خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں0%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 349
مشاہدے: 92191
ڈاؤنلوڈ: 3716

تبصرے:

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 92191 / ڈاؤنلوڈ: 3716
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

( وجعلنی مبارکاً أینماکنت ) ( ۱ )

''اور مجھے مبارک قرار دیا ہے چاہے میں جہاں رہوں ''

جب تک ﷲ کسی بندہ کو توفیق کرامت نہ فرمائے یا اسکے لئے بھلائی کا ارادہ نہ کرے تو بندہ

اپنی جدوجہد اور عقل کے ذریعہ تھوڑے سے اسباب خیر ہی حاصل کرسکتا ہے۔

( لاینفع اجتهاد بغیرتوفیق ) ( ۲ )

''کوئی بھی کوشش توفیق کے بغیر مفید نہیں ہوتی ''

اورجب پروردگار عالم کسی بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کو توفیق مرحمت کرتا ہے اور اسکی سعی و کوشش کو فلاح و کامیابی کے راستہ پر لگادیتا ہے جس سے اسکی سعی وکوشش نتیجہ بخش ہوجاتی ہے۔

حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(خیرالاجتهاد ما قارنه التوفیق )( ۳ )

''بہترین کوشش وہ ہے جو توفیق کے ساتھ ہو''

دوسری حدیث میں وارد ہو ا ہے:

(التوفیق أشرف الحظّین )( ۴ )

''توفیق دواشر ف واعلی حصو ںمیں سے ایک ہے''

اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس کچھ ایسے اسباب خیروسعادت ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنی عقل اور جدوجہد کے سہارے حاصل کرتا ہے یا وہ وسائل و ذرائع ہوتے ہیں جوﷲ نے اسے عطا

____________________

(۱)سورئہ مریم آیت ۳۱۔

(۲)غررالحکم ج۲ ص۳۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۳۵۱۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۸۲۔

۳۰۱

کئے ہیں یہ بھی نتیجہ تک پہونچنے میں شریک ہیں مگر ان کا حصہ اور ان کی منزلت کم ہے۔دوسرا جز اور حصہ خیروبرکت کے وہ غیبی اسباب ہیں جنہیں ﷲ اپنے بندہ کے شامل حال کرتا ہے یا جب بندہ کو اس کی سعی وکوشش سے اسباب خیر میسر نہیں ہوتے تواللہ اسے خیر و سعادت کی راہ پر لگادیتا ہے یہ دوسرا حصہ ہے جو حدیث کے مطابق زیادہ مخفی ہوتا ہے۔

بلا شبہ توفیق جوایک غیبی سبب ہے اور انسان کو خیروبرکت کی راہ دکھاتا ہے ۔انسان کے پاس

موجود دیگر عقلی اور فطری امکانات اور قوتوںسے جدا ایک چیز ہے اگر چہ یہ قوتیں اورصلاحتیں بھی عطائے پروردگار ہیں لیکن تنہا یہ صلاحتیں انسان کو خیروسعادت کی منزل تک پہونچانے کے لائق نہیں ہیں یعنی صرف انھیں کے سہارے انسان شر سے محفوظ نہیںرہ سکتا ہے بلکہ پروردگار جب کسی بندہ کے لئے خیرکا ارادہ کرتا ہے تو اسکی سعی وکوشش اور صلاحیتوں کو خیر کے صحیح راستوں پر بروئے کار لانے میں اسکی مدد کرتا ہے۔مندرجہ ذیل حدیث اس حقیقت کی صاف وضاحت کرتی ہے۔

روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق سے سوال کیا:

(یا بن رسول ﷲ! ألست أنا مستطیعاً لماکُلِّفْتُ؟فقال له عليه‌السلام :(ما الاستطاعة عندک؟) قال:القوةعلیٰ العمل،قال له عليه‌السلام :(قد اُعطیت القوة،ان اُعطیت(المعونة)،قال له الرجل:فما المعونة ؟ قال عليه‌السلام :(التوفیق)،قال(الرجل):فلم اِعطائُ التوفیق؟ قال(الامام) عليه‌السلام : هل تستطیع بتلک القوةدفع الضررعن نفسک،وأخذالنفع الیهابغیرالعون من ﷲ تبارک وتعالیٰ؟)قال:لا، قال عليه‌السلام :(فَلمَ تنتحل مالا تقدرعلیه؟)ثم قال:(أین أنت من قول العبد الصالح:(وما توفیقی الا بﷲ) ( ۱ )

____________________

(۱)بحار الانوارج۵ ص۴۲۔''وماتوفیقی الابﷲعلیه توکّلت والیه اُنیب'' ''میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسکی طرف میں توجہ کر رہاہوں''سورئہ ہو دآیت۸۸۔

۳۰۲

''فرزند رسول ﷲ !جب مجھے مکلف بنایاگیا ہے تو کیا میں مستطیع نہیں ہوں؟امام نے فرمایا:استطاعت سے تمہاری مراد کیاہے؟اس نے جواب دیا کہ عمل بجالانے کی قوت وطاقت''امام نے فرمایا:یہ درست ہے کہ تمہیں قوت دی گئی ہے مگر کیا تمہیں''معونہ''بھی نصیب ہوا ہے؟اس شخص نے سوال کیا:یہ معونہ کیاہے؟امام نے فرمایا:توفیق! اس شخص نے(تعجب سے)پوچھا:توفیق عطا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟امام نے فرمایا کہ:کیا تم اللہ کی مددکے بغیر صرف اپنی قوت کے ذریعہ اپنے کو نقصانات سے محفوظ ر کھ سکتے ہو اور فائدے حاصل کرسکتے ہو؟اس نے جواب دیا ہرگز نہیں:پھر امام نے دریافت فرمایا:پھرتم عبدصالح کے اس جملہ کا کیا مطلب سمجھتے ہوکہ' 'میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے ''

اس روایت کے مطابق انسانی زندگی میں تین طرح کی قوتیں اور عوامل کار فرما ہیں:

۱۔وہ طبیعی اور سماجی قوانین جو انسان کو خیریا شرکی جانب لے جاتے ہیں۔

۲۔وہ قوتیں اور صلاحتیں جو پروردگار عالم نے انسانی وجود میں رکھی ہیں اور جنہیں انسان طبیعت یا سماج میں خیروشر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔

۳۔توفیق و امداد الٰہی جس کے ذریعہ پروردگار اپنے بندوں کو اسباب خیر تک پہونچاتا ہے اور ان مخفی اسباب کے لئے بندوں کی مدد کرتا ہے جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے یا جن تک رسائی ممکن نہ تھی اس آخری سبب کے بغیر خیر تک پہونچنا ممکن نہیں ہے۔

کراجکی نے اپنی کتاب'' کنز ''میں روایت کی ہے کہ امام جعفر صاد ق نے فرمایا:

(ماکلّ من نویٰ شیئاً قدرعلیه،وما کل من قدر علیٰ شیٔ وُفّق له ۔۔۔)( ۱ )

''ایسا نہیں ہے کہ ہر انسان ہر اس چیز پر قدرت بھی رکھتا ہو جس کی اس نے نیت کی ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ جو مقدور ہو اسکی توفیق بھی حاصل ہواور نہ ہی ایسا ہے کہ جسکی توفیق حاصل ہو وہ شئے خود

____________________

(۱)بحارالانوار ج۵ص۲۰۹۔۲۱۰۔

۳۰۳

حاصل بھی ہوجائے۔جب نیت ، قدرت اورتوفیق کے ساتھ وہ چیزبھی حاصل ہوجائے تو سعادت مکمل کہلاتی ہے''

توفیق ،معرفت پروردگار کا بہت وسیع باب ہے اگر چہ ﷲ کی معرفت کے تین راستے ہیں:

۱۔فطرت

۲۔عقل (عقلی دلیلوںکے ذریعہ)

۳۔تعامل مع اللہ(اللہ کے ساتھ تجارت اور معاملہ)

''تعامل مع ﷲ'' معرفت کاایک وسیع در وازہ ہے لیکن اس دروازہ میں صرف صاحبان بصیرت داخل ہوسکتے ہیں اوراسکے ذریعہ انسان کو ایمان، اعتبارواطمینان اور توکل کاوہ درجہ حاصل ہوتا ہے جو فطرت اورعقل کے ذریعہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم کے ساتھ معاملہ اور اس کی عطا کے ساتھ لین دین اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی معیت کی وجہ سے ہی تائید خداوندی اوراس کی تو فیق ہر حال میں انسان کے شامل حال ہو تی ہے ۔

توفیق الٰہی یونہی کسی انسان کے شامل حال نہیں ہوجاتی بلکہ توفیق نازل ہونے کے اپنے اسباب و قوانین اور اصول ہیں۔ جسے پروردگار نے توفیق جیسی نعمت عطا کی ہے یقینا وہ اس لائق تھا کہ ایسی رحمت الٰہی اس کو نصیب ہو اور جو توفیق سے محروم ہے یقینا اس نے اس عظیم نعمت کے نزول و حصول کے مواقع ضرورگنوائے ہیں ورنہ رحمت الٰہی میں بخل و کنجو سی کا دخل نہیں ہے اور نہ ہی اسکا خزانہ ٔ رحمت ختم ہونے والا ہے ۔یہ عظیم نعمت اسی کے حصہ میں آتی ہے جس کے شامل حال خدا کی توفیق ہوتی ہے اور اس نعمت سے محروم صرف وہی ہوتا ہے کہ جسے توفیق نصیب نہ ہو۔ توفیق جیسی نعمت پانے والے افراد بھی برابر نہیں ہوتے بلکہ استحقاق، صلاحیت ،لیاقت اور ظرف کے اعتبار سے ان کی توفیق کے مراتب ودرجات بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔

۳۰۴

اسکی بارگاہ سے رحمت،توفیق کی شکل میں بے حساب نازل ہوتی رہتی ہے البتہ اس سے صرف وہی لوگ محروم رہتے ہیں جن کا نفس بد اعمالیوں کے باعث گھاٹے میں ہے اور جنھوںنے اپنے آپ کو اوراپنے باطن اور ظرف کواسکے حصول کے قابل نہیں بنا یاہے جبکہ ان کے برخلاف صاحبان ایمان اپنی استعداد اورظرف کے مطابق اس نعمت سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہیں۔( ۱ )

رزق اگر چہ عالم ظاہر و شہودکا معاملہ ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مسئلہ رزق سے غیبی اسباب کا کتنا گہرا تعلق ہے ۔

عالم غیب اور عالم شہود(ظاہر)کے درمیان رابطہ

مسئلہ''غیب''اور''غیب وشہود کا تعلق''جیسے مسائل اسلامی نظریات کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیںاور اس سلسلہ میں لوگوں کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو سرے سے غیب کے منکر ہیں کچھ شہود کے مقابل غیب کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان رابطہ کے منکر ہیں۔

اسلام''غیب''کو صرف تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ''غیب''پر ایمان کی دعوت دیتا ہے اور ''ایمان بالغیب''کو اسلام کی سب سے پہلی شرط قرار دیتا ہے۔

( الم ٭ذٰلک الکتاب لاریب فیه هدیً للمتقین٭الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلاة و مما رزقناهم ینفقون ) ( ۲ )

''یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگارلوگوں کیلئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ

____________________

(۱)مؤلف کی کتاب ''المذہب التاریخی فی القرآن الکریم ، سے اقتباس ،معمولی تبدیلی کے ساتھ صفحہ ۴۰۔۴۹۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۱۔۳۔

۳۰۵

نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں ''

( الذین یخشون ربهم بالغیب وهم من الساعة مشفقون ) ( ۱ )

''جو از غیب اپنے پروردگار سے ڈر نے والے ہیں اور قیامت کے خوف سے لرزاں ہیں''

( انما تنذر من اتبع الذکر وخشی الرحمٰن بالغیب ) ( ۲ )

''آپ صرف ان لوگوں کو ڈر ا سکتے ہیں جو نصیحت کا اتباع کریں اور بغیر دیکھے ازغیب خدا سے ڈر تے رہیں ''

اسلام عالم غیب اور عالم شہود کے درمیان ربط کا بھی قائل ہے اس کا یہ نظریہ ہے کہ ان دونوں وسیع افقوں کوجوڑنے والے بہت سے پل بھی پائے جاتے ہیں ان تمام باتوں سے بڑھکر اسلام کا عقیدہ ہے کہ دونوں عالم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی عالم غیب ،عالم ظاہر و محسوس پر اثر انداز ہوتا ہے اور عالم محسوس و ظاہر غیب پر ،اگر انسان متقی وپرہیزگار ہے۔ایمان بالغیب کے باعث دل میں خشیت الٰہی پائی جاتی ہے اور وہ گناہوں سے کنارہ کش رہتا ہے تو یہ چیزیں براہ راست انسان کی مادی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔معاش حیات کی سختیاں آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور رزق کے دروازے اسکے لئے کھل جاتے ہیں۔ارشاد پروردگار ہے:

( ومن یتّق اللّٰه یجعل له مخرجاً٭ویرزقه من حیث لا یحتسب ) ( ۳ )

''اور جو بھی ﷲ سے ڈرتا ہے ﷲ اسکے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے ،اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جسکا وہ گمان بھی نہیں کرتا ہے ''

____________________

(۱)سورئہ انبیاء آیت۴۹ ۔

(۲)سور ئہ یٰس آیت۱۱۔

(۳)سورئہ طلاق آیت ۲۔۳۔

۳۰۶

( ومن یتّق اللّٰه یجعل له من أمره یسرا ) ( ۱ )

اور جو ﷲ سے ڈرتا ہے ﷲ اسکے امرمیں آسانی پیدا کردیتا ہے ''

یہ تو تھا عالم ظاہر و محسوس کا عالم غیب سے تعلق۔ اسکے برخلاف عالم غیب کا بھی عالم ظاہر سے

تعلق پایا جاتا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے:

(لولا الخبزماصلّینا )( ۲ )

''اگر روٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہم نماز نہ پڑھتے''

آپ ہی سے منقول ہے:(وبہ (الخبز)صمتم)( ۳ )

''تم لوگوں کے روزے اسی روٹی کیلئے ہیں''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(فلولاالخبزماصلّیناولاصمنا،ولا أدّینافرائض ربناعزّوجلّ )( ۴ )

''اگر روٹی (کی بات) نہ ہوتی تو نہ ہم نماز پڑھتے اور نہ روزہ رکھتے اور نہ ہی اپنے پروردگار کے احکام بجالاتے''

____________________

(۱)سورئہ طلاق آیت۴۔

(۲)اصول کافی ج۵ص۷۳۔

(۳)اصول کافی ج۶ ص۳۰۳۔

(۴)اصول کافی ج۵ص۷۳۔

۳۰۷

حرکت تاریخ کے سلسلہ میں غیبی عامل کا کردار

عالم غیب اور عالم محسوس میں اسی رابطہ کی بنا پر قرآن کریم ''غیب''کو حرکت تاریخ کا اہم سبب شمار کرتا ہے اور تاریخ کے پیچھے مادی سبب کو بھی تسلیم نہیں کرتا چہ جائیکہ مادیت کو تاریخ کا تنہا محرک مانا جائے بلکہ بسا اوقات ایسا بھی دکھائی دیتا ہے کہ تاریخ مادی عوامل کے تقاضوں کے برخلاف حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ذرا قرآن کریم کی ان آیات میں غور وخوض کیجئے:

( لقدنصرکم ﷲ فی مواطن کثیرة ویوم حنینٍ اذ أعجبتکم کثرتکم فلم تغنِ عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولّیتم مدبرین٭ثم أنزل ﷲ سکینته علیٰ المؤمنین وأنزل جنوداً لم تروها وعذّب الذین کفروا وذٰلک جزاء الکافرین ) ( ۱ )

''بیشک اللہ نے اکثر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس(کثرت) نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے ،پھر اسکے بعد اللہ نے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھااور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیاکہ یہی کافرین کی جزا اور ان کا انجام ہے''

ان آیات کریمہ سے پہلا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ فتح و کامرانی عطا کرنے والا خدا ہے۔

مادی اسباب و وسائل صرف ذریعہ ہیں کامیابی دینے والا اصل میں خدا ہے۔ تاریخ کی حرکت کو سمجھنے کے لئے بنیادی نقطہ یہی ہے اور یہیں سے اسلامی نظریہ،مادیت کے نظریہ سے جدا ہوجاتا ہے۔

آیات کریمہ میں دوسرا اہم تذکرہ لشکر اسلام کی کثرت کے باوجود حنین کی جنگ کا نقشہ منقلب ہونا ہے حالانکہ مادی نگاہ رکھنے والوں کے نزدیک افرادکی کثرت فتح کا سبب ہوتی ہے۔ ''اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچایااور

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت۲۵۔۲۶۔

۳۰۸

تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوںسمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعدتم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔

آیات کریمہ میں تیسرا تذکرہ ﷲ کی جانب سے اپنے رسول اور مومنین پرعین میدان جنگ میں سکینہ نازل ہونا ہے۔اسی سکینہ کے باعث شدت کے لمحات میں انہیں اطمینان و سکون حاصل ہوا

اور وہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہ سکے اور ان کے دلوں سے خوف واضطراب زائل ہوایہ سکینہ فقط خدا کی جانب سے تھا ﷲ نے فرشتوں کا نہ دکھائی دینے والالشکر نازل کیا جو لشکر کفار کو ہزیمت پر مجبور کر رہا تھا ان کی صفوں میں رعب پھیلا رہا تھا اسکے بر خلاف دشمن سے مقابلہ کے لئے مومنین کے دلوں کو تقویت عطا کررہا تھا۔

اب ہم سورئہ آل عمران کی ان آیات کو پڑھیں:

( بلیٰ ان تصبروا وتتّقوا ویأ توکم من فورهم هذا یُمددکم ربّکم بخمسة آلاف من الملا ئکةمسوّمین٭ وما جعله ﷲ الابشریٰ لکم ولتطمئنّ قلوبکم به وما النصرالا من عندﷲ العزیزالحکیم ) ( ۱ )

'' یقینا اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے اور دشمن فی الفورتم تک آجائیں تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مددکریگا جن پر بہادری کے نشان لگے ہوںگے ۔اور اس امداد کو خدانے صرف تمہارے لئے بشارت اور اطمینان قلب کا سامان قرار دیا ہے ورنہ مدد تو صرف خدائے عزیز و حکیم کی طرف سے ہوتی ہے ''

جنگ کی شدت اور سختیوں کے دوران پانچ ہزار ملائکہ کے ذریعہ غیبی امداد نے فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کرادیا۔ﷲ نے ملائکہ کے ذریعہ مومنین کے دلو ں کو سکون واطمینان عطا کیا اور اس طرح سخت ترین لمحات میں انہیں اسطرح بشارت وخوش خبری سے نواز ا۔ اسی آیہ شریفہ میں اس

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت۱۲۵۔۱۲۶۔

۳۰۹

بنیادی نقطہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو نقطہ تاریخ کی حرکت کے بارے میں اسلام اور مادیت کے درمیان حدفاصل ہے( وماالنصرالا من عندﷲ العزیزالحکیم ) فتح وکامرانی صرف اور صرف ﷲ کی جانب سے ہے جنگ احد میں جیتی ہوئی جنگ کا نقشہ پلٹ جانے کے بعد مومنین کو سکھائے گئے

اسباق سورئہ آل عمران میں موجود ہیں:

( ولا تهنواولا تحزنواوأنتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ) ( ۱ )

''خبر دار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ہونا،اگر تم صاحب ایمان ہوتو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے ''

میدان جنگ میں یہ برتری خدا پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ایمان کے بعد پھر کہیں ان مادی اسباب و عوامل کی باری آتی ہے جنکی ضرورت میدان جنگ میں پڑتی ہے۔

سورئہ اعراف میں بھی یہی مضمون نظر آتا ہے:

( ولوأنّ أهل القریٰ آمنوا وا تّقوا لفتحنا علیهم برکاتٍ من السماء والارض ولکن کذّبوا فأخذناهم بماکانوا یکسبون ) ( ۲ )

''اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔''

''پروردگار عالم اپنے بندوں پر زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیتا ہے'' یہ چیز ایمان وتقوے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔اسکے ساتھ ضمنی طورپرمادی و سائل بھی درکار ہوتے ہیں۔

یہ تصویر کا ایک رخ تھا جو کہ مثبت رخ تھا کہ کس طرح میدان جنگ میں ایمان اور تقوی ٰسے

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت۱۳۹۔

(۲)سورئہ اعراف آیت۹۶۔

۳۱۰

فتح و کامرانی ملتی ہے معاشی زندگی میں وسعت رزق ،آسانیاں اور خوشیاں میسر ہوتی ہیں۔ اسکے برخلاف عالم غیب اور عالم محسوس کا یہی تعلق اور رابطہ غلطیوں اورگناہوںمیں مبتلاہونے اور حدود الٰہی سے تجاوز ،تہذیبوں کے خاتمہ اور امتوں کی تباہی و بربادی کا سبب بھی ہوتا ہے۔

سورئہ انعام کی ان آیات کو غور سے پڑھئے:

( ألم یرواکم أهلکنامن قبلهم من قَرنٍ مکنّاهم فی الارض مالم نمکّن لکم وأرسلنا السماء علیهم مدراراً وجعلنا الانهارتجری من تحتهم فأهلکناهم بذنوبهم وأنشأنا من بعدهم قرناً آخرین ) ( ۱ )

''کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوں کو تباہ کردیا ہے جنہیں تم سے زیادہ زمین میں اقتدار دیا تھا اور ان پر موسلادھار پانی بھی برسایا تھا ان کے قدموں میں نہر یں بھی جاری تھیں پھر ان کے گناہوں کی بناپر انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری نسل جاری کردی ''

یہ ہلاکت و بربادی بے عملی، عصیان اور گناہوں کی وجہ سے تھی مادیت کو تاریخ کا محرک سمجھنے والوں کی نگاہ میں ان اسباب کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے جبکہ قرآن بد اعمالیوں کو بھی بربادی کا سبب مانتا ہے ۔

اسی سورئہ مبارکہ کی یہ آیات کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں جن میں قرآن مجید نے تسلسل کو مکمل طور پر پیش کردیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

( ولقد ارسلنالیٰ امم منقبلک فاخذناهم بالبأسآء والضرّآء لعلهم یتضرعون٭ فلولااذجاء هم بأسنا تضرّعوا ولکن قست قلوبهم و زیّن لهم الشیطان ماکانوا یعملون٭فلمانسوا ما ذکّروا به فتحناعلیهم أبواب کل شیٔ حتّٰی اذا فرحوابما اُوتوا أخذنٰهم بغتة ً فاذا هم مبلسون٭فقطع )

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت۶۔

۳۱۱

( دابرالقوم الذین ظلموا والحمد ﷲ ربّ العالمین ) ( ۱ )

''ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اسکے بعد انہیں سختی اور تکلیف

میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں۔پھر ان سختیوں کے بعد انہوں نے کیوں فریاد نہیں کی ؟بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے ۔پھر جب وہ ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طورپر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دئے ،یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوشحال ہوگئے تو ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ،اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے، پھر ظالمین کا سلسلہ منقطع کردیاگیا اور ساری تعریف اس ﷲکے لئے ہے جو رب العالمین ہے ''

تمام امتوں کے آغاز سے لیکر ان کے انجام تک تین مرحلے ہیں جن کی طرف ان آیات کریمہ میںاشارہ پایا جاتا ہے اسی طرح ان تینوں مرحلوں میں عالم غیب اور عالم محسوس کے درمیان رابطہ کی وضاحت پائی جاتی ہے۔

پہلا مرحلہ

یہ آزمائش کا مرحلہ ہے اس مرحلہ میں پروردگار امتوں کو نعمتوں اور صلاحتیوں سے نواز تا ہے۔اس مرحلہ میں گناہ و معصیت نزول بلا اور بارگاہ خداوندی میں تضرع وزاری بلائوں سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلّهم یتضرّعون )

''اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلاکیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

گناہ سے بلائووں کانازل ہونا اور تضرع وزاری سے بلائووں کا برطرف ہونا یہ در اصل عالم

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت۴۲۔۴۵۔

۳۱۲

غیب اور عالم محسوس کے رابطہ کو بیان کرتا ہے اوراس نقطہ تک مادی فکرکی رسائی نہیں ہوسکتی ہے یہ بات ہمیںکتاب خدا سے معلوم ہوئی ہے۔

دوسرا مرحلہ

مہلت اور چھوٹ کا مرحلہ ہے ۔اس مرحلہ میں بھی عالم غیب و محسوس کا تعلق نمایاں ہے اس لئے کہ برائیوں اور گناہوں میں غرق ہوجانے اور آزمائش کے مرحلہ میں مصائب و مشکلات کو نظر انداز کرتے رہنے کے باوجود کبھی کبھی امت پر نعمت کا دروازہ بند نہیں ہوتا لیکن اس مرحلہ میں رزق،نعمت نہیںبلکہ عذاب ہوتا ہے اور ﷲ اس طرح انہیں ان کی سرکشی میں چھوٹ دیکر ان کی رسی درازکردیتا ہے تاکہ پھراچانک ایک دم پوری سختی وقوت کے ساتھ انہیں جکڑلے:

( فلما نسواماذکّروا به فتحنا علیهم أبواب کلّ شیٔ ) ( ۱ )

''پھر جب وہ ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طورپر ان کے لئے ہرچیز کے دروازے کھول دئے ''

تیسرا مرحلہ

بربادی اور نابودی کا مرحلہ ہے:

( فقطع دابرالقوم الذین ظلموا والحمد ﷲ ربّ العالمین ) ( ۲ )

''پھر ظالمین کا سلسلہ منقطع کردیا گیا اور ساری تعریف اس ﷲکے لئے ہے جو رب العالمین ہے ''

حمد خدا یہاں عذاب پر ہے نعمت پرنہیں۔ یعنی نعمت حیات کے بجائے ''سرکش افراد کی '' نابودی اورہلاکت پر حمد وثنا ئے الٰہی کی جارہی ہے ۔

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت ۴۴۔

(۲)سورئہ انعام آیت۴۵۔

۳۱۳

عالم غیب ومحسوس کا رابطہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مراحل سے جدا نہیں ہے کیونکہ جب افراد قوم اکڑتے ہیں روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان چیزوں میں فرحت محسوس کرتے ہیں تو ان پر ایسا عذاب نازل ہوتا ہے کہ پوری قوم نیست ونابود ہوجاتی ہے۔

لہٰذامعلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں غیبی عامل ،حرکت تاریخ کا اہم عنصر ہے۔

غیبی عامل،مادی عوامل کا منکر نہیں

اگر چہ اسلام کی نگاہ میں حرکت تاریخ کا اہم عنصر غیبی عامل ہے مگراسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے

کہ اسلام انسانی زندگی میں مادی عوامل کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ در حقیقت حرکت تاریخ کا عامل، کسی ایک چیز کو ماننے کے بجائے اسلام متعدداور مشترکہ عوامل کا قائل ہے یعنی غیبی اور مادی عوامل ایک ساتھ مل کر تاریخ کو آگے بڑھاتے ہیں ۔اور ان میں سے صرف کوئی ایک عامل تاریخ کا محرک نہیں ہے وہ مادی عامل ہو یا معنوی۔ اسلام کی نگاہ میںزندگی بسر کرنے کے لئے ان دونوں عوامل کوبروئے کار لانا ضروری ہے۔

تقویٰ اور رزق کا تعلق

جب عالم غیب اور عالم محسوس کا تعلق اور ربط واضح ہوگیا ''تو آیئے ایک نگاہ ،حدیث قدسی کے اس فقرہ پر ڈالتے ہیں:

(لا یؤثرعبد هوای علی هواه الاضمنت السمٰوات والارض رزقه )

''کوئی بندہ اگر اپنی خواہشات پرمیرے احکام اورمرضی کو ترجیح دے گا تو میں زمین وآسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادوں گا'' عالم غیب و عالم محسوس کے درمیان تعلق کی گذشتہ توضیح کے پیش نظر غیب اور معنویت سے تعلق رکھنے والے ''تقویٰ''اور عالم غیب وعالم محسوس وشہود سے تعلق رکھنے والے ''رزق' ' کے درمیان ربط کی وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہ جاتی ۔

۳۱۴

اسلامی تہذیب میں یہ نظریہ بالکل واضح وروشن ہے اس لئے کہ تقویٰ بھی رحمت الٰہی کا وسیع دروازہ ہے تقوے کے ذریعہ انسان ﷲ سے رزق نازل کراسکتا ہے ۔تقوے سے ہی باران رحمت نازل ہوتی ہے اور مشکلات بر طرف ہوتی ہیں تقوے کے سہارے ہی ﷲ کی جانب سے فتح وکامیابی میسر ہوتی ہے۔اسی کے طفیل بند دروازے کھل جاتے ہیں تقوے کی ہی بدولت خداوند عالم زندگی کے مشکلات میں لوگوں کے لئے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

( ومن یتّق ﷲ یجعلْ له مخرجاً٭ویرزقه من حیث لایحتسب ومن یتوکّل علی ﷲ فهوحسبه انّ ﷲ بالغ أمره قد جعل ﷲ لکلّ شی ء قدْرا )

''اور جو بھی ﷲسے ڈرتا ہے ﷲاس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کریگا خدا اسکے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے ۔ ''( ۱ )

جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( ومن یتّق ﷲ یجعل له من أمره یُسراً ) ( ۲ )

''اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اسکے معاملات میں آسانی پیدا کردیتا ہے''

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

( لوأن السمٰوات والارض کانتا رتقاً علیٰ عبد ثم اتقیٰ ﷲ لجعل ﷲله منهما فرجاً ومخرجاً ) ( ۳ )

''اگر کسی بندے پر زمین وآسمان کے دروازے بالکل بند ہوجائیں پھر وہ تقوائے الٰہی اختیار کرے تو ﷲ اسکو زمین وآسمان میں کشادگی اور آسانیاں عطا کردے گا ''

____________________

(۱)سورئہ طلاق آیت۲۔۳۔

(۲)سورئہ طلاق آیت ۴۔

(۳)بحارالانوار ج۷۰ص ۲۸۵۔

۳۱۵

روایت کے مطابق جب حضرت ابوذر(رح) ربذہ کے لئے جلا وطن کئے گئے توان سے امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(یاأباذر؛انک غضبت ﷲ فارجُ من غضبت له،ولوأن السمٰوات والارض کانتاعلیٰ عبد رتقاً ثم اتقیٰ ﷲلجعل منهمافرجاًومخرجاً )( ۱ )

''اے ابوذر تمہاری ناراضگی اور غضب ﷲ کے لئے تھا لہٰذا اسی کی ذات سے لولگائے رکھنا۔اگر زمین وآسمان کے راستے کسی بندہ پر بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرے تو ﷲ اسکے لئے زمین وآسمان میں آسانیاں فراہم کردے گا ''

مولائے کائنات حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(من أخذ بالتقویٰ عزبت(غابت)عنه الشدائد بعد دنوّها،واحلولت له الاموربعد مرارتها،وانفرجت عنه الامواج بعد تراکمها،وأسهلت له الصعا ب بعد انصابها )( ۲ )

''جوتقویٰ اختیار کرے گا شدائد و مصائب اس سے نزدیک ہونے کے بعد دور ہو جائیں گے تلخیوں کے بعد حلاوت محسوس کرے گا۔ امواج بلا اسکے گرد جمع ہونے کے بعد پراکندہ ہوجائیں گی مشکلات پڑنے کے بعد آسانیوں میں تبدیل ہوجائیں گی ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے:

(من اعتصم بﷲ بتقواه عصمه ﷲ،ومن أقبل ﷲ علیه وعصمه لم یبال لوسقطت السماء علیٰ الارض،وان نزلت نازلة علیٰ أهل الارض فتشملهم بلیة،کان فی حرزﷲ بالتقویٰ من کل بلیة،ألیس ﷲ تعالیٰ یقول:ان المتقین فی مقام أمین )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۱۳۰۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۸۔

۳۱۶

''جو تقوائے الٰہی کی پناہ میں آئے گا ﷲ اسے محفوظ رکھے گا اور جس کی طرف ﷲ کی توجہ ہوجائے اور ﷲ اسے محفوظ رکھے توچاہے آسمان، زمین پر گرجائے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی اگر تمام اہل زمین پرکوئی بلا نازل ہوتو وہ تقوے کے باعث امان خدا میں رہے گا ۔کیا خدا کایہ قول نہیں ہے:

(ان المتقین فی مقام أمین )( ۱ )

''بیشک متقین امن کے مقام پر ہیں''

امام جعفرصادق سے مروی ہے کہ:

(ان ﷲ قد ضمن لمن اتّقاه أن یحوّله عمایکره الیٰ مایحب ویرزقه من حیث لایحتسب )( ۲ )

''ﷲ نے متقی کی ضمانت لی ہے کہ اسکے ناپسند یدہ امور کو پسندیدہ امور میںتبدیل کردے گا اور اسے ایسے راستہ سے رزق عطا کرے گا جس کا اسے گمان بھی نہ ہوگا''

امام محمد تقی نے سعد الخیرکو تحریر فرمایا:

(ان ﷲ عزّوجل یقی بالتقویٰ عن العبد ماغرب عنه عقله،ویجلّی بالتقویٰ عماه وجهله،وبالتقویٰ نُجّی نوح ومن معه فی السفینة،وصالح ومن معه من الصاعقة،وبالتقویٰ فازالصابرون ونجت تلک العصب من المهالک )( ۳ )

''پروردگار عالم، تقویٰ کے ذریعہ اپنے بندہ سے ان چیزوں کومحفوظ رکھتا ہے جو اسکی عقل سے مخفی تھیں اور تقویٰ کے ذریعہ اسے مکمل بینائی عطا کردیتا ہے اور ان چیزوں کو بھی دکھادیتا ہے جو جہالت کے باعث اس سے پوشیدہ تھیں۔تقویٰ کے باعث ہی نوح اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیوں

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۰ ص۲۸۵۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)فروع کافی ج۸ص۵۲۔

۳۱۷

نے نجات پائی ،صالح اور ان کے ساتھی آسمانی بجلی سے محفوظ رہے۔ تقویٰ کی بناء پر ہی صبر کرنے والے بلند درجات پر فائز ہوئے اور ہلاکت خیز مشکلات سے نجات حاصل کرسکے''

خلاصۂ کلام یہ کہ جو لوگ ﷲ کی مرضی اور احکام کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں اور حکم خدا کے سامنے اپنی ضرورتوں ،خواہشوں اور ترجیحات کو اہمیت نہیں دیتے ہیں تو خداوند عالم زمین وآسمان کو ان کے رزق کا ضامن بنادیتا ہے۔ان کے امور کا خود ذمہ دار ہوجاتا ہے اور انھیں ان کے نفسوں کے حوالہ نہیں کرتا اور انکی سعی وکوشش میں توفیق و برکت عطا کرتا ہے۔

یہاں پھرسے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان باتوں کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تقوی کے بعدرزق حاصل کرنے کے لئے سعی وجستجو کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔حصول رزق کے لئے صرف تقویٰ کوکافی سمجھ لینا اسلامی نظریہ نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ تقویٰ کے ذریعہ بندہ پر رزق نازل ہوتا ہے اوراس طرح آسانی کے ساتھ مختصر زحمت سے ہی رزق حاصل ہوجاتا ہے۔

تقویٰ کی بنا پر نجات پانے والے تین لوگوں کا واقعہ

نافع نے ابن عمر سے نقل کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:تین آدمی چلے جار ہے تھے کہ بارش ہونے لگی تو وہ لوگ پہاڑکے دامن میں ایک غار میں چلے گئے اتنے میں پہاڑ کی بلندی سے ایک بڑا سا پتھر گرااور اسکی وجہ سے غار کا دروازہ بند ہوگیا۔تو ان لوگوں نے آپس میں کہا:اپنے اپنے اعمال صالحہ پر نظر دوڑائو اور انھیں کے واسطہ سے خدا سے دعاکرو شائد خدا کوئی آسانی پیداکردے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے والدین بہت بوڑھے تھے اورمیرے بچے بھی بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بکریاں چراکر ان کا پیٹ پالتا تھا واپس آکر بکریوں کا دودھ نکالتا تو پہلے والدین کے سامنے پیش کرتا اس کے بعد اپنے بچوں کودیتا۔

۳۱۸

اتفاقاً میں ایک دن صبح سویرے گھر سے نکل گیا اور شام تک واپس نہ آیا۔جب میں واپس پلٹا تومیرے والدین سوچکے تھے میں نے روزانہ کی طرح دودھ نکالا اور دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا مجھے یہ گوارہ نہ ہوا کہ انھیںبیدار کروں اور نہ ہی یہ گوارہ ہوا کہ والدین سے پہلے بچی کو دودھ پیش کروں حالانکہ بچی بھوک کی وجہ سے رو رہی تھی اور میرے قدموں میں بلبلا رہی تھی مگر میری روش میں تبدیلی نہ آئی یہاں تک کہ صبح ہوگئی پروردگار ا!اگر تو یہ جانتا ہے کہ یہ عمل میں نے صرف تیری رضا کے لئے انجام دیا ہے تو اسی عمل کے واسطہ سے اتنی گنجائش پیدا کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ﷲ نے اتنی گنجائش پیدا کردی اور ان لوگوں کو آسمان دکھائی دینے لگا۔

دوسرے نے کہا:میرے چچاکی ایک لڑکی تھی میں اس سے ایسی شدید محبت کرتا تھا جیسے کہ مرد عورتوں سے کرتے ہیں میں نے اس سے مطلب برآری کی خواہش کی اس نے سودینار کی شرط رکھی میں نے کوشش کرکے کسی طرح سودینار جمع کئے انھیں ساتھ لے کر اسکے پاس پہونچ گیا۔اور جب شیطانی مطلب پورا کرنے کی غرض سے اس کے نزدیک ہو ا تو اس نے کہا''اے بندئہ خدا ﷲ سے ڈرو اور ناحق میرا لباس مت اتارو''یہ بات سن کر میں نے اسے چھوڑدیا۔پروردگار اگر میرا یہ عمل تیرے لئے ہے تو تھوڑی گنجائش اور مرحمت کردے۔اللہ نے تھوڑی سی گنجائش اور عطا کردی۔

تیسرے آدمی نے کہا میں نے ایک شخص کوتھوڑے چا ول کی اجرت پراجیرکیا جب کام مکمل ہوگیا تو اس نے اجرت کا مطالبہ کیا میں نے اجرت پیش کردی لیکن دہ چھوڑ کر چلا گیا میں اسی سے کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ اسکی قیمت سے بیل اور اسکا چرواہاخرید لیا۔ایک دن وہ مزدور آیا اور مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو اور میرا حق مجھے دے دو۔میں نے کہا جائووہ بیل اور چرواہا لے لو اس نے پھر کہا خدا سے ڈرو اور میرا مذاق مت اڑائو۔میں نے کہا میں ہرگز مذاق نہیں کررہا ہوں یہ بیل اور چرواہا لے لو۔چنانچہ وہ لے کر چلاگیا۔پروردگار میرا یہ عمل اگر تیرے لئے تھاتوہمارے لئے بقیہ راستہ کھول دے ۔ ﷲ نے راستہ کھول دیا۔( ۱ )

____________________

(۱)صحیح بخاری،کتاب الادب،باب اجابةدعاء من بَرّوالدیہ ج۵ ص۴۰ط؛مصر۱۲۸۶ھ ق۔فتح الباری للعسقلانی ج۱۰ص۳۳۸شرح القسطلانی ج۹ص۵۔صحیح مسلم کتاب الرقاق باب قصةاصحاب الغار الثلاثةوالتوسّل بصالح الاعمال ج۸ص۸۹ط؛دارالفکر۔ وشرح النووی ج۱۰ص۳۲۱وذم الہوی لابن الجوزی ص۲۴۶

۳۱۹

۳۔کففت علیہ ضیعتہ

اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں کیونکہ''کف'' جمع کرنے اوراکٹھاکرنے کے معنی میں بھی ہے اور یہی لفظ منع کرنے اورروکنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لہٰذاپہلے معنی کے لحاظ سے اس جملہ'' و کففت علیہ ضیعتہ''کے معنی یہ ہوں گے ''میں اس کے درہم برہم امور کو جمع کردوں گا اس کے سامان واسباب کانگہبان ،اسکے امور کا ذمہ دار اور اسکی معیشت کا ضامن ہوں''ابن اثیر اپنی کتاب ''النہایة''میں ''کف''کے معنی کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ احتمال ہے کہ یہ لفظ ''جمع کرنے ''کے معنی میں ہو جیسے کہ حدیث میں آیا ہے:

(المؤمن أخ المؤمن یکفّ علیه ضیعته )( ۱ )

''ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے جو اسکے سرمایہ کو اسکے لئے اکٹھاکرکے رکھتا ہے ''

اسکے دوسرے معنی منع کرنا،روکنا اور دفع کرنا ہیں جیسے :

(کفّه عنه فکفّ، أی دفعه وصرفه ومنعه،فاندفع وانصرف،وامتنع )

اس نے اسکو روکا یعنی اسکا دفاع کیا منع کیا اور واپس پلٹایا تو وہ دفع ہوگیا ،پلٹ گیا اور رک گیا اس معنی کے لحاظ سے مذکورہ حدیث کے معنی یہ ہونگے :

''میں نے اسکی بربادی کو دفع کردیا اور اسکی بربادی اور اسکے درمیان حائل ہوگیا اور اسے ہدایت دیدی اور راستے کے تمام نشانات واضح و روشن کردئے''( ۲ )

علامہ مجلسی(رح)نے اس فقرہ کی تفسیر میں اپنی کتاب بحار الانوار میں تحریر کیا ہے :کہ اس جملہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں :۱۔وہ معنی جو ابن ثیر نے نہایہ میں ذکر کئے ہیں یعنی اسکے درہم

____________________

(۱)النہایة لا بن ا لاثیرج۴ص۹۰۔

(۲)اقرب المواردج۲ص۱۰۹۳۔

۳۲۰