''رابغ'' میں پہنچا تو امر خدا کی تبلیغ کے لئے وحی نازل ہوئی، واضح رہے کہ حاجیوں کے قافلے یہیں سے متفرق ہو کر اپنے اپنے شہروںکی طرف روانہ ہوتے تھے۔

( یا ایّها الرّسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک و ان لم تفعل فما بلّغت رسالته و اللّه یعصمک من النّاس ) ( ۲ )

اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ(ص) پر نازل کیا جا چکا ہے اور اگر اس پیغام کو نہ پہنچایا تو گویا آپ(ص) نے رسالت کی تبلیغ ہی نہیں کی خدا آپ(ص) کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

یقینا یہ خدائی خطاب و پیغام ایک اہم چیز کا حامل تھا اور اس سے زیادہ اہم کون سی تبلیغ ہوگی کہ جس کے بارے میںرسول(ص) سے یہ کہاگیا ہے کہ اسے انجام دیں ، جس کو ابھی تک انجام نہیں دیا ہے؟ جبکہ خدا کا رسول(ص)

____________________

۱۔مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی ''الغدیر'' جلداول کا مطالعہ فرمائیں۔

۲۔ سورۂ مائدہ ۶۷۔

۲۱۷

تقریبا تیئس سال سے لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دے رہا تھا اور خدا کی آیتوں کی تبلیغ کر رہا تھا اور اس کے احکام کی تعلیم دے رہا تھا اور اس سال میں آپ(ص) نے جو تکلیف اور زحمت برداشت کی ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے کہ یہ کہا جائے:

( فما بلّغت رسالته)

اس موقعہ پر رسول(ص) نے یہ احکام صادر فرمائے: قافلوں کو روک دیا جائے تاکہ پیچھے رہ جانے والے آجائیں، اس روز اتنی شدید گرمی تھی کہ لوگ سروں اور پیروں پر کپڑا لپیٹنے پر مجبور تھے، اس جگہ پر رسول(ص) ان کے سامنے تبلیغ رسالت کو مکمل کرنااور آسمانی پیغام کی تلقین کرنا چاہتے تھے۔ خدا کی حکمت کا یہی تقاضا تھا ایسے سخت موسم اور ایسے تپتے صحرا میں تبلیغ کی تکمیل ہو،تاکہ امت کو ہمیشہ یاد رہے مرورِ زمانہ کے ساتھ ان کے ذہنوں میں اس واقعہ کی یاد تازہ رہے ۔ امت مسلمہ اس کو یاد رکھے۔

اسباب سفر کو جمع کیا گیا، اس سے منبر بنایا گیا اور مسلمانوںکو نماز پڑھانے کے بعد رسول(ص)منبر پر تشریف لے گئے ، خداوند عالم کی حمد و ثنا کی ، پھر اتنی بلند آواز میں، کہ جس کو سب سن لیں، فرمایا:

''یا ایّها النّاس یوشک ان ادعی فاجیب و انی مسؤول و انتم مسؤولون فما انتم قائلون؟ قالوا: نشهد انّک بلّغت و نصحت و جاهدت فجزاک اللّه خیراً قال (ص) الستم تشهدون ان لا الٰه الا اللّه و ان محمّداً، عبده و رسوله و ان جنته حق و ان الساعة آتیة لا ریب فیها و ان اللّه یبعث من فی القبور؟ قالوا: بلیٰ نشهد بذالک قال (ص) الّلهمّ اشهد ثم قال (ص) فانّی فرطکم علیٰ الحوض و انتم واردون علّ الحوض و ان عرضه ما بین صنعاء و بصریٰ فیه اقداح عدد النجوم من فضة فانظروا کیف تخلّفونی فی الثقلین

فنادیٰ مناد وما الثقلان یا رسول اللّه؟ قال(ص) : الثقل الاکبر کتاب اللّه طرف بید اللّه عزّ و جلّ و طرف بایدیکم فتمسکوا به لا تضلّوا والآخر الاصغر عترت و انّ الّلطیف الخبیر نبّأن انّهما لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض فسألت ذلک لهما رب فلا تقدموهما فتهلکوا ولا تقصروا عنهما فتهلکوا''

۲۱۸

اے لوگو!عنقریب مجھے دعوت دی جائے گی اور میں اسے قبول کرونگا دیکھو مجھ سے بھی سوال کیا جائیگا اور تم سے بھی باز پرس ہوگی بتائو کہ تم کیا جواب دوگے؟ انہوں نے کہا: ہم یہ گواہی دیں گے کہ آپ(ص) نے تبلیغ کی، نصیحت کی اور جہاد کیا خدا آپ(ص) کو جزائے خیر عطا کرے، پھر آپ(ص) نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے بندے اور اس کے رسول(ص) ہیں، اور جنت حق ہے، قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے اور خدا قبروں سے مردوں کو اٹھائے گا؟ سب نے کہا: ہاں! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہونچون گا تمہارا حوض کوثرپر انتظار کرونگا اور تم میرے پاس حوض کوثرپر پہنچوگے وہ اتنا چوڑا ہے جتنا صنعاء و بصریٰ کے درمیان کا فاصلہ ہے ، اس پر چاندی کے اتنے جام رکھے ہوئے ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں۔ دیکھتا ہوں تم میرے بعد ثقلین سے کیسے پیش آتے ہو۔

کسی دریافت کرنے والے نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! ثقلین کیا ہے؟ فرمایا: ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا دستِ خدا میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے ، اس سے وابستہ رہوگے تو گمراہ نہ ہوگے، اور ثقل اصغر میری عترت ہے اور لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض(کوثر) پر میرے پاس وارد ہونگے اور میں نے خدا سے ان کے لئے ہی سوال کیا ہے ۔ دیکھو!ان سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ تباہ ہو جائوگے۔

اس کے بعدآپ(ص) نے حضرت علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر اتنا بلند کیا کہ آپ(ص) کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی جب تمام لوگوں نے علی کو دیکھ لیا تو فرمایا:

''ایّها النّاس من اولیٰ النّاس بالمومنین من انفسهم؟ قالوا: اللّه و رسوله اعلم قال(ص) انّ اللّه مولای و انا مولیٰ المومنین و انا اولیٰ بهم من انفسهم فمن کنت مولاه فعلی مولاه یقولها ثلاث مرات

۲۱۹

ثم قال (ص) الّلهم وال من والاه و عاد من عاداه و احب من احبه و ابغض من ابغضه و انصر من نصره و اخذل من خذله و ادر الحق معه حیث ما دار، الا فلیبلغ الشاهد الغائب''

اے لوگو! مومنوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ کون حق تصرف رکھتا ہے ؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا: خدا اور اس کا رسول(ص) بہتر جانتا ہے ۔ آپ(ص) نے فرمایا: خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان پر میں خود ان کے نفسوں سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں، بس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، یہ جملہ آپ(ص) نے تین بار دہرایا۔

ا سکے بعد فرمایا:اے اللہ جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ، جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے دشمنی کر ، اس کی نصرت کرنے والے کی نصرت فرما اور جو اس سے الگ ہو جائے اسے چھوڑ دے، اور جدھر یہ جائے حق کو بھی ادھر موڑ دے، جو لوگ حاضر ہیں ان کو چاہئے کہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاںموجود نہیں ہیں۔

حاضر ین ابھی وہاں سے متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبریل امین وحی لیکر نازل ہوئے:

( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلاما ً دیناً ) ( ۱ ) آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔

اس کے بعد رسول (ص) نے ،دین کی تکمیل ، نعمت کے اتمام اپنی رسالت اوراپنے بعد علی کے ولی ہونے سے خدا کے راضی ہونے پر تکبیر کہی ۔

''اللّه اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بعدی'' ۔

____________________

۱۔ مائدہ: ۳۔

۲۲۰