تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت0%

تاریخ وہابیت مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

تاریخ وہابیت

مؤلف: علی اصغر فقیھی
زمرہ جات:

مشاہدے: 25591
ڈاؤنلوڈ: 4709

تبصرے:

تاریخ وہابیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25591 / ڈاؤنلوڈ: 4709
سائز سائز سائز
تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت

مؤلف:
اردو

چھٹا باب:

وہابی مذہب کے نشر واشاعت کامرکز

قارئین کرام! جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا جن عقائد اور تعلیمات کو محمد بن عبد الوہاب نے ظاہر کیا ان سب کا اظھار ابن تیمیہ کرچکا تھا، لیکن ابن تیمیہ نے ان عقائد کا اظھار اس علاقہ میں کیا تھاجہاں پر ان عقائد اور نظریات کے قبول کرنے کا ماحول نھیںتھا، لیکن جس ماحول میں محمد بن عبد الوہاب نے انھیں عقائد کو بیان کیا وہ ماحول ان عقائد کو قبول کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے آمادگی رکھتا تھا یعنی ان عقائد کو قبول کرنے کے لئے راستہ ہموار تھا اور اتفاقاً وہاں کے حکمراں افراد نے بھی اس کا ساتھ دینا شروع کردیا، اگرچہ شروع شروع میں بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن حالات کے مناسب ہونے کی وجہ سے بہت جلد مشکلات پر کامیاب ہوا اور اسے اپنے کام میں کامیابی حاصل ہوگئی۔

نجد کی سر زمین شیخ محمد بن عبد الوہاب کے لئے اتنی ہموار تھی کہ اس نے ان عقائد اور تعلیمات کو پھیلانا شروع کردیا اور اس میں کامیاب ہوگیا لیکن اس کے بعد جو واقعات پیش آئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے علاقے اس کی باتوں کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے، اسی وجہ سے دوسرے علاقوں میں وہابیت کی تبلیغ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئی، جس کی بناپر اس کا دائرہ صرف حجاز تک محدود ہوکر رہ گیا، اور اس کی تعلیمات دوسرے علاقوں میں زیادہ نہیں پھیلی، لیکن وہابیت کی طرفداری میں دوسرے لوگوں نے مختلف علاقوں میں وہابیت کو پھیلانے کا کام شروع کیا ۔

ان تمام چیزوں کے پیش نظر مناسب ہے کہ پہلے نجد کی سرزمین پر محمد بن عبد الوہاب کے نظریات پیش کرنے سے پہلے اور پیش کرنے کے بعد کے ماحول کی بررسی اور تحقیق کی جائے اور اس کے بعد ان دو طاقتوں کابھی ذکر کیا جائے جن کی وجہ سے نجد اورحجاز میں یہ نظریات پھیلائے گئے، یعنی خاندان آل سعود اور جمعیة الاخوان، اور اس کے بعد نجد وحجاز کے دوسرے علاقوں میں ان عقائد کا پھیلنا اور اس سلسلہ میں ہونے والی کوششوںکو بیان کیا جائے، ہماری اس کتاب کے آئندہ صفحات انھیں چیزوں سے مخصوص ہیں۔

سرزمین نجد

”نجد“ جزیرہ نما عربستان کا وہ بڑا علاقہ ہے جوآج سعودی عرب کے علاقہ میں شمار کیا جاتا ہے، لفظ نجد کے معنی ”اونچی زمین“کے ہیں کیونکہ سر زمین نجد قرب وجوار کے علاقوں سے بلندی پر واقع ہے اس وجہ سے اس کو نجد کہا جاتا ہے، نجد کا مرکز، شھر ریاض ہے جو عارض کے علاقہ میں ہے اور اس وقت سعودی عرب کا پائے تخت ہے، نجد کے دو ا ور مشہور شھر ”عنیزہ“ اور ”بریدہ“ قصیم علاقہ میں ھیں، اسی طرح شھر” زلفیٰ“ ”سدیر“علاقہ میں ، شھر ”شقراء“”وشم“ علاقہ میں اور شھر ”درعیہ“ عارض کے علاقہ میں نجد کے دوسرے شھر ہیں۔

نجد کی سرحد جنوب کی طرف سے یمامہ اور احقاف سے اور مشرق کی طرف سے عراق، احساء اور قطیف سے، شمال کی طرف سے صحرائے شام سے اور مغرب کی طرف سے حجاز کے علاقوں سے ملی ہوئی ہے۔

علامہ آلوسی کہتے ہیں کہ نجد کا علاقہ عرب کے علاقوں میں سے بہترین علاقہ ہے اس کی آب وہوا معتدل اور سر سبز ہے، محصول (اناج) کی فراوانی، بہترین پانی اور صاف ہوا اس سر زمین کی خصوصیات میں سے ہیں،نجد کے دَرّے (دو پھاڑوں کے درمیانی راستہ) پہلوں کے باغوں کی طرح ہیں اور یہاں کے گودال پانی سے بھرے حوض کی طرح ہیں.(۴۷۸)

قدیم اور جدید شعراء نے شھر نجد کی ہمیشہ توصیف کی ہے،(۴۷۹) اور اس کے بعد جناب آلوسی نے نجد کی مدح میں کھے گئے اشعاربھی بیان کئے ہیں۔

”یاقوت حموی“ کہتے ہیں کہ جس قدر نجد کی توصیف اور اس کے شوق دیدار میں اشعار کھے گئے ہیں کسی علاقہ کے لئے اتنے شعر نہیں کھے گئے،(۴۸۰) یاقوت حموی نے بھی ان اشعار میں سے چند نمونے پیش کئے ہیں، اور شایداس کی وجہ یہ ہو کہ اکثر شعراء نجد کے رہنے والے نہیں تھے اور زمانہ جاہلیت کے اشعار میں شھر نجد کی توصیف سے متاثر ہو کر اشعار کہہ ڈالے، سر زمین نجد کی یاد، در حقیقت اس زمانہ کی یاد ہے کہ جب وہاں کی زندگی خوش وخرم اورعیش وآرام اور وہاں کے علاقے سر سبز تھے، یھی نہیں بلکہ بعض فارسی شعراء نے بھی اس توصیف سے متاثر ہوکر، نجد اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں اشعار کھے ہیں۔

نجد کے عوام

جناب آلوسی صاحب نجد کے لوگوں کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں :نجد کے لوگ دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں ”شھر نشین“(۴۸۱) ور ”بادیہ نشین“ (دیھاتی)، جبکہ اس علاقے میں شھر نشینکم ہیں اور دیھاتی علاقوں میں زیادہ لوگ رہتے ہیں، اسی طرح اکثر دوسرے عرب علاقے بھی ہیںجو دیھاتی زندگی کو شھری زندگی پر ترجیح دیتے ہیں، شھری افراد تجارت، کھیتی، خرمے کے باغات، اونٹ، گائیں اور بھیڑ بکریوں کو پالنے سے اپنی زندگی گذارتے ہیں، اور ان کی خوراک گھی، گوسفند گائے کا دودہ، گندم جَو، چاول، مکئی،تِل وغیرہ ہیں، اس طرف دیھاتیوں کا معاش زندگی بھیڑ بکریاں، گائے اور اونٹ پالنا تھاوہ اونٹ کا گوشت کہاتے اور اس کا دودہ پیتے تھے، اسی طرح جنگلی چوھے اورخرگوش کا بھی استعمال کرتے تھے۔

نجد کے اکثر لوگ ” ملخ“ (ٹڈّی) کہاتے ہیں اور ٹڈّی ہی ان کی وہ بہترین خوراک ہے جو اپنے لئے ذخیرہ کرتے ہیںاور یھی ان کے نزدیک بہترین، لذیذ ترین اورمنتخب غذا ہے، اسی طرح قہوہ کے بہت زیادہ شوقین ہیں، اور خوب بناتے بھی ہیں، نجدی لوگ دور دراز کے علاقوں مثلاً یورپ کے علاقوں میں سیر وسفر کو پسند نہیں کرتے، اسی وجہ سے ان کے یہاں تجارت کرنے والے کم پائے جاتے ہیں۔

اسی طرح آلوسی صاحب کہتے ہیں کہ نجدی لوگوں نے آثار تاریخی اور پرانے زمانہ کی تختیاں، وہ لکھے ہوئے پتھر جن کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ یہ ”حِمیری“ (یمن کے قدیم باشاہوں کا سلسلہ) کے زمانہ کے ہیں، اور ”سدوس“ میں عارض کے علاقہ میں موجود ہیںان کو نابود کرکے زمین کے برابر کردیا تاکہ کوئی یورپی سیّاح ان کو دیکھنے کے لئے ان کے ملک کا سفر نہ کرے۔(۴۸۲)

خلاصہ یہ کہ اہل نجد کی (آلوسی کے زمانہ میں )یہ خصوصیت تھی کہ نہ تو جلدی سے کسی دوسری جگہ جانے کے لئے تیار ہوتے تھے اور نہ ہی کسی غیر ملکی خصوصاً یورپین افراد کا اپنے ملک میں آنا پسند کرتے تھے۔

نجدی شھریوں کا لباس معمولی کپڑے اورعباوقبا ہوتی ہے اہل علم حضرات عمامہ (جس کا تحت الحنک ظاہر رہتا ہے) باندہتے ہیں اور عوام الناس عقال (سر پر باندہی جانے والی ڈوری) سر پر باندہتے ہیں اور جوتے بھی پہنتے ہیں اور ایک عصا ھاتھ میں رکھتے ہیں اور بہترین عطریات خصوصاً مشک وعنبر استعمال کرتے ہیں۔

آلوسی صاحب نجدیوں کے اخلاق کے بارے میں کہتے ہیں:

ان لوگوں کا اخلاق قدیم عربوں کی طرح ہے یعنی اپنے وعدہ کو وفا کرتے ہیں اور غیرت اور حفظ ناموس کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں، شریف بھی ہوتے ہیں اور مہم انوں کی حمایت کرتے ہیں سچائی اور شجاعت نیز حسن خلق میں بھی مشہور ہیں۔

نجدی لوگوں کی شکل وصورت بھی خوبصورت ہوتی ہے اور عام طور پر ان کا رنگ گندمی ہوتا ہے۔(۴۸۳)

وہابیت کی دعوت کے وقت نجدی شھریوں اور خانہ بدوشوں کی حالت

حافظ وھبہ، وہابیت کی دعوت کے وقت نجدیوں کی حالت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

”خانہ بدوشوں کا کام غارت گری، رہزنی کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا اور ان کاموں کو اپنے لئے فخر ومباحات کاباعث سمجھتے تھے اگر کوئی خانہ بدوش کمزور ہوتا تھا تواس کی زبان حال یہ ہوتی تھی کہ مال خدا کا مال ہے ایک دن میرا ہے، تو دوسرے دن کسی دوسرے کا، صبح کے وقت غریب و فقیر ہے تو شام کے وقت مالدار اور صاحب ثروت۔

تجارتی لوگ ان کو ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں ان کے علاقے سے صحیح وسالم گذر سکتے تھے، یا اس کاروان کا خانہ بدوشوں میں کوئی آشنا اور دوست ہو، خانہ بدوشوں کا یہ وطیرہ تھا کہ اپنے کو خطرہ میں نہیں ڈالتے تھے اور جب انھیں یہ احساس ہوجاتا تھا کہ سامنے خطرہ ہے یا ان کے مقابلہ میں دفاع کرنے والے طاقتور ہیں تو اس کو لوٹنے سے باز رہتے تھے، ان کو سچائی اوردوستی سے کوئی واسطہ نہیں تھا ریا کاری اور نفاق ان کی فطرت کا ایک حصہ تھا، کبھی کبھی بدو عرب ان لوگوں کے لئے بھی مصیبت بن جاتے تھے جن سے دوستی کا دم بھرتے تھے، یعنی جب ان کو اپنے امیر یا حاکم کی شکست دکھائی دینے لگتی تھی توسب سے پہلے یھی لوگ اس کے مال ودولت کو غارت کردیتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر اس کے مال ودولت کا غارت ہونا یا اس کا گرفتار ہونا معلوم ہے تو خود ہم ہی اس کام کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔(۴۸۴)

نجد کا علاقہ عرب کے دوسرے علاقوں کی طرح خرافات اور غلط عقائد کا مرکز تھا جو صحیح اصول دین کے مخالف تھے اس علاقہ میں بعض اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبریں تھیں وہاں کے لوگ ان کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے، ان سے حاجت طلب کیا کرتے تھے، اپنی مشکلات کے دور ہونے کے لئے ان کو وسیلہ بناتے تھے، مثلاً ”جُبَیْلَہ“ نامی علاقہ میں زید بن الخطاب کی قبر تھی وہاں لوگ جایا کرتے تھے تاکہ ان کے حالات اچھے ہوجائےں اور ان کی حاجتیں پوری ہوجائیں۔

اس کے علاوہ ”منفوحہ“ شھر میں ایسا ہوتا تھا کہ جن لڑکیوں کی اس وقت تک شادی نہیں ہوئی ہوتی تھی وہ ایک خرمے کی نر درخت سے اس عقیدہ کے ساتھ متوسل ہوتی تھیں کہ اسی سال ان کی شادی ہوجائے اور اسی عقیدہ کے تحت لڑکیاں اس درخت کے سامنے کھڑی ہوکر کہا کرتی تھیں:

یَا فَحْلَ الْفَحُوْلِ اُرِیْدُ زَوْجاً قَبْلَ الْحُلُوْلِ“

(اے سب نروں سے بھتر وبرترنر !میں سال تمام ہونے سے پہلے پہلے اپنے لئے شوھر چاہتی ہوں)

”درعیہ“ شھر میں ایک غار تھاجس کو مقدس مانا جاتا تھا، اس کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہاس پھاڑ پر ایک لڑکی کو پناہ ملی ہے جو ایک ستمگر حاکم کے شکنجہ میں گرفتار ہوگئی تھی اور اس پھاڑ نے پھٹ کر اپنے دامن میں اس لڑکی کو پناہ دی تھی۔

نجد کے علاقہ میں کسی قسم کاقاعدہ اور قانون نھیںتھا، حكّام اور ان کے کارندے جو کچھ بھی چاہتے تھے کر گذرتے تھے، کسی کے پاس اگر کوئی حکومت ہوتی تھی تو اس کو دوسری حکومتوں سے کوئی تعلق نہیں رہتا تھا۔

ادہر شھری افراد، خانہ بدوشوں سے ہمیشہ جنگ وجدال کرتے رہتے تھے مالدار لوگ جب یہ احساس کرلیتے تھے کہ ان کے مقابلہ میں ضعیف لوگ ہیں تو ان پر ظلم وستم کر نا شروع کردیتے تھے۔(۴۸۵)

نجدیوں کے اخلاقی و معاشرتی حالات کا خلاصہ

حافظ وھبہ صاحب نے (تقریباً چالس سال پہلے) نجدیوں کے اخلاق کو مورد بحث قرار دیا ہے، یہاں پر اس کا بیان کرنا مناسب ہے ۔

”جزیرة العرب کے اکثر لوگ خصوصاً خانہ بدوش قبیلوں کو دوسرے علاقوں میں رائج القاب اور آداب کا علم نہیں ہوتا تھا اسی وجہ سے دوسروں سے ہم کلام ہوتے وقت یہاں تک کہ بادشاہوں اور حكّام سے گفتگو کے دوران بھی ان کا نام لے کر پکارتے تھے یا ان کے معمولی لقب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔

آقا اپنے نوکر یا خادم کو ” لونڈے“ کہہ کر خطاب کرتے تھے اور جس وقت کسی گھر کے بزرگ کو قہوہ کی طلب ہوتی تھی تو وہ چلا کر کہا کرتا تھا: قہوہ لاؤ، ان کا خادم جب اس جملے کو سنتا تھا تو وہ بھی اس جملے کو بلند آواز سے کہا کرتا تھا اور اسی طرح دوسرے لوگ بھی بعینہ اسی جملے کی تکرار کیا کرتے تھے یہاں تک کہ جو قہوہ اور چائے بنانے اور لانے والا ہوتا تھا اس تک یہ آواز پہونچ جاتی تھی، وہ چائے لیکر حاضر ہوجاتا تھا، البتہ ابن سعود بادشاہ مذکورہ آواز لگانے کے بجائے بجلی کی گھنٹی استعمال کیا کرتا تھا لیکن یھی جناب جب شکار کے وقت ان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی تھی تو اپنے خادموں کو بلند آوازسے پکارتے تھے اور جب دوسرے لوگ اس آواز کو سنتے تھے تو وہ بھی اسی نام کو پکارتے تھے یہاں تک کہ یہ آواز خادم کے کانوں تک پہونچ جاتی تھی۔

غلام اورنوکر اپنے آقا کو عمّو اورآقا کی بیوی کو عمہ (چچی) کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے، اور جب دسترخوان لگایا جاتا تھا تو سب کے سب چاروں طرف بیٹھ جاتے تھے اورخادم اونچی آواز میں کہتا تھا کہ ”سَمِّ“یعنی بسم اللہ کریں، اور اگر کوئی مہم ان آتا تھا تو حسب مراتب اس کو قہوہ پیش کیا جاتا تھااگر کوئی عظیم ہستی ہوتی تھی تو اس کو کئی کئی مرتبہ قہوہ پیش کیا جاتا تھا، عجیب بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی قہوہ پینے سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔

بیس سال پہلے (اس بات کو حافظ وھبہ نے تقریباً چالیس سال پہلے لکھا ہے لہٰذا تقریباً ساٹھ سال پہلے)شھریوں اور خانہ بدوشوں کے درمیان چائے کا رواج ہوچکا تھا اور خانہ بدوش چائے کو بہت زیادہ کھولاتے تھے تاکہ اس کا رنگ تیز اورمزہ کڑوا ہوجائے۔

نجد اورصحرائے عربستان میں رسم ہے کہ جب کوئی سفر سے واپس پلٹتا ہے تو چھوٹے اپنے بڑے کی ناک اور پیشانی یا شانوں کو بوسہ دیتے ہیں، اسی طرح حجاز میں ایک دوسرے کے ھاتھوں کو بوسہ دینے کی رسم تھی لیکن جس وقت سے ”اخوان اور نجد کے علماء“ (بعد میں تفصیل بیان ہوگی) حجاز میں وارد ہوئے ،تو انھوں نے ھاتھ چومنے پر پابندی لگادی لیکن چند سال بعد اسی کام کو جائز قرار دیدیا، اور اس وقت (کتاب جزیرة العرب فی القرن العشرین کی تالیف کا زمانہ) سے حجاز کے لوگ بادشاہوں اورقضات کے ھاتھوں کا بوسہ لیتے ہیں اوراس کام کو عیب شمار نہیں کرتے۔(۴۸۶)

مکہ کے اشراف اپنے کو اس سے کہیں بلند سمجھتے تھے کہ وہ لوگوں کی طرف اپنے ھاتھوں کوچومنے کے لئے بڑھائیں بلکہ اکثر لوگ ان کے کپڑوں کے کسی ایک حصہ کو چوم لینے پر ہی اکتفاء کیا کرتے تھے ۔(۴۸۷)

ان کے درمیان مہم ان کے احترام کا ایک طریقہ یہ تھا کہ اس کے سامنے قہوہ پیش کیا جاتا تھا اور نجد کے علاقہ میں مہم ان کے لئے چار پانچ قطرے کپ میں ڈالے جاتے تھے یہ عمل کئی مرتبہ انجام دیتے یہاں تک کہ خود مہم ان منع کردے، قہوہ کو بہت کڑوا بنایا جاتا تھا اور مہم ان کے لئے سادہ قہوہ لایا جاتا تھا اور سب سے پہلے میزبان یا اس کا خادم اسے خود پی کر دیکھتا تھا تاکہ اس بات کا اندازہ لگالیا جائے کہ قہوہ ٹھیک بنا ہے یا نھیں۔

مہم انداری میں گلاب یا” عُود“(ایک خوشبو دار لکڑی جس کے جلانے پر بہترین خوشبو ہوتی ہے) کا دہواں اس بات کی نشانی سمجھی جاتی تھی کہ اب مہم ان کے لئے یہاں ٹھھرناجائز نہیں ہے بلکہ رخصت ہونا بھتر ہے۔

ان کے درمیان کہانا کہانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بڑا ظرف دسترخوان پر لاکر رکھا جاتا ہے اور اگر مہم ان زیادہ ہوں تو چند برتن لائے جاتے ہیں اور سب لوگ اپنے اپنے ظرف کو اٹھاکر چمچہ کے بغیر ھاتھوں سے ہی کہانا شروع کردیتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی ظرف میں بادشاہ، شیخ، وزیر اور خادم ایک ساتھ کہانا کہالیں، اور اگر کوئی دوسروں سے پہلے ہی سیر ہوجاتا ہے تو وہ دسترخوان سے اس وقت تک نہیں اٹھتا جب تک دوسرے سبھی لوگ کہانے سے فارغ نہ ہوجائیں، اور جب سب لوگ کہانا کہالیتے ہیں تو سب ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اوراگرکوئی نادانی یا غلطی کی وجہ سے اچانک پہلے ہی اٹھ جاتا ہے تو دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں چاہے وہ سیر ہوئے ہوںیا نہ، لیکن عبد العزیز نے اس عادت کو ختم کردیا اور انھیں اس بات کی اجازت دی کہ جو شخص بھی سیر ہوجائے وہ دسترخوان سے اٹھ سکتا ہے، لیکن یہ عادت نجد میں اب بھی جاری ہے۔

نجد میں عام طور پر عورتیں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک دسترخوان پر کہانا نہیں کہاتیں اور اگر کوئی عورت اپنے شوھر کے ساتھ یا بڑے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کہانا کہالے تو اس کو بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے، البتہ چھوٹے بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ کہانا کہاسکتے ہیں لیکن لڑکیا ں اگر بڑی ہوجاتی ہیں تو وہ اپنی ماں کے ساتھ کہانا کہائیں گی، یہ عادت نجد میں اب بھی جاری ہے اور حجاز میں صرف ان گھرانوں میں یہ عادت پائی جاتی ہے جن کی نجد میں رشتہ داریاں ہیں۔

عرب کے شیخ اپنے بچوں کو تیر اندازی، گھوڑسواری اور شکار کے علاوہ کچھ سکھاتے ہی نھیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا نظریہ تو یہ ہے کہ بچوں کو پڑھانا معیوب ہے۔(۴۸۸)

چنانچہ جب ایک امیر نے دیکھا کہ اس کا لڑکا پڑھنے جانے لگا تو اس نے کہا کہ یہ لڑکا دیوانہ ہوگیا ہے کیونکہ حکومت اورتعلیم ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔(۴۸۹)

عربوں میں صنعت کچھ اس طرح ہے: زرگری، نجاری، آہنگری (لوہارکا کام) بُنائی، بندوقوں کی مرمت کرنااور حیوانوں کی ڈاکٹری اور بعض وہ چیزیں جو طبّ کا حصہ ہیں مثلاً حجامت (بدن کا خراب خون نکالنا) اور زخموں کی مرہم پٹّی کرنا وغیرہ، لیکن صنعت گری عربوں میں اچھے کام نہیں سمجھے جاتے تھے اسی وجہ سے یہ کام کرنے والے یا تو عرب نہیں ہوتے تھے یا پھر عرب کے غیر مشہور قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے، اور وہ جب کسی کو برا بھلا کہتے تھے تو اس کو ”ابن الصانع“(صنعت گر زادہ) کہتے تھے اوراس لفظ کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ ان تمام معنی کو شامل ہو۔

اس کے بعد حافظ وھبہ صاحب کہتے ہیں کہ عجیب بات تو یہ ہے کہ عرب اب بھی اونٹ، گوسفند چَرانے اور گدہوں کی پرورش کو، خرید وفروخت اور دیگر صنعت گری اور تجارت پر ترجیح دیتے ہیں۔(۴۹۰) یہ تھی عرب کے امیر طبقہ کی زندگی، جس کے ضمن میں معمولی افراداور خانہ بدوشوں کی زندگی کے حالات بھی معلوم ہوگئے۔

نجد کے عربوں کی عادات و اطوار کے پیش نظر وہابیت کی ترقی اور پیشرفت کا کافی تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے، نجدی اپنے حاکم کے تابع ہوتے تھے اور ان کے حكّام ہمیشہ دوسروں پر غلبہ پانے کی فکر میں رہتے تھے، اور جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کو شروع میں بہت سی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جس وقت محمد ابن سعود (نجد ی حاکم) اس کی مدد کے لئے تیار ہوگیا تو اس کی ترقی کے راستے ہموار ہونے لگے اور اس کے بہت سے لوگ مرید بن گئے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب اپنے مخالفین سے جنگ کو جھاد کا نام دیتا تھا اسے اپنا بنیادی مقصد قرار دے رکھا تھاکہ جب وہ دوسرے علاقوں اور قبیلوں پر غلبہ کرلیتے تھے تو ان کے مال کو لوٹ لیا کرتے تھے اوران کی زمینوں پر قبضہ کرلیا کرتے تھے، اور چونکہ بادنشین (خانہ بدوشوں) کی عادت ہی یھی تھی اسی وجہ سے فوراً اس کے پیچھے پیچھے ہوجایا کرتے تھے خصوصاً ان میں سے اکثر ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتےتھے اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار رہتا تھا۔(۴۹۱)

ایک دوسری بات یہ کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے اسلام اور سلف صالح کی سیرت پر عمل کرنے کی دعوت دیتا تھا اور اس طرح کی باتیں کرتا تھا کہ سننے والوں کا عقیدہ یہ ہوجاتا تھا کہ اگر ہم لوگ اس کی اطاعت کریں تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اورتابعین کی طرح ہوجائیں گے اور عربوں کے درمیان اس طرح کی تقریروں کے ذریعہ یہ بات ان کے ذہن نشین کرادی کہ صرف وھی حقیقی مسلمان اور اہل بہشت ہیں، اور اگر اس کے ساتھ رہکر قتل ہوجائیں یا کسی کو قتل کردیں تو دونوں صورتوں میں ان کی ہی کامیابی ہے۔

اس زمانہ میں نجد کا علاقہ ایک بیک ورڈ علاقہ تھا اوربمشکل کوئی وہاں جاتا تھا یانجدیوں میں سے کوئی باہر سفر کے لئے نکلتا تھا، نجد کے لوگ سادہ تھے اور تمام دوسری جگہوں سے بے خبر، دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا تھا ان کو اس کی خبر نہیں ہوتی تھی، ان کو بہت ہی کم اعتقادی مسائل کی تعلیم دی گئی تھی، ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے لوگوں میں محمد بن عبد الوہاب کی باتیں بہت جلدی موثر ہوگئیں، اور بہت ہی کٹّر پن سے اس کا دفاع کرنے لگے، یہاں تک کہ اس کے اس راستہ میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

قارئین کرام!اگر یہ فرض کرلیں کہ وہابیت کی داغ بیل نجدیوں کے ماحول کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر ڈالی جاتی تو کیا پھر بھی اتنی ترقی حاصل ہوسکتی تھی؟! ظاہراً اس کا جواب” نھیں“ ہے، کیونکہ جس طرح سے ہم کتاب کے آخر میں بیان کریں گے کہ وہابیوں کی یہ دعوت نجد کے علاوہ صرف چند علاقوں میں محدود رہی، اور گھٹیا قسم کے لوگوں نے اس کو پھیلانے کی کوشش کی،یہاں تک کہ پنجاب (ہندوستان) میں بھی وھی طریقہ کار اپنایا گیا جونجد میں شیخ محمد بن عبد الوہاب اور اس کے مریدوں کا تھا، لیکن ان میں سے کسی کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔(۴۹۲)

____________________

۴۷۸. گویا نجد کے علاقہ کی توصیف دوسرے خشک علاقوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

۴۷۹. تاریخ نجد ص ۹۔

۴۸۱. شھر نشین سے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی ایک معین جگہ گذار تے ہیں اوران کے مقابلہ میں وہ لوگ ہیں جو خانہ بدوش ہیں۔

۴۸۲. تاریخ نجد ص ۲۸، اس کے باوجود بھی تقریباً اسّی سال پہلے چند یورپی سیّاح ”ڈوٹی“ اور ”بارُننلدہ“ ،” شَمّر“نامی پھاڑ پر گئے جو کہ آل رشید (نجد کا حاکم) کی قیام گاہ تھی (جو بعد میں آل سعود کے ھاتھوں میں چلی گئی) اور اس سر زمین کا مشاہدہ کیا، اسی طرح۱۸۷۹ء میں ”لیڈی آن بلینٹ“ نے اپنے شوھر ”ولفر“ کے ساتھ جو انگریزی کا مشہور شاعر تھا مذکورہ پھاڑ، اور نجد وحجاز کے بعض دوسرے علاقوں کا سفر کیا اور اپنے مشاہدات کو اپنے سفر نامے میں لکھا جس کی کئی جلدیں ہیں،انھوں نے اپنے سفر نامے میں بہت سے آثار قدیمہ کا ذکر کیا ہے، مذکورہ سفر نامہ کی بہترین تو صیف وہ ہےجس کو مولف نے ایرانی کاروان کے ایک حاجی سے بیان کی ہے (ص۲۴۹، اور اس کے بعد جس کا عربی میں بھی ترجمہ ہے) ضمیمہ نمبر ۴۰ ،مجلہ کا گیارہواں سال،صفحہ ۷۵ کا حاشیہ، جس میں ایران اورنجد کی مستقل حکومت کے رابطے کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے (البتہ یہ اقتباس ”احمد جائسی عرب کا مشہور ومعروف مولف“ کی کتاب سے ہے، وہ اپنی کتاب میں اس طرح لکھتا ہے کہ ”شارل ھویر“ فرانس کا مشہور ومعروف سیّاح جب انیسویں صدی میں آثار قدیمہ کی اپنی ریسرچ کے لئے دوسری مرتبہ نجد میں آتا ہے ”توحائل شھر میں محمد رشید سے ملاقات کے لئے جاتا ہے محمد رشید نے ایک شخص کو اس کے ساتھ بھیجا، لیکن جب وہ امارت کی سرحد سے باہر نکلا تو اس کو قتل کردیا گیا، اور اس کی ساری لکھی ہوئی چیزوں کو آگ لگادی گئی اور اس کا سامان لوٹ لیا گیا۔

۴۸۳. تاریخ نجد ص ۴۱، آلوسی صاحب نے جس طرح نجدیوں کی توصیف کی ہے وہ ان کے زمانہ تک کی ہے ورنہاس وقت نجدیوں کے طریقہ زندگی اور مال ودولت میں بہت زیادہ فرق آگیا ہے، صرف خانہ بدوش افراد میں تقریباً وھی صفات باقی ہیں چنانچہ حج کے زمانہ میں ان میں سے بعض لوگ اسی حالت میں آتے ہیں اوران کو بدُو کہا جاتا ہے۔

۴۸۴. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۱۳، چنانچہ وہابیوں کی حکومت آنے کے بعد بھی یہ لوگ عہد شکنی کرتے رہتے تھے اور وہابیوں کے دشمنوں کے ساتھ مل جاتے تھے، اور ایک دوسرے کے سامنے برائیاں اور فتنہ وفسادبرپا کرتے رہتے تھے، (تاریخ نجد ابن بشر جلد اول ص ۱۹، ۲۱۲ پر رجوع فرمائیں)

۴۸۵. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۳۶، ۳۳۷۔

۴۸۶. بہت سی وہ چیزیں جن کو اخوان اور علمائے نجد نے حرام قرار دیا تھا مثلاً تمباکو نوشی یا نئی نئی اختراعات سے استفادہ کرنا، چنانچہ زمانہ کے ساتھ ساتھ جائز ہوگئیں۔

۴۸۷. شرفائے مکہ نے اس خصلت کو عباسی خلفاء سے سیکھا ہے جن کا کہنا یہ تھا کہ ایک معمولی انسان ہمارے ھاتھوں کو چومنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ان کے وزیروں کو اتنا تکبر ہوتا تھا کہ کہتے تھے کہ ایک معمولی انسان یہاں تک کہ کتابوں کے مولفین اس لائق نہیں کہ ہمارے احترام کے لئے ہمارے پیروں کے سامنے کھڑے ہوں، ان تمام تفصیلات کے لئے مولف کی کتاب ”تاریخ عضد الدولہ دیلمی“ میں چوتھی صدی کے حالات ملاحظہ فرمائیں۔

۴۸۸. بنی امیہ کے خلیفہ کہتے تھے کہ علم حاصل کرنا غلاموں اورنوکروں کا وظیفہ ہے اوروہ اس سے کہیں بلند وبالا ہیں کہ علم حاصل کرنے جائیں، ہمارے لئے تو حکومت اور فرمان صادر کرنا مخصوص ہے، ہم نے ظاہراً آقای ذبیح اللہ کی کتاب میں پڑھا ہے کہ قرون وسطیٰ میں یورپ کے ا شراف بھی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم جاہل ہیں۔

۴۸۹. حافظ وھبہ صاحب اس جگہ کہتے ہیں کہ ہم بہت خوش ہیں کہ اس زمانہ میں بعض شیخ اپنے لڑکوں کو تعلیم کے لئے بیروت اور اسکندریہ بھیجنے لگے ہیں۔

۴۹۱. نجدیوں کا اپنے مخالفوں منجملہ عثمانیوں سے جنگ کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب لوگ ایمان اور عقیدے کے تحت جنگ نہیں کرتے تھے کیونکہ بارہا ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جب لشکر والوں نے دیکھا کہ ان کا سردار کمزور پڑگیا تو دشمن کے لشکر سے جاملتے تھے، چنانچہ کتاب ”تاریخ مکہ“ اور ”تاریخ المملکة العربیة السعودیہ“ میں ایسے بہت سے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔

۴۹۲. اس موضوع کو سمجھنے کے لئے شیخ محمد بن عبد الوہاب اورابن تیمیہ کی حالات زندگی کی آخری بحث کی طرف رجوع فرمائیں۔