تیسرا باب:
شیخ محمد ابن عبد الوہاب، وہابی فرقہ کا بانی
وہابی فرقہ محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان بن علی تمیمی نجدی کی طرف منسوب ہے اور یہ نسبت اس کے باپ عبد الوہاب کی طرف دی گئی ہے، لیکن جیسا کہ پہلے بھی عرض ہوچکا ہے کہ وہابی اس نسبت کو نہیں مانتے، اور کہتے ہیں کہ یہ نام ہمارے مخالفوں اوردشمنوں کی طرف سے رکھا گیا ہے بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ ہم کو(شیخ محمد کی طرف نسبت دے کر محمدیہ کہا جائے۔)
شیخ محمد بن عبد الوہاب۱۱۱۵ھ میں ” عُیَیْنَہ“ شھر(نجد کے علاقہ)میں پیدا ہوا، اس کے باپ شھر کے قاضی تھے، محمد بن عبد الوہاب بچپن ہی سے تفسیر، حدیث، اور عقائد کی کتابوں سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتا تھا، چنانچہ حنبلی فقہ کی تعلیم اپنے باپ سے حاصل کی،کیونکہ اس کے باپ حنبلی علماء میں سے تھے، وہ اپنی جوانی کے عالم سے اہل نجد کے بہت سے کاموں کو برا سمجھتا تھا،جب وہ مکہ معظمہ حج کرنے کے لئے گیا، تومناسک حج بجالانے کے بعد مدینہ بھی گیا،
جب وہاں اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ کے پاس لوگوں کو استغاثہ کرتے ہوئے دیکھا تو اس نے لوگوں کو اس سے منع کیا، اس کے بعد وہاںسے نجد پلٹ آیا اور وہاں سے شام جانے کے قصد سے بصرہ گیا، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر ایک مدت تک بصرہ میں ہی قیام کیا اس دوران وہاں کے لوگوں کے بہت سے اعمال کی مخالفت کرتارہا، لیکن لوگوں نے اس کو پریشان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ اس کو گرمی کی ایک سخت دوپھرمیں اپنے شھر سے باہر نکال دیا۔
بصرہ اور شھر زُبَیر کے درمیان گرمی اورپیاس اور پیدل چلنے کی وجہ سے موت سے نزدیک تھا کہ ھلاک ہو جاتا کہ اُدہر سے زبیر شھر کے ایک شخص کا گذر ہوا، اس نے محمد بن عبد الوہاب کو عالموں کے لباس میں دیکھ کر اس کی جان بچانے کی کوشش کی اور اس کو پانی پلایا، اور اس کو اپنے گدہے پر بٹھا کر اپنے شھر لے گیا، اس کے بعد وہ شام جانا چاہتا تھا لیکن چونکہ شام تک جانے کے لئے زادِ راہ کافی نہ تھا لہٰذا اپنے ارادہ کو بدل کر اَحساء جاپہونچا، اور پھر وہاںسے نجد کے شھر ”حُرَیْمَلِہ“ چلا گیا۔
اسی اثنا میں (۱۱۳۹ھ) اس کے باپ عبد الوہاب بھی عیینہ سے حریملہ پہونچ گئے، وہاںمحمد بن عبد الوہاب نے اپنے باپ سے پھرکچھ کتابیں پڑھیں، اس دوران نجد کے لوگوں کے عقائد کے خلاف بولنا شروع کیا جس کی بناپر باپ اوربیٹے میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے، اسی طرح اس کے اور اہل نجد کے درمیان اختلاف اور جھگڑے ہوتے رہے، یہ سلسلہ چند سال تک چلتا رہا، ۱۱۵۳ھ میں اس کے باپ شیخ عبد الوہاب کا انتقال ہوگیا۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب کا ایران کا سفر
فارسی زبان میں سب سے پرانی کتاب جس میں محمد بن عبد الوہاب اور وہابیوںکے عقائد کے بارے میں تذکرہ ملتا ہے تحفة العالم تالیف عبد اللطیف ششتری ہے، جس کی ہم اصل عبارت بھیذکر کریںگے، مذکورہ کتاب میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے اصفھان کے سفر کے بارے میں سفر کا تذکرہ موجود ہے۔
ایک دوسری کتاب بنام ”مآثر سلطانیہ“ تالیف عبد الرزاق دُنبلی ہے، جس میں محمد بن عبد الوہاب کے کافی عرصہ تک اصفھان میں رہنے کا تذکرہ ملتا ہے اور اس شھر کے مدارس میں رہ کر اس کے اصول اور صرف ونحو کی تعلیم حاصل کرنے کا تذکرہ موجود ہے جس کا خلاصہ اسی کتاب کے پانچویں باب میں بیان کیا جائے گا۔
میرزا ابوطالب اصفھانی جو محمد بن عبد الوہاب کے تقریباً ہم عصر تھے وہ بھی اس کے اصفھان میں تحصیل علم وحکمت کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں اور عراق و خراسان کے اکثر شھروں یہاں تک کہ غزنین کی سرحد تک کے سفر کے بارے میں بھی لکھا ہے، اس کی تفصیل بھی پانچویں باب میں بیان ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ۔
اسی طرح کتاب ناسخ التواریخ جلد قاجاریہ ہے جس میں کربلا معلی پر وہابیوں کے حملہ کو۱۲۱۶ھ (فتح علی شاہ کی بادشاہت کے زمانہ میں ) تفصیل سے بیان کیا ہے، مذکورہ کتاب میں محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں یوں لکھا ہے کہ عبد الوہاب (صحیح نام محمد بن عبد الوہاب)عرب کے دیھاتی علاقہ کا رہنے والا تھا اور اس نے بصرہ کا سفر کیا اور وہاں محمد۲۴۳ نامی ایک عالم دین سے ایک مدت تک تحصیل علم کیا، اور اس کے بعد وہاں سے ایران کا سفر کیا اور اصفھان میں قیام کیا اور وہاں کے علماء سے علم نحو وصرف اور اصول وفقہ میں مھارت حاصل کی اور شرعی مسائل میں اجتھاد شروع کیا اوراصول دین اور فروع دین میں اپنا اجتھاد اس طرح بیان کیا کہ خدائے وحدہ لاشریک نے انبیاء اور رُسل بھیجے اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن لے کر آئے اور اپنا دین پیش کیا اور آپ کے بعد تمام خلیفہ مجتہد تھے، مجتہدین کتاب خدا سے شرعی مسائل کو اخذ کرتے ہیں اس نے بہت سی چیزوں کو
بدعت قرار دیامنجملہ ان کے ائمہ کی قبور پر قبہ بنوانااور ان کو زر وسیم سے مزین کرنا، اور متبرک قبروں پر نفیس اور قیمتی چیزوں کو وقف کرنا، مرقدوں کا طواف کرنا اور ان کو چومنا وغیرہ کو شرک سمجھا اور ان جیسے کام کرنے والوں کا بت پرست کا نام دیا، وغیرہ وغیرہ ۔
امریکن رائیٹر ”لوٹروپ اسٹووارڈ “ نے بھی محمد بن عبد الوہاب کے ایران سفر کے بارے میں لکھا ہے۔
جناب احمد امین صاحب کسی مدرک اورمآخذ کاذکر کئے بغیر اس طرح کہتے ہیں: شیخ محمد بن عبد الوہاب نے بہت سے اسلامی ممالک کا سفر کیا اور تقریباً چار سال تک بصرہ میں ، پانچ سال بغداد میں ، ایک سال کردستان میں اور دوسال ہمدان میں قیام کیا، اور اس کے بعد اصفھان گیا، اور وہاں پر فلسفہ اشراق اور صوفیت کی تعلیم حاصل کی، وہ وہاں سے قم بھی گیا اور وہاں سے اپنے ملک واپس چلا گیا اور تقریباً آٹھ مھینے تک لوگوں سے دور رہا اور جب ظاہر ہوا تو اپنا جدید نظریہ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
دعوت کا اظھار
شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اپنے عقائد کو ظاہر کرنا شروع کردیا اور لوگوں کے بہت سے اعمال کو ممنوع قرار دینے لگا، ”حُرِیْمَلِہ“ کے کچھ لوگو ں نے اس کی پیروی کرنا شروع کردی اور یہ اسے شھرت ملنے لگی شھر حریملہ کے دو مشہور قبیلے تھے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم رئیس ہیں، ان میں سے ایک قبیلہ کا نام حَمیان تھا ان کے پاس ایسے غلام تھے جو فحشاء ومنکر اور فسق وفجور میں مرتکب رہا کرتے تھے۔
چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نے ان کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنا چاہا، لیکن جیسے ہی ان کو پتہ چلا تو انھوں نے یہ طے کرلیا کہ آج رات میں مخفی طریقہ سے شیخ محمد بن عبد الوہاب کو قتل کردیا جائے یہاںتک کہ اسی پروگرام کے تحت ایک دیوار کے پیچھے چھپے ہوئے تھے کہ اچانک بعض لوگوں کو ان غلاموں کے پروگرام کا پتہ چل گیااور انھوں نے شور مچانا شروع کردیا جس کی بناپر غلاموں کو مجبوراً بھاگنا پڑا، اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کی جان بچ گئی، اس کے بعد شیخ محمد بن عبد الوہاب حریملہ سےشھر ”عیینہ“ چلا گیا، اس وقت شھر عیینہ کا رئیس عثمان بن حمد بن معمر نامی شخص تھا عثمان نے شیخ کو قبول کرلیا اور اس کا احترام کیا اور اس کی نصرت ومدد کرنے کا فیصلہ کرلیا،اس کے مقابلہ میں شیخ محمد بن عبد الوہاب نے بھی یہ امید دلائی کہ تمام نجد پر غلبہ حاصل کرکے سب کو اس کا مطیعبنادے گا۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اس کے بعد سے (اپنے عقیدہ کے مطابق) امر بالمعروف اور نھی عن المنکر پورے زور وشور سے کرنا شروع کردیا، اور لوگوں کے ناپسند اعمال پر شدت سے اعتراض کرنے لگا، شھر عیینہ کے لوگوں نے بھی اس کی پیروی کرنا شروع کردی، اس نے حکم دیا کہ وہ درخت جن کو لوگ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں کاٹ دیئے جائےں چنانچہ ایسے سبھی درختوں کو کاٹ دیا گیا اور اسی طرح زید بن الخطاب کی قبر پر بنے گنبد اور عمارت کو گرا دیا گیا۔
زید کی قبر جبلیہ میں (عیینہ کے نزدیک) تھی شیخ محمد بن عبد الوہاب نے عثمان سے کہا کہ آو زید کی قبر اور اس کے گنبد کو گراتے ہیں تو اس موقع پر عثمان نے کہا آپ جو کچھ کرنا چاہیں کریں، ویران کردیں، اس پر شیخ محمد بن عبد الوہاب نے عثمان سے کہا ہم اس وقت اس کی قبر کو منہدم کرسکتے ہیں کہ جب تم ہماری مدد کرو۔
عثمان نے ۶۰۰افراد کو اس کے ساتھ بھیج دیا جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو جبلیہ شھر کے لوگوں نے ممانعت کرنا چاہی لیکن چونکہ عثمان کے مقابلہ میں جنگ نہیں کرسکتے تھے لہٰذا پیچھے ہٹ گئے، عثمان نے شیخ سے کہا میں قبر کو توڑنے میں ھاتھ نہیں لگاؤنگا، تو اس موقع پر شیخ محمد بن عبد الوہاب خود آگے بڑھااور تبر کے ذریعہ قبر کو ڈھا کر زمین کے برابر کردیا۔
اسی دوران ایک عورت شیخ کے پاس آئی اور اعتراف کیا کہ اس نے زنا محصنہ (شوھر دار عورت کا زنا)کیا ہے، شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اس کی عقل کو پرکھنا شروع کیا تو اس کو صحیح پایا پھر اس عورت سے کہا کہ شاید تجھ پر تجاوز اور ظلم ہوا ہے لیکن اس عورت نے پھر اس طریقہ سے اعتراف کیا کہ اس کو سنگ سار کرنے کی سزا ثابت ہوتی تھی، چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اس کو سنگسار کئے جانے کا حکم صادر کردیا۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب سے امیر اَحساء کی مخالفت
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے عقائداور اس کے نظریات کی خبر سلیمان بن محمد احساء کے حاکم شھر کو پہونچی اس نے عیینہ شھر کے امیر عثمان کو ایک خط لکھا کہ جو شخص تمھارے پاس ہے اس نے جو کچھ کہا یا جو کچھ کیا میرا خط پہنچتے ہی اس کو قتل کردےا جائے اور اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو جو خراج احساء سے تیرے لئے بھیجتا ہوں اس کو بند کردونگا، جبکہ یہ خراج ۱۲۰۰ سونے کے سكّے اور کچھ کہانے پینے کی چیزوںاور لباس کی شکل میں تھا۔
جس وقت امیر احساء کا یہ سخت خط عثمان کے پاس پہنچا وہ اس کی مخالفت نہ کرسکا چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ امیر احساء کا مقابلہ کرسکیں، شیخ نے اس کو جواب دیا کہ اگر تم میری مدد کروگے تو تمام نجد کے مالک ہوجاؤگے! عثمان نے اس سے روگرانی کی اور کہا: احساء کے امیر نے تمھارے قتل کا حکم دیا ہے لیکن میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ میں تمھیں اپنے شھر میں قتل کردوں، تم اس شھر کو چھوڑ دو، اور اس کے بعد فرید ظفری نامی شخص کو معین کیا کہ اس کو عیینہ شھر سے باہر چھوڑدے۔
شیخ محمد اور آل سعود کے درمیان تعلقات کا آغاز
جس وقت شیخ محمد بن عبد الوہاب کو شھر عیینہ سے باہر نکال دیا گیا، وہوہاں سے دِرْعِیَّہ شھر (نجد کا مشہور شھر)کی طرف چل پڑا ،اور یہ۱۱۶۰ھ کا زمانہ تھا عصر کے وقت وہاں پہونچا اور وہاں عبد اللہ بن سُویلم نامی شخص کے یہاں مہم ان ہوگیا، اس وقت درعیہ شھر کا حاکم محمد ابن سعود (آل سعود کا دادا) تھا محمد ابن سعود کی بیوی موضیٰ بنت ابی وحطان آل کثیر سے تھی جو بہت زیادہ عقلمند اور ہوشمند تھی۔ اور جب یہ عورت شیخ محمد کے حالات سے باخبر ہوئی، تو اس نے اپنے شوھر سے یہ کہا کہ اس شخص کو خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی ایک نعمت اور غنیمت سمجھو جس کو خدا نے ہمارے پاس بھیجا ہے اس کو غنیمت جانو اور اس کا احترام کرو اور اس کی مدد کو غنیمت شمار کرو۔
محمد بن سعود نے اپنی بیوی کی پیش کش کو مان لیا چنانچہ عبد اللہ بن سویلم کے گھر شیخ محمد بن عبد الوہاب سے ملاقات کے لئے گیا اور اس کی بہت زیادہ عزت اور تعریف کی، اس نے بھی محمد کو تمام نجد پر غلبہ پانے کی بشارت دی اور حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی سیرت، امربالمعروف اور نھی عن المنکر نیز راہ خدا میں جھاد کے بارے میں گفتگو کی اور اسی طرح اس کو یادہانی کرائی کہ ہر ایک بدعت
گمراہی ہے،اور اہل نجد بہت سی بدعتوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں اور اختلافات اور تفرقہ سے دوچار ہیں۔
محمد بن سعود نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کی باتوں کو اپنے دین اور دنیا کے لئے مصلحت اور غنیمت شمار کیا اور ان سب کو قبول کرلیا، اس نے بھی محمد بن عبد الوہاب کو بشارت دی کہ وہ اس کی ہر ممکن مدد ونصرت کرے گا، اور اس کے مخالفوں سے جھاد کرے گا، لیکن اس کی دوشرط ہوگی پہلی یہ کہ جب اس کا کام عروج پاجائے تو شیخ اس سے جدا نہ ہو اور کسی دوسرے سے جاکر ملحق نہ ہوجائے اور دوسری شرط یہ کہ اس کو یہ حق حاصل ہو کہ جو مالیات اور خراج ہر سال شھر درعیہ والوں سے لیتا تھا اس کو لیتا رہے، چنانچہ محمد بن عبد الوہاب نے اس کی پہلی شرط کو مان لیا اور دوسری شرط کے بارے میں کہا :
”ہم یں امید ہے کہ خداوندعالم کی مدد سے وہ خراج جو تم وصولتے ہو اس سے کہیں زیادہ فتوحات اور غنائم تم کو پہونچیں گی۔
اس طرح محمد بن عبد الوہاب اور محمد بن سعود نے ایک دوسرے کی بیعت کی اور یہ طے کرلیا کہ اپنے مخالفوں سے جنگ اور امر بالمعروف ونھی عن المنکر اور (اپنے عقائد کے مطابق)دین کے احکام و عقائد کو نافذ کریں گے، اس کے بعد قرب وجوار کے قبیلوں کے رئیسوں نے بھی ان کی حمایت کی
”فِلیپ حتّی“ و”گلدزیھر “ اور دیگر رائٹروں نے اس بات کو لکھا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب نے محمد بن سعود کو اپنا داماد بنالیا
اور یہ بات طے ہے کہ اگر یہ نئی رشتہ داری صحیح ہو تو پھردونوں میں بہت قریبی تعلقات ثابت ہوجاتے ہیں۔
عثمان کا پشیمان ہونا
یہ کہا جاتا ہے کہ عثمان بن معمر عیینہ کے حاکم نے جب محمد بن عبد الوہاب کو اپنے شھر سے باہر نکال دیا اور ابن سعود درعیہ شھر کے حاکم نے محمد بن عبد الواہاب کی نصرت اور مدد کی اور ان دونوں کی ملی بھگت عروج پر پہونچنے لگی تو عثمان نے اپنے کئے پر پشیمانی کا اظھار کیا اور یہ کوشش کی کہ محمد بن عبد الوہاب کو دوبارہ اپنے شھر عیینہ میں لے آئے، چنانچہ وہ اپنے کچھ دوستوں کو لے کر درعیہ شھر میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے پاس پہنچا،اور ترغیب دلائی کہ دوبارہ شھر عیینہ واپس چلا آئے لیکن شیخ نے اپنی واپسی کو محمد ابن سعود کی اجازت پر چھوڑ دیا، محمد ابن سعود کسی قیمت پر بھی راضی نہیں ہوا، یہ دیکھ کر عثمان اپنے وطن لوٹ آیا درحالیکہ بہت پریشان اور خوفزدہ تھا۔
محمد بن عبد الوہاب کا درعیہ کے لوگوں میں موثر ہونا
جس وقت محمد بن عبد الوہاب درعیہ میں آیا اور محمد ابن سعود سے مل گیا اس وقت درعیہ شھر کے لوگ اتنے غریب اور حاجت مند ہوتے تھے کہ اپنے کہانے کے لئے ہر روز کام کے لئے جاتے تھے تاکہ اپنے روازنہ کا خرچ پورا کرسکیں اور اس کے بعد شیخ کے جلسہ میں وعظ ونصیحت سننے کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے۔
ابن بشر نجدی یوں رقمطراز ہے کہ میں نے شھر درعیہ کو اس تاریخ کے بعدسعود کے زمانہ میں دیکھا ہے اس زمانہ میں لوگوں کے پاس بہت زیادہ مال ودولت تھی اور ان کے اسلحے بھی زروسیم سے مزین ہوتے تھے اور بھتر ین سواری ہوتی تھی، نیز بہترین کپڑے پہنتے تھے خلاصہ یہ کہ ان کے پاس زندگی کے تمام وسائل اور سامان تھے ۔
میں ایک روز وہاں کے بازار میں تھا میں نے دیکھا کہ ایک طرف مرد ہیں اور دوسری طرف عورتیں، اس بازار میں سونا چاندی، اسلحہ، اونٹ، گھوڑے، گوسفند، بہترین کپڑے، گوشت گندم اور دوسری کہانے پینے کی چیزیں اتنی زیادہ تھیں کہ زبان ان کی توصیف بیان کرنے سے قاصر ہے، تاحد نظر بازار تھا، میں خریداروں اور بیچنے والوں کی آواز کی گونج شہد کی مکھیوں کی طرح سن رہا تھا، کوئی کہتا تھا :میں نے بیچا، تو کوئی کہتا تھا:میں نے خریدا۔
البتہ ابن بشر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ اتنی مال ودولت کہاں سے آئی؟! لیکن جیسا کہ تاریخ کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مال ودولت کا عظیم حصہ ان مختلف شھروں پر حملہ کرکے ان کے اموال کو غنیمت کے طور پر لوٹ لینے کی بناپر تھا کیونکہ خود ابن بشر سعود بن عبد العزیز (متوفی۱۲۲۹ھ) کے حالات زندگی کے بارے میں کہتا ہے کہ جب وہ دوسرے شھروں پر حملہ کرتا تھا تو صرف نابالغ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو چھوڑتا تھا بقیہ سب کو تہہ تیغ کردیتا تھا اور ان کے تمام مال ودولت کو لوٹ لیتا تھا۔
شیخ محمد اور شریف مکہ
۱۱۸۵ھ میں امیر عبد العزیز
اور محمد بن عبد الوہاب نے شیخ عبد العزیز حصینی کے ذریعہ کچھ تحفے امیر مکہ شریف احمد بن سعید کی خدمت میں بھیجے ۔ شریف احمد نے امیر نجد سے کہا کہ پہلے علماء نجد میں سے کسی کو ہمارے پاس بھیجو تاکہ ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ نجدیوں کے عقائد کیا ہیں؟شیخ عبد العزیز جب مکہ پہنچا تو اس نے مکی علماء سے بعض مسائل میں بحث کی۔
ابن غَنّام، نجدی مورخ کہتا ہے کہ اس مناظرہ اور بحث میں حنبلیوں کی کتابیں لائی گئیں اور مکی علماء مطمئن ہوگئے کہ نجدیوں کا طریقہ کار قبور اور ان کے گنبدوں کے گرانے، لوگوں کو صالحین سے دعا اور شفاعت طلب کرنے سے روکنے کے بارے میں صحیح ہے، یہ سب دیکھ کر شیخ عبد العزیز کو باکمال احترام نجد واپس بھیج دیا گیا۔
۱۲۰۴ھ میں امیر عبد العزیز اور شیخ محمد بن عبد الوہاب نے شریف غالب کی درخواست کے مطابق دوبارہ شیخ عبد العزیز حصینی کو مکہ بھیجا، لیکن اس مرتبہ مکہ کے علماء اس سے بحث کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔
ابن غنام نجدی کہتا ہے کہ شریف غالب نے نجدیوں کی دعوت اور ان کے عقائد کو قبول کرلیا، ممکن ہے یہ ایک تظاہر اور دکھاوا ہو، تاکہ اس طرح سے وہ نجدیوں کے جنگ کرنے اور ا ن کی دعوت کو ختم کرنے کے اپنے ارادہ کو مخفی رکھ سکے۔
اس سلسلہ میں سید دَحلان کہتے ہیں کہ امیر نجد نے شریف مسعود کے زمانہ میں حج کرنے کی اجازت مانگی، کیونکہ اس نے اس سے پہلے نجد کے(۳۰)علماء کو مکہ معظمہ بھیجا تھا اور شریف مسعود سے درخواست کی تھی کہ علماء حرمین شریفین کا نجدی علماء سے مناظرہ کرائے لیکن شریف مسعود نے قاضی شرع کو حکم دیا کہ نجدیوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردے اور پھر حکم دیا کہ ان نجدی علماء کو قید خانے میں ڈال کر ان کے پیروں میں زنجیر ڈالدی جائے۔ چنانچہ اسی طرح کے واقعات کافی عرصہ تک ہوتے رہے۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب کی سیرت اور اس کا طریقہ کار
اس سلسلہ میں ابن بشر کہتا ہے کہ جس وقت محمد بن عبد الوہاب نے درعیہ شھر کو اپنا وطن قرار دیا اس وقت اس شھر کے بہت سے لوگ جاہل تھے اور نماز وزکوٰة کے سلسلہ میں لاپرواہی کرتے تھے، نیز اسلامی مراسم کے انجام دینے میں کوتاہی کرتے تھے، چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نے سب سے پہلے ان کو ”لا الہ الا اللّٰہ“ کے معنی سکھائے کہ اس کلمے میں نفی بھی ہے اور اثبات بھی اس کا پہلا حصہ (لاالہ) تمام معبودوں کی نفی کرتا ہے اور اس کا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کو ثابت کرتا ہے، اس کے بعد شیخ محمد بن عبد الوہاب نے ان کو ایسے اصول بتائے جن کے ذریعہ سے خدا کے وجود پر دلیل حاصل ہوجائے مثلاً چاند وسورج، ستاروںاور دن رات کے ذریعہ خدا کو سمجھا جاسکتا ہے، اور ان کو یہ بتایا کہ اسلام کے معنی خدا کے سامنے تسلیم ہونے، اور اس کی منع کردہ چیزوں سے
اجتناب کرنے کے ہیں، اسی طرح ان کو اسلام کے ارکان بتائے اور یہ بتایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام اور نسب کیا ہے، اور بعثت اورہجرت کی کیفیت بتائی اور یہ بتایا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے پہلی دعوت کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ“تھا اور اسی طرح بعث اور قیامت کے معنی لوگوں کو بتائے اور مخلوق خداچاہے جو بھی ہو، سے استغاثہ کرنے کی ممانعت میں بہت مبالغہ کیا۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اس کے بعد نجد کے رؤساء اور قاضیوں کو خط لکھا اور اس میں لکھا کہ اس کی اطاعت کریں اور اس کے مطیع وفرمانبردار بن جائیں، جس کے جواب میں بعض لوگوں نے قبول کرلیا اور بعض نے اس کی اطاعت کرنے سے انکار کردیا اور شیخ کی دعوت کا مذاق اڑایا اور اس پر الزام لگایا کہ شیخ تو جاہل ہے اور معرفت بھی نہیں رکھتا، بعض لوگوں نے اس کو جادو گر بتایا جبکہ بعض لوگوں نے اس پر بری بری تہم تیں بھی لگائیں۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اہل درعیہ کو جنگ کا حکم دیدیا جنھوں نے کئی مرتبہ اہل نجد سے جنگ کی، یہاں تک کہ ان کو شیخ کی اطاعت پر مجبور کردیا، اور آل سعود، نجد اور اس کے قبیلوں پر غالب آگیا۔
محمد بن عبد الوہاب کاغنائم جنگی کو تقسیم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خود جس طرح چاہتا تھا انجام دیتا تھا اور اس کو خرچ کرتا تھا کبھی کبھی بہت سارا مال جو غنائم جنگی میں ملتا تھا اس کو صرف دو یا تین لوگوں میں تقسیم دیتا تھا، کیونکہ جتنے بھی جنگی غنائم ہوتے تھے وہ شیخ کے پاس رہتے تھے، یہاں تک امیر نجد بھی اس کی اجازت سے ہی ان غنائم میں دخل وتصرف کرتا تھا۔
اس کے علاوہ امیر نجد اگر اپنے سپاہیوں کو مسلح کرنا چاہتا تھا اور اس سلسلہ میں کوئی بھی قدم اٹھانا چاہتا تھا وہ سب کچھ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی اجازت سے کیا کرتا تھا۔
چنانچہ اس سلسلہ میں آلوسی کہتے ہیں کہ جس طرح نجد کے لوگوں نے محمد بن عبد الوہاب کی اطاعت کی، گذشتہ علماء میں کسی کی بھی اس طرح اطاعت نہیں ہوئی، اور واقعاً یہ بات عجیب ہے کہ اس کے مرید آج تک (آلوسی کے زمانہ تک) اس کوچار اماموں(ابوحنیفہ، شافعی، مالک اور احمد ابن حنبل) کی طرح مانتے تھے، اوراگر کسی نے اس کو برا کہدیا تو اس کو قتل کردیتے تھے۔
زَینی دحلان کہتے ہیں: محمد بن عبد الوہاب کے کاموں میں سے ایک کام یہ تھا کہ جوشخص بھی اس کی پیروی کا دم بھرتا تھا اس کو ثبوت کے طور پر اپنا سر منڈوانا پڑتا تھا جب کہ یہ کام تو کسی بھی خوارج اور بدعت گذار فرقوں نے انجام نہیں دیا،سید عبد الرحمن اَہدل مفتی زَبِید کہتے ہیں کہ وہابیوں کی ردّ میں کوئی کتاب لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ ان کے لئے یہ حدیث رسول کافی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ ”سیماہم التحلیق“ ۔ اتفاق سے ایک عورت جس کو شیخ کی اطاعت پر مجبور کیا گیا تھا اس نے شیخ محمد بن عبد الوہاب سے کہا کہ تو جب عورتوں کو سرمنڈوارنے پر مجبور کرتا ہے تو پھر مردوں کو بھی اپنی داڑھی منڈوانے پر مجبور کر، کیونکہ عورتوں کے سر کے بال اور مردوں کی داڑھی دونوں زینت ہوتے ہیں، شیخ کے پاس اس عورت کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
جس وقت محمد بن عبد الوہاب نے لوگوں کو سرنہ منڈوانے پر قتل کرادیاتو اس موقع پر سید مُنعِمی نے اس کی ردّ میں چند اشعار کھے جس کا مطلع یہ ہے:
” اَفِی حَلْقِ رَاسِی بِالسَّكَاكِیْنَ وَالْحَدِّ
حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ بِالاسْانِیْدِ عَنْ جَدِّیْ؟“
(کیا چاقو سے سرمنڈوانے کے بارے میں میرے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صحیح اسناد کے ساتھ کوئی حدیث موجود ہے۔)
شیخ محمد بن عبد الوہاب کا انجام
جس وقت محمد بن عبد الوہاب کے مریدوں نے شھر ریاض کو فتح کرلیا اور ان کا ملک وسیع ہوگیا اور تقریباً سب جگہ امن وامان برقرار ہوگیا اور سبھی سراٹھانے والوں کو اپنا مطیع بنالیا، تو محمد بن عبد الوہاب نے لوگوں کے امور اور غنائم جنگی کو عبد العزیز ابن محمد ابن سعود کے سپرد کردیا اور خود عبادت اور تدریس میں مشغول ہوگیا، لیکن پھر بھی عبد العزیز اوراس کے باپ محمد نے اس کو نہیں چھوڑا بلکہ تمام کام اس کے صلاح ومشورہ سے کرتے رہے، اور یھی سلسلہ چلتا رہا، یہاںتک کہ۱۲۰۶ھ میں شیخ محمد کا انتقال ہوگیا۔
محمد بن عبد الوہاب نے بہت سی کتابیں تالیف اور تصنیف کی منجملہ اس کی کتاب توحید، تفسیر قرآن، کتاب کشف الشبھات اور بعض دیگر فقھی فتووں اور اصول کے رسالے ہیں۔
مکہ معظمہ میں مکتبہ نہضت اسلامی نے شیخ کی تمام کتابوں کو نشر کیا ہے۔
چند ملاحظات
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے حالات زندگی میں درج ذیل چند مطلب قابل غورہیں:
پہلا مطلب:یہ کہ اس نے جدید تعلیم کہاں سے اورکیسے حاصل کی؟ جبکہ اس کا باپ حنبلی علماء میں سے تھا اور اپنے بیٹے کے عقائد کی سخت مخالفت کرتا تھا، اس بناپر اس ماحول میں اس طرح کے نظریات کی جگہ ہی باقی نہیں رہتی،اس وقت نجد میں بھی علمی مرکز بہت کم تھے جن میں وہ اس طرح کے نظریات مثلاً ابن تیمیہ کے نظریات کو حاصل کرتا، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے نظریات اس کے ذہن میں کیسے آئے؟
اس سلسلہ میں یہ بات کھی جاسکتی ہے کہ چونکہ وہ بچپن ہی سے کتابیں پڑھنے کا شوقین تھا اور چونکہ اس کا باپ حنبلی عالم تھا لہٰذا اس کے پاس علی القاعدہ گذشتہ حنبلی علماء منجملہ ابن تیمیہ کی کتابیں موجود تھیں، چنانچہ محمد بن عبد الوہاب نے ان کتابوں کا دقت اور غوروفکر کے ساتھ مطالعہ کیا،اور آہستہ آہستہ اس کے ذہن میں اس طرح کے نظریات پیدا ہوئے جن کو ہم بعد میں بیان کریں گے۔
بھر حال یہ بات مسلّم ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کے نظریات ابن تیمیہ کے نظریات سے حاصل شدہ تھے، چنانچہ وہابیوں کے بڑے بڑے علماء اور دوسرے علماء نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے، منجملہ سلطان عبد العزیز بن سعود، نے ذیقعدہ۱۳۳۲ھ میں فرقہ ”اخوان“ کو ایک خط لکھاہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ محمد بن عبد الوہاب نے اسی چیز کو بیان کیا ہے جس کو ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیم جوزی نے بیان کیا تھا۔
اسی طرح حافظ وَھبہ کاکہنا ہے کہ ان دونوں (ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب) کے عقائد اور ان کی خدا کی طرف دعوت میں بہت زیادہ شباہت موجود ہے، اور مصلح نجدی یعنی محمد بن عبد الوہاب کے لئے ابن تیمیہ بہت بڑی سر مشق تھا،۲۶۳ ان کے علاوہ، دائرة المعارف کے مطابق شیخ محمد بن عبد الوہاب اور دمشق کے علماء کے درمیان تعلقات تھے اور یہ بات طبیعی ہے کہ حنبلیوں سے تعلقات رکھنے کی وجہ سے اس نے ان کی تالیفات خصوصاً ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد خاص ابن قیم جوزی سے استفادہ کیا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ برٹن کے میوزیم میں ابن تیمیہ کے بعض رسائل، محمد بن عبد الوہاب کی تحریریں موجود ہیں جن سے یہ انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ابن تیمیہ کی کتابوں کو پڑھا ہے اور ان سے نسخہ برداری کی ہے۔
دوسرا مطلب:یہ ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کی نجد میں ترقی اور پیشرفت کی کیا وجہ تھی، کیونکہ اس کے عقائد وھی تھے جو ابن تیمیہ کے تھے لیکن ابن تیمیہ کی شدید مخالفتیں ہوئیں اور اس کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ زندان میں بھی جانا پڑا، لیکن پھر بھی اپنے عقائد کو پایہ تکمیل تک نہیں پہونچا سکا خصوصاً بزرگوں کی قبور کوویران اور مسمار کرنے کے مسئلہ میں ۔
لیکن اس کے برعکس شیخ محمد بن عبد الوہاب کو نجد میں اپنے نظریات کو پھیلانے میں مشکلات کا سامنا نہیں ہوا اور کچھ ہی مدت میں اس نے اپنے بہت سے مرید پیدا کرلئے اور ان کے ذریعہ اپنے عقائد کو عملی جامہ پہنادیا،اور قبروں کو ویران کردیا، اور ان درختوں کو بھی کاٹ ڈالا جن کا لوگ احترام کرتے تھے، نیز دوسرے اسی طرح کے کام انجام دینے میں اسے کامیابی حاصل ہوئی۔
ہاں اہم بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ اور محمد بن عبد ا لوہاب کے ماحول میں بڑا فرق ہے، کیونکہ ابن تیمیہ نے اپنے عقائد کو ان شھروں میں پیش کیا جن میں مذاہب اربعہ کے بڑے بڑے علماء، درجہ اول کے قاضی اور بااثر لوگ رہتے تھے چنانچہ جیسا کہ ہم نے ابن تیمیہ کے حالات زندگی میں بیان کیا اس کو مختلف مذاہب کے علماء اور قضات کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اور ان سے بحث ومناظرات کرنے پڑے اور متعدد بار زندان میں جانا پڑا یہاں تک کہ زندان میں ہی اس کا انتقال ہوا۔
لیکن شیخ محمد بن عبد الوہاب نے نجد میں اپنے عقائد کو پھیلایا اور شاید اس زمانہ اوراس علاقہ کے عظیم علماء خود شیخ محمد بن عبد الوہاب کا باپ اور اس کا بھائی شیخ سلیمان تھے۔ اگرچہ شروع میں ان دونوں حضرات نے اس کی سخت مخالفتیں کیں، لیکن عوام الناس کے حالات کے سامنے ان کی مخالفتوں کا کوئی اثر نہ ہوا، نجدیوں نے اپنے جھل کی بناپر اس کے خرافی عقائد کااتباع کیا، کیونکہ یہ لوگ نھایت سادہ اور بھولے تھے اورمذہبی اختلافات سے ان کے ذہن خالی اور صاف تھے اور کسی بھی نئی اور جدید چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اوروہ بھی گرم اورموثر بیان اور اثر انداز طریقہ سے جو کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی خصوصیات میں سے تھا۔
ایک دوسری چیز جو اس کی ترقی کا باعث بنی وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں موجود نجد کے علماء میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو شیخ محمد بن عبد الوہاب کے برابر اثرانداز ہو۔
ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں اہل نجد کسی خاص حکومت کے زیر نظر نہیں تھے ان کی زندگی قبیلہ والی زندگی تھی، اور ہر کام میں ہر قبیلہ کے افراد اپنے قبیلہ کے امیر یا شیخ کے تابع ہوتے تھے اور اگر کسی قبیلہ کا رئیس اورامیر کسی نظریہ کو قبول کرلیتا تھا تو اس قبیلہ کے تابع افراد بھی شیخ کے اتباع میں ان نظریات کو قبول کرلیتے تھے، اسی اصل کے مطابق، جب کسی قبیلہ کا رئیس کسی بھی طرح محمد بن عبد الوہاب کے ساتھ ہوجاتا تھا تو اس قبیلہ کے دوسرے افراد بغیر کسی چون وچرا کے محمد بن عبد الوہاب کی گفتگو سے متاثر ہوجاتے تھے، اور شیخ کی باتوں کو پوری عقیدت کے ساتھ قبول کرلیتے تھے اور اگر دینی احکام سے متعلق کوئی بات ہوتی تھی تو اس کو ٹھوس عقیدہ کی طرح مان لیاکرتے تھے۔
یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کو اپنے عقائد کے بیان کے شروع میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی وجہ قبیلوں کے درمیان موجود اختلافات تھی لیکن جن اسباب کو ہم نے بیان کیا ان کی بناپر وہ سب مشکلیں دور ہوگئیں۔
محمد بن عبد الوہاب اور ابن تیمیہ کے درمیان چند فرق
محمد ابو زھرہ نے محمد بن عبد الوہاب اورابن تیمیہ میں چند فرق بیان کئے ہیں اور وہ فرق اس طرح ہیں:
وہابیوں نے ابن تیمیہ کی دعوت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کیا لیکن اس کو شدت کے ساتھ پھیلایا اور عملی طور پر وہ کام انجام دئے جن کو ابن تیمیہ بھی نہیں کرسکے تھے، وہ چیزیں ان چند امور میں خلاصہ ہوتی ہیں:
۱۔ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ تھا کہ عبادت فقط وہ ہے جس کو قرآن اور سنت نے بیان کیا ہے، لیکن وہابیوں نے اس پر اکتفاء نہیں کی بلکہ عادی اور معمولی چیزوں کو بھی اسلام سے خارج کردیا، مثلاً تمباکو نوشی کو بھی حرام قرار دیدیا اور اس کی حرمت میں بہت زیادہ سختی کی، چنانچہ وہابی حضرات جس کو بھی سگریٹ وغیرہ پیتا دیکھتے ہیں اس کو مشرکین کی طرح سمجھتے ہیں، ان کا یہ نظریہ خوارج کی طرح ہے کہ جو شخص بھی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا کافر ہوگیا۔
۲۔ شروع میں چائے اور قہوہ کی حرمت کا فتویٰ دیا لیکن جیسا کہ معلوم ہوتا ہے بعد میں اس کی حرمت میں لاپرواہی کی۔
۳۔ وہابیوں نے فقط لوگوں کو ان اعمال کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ اگر کسی نے ان کے نظریات کو نہیں قبول کیا توان سے جنگ وجدال کی، اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ بدعتوں سے جنگ کرنا چاہئے، میدان جنگ میں ان کا رہبر (شروع میں ) محمد بن سعود (خاندان سعود کا جد اعلیٰ) محمد بن عبد الوہاب کا داماد تھا۔
۴۔ وہابی جس گاوں اور شھر کو فتح کرلیتے تھے اس شھر کے روضوں اور قبروں کو ویران کرنا شروع کردیتے تھے، اسی وجہ سے بعض یورپی رائٹروں نے ان کو (عبادت گاہوںکے ویران کرنے والوں) کا لقب دیا ہے، جبکہ ان کی یہ بات مبالغہ ہے کیونکہ ضریحوں اور عبادتگاہوں میں فرق ہے، لیکن جیسا کہ معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر قبور کے نزدیک کسی مسجد کو دیکھتے تھے تواس کو بھی ویران کردیتے تھے۔
۵۔ ان کاموں پر بھی اکتفاء نہ کی بلکہ وہ قبریں جو مشخص اور معین تھیں یا ان پر کوئی نشانی ہوتی تھی ان کو بھی مسمار کردیا اور جب ان کو حجاز پر فتح ملی تو انھوں نے تمام اصحاب کی قبور کو مسمار کردیا، چنانچہ اس وقت صرف قبور کے نشانات باقی ہیں
اور ان قبور کی زیارت کی اجازت فقط اس طرح دی گئی کہ زائر فقط اتنا کہہ سکتا ہے :
”السلام علیک یا صاحب القبر
“
۶۔ وہابیوں نے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی اعتراضات کئے اور ان کے منکر ہوئے جو نہ تو بت پرستی تھیں اور نہ ہی بت پرستی پر تمام ہوتی تھیں مثلاً فوٹو وغیرہ لینا، بہت سے علماء نے اپنے فتووں اوررسالوں میں اس کی (حرمت)کو ذکر کیا ہے لیکن ان کے حاکموں نے اس مسئلہ پر توجہ نہیں کی۔
۷۔ وہابیوں نے بدعت کے معنی میں ایک عجیب انداز اپنایا، اور اس کے معنی میں وسعت دی، یہاں تک کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پردہ لگانا بھی بدعت قرار دیدیا، اور روضہ رسول پر لگے پرانے پردوں کو بدلنا بھی ممنوع قرار دیدیا جس کے نتیجہ میں وہاں موجود تمام پردے پرانے ہوگئے۔
قارئین کرام!:
”حق بات تو یہ ہے کہ وہابیوں نے ابن تیمیہ کے عقائد کو عملی بنایااور اس راستہ میں اپنی پوری طاقت صرف کردی، انھوں نے بدعت کے معنی میں وسعت دی یہاں تک کہ وہ کام جن سے عبادت کا کوئی مطلب نہیں ان کو بھی بدعت قرار دیدیا، جبکہ تحقیقی طور پر بدعت ان چیزوں کو کہا جاتا ہے کہ جن کی دین میں کوئی اصل اور بنیاد نہیں لیکن ان کاموں کو انجام دینے والے ان کو عبادت کے قصد سے انجام دیتے ہیں، اور ان کے ذریعہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس بناپر کوئی بھی روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پردوں کو عبادت کے قصد سے نہیں لگاتا، بلکہ ان کو زینت کے لئے لگاتے ہیں جس طرح مسجد نبوی میں دوسری چیزوں کو زینت کے لئے لگایا گیا ہے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ روضہ نبوی پر پردے لگانے کو منع کرتے ہیں لیکن دوسری مسجدوں میں پردے لگانے کو عیب نہیں مانتے۔ ایک دوسری بات یہ ہے کہ وہابی علماء اپنے نظریات اور عقائد کو مکمل طور پر صحیح جانتے ہیں اور دوسروں کے عقائد کو غلط اور غیر صحیح مانتے ہیں۔
____________________