ساتواں باب:
تاریخ آل سعود
اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ نجد وحجاز میں وہابیت کے پھیلنے کی اصل وجہ خاندان ”آل سعود“ ہے، یہاں تک کہ آل سعود نے وہابیت کو اپنے ملک کا رسمی (سرکاری) مذہب قرار دیدیا، اور اسی کی مدد سے محمد بن عبد الوہاب نے اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج شروع کی اور نجد کے دوسرے قبیلوں کو اپنا مطیع بنایا، یہ آل سعود ہی تھے جس نے محمد بن عبد الوہاب کے مرنے کے بعد اس کے عقائد اور نظریات کو پھیلانے میں اپنی پوری طاقت صرف کردی، اور کسی بھی مشکل کے مقابلہ میں ان کے حوصلے پست نہ ہوئے۔
اسی وجہ سے وہابیوں کی تاریخ میں آل سعود کی تاریخ اہم کردار رکھتی ہے، خاندان آل سعود، حافظ وھبہ کی تحریر کے مطابق قبیلہ ”عَنَزَہْ“ سے تعلق رکھتا تھاجن کی نجد علاقہ میں چھوٹی سی حکومت تھی، جن کی جزیرہ نما عربستان میں کوئی حیثیت نہیں تھی، لیکن جب محمد بن عبد الوہاب، محمد بن سعود کے پاس گیا اور دونوں نے آپس میں ایک دوسرے کی مدد اور نصرت کرنے کا وعدہ کیا تو محمد بن سعود کے ساتھ سعودی عرب کے دوسرے امیروں اور قبیلوں کے سرداروںمیں جنگ اور لڑائیاں ہونے لگیں، عوام کی اکثریت سعودی امیر کی اطاعت کرتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ آل سعود کی حکومت بڑھتی چلی گئی اور نجد اوردوسرے علاقوں میں اس کا مکمل طور پر قبضہ ہوگیا اور وہابیت کے پھیلنے میں بڑی موثر ثابت ہوئی۔
اسی زمانہ سے آج تک یعنی تقریباً(۲۴۰)سال سے نجد کی حکومت اور تقریباً ۲۴۵سال سے نجد اور حجاز کی حکومت اس خاندان کے ھاتھوں میں ہے، صرف تھوڑی مدت کے لئے آل رشید نے نجد پر حکومت کی تھی اور عبد الرحمن بن سعود کو نجد سے باہر نکال دیا تھا (جس کی تفصیل انشاء اللہ بعد میں بیان ہوگی) ورنہ ان کی حکومت کو کوئی طاقت ختم نہ کرسکی یہاں تک کہ عثمانیوں اور محمد علی پاشا کی حکومت نے بھی ان کی حکومت اوران کے نفوذ کو کلی طور پر ختم نہیں کیا۔
آل سعود کی حکومت کا آغاز
خاندان آل سعود کا تعلق عشیرہ مقرن کے قبیلہ (”عَنَزَہ “یا”عُنَیْزَہ“) سے تھا جو نجد اور اس کے اطراف مثلاً قطیف اور احساء میں رہتے تھے۔
سب سے پہلے ان میں سے جو شخص ایک چھوٹی سے حکومت کا مالک بنا اس کا نام ”مانع“ تھا کیونکہ وہ ”یمامہ“ کے امیر کا رشتہ دار تھا جس نے اس کو ”درعیہ“ کے دو علاقوں پر حاکم بنا دیا،مانع کی موت کے بعد اس کی ریاست اس کے بیٹوں کو مل گئی، چنانچہ مانع کے بعد اس کے بیٹے”ربیعہ“ نے حکومت کی باگ ڈورسنبھالی، اس نے آہستہ آہستہ اپنی حکومت کو وسیع کیا اس کے بھی موسیٰ نام کا ایک بیٹا تھا جو بہت ہوشیار اور بھادر تھا، چنانچہ موسیٰ نے اپنے باپ کے ھاتھوں سے حکومت چھین لی اور قریب تھا کہ اس کو قتل کردیتا، یہاں تک کہ اس کی طاقت روز بروزبڑھتی گئی وہ اسی علاقہ کے اطراف میں موجود آل یزید کی حکومت کو گراکر اس پر بھی قابض ہوگیا۔
اس طرح آل مقرن یا قبیلہ عنیزہ نے اپنے لئے ایک مختصر سی حکومت بنالی اور نجد اوراس کے قرب وجوار میں شھرت حاصل کرلی، لیکن جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اس حکومت کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی یہاں تک کہ محمد بن سعود کی حکومت بنی اور محمد بن عبد الوہاب اور محمد بن سعود میں معاہدہ ہوا۔
”دائرة المعارف اسلامی“ نے درعیہ میں وہابیوں (یا آل سعود) کی حکومت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ وہابیت کے آغاز سے مصریوں کے حملہ تک (۱۸۲۰ء) اس وقت درعیہ شھر دار السلطنت تھا۔
۲۔ ترکی اور فیصل آل سعود نے دوبارہ حکومت حاصل کی اس زمانہ ابن رشید حائل کا حاکم تھا(یعنی۱۸۲۰ء سے۱۹۰۲ء تک) اس وقت حکومت کا مرکز ریاض تھا۔
۳۔ ۱۹۰۲ء جب ابن سعود نے آل رشید سے حکومت کو چھین کر اپنے قبضہ میں لے لےا،
چنانچہ اس وقت سے سعودی حکومت نے بہت تیزی کے ساتھ پیشرفت اور ترقی کی ہے ،سعوی حکومت کو مذکورہ تین حصوں پر تقسیم کرنامناسب ہے کیونکہ ان تینوں حصوں میں ھر حصے کی کیفیت ایک دوسرے سے جدا ہے۔
محمد ابن سعود کون تھا؟
محمد بن عبد الوہاب کے حالات زندگی میں مختصر طور پر بیان کیا گیا کہ محمد بن سعود نے وہابیت کو پھیلانے میں بہت کوشش کی، اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاگیاکہ محمد بن عبد الوہاب نے اس کو دوسرے علاقوں پر غلبہ پانے کے سنھرے خواب دکھائے ۔
محمد بن سعود نے اپنے مقصد تک پہونچنے کے لئے حسن انتخاب اور اس راستہ میں مستحکم پائیداری کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے وہ کبھی مشکلات کے سامنے مایوس نہیں ہوا، اور نہ ہی اس کو مشکلات کا احساس ہوا، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جو لوگ ایک طولانی عرصے سے اپنے عقائد پر عمل کرتے آئے ہیں اوردوسروں کے عقائد کو باطل سمجھتے رہے ہیں ان کے سامنے نئے عقائد کو پیش کرنا اوران کو قبول کرانا کوئی آسان کام نہیں تھا، اسی وجہ سے شیخ محمد بن عبد الوہاب اور محمد بن سعودکو شروع شروع میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
حافظ وھبہ صاحب کہتے ہیں کہ۱۱۸۷ھ محمد بن سعود کے لئے بہت سختی کا سال تھا کیونکہ ”عر عر بن خالدی“ احساء کے حاکم، اور” سید حسن بن ھبة اللہ“ نجران کے حاکم نے آپس میں معاہدہ کیا کہ درعیہ شھر پر حملہ کریں اور ان کے نئے مذہب کو نیست ونابود کردیں، اور اس مذہب کے مروّج افراد کو بھی درہم وبرہم کردیں، ادہر سے عرعر اور دوسرے مخالفوں کی فوج ابھی تک نہیں پہونچی تھی کہ محمد بن سعود نے دیکھا کہ اس کا بیٹا ”حائر“ (خرج اور ریاض کا درمیانی علاقہ) علاقہ میں شکست کہاچکا ہے، یہ سب کچھ دیکھ کر محمد بن سعود کوبڑی فکر لاحق ہوئی، لیکن شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
اور اسی دوران شیخ محمد بن عبد الوہاب اور محمد بن سعود اور امیر نجران میں صلح ہوگئی
لہٰذا محمد بن سعود کے لئے در پیش خطرہ ٹل گیا۔
”دائرة المعارف اسلامی “ نامی کتاب اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ہے کہ۱۱۵۹ھ میں محمد بن سعود نے محمد بن عبد الوہاب سے مل کر قرب جوار کے علاقوں پر حملہ کردیا اور ان کے تمام مال ودولت کو غارت کرایا، ان سب چیزوں کو دیکھ ان کے دوسرے قرب جوار کے امراء مثلاً بنی خالد (حاکم احساء) یا آل مکرّمی (حاکم نجران) نے ان سے چھیڑ خوانی شروع کی لیکن وہ پھر بھی وہابیت کی پیشرفت کو نہ روک سکے، اور اشراف مکہ
بھی وہابیوں کو دین سے خارج سمجھتے تھے، لہٰذا ان کو اماکن متبرکہ کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
زینی دحلان صاحب کہتے ہیں کہ وہابیوںنے کچھ لوگوں کو شریف مسعود کے پاس بھیجا تاکہ ان کو حج کی اجازت مل جائے اور ان کامقصد یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے عقائد کو حرمین شریفین کے افراد کے سامنے پیش کریں، البتہ انھوں نے اس سے پہلے بھی تیس علماء پر مشتمل ایک وفد ان کے پاس بھیجا تھا تاکہ مکہ ومدینہ کے لوگوں کے عقائد کو فاسد اور باطل ثابت کیا جاسکے۔
ہاں تک کہ وہابیوں کو حج کی اجازت کے بدلے معین مقدار میں سالانہ ٹیکس دینا بھی منظور تھا، مکہ اور مدینہ کے لوگوں نے وہابیت کے بارے میں سنا تھا، لیکن ان کی حقیقت کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے تھے اور جب نجدی علماء (وہابی گروپ) مکہ پہونچے تو شریف مسعود نے حرمین کے علماء کو ان لوگوں سے مناظرہ کرنے کا حکم دیدیا، مناظرے کے بعد شریف مکہ نے اپنے قاضی شریح کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے کفر پر ایک تحریر لکھ دے، چنانچہ ان سبھوںکے گلے میں طوق اور پیروں میں زنجیریں ڈال کر زندان بھیج دیا گیا۔
۱۱۶۲ھ میں اشراف مکہ نے وہابیوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ عثمانی بادشاہ کے سامنے پیش کی، اور یہ سب سے پہلا موقع تھا کہ عثمانی بادشاہ وہابیت سے آگاہ ہوا، آخر کار محمد بن سعود۱۱۷۹ھ میں تیس سال حکومت کرنے کے بعد اس دنیا سے چل بسا۔
عبد العزیز بن محمد بن سعود
عبد العزیز (تاریخ پیدائش۱۱۷۹ھ متوفی۱۲۱۸ھ) محمد بن سعود کا بڑا بیٹا تھا اس نے باپ کے مرنے کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، اور اپنی حکومت کی توسیع اور وہابیت کی تبلیغ میں بہت کوشش کی، اس نے اپنی حکومت کے تیس سالوں میں ہمیشہ اپنے قرب وجوار کے قبائل سے جنگ وجدال کی،۱۲۰۸ھ میں احساء کے علاقہ کو فتح کیا، یا حافظ وھبہ کے قول کے مطابق :سپاہ اسلام نے احساء کے حاکم بنی خالد کو نیست و نابود کیا،اور احساء اور قطیف کے فتح کرنے کے بعد وہابیوں نے خلیج فارس کے سواحل کا رخ کیا۔
عبد العزیز اور شریف مکہ
ہم نے پہلے یہ بیان کیا کہ محمد بن عبد الوہاب نے کچھ افراد کو اپنے عقائد کو پیش کرنے اور حج کی اجازت کے لئے شریف مسعود کے پاس بھیجا، لیکن شریف مسعود نے ان کی گرفتاری کا حکم صادر کردیا اور ان کے کفر کا حکم دیدیا، اور انھیں حج کی اجازت بھی نہ دی۔
وہابی لوگ شریف مسعود کی موت تک (۱۱۶۵ھ) اعمال حج سے محروم رہے، اور جب شریف مسعود کی موت کے بعد اس کے بھائی مساعد بن سعید نے مکہ کی حکومت حاصل کی تو ایک بار پھر وہابیوں نے حج کی اجازت کے لئے کچھ افراد کو ان کے پاس بھیجالیکن اس نے بھی حج کی اجازت نہیں دی۔
۱۱۸۴ھ میں مساعد شریف مکہ کا بھی انتقال ہوگیا اور اس کا بھائی احمد اس کی جگہ پر بیٹھا تو ایک بار پھر نجدی علماء نے کچھ افراد پر مشتمل وفد کو احمد کے پاس بھیجا تاکہ حج کی اجازت حاصل کریں، اس نے بھی مکی علماء کو وہابی علماء کے عقائد کا پتہ لگانے کا حکم دیا، چنانچہ انھوں نے وہابی علماء کو ”زندیق“(بے دین) قرار دیدیا،اور شریف نے ان کو اعمال حج کی اجازت نہیں د ی۔
۱۱۸۶ھ میں شریف سُرور بن شریف مساعد نے مکہ کی حکومت اپنے چچا کے ھاتھوں سے چھین لی
اور و ھابیوں کوجزیہ دینے کی شرط پرحج کی اجازت دیدی، لیکن ان لوگوں نے جزیہ دینے سے انکار کردیا،
اور یہ حق ان کو۱۲۰۲ھ تک حاصل رہالیکن اسی سال شریف غالب، شریف سرور کا جانشین بنا، اور اس نے مذکورہ حق کو ان سے سلب کرلیا، اور عبد العزیز سے آمادہ جنگ ہوگیا۔
عبد العزیز کی بھی ہمیشہ یھی کوشش تھی کہ کسی طرح سے مکہ کو فتح کرلے، اور کسی بھانہ کی تلاش میں تھا، چنانچہ جب اس نے شریف غالب کو آمادہ جنگ دیکھا تو اس نے بھی اپنے لشکر کو مکہ کی طرف روانہ کردیا، اور جب شریف غالب اور عبد العزیز کے درمیان جنگ چھڑی تو یہ جنگ تقریباً نو سال تک جاری رہی، اور اس مدت میں تقریباً پندرہ بڑے حملے ہوئے جس میں کسی ایک کو بھی فتح حاصل نہ ہوئی۔
اس سلسلہ میں ”تاریخ المملکة العربیة السعودیہ“ کے مولف کہتے ہیں :۱۲۰۵ھ میں شریف غالب نے نجدیوں سے لڑنے کے لئے اپنے بھائی عبد العزیز کی سرداری میں دس ہزار کا لشکربھیجا جس کے پاس بیس توپیں بھی تھی، لیکن پھر بھی مذکورہ لشکر فتح یاب نہ ہوسکا۔
مذکورہ کتاب کے مولف نے نجدی وہابیوں کی طرفداری میں بہت مبالغہ کیا ہے، چنانچہکھا جاتا ہے کہ شریف غالب کے عظیم لشکر جس کے ساتھ حجاز، شَمّر اور مُطیّروغیرہ کے بہت لوگ ”قصر بسّام“ کو فتح کر نے کی غرض سے ان کے لشکر میں شامل ہوگئے تھے، جبکہ ان کے فقط تیس لوگ دفاع کرتے تھے اور اسی طرح وہ شعراء نامی علاقہ کو ایک مھینہ محاصرہ کے بعد بھی اس پر قبضہ نہ کرسکے جبکہ اس علاقہ میں چالیس افراد سے زیادہ نہیں تھے۔
آخر کار۱۲۱۲ھ میں ”غزوة الخرمہ“ نامی حملہ میں عبد العزیز، شریف غالب کے لشکر پر غالب ہوگیا، لیکن جیسا کہ حافظ وھبہ صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت کی سیاست اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ دونوں فریقوں میں صلح برقرار ہوجائے، اور نجدیوں کے لئے صرف حج کا راستہ کھول دیا جائے،۱۲۱۴ھ میں امیر نجد حج کے لئے روانہ ہوا یہ سب سے پہلا موقع تھا کہ کسی نجدی امیر نے اعمال حج انجام دئے، اس سے پہلے یعنی۱۲۱۳ھ میں صرف نجدی عوام حج کے لئے جا چکے تھے۔
بھر حال صلح نامہ پر کچھ ہی مدت تک عمل ہوا، اور پھر یہ صلح ختم ہوگئی، کیونکہ ان میں سے ایک دوسرے پر تہم ت لگاتا تھا کہ اس نے صلح کی شرطوں اورصلح نامہ پر صحیح سے عمل نہیں کیا ہے، نجدیوں کی یہ عام سیاست تھی کہ پورے جزیرة العرب میں ہماری بتائی ہوئی توحیدنافذ ہو، اور ان کے تمام مخالفین ختم ہوجائیں۔
چنانچہ چند سال کچھ آرام سے گذرے، اور۱۲۱۵ھ میں عبد العزیز اور اس کا بیٹا نجد کے بہت سے لوگوں (زن ومرد اور بچوں) کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلا اور ابھی سات منزل ہی طے کی تھیں کہ تھکن کا احساس ہونے لگا، اور اسی وجہ سے نجد میں واپس آگئے، لیکن سعود نے جاکر اعمال حج انجام دئے مکہ پہونچ کر شریف مکہ سے ملاقات کی۔
اس سفر کا نتیجہ یہ ہوا کہ ”عسیر“، ”تھامہ“ اور ”بنی حرب“ کے قبیلے سعود سے مل گئے اور جب شریف غالب نے یہ خبر سنی تو بہت ناراض ہوا، اسی اثنا میں سعود اور شریف غالب کے کارندوں میں کسی بات پر کچھ اختلاف ہوگیا تو ایک بار پھر دونوں میں جنگ کی تیاریاں شروع ہوگئیں، اوریہ جنگ بھی کئی سال تک ہوتی رہی، اور دونوں فریقوں کے درمیان تیرہ جنگی واقعات پیش آئے ،وہابیوں کی طاقت ہر لحاظ سے شریف غالب کی طاقت سے زیادہ تھی، اسی وجہ سے وہابیوں نے شریف غالب پر دائرہ تنگ کردیا، چنانچہ نجدیوں طائف شھر (مکہ کے نزدیک) پر قبضہ کرلیا۔
جمیل صدقی زھاوی، فتح مکہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہابیوں کے سب سے برے کاموں میں سے (مسلمانوں) کا قتل عام ہے جس میں چھوٹے بڑوں کے علاوہ وہ شیر خوار بچے بھی ہیں جن کو ان کی ماوں کے سینہ سے چھین کر ان کے سروتن میں جدائی کردی، اور ایسے بچوں کو بھی تہہ تیغ کردیا جو قرآن پڑھنے میں مشغول تھے، اور جب گھروں میں کوئی باقی نہیں بچتا تھا تووہاں سے مسجدوںاور دکانوںکا رخ کیا کرتے تھے اور وہاں پر موجود تمام لوگوں کو قتل کردیتے تھے یہاں تک کہ جو لوگ رکوع اور سجدے کی حالت میں ہوتے تھے ان کو بھی قتل کردیا کرتے تھے
یھی نہیں بلکہ ان کے گھروں میں جو کتابیں قرآن مجید، صحیح بخاری وصحیح مسلم اور حدیث وفقہ کی دوسری کتابیں ہوتی تھیں ان سب کو باہر پھینک کر پامال کردیتے تھے، یہ واقعہ۱۲۱۷ھ میں رونما ہوا،
اس کے بعد ان لوگوں نے مکہ کا رخ کیا لیکن چونکہ حج کا زمانہ تھا اور اس موقع پر وہاں حملہ کرتے تو تمام حجاج مل کران سے جنگ کے لئے تیار ہوجاتے اسی وجہ سے انھوں نے حج کا زمانہ گذر جانے تک صبر کیا، اور جب حجاج اپنے اپنے وطن لوٹ گئے تو انھوں نے مکہ پر حملہ شروع کردیا۔
نجدی علماء کے نام مکی علماء کا جواب
شاہ فضل رسول قادری (ہندی) متوفی۱۲۸۹ھ سیف الجبار نامی کتاب میں اس خط کو پیش کرتے ہیں جس کو نجدی علماء نے طائف میں قتل وغارت کے بعد مکی علماء کے نام لکھا ہے ،اور اس کے بعد مکی علماء کا جواب بھی نقل کیا، اور خود موصوف نے بھی بعض جگہوں پر فارسی زبان میں کچھ توضیحات دیں ہیں، مکہ کے علماء نجدیوں کے خط کا جواب دینے کے لئے نماز جمعہ کے بعد خانہ کعبہ کے دروازہ کے پاس کھڑے ہوئے اور اس مسئلہ کے بارے میں گفتگو کی اس جلسہ کے صدر جناب احمد بن یونس باعلوی نے ان کی باتوں کو قلم بند کرنے کے لئے کہا، (چنانچہ وہ خط لکھا گیا)
نجدیوں کی باتیں اور مکی علماء کا جواب
شاہ فضل قادری کی توضیحات کے ساتھ تقریباً(۸۹)ستونوں (ھر صفحہ میں دو ستون) میں ذکر ہوا ہے، یہ باتیں جو ہم ذکر کریں گے وہ نجدیوں کے خط کے باب اول (باب الشرک) اور باب دوم (باب البدعة) سے متعلق ہیں۔
اس خط کو لکھنے والے احمد بن یونس باعلوی خط کے آخری حصے میں لکھتے ہیں، کہ باب اول کے بارے میں ہمارا نظریہ تمام ہوا، نماز عصر کا وقت قریب آگیا، اور نماز پڑھی جانے لگی اور علماء اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے، شیخ عمر عبد الرسول اور عقیل بن یحيٰ علوی اور شیخ عبد الملک اور حسین مغربی اس خط کا املاء بول رہے تھے۔
اور جب علماء نماز سے فارغ ہوئے تو دوسرے باب (یعنی باب البدعة) کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی کہ اچانک طائف کے ستمدیدہ اورمظلوم لوگ مسجد الحرام میں وارد ہوئے اور لوگوں کو اپنی روداد سنائی اور ان کو یہ خبر بھی دی کہ نجدی مکہ میں بھی آئےں گے، اور یہاں آکر قتل وغارت کریں گے۔
چنانچہ اہل مکہ نے جب یہ خبر سنی تو بہت پریشان ہونے لگے گویا کہ قیامت آنے والی ہے، علماء مسجد الحرام کے منبر کے پاس جمع ہوگئے اور جناب ابوحامد منبر پر تشریف لے گئے اور نجدیوں کا خط اور اس کا جواب لوگوں کو پڑھ کر سنانے لگے۔
اور اس کے بعد علماء، قضات اور مفتیوں سے خطاب کیا آپ حضرات نے نجدیوں کی باتوں کو سنا اور ان کے عقائد کو جان لیا اب ان کے بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟۔
اس وقت تمام علماء، قضات اوراہل مکہ اور دوسرے اسلامی ملکوں سے آئے حاجی مفتیوں نے نجدیوں کے کفر کا فتویٰ دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ امیر مکہ پر ان سے مقابلہ کے لئے جلدی کرنا واجب ہے اور تمام مسلمانوں پر بھی ان کی حمایت اور مدد کرنا واجب ہے، اور ان کے مقابلہ میں شرکت کرنا واجب ہے اور اگر کوئی شخص بغیر عذر خواہی کے جنگ سے منھ موڑے گا تو وہ شخص گناہکار ہے،اور ان لوگوں سے جنگ کرنے والا مجاہد ہے اور اسی طرح ان کے ھاتھوں سے قتل ہو نے والا شخص شھید ہوگا۔
علماء اور مفتیوں نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے مذکورہ فتوے پر اپنی اپنی مھر لگائی، اور نماز مغرب کے بعد شریف مکہ کے حضور میں پہونچے اور سب لوگوں نے مل کر یہ طے کرلیا کہ جنگ کے لئے تیار ہوجائیں اور کل صبح کے وقت نجدیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے حدود حرم سے خارج ہوجائیں۔
لیکن شریف غالب مکہ میں نہ رہ سکے، اسی بنا پر اپنے بھائی عبد المعین کو مکہ میں اپنا جانشین بنایا اور خود جدّہ بندرگاہ نکل گئے، لیکن عبد المعین سعود سے مل بیٹھا اور ایک خط لکھ کر اس سے امان چاہی، اور اس نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ اہل مکہ آپ کی پیروی کرنے کے لئے حاضر ہیں، اور وہ خود بھی سعود کی طرف سے مکہ کا والی ہونا پسند کرتا ہے۔
شریف کے بھیجے ہوئے افراد سب لوگ بزرگ ہستیاں تھیں، اور ”وادی السّیل“ (طائف اور مکہ کے درمیان) میں سعود سے ملاقات کی۔
چنانچہ ان کے درمیان ضروری گفتگو انجام پائی، اس گفتگو کے بعد سعود نے عبد المعین کی اس پیشکش کو بھی قبول کرلیاجو اس نے اپنے خط میں لکھی تھی، اور اہل مکہ کو دین خدا و رسول کی طرف دعوت دی، اور اپنے ایک خط میں عبد المعین کو مکہ کا والی مقرر کیا، عبد المعین کے بھیجے ہوئے افراد بھی صحیح وسالم مکہ پلٹ گئے، سعود کا خط ۷محرم الحرام۱۲۱۸ھ کو روز جمعہ مفتی مالکی کے ذریعہ سب کے سامنے پڑھا گیا۔
خط کی عبارت اس طرح ہے:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
” مِنْ سُعُوْدْ بِنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ اِلٰی كَافَّةِ اَهْلِ مَكَّةَ وَالْعُلَمَاءِ وَالاَغَاوٰاتِ وَقَاضِی السُّلْطَانِ
اَلسَّلاٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ اَمَّا بَعْد:
فَاَنْتُمْ جِیْرَانُ اللّٰهِ وَسُكَّانُ حَرَمِه، آمِنُوْنَ بِامْنِه، اِنَّمَا نَدْعُوكُمْ لِدِیْنِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ
(
قُلْ یَا اَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سِوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَنْ لاٰ نَعْبُدَ اِلّٰا اللّٰهَ وَ لاٰ نُشْرِكَ بِه شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْااَشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
)
فَاَنْتُمْ فِی وَجْهِ اللّٰهِ وَ وَجْهِ اَمِیْرِ الْمُسْلِمِیْنَ سُعُوْد بِنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ وَاَمِیْرُكُمْ عَبْدُ الْمُعِیْنِ بْنُ مُسَاعِدِ فَاسْمَعُوْا لَهُ وَاَطِیْعُوْا مَا اَطَاع َاللّٰهَ وَالسَّلاٰمْ“
(شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو بڑا رحمن اور رحیم ہے ،یہ خط سعود بن عبد العزیز کی طرف سے تمام اہل مکہ، علماء، خواجگان
اور سلطان عثمانی کی طرف معین قاضی کی طرف، سلام ہو ان لوگوں پر جنھوں نے ہدایت کا اتباع کر لیا ہے ،اما بعد: (بعد از حمد خدا اور درود سلام بر پیغمبر اکرم)
تم لوگ خدا کے ہمسایہ اور پڑوسی ہو اور اس کی امان، خانہ خدا میں رہتے ہو، خدا کی امان سے امان میں ہو، ہم تم کو دین خدا اوردین رسول اللہ کی دعوت دیتے ہیں۔
”اے پیغمبرآپ کہہ دیں کہ اے اہل کتاب آو اور ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، آپس میں ایک دوسرے کو خدا کا درجہ نہ دیں، اوراگر اس کے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ہم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ہیں“
تم لوگوں کو چاہئے کہ خدا اور سعود امیر مسلمین کی راہ پر چلو، اور تمھارا والی عبد المعین بن مساعد ہے اس کی باتوں کو سنو، اورجب تک وہ خدا کی اطاعت کرے تم سب اس کی اطاعت کرو والسلام۔)
سعود(۸)محرم کوبحالت احرام مکہ میں وارد ہوا، طواف اور سعی کے بعد شریف غالب کے باغ میں مہم ان ہوا، اس کے بعد مسجد الحرام گیا اور لوگوں کے سامنے ایک تقریر کی جس میں اہل مکہ کو توحید کی دعوت دی، اور ایک دوسری تقریر کے درمیان تمام لوگوں کے لئے یہ حکم صادر کیا کہ جتنی قبروں پر بھی گنبد ہیں سب کو گرادو۔
اس سلسلہ میں ”جبرتی“ کہتا ہے کہ بہت سے اہل مکہ دوسرے حجاج کے ساتھ وہابیوں کے سامنے سے بھاگ نکلے، کیونکہ لوگ وہابیوں کے عقائد کے برخلاف عقائد رکھتے تھے، مکہ کے علماء اور عوام الناس وہابیوں کو خوارج اور کافر کہتے تھے، صرف اہل مکہ ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی ان عقائد کے برخلاف اظھار عقیدہ کرتے تھے۔
اس کے بعد وہابیوں کے رئیس (سعود) نے یمن کے امیر حجاج کو بھی ایک خط لکھا اورکئی صفحات میں اپنے عقائد لکھ کر بھیجا، سعود نے اس خط میں جس کو جبرتی نے نقل کیا ہے، اس بات پر توجہ دلائی کہ جو لوگ مُردوں سے لَو لگاتے ہیں ان سے حاجت طلب کرتے ہیں، قبروں کے لئے نذر یا قربانی کرتے ہیں یا ان سے استغاثہ کرتے ہیں، یہ نہ کریں اس نے لوگوں کو بہت ڈرایا دہمکایا، اسی طرح انبیاءعلیهم السلاماولیاء اللہ کی قبور کی تعظیم کرنا قبروں پر گنبد بنانا، ان پر چراغ جلانا قبروں کے لئے خدمت گذار معین کرنا وغیرہ وغیرہ ان سب کی شدت کے ساتھ ممانعت کردی، قبروں کی گنبدوں کو ویران اور مسمار کرنے کو واجب قرار دیا، ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ جو شخص بھی ہمارے عقائد کو قبول نہیں کرے گا ہم اس سے جنگ کریں گے۔
زینی دحلان کہتے ہیں کہ وہابی افراد مکہ میں چودہ دن رہے، اس دوران انھوں نے وہاں کے مسلمانوں سے توبہ کرائی اور اپنے خیال خام میں انھوں نے لوگوں کے اسلام کو تازہ کیا اور جو عقائد مثلاً توسل اور زیارات، شرک تھے ان سب کو ممنوع قرار دیا۔
اپنے قیام کے نویں دن وہابیوں نے کثیر تعداد میں لوگوں کو جمع کیا جن کے ھاتھوں میں بیلچے (پھاوڑے)تھے تاکہ اس علاقہ میں موجود قبروں کی گنبدوں کو مسمار کردیں، سب سے پہلے انھوں نے قبرستان ”معلی“
جہاں بہت سی گنبدیں تھیں،سب کو مسمار کردیا اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جائے ولادت اسی طرح ابوبکر اور حضرت علیںکی جائے ولادت، اسی طرح جناب خدیجہ کی گنبد، نیز چاہ زمزم پر موجود قبہ اور خانہ کعبہ کے اطراف میں موجود تمام قبروں کو نیز خانہ کعبہ سے اونچی تمام عمارتوں کو مسمار کردیا۔
اس کے بعد ان تمام مقامات کو مسمار کردیا جہاں پر خدا کے صالح بندوں کے کچھ بھی آثار تھے، وہابی حضرات جس وقت قبروں اور گنبدوں کو مسمار کرتے تھے تو طبل بجاتے تھے اور رجز پڑھتے تھے، اور صاحب قبور کو برے برے الفاظ سے یاد کرتے تھے، چنانچہ انھوں نے تین دن کے اندر تمام آثار اور قبور کو نیست ونابود کردیا۔
ابن بشر صاحب کہتے ہیں کہ سعود تقریباً بیس دن سے زیادہ مکہ میں رہا اور اس کے ساتھی صبح سویرے ہی قبروں اور گنبدوں کو گرانے کے لئے نکل جاتے تھے یہاں تک کہ یہ کام دس دن میں تمام ہوگیا، اور یہ لوگ اس کام میں خدا کا تقرب سمجھتے تھے یہاں تک کہ انھوں نے تمام قبور کو منہدم کردیا۔
سعود کے دیگر کارنامے اور شریف غالب کی واپسی
سعود نے ایک انوکھا حکم یہ صادر کیا کہ نماز عشاء کے علاوہ مذاہب اربعہ کے پیروکاروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ایک ساتھ مسجد الحرام میں نماز میں شریک ہوں، بلکہ صبح کی نماز میں شافعی ظھر کی نماز میں مالکی عصر کی نماز میں حنفی مغرب کی نماز میں حنبلی اور نماز جمعہ مفتی مکہ سے مخصوص کردی گئی۔
سعود نے یہ بھی حکم صادر کیا کہ محمد بن عبد الوہاب کی کتاب کشف الشبھات کو مسجد الحرام میں پڑھایا جائے اور تمام خاص وعام اس میں شریک ہوں۔
سعود ۲۴دن مکہ میں رہا اس کے بعد شریف غالب کی گرفتاری کے لئے جدہ روانہ ہوا، اور اس علاقہ کو گھیر لیا لیکن چونکہ جدّہ کے اطراف میں اونچی اونچی پھاڑیاں ہیں اور ان کے دفاع کے وسائل بھی بہت مضبوط تھے جس کی بناپر سعود، شریف غالب کو گرفتار نہ کرسکا اور مایوس ہوکر نجد پلٹ گیا۔
شریف غالب نے مکہ میں سعود کے نہ ہونے سے فائدہ اٹھایا اور مکہ واپس آگئے، اور اپنے بھائی عبد المعین کی طرح بغیر کسی روک ٹوک کے شھر کو اپنے قبضہ میں کر لیا،
لیکن وہابی راضی نہ تھے کہ مکہ معظمہ ان کے ھاتھوں سے چلا جائے، شریف غالب بھی چاہتے تھے کہ پہلے کی طرح مکہ میں حکمرانی کریں ،اسی وجہ سے دونوں میں ایک بار پھر جنگ کا بازار گرم ہوگیا، ذیقعدہ۱۲۲۰ھ تک یہ جنگ چلتی رہی، پھر صلح ہوگئی، جس میں طے پایا کہ وہابی لوگ صرف حج کے لئے مکہ معظمہ میں داخل ہونگے اور پھر واپس چلے جایا کریں گے۔
شریف غالب بھی وہابیوں سے جنگ کرتے ہوئے تھک چکے تھے اپنے اندر مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں پارہے تھے، اور اپنی پہلی حکمرانی پر باقی بھی رہنا چاہتے تھے،لہٰذا اس کے پاس ظاہری طور پر وہابی مذہب کو قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا، اور یہ کہ وہابی حضرات جو چاہیں عمل کرےں، اور صلاح الدین مختار کے قول کے مطابق خدا اور اس کے رسول کے دین کو قبول کرنے میں سعود کی بیعت کریں۔
شریف غالب نے اپنے خلوص کو سعود کے نزدیک ثابت کرنے کے لئے لوگوں کو حکم دیا کہ جو گنبد اور مقبرے باقی رہ گئے ہیں ان سب کو گرادیا جائے کیونکہ بعض مقبروں کو وہابیوں نے نہیں گرایا تھا چنانچہ اس نے مکہ معظمہ اور جدّہ میں کوئی مقبرہ نہیں چھوڑا، لیکن پھر بھی شریف غالب کے ھاتھوں کچھ ایسے کام ہوتے رہتے تھے جن کی وجہ سے سعود اس سے بد گمان رہتا تھا۔
شریف غالب کے قابل توجہ کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ تاجر لوگوں سے ٹیکس لیتا تھا اور سعود اعتراض کرتا تھا تو یہ کہتا تھا کہ یہ لوگ مشرک ہیں (اس کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ یہ لوگ وہابی نہیں ہیںلہٰذا مشرک ہیں) اور میں یہ ٹیکس مشرکوں سے لے رہا ہوں مسلمانوں سے نھیں۔
مدینہ پر قبضہ
۱۲۲۰ھ میں سعود نے مدینہ پر بھی قبضہ کرلیا، اور روضہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیمتی چیزوں کواپنے قبضے میں لے لیا،اس نے عثمانی بادشاہوں کی طرف سے مکہ اورمدینہ میں معین کئے گئے قاضیوں کو بھی شھر سے باہر نکال دیا۔
صلاح الدین مختار صاحب کی تحریر کے مطابق جس وقت مدینہ کی اہم شخصیات نے یہ دیکھ لیا کہ شریف غالب سعود سے بیعت کرنے کے خیال میں ہے تو انھوں نے سعود کو پیشکش کی کہ اہل مدینہ دین خدا ورسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سعود کی اطاعت کو قبول کرلے، یعنی ان کی بیعت کو قبول کرلے، انھوں نے یہ پیش کش کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں موجود گنبدوں اور مقبروں کو گرانا شروع کردیا۔
اس طرح وہابیوں نے ایک بہت بڑی حکومت تشکیل دی کہ جس میں نجد اور حجاز شامل تھے اور عثمانی کارندوں کو باہر نکال دیا، نیز عثمانی بادشاہوں کا ذکر خطبوں سے نکال دیا، اور وہ اسی پر قانع نہیں ہوئے بلکہ عراق کا رخ کیا مخصوصاً عراق کے دو مشہور شھر کربلائے معلی اور نجف اشرف پر حملے کئے۔
کربلا اور نجف اشرف پر وہابیوں کاحملہ
ابتداسے ہی آل سعوداور عراقیوں میں جو اس زمانہ میں عثمانی بادشاہ کے تحت تھے، لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے اور وہابی لوگ عراق کے مختلف شھروں پر حملہ کرتے رہتے تھے، لیکن عراق کے دومشہور شھر نجف اور کربلا پر حملہ ایسا نہیں تھا جو مختلف شھروں پر ہوتا رہتا تھا، بلکہ اس حملہ کا انداز کچھ اور ہی تھا اور اس حملہ میں مسلمانوں کا قتل عام اور حضرت امام حسینںکے روضہ مبارک کی توھین کے طریقہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذکورہ کاموں کا بنیادی مقصد ان کے مذہبی عقائد تھے اور وہ بھی شدت اور تعصب کے ساتھ، کیونکہ انھوں نے تقریباً دس سال کی مدت میں کئی مرتبہ ان دونوں شھروں پر حملہ کیا ہے۔
ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ابن تیمیہ اور اس کے مرید اس وجہ سے شیعوں سے مخالفت اور دشمنی رکھتے تھے کہ ان کو قبروں پر حج کرنے والے یا قبروں کی عبادت کرنے والے کہا کرتے تھے اور بغیر کسی تحقیق کے ان کا گمان یہ تھا کہ شیعہ حضرات اپنے بزرگوں کی قبروں کی پرستش کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا حج کرنے کے بجائے قبور کا حج کرتے ہیں، اور اسی طرح کے دوسرے امور جن کی تفصیل ہم نے پہلے بیان کی ہے، سب کی بڑی وضاحت کے ساتھ تردید بھی کردی ہے۔
بھر حال چونکہ یہ دو شھر،(کربلا اور نجف اشرف) شیعوں کے نزدیک خاص اہمیت کے حامل تھے اور ہیں، اس بناپر ان دونوں زیارتگاہوں پر بہت بہترین، اور عمدہ گنبدیں بنائی گئی ہیں اوربھت سا نذر کا سامان اوربھت سی چیزیں ان روضوں کے لئے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ہزاروں کی تعداد میں دور اور نزدیک سے مومنین کرام زیارت کے لئے جاتے ہیں، اور جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکے ہیںوہابی لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے بہت سے شبھات اوراعتراضات کے شکار تھے جن کی بناپر شیعوں سے بہت زیادہ تعصب رکھتے تھے اور ہمیشہ ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے تھے جن کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہونچ سکیں۔
دائرة المعارف اسلامی کی تحریر کے مطابق، ”خزائل نامی شیعہ قبیلہ“ کی طرف سے نجدی قبیلہ پر ہوئی مار پیٹ کو انھوں نے کربلا اور نجف پر حملہ کرنے کا ایک بھانہ بنا لیا۔
کربلا اور نجف پر وہابیوں کے حملے۱۲۱۶ھ میں عبد العزیز کے زمانہ سے شروع ہوچکے تھے جو۱۲۲۵ھ سعود بن عبد العزیز کی حکومت کے زمانہ تک جاری رہے۔
ان حملوں کی تفصیل وہابی اور غیر وہابی مولفوں نے لکھی ہے اور اس زمانہ کی فارسی کتابوں میں بھی یہ واقعات موجود ہیں، نجف اشرف کے بعض علمائے کرام جو ان حملوں کے خود چشم دید گواہ ہیں اور ان میں سے بعض اپنے شھر کے دفاع میں مشغول تھے انھوں نے ان تمام چیزوں کو اپنی کتابوں میں لکھاہے جن کو خود انھوں نے دیکھا ہے یا دوسروں سے سنا ہے، ہم یہاںپر ان کی کتابوں سے بعض چیزوں کو نقل کرتے ہیں:
کربلا پر حملہ
وہابی مولف صلاح الدین مختار اس سلسلہ میں کہتے ہیں:
”۱۲۱۶ھ میں امیر سعود (ابن عبد العزیز) نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ نجد اور عشایر کے لوگوں کے ساتھ اوراسی طرح جنوب ،حجاز اور تھامہ وغیرہ کے لوگوں کی ہمراہی میں عراق کا رخ کیا اور ذیقعدہ کو شھر کربلا پہونچ کر اس شھر کو گھیر لیا، اور اس لشکر نے شھر کی دیوار کو گرادیا، اور زبردستی شھر میں داخل ہوگئے کافی لوگوں کو گلی کوچوں میں قتل کرڈالا اور ان کے تمام مال ودولت لوٹ لیا، اور ظھر کے وقت تک شھر سے باہر نکل آئے اور ” ماء الابیض “ نامی جگہ پر جمع ہوکر غنیمت کی تقسیم شروع ہوئی اور مال کا پانجواں حصہ (یعنی خمس) سعود نے لے لیا اور باقی مال کو اس طرح اپنے لشکر والوں میں تقسیم کیا کہ پیدل کو ایک اور سوار کو دوحصّے ملے“۔
پھر چند صفحہ بعد لکھتے ہیں کہ امیر عبد العزیز بن محمد بن سعود ایک عظیم لشکر کو اپنے بیٹے سعود کی سرداری میں عراق بھیجا جس نے ذیقعدہ۱۲۱۶ھ میں کربلا پر حملہ کیا۔
صلاح الدین مختار صاحب، ابن بشر
کی باتوں کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ امیر سعود نے اس شھر پر حملہ کیا جس کا شیعوں کی نظر میں احترام کرنا ضروری ہے۔
شیخ عثمان بن بشر نجدی مورخ مذکور واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ذی قعدہ۱۲۱۶ھ میں سعود بھاری لشکر کے ساتھ جس میں بہت سے شھری اور خانہ بدوش (نجد، جنوب، حجاز اور تھامہ وغیرہ کے) تھے حضرت امام حسین کی بارگاہ کربلا کا رخ کیا اور شھر کے باہر پہونچ کر پڑاو ڈال دیا۔
مذکورہ لشکر نے شھر کی دیوار کوگرادیااور شھر میں داخل ہوگئے اور شھر میں پہونچنے کے بعد گھروں اوربازاروں میں موجود لوگوں کا قتل عام کردیا، اور حضرت امام حسین ں کی گنبد کو بھی گرادیا، اور آپ کی قبر پر موجود ہ صندوق (ضریح) جس پر یاقوت اور دیگر جواہر ات لگے ہوئے تھے اس پر قبضہ کرلیا، اور ان کے تمام مال ودولت، اسلحہ، لباس، فرش، سونا چاندی بہترین اور نفیس قرآن کو مال غنیمت میں لے لیا نیز اس کے علاوہ تمام چیزوں کو غارت کردیا، اور ظھر کے وقت شھر سے باہرنکل گئے، اس حملہ میں وہابیوں نے تقریباً دو ہزار لوگوں کو قتل کیا ۔
شیعوں کے عظیم عالم دین مرحوم علامہ سید جواد عاملی ،نجف اشرف پر وہابیوں کے حملہ کے چشم دید گواہ ہیں، وہ وہابی مذہب کی پیدائش کے ضمن میں اس طرح فرماتے ہیں کہ۱۲۱۶ھ میں حضرت امام حسین ں کے روضہ مبارک کو غارت کردیا چھوٹے بڑوں کو قتل کر ڈالا لوگوں کے مال ودولت کو لوٹ لیا خصوصاً حضرت امام حسین ں کے روضہ کی بہت زیادہ توھین کی اور اس کو گراڈالا۔
جن شیعہ مولفوں نے کربلا کے قتل عام کی تاریخ(۱۸)ذی الحجہ (عید غدیر)۱۲۱۶ ھ ق۔ بیان کی ہے ان میں سے ایک صاحب ”روضات الجنات“بھی ہیں جنھوں نے مولیٰ عبد الصمد ہمدانی حائری کے حالات زندگی کے ضمن میں فرمایاہے: بروز چھار شنبہ(۱۸)ذی الحجہ (عید غدیر)۱۲۱۶ ھ ق۔ کا دن تھا کہ وہابیوں نے مرحوم ہمدانی کو اپنی مکاریوں کے ساتھ گھر سے نکالا اور شھید کردیا۔
لیکن اس واقعہ کی تفصیل ڈاکٹر عبد الجواد کلید دار (جو خود کربلا کے رہنے والے ہیں) اپنی کتاب تاریخ کربلا وحائر حسینی میں ”تاریخِ کربلائے معلی“ (ص ۲۰، ۲۲)سے کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں :
” ۱۲۱۶ھ میں وہابی امیر سعود نے اپنے بیس ہزار جنگجو بھادروں کا لشکر تیار کیا اور کربلا شھر پر حملہ ور ہوا، اس زمانہ میں کربلا کی بہت شھرت اور عظمت تھی اور ایرانی ،ترکی اورعرب کے مختلف ممالک سے زائرین آیا کرتے تھے، سعود نے پہلے شھر کو گھیرا اور اس کے بعد شھر میں داخل ہوگیا، اور دفاع کرنے والوں کاشدید قتل عام کیا، شھر کے اطراف میں خرمے کی لکڑیوں اور اس کے پیچھے مٹی کی دیوار بنی ہوئی تھی جس کو انھوں نے توڑ ڈالا۔
وہابی لشکر نے ظلم اور بربریت کا وہ ناچ ناچا جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا، یہاںتک کہ کہا یہ جاتا ہے کہ ایک ہی دن میں انھوں نے بیس ہزار لوگوں کا قتل عام کیا۔
اور جب امیر سعود کا جنگی کام ختم ہوگیا تو وہ حرم مطھر کے خزانہ کی طرف متوجہ ہوا، یہ خزانہ بہت سی نفیس اور قیمتی چیزوں سے بھرا ہوا تھا، وہ سب اس نے لوٹ لیا، کہا یہ جاتا ہے کہ جب ایک خزانہ کے دروازہ کو کھولا تو وہاں پر کثیر تعداد میں سكّے دکھائی دئے اور ایک گوھر درخشان جس میں بیس تلواریں جو سونے سے مزین تھیں اور قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے اسی طرح سونے چاندی کے برتن اور فیروزہ اور الماس کے گرانبھا پتھر تھے ان سب کو لوٹ لیا، اسی طرح چار ہزار کشمیری شال، دوہزار سونے کی تلواریں اور بہت سی بندوقیں اور دیگر اسلحوں کو غارت کرلیا۔
اس حادثہ کے بعد شھر کربلا کی حالت یہ تھی کہ شاعر لوگ اس کے لئے مرثیہ کہتے تھے، اور جو لوگ اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے تھے، شھر میں لوٹ آئے، اور بعض خراب شدہ چیزوں کے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
”لونکریک“ نے اپنی تاریخ (چھار قرن از عراق)میں لکھا ہے کہ اس واقعہ کو دیکھ کر اسلامی ممالک میں ایک خوف ووحشت پھیل گئی۔
مذکورہ مولف دوسری جگہ پر ”لونکریک“ سے نقل کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں وہابیوں کے کربلا سے نزدیک ہونے کی خبر۲نیسان(جولائی)۱۸۰۱ء کو شام کے وقت پہونچی اس وقت کربلا کے لوگوں کی کثیرتعداد زیارت کے لئے (عید غدیر کی مناسبت سے) نجف اشرف گئی ہوئی تھی، جو لوگ شھر میں باقی تھے انھوں نے جلدی سے شھر کے دروازے بند کردئے، وہابیوں کی تعداد ۶۰۰پیدل اور(۴۰۰)سوار تھے، چنانچہ شھر سے باہر آکر جمع ہوگئے اور اپنے خیمہ لگادئے اوراپنے کہانے پینے کی چیزوں کو تین حصوں میں تقسم کیا اور ”باب المخیم“ نامی محلہ کی طرف سے دیوار توڑ کر ایک گھر میں داخل ہوگئے اوروہاں سے نزدیک کے دروازے پر حملہ کردیا اور پھر شھر میں داخل ہوگئے ۔
اس موقع پر خوف ودہشت کی وجہ سے لوگوں نے ناگھانی طور پر بھاگنا شروع کردیا، وہابیوں نے حضرت امام حسین ں کے روضہ کا رخ کیا، اور وہاں پر توڑ پھوڑ شروع کردی، اور وہاں پر موجود تمام نفیس اور قیمتی چیزوں کو جن میں سے بعض ایران کے بادشاہوں اور دیگر حكّام نے نذر کے طور پر بھیجی تھی ان تمام چیزوں کو غارت کرلیا، اسی طرح دیوار کی زینت اور چھت میں لگے سونے کو بھی ویران کرڈالا، قیمتی قالینوں ،قندیلوں اور شمعدانوں وغیرہ کو بھی لوٹ لیا، اور دیواروں میں لگے جواہرات کو بھی نکال لیا۔
ان کے علاوہ ضریح مبارک کے پاس تقریباً ۵۰لوگوں کو اور صحن میں ۵۰۰لوگوں کو قتل کردیا، وہ لوگ جس کو بھی پاتے تھے وحشیانہ طریقہ سے قتل کردیا کرتے تھے، یہاں تک کہ بوڑھوں اور بچوں پر بھی کوئی رحم نہیں کیا، اس حادثہ میں مرنے والوں کی تعداد کو بعض لوگوں نے ایک ہزار اوربعض لوگوں نے پانچ ہزار بتائی ہے۔
سید عبد الرزاق حسنی صاحب اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ۱۲۱۶ھ میں وہابیوں کے لشکر نے جس میں (۶۰۰)اونٹ سوار اور(۴۰۰)گھوڑے سوار تھے کربلا پر حملہ کردیا اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب اکثر لوگ نجف اشرف کی زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے۔
حملہ آوروں نے حضرت امام حسینں اور جناب عباسں کے روضوں کو بہت زیادہ نقصان پہونچایا، اور ان دونوں روضوں میں جوکچھ بھی تھا وہ سب غارت کردیا، اور ساری قیمتی چیزیں جیسے قیمتی پتھر ”ساج“ کی لکڑی، بڑے بڑے آئینے اور جن ہدیوں کو ایران کے وزیروں اور بادشاہوں نے بھیجا تھا ان سب کو لوٹ لیا، اور در ودیوار میں لگے قیمتی پتھروں کو ویران کردیا اور چھت میں لگے سونے کو بھی لے گئے اور وہاں پر موجود تمام قیمتی اور نفیس قالینوں، قندیلوں اور شمعدانوں کو بھی غارت کرلیا۔
قارئین کرام!جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ کیا کہ مختلف کتابوں نے وہابیوں کی تعداد اور مقتولین کی تعداد میں اختلاف کیا ہے ۔ لیکن وہابی مولف کی تحریر کے مطابق جس کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اور دوسرے شواہد کی بناپر وہابیوں کی تعداد بیس ہزار اورمرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ صحیح دکھائی دیتی ہے۔
حسینی خزانہ کے بارے میں
حاج زین العابدین شیروانی صاحب جو تقریباً محمد بن عبد الوہاب کے ہم عصر تھے اور ایک طولانی مدت سے کربلا میں مقیم تھے اور کربلا پر وہابیوں کا حملہ ا نہیں کے زمانہ میں رونما ہوا ہے، موصوف اپنی کتاب ” حدائق السیاحہ“ میں وہابیوں کے حملے کی تفصیل اس طرح لکھتے ہیں: ”روضہ امام حسین ں کا تمام زر وزیور، قندیلیں، سونے اور چاندی کے ظروف اورجواہر وغیرہ سب وہ (وہابی) ظالم لوٹ لے گئے اور باقی تمام دوسری چیزیں غارت کردیں، سوائے وہ سامان جو ان کے پہونچنے سے پہلے پہلے کاظمین پہونچادیا گیا تھا بچ گیا۔
میر عالم صاحب جو دکھن (ہند وستان) کے نوابوںمیں سے تھے انھوں نے اس واقعہ کے بعد کربلا شھر کے چاروں طرف دیوار بنوائی اور اس کے قلعہ کو گچ (چونے) اور اینٹوں سے مضبوط کرایا، اسی طرح آقا محمد خان شھریار ایران نے وہابیوں کے حملے سے پہلے حضرت امام حسین ں کے روضہ کو بنایا اور اس کے گنبد کو سونے کی اینٹوں سے بنوایا۔
وہابیوں کے نجف اشرف پر حملے کے ضمن میں یہ بات بیان کی جائے گی کہ جب نجف کے علماء اور اہم لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ وہابی نجف پر بھی حملہ کرنے والے ہیں تو انھوں نے حضرت امیر المومنینں کے خزانہ کو کاظمین پہونچادیا۔
لیکن حضرت امام حسین (ع) کے خزانہ کو کاظمین لے جانے کے بارے میں صرف جناب شیروانی صاحب نے نقل کیا ہے اس کے علاوہ اگر کسی نے بیان کیا ہو، تومولف کی نظر وں سے نہیں گذرا، جبکہ تمام لکھنے والوں نے یھی لکھا ہے کہ کربلائے معلی کا سب سامان غارت کردیا گیا،جیسا کہ ہم نے وہابیوں کے کربلا پر حملہ کے ضمن میں اشارہ بھی کیاہے، اور یھی بات صحیح بھی دکھائی دیتی ہے کیونکہ ساکنین کربلا کو اس حملہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی وہ بالکل بے خبر تھے تو کس طرح وہ سامان کاظمین لے جانا ممکن ہوسکتا ہے۔
اور ادہر سے یہ بھی معلوم ہے کہ کربلا کے مومنین خصوصاً جوان اور کار آمد لوگ وہابیوں کے حملے سے ایک یا دو دن پہلے ہی عید غدیر کی مناسبت سے نجف اشرف زیارت کے لئے گئے تھے اور اگر ان لوگوں کو وہابیوں کے اس حملہ کا ذرا سا بھی احتمال ہوتا تو یہ لوگ اپنے شھر کو چھوڑ کر نہ جاتے اور عورتوں اور بچوں اوربوڑھوں کو دشمن کے مقابلے میں چھوڑ کر نہ جاتے۔ ظاہر ہے کہ کاظمین اس خزانہ کا منتقل کرنا اسی صورت میں ممکن تھا جب ان کو اس حملہ کی خبر ہوتی یا اس کا احتمال دیتے۔
کربلا ئے معلی پر وہابیوں کا حملہ، عثمانی مولفوں کی نظر میں
”شیخ رسول کرکوکلی“ تیرہویں صدی ہجری کی ابتداء کے عثمانی مولف نے۱۱۳۲ھ سے ۱۲۳۷ھ تک کے عراق، ایران اور عثمانی واقعات پر مشتمل ایک کتاب اسلامبولی ترکی میں لکھی ہے، اور موسیٰ کاظم نورس نے مذکورہ کتاب کا عربی میں ترجمہ کیا ہے جو ”دوحة الوزرا“ کے نام سے طبع ہوچکی ہے۔
کتاب”دوحة الوزرا“ میں ایسے واقعات موجود ہیں جو خود مولف کے زمانہ میں رونما ہوئے، اور شاید بہت سے واقعات کے وہ خود بھی شاہد ہوں، لہٰذا اس کتاب کے واقعات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
اس کتاب کے تفصیلی اور دقیق مطالب میں سے عراق پروہابیوں کے حملے بھی ہیں اور بغداد کے والیوں کی طرف سے ہونے والی تدبیروں اور عراق کے حکام کی طرف سے نجد کے علاقہ پر لشکر کشی کرنا بھی موجود ہے لہٰذا ہم یہاں پر کربلائے معلی پر وہابیوں کے حملہ کو اس کتاب سے نقل کرتے ہیں:
۱۲۱۴ھ میں قبیلہ خزائل اور وہابیوں کے درمیان نجف اشرف میں ہوئی لڑائی اور وہابیوں کے تین سو کے قریب ہوئے قتل کو دےکھتے ہوئے عبد العزیز سعودی بادشاہ نے عراق کے حکام کو ایک خط لکھا کہ جب تک مقتولین کی دیت ادا نہ کی جائے اس وقت تک عراق اور نجد میں ہوئی صلح باطل ہے۔
سلیمان پاشا والی بغداد نے صلح نامہ کو برقرار رکھنے کے لئے عبد العزیز کے پاس ”عبد العزیزبیک شاوی“ (اپنے ایک اہم شخص) کو بھیجا جو حج کا بھی قصد رکھتا تھا اس کو حکم دیا کہ اعمال حج کے بجالانے کے بعد وہابی امیر کے پاس جائےں اور اس سے صلح نامے کو باطل کرنے سے پرہیز کرنے کے بارے میں گفتگو کریں۔
عبد العزیز بیک نے والی بغداد کے حکم کے مطابق عمل کیااور سعودی امیر عبد العزیز سے گفتگو کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، آخر میں عبد العزیز نے یہ پیشکش کی کہ وہابیوں کے بھے خون کے بدلے میں نجد کے عشایر کو ”شامیہ“ (عنّہ اور بصرہ کے درمیان) علاقہ میں اپنے چارپایوں کو چرانے دیا جائے، اوراگر ان کو روکا گیا تو پھر صلح نامہ کے پیمان کو توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
جب عبد العزیز شاوی، عبد العزیز وہابی کو قانع کرنے سے ناامید ہوگئے تو انھوں نے ایک قاصد بغداد کے والی کے پاس بھیجا اور اس کو گفتگو کی تفصیل سے آگاہ کیا اور یہ بھی بتایاکہ وہابی لوگ اپنے مقتولین کا انتقام لینے کی غرض سے عراق کا رخ کرچکے ہیں ۔
والی بغداد نے وہابیوں کے احتمالی حملہ کی وجہ سے کافی انتظامات کئے، کئی مھینہ گذر جانے کے بعد بھی وہا بی حملہ کرنے کے لئے نہیں آئے۔
۱۲۱۶ ھ میں شھر بغداد میں وباپھیل گئی اور آہستہ آہستہ یہ وبا شھر کے قرب وجوار میں بھی پھیلنے لگی، یہ دیکھ کر شھر کے لوگ بھاگ نکلے، اسی وقت شیخ حمود رئیس قبیلہ منتفق نے والی شھر کو خبر دار کیا کہ سعود بن عبد العزیز اپنے ایک عظیم لشکر کے ساتھ عراق پر حملہ کرنے کے لئے آرہا ہے۔
بغداد کے والی نے علی پاشا کو حکم دیا کہ وہ وہابیوں کو روک دے اور قتل غارت نہ ہونے دے، علی پاشا ”دورہ“ نامی علاقہ کی طرف چلے تاکہ دوسرے لشکر بھی اس سے ملحق ہوجائیں، راستہ میں بعض عشایر کا لشکر بھی اس سے ملحق ہوگیا۔
ادہر جب علی پاشا اپنے لشکر کو وہابیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کررہے تھے تو ان کو یہ خبر ملی کہ وہابیوں نے کربلا پر حملہ کردیا ہے اور وہاں پر بہت زیادہ قتل وغارت کرڈالاہے، جس میں تقریباً ایک ہزار لوگوں کو تہہ تیغ کردیا، اس وقت علی پاشا نے محمد بیک شاوی کو وزیر کے پاس بھیجا تاکہ اس کو مذکورہ واقعہ سے خبردار کرے اور یہ خبر پاتے ہی فوراً وہ کربلا کی طرف روانہ ہوئے تاکہ حملہ آوروں پر کامیابی حاصل کرے اور ان سے اس قتل وغارت کا انتقام لے، اور شھر کو دشمنوں کے پنجہ سے نجات دلائے، لیکن ابھی علی پاشا شھر حلہ میں ہی پہونچے تھے کہ اس کو خبر ملی کہ وہابی لوگ قتل وغارت کے بعد ”اخیضر“ نامی علاقہ کی طرف چلے گئے ہیں، یہ سننے کے بعد علی پاشا بعض وجوہات کی بناپر حلّہ میں ہی رہ گئے، کیونکہ جب انھوں نے یہ خبر سن لی کہ وہابی لشکر کربلا سے نکل چکا ہے تو ان کا کربلا جانا بے فائدہ تھا پھر بھی احتیاط کے طور پر مختصر سے لوگوں کو کربلا بھیج دیا۔
چنانچہ وہابیوں کے حملہ کے خوف سے نجف اشرف کے خزانہ کو بغداد بھیج دیا اور مذکورہ خزانہ کو حضرت امام موسی کاظم ں کے روضہ میں رکھ دیا گیا، مذکورہ خزانہ کو لے جانے والے محمد سعید بیک تھے، اور یہ خبریں نیز وہابیوں کے حملہ کے سلسلہ میں ہوئی تدبیروں کو ایرانی حکومت کے پاس پہونچادیا گیا۔
شھر کربلا پر وہابیوں کی کامیابی کے وجوہات
جیسا کہ ہم بعد میں بیان کریں گے کہ وہابیوں نے نجف اشرف پر بھی حملہ کیا اورنجف کو فتح کرنے کی بہت کوششیں کی لیکن وہ لوگ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے، لیکن کربلا شھر میں انھوں نے جو کچھ کرنا چاہا وہ با آسانی کرڈالا، مولف کی نظر میں اس کی کچھ وجوہات ہیں جن کو چند چیزوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:
۱۔ سلیمان پاشا والی بغداد ا ور عثمانی بادشاہ کی طرف سے معین شدہ کربلا کے حاکم عمر آقا نے شھر کی حفاظت کے لئے کوئی خاص کام انجام نہیں دیا، بلکہ کچھ بھی نہ کیا، اسی وجہ سے سلیمان پاشا نے اس سے مواخذہ کیا، اور سرانجام اس کو قتل کردیا گیا۔
۲۔ شھر کربلا کی دیوار اور اس کا برج زیادہ مضبوط نہیں تھا اور اس کے علاوہ اس کی حفاظت کرنے والوں کی تعداد بھی بہت کم تھی۔
۳۔ سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اکثر مرد اورجوان حضرات عید غدیر کی مناسبت سے نجف اشرف زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے اور شھر کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں تھا دشمنوں کے مقابلہ میں فقط عورتیں بچے اور بوڑھے باقی تھے، جو کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔
۴۔ صاحب مفتاح الکرامة کے قول کے مطابق جس وقت وہابیوں نے شھر کربلا پر حملہ کیا بعض شیعہ قبیلوں میں اختلاف پایا جاتا تھا جیسے قبیلہ خزاعل وآل بعیج اور آل جشعم وغیرہ میں شدید اختلاف تھا اور آپس میں چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے تھے۔
جس کی بناپر ان میں وہابیوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انھیں وہابیوں نے جب دوسرے شھروں پر حملہ کرنا چاہا تو لاکھ کوشش کی لیکن پھر بھی کسی شھر میں داخل نہ ہوسکے کیونکہ وہاں پر یہ سب وجوہات نہیں تھیں ۔
وہابیوں کے کربلا پر دوسرے حملے
وہابیوں نے تقریباً بارہ سال تک کربلا اور قرب وجوار کے علاقوں پر موقع موقع سے حملہ کیا ہے اورلوگوں کا قتل عام کیا نیز وہاں پر موجود مال و دولت غارت کی ہے جن میں سے سب سے پہلا حملہ ۱۲۱۶ ھ کا تھا جس کی تفصیل گذر چکی ہے۔
صلاح الدین مختار صاحب، ان حملوں میں سے ایک حملہ کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں : ” ماہ جمادی الاوّل۱۲۲۳ھ میں امیر سعود بن عبد العزیز نے دوبارہ اپنے عظیم لشکر کے ساتھ عراق کا رخ کیا جس میں بہت سے علاقے مثلاً نجد، حجاز، احسا، حبوب، وادی دواسر، بیشہ، رینہ، طائف اور تھامہ کے افراد شامل تھے، وہ سب سے پہلے کربلا پہنچا اس وقت کربلا شھر کی باہر کی دیوار اوربرجِ مستحکم ہوچکی تھی ،کیونکہ کربلا پر ہوئے پہلے حملہ نے اہل کربلا کو اپنے دفاع کی خاطر شھر کی دیوار کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر مجبور کردیا۔
وہابیوں کے لشکر نے شھر پر گولیاں چلائیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا، اور چونکہ اہل شھر نے ایسے وقت کے لئے اپنے دفاع کی بہت سی چیزوں کو جمع کر رکھا تھا لہٰذا انھوں نے اپنے شھر کا دفاع کیا، امیر نے یہ دیکھ کر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اپنے ساتھ لائی ہوئی سیڑھیوں کا استعمال کریں چنانچہ انھوں نے سیڑھیاں لگا کر دیوار پر چڑھنا شروع کیا۔
وہابی لشکر کربلا میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا لیکن اس طرف سے اہل کربلا اپنے دفاع میں لگے ہوئے تھے، انھوں نے ان پر حملہ کیا، جس کی وجہ سے وہ لوگ کربلا پر حملہ کی فکر چھوڑ کر نکل بھاگے،
ابن بشر صاحب نے (گویا صلاح الدین مختار نے اس واقعہ کی تفصیل انھیں سے نقل کی ہے) مذکورہ واقعہ کو۱۲۲۲ھ میں نقل کیا ہے اور اس طرح کہتے ہیں کہ گولیوں سے حملہ کی وجہ سے بہت سے (سپاہ سعود کے) سپاہی قتل ہوئے اور جب سعود نے دیکھا کہ کربلا شھر کی دیوار مضبوط اور مستحکم بنی ہوئی ہے اس نے ان کو کربلا پر حملہ کرنے سے روکا اور عراق کے دوسرے علاقوں کا رخ کیا ۔
مرحوم علامہ سید محمد جواد عاملی صاحب نے بھی مفتاح الکرامہ کی ساتویں جلد کے آخر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ کتاب رمضان المبارک۱۲۲۵ھ کی نویں تاریخ کی آدہی رات میں ختم ہوئی جبکہ ہمارا دل بہت پریشان تھا کیونکہ ”عُنَیْزَہ“ کے عربوں نے جو وہابی خارجیوں کے عقائد سے متاثر تھے، نجف اشرف کے اطراف اور قرب وجوار نیز حضرت امام حسین ں کے روضہ پر حملہ کیا اور
وہاں پر قتل وغارت کا کھیل کھیلا، اس وقت کے مقتولین کی تعداد ۱۵۰افراد بتائی جاتی ہے اگرچہ بعض لوگ اس تعداد کو اس سے بھی کم بتاتے ہیں۔
”عبد اللہ فیلبی“ صاحب کہتے ہیں کہ کربلا پر وہابیوں کے اس حملہ نے شیعوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو تعجب اور حیرانی میں ڈال دیا، لیکن اس حملہ کے انتقام میں ایک بہترین محاذبن گیا جس کی بنا پر سعودی حکومت کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
وہابیوں کے کربلا پر حملے کاذکر ایرانی کتابوں میں
بعض ان ایرانی علماء نے اس حادثہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے جو وہابیوں کے حملہ کے وقت یا اس کے نزدیک زندگی بسر کرتے تھے ،یہاںان کی بعض تحریروں کو ہوبہو یا خلاصہ کے طور پر نقل کرنا زیادہ مناسب ہے۔
(مولف کی اطلاع کے مطابق) ایرانی مولفوں میں سب سے قدیمی کتاب جس میں اس حادثہ کے بارے میں تحریر ہے وہ میرزا ابو طالب اصفھانی کی کتاب ہے، موصوف وہابیوں کے کربلامیں قتل عام کے گیارہ ماہ کے بعد کربلا پہونچے ہیں، اورجس وقت وہاں پہونچے ہیں صرف یھی واقعہ زبانزد خاص وعام تھا چنانچہ موصوف اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ہیں:
کربلا میں وہابیوں کے حملہ کا ذکر
۱۸ ذی الحجہ (عید غدیر) کو کربلا کے اکثر اور معتبر افراد نجف اشرف میں حضرت امیر المومنین علی ں کی مخصوص زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے، ادہر ۲۵۰۰۰ کا وہابی لشکر (عربی گھوڑوں اور بہترین اونٹوں پر سوار) شھر کربلا میں داخل ہوا، جس میں سے بعض لوگ زائرین کے لباس میں پہلے ہی سے شھر میں داخل ہوچکے تھے اور شھر کا حاکم عمر آقا ان کے ساتھ ملا ہوا تھا(یعنی ان سے سانٹھ گانٹھ کئے ہوئے تھا ”یہ بات حاشیہ سے نقل ہوئی ہے“) جس کی وجہ سے وہابی لوگ پہلے ہی حملے میں شھر میں داخل ہوگئے اور یہ نعرے بلند کئے، ”اقتلوا المشرکین“ و ” اذبحوا الکافرین“،یہ سن کر عمر آقا ایک دیھات کی طرف بھاگ نکلا، لیکن بعد میں اپنی کوتاہیوں کی بناپر سلیمان پاشا کے ھاتھوں قتل کیا گیا۔
وہ لوگ قتل وغارت کے بعد گنبد کی سونے کی اینٹوں کو اکھاڑنا چاہتے تھے لیکن چونکہ یہ اینٹیں بہت مضبوطی سے لگائی گئی تھیں، لہٰذا جب ان کو اکھاڑ نہ سکے تو گنبد کے اندر کا حصہ کلھاڑیوںوغیرہ سے توڑ ڈالا اور عصر کے وقت بے خوف وخطر اپنے وطن کو لوٹ گئے، تقریباً پانچ ہزار لوگوں کو قتل کیا اور زخمیوں کی تعداد تو بے شمار تھی منجملہ میرزا حسن ایرانی شاہزادہ، میرزا محمد طبیب لکھنوی وعلی نقی لاہوری اور ان کے ساتھ میرزا قنبر علی وکنیز وغلام وغیرہ،اور حضرت امام حسین ں کے روضہ مبارک اور شھر کا جتنا بھی قیمتی سامان تھا سب غارت کردیا۔
اس قتل وغارت میں حضرت امام حسین ں کے صحن میں مقتولین کا خون بہہ رہا تھا اور صحن مبارک کے تمام حجرے مقتولین کی لاشوں سے بھرے پڑے تھے، حضرت عباس ں کے روضہ اور گنبد کے علاوہ، اور کسی کو بھی اس حادثہ سے نجات نہیں ملی، اس حادثہ کی وجہ سے لوگوں میں اس قدر خوف ووحشت تھی کہ میں اس حادثہ کے گیارہ مھینہ بعد کربلائے معلی گیا ہوں لیکن پھر بھی اس حادثہ میں اتنی تازگی تھی کہ صرف یھی حادثہ لوگوں کی زبان پر تھا، اور جو لوگ اس حادثہ کو بیان کرتے تھے وہ حادثہ کو بیان کرتے کرتے رونے لگتے تھے اور اس حادثہ کی وہ درد بھری داستان تھی کہ سننے والوں کا بھی رُواں کھڑا ہوجاتا تھا۔
لیکن اس حادثہ کے مقتولین کو بڑی بے غیرتی سے قتل کیا گیا تھا بلکہ جس طرح گوسفند کاہاتھ پیر باندہنے کے بعد بے رحم قصّاب کے حوالے کردیاجاتا ہے اس طرح سے ان لوگوں کو ذبح کیا گیا۔
اور جس وقت وہابی لشکر شھر سے باہر نکل گیا اس وقت اطراف کے اعراب نے ان کے پلٹنے کا شور مچایا اور جب شھر کے لوگ دفاع کے لئے شھر سے باہر باغات کی طرف پہونچے تو خود وہ اعراب گروہ گروہ کرکے شھر میں داخل ہوئے اور وہابیوںسے بچا ہوا تمام سامان غارت کردیا، اس طرح شب وروز لوٹ مار ہوتی رہی، اور اس وقت جو شخص بھی شھر میں داخل ہوتا تھا وہ قتل ہوجاتا تھا، اور جب ہم نے وہابی مذہب کے اصول وفروع اور اس کے ایجاد کرنے والے کا حسب ونسب معلوم کیا تو کسی نے نہیں بتایا، کیونکہ اس شھر کے رہنے والے افراد عثمانی بادشاہوں کے تحت تاثیر اور نسبتاً کم عقلی کی وجہ سے ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے اور اس کے معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے تھے۔
سید عبد اللطیف شوشتری نے کتاب ”تحفة المعالم“ میں شھر کربلا پر وہابیوں کے حملے کا ذکر کیا ہے اور وہابیوں کے بعض عقائد کو لکھا ہے جس کو ہم نے باب پنجم میں ذکر کیا ہے، یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ کتاب ”تحفة المعالم“۱۲۱۶ھ کی تالیف ہے یعنی جس سال کربلائے معلی پر وہابیوں کا حملہ ہوا ہے اور اس کتاب کا ضمیمہ دوسال بعد بنام ”ذیل التحفة“ کے نام سے لکھا گیا ہے۔
مرحوم میرزائے قمی کا وہ خط جس میں وہابیوں کے بارے میں ان کے کربلا کے حملہ کے ضمن میں ذکر ہوا ہے جس کو ہم نے عبد الرزاق دنبلی کی تفصیل کے ساتھ باب پنجم میں بیان کیا ہے۔
اس سلسلہ میں رضا خان ہدایت صاحب یوں رقمطراز ہیں کہ۱۲۱۶ھ کے آخری حصے میں (۱۸)ذی الحجہ عید غدیر صبح کے وقت سعود اور اس کے لشکر نے حضرت امام حسین ں کے روضہ مبارک پر حملہ کردیا اور بے خبری کے عالم میں شھر پر قبضہ کرلیا، اس وقت شھر کے بہت سے افراد زیارت امام علی (ع) کے لئے نجف اشرف گئے ہوئے تھے اور صرف کمزور اوربوڑھے زاہد و عابد حضرات موجود تھے وہ لوگ روضہ امام حسین ں میں نماز اور عبادت میں مشغول تھے وہابیوں نے تجّار اور حرم میں ساکن افرادکے کئی لاکھ تومان غارت کردلئے اور بہت زیادہ کفر اور الحاد کا مظاہرہ کیا اورتقریباً چھ گھنٹوں میں سات ہزار علماء اورمحققین کو قتل کرڈالا، اور عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں پر وہ ظلم کیا کہ ان کے خون سے سیلاب جاری تھا، حق پرست اور متقی لوگ جو حضرت امام حسین ں کے ساتھ رہکر شھادت کے درجہ پر فائز ہونا چاہتے تھے لیکن اس زمانہ میں نہیں تھے انھیں حضرت کی بارگاہ میں جام شھادت مل گیا اور شہدائے کربلا کے ساتھ ملحق ہوگئے۔
”میرزا محمد تقی سپھر “رقمطراز ہیں :”عبد العزیز نے جس وقت نجف اشرف کا رخ کیا اور حضرت کے روضہ مبارک پر حملہ کرنا چاہا اورنجف اشرف کے گنبد کو گرانا چاہا اور وہاں پر زیارت کرنے والوں کو جنھیں وہ اپنے خیال میں بت پرست جانتا تھا ان سب کو قتل کرنا چاہا تو اس نے سعود کی سرداری میں ایک لشکر تیار کیا اور نجف کی طرف روانہ کیا اس لشکر نے نجف اشرف کا محاصرہ کرلیا، قلعہ پر کئی حملے بھی کئے لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی، مجبوراً اس نے واپسی کا ارادہ کیا اور وہاں سے کربلا ئے معلی کا رخ کیا بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ طوفان کی طرح کربلائے معلی پر حملہ کردیا وہ دن عید غدیر کا دن تھا۔
شھر میں داخل ہونے کے بعد انھوں نے پانچ ہزار لوگوں کا خون بھایا حضرت امام حسین کی ضریح مقدس کو بھی توڑ ڈالا، وہاں موجود قیمتی سامان جومختلف ممالک کے شیعوں کے ذریعہ بطور نذر وہاں آیا تھا سب غارت کردیا بہترین قندیلوں کو توڑ ڈالا سونے کی اینٹوں کو حرم مطھر کے دالان سے نکال لیا حرم مطھر میں ہر ممکن توڑ پھوڑ کی، اور چھ گھنٹے کی اس قتل وغارت کے بعد شھر سے باہر نکل گئے اورنفیس اور قیمتی سامان کو اپنے اونٹوں پر لاد کر درعیہ شھر کی طرف نکل گئے۔
قارئین کرام!جناب سپھر صاحب کی یہ عبارت دوسرے مولفوں سے فرق کرتی ہے،اسلئے کہ وہابیوں نے پہلے کربلا ئے معلی پر حملہ کیا اس کے بعد نجف اشرف پر حملہ کیا ہے مگر یہ احتمال دیا جائے کہ ان کی مراد قبیلہ خزاعل کے ذریعہ دفع شدہ حملہ ہو جس کی تفصیل انشاء اللہ بعد میں آئے گی۔
وہابیوں کا خط فتح علی شاہ کے نام
میرزا ابو طالب کی تحریر کے مطابق کربلا کا حادثہ سلطان روم (بادشاہ عثمانی) اوربادشاہ عجم (فتح علی شاہ) کے کانوں میں کئی دفعہ پہونچایا گیالیکن ان میں سے کسی نے کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا لہٰذا عبد العزیز کے حوصلے اور بلند ہوگئے اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح دنیا بھر کے بادشاہوں کو خط لکھنا شروع کیا، یہاں پرہم عبد العزیز کے ذریعہ فتح علی شاہ کو لکھے گئے خط کا ترجمہ پیش کرتے ہیں:” اعوذباللّٰه من الشیطان الرجیم بسم اللّٰه الرّحمٰن الرحیم، من عبد العزیز امیر المسلمین الی فتح علی شاه ملک عجم:
حضرت رسول خدا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان کی امت میں بت پرستی رائج ہوگئی ہے،کربلا ونجف میں لوگ قبور کی زیارت کے لئے جاتے ہیں جو پتھر اور مٹی سے بنائی گئی ہیں، وہاں جاکرقبروں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ان سے حاجت طلب کرتے ہیں، مجھ حقیر کو یہ معلوم ہے کہ سیدنا علی اور حسین ان کاموں سے بالکل راضی نہیں ہیں،میں نے دین مبین اسلام کی اصلاح کے لئے کمر ہمت باندہ لی ہے اور اللہ کی توفیق سے اب تک نجد، حجاز اورعرب کے دوسرے علاقوں میں اسلام کی اصلاح کردی ہے، لیکن ہماری دعوت کربلا اور نجف کے لوگوں نے تسلیم نہ کی چنانچہ ہم نے دیکھ لیا کہ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا ہے ہم ان سب کو تہہ تیغ کردیں یھی ان کے لئے مناسب بھی تھا،آپ نے سنا بھی ہوگا، اسی بناپر اگر آپ بھی اسی طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں تو آپ کو توبہ کرنا چاہئے کیونکہ اگر کوئی توبہ نہیں کرتا اور اپنے کفر وشرک پر بضد ہوتا ہے تو ہم اسے کربلا کے لوگوں کی طرح سبق سکھادیتے ہیں، والسلام علی من تبع الہدیٰ۔
فتح علی شاہ کے اقدامات
میرزا عبد الرزاق صاحب یوں رقمطراز ہیں کہ اس (کربلا کے) حادثہ کے بعد فتح علی شاہ نے اسماعیل بیک بیات غلام کو (بغداد میں عثمانی بادشاہ کا والی) سلیمان پاشا کے پاس تفصیل لکھ کر بھیجا،کہ اگر دولت عثمانی کو کوئی اعتراض نہ ہو تو ایران کا لشکر آپ کی مدد ونصرت کے لئے آسکتا ہے تاکہ فتنہ وہابیت کو خاموش کردیا جائے کیونکہ ابھی ان کی ساکھ نہیں جمی ہے لہٰذا کوئی خاص قدم اٹھایا جائے، اس خط کے جواب میں سلیمان پاشا نے عرض کیا کہ عثمانیہ حکومت کے حکم کے مطابق یہ طے ہوچکا ہے کہ ایسے اسباب اور وسائل فراہم کئے جائیں کہ اس بدنھاد فرقہ کا نام ونشان تک مٹادیا جائے، آپ کی محبت کا شکریہ، ایران کے لشکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور روضوں کی تعمیر اور تلف شدہ مال کو عوض کرنا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے، اتفاقاً اسی دوران سلیمان پاشا صاحب اس دنیا سے چل بسے۔
کتاب منتظم ناصری میں اس طرح تحریر ہے :
”جس وقت کربلائے معلی میں مومنین کے قتل عام کی خبر فتح علی شاہ ایران (جن کی بادشاہت کو ابھی چند ہی سال گذرے تھے) کو پہونچائی گئی،
تو اس نے خبر کو سننے کے بعد اسماعیل بیک بیات کو بغداد کے والی سلیمان پاشا کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ وہابیوں کے شرکو ختم کرڈالو، سلیمان پاشا نے قبول کرلیا لیکن سیلمان بک اتفاق سے کچھ ہی دنوں کے بعد اس دنیا سے کوچ کرگئے۔
رضا قلی خان مذکورہ موضوع کو تفصیلی طور پر اس طرح نقل کرتے ہیں:
”جس وقت فتح علی شاہ اس خبر سے آگاہ ہوئے، تو انھوں نے سب سے پہلے اسماعیل بیک بیات کو سلیمان پاشا کے پاس بھیجا اس کے بعداس نے حاج حیدر علی خان، حاج ابراہیم خان شیرازی کے بھتیجے جو عباس میرزا کے نائب الوزراء تھے ان کو مصر کا سفیر بناکر بھیجا اور ایک محبت بھرا خط جس کے ساتھ ایک خراسانی تلوار ”گوھر نشان“ محمد علی پاشا کے پاس بھیجی جو اس وقت مصر کے حاکم تھے اور اس سے درخواست کی کہ وہابیوں کے فتنہ کو دفع کرنے میں ہر ممکن کوشش کریں اور اگر ضرورت ہو تو وہابیوں کا قلع قمع کرنے کے لئے ایران کا لشکر دریا اور خشکی کے راستہ سے نجد کی طرف بھیج دیاجائے۔
جس وقت ایران کا سفیر مصر پہونچا اورمحمد علی پاشا حقیقت ِ حال سے آگاہ ہوا تو اپنے ربیب (بیوی کے ساتھ دوسرے شوھر کا بچہ) ابراہیم پاشا کو وہابیوں کے شر کو ختم کرنے کے لئے معین کیا تاکہ درعیہ شھر کو نیست ونابود کردے اور عبد اللہ بن مسعود کو گرفتار کرکے زنجیر میں باندہ کر اسلامبول (عثمانی بادشاہوں کا پائے تخت) روانہ کرے، لیکن عثمانی بادشاہ کے حکم سے قتل ہوگیا اور ایران کا سفیر اپنی جان بچاکر شام (سوریہ) کے راستہ سے تبریز (ایران کا شھر) میں وارد ہوا اور عباس میرزا نائب السلطنہ کی خدمت میں پہنچا۔
ہم یں فتح علی شاہ کے اقدامات کا ذکرغیر ایرانیوں کی تحریروں میں نہیں ملا، اور ”سیاق تاریخ“ میں وضاحت کی جائے گی کہ محمد علی پاشا کا وہابیوں سے برسر پیکار ہونا عثمانی بادشاہ کے حکم سے تھا لیکن پھر بھی یہ بات کھی جاسکتی ہے کہ اس سلسلہ میں فتح علی شاہ کے اقدامات بھی بے تاثیر نہیں تھے۔
حادثہ کربلا کے بعد عبد العزیز کا قتل
ماہ رجب المرجب۱۲۱۸ھ میں عبد العزیز امیر سعود کا باپ مسجد درعیہ میں نماز کے وقت قتل کردیا گیا اس کا قاتل عثمان نامی شخص ”عماریہ موصل“ علاقہ کا رہنے والا تھا اور اسے سعود بن عبد العزیز کو قتل کرنے کے لئے قربة الی اللہ بھیجا گیا تھا (سعود نے۱۲۱۶ھ میں کربلا شھر پر حملہ کرکے قتل وغارت کیا تھا) لیکن چونکہ سعود کو قتل کرنا مشکل ہورہا تھا، لہٰذا اس نے اس کے باپ عبد العزیز کا خاتمہ کر ڈالا، عثمان ایک فقیر کے بھیس میں شھر درعیہ میں داخل ہوا اور اس نے اپنے کو ایک مھاجربتلایا اور بہت زیادہ عبادت اور زہد وتقویٰ کا اظھار کیا اور خود کو عبد العزیز کا مطیع اور فرمانبردار بتلایا،لہٰذا عبد العزیز بھی اس کو بہت چاہنے لگا اور اس کو بہت سا مال ودولت عطا کرنے لگا، لیکن عثمان کا مقصد تو صرف اس کو قتل کرنا تھا۔
نماز عصر کی ادائیگی کے وقت جب عبد العزیز سجدہ میں گیا تو قاتل تیسری صف میں کھڑا تھا اور اپنے ساتھ خنجر چھپائے ہوئے تھا عبد العزیز کی طرف بڑھا اور اس کے پیٹ کو چاک کرڈالا، مسجد میں ھل چل مچ گئی بہت سے لوگ بھاگ نکلے اور بہت سے لوگ قاتل کے پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑے، اس وقت عبد اللہ بن محمد بن سعود، یعنی عبد العزیز کے بھائی نے قاتل کو مار ڈالا اور عبد العزیز کو اپنے محل میں لے گیا لیکن کچھ ہی دیر کے بعد عبد العزیز اس دنیا سے چل بسا۔
ابن بشر صاحب عبد العزیز کے قتل کے واقعہ کے ذیل میں کہتے ہیں کہ عبد العزیز کا قاتل ایک قول کے مطابق کربلا کا رہنے والا شیعہ مذہب تھا، کیونکہ سعود نے جب کربلا پر حملہ کرکے وہاں پر قتل وغارت کیا تو وہ شخص اپنے شھر میں ہوئے قتل وغارت کا بدلے لینے کے لئے وہاں پہنچا وہ سعود کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن جب وہ سعود کو قتل نہ کرسکا، تو اس نے سوچا کہ سعود کو قتل کرنا تو مشکل ہے لہٰذا اس کے باپ عبد العزیز ہی کو کیوں نہ قتل کردیا جائے، اس کے بعد ابن بشر صاحب کہتے ہیں کہ یھی قول حقیقت سے نزدیک ہے۔
دائرة المعارف اسلامی میں بھی اس طرح تحریر ہے کہ عبد العزیز کا قاتل شیعہ مذہب اور عماریہ کا رہنے والا تھا۔
عبد العزیز کے قتل کے بعد اس کا بیٹا اور جانشین جس وقت مسجد میں نماز کے لئے جاتا تھا تو اپنے ساتھ چند افراد کو اپنی حفاظت کے لئے رکھتا تھا اور جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا تھا تو یہ لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے تاکہ اس پر کوئی حملہ نہ کرسکے۔
نجف اشرف پر وہابیوں کا حملہ
سعود بن عبد العزیز نے کئی مرتبہ نجف اشرف پر حملہ کا پروگرام بناکر حملہ کیا اورہر حملہ میں جو لوگ اس کو شھر کے باہر مل جاتے تھے ان کو قتل کردیتا تھا لیکن شھر میں داخل نہیں ہوسکا۔
اس کے نجف اشرف پر جلدی جلدی حملہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے نجف اشرف کے قریب ”رحبہ“ نامی جگہ کو اپنی چھاونی بنالیا تھا۔
اور جس وقت سعود رحبہ سے نجف اشرف پر حملہ کرنا چاہتا تھا تو نجف اشرف کے افراد آگاہ ہوجاتے تھے اور شھر کے دروازوں کو بند کردیتے تھے اور سعود شھر کی چھار دیواری کے باہر چلتا تھا اور اگر کوئی وہاں اس کو مل جاتا تھا تو اس کو قتل کردیتا تھا اور اس کے سر کو دیوار کے اس طرف پھینک دیتا تھا۔
اور کبھی کبھی اس کے افراد جن کی تعداد دس یا اس سے زیادہ ہوتی تھی نجف کے لوگوں کوغافل کرکے شھر میں داخل ہوجاتے تھے اور شھر میں قتل وغارت کردیا کرتے تھے۔
وہابیوں کا قبیلہ خزاعل سے ٹکراؤجس کی بناپر وہابی، شھر نجف کی نسبت بھڑک اٹھے
۱۲۱۴ھ میں نجد سے ایک وہابی گروہ جس میں کچھ سوار بھی تھے بغداد پہنچا، اس کاروان کے پاس جو کچھ تھا اس کو بیچ ڈالا اور جوکچھ خریدنا تھا خرید لیا، اور اپنے وطن کو واپس جانے لگے، انھیں کے ساتھ بعض عراقی بھی حج کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوگئے اور جس وقت وہ نجف پہونچے۔
وہاں پر قبیلہ خزاعل کے کچھ شیعہ مذہب لوگ موجود تھے، چنانچہ جب انھوں نے قبیلہ خزاعل کے رئیس کو حرم مطھر حضرت علی ں کا بوسہ لیتے دیکھا تو اس پر حملہ کرنے لگے، یہاں تک کہ اس کا خون زمین پر گرنے لگا، اس وجہ سے قبیلہ خزاعل اور وہابیوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا اور یہ جھگڑا تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہا، اور دونوں طرف سے تقریباًسو سو افراد مارے گئے۔
عراقی حجاج کا سامان اوروہابیوں کے اونٹ اور گھوڑے غارت ہوگئے اور وہابیوں میں سے جو شخص بھی باقی بچا وہ نجد کی طرف بھاگا اور عراقی حجاج بھی بغداد واپس ہوگئے۔
اس واقعہ کے بعد وہابیوں اور نجف اشرف کے لوگوں میں بغض وحسد کی ایک لھر سی دوڑ گئی۔
پہلا واقعہ
۱۲۱۶ھ میں جب وہابیوں نے کربلا ئے معلی پر حملہ کیا اور اس کو ویران کردیا اس کے بعد نجف اشرف کا رخ کیا۔
اس واقعہ کو ”براقی“ اس کے چشم دید گواہ شخص سے اس طرح نقل کرتے ہیں :
” سعود نجف اشرف آیا اور اس کا محاصرہ کرلیا دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگی، نجف کے پانچ افراد قتل ہوگئے جن میں سے ایک میرے چچا سید علی حسنی معروف بہ” ببراقی“ تھے۔
چونکہ اہل نجف وہابیوں کے کرتوت سے جو انھوں نے کربلا اور مکہ ومدینہ میں انجام دئے واقف تھے لہٰذا بہت پریشان اورمضطرب تھے عورتیں گھروں سے باہر نکل آئیں، اور جوانوںاور بزرگوں کو غیرت دلانے کے لئے بہت سے جملے کہنے لگیں، تاکہ وہ اپنے شھر اور ناموس سے دفاع کریں اور ان کی غیرت جوش میں آئے۔
تمام لوگ گریہ وزاری میں مشغول، خدا کی پناہ مانگ رہے تھے، اور حضرت علی ں سے مدد طلب کررہے تھے، اس وقت خدا نے ان کی مدد کی اور دشمن وہاں سے بھاگ نکلے اور تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کوچلے گئے۔
نجف اشرف کے علماء اور طلاب کے دفاع کا دوسرا واقعہ
نجف اشرف کے لوگوں کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ وہابی لوگ پیچھا چھوڑنے والے نہیں ہیں، اور آخر کار نجف پر بھی حملہ کریں گے، اس بناپر انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ حرم حضرت امیر المومنین ں کے خزانہ کو بغداد منتقل کردیا، تاکہ حرم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خزانہ کی طرح غارت نہ ہو،
اور اس کے بعد اپنی جان اوراپنے شھر سے دفاع کے لئے تیار ہوگئے۔
شھر نجف سے دفاع کرنے والوں کے سردار، شیعہ بزرگ عالم دین علامہ شیخ جعفر کاشف الغطاء تھے جن کے ساتھ دیگر علماء بھی تھے، مرحوم کاشف الغطاء نے اسلحہ جمع کرنا شروع کیا، اور دفاع کے سلسلہ میں جس چیز کی بھی ضرورت سمجھی اس کو جمع کرلیا۔
اس تیاری کے چند دن بعد وہابیوں کا لشکر شھر سے باہر آکر اس امید میں جمع ہوگیا کہ کل صبح ہوتے ہی شھر پر حملہ کردیں گے اور قتل وغارت کریں گے، لہٰذا ساری رات شھر کی دیوار کے باہر گذار دی۔ کاشف الغطاء کے حکم سے شھر کے دروازوں کو بند کردیا گیا اوران کے پیچھے بڑے بڑے پتھر رکھ دئے گئے، اس زمانہ میں شھر کے دروازے چھوٹے ہوتے تھے، مرحوم شیخ کاشف الغطاء نے شھر کے ہر دروازے پر کچھ جنگجو جوانوں کو معین کیا اور باقی جنگجو افراد شھر کی دیوار کی حفاظت میں مشغول ہوگئے۔ اس وقت نجف اشرف کی دیوار کمزور تھی اور ہر چالیس پچاس گز کے فاصلہ پر ایک برج تھا کاشف الغطاء نے ہر برج میں دینی طلباء کو بھر پور اسلحہ کے ساتھ تعینات کردیا ۔
شھر کے دفاع کرنے والوں کی تمام تعداد(۲۰۰)سے زیادہ نہیں تھی، کیونکہ وہابیوں کے حملہ سے ڈر کر بہت سے لوگ بھاگ نکلے تھے اور عراق کے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے چلے گئے تھے، صرف علماء میں مشہور حضرات باقی بچے تھے مثلاً شیخ حسین نجف اور شیخ خضر شلال، سید جواد صاحب مفتاح الکرامہ، شیخ مہدی ملا کتاب اور دوسرے بعض منتخب علماء حضرات، جو سب کے سب کاشف الغطاء کی مدد کررہے تھے، اور یہ سب لوگ مرنے اور مارنے پر تیار تھے، کیونکہ دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ اور خود ان کی تعداد بہت کم تھی، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ دشمن جس نے یہ طے کرلیا تھا کہ صبح ہوتے ہی حملہ کردیا جائے گا، ابھی صبح بھی نہ ہونے پائی تھی کہ وہ سب پراکندہ ہوگئے۔
صاحب کتاب ”صدف“ (ص ۱۱۲) جو خود اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں وہابیوں کے لشکر کی تعداد ۱۵۰۰۰ذکر کرتے ہیں جن میں سے ۷۰۰لوگ قتل کردئے گئے۔
ابن بشر، نجدی مورخ نے نجف اشرف پر وہابیوں کے حملہ کے بارے میں کہا ہے کہ۱۲۲۰ھ میں سعود نے اپنے عظیم لشکر کے ساتھ مشہد معروف عراق (مقصود نجف اشرف ہے) کا رخ کیا اور وہاں پہونچ کر اپنے سپاہیوں کو شھر کے چاروں طرف پھیلا دیا، اور شھر کی دیوار کو گرانے کا حکم دیدیا، جب اس کے سپاہی شھر کی دیوار کے نزدیک ہو ئے تو انھوں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی خندق ہے جس سے نکلنا مشکل ہے، لیکن دونوں طرف سے گولیوں اور تیروں کی وجہ سے وہابی لشکر(ابن بشر کے قول کے مطابق مسلمانوں کے لشکر) کے بہت سے لوگ مارے گئے، یہ دیکھ کر وہ لوگ شھر سے پیچھے ہٹ گئے اور دوسرے علاقوں میں قتل وغارت کرنے کے لئے روانہ ہوگئے۔
خلاصہ یہ کہ نجف اشرف کے اوپر وہابیوں کے حملوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن انھیں کوئی کامیابی نہیں مل پا تی تووہ مجبور ہوکر لوٹ جاتے تھے، اہل نجف وہابیوںکے شر سے رہائی کے لئے خدا کی پناہ مانگتے تھے اورحضرت علی ں سے متوسل ہوتے تھے، جس کی بنا پر ان کی ہمیشہ مدد ہوتی رہی۔
مرحوم سید محمد جواد عاملی جو خود اس واقعہ کے چشم دید گواہ اور دفاع کرنے والوں میں سے تھے، مفتاح الکرامہ کی پانچویں جلد کے آخر میں یوں رقمطراز ہیں کہ ماہ صفر کی نویں تاریخ کو نماز صبح کے ایک گھنٹہ پہلے وہابیوں نے اچانک ہم پر دہاوا بول دیا یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگ شھر کی دیوار پر بھی چڑھ گئے اور قریب تھا کہ وہ شھر پر قبضہ کرلیتے۔
لیکن حضرت امیر المومنین علی ں سے معجزہ رونما ہوا، اور ان کے کرم سے کچھ ایسا ہوا کہ دشمن کے بہت سے لوگ مارے گئے اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے،
اگرچہ علامہ عاملی نے واقعہ کی تفصیل بیان نہیں کی ہے۔
اسی طرح علامہ موصوف جلد ہفتم کے آخر میں کہتے ہیں کہ اس کتاب کا یہ حصہ ماہ رمضان المبارک کی نویں تاریخ۱۲۲۵ھ کی تاریخ آدہی رات میں تمام ہوا جبکہ ہمارا دل مضطرب اور پریشان ہے کیونکہ ”عُنَیْزَہ“ کے وہابیوں نے نجف اشرف اور کربلائے معلی کو گھیر رکھا تھا۔
”رَحبہ“ کے بارے میں ایک وضاحت
نجف اشرف پر حملہ کر نے کے لئے وہابیوں نے ”رَحبہ“ کو اپنی چھاؤنی بنا لیا تھا،رحبہ نجف اشرف کے نزدیک ایک سر سبز وشاداب علاقہ ہے ،یہ علاقہ ایک ثروتمند اور مالدار شخص سید محمود رَحباوی سے متعلق تھا، جب بھی وہابی لوگ نجف اشرف پر حملہ کرنا چاہتے تھے تو سب سے پہلے مقام رحبہ میں جمع ہوتے تھے، اور سید محمود ان کا بہت احترام کرتا تھا، نیز ان کی خاطر ومدارات کرتا تھا، اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اسی شخص نے نجف اشرف پر حملہ کرنے کی راہنمائی بھی کی تھی۔
مرحوم کاشف الغطاء جو دفاع کرنے والوں کے سرپرستوں میں سے تھے، ان کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے سید محمود کو پیغام بھجوایا :
جب تم یہ احساس کرو کہ وہابی لشکر نجف اشرف پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ضرور آگاہ کردینا، تاکہ ہم غفلت میں نہ رہیں، بلکہ دفاع کے لئے تیار رہیں۔ سید محمود نے جواب دیا کہ میں ایک ثروت مند آدمی ہوں اور بہت سی پراپرٹی رکھتا ہوں میں وہابیوں کے منھ میں ایک لقمہ کی طرح ہوں لہٰذا میں ڈرتا ہوں، کاشف الغطاء نے اس کا یہ جواب دیکھ کر مجبوراً نجف کے کچھ جوانوں کو اسلحہ کے ساتھ معین کیا اور ان کی تنخواہ بھی مقرر کی، تاکہ یہ جوان اس طرف سے شھر پر ہونے والے حملہ کا خیال رکھیں۔
اس کے بعد سے ایک طولانی مدت تک خصوصاً عراق پر ملک فیصل کے انتخاب کے بعد سے (یعنی پہلی عالمی جنگ کے بعد) عراق پر نجدیوں کے حملے ہوتے رہتے تھے، جس میں کافی قتل وغارت ہو تی رہتی تھی لیکن یہ حملے تقریباً سیاسی جھت رکھتے تھے ان حملوں کا مذہب سے کوئی تعلقنھیں تھا،منجملہ ان کے ۱۲رجب المرجب کی شب کو نجد کے ”جمعیة الاخوان“ نامی گروہ نے عراقی قبیلہ ”منتفق“ پر حملہ کیاجس میں بہت نقصانات ہوئے جن کی فھرست حکومت عراق کی طرف سےمعاینہ کمیٹی نے اس طرح بیان کی ہے کہ اس حملہ میں ۶۹۴لوگ مارےگئے،۱۳۰گھوڑے،۲۵۳۰اونٹ،۳۸۱۱ گدہے، ۳۴۰۱۰ گوسفنداور(۷۸۱)گھر غارت ہوئے، جس گروہ نے یہ حملہ کیا وہ ”دویش“ (اخوان کے روسا) کے پیروکار تھے۔
اہل عراق وہابیوں کے حملوں سے تنگ آچکے تھے، لہٰذا انھوں نے مجبور ہوکر حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ اس طرح کے حملوں کی روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے، اس حالت کو دیکھ کر بہت سے وزیروں نے استعفاء دیدیا، اس کے بعد انگلینڈ کی حکومت نے ”سر پرسی کاكْس“ کو بھیج کر عراق اور ابن سعود کی حکومت کے درمیان صلح کرادی۔
کربلا میں ایک عظیم انجمن کی تشکیل
حکومت عراق اور انگلینڈ کی تدبیروں سے عراقی عوام مطمئن نہ ہوسکی، اور وہابیوں کے دوبارہ حملہ کوروکنے کے لئے صحیح اور مطمئن راستہ کا انتخاب کرنا چاہا، چنانچہ سب لوگوں نے علماء کی طرف رجوع کیا۔
نجف اشرف کے علماء نے مشہور ومعروف مجتہد حاج شیخ مہدی خالصی جن کا حکومت عراق میں اچھاخاصا رسوخ تھاان کو ٹیلیگرام کے ذریعہ ان سے درخواست کی کہ عراق کے تمام قبیلوں کے سرداروں کو ۱۲شعبان (۱۲۴۰ھ)کو کربلائے معلی میں جمع کریں۔
مرحوم خالصی صاحب نے اس درخواست پر عمل کرتے ہوئے مختلف قبیلوں کے سرداروں کو تقریباً(۱۵۰)ٹیلیگرام بھیجے جن میں انھیں کربلا میں مذکورہ تاریخ پر آنے کی دعوت دی گئی تھی اور خود بھی نہم شعبان کو کاظمین سے کربلا کے لئے روانہ ہوگئے۔
اور اس طرح کربلا میں ایک عظیم کانفرس ہوئی جس کی عراقی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی، اس کانفرس میں مختلف قبیلوں کے لوگوں نے شرکت کی، شرکت کرنے والوں کی تعداد دو لاکھ (اور ایک قول کے مطابق تین لاکھ) کے نزدیک اندازہ لگایا جاتا تھا، یہ عظیم کانفرس در حقیقت عراق میں انگلینڈ سے قطع رابطہ کے لئے تھی۔
اس کانفرس کے متعدد جلسات دوسرے مقامات پر بھی ہوئے، اور اس کا آخری جلسہ حضرت امام حسین ںکے صحن مطھر میں ہوا، جس میں دو نسخوں میں قطعنامہ لکھا گیا اور دستخط کئے گئے تاکہ ایک نسخہ ملک فیصل کو دیا جائے اور ایک علماء کے پاس رہے۔
مذکورہ قطعنامہ کا خلاصہ اس طرح ہے کہ دستخط کرنے والے خود اپنی اور اپنے ان موکلین کی طرف سے جو ”جمعیة الاخوان“ والے مسئلے میں جو(۱۲)سے پندرہ شعبان۱۲۴۰ھ تک جاری رہے،جمع ہوئے۔
جمعیة الاخوان نے ہمارے مسلمان بھائیوں کا قتل عام اور مال واسباب کو غارت کیا اسی وجہ سے ہم لوگوں نے قاطعانہ طور پر یہ طے کرلیا ہے کہ روضات مقدسات کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کری اورجمعیة الاخوان کے حملوں کو ناکام کرنے کے لئے ہر ممکن طریقے اپنائیں اور جمعیة الاخوان کے حملوں سے متاثر ہوئے افراد کی ہر ممکن مدد کریں اور ان تمام چیزوں کا فیصلہ سب سے پہلے اعلیٰ حضرت ملک فیصل سے تعلق رکھتاہے لہٰذا ہم جنابعالی سے درخواست کرتے ہیں کہ اخوان کے قتل وغارت کے پیش نظر اس ملت کی ہر ممکن مدد کریں۔
ملک فیصل نے مذکورہ قطعنامہ کا نرم اور محبت آمیز جواب دیا، لیکن پھر بھی عراق کے حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اورآخر کار مرحوم خالصی کو عراق سے مکہ اور وہاں سے ایران کے لئے جلا وطن کردیا گیا موصوف۱۲۴۳ھ میں مشہد مقدس میں اس دنیا سے چل بسے اور ان کو امام رضا ں کے جوار میں دفن کردیا گیا۔
مرحوم خالصی کی جلا وطنی کے بعد نجف اورکربلا کے تقریباً تیس بزرگ عالموں کو (جو ایرانی الاصل تھے) ایران میں بھیج دیا گیا اور اس طرف سے نجدیوں کے عراق پر حملے بھی نہیں رکے، جیسا کہ نجدیوں نے کانون اول۱۹۲۴
میں عراق کے سرحدی علاقوں کے بعض قبیلوں پر حملہ کیا اور تقریباً(۱۶)لوگوں کو قتل کیا اور بہت سے چوپایوں کو اٹھا لے گئے، اور اس حملہ کے چار دن کے بعد دوبارہ حملہ کیا اور بعض لوگوں کو قتل کیا اور تقریباً ۱۵۰خیموں کو غارت کردیا۔
مذکورہ مطلب کے بارے میں چند توضیحات
۱۔ مرحوم علامہ شیخ آقا بزرگ تھرانی نے حضرت آیت اللہ حاج میرزا حسین نائینی کے حالات زندگی میں اس طرح بیان کیا ہے :
” جب عراق پر انگریزوں کا قبضہ ہوا
اس وقت ملک فیصل بادشاہ تھے،اور یہ طے پایا کہ مجلس شورائے ملی (پارلیمنٹ) تشکیل دیا جائے اور وزیروں کا انتخاب کیا جائے، تو اس وقت آیت اللہ نائینی، آیت اللہ آقا سید ابو الحسن اصفھانی، آقای شیخ مہدی خالصی اور سید محمد فیروز آبادی نے انتخابات کے طریقہ کار پر اعتراضات کئے، چنانچہ انھیں اعتراضات کی بدولت شیخ مہدی خالصی کو ایران جلا وطن کردیا گیا،
یہ دیکھ کر شیعہ حضرات میں جوش وولولہ بھڑک اٹھا، نجف اور کربلا کے علماء نے انجمن سے گفتگو کی جس کے بعد یہ طے ہوا کہ ہم لوگ بھی اعتراض کے طور پر عراق سے چلے جائیں،چنانچہ مرحوم نائینی اورمرحوم اصفھانی نے ایران مھاجرت کی اور قم میں سکونت اختیار کرلی، اس وقت اس شھر (قم) کے رہبر آیت اللہ آقائے شیخ عبد الکریم یزدی حائری تھے، چنانچہ موصوف نے ان لوگوں کا بہت اکرام واحترام کیااور اپنے شاگردوںسے عرض کیا کہ ان لوگوں کے درس میں شرکت کریں،عراق کے حالات صحیح ہوگئے تویہ دونوں عالم دین نجف واپس چلے گئے۔
۲۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد عراق پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا اور جب انھوں نے اپنی طرف سے عراق کا حاکم معین کرنا چاہا تو اس وقت عراق کے لوگوں نے اس سلسلہ میں قیام کیا منجملہ یہ کہ ماہ ربیع الثانی ۱۳۳۷ھ میں حضرت آیت اللہ میرزا محمد تقی شیرازی سے ایک فتویٰ لیا جس کی تحریر اس طرح ہے:
”ما یقول شیخنا وملاذنا حضرة حجة الاسلام والمسلمین آیت اللّٰه فی العالمین الشیخ میرزا محمد تقی الحائری الشیرازی متع اللّٰه المسلمین بطول بقائه، فی تکلیفنا معاشر المسلمین بعد ان منحتنا الدولة المفخّمة البرطانیة العظمیٰحق انتخاب امیر لنا نستظّل بظلّه ونعیش تحت رایته ولوائه، فهل یجوز لنا انتخاب غیرالمسلم للامارة والسلطنة علیناام یجب علینااختیار المسلم؟ بینّوا تُوجروا
۔ “
فتویٰ کا ترجمہ :
”ہم ارے بزرگ اور ہماری پناہ گاہ حضرت حجة الاسلام والمسلمین حضرت آیت اللہ فی العالمین شیخ میرزا محمد تقی حائری شیرازی ،خداوندعالم مسلمانوں کو آپ کی طول عمر سے مستفید کرے، درج ذیل مسئلہ میں جنابعالی کی کیا رائے ہے، برٹین کی بزرگ حکومت ہمارے لئے حاکم معین کرنا چاہتی ہے تاکہ ہم اس کے زیر سایہ زندگی کریں، کیا ہمارے لئے اس غیر مسلم کو اپنی حکومت کے لئے منتخب کرنا جائز ہے کہ وہ ہم پر حکومت کرے یا ہم پر کسی مسلمان کا انتخاب کرنا ضروری ہے؟ حضرت عالی سے درخواست ہے کہ آپ اس سلسلہ میں اپنا فتویٰ صادرفرمائیں، خداوندعالم آپ کو اس کا اجرو ثواب عنایت فرمائے۔
علامہ حائری شیرازی نے اس استفتاء کے ذیل میں یہ عبارت لکھی:
”لیس لاحد من المسلمین ان ینتخب ویختار غیر المسلم للامارة والسلطنة علی المسلمین
“(محمد تقی الحائری الشیرازی)
”کسی مسلمان کا اپنے لئے کسی غیر مسلم حاکم کا انتخاب کرنا جائز نہیں ہے“۔
۳۔ اسی طرح کربلا ئے معلی میں بھی مجتہدین کرام نے فتوے صادر کئے ”جو شخص بھی غیر مسلم کی حکومت سے رغبت رکھتا ہو وہ دین سے خارج ہے“ یہ تمام فتوے اس بات کی علامت تھے کہ لوگوں کے اندر وطن کے سلسلہ میں جوش وولولہ پیدا ہو، اور عراق پر انگریزوں کی حکومت کے بر خلاف کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جاسکے۔
اس وقت بھی جمعیة الاخوان کے وہابی گروہ کی طرف سے عراق پر حملے ہوتے رہتے تھے جس کی بناپر لوگوں میں خوف ووحشت پیدا ہوا، اسی لئے نجف اشرف میں بھی اجتماعاتہوئے، جس میں یہ طے ہوا کہ علامہ اکبر آقا شیخ مہدی خالصی مقیم کاظمین سے درخواست کی جائے کہ کربلا میں ایک انجمن بنائی جائے اور عراق کے مختلف قبیلوں کی اہم شخصیات کو نیسان
کی پہلی تاریخ۱۹۲۲ کربلائے معلی میں بلایا جائے۔
مرحوم خالصی نے اس درخواست کو قبول کر لیا، ظاہری طور پراجتماع کامقصد یہ تھاکہ وہابیوں کے حملہ سے متعلق کچھ تدبیریں سوچی جائیں،
لیکن یہ تمام جلسات اس انجمن کے تشکیل پانے کا مقدمہ بنے جو حضرت امام حسین ں کے روضہ میں بنائی گئی، مذکورہ جلسہ میں تقریباً دو لاکھ کا مجمع تھا
جس کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔
۴۔ سرطان
کی ۱۳ویں تاریخ۱۳۰۲ھ (مطابق۲۰ ذیقعدہ۱۳۴۱ھ) کو علمائے نجف اور کربلا کی طرف سے تھران ٹیلیگرام بھیجے گئے کہ انگریزوں کے اصرار کی وجہ سے نجف اور کربلا کے تقریباً تیس علمائے کرام کو جلا وطن کردیا گیاہے اور ان کو ایران بھیجا جارہا ہے، شاید ان علمائے کرام کے جلا وطن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے انگریزوں کے خلاف انتخابات کے سلسلہ میں فتوے صادر کئے ہیں، اور عراق اور انگلینڈ کی حکومت کے خلاف اقدامات کئے ہیں۔
چنانچہ سرطان کی(۱۵)تاریخ ۱۳۰۲ (۲۲ ذی قعدہ۱۳۴۱ھ) کو یہ تمام علماء کرمانشاہ (ایران) میں وارد ہوئے اور ان کا بہت احترام واکرام کیا گیا، اور اس وقت کی حکومت سے اجازت ملنے کے بعد (۲۱ ذی الحجہ۱۳۴۱ھ) کو کرمانشاہ سے ہمدان شھر کی طرف روانہ ہوگئے، اور ہمدان میں بہت کم رکنے کے بعدشھر قم میں وارد ہوئے اور وہاںپر ان تمام علماء کرام نے قیام کیا۔
مرحوم خالصی جو حجاز بھیج دئے گئے تھے، ایران کی حکومت کی سفارش اور انگلینڈ کی حکومت کیسمجھوتے سے یہ بات طے پائی کہ ان کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ ہونے پر ان کو حجاز سے ایران کی طرف روانہ کیا جائے۔
سعود بن عبد العزیز
کھا یہ جاتا ہے کہ عبد العزیز ۱۲۱۸ھ میں قتل ہوا، اور اس کے بعد اس کا بیٹا سعود اس کا جانشین قرار پایا،سعود کو سعودی عرب کے طاقتور بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ اس نے اپنے زمانہ اور اپنے باپ کے زمانہ میں سعودی حکومت کی توسیع کے لئے بہت زیادہ سعی وکوشش کی تھی، سعود ہمیشہ سے اپنے قرب وجوار کے علاقوں پر حملہ کرتا رہتا تھا اس کا جزیرة العرب اور دوسرے علاقوں میں اچھاخاصا رسوخ تھا جس کی بنا پر وہ تمام علاقوں پر حملہ ور ہوتا رہتا تھا، شاید اسی وجہ سے سعودی مولفین نے اس کو ”کبیر“ کا لقب دیا ہے۔
سعود کے زمانہ میں وہابی مذہب حجاز کے علاقہ میں بھی پھیل گیا، اور اس کی وجہ شریف غالب ہے جو ہمیشہ یہ چاہتا تھا کہ حجاز کے علاقہ پر پہلے کی طرح اپنا نفوذ باقی رکھے، اور اسی چیز کے پیش نظر شریف غالب وہابیوں کے مقابلے میں تسلیم ہوگیا جس کی بنا پر حجاز میں مذہب وہابی پھیلتا چلا گیا۔
صاحب تاریخ مکہ کہتے ہیں کہ۱۲۲۰ھ میں شریف غالب نے یہ قبول کرلیا کہ اس کی حکومت نجدیوں (آل سعود) کے تابع رہے، اور اس نے ایسے کام انجام دئے جو وہابیوں کے لحاظ سے صحیح تھے، مثلاً تمباکو نوشی کو ممنوع قرار دیا اور یہ حکم بھی صادر کردیا کہ تمام لوگ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں نماز جماعت میں شریک ہوں، اور موذن حضرات فقط اذان کہیں اور اذان کے بعد (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر) سلام بھیجنے، اور اذان کے ضمن میں نصیحت اور طلب رحمت سے پرہیز کریں،۱۲۲۱ ھ میں سعود کے حکم سے یہ اعلان کرادیاگیا کہ کسی بھی حاجی کو اپنی داڑھی کے بال کٹوانے کا حق نہیں ہے۔
ابن بشر صاحب کہتے ہیں کہ جب سعود اپنے ساتویں حج(۱۲۲۵ھ میں ) کے لئے آئے تو اس وقت میں حاضر تھا میں نے دیکھا کہ سعود حالت احرام میں ایک اونٹ پر سوار ہے، اور ایک بلیغ خطبہ ارشاد ہورہا ہے، میں نے دیکھا شریف غالب ایک گھوڑے پر سوار اس کی طرف آئے اور شریف غالب کے ساتھ فقط ایک آدمی تھا، سعود خطبہ دے رہے تھے لیکن جب شریف غالب کو دیکھا تو اونٹ سے نیچے آگئے اور اس کے ساتھ معانقہ کیا اور اس کے بعد مکہ میں وارد ہوئے ،اس نے کچھ لوگوں کو بازار میں معین کیا تاکہ نماز کے وقت لوگوں کو نماز کے لئے کھیں، اور ایسے بہت ہی کم لوگ دکھائی دیتے تھے جو نماز میں شرکت نہ کرتے ہوں، اور اس سفر کے دوران کسی کو تمباکو نوشی، یا دوسرے ممنوعہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
عثمانیوں کی آل سعود سے جنگیں
خاندان آل سعود نے جب سے اپنی حکومت بنائی اسی وقت سے ان کا یہ نظریہ تھا کہ جزیرة العرب کے قرب وجوار کے تمام علاقے ان کی حکومت کے تحت آجائیں، اور ایک وسیع حکومت بن جائے، اور ان سب کو ایک پرچم کے نیچے جمع کرلےں، اور ایک وسیع اور قدرت مند بادشاہت تشکیل دی جائے،اور اسی وجہ سے ”قسطنطنیہ“ کے عثمانی بادشاہوں میں خوف ووحشت پیدا ہوگئی جس کی بنا پر انھوں نے آل سعود سے جنگ کرنا شروع کردی، اور اس سلسلہ میں شدت عمل اختیار کیا۔
خاندان سعود اور آل عثمان کے درمیان دشمنی کی دوسری وجوہات بھی تھیں جن کی وجہ سے ان میں دشمنی بڑھتی گئی انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ محمل جو ہر سال بہت ہی اہتمام کے ساتھ حرمین شریفین میں بھیجی جاتی تھی اس کو وہابیوں نے روک دیا تھا (محمل کی تفصیل باب ہشتم جمعیة الاخوان کی بحث میں بیان کی جائے گی) اور ان وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ سعود نے حکم دیا کہ اب تک جو عثمانی بادشاہ کا نام خطبوں میں لیا جاتا تھا اب اس کو ترک کردیا جائے، اور ان سب سے بھی اہم وجہ یہ تھی کہ سعود نے اپنے ایک خط میں جو دمشق کے والی کے نام بھیجااس میں لکھا تھاکہ نہ صرف یہ کہ تمھیں وہابی مذہب قبول کرنا ہوگا بلکہ سلطان عثمانی کو بھی یہ مذہب قبول کرنا ہوگا۔
ان کے علاوہ وہابی لوگ ان علاقوں کی طرف بھی ھاتھ بڑھاتے رہتے تھے جو عثمانی حکومت کے زیر تحت ہوتے تھے، چنانچہ ان تمام وجوہات اور اسی طرح کی دوسرے اسباب کی بناپر عثمانی درباریوں نے حجاز پر حملہ کر نے کی ٹھان لی (تاکہ وہابیوں کو نیست ونابود کردیا جائے) اور اس کام کی ذمہ داری مصر کے والی علی پاشا کو سونپ دی گئی ۔
جب۲۶ ۱۲ھ شروع ہوا تو امیر سعود کی پیشرفت اور ترقی کو دیکھ کر عثمانی بادشاہ بہت پریشان ہوا کیونکہ سعود نے نجد، حجاز، یمن اور عُمّان پر قبضہ کرکے ایک وسیع عربی ملک بنالیا تھا۔
عثمانی سلطان نے ماہ ذی قعدہ۱۲۲۶ھ میں ایک عظیم لشکر جنگی ساز وسامان کے ساتہم صر کی طرف روانہ کیا، اس وقت مصر کا والی محمد علی پاشا تھا، عثمانی سلطان نے لشکر کا سردار محمد علی پاشا کو بنایا،
اور حکم دیا کہ اس لشکر کے علاوہ مصر سے بھی ایک لشکر تیار کرو۔
محمد علی پاشا نے مصر اور مغرب (ممکن ہے مغرب سے مراد مراکش یا الجزائر اورتیونس ہو،) سے بھی ایک لشکر تیار کیا اور اپنے بیٹے احمد طوسون کی سرداری میں دریا کے راستہ سے نجد کی طرف روانہ کیا چنانچہ طوسون نے ” ینبع بندرگاہ“ دریائے سرخ کے سواحل میں (مدینہ منورہ سے نزدیک ترین بندرگاہ) پر حملہ کردیا اور اس کو آسانی سے اپنے قبضہ میں لے لیا، اور جس وقت سعود کو یہ معلوم ہوا کہ مذکورہ بندرگاہ پر قبضہ ہوچکا ہے، تو اپنے تحت تمام علاقے والوں کو چاہے وہ شھری ہوں یا بادیہ نشین سب کو حکم دیدیا کہ جلد سے جلد مدینہ کی طرف حرکت کریں۔
دیکھتے ہی دیکھتے اٹھارہ ہزار کا لشکر تیار ہوگیا اس لشکر کی سرادری اپنے بیٹے امیر عبد اللہ کے سپرد کی، امیر عبد اللہ نے تُرک لشکر سے مقابلہ کیا اور چند حملوں کے بعد ترک لشکر کو شکست دیدی، طوسون نے مذکورہ بندرگاہ ترک کردی۔
ابن بشر صاحب کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ترکی لشکر کے چار ہزار اور سعودی لشکر کے چھ سو افراد قتل ہوئے۔
دوسرا حملہ
۱۲۲۷ھ میں محمد علی پاشا نے پہلے لشکر سے بڑا اور طاقتور لشکر حجاز کے لئے روانہ کیا اور اس لشکر یا شکست خوردہ لشکر کے باقی لوگوں نے مدینہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور چاروں طرف توپیں لگادیں، اور شھر کی دیوار کے نیچے گڈھے کھودنے شروع کردئے اور وہاں ”بارود“رکھ کر آگ لگادی جس کے نتیجہ میں دیوار گر گئی، اور ترکی لشکر نے شھر پر قبضہ کرلیا۔
اس حملہ میں سعودیوں کے چار ہزار لوگ مارے گئے، یہ دیکھ کر مدینہ کے حاکم نے صلح کی مانگ کی، اور کچھ ہی مدت کے بعد مصری لشکر نے مکہ کا بھی رخ کیا، شریف غالب نے جو عہد وپیمان سعود سے کررکھا تھا اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ترکی اور مصری لشکر سے سمجھوتہ کرلیا اور اپنے سپاہیوں کو ترکی لشکر کے ساتھ مل جانے کا حکم دیدیا، احمد طوسون کسی جنگ کے بغیر شھر مکہ پر قبضہ کے بعد وہاں کے قصر میں داخل ہوگیا۔
اس کے دوسرے سال (یعنی ۱۲۲۸ھ) میں خود محمد علی پاشا ایک عظیم لشکر کے ساتھ جن میں مصری حجاج کے کاروان بھی شامل تھے، مکہ میں داخل ہوا،شریف غالب اپنے معمول کے مطابق اس کے احترام میں اس کے پاس گیا، اس سے پہلی ملاقات میں تومحمد علی پاشا نے اس کو بڑے احترام سے بٹھایا، لیکن بعد میں ہونے والی ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات کے دوران اس نے اس کو گرفتار کرنے اور اس کے مال پر قبضہ کرنے کا حکم دیدیا، اور خود شریف غالب کو جلا وطن کرکے ”جزیرہ سالونیک“ (یونان) میں بھیج دیا، شریف غالب وھیں رہے یہاں تک کہ۱۲۳۱ھ میں طاعون کی بیماری کی وجہ سے انتقال کرگئے۔
وهابیوں کا مسقط پر حمله اور امام مسقط کا فتح علی شاه سے مدد طلب کرنا
۱۲۲۶ھ کے واقعات کی تفصیل کے بارے میں جناب ”سپھر“ صاحب کہتے ہیں کہ اس جماعت (وہابی لوگ) کی قدرت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا، یہاں تک کہ انھوں نے سر زمین بحرین کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اس کے بعد مسقط میں بھی قتل وغارت کا منصوبہ بنالیا۔
امام مسقط نے فارس کے فرمان گذار شاہزادہ حسین علی میرزا کو اطلاع دی اور یہ درخواست کی کہ صادق خان دولوی قاجار جو عربوں سے جنگ کا تجربہ رکھتے تھے، وہ ایران کی فوج کے ساتھ مسقط آجائیںاور وہاں سے اپنے ساتھ مزید لشکر لے کر ”درعیہ“شھر پر حملہ ور ہوجائیں۔
امیر سعود نے ایرانی لشکر سے مقابلہ کرنے کے لئے سیف بن مالک اور محمد بن سیف کی سرکردگی میں اپنا ایک عظیم لشکر بھیجا،جنگ شروع ہوگئی، اس جنگ میں سیف بن مالک اور محمد بن یوسف کو بہت زیادہ زخم لگے یہ دونوں وہاں سے بھاگ نکلے، اور وہابیوں کے لشکر کے بہت سے لوگ مارے گئے، اور اس جنگ میں امام مسقط کو فتحیابی حاصل ہوئی انھوں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شاہزادہ حسین علی کی قابلیت کی داد تحسین دیتے ہوئے کچھ ہدایا اور تحائف بھیجے، فتح علی شاہ کواسواقعہ کی خبر(۲۰)ربیع الاول کو پہونچی۔
قارئین کرام! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس واقعہ کی تفصیل ”سپھر“ صاحب نے۱۲۲۶ھ کے واقعات میں نقل کی ہے، لیکن ”جبرتی“ صاحب نے اس واقعہ کو۱۲۱۸ھ کے واقعات میں ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
وہابیوں نے مکہ اورجدّہ کو خالی کردیاکیونکہ ان کو یہ اطلاع مل گئی تھی کہ ایرانیوں نے ان کے ملک پر حملہ کرکے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔
ممکن ہے کوئی یہ کھے کہ نجد پر ایرانیوں کے کئی بار حملے ہوئے ہیں، جیسا کہ آپ حضرات نے ”آقائے سپھر“ کی تحریر میں دیکھا کہ انھوں نے ” صادق خان دولو“ کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ عربوں سے جنگ کرنے کا تجربہ رکھتے تھے،
لہٰذا اس بات کا احتمال دیا جاسکتا ہے کہ جبرتی صاحب نے آقائے سپھر کے ذکر شدہ حملہ کے علاوہ دوسرے حملہ کی طرف اشارہ کیا ہو، بھر حال۱۲۲۷ھ میں نجد کی حکومت نے ایران کی حکومت سے صلح کی درخواست کی، اورظاہراً اسی کے بعد سے طرفین کے مابین کوئی اہم حادثہ پیش نہیں آیا۔
سعود کا انتقال
امیر سعود گیارہ جمادی الاول۱۲۲۹ھ میں مثانہ کی بیماری کی وجہ سے مرگیا، معلوم ہونا چاہئے کہ سعود نے محمدبن عبد الوہاب سے دو سال درس پڑھا تھا اور علم تفسیر، فقہ اور حدیث میں مھارتحاصل کرلی تھی اور وہ بعض لوگوں کو درس بھی دیتا تھا۔
امیر عبد اللہ بن سعود اور عثمانیوں کے درمیان دوبارہ حملے
سعودکے مرنے کے بعد اس کے بیٹے عبد اللہ کی بیعت کے لئے عرب کے تمام علاقوں سے لوگ آتے تھے اور عبد اللہ کے ھاتھوں پر بیعت کررہے تھے ا ور اپنی اطاعت گذاری کا اظھار کررہے تھے، اسی اثنا میں محمد علی پاشا جو مکہ میں تھے، وہابیوں سے مقابلہ کے لئے ایک عظیم لشکرتیار کرلیا۔
طرفین میں کئی جنگیں ہوئیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں نے آپس میں صلح کرلی، لیکن چونکہ عثمانی سلطان اور محمد علی پاشا کا دلی ارادہ یہ تھا کہ وہابیوں کی حکومت کو نیست ونابود کردیا جائے ادہر نجد اور حجاز کے لوگوں نے مصر میں جاکر امیر عبد اللہ کی بدگوئیاں کرنا شروع کردی، (اس وقت مصر کے والی محمد علی پاشا تھے)، اسی وجہ سے محمد علی پاشا نے ترکوں اور مصریوں اور اہل مغرب
، شام
اور عراق کے لوگوں پر مشتمل ایک عظیم لشکر آمادہ کیا اور چونکہ اس کا بیٹا طوسون۱۲۳۱ھ میں انتقال کرچکا تھا اس وجہ سے اس مرتبہ لشکر کی سرداری اپنے دوسرے بیٹے ابراہیم پاشا (یا ایک قول کے مطابق بیوی کے ساتھ آیا ہوا دوسرے شوھر کا بیٹا ابراہیم پاشا) کے حوالہ کی، ابراہیم پاشا اس بھادر لشکر کے ساتھ مصر سے روانہ ہوا، اور سب سے پہلے مدینہ منورہ کارخ کیا اور اس کو مع قرب وجوار کے اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اس کے بعد ”آب حناکیہ“ کا رخ کیا اور وہاں پر قتل وغارت شروع کیا۔
ابراہیم پاشا کا اس علاقہ میں اس طرح رعب و دبدبہ تھا کہ ان میں سے بعض لوگ اس کی اطاعت کا اظھارکرنے لگے تھے، اور انھوں نے اس کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کا بھی اعلان کیا، ابراہیم پاشانے ۱۲۳۲ھ کے شروع تک حناکیہ میں قیام کیا اور اس کے بعد نجد کے علاقہ ”رَجلہ“ پر حملہ کیا۔ لیکن اس کے بعد امیر عبد اللہ نے ایک عظیم لشکر تیار کیا، اور جن قبیلوں نے ابراہیم پاشا کی اطاعت قبول کرلی تھی ان کی نابودی کے لئے حجاز گیا لیکن جیسے ہی مذکورہ قبیلوں نے امیر عبد اللہ کو ایسا کرتے دیکھا تو حناکیہ میں جاکر ابراہیم پاشا کے یہاں پناہ لے لی۔
دونوں طرف میں لڑائی جھگڑے ہوتے تھے تو ان میں اکثر نقصان امیر عبد اللہ کا ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ابراہیم پاشا کا لشکر تعداد کے لحاظ سے بھی اورتوپ اور دیگر اسلحہ وغیرہ کے لحاظ سے بھی امیر عبد اللہ کے لشکر سے طاقتور تھا،
ابراہیم پاشانے آہستہ آہستہ ”رَسّ“ نامی علاقہ اور ”عنیزہ اور ”خبرا“ شھروں پر بھی قبضہ کرلیا، اور شھر ”شقراء“ کو بھی صلح کے ذریعہ اپنے قبضہ میں کرلیا تھا ۔
خلاصہ یہ کہ ابراہیم پاشا آگے بڑھتا رہا اور نجد وحجاز کے دوسرے علاقوں پر قبضہ کرتا رہا، اس کی پیشرفت اور ترقی قتل وغارت کے ساتھ ہوتی تھی،آخر کارابراہیم پاشا نے امیر عبد اللہ کے دار السلطنت شھر ”درعیہ“ کو گھیر لیا، اور بہت سے حملے کرنے کے بعد اس شھر کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا، اور امیر عبد اللہ کی بہت سی اہم شخصیتوں کو توپ کے سامنے کھڑا کرکے ان پر توپ کے گولے چلا دئے، یہ سب دیکھ کر امیر عبد اللہ نے بھی اس کے سامنے ھتھیار ڈال دئے۔
اور جیسے ہی نجد فتح ہونے کی یہ خبر مصر پہونچی تو خوشیاں منانے کی وجہ سے توپ کے تقریباً ایک ہزار گولے داغے گئے، اورسات دن تک مصر کے علاقوں میں چراغانی کی گئی۔
مصر میں امیر عبد اللہ اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خزانہ
ابراہیم پاشا نے دو دن کے بعد عبد اللہ کو خبر دی کہ تیار ہوجاؤ تاکہ تمھیں اسلامبول سلطان عثمانی کی خدمت میں پیش کردیا جائے، اسے ایک لشکر کے ساتھ روانہ کردیا گیا اور یہ تاکید کردی کہ راستہ میں اس کی عثمانی سلطان کے دربار عالی تک پہونچنے تک بھر پور حفاظت کی جائے۔
ابن بشر صاحب کہتے ہیں کہ امیر عبد اللہ کو ان کے تین یا چار ساتھیوں کے ساتھ
(اور زینی دحلان کے بقول بہت سے نجدی رؤسا کے ساتھ) درعیہ سے روانہ کیا گیا، اورمحرم۱۲۳۴ھ میں مصر میں پہونچا دیا گیا، اور ان کے لئے ایک جگہ تیار کی گئی تاکہ دیکھنے والے اس کو دیکھ سکیں، اورجب عبد اللہ محمد علی پاشا کے سامنے لایا گیا توپاشاصاحب اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے، اور ان کو اپنی بغل میں بٹھایا، اور اس سے گفتگو کے دوران سوال کیا کہ ابراہیم پاشا کو کیسا پایا؟!
توامیرعبد اللہ نے جواب دیا کہ اس نے اپنے وظیفہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اورضروری کوشش کو بروئے کار لائے، ہم بھی اسی طرح تھے، لیکن خداوندعالم نے جو مقرر کردیا تھا وھی انجام پایا، اس کے بعد محمد علی پاشا نے اس کو بہترین کپڑے پہنوائے۔
امیرعبد اللہ کے ساتھ ایک چھوٹا سا صندوق بھی تھا، محمد علی پاشا نے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟
تو عبد اللہ نے جواب دیا کہ اس کو میرے باپ نے حجرے سے (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ سے) لیا تھا اور میں اس کو سلطان (عثمانی سلطان) کے پاس لے جارہا ہوں۔
محمد علی پاشا کے حکم سے اس صندوق کو کھولا گیا، تو دیکھا کہ اس میں قرآن مجید کے تین نسخے تھے اور یہ قرآن بادشاہ کے خزانہ سے متعلق تھے اور اب تک کسی نے ایسے قرآن نہیں دیکھے تھے، اسی طرح اس صندوق میں مروارید اورزمرّدکے تین سو بڑے بڑے دانے بھی تھے، اسی طرح ایک سونے کا ظرف بھی تھا، محمد علی پاشا نے سوال کیا کہ کیا آپ نے حجرے سے ان کے علاوہ دوسری چیزیںبھی لی تھیں ؟
تب اس نے جواب دیا کہ یہ چیزیں میرے باپ کے پاس تھیںاور وہ جو کچھ بھی حجرے میں آتا تھا صرف وھی نہیں اٹھاتے تھے بلکہ اہل مدینہ اور حرم مطھر کے خادمین بھی اس کو اٹھالیتے تھے۔
محمد علی پاشانے کہا کہ یہ بات صحیح ہے کیونکہ ہم نے بھی ان میں کی بہت سی چیزیں شریف مکہ کے پاس دیکھی ہیں۔
امیر عبد اللہ کو پھانسی
اس کے بعد محمد علی پاشا نے امیر عبد اللہ کو اسلامبول کے لئے روانہ کردیا وہاں اس کو اور اس کے ساتھیوں کو بازار میں گہم ا کر باب ہمایوں (بادشاہ کا محل) کے سامنے پھانسی پر لٹکادیاگیا اور اس کے ساتھیوں کو شھر اسلامبول کے دوسرے علاقوں میں پھانسی دیدی گئی۔
شھر درعیہ کی بربادی اور آل سعود اور آل شیخ کی مصر کی طرف جلا وطنی
جس وقت دونوں طرف سے جنگ ہورہی تھی خصوصاً جس وقت درعیہ شھر کو گھیر کر اس پر قبضہ کرلیا گیا اسی وقت خاندان سعود اور خاندان شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بعض لوگوں کو قتل کردیا گیا یا ان کو پھانسی دیدی گئی، انھیں میں سے شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن شیخ محمد بن عبد الوہاب تھے جس وقت ابراہیم پاشا نے اہل درعیہ سے مصالحت کی تو اس کو ڈراتے ہوئے لایا گیا تاکہ اس کی توھین بھی ہوجائے اس کے سامنے” رباب “نامی موسیقی بجوائی گئی اور اس کے بعد اس کو قتل کردیا گیا۔
ابراہیم پاشا تقریباً نو مھینے تک درعیہ میں رہے اور اس مدت میں حکم دیا کہ تمام آل سعود اور خاندان شیخ محمد بن عبد الوہاب کو مصر میں جلاوطن کرکے بھیج دیا جائے، اوراس کے حکم کے مطابق ان دونوں خاندان کے افراد عورتوں اور بچوں سمیت تمام تر حفاظت کے ساتھ مصر روانہ کردئے گئے۔
ماہ شعبان ۱۲۳۴ھ میں محمد علی پاشا نے ابراہیم پاشا کو ایک خط میں درعیہ شھر کو بالکل نیست ونابود کردئے جانے اور بالکل زمین سے ہموار کرنے کا حکم دیدیا۔
ابراہیم پاشا نے اہل شھر کو شھر خالی کرنے کا حکم دیا، اور اس کے بعد ابراہیم پاشا کے سپاہیوں نے حکومتی محل اور دیگر لوگوں کے گھروں اور کجھور کے درختوں کو نیست ونابود کرنا شروع کیا،یھی نہیں بلکہ جن کو خالی نہیں کیا گیا تھا ان مکانوں کو بھی گرادیتے تھے، باغات کو کاٹ ڈالا، گھروں میں آگ لگادی، خلاصہ یہ کہ شھر درعیہ زمین کا ایک ڈھیر دکھائی دیتا تھا۔
ابراہیم پاشا نے درعیہ شھر کے علاوہ نجد کے دوسرے علاقوں میں موجود تمام قلعوں اور مستحکم عمارتوں کو گرانے کے لئے ایک لشکر منتخب کیا اور انھیں حملوں کے درمیان ایک نجدی نے ابراہیم پاشا پر حملہ کردیااور ایک خنجر کے ذریعہ اس پر وار کیا لیکن یہ خنجر اس کے کپڑوں اور گھوڑے کی زین میں گھس کر رہ گیا اور خود ابراہیم پاشا کو کوئی نقصان نہیں پہونچا۔
اس کے بعد سے ایک بار پھرنجد کے علاقہ میں افرا تفری پھیل گئی اور مختلف علاقوں کے قبیلے ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑگئے، اس کے بعد ابراہیم پاشا مدینہ واپس چلے گئے اور وہاں سے شام کا رخ کیا اوروہاں بھی بعض علاقوں کو فتح کیا۔
ابراہیم پاشا کا مصر میں داخل ہونا اور اس کا عجیب غرور
ابراہیم پاشا اس عظیم فتح وپیروزی اور وہابیوں کو شکست دینے کے بعد محرم الحرام۱۲۳۵ھ میں مصر میں وارد ہوا تو منا دی کرنے والوں نے یہ اعلان کیاکہ شھر مصر (یعنی قاہرہ)میں سات شب وروز تک چراغاں کیا جائے اور کوچہ وبازار میں خوشیاں منائی جائیں۔
چنانچہ لوگوں نے اس سلسلہ میں ہر ممکن کوشش کی اورعیسائیوں نے اپنے محلوں اور مسافر خانوں میں نمائش کے طور پر بہت سی عجیب وغریب چیزیں ایجاد کیں مثلاً مختلف قسم کی عجیب وغریب تصویریں اورمجسمہ بناکر نمائش لگائی۔
ابراہیم پاشا کے استقبال کے لئے ایک موکب (سواروں اور پیادہ لوگوں کا لشکر)تیار کیا گیا، درحالیکہ اس نے بہت لمبی داڑھی رکھنا شروع کی تھی ،باب النصر سے وارد ہوا، اس کا باپ محمد علی پاشا بڑے فخر کے ساتھ اپنے بیٹے کے موکب کو دیکھنے کے لئے حاضر ہوا۔
چراغانی، شب زندہ داری، آتش بازی، توپ داغنا، میوزک اور دوسرے کھیل اور سرگرمی سات شب وروز تک جدید اور قدیم
مصر اور مصر کے دوسرے علاقوں میں جاری رہے۔
ابراہیم پاشا اس سفر سے واپسی پر خود کو بہت بڑا سمجھنے لگا تھا اور اتنے غرور میں رہتا تھا جس کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، اس کا غرور اس وقت ظاہر ہوا کہ جب اہم شخصیات اس کی خدمت میں سلام اورتہنیت کے لئے حاضر ہوئےں تو یہ جناب اپنی جگہ سے کھڑے تک نہ ہوئے، اور سلام کا جواب تک نہ دیا یہاں تک کہ اشارہ تک بھی نہ کیابلکہ اسی حال میں بیٹھا ہوا مسخرہ کرتا رہا، لہٰذا وہ لوگ وہاں سے ناراض ہوکر واپس ہوگئے۔
وہابی اسیروں کو فروخت کرنا
جناب جبرتی صاحب کہتے ہیں کہ محرم۱۲۳۵ھ میں مغرب اور حجاز کے کچھ سپاہی مصر میں وارد ہوئے جن کے ساتھ وہابی اسیر بھی تھے، جن میں عورتیں، لڑکیاں اورلڑکے بھی تھے، یہ سپاہی ان اسیروںکو جو شخص بھی خریدنا چاہے اس کو فروخت کردیتے تھے، جبکہ یہ اسیر مسلمان بھی تھے اور آزاد بھی۔
اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہابیوں کے مخالف ان کو خارجی سمجھ رہے تھے دوسرا احتمال جس کو جبرتی نے بھی دیا ہے کہ عثمانی سپاہیوں کا کوئی دین و مذہب نہ تھا، ان کے ساتھ شراب کے ظروف بھی موجودہوتے تھے کبھی ان کے لشکر سے اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، نہ ہی ان کو نماز پڑھتے دیکھا گیا،ان کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ ہم دین اسلام کے لئے جنگ کررہے ہیں، جب عثمانی سپاہیوں کے قتل شدہ لاشے ملتے تھے تو ان میں سے بہت سے لوگ ختنہ شدہ بھی نہیں تھے۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظر عثمانی سپاہی اپنی ان صفات کے باعث وہابیوں میں سے جس کو اسیر بناتے تھے اس زمانہ کے رواج کے تحت اپنے غلاموں کی طرح فروخت کردیتے تھے اور اسیروں کے مذہب و دین کے بارے میں کوئی فکر نہیں کرتے تھے۔
لیکن چونکہ یہ اسیر حجازی اورمغربی سپاہیوں کے ھاتھوں میں ہوتے تھے شاید پہلا والا احتمال حقیقت سے زیادہ نزدیک ہو، اسی طرح دوسرے ایسے مواقع بھی آئے ہیں جن میں عثمانی سپاہیوں نے وہابی عورتوں اور بچوں کی خوارج ہونے کے لحاظ سے خرید وفروخت کی ہے۔
آل سعود کی حکومت کا دوبارہ تشکیل پانا
اسلامبول میں امیر عبد اللہ کو پھانسی لگنے اور آل سعود اورآل شیخ محمد بن عبد الوہاب کے مصر میں جلا وطن ہونے کے بعد گمان یہ کیا جاتا تھا کہ عثمانی بادشاہ، محمد علی پاشا اور ابراہیم پاشا نے وہابیوں اور خاندان آل سعود کی حکومت تباہ کر کے اپنی حکومت قائم کرلےں، لیکن کوئی بس نہ چلا اور دونوں خاندان کے بعض افراد بھاگ نکلے اور بعد میں حکومت آل سعود کو تشکیل دیا۔
ان بھاگنے والوں میں سے ایک امیر ترکی بن امیر عبد اللہ بن محمد بن سعود تھا، دوسرا اس کا بھائی زید تھا اسی طرح علی بن محمد بن عبد الوہاب تھا یہ لوگ پہلے قطر اور عُمّان گئے، معلوم ہونا چاہئے کہ امیر ترکی وھی شخص ہے جس نے بعد میں سعودی حکومت کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔
۱۲۳۴ھ کے آخر میں جب ابراہیم پاشا کے حکم سے درعیہ شھر کو نیست ونابود کردیا گیا اس وقت محمد بن مُشارِی بن مَعمر، سعود بن عبد العزیز کا بھانجا درعیہ سے ”عُیَنْیَہ “ بھاگ نکلا تھااور (جب ابراہیم پاشا وہاںسے چلاگیا) تو دوبارہ درعیہ واپس آگیا اور چونکہ آل سعود سے رشتہ داری تھی،لہٰذا اس نے حکومت نجد کو اپنے ھاتھوں میں لےنے کی ٹھان لی۔
اس نے درعیہ شھر کو دوبارہ بنوانا شروع کیا اور بہت سا جنگی ساز وسامان تیار کیا، اور بہت سارا مال اکٹھّا کیا اور آل سعود کے بادشاہوں کی طرح لوگوں کو توحید کی دعوت دینا شروع کردیا، قرب وجوار کے شھروںدیھاتوں اور قبیلوں کے سرداروں کو خط لکھنے شروع کئے اور اپنے دیدار کے لئے بلایا، بعض لوگوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہا، اور بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔
ابن معمر نے اپنی حسن تدبیر سے مخالفوں پر کامیابی حاصل کرلی اسی دوران ترکی بن عبد اللہ اور اس کا بھائی درعیہ میں داخل ہوئے پہلے تو ترکی نے اس کی موافقت کی اور اس سے مل کر رہا اور اس کے بعد بعض واقعات کی بنا پر ایک دوسرے میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے، سر انجام ترکی نے ابن معمر کو پھانسی دیدی۔
اس زمانہ میں (یعنی۱۲۳۵ھ میں ) ایک بار پھر نجد کاماحول خراب ہوگیا وہاں افرا تفری پھیل گئی، اور پہلے کی طرح مختلف قبیلوں میں جنگیں ہونے لگیں، اسی زمانہ میں انگلینڈ کی دریائی فوج نے (جن کے پاس دریائی کشتیوں پر توپ وغیرہ بھی لگی ہوئی تھی) ”راس الخیمہ“ پر حملہ کرکے شھر پر قبضہ کرلیا، وہاں کے لوگ بھاگ نکلے اور انگلینڈ کی فوج نے شھر کو ویران کردیا۔
امیر ترکی
۱۲۳۶ھ سے عثمانی بادشاہ نے امیر ترکی پر حملہ کرنا شروع کردیا، اس کی وجہ جیسا کہ پہلےاشارہ کیا جاچکا ہے عثمانی بادشاہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ ایک عربی بڑی حکومت نہ بنالیں (اور پھر اس پر حملہ نہ کردیں) اُدہر امیر ترکی کی حکومت آہستہ آہستہ مضبوط ہوتی گئی اور اس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، جسے دیکھ کر عثمانی بادشاہ نے حسین بک کی سرداری میں ایک ترک لشکر نجد کی طرف روانہ کیا ،اس وقت امیر ترکی نے اپنا دار السلطنت ”ریاض“ کو بنالیا تھا (جو آج بھی سعودی عرب کا پائے تخت ہے) ۔
امیر ترکی اور حسین بک میں بہت خونین جنگیں ہوئیں اور ان جنگوں میں ترکی کمزور ہونے لگا اور نزدیک تھا کہ شکست کہا جائے ایک جنگ میں ترکی کے بیٹے فیصل کو گرفتار کرکے مصر بھیج دیا گیا ،لیکن آخر کار ترکی کو کامیابی ملی اور وہ حکومت پر قابض ہوگیا اور اسی زمانہ میں اس کا بیٹا فیصل بھی مصر سے بھاگ نکلا اور اپنے باپ سے آکر ملحق ہوگیا۔
ترکی بادشاہ کا زمانہ ایسا تھاجس میں ہمیشہ مختلف قبیلوں میں لڑائی اور دیگرمشکلات سامنے آتی رہیں یہاں تک کہ اس کے بھانجے مشاری بن عبد الرحمن بن سعود نے اچانک۱۲۴۹ھ میں اس کو قتل کردیا ۔
قارئین کرام !یہ بھی معلوم رہے کہ مشاری وہ شخص تھا جس کو ابراہیم پاشا نے جلا وطن کرکے مصر بھیج دیا تھا، اور وہ وہاں سے بھاگ کر اپنے ماموں کی پناہ میں چلا گیا تھا، اور جس وقت سے مشاری اپنے ماموں کی پناہ میں پہونچا تھا، ترکی اس کا بہت احترام واکرام کرتا تھا اور اس کو شھر ”منفُوحہ“ کی ولایت دیدی تھی، لیکن چونکہ مشاری کو حکومت کرنے کا شوق تھا، لہٰذااس نے ترکی کے ساتھ خیانت کی، لیکن وہ بھی بہت جلد فیصل کے ھاتھوں اسکے باپ کے انتقام میں قتل کردیاگیا۔
فیصل بن ترکی
امیر ترکی کے قتل ہونے کے بعد اس کا غلام ”زوید“ ریاض سے ”اَحساء“ فیصل بن ترکی کے پاس گیا اورتمام واقعہ بتلایا کہ تمھارے باپ کو قتل کردیا گیا ہے، واقعہ کو سن کر فیصل نے اپنے باپ کے انتقام میں ریاض پر حملہ کردیا ادہر شھر کا دفاع کرنے والوں میں سے ایک گروہ نے اس کی طرفداری کی، چنانچہ اس نے چند حملوں کے بعد شھر ریاض کو اپنے قبضہ میں لے لیا، اور مشاری اور اس کے چند ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا۔
فیصل۱۲۵۰ھ کے شروع میں اپنے باپ کی جانشینی میں نجد کی حکومتکا بادشاہ بنا، قرب وجوار کے حكّام نے آکر اس کے ھاتھوں پر بیعت کی اور نجد کی حکومت ملنے پر اس کو مبارک بادپیش کی۔
آل رشید
امیرفیصل نے۱۲۵۱ھ میں صالح بن عبد المحسن کو جو ”جبل شَمَّر“ کا والی تھا معزول کرکے اس کی جگہ عبد اللہ بن علی بن الرشید کو مقرر کیا، جس وقت عبد اللہ جبل شمر کے دار السلطنت،شھر ”حائل “ پہونچا تو اس کے اور آل علی میں جو سابق امیر صالح بن عبد المحسن کے ساتھی تھے شدید اختلاف پیداہوگیا، اور دونوں میں لڑائی ہونے لگی، آخر کار ابن الرشید نے صالح کو اس کے محل میں گھیر لیا لیکن بعد میں اس کو امان دیدی، اور اس کو شھر سے باہر نکال دیا، اور فیصل کو خط لکھا کہ اختلاف اور جھگڑوں کی ابتداء آل علی کی طرف سے ہوئی تھی، چنانچہ فیصل نے بھی اس کی تصدیق اور تائید کی۔
اس کے بعد سے آل رشید جبل شمر پر مستقر ہوگئے اور انھوں نے بھی اپنے علاقہ میں توسیع کرنا شروع کردی، یہاں تک کہ اسی خاندان کے ایک حاکم بنام محمد نے ریاض پر بھی غلبہ حاصل کرلیا، اور عبد العزیز سعودی امیر کو بھی نجد سے باہر نکال کر کویت بھیج دیا، لیکن ان سب کے باوجود اس کی قدرت کچھ ہی مدت کے بعد جواب دے گئی اور عبد العزیز بن سعود نے اس پر حملے شروع کردئے، اور ۱۳۳۶ھ میں کلی طور پر اس (آل رشید) کا صفایا کردیا۔
آل رشید کے قدرتمند حاکم محمد کے دورمیں (یعنی۱۲۸۵ھ سے ۱۳۱۵ھ تک) شمر نامی پھاڑ پر یورپی سیّاحوں کو گھومنے پھرنے کی اجازت مل گئی، اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ کئی یورپی سیاحوں نے اس علاقہ کا نزدیک سے دیدار کیاہے۔
نجد پر ترکوں کا دوبارہ حملہ اور فیصل کو گرفتار کرکے جلا وطن کرنا
مصر کے سپاہیوں کا ایک گروہ احمد پاشا کی سرداری میں مکہ میں مقیم تھا، احمد بن عون نے شریف مکہ احمد پاشا کو ”عَسِیْر“ نامی (نجد کے نزدیکی علاقہ) پر حملہ کرنے کے لئے ابھارا، اور اس نے حملہ کرنے کا پروگرام بنالیا، پہلے تو عسیر کے لوگوں نے فرمانبرداری کا اظھار کیا لیکن موقع پاکر مصریوں کو نیست ونابود کردیا۔
چنانچہ ایک بار پھر مصری فوج نے نجد پر حملہ کیا اورشھر ریاض کو اپنے قبضے میں لے لیا اور امیر فیصل احساء کی طرف بھاگ گیا۔
قارئین کرام!جیسا کہ نجد پر عثمانیوں کے حملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عثمانی اور مصری فوج آسانی کے ساتھ نجد کو اپنے قبضہ میں لے لیا کرتی تھی، لیکن ان کو وہاں رہنے میں بڑی مشکلوں کا سامنا تھا، جیسے وہاں کی آب وہوا جو مصری اور ترکی فوج کے لئے مناسب نہیں تھی، یا مختلف قبیلوں کی طرف سے ہونے والی مشکلات کی وجہ سے پریشان ہوتے تھے یادوسری وجوہات، بھر حال عثمانی لشکر نجد کو فتح کرنے کے بعد اس کو اس کے حال پر چھوڑ کر واپس ہوجاتے تھے۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا ریاض اورنجد میں عثمانی لشکر کمزور ہونے لگا ادہر فیصل احساء سے ریاض واپس آگیا لیکن وہ پھر بھی ریاض پر قبضہ نہ کرسکا۔
۱۲۵۴ھ میں خورشید پاشا مصری سپاہ کے سردار نے ملا سلیمان کی سرداری میں ایک طاقتور لشکر ”قصیم“ نامی علاقہ سے ریاض کے لئے بھیجا، اور حکم دیا کہ اسماعیل آقا جو مصر کے سابق سردار تھے ان کو واپس بھیج دو، اور ایک مدت کے بعد خود خورشید پاشا ”عنیزہ“ شھر میں آئے، اور خورشید پاشا اور فیصل کے درمیان گئی ایک حملے ہوئے جس کے نتیجہ میں فیصل کو سر تسلیم خم کرنا پڑا، اور اس کو مصر کے لئے روانہ کردیا۔
فیصل کا مصر سے فرار
صلاح الدین مختار صاحب، مصر سے فیصل کے بھاگنے کے بارے میں دو قول بیان کرتے ہیں جن میں سے ایک قول ابن بشر کا ہے جو انھوں نے کتاب عنوان المجد فی تاریخ نجد، سے لیا ہے کہ فیصل اپنے بھائی اور چچا زاد بھائی اوراپنے دو بیٹوں عبد اللہ اورمحمد کے ساتھ اس محل سے بھاگ نکلے جس میں ان کو رکھا گیا تھا، ان کا بھاگنے کا طریقہ یہ تھا کہ مذکورہ محل کی دیوارمیں (۷۰)گز کی اونچائی پر ایک موری تھی، انھوں نے کسی مخفی طریقہ سے باہر سے ایک رسی منگائی اور اس رسی کے ذریعہ باہر نکل گئے اور وہاں پر ان کے لئے پہلے سے گھوڑے تیار تھے ان پر بیٹھ کر شمّر نامی پھاڑ کی طرف بھاگ نکلے۔
دوسرا قول امین ریحانی صاحب کا (کتاب نجد الحدیث میں ) ہے، کہ خود محمد علی پاشا نے اس کو زندان سے رہا کردیا تاکہ امیر نجد کے عنوان سے اپنے وطن لوٹ جائے، (اس قول کے مطابق فرار کا نام دیا جانا صحیح نہیں ہے)
لیکن صلاح الدین مختار صاحب نے ابن بشر کے قول کو صحیح مانا ہے کیونکہ یہ فیصل کے ہم عمر تھے۔
بھر حال جب فیصل نجد میں واپس پہونچ گئے تو انھوں نے کوہ شمّر کو اپنا دار الحکومت بنایا، اس وقت اس کے بنی اعمام (چچا کی اولاد) میں سے عبد اللہ بن ثنیان نامی ایک شخص ۱۲۵۷ھ میں جنگ وجدال کے بعد ریاض کے علاقہ پر حکمرانی کررہا تھا، فیصل نے اس کو بعض واقعات کی بنا پر گرفتار کرکے زندان بھیج دیا، آخر کار یہ شخص زندان میں ہی مرگیا۔
امیر فیصل کا شمار آل سعود کے سب سے طاقتور بادشاہوں میں ہوتا ہے،اور اسی نے فتنہ وفساد کی آگ کو خاموش کیا اور کئی سال سے پھیلے افرا تفری کے ماحول کا خاتمہ کرکے امن وامان قائم کیا اور اپنی حکومت میں اضافہ کیا، ۱۲۶۸ھ کے بعد ایک بار پھر نجد کے مختلف علاقوں میں آشوب اور اختلاف برپا ہوا ان سب کو ختم کرنے کے لئے فیصل نے بہت کوشش کی۔
آخر کار ماہ رجب۱۲۸۲ھ میں فیصل کا انتقال ہوگیا، اور اس کے مرنے کے بعد سعودی حکومت میں اختلاف شروع ہوگیا۔
حکومت آل سعود
فیصل سے عبد العزیز بن سعود تک
فیصل کے بعد اس کا بیٹا عبد اللہ تخت حکومت پر بیٹھا، اس دوران یعنی۱۲۸۲ھ سے ۱۲۸۳ھ تک امن وامان برقرار رہا، لیکن عبد اللہ کے بھائی سعود نے اس کی نافرمانی کرنا شروع کردی، اور قرب وجوار کے بعض حكّام سے مدد چاہی، آخر کار عبداللہ کے لشکر (جو اس کے دوسرے بھائی محمد کے ما تحت تھا) اور سعود کے لشکر میں جنگ ہونے لگی، چنانچہ سعود کو کئی زخم لگ گئے جن کی بناپر اس کو شکست ہوئی اور وہ وہاں سے احساء کی طرف بھاگ نکلا اور پھر وہاں سے عُمان چلاگیا۔
۱۲۸۷ھ میں سعود وہاں سے بھی بھاگ لیا اور بحرین میں آل خلیفہ کے امیروں کی پناہ لے لی، اور ان سے اپنے بھائی عبداللہ کے مقابلہ کے لئے مدد چاہی، بحرین کے حكّام نے اس کو مدد دینے کاوعد ہ دیا، ادہر سے عبد اللہ کے دوسرے مخالف افراد منجملہ قبیلہ عَجمان اور آل مُرّہ سعود کے ساتھ مل گئے۔
اور اس کے بعد دونوں میں جنگ ہوئی اور اس جنگ میں محمد کو شکست ہوئی سعودنے اس کو گرفتار کرکے زندان بھیج دیا اوراحساء اورریاض کو اپنے قبضہ میں لے لیا، ادہر ایک مدت کے بعد (عثمانیوں کی طرف سے)والی بغداد نے عبد اللہ کی کمک کے طور پر فریق پاشا کی سرداری میں ایک لشکر نجد کے لئے روانہ کیا، اس لشکر نے عبد اللہ کی ہمراہی میں سعود کو زبر دست شکست دی۔
اُدہر عثمانیوں نے بھی مدحت پاشا کی سرداری میں ایک لشکر کو بھیج دیا یہ لشکر شیخ مبارک الصباح (کویت کے امیروں میں سے ایک امیر)کی مدد سے دریائی راستہ سے بندرگاہ عقیر (خلیج فارس کے بندرگاہوں میں سے ایک بندر گاہ جو بحرین کے مقابل ہے)میں داخل ہوا۔
ان لشکروں کی آمد ورفت کے دوران کسی نے چپکے سے عبد اللہ کو یہ خبر دی کہ مدحت پاشا کا اصلی مقصد تمھیں گرفتار کرنا اور عثمانی حکومت کے سامنے تسلیم کرانا ہے، یہ سننے کے بعد عبد اللہ بڑی چالاکی سے عثمانی لشکر کے درمیان سے غائب ہوگئے اور ریاض جا پہونچے اور اپنے ہدف کو آگے بڑھایا، چنانچہ اس وقت اس نے آل شمّر پر حملہ کردیا اور وہاں کے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا۔
۱۲۹۰ھ میں سعود نے ریاض پر حملہ کردیااور اپنے بھائی عبد اللہ کو شکست دیدی، اوروہکویت کی طرف بھاگ نکلا، ادہر سعود کو قبیلہ ”عُتَیْبَہ“ سے ہوئی جنگ میں زبر دست شکست کا منھ دیکھنا پڑا، اور ریاض واپس پلٹ آیا، ماحول اسی طرح خراب رہا،۱۲۹۱ھ میں فیصل بن ترکی کا چوتھا بیٹا امیر عبد الرحمن جو بغداد میں تھا، احساء آیا اور اس نے بھی آنے کے بعد لشکر اورطاقت کو جمع کرنا شروع کیا چونکہ اس وقت قرب وجوار میں عثمانی لشکر کا قبضہ تھا،اسی لئے عبد الرحمن نے سب سے پہلے شھر ”ہفوف“ میں موجود عثمانی سپاہ سے جنگ کی اور اس کے بعد ان کویتوں پر حملہ کیا جنھوں نے مدحت پاشا کی مدد کی تھی اوران کو ”کوت ِ ابراہیم“ اور”کوتِ حصار“ نامی جگہوںپر گھیر لیا۔
کویت کے لوگوں نے والی بغداد سے مدد چاہی اس نے ان کی مدد کے لئے ایک لشکر بھیجا،عبد الرحمن نے اس لشکر سے شکست کہائی، وہاں سے ریاض کی طرف بھاگ نکلا، اور (ذی الحجہ۱۲۹۱ھ) میں امیر سعود جو شھر حُریملہ چلا گیا تھا وھیں پراس کا انتقال ہوگیا، اور عبد الرحمن اس کی حکومت پر قابض ہوگیا۔
۱۲۹۳ھ میں سعود کے بیٹے، (اپنے چچا) عبد الرحمن کی مخالفت میں کھڑے ہوئے اور وہ مجبوراً ریاض سے بھاگ کر عتیبہ گاوں میں اپنے بھائی عبد اللہ سے ملحق ہوگیا، عبد اللہ نے اس کابڑا احترام کیا ۔
اس کے بعد عبد اللہ نے اپنے جنگجو لوگوں اور عبد الرحمن کے ساتھ ریاض کی طرف حرکت کی، ادہر سعود کی اولاد بغیر کسی جنگ کے ریاض چھوڑ کربھاگی، عبد اللہ نے ریاض پر قبضہ کرلیا، عبد الرحمن اور اس کا دوسرا بھائی محمد ،عبد اللہ کے کسی کام میں مخالفت نہیں کرتے تھے۔
اس کے بعد سے۱۳۰۸ھ تک آل سعود کی حالت مختلف جنگوں اورفسادات کی وجہ سے بہت زیادہ بحرانی رہی، جن کی بناپر وہ ضعیف اورکمزور ہوتے چلے گئے، جس کے نتیجہ میں آل رشید ان پر غالب ہوگئے اور محمد بن عبد اللہ الرشید نے ریاض پر قبضہ کرلیا اور نجد کی حکومت اپنے ھاتھوں میں لے لی،اور عبد الرحمن اپنے اہل خانہ کے ساتھ جن میں اس کا جوان بیٹا عبد العزیز الرشید بھی تھا کویت کی طرف روانہ ہوئے، لیکن محمد الصباح شیخ کویت نے ان کو کویت میں داخل ہونے سے روک دیا، مجبوراً عبد الرحمن نے نجد کے دیھاتی علاقہ (الرّبع الخالی) کا رخ کیا اور پہلے بنی مُرّہ پھر قبیلہ عجمان (جو اپنے کو ایرانی الاصل مانتے تھے) کے یہاں قیام کیا اور اس کے بعد قطر کی طرف حرکت کی اور دومھینہ وھیں قیام کیا۔
سلطان عبد الحمید (عثمانی سلطان)نے عبد الرحمن سے دوستی کا ارادہ کرلیا، اس نے ہر مھینہ سونے کے ساٹھ لیرے عبد الرحمن کے لئے معین کئے اور پھر امیر کویت نے اس کو پناہ دیدی، اور عبد الرحمن قطر سے کویت پہونچ گئے، اوروھیں پر رہے یہاں تک کہ اس کے بیٹے عبد العزیز (جیسا کہ بعد میں شرح دی جائے گی) نے سر زمین نجد کو اس افرا تفری کے ماحول سے نجات دی اورعربی سعودی حکومت تشکیل دی۔
صلاح الدین مختار صاحب، امین ریحانی سے نقل کرتے ہیں کہ حاکم احساء نے سلطان عثمانی کی طرف سے ڈاکٹر زخور عازار لبنانی کے ذریعہ عبد الرحمن کو پیغام بھیجا کہ اگر تم سلطان کی اطاعت کا اعلان کرو تو تمھیں ریاض کی حکومت مل جائے گی، لیکن عبد الرحمن نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے عذر خواہی کی۔
عبد العزیز بن عبد الرحمن معروف بہ ابن سعود
جس وقت عبد العزیز اوراس کے باپ عبد الرحمن کویت میں رہتے تھے، انگلینڈ کی حکومت نے عرب کے شیوخ کی خوشنودی کے لئے سلطان عثمانی سے بہت سخت مقابلہ اورجنگ کی۔
عبد الحمید دوم سلطان عثمانی، نے احساس کیا کہ شیخ کویت انگلینڈ کی طرف مائل ہے، یہ دیکھتے ہوئے اس نے عبد العزیز الرشید امیر شمّر کی مدد کے لئے ھاتھ بڑھایا جو شیخ کویت کا دشمن تھا، اور عبد العزیز الرشید کو خبر دی کہ اگر وہ کویت کو اپنے علاقوں میں ملحق کرنا چاہتے ہیں تو اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ سن کر عبد العزیز الرشید بہت خوشحال ہوئے، کیونکہ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر اس بندرگاہ کو بھی اپنے علاقوں میں شامل کرلے گا تو حکومت آل رشید مستحکم اور مضبوط ہوجائے گی، اور اسی چیز کے پیش نظر۱۹۰۰ء(۱۳۱۷ھ) میں شَمّر کے جنگجووں کے ساتھ کویت پر حملہ کے لئے تیار ہوگیا۔
امیر کویت چونکہ اس سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا تھا لیکن اس کے پاس مال ودولت بہت تھی اسی وجہ سے عشایر عَجمان، ضُفَیر اورمنتفق کو اپنے ساتھ میں لے لیا اور آل سعود سے بھی نصرت اور مدد چاہی اور ان کو وعدہ دیا کہ ریاض کی حکومت ان کو واپس کردیگا، ادہر عبد العزیز بن عبد الرحمن کو بھی اپنے ارادے سے آگاہ کیا، آخر کار شیخ مبارک بن الصباح امیر کویت اور عبد الرحمن آل سعود اور اسکے بیٹے عبد العزیز نے میٹنگ اور آپس میں صلاح ومشورہ کیا، جس میں یہ طے پایا کہ ابن الرشید کا خاتمہ کردیا جائے۔
۱۳۱۸ھ میں طرفین میں سخت جنگ ہوئی، اور امیر کویت کو بہت بری ھار کا منھ دیکھنا پڑا، اور ابن الرشید نے کویت کے دروازہ تک حملہ کیا لیکن اچانک اس کو پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ دریائی راستہ سے انگلینڈ کی سپاہ اس کے راستہ میں آگئی، چنانچہ انگلینڈ کی فوج کے سردار نے اس سے نصیحت کے طور پر کہا کہ پلٹ جانے میں ہی تمھاری بھلائی ہے، اوراگرتم نے اس کے علاوہ کوئی قدم اٹھایا تو ہم تمھیں اپنی بڑی بڑی اورپر قدرت توپوں کے ذریعہ نیست ونابود کردیں گے، اورتمھارے تمام ساتھیوں کو ھلاک کردیں گے، ابن الرشید نے عثمانی حکومت سے مدد طلب کی، لیکن ادہر استامبول اور لندن میں پہلے سے عہدوپیمان ہوچکا تھااور لندن نے عثمانی حکومت کو ابن الرشید کی مدد نہ کرنے پر قانع کردیا تھا۔
ان واقعات سے اصل فائدہ انگلینڈ نے اٹھایا اس نے اپنے لئے خلیج فارس میں ہندوستان کے راستہ میں اپنے رہنے کا ٹھکانہ بنالیا، اورشیخ کویت کو بھی حملوں کے خطرات سے امان مل گئی۔
عبدالرحمن اور اس کا بیٹا عبد العزیز کویت میں رہتے رہے اور عبد العزیز نے اس مدت میں علوم دینی کے درس میں شریک ہونا شروع کردیا۔
عبد العزیز کا ریاض پر قبضہ
جتنی مدت عبد العزیز کویت میں رہا ہمیشہ نجد مخصوصاً ریاض کی یاد میں رہا، اور چونکہ اس پر آل رشید کا قبضہ تھا، اسی وجہ سے وہ بہت پریشان رہتا تھا، اور ہمیشہ اس پریشانی کے بارے میں غور وفکر کرتا رہتا تھا، آخر کار اپنے باپ اور شیخ کویت سے گفتگو کرکے اس نتیجہ پر پہونچا کہ وہ ریاض پر حملہ کردے، چنانچہ جب اس کی عمر اکیس سال کی ہوئی تو اس نے۱۳۱۹ھ میں ایک تاریک رات میں اپنے کچھ وفادار ساتھیوں منجملہ اپنے بھائی امیر محمد اور پھوپھی کے لڑکے امیر عبد اللہ کے ساتھ ریاض پر حملہ کردیا۔ چند شجاعانہ حملے کرکے شوال۱۳۱۹ھ میں ریاض پر قبضہ کرلیا (ان تمام شجاعانہ حملوں کا تذکرہ وہابی کتابوں میں موجود ہے) اسی فتح کے دن ریاض کے موذنوں نے نماز ظھر کے وقت ریاض میں یہ اعلان کیا کہ حکم اور فرمان پہلے درجہ میں خداوندعالم کے لئے اورپھر عبد العزیز بن عبد الرحمن کے لئے ہے۔
عبد العزیز نے ریاض پر قبضہ کے بعد آل رشید کی حکومت کے خاتمہ کی ٹھان لی، اور۱۳۲۰ھ میں نجد کے جنوبی علاقہ پرقبضہ کرلیا اسی طرح۱۳۲۱ھ میں سَدیر، وَشم اور قَصِیم پر بھی قبضہ کرلیا، عبد العزیز اور آل رشید کے درمیان حملہ ہورہے تھے، عثمانی حکومت، آل رشید کی طرفداری میں کچھ نہ کچھ مداخلت کرتی رہتی تھی، اس کے بعد ۱۳۲۴ ھ میں عثمانی تُرک، نجد سے نکل گئے، اور اسی سال ابن مُتعب امیر آل رشید بھی قتل کردیا گیا، اورعبد العزیز، آل رشید کی طرف سے کافی حد تک آسودہ خاطر ہوگیا۔
۱۳۲۸ھ میں عبد العزیز معروف بہ ابن سعود کا تین طرف سے مقابلہ تھا:
۱۔ آل رشید سے۔
۲۔ اس کے چچازاد بھائی سے جو نجد کے جنوب میں مخالفت کے لئے قیام کر چکا تھا۔
۳۔ شریف مکہ شریف حسین سے۔
ہوا ہے، عبد العزیز کی کامیابی کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ ریاض میں اس کے بہت سے چاہنے والے موجود تھے۔
عبد العزیز نے پہلے دو دشمنوں کے ساتھ تلوار سے فیصلہ کیا لیکن تیسرے دشمن کے مقابلہ میں سیاست سے کام لیا، اور اس کا یہ پہلا ٹکراو تھا جو ابن سعود اور شریف حسین کے درمیان ہوا۔
۱۳۳۰ھ میں عثمانی حکومت کمزور ہونے لگی کیونکہ بڑی بڑی حکومتوں کی طرف سے اس کا محاصرہ ہوچکا اور اس کو دشمن کی فوج سے منھ کی کہانی پڑی، اور ”بالکن“ کی جنگ کی وجہ سے دوری اختیار کرنی پڑی، ادہر عبد العزیز بن سعود نے اس فرصت کو غنیمت جانا اور احساء پر حملہ کردیا اور یہ علاقہ چونکہ عثمانی حکومت کے زیر اثر تھا اس کو ان کے پنجے سے نجات دلائی، اوراپنی حکومت کا دائرہ خلیج فارس کے کناروں تک وسیع کر لیا، اورانگلینڈ سے سیاسی تعلقات بنالئے، اور یہ تعلقات ہمیشہ مستحکم اور مضبوط ہوتے رہے۔
پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد
۱۹۱۴ء (مطابق با ۱۳۳۳ھ) میں عالمی جنگ شروع ہوگئی، عثمانی حکومت جرمن کے ساتھ ہوگئی، اور ابن سعود نے چاہا کہ اس فرصت سے فائدہ اٹھائے اور عرب دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کرے، چنانچہ اس سلسلہ میں اس نے عرب کے تمام شیوخ اور حاکموں کو خط لکھے لیکن کسی نے بھی نے اس کی پیشکش پر توجہ نہ کی، چنانچہ ابن الرشید نے اپنے کو عثمانی حکومت کی پناہ میں رکھا اور ابن سعود نے انگلینڈ سے دوستی کو ترجیح دی۔
۱۹۱۵ء (مطابق ۱۳۳۴ھ) میں قَطِیف میں انگلینڈ کے ساتھ معاہدہ ہوا جس میں یہ طے پایا تھا کہ وہ (ابن سعود) کسی بھی حکومت سے رابطہ بر قرار نھیںکرسکتا، اور اس بات کو حافظ وھبہ(جو سعودی سیاستمداروں اور وہاں کے صاحب نظر لوگوں میں سے ہیں) نے بھی لکھاہے، اسی وجہ سے ابن سعود کے اس وقت کے مشاورین کو بھی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کی کوئی خبر نہیں تھی اور اس بہترین فرصت سے استفادہ کرنے کی بھی ان میں صلاحیت نہ تھی۔
بھر حال اس غلطی کا تدارک اور جبران جدّہ معاہدہ مورخہ۱۹۲۷ء کی وجہ سے ہوگیا جس کی بدولت ابن سعود کو دوسری حکومتوں سے رابطہ برقرار کرنے یا کسی بھی حکومت کے ساتھ پیمان اتحاد کرنے کا حق حاصل ہوگیا تھا، چنانچہ اسی حق کی بدولت ابن سعود ”حائل“ پر مسلط ہوگیا اور اپنے سب سے بڑے نجدی دشمن یعنی ابن الرشید صفایاکر دیا۔
ابن سعود اور شریف حسین
ابن سعود نے آہستہ آہستہ سر زمین نجد کے تمام علاقوں میں نفوذ میں کرلیا، اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن ابن الرشید کو بھی نابود کردیا، اور ان قبیلوں کو بھی پسپا کردیا جو کسی بھی حال میں امن وامان برقرار ہونے نہیں دیتے تھے، یہاں تک کہ قبیلہ عجمان کو بھی مغلوب کرلیا جو نجد کا بہت شجاع اور دلیر قبیلہ تھا اور اب چونکہ اس کو نجد کی داخلی پریشانیوں کا سامنا نہیں تھا لہٰذا اس نے منصوبہ بنالیا کہ اپنی حکومت میں توسیع کرے اور حجاز کو بھی اپنے ماتحت کرلے، اور حرمین شریفین (مکہ ومدینہ) کو بھی اپنی حکومت سے ملحق کرلے۔
اس زمانہ میں اور دوسری وجوہات بھی تھیں جن کے سبب ابن سعودکو پیشرفت اور ترقی ہوئی، ان میں سے ایک ”جمعیة الاخوان“ نامی انجمن کی تشکیل تھی، جو دل وجان سے اس کی مدد کرتی تھی اور اس کے ہدف اور مقصد کے تحت اپنی جان کی بازی لگاکر کچھ بھی کرنے کے لئے تیار تھی (اگرچہ کبھی کبھی اس کے لئے بعض مشکلات بھی پیدا کردیتی تھی جن کی تفصیل اخوان سے مربوط بحث میں بیان کی جائے گی) لیکن ابن سعود کے مقابلہ میں حجاز پر قبضہ کرنے کے لئے شریف حسین جیسا طاقتور اور بھادر انسان موجود تھا جس کے ہوتے ہوئے حجاز اور حرمین شریفین پر قبضہ کرنا بہت مشکل کام تھا۔
ہاں پر ابن سعود کااور شریف حسین میں مقابلے کی تفصیل بیان کرنے سے شرفائے مکہ مخصوصاً شریف حسین کے بارے میں مختصر طور پر تفصیل بیان کرنا مناسب ہے۔
شرفائے مکہ
مکہ معظمہ کے والیوں کو چوتھی صدی ہجری سے شریف کا لقب دیا جانے لگا، جبکہ اس سے پہلے ان کو صرف والی کہا جاتا تھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے سب سے پہلے والی جو مکہ معظمہ کے لئے معین ہوئے وہ ”عَتّاب بن اَسِید“ تھے جو سپاہ اسلام کے ذریعہ فتح مکہ کے بعد آٹھویں ہجری میں مکہ کے والی بنائے گئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد سے چوتھی صدی ہجری کے وسط تک مکہ کے والیوں کو خلفاء معین کیا کرتے تھے، (اس مدت میں خلفاء کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس مقدس شھر کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے تو اس وقت کی وضعیت کچھ اورہوتی تھی) تقریباً۳۸۵ھ میں مصر کے مقتدر (طاقتور) والی ”اَخْشِیْدِی“ جو خلفائے عباسی کی طرف سے تھا، اس کے انتقال کے بعد سے اور خلفاء فاطمی کے مصر پر قبضے سے پہلے سادات حسنی میں سے ایک شخص بنام ”جعفر بن محمد بن الحسن (از اولاد حسن مثنّیٰ) نے مکہ پر غلبہ حاصل کیا اور ”المعزّ لدین اللہ فاطمی“ کے مصر پر قبضے کے بعد جعفر نے اس کے نام کا خطبہ دیا
جعفر کے بعد ان کا بیٹا ان کا جانشین ہوا، اور اس کے بعد سے مکہ کی ولایت سادات آل ابی طالب سے مخصوص تھی جو اشراف یا شرفائے مکہ کے نام سے مشہور تھے۔
مکہ کے شرفاء چار طبقوں میں تقسیم ہوتے تھے تین طبقوں نے۳۵۸ھ سے ۵۹۸ھ تک مکہ شھر پرفرمانروائی کی اور چوتھے طبقے نے جو ” آل قَتادہ “کے نام سے مشہور تھا۵۹۸ھ سے ۱۳۴۴ھ تک ولایت کی ،اس سلسلہ کے آخری شریف، شریف حسین کو ابن سعود نے حجاز سے باہر نکال دیا اور خود مکہ کا والی بن بیٹھا۔
۹۲۲ھ میں جس وقت سلطان سلیم عثمانی نے مصر کو فتح کرلیا تو شریف مکہ نے اس کی اطاعت کرلی اور جب تک عثمانیوں میں طاقت اور قدرت رہی شرفائے مکہ ان کی اطاعت کرتے رہے لیکن جس وقت سے عثمانیوں کا زوال شروع ہوا، خود کو سلطان کا خادم ظاہر کرنے والے حجاز کے علاقوں میں اپنا سكّہ جمانے کی کوشش میں لگ گئے۔
شرفائے مکہ کی تاریخ میں ہمیشہ جنگیں اور لڑائی وغیرہ ہوتی رہی ہیں جن کی تفصیل تاریخی کتب میں موجود ہے، چنانچہ دوستوں اور دشمنوں کے قلم اس سلسلہ میں مختلف چیزیں بیان کرتے ہیں ۔
شریف حسین
شریف حسین، مکہ کے شریف خاندان کی آخری کڑی تھے جن کی پیدائش اسلامبول میں ۱۲۷۰ھ میں ہوئی، اور جس وقت ان کے والد (شریف علی) مکہ کے والی منتخب ہوئے یہ بھی اپنے باپ کے ساتھ مکہ پہونچ گئے،۱۲۹۹ھ میں ان کے چچا شرف عون
مکہ کے والی بنے تو شریف عون کی درخواست (عثمانی حکومت) کے مطابق شریف حسین کو اسلامبول بلوالیا گیا، موصوف اسلامبول میں رہے یہاں تک کہ۱۹۰۸ء میں ان کو مکہ کا والی بناکر بھیج دیا گیا، حسین کی ذمہ داری عرب ممالک میں ماحول کو سازگار کرنے کی تھی اور امن وامان قائم کرنے اور اس علاقہ میں عثمانیوں کے نفوذ کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنے کی تھی۔
سابق شرفاء خود کو لوگوں سے الگ رکھتے تھے اور لوگوں سے تکبر اور جبروتی سلوک کرتے تھے، لیکن شریف حسین ان کے برخلاف ایک متواضع اور عادل انسان تھے وہ مکہ کے لوگوں کوبھت چاہتے تھے اور ان کے فائدوں کی خاطر دفاع کرتے تھے اسی طرح بلند ہمت اورپاک دامنی کے مالک تھے۔
عثمانیوں اور انقلاب حجاز سے شریف حسین کی مخالفت
عثمانی ترکوں نے دسویں صدی ہجری (سلطان سلیم کے زمانہ) سے عرب کی سر زمین پر اپنے نفوذ میں اضافہ کیا اور عرب کے اہم علاقے یا بعض امور میں عرب کے تمام علاقے عثمانی حکومت کے ما تحت تھے لیکن عربوں نے عثمانی حکومت کے برخلاف ہمیشہ آواز اٹھائی اور قیام کرتے رہے، اور مختلف علاقوں جیسے عَسِیر، نجد اور سوریہ سے علم مخالفت بلند ہوتے رہے۔
حافظ وھبہ صاحب کہتے ہیں کہ اس حقیقت کاانکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ عثمانی افراد جنگجو اور فاتح تھے، لیکن اہل علم و ثقافت نہیں تھے بلکہ ہمیشہ جنگ وجدال اور ویران گری کرتے تھے، جس کی بنا پر ترک اور عرب علاقے جو ایک طولانی مدت تک ان کے زیر اثر رہے وہ پسماندگی کے عالم میں رہےبلکہ تنزّل ہی کرتے رہے، یھی وجہ تھی کہ عرب اور ترک کے آزادی خواہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوگئے اور مخفی طور پر کمیٹیاں بنانے لگے، اور آشوب برپا کرنے لگے، یہاں تک کہ سلطان عبد الحمید (سلطان عثمانی) کی حکومت ختم ہوگئی اور عثمانی حکومت کی طرف سے قانونی حکومت کا اعلان ہو گیا۔
عرب کے جوانوں کو یہ امید تھی کہ ہماری اس سر زمین میں قوانین کی وجہ سے کچھ اصلاحات انجام پائیں گی، لیکن ان کی امید کے برخلاف عثمانیوں نے اپنا رویہ ذرہ برابر بھی نہیں بدلا، اور گذشتہ زمانہ کی طرح عثمانی حكّام ،حاکم اور عرب محکوم رہے ،انھیں ان تمام وجوہات کی بناپر عربوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کی سوچی، اور مخفی کمیٹیوں کے علاوہ سیاسی پارٹیاں بھی بنائیں جن میں سے چند ایک اہم پارٹیاں اس طرح ہیں:
”جمعیت قَحطانی“ جو۱۹۰۹ء میں اسلامبول میں تشکیل پائی۔
”جمعیت عہد“ جوجمعیت قحطانی کا ایک حصہ تھی۱۹۱۳ء میں تشکیل پائی۔
”جمعیت لامر کزیہ“ جو۱۹۱۲ء میں مصرمیں سید رشید رضا اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ وجود میں آئی۔
چنانچہ آہستہ آہستہ ان جمعیتوں کے شعبہ جات دوسرے عربی شھروں میں بھی کھلنے لگے، مثلاً بغداد، دمشق، حلب، حمص، حماة اور بیروت وغیرہ میں ۔
۱۹۱۲ھ اور۱۹۱۳ھ میں عربی اور عثمانی اخباروں میں شدید مقابلہ بازی شروع ہوگئی، بعض عثمانی مقالہ نگار اپنے مقالوں میں عربوں پر طعنہ کرتے تھے اور ان میں سے کچھ لوگوں پر جو اصلاحات کا دم بھرتے تھے اتھام اور تہم ت لگاتے تھے کہ تم لوگ تو غیروں کے قبضے میں ہو، اور ایسی جماعتوں انگریز ادارہ کررہے ہیں۔
ادہر عربی طالب علم پیرِس میں ایک انجمن بنانے کی فکر میں پڑگئے، اسی طرح مصر کی ”لامرکزی جمعیت“ کو پیشکش کی کہ عربوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئے، چنانچہ اس جمعیت کی شورائے عالی نے ان کی اس پیش کش کو قبول کرلیا، اور اپنی طرف سے کچھ نمائندے بھی پیرِس بھیج دیئے اور۱۹۱۳ء میں پیرِس کی جمعیت جغرافیائی کے بڑے ھال میں طلباء کی انجمن تشکیل پائی۔
ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے عثمانیوں نے مزید شدت عمل اختیار کرلی اور بیروت میں بعض اصلاح طلب افراد کو گرفتار کرلیا، لیکن عوام کی طرف سے عکس العمل یہ ہوا کہ بازاز بند ہوگئے، چنانچہ عثمانیوں نے سوچا کہ کسی دوسرے راستہ کو اپنایا جائے اور وہ یہ کہ عربوں کے ساتھ ظاہری طور پر صلح ودوستی کی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ دوسری تدبیریں بھی کی جائیں، اور ان کا یہ حیلہ کارگر بھی ثابت ہوا، اوروہ یہ کہ خود اصلاح طلب لوگوں میں اختلاف ہوگیا، مذکورہ تدبیر یہ تھی کہ ان میں سے بعض لوگوں کو بلند مقام دیا جائے مثلاً سید عبد الحمید زہراوی جو پیرس انجمن کے صدر تھے ان کو مجلس اعیان کا ممبر بنادیا گیا اور دوسرے چند اصلاح طلب جوانوں کو اہم کاموں میں مشغول کردیا گیا۔
ہ دیکھ کر عرب کے جوانوں میں ان کی نسبت غصہ بھڑک اٹھا اور انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ انھوں نے امانت میں خیانت کی ہے (جس کی وجہ سے ان لوگوں کو یہ بڑے بڑے عہدے مل گئے) جبکہ ہم لوگوںکو ان پر اعتماد تھا۔
ان تمام واقعات کو کچھ ہی دیر گذری تھی کہ عالمی جنگ شروع ہوگئی،
اور جیسا کہ ہم بعد میں بیان کریں گے عثمانی حکومت کی حالت بدل گئی۔
انقلاب کی ابتدا اور خلافت شریف حسین کی داستان
عثمانی حکومت کے عہدہ داروں کے درمیان یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ شریف حسین مخفی طور پر کچھ خاص کام انجام دے رہے ہیں اور اپنے کو ترکوں سے الگ کرنا چاہتے ہیں، اور ان کے لڑکوںنے مصر سے گذرتے وقت ”بالُرد كِیچنر“ (انگلینڈ کا مشہور ومعروف سیاستمدار) سے گفتگو کیھے تاکہ ان کی اس سلسلے میں مدد کرے، اور اسی طرح یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ شریف حسین کا ارادہ صرف ترکوں سے جدا ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس کی کوشش عثمانیوں سے حکومت بھی چھین لےنے کی ہے۔
عثمانیوں نے اس احتمالی خطرے سے نپٹنے کے لئے اپنے ایک شخص ”وُھیب بک“ کو حجاز کا والی بناکر بھیجا تاکہ وہ جاکر اس مہم کو ختم کردے۔
شریف کے خلاف جو منصوبے بنائے جاتے تھے وہ ان سب سے آگاہ ہوجا تے تھے اور اپنی دور اندیشی سے وہ ان کے جال سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے تھے، اس موقع پر عثمانی حکومت انگلینڈ اور فرانس کی ضدمیں جرمنی کے ساتھ متحد ہوگئی، اوران دونوں ملکوں سے اعلان جنگ کردیا تھا، ادہر انگلینڈ کی حکومت نے شریف حسین سے (لرد کیچنرکے ذریعہ) ہوئی گفتگو کو آگے بڑھایا اور دونوں نے آپس میں اپنا ایک پروگرام بنالیا۔
اس کے بعد برٹین کے حکومتی افراد اور شریف حسین کے درمیان خط وکتابت ہونے لگی، چنانچہ ان خطوط کی عبارت کتاب جزیرة العرب فی القرن العشرین اور ۲کتاب الثورة العربیة الکبریٰ میں موجود ہے۔(۳)
ان خطوں میں سے ایک خط جس پر ”سر آرٹرماکماہون“ کے دستخط ہیں اس طرح وضاحت کی گئی ہے کہ انگلینڈ عربی ممالک کا استقلال چاہتا ہے اور جب خلافت کا مسئلہ بیان ہوگا تو وہ اس کو پاس کردیگا، اسی طرح ماکماہون ایک دوسرے خط میں لکھتا ہے کہ ہم ایک بار پھر اس بات کو واضح طور پر کہتے ہیں کہ بادشاہ کبیر برٹین اس بات پر راغب ہیں اور خوش آمد کہتے ہیں کہ خلافت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نسبت رکھنے والے عرب کے ایک حقیقی شخص کوھی ملنی چاہئے۔
مختلف وجوہات کی بناپر شریف حسین نے عثمانیوں کی مخالفت شروع کردی، ان میں سب سے اہم انگریزوں کا وہ وعدہ تھا جس میں مدد کا عہد وپیمان کیا گیا تھا۔
اس سلسلہ میں ”کولو نل لُورَنس“ نامی انگریز
کی کوششوں کو بھی مد نظر رکھا جائے جو مدتوں سے حجاز میں رہا اور کافی عرصے سے جزیرہ نما عربستان میں عربی لباس پہن کر گھوما کرتا تھااور حجاز کے انقلاب کے وقت یعنی۱۳۳۴ھ میں شریف حسین اور اس کے دوستوں نے ”لورنس“ جو انگلینڈ کے ٹیلیفون آفس میں کام کرتا تھا، اس سے درخواست کی کہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں ہورہی جنگ کی مکمل طریقہ پر رپورٹ پیش کرے اور دونوں طرف سے میدان جنگ کی ضرورتوں کو بیان کرے تاکہ ضروری سامان بھیجا جاسکے، لورنس (مدینہ میں ) فیصل اور شریف حسین کے بیٹے علی سے ملحق ہوگیا، اور سپاہ کی مدد کرنے لگا، اور اپنے مشاہدات اور جستجو کے نتائج کو بہت جلد بھیج دیتا تھا، یھی نہیں بلکہ انگلینڈ کی مدد بھی یکے بعد دیگرے پہونچتی رہی، چنانچہ شریف حسین کی مدد کے لئے چار ہوائی جھاز بھیجے گئے۔
بھر حال پہلے مدینہ اور پھر مکہ میں شریف حسین اور عثمانی سپاہیوں میں جنگ کا آغاز ہوا، اس وقت مدینہ میں عثمانی لشکر کا سردار عثمانی حکومت کانامور شخص فخری پاشا تھا۔
ہ لشکر عثمانی حکومت کی طرف سے مضبوط اور طاقتورہوتا رہا، شریف بھی اپنی طاقت کو جمع کرنے میں مشغول رہا اور قرب وجوار کے روسا سے مدد طلب کرتا رہا اور شریف کے بیٹوں نے بھی اپنے باپ کی ہر ممکن مدد کی چاہے وہ سیاسی ہو یا کسی دوسرے طریقہ سے۔
لڑائی کا آغاز(۹)جنوری۱۹۱۶ء کو مدینہ میں شروع ہوا، فخری پاشا نے شریف کے لشکر کو شکست دیدی، اس کے بعد بھی مقابلہ ہوتا رہا، اور چونکہ فخری پاشا بہت قدرتمند تھا شریف نے مجبوراً انگلینڈ سے مدد مانگی، چار مھینے کی لگاتار گفتگو کے بعد مصر اورانگلینڈ کے کچھ سپاہی اس کی مدد کے لئے پہونچے جبکہ شریف کی امید یں اس سے کہیں زیادہ تھیںاور یھیں سے انگلینڈ کی بنسبت شریف حسین کی مایوسی شروع ہوگئی۔
شریف نے طاقت اور قوت کو جمع کرنے کی بہت کوشش کی، ادہر عالمی جنگ بھی ختم ہونے والی تھی اور اس جنگ کے خاتمہ پر عثمانی حکومت کا بھی خاتمہ ہوجانا تھا۔
ادہر عالمی جنگ ختم ہوئی، ادہر شریف حسین نے مدینہ میں فخری پاشا کو گھیر لیا (کیونکہ عالمی جنگ کے آخر میں عثمانی حکومت اس حالت میں پہونچ گئی تھی کہ فخری پاشا کی مدد نہیں کرسکتی تھی) چنانچہ اسی مدت میں ترک فوج کو حجاز سے واپس بلالیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شریف حسین نے بغیر کسی زحمت اور مشکل کے حجاز پر اپنا سكّہ جمالیا۔
قاضی القضاة اور مجلس شیوخ کے صدر کا تقرر
۷ ذی الحجہ ۱۳۳۴ھ میں شریف حسین کی طرف سے دو حکم جاری کئے گئے جن کی وجہ سے لوگوں نے اس کی حکومت کو مستقل ہونے کا پیش خیمہ تصور کیا اس وقت یہ تصور کیا جارہا تھا کہ(۸)یا ۱۱ذی الحجہ کو جب اس کی خدمت میں مبارک باد پیش کرنے جائیں گے تو وہ لوگوں سے اپنی خلافت کے بارے میں بیعت لے گا۔
ان دو فرمان کی عبارت سید رشید رضا (مدیر مجلہ المنار) کے سفر نامہ میں موجود ہے : شریف حسین نے اپنے پہلے فرمان میں شیخ عبد اللہ سراج (مفتی حنفی) کو قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز کیا اوراس کو وکیل الوکلاء بھی بنایا (شریف حسین کا بیٹا امیر علی رئیس الوزراء تھا یعنی عبد اللہ سراج کو نائب رئیس الوزراء بنایا) اور اسی فرمان میں امیر عبد اللہ (شریف حسین کا دوسرا بیٹا) کو وزیر خارجہ اور نائب وزیر داخلہ معین کیا، اور عبد العزیز بن علی کو وزیر دفاع بنایا، شیخ علی مالکی کو معارف کا وزیربنایا اسی طرح شیخ یوسف بن سالم (سابق شھردار) کو وزیر منافع عمومی بنایا نیز شیخ محمد بن امین (حرم شریف کے سابق مدیر) کو اوقاف کی وزارت دی۔
گویا شریف حسین نے اپنے اس فرمان میں وزیروں کی کابینہ بنالی۔
شریف حسین نے دوسرے فرمان میں جو شیخ عبد اللہ سے خطاب تھا شیخ محمد صالح شَیبی(خانہ کعبہ کے کلید دار)کو تقریباً پارلیمنٹ جیسی مجلس تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے ان کو اس کا صدر بنایا۔
سید رشید رضا صاحب جن سے یہ بات نقل ہوئی ہے ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے شریف حسین کی حکومت کے مستقل ہونے میں بہت کوشش کی ہے، اور اس سلسلہ میں خود شریف کے سامنے ایک زبردست تقریر بھی کی، ان تمام چیزوں کے باوجود شریف حسین نے حکومت اور خلافت کے لئے اعلان نہیں کیا اور لوگوں نے دیکھا کہ خطیب جمعہ نے حسب معمول سلطان عثمانی کے لئے دعا کرائی۔
شریف حسین کی حکومت نے چند سال کے بعد کافی حد تک استحکام پیدا کرلیالیکن جیسا کہ بعد میں تفصیل سے بیان ہوگا زیادہ دنوں تک نہ چل سکی۔
عثمانی بادشاہوں کی داستان خلافت
عصر حاضر کے بعض مولفین نے یورپی مولفین سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب عثمانی سلطان سلیم کے ھاتھوں مصر فتح ہوا تو۹۲۲ء میں مصر کے عباسی خلیفہ نے خلافت کو محمد المتوکل علی اللہ کے سپرد کردیا اورخلافت کی باگ ڈور اس کے حوالے کردی۔
لیکن اس زمانہ کی لکھی گئی تاریخ مصر وشام اور ان لوگوں کی کتابوں سے جو ان واقعات کے شاہد تھے مذکورہ بات کی تصدیق نہیں ہوتی، مثلاً ابن ایاس مصر میں اور ابن طولون شام میں تھے اور ہر روز اپنی آنکھوں دیکھے واقعات یا مورد اعتماد لوگوں سے سنے واقعات کولکھتے رہتے تھے،چنانچہ ان لوگوں نے ان باتوںکو نہیں بیان کیا، اور عباسی خلیفہ سے سلطان سلیم پر حکومت کو منتقل ہونے کے بارے میں نہیں لکھا ہے، بلکہ ابن ایاس کی تحریر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سلطان سلیم قبل اس کے کہ مصر کو فتح کرے اپنے کو خلیفہ تصور کرتا تھا (لیکن اس کے القاب میں خلافت کا ذکر نہیں ہوتا تھا اور خطبوں میں اس کا نام خلیفہ کے عنوان سے نہیں لیاجاتا تھا)۔
سلطان سلیم نے، امیر طومان بائی مصر کے حاکم کے نام ایک خط میں اس طرح لکھا :
”مصر کا خراج (مالیات اور ٹیکس) جس طرح بغداد کے خلفاء کے پاس بھیجا جاتا تھا وہ میرے پاس بھیجا جائے کیونکہ میں روئے زمین پر خدا کا خلیفہ ہوں، اور میں حرمین شریفین کی خدمت کرنے میں تجھ سے بھتر ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں خلافت کو کھیل بنا رکھا تھا وہ اس طرح کہ سلطان سلیم اپنے کو مصر کے خلیفہ عباسی کا جانشین ہونے میں کوئی فخر اور عظمت نہیں سمجھ رہا تھا، اسی طرح بغداد میں خلافت عباسی کے ختم ہوجانے کے چند سال بعد ایک شخص نے یہ دعویٰ کیا :
میں خلفائے عباسی کی اولاد میں ہوں، اس وقت کے مصر پر حکومت کرنے والے بادشاہوں کا لوگوں میں کوئی معنوی اثر نہ تھا تو انھوں نے اس شخص کو پاکر یہ طے کیا کہ مصر میں خلافت عباسی تشکیل دی جائے چنانچہ اس شخص کو خلیفہ عباسی کے عنوان سے خلیفہ بنادیاگیا۔ جس کے نتیجہ میں ایک طرح کی خلافت عباسی مصر میں وجود میں آگئی جو کئی صدی تک جاری رہی، جبکہ یہ خلافت اس وقت کے بادشاہوں کے کھیل کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
اور جس وقت سلطان سلیم نے۹۲۲ء میں مصر اور شام پر حملہ کیا تو خلیفہ محمد المتوکل علی اللہ سلطان سلیم کے سامنے تسلیم ہوگیا اورسلطان سلیم نے اس کومع ساتھیوں کے اسلامبول روانہ کردیا، چنانچہ وہ چند سال تک وہاں رہا شروع میں تواس پر سلطان کا لطف وکرم ہوتا رہا، لیکن بعد میں اس سے دستبردار ہوگیا۔
سلطان نے اس سے خلافت چاہی ہو، یہ بات معتبر مدارک اور کتابوں میں نہیں ملتی (البتہ جہاں تک مولف کی نظر ہے)۔
اگرچہ عصرحاضر کے بعض مولفین کی کتابوں میں یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے، منجملہ محمد کردعلی کی کتاب خطط الشام میں ” نامق کمال“ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ عباسی نے جامع ”ایاصوفیہ“ (اسلامبول) میں سب کے سامنے واضح طور پر خلافت کو اپنے سے آل عثمان پر منتقل کردی ہے۔
ہ بات مسلم ہے کہ سلطان سلیم کواس کی آخری عمر تک (۹۲۶ھ) خلیفہ کا عنوان نہیں دیا جاتا تھا اور نہ ہی اس کا نام خطبوں میں خلیفہ کے عنوان سے ذکر ہوتا تھا، بلکہ محمد المتوکل علی اللہ خلیفہ تھا۔
قارئین کرام! اس سلسلہ میں ابن طولون۹۲۶ ھ کے بارے میں کہتا ہے:
”محرم کا چاند نمودار ہوا درحالیکہ محمد متوکل علی اللہ عباسی خلیفہ تھا۔
ہ بات طے ہے کہ اگر مصر یا اسلامبول میں خلافت کی تفویض عمل میں آتی تو اس تاریخ سے پہلے ہوتی ۔
سلطان سلیم کے چند صدی بعد یعنی بارہویں صدی ہجری سے اور سلطان عبد الحمید کے زمانہ سے عثمانی سلاطین بعض وجوہات کی بنا پر اپنے کو خلیفہ، امام المومنین وغیرہ جیسے القابوںسے نوازنے لگے،
اور ان کے خاتمہ تک یہ القاب کم وبیش ان کے لئے استعمال ہوتے رہے، لیکن عرب ان کو خلافت کا غاصب کہتے رہے ۔
خلافت کی امانتیں اور دوسرے آثار جو ”توپ قاپی“ میوزیم میں موجود ہیں
دوسری مشہور بات یہ ہے کہ مصر کے عباسی خلیفہ نے خلافت کی امانتیں اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کچھ چیزیں (یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب چیزیں) سلطان سلیم کے سپرد کردیں یا سلطان سلیم نے اس سے لے لیں، مذکورہ چیزوں کے بارے میں یہ وضاحت کردینا ضروری ہے کہ شام میں خلافت بنی امیہ اور بغداد میں بنی العباس اور مصر میں خلافت عباسی کے تمام خلفاء اس بات کا دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفاء اربعہ سے متعلق کچھ چیزیں ان کے پاس ہیں ،اور اس وقت خلافت کی یھی پہچان تھی جو شخص بھی خلیفہ بنے یہ مذکورہ چیزیں اس کے پاس ہونی چاہئیں۔
مولف کی نظر میں سب سے پہلی دلیل مسعودی کی وہ تحریر ہے جس میں بنی امیہ سے بنی عباس کی طرف خلافت جانے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ جب مروان (بنی امیہ کا آخری خلیفہ) قتل ہوا، عامر بن اسماعیل جو مروان کا قاتل تھا، وہاں پہونچا جہاں مروان کی لڑکیاں اور عورتیں تھیں کیا دیکھا کہ وہاں پر ایک خادم تلوار لئے کھڑا ہے۔
اسماعیل کے ساتھیوں نے اس (خادم) کو گرفتار کرلیا، اور جب اس سے اس بات کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ مجھے مروان نے حکم دے رکھا ہے کہ اگرکبھی میرا قتل ہوجائے تو اس کی بیویوں اور لڑکیوں کو قتل کردوں، اس کے بعد اس خادم نے کہا کہ اگر تم مجھے قتل کردو گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث سے محروم ہوجاؤ گے، اس کے بعدوہ خادم ان کو ایک جگہ لے کر آیا اوروہاں سے مٹی (ریت) ہٹا کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ”بُردَہ“
(ایک خط دار عبا) اور عصا نکالا جس کو مروان نے دفن کر رکھا تھا،
عامر بن اسماعیل نے ان کو عبد اللہ بن علی کے سپرد کیا اوراس نے سفاح کو دیدیا۔
ان کے علاوہ کچھ دوسری چیزیں بھی تھیں جن کو عباسی خلفاء محفوظ رکھتے تھے منجملہ پیغمبر اکرمکی ریش مبارک کے بال، عثمان کا قرآن ،جن کے بارے میں مصر کے خلفائے عباسی یہ ادعا کرتے تھے کہ یہ چیزیں مغلوں کے حملوں سے محفوظ ر ہیں، اور انھیں چیزوںاور دیگر قیمتی اشیاء کو سلطان سلیم مصر سے اسلامبول لے گیا یا ایک قول کے مطابق
المتوکل علی اللہ نے ”بُردہ“ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ریش مبارک کے چند بال اور عمر کی تلوار سلطان سلیم کو دئے،
اس سامان میں ایک شمشیر بھی تھی جس کو خلفاء حضرت رسول اللہ کی تلوار بتاتے تھے، چنانچہ اسی قول کے مطابق قاضی رشید بن الزبیر کہتے ہیں کہ خلیفة الراضی کے پاس مذکورہ سامان میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شمشیر بھی تھی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بعض منسوب چیزیں غیر خلفاء کے پاس بھی پائی گئی ہیں، منجملہ یہ کہ (ابن طولون کی تحریر کے مطابق)(۱۶)ربیع الآخر۹۲۱ھ میں چند لوگ بیت المقدس سے دمشق میں داخل ہوئے جن کے پاس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کچھ چیزیں تھی منجملہ ایک کاسہ آب، اور عصاء کا کچھ حصہ اور یہ دونوں چیزیں ٹوٹی ہوئی تھیں، اور ایک شخص ان کو اپنے سر پر رکھے ہوئے تھا، اور ان کے سامنے علم اٹھائے ہوئے تھے اور طبل بجارہے تھے، ملک الامراء، قضات، صوفی لوگ اور دوسرے لوگ ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، اور بہت سے لوگ ان چیزوں کو دیکھنے کے لئے جمع ہوجاتے تھے۔
میں (ابن طولون) نے ان چیزوں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ پانی کا ظرف اور عصا کا ایک حصہ ابن ابی اللطف کے باپ کے پاس تھے اور یہ چیزیں قلقشندی خاندان سے ان کے پاس پہونچی تھیں، چنانچہ ملک الامراء نے ان چیزوں کوبطور عاریہ مانگا تاکہ ان کے ذریعہ متبرک ہوسکے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب چیزیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نہیں تھی بلکہ لیث بن سعد کی تھیں۔
اسی طرح ابن ایاس کی تحریر کے مطابق جس وقت سلطان مصر ”حلب“ سے سلطان سلیم کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلاتو خلیفہ اس کے داہنی طرف کھڑا تھا، اور اس کے چاروں طرف چالیس اہم شخصیات کھڑی تھیں جن کے پاس حریر کے کپڑے سے بنے غلاف میں ایک ایک قرآن مجید تھا، جس کو وہ اپنے سر پر رکھے ہوئے تھے جن میں ایک قرآن مجید عثمان کے ھاتھ کا لکھا ہوا بھی تھا۔
اسی طرح ا بن طولون صاحب کہتے ہیں کہ سلطان سلیم جس وقت دمشق پہونچے اور ”جامع اموی“ میں اور ” مقصورہ“ (مسجد کی وہ جگہ جہاں پر سلطان یا امام نماز پڑھا کرتے تھے) میں جاکر نماز پڑھی توانھوں نے عثمان کے (ھاتھوں کے لکھے ہوئے) قرآن کی بھی تلاوت کی۔
خلاصہ یہ ہے کہ سلطان سلیم نے مذکورہ چیزوں کو جمع کیا چاہے وہ خلفاء کے پاس ہوں یا دوسرے افراد کے پاس، اور اس کے بعد یہ چیزیں عثمانی سلاطین کے پاس موجود رہیں، اور جب عثمانی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ”ترکی جمہوریت“ کا آغاز ہواتو یہ تمام چیزیں شھر اسلامبول میں (بسفور کے کنارے جامع یاصوفیہ کے نزدیک) ” توپ قاپی قلعہ “ میں رکھ دی گئیں، جو شخص بھی ان کو دیکھناچاہے وہ دیکھ سکتا ہے۔
شریف حسین کی حکومت
۶ محرم الحرام ۱۳۵۳ھ مطابق(۳)دسمبر۱۹۱۸ء بروز پنجشنبہ مکہ میں شریف حسین کی عرب کے بادشاہ کے عنوان سے بیعت کی جانے لگی، اور اس کے تین دن بعدانھوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو درج ذیل عہدوں پر معین کیا:
امیر علی، رئیس الوزراء ۔
امیر فیصل، وزیر داخلہ ۔
امیر عبد اللہ، وزیر خارجہ ۔
شریف حسین نے اپنی مرضی کے مطابق چند سال تک حکومت کی لیکن درج ذیل دلیلوں کی وجہ سے اس کی حکومت کی بنیاد متزلزل ہوگئی:
۱۔ انگلینڈ اور فرانس کی حکومتوں نے شریف حسین کی بادشاہت کو تسلیم نہ کیا بلکہ ایک مدت کے بعد اس کی حکومت کو فقط حجاز پر قابل قبول سمجھا۔
۲۔ اس کے مد مقابل دشمن بہت قوی تھا مثلاً ابن سعود جو اپنی تمام تر طاقت حجاز کی حکومتچھیننے میں صرف کررہا تھا، جبکہ شریف اس کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا۔
۳۔ ایک عربی حکومت بنانے کے سلسلے میں اس نے عرب کے شیوخ اور امراء سے کسی طرح کی کوئی گفتگو نہیں کی تھی اور خود ہی سب کچھ انجام دیدیا، اور ظاہر ہے اس صورت میں ان میں سے کوئی بھی اس کی اطاعت نہیں کرتا تھا۔
شریف حسین نے وزیروں کو معین کرنے میں جلد بازی سے کام لیا، جیسا کہ پہلے بھی انقلاب کے شروع میں جلدی بازی سے کام لیا تھا اور اس کے تمام مقدمات مکمل ہونے سے پہلے کام شروع کردیا اور عثمانی فوج کے ساتھ جنگ شروع کردی۔
شریف حسین اور مسئلہ خلافت
شریف حسین نے ۱۳۴۲ھ تک تقریباً اپنی مرضی کے مطابق حکومت کی اور اس مدت میں اس کے دو بیٹوں نے بھی حکومت کی، جن میں سے ایک ملک فیصل جس کو عراق کی حکومت ملی اور امیر عبد اللہ جس کو مشرقی اردن کی حکومت پر مقرر کیا گیا ۔
چنانچہ اسی سال (یعنی ۱۳۴۲ھ میں ) شریف حسین نے خلافت بھی حاصل کرلی، اس طرح کہ مشرقی اردن میں اپنے بیٹے امیر عبد اللہ کے پاس سفر کیا وہاں کے مختلف قبیلوں کے لوگ اس کے دیدار کے لئے آتے رہے اور اس کو خلافت کے لئے انتخاب کرنے کا نظریہ پیش کرتے رہے، جس کے نتیجہ میں ان قبیلوں کے نمائندوں کا ایک جلسہ ہوا، اور شریف حسین کو مسلمانوں کا خلیفہ منصوب کردیا گیا، اور مشرقی اردن کی حکومت نے یہ اعلان کردیا :” شریف حسین کی خلیفة المسلمین کے عنوان سے بیعت کی جائے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مصطفی کمال” جدید ترکی کابانی“(جو عثمانی خلیفہ بھی تھا) کو ترکیہ سے نکال دیا گیا اور خلافت کے خاتمہ کا اعلان کردیا گیا۔
ابھی شریف حسین(جس کو ملک العرب کہا جاتا تھا) کے ساتھ امیر المومنین کا لقب اضافہ نہیں ہوا تھا کہ تخت خلافت پر مسند نشین ہونے کی غرض سے مکہ پلٹ آئے۔
اس سلسلہ میں سید عبد الرزاق حسنی کہتے ہیں جس وقت ترکوں نے خلافت کے عہدہ کو ختم کردیا، اور عثمانی خاندان کو ترکی سے باہر نکالدیا،اس وقت ملک حسین کو خلافت کے لئے منتخب کرنے کی باتیں ہونے لگی، اور جس وقت وہ اپنے دوسرے بیٹے امیر عبد اللہ کے پاس جدید اردن کی جانچ پڑتال کے لئے گیا اس وقت نوری سعید وزیر دفاع عراق کی سرپرستی میں ایک ھیئت اس کے دیدار کے لئے گئی۔
عراق کے لوگوں نے شریف کے بیٹے ملک فیصل جو جلد ہی عراق کے سلطان بنے تھے ٹیلیگرام کے ذریعہ شریف حسین کی خلافت کے بارے میں اپنے اعتماد کا اظھار کردیا، اس نے بھی عراقیوں کے حسن ظن کا شکریہ کا ٹیلیگرام کے ذریعہ کیا، ادہر ملک فیصل نے بھی
شعبان۱۳۴۲ھ ایک اعلان میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس کے باپ ملک حسین کو خلفة المسلمین اور امیر المومنین کی حیثیت سے مبارکباد اور تہنیت کے پیغام دئے تھے۔
ابن سعود کا حجاز پر حملہ کرنا
شریف حسین کی بادشاہت تقریباً آٹھ سال تک باقی رہی، لیکن مختلف وجوہات کی بناپر جن میں سے بعض کو ہم نے بیان بھی کیا ہے، اس حکومت کی چولیں ھلنے لگیں اس مدت میں ابن سعود نے بھی کوئی روک ٹوک نہیں کی، جس کی وجہ سے یہ سمجھا جارہا تھا کہ وہ گوشہ نشین ہوگیا ہے، لیکن ابن سعود دوراندریشی کررہا تھا اور حجاز پر حملہ کرنے کے لئے بہترین فرصت کا منتظر تھا۔
ابن سعود کی سب سے زیادہ توجہ دو چیزوں کی طرف تھی ایک یہ کہ اگر اس نے حجاز پر حملہ کیا تو کیا انگلینڈ کی حکومت خاموش رہے گی اور دوسری طرف اس کے دوبیٹے ملک فیصل عراقی حاکم اور ملک عبد اللہ اردن کا حاکم ہر حال میں اپنے باپ کی مدد کریں گے۔
انگلینڈ کے بارے میں جیسا کہ تاریخ مکہ کے مولف لکھتے ہیں کہ
”اس کی استعماری چال اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ ”عقبہ بندرگاہ“ حجاز سے جدا ہوجائے اور مشرقی اردن سے ساتھ ملحق ہو جائے جو امیر عبد اللہ بن شریف حسین کی حکومت کے زیر اثر ہے۔
لیکن اس سلسلہ میں شریف حسین انگریزوں کی سخت مخالفت کرتا تھا جس کی بناپر انھوں نے بھی اس کے ہمیشگی دشمن ابن سعود کے مقابلہ میں تنھا چھوڑ دیا، آخر کار ابن سعود نے حجاز پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنالیا، اور اسی پروگرام کے تحت ماہ ذیقعدہ ۱۳۴۲ھ کے شروع میں اس نے اپنے باپ عبد الرحمن کی سرپرستی میں ریاض میں علماء اور روسا کی ایک انجمن تشکیل دی۔
عبد الرحمن نے سب سے پہلے گفتگو کا آغاز کیا کہ ہمارے پاس کچھ خطوط آئے ہیں جن میں ہم سے حج بجالانے کی درخواست کی گئی ہے، اور میں نے ان خطوط کو اپنے بیٹے عبد العزیز کے حوالے کردیا ہے اور وھی تمھارا امام ہے۶۴۳ جو بھی چاہتے ہو اس سے کہو۔
اس کے بعد ابن سعود نے خطاب کیا اور کہا تمھارے خطوط ہمارے پاس پہونچے اور میں تمھاری شکایتوں سے آگاہ ہوا، ہر چیز کا ایک جگہ پر خاتمہ ہوجاتا ہے، اور ہر کام بموقع انجام دیا جانا چاہئے، ابن سعود کی تقریر کے بعد آپس میں گفتگو ہوئی جس کے نتیجہ میں حاضرین نے حجاز پر حملہ کرنا طے کیا، کیونکہ تین سال سے شریف حسین نے نجدیوں کو حج کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
چنانچہ ابن سعود نے اپنے منصوبے کے تحت” سلطان بن بجاد“کی سرداری میں حملہ کے لئے ایک لشکرمکہ کی طرف روانہ کیا اس لشکر نے کئی حملوں کے بعد ماہ صفر ۱۳۴۳ھ میں طائف کو فتح کرلیا۔
صلاح الدین مختار کے بقول شریف حسین (شریف حسین کو سلطنت پر پہونچنے کے بعد ملک حسین کہا جانے لگا) نے جب اپنی حالت کمزور دیکھی، جدّہ میں برٹین کے سفیر سے مدد چاہی، چنانچہ اس سفیر نے وعدہ دیا کہ وہ اس کی درخواست کو انگلینڈ پہونچائے گا۔
شریف حسین جدّہ سے مکہ واپس چلا گیا اور انگلینڈ کی مدد کا انتظار کرتا رہا، ادہر انگلینڈ کی حکومت نے اپنے سفیر کو جواب دیا کہ ابن سعود اور شریف میں جنگ ایک مذہبی جنگ ہے اورہم اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، لیکن اگر حالات ان کے درمیان صلح کرانے کی اجازت دیں تو ہم اس چیز کے لئے تیار ہیں۔
ملک علی کو سلطنت ملنا
اس وقت مکہ میں ”حزب وطنی“ کے نام سے ایک انجمن بنائی گئی جس کا اصل مقصد حجاز کو افرا تفری کے ماحول سے نکالکر امن وامان قائم کرنا، چنانچہ اس انجمن نے یہ طے کیا کہ ملک حسین حکومت سے ہٹ جائے اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ملک علی حجاز کا بادشاہ بنے۔
چنانچہ” حزب وطنی“ انجمن نے چھار ربیع الاول ۱۳۴۳ھ میں تقریباً ایک سو چالیس علماء، اہم شخصیات اور تاجروں کے دستخط کراکے ملک حسین کو ٹیلیگرام کیا اور اپنی رائے کا اظھار کیا۔ ملک حسین نے مجبوراً اس پیشکش کو قبول کرلیا، اس کے دوسرے دن حزب وطنی انجمن نے ملک علی جو جدّہ میں تھا ٹیلیگرام بھیج کر مکہ بلالیا چنانچہ ملک علی نے ۵ربیع الاول کو حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لی، لیکن اس تبدیلی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا، کیونکہ ابن سعود ملک علی کو بھی اسی نگاہ سے دیکھتا تھا جس نگاہ سے اس کے باپ ملک حسین کو دیکھتا تھا
لہٰذا سر زمین حجاز کے حالات اسی طرح خراب رہے۔
شریف حسین کا انجام
شریف حسین حکومت چھوڑ کر مکہ سے جدّہ کی طرف روانہ ہوئے اور دس ربیع الاول کو جدّہ پہونچ گئے ماہ ربیع الاول کی(۱۶)ویں شب میں اپنے غلاموں کے ساتھ کشتی سے عقبہ بندرگاہ کے لئے روانہ ہوئے، اور اپنے مقصد پر پہونچنے کے بعد بھی ملک علی کی ترقی اور پیشرفت کے لئے کوشش کرتے رہے، اس کی حکومت کو سر سبز دیکھنا چاہتے تھے۔
اسی مدت میں انگلینڈ کی حکومت نے اپنے امیر البحر کے ذریعہ ملک حسین کو اخطاریہ (اَلٹی میٹم) دیا کہ تین ہفتوں کی مدت میں عقبہ بندرگاہ کو چھوڑ دےں، اور جہاں جانا چاہیں وہاںچلے جائیں۔
شروع میں انھوں نے اس دہمکی کو نہیں مانا لیکن کچھ مدت گذرنے کے بعد اور کچھ واقعات کی بناپر جن کو ہم بیان نہیں کرسکتے مجبور ہوگیا اور کشتی پر سوار ہوکر جزیرہ ”قبرس“ کے لئے روانہ ہوگیا۔
شریف حسین اس قدر انگلینڈ کی حکومت سے بدظن ہوگئے تھے کہ اپنے مخصوص باورچی کے علاوہ کسی دوسرے کے ھاتھ کا کہانا نہیں کہاتے تھے تاکہ کوئی ان کو (انگلینڈ کی حکومت کے اشارہ پر) زھر نہ دیدے۔
شریف حسین۱۹۳۱ء تک قبرس میں رہے اور اسی سال بیمار ہوئے اور جب ان کی بیماری بڑھتی گئی،وہ عَمّان (اپنے بیٹے امیر عبد اللہ کی حکومت کے پائے تخت) چلے گئے، اور اسی سال وھیں پر انتقال کیا اور بیت المقدس میں ” قدس شریف قبرستان“ میں دفن کردئے گئے۔
ابن سعود مکہ میں
اس وقت مدینہ، جدّہ اور بندرگاہ ینبع کے علاوہ تمام سر زمین ابن سعود کے اختیار میں تھی، اور دونوں طرف سے نمائندوں کی آمد ورفت ہوتی رہی تاکہ آپس میں صلح اوردوستی ہوجائے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ابن سعود ۱۰ربیع الثانی ۱۳۴۳ھ کو ریاض سے عمرہ کے لئے مکہ کی طرف روانہ ہوا، اور دوسرے حكّام منجملہ امام یحيٰ یمن کے بادشاہ کو خط لکھا کہ اپنی طرف سے مکہ میں کچھ نمائندے بھیجےں تاکہ عالم اسلام کے تمام نمائندے ایک جگہ جمع ہوکر یہ طے کریں کہ مسجد الحرام اور خانہ کعبہ کو سیاسی معاملات سے کس طرح دور رکھا جائے۔
ابن سعود کے ساتھ بہت سے سپاہی، علمائے نجد، اور محمد بن عبد الوہاب کے خاندان والے نیز دوسرے قبیلوں کے سردار بھی تھے، چوبیس روز کی مدت میں مکہ کے قریب پہونچے اور جس وقت عرفات پھاڑ کے علاقہ میں پہونچے تو ”ابن لُوی“ نے جو مکہ میں اس کے لشکر کا سردار تھا تقریباً ایک ہزار اخوان لوگوں کے ساتھ اس کے استقبال کوگیا۔
ابن سعود گھوڑے سے نیچے اترا، اور مسجد الحرام کی طرف چلا، وہاں پہونچ کر طواف کیا اور جس وقت وہ مکہ میں پہونچا تو ماہ جمادی الاول کی ساتویں تاریخ تھی۔
علمائے مکہ اور علمائے نجد میں مناظرہ
دوسرے روز مکہ کے علماء جن میں سب سے اہم شخصیت شیخ عبد القادر شیبی کلید دار خانہ کعبہ۶۴۷ تھے ابن سعود کے دیدار کے لئے آئے، ابن سعود نے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تقریر کی، جس میں محمد بن عبد الوہاب کی دعوت کی طرف یاددہانی کرائی، اور کہا کہ ہمارے دینی احکام احمد بن حنبل کے اجتھاد کے مطابق ہیں، اور اگر آپ لوگ بھی اس بات کو مانتے ہیں تو آئےے آپس میں بیعت کریں کہ کتاب خدا اور سنت خلفائے راشدین پر عمل کریں۔
تمام لوگوں نے اس بیعت کی موافقت کی، اس کے بعد مکی علماء میں سے ایک عالم دین نے ابن سعود سے درخواست کی کہ کوئی ایسا جلسہ ترتیب دیں جس میں علمائے مکہ اور علمائے نجد اصول اور فروع کے بارے میں مباحثہ اور مناظرہ کریں، اس نے بھی اس پیش کش کو قبول کرلیا، اور(۱۱)جمادی الاول کو پندرہ علمائے مکہ اور سات علمائے نجد ایک جگہ جمع ہوئے اور کافی دیر تک بحث وگفتگو ہوتی رہی اور آخر میں علمائے مکہ کی طرف سے ایک بیانیہ نشر کیا گیا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ اصول کے بارے میں ہم میں اور نجدی علماء میں کوئی فرق نہیں ہے منجملہ یہ کہ جو شخص اپنے اورخدا کے درمیان کسی کو واسطہ قرار دے کافر ہے، اور اس کو تین دفعہ توبہ کے لئے کہا جائے اگر توبہ نہیں کرتا تو اس کو قتل کردیا جائے، اسی طرح قبروں کے اوپر عمارت بنانا، وہاں چراغ جلانا قبور کے پاس نماز پڑھنا حرام ہے، اسی طرح اگر کوئی کسی غیر خدا کو اس کی جاہ ومنزلت کے ذریعہ پکارتا ہے تو وہ گویا بدعت کا مرتکب ہوا ہے، اور شریعت اسلام میں بدعت حرام ہے۔
جدّہ پر قبضہ
تقریباً ایک سال تک یعنی ماہ جمادی الاول ۱۳۴۴ھ تک ابن سعود اور ملک علی کے درمیان جدّہ میں جنگیں ہوتی رہیں، لیکن ماہ جمادی الاول کے آخر میں ملک علی نے جدّہ چھوڑنے اور اس کو ابن سعود کو دینے کا فیصلہ کرلیا، اور اس کام کے بدلے جدّہ میں انگلینڈ کے سفیر ”گُورْدون“ کے ذریعہ ابن سعود کو کچھ پیش کش کی گئی، چنانچہ پہلی جمادی الثانی کو ابن سعود اور انگلینڈ کے سفیر میں ملاقات ہوئی اور سفیر نے ملک علی کی سترہ شرائط پر مشتمل پیش کش کو ابن سعود کے حوالہ کیا، اور ابن سعود نے ان شرائط کو قبول کرلیا، اس کے بعد چھارم جمادی الثانی کو سفیر نے ابن سعود کو خبر دی کہ ملک علی انگلینڈ کی ”کورن فِلاوِر“ نامی کشتی پر سوار ہوکر عَدَن کے لئے روانہ ہورہے ہیں اور وہاں سے عراق جانے کا قصد کرلیا،
۶ جمادی الثانی کو ملک علی مذکورہ کشتی پر سوار ہوکر عدن کے لئے روانہ ہوگئے اور ساتویں دن کی صبح کو ابن سعود جدّہ پہونچ گئے، اور جب شھر کے قریب پہونچے تو ”كَندرہ“ نامی محلہ میں بہت زبر دست استقبال ہوا۔
مدینہ پر قبضہ
جس وقت ابن سعود مکہ سے جدہ کے راستہ میں ”بَحرہ“ نامی مقام پر پہونچا تو امیر مدینہ ”شریف شحات“ کی طرف سے ایک مخصوص قاصد آیا اور ایک خط ابن سعود کو دیا جس میں امیر مدینہ نے اس کی اطاعت پر مبنی پیغام بھیجا تھا اور اس خط میں ابن سعود کو لکھا تھا کہ اپنی طرف سے کسی کو مدینہ کا والی اور امیر بناکر روانہ کردے، چنانچہ ابن سعود یہ خط دیکھ کر مکہ واپس پلٹ آیا اور اپنے تیسرے بیٹے امیر محمد کو مدینہ کا امیر بناکر روانہ کیا، اور(۲۳)ربیع الثانی کو امیر محمد اپنے کچھ سپاہیوں کے ساتھ مدینہ میں وارد ہوا، اور اہالی مدینہ کو اپنے آنے کا ہدف سنایا۔
لیکن ملک علی کی طرف سے معین کردہ سردارِ لشکر نے قبول نہ کیا لیکن غذا اور وسائل کی قلت ملک علی بھی اس کی مدد کرنے سے قاصر تھا دو مھینہ کی پائیداری کے بعدشھر مدینہ امیر محمد کے حوالہ کردیا، چنانچہ امیر محمد نے(۱۹)جمادی الاول ۱۳۴۴ھ کی صبح کو مدینہ شھر پر قبضہ کرلیا۔
قبروں اور روضوں کی ویرانی
ہم نے اس بات کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ وہابیوں کے قدم جہاں بھی جاتے تھے وہاں پر موجود تمام روضوں اور مقبروں کو مسمار کردیا کرتے تھے، اور جب بھی حجاز کے شھروں پر قبضہ کیا ہے انھوں نے یہ کام انجام دیا ہے۔
مکہ کے بعض روضوں اور مقابر کو پہلی ہی دفعہ میں قبضہ ہونے کے بعد مسمار کرچکے تھے، جیساکہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے، اور اس وقت مکہ اور قرب وجوار میں باقی بچے تمام روضوں اور مقبروںکو مسمار کردیا، یہاں تک کہ حجاز کے جس علاقہ میں بھی مقبرے تھے سب کو گراکر خاک کردیا، سب سے پہلے طائف میں موجود عبد اللہ بن عباس کی گنبد کو گرادیا، اور اس کے بعد مکہ میں موجود حضرت عبد المطلب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا، جناب ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا، جناب خدیجہ پیغمبر اکرم کی زوجہ کے روضوں کو مسمار کیا، اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جناب فاطمہ زہرا (س) کی جائے ولادت پر بنی عمارتوں کو بھی مسمار کردیا۔
اسی طرح جدّہ میں جناب حوّا (یا جناب حوّا سے منسوب) کی قبر کو مسمار کردیا، خلاصہ یہ کہ مکہ اور جدہ کے علاقے میں موجود تمام مزاروں کو گرادیا، اسی طرح جب مدینہ پر ان کا قبضہ تھا جناب حمزہ کی مسجد اور ان کے مزار کو اور اسی طرح شھر سے باہر شہداء احد کے مقبروں کو بھی مسمار کردیا۔
قبرستان بقیع کی تخریب
جس وقت مدینہ منورہ وہابیوں کے قبضہ میں چلا گیا، مکہ معظمہ کا شیخ ”عبد اللّٰہ بِن بُلْیَہِدْ“ وہابیوں کا قاضی القضاة ماہ رمضان میں مدینہ منورہ آیا اور اہل مدینہ سے وہاں موجود قبروں کو منہدم کرنے کے بارے میں سوال کیا کہ تمھارا اس سلسلہ میں کیا نظریہ ہے؟ کچھ لوگوں نے تو ڈر کی وجہ سے کوئی جواب نہ دیا، لیکن بعض لوگوں نے ان کے گرانے کو ضروری کہا۔
اس سلسلہ میں مرحوم علامہ سید محسن امین کہتے ہیں کہ شیخ عبد اللہ کا سوال کرنے کا مقصد حقیقت میں سوال کرنا نہیں تھا کیونکہ وہابیوں کی نظر میں تمام روضوں کو یہاں تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ مبارک کو مسمار کرنے میں کوئی شک وتردید نہیں تھی اور یہ کام تو ان کے مذہب کی اصل بنیاد تھی، اس کا سوال اہل مدینہ کی تسکین کے لئے تھا۔
سوال کا جواب ملنے پر مدینہ اور قرب وجوار کے تمام روضوں، مزارات اور ضریحوں کو ویران کردیاگیا یہاں تک کہ بقیع میں دفن ائمہ علیهم السلامکی گنبد کو بھی ویران کردیاگیا جس میں جناب عباس عموئے پیغمبر اکرم بھی دفن تھے اور دیوار اور قبروں پر بنی ضریحوں کو بھی گرادیاگیا، اسی طرح پیغمبر اکرم کے پدر بزرگوار جناب عبد اللہ (ع) اور مادر گرامی جناب آمنہ کی گنبدوں کو بھی توڑ ڈالا، اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کے گنبد، اور عثمان بن عفان اور اسماعیل بن جعفر الصادق ں کی گنبدوں، نیز امام مالک کی گنبد کو بھی منہدم اور مسمار کردیاگیا، خلاصہ یہ کہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار اور ”ینبع“ میں کوئی بھی قبر باقی نہیں چھوڑی گئی۔
قبروں کی ویرانی پر ایران اور دیگر اسلامی ملکوں کا ردّ عمل
جس وقت روضوں کی ویرانی بالخصوص ائمہ بقیع کی قبروں کے انہدام کی خبر دوسرے اسلامی ملکوں میں پہونچی، تو سب مسلمانوں کی نظر میں یہ ایک عظیم حادثہ تھا، چنانچہ ایران عراق اور دیگر ممالک سے ٹیلیگرام کے ذریعہ اعتراض ہوئے، درس کے جلسے اور نماز جماعت تعطیل ہوگئی، اور اس سلسلہ میں اعتراض کے طور پر عزاداری ہونے لگی، ان میں سب سے اہم اور غمناک خبر یہ تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گنبد پر بھی گولیاں چلائی گئیں (یہاں تک کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر اقدس بھی مسمار کردی گئی) لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ آخری بات صحیح نہیں ہے جس کا انکار خود وہابیوں نے بھی کیا (یعنی پیغمبر اکرم کی قبر مسمار نہیں کی گئی)۔
ایران کی حکومت نے اس سلسلہ میں بہت زیادہ اہتمام کیااور علماء کی موافقت سے یہ بات طے ہوئی کہ ایران سے کچھ نمائندے باقاعدہ طور پر حجاز جائیں اور وہاں جاکر نزدیک سے حقیقت کا پتہ لگائیں اور یہ نمائندے حجاز میں وہابیوں کے اس کارنامہ کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔
مرحوم علامہ عاملی مذکورہ مطلب کی شرح میں اس طرح فرماتے ہیں کہ ایران کے علماء نے ایک اجتماع کیا اور انہدام بقیع کو ایک عظیم حادثہ شمار کیامیں اس وقت دمشق میں تھا لہٰذا خراسان کے ایک عالی قدر عالم نے مجھے ٹیلیگرام کے ذریعہ اس حقیقت سے باخبر کیا۔
بقیع، انہدام سے پہلے
ہم نے اپنے حج کے سفر نامے میں قبور ائمہعلیهم السلامکو منہدم ہونے سے پہلے کی وضعیت کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور منہدم ہونے سے پہلے اوربعد کی فوٹو بھی پیش کی ہے، یہاں پر موضوع کی مناسبت سے اس بارے میں کچھ تفصیل بیان کرتے ہیں:
۱۳۴۴ھ سے پہلے بقیع میں دفن ائمہعلیهم السلام اور دیگر قبور پر گنبد تھے جن میں فرش، پرد ے چراغ، شمعدان اور قندیلیں بھی تھیں، جو حضرات اس تاریخ سے پہلے وہاں گئے ہیں انھوں نے وہاں پر موجود تمام روضوں کی تفصیلات اپنے سفر ناموں میں بیان کی ہے، اور اس سلسلہ میں بعض حضرات نے وہاں کی گنبدوں اور قبور سے متعلق فوٹو بھی دئے ہیں۔
ان مولفین میں میرزا حسین فراہانی بھی ہیں جو ۱۳۰۲ھ میں سفر حج کے لئے گئے، موصوف قبور بقیع کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں:
بقیع کا قبرستان ایک وسیع قبرستان ہے، جو مدینہ کی مشرقی دیوار سے متصل ہے اور اس کے چاروں طرف پتھرسے تین گز اونچی دیواربنی ہوئی ہے، جس کے چار دروازے ہیں اس کے دو دروازے مغرب کی طرف ہیں اور ایک دروازہ جنوب کی طرف اور چوتھا دروازہ مشرق کی طرف ہے جو شھر کے باہر باغ کی گلی میں ہے، اور اس قبرستان میں اتنے لوگوں کو دفن کیا گیا ہے کہ یہ قبرستان زمین سے ایک گز اونچا ہوگیا ہے، اور جس وقت حجاج آتے ہیں اس زمانہ میں قبرستان کے دروازے مغرب کے وقت تک کھلے رہتے ہیں جو بھی جانا چاہے جاسکتا ہے، لیکن حج کے دنوں کے علاوہ پنجشنبہ کی ظھر کے وقت کھلتا ہے اور جمعہ کے دن غروب تک کھلا رہتا ہے، اور اس کے علاوہ بند رہتا ہے، مگر یہ کہ کوئی مرجائے اور اس کو وہاں دفن کرنا ہو۔
اس قبرستان میں شیعہ اثنا عشر ی کے چار ائمہعلیهم السلامکی قبریں ہیں جو(۸)گوشوں کی ایک بڑی گنبد کے نیچے دفن ہیں، اور یہ گنبد اندرسے سفیدہے، معلوم نہیں کہ یہ گنبد کب سے بنی ہوئی ہے لیکن محمد علی پاشا مصری نے ۱۳۳۴ھ میں عثمانی سلطان محمود خان کے حکم سے ان کی مرمت کرائی تھی، اور اس کے بعد سے ہر سال عثمانی سلاطین کی طرف سے بقیع میں موجود تمام بقعوں کی مرمت ہوتی ہے۔
اس بقعہ کے بیچ میں ایک بڑی ضریح ہے جو بہترین لکڑی سے بنی ہے اور اس بڑی ضریح کی وسط میں لکڑی کی دو دوسر ی ضریح بھی ہیں ان دونوں ضریحوںمیں پانچ حضرات دفن ہیں :
۱۔ حضرت امام حسن مجتبیٰں، ۲۔ حضرت امام سجادں، ۳۔ حضرت امام محمد باقر ں ۴۔ حضرت امام جعفر صادق ں، ۵۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس ں، (بنی عباس انھیں کی اولادہیں) اس بقعہ مبارک کے وسط میں دیوار کی طرف ایک اور قبر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جناب فاطمہ زہرا = کی قبر ہے۔
جناب فاطمہ زہرا = کی قبر تین مقامات پر مشہور ہے:
۱۔ بقیع کے اس حجرے میں جس کو بیت الاحزان کہا جاتا ہے، اور اسی وجہ سے بیت الاحزان میں جناب فاطمہ زہرا = کی زیارت پڑھی جاتی ہے۔
۲۔ دوسرے یھی بقعہ کہ جہاں پر شیعہ سنی زیارت پڑھتے ہیں، اسی قبر کے سامنے ایک گنبد پر زرگری سے تیار کردہ پردہ لگا ہوا جس پر لکھا ہے سلطان احمد بن سلطان محمد بن سلطان ابراہیم ،۱۱۳۱ھ ۔
اس روضہ میں اورکوئی زینت نہیں ہے مگر یہ کہ دو عدد چھوٹے ”چھل چراغ“، چند دہات کی شمعدان، اور وہاں کا فرش چٹائی کا ہے اور چار پانچ افراد متولی اور خدام ہیں ،جو موروثی پوسٹ پر قابض ہیں اور کوئی خاص کام نہیں کرتے بلکہ ان کا کام حجاج سے پیسے لینا ہے۔
اہل سنت حجاج بہت کم وہاں زیارت کے لئے جاتے ہیںلیکن ان کے لئے زیارت کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور ان سے پیسہ بھی نہیں لیا جاتا، لیکن شیعہ حضرات سے پیسہ لے کر تب اندر جانے دیا جاتا ہے، شیعہ زائرین کو تقریباً ایک ”قران“ سے پانچ ”شاہی“
تک خادموں کو دینا پڑتا ہے، زائرین سے لئے گئے پیسہ میں سے نائب الحرم اور سید حسن پسر سید مصطفی کا بھی حصہ ہوتا تھا، البتہ پیسہ دینے کے بعد زیارت اور نماز میں کوئی تقیہ نہیں ہوتا تھا، زیارت کو کھلے عام پڑھا جاسکتا تھا، اور شیعہ زائرین کو پھر کسی کا کوئی خوف نہیں ہوتا تھا، اس روضہ کے پیچھے ایک چھوٹا سا روضہ ہے جو حضرت فاطمہ زہرا=کا بیت الاحزان ہے۔
اس کے بعد مرحوم فراہانی بقیع کی دیگر قبروں کی توصیف کرتے ہیں جن پر عمارت بنی ہوئی ہے۔
اسی طرح میر زا فرہاد جو۱۲۹۲ھ میں حج کے لئے سفر کرچکے ہیں اپنے سفر نامہ ”ہدایة السبیل“ میں کہتے ہیں:
”میں (پیغمبر کی زیارت کے بعد)باب جبرئیل سے باہر نکلا اور ائمہ بقیع علیهم السلامکی زیارت کے لئے مشرف ہوا کہ ائمہ اربعہ کی ضریح بڑی ضریح کے درمیان ہے، اور جناب عباس پیغمبر اکرمکے چچا کی قبر اسی ضریح میں ہے، لیکن ائمہ کی ضریح دوسری ضریحوں سے جدا ہے۔
وہاں کے متولی نے روضہ کے دروازہ کو کھولا اور میں نے اس ضریح کا طواف کیا، پیروں کی طرف صندوق اورضریح کے درمیان بہت کم جگہ ہے جس کی وجہ سے انسان بمشکل وہاں سے نکل سکتا ہے۔
نائب الصدر شیرازی جو۱۳۰۵ھ میں حج سے مشرف ہوئے ہیں، اپنے سفر نامہ ”تحفة الحرمین“ میں اس طرح کہتے ہیں :بقیع میں داہنی طرف ایک مسجد ہے جس کے اوپر یہ لکھا ہے:
”هٰذٰا مَسْجِدُ اُبَیّ بِنْ كَعْبَ وَصَلیّٰ فِیْهِ النَّبِیّ غَیْرَ مَرَّةٍ“
(یہ مسجد ابی بن کعب ہے جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد بار نماز پڑھی ہے،)
بقیع میں چار ائمہ:امام حسن مجتبیٰ ں، امام زین العابدین ں، امام محمد باقر ں، امام جعفر صادق ں کی قبر ایک ہی ضریح میں ہے۔
کھا یہ جاتا ہے جناب عباس بن عبد المطلب بھی وھیں دفن ہیں، اسی طرح دیوار کی طرف ایک پردہ دار قبرہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جناب فاطمہ زہرا (س) کی قبر ہے۔
ابراہیم رفعت پاشا جو۱۳۲۰ھ، ۱۳۲۱ھ اور ۱۳۲۵ھ میں مصر کے رئیس حجاج تھے انھوں نے اپنے سفر نامہ ”مرآة الحرمین“ میں بقیع میں دفن مشہور ومعروف حضرات مثلاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ وغیرہ کی تفصیل بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اہل بیت (بقیع میں مدفون ائمہ مراد ہیں) کا قبہ دوسرے قبوں سے بلند ہے۔
رفعت پاشا نے ان تمام روضوں کے فوٹو بھی دئے ہیں اور یہ بھی دکھایا ہے کہ ائمہ اہل بیت کا روضہ دوسرے روضوں سے بلند تر اور خوبصورت بنا ہوا ہے۔
بقیع میں ائمہ علیهم السلام کی قبروں کے انہدام کے سلسلہ میں یہ بات بیان کرنا بہت ضروری ہے کہ ان قبروں پر قدیم زمانہ (پہلی صدی) سے گنبد، بارگاہ اور سنگ قبر موجود تھے، ہم نے پہلے بھی قبور پر عمارتوں کے سلسلہ میں مسعودی صاحب مروج الذھب اور سمہودی صاحب وفاء الوفاء کی عبارتوں کو ذکر کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا = اور بقیع میں دفن ائمہ علیهم السلامکی قبور پرتحریر موجود تھی، اور اس بات کی تائید کہ پہلی صدیوں میں ائمہ علیهم السلامکی قبروں پر گنبد تھے ابن اثیر کی وہ تفصیل ہے جو انھوں نے ۴۹۵ھ کے واقعات میں ذکر کی ہے کہ اس سال قم سے ایک معمار مجد الملک بلاسانی (براوستانی صحیح ہے) نامی کو حضرت امام حسن مجتبیٰ ں اور عباس بن عبد المطلب کے قبہ کی مرمت کے لئے بھیجا گیا، اور یہ شخص منظور بن عمارہ والی مدینہ کے ھاتھوں قتل ہوا۔
اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں صدی سے ائمہ بقیع اور جناب عباس عموئے پیغمبر اکرمکی قبروں پر گنبد تھے، اور ان کی مرمّت کرانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طویل زمانہ سے یہ عمارتیں موجود تھیں اور خراب ہونے کی وجہ سے ان کی مرمت کی ضرورت پیدا ہوئی۔
سمہودی متوفی۹۱۱ھ نے بھی بقیع کی قبور کے بارے میں پہلی صدی سے دسویں صدی تک کی تفصیل بیان کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جناب عباس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حسن بن علی (ع) اور بقیع میں دیگر دفن شدہ حضرات کی قبروں پر بہت اونچی گنبد ہے۔
اسی طرح ابن نجار کہتے ہیں کہ اس گنبد (قبور ائمہعلیهم السلام) کی عمارت بہت قدیمی اور بلند ہے، اس عمارت کے دو دروازے ہیں کہ ان میں ایک دروازہ ہر روز کھلتا ہے، ابن نجار نے اس عمارت کے بانی کا نام ذکر نہیں کیا ہے لیکن ”مطری“ صاحب کہتے ہیں کہ اس عمارت کا بانی ”خلیفة الناصر احمد بن المستضی“ ہے۔
قارئین کرام! ”مطری“ صاحب کا یہ نظریہ صحیح نہیں دکھائی دیتا، کیونکہ ابن نجار اورخلیفہ ناصر دونوں ہمعصر تھے اور ابن نجار نے اس عمارت کو قدیمی بتایا ہے لیکن میں (سمہودی) نے اس بقعہ کی محراب میں لکھا دیکھا کہ یہ عمارت منصور مستنصر باللہ کے حکم سے بنائی گئی ہے، لیکن نہ تو اس کا نام اور نہ ہی عمارت کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔
سمہودی صاحب اس کے بعد کہتے ہیں کہ قبر عباس اور حسن ں زمین سے اونچی ہے اور ان کا مقبرہ وسیع ہے اور اس کی دیواروں میں خوبصورت لوح اور تختی بہترین طریقہ سے لگائی گئی ہیں، اور آخر میں سمہودی صاحب نے بقیع میں موجود دوسری عمارتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔
اسی طرح ابن جبَیر چھٹی صدی کے مشہور ومعروف سیاح نے بھی جناب عباس اور حضرت امام حسن ں کی قبراور ان پر موجود بلند گنبد اور اس کے اندر کی خوبصورتی کی توصیف کی ہے۔
مقدس مقامات کے لئے ایک اسلامی انجمن کی تشکیل
ابن سعود نے مکہ اور مدینہ پر قبضہ کرنے کے بعد یہ سوچا کہ ان دونوں شھروں پر حکمرانی کرنے کے لئے عالم اسلام کے مشورے سے کوئی قدم اٹھائے۔
اسی منصوبہ کے تحت مختلف اسلامی ملکوں سے مثلاً ترکی، ایران، افغانستان اور یمن سے اسی طرح دیگر سر زمینوں کے روسا مثلاً مصر، عراق، مشرقی اردن سے نیز امیر عبد الکریم ریفی، حاج امین الحسینی مفتی بزرگ فلسطین، ٹونس، دمشق اور بیروت کے والیوں کو دعوت دی تاکہ اس عظیم کانفرس میں شرکت کریں یا اپنے نمائندے بھیجیں، (تاکہ ان دونوں شھروں کی حکومت کے بارے میں غور وفکر کیا جاسکے) اور یہ دعوت ۱۰ربیع الثانی ۱۳۴۴ھ میں دی گئی۔
لیکن اکثر لوگوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیااور صرف چند ملکوں نے اس کو قبول کیا اور مذکورہ انجمن کی تشکیل میں شرکت کی، شرکت کرنے والوں میں ہندوستان کے مسلمان بھی تھے،
سب نے مل کر یہ طے کیا کہ حجاز میں ایک ایسی جمہوری حکومت تشکیل دی جانی چاہئے جس میں تمام مسلمانوں کو شریک کیا جائے، اور یہ بھی طے ہوا کہ اس کا اہم خرچ بھی ہم خود قبول کریں گے،
لیکن یہ پیش کش مختلف وجوہات کی بناپر عملی نہ ہو سکی۔
ایران کے شرکت نہ کرنے کی وجہ
مرحوم علامہ عاملی کی تحریر کے مطابق ایران نے مذکورہ کانفرس میں اپنا نمائندہ بھیجنے کا منصوبہ بنالیا تھا لیکن جیسے ہی بقیع میں قبور ائمہ علیهم السلامکی ویرانی کی اطلاع پہونچی، تواعتراض کے طور پر ایران نے اپنا نمائندہ نہ بھیجنے کا فیصلہ کرلیا، اور اپنے حاجیوں کو بھی حج کے لئے نہیں بھیجا تاکہ کہیں ان کے لئے کوئی خطرہ درپیش نہ ہو، اور جب۱۳۴۶ھ میں کوئی خطرہ نہ دکھائی دیا تو حاجیوں کو حج کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
حجاز میں ابن سعود کی سلطنت
مذکورہ انجمن کا کوئی نتیجہ حاصل نہ ہواتو مکہ معظمہ کے تیس علماء جدّہ پہونچے اور ان کے حضور میں ایک انجمن تشکیل دی گئی، اور ۲۲جمادی الثانیہ۱۳۴۴ھ کو اتفاق رائے سے یہ طے ہوا کہ سلطان عبد العزیز آل سعود کی حجاز کے بادشاہ کے عنوان سے بیعت کی جائے، اور اس کو یہ اطلاع دی کہ وہ بیعت کے لئے کوئی وقت معین کرے۔
۲۵ربیع الثانی بروز جمعہ نماز جمعہ کے بعد باب الصفا (مسجد الحرام کے ایک دروازے) کے پاس جمع ہوئے اور ابن سعود بھی تشریف لائے اور ایک پروگرام کے ضمن میں سید عبد اللہ دملوجی نے جو ابن سعود کے مشاورین میں سے تھا، بیعت کے طریقہ کار کو لوگوں کے سامنے بیان کیا،
(خوشی کا یہ عالم تھا کہ) اس موقع پر توپ کے ایک سو ایک گولے داغے گئے۔
اس طریقہ سے ابن سعود نجد وحجاز کا بادشاہ بن گیا اور سب سے پہلے اس کو رسمی طور پر قبول کرنے والا” روس“ تھا، اس کے بعد انگلینڈ، فرانس، ہولینڈ، ترکی اور اس کے بعد دوسری حکومتوں نے قبول کرنا شروع کیا۔
سلطان عبد العزیز بن سعود نے اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی، اور اس سلسلہ میں بہت سی حکومتوں سے معاہدے کئے، اور بہت سی شورش اور بلووں کو منجملہ فیصل الدرویش کی شورش کو ختم کیا اور اپنے تمام مخالفوں کو نیست ونابودکردیا، ایک دفعہ اس پر مسجد الحرام میں طواف کے وقت چار یمنیوں (زیدی مذہب) نے حملہ کردیا لیکن وہ زندہ بچ گیا، اور آخر کار ملک میں امن وامان قائم ہوگیا جو اس ملک میں بے نظیر تھا۔
ابن سعود اور ادریسی حکمراں
جس وقت ابن سعود نے حجاز کو اپنے تصرف اور قبضہ میں کرلیا، اس وقت امام یحيٰ (امام یمن) نے سید حسن ادریسی کے زیر ولایت عسیر نامی جگہ(جو نجدکے علاقہ میں تھا) پر حملہ کردیا اور وہاں کی اکثر چیزوں کو نابود کردیا، یہ دیکھ کر ادریسی افراد خوف زدہ ہوگئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امام یحيٰ کے حملوں سے آل ادریس کی ولایت خطرے میں پڑجائے، اس وجہ سے ابن سعود کو خطوط لکھے اور اپنی طرف سے اس کے پاس نمائندے بھیجے، جس کے نتیجے میں (۱۴)ربیع الثانی ۱۳۴۵ھ کو دونوں کے درمیان معاہدہ ہوا جس میں یہ طے ہوا کہ عسیر کی امارت ابن سعود کی حمایت میں ہے، اس معاہدہ میں ۱۴بند تھے جس کے دوسرے بند میں امیر ادریس کو ابن سعود کی اجازت کے بغیر کسی بھی ملک سے گفتگو کرنے کی اجازت نہیں تھی اور تیسرے بند کے مطابق امیر ادریس کو یہ بھی حق حاصل نہیں تھا کہ کسی کے ساتھ اعلان جنگ کرے یا کسی کے ساتھ صلح کرے، مگر یہ کہ آل سعود کی اجازت سے ہو، اور اس کے چھٹے بند کے مطابق امیر ادریس کو عسیرکے داخلی امور میں تصرف کرنے کا حق دیا گیا تھا۔
لیکن ماہ رجب ۱۳۵۱ھ میں ادریسیوں نے ابن سعود کے خلاف شورش کردی، چنانچہ ابن سعود نے حجاز اور نجد سے لشکر تیار کرکے عسیر کی طرف روانہ کیا، جس کے نتیجہ میں وہاں کے حالات صحیح ہوگئے، اس وقت ابن سعود نے موقع کو غنیمت شمار کیا اور عسیر میں ادریسیوں کی فرمان روائی کے خاتمہ کا اعلان کردیا، اور اس کے بعد عسیر بھی سعودی عرب کا ایک استان (اسٹیٹ) بن گیا، اور سیدحسن ادریسی کے لئے عسیر میں قیام نہ کرنے کی شرط پر ماہانہ دوہزار سعودی ریال مقرر کئے ۔
تیل نکالنے کا معاہدہ
ابن سعود کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک کام مشرقی علاقہ احساء (ظھران) میں تیل نکالنے کا معاہدہ ہے۔
سب سے پہلا معاہدہ مئی ۱۹۳۳ء میں سعودی کی عربی تیل کمپنی اور امریکی کی ”آرامکو“ نامی کمپنی کے درمیان ہوا، جس پر سعودیہ کی طرف سے شیخ عبد اللہ سلیمان اور مذکورہ کمپنی کی طرف سے ”ھاملٹن“ نے دستخط کئے۔
اسم گذاری
۱۷ جمادی اول۱۳۵۱ھ میں سلطان عبد العزیز آل سعود نے ایک فرمان بشمارہ ۲۷۱۶صادر کیا کہ(۲۱)جمادی الاول سے ہمارا ملک ”المملکة العربیة السعودیة“ کے نام سے پکارا جائے اور جب ملک کا نام تبدیل ہوگیا تو حکومت کے وزیروں اور ارکان نے یہ طے کیا کہ سلطان عبد العزیز کے سب سے بڑے بیٹے امیر سعود کو ولی عہدی کے لئے منصوب کردیا جائے۔
۱۶محرم۱۳۵۲ھ کو بادشاہ نے فرمان صادر کردیا اور وزراء کابینہ اور مجلس شوریٰ نے امیر سعودکی ولی عہدی کی بیعت کرنے کا وقت معین کردیا۔
ابو طالب یزدی کا واقعہ
ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ میں ابو طالب یزدی کومکہ میں قتل کردیا گیا ،اور مکہ میں رونما ہونے والے دوسرے واقعات جو قارئین کرام کے لئے بہت مفید ہیں تفصیل اور اس کی اصلی وجہ بیان کی جاتی ہے :
چنانچہ ۱۴ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ کو مکہ معظمہ میں یہ اعلان منتشر ہوا:
”بلاغ رسمی رقم(۸۲) جریمة منکرة:
القتالشرطة القبض فی بیت اللّٰه الحرام فی یوم(۱۲)
ذی الحجة۱۳۶۲ علی المدعو عبده طالب بن حسین الایرانی من المنتسبین الی الشیعةفی ایران وهو متلبس باقذر الجرائم واقبحها وهی حمل القاذورات وهو یلقیها فی المطاف حول الکعبة المشرفة بقصد ایذاء الطائفین واهانة هذا المکان المقدس وبعد اجراء التحقیق بشانه وثبوت هذا الجرم القبیح منه فقد صدر الحکم الشرعی بقتله وقد نفذ حکم القتل فیه فی یوم السبت(۱۴)
ذی الحجة ۱۳۶۲ ولذا حرر
ایک رسمی اعلان شمارہ(۸۲)بھیانک جرم۔
۱۲ ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ کو پولیس نے بیت اللہ الحرام میں شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک ایرانی بنام طالب بن حسین کو گرفتار کیاہے، جس نے بہت برا کام انجام دیاہے، اس نے کچھ کوڑا کرکٹ اپنے ساتھ لیا اور طواف کرنے والوں کی اذیت کے لئے مطاف (طواف کرنے کی جگہ) میں ڈالدیا،تحقیقات اور گناہ ثابت ہوجانے کے بعد شرعی طور پر(۱۴)ربیع الاول کو اس کے قتل کے حکم پر عمل ہو گیا۔
جب یہ خبر ایران پہونچی تو اس سے لوگ بہت ناراض ہوئے اور سب لوگ تعجب کرنے لگے۔
کسی کو بھی حقیقت کا پتہ نہیں تھا یہاں تک کہ اس سال گئے ہوئے ایرانی حجاج بھی حج سے واپس پلٹ آئے، انھوںنے حقیقت کو اس طرح بیان کیا :
” ابو طالب یزدی کا طواف کے وقت سر چکرانے لگا، اور قے آنے لگی، تو انھوں نے طواف کرنے والوں کے راستہ میں گندگی نہ پھیلنے کی وجہ سے اس کو اپنے دامن میں لے لیا، جس کی وجہ سے ان کا لباس احرام گندہ ہوگیا“۔
چند مصری اور سعودی حاجیوں نے ان کو پکڑ کر وہاں کی پولیس کے حوالہ کردیا اور انھیں لوگوں نے عدالت میں گواہی بھی دی، کہ یہ شخص اپنے ساتھ میں گندگی اٹھائے ہوئے تھا اور مطاف کو گندا کررہا تھا۔
سوال یہ پید اہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ابو طالب یزدی کو اس طریقہ سے دیکھا ان کے ذہن میں فوراً یہ بات کیسے آئی کہ ابو طالب مطاف کو گندا کرنا چاہتا ہے، اور بیت اللہ الحرام کی توھین کرنا چاہتا ہے، اس تصور کی اصل وجہ کیا تھی؟!
اور کیا یہ فقط ان کا تصور تھا، یا ان چند لوگوں نے عمداً کسی خاص مقصد کے تحت یہ الزام اور تہم ت لگائی؟!
ہ موضوع واقعاً پیچیدہ اورمبہم دکھائی دیتا ہے اور یہ بات روشن نہیں ہے کہ یہ واقعہ ایک اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کسی کا ھاتھ ہے؟ اور دوسری تعجب خیز بات یہ ہے کہ کون شخص عاقل ایسا ہوسکتا ہے کہ مسلمان ہوکراتنی مشکلات کے ساتھ کتنی آرزوں اور تمناوں کے بعد حج سے مشرف ہونے کے لئے وہاں جاتا ہے، اوراس زمانہ میں سفر حج میں کتنی مشکلات تھیں
ان تمام مشکلات کو برداشت کرنے کے بعد حج کے لئے پہونچے اور اتنے شرمناک کام انجام دے، ؟!
اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالت پر یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ شخص ایسا ارادہ رکھتا تھا؟ کیونکہ نہ عدالت اس کی زبان کو سمجھتی تھی اور نہ ہی وہ عدالت کی زبان سمجھتے تھے، کس نے ان کا دفاع کیا، کیا کوئی فارسی جاننے والا وکیل ان کا دفاع کررہا تھا؟ ان تمام باتوں کے علاوہ الزام اور فیصلہ میں صرف دو دن کا وقت لگا، در حالیکہ اسلامی نظریہ کے مطابق قتل کے سلسلہ میں ہر طرح کی احتیاط کرنی چاہئے، کہ کہیں غلطی کے سبب کسی بے گناہ شخص کی جان نہ چلی جائے ۔
قارئین کرام! حقیقت تویہ ہے کہ ابوطالب کے قتل کی اصل وجہ معلوم نہ ہوسکی، یہاں تک کہ چند سال پہلے شیخ حر ّ عاملی صفویہ دور کے عظیم الشان عالم دین کی سوانح حیات کا مطالعہ کیااور کتاب ”خلاصة الاثر“ کے مطالعہ میں ابو طالب کے واقعہ کی طرح ایک اور واقعہ ملا اور یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ واقعہ ابوطالب کے واقعہ سے بڑاگھرا تعلق رکھتا ہے اوراگر غور وفکر کی جائے تو کسی نتیجہ پر پہونچا جاسکتا ہے۔
شیخ حرّ عاملی کا مکہ معظمہ میں ایک واقعہ اور اس سے متعلق فریب کاری
جب ۱۰۸۷ھ یا ۱۰۸۸ھ میں شیخ محمد بن الحسن معروف بہ حرّ عاملی مکہ معظمہ پہونچے، تو عثمانی تُرکوں نے بعض ایرانیوں کو خانہ کعبہ میں گندگی پھیلانے کے جرم میں قتل کردیا، چنانچہ شیخ حرّ عاملی، سیدموسیٰ (مکہ کے حسینی اشراف میں سے) کی پناہ میں چلے گئے، اور سید موسیٰ نے ان کو کسی اپنے مورد اعتماد شخص کے ساتھ یمن بھجوادیا۔
صاحب خلاصة الاثر اس واقعہ کے ضمن میں اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ یہ بہت بڑی ذلت اور رسوائی ہے، میں یہ تصور کرسکتا کہ اگر کسی شخص نے اسلام کی بُو یا عقل کی بُو بھی سونگھی ہو تو وہ ایسا برا کام کرسکتاہے۔
واقعہ اس طرح ہے کہ خانہ کعبہ کے بعض خادموں نے دیکھا کہ کعبہ شریف ایک جگہ سے گندا ہوگیا ہے اور یہ خبر مشہور ہوگئی، اور اس کا ہر طرف چرچا ہونے لگا، چنانچہ مکہ کی اہم شخصیات شریف برکات اور شریف مکہ، اور محمد میرزا قاضی مکہ کے پاس گئے اور مذکورہ واقعہ کے بارے میں گفتگو ہونے لگی، آخر کار ان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ کام رافضیوں کا ہے، اور یہ طے کرلیاکہ جو لوگ رافضی مشہور ہیں ان کو قتل کردیا جائے، چنانچہ اس سلسلہ میں فرمان صادر کردیاگیا۔
عثمانی تُرک اور بعض اہل مکہ مسجد الحرام میں آئے، اور پانچ شیعہ منجملہ ایک بوڑھے اور زاہد وعابد انسان سید محمد مومن کو قتل کردیا ۔
صاحب تاریخ مکہ مذکورہ واقعہ کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں کہ شوال۱۰۸۸ھ میں صبح کے وقت لوگوں نے خانہ کعبہ کو (پاخانہ مانندکسی چیز سے) گندا پایا، اور لوگوں نے ایک قدیمی عقیدہ کے تحت ”میں نہیں جانتا کہ کس طرح ان کی عقل اس طرح کے عقید ہ کی اجازت دیتی ہے“ شیعوں پر اس کام کا الزام لگادیا، چنانچہ عثمانی تُرکوں اور بعض اہل مکہ نے مل کر شیعوں پر حملہ کردیا بہت سے لوگوں پر پتھراو کیا اور چند لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالا۔
اسی طرح سید دحلان، تاریخ عصامی سے نقل کرتے ہیں کہ موصوف نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جس چیز سے خانہ کعبہ کو گندا کیا گیا تھا وہ پاخانہ نہیں تھا بلکہ وہ دال کا سالن تھا لیکن اس سے بدبو آرہی تھی۔
سید دحلان لکھتے ہیں :چاہے یہ بات صحیح ہو یا نہ ہو، حقیقت یہ ہے کہ اسلام سب مسلمانوں کو اگرچہ اعتقادی لحاظ سے ایک دوسرے میں اختلاف ہے، لیکن سب کو اتحاد اور دوستی کی دعوت دیتا ہے، تاکہ ایک راستہ پر چلیں، اس دین مبین کے ماننے والوں کو یہ بات زیبا نہیں دیتی کہ اپنے مخالفوں پر بعض وہم وخیال کی بناپر تہم تیں لگائیں۔
مولف تاریخ مکہ مذکورہ واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ میں (اس علاقہ کی) عوام الناس سے بہت ناراض ہوں کہ وہ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیعہ عجم (ایرانیوں) نے خانہ کعبہ کو گندا کیا جبکہ وہ اپنے حج کو مقبول سمجھتے ہیں۔
اس کے بعد اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہم عقل ومنطق سے کام لیں اور صحیح طریقہ سے غور وفکر کریں تو اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں کہ اگر ان تہم توں کو صحیح مانا جائے تو اس طرح توھر سال ایرانی حجاج کی تعداد کے برابر کعبہ گندا ہوجانا چاہئے تھا، جبکہ حقیقت اور واقعیت اس کے برخلاف ہے لیکن کیا کریں کہ دشمنی کی وجہ سے اپنی عقل بھی کھوبیٹھتے ہیں۔
ایک دوسرا واقعہ
صاحب تاریخ مکہ کہتے ہیں کہ شریف محمد بن عبداللہ کے زمانہ۱۱۴۳ھ میں شیعوں پر ایک اور مصیبت آپڑی، جوہم اری نظر میں مسلمانوں کی ان مصیبتوں میں سے ہیں جن کی وجہ سے مسلمان آگ میں جل رہے ہیں اور جس کی بناپر مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ ہو رہا ہے۔
گذشتہ سال شیعہ حاجیوں کے قافلے بعض وجوہات کی بنا پر حج کے ایام کے بعد مکہ پہونچے، اورمجبورا ً اگلے سال یعنی۱۱۴۴ھ کے حج کے زمانہ تک وہ وہاں رکے رہے تاکہ حج کرکے ہی واپس جائیں، (اس مدت میں ) بعض عوام الناس نے یہ وہم کیا کہ شیعوں نے خانہ کعبہ کو گندا کیا ہے لہٰذا ان پر حملہ کردیا اور عوام الناس کے حملہ کی وجہ سے پولیس نے بھی حملہ کیا، اور سب ساتھ میں قاضی کے گھر پر پہونچے، فتنہ گروں کی بھیڑ کو دیکھ کر قاضی صاحب اپنے گھر سے فرار ہوگئے کہ کہیں یہ بھیڑ مجھ پر بھی حملہ نہ کردے، اس کے بعد وہاں کے مفتی کے گھر پر پہونچے اور اس کو گھر سے باہر نکال لیا اسی طرح دوسرے علماء کو ان کے گھروں سے نکال کر وزیر کے پاس لے گئے اور اس سے درخواست کی کہ آپ فیصلہ کریں، جب کہ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ فیصلہ کا مد مقابل کون ہے؟مذکورہ وزیر نے یہ حکم صادر کردیا کہ مذکورہ شیعوں کو مکہ معظمہ سے باہر نکال دیا جائے، اور اس کے بعد اس بازار میں آئے، جہاں پر شیعہ مقیم تھے اور ان کو نکالنے اور ان کے گھروں کو ویران کرنے کا شور کرنے لگے، اور دوسرے روز امیر مکہ کے پاس گئے تاکہ وہ شیعوں کے بارے میں مذکورہ وزیر کے حکم کی تائید کرے، پہلے تو امیر مکہ نے اس کام سے پرہیز کیا لیکن عوام الناس کے فتنہ وفساد کے ڈر سے مذکورہ حکم کی تائید کردی۔
ان شیعوں میں سے بعض لوگ طائف اور بعض لوگ جدّہ چلے گئے تاکہ فتنہ وفساد خاموش ہوجائے، ادہر فتنہ وفساد پھیلانے والے سرغنوں کو گرفتار کر لیاگیا، اورپھر شیعوں کو اجازت دی گئی کہ وہ مکہ میں لوٹ آئیں ۔
سید دحلان صاحب تاریخ رضی سے نقل کرتے ہیں کہ مذکورہ واقعہ میں جو کچھ بھی ہوا وہ سب کچھ متعصب بدمعاشوں اور عثمانی تُرکوں کا کام تھا اور اہل مکہ اس کام سے راضی نہیں تھے، اور عوام کی یھی نادانی ہمیشہ سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ کا باعث بنی ہے۔
ان حادثات کی اصل وجہ
حکومت صفویہ کے آغاز سے ایران اور عثمانی حکومت کے درمیان ہوئی جنگوں کی چھان بیناور تحقیق کے نتائج سے اس روش اور طریقہ کا پتہ چلتا ہے جو عثمانی علماء نے ایران کے مقابلہ میں اختیارکر رکھی تھی، کیونکہ وہ لوگ دشمنی میں ایرانیوں پر کسی بھی طرح کی تہم ت لگانے سے پرہیز نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ ایران سے ہونے والی جنگ کو جھاد کا درجہ دیتے تھے، اورایرانی شیعوں کے قتل کو مباح اور جائز جانتے تھے بلکہ غیر شیعہ ایرانیوں کے بارے میں بھی ان کا یھی نظریہ تھا اور ان کو اسیر کرنے، ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کرنے کے بارے میں فتویٰ دیتے رہتے تھے۔
شاہ اسماعیل،حکومتِ صفوی کے بانی کے زمانہ میں جب عثمانیوں اور ایرانیوں کے درمیان جنگ وغیرہ ہوتی رہتی تھی تو اس وقت عثمانی علماء اپنی مساجد میں دعا کے لئے جلسہ رکھتے تھے اور شاہ اسماعیل پر لعنت کرتے تھے۔
عثمانی مولف ”ابن طولون” شاہ اسماعیل اور سلطان سلیم عثمانی کے ہم عصر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ۹۲۳ھ میں ہم (۳۶۰)قاریوں کے ساتھ مسجد اموی دمشق (جو عثمانیوں کے تحت اثر تھی) میں چالیس دن تک سورہ انعام کی تلاوت کیاکرتے تھے، اور جب اللہ کے دو ناموں کے درمیان پہونچتے تھے تو صوفی اسماعیل (مراد شاہ اسماعیل ہے) پر لعنت کیا کرتے تھے۔
اس کے بعد قاہرہ کے آٹھ علاقوں مثلاً مقبرہ شافعی، لیث، سیدة نفیسہ، شیخ عمر بن فارض،ابو الحسن دینوری، شیخ ابو الخیر کلیباتی،مقیاس، جامع الازھر میں سلطان سلیم کی کامیابی کے لئے قرآن مجیدختم کیاکرتے تھے ۔
اور جب شاہ اسماعیل پر بدد عا کرنے اور سلطان سلیم کی کامیابی کے دعا کرنے سے کوئی نتیجہ نہ نکلا، تو اپنے مقاصد کے پیش نظر ایران کو دار الحرب ہونے کا اعلان کردیا، اور اس کام سے عثمانی سپاہیوں کو صفویہ بادشاہوں سے لڑنے کا جذبہ اور لالچ بڑھ گیا، اسی زمانہ میں سلطان سلیم نے اپنے علماء سے ایک فتویٰ لیا جس میں یہ بات تحریر تھی کہ شرعی لحاظ سے شاہ اسماعیل کا قتل جائز ہے،
اس کے علاوہ خود سلطان سلیم نے اپنے ایک خط کے میں جواس نے تبریز سے لکھا اور ایران پر حملے اور شاہ اسماعیل کو قتل کرنے کے بارے میں تھا ،لکھا کہ ہم نے مشہور فقھاء اور علماء کو دعوت دی اور ان سے شاہ اسماعیل سے جنگ کے بارے میں فتویٰ لیا، سبھی فقھاء اورعلماء نے فتویٰ دیاہے کہ جو شخص بھی اس کے سپاہیوں (یعنی شاہ اسماعیل کے سپاہیوں) کے مقابلہ میں کوشش کرے تو اس کی یہ سعی و کوشش مشکور ہے اور ان کے مقابلہ میں جھاد کرے تو اس کا یہ عمل مبرور ہے، کیونکہ علماء نے ان کے کفر، الحاد اور ارتداد کا فتویٰ صادر کیاہے۔
شاہ تہم اسب صفوی اپنے تذکرہ میں اس بات کی طرف اس طرح اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے سیادت پناہ امیر شمس الدین کو ایلچی بنا کر استانبول بھیجا تاکہ رستم پاشا اور وہاں کے دیگر سرداروں سے گفتگو کرےں، لیکن تمام علمائے روم
نے فتویٰ دیدیا کہ ایران کے تمام لوگوں
کی جان ومال حلال ہے چاہے وہ سپاہ ہو، یا عوام الناس، مسلمان ہو یا یہودی اور ارمنی، اور ان سے جنگ کرنا ”غزّ“ ہے۔
ہم نے کہا یہ فتویٰ تو بہت اچھا ہے !! ہم تو نماز وروزہ اور حج وزکات اور دیگر ضروریات دین کو قبول کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں، لیکن پھر بھی یہ لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں، خدا یا توھی ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ کر۔
ہ سلسلہ نادر شاہ افشار کے زمانہ تک جاری رہا، اور اس سوال کی تحریر جو افغانیوںکے ایران پر حملے کے بعد شیخ عبد اللہ مفتی قسطنطنیہ سے۱۱۳۵ھ میں اسلامبولی ترکی زبان میں لیا گیا تھا، اور اس کے جواب میں دیا گیا فتویٰ بھی موجود ہے۔
مذکورہ فتوے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایران دار الحرب ہے اور وہاں رہنے والے افراد مرتد ہیں۔
ہ فتویٰ اس وقت کا ہے کہ جب ایران پر محمود افغان فرمانروائی کررہا تھا اور حالات بہت خراب تھے، عثمانی بادشاہ نے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجانے کے لئے اس وقت کو غنیمت سمجھ کر ایران پر حملہ کے لئے ایک عظیم لشکر روانہ کیا اور اپنے لشکر کے سردار کو یہ حکم دیا کہ محمود افغان سے کچھ نہ کہنا۔
قارئین کرام توجہ کریں کہ یہ فتویٰ صرف سپاہیوں کو گمراہ کرنے کے لئے صادر کیا گیا تھا۔
ہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ فتویٰ کتنا غیر اصولی، بے بنیاد اور دینی اور انسانی لحاظ سے کس قدر دور تھا عثمانی سپاہی اپنے علماء اور مفتیوں پر اعتقاد رکھتے تھے ،لیکن جب مقام عمل میں آئے تو پھر ان میں خود اس فتوے پر عمل کرنے کی طاقت نہیں تھی یعنی جس وقت ایرانی لوگوں اور ان کے اہل خاندان کو دیکھا تو ان میں کسی بھی ایسی چیز کو نہ پایا جس کی بنا پر اس فتوے میں اتنا شدید ردّ عمل دکھایا گیا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے ان ایرانیوں کو مرتد اور دین سے خارج شمار نہیں کیا۔
مندرجہ ذیل عثمانی مولف کے واقعہ سے ہماری بات کی تائید ہوتی ہے :
”عثمانی سپاہیوں نے راستہ میں ایک اصفھانی کاروان پر حملہ کردیااور شیخ الاسلام کے فتوے کے مطابق ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی علوی سادات سے اور شریف خاندانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو اسیر کرلیا، لیکن مذکورہ فتوے کے برخلاف ان عورتوں کو بہت پاک اوردیندار پایا یہاں تک کہ وہ اپنی حفاظت کے سلسلہ میں نامحرم پر نظر کرنے سے بھی سخت پرہیز کرتی تھیں، ان میں نجابت اورشرافت کی تمام نشانیاں واضح اورآشکار تھیں، ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے بعد وہ شش وپنچ میں پڑگئے کہ ایسی عورتوں کو کیسے اسیر کریں اور ان کو غلامی میں کیسے لے لیں، آخر کار ان کو بڑے احترام کے ساتھ کرمانشاہ میں پہونچادیا، اور وہاں کی ایک عظیم ہستی میرزا عبد الرحیم کے حوالے کردیا۔
اس طرح کے فتووں کا اثر عثمانی حدود سے باہر تک پہونچا اور ماوراء النھر (تاجکستان اور ازبکستان) تک پہونچ گیا، یہاں تک کہ قاچاریہ بادشاہوں کے زمانہ تک اس کا اثر باقی رہااور ماوراء النھر کے لوگوں نے بادشاہ عثمانی سے جس کو خلیفة الخلفاء کہا جاتا تھا یہ سوال کیا کہ کیا شیعہ لوگوں کو اسیر کرکے ان کی خرید وفروخت کرنا جائز ہے ؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر عثمانی اور ازبک سپاہ اور عوام الناس ایران کے لوگوں کو قریب سے دیکھتے تو اس کے برخلاف پاتے جو غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں نقش تھا۔
ایرانیوں کو حج سے روکنا
عثمانی بادشاہوں نے گذشتہ فتوے کے علاوہ بھی ایران کی دشمنی میں دوسرے کارنامے انجام دئے ہیں منجملہ یہ کہ۱۰۴۲ھ میں عثمانی بادشاہ نے ایرانیوں کو حج سے روکنے کا حکم صادر کردیا۔
اس حکم کو جاری کرنے کے لئے مکہ کے بازاروں میں یہ اعلان کرادیا گیا کہ اس سال آئے ہوئے ایرانی حجاج واپسی کے وقت اپنے برادران کو یہ اطلاع دیدیں کہ وہ آئندہ سال حج کے لئے سفر نہ کریں۔
صاحب تاریخ مکہ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں، کہ مجھے ایرانیوں کو حج سے روکنے کی وجہ معلوم نہ ہوسکی مگر وہ تاریخی واقعات جو اس زمانہ میں رونما ہورہے تھے، ایرانیوں نے ۱۰۳۳ھ میں بغداد کو عثمانی قبضہ سے آزاد کرالیا تھا اور ان کو شھر سے باہر نکال دیا تھا، یہاں تک کہ۱۰۴۲ھ میں سلطان مراد عثمانی نے پھر دوبارہ قبضہ کرلیا۔
شاید اس کی وجہ عثمانی بادشاہ اور ایرانیوں کے درمیان شدید اختلافات ہوں اور اسی وجہ سے ایرانی حجاج کو حج سے روکا گیا ہو۔
نادر شاہ اور شریف مکہ
۱۱۵۷ھ میں جس وقت ایران کے بادشاہ نادر شاہ افشارنے عثمانی سپاہ پر غلبہ پانے کے بعد عراق کو اپنے قبضہ میں لے لیا،تواس نے ایک عظیم الشان عالم دین کو اپنا خط دے کر امیر مسعود ،شریف مکہ کے پاس بھیجا، خط کا مضمون یہ تھا کہ عثمانی خلیفہ
نے اس بات کی موافقت کردی ہے کہ مکہ (مسجد الحرام) کے منبر سے ہمارے لئے دعا کی جائے اور وہاں پر ہمارے رسمی مذہب”جعفری“ کو مکہ میں آشکارکیا جائے، (یعنی تقیہ وغیرہ نہ کرنا پڑے) اور ہمارے امام جماعت مذاہب اربعہ کے برابر کھڑے ہوں۔ نادر شاہ نے اس خط میں شریف مکہ کو ڈرایا اوردہمکایا بھی تھا، شریف کو یہ بات بری لگی اور مکہ کے حالات خراب ہوگئے۔
جدّہ میں (عثمانیوں کی طرف سے) تُرک گورنر نے شریف مسعود سے درخواست کی کہ نادر شاہ کے نامہ بر کو اس کے پاس بھیج دے تاکہ اس کو قتل کردیا جائے، لیکن شریف نے یہ کام نہیں کیا، اور کہا کہ میں اس کو اپنے پاس رکھوں گا اور واقعہ کی تفصیل دار الخلافہ (اسلامبول) لکھوں گا، اور جیسا وہ حکم دیں گے ویسا ہی عمل کروں گا۔
شریف کے اس کام سے والی جدّہ راضی نہیں تھا اور اس کا گمان یہ تھا کہ شاید شریف شیعہ مذہب کی طرف رغبت رکھتا ہے، اور جیسے ہی شریف مسعود ،والی کے اس گمان سے باخبر ہوئے توالزامدور کرنے کے لئے حکم صادر کردیا کہ مسجد الحرام کے منبرسے شیعوں پر لعنت کی جائے۔
نجف میں نادر شاہ کے حکم سے مسلمانوں میں اتحاد کے لئے ایک عہد نامہ
تاریخ مکہ سے جو باتیں نقل ہوئیں ہیں ان کو مکمل کرنے کے لئے اور موقع کے لحاظ سے یھی مناسب ہے کہ سنی شیعہ اتحاد کے لئے نادر شاہ کے اس عہد نامہ کو بیان کیا جائے جو مذکورہ مقصد کے تحت نجف اشرف میں لکھا گیا اور سنی شیعہ علماء نے اس پر دستخط کئے، ہم نے اس مطلب کو ”یادگار“ نامی مجلہ شمارہ(۶)سال چھارم سے نقل کیا ہے:
نادر شاہ چونکہ صفویہ سلسلہ سے کینہ رکھتا تھا یا اس وجہ سے کہ ایرانی لوگ سنی مذہب قبول کرلیں، لہٰذا ایرانیوں،ترکیوں، افغانیوں میں مذہبی اتحاد قائم کرنا چاہتا تھا، چنانچہ اس نے ایرانیوں کو اہل سنت والجماعت سے قریب کرنے کی بہت کوشش کی، لہٰذا اس نے ماہ اسفند۱۱۴۸ھ ش، میں ایک جلسہ طلب کیا اور خود ہی اس کا صدر بھی بن گیا، اس جلسہ میں تمام ممالک سے آئے ہوئے نمائندوں کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:
” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ سے چاروں خلیفہ ،خلافت کرتے رہے، اور ہند وروم (عثمانی) اور ترکستان سب ان کی خلافت کے قائل ہیں، اور جس وقت اہل ایران آرام وآسائش کی خاطر ہماری سلطنت کی طرف رغبت کریں تو ان کو اہل سنت والجماعت کا مذہب قبول کرنا ہوگا “۔
اس جلسہ میں موجود تمام نمائندوں نے خوف کی وجہ سے اس حکم کو قبول کرلیا، اور اس مسئلہ کے بارے میں ایک عہد نامہ پر سب لوگوں نے دستخط کر دئے، اور یہ عہد نامہ نادری خزانہ کے سپرد کردیا گیا۔
نادر شاہ نے اس عہد نامے کو اپنے سفیر کے ذریعہ سلطان عثمانی کے پاس بھیجا، اور اس کو پانچ پیش کش کیں، کہ اگر اس نے قبول کرلیا تواس سے صلح ہوجائے گی:
۱۔ قضاة، علماء اور دربار ی حضرات، حضرت امام جعفر صادق ں کی تقلید کو پانچویں مذہب میں شمار کریں (یعنی شیعہ مذہب کو بھی مذاہب اربعہ کے ساتھ شامل کریں اور مذاہب خمسہ کھیں)
۲۔ مسجد الحرام میں ارکان اربعہ، مذاہب اربعہ کے اماموں سے مخصوص ہیں، شیعہ مذہب کو بھی کسی ایک رکن میں شریک کیا جائے اور اس مذہب کا امام بھی وہاں نماز پڑھائے۔
۳۔ ہر سال ایران کی طرف سے امیر حج معین ہو جو مصر اور شام کے طریقہ سے ایرانی حجاج کو مکہ پہونچائے اور عثمانی حکومت، ایرانی امیر حاج کے ساتھ مصر اورشام کے امیر حاج جیسا سلوک کرے۔
۴۔ دونوں حکومتوں کے اسیر مکمل طریقہ سے آزاد کئے جائےں اور ان کی خرید وفروخت ممنوع قرار دی جائے۔
۵۔ دونوں حکومتوں کا ایک ایک نمائندہ ایک دوسرے کے پائے تخت میں ہونا چاہئے تاکہ دونوں مملکت کے مسائل مصلحت کے تحت انجام پائےں۔
عبد الباقی خان زنگنہ کے ذریعہ یہ پیش کش ربیع الاول۱۱۴۹ھ استامبول پہونچی عثمانی درباریوں نے جعفری مذہب کو پانچواں مذہب ماننے اور خانہ کعبہ کے ارکان اربعہ میں ان کے امام کو نماز پڑھانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا، تو نادر شاہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود زبردستی ان کو قبول کروائے گا، اور عثمانی حکومت پر حملہ کی غرض سے اپنے توپ خانہ کو کرمانشاہ کے لئے روانہ کردیا۔
اسی زمانہ میں احمد پاشا، والی بغداد (عثمانیوں کی طرف سے) نے اطاعت کا اظھار کیا اسی بناپر نادر شاہ نے نجف، کربلا اورحلہ پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے لشکر کو روانہ کیا جس نے آسانی سے ان شھروں پر قبضہ کرلیا، اسی طرح کرکوک اور موصل شھروں کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، یہ دیکھ کر عثمانی حکومت کو بھی صلح کے لئے تیار ہونا پڑا، اور طے یہ ہوا کہ مذہبی مسائل اور ان کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے دوبارہ گفتگو کی جائے، اس کے بعد نادر شاہ شوال ۱۱۵۶ھ میں عتبات عالیہ کی زیارت کرنے کے لئے آمادہ ہوا اور نجف ،کربلا اور کاظمین کی زیارت کی اور بغداد میں ابوحنیفہ کی قبر کی بھی زیارت کی، اس کے بعد کربلا، نجف، حلّہ، بغداد اور کاظمین کے شیعہ سنی علماء کو نجف میں بلایا، تاکہ اپنے ساتھ لائے ہوئے ایران، بلخ، بخارا اور افغانستان کے علماء کے ساتھ بحث وگفتگو اور اختلافی مسائل کو حل کریں۔
گفتگو(۲۴)شوال۱۱۵۶ھ کو تمام ہوئی، اور ایک عہد نامہ لکھا گیا جس کو میرزا مہدی خان منشی الممالک نادر (مولف درہ نادرہ، اور جھان گشائے نادری)نے لکھا اور اس پر دونوں فریقین کے علماء نے دستخط کیا۔
اس عہد نامے کی ترتیب اور تصدیق اس طرح تھی کہ پہلے علمائے ایران نے اس تحریر پر مھر لگائی اس کے بعد عتبات عالیہ کے (شیعہ سنی) علمائے نے مھر لگائی، اس کے بعد علمائے ماوراء النھر اور اس کے بعد علمائے افغان نے مھر لگائی اور سب سے آخر میں بغداد کے مفتی نے ایرانیوں کے اسلام کی تصدیق کی۔
عہد نامہ کی پوری تحریر ”جھان گشائے نادری “میں موجود ہے، لیکن اس عہد نامہ کی تفصیل عبد اللہ بن حسین سویدی بغدادی جو خود مذکورہ شیعہ سنی مناظرہ میں شریک تھے اور اس عہد نامہ پر دستخط بھی کئے تھے، انھوں نے اپنی دو کتابوں میں اس عہد نامے کی تفصیل بیان کی ہے، پہلی کتاب ”النفحہ المسکیة فی الرحلة المکیہ“ اوردوسری کتاب ”الحجج القطعیة لا تفاق الفرق الاسلامیہ“ یہ دونوں کتابیں مصرمیں چھپ چکی ہیں۔
اس عہد نامہ کی ایک کاپی حضرت امیر المومنین ں کی ضریح میں رکھ دی گئی، اور اس کی دوسری کاپیاں اسلامی ممالک بھیج دی گئیں، لیکن اس وقت کے چاپ شدہ نسخوں اور اس کتاب (جھان گشائے نادری) کے قلمی نسخے کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور ہم (مدیر مجلہ یادگار اور صاحب مقالہ مرحوم عباس اقبال) نے ان دونوں نسخوں میں فرق پایا ہے یعنی چاپ شدہ مقالہ میں بہت سی چیزیں کم ہیں، مثلاً ایران، عراق، عرب، افغانستان اور ترکستان علماء کے نام اس کتاب (جھان گشائے نادری) میں نہیں ہے، دوسرے یہ کہ علمائے عراق کی تصدیق اصل عہد نامے سے مخلوط ہوگئی ہے، تیسرے یہ کہ افغانی علماء کی تصدیق اس میں نہیں ہے اسی طرح احمد پاشا ،والی بغداد کی تصدیق اور مفتی بغداد آفندی یاسین کی مھر اور دستخط بھی اس میں موجود نہیں ہے۔
ہم ارے (عباس اقبال) فاضل دوست آقای حاج” محمد آقا نَخْجَوانی“ جن کو طلب علم کا بہت شوق تھا انھوں نے اس عہد نامہ کو مکمل طور پر نقل کیا اور نشر کے لئے ہمارے مجلہ یادگار کو دے دیا۔
مذکورہ عہدنامہ کا مکمل نسخہ، حاج محمد آقا نخجوانی کے نسخہ سے ان علماء کے نام ،عہدہ ومنصب اور مھر کے ساتھ ہمارے مجلہ یادگار میں تقریباً
صفحات پر مشتمل چھپ چکا ہے، علماء کے نام اس طرح لکھے گئے ہیں، جائے مھر میرزا بھاء الدین محمد، کرمان کے شیخ الاسلام، یا جائے مھر سید حسینی، پیشنماز کاشان، جائے مھر میرزا ابوالفضل ،شیخ الاسلام قم، جائے مھر دخیل علی، قاضی کربلا، جائے مھر ملا حمزہ، شیخ الاسلام افغانستان، جائے مھر محمد باقر، عالمِ بخاراتاآخر۔
قارئین کرام!آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اکثر علماء کا عہدہ شیخ الاسلام ہے اور بہت ہی کم ایسے علماء ہیں جو پیشنماز یا قاضی رہیں۔
لیکن عثمانی مولفین نے اس واقعہ کی تفصیل دوسرے طریقہ سے بیان کی ہے، چنانچہ شیخ رسول کرکوکلی کہتے ہیں کہ نادر شاہ نے ”دشت مغان“ میں ایک بہت بڑی انجمن تشکیل دی، جس میں شیعوں کی حمایت کی اور اپنے کو شیعوں کا مدافع (دفاع کرنے والا) کہا، لیکن کرد، داغستان، ساکنان کوہستان (کوہستان سے کیا مراد ہے یہ معلوم نہیں ہوسکا) اور افغانستان کے سبھی لوگ اس سے ناراض تھے، جس کے نتیجہ میں اس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا، اور اس گہم سان کی لڑائی میں جو نادر شاہ سے ہوئی نادر شاہ کے سپاہیوں کو شکست ہوئی اور بہت نقصان ہوا، نادر شاہ نے فریقین کا دل رکھنے کے لئے مرقد ابوحنیفہ، علی مرتضی (ں) امام حسین (ں) امام موسیٰ کاظم (ں) کے لئے بڑے قیمتی ہدایا اور تحائف بھیجے، اور یہ بھی اعلان کیا کہ اذان پانچ مرتبہ کھی جائے، اور جملہ ”حی علی خیر العمل“اذان سے نکال دیا جائے،ایساكُردیوںاور افغانیوں کا دل رکھنے کے لئے کیا، اور اس نے عثمانی سلطان کے لئے بہت سے ہد ایا اور تحائف بھی بھیجے۔
اس کے بعد کر کوکلی صاحب کہتے ہیں کہ نادر شاہ نے جنگ کے بعد ایک بار پھر دشت دمغان میں علماء کو جمع کیا تاکہ ان میں موجود اختلافات کو حل کیا جاسکے، جس کے نتیجے میں بادشاہ کی حقیقی طور پر بیعت اور اس کی حمایت ہوئی۔
اس کے بعد نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور سلطان محمد (تیموری خاندان کا حاکم) پر غلبہ حاصل کیا اور اس سے خراج لینا طے کیا، اس کے بعد ترکستان، افغانستان، بلخ اور بخارے پر قبضہ کیا، اور ان لوگوں نے عثمانی سلطان سے جو عہد وپیمان کیا تھا اس کو توڑوا ڈالا، اور یہ ظاہر کیا کہ روم (یعنی حکومت عثمانی) پر بغداد کی طرف سے حملہ کرنے والا ہے چند افراد کو احمد پاشا والی بغداد کے پاس بھیجا، تاکہ اس کو اطلاع دے، اور احمد پاشا نے اس لحاظ سے کہ وہ اس کا مہم ان ہے اس کے گذرنے اور وہاں توقف کرنے کی اجازت دیدی، اس وقت نادر شاہ نے کئی ہزار سپاہیوں کو کہانے پینے کا سامان لانے کے لئے بھیجا، اور اس طرح بغداد کا محاصرہ کرلیا، خلاصہ یہ کہ اس نے متعدد حملوں کے بعد پورے عراق پر قبضہ کرلیا، اور اس کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کرنے کے لئے گیا اور حضرت علی کے روضہ کی مرمت اور گنبد پر سونے کے پانی سے زینت کرنے کا حکم دے دیا اور اس کے بعد کربلائے معلی پہونچا اور یہ ظاہر کیا کہ میں تو اہل سنت سے تعلق رکھتا ہوں، اور احمد پاشا کو خط لکھا کہ کسی اہل سنت عالم دین کو بھیج تاکہ شیعہ علماء سے مناظرہ کرے، اور دونوں فرقوں کے درمیان موجود اختلافات ختم ہوجائیں، لہٰذا احمد پاشا نے عبد اللہ سویدی جو ان مسائل میں مھارت رکھتے تھے اور اس کے مورد اعتماد بھی تھے اس کام کے لئے انتخاب کیا۔
سویدی صاحب نے اپنے سفر کی تفصیل کتاب ” النفحة المکیہ والرحلة الملکیہ“۶۹۲ میں لکھی ہے ،اورکرکوکلی نے اسی کتاب سے نقل کیا ہے، منجملہ یہ کہ جس وقت میں نجف میں نادر شاہ کے حضور پہونچا تو اس نے مجھے خوش آمدید کہا، مجھے اس کی عمر ۸۰سال کی لگی، اور پروگرام کے مطابق یہ اجتماع حضرت علیں کے روضہ میں ہو، اس کے بعد کرکوکلی نے سویدی سے ذکر ہوئے ناموں کو اس طرح لکھا کہ ایرانی علماء میں سے علی اکبر ملا باشی ،وغیرہ وغیرہ تھے۔
افغانستان کے علماء میں سے شیخ فاضل ملا حمزہ قلی جائی، جوافغانستان میں حنفی مفتی تھے، اور وہاں کے دیگر علماء کے نام اور ان کے عہدے بھی لکھے ہیں۔
اس کے بعد علمائے ماوارء النھر کے نام ہیں جن کی تعداد سات تھی اور یہ لوگ سویدی کے داہنی طرف بیٹھے تھے اور اس کے بائیں طرف(۱۵)شیعہ علماء تشریف فرما تھے۔
اس وقت ملا باشی نے ایک تقریر کی اور سویدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ علمائے اہل سنت کے فاضل علماء میں سے ہیں، اور نادر شاہ نے احمد پاشا سے یہ چاہا کہ انھیںہم ارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے بھیجے اور شاہ کی طرف سے وکیل بنا یا گیا کہ جو بھی اس اجتماع میں طے پائے اس پر عمل کیا جائے، کرکوکلی صاحب نے سویدی سے نقل کرتے ہوئے علماء کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیل بھی بیان کی ہے، چنانچہ اس گفتگو کا نتیجہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اہل سنت علماء نے اس بات کی تصدیق کی کہ شیعہ لوگ، مسلمان ہیں، اور ان کا نفع ونقصان ہمارا نفع ونقصان ہے، یہ طے کرنے کے بعد سب لوگ اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے لگے اور یہ کہتے جاتے تھے: ”اہلاً باخی“(میرے بھائی خوش آمدید)۔
اس کے دوسرے دن بھی مذکورہ جگہ پر جمع ہوئے اور ایک جریدہ تیار کیا گیاجس کی لمبائی(۷)بالشت سے زیادہ تھی اور اس کے دو حصوں پر عہد نامہ لکھا گیا، ملا باشی نے آقا حسن مفتی سے کہا کہ کوئیایسا شخص اس کو پڑھے جو فارسی زبان جانتا ہو۔
کرکوکلی صاحب نے اس عہد نامے کو عربی زبان میں لکھا ہے اور سویدی کے بعض اعتراض بھی لکھے ہیں، نیز اس کے قول کو نقل کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں جنھوں نے اس پر اپنی مھر لگائی ہے، اوراس کے بعد سونے کے ظروف میں جو جواہرات سے مزین تھے، مٹھائی لائی گئی، اس کے بعد مجھے شاہ کے پاس لے گئے (سویدی نے اپنی کتاب میں ان باتوں کو ذکر کیا ہے جو اس کے اور شاہ کے درمیان ہوئی ہیں)اور اس نے احوال پرسی، کے بعد کہا:
”کل جمعہ ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز جمعہ کو مسجد کوفہ میں پڑھوں، اور میں نے فرمان دیدیا ہے کہ صحابہ کے نام بڑے ادب واحترام کے ساتھ اسی ترتیب سے ذکر کئے جائیں جس طرح کہ طے ہوا ہے، اور میں نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ بھائی سلطان آل عثمان کے لئے دعا کی جائے اوراس کے بعد مختصر طور پر ہمارے لئے بھی دعا کی جائے، اورگویا یہ سلطان عثمانی کے احترام کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ سلطان بن سلطان ہے، جبکہ میرے باپ دادا میں کوئی سلطان نہیں تھا،
قارئین کرام!ہم نے جو کچھ کرکوکلی کی باتوں کو خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے اگرچہ بعض تاریخی چیزیں غلط اور اشتباہ ہیں لیکن پھر بھی بہت سے اہم تاریخی نکات اس بیان میں موجود ہیں، خصوصاً اگر ان تمام باتوں کی تحقیق کی جائے۔
مذکورہ مطلب سے متعلق چند نکات
ہ بات تاریخی اعتبار سے مسلم ہے کہ نادر شاہ نے شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد اور دوستی قائم کرنے کے لئے بہت کوشش کی، لیکن سلاطین عثمانی کی دشمنی اور عناد اس قدر زیادہ تھی (جیسا کہ بعض نمونے بیان بھی ہوئے ہیں) کہ نادر شاہ کی کوشش ثمر بخش نہ ہوسکی۔
چنانچہ یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے:
پہلا نکتہ یہ کہ تاریخ شیعہ میں چاہے صفویہ زمانہ ہو یا دیگر زمانہ، کوئی بھی ایسا شیعہ عالم نہیں مل پائے گا جس نے اسلامی فرقہ سے جنگ کو جھاد کا نام دیا ہو، یا کسی ایک اسلامی سر زمین کو دار الحرب کا نام دیا ہو، یا اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کو کافر کہا ہو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عثمانی علماء جو بھی فتویٰ دیتے تھے وہ حکومت کے اشارہ اور اس کے حکم سے ہوتا تھا جبکہ شیعہ تاریخ میں کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ کسی بادشاہ کے اشارے پر کسی عالم دین نے کوئی فتویٰ دیا ہو، یا کسی شیعہ عالم دین نے بغیر سوچے سمجھے یا صرف تعصب اور اپنے احساسات یا قومی جذبات کی بناپر کوئی فتویٰ دیا ہو۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ عثمانی حکومت کے علماء اور طلاب، شیعوں کی معتبر کتابوں، تفسیر، فقہ وحدیث، اور کلام وغیرہ سے بہت کم آشنائی رکھتے تھے، اور شاید ان میں سے بہت سے لوگ یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ شیعوں کی فقہ کتنی وسیع اور اصیل (خالص) ہے،
جب کہ اس کے برعکس قضیہ صادق ہے یعنی شیعہ علماء اور طلاب عمومی طور پر دیگر اسلامی مذاہب کی کتابوں سے بخوبی اطلاع رکھتے ہیں، ایران مذہب شیعہ کا مرکز ہے،لیکن کبھی بھی دیگر مذاہب کی کتابوں کے مطالعہ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
آج یہ بات سب پر واضح اورآشکار ہے کہ ایران کی کتابفروشی (بک ایجنسی) اور کتب خانوں میں تمام اسلامی مذاہب کی کتابیں موجود ہیں اور کوئی بھی ان کا مطالعہ کرسکتا ہے، اس کے علاوہ تھران یونیورسٹی میں حنفی اور شافعی فقہ پڑھائی جاتی ہے کیونکہ ایران میں یہ دو مذہب موجود ہیں، مطلب یہ ہے کہ اگر عثمانیوں کے پاس شیعہ کتابیں ہوتیں اورصرف حقیقت حال سے اطلاع کے لئے ان کی تحقیق کرتے تو پھر شیعہ مذہب کی حقیقت سے باخبر ہوجاتے، نہ یہ کہ بعض اہل غرض کی تہم توں اور گمان کی بنا پر شیعوں کے بارے میں کچھ کہتے۔
نتیجہ
مذکورہ مطلب کو بیان کرنے کا نھائی (آخری) مقصد یہ ہے کہ ۱۰۸۸ھ میں ایرانی حجاج کا قتل عام اور اسی طرح دوسرے واقعات کے پیش نظر، یہ بات مسلّم ہے کہ صفویہ سلطنت کے شروع میں حکومت عثمانی کے وسیع علاقوں میں خصوصاً حرمین شریفین میں ایرانیوں سے دشمنی کو ہوا دی جاتی تھی اور طرح طرح کی ناروا اور جھوٹی تہم تیں لگاکر عثمانیوں کو دشمنی کے لئے ابھارا جاتا تھا، ان تہم توں میں سے ایک نمونہ ابو طالب یزدی کا واقعہ تھا اور اس تہم ت کی وجہ سے بہت سے ایرانی حجاج کا خون بھایاگیاہے۔
عبد العزیز کی موت
سلطان عبد العزیز اپنی عمر کے آخری دس سالوں میں بالکل اپاہج ہوگیا تھا (یعنی چلنے پھرنے کی بھی طاقت نہ تھی)اور ویلچر کے ذریعہ ادہر ادہر جاتا تھا اور قلبی اور مغزی بیماری میں بھی مبتلا ہوگیا تھا، ۱۹۵۳ء میں گرمی کا زمانہ طائف میں گذارنا چاہا، طائف کی آب وہوا معتدل اور بہت اچھی ہے لیکندریا سے اس کی اونچائی ۱۲۰۰ میٹر ہے اس وجہ سے یہ بات اس کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں تھی اس کی حالت اور بگڑتی گئی اس کے مخصوص ڈاکٹر کے علاوہ جرمنی کے کئی ڈاکٹر بھی اس کے علاج میں لگے ہوئے تھے لیکن کسی کا بھی علاج کارگر نہ ہوا، اور دوم ربیع الثانی ۱۳۷۳ھ کواس دنیا سے رخت سفر باندہ لیا، اس کے جنازے کو ہوائی جھاز کے ذریعہ ریاض لایا گیا اور وھیں پر دفن کر دیاگیا۔
ابن سعود کا اخلاق اور اس کی بعض عادتیں
”امین محمد سعید” جو ابن سعود سے آشنا افراد میں سے تھے اور اس کے اخلاق اورعادتوں سے بڑی حد تک آشنائی رکھتے تھے، انھوںنے ابن سعود کے اخلاق صفات اور روزانہ کے پروگرام کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ابن سعود ایک بلند قامت اور صحت مند انسان تھا منھ بھی بہت بڑا تھا اور جب غصے میں بولتے تھے تو ان کے منھ سے کف(جھاگ) نکلتا تھا، چھرہ کا رنگ گندمی اورتھوڑاکالا تھا، اس کی داڑھی کم اور ھلکی تھی اس کی ایک آنکھ میں تکلیف تھی اسی لئے خط یا کتاب پڑھتے وقت چشمہ کا استعمال کرتا تھا، یا اس خط کو آنکھوں سے بہت قریب کرکے پڑھتا تھا، ابن سعود کے لئے خط پڑھنا بہت مشکل تھا، اس کے بدن میں بہت سے زخموں کے نشان پائے جاتے تھے، اور اس کی ایک انگلی فلج تھی۔
اپنے سر پر کوفیہ اور عقال باندہتا تھا اور سفید اور لمبا لباس پہنتا تھا، اور اس کے نیچے ایک پاجامہ بھی ہوتا تھا اور ان کپڑوں کے اوپر ایک عبا بھی ہوتی تھی۔
اسے اعتراف تھا کہ ہم نے علوم (دنیاوی تعلیم) نہیں حاصل کی ہے جو لوگ دنیاوی تعلیم یافتہ ہیں ان کو چاہئے کہ اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں۔
اور کبھی بھی کوئی تقریر کرنا ہوتی تھی توخطباء کی روش اور عربی کے قواعد کی رعایت نہیں کرتاتھا، نجدی لہجہ میں گفتگو کرتا تھا اور اکثر اس کی تقریریں مذہبی پہلو رکھتی تھیں اور اپنی تقریروں میں احادیث نبوی اور قرآنی آیات کو شاہد کے طور پر پڑھا کرتا تھا، بیٹھ کر تقریر کیا کرتا تھا، انگشت شھادت اور اس کے ھاتھ میں موجود چھوٹے سے عصا کے ذریعہ اپنے مفہوم کو سمجھانے کے لئے اشارہ کیا کرتا تھا۔
ابن سعود غصہ کے عالم میں بھی ملائم اور نرم مزاج تھا، اور ضرورت کے وقت سنگدل اور غصہ ور تھا، وہ جانتاتھا کہ کہاں پر تلوار کا کام ہے اورکہاں پر بخشش اور احسان کا۔
جس وقت دشمن پشیمانی کا اظھار کرتے تھے وہ ان کو بخش دیتا تھا اور پھر ان کو بہت سا مال دے کر اس کو بلند مقام عطا کرتا تھا، اس کی دور اندیشی اور شدت عمل کا نتیجہ یہ تھا کہ ملک میں بے مثل امن امان قائم ہوگیا کہ ہر شخص اپنی جان ومال کو محفوظ سمجھتا ہے اور اطمینان سے رہتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی بیداری اور مجرمین ،راہزنوں اور ظلم وستم کرنے والوں کے بارے میں بہت سخت مزاجی تھی اور ان پر کسی طرح کا کوئی رحم نہیں کرتا تھا اور ان کے بارے میں کسی کی کوئی سفارش بھی قبول نہیں کرتا تھا۔
(لہٰذا ان سب کا خاتمہ کرکے امن وامان قائم کردیا)
ابن سعود عربی اخبار خصوصاً مصری اخبار پر بہت زیادہ توجہ رکھتا تھا اور جو کچھ مصری اخباروں میں اس کے ملک کے سلسلہ میں لکھا ہوتا تھا اس کو غور سے پڑھا کرتا تھا، وہ اکثر عربی اخباروں اور مجلوں اور لندن سے منتشر ”ٹائمز“ اخبار کا ممبر تھا، اور اس کے پاس کئی ایسے مترجم تھے جو انگریزی اور ہندی اخباروں میں سے ان خبروں کا ترجمہ کرکے پیش کرتے تھے جو ان کے عرب ممالک اور حجاز کے بارے میں ہوتی تھی۔
ابن سعود کے زمانہ میں ہی نجد اور حجاز کے جوانوں کا سب سے پہلا گروہ دنیاوی تعلیم کے لئے مصر اور یورپ کے لئے گیا، ۱۹۲۷ء میں ان افراد کی تعداد(۱۶)تھی۔
اسی طرح اس کے زمانہ میں لوگوں کو گاڑیوں (موٹرس) پر چلنے کی اجازت ملی جبکہ اس سے پہلے ممنوع تھی۔
ابن سعود کے بعد آل سعود کی حکومت
عبد العزیز کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے جمع ہوئے اور اس کے ولیعہد ملک سعود کی سعودیہ کے بادشاہ کے عنوان سے بیعت کی، بیعت کے بعد ملک سعود نے اپنے بھائی امیر فیصل کو اپنا ولیعہد مقرر کیا۔
ملک سعود کی بیعت کا پروگرام مکہ معظمہ میں رکھا گیا اور اس نئے بادشاہ سے بیعت کرنے کے لئے مختلف علاقوں سے تقریباً ہزاروں لوگ جمع ہوئے، چنانچہ اہل مکہ نے علماء اور قضات اور اہم شخصیات کے ساتھ ایک تاریخی عہد نامہ لکھا جس میں شرعی طور پر بیعت کی گئی تھی۔
مذکورہ عہد نامہ کی تحریر اس طرح ہے:
”یا امام المسلمین
الملک سعود بن عبد العزیز بن عبد الرحمٰن الفیصل آل سعود المتوفی یوم الاثنین(۲)ربیع الاول سنة۱۳۷۳
قد عهد الامانة من بعده الیکم واخذت لکم البیعة فی عام ۱۳۵۲ فان امامتکم بذالک منعقدة وثابتة شرعاً، واننا بمناسبة وفاة والدکم عبد العزیز وتولیکم امامة المسلمین من بعده نجدد ونوکد بیعتکم اللتی فی اعناقنا علی العمل بکتاب اللّٰه وسنة رسوله، واقامة العدل فی کل شئي وتحکیم الشریعة الاسلامیه ولکم علینا السمع والطاعة فی العسر والیسر والمنشط والمکره، ونسال اللّٰه لکم العون والتوفیقفیما حملتم من امور المسلیمن وان یحقق علی ایدیکم ما ترجوه الامة الاسلامیة من مجد وتمکینٍ“
چنانچہ ان تمام باتوں کے بعد مفتی بزرگ کی ریاست میں ریاض اور دیگر شھر و دیھات کے علماء نے ابن سعود کے ھاتھوں پر بیعت کی اور اس کی اطاعت کرنے کے بارے میں اقرار کیا۔
۵ربیع الاول ۱۳۷۳ھ پنجشنبہ کو غروب کے وقت ابن سعود مسجد الحرام گیا اور نماز مغرب کی نماز جماعت قائم کرنے کو اپنے ذمہ لیا، اور اس کے بعد خانہ کعبہ کا طواف بجالایا، اوردعا کی، نیز ایک تقریر کی جس میں اپنی حکومت کے منصوبوں کو چاہے وہ اندرونی ہوں یا بیرونی سب لوگوں کے سامنے بیان کئے۔
ملک سعود نے اپنی سلطنت کے زمانہ میں اپنے ملک کی ترقی کے لئے بہت کوششیں کیں، بہت سے مدرسے اور ھاسپیٹل، بہت سی سڑکیں اور پل وغیرہ بنائے۔
ابن سعود کے اہم کاموں میں سے مسجد الحرام اور مسجد النبی میں توسیع کرنا ہے جس میں ان دونوں مسجدوں کے قرب وجوار کی زمینیں خرید کر مسجدوں سے ملحق کردی، اور دونوں مساجد کے چاروں طرف بڑی بڑی سڑکیں بنوادیں، اس طرح سے کہ اب کوئی بھی عمارت مسجد کی دیوار سے ملی ہوئینھیں ہے ۔
مسجد النبی کی توسیع شوال ۱۳۷۰ھ میں شروع ہوئی اور ابن سعود کے زمانہ میں مکمل ہوئی، چنانچہ اس توسیع اور مرمت کے بعد اس مسجد کی وسعت ۱۶۳۲۷ میٹر ہوگئی ہے۔
اسی طریقہ سے ابن سعود کے زمانہ میں ڈرائیورنگ کے قوانین کا بنانا بھی ہے، اوروہ بھی اس طرح کہ اگر کوئی ان قوانین کی خلاف ورزی کرے تو اس کو ایک سال قید کی سزا ہے، اور اگر کسی ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے کوئی شخص مرجائے تو اس کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے، چنانچہ ان سخت قوانین نے تمام سیاسی لوگوں اور ڈپلومیٹ کو خوف ووحشت میں ڈال دیا تھا۔
۱۹۶۱ء مطابق۱۳۸۱ھ ملک فیصل جو ابن سعود کا ولیعہد اور رئیس الوزراء بھی تھا وہ بادشاہ کا قائم مقام ہوگیا اور ایک مدت کے بعد شورائے مشایخ اور مختلف قبیلوں کے سردار اورعلماء کی پیشکش پر بادشاہت کے تمام اختیارات اس کو دیدئے گئے۔
نومبر ۱۹۶۴ء وزیروں کی کابینہ اور قبائل کے روسا اور شیوخ کی پیش کش اور علماء کے فتاویٰ کے مطابق سعودیہ کے بادشاہ کے عنوان سے اس کی بیعت کی گئی۔
____________________