آٹھواں باب:
جمعیة الاخوان یا انجمن امر بالمعروف و نھی عن المنکر
تاریخ وہا بیت کے آخری دور میں ”جمعیة الاخوان“نے دینی احکام اجراء کر نے میں اہم کردار ادا کیا ہے لہٰذایہ مناسب معلوم ہوا کہ اس انجمن کے بارے میں اس کتاب میں ایک مستقل باب کا اضافہ کردیا جائے تا کہ ہما رے قار ئین کو اسکے اکناف وجوانب سے بخوبی آشنائی پیداہو سکے ۔
”جمعیة الاخوان“ کی ابتداء کے اسبا ب کے بارے میں صلاح الدین مختار کا بیان ہے کہ ۔ ملک عبدالعزیز آل سعود نے جب یہ دیکھا کہ انکی قوم صحرا میں پر اکندہ ہے اور یہ لوگ بہت جلد لڑائی جھگڑے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور معمولی سے معمولی بات پر فساد شروع کردیتے ہیں تو انھیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ کسی طرح اس جاہل اور جھگڑالو قوم کو متحد کیا جائے اور اپنے اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ صورت نکالی کہ اس سلسلہ میں دین سے بھتر کوئی طریقہ کا ر نہیں ہے لہٰذا ان کے درمیان دینی احکامات رائج کر کے ہی انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکتا ہے ۔
ابن سعود نے اپنے اس منصوبہ کو کامیاب کرنے کے لئے نجدکے ایک عالم شیخ عبداللہ بن محمد بن عبد اللطیف سے یہ خواہش ظاہرکی کہ وہ حنبلی مذہب کے مطابق کچھ دینی کتا بیں لکھیں جن کی زبان اتنی سادہ اور عام فہم ہو کہ یہ بدو (صحرانشین عرب)ان کو باآسانی پڑھ کر سمجھ سکیں، ابن سعودنے اسی طرح شیخ عبداللہ کے بعض شاگردوں کو خطیب اور مبلغ کی حیثیت سے ان قبیلو ں کے درمیان بھیجااور انھوں نے اسی طرح سادہ اور واضح طریقہ سے بدووں کے درمیان دینی احکاما ت بیان کئے جنھیں وہ دل وجان سے یاد رکھتے تھے اور اس طرح تما م بدووں کے درمیان دینی رابطہ کی بنا پر الفت پیدا ہو گئی اور انھیں اسباب کے نتیجہ میں انجمن الا خوان وجود میں آئی ۔
یہ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب خود صحرانشین بدو، آل سعود اور آل رشید کی خونریزیوں سے تنگ آچکے تھے اور وہ بھی اس سے کسی طرح اپنی جان چھڑا کر ایک نئی زندگی کی طرف بڑھنا چاہتے تھے لہٰذا وہ مذکورہ تعلیمات کے لئے آمادہ اور تشنہ تھے،یعنی ایسی تعلیمات جو ان کوخونریزی سے روکے، اور امن واتحاد کی طرف دعوت دے، چنانچہ یہ تعلیمات ان کے اوپر بہت اثرانداز ثابت ہوئی کیونکہ وہ قوم،جو جنگل راج کی بدترین تاریکی میں پڑی ہوئی تھی اور چھ ماہ یا سال بھر میں ایک بار بھی نھانے کی عادی نہ تھی، اب صفائی اور طھارت کی طرف سخت تو جہ دینے لگی تاکہ حدیث شریف نبوی” النظافة من الایمان“ یعنی صفائی ایمان کا ایک حصہ ہے، اس پر بخوبی عمل کرسکے ۔
وہ بدّو جو اب تک لوٹ مار اور قتل وغارت گری کوھی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے اب مسلسل ان کی زبان پر یہ دعا جاری تھی : ” اللہم اغننا بحلالک عن حرامک“خدا یا ہمیں اپنی حلال چیزوں کے ذریعہ اپنے محرمات سے مستغنی کردے، چنانچہ اس طریقہ کار کی بنا پر ایک کم نظیر امن وامان قائم ہوگیا اور پھر صورت حال بدل کر یہ ہوگئی کہ اگر کسی کوکوئی چیزیا نقدی وغیرہ راستہ ،جنگل یا کسی اور جگہ دکھائی دیتی تھی تو وہ فوراً پولیس کو ا س کی اطلا ع دیتا تھا۔
بدّو تیزی کے سا تھ شھروں کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئے البتہ اس وجہ سے ان کے اندر دینی تعلیمات اور افراط وتفریط نے جنم لیا، جو ابن سعود کی ناراضگی کا سبب قرار پایا اور ملک ابن سعودنے اس کی روک تھام کے لئے علماء سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ”جمعیة الاخوان“کو ایک خط لکھیں اور انھیں خلاف شریعت کاموں، نیزبے جا تعصبات سے باز رکھیں، خود ملک نے بھی ا پنی طرف سے ان کے لئے ایک پُر زوربیان جاری کیا۔
حافظ وھبہ”جمعیة الاخوان“کے بارے میں کھتے ہیں: جب کبھی عراق، مشرقی اردن یا کویت میں جمعیةالاخوان کانام لیا جاتاتھا تو لوگوں پر خوف وھراس طاری ہوجاتا تھا،اور سب لو گ قلعوں یا برجوں کے اندر پناہ لے لیتے تھے عربی ممالک میں خوف و ھراس کون پھیلا تا ہے؟
گذشتہ چند دہائیوں تک الاخوان ان بدووں کو کہا جاتاتھا جنھوںنے خانہ بدوشی کو تر ک کرکے کسی مستقل جگہ سکونت اختیار کرلی اور گارے مٹی سے اپنے لئے گھر بھی بنالئے جنھیں حجرہ کہاجاتاہے گویا وہ اس ابتر زندگی سے اچھی زندگی کی طرف آگئے خیموں کی جگہ یہ مٹی کے گھر پہلی بار ۱۳۳۰ھ میں بنائے گئے جن میں رہنے والے افراد چند مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے ان اعراب نے گذشتہ زندگی کو جاہلیت اور موجودہ جدید دور کو اسلام کا نام دیا ۔
سنٹ زان فیلبی (عبد اللہ)نے ”جمعیة الاخوان“ کی ابتد ا کے بارے میں اس طرح لکھا ہے جو لوگ ابن سعود کی طرف سے لوگوں کی رہنمائی و ہدایت اور دین کی طرف را غب کرنے نیزعذاب آخرت سے ڈرانے کے لئے جگہ جگہ تبلیغ کرنے جاتے تھے ان کی یہ کوشش۱۹۱۲ ء مطابق۱۳۳۱ ھ میں نتیجہ خیز ثابت ہوئی اس سال حرب ومطیر نامی قبیلوں کے کچھ لوگوں نے (حرمانامی علاقہ میں (نجد کے قریب) ایک اجتماع کیا ۔
یہ جماعت ابتدا ء میں جس کی کل تعداد(۵۰)افراد سے زیادہ نہ تھی انھوں نے اپنا نام ”جمعیة الاخوان“طے کیا اور اپنا صدر دفتر کویت سے قسیم جانے والی سڑک پر (نجد کے اہم علاقہ میں )بنایا، اور آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ،اور دین کے نام پر ایک مکمل فوج تیار ہو گئی ۔
ابن سعو د کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسی انجمن کے ذریعہ ایک بے باک اور نڈر فوج تیار کی جائے، لہٰذا ملک سعود نے ان کے لئے ہر قسم کے وسائل مھیا کئے جیسے مال و دولت، پہل، کھیتی باڑی کے تمام وسائل ،اورآخر کار دین کا دفاع کرنے کے لئے جنگی سازو سامان بھی ان کے حوالہ کردیاگیا، چنانچہ ”جمعیة الاخوان“ نے تمام قبائل کے درمیا ن قتل غارت گری، رہزنی ،سگریٹ اورحقہ نوشی، اور آرام طلب زندگی کو حرام قرار دیدیا ان کا کل اہتمام اخروی زندگی کے لئے تھا، وہ لوگ اپنے علاوہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں کومشرک اور بت پرست سمجھتے تھے ۔
ابھی ۱۹۱۲ عیسوی تمام نہیں ہواتھا کہ ابن سعود نے خود کو ایک ایسی سرفروش اور بے باک فوج کا سربراہ پایا جو شھرمیں رہنے والے بدووںسے وجود میں آئی تھی ایسی فوج جوآخری سانس تک لڑلنے مرنے پرتھی لیکن ایک نا منظم فوج جس میں کسی قسم کا نظم وضبط نہ تھا ،جنگ کے وقت یہ لشکر بھی دوسری منظم اور تر بیت یافتہ فوج کے ساتھ ساتھ رہتا تھا لیکن اس سے بالکل الگ، یہاں تک کہ اسکے پرچم اور جھنڈے اس سے بالکل جداتھے ۔ ”جمعیة الاخوان“ پندرہ سال تک اسی طرح رہی، اور اسکے بعد دولت وآرام نے ان کے اندرایساغرور وتکبر بھر دیا کہ یہ لوگ ابن سعود کی تمام تر کامیابیوں کو اپنا کارنامہ سمجھنے لگے۔
”جمعیة الاخوان“ کی تشکیل سے پیدا ہو نے والی مشکلات
یہ خا نہ بدوش اور بدو جب شھری ہو گئے تو آہستہ آہستہ انکا یہ عقیدہ ہو گیا کہ دین صرف وھی ہے جو انھوں نے سیکھا ہے ا ور اسکے علاوہ سب گمراہی ہے اسی بنا پر یہ اپنے علاوہ حتی کہ نجد کے پرانے شھریوں میں سے ہر ایک کو بد گمانی کی نظر سے دیکھتے تھے یہاں تک کہ ابن مسعود کے بارے میں بھی اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے ان کایہ نظریہ تھا کہ عمامہ باندہنا سنت ہے لیکن عقال(وہ ڈوری جو بعض عرب سرپر باندہتے ہیں) لگانا بدعت ہے اور بعض نے تو غلو کر کے یہ تک کہہ دیا کہ عقال کفار کا لباس ہے لہٰذا جو عقال لگائے اس سے قطع تعلق کرلیا جائے ۔
ان میں سے اکثرکا یہ نظریہ تھاکہ جو شخص خانہ بدوشی اور بادیہ نشینی کو ترک نہ کرے وہ چاہے جتنابڑامومن ہو وہ مسلمان نہیں ہے اسی بناپر انھیں سلام نہیں کیا کرتے تھے اور نہ ان کے سلام کا جواب دیتے تھے اور ان کے ھاتھ کا ذبیحہ بھی نہیں کہاتے تھے ،کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انکے علما ء ابن سعود کی چاپلوسی کرتے ہیں اس طرح انھوں نے کتمان حق کیا ہے لہٰذا وہ خطا کار ہیں ۔
ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ تمام شھری گمراہ ہیں اور ان سے جنگ کرنا واجب ہے اور یہ با ت خدا کی طرف سے انھیں ا لھام ہوئی ہے اس لئے وہ جنگ سے باز رہنے میں کسی کی رائے کو خاطر میں نہ لاتے تھے ۔
کچھ لوگوں نے عبد العزیز پر بھی اعتراض کیا کہ وہ کفار کا دوست اور دین کے معاملہ میں سست ہے،لمبے لمبے کپڑے پہنتاہے اپنی مونچھیں نہیں کٹاتا اور سرپر عقال رکھتا ہے ،مختصر یہ : یہ فرقہ اپنی مرضی کے خلاف ہر شی کو حرام سمجھتا تھا
ابن سعود کی چارہ جوئی
یہ سرکش فکرو خیالات ،اور تعصبات ان غلط تبلیغات کا نتیجہ تھے جو شیخ عبداللہ کے شاگردوں نے بدووں کے درمیان اپنی تبلیغ کے دوران پھیلائے تھے ۔
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ کا بیان ہے کہ ۱۳۳۵ھ کو تاریخ نجد کا سخت ترین سال کہنا چاہئے کیونکہ اس سال وہاں ایک داخلی فتنہ اٹھنے والا تھا جس میں ایک طرف ”جمعیة الاخوان“ دوسری جانب سعودی حکومت اور عوام الناس تھے ۔
ابن سعود نے نجد کے سر پر منڈلاتے ہوئے اس خطرہ کو ٹالنے کے لئے دینی ماہر طلاب کو اخوان کے درمیان بھیجا تا کہ وہ گذشتہ مبلغین کے پیدا کئے ہوئے فساد کو ختم کرنے کی کو شش کریں۔ نتیجتاً شیخ عبداللہ کے جو شاگرد پہلے سے وہاں موجود تھے اور انھوں نے ہی اس جھالت وگمراہی کے بیج بوئے تھے آہستہ آہستہ میدان ان کے ھاتھ سے نکلتا گیا اور انھیں حجروں (وہ مٹی کے گھرجو”جمعیة الاخوان“ نے اپنے لئے بنوائے تھے)میں رہنے سے منع کردیا گیا ۔
یہ تد بیر اگرچہ بہت سودمند واقع ہوئی لیکن اس سے ”جمعیة الاخوان“ کے ذہنوں میں بھرا ہوا خناس مکمل طریقہ سے ختم نہ ہوسکا اور اگر انھیں سلطان عبدالعزیز کی تلوار اور سطوت وھیبت کا خوف نہ ہوتا تو پورے عربستان میں جنگ کے شعلے بھڑک سکتے تھے۔
”جمعیة الاخوان“ کے عادات واطوار
حافظ وھبہ کا بیان ہے کہ ”جمعیة الاخوان“ اب سڑکوں کے محافظ ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ مسافرپر ظلم کرنا حرام ہے وہ مسلمان اور پڑوسی کا احترام کرتے ہیں، اورمسلمانوں کے مال میں تصرف کو حرام سمجھتے ہیں ۔
اخوان موت سے نہیں ڈرتے اور (اپنے عقیدہ کے مطابق)شھادت اور خدا تک پہنچنے کے لئے موت کوبہترین ذریعہ سمجھتے ہیں ، وہاں جب کوئی ماں اپنے بیٹے کو جھاد کے لئے روانہ کرتی ہے تو یہ کہتی ہے کہ اب خدا ہمیں اور تمھیں جنت میں ایک دوسرے کا دیدار کرائے ۔ حملہ کرتے وقت انکا نعرہ” ایاک نعبدوایاک نستعین“ہوتا تھا۔
میں (حافظ وھبہ)نے انکی بعض جنگیں دیکھی ہیں اور خود دیکھا ہے کہ یہ لوگ کس طرح موت کے منھ میں کود جاتے ہیں یہ ٹولیوں کی شکل میں دشمن کی طرف بڑھتے ہیںاور اس دم انھیں دشمن کو مارنے کا ٹنے کے علاوہ کوئی فکر نہیں ہوتی ۔
اخوان کے دلوں میں ذرہ برابرا رحم نہیں پایا جاتا ان کے ھاتھ سے کو ئی نہیں بچ سکتا، وہ جہاں جاتے تھے موت کے قاصد ہوتے تھے، جنگ میں اخوان کی قدرت وطاقت اس وقت معلوم ہوئی جب انھوں نے بار بار عراق، کویت اور مشرقی اردن پر حملے کئے، اگرچہ ان کے لیڈر ابن سعود نے ان کو جنگ سے منع کیا تھا اور اس کا یہ حکم تھا کہ لوگوں سے انسانیت کا سلوک کیا جائے کسی کو قتل نہ کیاجائے علماء بھی ان کو اسی بات کی تاکید کرتے تھے کہ قیدیوں کو اور پناہ لینے والوں کو قتل نہ کریں لیکن انھیں کسی بات کی پرواہ نہ تھی ۔ ”جمعیة الاخوان“ کا کوئی آدمی اگرکسی کو راستہ میں دیکھتا تھا کہ اس کی مونچھیں لمبی ہیں تو اسے سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرعمل کرنے کی دعوت دیتا تھا اور پھر اپنے ھاتھ سے اسکی فالتو مونچھیں کاٹ دیتا تھا ۔ اور اگر کوئی گذرنے والا ان کے محلے سے گذرتاتھا تو پھراسے لمبی مونچھیں رکھنے سےروکنے کے لئے یہ لوگ زبر دستی کرتے تھے جس میں نصیحت اور نرمی کا کو ئی پہلو نہیں رہتا تھا ،اسی طرح اگر یہ کسی کے بدن پر لمبے کپڑے دیکھ لیتے تھے تو اس کو قینچی سے کاٹ کر چھوٹا کر دیتے تھے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اور حکومت کے بالمقابل حد سے تجاوز کر نے کے باوجود بھی ابن سعود نے ان کی ایذا رسانیوں سے چشم پوشی کرکے بہت ہی صبر وتحمل اور بر دباری سے کام لیا، ملک کا کہنا تھا کہ آہستہ آہستہ وقت گذ رنے کے ساتھ ساتھ ان کے تعصبات اور شدت میں کمی آجائے گی اور یہ خود بخود راہ راست پر آجائیں گے ۔
نئی ایجادات کی مخالفت اور ٹیلیفون کے تاروں کوکاٹ دینا
”جمعیة الاخوان“ جب پہلی بار مکہ میں داخل ہوئے تو انھیں حکومت کی کسی بات کی پرواہ نہ تھی اور ان کی نظر میں جوکام غلط ہوتا تھا وہ اسکو گولی یا ڈنڈوں سے نیست ونا بو د کردیتے تھے اکثر اوقات ابن سعود کو بھی فتنوں سے بچاؤ کی خاطر انکے آگے ھتھیار ڈالنا پڑتا تھا لیکن اگر سلطان کو یہ محسوس ہوجاتا تھا کہ ان کا ساتھ دینے کی وجہ سے حکومت کمزور ہو سکتی ہے تو پھر ان کے ساتھ سختی کی جاتی تھی ۔
ابن سعود نے سب سے پہلے مکہ میں ٹیلیفون کا مشاہدہ کیا تو اسے احساس ہوا کہ یہ بہت فائدہ مند چیز ہے جس کے ذریعہ کاموں کو تیزی سے انجام دیا جاسکتا ہے اور خبر دینے یا خبر پہونچا نے کے نظام میں بہت سرعت پیدا ہو سکتی ہے اس لئے اس نے یہ ارادہ کیا کہ فون کا ایک تا رمکہ اور ”حدّاء“ (فوجی چھاؤنی) کے درمیان اوردوسراتار ”رغامہ“ اور ” حدّا ء“ کے درمیان کھینچ دیا جائے لیکن پھر اپنے ارادہ کو تبدیل کرکے اسے ٹال دیا کیونکہ یہ ممکن تھا کہ تار کھینچتے ہی اخوان بھڑک جائیں اور شورش بر پا کردیں ۔
”جمعیة الاخوان“کے لوگ جہاں کہیں بھی ٹیلیفون کے تار دیکھتے تھے انھیں کا ٹ دیتے تھے، ان کے خیال میں فون ایک حرام چیزھے اور اس کو نابود کر ناواجب ہے، اکثر اوقات جب کہ بادشاہ مکہ میں ہی موجود ہوتا تھا یہ لوگ شاہی محل کے ٹیلیفون کے تار بھی کاٹ دیتے تھے ان کا گمان تھا کہ ٹیلیفون سے سنائی دی جانے والی آواز شیطان کی آواز ہے،اس خیال کو دور کرنے کے لئے فیلبی کے بقول انھیں فون سننے کی دعوت دی گئی لیکن جب انھیں اپنے ساتھی کی زبان میں تلاوت قرآن کی آواز سنائی دی تو بہت حیرت زدہ رہ گئے
(کیونکہ شیطان قرآن نہیں پڑھتا ہے)۔
اس سے بڑھکریہ کہ جب کسی اخوانی نے سلطان کے ایک نوکر کو سائیکل پر سوار دیکھا تو اسے ایک طمانچہ ماردیا، نجد ی لوگ سائیکل کو شیطان کی گاڑی یا شیطان کا گھوڑا کہتے تھے اور اسے بدعت کہتے تھے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ جادو کی طاقت اور شیطانی پیروں کے ذریعہ حرکت کرتی ہے۔
آخر کار۱۹۲۶ ء میں سلطان عبدالعزیز کو ان کے سامنے تسلیم ہونا پڑا اور مدینہ کے وائر لیس سسٹم کوروکنا پڑا ۔
اخوان وائرلیس اور ٹیلیگراف کے سلسلے میں بہت حساس تھے ابن سعود پر سخت اعتراضات کرتے تھے حافظ وھبہ کا بیان ہے کہ ۱۳۵۱ ھ میں جب میں ریاض میں تھا تو ابن سعود نے مجھے بتایا کہ۱۳۳۱ ھ میں جب ”جمعیة الاخوان“ کے کچھ علمائے دین کویہ معلوم ہوا کہ ریاض اورنجد کے دوسرے شھروں میں وائر لیس لگا نے کا ارادہ ہے تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ اے پیر مرد جس نے بھی تمھیں ہمارے ملک میں وائر لیس لگا نے اور باہر سے اسکے سیٹ منگوانے کا مشوارہ دیا ہے اس نے تمھیں دہوکا دیاہے اور یہ فیلبی
بھت جلدہمارے اوپر ایسی مصیبت نازل کریگا کہ ہمارا پوراملک ہی انگلینڈ کے قبضہ میں چلا جائیگا ۔
جب ریاض میں وائر لیس سسٹم تیار ہوگیا اور اس سے استفادہ ہونے لگا تو لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے تھے کہ وائر یس ایکسچینج خیر و شرکے درمیا ن ایک سرحد ہے، اسی لئے ان کے علماء اپنے قابل اعتماد افراد کو اس کی تفتیش کے لئے بھیجتے تھے کہ وہ وہا ںجاکر شیطان اور اس کے لئے کی جانے والی قربانیوں کو دیکھیں ،لیکن انھیں ایسی کوئی چیز دکھائی نہ دی، ایکسچینج کے ذمہ دار نے مجھ (حافظ وھبہ) سے کہا کہ ایک مدت تک کچھ چھوٹے چھوٹے ”جمعیة الاخوان“ کے ملااور شیوخ اس کے پاس آتے تھے تاکہ اس سے یہ راز معلوم کر سکیں کہ شیاطین کو کب دیکھا جاسکتا ہے اور بڑا شیطان مکہ میں ہے یاریاض میں ؟
اور اس کی اولاد کے نمبرکیا ہیںجو اہم خبریں اس تک پہونچاتے ہیں؟،وہ انھیں جواب دیتا تھا کہ اس کے کا موں میں شیطان کا کوئی دخل نہیں ہے
۱۳۴۶ھ میں ملک (بن سعود) نے مجھے (حافظ وھبہ) ایک نجدی عالم کے ساتھ دینی اور دفتری امور کی تفتیش کے لئے مدینہ بھیجا درمیان میں ٹیلیگرف اور وائر لیس کی بات نکل آئی، تو شیخ نے کہا کہ ان سب کاموں میں جناّت سے خدمت لی جاتی ہے اس نے کہا کہ ایک قابل اعتماد شخص نے مجھے بتایا ہے کہ ٹیلیگراف اس وقت کام کرنا شروع کرتا ہے جب اس کے لئے قربانی کی جائے اور قربانی کرتے وقت زبان پر شیطان کا نام جاری کیا جائے ۔
اسی طرح کچھ دہائی پہلے ”الارم “والی سب سے پہلی گھڑی کو نجد میں توڑ دیا گیا اور اسے شیطان کا کام قرار دیکر علماء نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیدیا اور کہا کہ کم ازکم اس سے استفادہ کرنا بدعت ہے، چنانچہ شیخ سعید بن سحمان نے اس کی رد میں ایک رسالہ لکھا جو۱۹۲۳ھ میں مصر میں طبع ہوا ۔
لیکن گاڑیاں اور کار وغیرہ کے بارے میں وہابی پہلے یہ کہتے تھے کہ اگر یہ شیطانی کام نہ بھی ہو تب بھی یہ کفار کی ایجادات ہیں لہٰذا غصہ اور اعتراض کے ساتھ انھیں دیکھتے تھے یہاں تک کہ نجد کے متعصب شھر حوطہ میں جب پہلی کار داخل ہوئی تو شھر کے بازار میں اسے کھلے عام آگ لگا دی گئی،
اس کے علاوہ بھی دوسرے واقعات ہیں جن کو اختصار کی بنا پر ہم ترک کرر ہے ہیں۔
ابن سعود نے مسلسل بردباری کے ساتھ اس کو برداشت کیا اور حسن تد بیر سے انھیں ختم کردیا لیکن”جمعیة الاخوان“یا امر بالمعروف نھی عن المنکرکرنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور شرعی کاموں میں وہ انھیں کی رائے کے مطابق عمل کرتا تھا۔
۱۹۵۰ھ میں (ریاض پر قبضہ کی پچاسویں سال گرہ کے موقع پر)سلطان نے یہ ارادہ کیا کہ ایک قدرتمند بادشاہ کے عنوان سے جشن طلائی (گولڈن جبلی)منایا جائے تاکہ وہ حکومتیں جن سے اس کے سیاسی تعلقات ہیں اس کی اس بات کی تعریف کریں کہ اس نے اپنی قوم کو صحراوں اور بیابانوںسے نکال کربین الاقوامی پلیٹ فارم پرلاکر کھڑا کردیا ہے اور وہ اس کی خبریں اپنے اپنے ریڈیو سے نشر کریں ۔
اور اسی طرح پورے جزیرة العرب میں عالیشان جشن منائے جائیں ۔ لیکن سلطان کو اس سلسلے میں یہ فکر لاحق تھی کہ شرعاً اس کو یہ اجازت ہے یا نہیں ؟لہٰذا اس نے ریاض کے مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراہیم اور دوسرے علماء سے اس سلسلے میں مشورہ کیا ۔
اس کے بارے میں علماء کا فتویٰ یہ تھا کہ سنت پیغمبر اکرم میں اس کا کہیں وجود نہیں ملتا اور یہ یہودیوں اور عیسائیوں کی ایجاد ہے، چنانچہ مدتوں سے جشن کی تیاری ہونے کے باوجود یہ جشن ملتوی کردیا گیا جب کہ جدہ میں باقاعدہ اس کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں اور سیاسی سطح پر دعوت نامے بھی تقسیم ہو چکے تھے ۔
”جمعیة الاخوان“ کے مفتیوں کی قدرت، دینی احکام کے اجراء میں اب تک اپنی جگہ باقی ہے لیکن جدیدتمدن کے مقابلے کی طاقت اب ان کے اندر باقی نہیں رہ گئی بلکہ وہ خود بھی جدید ترین آلات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ابن سعود کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ شدت پسندی پر کسی طرح روک لگانے کے بجائے اس کو اسی طرح چھوڑ دیتاتھا، تاکہ وہ اپنی اصل منزل تک پہونچ جائے اور جیسے ہی اس میں سستی نظر آتی تھی تو اپنے دشمنوںکی سر کوبی کے لئے کسی فرصت کو ھاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔
اسی دور میں جب ابن سعود کا ”جمعیة الاخوان“ کے ساتھ نرم رویہ تھا تو اس کی جانب سے متعین احساء کا حاکم امیر عبداللهبن جلوی اخوانیوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتاتھا ۔ اور وہ عام طور سے ”جمعیة الاخوان“ کے قبیلوں کے سرداروں کو ان کی شدت پسندی پر سر زنش کرتا تھا اس کا کہنا تھا کہ گذشتہ حالات موجودہ حالات سے بہت بھتر تھے ۔ احسا ء میں ”جمعیة الاخوان“ کے کسی آدمی میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ۔ اور ذرا سی غلط حرکت پر اسے سزا ملتی تھی، اس بناپر ”جمعیة الاخوان“ کے کارندے وہاں ناشناختہ طریقوں سے جاتے تھے اور بڑی خاموشی کے ساتھ اپنا کام انجام دیتے تھے۔
ابن سعود پر ”جمعیة الاخوان“ کے اعتراضات
روز عید فطر ۱۳۴۳ھ میں نماز عید کے بعد فیصل دویش (”جمعیة الاخوان“ کا ایک لیڈر) اور اس کے کچھ ساتھیوں نے ایک جلسہ کیا اور اس میں فیصل نے ایک تقریر کی جس میں وعظ ونصیحت کے بعد کہا کہ ہمارا مقصد صرف برائیوں اور بدعتوں کو نیست ونابود کرنا ہے ہم شریف مکہ کے راستہ پر چلنے والے ہر شخص کا مقابلہ کریں گے۔
یہ وہ پہلی دہمکی تھی جو ”جمعیة الاخوان“ کے کسی لیڈر کی طرف سے عبد العزیز کو دی گئی تھی، اس کے تقریباً ایک سال بعد”جمعیة الاخوان“ کے تمام لیڈروں کا ایک جلسہ ہوا جس میں انھوں نے یہ عہد کیا کہ وہ دین خدا کی مدد کریں گے، اور راہ خدا میں جھاد کریں گے اور اس کے بعد ملک عبد العزیز پر مندرجہ ذیل اعتراضات بھی کئے:
۱۔ کفار سے دوستی اور دین کے معاملہ میں سستی کرتا ہے، لمبے کپڑے پہنتا ہے، مونچھیں نہیں بنواتا، اور سر پر عقال باندہتا ہے۔
۲۔ اپنے بیٹے کو مصر بھیجا جو مشرکین کا ملک ہے۔
۳۔ اپنے دوسرے بیٹے کو لندن بھیجا ہے۔
۴۔ کار اور ٹیلیگرام استعمال کرتا ہے۔
۵۔ حجاز اور نجد میں ٹیکس لگا رہا ہے۔
۶۔ عراق اور مشرقی اردن کے خانہ بدوشوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ مسلمانوں کی سر زمین (نجد وحجاز) میں اپنے چو پائے چراتے پھریں۔
۷۔ کویت سے تجارت بند کررکھی ہے اگر وہ کافر ہیں تو ان سے جنگ کی جائے اور اگر مسلمان ہیں تو پھر ان سے قطع تعلق کس لئے؟
۸۔ احساء اور قطیف کے شیعوں کو مذہب اہل سنت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔
سلطان عبد العزیز کو جیسے ہی اس واقعہ کی اطلاع ملی وہ فوراً نجد واپس آگیا تاکہ اس بحران کو تدبیر کے ساتھ حل کرسکے، اس لئے اس نے تمام ”جمعیة الاخوان“کے لیڈروں کو(۲۵)رجب ۱۳۴۵ھ کو ریاض میں ایک جلسہ میں بلایا، چنانچہ ”جمعیة الاخوان“ کے تمام لیڈر مذکورہ تاریخ پر ریاض پہونچ گئے صرف سلطان بن بجاد (”جمعیة الاخوان“ کا ایک لیڈر) اس میں شریک نہیں ہوا، سلطان عبد العزیز نے اس جلسہ میں اپنے احوال وخدمات پر ایک مفصل تقریر کی جس میں اس بات پر زور دیاکہ میں شریعت اسلام کا ایک خادم اور نگھبان ہوں، اور میں اب بھی وھی ہوں جو پہلے تھا، اور جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میں بدل گیا ہوں، نھیں! میرے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، میں ہر لمحہ بیدار اور عربوں نیز مسلمانوں کے حقوق کا پاسباں ہوں۔
المختصر یہ کہ اس اجتماع کا نتیجہ یہ نکلا کہ علمائے مجلس نے اس میں ایک فتویٰ صادر کیا جس میں ”جمعیة الاخوان“ کی تمام مشکلات کا حل پیش کیا گیا تھا اس سے بڑھ کر حاضرین مجلس نے اپنے بادشاہ (ابن سعود) سے اپنی محبت کا اظھار کیا اور بادشاہ نجد کے عنوان سے اس کی بیعت کی جس کے بعد اسے حجاز ونجد اور اس کے اطراف کا قانونی بادشاہ بھی تسلیم کیا گیا۔
مذکورہ فتویٰ جس کی مکمل تحریر حافظ وھبہ نے ذکر کی ہے،یہ اس اجتماع میں حاضر علماء(جن کا نام فتوی میں ذکرہے)کی طرف سے ”جمعیة الاخوان“ کے ان سوالات کا جواب ہے جو انھوں نے ملک عبدالعزیز کے بارے میں کئے تھے جسکا خلاصہ یہ ہے ۔
لیکن ٹیلیگراف یا (وائر یس)(جسے نجدی برقی کہتے تھے) یہ ایک جدید چیز ہے جسکی حقیقت سے ہمیں کوئی آگاہی نہیں ہے اور اس سلسلہ میں کسی بھی عالم سے کو ئی بات سننے میں نہیں آ ئی لہٰذا اس مسئلہ میں ہم کچھ حکم نہیں دے سکتے اور اسکے مباح یا حرام ہونے کا قطعی حکم اس وقت دیا جا سکتا ہے جباس کی واقعیت معلوم ہوجائے ۔
مسجد حمزہ اور ابی رشید کے بارے میں ہمارا فتویٰ یہ ہے کہ امام (سلطان عبدالعزیز)فورا ً ان کو منہدم کردیں، ملکی اور سماجی قو اعدو قوانین جوکچھ بھی حجاز میں موجود ہیں انھیں ختم کیاجائے اور صرف شرعی احکام لاگو کئے جائیں ۔
مصری حجاج اسلحہ اور طاقت کے ساتھ مکہ میں داخل نہ ہو ں ہمارا فتویٰ یہ ہے کہ امام (سلطان) ان کے داخلہ پر پابند ی لگائیں نیزشرک اور منکر ات کے اظھار کی روک تھام کی جائے۔
لیکن محمل، تو اس سلسلہ میں ہمارا فتوی یہ ہے کہ مسجد الحرام میں محمل کے داخلے پر پابندی لگائی جائے اور کسی کو اسے مس کرنے یا چومنے کی اجازت نہ دی جائے اور اگر ممکن ہو اور کسی فساد کا خطرہ نہ ہو، تو پورے شھرمکہ میں ہی اسکے داخلے پر مکمل پابند ی لگا دی جائے،
(محمل کی تفصیل آئندہ صفحات میں ملاحظ کریں)
رافضیوں کے بارے میں ہمارا فتوی یہ ہے کہ امام (ابن سعود)ان کو اسلام کی بیعت پر مجبور کریں اور ان کے تمام دینی پر وگراموں پر پابند ی لگائی جائے، اسی طرح امام پر لازم ہے کہ وہ احساء میں اپنے نمائند وں کو یہ احکامات جاری کرے کہ وہاں کے تمام شیعوں کو شیخ ابن بشیر (وہابی عالم)کے پاس بلاکر ان سے دین خدا ورسول کی بیعت لے اور انھیں مجبور کرے کہ وہ اہلبیت رسول(علیهم السلام)سے توسل نہ کریں اور دوسری بد عتیں جیسے عزاداری
یا اپنے دوسرے مذہبی رسومات کو ترک کریں، روضوں کی زیارت پر پابندی لگائی جائے انھیں مجبور کیا جائے کہ نماز پنجگانہ میں مسجد میں حاضر ہو ں اور ان کے لئے سنی امام جماعت اورموذن معین کئے جائیں ،انھیں مجبور کیا جائے کہ اصول دین کوتین مانیں
اور اگر بد عتوں کے لئے انھوں نے کوئی مخصوص جگہ بنا رکھی ہے اسے بھی مسمارکردیاجائے، اسی طرح وہ اپنی بدعتوں کو مساجد یا کسی دوسری جگہوں پر انجام نہ دیں لہٰذا احساء کے شیعوں میں جوشخص بھی ان احکامات پر عمل نہ کرے اسے اس اسلامی ملک (سعودیہ)سے جلا وطن کردیاجائے ۔
قطیف کے رافضیوں پر بھی ابن بشیر احساء کے رافضیوں کی طرح احکامات جاری کرے،عراق کے رافضی (شیعہ)جو نجد کے دیھا تی علاقوں میں مسلما نوں (وہابیوں)کے ساتھ رہتے ہیں ان کے بارے میں ہمارا فتویٰ یہ ہے کہ امام ان کو مسلمانوں کے علاقوں اور ان کی چراگاہوں میں داخل ہونے سے منع کریں ۔
چنانچہ اس فتوی نے ملک کو مجبور کردیا کہ محمل پر پابندی لگائے اور مسجد حمزہ کومسمار کردیا اور وائریس کا استعمال بھی بند کردےا۔
محمل کا واقعہ
ابراہیم رفعت پاشاجو ۱۳۱۸ھ،۱۳۲۰ھ، ۱۳۲۱ ہجری قمری میں مصری محمل، اور حجاج کا سربراہ تھا ،محمل کے بارے میں اس کا بیان ہے کہ محمل ہو دج کی طرح چوکور لکڑی سے بنائی جاتی ہے اور پھر چاروں طرف سے ھلالی شکل میں درمیان میں گنبد کی شکل پیدا کرلیتی ہے اس پر عام طور سے حریر یا کسی دوسرے کپڑے پڑے رہتے ہیں سفرکے دوران اسے اونٹ کی پیٹھ پر باند ھ دیا جاتا ہے۔
سیوطی نے کنزالمدفون میں تحریر کیا ہے کہ سب سے پہلے حجاج بن یوسف ثقفی نے محمل کو مکہ لیجانے کی رسم نکالی ،صاحب دررالفوائدکے بقول عراق، مصر، شام اور یمن سے چار محملیںمکہ لائی جاتی تھیں، اور مختلف سالوں میں کچھ دوسرے علاقوں سے بھی محملیں مکہ جاتی تھی،ان میں خلفائے عباسی کے دور میں عراق کی محمل سب سے عالیشان اور مجلل ہو تی تھی ،شامی محمل دسویں صدی ہجری سے حجاز جاتی تھی ،آخری دور میں سلطان سلیم عثمانی، ایک محمل استامبول (ترکی)سے بھیجاکرتا تھا جس میں ایک خانہ کعبہ کا غلاف بھی رہتا تھا ،دوسری صدی ہجری کے دوسرے حصہ میں یمن سے بھی ایک محمل مکہ آتی تھی ۔ مصری محمل کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سب سے پہلی بار۶۴۸ھ میں شجرة الدر مصری حاکم (کنیز ملک صالح ومادر ملک جلیل)کے دو رمیں مکہ لائی گئی ،جس کی مختصر داستان یہ ہے کہ سلطان شجرة الدر ایک محمل لیکر خود حج کے لئے آیا ،یہ محمل حریر کے کپڑے اور قیمتی پتھروں سے مزین تھی ،اس کے علاوہ خانہ کعبہ ،اور حجرہ پیغمبر ،کے لئے بھی وہ قیمتی ہدایا لایا تھا ،اور اس کے بعد خانہ کعبہ نیزحجرہ پیغمبرکے لئے قیمتی تحفوں کے ساتھ محمل کا یہ سلسلہ جاری رہا
اس زمانہ سے ہر سال اس عمل کے لئے خاص اہتمام کرنا قاہرہ کا معمول تھا ا ور جیسا کہ ابن بطوطہ کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمل کے جلوس کے ساتھ شتربان مختلف قسم کی حدی اور موسیقی گایا کرتے تھے اس سے لوگوں کے اندر حج کرنے کا ذوق اورشوق پیدا ہوتا تھا۔
ایرانی محمل
سلطان محمد خدا بندہ کے بیٹے سلطان ابو سعید نے عراقی محمل پر حریر چڑھایا اور اس کو سونے چاندی اور ھیرے جواہرات سے مزین کیا جن کی قیمت ڈھائی لاکھ دینار تھی اس کے علاوہ اس محمل کے اوپر ڈالنے والی ایک چادر بھی دی کہ جب بھی اس محمل کو کہیں زمین پر رکھا جاتا تھا تو خز کی یہ چادر اس پر ڈال دی جاتی تھی ۔
ایک اور محمل ایران سے مکہ لے جائی جاتی تھی جس کی تفصیل حقیر نے اپنی کتاب تاریخ قم میں بیان کی ہے البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حسن بیگ روملو کی تحریر کے مطابق اس محمل کو۸۷۵ھ کے واقعات کی بناپر ”ارزون حسن“ کے حکم سے تیار کیا گیا اور اس کو ا یک خاص اہتمام کے ساتھ یزد سے قم لایا گیا اور قم میں داخل ہوتے وقت اس کے لئے اہم انتظامات کئے گئے اور وہاں سے اویس بیگ امیر حجاج اور دوسرے حاجیوں کے ساتھ اسے مکہ معظمہ کی جانب روانہ کردیا گیا۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کئی دہائیوں سے ہمارے سماج میں جو یہ رواج ہے کہ عاشورکے دن یزد، یا ایران کے دوسرے شھروں میں نذر و نیاز کے طبق ایک خاص اہتما م کے ساتھ سجاکر جگہ جگہ لیجاتے ہیں اور آج بھی اس کے اثرات بعض جگہوں پر دیکھنے میں آتے ہیں یہ ان محملوں سے بیحدشباہت رکھتے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ یہ رسم اُسی کی دین ہو۔
محمل پر پابندی
۱۳۴۵ھ تک(جس سال علمائے نجد نےمحمل پر پابندی کا فتوی دیا ہے) مصر اور شام سے دو محملیں خاص تزئینات اور اہتمام کے ساتھ مکہ آتی تھیں ،جن کومسجدالحرام کے دروازے تک اونٹ پر لایا جاتا تھا اورپھر وہاں سے کاندہوں پر اٹھاکر مسجدالحرام کے اندر لاتے تھے ،وہاں سے عرفات، مزدلفہ ،اور منیٰ لیجایا جاتا تھا اور اختتامِ حج کے بعد مدینہ اور وہاں سے مصر اور شام واپس لے جایا کرتے تھے۔
محمل کے ہمراہ بہت سارے لوگ سوار یا پیدل چلتے تھے ،اور ایک میوزک کا دستہ باقاعدہ میوزک بجاتے ہوئے اس کے ساتھ چلتا تھا ،اسی طرح اس ملک کے تمام حاجیوں کا سربراہ اور دوسرے تمام حاجی بھی اسی محمل کے ساتھ حج کرنے جاتے تھے ۔
لوگ اس محمل کو مس کرتے تھے اس کا بوسہ لیتے تھے ،محمل کے کاروانوں کی حرکت اس کے احترام اور دیگر رسومات نیز مکہ کے گورنر کی وہاں تشریف آوری کی تمام تفصیلات کے لئے مراة الحرمین نامی کتاب ملاحظہ فرمائیں جو رفعت پاشا کی تالیف ہے ۔
مذکورہ کتا ب میں محمل اوراس کے قافلوں کے متعدد فوٹو بھی ہیں ۔
غلاف کعبہ اور غسل کعبہ کی سنت
غلاف کعبہ ،کعبہ کے لئے موقوف غلام وغیرہجیسے موضوعات ہمارے قارئین کے لئے یقیناً دلچسپ ہیں لہٰذا اس مقام پر ان کی مختصر تفصیلات بھی ذکر کی جارہی ہیں۔
غلاف کعبہ
ارزقی کے بقول دور جاہلیت میں سب سے پہلے جس نے کعبہ کے اوپر مکمل غلاف چڑھایا تھا اس کا نام تُبَّعْ
(یمن کے قدیم بادشاہوں کا لقب) ہے یہ غلاف نطع (بر وزن فرش)ایک قسم کی کہال) سے بنا ہوا تھا اس کے بعد تبع نے اس پر” حِبَرَہ“ (یمن کا ایک خاص قسم کا کپڑا)کے کپڑے کا غلاف چڑھایا۔
اس کے بعد ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانا ایک معمول بن گیا لیکن جس کپڑے سے کعبہ کا غلاف بناتے تھے وہ ایک خاص قسم کا ہوتاتھا بلکہ متعدد کپڑے جوڑ کر ایک غلاف تیار کیا جاتا تھا،اور جب اس کا کوئی حصہ کہنہ ہو جاتا تھا، تو اسی جگہ نیا کپڑا لگا دیا جاتا تھا ،جس زمانہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ میں رہتے تھے اور ابھی آپ نے ہجرت نہیں کی تھی تو اس دور میں بھی کعبہ کا غلاف مختلف قسم کے کپڑوں جیسے نطع ،خیش،اور دشت میشان کے مرغوب کپڑوں سے تیار ہوتا تھا۔
ایک قول کے مطابق ظہور اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں قریش نے یہ طے کیا تھا کہ غلاف کعبہ کی تیاری کے لئے ہر قبیلہ سے اس کی استطاعت کے مطابق کچھ مبلغ وصول کیاجائے، اوریہ رسم ربیعہ بن مغیرہ کے زمانہ تک جاری رہی، کیونکہ ربیعہ کو یمن کی طرف تجارتی مال لے جانے کی وجہ سے کافی فائدہ ہواتھالہٰذا ربیعہ نے قریش سے یہ طے کیا کہ ایک سال وہ تنھا کعبہ پر غلاف چڑھا ئے اور دوسرے سال قریش غلاف چڑھائیں گے چنانچہ پوری زندگی وہ حبرہ یا دوسرے قیمتی کپڑوں کا غلاف چڑھاتا رہا۔
اسلامی دور میں کعبہ کا غلاف
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں یہ معمول تھا کہ کعبہ کا غلاف(۱۰)محرم الحرام کو تبدیل کیاجاتاتھا کیونکہ تمام حجاج عام طور پر د س محرم تک مکہ سے چلے جاتے تھے(لہٰذا حاجیوں کی بناپر اس کے پارہ پارہ ہونے کا خطرہ نہیں رہتا تھا) لیکن اس کے بعد یہ ہونے لگا کہ غلاف کے اوپری حصہ پر جہاں تک ھاتھ نہیں پہونچتا ہے ۸ذی الحجہ کو اور جہاں تک ھاتھ پہونچ جاتا ہے اس حصہ پر عاشور کے دن غلاف چڑھایا جاتا تھا۔
پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کعبہ پر یمن کے بنے ہوئے کپڑوں کا غلاف چڑھایا، اس کے بعد حجاج بن یوسف نے دیبا کا غلاف چڑھایا ،معاویہ نے کعبہ پر دو غلاف چڑھائے ایک دیبا کے کپڑے کا بناہوا جسے عاشور کے دن چڑھا یا جاتاتھا، اور دوسرا قباطی (مصر کا بنا ہوا سفید اور باریک کپڑا)جو رمضان کے آخر میں چڑھایا جاتا تھا ۔
زید اور عبداللهبن زبیر نے کعبہ پر خسروانی (بقول بعض خراسانی)دیبا کپڑے کا غلاف چڑھایا عبدالملک مروان بھی ہر سال دیبا کا ہی غلاف کعبہ کے لئے بھیجاکرتا تھااور مدینہ سے گذرتے وقت اسے مسجد نبوی کے ستونوں میں باندہ دیا جاتا تھاکہ سب لوگ اسے دیکھ لیں اور اس کے بعد اسے مکہ لے جاتے تھے۔
دور جاہلیت کے بر خلاف دور اسلام میں اگر کعبہ کا غلاف پرانا ہو جاتا تھا یا کہیں سے پھٹ جاتا تھا تو اسے نکال کر دوسرا کپڑا ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی پرانا غلاف حاجیوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھاجیسا کہ عمر نے ایسا ہی کیا تھا ۔
خلفاء اپنے اعتبار سے غلاف کو تبدیل کرتے رہتے تھے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں پورے خانہ کعبہ پر غلاف رہتا تھا صرف حجر اسود والے گوشے پر قد آدم سے کچھ بلند حصہ کھلا رکھتے تھےجب حج کا زمانہ نزدیک آتا تھاتو کعبہ پر خرا سان کا بنا ہوا سفید دیبا کا کپڑا ڈال دیتے تھے اور عید قربان کے دن جس دن حاجیوں کا احرام کھل جاتا ہے اس پر خراسانی سرخ دیبا ڈال دیا جاتا تھا۔
حاکم عبیدی اور اس کے نواسہ مستنصر(قرن پنجم میں مصر کے فاطمی خلیفہ)نے سفید دیبا سے کعبہ کا غلاف تیار کیا تھا۔
سلطان محمود غزنوی نے ۴۶۶ھ میں کعبہ کے لئے زرد دیباکا غلاف بھیجا تھا(چھٹی صدی ہجری میں )ناصر عباسی کی خلافت کے آغاز کے ساتھ کعبہ پر سبز رنگ کا غلاف چڑھایا گیااسی زمانہ میں غلاف سیاہ کپڑے سے تیار کیا گیا جس کے کنارے زرد رنگ کے تھے اور آج بھی خانہ کعبہ پر اسی طرح کا غلاف چڑھایا ہوا ہے۔
بغدادمیں عباسیوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد خانہ کعبہ کا غلاف مصری اور کبھی یمنی بادشاہ بھیجا کرتے تھے ۵۷۰ھ میں مصری شاہ صالح اسماعیل نے مصر میں غلاف کعبہ کے لئے تین دیھات وقف کر دئے تھے جس کی آمدنی سے ہر سال غلاف کعبہ اور ہر پانچویں سال حجرہ و منبر نبوی کا غلاف بناکر بھیجا جاتا تھا-
۹۴۷ھ میں سلطان سلیمان عثمانی نے چند دوسرے دیھات خرید کر ملک صالح کے مو قوفات
کے ساتھ وقف کر دیا اس زمانہ میں غلاف کعبہ کے حاشیہ پر قرآنی آیات تحریر کرنا ایک معمول تھا اور اسے مکہ پہونچانے کا یہ طریقہ تھا کہ تما م حاجیوں کا سر براہ اور سرپرست خاص بڑے اہتمام کے ساتھ اس غلاف کو مکہ لیجاتا تھا۔
سعودی امراء بھی مختلف اوقات میں کعبہ پر غلاف چڑھاتے رہے ہیں جیسے۲۱۸(۱)ھ سے۱۲۲۹ھ تک سعودبن عبد العزیز نے نوبار حج کیا اور ہر سال کعبہ پر دیبا کا غلاف چٹر ھایا ۔
دور حاضر میں کعبہ کا غلاف
مذکورہ موقوفات تقریباًچار صدی تک باقی رہے اور غلاف ان کی آمدنی سے تیار ہو تا رہا۱۳ویںصدی ہجری کے اوائل میں محمد علی پاشا نے اس وقف کو ختم کر دیا ،اور اس زمین کو عمومی اموال میں داخل کر دیا ،اوریہ طے کیا کہ اس کی جگہ کعبہ کا غلاف حکومتی خزانے سے تیار کیا جائے گا چنانچہ یہ طریقہ کار امیر الحاج رفعت پاشا کے زمانہ یعنی(۱۳۲۰،۱۳۲۱و۱۳۲۵) ہجری تک اسی طرح جاری رہا۔
۱۳۴۰ھ تک کعبہ کا غلاف تقریباً ہر سال مصر سے آتا رہا۱۳۴۱ھ میں مصری حکومت اور شریف حسین کے درمیان اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ اس سال مصری محمل ،کعبہ کا غلاف ،گندم(مکہ و مدینہ کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے)اور محمل کے محافظ ،ڈاکٹروں کی ایک طبی ٹیم جب ایک مخصوص کشتی سے جدہ پہنچی تو شریف حسن نے ڈاکٹروں کی طبی ٹیم کو مکہ جانے سے منع کر دیا تو وہ کشتی اپنے پورے ساز وسامان کے ساتھ مصر کی طرف پلٹ گئی ۔
پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۸ء۱۹۱۴ ء) میں عثمانی حکو مت کو یہ خطرہ محسوس ہو اکہ شاید انگلینڈ مصری حکومت کو کعبہ کا غلاف بھیجنے سے منع کردے اور خانہ کعبہ غلاف کے بغیر رہ جائے لہٰذااس نے ایک بہت ہی ظریف مضبوط اور خو بصورت غلاف جس کے کنارے پر سونے اور چاندی کا کام تھا کعبہ کے لئے بھیج دیا، لیکن غلاف کعبہ حسب معمول م-صر سے آگیا اور عثمانی حکو مت کا غلاف مدینہ میں رہ گیا ۔ جس وقت مصری محمل اور غلاف مصر واپس چلاگیا تھا اور حج کا وقت بھی کم رہ گیا تھا تو شریف حسن نے امیر مدینہ کوٹیلی گرام کیا کہ عثمانی حکومت والا غلاف کعبہ فوراً ”رابغ بندر گاہ “پر بھیج دے اور خود جدہ سے ایک کشتی جس کا نام رشدی تھا اس نے رابغ بندرگاہ پر بھیج دی، اور اس طرح مذکورہ غلاف بہت سرعت کے ساتھ مدینہ سے مکہ پہونچ گیا، یہ غلاف عین اسی دن مکہ پہونچا جس دن عام طور سے کعبہ کا غلاف تبدیل کیا جاتا تھا یعنی(۱۰)ذی الحجہ کے دن۔
جب ۱۳۴۴ھ میں شریف حسن کے ھاتھ سے حجاز کی حکومت نکل گئی اور عبد العزیز بن سعود نے حجاز پر قبضہ کرلیا تو کعبہ کا غلاف حسب معمول مصر سے آیا، لیکن اسی سال منیٰ میں محمل کا واقعہ پیش آگیا، تو آئندہ سال مصری حکومت نے غلاف نہیں بھیجا اس سال ۱۳۴۵ھ میں ذی الحجہ کی پہلی تاریخ کو ابن سعود نے اپنے وزیر خزانہ شیخ عبد اللہ سلیمان کو یہ حکم دیا کہ ۱۰ذی الحجہ تک غلاف تیار ہوجانا چاہئے، چنانچہ بر وقت غلاف تیار ہوگیا۔
غلاف کعبہ کا مخصوص کار خانہ
غلاف کعبہ اگرچہ پہلے نیک اعمال میں شمارکیا جاتا تھا لیکن آہستہ آہستہ اسے بھی حکومتوں نے اپنے لئے ایک سیاسی حربہ بنالیا اسی لئے ابن سعود نے ۱۳۴۶ ھ میں عبداللہ مذکور کو یہ حکم دیا کہ کعبہ کاغلاف بنانے کے لئے ایک مخصوص کار خانہ بنایا جائے اس نے مکہ کے ”محلہ اجیاد“ میں وزارت خزانہ کے دفترکے سامنے ایک ہزار پانچ سو مربع میڑزمین اسی کام کے لئے مخصوص کردی اور چھ مھینہ میں ایک منزلہ عمارت بن کر تیارہو گئی ،تاریخ میں پہلی مرتبہ غلاف کعبہ کی تیاری کے لئے کوئی مخصوص جگہ بنائی گئی تھی۔
اس کے بعد ملک نے یہ حکم دیا کہ غلاف کعبہ کی تیاری کے لئے ہنددستان سے ایسے ماہر کاریگر لائے جائیں جو باقاعدہ اس کو زردوزی کے ساتھ تیار کر سکیں، کاریگروں کی فراہمی کا کام ہندوستان کے ایک عالم شیخ اسماعیل غزانوی نے انجام دیا ۔
رجب ۱۳۴۶ھ کی ابتدا میں ہندوستانی کا ریگر اپنے تمام لوازمات اور وسائل کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے جن کے پاس کپڑا بننے کے بارہ سانچے تھے، اور کپڑا بننے کے ماہر ین اور زردوزوں کی تعداد چالیس تھی اور دوسرے بیس آدمی ان کے معاون تھے اس طرح اسی سال ذیقعدہ کے آخر تک خانہ کعبہ کا غلاف بہترین انداز میں اسی کارخانہ میں تیار ہوگیا ۔ اس کا مخصوص کپڑا کالا اور ریشمی تھا اسکے اندر بنائی میں ہی ”لاالہ الا اللّٰہ محمدرسول اللّٰہ “ھرجگہ تحریر تھا اور دوسرے حصہ پر کوئی نہ کوئی آیت قرآنی نقش تھی ۔
پردہ کے شمالی حصہ میں یعنی حجر اسماعیل کی طرف شاہ عبد العزیز کا نام تحریر تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ ”یہ پردہ، مکہ معظمہ میں خادم حرمین شریفین اعلی حضرت امام عبد العزیز بن عبد الرحمن فیصل آل سعود شہنشاہ مملکت سعودیہ عربیہ کے حکم سے(۴۶)۱۳ھ میں تیار کیا گیا “۔
رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ تک کعبہ کا پردہ اسی کارخانہ میں تیار ہوتا رہا لیکن جب اس سال مصر اور سعودیہ حکومت کے اختلافات ایک معاہدے کے بعد ختم ہوگئے تو پھر یہ طے ہوگیا کہ گذشتہ کی طرح حسب معمول خانہ کعبہ کا پردہ مصر سے آئے گا، لہٰذا حکومت مصر کے اس وعدے کے بعد مکہ کا کارخانہ بند کردیا گیا مصر سے آنے والے پردے پر یہ تحریر درج ہوتی تھی:
”اعلی حضرت بادشاہ مصر، فاروق اول کے حکم سے یہ پردہ تیار کیا گیا، اور اعلی حضرت عبد العزیز آل سعود بادشاہ سعودیہ عربیہ کے عہد میں ۱۳۵۵ھ میں اسے خانہ کعبہ کے لئے ہدیہ کیا گیا“۔
یہ سلسلہ۱۳۸۲ھ تک چلتا رہا اس کے بعد پھر مصری اور سعودی حکومتوں کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہوگئے جس کے نتیجہ میں خانہ کعبہ کے پردہ کی تیاری کے لئے مخصوص کار خانہ دوبارہ شروع ہوگیا اور اب کعبہ شریف کا غلاف اسی کارخانہ میں تیار ہوتا ہے۔
خانہ کعبہ کا غلاف آٹھ ٹکڑوں سے تیار ہوتا ہے یعنی کعبہ کی چاروں دیواروں میں سے ہر دیوار کے لئے دو کپڑے ہوتے ہیں جنھیں پہلے مسجد الحرام کے صحن میں پھیلایا جاتا ہے اور ان ٹکڑوں کو ایک ساتھ سل دیا جاتا ہے،پھر ہر دیوار کے غلاف کو لپیٹ دیا جاتا ہے، پھر کچھ لوگ کعبہ کی چھت سے کچھ رسّیاں نیچے پھینکتے ہیں اور ان میں یہ چاروں پردے باندہ دئے جاتے ہیں اور انھیں چھت پر کھینچ لیتے ہیں۔
غلاف کا یہ کام ہر سال(۸)ذی الحجہ کو ہوتا ہے اور پھر(۱۰)ذی الحجہ کو پرانا پردہ اتار کر اس کی جگہ یہ نیا پردہ لگا دیا جاتا ہے اور چند دن کے اندر کعبہ پر لٹکے ہوئے پردے ایک ساتھ سِل دئے جاتے ہیں، کعبہ کے گرد جو پٹکہ ہوتا ہے اس کے آٹھ حصے ہوتے ہیں جن پر آیات قرآنی تحریر ہوتی ہیں اور ان آیات کے درمیانی فاصلہ میں ”یَا حَنَّانُ“”یَا مَنَّانُ“ لکھا رہتا ہے۔
اس پٹکے کے علاوہ (حذام کے نام سے) چار پارچے اور ہوتے ہیں جن پر سورہ قل ھو اللہ نقش ہوتا ہے جن کو ھررکن پرپٹکے کے نیچے سلا جاتا ہے ان کی سلائی کا طریقہ یہ ہے کہ کعبہ کی چھت سے لکڑی کے تختے باندہ کر لٹکادئے جاتے ہیں اور سلائی کرنے والا ان پر بیٹھ کر حذام کی سلائی کرتا ہے۔
خادمان و خواجگان
سب سے پہلے معاویہ نے مسجد الحرام کی خدمت کے لئے کچھ غلام معین کئے تھے لیکن اب کعبہ کے خدام اور خواجگان (اَغوات) ہیں جو غلام نہیں ہیں بلکہ ان کے آقاوں نے انھیں آزاد کرکے کعبہ کی خدمت پر لگا دیا ہے، اب انھیں مسجد الحرام کی طرف سے ہر مھینہ تنخواہ ملتی ہے، اوران کی باقاعدہ ایک کمیٹی ہے جس کا ایک منتظم ہوتا ہے، اور منتظم کے انتخاب کا طریقہ یہ ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ پرانا خادم ہوتا ہے اس کو اس کا منتظم بنادیا جاتا ہے۔
ان خدام کافریضہ یہ ہے کہ مطاف (طواف کرنے کی جگہ) ،حجر اسماعیل (ع) اور مقام ابراہیم (ع) کی صفائی کریں، لائٹ کی سہولت ہونے سے پہلے یہ لوگ نماز مغرب سے نماز عشاء تک اور طلوع فجر سے لے کر سویراہونے تک شمعدانوں میں شمع روشن کرکے انھیں مسجد کے ستونوں پر لگے ہوئے فانوس کے اندر رکھ دیتے تھے۔ ان کے در میان اس طرح کاہر کام انجام دینے سے پہلے ایک مخصوص رسم ہوتی تھی جو گذشتہ دور سے چلی آرہی ہے ۔
ایک قول کے مطابق ”صلاح الدین ایولی“ یا ”نور الدین کرد“ نے سب سے پہلے مسجد النبوی کے لئے خادم معین کئے تھے۔
کعبہ کے اندرونی حصہ کا غسل
کعبہ کے اندرونی حصہ کے غسل کادستور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ (فتح مکہ)سے ابتک جاری ہے اس دور میں عام طور سے کعبہ کوھر سال دوبار غسل دیا جاتاہے ایک بار حج شروع ہونے سے پہلے (یعنی ذیقعدہ کے اواخر میں )اور دوسری بار حاجیوں کے مکہ سے چلے جانے کے بعد۔
غسلِ کعبہ کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن کعبہ کی دہلائی کا وقت ہوتاہے کعبہ کے کلید داروں کا سرپرست آل شیبہ
کے دوسرے کلید داروں کے ساتھ طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد کعبہ کے پاس آتا ہے پھر کعبہ کا دروازہ کھولاجاتا ہے پھر کلید دار اور ان کے ہمراہ افراد آب گلاب سے بھرے ہوئے تشت اور گل سرخ کے عطر سے بھری شیشیاں اور عود و عنبر وغیرہ جیسے عطر لیکر آتے ہیں جو لوگ کعبہ کو غسل دیتے ہیں وہ کشمیری شالوں کی لنگی باندہے رہتے ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ بھی معمول ہے کہ کلید د ار کعبہ ،بادشاہوں اور امراء اور وزیروں نیز قاضیوں اور اداروں کے سرپرستوں کو (جو حج کرنے آتے ہیں) اس سعادت میں شرکت کی دعوت دیتاہے جب تمام ضروری وسائل آمادہ ہو جاتے ہیں تو پھر چاہ زمزم پر مامور افراد زمزم سے کچھ بالٹیاں پانی بھر کر کعبہ تک پہونچاتے ہیں کلید دار ان کو کعبہ کے اندر رکھ دیتے ہیں ان تمام انتظامات کے بعد تمام مدعوین کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہیں جن کی کمر پر لنگی اور ھاتھ میں جھاڑو ہوتی ہے (یہ جھاڑو اوقاف کا مدیر مھیا کرتا ہے) اور پھر آب گلاب۷۴۶ سے مخلوط آب زمزم سے غسل کعبہ کا کام شروع کرتے ہیں ۔
پہلے کعبہ کے فرش ،اور اس کی دیواروں کو غسل دیا جاتا ہے پھر تا حد قامت ان پر گلاب ملا جاتا ہے ،اور پھر گل سرخ اور دوسرے عطروں سے دیواروں کو معطر کیا جاتا ہے کعبہ کی دہلائی اورزمین اور دیواروں کو خشک کرنے کے بعد تمام جھاڑووں کو وہاں موجود لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
”جمعیة الاخوان“ اور ابن سعود کے اختلافات
”فیصل دویش“ جو جمعیة الاخوان کا ایک لیڈر تھا اس نے اخوان کو بھڑکاکر ابن سعود کے خلاف ایسی شورش برپا کی کہ جس نے ابن سعود کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا اس نے اکتوبر۱۹۲۷ء میں اپنی طرف سے کچھ فوج عراق اور نجد کی سرحد پر واقع” بصیہ“ نامی علاقہ میں بھیجی اور اس فوج نے سرحد پر مامور کچھ فوجیوں کو قتل کر ڈالا جس کی وجہ سے سعودیہ اور انگلینڈ کی حکومتوں کے درمیان تناو پیدا ہو گیا تو” سر گلبرٹ کلوٹیون“ کو حکومت انگلینڈ کی طرف سے سعودیہ روانہ کیا گیا تاکہ وہ اس بارے میں سلطان عبدالعزیزسے مذاکرات کرے دونوں کے درمیان جدہ میں کچھ گفتگو تو ہوئی مگر اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا ۔
ان مذاکرات کے بعد سلطان، حجاز سے نجد آیا اور جمادی الاولیٰ ۱۳۴۷ ھ میں ایک جلسہ کا حکم دیا یہ جلسہ ریاض کے شاہی محل میں کیا گیا جس میں تقریباًشھری اور دیھاتی۸۰۰ علماء اور قبیلوں کے سرداروںنے شرکت کی، مگر دویش اور ابن بجاد (جمعیة الاخوان کے اہم لیڈر)نے اس کا بائیکاٹ کیا اور وہ اس میں شریک نہ ہوئے ۔
ابن سعود نے اپنی تقریر کی ابتداء میں جزیرة العرب میں اپنی اتحادی کو ششوں کا تذکرہ کیا اور پھر یہ اعلان کیا کہ میں حکومت سے بالکل الگ ہو رہا ہوں اور یہ عہد کرتا ہوں کہ آپ لوگ آل سعود میں جس کا بھی انتخاب کریں گے میں اس کی بھر پور مدد کروں گا اس نے اپنی تقریر میں انگلینڈ کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلاف کا ذمہ دار دویش کو قرار دیا ابن سعود کا یہ استعفیٰ حاضرین نے قبول نہیں کیا اور سب نے اس کی دوبارہ بیعت کر لی۔
اس جلسہ سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ عوام کے جذبات اخوا ن کے خلاف بھڑک اٹھے مگر ابن بجاد اور فیصل دویش کے ساتھیوں نے اس کو کوئی اہمیت ہی نہ دی اور ا خوان کے درمیان یہ مشہور کر دیا کہ ابن سعود جس دین و شریعت کو برباد کررہا ہے یہ اس کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں،نیز ابن سعود کفار کا دوست اور ہر کام میں ان کا شریک نیز سلطنت و حکومت کا دلدادہ ہے۔
”جمعیة الاخوان“ کے یہ لوگ عراق اور کویت کے علاقوں میں لوٹ مار کرتے تھے یہاں تک کہ نجد ی قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے اور دوسروں کو کیونکہ کافر سمجھتے تھے لہٰذا اگر انھیں کو ئی مل جاتاتھا تو اسے قتل کر دیتے تھے ابن سعود کو یہ دکھائی دے رہا تھا کہ اس کی تیس سالہ محنت ضائع ہو جائے گی چنانچہاس نے نجد اور ”جمعیة الاخوان“ کے کافی لوگوں کو اپناہمنوا بنا لیا جن کے ساتھ کچھ علماء بھی تھے اور انھوں نے مل کر ابن بجاد اور دویش کا مقابلہ شروع کر دیا ۔
شروع میں ان کے درمیان پیغامات یا مکالمات کی رد وبدل ہوئی تو اسی دور میں جب ابن بجاد کا ایک آدمی اس کا خط لیکر ابن سعود کے پاس پہونچا تو اس نے اس کو سلام تک نہیں کیا (کیونکہ وہلوگ اسے بدعتی سمجھتے تھے)
المختصر یہ کہ آخر کا ر جنگ و جدال کی نوبت پہونچ گئی جنگ کے دوسرے ہی دن ”جمعیة الاخوان“ کے پیر اکھڑ گئے اور وہ میدان سے فرار کر گئے ابن بجاد بھی فرار ہو گیا اور فیصل دویش کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا ابن بجاد نے بھی تین دن کے بعداپنے کو حکومت کے حوالہ کر دیا اور پھر (مارچ۱۹۲۹ ء مطابق۱۳۴۸ھ) میں اسے بھی جیل بھیج دیا گیا ۔
”جمعیة الاخوان“ کے ہنگاموں کاخاتمہ
”ابن بجاد “ کو شکست دینے کے بعد ابن سعود حجاز واپس آگیا اس وقت ابن بجاد جیل میں تھا ادہر دویش زخموں کی شدت سے موت کے قریب تھا لیکن اس کی جان بچ گئی اور وہ کویت اور احساء کی سرحدوں کی طرف چلا گیااس نے پھر ایک جماعت اکٹھا کر لی اور دوبارہ فتنہ و فساد شروع کر دیا اور وہ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ اس منزل تک پہونچ گیا کہ ریاض اور مکہ کے درمیان مواصلاتی نظام ٹوٹنے ہی والا تھا چنا نچہ ابن سعود نے اس کو ختم کرنے کی دوبارہ ٹھان لی ایک سال تک دونوں میں پیغامات کا سلسلہ جاری رہا آخر کار جب دویش نے اپنے اندر مقاومت کی ہمت نہ پائی تو خود کو انگلینڈ کی فوج کے حوالہ کر دیا (کیونکہ وہاں کی فوجیں بھی اس بارے میں مداخلت کر چکی تھیں)اور انگلینڈ کی فوج نے اسے ابن سعود کے حوالہ کردےا چنانچہ اس تاریخ (یعنی۱۹۳۰ء ۱۳۴۹ھ)سے ”جمعیة الاخوان“ کے یہ فتنے مکمل طور سے ختم ہو گئے اور ”جمعیة الاخوان“کے تمام لوگ دوسرے تمام شھریوں کی طرح حکومت کے مطیع بن گئے اور سلطان عبد العزیز نے سکون کی سانس لی اور دوبارہ حکومتی نظام کی تعمیر شروع کردی شھروں کے درمیان فون ،وائرلیس کے رابطے بر قرار کئے ،مکہ و ریاض کے درمیان وائر لیس اور فون کا رابطہ برقرار کیا۔
ملک سعود (جانشین عبد العزیز بن سعود) کے دور میں ”جمعیة الاخوان“ کی کل تعداد بیس ہزار تھی جن میں سے دس ہزار افراد حجاز کے اندر اور بقیہ نجد وغیرہ کے علاقوں میں رہتے تھے یہ سب باقاعدہ مسلح ہوتے تھے اور حکو مت سے انھیں وظیفہ (تنخواہ) بھی ملتا تھا البتہ کچھ لوگ صرف اسلحہ ہی لیتے تھے ”جمعیة الاخوان“ کی کاکر دگی اب تک جاری ہے ۔
احمد امین کا بیان
مصر کے مشہور و معروف صاحب قلم احمد امین نے وہابیوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے جو بیان دیا ہے اس کا نقل کر نا بھی یہاں بیجا نہ ہوگا، موصوف کہتے ہیں کہ وہابیوں نے جدید تمدن اوراپنی خوا ہشات سے مشکلات کے بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا ،ان کے اکثر لوگ دوسرے مسلم ممالک کو صرف اس لئے کہ ان میں (ان کے عقیدہ کے مطابق)بدعتیں رائج ہیں مسلم ملک ہی نہیں مانتے ان کا یہ نظریہ تھاکہ دوسرے مسلم ممالک سے جھاد کرنا واجب ہے جب ابن سعود کوحکومت ملی تو اس کے سامنے دو طاقتیں تھیں جن کا ساتھ دینے کے لئے وہ مجبو ر تھا ایک دینی احکام کے زمام دار جو نجد میں رہتے تھے اور محمد بن عبد الوہاب کی تعلیمات کے سخت پیروتھے اور ہر نئی چیز کی مخالفت کرنا ان کے لئے ضروری تھا ،ٹلیفون ،وائرلیس کاریں گاڑیاں سائیکل جیسی ہر چیز کو بدعت اور دین کے خلاف قرار دیتے تھے۔
اور دوسری طاقت جدید تمدن کی موج تھی جس کے بعض وسائل کو حکومت کی سخت ضرورت تھی، لہٰذا حکومت نے ان دونوں طاقتوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیا ،یعنی دوسرے اسلامی ممالک کو مسلمان مانا اور دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عصری اور دنیوی تعلیمات کو بھی رائج کیا اور حکومت کے نظام کو جدید نظام سے بھی ہم آہنگ کر کے اپنے ملک میں وائرلیس ،گاڑیاں ،جھاز وغیرہ لانے کی اجازت بھی دیدی ا سی طرح کے دوسرے اقدامات بھی کئے واقعاًعلمائے نجد اور رفتار زمانہ نیز صحرائی جھالت اور جدید تمدن کی خواہشات کے درمیان سازگاری پیدا کرنا کتنا مشکل کام تھا۔
____________________