تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت0%

تاریخ وہابیت مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

تاریخ وہابیت

مؤلف: علی اصغر فقیھی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25587
ڈاؤنلوڈ: 4709

تبصرے:

تاریخ وہابیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25587 / ڈاؤنلوڈ: 4709
سائز سائز سائز
تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت

مؤلف:
اردو

ان کو وہابی کیوں کہا گیا؟ وہابی لفظ فرقہ وہابیت کے بانی کے باپ یعنی عبد الوہاب سے لیا گیا ہے لیکن خود وہابی حضرات اس کو صحیح نہیں مانتے۔

سید محمود شکری آلوسی(وہابیت کی طرفداری میں ) کہتا ہے:وہابیوں کے دشمن ان کو وہابی کہتے ہیں جبکہ یہ نسبت صحیح نہیں ہے بلکہ اس فرقہ کی نسبت اس کے رہبر محمد کی طرف ہونا چاہئے، کیونکہ اسی نے ان عقائد کی دعوت دی ہے، اس کے علاوہ شیخ عبد الوہاب اپنے بیٹے (محمدابن عبد الوہاب) کے نظریات کا سخت مخالف تھا۔(۶)

صالح بن دخیل نجدی (المقتطف نامی مجلہ مطبع مصرمیں ایک خط کے ضمن میں ) اس طرح لکھتا ہے:

”اس کے بعض معاصرین وہابیت کی نسبت صاحب دعوت (یعنی محمد بن عبد الوہاب) کے باپ کی طرف حسد وکینہ کی وجہ سے دیتے تھے تاکہ وہابیوں کو بدعت اورگمراہی کے نام سے پہچنوائیں، اور خود شیخ کی طرف نسبت نہ دی (اور محمدیہ نہیں کہا) اس وجہ سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے ماننے والے پیغمبر اکرم کے نام کے ساتھ کسی طرح کی شرکت نہ سمجھ بیٹھیں۔(۷)

مشہور ومعروف مصری مولف احمد امین، اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ہے:

”محمد بن عبد الوہاب اوراس کے مرید اپنے کو موحّد کھلاتے تھے، لیکن ان کے دشمنوں نے ان کو وہابی کانام دیا ہے، اور اس کے بعد یہ نام زبان زد خاص و عام ہوگیا“۔(۸)

قبل اس کے کہ محمد بن عبد الوہاب کے اعتقادات کے بارے میں تفصیلی بحث کی جائے مناسب ہے بلکہ ضروری ہے کہ پہلے سلفیہ کے بارے میں کچھ مطالب ذکر کئے جائیں جو وہابیت کی اصل اور بنیاد مانے جاتے ہیں، اس کے بعد بربہاری اور ابن تیمیہ کے مختصر اعتقادات اورنظریات جو وہابیوں کی اصل اور بنیاد ہیں ؛ ذکر کئے جائیں۔

سلفیّہ کسے کہتے ہیں؟

سلفیہ(۹) حنبلی مذہب کے پیروکاروں کا ایک گروہ تھاجوچوتھی صدی ہجری میں وجود میں آیا، یہ لوگ اپنے اعتقادات کو احمد حنبل کی طرف نسبت دیتے تھے، لیکن بعض حنبلی علماء نے اس نسبت کے سلسلے میں اعتراضات کئے ہیں۔

اس زمانہ میں سلفیوں اور فرقہ اشاعرہ کے درمیان کافی جھگڑے اوربحثیں ہوتی رہتی تھیں، اور دونوں فرقے کہتے تھے کہ ہم مذہب سلف صالح کی طرف دعوت دیتے ہیں۔

سلفیہ، فرقہ معتزلہ کے طریقہ کی مخالفت کرتا تھا، کیونکہ معتزلہ اپنے اسلامی عقائد کو یونانی منطق سے متاثر فلاسفہ کی روش بیان کرتے تھے، اور سلفیہ یہ چاہتے تھے کہ اسلامی عقائد اسی طریقہ سے بیان ہوں جو اصحاب اور تابعین کے زمانہ میں تھا،یعنی جومسئلہ بھی اسلامی اعتقاد کے متعلق ہو اس کو قرآن وحدیث کے ذریعہ حل کیا جائے، اور علماء کو قرآن مجید کی دلیلوں کے علاوہ دوسری دلیلوں میں غور وفکر سے منع کیا جائے۔

سلفیہ چونکہ اسلام میں عقلی اور منطقی طریقوں کو جدید مسائل میں شمار کرتے تھے جو صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں نہیں تھے لہٰذا ان پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے، اور صرف قرآن وحدیث کی نصوص اور ان نصوص سے سمجھی جانے والی دلیلوں کو قبول کرتے تھے، ان کا ماننا یہ تھا کہ ہمیں اسلامی اعتقادات اور دینی احکام میں چاہے وہ اجمالی ہوں یا تفصیلی، چاہے وہ بعنوان اعتقادات ہوں یا بعنوان استدلال قرآن کریم اور اس سنت نبوی جوقرآنی ہو اور وہ سیرت جو قرآن وسنت کی روشنی میں ہو؛ کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔

سلفیہ دوسرے فرقوں کی طرح توحید کو اسلام کی پہلی اصل مانتے تھے، لیکن بعض امور کو توحید کے منافی جانتے تھے جن کو دوسرے اسلامی فرقے قبول کرتے تھے، مثلاً کسی مخلوق کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں توسل کرنا یا اس کو وسیلہ قراردینا، حضرت پیغمبر اکرمکے روضہ مبارک کی طرف منھ کرکے زیارت کرنا، اور روضہ اقدس کے قرب وجوار میں شعائر (دینی امور) کو انجام دینا، یا کسی نبی اللہ یا اولیاء اللہ کی قبر پر خدا کو پکارنا ؛ وغیرہ جیسے امور کو توحید کے مخالف سمجھتے تھے، اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ امور(مذکورہ امور کو توحید کے مخالف سمجھنا) سلف صالح کا مذہب ہے اور اس کے علاوہ تمام چیزیں بدعت ہیں جو توحید کے مخالف اور منافی ہیں۔

صفات ثبوتیّہ اور سَلبیّہ

سلفیوں کا کہنا یہ ہے :خداوندعالم کے صفات ثبوتیہ اور صفات سلبیہ کے بارے میں علماء کے درمیان صرف فکر و نظر میں اختلاف ہے،حقیقت واصل میں نھیں، اور یہ اختلاف اس بات کا سبب نہیں ہوتا کہ دوسرے تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر کھیں۔ خود سلفیہ (برخلاف اختلاف) اپنے کسی مخالف فرقہ کو کافر نہیں کہتے تھے۔

وہ خداوندعالم کے صفات وذات کے سلسلہ میں جو کچھ قرآن مجید میں وارد ہوا ہے اس پر عقیدہ رکھتے ہیں چنانچہ خداوندعالم کی محبت،غضب ،غصہ، خوشنودی، ندا اور کلام کے معتقد ہیں، ساتھ ہی وہ خدا وندعالم کا لوگوں کے درمیان بادلوں کے سایہ میں نازل ہونے، اس کے عرش پر مستقرہونے کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں، اور بغیر کسی تاویل وتفسیر کے خداوندعالم کے لئے چھرے اور ھاتھوں کے قائل ہیں،یعنی آیات صرف کے ظاہری معنی کو اخذ کرتے ہیں، لیکن خداوندعالم کی ذات گرامی کو مخلوقات کی طرح ھاتھ پیر اور چھرہ رکھنے سے پاک و منز ّہ مانتے ہیں۔(۱۰)

بربَہاری کا واقعہ

ابو محمد حسن بن علی بن خَلَفِ بربہاری جو بغدادی حنبلیوں کا رئیس تھا؛اور کچھ خاص نظریات رکھتا تھا،اگر کوئی شخص اس کے عقائد اور نظریات کی مخالفت کرتا تھا تواس کی شدت سے مخالفت کرتا تھا، اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیتا تھا۔ اس کے ساتھی لوگوں کے گھروں کو ویران کردیتے تھے ۔ لوگوں کو خرید و فروخت سے بھی روکتے تھے، اور اگر کوئی اس کی باتوں کو نہیں مانتا تھا تو اس کو بہت زیادہ ڈارتے تھے۔

بربہاری کے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ حضرت امام حسین ں پر نوحہ وگریہ وزاری، اور کربلا میں آپ کی زیارت سے کو منع کرتا تھااور نوحہ ومرثیہ پڑھنے والوں کے قتل کا حکم دیتا تھا۔

چنانچہ ”خِلب“نام کا ایک شخص نوحہ اور مرثیہ پڑھنے میں بہت ماہر تھا، جس کا ایک قصیدہ تھا جس کا پہلا مصرعہ یہ ہے:

اَیُّها الْعَیْنَانِ فَیضٰا وَاسْتَهِّلاٰ لاٰ تَغِیْضٰا

جو امام حسین ں کی شان میں پڑھا کرتا تھا، ہم نے اس کو کسی ایک بڑے گھرانے میں سناہے، اس زمانہ میں حنبلیوں کے ڈر سے کسی کو حضرت امام حسین ں پر نوحہ ومرثیہ پڑھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی، اور مخفی طور پر یا بادشاہ وقت کی پناہ میں امام حسین ں کی عزاداری بپا ہوتی تھی۔

اگرچہ ان نوحوں اور مرثیوں میں حضرت امام حسین علیه السلام کی مصیبت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا اور اس میں سلف کی مخالفت بھی نہیں ہوتی تھی،لیکن اس کے باوجودجب بربہاری کو اطلاع ہوئی تو اس نے نوحہ خوان کو تلاش کرکے اس کے قتل کا حکم دیدیا۔

اس زمانہ میں حنبلیوں کا بغداد میں اچھا خاصا رسوخ تھا جس کی بناپریہ لوگ ہمیشہ فتنہ وفساد کرتے رہتے تھے۔(۱۱) جس کا ایک نمونہ محمد ابن جَرِیر طبری صاحب تاریخ پر حملہ تھا:

طبری، اپنے دوسرے سفر میں طبرستان سے بغداد پہونچے اور جمعہ کے روز حنبلیوں کی جامع مسجد میں پہونچے وہاں پر ان سے احمد حنبل اور اس حدیث کے بارے میں جس میں خدا کے عرش پر بیٹھنے کا تذکرہ ہے، نظریہ معلوم کیا گیا، تو اس نے جواب دیاجو احمد حنبل کی مخالفت بھی نہیں تھی، لیکن حنبلیوں نے کہا: علماء نے اس کے اختلافات کو اہم شمار کیا ہے، اس پر طبری نے جواب دیا: میں نے نہ خوداس کو دیکھا ہے، اور نہ اس کے کسی مودر اعتماد صحابی سے ملاقات کی ہے جو اس بارے میں مجھ سے نقل کرتا،اور خدا وندعالم کے عرش پر مستقر ہونے والی بات بھی ایک محال چیز ہے۔

جس وقت حنبلیوں اور اہل حدیث نے اس کی یہ بات سنی تواس پر حملہ شروع کردیا، اور اپنی دوا توں کو اس کی طرف پھینکنا شروع کردیا، وہ یہ سب دیکھ کر وہاں سے نکل بھاگے، حنبلیوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی انھوںنے ان کے گھر پرپتھروں سے حملہ کردیا یہاں تک کہ گھر کے سامنے پتھروں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔

بغداد کی پولیس کا افسر ”نازوک“ ہزار سپاہیوں کا لشکر لے کر وہاں پہونچا اور طبری صاحب کو ان کے شر سے نجات دلائی، اورپورے ایک دن وہاں رہا، اور حکم صادر کیا کہ اس کے گھر کے سامنے سے پتھروں کا ڈھیر ہٹایا جائے۔(۱۲)

حنبلی مذہب کے علماء مثلاً ابن کثیر اور ابن عماد وغیرہ نے بربہاری کے بارے میں بہت باتیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض مبالغہ ہیں، ابن کثیر اس کو ایک زاہد، فقیہ اور واعظ کہتے ہوئے لکھتا ہے: چونکہ بربہاری کو اپنے باپ کی میراث کے سلسلے میں ایک شبہ پیدا ہوا جس کی بناپر اس نے میراث لینے سے انکار کردیا جبکہ اس کے باپ کی میراث ستّر ہزار (اور ابن عماد کے قول کے مطابق ۹۰ہزار) درہم تھی۔

اسی طرح ابن کثیرکا قول ہے : خاص وعام کے نزدیک بربہاری کا بہت زیادہ احترام ا ور عزت تھی، ایک روز وعظ کے دوران اس کو چھینک آگئی تو تمام حاضرین نے اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہوئے جملہ ”یرحمک اللہ“کھا جو چھینک آنے والے کے لئے کہنا مستحب ہے، اور یہ آواز گلی کوچوں تک پہونچی، اور جو بھی اس آواز کو سنتاتھا یرحمک اللہ کہتا تھا، اور اس جملہ کو تمام اہل بغداد نے کہنا شروع کردیا، یہاں تک کہ یہ آواز خلیفہ کے محل تک پہونچی، خلیفہ کو یہ شور شرابہ گراں گذرا اور کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں مزید بدگوئی کی جس کے نتیجہ میں خلیفہ نے اس کو گرفتار کرنے کی ٹھان لی لیکن وہ مخفی ہوگیا اور ایک ماہ بعد اس کا انتقال ہوگیا۔(۱۳)

لیکن خلیفہ وقت کے ناراض ہونے اور اس کو گرفتار کرنے کے ارادہ کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ عام عقیدوں کی مخالفت کرتا تھا اسی وجہ سے خلیفہ نے اس کے خلاف اپنا مشہور ومعروف حکم صادر کیا جس کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

ابو علی مُسكُویہ۳۲۳ھ کے حالات میں کہتا ہے کہ اسی سال بَدرخَرشنی (صاحب شُرطہ) نے بغداد میں یہ اعلان کروایا کہ ابو محمد بربہاری(۱۴) کے مریدوں میں کوئی بھی دوآدمی ایک جگہ جمع نہ ہوں، بدر خرشنی نے اس کے مریدوں کو جیل میں ڈلوادیا لیکن بربہاری وہاں سے بھاگ نکلا یا مخفی ہوگیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ بربہاری اور اس کے پیروکار ہمیشہ فتنہ وفساد کرتے رہتے تھے۔ اس گروہ کے سلسلے میں خلیفہ الراضی کا ایک فرمان صادر ہوا جس میں بربہاری کے مریدوں کے عقائد مثلاً شیعوں کی طرف کفر وضلالت کی نسبت دینا اور ائمہ کی قبور کی زیارت وغیرہ کو ناجائز ماننا جیسے امور کا تذکرہ تھا اور ان کو اس بات سے ڈرایا گیا تھا کہ یا تو وہ اس کام سے باز آجائیں، ورنہ ان کی گردن قلم کردی جائے گی،اور ان کے گھر اورمحلوں کو آگ لگادی جائے گی(۱۵)

ابن اثیر حنبلیوں کے بغداد میں فتنہ وفساد کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہے کہ۳۲۳میں حنبلیوں نے بغداد میں کافی اثر ورسوخ پیدا کرلیا اور قدرت حاصل کرلی، بدرخرشنی صاحب شرطہ نے دسویں جمادی الآخر کو فرمان صادر کیا کہ بغداد میں یہ اعلان کردیا جائے کہ بربہاری کے مریدوں میں سے دو آدمی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، اور اپنے مذہب کے بارے میں کسی سے مناظرہ کرنے کابھی حق نہیں رکھتے، اور ان کا امام جماعت نماز صبح ومغرب وعشاء میں بسم اللہ کو بلند اور آشکار کھے۔ لیکن بدرخرشنی کا یہ کام مفید ثابت نہیں ہوا بلکہ بربہاری کے مریدوں میں مزید فتنہ وفساد پھیل گیا۔

ان کاایک کام یہ تھا کہ وہ نابینا حضرات جو مسجدوں میں اپنی پناہ گاہ بنائے ہوئے تھے ان کو اس کام کے لئے آمادہ کرتے تھے کہ جو بھی شافعی مذہب مسجد میں داخل ہو، اس کو اتنا مارو کہ وہ موت کے قریب پہونچ جائے۔

ابن اثیر خلیفہ راضی کے حنبلیوں کے بارے میں فرمان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے یوں تحریر کرتاہے کہ خلیفہ راضی نے بربہاری کے مریدوں پر سختی کی اور ان کو ڈرایا، کیونکہ وہ خدا وندعالم کی مثل اور تشبیہ کے قائل تھے اور خداوند عالم کو ھتھیلیوں اور دوپیر اور سونے کے جوتے اور گیسوں والا مانتے تھے اور کہتے تھے کہ خداوند عالم آسمانوں میں اوپر جاتا ہے اور دنیا میں نازل ہوتا ہے، اسی طرح منتخب ائمہ پر طعنہ زنی کرتے تھے اور شیعوں کو کفر وگمراہی کی نسبت دیتے تھے، اور دیگر مسلمانوں کو کھلی بدعتوں کی طرف دعوت دیتے تھے جن کا قرآن مجید میں کہیں تذکرہ تک نھیں، اور ائمہ علیهم السلام کی زیارت کو منع کرتے تھے اور زائرین کے عمل کو ایک برے عمل سے یاد کرتے تھے۔(۱۶)

بربہاری۳۲۹ھ میں ۹۶سال کی عمر میں مرگیا، وہ کسی عورت کے گھر میں چھپا ہوا تھا، اور اس کو اسی گھر میں بغیر کسی دوسرے کی اطلاع کے غسل وکفن کے بعد دفن کردیا گیا۔(۱۷)

ابن اثیر اس سلسلہ میں کہتا ہے : بر بھاری حنبلیوں کا رئیس جو مخفی طور پر زندگی گذار رہا تھا۳۲۹ ھ میں (۷۶)سال کی عمر میں فوت ہوا، اور اس کو ” نصر قشوری “ کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔(۱۸)

قارئین کرام!آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ بربہاری کے بارے میں خلیفہ الراضی کا فرمان ان عقائد کی طرف اشارہ ہے جو بعد میں ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب کے ذریعہ ظاہر ہوئے، (اور فرقہ وہابیت تشکیل پایا)

بربہاری کے عقائد اورنظریات کا خلاصہ

مسئلہ زیارت اورچند دوسرے مذکورہ مسائل کے علاوہ بربہاری کے کچھ اور بھی عقائد تھے ہم یہاں صرف ابن عماد حنبلی کے قول کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:

بربہاری نے شرح کتاب السنة میں کہا: اس زمانہ میں جو کچھ بھی لوگوں سے سنو، اس کو قبول کرنے میں جلدی نہ کرو، اور اس کے مطابق عمل نہ کرو، یہاں تک کہ کسی دوسرے سے یہ معلوم کرلوکہ اس سلسلہ میں اصحاب پیغمبریا علماء اسلام نے نظریہ بیان کیا ہے یا نھیں؟ اور اگر معلوم ہوگیا کہ ان باتوں پر اصحاب پیغمبر یا علماء کرام میں سے کسی نے فرمایا ہے تو اس پر عمل کیا جائے لیکن اس کے علاوہ دوسری باتوں پر عمل نہ کرو، ورنہ مستحق جہنم ہوجاؤ گے۔

خداوندعالم کے بارے میں کچھ نئی نئی باتیں پیدا ہوگئی ہیں جو بدعتیں اورگمراہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے،(لہٰذا ان کو قبول نہیں کرنا چاہئے) خداوندعالم کے بارے میں صرف وھی باتیں کھی جاسکتی ہیں جن کو خود خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنے بارے میں بیان فرمایا ہے یا پیغمبر اکرم نے اصحاب کے مجمع میں ان کو بیان فرمایا ہے۔

ہم لوگوں کو چاہئے کہ خدا وندعالم کا روز قیامت ان ہی سر کی آنکھوں سے دیدار کا عقیدہ رکھیں، روز قیامت خود خداوندعالم بغیر کسی پردہ اور حجاب کے لوگوں کے حساب وکتاب کے لئے سب کے سامنے آئے گا۔

اسی طرح یہ ایمان بھی رکھنا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے لئے روز قیامت ایک حوض ہوگا، اور تمام دیگرپیغمبروں کا بھی ایک حوض ہوگا، سوائے صالح پیغمبر کے ،کہ ان کا حوض ان کے ناقہ (اونٹنی)کے پستان ہوںگے۔

اسی طرح یہ عقیدہ بھی رکھنا ضروری ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص)روز قیامت پل صراط پر تمام گناہکاروں اور خطا کاروں کی شفاعت کریں گے، اور ان کو نجات دلائیںگے،نیز تمام پیغمبروں، صدّقین اور شہداء وصالحین کو روز قیامت حق شفاعت ہوگا۔

اسی طرح اس بات پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے کہ خداوندعالم نے جنت وجہنم کو خلق کررکھا ہے اور جنت ساتویں آسمان پر ہے اور اس کی چھت عرش ہے، اور دوزخ زمین کے ساتویں طبقہ میں ہے۔

نیز اسی طرح یہ عقیدہ بھی ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰ ں آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے، اور دجّال کو قتل کریں گے اور شادی کریں گے، اور قائم آل محمد (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے پیچھے نماز پڑھیں گے، اس کے بعد اس دنیا سے چلے جائیں گے۔

جو شخص کسی بدعت گزار کی تشییع جنازہ میں شرکت کرے تو وہ وہاں سے واپس لوٹ آنے تک خدا کا دشمن ہے، وغیرہ وغیرہ ۔(۱۹)

ابن تیمیہ

اس کا نام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم حرّانی (متولد۶۶۱ ھ متوفی۷۲۸ھ) تھا اور ابن تیمیہ کے نام سے مشہور تھا، وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے مشہور ومعروف حنبلی علماء میں سے تھا، لیکن چونکہ اس کے نظریات اور عقائد دوسرے تمام مسلمانوں کے برخلاف تھے جن کووہ ظاہر کرتا رہتا تھا جس کی بناپر دوسرے علماء اس کی سخت مخالفت کرتے رہتے تھے، اسی وجہ سے وہ مدتوں تک زندان میں رہا اور سختیاں برداشت کرتا رہا، چنانچہ اسی شخص کے نظریات اور عقائد بعد میں وہابیوں کی اصل اور بنیاد قرار پائے ہیں۔

ابن تیمیہ کے حالات زندگی دوستوں اور دشمنوں دونوں نے لکھے ہیں اور ہر ایک نے اپنی نظر کے مطابق اس کاتعارف کرایاہے، اسی طرح بعض مشہور علماء نے اس کے عقائد اور نظریات کے بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں، اس سلسلہ میں جوسب سے قدیم اورپرانی کتاب لکھی گئی ہے اور جس میں ابن تیمیہ کے حالات زندگی کو تفصیل کے ساتھ لکھاہے اور اس کی بہت زیادہ عظمت واہمیت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہیں، وہ ابن کثیر کی کتاب البدایہ والنھایہ ہے ،اسی طرح عمربن الوَردی نے اپنی تاریخی کتاب میں ، صلاح الدین صفدی نے اپنی کتاب الوافی بالوفَیات میں ، ابن شاکر نے فوات الوفَیات میں اور ذھبی نے اپنی کتاب تذکرة الحفاظ میں ابن تیمیہ کی بہت زیادہ تعریف وتمجید کی ہے۔(۲۰)

لیکن دوسری طرف بہت سے لوگوں نے اس کے عقائد ونظریات کی سخت مذمت اور مخالفت کی ہے، مثلاً ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ ”تحفة النُظّار“ میں ، عبد اللہ بن اسعد یافعی نے ”مرآة الجنان“میں ، تقی الدین سبکی(آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں سے) نے” شفاء السِقام فی زیارة خیر الانام “ اور” درّة المفیدہ فی الردّ علی ابن تیمیہ“میں ، ابن حجر مکی نے کتاب ”جوھر المنظم فی زیارة قبر النبی المکرم“ اور ”الدُّرَرُ الکامنہ فی اعیان الماة الثامنہ“ میں ، عز الدین بن جماعہ اور ابو حیان ظاہری اندلسی، کمال الدین زَملکانی (متوفی ۷۲۷ھ)(۲۱) نے کتاب ” الدّرَةُ المضیئة فی الرد علی ابن تیمیہ“ حاج خلیفہ کی” کشف الظنون“کی تحریر کے مطابق، ان تمام لوگوں نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے اور اس کے عقائد کو ناقابل قبول کہا ہے۔

قاضی اِخنائی(۲۲) ابن تیمیہ کے ہم عصر)نے” المقالة المرضیة“ میں اور دوسرے چند حضرات نے بھی ابن تیمیہ کی شدت کے ساتھ مخالفت کی ہے اور اس کے عقائد کی سخت مذمت کرتے ہوئے ان کو مردود اور ناقابل قبول جانا ہے۔(۲۳)

اسی زمانہ میں ابن تیمیہ نے (نبی اکرم (ص)سے) استغاثہ کا انکار کیا،اس پر اس کے ہم عصر عالم علی ابن یعقوب بکری(متوفی۷۲۴ھ) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے استغاثہ کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھی جس میں اس بات کو ثابت کیا کہ جن موارد میں خداوندعالم سے استغاثہ کیا جاسکتا ہے ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی استغاثہ کرنا جائز ہے۔ ابن تیمیہ نے اس کتاب کی ردّمیں ایک کتاب لکھی جو اس وقت بھی موجود ہے۔(۲۴)

ابن تیمیہ کے ایک اور ہم عصر بنام شیخ شھاب الدین بن جُھبُل (شافعی) متوفی۷۳۳ھ نے ایک رسالہ لکھا جس میں خداوندعالم کے لئے جھت وسمت کو مضبوط ومحکم دلیلوں کے ذریعہ مردود اور باطل قرار دیاہے۔(۲۵)

ابن تیمیہ کے طرفدار لوگ کہتے ہیں:چونکہ ابن تیمیہ بہت سے علوم اور قرآن وحدیث میں مھارت رکھتا تھا جس کی بناپر اس وقت کے حکمراں اور بادشاہ نیز دیگر علماء اس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور اس کی اہمیت کے قائل تھے، اسی وجہ سے دوسرے علماء کو اس سے حسد ہونے لگا جس کی وجہ سے اس کے عقائد کو فاسد اور کفر آور کہنے لگے۔

ابن تیمیہ کے مخالف افراد کہتے ہیں: اس نے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف اپنی آواز اٹھائی اوروہ خداوندعالم کے دیدار اور اس کے لئے جھت وسمت کا قائل ہوا، نیز اولیاء اللہ کی قبور کی زیارت سے ممانعت کی، وغیرہ وغیرہ۔

متاخرین میں بھی ابن تیمیہ کے طرفدار اور مخالفوں نے ابن تیمیہ کے حالات زندگی میں کتابیں لکھی ہیں فارسی زبان میں اب تک جو کتابیں اس کے بارے میں لکھی گئی ہیں ”کتابنامہ دانشوران“ میں ان کتابوں کو شمار کیا گیا ہے۔

عصر حاضر میں عرب کے ایک مشہور مولف محمد ابو زَھرہ نے ”ابن تیمیہ حیاتہ وعصرہ وآرائہ وفقہہ“ نامی کتاب لکھی جس میں ابن تیمیہ کے حالات زندگی کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے،اور اس کے احوال زندگی کے تفصیلی اور دقیق گوشوں کے علاوہ اس کے عقائد اور نظریات کا تجزیہ وتحلیل بھی کیا ہے۔

ہندوستانی دانشوروں میں ابو الحسن علی الحسنی ندوی نے بھی اردو زبان میں ”خاصٌ بحیاةِ شیخ الاسلام الحافظ احمد بن تیمیہ“نامی کتاب ۱۳۷۶ھ میں لکھی ہے جس کاسعید الاعظمی ندوی نے عربی میں ترجمہ کیا ہے جو ۱۳۹۵ھ میں کویت سے چھپ چکی ہے، یہ کتاب ابن تیمیہ کے حالات زندگی اور عقائد ونظریات پر مشتمل ہے۔

محمد بہجة البیطار نامی شخص نے بھی حیاة الشیخ الاسلام ابن تیمیہ نامی کتاب لکھی، جو۱۳۹۲ھ میں لبنان سے چھپ چکی ہے۔

ابن تیمیہ کے حالات زندگی کا خلاصہ مختلف کتابوں اور منابع کے پیش نظر اس طرح ہے:

”ابن تیمیہ ربیع الاول۶۶۱ھ کو حَرّان(عراق کا مُضَرنامی علاقہ) میں پیدا ہوا، اس کا باپ حنبلیوں کے بڑے عالموں میں سے تھا جو مغلوں کے ظلم وستم کی وجہ سے شام چلا گیا تھا۔

ابن تیمیہ کے والد بیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ابن تیمیہ نے اپنے باپ کی جگہ تدریس کے عہدہ سنبھالا، اور۶۹۱ھ میں حج کے لئے گیا۔

چند سال بعد جس وقت وہ قاہرہ میں قیام پذیر تھااس نے خداوندعالم کے صفات کے بارے میں ایک انوکھا فتویٰ دیا جس کی بناپر اس وقت کے علماء مخالفت کرنے لگے، جس کے نتیجہ میں اس کو تدریس کے عہدہ سے محروم کردیا گیا، اسی طرح اس نے سیدة نفیسہ(حضرت امام حسین ں کی اولاد میں سے مصر میں ایک قبر ہے جس کی مصریوں کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت ہے)کے بارے میں کچھ کہا جس کی بناپر عوام الناس بھی اس سے برہم ہوگئے۔(۲۶)

اسی زمانہ میں اسے لوگوں کو مغلوں سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کرنے پر مامور کیا گیا، جس کی بناپر وہ شام چلا گیا اور چند جنگوں میں شرکت کی۔

۲۹۹ھ میں اس نے غازان خان مغل کے مقابلہ میں ایک زبردست اقدام کیا اور لوگوں کو مغل سپاہیوں سے (جو شام تک پہونچ چکے تھے) لڑنے کے لئے بہت زیادہ تحریک کیا۔(۲۷)

ابن تیمیہ کی غازان خان سے ملاقات

جس وقت غازان خان دمشق کے نزدیک پہونچا تو دمشق کے لوگ کافی حیران وپریشان تھے، یکم ربیع الاول۶۹۹ھ بروز شنبہ ظھر کے وقت شھر دمشق سے نالہ وفریاد کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ عورتیں بے پردہ گھروں سے نکل پڑیں اور مرددکانیں چھوڑچھوڑ کر بھاگ نکلے، ان حالات میں لوگوں نے قاضی القضاة اور شیخ الاسلام تقی الدین سبکی ابن تیمیہ اور شریف زین الدین(۲۸) نیز دیگر بڑے بڑے امراء اور فقھاء کو غازان کے پاس امان کی در خواست کرنے کے لئے بھیجا ۔ جس وقت لوگوں کے یہ تمام نمائندے ”بُنْک“ نامی جگہ پر غازان کے پاس پہونچے دیکھا کہ وہ گھوڑے پر سوار چلا آرہا ہے، یہ تمام لوگ اس کے سامنے زمین پر اتر آئے اور ان میں سے بعض لوگ زمین پر جھک کربوسہ دینے لگے ۔ غازان رکا، اور اس کے بعض ساتھی گھوڑوں سے اترگئے، اہل دمشق کے نمائندوں نے کسی ایک مترجم کے ذریعہ اس سے امان کی درخواست کی، اور اپنے ساتھ لائی ہوئی غذا پیش کی، جس پر غازان نے کوئی توجہ نہ کی، لیکن امان کی درخواست کو قبول کرلیا۔(۲۹)

ابن تیمیہ کی مغلوں سے دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب مغل بیت المقدس کے قرب وجوار میں تباہی اور غارت گری کے بعد دمشق لوٹے، تو ان کے ہمراہ بہت سے اسیر بھی تھے، اس موقع پر بھی ابن تیمیہ نے ان سے اسیروں کی رہائی کی درخواست کی، چنانچہ ان کو رہا کردیا گیا۔(۳۰)

جس وقت مغل دمشق سے باہر نکل آئے،اور امیر اَرجْوُاس وہاں کا حاکم ہوا ،تو اس نے ابن تیمیہ کے کہنے کی وجہ سے مغلوں کے بنائے ہوئے شراب خانوں کو بند کرادیا، شراب کو زمین پر بھا دیا، اور شراب کے ظروف توڑڈالے۔(۳۱)

وہ باتیں جن پر اعتراضات ہوئے

پہلی بارجب لوگوں نے ابن تیمیہ کے پریہ پر اعتراض ماہ ربیع الاول۶۹۸ھ میں کیا کیونکہ اس نے رسالہ حمویہ میں خداوندعالم کی صفات کے بارے میں ایک فتویٰ دیا جس کی وجہ سے اکثر فقھاء اس کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوگئے، اس سے بحث وگفتگو کی، اور اس کو اس نظریہ کے اظھار سے روکا۔(۳۲)

اس سلسلہ میں ” صَفَدی“ کہتا ہے کہ ربیع الاول۶۹۸ھ میں شافعی علماء میں سے بعض لوگ ابن تیمیہ سے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوگئے اور خداوندعالم کے بارے میں اس کی باتوں کو باطل اور مردود قرارد یا، رسالہ حمویہ میں اس کے صادر کردہ فتویٰ کو ناقابل قبول گردانا، اور اس سے بحثوگفتگو کے بعد دمشق شھر میں یہ اعلان کرادیا کہ حمویہ کے عقائد باطل اور بے بنیاد ہیں، اور اس سلسلہ میں ابن تیمیہ کو بھی اپنے عقائد کے اظھار سے رو ک دیا گیا(۳۳) اور مالکی قاضی کے حکم سے اس کو بحث وگفتگو کے جلسہ سے جیل بھجوادیاگیا، اور جب قاضی مالکی کو اس بات کی خبر ہوئی کہ جیل میں بھی کچھ لوگ اس سے ملاقات کے لئے آمدورفت کرتے ہیں تو اس پر سختی کرنے کا حکم صادر کردیا، کیونکہ اس کا کفر ظاہر اور آشکار ہوتا جارہا تھا۔

عید فطر کی شب میں اس کو جیل کے بُرج سے نکال کر ایک کویں میں منتقل کردیا گیا، اور دمشق میں یہ اعلان کرادیا گیا کہ جو شخص بھی ابن تیمیہ کے عقائد کا طرفدار ہوگا اس کی جان ومال حلال ہے، خصوصاً اگرایساشخص فرقہ حنبلی کا طرفدار ہوگا۔ حاکم کے اس حکم کو ابن الشِّھاب محمود نے جامع مسجد میں سب کے سامنے پڑھکر سنایا۔ اس کے بعدتمام حنبلیوں کو ایک جگہ جمع کیا اور انھوں نے سب کے سامنے یہ گواہی دی کہ ہم لوگ شافعی مذہب کے پیروں ہیں،(یعنی ابن تیمیہ کے طرفدار نھیںھیں)۔(۳۴)

ابن تیمیہ اسی کنویں میں قید تھا یہاں تک کہ ”مُہَنّا“ امیر آل فضل نے اس کی سفارش کی اور(۲۳)ربیع الاول کو زندان سے آزاد ہوا، اس کے بعد جبل نامی قلعہ میں اس کے اور دیگر فقھاء کے درمیان بحث وگفتگو ہوئی اور ایک تحریر لکھی گئی کہ ابن تیمیہ خود کو اشعری مذہب کھلائے، اور خود اس نے ایک تحریر پیش کی جس میں اس طرح لکھا ہوا تھا:

میں اس چیز کا اعتقاد رکھتا ہوں کہ قرآن کریم ایسے معنی ہے جو خداوندعالم کی ذات پر قائم ہے اور وہ خدا کی صفات میں سے ایک قدیمی صفت ہے، اور قرآن مخلوق نہیں ہے اور حرف اور آواز نہیں ہے، اور اس آیہ شریفہ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ ) (۳۵) کا مطلب ظاہر نہیں ہے اور میں اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہوں، بلکہ خدا کے علاوہ اس کے معنی کوئی نہیں جانتا، اور میرا وہ فتویٰ جو خدا کے نزول (خدا کا آسمان یا عرش سے نازل ہونا) کے بارے میں تھا بالکل وھی ہے جو مذکورہ آیت( اسْتَویٰ ) کے بارے میں کہا۔ اس تحریر کے آخر میں مرقوم تھا: کتبہ احمد بن تیمیہ ۔

اس موقع پرجلسہ میں موجود تمام فقھاء نے گواہی دی کہ ابن تیمیہ نے ۲۵ربیع الاول۷۰۷ھ کو اپنے اختیار اور اپنی مرضی سے مذکورہ مطالب کے علاوہ اپنے عقائد سے توبہ کرلی ہے ۔(۳۶)

یہ تھی ابن حجر کی گفتگو، لیکن ابن الوَردی کابیان ہے کہ ابن تیمیہ نے مدتوں تک کسی معین مذہب کے مطابق فتویٰ نہیں دیا، بلکہ اس کا فتویٰ وھی ہوتا تھا جودلیل سے اس پر ثابت ہو جاتا تھا اس نے وھی بات کہہ دی جس کو علمائے قدیم اور جدید سبھی نے اپنے دل میں رکھا لیکن اس کو زبان پرجاری کرنے سے پر ھیز کیا، لیکن حب ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں اپنی زبان کھولی تو اس وقت کے مصر وشام کے علماء نے اس کی مخالفت شروع کردی،اور اس سے مناظرہ اور مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے، لیکن وہ بغیر کسی خوف وھراس کے ہر وہ چیز جو اس کے اجتھاد کے مطابق ہوتی تھی اس کو پیش کردیتا تھا۔(۳۷)

شعبان المعظم۷۲۶ھ میں ایک بار پھر علماء نے ابن تیمیہ کی مخالفت شروع کردی، کیونکہ ابن تیمیہ نے زیارت کے خلاف فتوی دیا تھا۔(۳۸)

ابن تیمیہ نے یہ فتویٰ دیا کہ پیغمبروں کی قبور کی زیارت کے قصد سے سفر نہیں کرنا چاہئے، چنانچہ مختلف علماء نے اس کا جواب دیتے ہوا کہا : چونکہ اس کا مطلب عظمت ِ نبوت کو گرانا ہے، لہٰذا اس طرح کا فتویٰ دینے والا کافر ہے، دوسرے لوگوں نے فتویٰ دیا کہ ابن تیمیہ نے اس فتوے میں غلطی کی ہے لیکن یہ غلطی ان غلطیوں میں سے ہے جو قابل بخشش ہیں، چنانچہ اس امر کی عظمت اور اہمیت زیادہ ہوگئی، اور ابن تیمیہ کو الجبل نامی قلعہ میں دوبارہ قید کردیا گیا وہاں وہ بیس ماہ سے زیادہ قید رہا، قید کی مدت میں اس کو لکھنے پڑھنے سے بھی محروم رکھاگیا۔(۳۹)

ابن تیمیہ ،مفسروں کی طرح منبر سے گفتگو کرتا تھااور ایک گھنٹہ میں قرآن وحدیث اور لغت سے وہ مطالب بیان کرتا تھا کہ دوسرے لوگ کئی گھنٹوں میں وہ مطالب بیان کرنے سے عاجز تھے، گویا یہ تمام علوم اس کے سامنے ہوتے تھے کہ جہاں سے بھی بیان کرنا چاہے فوراً ان مطالب کو بیان کردیتا تھا، اسی وجہ سے اس کے طرفدار اس کے بارے میں بہت غلو سے کام لیتے تھے، اور خود (ابن تیمیہ) بھی اپنے اوپر رشک کرتا تھا اورخود پسند ہوگیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیگر تمام علماء سے اپنے قدم آگے بڑھائے اور گمان کرلیا کہ وہ مجتہد ہوگیا ہے، چنانچہ قدیم وجدید تمام چھوٹے بڑے علماء پر اعتراضات کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ اس نے عمر کو بھی ایک مسئلہ میں خطاکار اور قصوروار ٹھھرایا، اور جب یہ خبر شیخ ابراہیم رَفّی کے پاس پہونچی تووہ بہت ناراض ہوئے اور اس کو برابھلا کہا، لیکن جس وقت ابن تیمیہ کو شیخ کے پاس حاضر کیا گیا تو اس نے معافی چاہی اور توبہ واستغفار کی۔

ابن تیمیہ نے ۱۷مقامات پر حضرت علی ں پر بھی اعتراض کیا، وہ چونکہ حنبلی مذہب سے بہت زیادہ لگاو رکھتا تھا لہٰذا اشاعرہ کو برا کہتا تھا یہاں تک کہ غزالی کو گالی بھی دیتا تھا ،

اسی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اس کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ قریب تھا اس کو قتل کردیں۔(۴۰)

ابن تیمیہ کے سلسلہ میں لوگ متعدد گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے، بعض لوگ کہتے تھے کہ وہرسالہ حمویہ اور واسطیہ میں خدا کے بارے میں جسم کا قائل ہوا ہے جس میں ابن تیمیہ کا یہ کہنا تھا کہ خداوندعالم کے ھاتھ، پیر اور چھرہ رکھنا اس کی حقیقی صفات میں سے ہے، اور یہ کہ خدا بذات خود عرش پر مستقر ہے۔

دوسرا گروہ ابن تیمیہ کو زندیق (کافر) جانتا تھا کیونکہ ابن تیمیہ کا یہ کہنا تھا کہ پیغمبر اکرمسے استغاثہ نہیں کیا جاسکتا، لہٰذایہ لوگ کہتے تھے کہ ابن تیمیہ نے اس قول سے پیغمبر اکرم (ص)کی توھین کی ہے اور آنحضرت (ص)کی عظمت گھٹائی ہے۔

تیسرا گروہ اس کو منافق کہتا تھا کیونکہ اس نے حضرت علی ں کی شان میں جسارت کی ہے نیز اسی طرح کی دوسری باتیں کھیں، جبکہ پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی ں کے بارے میں یہ حدیث بیان کی ہے: ”لایبغضک الاالمنافق “ (اے علی (ع)!تم سے کوئی دشمنی نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ منافق ہو)، ابن تیمیہ نے عثمان کے بارے میں کہا کہ عثمان دولت پسند تھے، نیز اسی طرح ابوبکر کے بارے میں بھی ایسے ہی کلمات کھے ہیں۔(۴۱)

قارئین کرام! س بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ خود ابن حجر نے اس حدیث نبوی کو بیان کیا ہے جس کو صحیح مسلم نے ابومعاویہ سے اس نے اَعمش سے اس نے عدیّ بن ثابت سے اس نے زرّ سے اس نے حضرت علی ں سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا:

وَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَاَ النَّسْمَةَ انَهُ لَعَهِدَ النَبِیُّ اِلَیَّ اَنْ لاٰ یُحِبُّنِی. اِلاّٰ مُومِنٌ وَلاٰ یُبْغِضُنی اِلاّٰ مُنَافِقٌ(۴۲)

”قسم اس پروردگار کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور انسان کو خلق کیا، پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے وصیت کی اور کہا کہ تم کو کوئی دوست نہیں رکھے گا مگر یہ کہ مومن ہو اور تم کو کوئی دشمن نہیں رکھے گا مگر یہ کہ منافق ہو“۔

افعی کہتے ہیں : ابن تیمیہ نے بہت عجیب وغریب مسائل بیان کئے جو اہل سنت کے نظریات کے مخالف تھے اور انھیں کی وجہ سے اس کوقید ہوئی، اس کا سب سے عجیب فتوی یہ تھا کہ اس نے پیغمبر اکرم (ص)کی زیارت سے منع کیا، اور اس نے بڑے بڑے صوفیوں کی شان میں جسارت کی مثلاً حجة الاسلام ابو حامد غزالی، ابو القاسم قُشَیری، ابن عَرِیف اور شیخ ابو الحسن شاذلی وغیرہ ۔(۴۳)

ابن تیمیہ کی بحث وگفتگو کا انداز

جیسا کہ معلوم ہے کہ ابن تیمیہ بحث وگفتگو میں زبان درازی اور اس ڈالی سے اس ڈالی چھلانگ لگانے کا زیادہ ماہر تھا اورموضوع بحث سے ہٹ کر دوسرے موضوعات میں چلاجاتا تھا جس کی بناپرمد مقابل کو گفتگو کرنے کا موقع کم ملتا تھا اسی وجہ سے اس سے بحث کرنے کے لئے ماہر اور سخنور افراد کا انتخاب کیا جاتا تھا۔

تاج الدین سبکی کااس سلسلہ میں بیان ہے:مسئلہ حمویہ (ابن تیمیہ کا خدا کے بارے میں جھت وسمت کو ثابت کرنے کا فتویٰ) کے سلسلہ میں منعقدہ جلسہ میں کہ جس میں امیر تَنگزُ بھی موجود تھا علماء حاضرین نے امیر سے درخواست کی کہ شیخ صفی الدین ہندی اُرْموی جو تقریر میں مھارت رکھتے ہیں اور تمام مطالب کی طرف توجہ رکھتے ہیں اور کسی بھی مسئلہ کو بیان کرتے وقت اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتے ان کو بھی اس جلسہ میں بلایا جائے۔

شیخ صفی الدین جلسہ میں حاضر ہوئے اور مناظرہ شروع ہوا، ابن تیمیہ اپنی عادت کے مطابق موضوع سے ہٹا تو صفی الدین نے اس سے کہا: اے تیمیہ کے بیٹے میں دیکھ رہا ہوں کہ جب میں تم کو پکڑنا چاہتاہوں تو تم ایک چڑیا کی طرح ایک شاخ سے دوسری شاخ پر اڑجاتے ہو، آخر کار اس مناظرہ کے نتیجہ میں ابن تیمیہ کو زندان بھیج دیا گیا۔(۴۴)

تاج الدین سبکی نے ابن تیمیہ کے حالات زندگی کو لکھتے ہوئے ایسے نظریات بیان کئے ہیں جو لوگوں کے نظریہ کے خلاف تھے۴۵ شام کے حکمرانوں نے اس سے مناظرہ وبحث کرنے کے بعد اس کو ایک شافعی عالم کے ساتھ قاہرہ بھیج دیا، وہاں پر بھی بحث وگفتگو اور مناظرات ہوئے، چنانچہ ابن تیمیہ نے مختلف اسلامی مذاہب کے علماء سے تفصیلی گفتگو اور مناظرات کئے، جس کے نتیجہ میں یہ طے پایا کہ ابن تیمیہ کو الجبل نامی قلعہ(شام کے ایک پھاڑی علاقہ) میں ایک کنویں میں قید کردیا جائے، لیکن چھ مھینے بعد اس کو قید سے رہائی ملی، لیکن چونکہ اس کے مقابلہ میں بادشاہ اور حاکم وقت تھے، اور یہ شخص بھی اپنے عقائد کے بیان کرنے سے باز نہیں آتا تھا، لہٰذا دوبارہ قید میں ڈال دیا گیا، لیکن ایک مدت کے بعد پھر آزاد ہوا اور درس وتدریس میں مشغول ہوگیا، اس کے بعد قاہرہ سے دمشق جاپہنچا لیکن وہاں پہونچنے کے بعد اس پر علماء کی طرف سے کفر کا فتویٰ صادر ہوگیا اور پھر زندان بھیجدیا گیا۔

ابن تیمیہ خود اپنی کتاب فتاوی الکبری جلد پنجم کے شروع میں اس طرح لکھتا ہے : ماہ رمضان المبارک۷۲۶ھ میں قضّات اور حکمرانوں کی طرف سے ایک انجمن کے تحت دوافراد میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ آپ بحث کے لئےقضّات کے پاس چلیں۔

ابن تیمیہ ان کے سلوک پر اعتراض اور سخت شکوہ وشکایات کرتا ہے، اور گزشتہ جلسوں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد قضات سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ میں نے اپنے عقائد لکھ دئے ہیں آپ حضرات جو بھی جواب دینا چاہیں لکھ دیں، ابن تیمیہ مذکورہ مسئلہ کو نقل کرنے کے بعد اس طرح کہتا ہے کہ قضات نے ایک کاغذ پریہ تحریر کیا: ابن تیمیہ کو چاہئے کہ خداوندعالم سے جھت وسمت کی نسبت سے انکار کرے اور لوگوں میں اس طرح کی باتیں نہ کرے کہ کلام خدا (قرآن مجید) حرف اور آواز ہے جو خداوندعالم کی ذات سے تعلق رکھتاہے، بلکہ یہ حرف اور مخلوق کی آواز ہے، اور اس کو یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ خدا کی طرف انگلی سے حسّی طور پر اشارہ نہیں کرسکتے، اور صفات خداوندعالم سے متعلق احادیث کو نہ پڑھے، نیز ان احادیث کو دوسرے شھروں میں لکھ کر نہ بھیجے۔

ابن تیمیہ نے مذکورہ باتوں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے اور ہر ایک کا جواب دیا ہے، لیکن گویا ابن تیمیہ کا جواب مخالفوں کو مطمئن نہیں کرسکا کیونکہ انھوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا، اور بار بار اس کو قید کی سزا ہوتی رہی، آخر کار وہ ماہ شوال۷۲۸ھ میں زندان میں ہی مرگیا، آخری بار زیارت کو ممنوع قرار دینے کے سلسلہ میں زندان میں گیاتھا۔(۴۶)

شوکانی کا بیان ہے: قاضی مالکی کے فتوے کے مطابق ابن تیمیہ کوزندان میں بھیج دیا گیا،تو اس کے بعد دمشق میں یہ اعلان کرادیا گیا کہ جو کوئی اس کے عقائد کا طرفدار پایا گیا اس کی جان ومال حلال ہے۔(۴۷)

جیسا کہ ظاہر ہے ابن تیمیہ کے مقابلہ میں اس زمانہ کے اکثر علماء تھے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بہت سے طرفدار بھی تھے جو اس کے بہت زیادہ گرویدہ تھے، چنانچہ اس کے جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد دولاکھ تک بتائی جاتی ہے، اور یہ کہ بعض لوگوں نے اس کے غسل کے پانی کو بطور تبرک پیا، اور اس سے متعلق چیزوں کو قابل احترام سمجھا۔(۴۸)

لوگ رومالوں اور عماموں کو بطور تبرک اس کے جنازے سے مس کرتے تھے۔(۴۹)

ان تمام باتوں کے مدّ نظر یہ بات کھی جاسکتی ہے کہ اس کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد شام میں باقی رہی، یہاں تک کہ محمد بن عبد الوہاب کے زمانہ تک اس کے ماننے والے شام میں باقی رہے، وھی محمد بن عبد الوہاب جس نے وہابیت کو ایک فرقہ کی شکل بخشی، شیخ محمد عبدہ (عصر حاضر کے مشہور مولف) کے احتمال کے مطابق محمد بن عبد الوہاب نے اپنے عقائد میں ابن تیمیہ کی تقلید کی ہے۔

حافظ وَھبہ کے قول کے مطابق جو سعودی عرب کے حکومتی افراد میں سے ہے؛ابن تیمیہ کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں کیونکہ اس وقت کے حکمراں اور بادشاہ اس کے مخالف تھے لیکن وھی ابن تیمیہ کے عقائد اور نظریات تقریباً چارصدی کے بعد محمد بن عبد الوہاب کے ذریعہ اور بادشاہ وقت محمد بن سعود کی پشت پناہی کے سبب بارہویں صدی میں عملی شکل اختیار کرگئے(۵۰) ،(اور ایک نیا فرقہ وجود میں آگیا۔)

ابن تیمیہ کے فقھی عقائد و نظریات

ابن تیمیہ کے حالات زندگی کے آخرمیں اور اس کے عقائد کی گفتگو سے پہلے اس بات کی طرف یاد دہانی ضروری ہے کہ وہ خود اوراس کے باپ کا حنبلی علماء میں شمار ہوتا تھا لیکن فقھی مسائل میں وہ احمد حنبل یا دوسرے مذاہب کی پیروی کا پابند نہ تھا اورمختلف فقھی مسائل میں انھیں مسائل کو انتخاب کرتاتھا جو خود اس کی نظر میں صحیح ہوتے تھے، یہاں تک کہ شیعوں کی شدید مخالفت کے باوجود اس نے بعض مسائل میں شیعوں کی پیروی بھی کی ہے۔(۵۱)

مثلاً طلاق کے مسئلہ(۵۲) میں اس کا فتویٰ یہ تھا کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو اس لفظ کے ساتھ طلاق دے ”انتِ طالق ثلاثاً “ (یعنی میں نے تجھے تین طلاقیں دیں) تو یہ تین طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔(۵۳) (شیعہ مراجع عظام کا فتویٰ بھی یھی ہے)

اسی طرح ابن تیمیہ بعض جگہ شیعوں کی فقھی نظر کو بیان کرتا ہے اور امام محمد باقر ں اور امام جعفر صادق ں نیز دیگر ائمہ علیهم السلامکی روایات کو نقل کرتا ہے۔(۵۴)

اسی طرح فتاوی الکبری (ابن تیمیہ کے فتووں کا مجموعہ) میں بعض مسائل کے بارے میں ایسے فتوے بیان کئے جواہل سنت کے ائمہ اربعہ کے فتووں سے بالکل جدا تھے۔(۵۵)

اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ حنبلی مذہب کو دوسرے مذاہب پر ترجیح دیتا تھا کیونکہ اس مذہب کو قرآن واحادیث سے نزدیک پاتا تھا(۵۶) یہ باتبعد میں بیان کی جائے گی کہ ابن تیمیہ اور اس کی پیروی کرنے والے (وہابی) قرآن وحدیث کے ظاہر سے تمسک کرتے رہے ہیں۔

____________________

۲. وہابی حضرات اپنے فرقہ کو نیا فرقہ نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں یہ فرقہ ”سَلَف صالح“ کا فرقہ ہے اور اسی وجہ اپنے کو سَلَفیہ کہتے ہیں۔

۳. ابن بطّہ کی سوانح حیات کتاب المنتظم، تالیف ابن جوزی جو ۳۸۷ھ میں وفات پانے والوں کے سلسلہ میں ھے اور سمعانی کی انساب میں بطّی اور عکبری (بغداد سے دس فرسنگ کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) دونوں لفظوں کے تحت بیان ہوئی ہے، نیز خطیب بغدادی نے بھی اپنی کتاب تاریخ بغداد ج۱۰ ص ۳۷۱ میں ابن بطہ کے حالات بیان کئے ہیں اور اس پر کچھ اعتراضات بھی کئے ہیں کہ ابن جوزی نے ان اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے۔ (منتظم ج۷ص۱۹۳) ،ابن ماکولا نے بھی لفظ بطہ کے ذیل میں ابن بطہ کے حالات زندگی کو مختصر طور پر لکھا ہے۔ (الاکمال ج۱ص۳۳۰) ۴. کتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص۲۷۔

۳. ابن بطّہ کی سوانح حیات کتاب المنتظم، تالیف ابن جوزی جو ۳۸۷ھ میں وفات پانے والوں کے سلسلہ میں ھے اور سمعانی کی انساب میں بطّی اور عکبری (بغداد سے دس فرسنگ کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) دونوں لفظوں کے تحت بیان ہوئی ہے، نیز خطیب بغدادی نے بھی اپنی کتاب تاریخ بغداد ج۱۰ ص ۳۷۱ میں ابن بطہ کے حالات بیان کئے ہیں اور اس پر کچھ اعتراضات بھی کئے ہیں کہ ابن جوزی نے ان اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے۔ (منتظم ج۷ص۱۹۳) ،ابن ماکولا نے بھی لفظ بطہ کے ذیل میں ابن بطہ کے حالات زندگی کو مختصر طور پر لکھا ہے۔ (الاکمال ج۱ص۳۳۰) ۴. کتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص۲۷۔

۵. کتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص۳۰۔

۶. تاریخ نجد ص ۱۱۱۔ شیخ عبد الوہاب کی مخالفت کے علاوہ اس کا بھائی شیخ سلیمان بھی محمد بن عبد الوہاب کا سخت مخالف تھا، ہم انشاء اللہ اس بارے میں تفصیلات بعد میں بیان کریں گے،اور باپ بیٹے کے درمیان بہت سے مناظرات اور مباحثات بھی ہوئے، لہٰذااس فرقہ کی اس کی طرف کیسے نسبت دی جاسکتی ہے جو خود ان نظریات کا سخت مخالف ہو۔

۷. دائرة المعارف فرید وجدی ج۱۰ ص ۸۷۱ بہ نقل از مجلہ المقطف ص ۸۹۳۔

۸. زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث ص ۱۰۔

۹. یہ لوگ خود کو اس وجہ سے سلفیہ کہتے تھے کہ ان کا ادعایہ تھا کہ وہ لوگ اپنے اعمال واعتقادات میں سلف صالح یعنی اصحاب پیغمبر اور تابعین (وہ لوگ جو خود تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت نہ کرسکے لیکن انھوں نے اصحاب پیغمبر کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام اور گفتگو کو سنا ہے) کی پیروی کرتے ہیں۔

۱۰. خلاصہ از کتاب ا لمذاہب الاسلامیہ ص ۳۱۱ ۔

۱۱. نشوار المحاضرہ ج۲ ص ۱۳۴وھی مدرک:بربہاری کے مریدوںنے بغداد میں ایک مسجد بنائی جو فتنہ وفساد کا مرکز تھی اسی وجہ سے دوسرے لوگ اس کو مسجد ضَرار کہتے تھا، (اور اس مسجد کو پیغمبر اکرمکے ذریعہ گرائی جانے والی مسجد ضرار کی طرح جانتے تھے) چنانچہ اس وقت کے وزیر علی ابن عیسیٰ سے شکایت کی جس کی بناپر اس نے اس مسجد کے گرانے کا حکم صادر کردیا۔

۱۲. ارشاد یاقوت ج۶ ص ۴۳۶۔

۱۳. البدایہ والنھایہ ج۱۱ص ۲۰۱۔

۱۴. بربہاری، بھار کی طرف نسبت ہے، جوحشیش کی طرح ایک قسم کی دوائی ہے ،اور وہ ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ (سمعانی مادہ بربہاری)

۱۵. تجارب الامم ج۵ ص ۳۲۲، خلیفہ کا فرمان اس کتاب میں موجود ہے، خلیفہ کے فرمان سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ بربہاری کے مرید زائرین قبور ائمہعلیهم السلامکو بدعت گذار گردانتے تھے، لیکن ایک عام آدمی کی قبر کی زیارت کا حکم دیتے تھے، جس کو رسول اللہسے کوئی نسبت بھی نہیں تھی۔

۱۶. الکامل ج۶ ص ۲۴۸۔ خلیفہ الراضی کے فرمان میں خداوندعالم کے بارے میں بربہاری کے مریدوں کے نظریات کو اجمالی اورمختصر طور پر ذکر کیا گیاہے، لیکن ابن اثیر نے جیسا کہ متن سے معلوم ہوا ان کی باتوں کی وضاحت کی ہے، ابو الفداء نے بھی اپنی تاریخ (ج۲ص۱۰۳) میں خلیفہ کے فرمان کے بارے میں اس طرح نقل کیا ہے کہ تم یہ گمان کرتے ہو کہ تمھارا بدنما چھرہ خداوندعالم کے چھرہ کی طرح ہے، اور تمھاری شکل وصورت خداوندعالم کی طرح ہے، اور خداوند عالم کے لئے گُندہے ہوئے بالوں کا ذکر کرتے ہو اور کہتے ہو کہ خداوندعالم آسمانوں میں اڑتا ہے ،اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے آتا ہے۔

۱۷. المنتظم ابن الجوزی ج۶ ص ۳۲۔

۱۸. الکامل ج۶ ص ۲۸۲۔

۱۹. خلاصہ از شذرات الذھب ابن عماد ج ۲ ص ۳۲۱۔

۲۰. ذھبی نے ایک خط کے ضمن میں (جس کو مرحوم علامہ امینی صاحب نے اپنی کتاب الغدیر ج۵ ص ۸۷ میں ذکر کیا ہے، ابن تیمیہ کے عقائد کے سلسلہ میں جو مسلمانوں میں شدید اختلاف کا سبب ہوئے) اس کو نصیحت کی ہے۔ اور جیسا کہ ذھبی کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ذھبی ابن تیمیہ کے عقائد اور نظریات سے زیادہ متفق نہیں تھا، چنانچہ اس نے اپنی کتاب العِبَرمیں ابن تیمیہ کے عقائد وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے (جو علماء کرام کی مخالفت کا سبب بنے) ابن تیمیہ کی باتوں کو فتنہ وفساد سے تعبیر کیا ہے۔ ص ۳۰۔

۲۱. سبکی کی تحریر اس طرح ہے: زملکانی نے ابن تیمیہ کی ردّ میں دومسئلوں(طلاق اور زیارت)کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے، (طبقات الشافعیہ ج۹ ص ۱۹۱۔ )

۲۲. اِخْناء ْ، مصر کا ایک قدیمی شھر ہے۔

۲۳. رسالة العقیدة الواسطیہ، ابن تیمیہ پراس کے چند ہم عصر علماء نے اعتراضات کئے ہیں، خود اس نے رسالہ المناظرہ فی العقیدة الواسطیہ میں اس کے مفصل جوابات تحریر کئے ہیں۔ (مجموعة الرسائل جلد اول ص ۴۱۵ سے)

۲۴. فتح المجید ص ۲۳۰۔

۲۵. مذکورہ رسالہ کی عبارت کو سبکی نے طبقات الشافعیہ ج ۹ ص ۳۵ میں نقل کیا ہے۔

۲۶. صَفَدی ج۷ ص ۱۹۔

۲۷. ابن شاکر جلد اول ص ۷۲۔

۲۸. زین الدین سے مراد، شریف زین الدین قمی ہے ،جس کوغازان خان نے دوسرے تین لوگوں کے ساتھ دمشق کے لئے روانہ کیا تھا۔ (السلوک جلد اول ازق ۳ ص ۸۹۰)

۲۹. مقریزی در السلوک جلد اول از قسم ۳ ص ۸۸۹

۳۰. مقریزی در السلوک جلد اول از قسم ۳ ص ۸۹۶۔

۳۱. مقریزی در السلوک جلد اول از قسم ۳ ص ۹۰۰۔

۳۲. الدرر الکامنہ جلد اول ص ۱۵۵۔

۳۳. الوافی بالوفیات ج۷ ص ۲۲،رسالہ حمویہ کی بحث عقائد ابن تیمیہ کے ضمن میں آئے گی۔

۳۴. ابن حجر جلد اول ص ۱۵۷، ذھبی۷۰۵ھ کے تاریخی واقعات کے بارے میں رقمطراز ہے کہ اسی سال ابن تیمیہ کا فتنہ رونما ہوا، اور یہ سب کچھ اس کے عقیدہ واسطیہ کی وجہ سے ہوا، جس کی وجہ سے بعض لوگ اس کے طرفدار اور بعض لوگ اس کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے، تین جلسوں میں عقیدہ واسطیہ کو پڑھا گیا، آخر کار اس کو مصر بھیج دیا گیا، اور وہاں قاضی مالکی کے حکم سے وہ اس کے بھائی کو زندان میں ڈال دیا گیا، اس کے بعد ابن تیمیہ کو اسکندریہ میں شھر بدر کردیا گیا، ابن تیمیہ پر مصر میں یہ اعتراضات اٹھائے گئے کہ وہ کہتا ہے کہ خداوندعالم بطور حقیقی عرش پر مستقر ہے اور گفتگو کرتا ہے، اس کے بعد دمشق اور اس کے قرب وجوار میں یہ اعلان کرادیا گیا کہ جو کوئی بھی ابن تیمیہ کے عقیدہ کا طرفدار ہوگا اس کی جان ومال حلال ہے، (ذیل العبر ص ۳۰، ۳۱)

۳۵. سورہ طٰہٰ آیت ۵۔

۳۶. ابن حجر جلد اول ص ۱۵۸۔

۳۷. تاریخ ابن الوردی ج۲ ص ۴۱۰۔

۳۸. ابن حجر جلد اول ص ۱۵۹، ابن الوردی کہتا ہے کہ جب لوگوں نے اس کی یہ تحریر دیکھی، جس میں لکھا ہوا تھا پیغمبر انبیاء اور صالحین کی قبور کی زیارت ممنوع ہے، توسلطان کے حکم سے اس کو زندان بھیج دیا گیا اور اس کو فتویٰ دینے سے بھی روکا گیا،ابن قیّم جوزی بھی زندان میں اس کے ساتھ تھا۔ (تاریخ ابن الوردی ج۲ ص ۳۹۹)

۳۹. ابن الوردی، ج۲ ص ۴۱۲،۴۱۳،ابن تغری بردی کہتا ہے کہ ابن تیمیہ کو زندان میں لکھنے پڑھنے سے محروم کردیا گیا یہاں تک کہ اس کے پاس کوئی قلم وکاغذ اور کتاب تک نہ چھوڑی (ج۹ ص۲۷۲)

۴۰. ابن حجرجلد اول ص ۱۶۴، ابن تیمیہ ،محي الدین عربی اور ابن فارض پر بھی اعتراض کیا تھا اور صوفیوں کی سخت مخالفت کرتا تھا نیز علمائے اہل کلام اور اہل فلسفہ یونان بالخصوص مرحوم ابن سینا اور ابن سبعین سے ٹکرایاہے۔

۴۱. ابن حجر جلد اول صفحہ ۱۶۵،۱۶۶ کا خلاصہ ۔

۴۲. صحیح مسلم، جلد اول ص ۶۱۔

۴۳. مرآت الجنان ج۴ ص ۲۷۸۔

۴۴. طبقات الشافعیہ، ج۹ص ۱۶۳، یہ تھا صفی الدین اور ابن تیمیہ کا مناظرہ، لیکن ابن تیمیہ کے طرفدار مثلاً ابن کثیر وغیرہ نے اس مناظرہ کے بارے میں کہاہے : صفی الدین مناظرہ میں ابن تیمیہ کا مقابلہ نہ کرسکا، کیونکہ اس کی معلومات اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ابن تیمیہ کا مقابلہ کرسکے۔

۴۵. ابن تیمیہ، صفدی اور ابن تغری بَردی (جو ابن تیمیہ کے طرفداروں میں سے ہیں) ؛ کی تحریر کے مطابق اپنے مخالفوں کو نازیبا الفاظ سے نوازتا تھا، (الوافی ج۷ ص ۱۹، النجوم الزاہرہ ج۹ ص ۳۶۷، اسی طرح منھاج السنہ میں علامہ حلّیکے لئے توھین آمیز کلمات کھے، جلد اول ص ۱۳)

۴۶. فوات الوفیات جلد اول ص ۷۷، اور الوافی بالوفیات ج۷ ص ۱۸۔

۴۷. البدر الطالع، جلد اول ص ۶۷۔

۴۸. ابن کثیر ج ۱۴ ص ۱۳۶۔

۴۹. ابن الوردی ج۲ ص ۴۰۶، یھی مولف لکھتا ہے کہ ابن تیمیہ کے جنازے میں شرکت کرنے والے دولاکھ مرد اور ۱۵ہزار عورتیں تھیں۔

۵۰. جزیزة العرب فی القرن العشرین ص ۳۳۵۔

۵۱. ابن تیمیہ شیعوں سے اپنی تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنی کتاب منھاج السنہ جو کہ شیعہ عقائد کی ردّ میں لکھیھے بعض اوقات اپنی اسی کتاب میں شیعہ اثنا عشری کا دفاع بھی کیا ہے، ان مقامات میں (جلد اول منھاج السنہ ص ۲۵)پر شیعوں اپنی تمام شدید تہم توں اور توھینوں کے بعد کہتا ہے : ممکن ہے یہ چیزیں شیعہ اثناعشری میں موجود نہ ہوں اور اسی طرح فرقہ زیدیہ میں بھی نہ ہوں، اوران (تہم توں) میں سے اکثر غلات اور عوام الناس میں پائی جائیں۔

۵۲. ابو زھرہ کابیان ہے: ہمارے بھائی ملک ایران کے لوگ شیعہ اثنا عشری ہیں، جن کی فقہ قائمبالذات،اصیل وریشہ دار ہے اور فروع کے علاوہ اصول کے بھی قائل ہیں اورہمارے مصر کے جدید قوانینمیں شیعہ اثنا عشری فقہ سے اقتباس کیا گیا ہے منجملہ ان میں سے وارث کے لئے وصیت کے جائز ہونے کا مسئلہ ہے، (کتاب شرح حال ابن تیمیہ ص ۱۷۰)

۵۳. ابن عماد ج۲ ص ۸۵ ،اور ابن شاکر جلد اول ص ۷۴، ابن شاکر کے بقول ابن تیمیہ کا مسئلہ طلاق کے بارے میں بھی ایک رسالہ تھا۔

۵۴. فتاوی الکبری ج۳ ص ۲۰ وغیرہ۔

۵۵. فتاوی الکبری ج ۳ ص ۹۵، شیخ محمد بہجة البیطار کے قول کے مطابق ابن تیمیہ کے تقریباً۱۰۰ کے نزدیک مخصوص فتوے تھے جو دوسروں سے بالکل مختلف تھے۔ (حیاة شیخ الاسلام ابن تیمیہ ص ۴۶)