خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں0%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 349
مشاہدے: 127992
ڈاؤنلوڈ: 3486

تبصرے:

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127992 / ڈاؤنلوڈ: 3486
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

عصمتوں کے بارے میں مزید گفتگو

کچھ عرصہ پہلے میں نے عصمت کے بارے میں چند صفحات قلمبند کئے تھے جو ہماری اس بحث سے مربوط ہیں لہٰذا مناسب سمجھا کہ اسکے کچھ مفید اقتباسات اس مقام پر شامل کردئے جائیں تاکہ گذشتہ گفتگو تشنہ ٔ تشریح نہ رہ جائے ۔

ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان کے اوپر اسکی خواہشات کی حکومت بہت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے جسکی وجہ سے اسکے نقصانات بھی بیحد خطرناک ہوتے ہیں لہٰذا جب تک انسان اپنی خواہشات کو اچھی طرح اپنے قابو میں کرکے متعادل اور محدود نہ بنادے وہ زندگی میں خواہشات کے خطرات سے کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے چنانچہ ہر انسان کے سرپر یہ خطرات ہمیشہ منڈلاتے رہتے ہیں لہٰذا کوئی نہ کوئی ایسا اخلاقی اور تربیتی نظام درکار ہے جو انسان کو اسکی انفرادی اور سماجی زندگی میں ہر جگہ خواہشات کے طوفان کا مقابلہ کرنے اور انہیں قابو میں رکھنے نیزاسکے نقصانات سے بچنے کی صلاحیت عطا کردے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ نظام تربیت کیا ہے ؟جسکی پابندی کے بعد انسان اپنے خواہشات کے فریب سے محفوظ رہ سکتا ہے؟

اہل دنیا کے درمیان اس بارے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں :

پہلا نظریہ رہبانیت کا ہے جس میں خواہشات کے مقابلہ کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ خواہشات کو نفس کے اندر اس طرح کچل دیا جائے کہ وہ اس میں گھٹ کر رہ جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کے حصول کی خاطر فتنہ انگیز اور بھڑکانے والی باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے ۔ رہبانیت میں یہ نظریہ بالکل عام ہے اور اسکی جڑیں ان کی قدیم تاریخ کے اندر دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔

اس مکتب فکر (نظریہ)کا خلاصہ یہ ہے کہ خواہشات کوہر قسم کے فتنہ سے دور رکھاجائے اور دنیاوی لذت وآرام سے پرہیز کرکے ان سے دوری اختیار کی جائے ۔کیونکہ انسان کاخاصہ یہ ہے کہ وہ برائی پر اصرارکرتاہے اورچونکہ خواہشات اور فتنوں کے درمیان رابطہ پایا جاتاہے اور انسان کی سلامتی اسی میں ہے کہ اسے فتنوں سے دور کردیا جائے ۔

لہٰذا خواہشات سے دوری اور دنیاکے فریبوں اور لذتوں سے کنارہ کشی میں ہی انسانیت کی بھلائی ہے اور اس نظام کا ماحصل یہ ہے کہ خواہشات اور لذتوں کو بالکل ترک کرکے دنیا سے ایک دم کنارہ کشی اختیار کرلی جائے اور اسے ترک کئے بغیر اس مقصدتک رسائی ممکن نہیں ہے ۔

تہذیب و تمدن کے افکار کے درمیان یہ ایک مشہور و معروف نظریہ ہے جس کے اثرات موجودہ دور کی باقی ماندہ مسیحیت میں بھی پائے جاتے ہیں ۔

۱۲۱

لیکن اسلام نے اس طرز تفکر کی بہت سختی سے مخالفت کی ہے کیونکہ اسکی نگاہ میں خواہشات کو کچل دینا یا دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیارکرلیناانسانی مشکلات کا حل نہیں ہے ۔

بلکہ خداوند عالم نے اسکی خلقت کے وقت اسکی جو فطرت بنادی ہے وہ اسی کے مطابق آگے قدم بڑھاتا ہے جس کی مزید وضاحت کے لئے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں :

( یابنی آدمَ خذوازینتکم عندکل مسجدٍ،وکلواواشربواولاتُسرفواانّه لا یُحبّ المسرفین ) ( ۱ )

''اے اولاد آدم ہر نماز کے وقت اور ہر مسجد کے پاس زینت ساتھ رکھو اور کھائو پیو مگر اسراف

نہ کرو کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے ''

دوسری آیۂ کریمہ :

( قل من حرّم زینةَ ﷲ التی أخرج لعباده والطیبات من الرزق قل هی للذین آمنوافی الحیاةالدنیاخالصةً یومَ القیامةِکذلک نفصّل الآیات لقوم یعلمون٭قل نّما حرّم ربّیَ الفواحشَ ماظهرَمنها ومابطنَ وال ثمَ والبغیَ بغیرالحقِّ وأن تشرکوا باللّهِ مالم یُنزّل به سلطاناً وأن تقولواعلیٰ ﷲ مالا تعلمون ) ( ۲ )

''پیغمبر آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ۔اور بتائیے کہ یہ چیزیں روز قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں ہم اسی طرح صاحبان علم کے لئے مفصل آیات بیان کرتے ہیں۔کہہ دیجئے کہ ہمارے پروردگار نے صرف بدکاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ اور ناحق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے اور بلاجانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قرار دیا ہے ''

مختصر یہ کہ یہ آیۂ کریمہ:

( یابنی آدم خذوا زینتکم عندکل مسجد وکلوا واشربوا ولا تسرفوا )

ہر انسان کو یہ دعوت دے رہی ہے کہ وہ دنیاوی لذتوں سے خوب فائدہ اٹھائے بس شرط یہ

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۳۱۔

(۲)سورئہ اعراف آیت ۳۲۔۳۳۔

۱۲۲

ہے کہ اسراف نہ کرے۔ اسکے بعد دوسری آیت میں ان لوگوں کی مذمت ہے جنھوں نے خداوند عالم کی حلا ل کردہ پا ک و پاکیزہ چیزوں کو حرام (ممنوع)کردیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعباده والطیباتِ من الرزق )

آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا اور اسکی تمام نعمتیں اور سہولتیں در اصل مومنین کے لئے ہیں لیکن غیر مومنین کو بھی ان سے استفادہ کی اجازت دیدی گئی ہے لیکن آخرت کی تمام نعمتیں صرف اور صرف مومنین کے لئے ہیں ۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( قل هی للذین آمنوا فی الحیاة الدنیا خالصةً یوم القیامة )

آیت نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ خداوند عالم نے صرف اس دنیا کی پوشیدہ اور آشکار تمام برائیوںاور گناہوں سے منع کیا ہے اور اسکے علاوہ ہر چیز جائزقراردی ہے ۔

لہٰذاا سلام ،دنیا سے قطع تعلق کرنے والے نظریات کوٹھکراکر خداکی حلال اور پاکیزہ نعمتوں سے لطف اندور ہونے کا حکم دیتا ہے اور جن لوگوں نے دنیا سے اپنا ناطہ توڑکر خدا کی حلال کردہ اور پاکیزہ روزی کو حرام کررکھا ہے ان کے اس عمل کی سخت مذمت کرتا ہے۔ ﷲکی انہیں پاک وپاکیزہ نعمتوں میں سے ایک نعمت امتحان و آزمائش بھی ہے ۔جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا رہتا ہے ۔اسکے باوجود خداوند عالم کی طرف سے یہ اجازت ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان چیزوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلیں اور یا ان سے بالکل دور ہوجائیں بلکہ حکم الٰہی تو یہ ہے کہ صرف برائیوں سے محفوظ رہیں اور حدودالٰہی سے آگے قدم نہ بڑھائیں۔

چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک بار ایک آدمی یہ کہہ رہا تھا:

(أللهم انّی أعوذ بک من الفتنة )

''بارالٰہا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں''

اس جگہ حضرت علی بھی موجود تھے جب آپ نے اس کی زبان سے یہ کلمات سنے تو فرمایا مجھے محسوس ہورہا ہے کہ تم اپنی اولاداور مال سے بھی خدا کی پناہ مانگ رہے ہو کیونکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

(نما أموالکم وأولادکم فتنة )

''بیشک تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں''

۱۲۳

لہٰذا یہ نہ کہو کہ میں فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں بلکہ اس طرح کہا کرو۔

(أللهم انّی أعوذبک من مضلاّت الفتن )( ۱ )

''بارالٰہامیں گمراہ کن فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں''

مولائے کائنات کا یہ ارشاد گرامی ہے :

(لایقولَنَّ أحدکم:اللهم انّی أعوذبک من الفتنة،لأنه لیس أحد الاّٰ و هو مشتمل علیٰ فتنة،ولکن من استعاذ فلیستعذ من مضلات الفتن،فان ﷲ سبحانه یقول: ( واعلموا أنّما أموالکم وأولادکم فتنة ) ( ۲ )

'' تم یہ ہرگز نہ کہو ! بارالٰہا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں کیونکہ تمہارے درمیان کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جسکا دار ومدار فتنہ پرنہ ہو لہٰذا جس کو خدا سے پناہ چاہئے وہ گمراہ کن فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے ''کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :

''یاد رکھو!بیشک تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواہشات کو قابو میں رکھنے اور کنٹرول کرنے کے بارے میں اسلام نے جو حکم دیا ہے اس کا نتیجہ کیا ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے اس کے ذریعہ خواہشات کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک جدیدنظریہ اور نظام تربیت پیش کیا ہے اور اس نظریہ کو عصمتوں کا نظام کہا جاتا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۹۳ص۲۳۵۔

(۲)سورئہ انفال آیت ۲۸۔

۱۲۴

کیونکہ عصمتوں (بچانے والی خصلتوں)کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بجلی یا آگ کا کام کرتے وقت ہم دستانے یا واٹرپروف کپڑے پہن لیتے ہیں اور کسی خطرے کے بغیر بڑی آسانی سے اسکا ہر کام کرلیتے ہیں اسی طرح اگر انسان چاہے توعصمتوں کے سہارے دنیا کی رنگینیوں اور فتنوں کے درمیان بڑی آسانی سے زندگی گذار سکتا ہے اور ان کی موجودگی میں اسے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچے گا ۔ لہٰذا جس طرح صرف آگ کی حرارت یا بجلی کے کرنٹ کے خطرات کی بناء پر ان کا استعمال ترک کردینا صحیح نہیں ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرنا بھی غلط ہے کیونکہ دستانے اور واٹر پروف لباس وغیرہ کے سہارے ان سے ہر کام لیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح لوگوں کو دنیا کی آزمائشوں سے دور رکھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان کے مال واولاد بھی ایک قسم کی آزمائش اور فتنہ ہیں لہٰذا ہر شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان گمراہ کن اور آزمائش طلب مقامات پر ان عصمتوںسے اچھی طرح استفادہ کرے جو اسے ان سے محفوظ رکھیں ۔کیونکہ اگر یہ عصمتیں کسی کی ذاتی یا سماجی زندگی میں تکامل کی منزل تک پہنچ جائیں تو پھر انسان اپنی خواہشات اور ہوی وہوس کا مختار کل بن جاتا ہے جس کی طرف روایت میں صریحاً اشارہ موجود ہے کہ دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں کچھ وہ ہیں جن کی خواہش اور ہوی وہوس ان پر غالب ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی خواہشات پر ان کا مکمل کنٹرول ہے لہٰذا کیونکہ خواہشات پر کنٹرول کرنا ممکن ہے اسی لئے اسلام میںدنیا کے راحت و آرام سے منع نہیں کیا گیا ہے البتہ اتنا ضروری ہے کہ جسے دنیا سے دل چسپی ہے وہ خواہشات اور ہوی و ہوس پر مکمل کنٹرول کرلے اسکے بعد چاہے جس نعمت دنیا کو استعمال کرے ،ہدایت اور ہوائے نفس کے درمیان یہی معیار اور حد فاصل ہے ۔

امام جعفر صادق :(منملک نفسه اذا غضب،واذا رهب،واذا اشتهیٰ،حرّم ﷲجسده علیٰ النار )( ۱ ) ''جو شخص غصہ،خوف اور خواہشات ابھر نے کی حالت میں اپنے نفس کو

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۸ص۲۴۳۔

۱۲۵

قابو میں رکھے گاخداوندعالم اسکے جسم کو جہنم پر حرام کردیگا''

(منملک نفسه اذا رغب،واذا رهب،واذا اشتهیٰ،واذا غضب،واذا رضی حرّم ﷲجسده علیٰ النار )( ۱ )

''جو شخص رغبت،خوف اور خواہشات ابھرنے اورغصہ یا خوشی کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے خداوندعالم اسکے جسم کو جہنم پر حرام کردیگا''

عصمتوں کی قسمیں

ہر انسان کے اندر تین طرح کی عصمتیں پائی جاتی ہیں:

۱۔کچھ عصمتیں ایسی ہیں جن کو خداوند عالم نے انسانی فطرت کی تکوینی خلقت اور تربیت کی گہرائیوں میں ودیعت فرمایا ہے جیسے حیا، عفت اوررحم دلی وغیرہ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ انسان اور حیوان دونوں کے اندریکساں طور پر جنسی خواہشات موجود ہیں البتہ ان کے درمیان اتنا فرق ضرورہے کہ حیوانوں میں یہ جذبہ بالکل ہی واضح اورظاہرہے جبکہ انسان کے اس جذبہ کے اوپر حیاء وعفت کے پردے پڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ حیوانوں کو اسکی تسکین میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی لیکن انسان کو اسکی تسکین سے بہت ساری جگہوں پرپرہیز کر ناپڑتاہے ۔ظاہرہے کہ یہ انسان کی جنسی کمزوری کی بناء پر نہیںہے ۔ بلکہ حیاء وشرم وعفت جیسی عصمتیں اسکے لئے مانع ہوجاتی ہیں کیونکہ یہ جنسی خواہش کو متعادل،لطیف اور کمزوربنادیتی ہیں اور اس پر روک لگاکر اسے مختلف طریقوں سے ابھرنے نہیں دیتیں۔

اسی طرح جذبۂ رحمت(رحم دلی)سے کافی حد تک انسان کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے یہی وجہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۱ص۳۵۸

۱۲۶

ہے کہ اگرچہ انسان اور حیوان دونوں کے اندر ہی غصہ کا مادہ پایا جاتا ہے مگر حیوان کے اندر اسکے آگے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن انسان کے یہاں اسکے اوپر رحمت (رحم دلی)کا سائبان ہے جس سے وہ بآسانی معتدل ہوجاتا ہے۔

۲۔کچھ عصمتیں وہ ہیں جن کو انسان اپنی ذاتی صلاحیت اور محنت سے حاصل کرتا ہے اور ہر انسان کی زندگی میں اسکی تربیت ان عصمتوں کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔جیسے ذکر الٰہی ، نماز ،روزہ ،تقویٰ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ نماز برائی سے روکتی ہے ،ذکر الٰہی سے شیطان دور ہوجاتا ہے روزہ جہنم کی سپر ہے۔اور تقویٰ ایسا لباس ہے جو انسان کو گناہوں اور برائیوں کے مہلک ڈنک سے محفوظ رکھتا ہے۔اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

( ولباس التقوی ذٰلک خیر ) ( ۱ )

''لیکن تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے ''

۳۔عصمتوں کی تیسری قسم وہ ہے جسے خداوند عالم نے انسان کی معاشرتی زندگی میں ودیعت کیا ہے جیسے دیندار سماج اور معاشرہ یاشادی بیاہ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ دیندار سماج اور معاشرہ بھی انسان کو برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔اور شادی (شوہر اور زوجہ )دونوں کو بے شمار برائیوں سے بچالیتی ہے۔

فی الحال ہم آپ کے سامنے نفس کے اندر اللہ کی ودیعت کردہ ان عصمتوں کے دو نمونوں (خوف وحیا)کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔

خوف الٰہی

خداوند عالم نے انسان کے اندر جو عصمتیں ودیعت فرمائی ہیں ان کے درمیان خوف الٰہی

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۲۶۔

۱۲۷

سب سے اہم اور بڑی عصمت ہے جس کو حدیث میں عقل کاایک لشکر قرار دیا گیا ہے اوریہ خواہشات کو کنٹرول کرنے کاسب سے بہترین ذریعہ ہے ۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

( وأ مّا من خاف مقام ربّه ونهیٰ النفس عن الهویٰ فانّ الجنة هی المأویٰ ) ( ۱ )

''اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکاجنت اسکا ٹھکانا اور مرکز ہے''

اس آیۂ کریمہ سے بالکل صاف روشن ہے کہ خوف الٰہی اورنفس کو خواہشات سے روکنے کے درمیان ایک قریبی رابطہ پایا جاتا ہے۔

اسی آیت کے بارے میں امام صادق سے روایت ہے کہ:

(من علم أن ﷲ یراه ویسمع مایقول،ویعلم مایعمله من خیر أو شر، فیحجزه ذ لک عن القبیح،فذلک الذی خاف مقام ربّه،ونهیٰ النفس عن الهویٰ )( ۲ )

''یعنی جسے یہ علم ہوجائے کہ خداوند عالم اسے دیکھ رہا ہے اور اسکی ہر بات سنتا ہے اور اسکے ہر اچھے یا برے عمل پر اسکی نظر ہے تو یہی خیال اسکو برائی سے روک دیگا اور اسی انسان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے رب سے خوفزدہ ہوگیا اور اس نے اپنے نفس کو اپنی ہوس(خواہشات ) سے باز رکھا''

امیر المومنین :

(الخوف سجن النفس من الذنوب،ورادعها عن المعاصی )( ۳ )

____________________

(۱)سورئہ نازعات آیت۴۰،۴۱۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۷۱۔

(۳)میزان الحکمت ج۳ص۱۸۳۔

۱۲۸

''خوف الٰہی انسان کے نفس کو گناہوں اور برائیوں سے بچانے والا حصار ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

سبعةیظلّهم الله یو م لاظل الاظله،الامام العادل،وشاب نشأ بعبادةاللّٰ ہ

عزوجل،ورجل قلبه معلّق فی المساجد ،ورجلان تحابّا فی اللّٰه عزوجل اجتمعا علیه وتفرقاعلیه،ورجل تصدّق بصدقة فأخفاها حتی لاتعلم شماله ماتنفق یمینه، ورجل ذکر الله خالیاً ففاضت عیناه،ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال فقال انّی أخاف ﷲعزّوجل )( ۱ )

'' سات افرادکے اوپر اس دن رحمت الٰہی سایہ فگن ہوگی جس دن اسکے علاوہ اور کوئی سایہ موجود نہ رہے گا:۱۔امام عادل۔۲۔وہ جوان جسکی نشو و نماعبادت الٰہی میں ہوئی ہو۔۳۔جسکا دل مسجدوں سے وابستہ ہو۔ ۴۔خداوند عالم کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے جو اسی کے نام پر جمع ہوں اور اسکی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں(یعنی ان کی ہر محبت اور دشمنی خدا کے لئے ہو) ۔۵۔جوشخص اس طرح چھپا کر صدقہ دے کہ اگر ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔۶۔جو گوشۂ تنہائی میں ذکر الٰہی کرے اور اسکی آنکھ سے آنسو نکل آئیں۔۷۔وہ مرد جسے کوئی حسین وجمیل اور صاحب منصب عورت اپنی طرف دعوت دے اور وہ اس سے یہ کہدے کہ مجھے خدا سے ڈرلگتا ہے''۔

گویا خوف الٰہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو اسکی سب سے خطرناک خواہش اور ہوس یعنی جنسی جذبہ سے بھی روک دیتی ہے اور انسان گناہوں اور برائیوں سے بچ جاتا ہے

حضرت علی :

(العجب ممن یخاف العقاب فلم یکف،ورجیٰ الثواب

____________________

(۱)صحیح بخاری بحث وجوب نماز جماعت باب ۸،بحث وجوب زکات باب ۱۸کتاب رقاق باب ۲۳ کتاب محاربین باب ۴ ،صحیح مسلم در کتاب زکات باب ۳۰ اور ابوالفرج نے بھی اپنی کتاب ذم الہوی میں ص۲۴۳پر اس روایت کو نقل کیا ہے۔

۱۲۹

فلم یتب ویعمل )( ۱ )

''اس شخص پر حیرت ہے جسے سزا کا خوف ہومگر پھر بھی برائی سے نہ رکے اور ثواب کی امید رکھتا ہو اوراسکے باوجودتوبہ کرکے نیک عمل انجام نہ دے ''

امام محمد باقر :

(لاخوف کخوف حاجز ولارجاء کرجاء معین )( ۲ )

''برائیوں سے روکنے والے خوف سے بہتر کوئی خوف نہیں اور نیکیوں میں معاون ثابت ہونے والی امید سے بہتر کوئی امید نہیں ہے ''

مولائے کائنات :

(نعم الحاجزمن المعاصی الخوف )( ۳ )

''برائیوں سے روکنے والی سب سے بہترین چیز کانا م خوف ہے''

خوف ایک پناہ گاہ

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جو خوف اورڈر،اضطراب سے پیدا ہوتا ہے اسی خوف سے اضطراب پیدا ہوجاتا ہے اوراگرچہ یہ امن وامان کے مقابل میں بولا جاتا ہے مگراس کو اسلام نے انسان کے لئے امان اور ڈھال بنادیا ہے ۔کیونکہ خوف ،انسان کو گناہوں اور برائیوں سے نہیں روکتا بلکہ در حقیقت یہ اسے ہلاکت اور بربادی سے بچانے والی ڈھال کا نام ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس خوف

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۳۷۔

(۲)بحارالانوار ج ۷۸ص۱۶۴۔

(۳)میزان الحکمت ج۳ص۱۸۳۔

۱۳۰

کوانسان پہلی نظر میں خطرناک محسوس کرتا ہے وہی خوف انسان کی زندگی کو امن وامان عطا کرنے والی ایک نعمت ہے ۔

اسی بارے میں حضرت علی کا ارشاد ہے :

۱۔(الخوف امان )( ۱ )

''خوف ایک امان ہے''

۲۔(ثمرة الخوف الامان )( ۲ )

''خوف کا پھل امان ہے''

۳۔(خف ربک وارج رحمته، یؤ منک مماتخاف،وینلک مارجوت )( ۳ )

''خدا سے ڈرتے رہو اور اسکی رحمت کی امید رکھو تو جس سے بھی تم خوفزدہ ہو گے وہ تمہیں اس سے بچائے رکھے گا اور جس کی امید ہے وہ تمہیں حاصل ہوجائے گا''

(لاینبغی للعاقل ان یقیم علی الخوف اذا وجد الی الأمن سبیلا )( ۴ )

''کسی صاحب عقل وخرد کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ امن وامان کا راستہ مل جانے کے بعد خوف کی منزل میں پڑا رہے''

روایا ت میں جس خوف کا تذکرہ ہے اس سے مرادعذاب الٰہی سے امان ہے،اور امان سے مراد ،عذاب خداکا خوف ہے اور یہ اسلامی تہذیب و تمدن کے ایک متقابل اور حسین معنی ہیں ۔جس کا

____________________

(۱)میزان الحکمت ج۳ص۱۸۶۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)گذشتہ حوالہ۔

(۴)گذشتہ حوالہ۔

۱۳۱

مطلب یہ ہے کہ دنیا کا خوف آخرت کے لئے امن وامان ہے اور دنیا کا امن وامان اور بے فکری آخرت میں خوف بن جائے گا۔

امیر المومنین نے یہ مفہوم پیغمبر اسلام کے کبھی خشک نہ رہنے والے چشمۂ فیاض سے اخذفرمایا ہے جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :

(وعزتی وجلالی لاأجمع علی عبدی خوفین ولاأجمع له امنین،فاذاامننی فی الدنیااخفته یوم القیامة،واذاخافنی فی الدنیاآمنته یوم القیامة)(۱)

''میری عزت وجلالت کی قسم میںاپنے کسی بندے کو دو خوف یا دو امان (ایک ساتھ)نہ دونگا پس اگر وہ دنیا میں مجھ سے امان میں رہا تو قیامت میں اسے خوف میں مبتلا کردونگا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے خوفزدہ رہا تو آخرت میں اسے امن وامان عطا کردونگا''

____________________

(۱)کنز العمال ،متقی ھندی حدیث ۵۸۷۸۔

۱۳۲

چند واقعات

ہر انسان کو برائیوں اور گناہوں سے بچانے میں خوف الٰہی کیا کردار ادا کرتاہے؟ اسکی مزید وضاحت کے لئے ہم چند واقعات پیش کر رہے ہیں جن میں سے بعض واقعات روایات میں بھی موجود ہیں۔

۱۔ابن جوزی کا بیان ہے کہ مجھ سے عثمان بن عا مرتیمی نے بیان کیا ہے کہ ان سے ابو عمر یحیی بن عاص تیمی نے بیان کیا تھا کہ :''حی''نامی ایک جگہ کا ایک آدمی حج کے لئے گھر سے نکلا ایک رات پانی کے ایک چشمہ پر اس نے ایک عورت کو دیکھا جسکے بال اسکے کاندھوںپربکھرے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی طرف سے اپنا منھ پھیر لیا تو اس نے کہا کہ تم نے میری طرف سے منھ کیوں پھرلیا؟میں نے جواب دیا کہ مجھے خداوند عالم سے ڈرلگتا ہے ۔چنانچہ اس نے اپنا آنچل سر پر ڈال کر کہا:تم بہت جلدی خوف زدہ ہوگئے جبکہ تم سے زیادہ تو اسے ڈرنا چاہئیے جو تم سے گناہ کا خواہشمند ہے ۔

پھر جب وہ وہاں سے واپس پلٹی تو میں اسکے پیچھے پیچھے ہولیا اور وہ عرب دیہاتیوںکے کسی خیمے میں چلی گئی چنانچہ جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے ایک بزرگ کے پاس گیا اور ان سے پورا ماجرا بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس جوان لڑکی کا حسن وجمال اور چال ڈھال ایسی تھی:تو وہیں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا وہ فوراًبول پڑا خدا کی قسم وہ میری بیٹی ہے۔میں نے کہا کیا آپ اس سے میری شادی کرسکتے ہیں؟اس نے جواب دیا اگرتم اسکے کفوہوئے توضرور کردونگا۔میںنے کہا: خداکا ایک مرد ہوں اس نے کہا نجیب کفوہے چنانچہ وہاں سے چلنے سے پہلے ہی میں نے اس سے شادی کرلی اور ان سے یہ کہدیا کہ جب میں حج سے واپس پلٹوں گا تو اسے میرے ساتھ رخصت کردینا چنانچہ جب میں حج سے واپس پلٹاتو اسے بھی اپنے ساتھ کوفہ لے آیا اور اب وہ میرے ساتھ رہتی ہے اور اس سے میرے چند بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔( ۱ )

۲۔مکہ میں ایک حسین وجمیل عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی اس نے ایک دن آئینہ میں اپنی صورت دیکھ کر اپنے حسن وجمال کی تعریف کرتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا ،ذرا بتائے آپ کی نظر میں کیا کوئی ایسا ہے جو اس حسن وجمال کو دیکھ کر نہ بہکنے پائے؟

____________________

(۱)ذم الہوی لا بن جوزی ص۲۶۴۔۲۶۵۔

۱۳۳

شوہر نے کہا ہاں کیوں نہیں، پوچھا کون ہے؟جواب دیا عبید بن عمیر، عورت نے کہا: اگر تم مجھے اجازت دوتو میں آج اسے بہکاکردکھائووں گی؟ کہا :جائو تمہیں اجازت ہے۔چنانچہ وہ گھر سے نکلی اور مسئلہ پوچھنے کے بہانے اسکے پاس پہونچی اس نے اسے مسجد الحرام کے اندر تنہائی میں ملنے کا موقع دے دیا ،تو اس نے اسکے سامنے چاند کی طرح چمکتے ہوئے اپنے چہرہ سے نقاب الٹ دی، تو اس

نے کہا: اے کنیز خدا ،عورت بولی: میں آپ کے اوپر فریفتہ ہوگئی ہوں لہٰذااس معاملہ میں آ پ کی رائے کیا ہے؟اس نے کہا میں تم سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں اگر تم نے میری تصدیق کردی تو میں تمھیں اپنی رائے بتادوں گا، وہ بولی جو کچھ تم پوچھوگے میں سچ سچ جواب دوںگی۔ کہا:ذرا یہ بتائو اگر ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے کے لئے آئیں تو اس وقت تمہیں اچھا لگے گا کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟وہ بولی بخدا ہرگز نہیں۔کہا :تم نے سچ کہا ہے۔پوچھا اگر تمہیں تمہاری قبر میں اتار دیا جائے اور سوال کرنے کے لئے بٹھایا جائے تو اس وقت تمہیں اچھا معلوم ہوگا کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟وہ بولی بخدا نہیں،کہا تم نے سچ جواب دیا۔پھر پوچھا یہ بتائوکہ جب روز قیامت تمام لوگوں کے ہاتھ میں نامۂ اعمال دئے جا رہے ہوں گے اور تم کو یہ معلوم نہ رہے کہ تمہارا نامہ عمل دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں(یعنی نامۂ عمل خراب ہے یا اچھا)اس وقت کیا تم یہ پسند کروگی کہ میں تمہاری یہ حاجت پوری کردوں؟بولی بخدا نہیں۔پھر سوال کیا بتائو جب سب کو میزان کے اوپر کھڑاکیا جارہا ہوگا اور تمھیں یہ معلوم نہ ہو کہ تمہارا نامۂ عمل وزنی ہے یا ہلکا تو کیا تمہیں اس وقت خوشی ہوگی کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟بولی بخدا نہیں۔کہا تم نے صحیح جواب دیا۔پھر پوچھا اگر تمھیں سوال اور جواب کے لئے خدا کے سامنے کھڑا کیا جائے اورمیں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں توکیا اس وقت تم کو اچھا لگے گا؟بولی بخدا نہیں۔کہا تم نے سچ کہا ہے، تواس نے کہا: اے کنیز خدا ،ذرا خدا سے ڈرو اس نے تم کویہ نعمت دے کر تمہارے اوپر احسان کیا ہے یہ سن کر وہ اپنے گھر واپس آگئی شوہر نے پوچھا کہو کیا کرکے آئی ہو؟وہ بولی تم فضول ہو اور ہم سب کے سب فضول ہیں اور اسکے بعد وہ مستقل نماز ، روزہ اور عبادت میں مشغول ہوگئی وہ کہتا ہے کہ اسکا شوہر یہ کہتا رہتا تھا کہ بتائو عبید بن عمیر سے میری کیا دشمنی تھی ؟

۱۳۴

جس نے میری بیوی کو برباد کردیا وہ کل تک تو ایک بیوی کی طرح تھی اوراب اس نے اسے راہبہ بناڈالا۔( ۱ )

۳۔ابو سعد بن ابی امامہ نے روایت کی ہے ایک مرد ایک عورت سے محبت کرتا تھا ،اور وہ بھی اسے چاہنے لگی ایک دن یہ دونوں کسی جگہ ایک دوسرے سے ملے تو عورت نے اسے اپنی طرف دعوت دی ، اس نے جواب دیا :میری موت میرے قبضہ میں نہیں ہے اور تمہاری موت بھی تمہارے بس سے باہر ہے ایسا نہ ہو کہ ابھی موت آجائے اور ہم دونوں گناہکار اور مجرم کی صورت میں خداوند عالم کے دربار میں پہونچ جائیں، بولی: تم سچ کہہ رہے ہو، چنانچہ اسی وقت دونوں نے توبہ کرلی اور اسکے بعد دونوں راہ راست پرآگئے۔( ۲ )

۴۔خارجہ بن زید کا بیان ہے کہ بنی سلیمہ کے ایک شخص نے مجھ سے اپنایہ ماجرا بیان کیا ہے کہ میں ایک عورت کا عاشق ہوگیاتھااور جب بھی وہ مسجد سے نکل کر جاتی تھی میں بھی اسکے پیچھے چل دیتا تھا اور اسے بھی میری اس حرکت کا علم ہوگیا۔چنانچہ اس نے ایک رات مجھ سے کہا تمھیں مجھ سے کچھ کا م ہے؟ میں نے کہا ہاں۔بولی: کیا کام ہے؟میں نے جواب دیا تمہاری محبت ۔اس نے کہا کہ اسے گھاٹے والے دن (روز قیامت) پر چھوڑدو، اسکابیان ہے کہ :خداکی قسم اس نے مجھے رلادیا جسکے بعد میں نے پھر یہ حرکت نہ کی۔( ۳ )

۵۔بنی عبد القیس کے ایک بزرگ کی روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قبیلہ والوں سے سنا ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کو اپنی طرف دعوت دی تو وہ بولی تم نے حدیث سنی ہے اور قرآن پڑھا ہے تم پڑھے لکھے ہو،پھر مرد نے عورت سے کہا کہ :محل کے دروازے بند کردو، تو اس نے دروازے بند کردئے مگر جب وہ مرد اسکے نزدیک ہوا تو وہ عورت بولی کہ ابھی ایک دروازہ کھلارہ گیا

____________________

(۱)ذم الہوی لابن جوزی ص۲۶۵۔۲۶۶۔

(۲)ذم الہوی لا بن جوزی ص۲۶۸۔

(۳)ذم الہوی لا بن جوزی ص ۲ ۲۷۔

۱۳۵

ہے جو مجھ سے بند نہیں ہوسکا۔اس نے کہا کون سا دروازہ ؟جو اب دیا:وہ دروازہ جو تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان کھلا ہے یہ سن کر اس نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔( ۱ )

۶۔ابن جوزی کا بیان ہے کہ ہمیں یہ اطلاع ملی کے بصرہ کی زاہدہ وعابدہ خاتون ایک مہلّبی مرد( ۲ ) کے چنگل میں پھنس گئی ہے،کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی اور جو کوئی اسے شادی کا پیغام دیتا تھاتو وہ منع کردیتی تھی چنانچہ مہلّبی کو یہ خبر ملی کے وہی عورت حج کرنے جاری ہے ،تو اس نے تین سو اونٹ خریدے اور یہ اعلان کردیا کہ جو حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ مجھ سے اونٹ کرائے پرلے سکتا ہے۔چنانچہ اس عورت نے بھی اس سے کرایہ پرایک اونٹ لے لیا۔ایک دن راستہ میں وہ رات کے وقت اسکے پاس آیا اور کہا یاتم مجھ سے شادی کرو، ورنہ !عورت نے جواب دیا :تم پروائے ہو ذرا خدا کا خوف کرو، تو اس نے کہا:ذرا کان کھول کر سنو، خدا کی قسم میں کوئی اونٹوں کاساربان ( اونٹ والا)نہیں ہوں بلکہ میں تو اس کام کے لئے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے نکلا ہوں، لہٰذا جب عورت نے اپنی آبرو خطرے میں دیکھی تو کہا کہ اچھا جائو یہ دیکھو کہ کوئی جاگ تو نہیں رہا ہے؟ اس نے کہا کوئی نہیں جاگ رہا ہے وہ پھر بولی ایک بار اور دیکھ آئو چنانچہ وہ گیا اور جب واپس پلٹ کرآیا تو کہا: ہاں سب کے سب سوچکے ہیں تو عورت نے کہا: تجھ پروائے ہو،کیا رب العالمین کوبھی نیند آگئی ہے؟( ۳ )

حیاء

عقل کے لشکرکی ایک اور صفت ''حیائ''بھی ہے یہ بھی انسان کو تباہی اور بربادی سے بچانے میں اہم کردار کرتی ہے۔چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگرکسی شخص کو خداوند عالم یا اسکے بندوں کی حیاء نہ ہوتووہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتاہے اور اسے اسکی عقل بھی نہیں روک پاتی ہے ۔ایسے حالات میں

____________________

(۱)ذم الہوی لا بن جوزی ص۲۷۴۔

(۲،۳) مہلّب :ایک ثروت مند قبیلہ کا نام ،ذم الہویٰ لا بن جوزی ص۲۷۷۔

۱۳۶

صرف حیاء ہی اسکو گناہ سے بچاتی ہے۔

حیاء (چاہے جس مقدار میں ہو اس) کے اندر عصمت کے مختلف درجات پائے جاتے ہیں جیسے اعزاء و اقرباء سے شرم وحیاء میں جو عصمت پائی جاتی ہے وہی غیروں سے حیاء کے وقت ایک درجہ اور بڑھ جاتی ہے اسی طرح انسان جس کا احترام کرتا ہے اور اسکی تعظیم کا قائل ہے اسکے سامنے حیاء کی وجہ سے اسکے اندر اس سے اعلیٰ درجہ کی عصمت پیدا ہوجاتی ہے۔

آخر کار پروردگار عالم سے حیاء کرنے کی وجہ سے انسان عصمت کے سب سے بلند درجہ کا مالک ہوجاتا ہے ۔لہٰذا اگر انسان اپنے نفس کے اندر خداوند عالم کی حیاء پیدا کرلے اور اس کو اچھی طرح اپنے وجود میںراسخ کرلے اور خدااور اسکے فرشتوں کو ہمیشہ اپنے اوپر حاضر وناظر سمجھے تواس احساس کے اندر اتنی اعلیٰ درجہ کی عصمت پائی جاتی ہے جو اس کو ہر طرح کی نافرمانی، گناہ اور لغزشوںسے بچاسکتی ہے۔

ﷲ تعالیٰ سے حیائ

یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی انسان کے دل میں خداوند عالم کا خیال موجود ہواور وہ اسے حاضر وناظر بھی سمجھ رہا ہو اور اسے یہ بھی یاد ہو کہ خداوند عالم کے علاوہ اسکے معین کردہ فرشتے بھی اس سے اتنا نزدیک ہیں کہ خداوند عالم نے ان سے اسکا جو عمل پوشیدہ رکھتا ہے اسکے علاوہ اسکا کوئی عمل ان سے پوشیدہ نہیں ہے اورپھر بھی وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے چنانچہ پیغمبر اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوذر کو جو وصیت فرمائی تھی اس میں یہ بھی ہے کہ اے ابوذر خدا وند عالم سے شرم وحیاء کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے میرا حال تو یہ ہے کہ جب میں بیت الخلاء کے لئے جاتا ہو ں تو اپنے دونوں فرشتوں سے شرم وحیاء کی بناپر اپنے چہرے پر کپڑاڈال لیتا ہوں۔

حیاء کا وہ ارفع و اعلیٰ درجہ جو خداوند عالم نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا ہے وہ دنیا میں بہت کم افراد کو نصیب ہوا ہے۔ مختصر یہ کہ جب انسان کے نفس کے اندر اور اسکے شعور و ادراک میں اچھی طرح حیائے الٰہی جلوہ فگن ہوجاتی ہے تو پھر اسے گناہوں، برائیوں نیزہوس کے مہلک خطرات کے سامنے سپر انداختہ نہیں ہونے دیتی ہے ۔

۱۳۷

جب اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے شرم وحیاء کی بناء پرانسان نہ جانے کتنے ایسے کام نہیں کرتا ہے جنہیں ان کی عدم موجودگی یا تنہائی میں انجام دے لیتا ہے تواگر اسکے اندرخداوند عالم سے حیاء کا مادہ پیدا ہوجائے تو پھر خداوند عالم کی ناپسندیدہ چیزوں سے وہ بدرجۂ اولیٰ پرہیز کریگا اور اسکے لئے ملاء عام (علی الاعلان)اور گوشہ تنہائی میں کوئی فرق نہ رہ جائے گا۔ اس لئے کہ خداوند عالم ہرجگہ حاضر وناظر ہے ۔اور یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص ،بندوں سے کوئی بات پوشیدہ رکھ لے لیکن خداوندعالم سے اسکی کوئی بات ہرگز پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہے۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(یاأباذراستح من ﷲ،فأنی والذی نفسی بیده لأظل حین أذهب الیٰ الغائط متقنّعاًبثوبی استحی من المَلکین الذین معی )( ۱ )

''اے ابوذر،خداوند عالم سے حیاء کرو،کیونکہ اس ذات کی قسم جسکے قبضہ میں میری جان ہے میں جب بھی بیت الخلاء کے لئے جاتاہوں تو اپنے ہمراہ دونوں فرشتوںسے شرم وحیاء کی وجہ سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ لیتاہوں''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(استحِ من ﷲاستحیاء ک من صالح جیرانک،فان فیهازیادةالیقین )( ۲ )

''خداوند عالم سے اس طرح شرم وحیاء کرو جس طرح تم اپنے نیک اور صالح پڑوسی سے

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۷ص۸۳وکنز العمال ح۵۷۵۱۔

(۲) بحارالانوار ج۷۸ص۲۰۰۔

۱۳۸

شرماتے ہو کیونکہاس سے یقین میں اضافہ ہوتا ہے''

آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے :

(لیستحِ أحدکم من ملکیه الذین معه،کمایستحی من رجلین صالحین من جیرانه،وهمامعه باللیل والنهار )( ۱ )

''اپنے فرشتوں سے تم اسی طرح شرم وحیا کیا کرو جس طرح تم اپنے دو صالح اور نیک پڑوسیوں سے شرماتے ہو کیونکہ یہ فرشتے رات دن تمہارے ساتھ رہتے ہیں''

خداوند عالم سے ہر حال میں شرم وحیا کے بارے میں امام کاظم سے نقل ہوا ہے:

(استحیوا من ﷲ فی سرائرکم،کما تستحون من الناس فی علانیتکم )( ۲ )

''تنہائی میں خداوند عالم سے اسی طرح شرم وحیا کیاکرو جس طرح لوگوں کے سامنے تمھیں حیا آتی ہے''

مختصر یہ کہ اگر کسی کے اندر خداوند عالم سے حیاکا عرفان پیدا ہوجائے تو وہ عصمت کے بلند ترین درجہ پر فائز ہوسکتا ہے اور اسکے لئے ملا ء عام یاگوشۂ تنہائی میں کوئی فرق نہیں ہے اسکے لئے روایات میں مختلف تعبیرات ذکر ہوئی ہیں۔

حضرت علی :

(الحیاء یصدّ عن الفعل القبیح )( ۳ )

''حیا برائیوں سے روک دیتی ہے ''

آپ ہی نے یہ بھی فرمایا ہے:

____________________

(۱)میزان الحکمت ج۲ص۵۶۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۳۰۹۔

(۳)میزان الحکمت ج۲ص۵۶۴۔

۱۳۹

(علیٰ قدرالحیاء تکون العفة )( ۱ )

''حیا کی مقدار کے برابرہی عفت بھی ہوتی ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(استحیوا من ﷲحق الحیائ،فقیل یارسول ﷲ:ومن یستحی من ﷲحق الحیائ؟فقال:من استحییٰ من ﷲحق الحیاء فلیکتب أجله بین عینیه،ولیزهد فی الدنیاوزینتها،ویحفظ الرأس وماحویٰ والبطن وماوعیٰ )

''خداوند عالم سے ایسی حیا کروجو حیا کر نے کا حق ہے سوال کیا گیا خداوند عالم سے حیا کرنے کا جوحق ہے اسکا کیا طریقہ ہوگا؟آپ نے فرمایا کہ جو خداوند عالم سے واقعاً حیا کرنا چاہتا ہے وہ اپنی موت کو اپنی دونوں آنکھوں کے سامنے مجسم کرلے (اپنی پیشانی پر لکھ لے )اور دنیا اور اس کی زینتوںسے اجتناب کرے اور اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اور اپنے پیٹ اور جو اسکے اندر بھرا ہے ان سے محفوظ رہے''( ۲ )

امام موسیٰ کاظم :

(رحم ﷲ من استحییٰ من الله حق الحیائ،فحفظ الرأس وماحویٰ،والبطن وماوعیٰ )( ۳ )

''ﷲ تعا لی اس بندے پر رحم کرے جسکو اس سے واقعا حیا آتی ہو اور اسی لئے وہ اپنے سر کے وسوسوں اور پیٹ کی شہوتوں سے اپنے کو محفوظ رکھے''

روایت میں سر اور معدہ کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اکثر شہوتیں انہیں دونوں جگہوں سے

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ۔

(۲)بحارالانوار ج۷۰ص۳۰۵۔

(۳)بحارالانوار ج۷۰ص۳۰۵۔

۱۴۰