چوتھا باب:
وہابیوں کے عقائد
ہاں پر ہمارا مقصد وہابیوں کے تمام عقائد کو بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ہم صرف ان عقائدوں کو بیان کریں گے جن کی وجہ سے یہ لوگ مشہور ہوئے اور جن کی بناپر دوسروں سے جدا ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے دوسرے فرقوں کے علماء نے ان کے جوابات لکھنے شروع کئے ہیں۔
۱۔ توحید کے معنی اور کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کا مفہوم
شیخ محمد بن عبد الوہاب اور اس کے پیرو کاروں نے توحید اور کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ “ کے معنی اس طرح بیان کئے ہیں جن کی روشنی میں کوئی دوسرا شخص موحّد (خدا کو ایک ماننے والا) موجود ہی نہیں ہے، چنانچہ محمد بن عبد الوہاب اس طرح کہتا ہے:
”لا الہ الا اللّٰہ “ میں ایک نفی ہے اور ایک اثبات، اس کا پہلا حصہ (لا الہ) تمام معبود کی نفی کرتا ہے
اور اس کا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کو ثابت کرتا ہے۔
اسی طرح محمد بن عبد الوہاب کا کہنا ہے کہ توحید وہ مسئلہ ہے جس پر خداوند عالم نے بہت زیادہ تاکید کی ہے،اور اس کا مقصد، عبادت کو صرف خداوندکریم سے مخصوص کرنا ہے۔ سب سے بڑی چیز جس سے خداوندعالم نے نھی کی ہے وہ شرک ہے جس کا مقصد غیر خدا کو خدا کا شریک قرار دینا ہے۔
اسی طرح وہ خداوندعالم کے صفات کی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خداوندعالم کسی بھی ایسے شخص کا محتاج نہیں ہے جو بندوں کی حاجتوں کو اس سے بتائے یا اس کی مدد کرے یا بندوں کی نسبت خدا کے لطف و مھربانی کو تحریک کرے۔
اس بناپر وہابیوں نے قبور کی زیارتوں اور غیر خداکو پکارنے کو ممنوع قرار دیا مثلاً کوئی کھے ”یا محمد“
اسی طرح غیر خدا کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دینا یا قبور کے پاس نمازیں پڑھنایا اس طرح کی دوسری چیزیں جن کو ہم بعد میں بیان کریں گے، ان سب کو شرک قرار دیدیاہے، اس سلسلہ میں وہ سنی اور شیعہ کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔
محمد بن عبد الوہاب کا نظریہ یہ تھا کہ جو لوگ عبد القادر،عروف كَرخی، زید بن الخطاب اور زُبیر کی قبروں سے متوسل ہوتے ہیں وہ مشرک ہیں
اسی طرح جواہل سنت شیخ عبد القادر کو شفیع قرار دیتے ہیں ان پر بھی بہت سے اعتراضات کئے ہیں۔
آلوسی کاکہنا ہے کہ جوشخص حضرات علی، حسین، موسیٰ کاظم، اور محمد جواد(علیهم السلام)کے روضوں پر اور اہل سنت عبدالقادر ،حسنِ بصری اور زبیر وغیرہ کی قبروں پر زیارت کرتے ہوئے اور قبور کے نزدیک نماز پڑھتے ہوئے اور ان سے حاجت طلب کرتے ہوئے دیکھے تو اس کو یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ یہ لوگ سب سے زیادہ گمراہ ہیں اور کفر وشرک کے سب سے بلند درجے پر ہیں۔
اس بات کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ شیعہ اور سنی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور وہاں پر نمازیں پڑھتے ہیں اور صاحب قبر کو وسیلہ قرار دیتے ہیں لہٰذا کافر ہیں، اسی عقیدہ کے تحت دوسرے وہابی تمام ممالک کو دار الکفر (کافر کے ممالک)کھتے ہیں اور اس ملک کے رہنے والوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے۔
۱۲۱۸ھ میں سعود بن عبد العزیز امیر نجد اہل مکہ کے لئے ایک امان نامہ لکھتا ہے جس کے آخر میں لوگوں کے خطاب کرتے ہوئے اس آیت کو لکھتا ہے:
(
قُلْ یَا اَهْلَ الْكِتَابِ، تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلاّٰ نَعْبُدَ اِلاّٰ اللّٰه وَلاٰ نُشْرِكَ بِهِ شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْااشْهِدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
)
”اے پیغمبرآپ کہہ دیں کہ اے اہل کتاب آو اور ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، آپس میں ایک دوسرے کو خدا کا درجہ نہ دیں، اوراگر اس کے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ہم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ہیں“
اسی طرح وہابی علماء میں سے شیخ حَمَد بن عتیق نے اہل مکہ کے کافر ہونے یا نہ ہونہ کے بارے میں ایک رسالہ لکھا جس میں بعض استدلال کے بناپر ان کو کافر شمار کیا،
البتہ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب وہابیوں نے مکہ شھر کو فتح نہیں کیا تھا۔
جن شھروں یاعلاقوں کے لوگوں میں جو نجدی حاکموں کے سامنے تسلیم ہوجاتے تھے ،ان سے ”قبول توحید “ کے عنوان سے بیعت لی جاتی تھی۔
کلّی طور پر وہابیوں نے اکثر مسلمانوں کے عقائد اور ان کے درمیان رائج معاملات کو دین اسلام کے مطابق نہیں جانتے تھے۔ گویا اسی طرح کے امور باعث بنے کہ بعض مستشرقین منجملہ ”نیبھر اہل ڈانمارک“نے گمان کیا کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب پیغمبر تھا۔
توحید سے متعلق وہابیوں کے نظریات کے بارے میں شیخ عبد الرحمن آل شیخ کی گفتگو کو بیان کرنامناسب ہے، موصوف کہتے ہیں کہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کے معنی خدا کی یگانیت کے ہیں یعنی انسان کو چاہئے کہ فقط اور فقط خدا کی عبادت کرے اور عبادت کو خدا کے لئے منحصر مانے اور غیر خدا سے بیزاری اختیار کرے۔
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ بھی کہتے ہیں کہ ”لا الہ الا اللّٰہ“کے معنی : خدا کے علاوہ تمام معبودوں کو ترک کرنا ہے، لہٰذا انسان کی توجہ صرف خدا پر ہونا چاہئے اور اگر کسی غیر خدا کی عبادت کی جائے تو گویا اس نے غیر خدا کو خدا کے ساتھ شریک قرار دیا،چاہے اس کام کا کرنے والا اس طرح کا کوئی ارادہ بھی نہ رکھتا ہو، تو ایسا شخص مشرک ہے خواہ وہ اپنے شرک کو شرک مانے یا اس کو توسل کانام دے۔
اس کے بعد حافظ وھبہ اپنی گفتگو کوجاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہابیوں کو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی کھے”یا رسول اللہ“،”یا ابن عباس“ ،”یا عبد القادر“وغیرہ اور ان کلمات کے کہنے سے اس کا قصدان کا فائدہ پہونچانایانقصان کو دور کرنا ہو یا اس کے مدّ نظر ایسے امور ہوں جن کو صرف خدا ہی انجام دے سکتا ہے، تو ایسا شخص مشرک ہے اور اس کا خون بھانا واجب ہے اور اس کا مال مباح ہے۔
قارئین کرام ! ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ محمد بن عبد الوہاب توحید کی طرف دعوت دیتا تھا اورجو (اس کی بتائی ہوئی توحید کو)قبول کرلیتا تھا اس کی جان اور مال محفوظ ہوجاتی تھی اور اگر کوئی اس کی بتائی ہوئی توحید کو قبول نہیں کرتا تھا اس کی جان ومال مباح ہوجاتے تھے، وہابیوں کی مختلف جنگیں، چاہے وہ حجاز کی ہوں یا حجاز کے باہر مثلاً یمن، سوریہ اور عراق کی جنگیں،اسی بنیاد پر ہوتی تھیں اور جنگ میں جس شھر پر غلبہ ہوجاتا تھا وہ پورا شھر ان کے لئے حلال ہوجاتا تھا ،ان کو اگر اپنے املاک اور تصرف شدہ چیزوں میں قرار دینا ممکن ہوتا تو ان کو اپنی ملکیت میں لے لیتے تھے ورنہ جو مال ودولت اور غنائم جنگی ان کے ھاتھ آتاا سی پر اکتفا کرلیتے تھے۔
اور جو لوگ اس کی اطاعت کو قبول کرلیتے تھے ان کے لئے ضروری تھا کہ دین خدا ورسول کو (جس طرح محمد بن عبد الوہاب کہتا تھا)قبول کرنے میں اس کی بیعت کریں، اور اگر کچھ لوگ اس کے مقابلے میں کھڑے ہوتے تھے تو ان کو قتل کردیا جاتا تھا، اور ان کا تمام مال تقسیم کرلیا جاتا تھا، اسی پروگرام کے تحت مشرقی احساء کے علاقہ میں ایک دیھات بنام ”فَصول“ کے تین سو لوگوں کوقتل کردیا گیا اوران کے مال کو غنیمت میں لے لیاگیا، اسی طرح احساء کے قریب ”غُرَیْمِیْل“ میں بھی یھیکارنامے انجام دئے۔
اس سلسلہ میں شوکانی صاحب کہتے ہیں کہ محمد بن عبد الوہاب کے پیروکار ھراس شخص کو کافر جانتے تھے جو حکومت نجد میں نہ ہو یا اس حکومت کے حکام کی اطاعت نہ کرتا ہو، اس کے بعد شوکانی صاحب کہتے ہیں کہ سید محمد بن حسین المُراجل(جو کہ یمن کے امیر حجاج ہیں) نے مجھ سے کہا کہ وہابیوں کے کچھ گروہمجھے اور یمن کے حجاج کو کافر کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تمھارا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے مگر یہ کہ امیر نجد کی خدمت میں حاضر ہو تاکہ وہ دیکھے کہ تم کس طرح کے مسلمان ہو۔
وہابیوں کی نظر میں وہ دوسرے امور جن کی وجہ سے مسلمان مشرک یا کافر ہوجاتا ہے
وہابی لوگ توحید کے معنی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا مسلمان باقی نہیں بچتا، وہ بہت سی چیزوں کو توحید کے خلاف تصور کرتے ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان دین سے خارج اورمشرک یا کافر ہوجاتا ہے،یہاں پر ان میں سے چند چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے:
۱۔ اگر کوئی شخص اپنے سے بلا دور ہونے یا اپنے فائدہ کے لئے تعویذ باندہے یا بخار کے لئے اپنے گلے میں دہاگا باندہے، تو اس طرح کے کام شرک کا سبب بنتے ہیں اور توحید کے بر خلاف ہیں۔
۲۔ محمد بن عبد الوہاب نے عمر سے ایک حدیث نقل کی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی غیر خدا کی قسم کہائے تو اس نے شرک کیا، اورایک دوسری حدیث کے مطابق خدا کی جھوٹی قسم غیر خدا کی سچّی قسم سے بھتر ہے، لیکن صاحب فتح المجید اس بات کی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کی جھوٹی قسم کہانا گناہ کبیرہ ہے، جبکہ غیر خدا کی سچی قسم شرک ہے جو گناہ کبیرہ سے زیادہ سنگین ہے۔
۳۔ اگر کسی شخص کو کوئی خیر یا شر پہونچا ہے، وہ اگر اسے زمانہ کانتیجہ جانے اور اس کو گالی وغیرہ دے تو گویا ا اس نے خدا کو گالی دی ہے کیونکہ خدا ہی تمام چیزوں کا حقیقی فاعل ہے۔
۴۔ ابو ھریرہ کی ایک حدیث کے مطابق یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اے خدا اگر تو چا ہے تو مجھے معاف کردے یا تو چاہے تو مجھ پر رحم کردے، کیونکہ خدا وندعالم اس بندے کی حاجت کو پورا کرنےکے سلسلہ میں کوئی مجبوری نہیں رکھتا۔
۵۔ کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے غلام اورکنیز کو ”عبد“ اور ”امہ“ کھے اور یہ کھے ”عبدی“ یا ”اَ مَتی“کیونکہ خداوندعالم تمام لوگوں کا پروردگار ہے اور سب اسی کے بندے ہیں اور اگر کوئی اپنے کو غلام یا کنیز کا مالک جانے، اگرچہ اس کا ارادہ خدا کے ساتھ شرکت نہ بھی ہو، لیکن یھی ظاہری اور اسمی شراکت ایک قسم کا شرک ہے، بلکہ اسے چاہئے کہ عبد اور امہ کے بدلے” فتیٰ“ اور ”فتاة“یا غلام کھے۔
۶۔ جب انسان کو کوئی مشکل پیش آجائے تو اسے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، کیونکہ ”لفظ اگر“ کے کہنے میں ایک قسم کا افسوس ہے اور ”لفظ اگر “ میں شیطان کے لئے ایک راستہ كُھل جاتا ہے اور یہ افسوس وحسرت اس صبر کے مخالف ہے جس کو خدا چاہتا ہے، جبکہ صبر کرنا واجب ہے اور قضا وقدر پر ایمان رکھنا بھی واجب ہے۔
کسی پر کفر کا فتویٰ لگانے کے بارے میں چند صفحے بعد وضاحت کی جائے گی۔
تو پھر موحّد کون ہے؟
جناب آقائے مغنیہ، محمد بن عبد الوہاب کی کتابوں اور دوسرے وہابیوں کی کتابوں سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ وہابیوں کے لحاظ سے کوئی بھی انسان نہ موحد ہے اورنہ مسلمان ! مگر یہ کہ چند چیزوں کو ترک کرے، ان میں سے چند چیزیں یہ ہیں:
۱۔ انبیاء اور اولیا ء اللہ کے ذریعہ خدا سے توسل نہ کرے اورجب ایسا کام کرے مثلاً یہ کھے کہ اے خدا تجھ سے تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے توسل کرتا ہوں مجھ پر رحمت نازل فرما، تو ایسے شخص نے مشرکوں کا راستہ اپنایاہے، اوراس کا عقیدہ مشرکوں کے عقیدہ کی طرح ہے۔
۲۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی غرض سے سفر نہ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر پر ھاتھ نہ رکھے اور آپ کی قبر کے پاس دعانہ مانگے نمازنہ پڑھے، اسی طرح آنحضرت کی قبر کے اوپر عمارت وغیرہ نہ بنائے، اور اس کے لئے کچھ نذر وغیرہ نہ کرے۔
۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب نہ کرے، اگرچہ خدا وندعالم نے آنحضرتاور دوسرے انبیاءعلیهم السلامکو شفاعت کا حق عطا کیا ہے لیکن ہمیں ا ن سے شفاعت طلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
چنانچہ ایک مسلمان کے لئے یہ کہنا جائز ہے :”یَا اَللّٰهُ، شَفِّعْ لی مُحَمَّداً
“ (اے خدامحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میرا شفیع قرار دے، لیکن یہ کہنا جائز نہیں ہے ”یَا مُحَمَّد اِشْفَعْ لی عِنْدَ اللّٰ
ہ“ (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے نزدیک ہماری شفاعت کریں۔
اور اگر کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب کرتا ہے تو ایسا شخص بالکل ان بت پرستوں کی طرح ہے جو بتوں سے شفاعت طلب کرتے تھے۔
۴۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم نہ کہائے اور آپ کو نہ پکارے،آپ کو لفظ ”سیدنا“کہہ کر نہ پکارے، اپنی زبان پر اس طرح کے کلمات جاری نہ کرے کہ ”یا محمد وسیدنا محمد“ کیونکہ آنحضرت اور دیگر مخلوق کی قسم کہانا شرک اکبر اور ہمیشہ جہنم میں رہنے کا باعث ہے۔
اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوہاب کاکہنا ہے کہ غیر خدا کے لئے نذر کرنا اورغیر خدا سے پناہ مانگنا یااستغاثہ کرنا شرک ہے۔
۲۔ صرف شھادتین کا اقرار کرنا مسلمان بننے کا سبب نہیں
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (محمد بن عبد الوہاب کا پوتا) اس طرح کہتا ہے کہ” عُبّاد قبور“(اس سے مراد قبور کی زیارت کرنے والے ہیں) در حالیکہ کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کو زبان پر جاری کرتے ہیں نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں لیکن چونکہ محبت اور عبادت میں دوسروں کو خدا کا شریک قرار دیتے ہیں،لہٰذا یہ لوگ کوئی بھی عمل انجام دیں اور کوئی بھی گفتگو کریں باطل ہے اور چونکہ یہ مشرک ہیںلہٰذا ان کا کوئی بھی کام قبول اور صحیح نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ کہتے ہیں :وہابیوں کے علاوہ دوسرے فرقے معتقد ہیں کہ جس شخص نے بھی کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ “کا اقرار کرلیا اس کی جان ومال محفوظ اور محترم ہے، لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ عمل کے بغیراس اقرار کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس کا کوئی اعتبار ہے، لہٰذا اگر کوئی شھادتین کا اقرار کرے لیکن مردوں کو پکارے یا ان سے استغاثہ کرے یا ان سے حاجت طلب کرے یا ان سے یہ تقاضا کرے کہ ان سے مشکلات کو برطرف کرے توایسا شخص کافر اور مشرک ہے اور اس کی جان ومال حلال اورمباح ہے۔
اس سلسلہ میں آلوسی بھی اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کلمہ لا الہ الا اللّٰہ کی شھادت دے لیکن غیر خدا کی عبادت کرے (یعنی زیارت قبور کرے) اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا ہو اور اسلام کے دوسرے اعمال بجالاتا ہو، لیکن ایسے شخص کی شھادت قبول نہیں ہے۔
اس کے بعد آلوسی کابیان ہے : کفر کی دو قسمیں ہیں اول کفر مطلق، یعنی ان تمام چیزوں کا انکار کرنا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے ہیں، دوسرے کفر مقید یعنی ان میں سے بعض چیزوں کا انکار کرنا۔ وہ کفر مقیّد کے اثبات کے لئے اصحاب کے عمل کو دلیل کے عنوان سے پیش کرتا ہے، کہ جو لوگ زکوٰة ادا نہیں کرتے تھے جبکہ کلمہ شھادتین کا اقرار کرتے تھے اورنماز و روزہ اور حج بجالاتے تھے پھر بھی اصحاب ان کو کافر سمجھتے تھے۔
آلو سی اپنی باتوں سے اس طرح نتیجہ نکالتے ہیں کہ قبور کی عبادت کرنے والوں(یعنی زائرین قبور) کو صرف اس وجہ سے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اور بعث وقیامت پر ایمان رکھتے ہیں، مسلمان نہیں کہا جاسکتابلکہ وہ مشرک ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ یہ باتیں محمد بن عبد الوہاب کی کتابوں سے اخذ شدہ ہیں اور محمد بن عبد الوہاب کی کتابوں اور رسالوں میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔
اس سلسلہ میں وضاحت
غیر وہابیوں کا اس بات پر عقیدہ ہے کہ جو شخص زبان پر شھادتین جاری کرے اور نماز روزہ بجالائے زکوٰة ادا کرے اور دین اسلام کے ضروریات کا معتقد ہو تو اس کا شمار مسلمانوں کی فھرست میں ہوگا، اور اس کی جان ومال محفوظ ہے، اور ان کا یہ عقیدہ سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عین مطابق اور اسلام کے مسلمات میں سے ہے،اس سلسلہ میں صحیح بخاری، مسند احمد ابن حنبل اوردوسری معتبر کتابوں میں متعدد احادیث بیان ہوئی ہیں، گذشتہ زمانہ سے آج تک تمام مسلمانوں کے فرقوں کی سیرت بھی یھی رہی ہے، اور مختلف مذاہب کے علمائے اسلام کا اس سلسلہ میں اتفاق اور اجماع ہے:
احمد ابن حنبل عمر اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
”اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتلَ النَّاْسَ حَتّٰی یَقُوْلُوا : لاٰ اِٰلهَ اِلاّٰ اللّٰه فَمَنْ قاَلَ لاٰ اِلٰهَ اِلاّٰ اللّٰه فَقَدْ عَصُُمَ مِنِّی مَالُهُ وَنَفْسُهُ اِلاّٰ بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلٰی اللّٰهِ تَعَالیٰ
“
”خدا وندعالم نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ کلمہ” لا الہ الا اللّٰہ“ زبان پر جاری کریں اور جس شخص نے بھی کلمہ لا الہ الا اللّٰہکا اقرار کرلیا اس کی جان ومال محفوظ ہے مگر یہ کہ کوئی دوسرا حق درمیان میں ہو، اور اس کا حساب خدا کے ھاتھ میں ہے۔
شیخ محمود شَلتُوت (جامع الازھر کے سابق سربراہ) کہتے ہیں کہ خدائے وحدہ لاشریک اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا اقرار (اَشْهَدُ اَنْ لاٰ اِلَهَ اِلاّٰ اللّٰهَ وَاَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰهِ
) انسان کے لئے ایک کلید ہے وہ جس سے اسلام میں داخل ہوسکتا ہے اور اس پر اسلامی احکام جاری ہونگے۔
کسی کے بارے میں کفر کا فتویٰ لگانا
وہابیوں اور ابن تیمیہ کے عقائد کی بحث میں یہ بات بیان ہوچکی کہ یہ لوگ اپنے علاوہ سبھی دوسرے مسلمانوں کو کافر اورمشرک کہتے ہیں، اور دوسروں پر بہت جلد کفر کا فتویٰ لگا دیتے ہیں، جبکہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب اور مختلف فرقوں کے بڑے بڑے علماء کا طریقہ یہ نہیں تھا، جن چیزوں کو یہ لوگ کفر وشرک کا باعث سمجھتے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب اور دینی رہبروں کی نظر میں وہ امور موجب کفر وشرک نہیں تھے۔
اگر مسلمان ہونے کے لئے شھادتین کا اقرار کرنا کافی نہ ہواورتوحید کا مفہوم ابن تیمیہ اور اس کے ہمنواوں نے ہی صحیح سمجھا ہے، تو پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے زمانہ جاہلیت کے اکثرعرب تھے جن میں سے بعض لوگ مولفة القلوب تھے، ان کے اسلام کو کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے، جبکہ صحاح ستہ اور اہل سنت کی دوسری معتبر کتابوں اور دوسرے فرقوں کی کتابوں کے لحاظ سے وہ لوگ جو صرف زبان سے شھادتین کا اقرار کرتے تھے، ان کومسلمان تصور کیا جاتا تھا، جبکہ صدر اسلام میں اکثر لوگ یہاں تک کہ خود اصحاب کرام اسلام کے صحیح معنی سے آگاہ نہیں تھے اور صرف زبان سے کلمہ شھادتین کہنے پر ان کی جان ومال محفوظ ہوجاتا تھا اور ان کو مسلمان حساب کیا جاتا تھا، لیکن وہابیوں کا کہنا یہ ہے کہ جو شخص کلمہ شھادتین کا اقرار کرے اور نماز پڑھے، روزہ رکھے، حج بجالائے اور اسلام کی دوسری ضروریات کو قبول کرتے ہوئے ان پربھی عمل کرے لیکن اگردینی بزرگوں کی قبور کی زیارت کے لئے جائے تو ایسا شخص مشرک ہے کیونکہ اس نے غیر خدا کو خدا کی عبادت میں شریک قرار دیا ہے، جبکہ اگر کسی بھی زائر سے چاہے وہ شیعہ ہو یا سنی ،یہ سوال کریں کہ تم کس لئے زیارت کے لئے جاتے ہو؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا : وہ خدا کا خاص بندہ ہے اور اس نے خدا کے وظائف دوسروں سے بھتر انجام دئے ہیں اور ہم خدا کی خوشنوی کے لئے اس کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے دعا کرتے ہیں اور اس کی تعظیم کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ کسی ایسے شخص کے بارے میں کفر و شرک کا فتویٰ لگانا حقیقت اسلام کے مخالف اور سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نیز سلف صالح اور دینی رہبروں کی سیرت کے خلاف ہے۔
اس موقع پر مناسب ہے کہ کسی کے بارے میں کفر و شرک کے فتوے لگانے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اصحاب اوردینی رہبروں کی سیرت کی روشنی میں کتاب”الاسلام بین السنة والشیعہ“ سے کچھ چیزیں بیان کردی جائیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ کسی موحد اور مسلمان کے کفر کا فتویٰ اتنی آسانی سے نہیں لگایا جاسکتا، اور کروڑوں مسلمانوں کو ایسی چیزوں کی وجہ سے جو کبھی بھی توحید اور عبادت خدا کے منافی نہیں ہیں، بڑی آسانی سے کافر نہیں کہا جا سکتا ۔
کسی پر کفر کا حکم لگانا خدا کا کام ہے
اسلام قول اور فعل کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے اور انھیں اقوال اور افعال کی وجہ سے میراث کا مسئلہ بھی جاری ہوتا ہے، اور لوگوں کا نماز پڑھنا زکوٰة دینا حج بجالانا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے ذریعہ انسان کفر سے نکل کر ایمان کی منزل میں آجاتا ہے۔
ہاں پر چند دینی رہبروں کے اقوال آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
”میں کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں جانتا“
”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگوں میں بہت سے مسائل میں اختلاف پیدا ہوگیا اور مختلف فرقے پیدا ہوگئے، اسلام ان سب کو ایک جگہ جمع کردیتا ہے اور سب پر مسلمان کا اطلاقہوتا ہے“
”میں کسی اہل قبلہ کے کفر کا فتویٰ نہیں دیتا“
”میں کسی بھی عنوان شھادتین کہنے والوں کو کافر نہیں کہتا“
”اگر میرے بدن کا گوشت درندے کہالےں، میں اس کو اس چیز سے بھتر سمجھتا ہوں کہ خدا سے اس حال میں ملاقات کروں کہ کسی ایسے شخص سے دشمنی رکھوں جو خدائے وحدہ لاشریک اور نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتقاد رکھتا ہو“
”میں کسی بھی اسلامی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو کافر نہیں کہہ سکتا“
”کسی بھی موحد انسان سے دشمنی جائز نہیں ہے اگرچہ اس کو ہوا وہوس نے حق سے منحرف ہی کیوں نہ کر دیا ہو“
آخر کلام میں ہم حضرت امام صادق ںکے کلام کو پیش کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے اور ہر مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی آنکھ، آئینہ ،اور راہنما ہے جس سے وہ خیانت نہیں کرتا اور نہ ہی اس کو دہوکہ دیتا، اور نہ ہی اس کی غیبت کے لئے اپنا منھ کھولتا ہے۔
اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور آنحضرت کا فرمان کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ خدا کے علاوہ کسی کو خدا نہ جانے تو ایسا شخص بہشت میں داخل ہوگا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مُعاذ بن جَبَل کو یمن میں تبلیغ کے لئے بھیجا تاکہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائےں تو آپ نے ان سے تاکید کی کہ خدا پر ایمان کی حقیقت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے اعتراف پر اکتفاء کرنا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے کہا: تم اس قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، ان کو یہ بتانا کہ تم پر خداوندعالم نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں واجب کی ہیں اور اگر وہ لوگ قبول کرتے ہیں تو پھر ان کے مالداروں سے کہنا کہ تم پر زکوٰة واجب ہے تاکہ وہ فقیروں میں تقسیم کی جائے۔
جو شخص اپنے دل میں اس بات کا معتقد ہو کہ جنت ودوزخ خدا کے حکم اور اس کے فرمان کے تحت ہے اور کسی پر کفر اور ایمان کا حکم لگانا اور انسان کے دل کی گھرائیوں کا حال جانناخدا سے مخصوصھے، ایسے شخص نے چاہے وہ کتنا بڑا ہو،عالم ہو یامعجز نما ہو اس نے ان اعتقادات کے باوجود خدا کے سامنے بزرگی وبڑائی کی جرات کی ہے ۔
اسی طرح جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنا کہ ان کے ربیب اُسامہ بن زید نے میدان جنگ میں اس شخص کو قتل کردیا جس نے زبان پرکلمہ توحید جاری کیا تھا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت ناراض ہوئے اور جب اُسامہ بن زید نے یہ عذر پیش کیا کہ اس نے جان کے خوف سے یہ کلمہ زبان پر جاری کیا تھا (یعنی صرف اپنی جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا) تو آپ نے اُسامہ کے عذر کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس کا یہ شھادتین کا اقرار اعتقاد سے تھا یا خوف سے؟ اور یہ بات معلوم ہے کہ ایمان کی جگہ انسان کا دل ہوتا ہے اور دل کے اسرار سے صرف خدا ہی واقف ہوتا ہے کوئی دوسرا ان سے واقف نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح جب عمر نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عبد اللہ ابن اُبیّ (جو منافقوں کا سردار تھا) کے قتل کی اجازت مانگی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یہ کام کروگے تو لوگ یہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ہی اصحاب کو قتل کررہے ہیں، گویا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی اس بات سے عمر اور دوسرے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ اسلام فقط ظاہر پر حکم کرتا ہے چاہے شک اور تردید کے ساتھ ہو۔
شیخ سلیمان جو محمد بن عبد الوہاب کے بھائی تھے اور محمد بن عبد الوہاب کے سخت مخالفین میں شمار ہوتے تھے، انھوں نے اپنے بھائی محمد بن عبد الوہاب جو تمام مسلمانوں کو کافر و مرتد کہتا تھا کی ردّ میں ایک کتاب ”الصواعق الالٰھیہ“لکھی جس میں
حدیثیں ایسی لکھی ہیں جس میں ہر اس شخص کو مسلمان کہا گیا ہے جس نے زبان پرکلمہ لا الہ اللہ کو جاری کیا اور بہت سی ایسی حدیثیں لکھیں جس میں ہر اس شخص کو کافر کہا گیا ہے جو کسی مسلمان کو کافر کھے۔
۳۔ خداوند عالم کے لئے جھت کا ثابت کرنا
وہابی، ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ہوئے کیونکہ وہ قرآن اور احادیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہیں اور تاویل و تفسیر کے قائل نہیں ہیں بعض آیات اور احادیث کے ظاہر سے تمسک کرتے ہوئے خداوندعالم کے لئے جھت کو ثابت کرتے ہیں اور اس کو اعضاء وجوارح والا مانتے ہیں۔
اس سلسلہ میں آلوسی کاکہنا ہے : وہابی ان احادیث کی تصدیق کرتے ہیںجن میں خداوند عالم کے آسمانِ دنیا (آسمان اول) پر نازل ہونے کا تذکرہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم عرش سے آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور یہ کہتا ہے:هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ
؟کیا کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اس کے استغفار کو قبول کروں۔
اسی طرح وہ یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ خداوندعالم روز قیامت عالم محشر میں آئے گا کیونکہ خود اس نے فرمایا ہے:
(
وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفّاً صَفّاً
)
”اور تمھارا پرور دگار اور فرشتے صف در صف آجائیں گے“۔
خدا اپنی مخلوق سے جس طرح بھی چاہے قریب ہوسکتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
(
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ
)
”اور ہم اس کی رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔ “
آلوسی ایک دوسری جگہ کہتے ہیں کہ اگرچہ وہابی خداوندعالم کے لئے جھت کوثابت کرتے ہیں لیکن مُجسِمّہ نہیں ہیں
(یعنی خدا کو جسم والانھیں مانتے) اور کہتے ہیں کہ روز قیامت مومنین بغیر کسی کیفیت اور احاطہ کے خداوندعالم کا دیدار کریں گے ۔
اسی طرح وہابی لوگ بعض آیات کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے خداوند عالم کے لئے اعضاء وجوارح ثابت کرتے ہیں مثلاً اس آیہ شریفہ
(
بَلْ یَدَاهُ مَبْسُوْطَتَاْنِ
)
(خدا کے دونوں ھاتھ تو کھلے ہیں)سے خداوندعالم کے لئے دو ھاتھ ثابت کرتے ہیں اور اسی طرح اس آیہ شریفہ(
وَاْصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا
)
کے ظاہر سے خدا کے لئے دو آنکھیں اور اس آیہ کریمہ(
فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ
)
کے ذریعہ خدا کے لئے چھرہ اور صورت ثابت کرتے ہیں۔
اور خدا کے لئے انگلیوں کو ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس ایک روایت ہے جس کو محمد بن عبد الوہاب نے کتاب توحید کے آخر میں بیان کیا ہے:
”اِنَّ اللّٰهَ جَعَلَ السَّمَوٰاتِ عَلٰی اِصْبَعٍ مِنْ اَصَابِعِه وَالاَرْضَ عَلٰی اِصْبَعٍ وَالشَّجَرَ عَلٰی اِصْبِعٍ اِلٰی آخِرِه
“
خداوندعالم نے آسمانوں کو اپنی ایک انگلی پر اور زمین کو ایک انگلی پر اسی طرح درختوں کو ایک انگلی پر اٹھا رکھا ہے۔
خداوند عالم کی صفات کے بارے میں
صاحب فتح المجید کہتے ہیں: تمام اہل سنت والجماعت چاہے متقدمین ہوں یا متاخرین، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کے وہ صفات جن کو خود خدانے قرآن مجید میں بیان کیا ہے یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کو ان صفات سے متصف کیا ہے،وہ خداوندعالم کے لئے ثابت اور مسلّم ہیں لیکن خداوندعالم کو ان صفات میں کسی مخلوق کے مانند قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کیونکہ خداوندعالم اپنے صفات میں مانند اورشبیہ رکھنے سے پاک ومنزہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
(
لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَئْيٌ وَهو السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
)
”اس کا جیسا کوئی نہیں وہ سب کی سننے والا اور ہر چیز کا دیکھنے والا ہے“۔
جس طرح خداوندعالم ایک حقیقی ذات ہے جس کی کوئی شبیہ نھیں، اسی طرح خداوندعالم کے حقیقی صفات بھی ہیں جن سے مخلوق کی کوئی صفت شباہت نہیں رکھتی، اگر کوئی شخص ان چیزوں کا منکر ہوجائے جن کو خداوندعالم نے خود سے متصف کیا ہے یا اس کے ظاہری معنی کی تاویل اور تفسیر کرے (مثلاً یہ کھے کہ اس آیت میں(
یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهم
)
میں ھاتھ سے مراد خدا کی قدرت ہے) ایسے شخص کا مذہب جہمی
ہے، اور اس کا راستہ مومنین کے راستہ سے الگ ہے۔
۴۔ گذشتہ انبیاء کے بارے میں
شیخ محمد بن عبد الوہاب اپنی کتابوں اور رسالوں میں نبوت کی گفتگو کرتے ہوئے جناب نوح کو پہلا نبی کہتا ہے:
”اَوَّلُهم (اَوَّلُ الاَنْبِیَاءْ) نُوْحٌ وَآخِرُهم مُحَمَّد صلی الله علیه و آله وسلم “
”انبیاء میں سب سے پہلے جناب نوحںاور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں“
اور اس سلسلہ میں قرآن مجید کی آیت کو دلیل کے طورپر بیان کیا ہے مثلاً یہ آیہ کریمہ:
(
اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْكَ كَمَا اَوْحَیْنَا اِلٰی نُوْحٍ وَالنَّبِیِّیّْنَ مِنْ َبعْدِه
)
”ہم نے آپ پر وحی نازل کی جس طرح نوح اور ان کے بعد کے انبیاء کی طرف وحی کی تھی“۔
۵۔ شفاعت اور استغاثہ
شیخ محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے:خداوندعالم نے جن عبادتوں کا حکم کیا ہے وہ یہ ہیں: اسلام، ایمان، احسان، دعا، خوف ورجا، توکل، رغبت، زہد،استقامت، استغاثہ، قربانی اور نذر، یہ تمام چیزیں صرف خدا وندعالم کے لئے ہیں۔
شفاعت کے بارے میں حافظ وھبہ کہتے ہیں کہ وہابی روز قیامت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت کے منکر نہیں ہیں اور جیسا کہ بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے ،وہ شفاعت کو دوسرے انبیاء،
فرشتوں، اولیاء اللہ اور(معصوم) بچوںکے لئے بھی مانتے ہیں، لیکن شفاعت کو اس طرح طلب کیا جائے کہ بندہ خدا سے درخواست کرے کہ پیغمبر کو اس کا شفیع قرار دے مثلا ًیوںکھے:
”اَللّٰهم شَفِّعْ نَبِیِّنَا مُحَمَّداً فِیْنَا یَوْمَ الْقِیَامَة، اَللّٰهم شَفِّعْ فِیْنَا عِبَادَكَ الصَّاْلِحِیْنَ“
”خداوندا ! ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو روز قیامت ہمارا شفیع قرار دے، خداوندا ! اپنے صالح بندوں کو ہمارا شفیع قرار دے“۔
لیکن ”یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، یَا وَلِیّ اللّٰهِ اَسْالُكَ الشَّفَاعَةَ
“ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ مثلاً ”یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اَدْرِكْنِی، یَا اَغِثْنِی
“زبان پر جاری کرنا خدا کے ساتھ شرک ہے۔
ابن قیم کہتا ہے کہ شرک کے اقسام میں سے ایک قسم مُردوں سے استغاثہ کرنا یا ان کی طرف توجہ کرنا بھی ہے، مُردے کسی کام پر قادر نہیں ہیں، وہ خود تو اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک ہیں نھیں، پھرکس طرح استغاثہ کرنے والوں کی فریاد کو پہونچ سکتے ہیں، یا خدا کی بارگاہ میں شفاعت کرسکتے ہیں؟۔
شیخ صُنعُ اللہ حنفی کہتا ہے کہ آج کل مسلمانوں کے درمیان ایسے گروہ پیدا ہوگئے ہیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیاء اللہ کی کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زندگی یا موت کے بعد بھی بعض تصرفات کرسکتے ہیں مثلاً جو لوگ مشکلات اور پریشانیوں کے وقت ان سے استغاثہ کرتے ہیں وہ ان کی مشکلات کو دور کردیتے ہیں، یہ لوگ قبور کی زیارتوں کے لئے جاتے ہیں، اور وہاںطلب حاجت کرتے ہیں، اور ثواب کی غرض سے وہاں پر قربانی و نذر وغیرہ کرتے ہیں۔
شیخ صنع اللہ یہاں پر اس طرح اپنا عقیدہ بیان کرتا ہے کہ ان باتوں میں افراط وتفریط بلکہ ہمیشگی عذاب ہے اور ان سے شرک کی بو آتی ہے۔
ابن سعود ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ میں مکہ معظمہ میں کی جانے والی اپنی تقریر میں کھتا ہے کہ ”عظمت اور کبریائی خداوندعالم سے مخصوص ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں، اور یہ باتیں ان لوگوں کی ردّ میں ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارتے ہیں اور ان سے حاجت طلب کرتے ہیں۔
جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کچھ بھی اختیار اور قدرت نہیں ہے اور توحید خداوندعالم سے مخصوص ہے، اور اسی کی عبادت ہونا چاہئے اور امید اور خوف اور تمنا خدا وندعالم سے ہونی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت اسی طرح دیگر انبیاءعلیهم السلامکی نبوت، صرف لوگوں کو توحید کا سبق پڑھانے کے لئے تھی۔
شیخ صنع اللہ کہتے ہیں کہ ظاہری اور معمولی کاموں میں استغاثہ جائز ہے،مثلاً جنگ، یا دشمن اور درندہ کے سامنے کسی سے مدد طلب کی جاسکتی ہے، لیکن معنوی امور میں کسی سے استغاثہ کرنا مثلاً انسان پر یشانیوں کے عالم میں ، بیماری کے، یا غرق ہونے کے خوف سے یا روزی طلب کرنے میں کسی دوسرے سے استغاثہ نہیں کرسکتا بلکہ ان چیزوں میں صرف خدا سے استغاثہ کرنا چاہئے اور کسی غیرخدا سے استغاثہ جائز نہیں ہے۔
زینی دحلان محمد بن عبد الوہاب کا قول نقل کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دوسرے انبیاءعلیهم السلامسے استغاثہ کرے یا ان میں سے کسی ایک کو پکارے، یا ان سے شفاعت طلب کرے تو ایسا شخص مشرکوں کی طرح ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی قبروںکی زیارت بھی خدا کے ساتھ شرک ہے، اور زیارت کرنے والے مشرکوں کی طرح ہیں جو بتوں کے بارے میں کہتے تھے:
(
مَانَعْبُدُهم اِلاّٰ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰهِ زُلْفٰی
)
”ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے“۔
محمد بن عبد الوہاب اس بارے میں مزید کہتے ہیں کہ جو لوگ اہل قبور سے شفاعت طلب کرتے ہیں ان کا شرک زمان جاہلیت کے بت پرستوں کے شرک سے بھی زیادہ ہے۔
استغاثہ کے بارے میں وضاحت
سید احمد زینی دحلان (مکہ معظمہ کے مفتی) گذشتہ مطلب کے بعد اس طرح کہتے ہیں:ان عقائد کی ردّ میں لکھی گئی کتابوں میں مذکورہ استدلال کو باطل اور غیر صحیح قرار دیاگیا، کیونکہ جو مومنین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوردیگر اولیاء اللہ سے استغاثہ کرتے ہیں وہ نہ ان کو خدا سمجھتے ہیں اورنہ ہی خدا کا شریک، بلکہ ان کا تو اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ یہ سب خدا کی مخلوق ہیں اور ان کو کسی بھی صورت میں مستحق عبادت نہیں مانتے، برخلاف مشرکین کے جن کے بارے میں مذکورہ اور دیگر آیات نازل ہوئیں ہیں کہ وہ خود بتوں کو مستحق عبادت سمجھتے تھے، اور ان بتوں کے لئے ایسی عظمت کے قائل تھے جس طرح خدا کی عظمت کے قائل ہوتے ہیں، لیکن مومنین کرام انبیاءعلیهم السلامکو مستحق عبادت نہیں جانتے اور ان کے لئے خدا سے مخصوص عظمت کے بھی قائل نہیں ہیں، بلکہ ان کا عقیدہ تو صرف یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام خدا کے ولی اور اس کے منتخب بندے ہیں، اور خود خداوندعالم ان کے وجود سے اپنے دیگر بندوں پر رحم کرتا ہے، لہٰذا ابنیاءعلیهم السلام اور اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت صرف ان حضرات سے تبرک حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارنے اور آنحضرت سے استغاثہ کرنے کے بارے میں مرحوم علامہ الحاج سید محسن امین صاحب کتاب ”خلاصة الکلام“ سے نقل کرتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے دوران اصحاب رسول کا نعرہ ”وامحمداہ، وامحمداہ“ تھا اور جس وقت عبد اللہ ابن عمر کے پیر میں درد ہوا تو اس سے کہا گیا کہ جس کو تم سب سے زیادہ چاہتے ہو اس کو یاد کرو، تو اس نے ”وامحمداہ“ کہا اور اس کے پیر کا درد ختم ہوگیا، اسی طرح دوسرے واقعات ہیں جن میں آنحضرت سے استغاثہ کو بیان کیا گیا ہے،
شفاعت کے سلسلہ میں انس بن مالک اس طرح روایت کرتے ہیں:
”لِكُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِها فَاسْتُجِیْبَ، فَجَعَلْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
”ھر نبی کے لئے خداوندعالم نے کچھ مستجاب دعائیں معین کی تھیں اور ان کی وہ دعائیں قبول ہوگئیں لیکن میں نے اپنی دعا کو روز قیامت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے باقی رکھا ہے“
اسی طرح ابوھریرہ سے ایک دوسری روایت ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
”لِكُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ یَدْعُوْ بِها وَاُرِیْدُ اَنْ اَخْتَبِیَ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی فِیْ الآخِرَةِ
“
”ھر پیغمبر نے خداوندعالم سے کچھ نہ کچھ دعائیں کی ہیں اور میں نے اپنی دعا کو روز قیامت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے باقی رکھا ہے“۔
شیخ عبد الرحمن آل شیخ کی تحریر کے مطابق قیامت کے دن مخلوق خدا، انبیاءعلیهم السلام کے پاس جمع ہوکر عرض کریں گی کہ آپ خدا کے نزدیک ہماری شفاعت کریں، تاکہ روز محشر کی مشکلات سے نجات حاصل ہوجائے۔
۷۔ غیر خدا کو ”سید“ یا ”مولا “ کہہ کر خطاب کرنا شرک ہے
مرحوم علامہ امین ، ہدیة السنیہ رسالہ سے نقل کرتے ہیں کہ صاحب رسالہ نے زیارت قبور کی حرمت بیان کرنے کے بعد اس طرح کہا ہے کہ قبروں میں دفن شدہ لوگوں کو پکارنا اور ان سے استغاثہ کرنا یا ”یَا سَیّدی وَمَولای اِفْعَل كَذَا وَکذَا
“ (اے میرے سید ومولا میری فلاں حاجت روا کریں) جیسےالفاظ سے پکارنا، اور اس طرح کی چیزوں کو زبان پر جاری کرنا گویا ”لات وعزّیٰ“ کی پرستش ہے۔
اس سلسلہ میں محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے کہ مشرکین کا لفظ ”الہ“ سے وھی مطلب ہوتا تھا جو ہمارے زمانہ کے مشرکین لفظ ”سید “ سے مرادلیتے ہیں۔
خلاصة الکلام میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کے گمان کے مطابق اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ”مولانا“ یا ”سیدنا“ کھے تو ان الفاظ کا کہنے والا کافر ہے۔
مذکورہ مطلب کی وضاحت
مرحوم علامہ امین مذکورہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی غیر خدا کو ”سید“ کہہ کر خطاب کرنا صحیح ہے اور اس میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی گفتگو میں کوئی شخص بھی اس شخص کے لئے مالکیت حقیقی کا ارادہ نہیں کرتا، اس کے علاوہ قرآن مجید میں چند مقامات پر غیر خدا کے لئے لفظ سید استعمال ہوا ہے، مثلاً جناب یحییٰ ابن زکریاں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(
وَسَیّداً وَحَصُوْرا
)
(سردار اور پاکیزہ کرداروالے جناب یحییٰ تھے) اسی طرح دوسری آیت میں(
وَاَلْفِیَا سَیِّدَها لَدیَ الْبَابِ
)
(اور ان دونوں نے اس کے سردار کو دروازے پر ہی دیکھ لیا)
احادیث رسول(ص) میں بھی غیر خدا کے لئے لفظ ”سید“بھت زیادہ استعمال ہوا،یہاں تک کہ تواتر کی حدتک بیان ہوا ہے۔
ان احادیث کے چند نمونے یہاںذکر کئے جاتے ہیں:
اس روایت کو بخاری نے جناب جابر سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”مَنْ سَیّدُكُمْ یَا بَنِی سَلْمَة؟“
اے بنی سلمہ تمھارا سید وسردار کون ہے؟
اسی طرح ابوھریرہ سے ایک روایت میں وارد ہوا ہے:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَم یَومَ القِیَامَةِ“
میں تمام اولاد آدم کا سید وسردار ہوں۔
اسی طرح ایک دوسری روایت میں حضرت نے فرمایا:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِیّ سَیِّدُ الْعَرَبْ“
میں تمام اولاد آدم کا سید وسردار ہوں اور علی ںتمام عرب کے سید وسردار ہیں۔
ابو سعید خدری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ہے جس میں آپ نے فرمایا:
”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ“
حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ اور اسی طرح دوسری روایتیں۔
اس کے بعد علامہ امین صاحب فرماتے ہیں کہ وہ روایات جن سے اس چیز کا وہم وگمان ہوتا ہے کہ لفظ سید کو کسی غیر خدا پر اطلاق کرنا صحیح نہیں ہے ان روایات کا مقصد ”سید حقیقی“ ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے۔
اس بات پر توجہ رکھنا ضروری ہے کہ اس حدیث”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ“
کو ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے اور اس حدیث کے ذےل میں یہ بھی کہا کہ صحیح احادیث پیغمبر اکرممیں وارد ہوا ہے کہ آپ نے امام حسن ں کے بارے میں فرمایا: ”اِنَّ ابْنِی هَذَا سَیِّدٌ
“
(بے شک یہ میرا بیٹا سید و سردار ہے) اسی طرح شرح مناوی بر جامع صغیر سیوطی میں چند روایتیں نقل ہوئیں ہیں جن میں غیر خدا پر سید کا لفظ استعمال ہوا ہے، منجملہ یہ جملہ:
”سَیِّدُ الشُّهْدَاءِ عِنْدَ اللّٰهِ یَوْمَ القِیَامَةِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ“
”جناب حمزہ بن عبد المطلب قیامت کے دن خدا کے نزدیک سید الشہداء ہیں“
اسی طرح یہ حدیث بھی بیان ہوئی ہے:
”سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهم، وَسَیِّدُ النَّاسِ آدَمُ وَسَیِّدُ الْعَرَبِ مُحَمَّدٌ وَسَیِّدُ الرُّوْمِصُهَیْبٌ وَسَیِّدُ الْفُرْسِ سَلْمَانٌ وَسَیِّدُ الْحَبَشَةِ بَلاٰلٌ، وَسَیِّدُ الْجِبَالِ طُوْرِ سِیْنَا وَسَیِّدَاتُ نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ اَرْبَع مَرْیَمْ وَفاَطِمَةُ وَخَدِیْجَةُ وَآسِیّة
“
(کسی قوم کا سردار اس کا خادم ہے، انسانوں کے سردار جناب آدم ںعربوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل روم کے سردار صھیب، اہل فارس کے سردار جناب سلمان، افریقہ کے سردار جناب بلال، اور پھاڑوں کا سردار طور سینا، اور جنت میں عورتوں کی سردار چارہیں جناب مریم، جناب فاطمہ زہرا، جناب خدیجہ اور جناب آسیہ ہیں۔)
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ سعودی بادشاہوں کے لئے متعدد بار لفظ” مولای “ نثر ونظم دونوں میں استعمال ہوا ہے منجملہ ”ام القریٰ“ نامی اخبار مطبوعہ مکہ
میں عبد العزیز کو کئی بار”مولای“ کہا گیا ہے اس قصیدہ کے ضمن میں جو عید قربان کے موقع پر تبریک وتہنیت پیش کرنے کے لئے کہا گیا جس میں دو مقام پر ”اَمولای“ (اے میرے مولا) کہا گیا ہے، اور وہاں کے اخباروں اور مجلوں میں یہ بات عام ہے۔
لیکن انبیاءعلیهم السلام، اولیاء اور صالحین کو اس طرح خطاب کرنا در حقیقت ان سے حاجت طلب کرنا نہیں ہے بلکہ ان سے یہ چاہتے ہیں کہ ان کی درخواست کو وہ حضرات خدا وندکریم سے طلب کریں، مثلاً جس وقت ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ میری مدد کریں یعنی آپ خدا سے یہ چاہیں کہ وہ میری مدد کرے، اس طرح کی تفسیروں کو خود وہابی تسلیم کرتے ہیں، مثلاً ان آیات کے بارے میں جن میں خداوندعالم نے بہت سی مخلوقات کی قسم کہائی ہے کہتے ہیں ان مخلوق سے مراد ” مخلوقات کا خدا“ ہے نہ کہ خود وہ مخلوقات۔
۸۔ قبور کے اوپر عمارت بنانا، وہاں پر نذر اورقربانی کرنا وغیرہ
شیخ عبد الرحمن آل شیخ کاکہناہے کہ احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ہر اس شخص کے لئے لعنت کی گئی ہے جو قبروں پر چراغ جلائے یا قبروں پر کوئی چیز لکھے یا ان کے اوپر کوئی عمارت بنائے۔
حافظ وھبہ کا کہنا ہے کہ قبروں کے بارے میں چار چیزوں پر توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ قبروں پر عمارت وغیر ہ بنانا اوران کی زیارت کرنا۔
۲۔ وہ اعمال جو بعض لوگ قبروں کے پاس انجام دیتے ہیں مثلاً دعا کرنا نماز پڑھنا وغیرہ۔
۳۔ قبروں پر گنبد اور ان کے نزدیک مساجد بنانا۔
۴۔ قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا۔
قبروں کی زیارت، ان سے عبرت حاصل کرنا یا میت کے لئے دعا کرنا اور ان کے ذریعہ آخرت کی یاد کرنا، اگر سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ہو تو مستحب ہے، لیکن قبور کے لئے سجدہ کرنا یا ان کے لئے جانور ذبح کرنا یا ان سے استغاثہ کرنا شرک ہے، اسی طرح ان پر اور وہاں موجود عمارت پر رنگ وروغن کرنا یہ تمام چیزیں بدعت ہیں جن سے منع کیا گیاہے، اسی وجہ سے وہابیوں نے مکہ اور مدینہ میں موجود قبروں کی عمارتوں کو مسمار کردیا ہے، جیسا کہ ایک صدی پہلے (حافظ وھبہ کی کتاب لکھنے سے ایک صدی قبل جو تقریباً ۱۴۰سال پہلے کا واقعہ ہے) مکہ اورمدینہ کی قبروں پر موجود تمام گنبدوںکو مسمارکردیاگیا، اسی طرح حافظ صاحب کہتے ہیں کہ قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا بھی بدعت ہے۔
قبروں کے پاس اعتکاف کرنابھی شرک کے اسباب میں سے ہے بلکہ خود یہ کام شرک ہے،
سب سے پہلے رافضی لوگ شرک اور قبور کی عبادت کے باعث ہوئے ہیں، اور یھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے قبروں کے اوپر مسجدیں بنانا شروع کی ہیں۔
وہابیوں کے نزدیک نہ یہ کہ صرف قبور کی زیارتوں کے لئے سفر کرنا حرام ہے بلکہ یہ لوگصاحب قبر کے لئے فاتحہ پڑھنے کو بھی حرام جانتے ہیں، (اور جس وقت انھوں نے حجاز کو فتح کرلیا جس کی شرح بعد میں بیان ہوگی)جب بھی کسی شخص کو قبروں پر فاتحہ پڑھتے دیکھتے تھے اس کو تازیانے لگاتے تھے، ۱۳۴۴ھ میں جس وقت حجاز پرتازہ تازہ غلبہ ہوا تھا تو اس وقت سید احمد شریف سنوسی کو (جوکہ مشہورومعروف اسلامی شخصیت تھیں) حجاز سے باہر کردیا کیونکہ ان کو مکہ معظمہ میں جناب خدیجہ کی قبر پر کھڑے ہوکرفاتحہ پڑھتے دیکھ لیا تھا۔
اسی طرح وہابی حضرات ایک روایت کے مطابق قبروں پر چراغ اور شمع جلانے کو بھی جائز نہیں جانتے، اسی وجہ سے جس وقت سے انھوں نے مدینہ منورہ پر غلبہ پایا اس وقت سے روضہ نبویپر چراغ جلانے کو منع کردیا۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب کا کہنا ہے کہ جو شخص کسی غیر خدا سے مدد طلب کرے یا کسی غیر خدا کے لئے قربانی کرے یا اس طرح کے دوسرے کام انجام دے تو ایسا شخص کافر ہے۔
اسی طرح اس نے قبروں پر چراغ جلانا وہاں پر نماز پڑھنا یا قربانی کرنا وغیرہ جیسے مسائل کو زمان جاہلیت کے مسائل میں شمار کیا ہے۔
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (شیخ محمد بن عبد الوہاب کا پوتا)کھتا ہے کہ مشرک لوگ جو نام بھی اپنے شرک کے اوپر رکھیں ،وہ بھر حال شرک ہے، مثلاً مُردوں کا پکارنے، یا ان کے لئے قربانی یا نذر کرنے کو محبت وتعظیم کانام دیں ،یا وہ نذر جو قبروں کے مجاروں اور خادموں کے لئے کی جاتی ہے یہ کام بھی ہندوستان کے بت خانوں کی طرح ہے، اسی طرح قبروں پر شمع جلانے کی نذر یا چراغ کے تیل کی نذر کرنا بھی باطل ہے مثلاً خلیل الرحمن ،دیگر انبیاء اوراولیاء اللہ کی قبروں پرشمع اورچراغ جلانے کی نذر کرنے کے باطل ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، اور اس طرح کی شمع جلانا حرام ہے چاہے کوئی ان کی روشنائی سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے.
قبور کے اوپر عمارت بنانا، وہاں پر نذر اور قربانی کرنا وغیرہ کے بارے میں وضاحت
جیسا کہ معلوم ہے کہ صدر اسلام کے بعد سے قبروں کے اوپر عمارتیں بنانا اور قبروں پر تختی لکھ کر لگانا رائج تھا، چنانچہ علامہ امین اس سلسلہ میں کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسد مبارک کو ایک حجرے میں دفن کیا گیا اور اگر قبرکے اوپر عمارت کا وجود جائز نہیں تھا تو پھراصحاب رسول اور سلف صالح نے اس حجرے کو کیوں نہ گرایا ،جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر تھی،اور نہ صرف یہ کہ اس حجرے کو نہیں گرایا بلکہ چند بار اس حجرے کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
اسی طرح ھارون الرشید نے حضرت امیر المومنین علی ں کی قبر مبارک پر گنبد بنوایا، اور ایسی ہی دوسری عمارتیں مختلف قبروں پر بنائی گئیں، اور کسی نے بھی اعتراض نہ کیاجن کا تذکرہ تاریخی کتب میں موجود ہے ۔
مجموعی طورپر قبروں گنبد وبارگاہ بنوانا تمام اسلامی فرقوں کی سیرت رہی ہے اور ابن تیمیہ اور اس کے مریدوں کے علاوہ کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی، خود ابن تیمیہ نے بہت سی قبروں کے گنبد کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس کے زمانہ میں لوگوں کی نظر میں محترم اورمشخص تھے، مثلاً مدینہ منورہ میں وہ گنبد جوجناب عباس (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچاکی قبر)پر تھا اس کے نیچے سات افراد یعنی، جناب عباس،امام حسن، علی ابن الحسین (امام زین العابدین)، ابو جعفر محمد ابن علی (امام باقر) اور جعفر بن محمد (امام صادق) علیهم السلام دفن ہیں، کہتے ہیں کہ فاطمہ زہرا = کی قبر بھی اسی گنبد کے نیچے ہے اور امام حسین ں کا سر بھی یھیں دفن ہوا ہے۔
ابن تیمیہ اور اس کے اصحاب کہتے ہیں کہ قبروں پر عمارت بنانے کی بدعت پانچویں صدی کے بعد پیدا ہوئی ہے اور جس وقت بھی ان کو مسمار کرنے کا موقع آجائے اس کام میں ایک دن کی بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ عمارتیں لات وعزّیٰ کی طرح ہیں بلکہ شرک کے لحاظ سے لات و عزّیٰ سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔
قبروں پر صاحب قبر کے نام کی تختی لگانا آج تک رائج ہے، کیونکہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سن ہجری کی ابتدائی صدیوں میں قبروں پر پتھر اور تختیاں لگائی جاتی تھیں۔
مثلاً مسعودی حضرت امام جعفر صادق ںکی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آپ بقیع میں دفن ہیں جہاں آپ کے پدر بزرگوار اور جد امجد بھی دفن ہیں اور آپ کی قبر پر مرمر کا ایک پتھر ہے جس پر یہ عبارت لکھی ہے:
”بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ مِبُیْدِ الاُمَمِ وَمُحْیِ الرَّمَمِ، هَذَاقَبْرُفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰهِ (ص) سَیِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ، وَقَبْرُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَعَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ وَقَبْرُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ وَجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهم السَّلاٰمُ
“
ابن جبیر (چھٹی صدی ہجری کا مشہور ومعروف سیّاح)کھتا ہے کہ بقیع میں جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر پر اس طرح لکھا ہوا ہے:
”مَاضَمّ قَبْرُ اَحَدٍ كَفَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَد رَضِی اللّٰهُ عَنْها وَعَنْ بَنِیْها
“
(فاطمہ بنت اسد کی قبر کے مانند کسی دوسرے کو ایسی قبر نصیب نہیں ہوئی)
اسی طرح وہ لکھتا ہے کہ جناب بلال (حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موذن) کی قبر جو کہ دمشق میں واقع ہے، ان کی قبر پر جناب بلال کے نام کی تاریخ لکھی ہوئی ہے اور ایک دوسری تاریخ لکھی ہوئی ہے جس کی عبارت اس طرح سے ہے:
”هَذَا قَبْرُ اَوْسِ بْنِ اَوْسِ الثَّقَفِیّ
“
اور اسی طرح شہداء دمشق کی قبور پرقدیمی تاریخ لکھی ہوئی ہے (ظاہراً اس کا مقصد تاریخ کا پتھر ہے) جس میں اس طرح لکھا ہوا ہے:
”فِی هَذَا الْمَوْضِع قَبْرُ جَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ
“
ان کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔
اسی طرح سمہودی روایت کرتے ہیں کہ عقیل ابن ابی طالب نے گھر میں ایک کنواںکھودا، اس کے دوران اس میں سے ایک پتھر نکلا جس پر اس طرح لکھا ہوا تھا: ”قَبْرُ اُمِّ حَبِیْبَةِ بِنْتِ صَخْرِ بْنِ حَرْبٍ
“جب جناب عقیل نے اس پتھر کو دیکھا تو انھوں نے اس کنویں کو بند کردیا اور اس کے اوپر ایک عمارت بنادی اسی طرح ایک اور پتھر دریا فت ہوا جس پر لکھا ہوا تھا: ”اُمِّ سَلْمَةٍ زَوْجِ النَّبِیِّصلی الله علیه و آله وسلم
“ اور ایک قول کے مطابق بقیع سے ایک پتھر نکلا جس کے اوپر اس طرح لکھا ہوا تھا : ”هَذَا قَبْرُ اُمِّ سَلْمَةٍ زَوْجِ النَّبِیِّ صلی الله علیه و آله وسلم
“
سنن ابن ماجہ میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث ”نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اَنْ یُكْتَبَ عَلَی الْقُبُوْرِ“ ذکر کرنے کے بعد اس طرح تحریر ہے کہ سِندی نے حاکم کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی کتاب مستدرک میں مذکورہ حدیث بیان کرنے کے بعد کہا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو ا ہے اور تمام ائمہ کی قبور پر لکھا جاتا ہے اور یہ وہ کام ہے جس کو خلف (بعد والوں) نے سلف (اصحاب وتابعین) سے لیا ہے
اور قبروں کے پتھروں پر لکھنے کے علاوہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے بعد سے قبروںپر نشانی لگائی جاتی تھی جس طرح کہ خود پیغمبر اکرمنے عثمان بن مظعون کی قبر پر ایک پتھر کے عنوا ن سے نشانی لگایا۔
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا اور ایک نشانی بنائی۔
اب رہی بات کسی کے لئے گوسفند ذبح کرنا تو اس سلسلہ میں بھی علامہ امین فرماتے ہیں کہ کسی غیر خدا کے لئے اس نیت سے قربانی یا نحر کرنا کہ اس قربانی سے غیر خدا کا تقرب حاصل ہو
اور قربانی کرتے وقت خدا کے نام کے بجائے غیر خدا کا نام لیا جائے اور اس غیر خدا کو خدا کی طرح قرار دیا جائے، تو یہ کام کفر اور شرک ہے، اور یہ اسی قسم کی قربانی ہے جس کو وہابیوں نے گمان کیا ہے کہ دوسرے اسلامی فرقے اسی کو انجام دےتے ہیں،جبکہ اس کا یہ گمان صحیح نہیں ہے اور حقیقت سے دور ہے، کیونکہ وہ قربانی جس کو مسلمان قبور کے نزدیک انجام دیتے ہیں وہ خدا کے لئے ہوتی ہے اور اس قربانی کا قصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا کہ میں اس ذبح کو خدا کی خوشنودی کے لئے انجام دیتا ہوں اور اس کے گوشت کو فقراء اور خدا کے بندوں پر تصدق کرونگا اور اس کا ثواب صاحب قبر کے لئے ہدیہ کروں گا، اور اس طریقہ پر کی جانے والی قربانی صحیح اور بھتر ہے اور یھی قربانی خدا کی اطاعت شمار ہوگی، چاہے اس کا ثواب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دیگر انبیاءعلیهم السلامیا اپنے ماں باپ یا کسی دوسرے کو ہدیہ کرے، کیونکہ قربانی سے کسی مسلمان کا قصد بت پرستوں کی طرح نہیں ہے کہ وہ لوگ قربانی کو تقرب کا وسیلہ جانتے ہیں۔
اور نذر کے سلسلہ میں جواب بھی بالکل اسی طرح ہے جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔
قبور کے پاس چراغ اور شمع جلانے کے مسئلہ میں عرض ہے کہ جن روایات کے ذریعہ وہابی یہ ثابت کرتے ہیں کہ قبور پر چراغ جلانا حرام ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ ان روایات کی سند ضعیف ہے، اور اگر بالفرض ان کی سند کو صحیح مان بھی لیں کہ تو اس کا جائز نہ ہونا یا اس وجہ سے ہے کہ قبروں پر شمع جلانے میں کوئی فائدہ تصور نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا گویا شمع جلانا یعنی مال کو ضایع کرنا ہے، یا ان روایات کا مقصد غیر انبیاء اور اولیاء اللہ کی قبروں پر شمع جلانے کی ممانعت ہے۔
لیکن قبروں پر قرآن یادعا پڑھنے والوں کے لئے یا زائرین کی سہولت کے لئے یا ان لوگوں کے لئے جو پوری پوری رات قبروں کے پاس رہتے ہیں تو ایسے موارد کے لئے شمع جلانا نہ مکروہ ہے اور نہ حرام، بلکہ نیک کام میں مدد کے عنوان سے ہے کیونکہ خداوندعالم نیکیوں میں مدد کرنے کا حکم دیتا ہے:”(
تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ“
)
دوسری بات یہ ہے کہ تِرمذی جناب ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک رات کسی قبر پرگئے تو آپ کے لئے وہاں چراغ روشن کیا گیا، اور عزیزی (شرح جامع صغیر) کے بقولقبروں پر چراغ جلانے کی ممانعت وہاں کے لئے ہے کہ جہاںکو ئی زندہ اس سے کوئی فائدہ اٹھانے والا نہ ہو۔
اس کی وضا حت کہ رافضیوں نے ہی قبور کی عبادت اور شرک کی ابتداء کی ہے اور قبروں پر مسجد کے بانی بھی یھی ہیں
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کبھی کبھی عقیدہ ،سلیقہ یا احادیث کے سمجھنے میں اختلاف ،تفرقہ، دشمنی اور تعصب کا سبب بن جاتا ہے اور اس صورت میں چا ہے مخالف کی دلیل کتنی ہی منطقی کیوں نہ ہو، اس کو قبول نہیں کیا جاتا، اور جو کچھ بھی وہ کھے اس کو غلط تصور کیا جاتا ہے، جس وقت سے شیعہ مذہب بعض وجوہات کی بناپر بہت سے اسلامی فرقوں کی نظر اعتراض کا نشانہ قرار پایا ہے، (جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں چند مرتبہ بیان بھی کیا ہے) شیعوں کے معمولی سے کام کو بھی الٹا پیش کیا جا تاہے، اور اس کے علاوہ مختلف تہم تیں لگانے میں بھی کوئی کمی نہیں کی جا تی۔
منجملہ زیارت کا مسئلہ جس پر ابن تیمیہ اور وہابیوں نے نامعلوم کتنے اعتراضات کر ڈالے، جبکہ قبور کی زیارت مختلف اسلامی فرقے انجام دیتے آئے ہیں اور انجام دے رہے ہیں، اور مذاہب اربعہ کے بزرگوں کی بہت سی قبروں کا دوسری صدی کے بعد سے عام وخاص کی طرف سے احترام کیا جارہاہے اور ان کی زیارت ہوتی آئی ہے۔
ہاں تک کہ آج بھی مسجد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آنحضرت کے روضہ مطھر اور ضریح کے سامنے بہت سے لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبکر وعمر کی زیارت پڑھتے ہیں اور ان زیارتوں کے وھی جملے ہیں جن کو شیعہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ کی ضریحوں کے پاس پڑھتے ہیں، عجیب بات ہے کہ یھی کام اگر دوسرے اسلامی فرقے انجام دیں تو ان پر اعتراض نہیں ہوتا لیکن اگر یھی کام ہم انجام دیں تو کیونکہ شیعہ ہیں اس وجہ سے زیارت کو عبادت کہہ دیا جاتا ہے، اور اس زیارت کا کرنے والا مشرک کھلاتا ہے، معلوم نھیںشیعہ زیارتوں میں کیا کہتے ہیں جو دوسرے نہیں کہتے، یا کیا نہیں کہتے جو دوسرے کہتے ہیں۔
اب رہی یہ بات کہ شیعہ حضرات نے ہی قبروں کی عبادت اور شرک کی بنیاد ڈالی ہے، اور قبروں پر مساجد بنانا شروع کی ہیں، جیسا کہ یہ بات شیخ عبد الرحمن محمد بن عبد الوہاب کے پوتے سے نقل ہوئی ہے، موصوف فتح المجید کے حاشیے میں اس طرح کہتے ہیں کہ عبیدیوں (جو خود کو جھوٹ موٹ فاطمی کہتے ہیں) نے ہی سب سے پہلے قبروں کے پاس مسجدیں بنانا شروع کی، جیسا کہ قاہرہ شھر میں امام حسینںکے لئے ایک عظیم گنبد، عمارت اور اس کے برابر میں ایک عظیم الشان مسجد بنائی۔
مذکورہ مطلب کے بارے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ قبور کی زیارت، اسی طرح قبروں پر عمارت یا گنبد بنانا، یہ کام شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ شروع ہی سے اسلامی فرقے اپنے بزرگوں کی قبروں پر بہترین عمارتیں بنایا کرتے تھے ان کے لئے بہت سی چیزیں وقف بھی کیا کرتے تھے اور ان کی زیارت کے لئے بھی جایا کرتے تھے اب بھی یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
بغداد میں ابوحنیفہ کی قبر پر ایک قدیمی بڑا اور سفید گنبد اب بھی موجود ہے، جس کی ابن جُبیر نے توصیف بھی کی ہے،
اور آج بھی ابو حنیفہ کی قبر کا گنبدبھت خوبصورت ہے جس کی دور اور نزدیک سے ہزاروں لوگ زیارت کے لئے جاتے ہیں، اسی طرح احمد ابن حنبل کی قبر
اوربغداد میں شیخ عبد القادر جیلانی کی قبر، اسی طرح مصر کے قرافہ شھر میں امام شافعی کی قبرمذاہب اربعہ کے بزرگوں کی بہت سی قبریں مختلف اسلامی ملکوں میں زیارتگاہیں بنی ہوئی ہیں۔
نجد اور حجاز میں وہابیوں کے غلبہ سے پہلے بھی بہت سے گنبداور عمارتیں موجود تھیں جن کی زیارت کے لئے لوگ جایا کرتے تھے اور ان کے اوپر بہت زیادہ عقیدہ رکھتے تھے، لہٰذا یہ دعویٰ کرنا کہ قبروں کی زیارت کی ابتداء کرنے والے شیعہ ہیں باطل اور بے بنیاد ہے۔
اسی طرح قبروں پر اور ان کے اطراف میں عمارتیں بنانا بھی شیعوں سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ شروع ہی سے یہ کام مختلف اسلامی فرقوں سے چلا آرہا ہے، اور قبروں پر عمارتوں کا رواج تھا:
ابن خلکان کہتا ہے:۴۵۹ھ میں شرف الملک ابو سعد خوارزمی ،ملک شاہ سلجوقی کے مستوفی (حساب دار) نے ابو حنیفہ کی قبر پر ایک گنبد بنوایا، اور اس کے برابر میں حنفیوں کے لئے ایک مدرسہ بھی بنوایا، ظاہراً ابو سعد نے مذکورہ عمارت ”آلُپ ارسلان سلجوقی“ کی طرف سے بنوائی ہے
اسی طرح ”ابن عبد البِرّ“ (متوفی۴۶۳ھ)کی تحریر کے مطابق، جناب ابو ایوب انصاری کی قبر قسطنطیہ (اسلامبول) کی دیوار کے باہر ظا ھرہے اور لوگوں کی تعظیم کا مر کزھے اور جب بارش نہیں ہوتی تو وہاں کے مسلمان ان سے متوسل ہوتے ہیں۔
ابن الجوزی۳۸۹ھ کے واقعات کو قلمبند کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اہل سنت مُصعب بن الزبیر کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ہیں جس طرح شیعہ حضرات امام حسین ں کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔
ابن جُبیر، چھٹی صدی کا مشہور ومعروف سیاح اس طرح کہتا ہے کہ مالکی فرقہ کے امام، امام مالک کی قبر قبرستان بقیع میں ہے، جس کی مختصر سی عمارت اور چھوٹا ساگنبد ہے اور اس کے سامنے جناب ابراہیم فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر ہے جس پر سفید رنگ کا گنبد ہے۔
مذاہب اربعہ کے بزرگوں کی قبروں پر گنبدہونا، ان پر عمارتیں بنانا،ان کے لئے نذر کرنا، وہاں پر اعتکاف کرنا ،ان سے توسل کرنا ،صاحب قبر کی تعظیم وتکریم کرنا اوروہاں دعا کے قبول ہونے کا اعتقاد رکھنا بہت سی تاریخی کتابوں میں موجود ہے اور اس وقت بھی قاہرہ، دمشق اور بغداد اور دوسرے اسلامی علاقوں میں ان کے بہت سے نمونے اور قبروں پر مراسم ہوتے ہیں جنھیںآج بھی دیکھاجاسکتا ہے۔
لیکن یہ کہنا کہ شیعوں نے سب سے پہلے قبروں پرمسجدیں بنائی ہیں، یعنی قبروں کو مسجد قرار دیا ہے تو اس سلسلہ میں چند چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق قبرستان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے لہٰذا مقبروں کو مسجد کے حکم میں جاننا ان کے عقیدوں کے مطابق نہیں ہے، (جبکہ ہم نے ابن تیمیہ کے عقائد میں اس بات کو بیان کیا ہے کہ امام مالک مقبروں میں نماز کو جائز جانتے تھے اور ابوحنیفہ اور دوسرے لوگ قبرستان میں نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے تھے)
۲۔ شیعہ حضرات جو مسجدیں قبروں کے پاس بناتے ہیں وہ مقبروں سے کچھ فاصلہ پر اور مقبروں سے جدا ہوتی ہیں، وہ مسجد راس الحسینںجس پر بعض حضرات خصوصاً صاحب فتح المجید، شدت سے اعتراضات کرتے ہیں مقبرہ سے بالکل جدا ہے اور صرف مقبرہ کے ایک در سے مسجد میں وارد ہوا جاسکتا ہے، یعنی نماز پڑھنے کی جگہ جدا ہے اور زیارت گاہ جدا ہے، خلاصہ یہ کہ جو مسجدیں شیعوں نے مقبروں کے پاس بنائی ہیں ان کا فاصلہ مسجد النبوی اور قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فاصلے سے زیادہ ہے۔
۳۔ قبروں کے پاس مسجدیں بنانا شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مختلف فرقے قدیم زمانہ سے قبروں کے پاس مسجدیں بناتے آئے ہیں، منجملہ ابن جوزی کی تحریر کے مطابق (محرم۳۸۶ھ کے واقعات کے ضمن میں ) اہل بصرہ نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک تازہ مردہ (ان کے عقیدے کے مطابق زُبیر بن العَوّام) کو قبر سے نکالا اور اس کے بعد اس کو کفن پہنایا اور زمین میں دفن کردیا، اور ابوالمِسک نے اس کی قبر پر ایک عمارت بنائی اور اس کو مسجد قرار دیدیا۔
اسی طرح بصرہ میں بھی طلحہ (جو کہ جنگ جمل میں قتل ہوئے) کی قبر پر ایک گنبد بنایااور اس کے پاس ایک مسجد اورعبادتگاہ بھی بنائی گئی۔
لیکن یہ کہنا کہ سب سے پہلے فا طمیوں نے قبر کے پاس (راس الحسینں) مسجد بنائی اس سلسلہ میں بھی دو چیزوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ مَقریزی کی تحریر کے مطابق، حضرت امام حسینںکا سر عسقلان سے شام لانا ۸جمادی الآخر۵۴۸ھ بروز یکشنبہ ہے اور وہاں پر عمارت کا بننا۵۴۹ھ میں تھا۔
اور یہ بات طے ہے کہ اس زمانہ میں فاطمی ختم ہوتے جارہے تھے اور اس وقت کی باگ ڈور ان کے وزیروں کے ھاتھوں میں تھی اور اس زمانہ کا صاحب اقتداروزیر ”طلایع بن رُزّیک “ معروف تھا کہ خلیفہ وقت اس کی قید میں اسیر تھا، اور ان دونوں کے درمیان اس قدر جنگ وجدال تھی کہ خلیفہ طلایع کو قتل کرنے کے مختلف پروگرام بناتا رہا یہاں تک کہ ایک پروگرام کے تحت اس کو قتل کردیا۔
اور یہ طلایع وھی ہے جو حضرت امام حسین ںکا سر قاہر ہ لے کر آیا اور موجودہ جگہ لاکر دفن کیا۔
۲۔ لیکن جومسجد ”راس الحسین ںسے متصل ہے وہ کسی بھی وقت فا طمیوں سے مربوط نہیں رہی بلکہ سلسلہ فاطمی کے خا تمہ کے بر سوں بعد اور صلاح الدین ایوبی جو سادات کو نیست و نابود کرنے والا تھا اسی کے زمانہ میں اس کے وزیر قاضی فاضل عبد الرحیم (متوفی۵۹۶ھ) کے ھا تھوں بنائی گئی اورمسجد کے برابر میں ایک وضو خانہ بنایا اور ایک سقاخانہ بھی بنوایا، اور بہت سی چیزوں کو وقف کیا۔
۹۔ قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت
اس سے قبل ابن تیمیہ کے عقائد میں بیان ہوچکا ہے کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے بارے میں کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے مستحب ہونے کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے، اور زیارت کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ سب غیر صحیح اور جعلی ہیں، اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود ان کی زندگی کی طرح ان کی وفات کے بعد بھی ہے تو گویا اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
چنانچہ وہابی حضرات بھی اسی طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ ابن تیمیہ سے بھی ایک قدمآگے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ وہابیوں کے یہاں زیارت نام کا کوئی عمل نہیں ہے، چنانچہ اسی نظریہ کے تحت تمام قبریں مسمار کردی گئیں اور روضہ رسول کو بھی اس کی حالت پر چھوڑ دیا گیا، اور اس وقت اس طرح ہے کہ کوئی بھی آپ کی قبر مطھر کے نزدیک نہیں ہوسکتا ہے اور آپ کی قبر مطھر ہر گز دکھا ئی نہیں دیتی ۔
روضہ منورہ کے چاروں طرف دیوار ہے اور ہر طرف ایک حصے میں جالی لگی ہوئی ہے اور ان جالیوں کے پاس وہاں کے شرطے (محافظ) کھڑے رہتے ہیں اوراگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ کی جالی کے نزدیک ہونا یا ھاتھ لگانا چاہتا ہے تو وہ روک دیتے ہیں، اور اگر کوئی شرطوں کی غفلت کی وجہ سے جالیوں کے اندر سے جھانک کر دیکھتا بھی ہے تو پہلے تو وہاں تاریکی نظر آتی ہے اور جب اس کی آنکھیں کام کرنا شروع کرتی ہیں تواندر دکھائی دیتا ہے کہ ایک ضخیم پردہ ہے جو قبر کے چاروں طرف زمین سے چھت تک موجود ہے لہٰذا قبر مطھر کو بالکل دیکھا نہیں جاسکتا۔
ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کاروں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کرنا حرام ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوردوسروںکی قبر میں فرق کے قائل ہونے کے بارے میں ابن تیمیہ کے عقائد کی بحث میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے لہٰذا تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔
مرقد مطھر حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے استحباب کے بارے میں وضاحت
ہاں پر ان چند حدیثوں کو بیان کرنا ضروری ہے جو قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے مستحب ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ احادیث بھی جو دلالت کرتی ہیں کہ جو لوگ حضرت کو سلام کرتے ہیںآنحضرت ان کے سلام کا جواب دیتے ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت سے متعلق عقیدہ ان تمام احادیث کے مخالف ہے جو خود اہل سنت کے طریقوں سے بیان ہوئی ہیں۔
تقی الدین سُبکی (متوفی۷۵۶ھ) نے کتاب ”شفاء السُقام فی زیارة خیر الانام “کے باب اول میں تقریباً پندرہ حدیثیں زیارت قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں بیان کی ہیں، مثلاً:
۱ ”مَنْ زَارَنِی مُتَعَمِّداً كَانَ فِیْ جَوَارِیْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جو شخص اپنے ارادے اور قصد سے میری زیارت کرے، ایسا شخص روز قیامت میرا پڑوسی اور میری پناہ میں ہوگا)
۲ ”مَا مِنْ اَحَدٍ مِنْ اُمَّتِی لَهُ سَعَةٌ ثُمَّ لَمْ یَزُرْنِی فَلَیْسَ لَهُ عُذْرٌ“
(جو شخص قدرت رکھتے ہوئے بھی میری زیارت نہ کرے تو اس کا کوئی عذر بھی قابل قبول نہیں ہے۔)
اسی طرح جناب نور الدین سَمُہودی نے اپنی معروف کتاب ”وفاء الوفاء باخبار المصطفیٰ میں پیغمبر اکرمکی زیارت سے مربوط فصل میں تقریباً(۱۷)حدیثیں بیان کی ہیں منجملہ ان کی دار قطنی اور بیہقی سے ابن عمر کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث کہ آپ نے فرمایا:
۳”مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِیْ“
(جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی مجھ پراس کی شفاعت واجب ہے)
سمہودی نے مذکورہ حدیث کی مختلف اسناد بیان کی ہیں۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث جس کو بزّازنے عبد اللہ بن ابراہیم غفاری سے اور انھوں نے عبداللہ ابن عمر سے اور انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیاہے :
۴ ”مَنْ زَارَ قَبْرِیْ حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِی“
(جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی تو اس پرمیری شفاعت جائز ہے)
اسی طرح ابن عمر سے طبرانی کی روایت کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۵ ”مَنْ جَاءَ نِی زَائِراً لاٰ تَحْمِلُهُ حَاجَةٌ اِلاّٰ زِیَارَتِی كَانَ حَقّاً عَلَیَّ اَنْ اَكُوْنَ لَهُ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جو شخص میری زیارت کے لئے آئے اورکوئی دوسری غرض نہ رکھتا ہو، تو مجھ پر روز قیامت اس کی شفاعت کرنا واجب ہے)
اسی طرح دار قطنی اور طبرانی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
۶ ”مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِیْ بَعْدَ وَفَاتِیْ كَانَ كَمَنْ زَارَنِیْ فِی حَیَاتِیْ“
(جو شخص میری وفات کے بعد حج کرے اور اس کے بعد میری زیارت کرے تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ہے)
اسی طرح ابن عدی ابن عمر کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث نقل کرتے ہیں :
۷”مَنْ حَجَّ الْبیت وَلَمْ یَزُرْنِی فَقَدْ جَفَانی “
(جو شخص حج بجالایا اور میریزیارت کے لئے نہیں آیا تو بتحقیق اس نے مجھ پر جفا کی)
اسی طرح دار قطنی نے حاطب سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
۸ ”مَنْ زَارَنِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ فَكَانَّمَا زَارَنِی فِیْ حَیَاتِی“
(جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی)
اسی طرح ابو الفتوح سعید بن محمد الیعقوبی نے ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :
۹ ”مَنْ زَارَنِیْ بَعْدَ مَوْتِی فَكَاَنَّمَا زَارَنِی وَاَنَا حَیٌّ وَمَنْ زَارَنِی كُنْتُ لَهُ شَهِیْداً اَوْ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، اور جس شخص نے میری زیارت کی میں روز قیامت اس کا گواہ یا اس کا شفیع بنوں گا)
اسی طرح ابن ابی الدنیا نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
۱۰ ” مَنْ زَارَنِیْ بِالْمَدِیْنَةِ كُنْتُ لَهُ شَهِیْداً وَ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَة
“
(جو شخص مدینہ میں میری زیارت کرے، روز قیامت میں اس کا گواہ اور شفیع ہونگا)
۱۱ ” مَنْ زَارَنِیْ بِالْمَدِیْنَةِ مُحْتَسِباً كُنْتُ لَهُ شَهِیْداً وَ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَة
“
(جو شخص ثواب کی خاطر مدینہ میں میری زیارت کرے تو روز قیامت میں اس کے نیک عمل کی شھادت اورگواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا)
نیز اسی طرح وہ دوسری روایتیں جن کو سمہودی نے حضرت امیر المومنین اور ابن عباس اور بکر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے۔
صاحب کتاب” عمدة الاخبار“ وہابیوں کی معتبر کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت ان نیکیوں میں سے ہے کہ اگر کوئی فطرت سلیم رکھتا ہو، اس میں شک نہیں کرسکتا، وہ بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت جن کیعظمت اور بزرگیقرآن مجید میں چند مرتبہ بیان کی ہے۔
اور اس کے بعد موصوف نے قرآن مجید کی وہ آیات ذکر کی ہیں جن میں آنحضرت کی عظمت بیان کی گئی اور اسی طرح چند وہ احادیث بھی بیان کی ہیںجو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مربوط تھیں اور اس کے بعد کہتے ہیں:
وہ دلیلیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں بہت زیادہ ہیں، جیساکہ ہم نے بعض کی طرف اشارہ کیا اور ابوھریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
” قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ قبروں کی زیارت تمھیں آخرت کی یاد دلاتی ہے“۔
فضیلت زیارت قبور کی بحث کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ صالحین کے برابر میں دفن ہونا مستحب ہے ۔
اسی طرح شب میں قبروں کی زیارت مستحب ہے، کیونکہ جناب مُسلِم نے جناب عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رات کے وقت قبرستان بقیع میں جایا کرتے تھے۔
آنحضرت کی وفات کے بعد آپ پر سلام بھیجنے کے بارے میں ابو داؤدصحیح سند کے ساتھ ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلاّٰ رَدَّ اللّٰهُ رُوْحِی حَتّٰی اَرِدَ عَلَیْهِ السَّلاٰمَ“
(اگر کو ئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے،تو خداوندعالم میری روح پلٹا دیتا ہے تاکہ میں سلام کرنے والوں کو سلام کا جواب دوں)
مُنذری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے علم کے بارے میں روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”عِلْمِیْ بَعْدَ وَفَاتِی كَعِلْمِیْ فِی حَیَاتِیْ “
(میرا علم میری وفات کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا میری زندگی میں ہے)
بیہقی کہتے ہیں کہ انبیاءعلیهم السلامکی وفات کے بعد ان کی حیات کے ثبوت پر بھی بہت سی صحیح روایات موجود ہیں۔
۱۰۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت
آلوسی، اگرچہ وہابیوں کی بہت زیادہ حمایت کرنے والے اور طرفدار ہیں، لیکن انھوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ہے، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت دوسرے تمام لوگوں سے مطلق طور پر بلند و بالاہے اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی قبر میں بھی زندہ ہیں، اور جو شخص بھی حضرت کو سلام کرتا ہے آنحضرت اس کے سلام کو سنتے ہیں، اور آپ کی وفات کے بعد کی زندگی شہداء کی زندگی سے روشن ترہے کیونکہ خداوندعالم قرآن مجید میں ان کی بہترین زندگی کے بار ے میں ارشاد فرماتا ہے:
(
وَلاٰ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهم یُرْزَقُوْنَ
)
” اور خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرو، وہ زندہ ہیں اور اپنے پرور دگار کے یہاں سے رزق پارہے ہیں“۔
اگرچہ ابن تیمیہ اپنے فتووں کے ضمن میں کہتے ہیں کہ قبر میں مردے بھی گفتگو کرتے ہیں اور دوسروں کی باتوں کو سنتے ہیں اور قبر میں ا ن سے سوال وجواب بھی ہوتےھیں۔
لیکن اس کے باوجود جیسا کہ ہم نے ان کی کتاب ”الرد علی الاخنائی“سے یہ بات نقل کی تھی کہ وہ زیارت سے متعلق تمام حدیثوں کو جعلی اور ضعیف بتاتے ہیں، یھی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کا وجود ان کی زندگی کے مثل ہے تو اس نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اور اسی کے مثل بلکہ اس سے زیادہ سخت بات محمد بن عبد الوہاب اور اس کے پیروکاروں نے کھی، لہٰذا یہاں پر یہ بات کھی جاسکتی ہے کہ آلوسی صاحب کا نظریہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کے نظریہ کے مخالف ہے۔
حافظ وھبہ صاحب وہابیوں کے عقائد کے بارے میں ان کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے آنحضرت کی عظمت کے بارے میں کھتے ہیں، کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب اور اس کے تابع افراد کی طرف نسبت دی گئی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف کراہت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی اور دیگر انبیاء کی عظمت گھٹاتے رہتے تھے، جس طرح کہ یہ نسبت ابن تیمیہ اور اس کے تابع افراد کی طرف بھی دی گئی ہے، اس نسبت کی وجہ یہ ہے کہ اہل نجد (وہابی) اس حدیث رسول پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
”لاٰ تَشُدُّوْا الرِّحَالَ اِلاّٰ اِلٰی ثَلاَثةَ مَسَاجِدَ، اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِیْ هَذَا، وَالْمَسْجِدُ الاَ قْصیٰ“
عنی تین مسجدوں کے علاوہ سفر کرنا جائز نہیں : مسجد الحرام خانہ کعبہ، مسجد النبی، اور مسجد الاقصی بیت المقدس۔
اسی حدیث کی بناپروہ انبیاءعلیهم السلاماور صالحین کی قبور کی زیارت کو بدعت کہتے ہیں اور کسی بھی صحابی اور تابعین نے یہ کام انجام نہیں دیا، اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اس کام کا حکم نہیں دیا ہے۔
اسی طرح اہل نجد (وہابی حضرات)نے قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسروں کی قبروں کے سامنے دعا کرنے، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یا دوسروں کی قبر کے پاس سجدہ کرنے، ان کی قبروں پر ھاتھ پھیرنے، اوراپنے اوپر قبر کے اطراف کی مٹی ملنے، خلاصہ یہ کہ ہر اس کام کو جس میں استغاثہ کی بو آتی ہو، ممنوع قرار دیدیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ وہ قبروں کے اوپر بنے گنبدوں کے مسمار کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں اور ان کے نزدیک قبر کے لئے کوئی چیز وقف کرنا بھی باطل ہے۔
چوتھے یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بُوصِیری کے ” قصیدہ بردہ“ پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں، مثلاً یہ شعر:
”یَا اَكْرَمَ الْخَلْقِ مَالِی مَنْ اَلُوذُبِهِ سِوَاكَ عِنْدَ حُلُوْلِ الْحَادِثِ الْعَمَمِ
“
(اے مخلوق خدا میں سب سے کریم، میں بڑی اور عظیم مشکلات کے وقت آپ کی پناہ گاہ کے علاوہ کوئی پناگاہ نہیں رکھتا)
اسی طرح یہ مصرع: ”وَمِنْ عُلُوْمِكَ عِلْمُ اللَّوْحِ وَالْقَلِمِ
“
(اے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے علوم میں سے، علم لوح وقلم بھی ہے)
اور یہ شعر:
”اِنْ لَمْ تَكُنْ فِیْ مَعَادِیْ آخِذاً بِیَدِیْ فَضْلاً وَاِلاّٰ فَقُلْ یَا زَلَّةَ الْقَدَمِ
“
(اگر آپ نے روز قیامت اپنے فضل وکرم سے میراہاتھ نہ تھاما تو میرے پاوں لڑکھڑائیں گے۔)
کیونکہ یہ باتیں غلو اور بے ہودہ ہیں جو قرآن اور احادیث صحیح کے خلاف ہیں، حافظ وھبہ اس کے بعد اس طرح کہتے ہیں کہ وہابیوں کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ ان باتوں پر اعتقاد رکھنے والا شخص مشرک اور کافر ہے۔
یہ تھیں وہ چند چیزیں جن کی وجہ سے وہابیوں کے دشمنوں نے ا ن پر یہ تہم ت لگائی کہ یہ لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کراہت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اسی طرح دوسری نسبتیں بھی دیں مثلاً وہابی یہ کہتے ہیں کہ ہمارا عصا پیغمبر سے بھتر ہے۔
حافظ وھبہ مذکورہ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیںکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل نجد (وہابی حضرات) سب سے زیادہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں لیکن غلو کو برا سمجھتے ہیں اور ہر طرح کی بدعت سے مقابلہ کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت یہ ہے کہ انسان آپ کی بتائی ہوئی ہدایتوں اور راہنمائیوں پر عمل کرے، لیکن بدعتوں کا انجام دینا اور دینی امور کوترک کرنا یا ہوا وہوس کا پیچھا کرنا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دین اسلام کی توھین ہے نہ یہ کہ اس کو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کا نام دیا جائے۔
گویا حافظ وھبہ جیسے مشہور ومعروف اور جھاندیدہ شخص بعض افراطی اور متعصب وہابیوں کے غیر منطقی اور ناپسند عقائد کا دفاع کرنا چاہتے ہیں اور ان کو اس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ سامنے والا ان کو اچھا سمجھے، اور لوگوں کو یہ بتائے کہ وہابیوں کی طرف یہ نسبتیں ان کے دشمنوں کی طرف سے دی گئی ہیں۔
۱۱۔ سَلف صالح کے بارے میں وہابیوں کا عقیدہ
سلطان عبد العزیز بن سعود ،کا بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وہابی علماء میں بھی شمار ہوتا تھا، چنانچہ مکہ معظمہ میں اس نے ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ میں لوگوں کے سامنے ایک مفصل تقریر کی جس میں کہا کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہت جلد ہی میری امت کے(۷۳)فرقے ہوجائیں گے اور ایک فرقہ کے علاوہ سب جہنمی ہونگے، تو اس پر اصحاب نے سوال کیا وہ فرقہ کونسا ہے؟تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب میں فرمایا: وہ لوگ جو میرے اور میرے اصحاب کے راستہ پر چلیں گے“ اس کے بعد ابن سعود کہتے ہیں کہ خداوندعالم نے اپنے دین کی خلفائے اربعہ اور دوسرے سلف صالح کے ذریعہ تائید کی ہے۔
وہابی حضرات، خلفائے اربعہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ حضرات سلف صالح کے منتخب افراد ہیں، اور ان کی فضیلت بھی خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے ہے (یعنی سب سے افضل ابوبکر ان کے بعد عمر) اورخلفاء اربعہ کے بعد ”عشرہ مبشرہ“
کے باقی لوگ افضل ہیں،اور ان کے بعد اہل بدر (جنگ بدر میں شرکت کرنے والے حضرات) اور ان کے بعد ”اہل بیعت شجرہ“
افضل ہیں۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہابی حضرات جس طرح کے فضائل اور مناقب حضرت علی ں کے بارے میں بیان کرتے ہیں کسی ایک صحابی حتیٰ خلیفہ اول کے بارے میں بھی بیان نہیں کرتے۔
محمد بن عبد الوہاب نے، اپنی کتاب توحید میں کسی صحابی یا خلیفہ کے لئے کوئی منقبت بیان نہیں کی مگر یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ خیبر میں حضرت علی ں کے لئے فرمایا تھا:
”کل میں علم اس کو دوںگا جو خدا ورسول کو دوست رکھتا ہوگا اورخدا ورسول بھی اس کو دوست رکھتے ہونگے، اور خداوندعالم نے فتح خیبر کو بھی اس سے مخصوص قرار دیا ہے“۔
اس حدیث کو ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ہے،
اور موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث پیغمبر حضرت علیںکے ظاہری اور باطنی ایمان پر شھادت دیتی ہے اور اسی طرح اس سے خدا ورسول سے آپ کی دوستی ثابت ہوتی ہے اور مومنین پر واجب ہے کہ حضرت علیںکو دوست رکھیں۔
۱۲۔ اہل بیت پیغمبر علیهم السلام کے بارے میں
ابن تیمیہ اپنے فتووں میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر علی، فاطمہ حسن، اور حسینعلیهم السلامپر اڑھائی اورفرمایا:
”اَللّٰهم هٰولاٰءِ اَهْلُ بیت ی فَاْذهب الرِّجْسَ عَنْهم وَطَهِّرْهم تَطْهِیْراً
“
(اے خدا یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے تمام برائیوں کو دور کرکے پاک وپاکیزہ قرار دے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے)
ابن تیمیہ ایک دوسری جگہ کہتے ہیں:کہ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جو اہل بیت پیغمبرعلیهم السلامکو دوست رکھتے ہیں اور روز غدیر خم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کا پاس رکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایاتھا:
”میں تم کو اپنے اہل بیت کی یاد دلاتا ہوں“ اور اس جملہ کی کئی مرتبہ تکرار بھی فرمائی تھی۔
اسی طرح ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بہت سے حقوق ہیں جن کی رعایت کرنا واجب ہے، ان حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ ان حضرات کو خمس اور غنیمت دیا جائے اور ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان پر صلوٰت بھیجی جائے ،اور اسی طرح آل محمد(سلام اللہ علیہم )وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔
اور اہل بیت علیهم السلام کے بارے میں آلوسی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ وھی ہے جو قرآن اور حدیث میں آیا ہے اور ہم ان فضائل اہل بیت علیهم السلامکو مانتے ہیں جو ان کی شان میں نازل ہوئے ہیں، لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیهم السلامکی شان میں مبالغہ کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہیں، آل پیغمبر علیہم السلام سے محبت اور دوستی ایمان کو معین کرنے والی ہے اور یھی حضرات خدا کے نور ہیں اور ان پر صلوٰت بھیجنا نماز کے صحیح ہونے کی شرط ہے۔
اس کے بعد جناب آلوسی صاحب کہتے ہیں کہ نجد کے علماء اورحکام نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ عوام الناس کو اس بات سے روکےں کہ جو کچھ آل پیغمبر اور اصحاب کے بارے میں واقعات پیش آئے ہیں ان کے بارے میں بحث وگفتگو نہ کریں تاکہ وہ تعصب نہ پیدا ہو جو حق وحقیقت سے دوری کا سبب نہ بنے، در حالیکہ وہابی حضرات اہل بیت علیهم السلامکی دوستی اور ان کی محبت میں غلو نہیں کرتے۔
شیخ عبد العزیز، جو مدرسہ پیشواے دعوت وہابی(یعنی محمد بن عبد الوہاب) ریاض کے مدرس تھے، وہ کہتے ہیں: کہ اہل بیت پیغمبر وہ حضرات ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور ان میں سب سے افضل علی، فاطمہ، حسن اور حسینعلیهم السلامھیں ۔ اوراس کے بعد احمد بن حنبل کی روایت نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چاد ر اپنے اہل بیت :علی ،فاطمہ، حسن اور حسینعلیهم السلام پر اڑھائی اور اس آیت کی تلاوت کی :
(
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهب عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبیت وَیُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْراً
)
اور اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”اَللّٰهم هٰولاٰءِ اَهْلُ بیتی وَاَهْلُ بیتیْ اَحَقُّ“
(خدا وندا! یہ میرے اہل بیت ہیں اور میرے اہل بیت دوسر وں سے زیادہ اہل حق اور شائستہ تر ہیں۔)
لہٰذا، اہل بیت سے دوستی اور ان سے محبت کرنا ہم پر واجب ہے، یہ حضرات ہی پیغمبر اکرم کے اقرباء اور رشتہ دار ہیں، اس کے علاوہ اسلام میں سابقہ بھی زیادہ رکھتے ہیں، اور انھوں نے دین کو پھیلانے میں بہت سے مصائب کو برداشت کیا ،وغیرہ وغیرہ، لہٰذا ان سے دوستی اور محبت کرنا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام اور قرآن وسنت کے احکامات کی پیروی کرنا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
قُلْ لاٰ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلاّٰ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
)
”(اے میرے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کہ میرے اقرباء سے محبت کرو“۔
۱۳۔ اصول دین اورفروع دین
آلوسی کے بقول وہابیوں کی نظر میں اصول دین وھی ہیں جو مذہب اہل سنت والجماعت کے ہیں اور ان کا طریقہ وھی سَلَف صالح (اصحاب پیغمبر اورتابعین) کا طریقہ ہے۔ وہ آیات اوراحادیث کوظاہر پر حمل کرتے ہیں، اس کے حقیقی معنی کو خدا پر چھوڑدیتے ہیں، اور ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ خیر وشر صرف خدا کے ارادہ پر منحصر ہے ۔ بندہ اپنے افعال کو خلق کرنے پر (بھی) قادر نہیں ہے۔ ثواب اور جزا ،خدا کے فضل وکرم کی بدولت ہے ۔ کیفر و عذاب اس کے عدل کے مطابق ہے، اور ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ روز قیامت خدا کا دیدار ہوگا۔
لیکن فروع دین میں ،امام احمد ابن حنبل کے تابع ہیں، اور مذہب اربعہ میں سے کسی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے، لیکن دوسرے مذہب مثلاً شیعہ اور زیدیہ کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔
نیز اگر ان کے لئے یہ بات مسلّم ہوجائے کہ کوئی مسئلہ اہل سنت کے کسی ایک مذہب کا (غیر از حنبلی) تائید شدہ ہے اوراس کے بارے میں قرآن مجید یا غیر منسوخ سنت سے نص وارد ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی اس سے مضبوط معارض بھی نہیں ہے، تو اس مسئلہ میں اسی مذہب کی پیروی کریں گے اور اس میں احمد ابن حنبل کے مذہب کی پیروی نہیں کریں گے۔
وہابی حضرات کسی کے مذہب کے بارے میں نہ تفتیش کرتے ہیں اور نہ ہی تحقیق کرتے ہیںمگر یہ کہ کسی مذہب کا کوئی کام مذاہب اربعہ کے بطور آشکار مخالف ہو، اسی طرح بعض مسائل میں اجتھاد کو قبول کرتے ہیں،
(یعنی بعض مسائل میں مقلد ہو اور بعض مسائل میں مجتہد)، چنانچہ ابن سعود اصول دین اور فروع دین کے بارے میں کہتا ہے کہ ہم لوگ اصول دین میں قرآن کریم کے تابع ہیں اور فروع دین میں امام احمد ابن حنبل کے مذہب کے پیرو ہیں، اور کسی کو بھی دینی امور میں اپنی رائے پر عمل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
۱۴۔ قرآن و حدیث کے ظاہر پر عمل کرنااور تاویل کی مخالفت
ابن تیمیہ، جس کے نظریات اور فتووں پر وہابیوں کی بنیاد رکھی گئی ہے کہتے ہیں : تمام لوگوں پر خدا اور اس کے رسول کے کلام کو اصل قرار دینا اور اس کی پیروی کرنا واجب ہے، چاہے وہ ان کے معنی کو سمجھیں یا نہ سمجھیں۔
اسی طرح لوگوں کو چاہئے کہ قرآنی آیات اور کلام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتقاد اور ایمان رکھیں، چاہے اس کے حقیقی معنی کو نہ سمجھتے ہوں،اور خدا و رسول اللہ کے کلام کے علاوہ کسی دوسرے کے کلام کو اصل قرا ر دینا جائز نہیں ہے، اور جب تک غیر خدا ورسول کے کلام کے معنی معلوم نہ ہوجائیں ان کی تصدیق کرنا واجب نہیں ہے، وہ کلام اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام سے موافق ہے تو قبول ورنہ باطل اورمردود ہے۔
حافظ وھبہ اس سلسلہ میں کہتے ہیں:وہابیوں کا اعتقاد یہ ہے کہ اسلام کے صحیح عقائد جس طرح سے قرآن وسنت میں وارد ہوئے ہیں انھیں اسی طرح سے باقی رکھا جائے، اور اس میں کسی طرح کی کوئی تاویل کرنا جائز نہیں ہے۔
علمائے نجد کی کتابیں ان لوگوں کے نظریات کی ردّ سے بھری ہوئی ہیں جنھوں نے تاویل کا سھارا لیا ہے، یا جو لوگ دینی عقائد کو فلسفی نظریات سے مطابقت کرتے ہیں،
(مقصود علمائے علم کلام ہیں)۔ وہابیوں کے قرآن وحدیث کی تاویل کی مخالفت میں ہم نے پہلے آلوسی کا نظریہ بیان کیا کہ موصوف قرآن کی آیات اور احادیث کو ان کے ظاہر پر حمل کرتے ہیں، اور ان کے حقیقی معنی کو خداوندعالم پر چھوڑدیتے ہیں، نیز خدا کے دیدار کے مسئلہ میں ہم یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ وہابی حضرات بعض آیات قرآنی کے ظاہر کی وجہ سے خدا کے دیدار کے قائل ہیں یہاں تک کہ خداوندعالم کے لئے اعضائے(بدن)کے قائل ہیں۔
۱۵۔ اجتھاد اور تقلید
حافظ وھبہ، ابن تیمیہ کی دعوت کردہ چیزوں کے سلسلہ میں اس طرح کہتے ہیں: ابن تیمیہ کے عقیدہ کے مطابق اجتھاد کی دونوں قسمیں کھلی ہیں، اور انھوں نے متعصب مقلدوں کے لئے اعلان جنگ کیا ہے، اس کے بعد حافظ وھبہ کہتے ہیں کہ محمد بن عبد الوہاب کے نظریات کی بنیاد اور اساس ابن تیمیہ کا یھی نظریہ تھا۔
اور جیسا کہ یہ بات معلوم ہے اور اسی بات کو آلوسی نے بھی نقل کیا ہے کہ وہابی حضرات خود کو اصول میں مذہب اہل سنت کے تابع اور فروع دین میں مذہب احمد ابن حنبل کے تابع سمجھتے ہیں، اور اہل سنت کے دوسرے مذاہب سے تقلید کو منع نہیں کرتے اور خود بھی بعض مسائل میں اہل سنت کے دوسرے مذاہب (حنبلی مذہب کے علاوہ) کی تقلید کرنے میں کوئی حرج نہیں مانتے، اسی طرح اجتھاد میں ”تبعیض“ کے قائل ہیں یعنی انسان بعض مسائل میں اجتھاد کرے اور بعض مسائل میں تقلید کرے۔
حافظ وھبہ کہتے ہیں کہ نجدی علماء اپنی علمی حیات میں گذشتہ علماء کی تحریرں پر اعتماد کرتے ہیں، (یعنی اپنی طرف سے دخل وتصرف نہیں کرتے) اسی بناپر علماء کی کتابیں اوررسالے،منجملہ محمد بن عبد الوہاب اور اس کے بیٹوں کی کتابیں اسلوب و بیان کے اعتبار سے زیادہ علمی نہیں ہیں اور مصدرو مآخذکی حیثیت والی کتابیں بھی نایاب تھیں؟یہ لوگ مطلق اجتھاد کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اپنے کو احمد ابن حنبل، ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیّم کا مقلد سمجھتے ہیں۔
وہابی حضرات کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی چیز کے بارے میں کوئی نص (قرآنی آیات یا احادیث) موجود ہو تو پھر وہاں تقلید جائز نہیں ہے، چاہے وہ تقلید احمد ابن حنبل کی ہو یا ابوحنیفہ، شافعی یا امام مالک کی ہولیکن اگر کسی مقام پر کوئی نص موجود نہ ہو تو احمد ابن حنبل کی تقلید کو جائز جانتے ہیں، یعنی احمد ابن حنبل کا نظریہ ایک ایسی اصل ثابت ہے کہ جب کوئی دلیل نہ ہو تو پھر ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ یہ اصل اہل سنت کے نزدیک مثل قیاس ہے اور شیعوں کے نزدیک مثل عقل ہے، اس صورت میں وہابی ایک ہی زمانہ میں مجتہد بھی ہوتے ہیں اور مقلد بھی۔
ملک عبد العزیز نے۱۳۵۵ھ میں مکہ معظمہ میں اپنی تقریر میں اس طرح کہا کہ ہمارا مذہب دلیل کا پیرو ہے جب تک دلیل موجود ہے، اوراگر دلیل موجود نہ ہو تو اجتھاد کی باری آتی ہے اور اس صورت میں ہم احمد ابن حنبل کے اجتھاد کی پیروی کرتے ہیں۔
۱۶۔ جوچیزیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب کے زمانہ میں نہیں تھیں۔ ۔ ۔
حافظ وھبہ کہتے ہیں:جو چیزیں قدیم زمانہ سے نجدی علماء کے پاس موجود ہیں وہ ان کی بہت زیادہ پابندی کرتے ہیں، خصوصاً وہ چیزیں جو دین سے متعلق ہیں، چنانچہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ عقائد جس طرح سے قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں ان کو اسی حالت پر باقی رکھنا چاہئے اور ان میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے۔
وہابی حضرات کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ(جو بہترین زمانہ تھا) میں جو چیزیں موجود تھیں وھی سب کے لئے کافی ہیں اسی طرح ہمارے لئے بھی کافی ہیں، قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ وہابی علماء کی کتابوں میں سے وہ کتابیں بھی ہیں جو ان فرقوں کی ردّ میں لکھی گئی ہیں جو تاویل کا سھارا لیتے ہیں یا اپنے دینی عقائد کو فلاسفہ کے نظریات سے تطبیق دیتے ہیں۔
وہابی لوگ تصویر لینے کو بھی حرام کہتے ہیں (اور ظاہراً تصویر کی دونوں قسموں کو حرام جانتے ہیں کہ چاہے وہ ھاتھ کے ذریعہ بنائی جائے یا کیمرے کے ذریعہ فوٹو لیا جائے)((فِیلبی کہتا ہے کہ جب ایک بہت بڑے عالم دین نے قاہرہ جانا چاہاتو مصر کی حکومت سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ ان کو پاسپورٹ پر فوٹو لگانے سے معاف کرے۔
یہ لوگ فلسفہ اور منطق پڑھنے کو بھی حرام قرار دیتے ہیں، اسی لئے نجدی علماء میں منطق اور فلسفہ سے آشنائی رکھنے والے بہت کم ملےں گے۔
ہاں تک کہ لغت عرب اور ادبیات عرب میں ماہر افراد بھی بہت کم ہیں اسی طرح علوم بیان ،اشتقاق اور بلاغت کے جاننے والے بھی بہت ہی کم ملیں گے، ان کی معلومات تو صرف تاریخی (تاریخ سیرہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سیرہ خلفاء راشدین تک محدود)ہوتی ہے، اور تاریخ میں بھی دوسری تاریخو ںسے کوئی مطلب نہیں ہوتا، چاہے وہ قدیمی تاریخ ہوں یا تاریخ اسلام۔ جزیرة العرب میں کوئی نئی چیز کشف نہیں ہوئی ہے فقط بادشاہوں اور شاہزادوں کے خاندان اس فکر میں رہتے ہیں کہ آج کل کی کتابیں نئے انداز کی ہوں تاکہ ان کو پڑھا جائے وہ یہ چاہتے ہیں کہ نئی کتابوں کے ذریعہ تاریخ اور قانون اسی طرح لغت عرب کے آداب وغیرہ سے آگاہ ہوں۔
۱۳۴۹ھ میں علماء نجدنے فریاد وفغاں بلند کی اور مکہ معظمہ میں ایک جلسہ رکھا گیا جس میں ”ادارہ معارف“(محکمہ تعلیم)مکہ پر اعتراض کیا گیا اور اس کے خلاف قرار داد پاس کی، ان سب کاموں کی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ ادارے نے مدارسکے ”کورس“ میں انگریزی اور جغرافیہ کو شامل کر لیا تھا جس میں زمین کے گھومنے اوراس کے کرویت ہونے کی باتیں ہیں۔
جس وقت” شریف غالب “۱۲۲۱ھ میں (جیسا کہ بعدکی تفصیل سے معلوم ہوگا)وہابیوں کے مقابلہ میں تسلیم ہوا،اوراس پر یہ شرط رکھی گئی کہ جو کچھ بھی تیسری صدی کے بعد سے مسلمانوں میں پیدا ہوا، ان سب کو چھوڑدے، جن میں سے بعض چیزیں یہ ہیں :
اپنی مشکلات کے دورکرنے کے لئے غیر خدا کی طرف متوجہ ہونا، چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ، اسی طرح قبروں پر گنبد بنانا، قبروں کو بوسہ دینا یا قبروں کے سامنے خشوع وخضوع کرنا اورقبر میں سوئے مردوں کو پکارنا، قبروں کے اطراف طواف کرنا، اسی طرح قبروں کے لئے نذر اور قربانی کرنا، قبور پر اجتماعات کرنا یا عورتوں اور مردوں کا ایک ساتھ زیارت کرنا۔
وہابی حضرات صرف اسی چیز کو قبول کرتے ہیں جو سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ہو، اسی طرح جو چیزیں خلفائے راشدین اور صحابہ وتابعین یا وہ لوگ جو اجتھاد کے درجہ تک پہونچ گئے ہیں (یعنی تیسری صدی کے آخر تک) ان کے موافق ہو، ان ہی کو قبول کرتے ہیں، اسی بناپر ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو چیزیں تیسری صدی کے بعد وجود میں آئی ہیں وہ سب بدعتیں اور حرام ہیں اوران سب کوختم اور نیست ونابود کرنا واجب ہے۔
آلوسی کی تحریر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہابی حضرات دوسرے فرقوں کی کتابوں کو باطل جانتے تھے اسی وجہ سے ان کو نابود کردیتے تھے۔ آلوسی اس سلسلہ میں کہتے ہیں :
یہ کام ”عرب کے بدو اور جاہل لوگ“کیا کرتے تھے، جن کو ایسے کاموں سے روکا جاتا تھا۔
تمباکو نوشی حرام ہے
جس وقت وہابیوںنے حجاز پر غلبہ حاصل کیا اس سے پہلے مکہ میں تمباکو نوشی رائج تھی، صاحب تاریخ مکہ کہتے ہیں کہ۱۱۱۲ھ میں تمباکو مصر سے مکہ لایا گیا اور اسی وقت سے تمباکو نوشی کا آغاز ہوگیا، اور کچھ ہی مدت میں مکہ میں كُھلے عام تمباکو نوشی ہونے لگی۔
۱۱۴۹ھ میں شریف مسعود (شریف مکہ) نے تمباکو نوشی کی شدید مخالفت کی اور حکم دیا کہ مکہ معظمہ کے بازاروں اور قہوہ خانوں میں کوئی تمباکو نوشی نہ کرے، اور شھر کے حاکم کو بھی حکم دیا کہ اگر کوئی شخص کھلے عام تمباکو نوشی کرتا ہوا پایا جائے تو اس کو سزا دی جائے، حاکم نے تمام گلی کوچوں میں پھرہ لگادیا کہ کوئی تمباکو نوشی نہ کرے، لیکن وہ سب اپنے گھروں میں جمع ہوکر تمباکو نوشی کیا کرتے تھے تاکہ حاکم ان کو نہ دیکھ سکے۔
شریف مسعود نے تمباکو نوشی سے کیوں منع کیا اس کی دو وجھیں تھیں، ایک تو یہ کہ ان کا خود کا عقیدہ یہ تھا کہ تمباکو نوشی حرام ہے، اوردوسری وجہ لوگوں نے یہ بتائی ہے کہ علماء اوربزرگان دین کے سامنے تمباکو نوشی ایک طرح سے بے احترامی ہے، لہٰذا اس نے تمباکو نوشی کو حرام قرار دیدیا۔
بھر حال مکہ کے شریف غالب نے بھی۱۲۲۱ھ میں تمباکو نوشی کو ممنوع قرار دیا۔
شاید مکہ کے شریفوں نے تمباکو نوشی کو مذہبی پہلو کی بنا پر ممنوع قرار نہ دیاہو، لیکن وہابیوں نے جب حجاز پر قبضہ کرلیا تو تمباکو نوشی کو اس غرض سے ممنوع قرار دیا کہ تمباکو نوشی شروع کی تین صدیوں میں نہیں تھی لہٰذا تمباکو نوشی حرام ہے۔ اسی وجہ سے نجد کے حكّام تمباکو نوشی سے روکنے کا حکم دیتے تھے، مثلاً سعود بن عبد العزیز نے۱۲۲۲ھ میں پانچویں سفر حجمیں یہ اعلان کرادیا کہ مکہ کے بازاروں میں تمباکو نوشی ممنوع ہے، اسی طرح سعود نے یہ حکم بھی دیا کہ مکہ کے بازاروں میں کچھ لوگ نماز کے وقت یہ کہتے پھریں،”الصلوٰة، الصلوٰة
“
اسی طرح ترکی بن عبد اللہ (سعودی حاکم) نے نجد کے لوگوں کو ایک نصیحت آمیز خط لکھا جس میں گھٹیا زندگی اور تمباکو نوشی کے لئے ایک جگہ جمع ہونے سے منع کیا گیا تھا۔
علامہ امین عامِلی اس طرح فرماتے ہیں :حجاز میں تمباکو نوشی کو برا سمجھا جاتا تھا یہاں تک کہ تمباکو نوشی کرنے و الے کی پٹائی بھی کی جاتی تھی اور بعض اوقات تو قید خانہ میں بھی جانا پڑتا تھا، اسی موقع پر حجاز کے کسٹم آفس نے تمباکو کے لئے ٹیکس مقرر کر دیا تھا۔
عبد العزیز کے زمانہ میں نجد کا سفر کرنے والا ”امین ریحانی“ اس طرح کہتا ہے کہ نجد میں بلکہ ابن سعود کی تمام حدود میں تمباکو نوشی ممنوع ہے، کوئی بھی ”اَحساء“، ”عارِض“ اور”قصِیم“ کے بازاروں میں کھلے عام تمباکو نوشی اورسیگریٹ وغیرہ نہیں پی سکتاتھا، لیکن احساء اور قصیم میں گھروں کے اندر تمباکو نوشی ہوتی ہے۔
لیکن وہاں کے شیوخ لاپرواہی کرتے ہیں میں نے خود ریاض میں دیکھا ہے کہ بعض لوگوں نے بادشاہ کے نزدیکی لوگوں کے سامنے مخفی طور پرسگریٹ پی، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ متعصب علماء کی طرح تمباکو نوشی کی ممانعتکے قائل نہیں ہیں۔
ابن سعود، غیروں کے سیگریٹ وغیرہ پینے کے سلسلہ میں تجاہل کرتا تھا اور ان کی کوئی مخالفت نہیں کرتا تھا۔
اس کے بعد سے سعودی عرب کے اخبارات بھی تمباکو نوشی کی حرمت کے بجائے اس کے نقصانات کو بیان کرتے تھے اور یہ لکھتے تھے کہ لوگوں کو سگریٹ وغیرہ بالکل نہیں پینا چاہئے یا کم سے کم پینا چاہئے۔
ان کے نزدیک کچھ اور بدعتیں
محمد بن عبد الوہاب کا پوتا اپنی کتاب ”ہدیہ السنیہ“میں کہتا ہے کہ ہر وہ چیز جو پیغمبر اکرم کے زمانہ میں نہیں تھی اور تیسری صدی ہجری کے بعد پیدا ہوئی ہے بدعت اورناپسند ہے،
مثلاً چاروں مذہبوںکے اماموںکے لئے مسجدوں میں چار محراب بنانا، اورماذنہ سے شب جمعہ اورروز جمعہ نیز شب دوشنبہ میں مُردوں کو یادکرنا، اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرنا، اور گلدستہ اذان پر قرآن کی تلاوت کرنا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰت بھیجنا، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روز ولادت پر آپ کی سیرت کا جلسہ کرنا، نیز آپ کے ولادت کے موقع پرمترنم لہجہ میں صلوٰت اور قصیدہ پڑھنا، اور مردو ں کے لئے نماز کے بعد فاتحہ پڑھنا، یا جنازوں کو لے جاتے وقت فاتحہ پڑھنا، اسی طرح قبروں پر پانی چھڑکنا، اور ذکر خدا میں اپنی آواز بلند کرنا، عبادتگاہوں اور تکیوں میں اسلحہ اور علم وغیرہ لٹکانا، ان تمام چیزوں کو وہابی حضرات حرام جانتے ہیں۔
”فتنة الوہابیة“ نامی کتاب میں اس طرح موجود ہے کہ وہابی لوگ اذان کے بعد پیغمبر اکرم پر صلوٰت بھیجنے سے منع کرتے ہیں، چنانچہ ایک نابینا شخص نے اس ممانعت کے بعد بھی اذان کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰت بھیجی تو اس کو محمد بن عبد الوہاب کے پاس لے گئے اس نے اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دیدیا۔
کٹّر وہابیوں کے نزدیک دوسری حرام چیزیں یہ ہیں :لمبی موچھیں رکھنا، کپڑوں کوقدیم زمانہ کے معمولی اندازہ سے لمبا پہننا، یہ لوگ سب سے پہلے لمبی مونچھوں والے اور لمبے لباس والے کو تذکر دیتے تھے اور اس کے بعد جس مقدار میں بھی مونچھیں یا اس کا لباس لمبا دکھائی دیتاتھا اس کو کاٹ دیا کرتے تھے۔
ہم انشاء اللہ فرقہ اخوان کی بحث کے ضمن میں بیان کرےں گے کہ یہ لوگ سروں پر عقال (وہ ریسمان جو عرب اپنے سر پر چادر وغیرہ کو باندہنے کے لئے باندہتے ہیں) باندہنے کو جائز نہیں جانتے، اسی طرح نئی ٹکنالوجی کے استعمال کو بھی ممنوع قرار دیتے ہیں جیسے ٹیلی فون یا ٹیلی گراف وغیرہ۔
کسی چیز میں ”اصل“ حرمت ہے یا اباحت
وہابیوں اور دوسرے فرقوں میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ دوسرے فرقے اصل اباحت پر عمل کرتے ہیں یعنی ہر اس چیز کو حلال اورمباح جانتے ہیں جس کے بارے میں قرآن مجید یا سنت نبوی میں اس کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو، لہٰذا چائے یا قہوہ کا پینا، یا انگریزی ٹماٹر اور آلو کا کہانا جائز ہے اسی طرح وہ جدید چیزیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا اصحاب کے زمانہ میں موجود نہیں تھی یا ان سے استفادہ نہیں کیا جاتا تھا ان سب کا استعمال جائز ہے کیونکہ ان کی حرمت کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
لیکن وہابی حضرات مذکورہ چیزوں میں اصل حرمت کو معتبر جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر وہ چیزحرام ہے جس کے بارے میں حلال اور مباح ہونا معلوم نہ ہو، لہٰذا ان چیزوں کا انجام دیناجائز نہیں ہے۔
چنانچہ اسی اصل کی بناپر ہر نئی چیز کی مخالفت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ بادشاہ کے گھر کے ٹیلی فون کے تار وغیرہ بھی کاٹ ڈالے، اور مدارس میں جغرافیہ کی تعلیم کی مخالفت کی، اور اسی طرح کے دوسرے مسائل جن کے بارے میں اس کتاب کے آٹھویں باب ”جمعیة الاخوان“ میں توضیح دی گئی ہے۔
گلد زیھر کے قول کے مطابق، وہابی لوگ ان چیزوں کو بھی حرام جانتے ہیں، جن کو مذاہب اربعہ کے پیروکاروں نے مباح اور مستحب جانا ہے، لہٰذا یہ لوگ اہل سنت کے حدود سے خارج ہوگئے اور ان کے کارنامے صدر اسلام کے خوارج کی طرح ہیں۔
گلد زیھر، جو خود وہابیوں کا طرفدار ہے وہابیوں کی اہل سنت سے جدائی کو ثابت ہونے کے سلسلہ میں اپنی گذشتہ باتوں کو اس طرح آگے بڑھاتا ہے:بارہویں عیسوی صدی (چھٹی ہجری صدی) سے تمام اہل سنت غزالی کی بات کو آخری بات اورسنی مذہب کا آخری فیصلہ سمجھتے ہیں لیکن وہابی حضرات اپنی فقھی اور کلامی بحثوں میں غزالی کی باتو ںکی مخالفت کرتے ہیں، اور یہ مخالفت ابھی بھی(گلد زیھر کا زمانہ بیسوی صدی کے شروع کا زمانہ) جاری ہے۔
چند ملاحظات
وہابیوں کے عقائد کی بحث کے اختتام پر چند نکتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، تین ملاحظات خلاصةً پیش خدمت ہیں:
ہر وہ چیز جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب کے زمانہ میں (پہلی تین ہجری صدیوں میں ) نہیں تھی اور بعد میں پیدا ہوئی وہ سب حرام اور بدعت ہے،۔ واقعاً اگر ایسا ہی عقیدہ ہو تو یہ چیز دین اسلام میں انجماد کا سبب ہے جو دین مبین اسلام کی حقیقت اور اس کے جاودانی ہونے سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
وہ دین جو جدید علم اور ٹکنالوجی اور نئی نئی ایجادات سے ہم آہنگ نہ ہو کس طرح عالمی اور جاودانی ہوسکتا ہے؟!
یہ وہ مطالب ہیں جن پر وہابی مذہب کے بارے میں تحقیق کرنے والوںنے اپنی اپنی کتابوں میں اشارہ کیا ہے۔
اس سلسلہ میں اور اسی طرح کے دوسرے مسائل میں وہابیت کی طرف مائل ہونے والے افراد نے ان چیزوں پر اعتراضات کئے ہیں، ہم یہاں پر ان میں سے چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
آلوسی جو مذہب وہابی کے پکے طرفداروں میں ہیں، وہ حکومت سعود بن عبد العزیز کی شرح کرتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں:
سعود نے اگرچہ عرب کی بڑی بڑی شخصیتوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرلیا تھا، لیکن اس نے لوگوں کو حج بیت اللہ الحرام سے روکا، اور سلطان (سلطان عثمانی) پر خروج کیا اور فرقہ وہابی کے علاوہ دوسرے اسلامی فرقہ کو کافر کہنے میں غلو کیا، اور بہت سے اسلامی احکام میں بہت شدت اور سخت گیری کی، چنانچہ اس کے زمانہ میں نجدی علماء اکثر امور کو ظاہر پر حمل کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص انصاف سے کام لے تو نجدی علماء اورعوام الناس کا مسلمانوں سے جنگ وجدال کو جھاد کا نام دینے اور مسلمانوں کو حج سے روکنے سے قطع نظر، عراق اور سوریہ کو لوگوں کی غیر خدا کی قسم کہانے، اور صالحین کی قبروں کو سونے اور چاندی سے زینت کرنے، نیزوہاں پر نذر کرنے، یا اس طرح کی اور دوسری چیزیں جن کو شارع مقدس نے ممنوع قرار دیا ہے ان سب کو چھوڑکر اسے درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے لئے دین میں افراط وتفریط (کمی اور زیادتی کرنا) جائز نہیں ہے، گذشتہ صالحین کی پیروی کرنا ضروری اور بھتر ہے، اور ایک دوسرے کو کفر کی نسبت دینے سے پر ھیز کرنا چاہئے جو خدا وندعالم کے خشم وغضب کا باعث ہے۔
ھی آلوسی صاحب عبد اللہ بن سعود کے حالات زندگی میں اس طرح کہتے ہیں: عبداللہ نے اپنے ماسبق کی طرح عرب کے قبیلوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا اور پانچوں وقت کی نمازِجماعت میں شرکت کرنے پر آمادہ کیا، لیکن سلطان (سلطان عثمانی) کے ساتھ جو جسارت کی اس میں اس نے خطا اور غلطی کی، وہ اگر نجد اوراس کے تابع علاقوں پر اکتفاء کرتا تو اس کے لئے بھتر تھا اور اس سے زیادہ ترقی کرتا، خصوصاً ان قبیلوں کی تعلیم وتربیت میں ثواب عظیم کا مالک ہوتا جو حیوانوں کی طرح یا اس سے بھی پست تر تھے۔
امریکن رائٹر ”لوٹروپ سٹوڈارڈ“ وہابیوں کی طرفداری کرتا ہوا ان کی بہت زیادہ تعریف وتمجید کرتا ہے اور وہابیوں کے وجود کو مسلمانوں میں بیداری کا سبب مانتا ہے اور اس طرح کہتا ہے کہ وہابیوں کی دعوت خالص اصلاح کی دعوت تھی، جس میں شک وہم اور شبھات کو دور کرنا مقصود تھا۔ درمیانی صدیوں میں دین کی جو مختلف تفسیریں اورمختلف حاشیہ پیدا ہوگئے تھے ان کو ختم کیا اور بدعتوں اور اولیاء اللہ کی پرستش کو نابود کیا، خلاصہ یہ کہ یہ لوگ اس پرانے دین کی طرف پلٹنا چاہتے تھے جو شروع میں تھا، اور وہ اسلام کی حقیقت اور اس کے جوھر کو پیش کرنا چاہتے تھے یعنی اس توحید کو لوگوں کے سامنے بیان کرناچاہتے تھے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے تھے ۔ انھوں نے اس قرآن کو اپنا رہبراور پیشوا قرار دیا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوا، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ قرآن کی تاویل اور تفسیر نہ کی جائے، (چنانچہ محمد بن عبد الوہاب کہتا تھا کہ) اس کے علاوہ تمام چیزیں باطل ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نھیں، دین کے ارکان اور واجبات اور قواعد مثلاً نماز وروزہ وغیرہ کی پابندی کرنے کو مناسب سمجھتا تھا، یہ لوگ (وہابی حضرات) اپنی زندگی میں غیر معمولی سادگی رکھتے تھے، ابریشمی کپڑے اور مختلف قسم کے کہانوں، شراب نوشی اور قہوہ پینا اورافیون اور تمباکو نوشی یا ہر وہ چیز جو اسراف کا سبب ہو یا عقل کے لئے نقصان دہ ہو، ان سب چیزوں کو حرام جانتے تھے۔
”لوٹروپ سٹوڈارڈ“ اس کے بعد کہتا ہے: میں نے جو کچھ کہا وہ ا ن کی ساری باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ ان دینی عمارتوں کو جو مختلف چیزوں سے زینت کی جاتی ہیں ان کو بھی حرام جانتے ہیں، اور اسی وجہ سے انھوں نے مرقد مطھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بنے گنبد کو ویران کردیا اور مسجد نبوی پر بنے گلدستوں کو گرادیا، (قارئین کرام! اگر چہ اس کی یہ بات غلط ہے، کیونکہ انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے گنبد اور مسجد کے گلدستوں کو نہیں گرایا اور اس کی وجہ ہم وہابیوں کی تاریخ میں بیان کریں گے)۔
چنانچہ انھوں نے دینی واجبات اور قواعد وآداب سے شدید لگاؤ کی وجہ سے ان چیزوں کی نسبت افراط کا راستہ انتخاب کیا یعنی ان چیزوں میں زیادہ روی کی اور انھیں چیزوں کے اثر کی بنا پر بعض اہل دقت لوگوں نے وہابیوں کے راستہ کو دلیل اور برہان قرار دیا کہ اسلام در حقیقت آج کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اورمعاشرہ کی موجودہ ترقی و تبدیلی کے موافق اور زمانہ کے ساتھ سازگار نھیںھے۔
اسی طرح چودہویں صدی کے عثمانی مولفین میں سے ”سلیمان فائق بک“ وہابیوں کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں کہ اگرچہ وہابیوں کے مذہبی اعتقادات اہل سنت والجماعت، سلف صالح اور وہ لوگ جو احتیاط کی طرفمائل ہیں ان کے اعتقادات سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے لیکن ان کے مذہبی کٹّر پن نے ان کو راہ راست سے منحرف کردیا یہاں تک کہ اپنی مرضی سے حلال یا حرام کا فتویٰ دیتے ہیں، مثلاً انھوں نے صالحین کی قبر کی زیارت اور ان کی روحانیت سے متبرک ہونے کو بھی حرام قرار دیا ہے، اور جو لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں ان کے کفر کا بھی فتویٰ دیا، اور ان کا تعصب اور کٹّرپن اس درجے پر پہونچاکہ اپنے علاوہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا، العیاذ باللہ۔
ہاںعرب کے مشہور ومعروف مولف”احمد امین“ کی اس بات کو نقل کرنا مناسب ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس وقت محمد بن عبد الوہاب کے زمانہ کو دسیوں سال گذر چکے ہیں اور بہت سے بھادروں اور جنگجو جوانوں نے اس سے مقابلہ میں جنگیں لڑیں ہیں لیکن ان کا کیا نتیجہ ہوا؟ مسلمانوں کے تمام فرقے قبروں اور ضریحوں سے توسل کرنے اور ان سے حاجت طلب کرنے کے سلسلہ میں اسی پرانی حالت پر باقی ہیں جس طرح کے محمد بن عبد الوہاب کے زمانہ سے پہلے تھے اور اسی زمانہ کی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسری ولادتوں پر جشن محفلیں کرتے ہیں، (اگرچہ اس طرح کی محفلوں کی رونق کم ہوگئی ہے) صرف بعض خاص الخاص لوگوں میں اس کی دعوت کا اثر ہوا ہے، اسی طرح آج کل کے پڑھے لکھے جوان، بزرگوں کی قبور اور ان کے مزار وں کی پناہ حاصل نہیں کرتے اور اپنے آباء واجداد کی طرح قبروں سے متوسل نہیں ہوتے، لیکن یہ جوان ایسے ہیں جو اپنے آباء واجداد کی طرح خدا سے بھی متوسل نہیں ہوتے اور اس سے بھی التجا نہیں کرتے۔
اس بحث کے اختتام پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ امریکن رائٹروں کی کتابوں کو پڑھ کر کوئی یہ خیال نہ کرلے کہ اسلام ایک جامد دین ہے اور ترقی یافتہ زمانہ سے ہم آہنگ نہیں ہے ،ضروری ہے کہ دیگر اسلامی فرقوں کے نزدیک اصل اباحہ اور مسئلہ اجتھاد کو بھی پیش نظر رکھیں:مثلاً شیعہ مذہب میں ہر چیز میں ”اصل اباحت“ ہے، یعنی ہر وہ چیز جس کے بارے میں حرمت پر دلیل موجود نہ ہو، جائز اور مباح ہے، اور اس کے انجام دینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اسی طرح دوسرے فرقے بھی (وہابی کے علاوہ) اصل اباحہ کو قبول کرتے ہیں،دوسری بات یہ ہے کہ شیعہ مذہب کے مجتہدین ہر نئی چیز کا حکم چاروں دلیلوں (قرآن، سنت، اجماع اور عقل) کے ذریعہ استنباط کرتے ہیں، لہٰذا دین اسلام جو خود فکر وعلم اور عقل کا دین ہے ہر زمانہ اور ہر جگہ سے ہم آہنگ ہے اور دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہوگا جس میں شیعہ مجتہدین مسئلہ کا حکم شرعی استنباط نہ کرسکیں۔
محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کے بارے میں
جب سے محمد بن عبد الوہاب نے اپنے عقائد کا اظھار کیا اور لوگوں کو ان کے قبول کرنے کی دعوت دی، اسی وقت سے بڑے بڑے علماء نے اس کے عقائد کی پر زور مخالفت کی، شدید مخالفت کرنے والوں میں سب سے پہلے خود اس کے پدر محترم عبد الوہاب تھے اور اس کے بعد ان کے بھائی جناب شیخ سلیمان بن عبد الوہاب تھے اور یہ دونوں حنبلی علماء میں سے تھے، شیخ سلیمان نے تو محمد بن عبد الوہاب کی رد میں کتاب ”الصواعق الا لٰھیة فی الرد علی الوہابیة“تالیف کی، اور اس کے عقائد کو باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ ردّ کیا ہے۔
زینی دحلان کہتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے پدر گرامی ایک صالح عالم دین تھے، اور اس کے بھائی شیخ سلیمان نے شروع ہی سے یعنی جب سے محمد بن عبدالوہاب تحصیل علم میں مشغول تھا اور اس کی باتوں اور اس کے کاموں سے یہ اندازہ لگایا لیا تھا کہ یہ اس طرح کا خیال اورنظریہ رکھتا ہے اسی وقت سے اس پر لعن وملامت کیا کرتے تھے اور اس کو ہمیشہ اس کام سے روکتے رہتے تھے۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے سب سے بڑے مخالف اس کے بھائی شیخ سلیمان صاحب کتاب”الصواعق الالٰھیة فی الرد علی الوہابیة“ تھے، چنانچہ شیخ سلیمان اپنے بھائی کی باتوں کو ردّ کرتے ہوئے کہتے ہیں :یہ کام (جن کو وہابی لوگ شرک اورکفر کا باعث سمجھتے ہیں) احمد ابن حنبل اور ائمہ اسلام کے زمانہ سے پہلے موجود تھے، جبکہ بعض لوگ اس وقت بھی ان کے منکر تھے اور ان سب کو ائمہ اسلام نے سنا لیکن کسی ایک روایت میں یہ نہیں آیا ہے کہ انھوں نے ان اعمال کو بجالانے والوں کو مرتدّ یا کافر کہا ہو یا ان سے جھاد کرنے کا حکم دیا ہو، یا مسلمانوں کے ملک کو جس طرح تم کہتے ہو بلاد شرک یا دار ا لکفر کہا ہو، اسی طرح ائمہ
کے زمانہ کو(۸۰۰)سال کی مدت گذر رہی ہے، کسی بھی عالم دین سے کوئی روایت نہیں ہے کہ ان کاموں کو کفر اور شرک جاتا ہو،
خدا کی قسم تمھاری باتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام امت احمد ابن حنبل کے زمانہ سے چاہے عالم ہوں یا عوام الناس، چاہے حاکم ہوں یا عام لوگ، سب کے سب کافر اور مرتدّ ہیں،(
اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
)
، شیخ سلیمان بہت افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں :” اللہ کی پناہ“،!کیا تم سے پہلے کسی نے دین اسلام کو نہیں سمجھا تھا،
صواعق الالٰھیہ کے علاوہ اور د وسری کتابیں محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کی ردّ میں لکھی گئی ہیں جنھوں نے محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو ایک ایک کرکے نقل کیا اور ان کو باقاعدہ دلیلوں کے ساتھ ردّ کیا ہے، ان میں سے صاحب اعیان الشیعہ علامہ سید محسن حسینی عامِلی کیکتاب ”کشف الارتیاب فی اتباع محمد ابن عبد الوہاب“ ہے، یہ کتاب اپنی صنف میں بہترین کتاب ہے۔
وہابیت کے طرفداروں میں سے عبد اللہ قصِیمی مصری نے کتاب ”کشف الارتیاب“ کی ردّ ”الصّراع بین الوثنیة والاسلام“ لکھی، اور اس کتاب کے جواب میں محمد خُنیزی نجفی نے ”الدعوة الاسلامیہ“ نامی کتاب لکھی جس کی چند جلدیں چھپ بھی چکی ہیں۔
اسی طرح وہابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتاب ”منہج الرشاد“ تالیف علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء ہے۔
وہابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی ایک اور کتاب ”شواہد الحق فی الاستغاثة بسید الخلق“ تالیف شیخ یوسف نبھانی ہے، یہ کتاب ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب دونوں کی ردّ میں لکھی گئی ہے۔
اسی طرح وہابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے ”مصباح الانام وجلاء الظلّام“ تالیف سید علوی بن احمدبھی ہے، بنابر نقل ابی حامد بن مَرزوق کتاب”التوسل بالنبی وجھلة الوہابیین“ھے۔
اسی طرح علماء ازھر میں سے شیخ محمد نجیت مطیعی صاحب کی کتاب ”تطھیر الفواد من دنس الاعتقاد“ ہے۔
اسی طرح وہابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابوں میں علامہ عراق جمیل افندی صِدقی زِھاوی کی کتاب ”الفجر الصادق فی الردّ علیٰ منکری التوسل والکرامات والخوارق“ بھی ہے۔
انھیں کتابوں میں ”ضیاء الصدور لمنکر التوسل باہل القبور“ تالیف ظاہر شاہ میان بن عبد العظیم بھی ہے۔
کتاب ”المنحة الوھبیة فی الردّ علی الوہابیة“ تالیف داود بن سلیمان نقشبندی بغدادی بھی وہابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ہے۔
اسی طرح کتاب ”اشد الجھاد فی ابطال دعویٰ الاجتھاد“ تالیف شیخ داود موسوی بغدادی بھی ہے جو کتاب ”منحة الوھبیة“ کے ساتھ چھپ چکی ہے۔
اسی طرح ایک رسالہ ”کشف النور عن اصحاب القبور“ تالیف عبد الغنی افندی نابُلِسی وہابیت کی ردّ میں چھپ چکا ہے۔
کتاب ”الاصول الاربعة فی تردید الوہابیة“ تالیف خواجہ محمد حسن جان صاحب سرہندی (فارسی زبان میں )چھپ چکی ہے۔
اسی طرح کتاب ”سیف الابرار علی الفجار“ تالیف محمد عبد الرحمن حنفی (فارسی زبان میں چھپ چکی ہے)، (جو وہابیوں کے طرفدار نذیر حسین کے فتووں کی ردّ ہے۔)
اسی طرح ایک رسالہ ”سیف الجبار المسلول علی الاعداء الابرار“ تالیف شاہ فضل رسول قادری ہے (جو عربی اور فارسی زبانوں میں ہے۔
کتاب ”مدارج السنیة فی ردّ علی الوہابیة“ بھی وہابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ہے جس کو عامر قادری معلم دار العلوم کراچی، نے تالیف کیا ہے (یہ کتاب عربی زبان میں اردو ترجمہ کے ساتھ چھپ چکی ہے)
اسی طرح وہابیوں کی ردّ میں لکھی گئی کتابوں میں ایک کتاب ”تھَكُّم المقلدین بمن ادّعی تجدید الدین“ تالیف محمد بن عبد الرحمن بن عفالق ہے جس میں وہابیوں کی تمام باتوں کا جواب دیا گیا ہے اور اس میں علوم شرعی اور ادبی سوال کئے گئے ہیں۔ (زینی دحلان کے قول کے مطابق)
اسی طرح کتاب ”البراہین الجلیة“ تالیف سید محمد حسن قزوینی ہے جو وہابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ہے۔
وہابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابو ں میں ایک ”کشف النقاب عن عقائدابن عبد الوہاب“ تالیف سید علی نقی(نقّن صاحب) ہندی بھی ہے ۔
اسی طرح کتاب ”ازھاق الباطل فی ردّ الفرقة الوہابیة“ تالیف امام الحرمین محمد بن داود ہمدانی تیرہویں صدی کے علماء میں سے۔
اسی طرح ”لمعات الفریدة فی المسائل المفیدة“ نامی کتاب تالیف سید ابراہیم رفاعی ہے۔
”ھذی ہی الوہابیة“ نامی کتاب تالیف شیخ جواد مغنیہ بھی ان کتابوں میں سے ایک بہترین کتاب ہے۔
اسی فھرست میں ”الدولة المکیة بالمادة الغیبیة“ تالیف احمد رضا خانصاحب قادری بھی ہے۔
رسالہ ”الاوراق البغدادیة فی الحوادث النجدیة“ تالیف سید ابراہیم راوی رفاعی ہے۔
انھیں کتابوں میں مشہور ومعروف کتاب ”الغدیر“ تالیف مرحوم علامہ شیخ امینی کی کتاب کا ایک حصہ وہابیوں کی ردّ میں لکھا گیا ہے۔
محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو ردّ کرنے والی کتابوں میں سید احمد زینی دحلان مفتی مكّہ معظمہ کی کتاب ”الفتوحات الاسلامیہ“ بھی ہے جس میں محمد بن عبد الوہاب پر شدید حملہ کیا ہے۔
اس مذکورہ کتاب میں زینی دحلان نے محمد بن سلیمان کردی کی بعض ان باتوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کو موصوف نے محمد بن عبد الوہاب کی ردّ میں بیان کیا ہے۔
زینی دحلان کے وہابیت کی ردّ میں لکھے گئے چندمستقل کتابیں اب بھی باقی ہیں جن میں سے ”فتنة الوہابیة“ اور ”الدرر السنیة فی الردّ علی الوہابیة“ ہیں۔
ہاں پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ آخری سالوں میں جو کتابیں وہابیوں کی ردّمیں لکھی گئی ہیں ان میں سے اکثرترکی،ہندوستان اور پاکستان کے حنفی علماء کی ہیں،اور اس سلسلہ میں آج کل ترکی(استامبول) سے بہت زیادہ کتابیں اور رسالے چھپے ہیں، اور شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہابیوں کے سب سے زیادہ حملے ابوحنیفہ کے عقائد اور ان کے نظریات پر ہوئے ہیں۔
ایک یاد دہانی
مختلف علماء کی طرف سے محمد بن عبد الوہاب کی ردّ یا اس کو نصیحت کے طور پر لکھی جانے والی کتابیں ان سے کہیں زیادہ ہیں جن کو ہم نے بیان کیا ہے، ان تمام کا ذکر کرنا مشکل تھا، ان کتابوں کا ذکر محمد بن عبد الوہاب کی ردّ میں لکھی گئی مذکورہ بالا کتابوں میں موجودہے منجملہ: ان کے کتاب ”التوسل الی النبی“ تالیف ابی حامد بن مرزوق میں ۴۲ایسی کتابو ںکا ذکر کیا ہے جو وہابیت کی ردّ میں لکھی گئی ہیں، ہم یہاں پر ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ مقالہ شیخ محمد ابن سلیمان كُردی، جو محمد بن عبد الوہاب کے استاد، رسالہ شیخ سلیمان بن عبد الوہاب برادر محمد بن عبد الوہاب (ظاہراً رسالہ سے مراد ”الصواعق الالٰھیہ“ ہے)
۲۔ کتاب ”تجرید سیف الجھاد لمدعی الاجتھاد“ تالیف عبد اللہ ابن عبد اللطیف شافعی ،(یہ بھی محمد بن عبد الوہاب کے استاد ہیں)
۳۔ ”الصواعق والرعود“ تالیف عفیف الدین عبد اللہ بن داود حنبلی، اس کتاب پر بصرہ، بغداد، حلب، احساء اور دیگر ملکوں کے مشہور ومعروف علماء نے تقریظ لکھی ہے اور اس کتاب کی تائید کی ہے۔
۴۔ رسالہ احمد ابن علی بصری شافعی۔
۵۔ رسالہ عبد الوہاب بن احمد برکات شافعی مكّی۔
۶۔ رسالہ ”الصّارم الہندی فی عنق النجدی“ تالیف شیخ عطای مکی۔
۷۔ رسالہ ”السیوف الصقال فی اعناق من انکر علی الاولیاء بعد الانتقال“ بیت المقدس کے ایک عالم دین کی تالیف۔
۸۔ ”تحریض الاغنیاء علی الاستغاثة بالانبیاء والاولیاء“ تالیف عبد اللہ ابن ابراہیم مقیم طائف۔
۹۔ ”الانتصار للاولیاء الابرار“ تالیف طاہر حنفی، اہل طائف، (بقول سید علوی ابن احمد حداد)
۱۰۔ سید علوی بن احمد حدّاد کہتے ہیں کہ حرمین شریفین کے عظیم علماء، نیز بغداد، بصرہ، احساء، حلب، یمن اور دیگر اسلامی شھروں کے علماء نے وہابیت کی ردّ میں نظم اور نثر دونوں میں بہت سی کتابیں لکھیں، ان سب کو میں نے بحرین کے قبیلہ آل عبد الرزّاق کے ایک حنبلی شخص کے پاس دیکھا اور چونکہ میں سفر میں تھا اس وجہ سے ان کو لکھنا ممکن نہیں تھا لیکن میں نے ان سب کا مطالعہ کیا۔
۱۱۔ کتاب ”سعادة الدارین“ تالیف شیخ ابراہیم سمنودی۔
۱۲۔ ”غوث العباد ببیان الرشاد“ تالیف شیخ مصطفی حمامی مصری۔
۱۳۔ ”النُّقول الشرعیہ فی الردّ علی الوہابیہ“تالیف شیخ حسن شطّی حنبلی دمشقی ۔
۱۴۔ رسالہ ”توسل بالانبیاء والاولیاء“تالیف شیخ محمد حسنین مخلوف۔
۱۵۔ ”المقالات الوافیة فی الردّ علی الوہابیة“ تالیف حسن خزبک۔
۱۶۔ ”الاقوال المرضیة فی الرد علی الوہابیہ“ تالیف شیخ عَطا الكَسَم دمشقی۔
بعض مذکورہ کتابوں سے کچھ اقتباسات
وہابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابوں سے ہم نے پہلے کچھ چیزیں بیان کی ہیں یہاں پرکچھ دیگر کتابوں سے بعض اقتباسات نقل کرتے ہیں:
دار العلوم کراچی کے مدرس عامر قادری صاحب کہتے ہیں :
ہم نے وہابیوں کا یہ عقیدہ سنا کہ غیر خدا کو پکارنا شرک ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم اور دیگر اولیاء کرام کو پکارنا جائز ہے، اب رہا دلیل کا مسئلہ تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے استغاثہ کرنے کی دلیل عبد الرحمن بن سعد کی وہ روایت ہے کہ جب عبد اللہ ابن عمر کا پیر”بے حِس“ہوگیا تو ان سے کسی نے کہا کہ جس کو تم سب سے زیادہ دوست رکھتے ہو اس کو پکارو! تو انھوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارا، (اور ان کا پیر صحیح وسالم ہوگیا) اور ایک روایت کے مطابق ابن عباس کا پیر بے حس ہوا، اور جب انھوں نے پکارا ”یامحمداہ“ (تو ان کا پیر صحیح وسالم ہوگیا) اب رہا ولی اللہ کو پکارنے کا مسئلہ تو ولی اللہ نبی کے تابع ہیں۔ (یعنی جس دلیل کے ذریعہ پیغمبر اور نبی سے استغاثہ کرنا صحیح ہے اسی طرح اس کے ولی سے استغاثہ کرنا صحیح اور جائز ہے)
پیغمبر اور اولیاء اللہ سے توسل کرنا مستحکم دلیلوں کے ذریعہ ثابت ہے، کیونکہ خداوندعالم نے فرمایا ہے:(
وَابْتَغُوْا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ
)
(خدا تک پہونچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو)۔
وہابی کہتے ہیں کہ کسی کو بھی حق شفاعت حاصل نھیں،چاہے پیغمبر ہو یا ولی، اور اگر کوئی ان کے لئے شفاعت کا قائل ہو تو وہ مشرک اور ابوجھل کی طرح ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ شفاعت کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
(
وَلاٰ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ اِلاّٰ لِمَنْ اَذِنَ لَهُ
)
۔
”اس کے یہاں کسی کی سفارش کام آنے والی نہیں ہے مگر وہ جس کو خود اجازت دیدے“۔
نیز ارشاد رب العزت ہے(
مَاْ مِنْ شَفِیْعٍ اِلاّٰ مِنْ بَعْدِ اِذْنِه.
)
”کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے“۔
قرآن کریم کی دلیلوں کے بعد احادیث نبوی کے ذریعہ شفاعت پر دلیل موجود ہے، مثلاً جناب عفان کی وہ روایت جس میں تین گروہ شفاعت کرنے والے ہیں: پہلے انبیاء ان کے بعد علماء اور ان کے بعد شہداء، (جامع الصغیر ج(۲)ص ۲۰۷)
اسی طرح یہ حدیث شریف: کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”شَفَاعَتِیْ لِاهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ اُمَّتی
“(مشکوٰة ص ۴۹۴)
میں اپنی امت کے گناہ گاروں کی شفاعت کروں گا۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”وَشَفَاعَتِی لِاهْلِ الذُّنُوْبِ مِنْ اُمَّتی
“(جامع الصغیر ج۲ ص۳۳)
میں اپنی امت کے اہل ذنوب (گناہگاروں) کی شفاعت کرونگا۔
لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ قیامت کے دن گناہگاروں کی شفاعت کریں گے، اور جو لوگ وہابیوں کی طرح شفاعت کے منکر ہوں گے ان کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت نصیب نہیں ہوگی، کیونکہ ”فتح الباری“ میں یہ حدیث موجود ہے کہ ”مَنْ كَذَّبَ بِالشَّفَاعَةِ فَلاٰ نَصِیْبَ لَهُ فِیْها
“ (جو شخص شفاعت کا انکار کرے اس کو شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔
اسی طرح خواجہ محمد حسن خان صاحب ہندی حنفی اپنی کتاب ”رسالہ الاصول الاربعة فی تردید الوہابیة“ میں جو فارسی زبان میں ہے ہندوستان میں وہابیت کے طرفدار لوگوں کی کتابوں اور رسالوں اور دوسرے لوگوں کی کتابوں سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
” وہابیوں کے عقائد کی فھرست تقریباً(۲۵۰)تک پہنچی ہے اور ان میں سے موصوف نے بعض کو بیان کیا ہے،
ان میں سے کچھ یہ ہیں کہ یہ فرقہ توحید کو اپنے سے مخصوص کرتا ہے اور دوسرے تمام فرقوں کو مشرک فی التوحید جانتا ہے، اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوندعالم کو جھت اور مکان سے پاک ومنزّہ جاننا ایک بدعت اورگمراہی ہے، اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء احکام کی تبلیغ میں معصوم نہیں ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم صرف اپنے بڑے بھائی کی تعظیم کے برابر ہونی چاہئے، اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبر میں حیات نہیں رکھتے، اسی طرح انبیاء اور اولیاء اللہ کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے، اور وہ سنتے بھی نہیں ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ فقہ کی رائج کتابیں پڑھنے سے انسان کافر ہوجاتا ہے لہٰذا ان کتابوں کا جلانا ضروری ہے،(مشکلات کے وقت پیغمبروں، شھیدوں اور فرشتوں کو پکارنا شرک ہے، لہٰذا اس زمانہ کے تمام لوگ کافر ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ مقدس کے سامنے بطور تعظیم کھڑا ہونا شرک ہے۔
اس کے بعد موصوف وہابیوں کے عقائد کی ردّ کرتے ہیں، اور قبور کی زیارت کے سلسلہ میں امام محمد بن ادریس شافعی کا قول نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ ابن جعفرںکی قبر دعا کے قبول ہونے میں مجرّب ہے، اور ذھبی کی کتاب” تذکرة الحفاظ“ سے نقل کرتے ہیں کہ اہل سنت کے بزرگ حضرات جب خراسان میں حضرت امام رضاںکی قبرپر زیارت کے لئے جاتے ہیں تو کس قدر خضوع، خشوع اور تضرع کرتے ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب ”تہذیب التہذیب“ (جلد(۷)ص۳۸۸) میں اس طرح لکھتے ہیں:
”قَالَ (اِیِ الْحَاكِم) وَسَمِعْتُ اَبَابَكْرٍ مُحَمَّدِ بِنْ المُومِّل یِقُوْلُ خَرَجْنَا مَعَ اِمَاِم الْحَدِیْثِ اَبِی بَكْرِ بْنِ خُزِیْمَة وَعَدِیْلِهِ اَبِی عَلِیٍّ الثَّقَفِی مَعْ جَمَاعَةٍ مِنْ مَشَایِخنَا وَهم اِذْ ذَاكَ مُتَوَافِرُوْنَ اِلٰی قَبْرِ عَلِیِّ ابْن مُوسٰی الرِّضَا ں بِطُوْس، قَالَ فَرَایْتُ مِنْ تَعْظِیْمِهِ یِعْنی اِبْنَ خُزِیْمَةِ لِتِلْكَ الْبُقْعَةِ وَتَوَاضِعِه لَها وَتَضَرّعِهِ عِنْدَها مَاتَحَیَّرنَا“
(حاکم نیشاپوری) کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن مومّل کو یہ کہتے سنا ہے : میں علم حدیث کے ماہر ابوبکر بن خزیمہ اور ابو علی ثقفی (ان کا علم بھی انھیں کی طرح ہے) اور ان کے بہت سے استاد کے ساتھ تھا جو حضرت امام رضا ں کی طوس میں زیارت کے لئے جارہے تھے اس وقت میں نے ابن خزیمہ کو اس قدر تعظیم، تواضع اور تضرع کرتے دیکھا کہ مجھے تعجب ہونے لگا۔
مشہور ومعروف محدث ابو حاتم بن حبان حضرت امام علی الرضا ں کے زندگی نامہ میں اس طرح لکھتے ہیں :
” مَا حَلَّتْ بی شِدَّةٌ فی وَقْتِ مَقَامی بِطُوْسْ وَزُرْتُ قَبْرَ عَلِیِّ ابْنِ مُوْسٰی الرِّضَا(ع) صَلَٰواتُ اللّٰهِ عَلٰی جَدِّهِ وَعَلَیْهِ وَدَعُوْتُ اللّٰهَ تَعٰالیٰ اِزَالَتَها عَنِّی اِلاّٰ اَسْتُجِیْبَ لِی وَزَالَتْ عَنِّی تِلْكَ الشِّدَّةُ وَهَذَا شَئْيٌ جَرَّبتُهُ مِرَاراً
“
”جس وقت میں طوس میں تھا کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا کہ میں پریشان رہا، کیونکہ میں حضرت امام علی ابن موسی الرضا+ کی قبر کی زیارت کرتا تھا اور خدا سے رفع مشکل کے لئے دعا کرتا تھا تو میری دعا قبول ہوجاتی تھی اور میری مشکل بھی دور ہوجاتی تھی اور میں نے اس چیز کا بار بار تجربہ کیا ہے“۔
مذکورہ کتاب کے مولف نے قبروں کی زیارت کے سلسلہ میں اور بھی دوسری چیزیں نقل کی ہیں مثلاً ابوحنیفہ اور معروف کرخی کی قبروں کی زیارت کے بارے میں بیان کیا ہے۔
اسی طرح عراق کے مشہور ومعروف مولف اور شاعر جمیل صدقی زھاوی بھی ہیں، چنانچہ موصوف کہتے ہیں :
” محمد بن عبد الوہاب اپنے ان عقائد کو پیش کرنے سے پہلے ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا مطالعہ کا بے حد شوقین تھامثل مسیلمہ کذاب، سجاح، اسود عنسی اور طُلیحہ اسدی وغیرہ جیسا کہ بعض مشہور ومعروف مولفین نے اس بات کو لکھا ہے کہ، ظاہراً وہ پیغمبری کا دعویٰ کرنا چاہتا تھالیکن اتنی جرات نہ کرسکا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے شھر کے لوگوں کو انصار اورجو دوسرے شھروں سے اس کے پاس آتے تھے ان کو مھاجر ین کہتا تھا، اور جو شخص اس کے عقائد کو قبول کرلیتا تھا اگر اس نے اپنا واجب حج کرلیا ہے تو اس کو دوبارہ حج کرنے کا حکم دیتا تھا، کیونکہ اس نے پہلا حج اس صورت میں انجام دیا تھا جب وہ مشرک تھا، اور اسی طرح جو شخص اس کے مذہب میں وارد ہوتا تھا اس کے لئے یہ شھادت دےنا ضروری تھا کہ میں پہلے کافر تھا اور اس کے ماں باپ بھی کافر مرے اور گذشتہ علماء بھی کافر تھے، اور اگر وہ ان باتوں کی شھادت نہیں دیتا تھا تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں اپنے سے چھ سو سال پہلے والے تما م لوگوں کو کافر سمجھتا تھا، چاہے کوئی کتنا بھی بڑا متقی اور پرہیزگار ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اس کی پیروی نہیں کرتا تھا تو اس کو کافر اور مشرک شمار کیا جاتا تھا اور اس کی جان ومال سب حلال تھا، اور اگر کوئی اس کی پیروی کا دم بھرلیتا تھا تو چاہے کتنا بھی فاسق وفاجر ہو اس کو مومن حساب کیا جاتا تھا۔
اسی طرح محمد بن عبد الوہاب کوشش کرتا تھا کہ کسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کو کم رنگ کرے، اس کے بعض اصحاب نے یہ بات نقل کی ہے کہ وہ کہتا تھاکہ میرا یہ عصا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھتر ہے کیونکہ پیغمبر اس وقت دنیا میں نہیں ہیں اور کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہونچاسکتے (نعوذ باللہ) جبکہ یہ بات مذاہب اربعہ کے نزدیک کفر ہے۔
وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر شب جمعہ اور گلدستہ اذان پر صلوات بھیجنے کو منع کرتا تھا اور اگر کوئی آنحضرت پر صلوات بھیجتا تھا تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی، اور اس کی دلیل یہ تھی کہ یہ سب کچھ توحید کے منافی اور مخالف ہے۔
اسی نظریہ کے تحت اس نے ان کتابوں کو جلا ڈالا جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات کے جائز ہونے پر دلیل دی گئی تھی، مثلاً ”دلائل الخیرات“ تالیف محمد بن سلیمان جزولی۔
اسی طرح فقہ وتفسیر اور احادیث کی ان کتابوں کو بھی جلا ڈالا جو اس کے عقیدہ کے خلاف تھیں، اور اپنے اصحاب کو اپنی سمجھ کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی اجازت دیدیتا تھا۔
(جبکہ تفسیر بالرائے سبھی فرقوں کے نزدیک ناقابل قبول ہے)
اس کے بعد زھاوی نے وہابیوں کے عقائد کی ردّ میں ان کے عقل وقیاس اور اجماع (جس کو ابوحنیفہ اور دوسرے لوگوں نے تسلیم کیا ہے) سے انکار، کسی مجتہد کی تقلید کرنے والوں دوسرے مسلمانوں کو کافر کہنے اور پیغمبروں اور اولیاء اللہ سے توسل کی مخالفت اور ان کے دوسرے عقیدوں کا تفصیل کے ساتھ مدلل جواب دیا ہے۔
سید احمد زینی دحلان مفتی مکہ معظمہ نے اپنی کتاب ”الدرر السنیہ“ میں محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو ردّ کرتے ہوئے اس سے ہوئی بحث وگفتگو کو ذکر کیا ہے، مثلاً:
شیخ محمد بن عبد الوہاب مسجد درعیہ میں خطبہ دیتا ہے اور ہر خطبہ میں کہتا ہے کہ پیغمبر اکرم سے توسل کرنا کفر ہے۔
خود محمد بن عبد الوہاب کے بھائی شیخ سلیمان نے بھی اس کے نظریات کی شدت سے مخالفت کی ہے، ایک دن شیخ سلیمان نے محمد بن عبد الوہاب سے اسلام کے ارکان کے بارے میں سوال کیا، اور جب اس نے جواب دیا کہ پانچ ہیں تو شیخ سلیمان نے کہا تو پھر تو نے ارکان اسلام کو چھ کیوں قرار دیا؟! چھٹا رکن تو نے یہ کہاہے کہ اگر کوئی تیری پیروی نہ کرے تو وہ کافر ہے۔ (۱)
ایک روز کسی شخص نے اس(محمد بن عبد الوہاب) سے سوال کیا:ماہ رمضان المبارک کی ہر رات میں کتنے لوگ آتش جہنم سے آزاد ہوتے ہیں؟ تو اس نے کہا : ایک لاکھ انسان، اور ماہ رمضان کی آخری تاریخ میں اتنی تعداد میں آزاد ہوتے ہیں جتنے پورے مھینہ میں آزاد ہوئے ہیں، یہ سنکر اس شخص نے کہا کہ تیری پیروی کرنے والے تو ان کے یک صدم
بھی نہیں ہیں، پھر یہ جہنم کی آگ سے آزادہونے والے کون لوگ ہیں ؟ تو تو صرف اپنے پیروکاروں کو مسلمان سمجھتا ہے؟۔
ایک قبیلہ کے سردار نے جو شیخ محمد بن عبد الوہاب کو پریشان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا، اس سے سوال کیا کہ کوئی تیرا قابل اعتماد شخص جس کو تو سچّا مانتا ہے ،اگر وہ تجھے خبر دے کہ فلاں پھاڑ کے پیچھے تیری جان کے دشمن چھپے ہوئے ہیں اور وہ تجھ کو قتل کرنا چاہتے ہیں، اورتو ایک ہزار لوگوں کو ان سے لڑنے کے لئے بھیجے، لیکن وہ واپس آکر یہ کہیں کہ وہاں تو کوئی بھی نہیں ہے، تو تو کس کی بات کو صحیح مانے گا اس ایک شخص کی خبر کو، یا ان ہزار لوگوں کی خبر کو؟!
اس وقت محمد بن عبد الوہاب نے کہا میں ان ہزار لوگوں کی بات کو مانوں گا، اس وقت اس شخص نے کہا کہ تمام کے تمام علمائے نجد چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ، سبھی نے اپنی اپنی کتابوں میں تیری باتوں کی تکذیب اور ردّ کی ہے، لہٰذا تجھے ان کی باتوں کو ماننا چاہئے، اس بات کو سن کر محمد بن عبد الوہاب لاجواب ہوگیا اور کچھ جواب نہ بنا۔
ایک شخص نے اس سے سوال کیا کہ جس دین کی تم دعوت دیتے ہو، یہ متصل ہے یا منفصل؟اس وقت محمد بن عبد الوہاب نے جواب دیا کہ میرے استاد اور دوسرے تمام استاد آج سے چھ سو سال پہلے سے مشرک تھے، اس وقت اس شخص نے جواب میں کہا تو گویا تیرا یہ دین منفصل (جدا) ہوا، نہ کہ متصل، تم نے یہ دین کس سے حاصل کیا؟
زینی دحلان اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ اس (محمد بن عبد الوہاب) کے برے کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کو ممنوع قرار دیا لیکن اس کے باوجود ”احساء“ کے لوگ قبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لئے گئے اور جب شیخ محمد بن عبد الوہاب کو اس بات کی خبر پہونچی تو چونکہ ان لوگوں کا واپسی کا راستہ شھر ”درعییہ“ (جہاں پر محمد بن عبد الوہاب رہتا تھا) سے ہی تھا اس نے حکم دیا کہ ان زائرین کی داڑھی مونڈ دی جائے (چنانچہ ان سب کی داڑھی مونڈ دی گئی) اور ان لوگوں کوان کی سواری پر الٹا بٹھا کر درعیہ سے احساء تک پہنچایا گیا۔
محمد بن عبد الوہاب نے سنا کہ ایک گروہ جو اس کی پیروی نہیں کرتا، بہت دور دراز علاقہ سے زیارت اورحج کے لئے روانہ ہواہے، اور اس کا راستہ درعیہ شھر سے ہی ہے،جب وہ گروہ درعیہ شھر کے قریب پہنچا تو انھوں نے سنا کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب اپنے ایک مرید سے کہہ رہاتھاہے کہ مشرکین (زائرین قبر رسول) کو مدینہ جانے دو، اور مسلمانوں (وہابیوں) کو ہمارے ہی پاس رہنے دو۔
وہ (محمد بن عبد الوہاب) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات بھیجنے سے منع کرتا تھا، اور اگر کوئی شخص آنحضرت پر صلوات بھیجتا تھا اور اس کی آواز اس کے کانوں میں پہونچ جاتی تھی تو بہت ناراض ہوتا تھا، اور اس کو بہت سخت سزا دیتا تھا، یہاں تک کہ ایک نابیناشخص جو بہت ہی دیندار موذن تھا اور اس کی آواز بھی بہت اچھی تھی اس نے اس کی باتوں کو نہیں مانا اور پیغمبر اکرم پر صلوات بھیجی تو اس کو قتل کردیا گیا۔
شیخ سلیمان (برادر محمد بن عبد الوہاب) کی چند باتیں
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیاکہ محمد بن عبد الوہاب کے بھائی اور اس کے باپ اس کی بہت زیادہ مخالفت اوراس سے مقابلہ کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے شیخ سلیمان کو درعیہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی کیونکہ جب ان کے اختلافات زیادہ بڑھے تو شیخ سلیمان کو اپنی جان کا خطرہ پیداہوگیا تھا،چنانچہ وہاں سے مدینہ منورہ چلے گئے، اور مدینہ جاکر شیخ سلیمان نے ”الصواعق الالہٰیہ“ لکھی اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کے پاس بھیجی، شیخ سلیمان کی بعض باتیں ہم نے گذشتہ مطالب میں بیان کیں ہیںیہاں پرموصوف کی چند دیگر باتیں ذکر کرتے ہیں:
۱۔ ہر مذہب کے علماء نے ان اقوال اور افعال کو بیان کیا ہے جن کے ذریعہ ایک مسلمان مرتدّ ہوجاتا ہے، لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ جس نے غیر خدا کے لئے نذر کی یا غیر خدا سے حاجت طلب کی وہ مرتد ہوجائے گا، اسی طرح کسی نے بھی ایسے شخص کے مرتد ہونے کا حکم نہیں لگایا جس نے غیر خدا کے لئے قربانی کی ہو، یا کسی کی قبر کو مس کیا یا قبر کی مٹّی کو (بعنوان تبرک) اٹھایاہو، اور جس طرح تم کہتے ہو اگر ایساہی ہے تو دلیل لاؤ اور بیان کرو، کیونکہ علم کو چھپانا جائز نہیں ہے، لیکن تم نے اپنے گمان کی بناپر عمل کیا ہے اور مسلمانوں کے اجماع سے خارج ہوگئے ہو، اور تم نے اپنے اس قول سے کہ جو شخص بھی مذکورہ اعمال بجالائے وہ کافر ہے اور اگر کوئی ان اعمال کو بجالانے والے کو کافر نہ جانے وہ بھی کافر ہے، تو اس طرح تو تم نے تمام امت محمدی کو کافر قرار دیدیا، جبکہ تمام خاص وعام جانتے ہیں کہ یہ اعمال (نذر، قربانی اور زیارت وغیرہ) سات سو سال سے تمام اسلامی ممالک میں رائج ہیں چاہے اہل علم ان کاموں کو انجام نہ دیتے ہوں لیکن اس طرح کے اعمال بجالانے والوں کو کافر نہیں کہتے، اور ان پر مرتد کے احکام جاری نہیں کرتے، بلکہ ان پر مسلمانوں کے احکام جاری کرتے ہیں۔
تمھارے قول کے مطابق تمام اسلامی شھر بلاد کفر اور مرتدین کا شھر ہے، یہاں تک کہ تم نے حرمین شریفین کو بھی بلاد کفر کا نام دیدیاہے۔ جبکہ صحیح احادیث کے مطابق جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ یہ دو (مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ) شھر ہمیشہ اسلامی شھر ہیں، اور ان شھروں میں بتوں کی پوجا نہیں ہوگی، اور آخر الزمان میں جب دجّال تمام شھروں پر قبضہ کرلے گا وہ بھی ان دونوں شھروں میں داخل نہیں ہوسکتا، لیکن تمھاری نظر میں تمام شھر دار الحرب (جن سے جنگ کرنا جائزھے) ہیں، اوران کے رہنے والے کافر ہیں اور تم سب کو بت پرست جانتے ہو اورتمام امت اسلامی کو مشرک اوردین اسلام سے خارج سمجھتے ہو، ”(
فَاِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
)
۔ “
۲۔ ہر وہ خاص وعام جو کہ احادیث اور روایات سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتا ہے اس کے لئے یہ بات واضح ہے کہ وہ کام جن کی وجہ سے تم اسلامی ممالک کو بلاد کفر اور ان کے رہنے والوں کو کافر سمجھتے ہو،اگر یہ اعمال اسی طرح ہیں جس طرح تم کہتے ہو، تو پھر یہ بہت بڑی بت پرستی ہوئی،اور ان شھروں کے رہنے والے کافر ہوگئے، اور تمھارا عقیدہ ہے جو شخص ان کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ہے، (تو پھر اس طریقہ سے کوئی مسلمان ہی نہیں بچا) جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ علماء اور امراء نے کسی کو بھی کافر نہیں کہا اور ان پر مرتد کے احکام جاری نہیں کئے۔
جبکہ مذکورہ اعمال اکثر اسلامی ممالک میں بطور آشکار ہوتے ہیں اور ایک کثیر تعداد نے اس راستہ کو اختیار کیا ہے اور تمام شھروں سے ان مقدس مقامات کاسفر کرتے ہیں، ان سب کے باوجود کوئی ایک عالم دین یا اہل شمشیرنے تمھاری طرح اپنی زبان نہیں کھولی، تمام علماء نے ان لوگوں پر اسلام کے احکام جاری کئے ہیں۔
لہٰذا اگر ان اعمال کے مرتکب تمھارے گمان کے مطابق کافر اوربت پرست ہوں اور علماء اور حکام نے ان پر اسلام کے احکامات جاری کئے ہوں، تو اس بات کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ علماء کافر ہوئے، کیونکہ جو شخص اہل شرک اور کافر لوگوں کو کافر نہ جانے وہ خود کافر ہے، اور اس صورت میں وہ امت محمدی میں شمار نہیں ہوگا اور یہ بات حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مخالف ہے۔
۳۔ شیخ سلیمان کی پوری کتاب میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شیخ محمد جو عام مسلمانوں کو (اپنے مریدوں کے علاوہ) کافر قرار دیتا ہے اس کو ردّ کریں چنانچہ اس سلسلہ میں (۵۲)حدیثیں اس مضمون کی بیان کی ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ مسلمان ہونے کا معیار زبان پر کلمہ شھادتین جاری کرنا اور ضروریات دین کو بجالانا ہے، اور اسی طرح ا ن حدیثوں میں مسلمانوں کو کافرکہنے سے روکا اور ڈرایاگیا ہے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور دیگر مشہور کتابوں سے احادیث نقل کی ہیں۔
وہابی مذہب اور حنبلی مذہب
یہ بات ظاہر ہے اور اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ وہابی مذہب، حنبلی مذہب سے بنا ہے اور وہابی رہبر عام طور پر ان لوگوں میں سے تھے کہ جنھوں نے قبروں کی زیارت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر اولیاء اللہ سے توسل اوراستغاثہ کو ممنوع قرار دیا مثلاً ابو محمد بربہاری، ابن بطّہ، ابن تیمیہ، اور اس کا مشہور ومعروف شاگر ابن قیم جوزی، محمد بن عبد الوہاب
یہ سب کے سب حنبلی علماء میں شمار ہوتے تھے، اسی وجہ سے وہابی اپنے کو اہل سنت والجماعت اور حنبلی مذہب میں شمار کرتے ہیں، لیکن ڈاکٹر عبد الرحمن زکی کے نظریہ کے مطابق وہابی حضرات حنبلیوں سے دوطریقہ سے فرق رکھتے ہیں پہلا یہ کہ اہل سنت کے چاروں اماموں (امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد ابن حنبل) کے علاوہ کسی دوسرے کی تقلید کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ دیگر مذہب منجملہ شیعہ حضرات کے مذہب کو قبول نہیں کرتے۔
دوسری بات یہ کہ وہابی (جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے) بعض فرعی مسائل میں ہر اس رائے پر یقین کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں جس میں قرآن وغیر منسوخ سنت سے دلیل موجود ہو اور اس کے مقابلہ میں اس سے مضبوط کوئی مخصص اور معارض بھی نہ ہو اور (احمد ابن حنبل کے علاوہ) کسی ایک امام سے صادر ہو، تو اس مسئلہ میں احمد ابن حنبل کو چھوڑ دیتے ہیں۔
ڈاکٹر عبد الرحمن زکی مذکورہ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہابی مذہب بھی دوسرے مذہبی، سیاسی، اجتماعی طریقوں سے متاثرہوا ہے ۔ متاثرہونے سے ان کی مراد مذہب میں اختلاف اور اس کی تعلیم کوسمجھنا اور اس کے نظریات کو جاری کرنا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عبد العزیز آل سعود بادشاہ جو وہابیوں کا امام بھی تھا، ۱۹۳۴ ھ میں جب اس کی جنگ یمن کے امام یحيٰ (زیدی مذہب) سے ہوئی، اور جنگ کے بعد دونوں نے آپس میں اخوت اور بھائی چارگی کا عہد نامہ کیا اور اس عہد نامہ کو قبول بھی کیا کہ یحيٰ بادشاہ یمن کا شرعی حاکم ہے، یہ اعتراف کرنا گویا زیدی مذہب کا اعتراف کرنا ہے۔
قارئین کرام !آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ اعتراف وہابیوں کی اس بات کے برخلاف ہے کیونکہ یہ لوگ مذاہب اربعہ کے علاوہ کسی کو نہیں مانتے ۔
البتہ وہابیوں میں گذشتہ دو فرق کے علاوہ اور بھی دوسرے فرق پائے جاتے ہیں، منجملہ یہ کہ احمد بن حنبل اور اس کے پیروکاربھی بعض ان چیزوں کی مخالفت کرتے ہیں جن کی وہابی مخالفت کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی حنبلیوںنے مثلاً بر بھاری کے زمانہ میں بہت زیادہ شدت عمل اختیار کی، لیکندوسرے اسلامی فرقوں کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا، اور اسلامی شھروں کو بلاد کفر سے تعبیر نہیں کیا، اور کسی ایسے شخص کو کافر اور مشرک نہیں کہا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر یا دیگر اولیا ء اللہ کی قبروں کی زیارت کے لئے جائے۔ اسی طرح انھوں نے نماز جماعت کے ترک کرنے والوں کے قتل کا حکم صادر نہیں کیا۔
حُسن اتفاق یہ ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان کے یہ خطرناک نظریات(جس کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور دوسرے اسلامی ممالک کو دار الکفر شمار کرنے لگے) کم بیان ہوتے ہیں، اور اس وقت سعودی عرب کے اخباروں میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہے وہ عرب ہوں یا عجم، سفید ہوں یا کالے، سب کو مسلمان بھائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اور ان آخری چند سالوں میں حجاج بیت اللہ الحرام کے ساتھ جو برتاو کیا جاتا ہے وہ ہماری بات کی تائید ہے ،(کہ ایک دوسرے کو مسلمان بھائی کہہ کر خطاب کیا جاتا ہے۔)
محمد بن عبد الوہاب کی اولاد
محمد بن عبد الوہاب کے چار بیٹے تھے جن کے نام عبد اللہ، حسن، حسین اور علی تھے، جنھوں نے اس کے مرنے کے بعد اپنے باپ کے عقائد اور نظریات کو پھیلانے کے لئے قیام کیا، اور ان کو ”اولاد شیخ“ کہا جاتا تھا ان میں سب سے بڑا بیٹا عبد اللہ تھا اس کے بھی دو بیٹے باقی بچے، سلیمان اور عبد الرحمن، سلیمان کا کٹّر پن اپنے باپ سے بھی زیادہ تھا، آخر کار۱۲۳۳ھ میں جیسا کہ بعد میں تفصیل بیان ہوگی ابراہیم پاشا کے ھاتھوں قتل کردیا گیا اور اس کے بھائی عبد الرحمن کو مصر سے شھر بدر کردیا گیا جو ایک مدت کے بعد انتقال کر گیا۔
حسین بن محمد بن عبد الوہاب سے عبد الرحمن باقی بچا وہ وہابیوں کی شروع کی حکومت میں ایک مدت تک مکہ کا قاضی رہا ۔ اس نے تقریباً سو سال کی عمر پائی ۔ شیخ کی اکثر نسل اسی حسین کے ذریعہ باقی ہے، جو اس وقت (یعنی زینی دحلان کے زمانہ میں تقریباً سو سال پہلے) درعیہ شھر میں مقیم ہیں جن کو اولاد شیخ کہا جاتا ہے۔
____________________