خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں0%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 349
مشاہدے: 92190
ڈاؤنلوڈ: 3716

تبصرے:

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92190 / ڈاؤنلوڈ: 3716
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

شیریںاور خوش گوار نظر آتی ہے تو دوسرے رُخ سے تلخ اور بلا خیز ہوتی ہے ۔کوئی انسان اس کی تازگی سے اپنی خواہش پوری نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے پے درپے مصائب کی بنا پر رنج وتعب کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی شخص شام کو امن وامان کے پروں پر نہیں رہتا ہے مگر یہ کہ صبح ہوتے ہوتے خوف کے بالوں پر لاد دیا جاتا ہے ۔یہ دنیا دھو کہ باز ہے اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب دھو کہ ہے ۔یہ فانی ہے اور اس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونے والاہے ۔اس کے کسی زادراہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے ۔ اس میں سے جوکم حاصل کرتا ہے اسی کو راحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جو زیادہ کے چکّر میں پڑجاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہوجاتی ہے ۔کتنے اس پراعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیا گیا اور کتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیا گیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنا دیاگیا اور کتنے اکڑنے والے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹا دیاگیا ۔اس کی بادشاہی پلٹا کھانے والی ۔اس کا عیش مکدّر ۔اس کا شیریں شور ۔اس کا میٹھا کڑوا ۔اس کی غذاز ہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں ۔اس کازندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مندبیمار یوں کی زدپر ہے ۔اس کا ملک چھننے والا ہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والا ہے ۔اس کا مالدار بدبختیوں کا شکار ہونے والا ہے اور اس کا ہمسا یہ لُٹنے والا ہے ۔کیا تم انھیں کے گھر وں میں نہیں ہو جوتم سے پہلے طویل عمر ،پائید ارآثار اور دوررس امیدوں والے تھے ۔بے پناہ سامان مہیا کیا ،بڑے بڑے لشکر تیار کئے اور جی بھر کر دنیا کی پر ستش کی اور اسے ہر چیز پر مقدم رکھا لیکن اس کے بعد یوں روانہ ہو گئے کہ نہ منزل تک پہونچا نے والا زادراہ ساتھ تھا اور نہ راستہ طے کرانے والی سواری ۔کیا تم تک کوئی خبر پہو نچی ہے کہ اس دنیا نے ان کو بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیا ہو یا ان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزاراہو ۔؟بلکہ اُس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے ،آفتوں سے اُنھیں عاجز ودر ماندہ کردیا اور لَوٹ لَو ٹ کرآنے والی زحمتوں سے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل اُنھیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے گھروں سے کچُل ڈالا ،اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹا یا ۔تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دُنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا ،تو اس نے (اپنے تیّور بدل کر ان سے کیسی )ا جنبیّت اختیار کرلی ۔

۱۸۱

یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سے جُدا ہوکر چل دئیے ،اور اس نے انھیں بھُوک کے سوا کچھ زادِراہ نہ دیا ،اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہر نے کا سامان نہ کیا ،اور سواگھُپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا ،تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو،یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو یا اسی پر مرے جا رہے ہو ؟جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کے لئے یہ بہت برا گھر ہے ۔جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو ،کہ (ایک نہ ایک دِن)تمھیں دنیا کو چھوڑنا ہے ،اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ ''ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے ۔''انھیں لاد کر قبروں تک پہونچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انھیں سوار سمجھا جائے انھیں قبروں میں اتار دیا گیا ،مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے پتھروں سے اُن کی قبریں چن دی گئیں ،اور خاک کے کفن ان پر ڈال دئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے ۔وہ ایسے ہمسایہ ہیں جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے ہیں اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں ۔اگر بادل (جھوم کر )ان پر برسیں ،تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی ۔وہ ایک جگہ ہیں ،مگر الگ الگ ،وہ آپس میں ہمسایہ ہیں مگر دور دور ،پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں،قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے، وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں ،ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے ۔نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے ،نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے انھوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے

۱۸۲

،اور گھر بار پردیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ،ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک )ہوگئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے ۔جیسا کہ خداوندقدوس نے فرمایا ہے :

(کما بدأنا أول خلق نعیده وعداًعلینا انّا کنا فاعلین )( ۱ )

''جس طرح نے ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دو بارہ پیدا کریں گے ۔ اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کرکے رہیں گے ''

آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

( واُحذّرکم الدنیا فانهامنزل قُلعة،ولیست بدارنُجعة،قد تزیّنت بغرورها، وغرّت بزینتها،دارهانت علیٰ ربها،فخلط حلالهابحرامها،وخیرهابشرها، وحیاتهابموتها،وحلوها بمرّها،لم یصفّهاﷲ تعالیٰ لاولیائه،ولم یَضنّ بهاعلیٰ أعدائه ) ( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے ہو شیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے ۔آب ودانہ کی منزل نہیں ہے ۔یہ اپنے دھوکے ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھو کا دیتی ہے ۔اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں با لکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام ۔خیر کے ساتھ شر، زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیاہے اور نہ اسے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کو اس سے محروم رکھا ہے ۔اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے ۔اس کا جمع کیا ہو ا ختم ہوجانے والا ہے اور اس کا ملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کو ایک دن خراب ہوجانا ہے ۔بھلا اُس گھر میں کیا خوبی ہے جوکمز ور عمارت کی طرح گرجائے اور اس عمر میں کیابھلائی ہے جو زادراہ کی طرح ختم ہوجائے اور اس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہوجائے ۔

دیکھو اپنے مطلوبہ امور میں فرائض الٰہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی سے اس کے حق کے ادا

____________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۱،آیت ۱۰۴ ازسورئہ انبیائ۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۱۱۳۔

۱۸۳

کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرواپنے کانوں کو موت کی آواز سنادوقبل اسکے کہ تمہیں بلالیا جائے ''

دنیا کے سلسلہ میں ہی فرماتے ہیں :

(۔۔۔عبادﷲاُوصیکم بالرفض لهذه الدنیاالتارکة لکم وان لم تحبوا ترکها،والمبلیة لأجسامکم وان کنتم تحبون تجدیدها،فانّمامثلکم ومثلهاکسَفْرٍسلکواسبیلاً فکأنّهم قد قطعوه ۔۔۔)( ۱ )

''بندگانِ خدا !میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ اس دنیا کو چھوڑ دو جو تمہیں بہر حال چھوڑنے والی ہے چاہے تم اسکی جدائی کو پسند نہ کرو۔وہ تمہارے جسم کو بہرحال بوسیدہ کردے گی تم لاکھ اس کی تازگی کی خواہش کرو ۔تمہاری اور اسکی مثال ان مسافروں جیسی ہے جو کسی راستہ پر چلے اور گویا کہ منزل تک پہونچ گئے ۔کسی نشان راہ کا ارادہ کیا اور گویا کہ اسے حاصل کرلیا اور کتنا تھوڑا و قفہ ہوتا ہے اس گھوڑا دوڑانے والے کے لئے جو دوڑاتے ہی مقصد تک پہونچ جائے ۔اس شخص کی بقا ہی کیا ہے جس کا ایک دن مقرر ہو جس سے آگے نہ بڑھ سکے اور پھر موت تیز رفتاری سے اسے ہنکا کرلے جارہی ہو یہانتک کہ بادل ناخواستہ دنیا کو چھوڑدے ۔خبردار دنیا کی عزت اور اسکی سربلندی میں مقابلہ نہ کرنا اور اسکی زینت و نعمت کو پسند نہ کرنا اور اسکی دشواری اور پریشانی سے رنجیدہ نہ ہونا کہ اسکی عزت وسربلندی ختم ہوجانے والی ہے اور اسکی زنیت و نعمت کو زوال آجانے والا ہے اوراسکی تنگی اور سختی بہرحال ختم ہوجانے والی ہے ۔یہاں ہر مدت کی ایک انتہا ہے اور ہر زندہ کے لئے فنا ہے ۔کیا تمہارے لئے گذشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے ؟اور کیا آباء واجداد کی داستانوں میں بصیرت وعبرت نہیں ہے ؟اگر تمہارے پاس عقل ہے!کیا تم نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ جانے والے پلٹ کر نہیں آتے ہیں اور بعد میں آنے والے رہ نہیں جاتے ہیں ؟کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اہل دنیا

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۹۹۔

۱۸۴

مختلف حالات میںصبح وشام کرتے ہیں ۔کوئی مردہ ہے جس پر گریہ ہو رہا ہے اور کوئی زندہ ہے تو اسے پرسہ دیاجارہا ہے ۔ ایک بستر پر کوئی غفلت میں پڑا ہوا ہے تو زمانہ اس سے غافل نہیں اور اس طرح جانے والوں کے نقش قدم پر رہ جانے والے چلے جارہے ہیں ۔آگاہ ہوجائو کہ ابھی موقع ہے اسے یاد کرو جو لذتوں کو فنا کردینے والی ۔خواہشات کو مکدر کردینے والی اور امیدوں کو قطع کردینے والی ہے ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب کر رہے ہو اور ﷲسے مدد مانگو تاکہ اس کے واجب حق کو ادا کردو اور ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکو جن کا شمار کرنا ناممکن ہے ''

یہ زندگانی دنیا کا پہلا رخ ہے چنانچہ دنیا کے اس چہرے کی نشاندہی کرنے کے لئے ہم نے روایات کو اسی لئے ذرا تفصیل سے ذکر کیا ہے کیونکہ اکثر لوگ دنیا کے باطن کو چھوڑ کراسکے ظاہر پر ہی ٹھہرجاتے ہیں اور ان کی نظر یں باطن تک نہیں پہونچ پاتیں ۔شاید ہمیں انہیں روایات میں ایسے اشارے مل جائیں جن کے سہارے ہم ظاہر دنیا سے نکل کر اسکے باطن تک پہونچ جائیں ۔

۱۸۵

ب۔دنیا کاظاہری رخ(روپ)

دنیاوی زندگی کا ظاہری روپ بے حد پر فریب ہے کیونکہ جسکے پاس چشم بصیرت نہ ہو اسکو یہ زندگانی دنیا دھوکے میں مبتلا کرکے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور پھراسے آرزووں ،خواہشات ، فریب اور لہوولعب کے حوالے کردیتی ہے ۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

(وما الحیاة الدنیا الا لعب ولهو )( ۱ )

''اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے ''

(ما هذه الحیاة الدنیا الا لهوولعب )( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت ۳۲۔

(۲)سورئہ عنکبوت آیت ۶۴۔

۱۸۶

''اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ''

(انماالحیاة الدنیالعب ولهووزینة وتفاخر بینکم )( ۱ )

''یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش باہمی فخرومباہات اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے ''

خداوند عالم نے دنیا کے جس رخ کو لہو ولعب قرار دیا ہے وہ اسکا ظاہری رخ ہے ۔اور لہو ولعب سنجیدگی اور متانت کے مقابلہ میں بولاجاتا ہے ۔۔۔

البتہ انسان اسی وقت لہو ولعب میں گرفتار ہوتا ہے کہ جب وہ دنیا کے ظاہری روپ پر نظر رکھے اور سنجیدگی و متانت سے دو ر رہے چنانچہ اگر وہ دنیا کے ظاہرکے بجائے اسکے باطن پر توجہ رکھے تو لہو ولعب (کھیل کود)سے بالکل دور ہوکر زاہد وپارسا بن جائیگا اور دنیا کے دوسرے معاملات میں الجھنے کے بجائے اسے صرف اپنے نفس کی فکر لاحق رہے گی۔کیونکہ دنیا''لُماظة''ہے ۔

مولائے کائنات فرماتے ہیں :

(ألا مَن یدع هذه اللُّماظة )( ۲ )

''کون ہے جو اس لماظہ کو چھوڑ دے ''لماظہ منھ کے اندر بچی ہوئی غذا کو کہا جاتا ہے

حضرت علی :

(اُحذّرکم الدنیا فانهاحلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۳ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ ایسی شیرین وسرسبز ہے جوشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت ۲۰۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص ۱۳۳۔

(۳)بحارالانوار ج ۷۳ص۹۶۔

۱۸۷

دنیاوی زندگی کے ظاہر اور باطن کا موازنہ

قرآن کریم میں دنیاوی زندگی کے دونوں رخ (ظاہر وباطن )کا بہت ہی حسین موازنہ پیش کیا گیا ہے نمونہ کے طورپر چند آیات ملاحظہ فرمائیں :

۱۔( انّمامثل الحیاةالدنیاکمائٍ أنزلناه من السماء فاختلط به نبات الارض ممایأکل الناس والانعام حتیٰ اذا أخذت الارض زُخرفها وازّیّنت وظنّ أهلها أنّهم قادرون علیها أتاها أمرنا لیلاً أونهاراً فجعلناها حصیداً کأن لم تغن بالامس کذٰلک نفصّل الآیات لقومٍ یتفکّرون ) ( ۱ )

''زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا پھر اس سے مل کر زمین سے نباتات برآمد ہوئیں جن کو انسان اور جانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے سبز ہ زارسے اپنے کو آراستہ کرلیا اور مالکوں نے خیال کرنا شروع کردیا کہ اب ہم اس زمین کے صاحب اختیار ہیں تو اچانک ہمارا حکم رات یا دن کے وقت آگیا اور ہم نے اسے بالکل کٹا ہواکھیت بناد یا گویا اس میں کل کچھ تھا ہی نہیں ہم اس طرح اپنی آیتوں کو مفصل طریقہ سے بیان کرتے ہیں اس قوم کے لئے جو صاحب فکر ونظر ہے ''

اس آیۂ کریمہ میں زندگانی دنیا ،اسکی زینت اور آرائشوں اور اسکی تباہی و بربادی اور اس میں اچانک رو نما ہو نے والی تبدیلیوں کی عکاسی مو جود ہے ۔

چنانچہ دنیا کو اس بارش کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے جو آسمان سے زمین پر برستا ہے اور اس سے زمین کے نباتات ملتے ہیں تو ان نباتات میں نمو پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانوں اور حیوانوں کی غذانیززمین کی زینت بنتے ہیں ۔یہاں تک کہ جب زمین اپنی آرائشوں اور زینتوں سے آراستہ

____________________

(۱)سورئہ یونس آیت ۲۴۔

۱۸۸

ہوجاتی ہے۔۔۔تو اچانک یہ حکم الٰہی کسی بجلی، آندھی(ہوا)وغیرہ کی شکل میں اسکی طرف نازل ہوجاتا ہے اور اسے بالکل ویرانے اور خرابے میں تبدیل کردیتا ہے جیسے کل تک وہ آباد ،سرسبز و شاداب ہی نہ تھی یہ دنیا کے ظاہری اور باطنی دونوں چہروںکی بہترین عکاسی ہے کہ وہ اگر چہ سر سبزو شاداب ، پُرفریب ، برانگیختہ کرنے والی،پرکشش (جالب نظر)دلوں کے اندر خواہشات کو بھڑکانے والی ہے لیکن جب دل اس کی طرف سے مطمئن ہو جاتے ہیں تواچانک حکم الٰہی نازل ہوجاتا ہے اور اسے کھنڈر اور بنجر بناڈالتا ہے جس سے لوگوں کو کراہیت محسوس ہو تی ہے ۔

اس سورہ کا پہلا حصہ دنیا کے ظاہری چہرہ کی وضاحت کر رہا ہے جو انسان کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وعظ و نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کا سرچشمہ ہے ۔جو کہ دنیا کا باطنی رخ ہے ۔

۲۔:( انّاجعلنا ماعلیٰ الارض زینةً لهالنبلوهم أیّهم أحسن عملاً ) ( ۱ )

''بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ''

دنیا یقینا ایک زینت ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہی زینت و آرائش انسانی خواہشات کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے مگر ان آرائشوں کی کوکھ میں مختلف قسم کے امتحانات بلائیں اور آزما ئشیںپو شیدہ رہتی ہیں جن کے اندر انسان کی تنزلی کے خطرات چھپے رہتے ہیں اور یہ بالکل اسی طرح ہیں جیسے کسی شکار کو پکڑنے کے لئے چارا ڈالا جاتا ہے ۔

۳۔( اعلموا أنماالحیاةالدنیا لعب ولهووزینة وتفاخربینکم وتکاثرفی الاموال والاولادکمثل غیث أعجب الکفّارنبا ته ثم یهیج فتراه )

____________________

(۱)سورئہ کہف آیت ۷۔

۱۸۹

( مصفرّا ثم یکونحطاماً وفی الآخرةعذاب شدیدومغفرةمن ﷲ ورضوان وماالحیاة الدنیاالامتاع الغرور ) ( ۱ )

''یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش ،باہمی فخرومباہات،اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے اور بس ۔جیسے کوئی بارش ہو جسکی قوت نامیہ کسان کو خوش کردے اور اسکے بعد وہ کھیتی خشک ہوجائے پھر تم اسے زرد دیکھو اور آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور آخرت میں شدید عذاب بھی ہے اور مغفرت اور رضائے الٰہی بھی ہے اور زندگانی دنیا تو بس ایک دھوکہ کا سرمایہ ہے اور کچھ نہیں ہے ''

دنیا کے بارے میں نگاہوں کے مختلف زاوئے

در حقیقت دنیا کو متعدد زاویوںسے دیکھنے کی وجہ سے ہی دنیا کے مختلف رخ دکھائی دیتے ہیں اسی لئے زاویہ نگاہ تبدیل ہوتے ہی دنیا کا رخ بھی تبدیل ہوجاتا ہے ورنہ دنیا تو ایک ہی حقیقت کا نام ہے مگر لوگ اسکی طرف دو رخ سے نظر کرتے ہیں ۔

کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو دنیا کو پر غرور اور پرفریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں جبکہ بعض حضرات اسے عبرت کی نگاہوں سے دیکھاکرتے ہیں ان دونوں نگاہوںکے زاویوںمیں ایک انداز نگا ہ سطحی ہے جو دنیا کی ظاہری سطح پر رکا رہتا ہے اور انسان کو شہوت وغرور (فریب)میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا انداز نظر اتنا گہرا ہے کہ وہ دنیا کے باطن کو بھی دیکھ لیتا ہے لہٰذا یہ اندازنظر رکھنے والے حضرات اس دنیا سے دوری اور زہد اختیار کرتے ہیں مختصر یہ کہ اس مسئلہ کا دارو مدار دنیا کے بارے میں ہمارے زاویہ نگاہ اور انداز فکر پر منحصر ہے ۔لہٰذا دنیا کے معاملات کو صحیح کرنے کے لئے سب سے پہلے اسکے بارے میں انسان کا انداز فکر صحیح ہوناچاہئیے جس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ دنیا کے بارے میں اپنا زاویۂ

____________________

(۱)سورئہ حدیدآیت ۲۰۔

۱۹۰

نگاہ صحیح کرے اسکے بعد وہ اسکو جس نگاہ سے دیکھے گا اسی اعتبار سے اسکے ساتھ پیش آئے گا ۔

لہٰذا جو حضرات دنیا کو پر فریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں انہیں دنیا دھوکہ میں ڈال دیتی ہے اور خواہشات میں مبتلا کردیتی ہے اور ان کے لئے یہ زندگانی ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے جسکی طرف قرآن مجید نے متوجہ کیا ہے ۔اور جو لوگ دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ اپنے اعمال میں صداقت اور سنجیدگی کا خیال رکھتے ہیں اور آخرت کا واقعی احساس انہیں دنیا کے کھیل تماشہ سے دور کردیتا ہے ۔

مولائے کائنات کے کلمات میں دنیا کے بارے میں موجود مختلف نگاہوں کی طرف واضح اشارے موجود ہیںجن میں سے ہم یہاں بعض کا تذکرہ کر رہے ہیں:

(کا ن لی فیما مضیٰ أخ فی ﷲ،وکان یعظّمه فی عینی صغرالدنیا فی عینه )( ۱ )

''گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اسکی نگاہ میں حقیر تھی ''

دنیا کی توصیف میں آپ فرماتے ہیں :

(ما أصف من دارأوّلهاعنائ،وآخرها فنائ، فی حلالهاحساب،وفی حرامهاعقاب،من استغنیٰ فیها فُتن،ومن افتقرفیهاحزن )( ۲ )

''میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جسکی ابتدا رنج وغم اور انتہا فناونیستی ہے اسکے حلال میں حساب اور حرام میں عقاب ہے۔جو اس میںغنی ہوجاتاہے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجاتاہے اور جو فقیر ہوجاتاہے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجاتاہے ''

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۸۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔

۱۹۱

یہی رخ دنیا کا باطنی رخ اور وہ دقت نظر ہے جو دنیا کے باطن میں جھانک کردیکھ لیتی ہے ۔

پھر آپ فرماتے ہیں :

(من ساعاهافا تته،ومن قعدعنهاواتته )( ۱ )

''جو اسکی طرف دوڑلگاتاہے اسکے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اسکے پاس حاضر ہوجاتی ہے ''

دنیا سے انسانی لگائو کے بارے میں خداوند عالم کی یہ ایک سنت ہے جس میں کبھی بھی خلل یا تغیر پیدا نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ جو شخص دنیا کی طرف دوڑلگائے گا اور اسکے لئے سعی کریگا اور اسکی قربت اختیار کریگا تو وہ اسے تھکاڈالے گی۔اور اسکی طمع کی وجہ سے اسکی نگاہیں مسلسل اسکی طرف اٹھتی رہیں گی۔چنانچہ اسے جب بھی کوئی رزق نصیب ہوگا تو اسے اس سے آگے کی فکر لاحق ہوجائیگی۔اور وہ اسکے لئے کوشش شروع کردیگا مختصر یہ کہ وہ دنیا کا ساتھی ہے اور اسکے پیچھے دوڑلگاتا رہے گا مگر اسے دنیا میں اسکا مقصد ملنے والا نہیں ہے ۔

البتہ جو دنیا کی تلاش اور طلب میں صبروحوصلہ سے کام لیکر میانہ روی اختیار کریگا تو دنیا خود اسکے قدموں میں آکر اسکی اطاعت کرے گی اور وہ بآسانی اپنی آرزو تک پہونچ جائے گا۔

پھر آپ ارشاد فرماتے ہیں:

(من أبصربهابصّرته،ومن أبصرالیها أعمته )( ۲ )

''جو اسکو ذریعہ بنا کر آگے دیکھتارہے اسے بینابنادیتی ہے اور جو اسکو منظور نظر بنالیتاہے اسے اندھا کردیتی ہے ''

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۱۹۲

سید رضی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی یہ تشریح فرمائی ہے: کہ اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی (من ابصربھا بصرتہ)میں غور وفکر کرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اور گہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے ۔

مولائے کائنات نے دنیا کے بارے میں نگاہ کے ان دونوں زاویوں کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں سے ایک یہ ہے ''کہ دنیا کو ذریعہ بناکر آگے دیکھا جائے ''اس نگاہ میں عبرت پائی جاتی ہے اور دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ انسان دنیا کو اپنا منظور نظر اور اصل مقصد بنالے اس نگاہ کا نتیجہ دھوکہ اور فریب ہے جسکی وضاحت کچھ اس طرح ہے :

یہ دنیا کبھی انسان کے لئے ایک ایسا آئینہ بن جاتی ہے جس میں وہ مختلف تصویریں دیکھتا ہے اور کبھی اسکی نظر خود اسی دنیا پر لگی رہتی ہے ۔

چنانچہ جب دنیا انسان کے لئے ایک آئینہ کی مانند ہوتی ہے جس میں جاہلیت کے تمدن اور زمین پر فساد برپا کرنے والے ان متکبرین کا چہرہ بخوبی دیکھ لیتا ہے جن کو خدا نے اپنے عذاب کا مزہ اچھی طرح چکھادیا ۔۔۔تو یہ نگاہ ،عبرت ونصیحت کی نگاہ بن جاتی ہے ۔

لیکن جب دنیا انسان کے لئے کل مقصد حیات کی شکل اختیار کرلے اور وہ ہمیشہ اسی نگاہ سے اسے دیکھتا رہے تو دنیا اسے ہویٰ وہوس اور فتنوں میں مبتلا کرکے اندھا کردیتی ہے اور وہ اسے بہت ہی سر سبز و شیرین دکھائی دیتی ہے۔

اس طرح پہلی نگاہ میں عبرت کا مادہ پایا جاتا ہے اور دوسری نظر میں فتنہ وفریب کا مادہ ہوتا ہے ۔پہلی نگاہ میں فقط بصیرت پائی جاتی ہے جبکہ دوسری نگاہ میںعیاری اور دھوکہ ہے ۔

انہیں جملوں کی شرح کے بارے میں ابن الحدید کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت کے یہ جملات پڑھے تو اسکی تشریح میں یہ دو اشعار کہے :

دنیاک مثل الشمس تدنی ال

یک الضوء لکن دعوةَ المهلکِ

ان أنت أبصرت الیٰ نو ر ها

تَعْشُ و ان تُبصر به تد ر ک

۱۹۳

تمہاری دنیا کی مثال اس سورج جیسی ہے جس کی ضیاء تمہارے سامنے ہے لیکن ایک مہلک انداز میں کہ اگر تم اس (نور)کی طرف دیکھو گے تو تمہاری نگاہ میں خیرگی پیدا ہوجائیگی اور اگر اسکے ذریعہ کسی چیز کو دیکھنا چاہو گے تو اسے دیکھ لو گے ۔

اسی زاویہ نگاہ کی بنیاد پر مولائے کائنات نے یہ ارشاد فرمایا ہے :

(جعل لکم أسماعاً لتعی ماعناها،أبصاراً لتجلوعن عشاهاوکأن الرشدَ فی احرازدنیا ها )( ۱ )

''اس نے تمہیں کان عطا کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں ۔۔۔اور تمہارے لئے ماضی میں گذر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں ۔۔۔لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا۔۔۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی ۔۔۔ تو کیا آجتک کبھی اقرباء نے موت کودفع کیا ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے (ہرگز نہیں )مرنے والے کو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہاچھوڑدیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اسکی جلد کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔۔۔اور آندھیوں نے اسکے آثار کو مٹادیاہے اور روز گار کے حادثات نے نشانات کو محو کردیا ہے ۔۔۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء واجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جارہے ہو اور انہیں کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہو اور انہیں کے راستے پر گامزن ہو؟حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں ایسا معلوم

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۸۳۔

۱۹۴

ہوتا ہے کہ اللہ کامخاطب ان کے علاوہ کوئی او ر ہے اور شاید ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کرلینے میں ہے ''

اس بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

(وانما الدنیا منتهیٰ بصرالاعمیٰ،لا یبصرمماوراء ها شیئاً،والبصیر ینفذها بصره،ویعلم أن الدار ورائها،فالبصیرمنها شاخص،والأعمیٰ الیها شاخص،والبصیر منها متزود،والأعمیٰ لهامتزود )( ۱ )

''یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اسکے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جبکہ صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اسکی طرف کوچ کرنے والا ہے بصیر اس سے زادراہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اسکے لئے زاد راہ اکٹھاکرنے والاہے''

واقعاً اندھا وہی ہے جس کی نگاہیں دنیا سے آگے نہ دیکھ سکیں اور وہ اس سے وابستہ ہوکر رہ جائے (اس طرح دنیا اندھے کی نگاہ کی آخری منزل ہے )لیکن صاحب بصیرت وہ ہے جسکی نگاہیں ماوراء دنیا کا نظارہ کرلیتی ہیں اور اس کی عاقبت کو دیکھ لیتی ہیں آخرت اسکی نظروں کے سامنے ہے لہٰذا (اسکی نگا ہیں )اور اسکے قدم اس دنیا پر نہیںٹھہرتے بلکہ وہ اس سے عبرت حاصل کرکے آ گے کی طرف کوچ کرجاتا ہے ۔

ابن ابی الحدید نے اس جملہ کی مذکورہ شرح کے علاوہ ایک اور حسین تشریح کی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔دنیا اور مابعد دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے اندھا کسی خیالی تاریکی کا تصور کرتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس تاریکی،کو محسوس کررہا ہے جبکہ وہ واقعاً اسکاا حساس نہیں کرپاتا بلکہ وہ عدم ضیاء ہے (وہاں نور کا وجود نہیں ہے )بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص کسی تنگ و تاریک گڑھے میں گھس

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۳۳۔

۱۹۵

جائے اور تا ریکی کا خیال کرے مگر اسے کچھ نہ دکھائی دے اور اسکی نگاہیںکسی چیز کا مشاہدہ کرتے وقت کام نہیں کرپاتیں مگر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ تاریکی وظلمت کو دیکھ رہا ہے ۔لیکن جو شخص روشنی میں کسی چیز کو دیکھتا ہے اسکی بصارت (نگاہ)کام کرتی ہے اور وہ واقعاًمحسوسات کو دیکھتا ہے ۔چنانچہ دنیا اور آخرت کی بھی بالکل یہی حالت ہے :کیونکہ اہل دنیا کی نگاہوں کی آخری منزل اور ان کی پہنچ صرف ان کی دنیا تک ہے ۔او ر ان کا خیال یہ ہے کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جبکہ واقعاً انہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ان کے حواس کسی چیز کے اوپر کام کرتے ہیں ۔ لیکن اہل آخرت کی نگاہیں بہت کارگر ہیں اور انہوں نے آخرت کو باقاعدہ دیکھ لیا ہے لہٰذا دنیا پر ان کی نگاہیں نہیں ٹھہرتی ہیں ،تو در حقیقت یہی حضرات صاحبان بصارت ہیں ''( ۱ )

طرز نگاہ کا صحیح طریقہ کار

جس طرح انسان کے تمام اعمال وحرکات میں کچھ صحیح ہوتے ہیںاور کچھ غلط ۔ اسی طرح کسی چیزکے بارے میں اسکا طرز نگاہ بھی صحیح یا غلط ہوسکتا ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم نے رفتار وکردار کے صحیح طریقوں کی تعلیم دیتے ہوئے صحیح طرز نگاہ کی تعلیم ان الفاظ میں دی ہے :

( ولا تمدّنَّ عینیک الیٰ ما متّعنابه أزواجاً منهم زهرة الحیاة الدنیا لنفتنهم فیه ورزق ربک خیروأبقیٰ ) ( ۲ )

''اور خبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالامال کردیا ہے اسکی طرف آپ نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھیں کہ یہ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق

اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے ''

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ص۲۷۶۔

(۲)سورئہ طہ آیت ۱۳۱۔

۱۹۶

نظر اٹھاکر دیکھنا بھی کسی چیز کو دیکھنے کا ایک طریقہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نگاہ اس مال ودولت اور رزق کے اوپر پڑتی رہے جو خداوند عالم نے دوسروں کو عنایت فرمائی ہے اس مد نظر (نگاہیں اٹھاکر دیکھنے)میں اپنی حد سے تجاوز کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں ۔گویا انسان کی نگاہیں اپنے پاس موجود خداوند عالم کی عطا کردہ نعمتوں سے تجاوز کرکے دوسروں کے دنیاوی راحت وآرام اور نعمتوں کی سمت اٹھتی رہیں اور مسلسل انہیں پر جمی رہیں ۔

حد سے یہ تجاوزہی انسانی مشکلات اور عذاب کا سرچشمہ ہے ۔۔۔کیونکہ جب تک خداوند عالم اسے مال نہ دیگا اسے مسلسل اسکی تمنا رہے گی اور وہ اسکے لئے کوشش کرتا رہے گا۔اور جب خداوند عالم اسے اس نعمت سے نواز دیگا تو پھر وہ ان دوسری نعمتوں کی خواہش اور تمنا شروع کردیگا جو دوسروں کے پاس ہیں اور اسکے پاس نہیں ہیں ۔۔۔اور اس طرح دنیا سے اسکی وابستگی اور اسکے لئے سعی وکوشش میں دوام پیدا ہوجاتا ہے۔( جیسا کہ مولائے کائنات نے ارشادفرمایا ہے )نیزاسکے پیچھے دوڑنے سے عذاب مزید طولانی ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آخری مقصد تک نہیں پہونچ پاتا ہے، دنیا کے بارے میں اس طرز نگاہ سے انسا ن کو یاس وحسرت کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آ نے والا نہیں ہے ۔

واضح رہے کہ لوگوں کے پاس موجود نعمتوںپر نگاہیں نہ جمانے اور ان کی طرف توجہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان سعی وکوشش اور محنت و مشقت کرنا ہی چھوڑدے کیونکہ ایک مسلمان ہمیشہ متحرک رہتا ہے ۔مگر لوگوں کے پاس موجود نعمتوں کو دیکھ کر حسرت اورغصہ کے گھونٹ پینے کی وجہ سے نہیں ۔

مختصر یہ کہ: کسی بھی چیز کے بارے میں انسان کی طرز نگاہ اسکے نفس کی سلامتی یا بربادی میں اہم کردار اداکرتاہے ۔کیونکہ کبھی کبھی ایک نظر انسان کی روح کو آلودہ اور گندھلا بنادیتی ہے اور اسے ایک طولانی مصیبت اور عذاب میں مبتلا کردیتی ہے ۔جیسا کہ روایت میں ہے :

(رُبَّ نظرة تورث حسرة )( ۱ )

''کتنی نگاہوں سے حسرت ہی ہاتھ آتی ہے ''

جبکہ کبھی کبھی یہی نگاہ انسان کی استقامت اور استحکام عمل کا سرچشمہ قرار پاتی ہے بیشک اسلام ہمیں''نگاہ ونظر''سے منع نہیں کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں ہمارا زاویہ نگاہ کیا ہونا چاہئے!

____________________

(۱) وسائل الشیعہ ج۱۴ص۱۳۸۔فروع کافی ج۵ص۵۵۹۔میزان الحکمت ج۱۰۔

۱۹۷

نفس کے اوپر طرز نگاہ کے اثرات اورنقوش

محبت یا زہددنیا

انسان اپنی زندگی میں کسی چیز کے بارے میں چاہے جو طرز نگاہ اپنا لے اسکے کچھ نہ کچھ مثبت یا منفی (اچھے یا برے )اثرات ضرور پیدا ہو تے ہیں اور انسان اسی زاویۂ دید کے مطابق اسکی طرف قدم ا ٹھاتا ہے اس طرح انسان دنیا کے بارے میں چاہے جو زاو یہ نگاہ رکھتا ہو یا اسے جس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہو اسکے فکر وخیال اور رفتار وکردار حتی اسکے نفس کے اوپر اسکے واضح آثار ونتائج اور نقوش نظر آئیں گے جن میں اس وقت تک کسی قسم کا تغیّریا تبدیلی ممکن نہیں ہے جب تک انسان اپنا انداز فکر تبدیل نہ کرلے ۔

اس حقیقت کی بیحدا ہمیت ہے اوریہ اسلامی نظام تربیت کی ریڑ ھ کی ہڈی کا ایک حصّہ ہے اسی بنیاد پر ہم دنیا کے بارے میںسطحی طرز نگاہ ۔(جو دنیا سے آ گے نہیں دیکھتی )اور جسے مولا ئے کائنات نے ۔(الابصار الی الد نیا)دنیا کو منظور نظر بنا کر دیکھنے سے تعبیر کیا ہے ۔۔۔اور دنیا کے بارے میں عمیق طرز نگاہ جسے امیرالمو منین نے (ابصاربالدنیا)دنیا کو ذریعہ بنا کر دیکھنے سے تعبیر کیا ہے ان دونوں کے نفسیاتی اور عملی اثرات کا جائز ہ پیش کریں گے البتہ ان دونوں نگاہوں کا

سب سے بڑا اثرحب دنیا یا زہد دنیا ہے ۔۔۔کیونکہ حب دنیا دراصل دنیا کے بارے میں سطحی طرز نگاہ کا فطری نتیجہ ہے اورزہد دنیا اسکے بارے میں عمیق طرز نگاہ کا فطری نتیجہ ہے ۔

لہٰذا اس مقام پر ہم انسانی زندگی کی ان دونوں حالتوں پر روشنی ڈال رہے ہیں ۔

۱۹۸

حب دنیا

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ حب دنیا دراصل دنیا کے بارے میں سطحی انداز فکر کا نتیجہ ہے اور اس انداز نگاہ میں ماور ائے دنیا کو دیکھنے کی طاقت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ دنیا کی رنگینیوں اور آسائشوں تک محدود رہتی ہے اور اسی کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے ۔جبکہ زہد وپارسائی،دنیا کے بارے میں باریک بینی اور دقت نظر کا نتیجہ ہے ۔

حب دنیا ہر برائی کا سر چشمہ

انسانی زندگی میں حب دنیا ہی ہر برائی اور شروفساد کا سرچشمہ ہے چنانچہ حیات انسانی میں کوئی برائی اور مشکل ایسی نہیں ہے جسکی کل بنیاد یااسکی کچھ نہ کچھ وجہ حب دنیا نہ ہو!

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(حبّ الدنیا أصل کل معصیة،وأول کل ذنب )( ۱ )

''دنیاکی محبت ہر معصیت کی بنیاد اور ہر گناہ کی ابتدا ہے ''

حضرت علی کا فرمان ہے :

(حبّ الدنیا رأس الفتن وأصل المحن )( ۲ )

____________________

(۱)میزان الحکمت ج۳ص۲۹۴۔

(۲)غرر الحکم ج۱ص۳۴۲۔

۱۹۹

''محبت دنیا فتنوں کا سر اور زحمتوںکی اصل بنیاد ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(رأس کل خطیئة حبّ الدنیا )( ۱ )

''ہر برائی کی ابتدا (سر چشمہ )دنیاکی محبت ہے ''

حب دنیا کا نتیجہ کفر ؟

حب دنیا کا سب سے خطر ناک نتیجہ کفر ہے جیسا کہ قرآن مجید میں محبت دنیا اور کفر کے درمیان موجود رابطہ اور حب دنیا کے خطر ناک نتائج کا تذکر ہ بار بار کیا گیا ہے ۔

۱۔خدا وندعالم کا ارشاد ہے :

( ولکن من شرح با لکفرصدراً فعلیهم غضب من ﷲ ولهم عذاب عظیم ذلک بأنهم استحبوا الحیاة الدنیاعلیٰ الآخرة وأن ﷲ لا یهدی القوم الکافرین ) ( ۲ )

'' لیکن جو شخص کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو ان کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اسکے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے زندگانی دنیا کو آخرت پر مقدم کیا اور ﷲ،ظالم قوموں کو ہر گز ہدایت نہیں دیتا ہے ''

اس آیۂ کریمہ میں صرف کفرہی کو حب دنیا کا اثر نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ آیۂ کریمہ نے اس سے کہیں آگے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ حب دنیا سے کفر کیلئے سینہ کشادہ ہو جاتا ہے اور انسان اپنے کفر پر اطمینان خاطر پیدا کر لیتا ہے اور اسکے لئے کھلے دل (سعہ صدر )کا مظاہر ہ کرتا ہے اور یہ صور تحال کفر سے بھی بدتر ہے ایسے لوگوں پر خدا وند عالم غضبناک ہوتا ہے اور انھیں اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الا نوار ج۷۳ص۷ ۔

(۲) سورئہ نحل آیت ۱۰۶۔۱۰۷۔

۲۰۰