خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں0%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 349
مشاہدے: 92189
ڈاؤنلوڈ: 3716

تبصرے:

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92189 / ڈاؤنلوڈ: 3716
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

۲۔ارشاد الٰہی ہے :

( وویل للکافرین من عذاب شدید٭الذین یستحبون الحیاة الدنیا علیٰ الآخرة ویصدّ ون عن سبیل ﷲ ویبغونها عوجاً ) ( ۱ )

''اور کافروں کے لئے تو سخت ترین اورا فسوسناک عذاب ہے وہ لوگ جو زندگانی دنیا کو آخرت کے مقابلے میں پسند کر تے ہیں اور لوگوں کو راہ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں ''

اس آیۂ کریمہ میں حب دنیا اور کفر یا راہ خدا سے روکنے کے درمیان موجود رابطہ کا بخوبی مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے ۔

____________________

(۱)ابراہیم آیت۲۔۳۔

۲۰۱

حب دنیا کے نفسیا تی اور عملی آثار

حب دنیا سے انسان کے کردار وعمل پر بے شمار اثرات پڑتے ہیں جن میں سے ہم بعض آثار کی وضاحت پیش کررہے ہیں ۔

۱۔طولانی آرزو

اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لمبی آرزوئیں بھی حب دنیا کا ایک اثر ہیں ۔ کیونکہ جب انسان دنیا کا دلدادہ ہوجاتا ہے اور اس سے وابستہ ہوکر رہ جاتا ہے تو اسکی آرزو ئیں بھی بہت طولانی ہوجاتی ہیں یہ ہے تصویر کا پہلا رخ ۔

تصویرکا دوسرا رخ !یہ ہے کہ جسکی آرزوئیں زیادہ ہو جاتی ہیں وہ موت کو بہت کم یاد رکھتا ہے اور آخرت کیلئے اسکی تیاری اور اسکا عمل کم ہوجاتا ہے جسکی طرف روایات میں با قاعدہ متوجہ کیا گیا ہے حضرت علی کے مندرجہ ذیل ارشادات ملاحظہ فرمائیں :

۲۰۲

(ما أطاٰل عبد الأمل،الا أساء العمل )( ۱ )

''کسی شخص نے اپنی آرزوئیں طولانی نہیںکیں مگر یہ کہ اس نے اپنا عمل خراب کرلیا''

آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے :

(أکثرالناس أملاً،أقلّهم للموت ذکراً )( ۲ )

''لمبی آرزو رکھنے والے لوگ موت کوسب سے کم یاد کرتے ہیں ''

آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

(أطول الناس أملاً،أسوؤهم عملاً )( ۳ )

''جسکی آرزوئیںسب سے زیادہ ہوتی ہیں اسکا عمل سب سے بدتر ہوتا ہے ''

تیسرارخ یہ ہے !کہ جسکی آرزوئیںلمبی ہوتی ہیں وہ انہیں کو اپنے لئے سکون واطمینان کا سبب سمجھ لیتا ہے جبکہ اس دنیا کو خود ہی قرار نہیں ہے ۔مگر وہ اس سے وابستہ ہوکر اسی سے مطمئن ہوجاتا ہے ۔جسکی تفصیل آپ مندرجہ ذیل سطروں میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں ۔

۲۔دنیا پر اعتماد اور اطمینان

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ دنیا کے بارے میں لمبی لمبی آرزوئیں اسکی محبت اور اس سے خوش وخرم رہنے سے دنیا پر اطمینان و اعتمادپیدا ہوتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( ان الذین لا یرجون لقاء نا ورضوا بالحیاة الدنیاواطمأنّوا بها والذین هم عن آیا تنا غافلون٭ اُولٰئک مأواهم النار بماکانوا یکسبون ) ( ۴ )

____________________

(۱)بحار الا نوار ج۷۳ص۱۶۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ ص۱۹۰۔

(۳)گذشتہ حوالہ۔

(۴)سورئہ یونس آیت ۷۔۸۔

۲۰۳

''یقینا جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے ہیں اور زندگانی دنیا پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں یہ سب وہ ہیں جنکے اعمال کی بناء پر انکا ٹھکانا جہنم ہے ''

دنیا کے اوپر اس جھوٹے بھروسہ کی وجہ سے انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ اسی دار دنیا میں رہنا ہے جبکہ یہ باقی رہنے والی نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ پونجی ہے جو بہت جلد فنا کے گھاٹ اتر جائیگی۔درحقیقت دار قرار وبقاء تو جنت ہے ۔جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وفرحوا بالحیاة الدنیا وماالحیاةالدنیا فی الآخرة الامتاع ) ( ۱ )

''یہ لوگ صرف زندگانی دنیا پر خوش ہو گئے ہیں حالانکہ آخرت کے مقابلہ میں زندگانی دنیا صرف ایک وقتی لذ ت کا درجہ رکھتی ہے۔''

یا دوسرے مقام پر ارشاد ہے :

( یاقوم انما هذه الحیاة الدنیا متاع وان الآخرة هی دارالقرار ) ( ۲ )

''قوم والو! یاد رکھوکہ یہ حیا ت دنیا صرف چند روزہ لذت ہے اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے ''

مختصر یہ کہ دنیا ختم ہوجانے والی پونجی ہے مگر آخرت ہمیشہ باقی رہنے والاسرمایہ ہے جبکہ اسکے برخلاف جو لوگ دنیا پر بھروسہ کئے بیٹھے ہیں اور اس کی محبت ان کے دلوں میں بسی ہوئی ہے اور وہ اسی پر خوش ہیں وہ در حقیقت دنیا کی ابدیت اور بقاء کی خام خیالی کے دھوکہ میں مبتلا ہیں۔

حضرت علی سے اس حدیث قدسی کی روایت کی گئی ہے کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ہے :

(عجبت لمن یریٰ الدنیا وتصرّف أهلها حالاً بعد حال،کیف یطمئن الیها )( ۳ )

____________________

(۱)سورئہ رعد آیت ۲۶۔

(۲)سورئہ غافر آیت ۳۹۔

(۳)بحارالانوار ج۷۳ص۹۷۔

۲۰۴

''مجھے اس شخص کے اوپر تعجب ہے جو دنیا اور اسکے الٹ پھیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہتا ہے پھر بھی وہ اس کے اوپر کیسے بھروسہ کرلیتا ہے ؟''

یا خداوند عالم نے جناب موسی کی طرف یہ وحی نازل فرمائی تھی :

( یاموسیٰ لا ترکن الیٰ الدنیا رکون الظالمین،ورکون من اتخذها أُماً وأباً، واترک من الدنیامابک الغنیٰ عنه ) ( ۱ )

''اے موسی دنیا سے اس طرح دل نہ لگائو جس طرح ظالمین دنیا کے دلدادہ ہیں یا جن لوگوں نے اس کو اپنی ماں یا اپناباپ سمجھ رکھا ہے اور دنیاکو ایسے ترک کردو جیسے تمہیں اسکی ضرورت ہی نہیں ہے ''

در حقیقت یہ ایک صاف اور شفاف تعبیر ہے کہ جس طرح ایک بچہ اپنے ماں باپ کے اوپر بھروسہ کرتا ہے اسی طرح بہت سارے لوگ دنیا پر بھروسہ رکھتے ہیں جبکہ انھیں اسکے تغیّرات کا بخوبی علم ہے ۔جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے کھیل تماشے یا اسکی رنگینیوںاور اسباب راحت جیسے فضولیات کی اوقات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اس سے دھوکہ نہیں کھاتے اور یہ حضرات اسکی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنے کے بجائے حقیقی زندگی کی تلاش میں صراط مستقیم پر چلتے رہتے ہیں کیونکہ واقعی اور حقیقی زندگی در اصل آخرت کی زندگی ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( وما هذه الحیاة الد نیا الا لهوولعب وان ا لدار الآخرة لهی الحیوان ) ( ۲ )

''اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے۔۔۔ ''

۳۔دنیاوی زندگی کو آخرت پر مقدم کرنا

یہ بھی حب دنیا کا ہی ایک نتیجہ ہے کیونکہ جب انسان حد سے زیادہ محبت دنیا کا دلدادہ ہوجاتا

____________________

(۱)بحارالانوارج۱۳ص۳۵۴وج۷۳ص۷۳۔

(۲)سورئہ عنکبوت آیت ۶۴۔

۲۰۵

ہے تو وہ اسکو آخرت پر ترجیح دینے لگتا جسکی طرف خداوند عالم نے قرآن مجید میں یوں اشارہ کیا ہے :

( فأمّا من طغیٰ وآثرالحیاة الدنیا فانّ الجحیم هی المأویٰ ) ( ۱ )

''پھرجس نے سرکشی کی ہے اور زندگانی دنیا کو اختیار کیا ہے جہنم اسکاٹھکاناہوگا''

( بل تؤثرون الحیاة الدنیا والآخرةخیروأبقیٰ ) ( ۲ )

''لیکن تم لوگ زندگانی دنیا کو مقدم رکھتے ہو جبکہ آخرت مقدم اور ہمیشہ رہنے والی ہے ''

در حقیقت ان لوگوں کو صرف دنیا چاہئیے اور دنیا کو آخرت پر اسی وقت ترجیح دی جاسکتی ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوجائے کیونکہ یہ طے شدہ ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوگا تو ان میں سے کسی ایک کو اختیارکرنا پڑیگا یعنی یا صرف دنیا کو لے لیا جائے اور یا صرف آخرت کو؟اور کیونکہ ان لوگوں نے آخرت کو چھوڑکر دنیا کو اپنا لیا ہے لہٰذا اب انہیں دنیاوی زندگی کے علاوہ کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے ۔جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( فأعرض عمن تولّیٰ عن ذکرنا ولم یرد الا الحیاة الدنیا ) ( ۳ )

''لہٰذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منھ پھیرے اور زندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے، آپ بھی اس سے کنارہ کش ہوجائیں''

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوںنے دنیا کے بدلے اپنی آخرت کو بیچ ڈالا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :

( اُولٰئک الذین اشتروا الحیاة الدنیا بالآخرة ) ( ۴ )

''یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت کو دے کردنیا خریدی ہے''

____________________

(۱)سورئہ نازعات آیت ۳۷،۳۸،۳۹۔

(۲)سورئہ اعلیٰ آیت۱۶،۱۷۔

(۳)سورئہ نجم آیت ۲۹۔

(۴)سورئہ بقرہ آیت ۸۶۔

۲۰۶

اسی بارے میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت ہے :

(من عرضت له دنیاوآخرة،فاختارالدنیاعلیٰ الآخرة،لقی اللّٰه عزّوجلّ ولیست له حسنة یتّقی بهاالنار،ومن أخذالآخرةوترک الدنیالقی اللّٰه یوم القیامة وهو راضٍ عنه )( ۱ )

''جس کے سامنے دنیا اور آخرت دونوں کو پیش کیا جائے اور وہ آخرت کو چھوڑ کردنیا کو اپنا لے تو جب وہ خداوند عالم کی بارگاہ میں پہونچے گا تو اسکے نامۂ عمل میں کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم سے بچاسکے اور جو شخص دنیا کو چھوڑکر آخرت کو اپنا لے جب وہ روز قیامت خداوند عالم سے ملاقات کریگا تو وہ اس سے راضی رہے گا ''

حضرت علی :

(من عبدالدنیا وآثرها علیٰ الآخرة استوخم العاقبة )( ۲ )

''جو دنیا کا پجاری ہوگیا اور اس نے اسے (دنیا کو) آخرت پر ترجیح دی ہے اس نے اپنی عاقبت بگاڑلی''

حضرت علی :

(لا یترک الناس شیئاً من أمردینهم لاستصلاح دنیاهم الا فتح اللّٰه علیهم ما هوأضرّ منه )( ۳ )

''لوگ اپنی دنیا کی بھلائی کے لئے اپنے دین کا کوئی کام ترک نہیں کرتے مگر یہ کہ خداوند عالم ان کے سامنے اس سے زیادہ مضردروازہ کھول دتیا ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۶ص۲۶۴وج۷۳ص۱۰۳۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۰۴۔

(۳)بحارالانوار ج۷۰ص۱۰۷۔

۲۰۷

آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے :

(من لم یبال مارزء من آخرته اذا سلمت له دنیاه فهوهالک )( ۱ )

''اگر کسی کی دنیاسالم ہو اور اسے یہ فکر نہ ہو کہ اس نے اپنی آخرت کے لئے کیا حاصل کیا تو وہ ہلاک ہونے والا ہے ''

آخرت کی نعمتوں کے لئے دنیا ہی میں عجلت پسندی

حب دنیا کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ انسان آخرت کی نعمتوں کو دنیا میں ہی حاصل کرنے کے لئے عجلت سے کام لیتا ہے کیونکہ خداوند عالم نے انسان کو در حقیقت جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے پیدا کیا ہے لہٰذا جب انسان دنیا کا دلدادہ ہوجاتا ہے اور اسکی لذتوں اور نعمتوں پراکتفاء کر بیٹھتا ہے تو گویا اسے دنیا میں ہی آخرت کی تمام نعمتیں حاصل کرلینے کی جلدی ہے جیسے کوئی کسان جلدی غلہ یا پھل توڑنے کی فکر میں اسے خام اور کچاہی توڑلیتا ہے یا وہ بچہ جو بزرگی اور بڑھاپے کے دور کی راحت وآرام کوپہلے ہی حاصل کرنے کے لئے کھیل کود میں وقت گذار دیتا ہے اور اپنی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیںدیتا یعنی اسکے اوپر مستقبل (بڑھاپے اور ادھیڑپن )کے راحت وآرام کو قربان کرڈالتا ہے جس کی تصویر کشی اس آیۂ کریمہ نے کتنے حسین انداز میں کی ہے :( ۲ )

____________________

(۱)بحار الانوار ج۷۷ ص۲۷۷۔

(۲) اس تحقیق کا موضوع در حقیقت دنیا اور آخرت کے ٹکرائو کے وقت ہے یعنی ''حدود الٰہی ''اور دنیاکاٹکرائو! چنانچہ حدوداور احکام الٰہی کی پابندی کا لازمہ دنیا کی بعض اچھی چیزوںسے محرومی ہے اور دنیا سے لگائو کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان بعض حدود الٰہیہ سے تجاوز کر جائے اس مرحلہ پر انسان دنیا اور آخرت کے دوراہے پر کھڑاہوتا ہے اور یہ درحقیقت محرومی نہیں ہے چونکہ جب انسان حدود الٰہیہ کا پابند ہوجاتا ہے تو پروردگار اسکو آخرت کی نعمتیں جو کامل ودائم ،تروتازہ اور باقی رہنے والی ہیںدیناچاہتاہے لیکن انسان ان کو دنیا ہی میں پانے کے لئے جلدی کرتاہے اور ان کو اچانک حاصل کرلیتا ہے جو ناپختہ ہوتی ہیں اور یہ بہت جلدزائل ہوجانے والی پونجی ہے اور اس میں بے شمار مشکلات اور خطرات پائے جاتے ہیں ۔

جب ہم اسلامی نصوص میں غوروفکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قاعدہ کسی حد تک دنیا کی حلال چیزوں پر بھی منطبق ہوتا ہے لیکن مطلق طورپر نہیں لہذاجب کوئی انسان دنیا کی بعض حلال چیزوں میں زہد اختیار کرتا ہے تو خداوند عالم اسکے لئےآخرت کی نعمتیںذخیرہ کردیتا ہے ۔۔۔اور شاید اسکی وجہ یہ ہو کہ اسکوحاصل کر لینے کے بعد اسکے دل میں دنیا سے لگائو اور اسکی محبت پیدا ہو سکتی ہے یایہ حکم مومنین کے غریب طبقہ سے برابری کی بنا پرہو۔۔۔ بہرحال اسکی وجہ چاہے جو بھی ہو اس قاعدہ اور خداوند عالم کے اس قول :( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادہ والطیبات من الرزق)کے درمیان ہر لحاظ سے مطابقت پائی جاتی ہے ۔

۲۰۸

( ویوم یعرض الذین کفروا علیٰ النارأذهبتم طیبا تکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بها فالیوم تجزون عذاب الهون بماکنتم تستکبرون فی الارض بغیر الحق وبماکنتم تفسقون ) ( ۱ )

''اور جس دن کفار جہنم کے سامنے لائے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے مزے اڑاچکے اور اس میں خوب چین کرچکے تو آج تم پر ذلت کا عذاب کیا جائے گا اس لئے کہ تم زمین میں اکڑاکرتے تھے اور اس لئے کہ تم بد کاریاں کرتے تھے ''

اس قول الٰہی کے بارے میں توجہ فرمائیں :

( أذهبتم طیبا تکم فی حیاتکم الدنیا ) ( ۲ )

''تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے مزے اڑاچکے ''

جبکہ خداوند عالم نے انسان کیلئے ان بہترین نعمتوں کو آخرت میں ذخیرہ کرکے رکھا ہے اور وہی دارالقرارہے لیکن انسان اسکو اچھی طرح پختہ ہونے بلکہ ان پرپھل آنے سے پہلے ہی دنیا میں ان کی فصل کانٹے کے لئے جلدبازی کرنے لگتا ہے جبکہ وہ بہت جلد تمام ہوکر گذر جانے والی ہیں۔

زود گذر

قرآن مجید نے دنیا کو اسی وجہ سے''زودگذر ''کہا ہے کیونکہ انسان اس دنیا میں آخرت کی نعمتوں کوان کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرلینا چاہتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :

____________________

(۱ ۲ )سورئہ احقاف آیت۲۰۔

۲۰۹

( من کان یرید العاجلة عجّلنا له فیها ما نشاء لمن نرید ) ( ۱ )

''اور جو شخص دنیا کا خواہاں ہوتو ہم جسے چاہتے اور جو چاہتے ہیں اسی دنیا میں سردست عطا کردیتے ہیں ''

آیت کے آخری حصہ (ما نشاء لمن نرید) '' ہم جسے چاہتے اور جو چاہتے ہیں''کے معنی پر توجہ کے بعد یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا میں ہی آخرت کی نعمتوں کو پانے کے لئے جلد بازی کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنی عجلت پسندی اوربے تابی کی وجہ سے جو چاہے حاصل کرلے بلکہ اسکے معنی یہ ہیں کہ اسکی جلد بازی کے بعد بھی خداوند عالم ہی اسے جیسے چاہتا ہے اپنے اعتبار سے کم یا زیادہ رزق عطا کرتا ہے گویا رزق پھر بھی خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے اور اس پر وہی حکم فرماہے اور اس میں جلد بازی دکھانے سے انسان کا کچھ بس چلنے والا نہیں ہے ۔۔۔مگر اسکے باوجود بھی وہ آخرت کی نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے اور جن نعمتوں کیلئے اس نے ناجائز طورپر جلد بازی کی تھی وہ کم ہوجاتی ہیں۔

اس بارے میں خداوند عالم کا یہ ارشاد بھی ہے :

( قالواربّناعجل لناقِطّناقبل یوم الحساب ) ( ۲ )

''انہوں نے کہا پروردگار روز حساب سے پہلے ہی دنیا میں ہمارا حصہ ہمیں دیدے ''

یا خداوند عالم کا یہ بھی ارشاد ہے :( کلا بل تُحبّون العاجلة ) ( ۳ )

''مگر( لوگو )حق تو یہ ہے کہ تم لوگ(زود گذر) دنیا کو دوست رکھتے ہو''

دوسرے مقام پر ارشاد ہے :

____________________

(۱)سورئہ اسراء آیت ۱۸۔

(۲)سورئہ ص آیت۱۶۔

(۳)سورئہ قیامت آیت ۲۰۔

۲۱۰

( ان هؤلاء یُحبّون العاجلة ویذرون وراء هم یوماً ثقیلاً ) ( ۱ )

''یہ لوگ صرف دنیا کی نعمتوں کو پسند کرتے ہیں اور بڑے بھاری دن کو اپنے پس پشت چھوڑبیٹھے ہیں ''

ہم جب روایات کے اندر غوروفکر کرتے ہیں تویہ اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا وآخرت کے درمیان ٹکرائو ہمیشہ محرمات کے میدان ہی میں نہیں ہوتا بلکہ یہ ٹکرائو کبھی کبھی ''حلال'' معاملات کے درمیان بھی پیدا ہوسکتا ہے یہ نکتہ اسلامی افکار کے انوکھے نظریات میں سے ایک ہے ۔

جیسا کہ روایات میں ہمیں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اہلبیت طاہرین اور خداوند عالم کے دوسرے نیک اور صالح بندے دنیا کی نعمتوں کے استعمال میں افراط کو پسند نہیںکرتے تھے جسکا سبب شاید یہ ہوکہ دنیا کی نعمتوں سے زیادہ لطف اندوز ہونے سے اس کی محبت میں اضافہ ہوجاتا ہے اورانسان دنیا سے مزید وابستہ ہوجاتا ہے کیونکہ دنیا کی محبت اور اس کی نعمتوں کے لئے جلد بازی کرنے کے درمیان دو طرفہ (طرفینی)رابطہ ہے یعنی جب انسان دنیا سے محبت کریگا تو اسکی نعمتوں کو حاصل کرنے کیلئے بے تابی دکھا ئے گا اور جب نعمتوں کو حاصل کرنے کیلئے جلد بازی سے کام لینے لگے گا تو اسکے دل میں دنیا کی محبت رچ بس جائے گی ۔

بہر حال اس تحقیق کا نتیجہ چاہے جو کچھ بھی ہو لیکن ہمیں اس بات میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ دنیا اور آخرت کی نعمتوں کے درمیان ٹکرائو حلال چیزوں میں بھی پایا جاتا ہے البتہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لئے جن آرائشوں یا نعمتوں کو حلال قرار دیا ہے انہیں حرام قرار دیدیاجائے بلکہ اسکا معاملہ حلال و حرام کے ٹکرائوکے معاملات سے بالکل الگ ہے جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ یہ اسلامی افکارکے مختلف انوکھے نظریات میں سے ایک نظریہ ہے ۔

____________________

(۱)سورئہ انسان آیت ۲۷۔

۲۱۱

آئندہ سطروں میں ہم اس بارے میں موجود روایات ذکر کرینگے اور اسکے بعد انکی وضاحت

اور تفسیر بھی پیش کریںگے۔

روایات

حضرتعمر کا بیان ہے کہ میں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میںعرض کی کہ اے ﷲ کے رسول ،خدا سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت کو بھی فراوانیاں عطا کرے ۔ اللہ نے فار س و روم کو تو خوب نواز رکھا ہے حالانکہ وہ قومیں خدا کی عبادت بھی نہیں کرتی ہیں۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا:

(أفیشک أنت یابن الخطاباُو قوم عُجّلت لهم طیبا تهم فی الحیاةالدنیا )( ۱ )

''اے ابن خطاب تم کس شک میں مبتلا ہو ؟ان قوموں نے اپنے طیبات کو اسی زندگانی دنیا میں پالیا ہے ''

پیغمبر اکرم کی خدمت میں ''خبیص''(ایک قسم کا حلوہ )پیش کیا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار فرمادیا حاضرین نے پوچھا۔کیا آپ اس کو حرام سمجھتے ہیں ؟آپ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ میرا نفس اسکاشوقین ہوجائے :

پھر آپ نے اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

(أذهبتم طیبا تکم فی الحیاةالدنیا )( ۲ )

''تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے مزے اڑاچکے ''

____________________

(۱)کنز العمال :ح۴۶۶۴۔

(۲)نورالثقلین ج۵ص ۱۵۔

۲۱۲

عمر بن خطاب کابیان ہے کہ میںنے حضور سے باریابی کی اجازت طلب کی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا آپ مشربۂ ام ابراہیم (ایک جگہ کا نام)میں اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ آپ کے جسم مبارک کے بعض حصے خاک پر تھے آپ کے سر کے نیچے کھجور کی پتیوں کا تکیہ تھا، میں سلام کرکے بیٹھ گیا اور عرض کی :اے رسول خدا آپ ﷲ کے نبی،اسکے منتخب بندے اور بہترین خلق خدا ہیں۔قیصر وکسری سونے کے تخت اور حریر و دیباکے فرش پر آرام کرتے ہیں(اور آپ کا یہ عالم ہے ؟)رسول خدا نے فرمایا:

(اُولٰئک قوم عُجّلت طیباتهم وهی وشیکة الانقطاع،وانما اُخّرت لناطیبا تنا )( ۱ )

''ان اقوام کے طیبات یہیں عطا کردئے گئے ہیںجوبہت جلد منقطع ہوجائیں گے۔ اورہمارے طیبات کو آخرت پر اٹھارکھا گیا ہے ''

روایت ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اصحاب صفہ کے پاس پہونچے تو وہ اپنے کپڑوں میں چمڑے کا پیوند لگارہے تھے اور ان کے پاس پیوند لگانے کے لئے کپڑے کا ٹکڑا نہیں تھا تو آپ نے فرمایا ہے کہ یہ دن تمہارے لئے بہتر ہے یا وہ دن جب صبح کو تم بہترین حلے پہنے ہوگے اور شام کے وقت دوسرا پہن لو گے اور صبح کو ایک پیالا اور شام کو دوسرا پیالا استعمال کروگے اور اپنے گھر پر اس طرح غلاف چڑھائے ر کھوگے جس طرح کعبہ پر غلاف چڑھارہتا ہے ؟تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے وہی دن بہتر ہے تو آپ نے فرمایا :نہیں بلکہ تم آج ہی بہتر ہو۔( ۲ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب فاطمہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ آپ اونٹ کے بالوںسے بنی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اوراپنے ہاتھوں سے چکی چلارہی ہیں اوراپنے بچے کودودھ پلارہی ہیں تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا:

____________________

(۱)نورالثقلین ج۵ص۱۵۔

(۲)نورالثقلین ج۵ص۱۷۔

۲۱۳

(یابنتاه تعجّلی مرارة الدنیا بحلاوة الآخرة )

''اے بیٹی آج تلخی دنیا کے بدلے آخرت کی حلاوت خرید لو''

جناب فاطمہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

(یارسول ﷲ الحمدﷲ علیٰ نعمائه،والشکرﷲ علیٰ آلائه )

''اے رسول خدا ،تمام تعریفیں ﷲ کے لئے ہیں اسکی نعمتوں پر ،اور اسکی عنایات پراس کا شکر ہے

تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:

(ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ )( ۱ )

''عنقریب آپ کا رب آپ کو اس قدر عطا کرے گاکہ آپ خوش ہوجائیں گے''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(انّا لنحبّ الدنیا،وأن لانؤتاها خیرمن أن نؤتاها،وما أوتی ابن آدم منها شیئاً الا نقص حَظّه من الآخرة )( ۲ )

''ہمیںدنیا سے محبت ہے اور ہماری نگاہ میں دنیا کا نہ ملنا اس کے ملنے سے بہتر ہے کیونکہ فرزند آدم کو جس مقدار میں دنیا ملتی ہے آخرت سے اسکا اتنا ہی حصہ کم ہوجاتا ہے ''

امام جعفر صادق سے منقول ہے :

(آخرنبی یدخل الجنة سلیمان بن داؤد عليه‌السلام وذلک لما اُعطی فی الدنیا )( ۳ )

''جنت میں داخل ہونے والے آخری نبی سلیمان بن دائود ہوں گے کیونکہ دنیامیںانہیں

____________________

(۱)نورالثقلین ج۵ص۵۹۴ومیزان الحکمت ج۳:ص۳۲۶۔۳۲۷۔

(۲)بحارالانوار ج۷۱ ص۸۱ ومیزان الحکمت ج۲:ص۳۲۶۔

(۳) بحارالانوار ج۱۴ص ۷۴۔

۲۱۴

بہت کچھ عطا کردیا گیا تھا ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشا د ہے:

(کلمافاتک من الدنیا شی ئ فهوغنیمة )( ۱ )

''دنیا میں جو چیز بھی تم سے فوت ہوجائے وہ غنیمت ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(مرارة الدنیاحلاوةالآخرة،وحلاوةالدنیامرارةالآخرةوسوء العقبیٰ )( ۲ )

''دنیا کی تلخی آخرت کی حلاوت و شیرینی ہے اور دنیا کی حلاوت آخرت کی تلخی اور بری عاقبت ہے ''

آپ نے ارشاد فرمایا :

(من طلب من الدنیاشیئاً فاته من الآخرة أکثرمما طلب )( ۳ )

''جو دنیا میں کسی شے کو طلب کرتا ہے اس سے زیادہ اسکا آخرت میں گھاٹاہوجاتا ہے ''

آپ ہی سے منقول ہے :

(مازادفی الدنیا نقص فی الآخرة،ومانقص من الدنیا زاد فی الآخرة )( ۴ )

''دنیا کی زیادتی آخرت کا نقصان اور دنیا کا نقصان آخرت کی زیادتی ہے ''

امام جعفر صادق نے حضرت امام زین العابدین کا یہ قول نقل کیا ہے :

(ماعرض لی قط أمران،أحدهما للدنیا،والآخر للآخرة،فآثرت

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۱۱۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۲۴۳۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۲۲۱۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۲۶۸۔

۲۱۵

الدنیا الا رأیت ما أکره قبل أن اُمسی )

''میرے سامنے جب بھی کبھی دو کام آتے ہیں ایک دنیا سے متعلق اور دوسرا آخرت سے متعلق ،اگر میں نے ان میںدنیا وی کام کو ترجیح دیدی تو شام ہونے سے قبل ناپسندیدہ اور مکروہ شے کا مشاہدہ کرلیتا ہوں ''

پھر امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لبَنی اُمیة أنهم یؤثرون الدنیا علیٰ الآخرة منذ ثمانین سنة ولیس یرون شیئاً یکرهونه )( ۱ )

''اور یہ بنی امیہ اسّی سال سے دنیا کو آخرت پر ترجیح دے رہے ہیں اور انہیں کسی بھی چیز سے کراہت محسوس نہیں ہوتی ہے ''

اس مسئلہ کی وضاحت امیر المومنین کے اس قول سے ہوجاتی ہے :

(واعملوا أن مانقص من الدنیا،وزاد فی الآخرة خیرمما نقص من الآخرة وزاد فی الدنیا،فکم من منقوصفا تقواﷲحق تقا ته ولا تموتن الا وأنتم مسلمون )( ۲ )

''یاد رکھو کہ دنیا میں کسی شے کا کم ہونا اورآخرت میں زیادہ ہونا اس سے بہتر ہے کہ دنیا میں زیادہ ہو اور آخرت میں کم ہو جائے کہ کتنے ہی کمی والے فائدہ میں رہتے ہیں اور کتنے ہی زیادتی والے گھاٹے میں رہ جاتے ہیں ۔بیشک جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ان میں زیادہ وسعت ہے بہ نسبت ان چیزوں کے جن سے روکا گیا ہے اور جنہیں حلال کیا گیا ہے وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۷۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۳۔

۲۱۶

جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے لہٰذا قلیل کو کثیر کے لئے اور تنگی کو وسعت کی خاطر چھوڑدو ۔پروردگار نے تمہارے رزق کی ذمہ داری لی ہے اور عمل کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ جس کی ضمانت لی گئی ہے اسکی طلب اس سے زیادہ ہوجائے جس کو فرض کیا گیا ہے ۔خدا گواہ ہے کہ تمہارے حالات کو دیکھ کر شبہ ہونے لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شائد جس کی ضمانت لی گئی ہے وہ تم پر واجب کیا گیا ہے اور جس کا حکم دیا گیا ہے اسے ساقط کردیاگیا ہے ۔خدا را عمل کی طرف سبقت کرو اورموت کے اچانک وارد ہوجانے سے ڈرو اس لئے کہ موت کے واپس ہونے کی وہ امید نہیںہے جس قدر رزق کے پلٹ کر آجانے کی ہے ۔جو رزق آج ہاتھ سے نکل گیا ہے اس میں کل اضافہ کا امکان ہے لیکن جو عمر آج نکل گئی ہے اسکے کل واپس آنے کا بھی امکان نہیں ہے ۔امید آنے والے کی ہوسکتی ہے جانے والے کی نہیں اس سے تو مایوسی ہی ہوسکتی ہے ''ﷲسے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبر دار اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجائو''

روایات کا تجزیہ

مذکورہ روایات میں سند یا متن کے لحاظ سے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ تعدادکے اعتبار سے بہت زیادہ اورسند کے لحاظ سے مستفیضہ ہیںلہٰذاان سب کے بارے میں شک کا امکان نہیں ہے یہ روایا ت فقط حرام امور سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ حرام وحلال دونوں قسم کی لذتوں کو بیان کرتی ہیں ان روایات کے مطابق دنیا و آخرت کا ٹکرائو صرف حرام اشیاء میں ہی نہیں بلکہ اس ٹکرائو میں حلال لذتیں بھی شامل ہیں ان کے معانی و مطالب واضح اور ظاہر ہیں اور ان کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ صرف حرام لذتوں سے منع کر رہی ہیں جس کی بناپر خداوند عالم کایہ قول :

۲۱۷

(یاأیهاالنّاس کلواممافی الارض حلالاً طیّباولا تتبعواخطوات الشیطان انه لکم عدومبین )( ۱ )

''اے انسانو:زمین میں جوکچھ بھی حلال وطیب ہے اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ''

یا دوسرے مقام پر ارشاد ہے :

(قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعباده والطیبات من الرزق،قل هی للذین آمنوا فی الحیاة الدنیاخالصة یوم القیامة )( ۲ )

''پیغمبر آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کوجسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے اور بتائیے کہ یہ چیزیں روز قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں ''

مذکورہ دونوںاقوال صرف خداوند عالم کی حلال کردہ طیبات سے مخصوص ہوجائیں جبکہ یہ روایات حرام چیزوں کے علاوہ زندگانی دنیا کی آسائشوں (متاع)سے استفادہ کرنے سے بھی منع کررہی ہیں۔

تو ہم ان روایات سے کیا نتیجہ اخذ کریں؟ایک جانب یہ روایات ہیں اور دوسری طرف قرآن مجید کی آیات ہیں کہ جن میں خداوند عالم اپنے بندوں کو طیب وطاہر رزق سے استفادہ کی دعوت دے رہا ہے اور طیبات الٰہی کو حرام قرار دینے والوں کو ٹوک رہا ہے ؟

ذیل میں ہم چند نکات کے ذریعہ اس سوال کا جواب پیش کرنے کی کوشش کریںگے امید ہے کہ ان نکات کے ساتھ ہمیںبہ ترتیب اسکاصحیح جواب مل جائے گا :

۱ ۔ذرادیر پہلے ہم نے جو روایات پیش کی ہیں ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام نعمات

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۱۶۸۔

(۲)سورئہ اعراف آیت ۳۲۔

۲۱۸

الٰہیہ اور طیب وطاہر رزق کو مسلمانوں کے لئے ممنوع قرار دیتا ہے ۔ ﷲ نے اپنے بندوں کے لئے جو اسباب زینت اور طیبات خلق کئے وہ بندوں کے لئے جائز اور مباح ہیں مگر یہ کہ خود پروردگار منع کردے خداوند عالم فرماتاہے:

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعباده والطیبات من الرزق قل هی للذین آمنوا فی الحیاة الد نیاخالصة یوم القیامة وکذ الک نفصل الآیات لقوم یعلمون ) ( ۱ )

''کہو کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے ۔اور بتائیے کہ یہ چیزیں روز قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیںجو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں ''

ان روایات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ انسان روئے زمین پر سعی و کوشش ہی نہ کرے بلکہ اس سلسلہ میں خدا کا حکم تو یہ ہے کہ :

( فاذاقُضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوامن فضل ﷲ ) ( ۲ )

''پھر جب نماز تمام ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجائو اور فضل خدا کو تلاش کرو''

لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا کا ہی ہوکر رہ جائے اور اسکی تمام تر کوششوں کا ماحصل صرف دنیا ہو بلکہ انسان کا اصل مقصد سلو ک الی ﷲ ہونا چاہئیے اور اسی کے ضمن میں دنیا کے لئے بھی کوشش کرتا رہے ۔

( وابتغِ فیماآتاک ﷲ الدارالآخرة ولاتنسنصیبک من الدنیا ) ( ۳ )

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۳۲۔

(۲)سورئہ جمعہ آیت ۱۰۔

(۳)سورئہ قصص آیت ۷۷۔

۲۱۹

''اور جو کچھ خدا نے دیا ہے اس سے آخرت کے گھر کا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''

لہٰذا بنیادی طورپر انسان کی حرکت خدا اور آخرت کے جانب ہونا چاہئیے مگر دنیا میں اپنے حصہ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے۔

۲۔اس وضاحت کے باوجود مسئلہ مکمل طورپر حل نہیں ہوجاتا کیونکہ دنیا اور آخرت کا ٹکرائو صرف محرمات کی حد تک نہیں ہے بلکہ حلال چیزوں میں بھی یہ ٹکڑائوپایا جاتا ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی فرماتے ہیں :

(ان الدنیاوالآخرةعدوّان متفاوتان،وسبیلان مختلفان،فمن أحبّ الدنیا وتولّاها أبغض الآخرةوعاداها،وهمابمنزلةالمشرق والمغرب،وماشٍ بینهماکلما قرب من واحد بَعُدَ من الآخر،وهمابعدضرّتان! )( ۱ )

''یاد رکھو دنیا و آخرت آپس میں دو ناسازگار دشمن ہیں اور دو مختلف راستے ۔لہٰذا جو دنیا سے محبت اور تعلق خاطررکھتا ہے وہ آخرت کا دشمن ہوجاتا ہے اور یہ دونوں مشرق ومغرب کی طرح ہیں کہ جو راہرو ایک سے قریب تر ہوتا ہے وہ دوسرے سے دورتر ہوجاتا ہے پھریہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی سوت جیسی ہیں ''

انسان اس دنیا کی نعمتوں اور حلال لذتوں سے چاہے جتنااستفادہ کرلے خدا اسے سزا نہیں دے سکتا کیونکہ یہ چیزیں حرام نہیں ہیںالبتہ جتنا دنیا میں نعمتوں سے استفادہ کرتا جائے گا اسی مقدار میں جنت کی نعمتوں سے محروم ہوتاجائے گاکیونکہ لذائذ دنیا سے استفادہ کرنے کی وجہ سے آخرت کو پانے کے مواقع کم ہوتے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حلال لذتوں کے اعتبار سے بھی دنیا وآخرت میں ٹکرائو پایاجاتا ہے مندرجہ ذیل چند مثالوں کے ذریعہ اس بات کی وضاحت ہوجائے گی ۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۰۰۔

۲۲۰