خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں0%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 349
مشاہدے: 127704
ڈاؤنلوڈ: 3482

تبصرے:

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127704 / ڈاؤنلوڈ: 3482
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

برہم معاملات معیشت کو سمیٹ دو نگااور اسمیں ''علیٰ''کے ذریعہ جو تعدیہ ہے اسکی بنا پر،برکت اور شفقت و غیرہ کے معنی میں ہے یا''علیٰ ''الیٰ کے معنی میں ہے جسکی طرف نہایہ میں اشارہ موجود ہے البتہ اس صورت میں برکت وغیرہ کے معنی مراد نہ ہونگے''

۲۔''کف''منع کرنے اور ''علیٰ ''،''فی'' کے معنی میں ہو اور'' ضیعہ''ضائع اوربربادہونے کے معنی ہو یعنی اس نے اسکی جان،مال ،محنت او ر اسکی تمام متعلقہ چیزوں کو ضائع ہونے سے بچالیا اسکی تائید اس فقرہ ''وکففت عنہ ضیعتہ''سے بھی ہوتی ہے جو شیخ صدوق(رح)کی روایت کے ذیل میں آئندہ ذکر ہوگا۔

ہمیں یہ دوسرے معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں جو حدیث کے سیاق کے مطابق اور اس سے مشابہ بھی ہیں خاص طور سے جب ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شیخ صدوق (رح) نے بعینہ اسی روایت میں ''وکففت عنہ ضیعتہ''نقل کیا ہے جس میں علیٰ کی جگہ عن سے تعدیہ آیا ہے اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ کف دفع یا منع کرنے اور پلٹانے کے معنی میں ہے جو کہ رفع کے معنی سے مختلف ہیں کیونکہ دفع کے معنی ،کسی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اسے روک دینا ہیں اور رفع کے معنی کسی چیز کے وجودمیں آجانے کے بعد اسے زائل کردینا یا ختم کردینا ہیں یا دوسرے الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ رفع علاج کی طرح ہوتا ہے اور دفع بیماری آنے سے پہلے اسے روک دینے کی طرح ہے ۔

اور کف ،دفع کے معنی میں ہے نہ کہ رفع کے معنی میں جسکے مطابق اسکے معنی یہ ہونگے خداوند عالم نے اسکو ضائع نہیں ہونے دیا ،یاوہ اسکی بربادی کے لئے راضی نہ ہوا اور یہ بھی ایک قسم کی ہدایت ہے کیونکہ ہدایت کی دو قسمیںہیں :

۱۔گمراہی کے بعد ہدایت

۲۔گمراہی سے پہلے ہدایت

ان دونو ںکو ہی ہدایت کہا جاتا ہے لیکن پہلی والی ہدایت اس وقت ہوتی ہے جب انسان گمراہی اور تباہی میں مبتلا ہوچکا ہو لیکن دوسری قسم کی ہدایت اسکی گمراہی اور بربادی سے پہلے ہی پوری ہوجاتی ہے اور یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ بہتر ہے ۔

حدیث میں (کف ضیعتہ)بربادی سے حفاظت کا تذکرہ ہے نہ کہ ہدایت کا اور بربادی سے حفاظت ،

ہدایت کا نتیجہ ہے اس لئے یہ منزل مقصود تک پہونچانے کے معنی میں ہے نہ کہ راستہ دکھانے اور یاد دہانی کے معنی میں ۔

۳۲۱

ہدایت کے معنی

لفظ ہدایت دو معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ہدایت کے ایک معنی منزل مقصود تک پہونچانا ہیں اور دوسرے معنی راستہ بتا نا ،راہنمائی کرناہیں جیسا کہ خداوند عالم کے اس قول :

( انک لاتهدی من أحببت ولکن ﷲ یهدی من یشائ ) ( ۱ )

''پیغمبر بیشک آپ جسے چا ہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیدیتا ہے ''

میں یہ لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔طے شدہ بات ہے کہ یہاں جس ہدایت کی نفی کی جارہی ہے وہ منزل مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ہے کہ یہ چیز صرف پروردگار عالم سے مخصوص ہے ورنہ راستہ دکھانا رہنمائی کرنا تو پیغمبر اسلام کا فریضہ اورآپ کی اہم ترین ذمہ داری ہے اس معنی میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ہدایت کا انکار کرکے اسے صرف پروردگا ر سے مخصوص کردینا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم پیغمبر کے بارے میں فرماتا ہے :

( وانک لتهدی الی صراطٍ مستقیم ) ( ۲ )

''اور بیشک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کررہے ہیں ''

اسی معنی میں قرآن کریم میں مومن آل فرعون کا یہ جملہ ہے :

____________________

(۱)سورئہ قصص آیت ۵۶۔

(۲)سورئہ شوریٰ آیت۵۲۔

۳۲۲

( یا قوم اتّبعون أهدکم سبیل الرشاد ) ( ۱ )

''اے قوم والو :میرا اتباع کرو،میں تمھیں ہدایت کا راستہ دکھا دوں گا ''

یہاں پر بھی ہدایت ،راہنمائی اور راستہ دکھانے کے معنی میں ہے نہ کہ منزل مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ۔۔۔اس حدیث شریف میں بھی ہدایت کے پہلے معنی (منزل تک پہنچانا) ہی زیادہ مناسب ہیںاس لئے کہ دوسرے معنی کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ انسان ضائع نہ ہو بلکہ ایصا ل الی المطلوب ہی انسان کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور انسان کو قطعی طور پر اللہ تک پہنچانے کا ضامن ہے

سیاق وسباق سے بھی یہی معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں اس لئے کہ یہ گفتگو ان لوگوں پرخصوصی فضل الٰہی کی ہے کہ جو اپنے خواہشات پر ﷲ کی مرضی کو مقدم کرتے ہیں لہٰذا فضل وعنایت کاخصوصی تقاضا یہ ہے کہ انھیں منزل مقصود تک پہنچا یا جائے ورنہ رہنمائی اور راستہ دکھا ناتو خدا کی عام عنایت ورحمت ہے جوصرف مومنین سے یا ان لوگوں سے مخصوص نہیں ہے کہ جوﷲ کی مرضی کو مقدم کرتے ہوں بلکہ یہ عنایت تو ان لوگوں کے شامل حال بھی ہے کہ جو اپنی خواہشات کو ﷲ کی مرضی پر مقدم کرتے ہیں ۔

ﷲ بندہ کو بربادی اورضائع ہونے سے کیسے بچاتا ہے ؟

درحقیقت یہ کام بصیرت کے ذریعہ ہوتا ہے ۔بصیر ت کے اعلیٰ درجات پر فائز انسان قطعی طور پر ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے ۔

لہٰذا جب خداوندعالم کسی بندہ کیلئے خیر کا ارادہ کرتا ہے اور اسے بربادی سے بچانا چا ہتا ہے تو اسے بصیرت مرحمت کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نجات پاجاتا ہے اور خدا تک اس کی رسائی قطعی ہوجاتی ہے یہ بصیرت اس منطقی دلیل وبرہان سے الگ ہے کہ جس کے ذریعہ بھی انسان خدا تک پہنچتا

____________________

(۱)سورئہ غافرآیت ۳۸۔

۳۲۳

ہے اور اسلام اس کا بھی منکر نہیں ہے بلکہ اسے اپنا نے اوراختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے وہ اسے ہر شخص کے دل کی گہرائیوں میں اتارنا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد عقل و منطق کے سہارے ہی خدا تک پہنچتی ہے ۔

بصیرت کا مطلب حق کا مکمل طریقہ سے واضح دکھائی دینا ہے ۔ایسی رویت منطقی استدلال کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور صفائے نفس اور پاکیزگی ٔ قلب کے ذریعہ بھی حاصل ہو سکتی ہے یعنی انسان کسی ایک راستہ سے اس بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے یا عقلی اور منطقی دلائل کے ذریعہ یا پاکیزگی ٔ نفس کے راستہ ۔

اسلام ان میں سے کسی ایک کو کافی قرار نہیں دیتا بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے انسان کے اوپر دونوں کو اختیار کرنا ضروری ہے ۔یعنی عقلی روش کو اپنانا بھی ضروری ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانا بھی ۔اس آیۂ شریفہ میں قرآن مجید نے دونوں باتوں کی طرف ایک ساتھ اشارہ کیا ہے:

( هوالذی بعث فی الامیّین رسولاً منهم یتلوا علیهم آیاته ویزکّیهم و یعلّمهم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبلُ لفی ضلالٍ مبینٍ ) ( ۱ )

'' اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے''

تزکیہ کا مطلب صفائے قلب اور پاکیزگیٔ نفس ہے جس سے معرفت الہی کے بے شمار دروازے کھلتے ہیں ۔

معرفت کا دوسرا باب (تعلیم )ہے بہر حال بصیر ت چاہے عقل ومنطق کا ثمرہ ہویا تزکیہ وتہذیب نفس کا یہ طے ہے کہ حیات انسانی میں بصیرت کا سر چشمہ پروردگار عالم ہی ہے اسکے علاوہ کسی اور جگہ سے بصیرت کا حصول ممکن نہیں ہے اور اس تک رسائی کا دروازہ عقل وتزکیۂ نفس ہے ۔

____________________

(۱)سورئہ جمعہ آیت۲۔

۳۲۴

بصیرت اور عمل

ایک بار پھر اس بات کی وضاحت کردیں کہ اسلام بصیرت کیلئے ''علم ''اور تزکیہ یا''عقل اور صفائے قلب ''دونوں کو تسلیم کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ان میں سے ایک ،دوسرے سے بے نیاز نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی طے ہے کہ حصول بصیرت کیلئے تزکیہ زیادہ اہم اور موثر ہے اسی لئے قرآنِ کریم نے آیہ ٔ بعثت میں تزکیہ کو علم پر مقدم رکھا ہے :

( یزکّیهم ویعلّمهم الکتاب والحکمة ) ( ۱ )

''ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے''

مناسب ہوگا کہ چند لمحے ٹھہرکر ہم خود (تزکیہ )کے بارے میں بھی غور کریں اور دیکھیں کہ تزکیۂ نفس کیسے ہوتا ہے ؟

رہبا نیت کے قائل مذاہب میں تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی جائے اور حیات دنیوی سے فرار اختیار کیا جائے اس طرح تزکیہ کا خواہشمند انسان جب اپنی ہویٰ وہوس اور خواہشات نفسانی اور فتنوں سے پرہیز کرے گا تو اسکا نفس پاکیزہ ہوجا ئے گا لیکن اسلامی طریقہ ٔ تربیت میں صور تحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔اسلام تزکیہ کے خواہشمندکسی بھی مسلمان کو ہر گزیہ نصیحت نہیں کرتا کہ فتنوں سے فرار کرے خواہشات اور ہویٰ وہوس کو کچل دے بلکہ اسلام فرار کے بجائے فتنوں سے مقابلہ اور خواہشات کو کچل کر ختم کر نے کے بجائے انھیں حدا عتدال میں رکھنے کی دعوت دیتاہے ۔

اسلام کا طریقۂ تربیت ،عمل کو تزکیہ کی بنیاد قرار دیتا ہے نہ کہ گوشہ نشینی ،رہبا نیت اور محرومی کو ۔اور یہی عمل بصیرت میں تبدیل ہوجاتا ہے جس طرح بصیرت عمل میں ظاہر ہوتی ہے لہٰذا

____________________

(۱)سورئہ جمعہ آیت۲

۳۲۵

دیکھنا یہ ہوگا کہ عمل کیا ہے ؟بصیرت کسے کہتے ہیں ؟اور ان دونوں میں کیا رابطہ ہے ؟

بصیرت اور عمل کا رابطہ

بصیرت کے بارے میں اجمالی طور پرگفتگو ہوچکی ہے ۔۔یہاں عمل سے مراد ہروہ سعی و کو شش ہے جس کو انسان رضائے الہی کی خاطر انجام دیتا ہے اس کے دورخ ہوتے ہیں ایک مثبت ،یعنی اوا مرخدا کی اطاعت اور دوسرا سلبی یعنی اپنے نفس کو حرام کا موں سے محفوظ رکھنا ۔ اس طرح عمل سے مرادیہ ہے کہ خوشنودی پر وردگار کی خاطر کوئی کام کرے چاہے کسی کام کو بجا لا یا جائے اور چا ہے کسی کام سے پر ہیز کیا جائے ۔بصیرت اور عمل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہے ۔ بصیرت عمل کا سبب ہوتی ہے اور عمل ،بصیرت کا ۔۔۔اور دونوں کے آپسی اور طرفینی رابطے سے خود بخود بصیرت اور عمل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے عمل صالح سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور بصیرت میں زیادتی عمل صالح میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اس طرح انمیں سے ہر ایک دوسرے کے اضافہ کا موجب ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان انھیں کے سہارے بصیرت وعمل کی چوٹی پر پہونچ جاتا ہے ۔

۱۔ عمل صالح کا سرچشمہ بصیرت

بصیرت کا ثمر ہ عمل صالح ہے ۔اگر دل وجان کی گہرائیوں میں بصیرت ہے تو وہ لامحالہ عمل صالح پر آمادہ کر ے گی بصیرت کبھی عمل سے جدا نہیں ہوسکتی ہے روایات اس چیز کو صراحت سے بیان کرتی ہیں کہ انسان کے عمل میں نقص اورکوتاہی دراصل اس کی بصیرت میں نقص اورکوتاہی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اس سلسلہ میں چند روایات ملا حظہ فرما ئیں ۔

۳۲۶

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل امین سے نقل فرما یا ہے :

(الموقن یعمل ﷲکأنه یراه،فان لم یکن یریٰ ﷲ فان ﷲ یراه )( ۱ )

''درجۂ یقین پر فائز انسان ﷲ کیلئے اس طرح عمل انجام دیتا ہے جیسے وہ ﷲکو دیکھ رہا ہے اگر وہ ﷲکو نہیں دیکھ رہا ہے تو کم از کم ﷲ تو اس کو دیکھ رہا ہے ''

مولائے کائنات سے منقول ہے :

(یُستدل علیٰ الیقین بقصرالامل،واخلاص العمل،والزهد فی الدنیا )( ۲ )

''آرزووں کی قلت، اخلاص عمل اور زہد، یقین کی دلیلیں ہیں''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(التقویٰ ثمرةالدین،وأمارةالیقین )( ۳ )

''تقویٰ دین کا ثمر ہ اور یقین کا سردار ہے''

نیز آپ سے مروی ہے:

(من یستیقن،یعملْ جاهداً )( ۴ )

''صاحب یقین بھر پور جدوجہد کے ساتھ عمل انجام دیتا ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(ان العمل الدائم القلیل علیٰ الیقین،أفضل عندﷲ من العمل الکثیرعلیٰ غیریقین )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۷ص۲۱ ۔

(۲)غرر الحکم ج ۲ص ۳۷۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۸۵۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۶۶۔

(۵)اصول کافی ج۲ص۵۷۔

۳۲۷

''یقین کے ساتھ مسلسل تھوڑا عمل کرناﷲکے نزدیک یقین کے بغیربہت زیادہ عمل سے افضل ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(لاعمل الابیقین،ولایقین الابخشوع )( ۱ )

''یقین کے بغیر عمل اور خشوع کے بغیر یقین بے فا ئدہ ہے ''

آپ نے ارشاد فرمایا :

(العامل علیٰ غیربصیرةکالسائر علیٰ سراب بقیعة لا یزیده سرعةالسیر الابعدا )( ۲ )

''بصیرت کے بغیر عمل انجام دینے والا ایسا ہے جیسے سراب کے پیچھے دوڑنے والا کہ اسکی تیزی اسے منزل سے دور ہی کرتی جاتی ہے ''

صادق آل محمد کا ہی یہ بھی فرمان ہے :

(انکم لا تکونون صالحین حتیٰ تعرفوا،ولا تعرفون حتیٰ تصدقوا ولاتصدقون حتیٰ تسلموا )( ۳ )

''تم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے جب تک معرفت حاصل نہ کرلو اور یقین کے بغیر معرفت اور تسلیم کے بغیر تصدیق حاصل نہ ہو گی ''یعنی تصدیق معرفت اور معرفت، عمل صالح کاذریعہ ہے

امام جعفر صادق سے مروی ہے :

____________________

(۱)تحف العقول ص۲۳۳۔

(۲)وسائل الشیعہ ج ۱۸ ص ۱۲۲ح۳۶۔

(۳)بحارالانوار ج ۶۹ ص۱۰۔

۳۲۸

(لایقبل عمل الا بمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،فمن عرف دلّته المعرفة علیٰ العمل )( ۱ )

''معرفت کے بغیر کو ئی عمل قابل قبول نہیں ہے اور عمل کے بغیر معرفت بھی نہیں ہو سکتی جب معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو معرفت خود عمل پر ابھارتی ہے ''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(لایقبل عمل الابمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،ومن عرف دلّته معرفته علیٰ العمل ،ومن لم یعرف فلا عمل له )( ۲ )

''معرفت کے بغیر عمل قبول نہیں ہوتا اور عمل کے بغیر معرفت حاصل نہیں ہوتی جب معرفت حاصل ہوجاتی ہے تووہ خود انسان کو دعوت عمل دیتی ہے جس کے پاس معرفت نہیں ہے اس کے پاس عمل بھی نہیں ہے''

۲۔بصیرت کی بنیاد عمل صالح

ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمل صالح کی بنیاد بصیرت ہے اسی کے با لمقابل بصیرت کا سرچشمہ عمل صالح ہے ۔دوطرفہ متبادل رابطوں کے ایسے نمونے آپ کواسلامی علوم میں اکثر مقامات پر نظر آئیں گے ۔

قرآن کریم عمل صالح اور بصیرت کے اس متبادل اور دوطرفہ رابطہ کا شدت سے قائل ہے اور بیان کرتا ہے کہ بصیرت سے عمل اور عمل صالح سے بصیرت حاصل ہوتی ہے اور عمل صالح کے ذریعہ ہی انسان خداوندعالم کی جانب سے بصیرت کا حقدار قرار پاتا ہے ۔

( والذین جاهدوا فینا لنهدینّهم سُبُلَنا وان ﷲ لمع المحسنین ) ( ۳ )

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ ص۴۴۔

(۲)تحف العقول ص۲۱۵۔

(۳)سورئہ عنکبوت ۶۹۔

۳۲۹

''اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقیناﷲحسن عمل والوں کے ساتھ ہے ''

آیت واضح طورپر بیان کر رہی ہے کہ جہاد (جوخود عمل صالح کا بہترین مصداق ہے )کے ذریعہ انسان ہدایت الہی کو قبول کرنے اور حاصل کرنے کے لائق ہوتا ہے ۔

( لنهدینّهم سبلنا ) ( ۱ )

''ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کرینگے ''

حدیث قدسی میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لایزال عبدی یتنفّل لی حتیٰ اُحبّه ، فاذا أحببته کنت سمعه الذی به یسمع، وبصره الذی یبصر به،و یده التی بها یبطش )( ۲ )

''میرا بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر نے لگتا ہو ں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ سنتا ہے اسکی

____________________

(۱)خداوند عالم ہمارے شیخ جلیل مجاہد راہ خدا شیخ عباس علی اسلامی پر رحمت نازل کرے میں ان سے اکثر یہ سنا کرتا تھا :کہ انسان کو ہر حرکت کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہو تی ہے جن کا بدل ممکن نہیں ہے ایک تو وہ اس چیز کا محتاج ہوتا ہے جو تحرک میں اس کی مدد کر ے اور حرکت کی تکان کو ہلکا کردے اور اسے ایسی طاقت و قوت عطا کرے جس سے وہ اپنی حرکت کو جاری رکھ سکے اور دوسرے اس چیز کا محتاج ہوتا ہے جو اسے صحیح راستہ کی رہنمائی کرتی رہے تا کہ وہ راستہ سے بھٹکنے نہ پائے یعنی اسے ایسی قوت وطاقت کی ضرورت ہو تی ہے جو ہدایت اور بصیرت کے مطابق اس کی حرکت کا راستہ معین کرے تاکہ وہ صراط مستقیم پر چلتا رہے اور انہیں دونوں چیزوں کا وعدہ ہم سے پروردگار عالم نے سورئہ عنکبوت کی آخری آیت میں فر مایا ہے :(والذین جاھدوافینالنھدینھم سبلناوانّ اللّٰہ لمع المحسنین )پس جو لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پروردگار عالم ان کو پہلے تو پشت پناہی اور قوت و طاقت عطا کرتا ہے اور یہی خدا کی معیت ہے '' انّ اللّٰہ لمع المحسنین) اور دوسرے ان کوبصیرت و ہدایت عطا کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے (لنهدینهم سبلنا

(۲)اصول کافی ج۲ص۳۵۲۔

۳۳۰

آنکھیں بن جاتا ہوں جنکے ذریعہ وہ دیکھتا ہے اسی کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ چیزوں کو چھوتا ہے ''

یہ بہت ہی مشہور ومعروف حدیث ہے تمام محدثوں ،معتبرراویوں اور مشایخ حدیث نے اس حدیث قدسی کو نقل کیا ہے نقل مختلف ہے مگر الفاظ تقریباً ملتے جلتے ہیں اور روایت صحیح ہے اوروضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ عبادت ،معرفت ویقین کا دروازہ ہے اور بندہ قرب الٰہی کی منزلیں طے کرتارہتا ہے یہاں تک کہ ﷲ اسے بصیرت عطا کردیتا ہے پھر وہ ﷲ کے ذریعہ سنتا ہے دیکھتا ہے اور ادراک حاصل کرتا ہے ۔۔۔اور ظاہر ہے کہ جو ﷲ کے ذریعہ یہ کام انجام دے گا تو اسکی سماعت بصارت اور معرفت میں خطا کا کوئی امکان نہیں ہے ۔

دوسرا رخ

عمل اور بصیرت کے درمیان دوطرفہ رابطہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح بصیرت سے عمل اور عمل سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اس رابطہ کا دوسرا رخ بھی ہے جس کے مطابق برے اعمال اورکردارکی خرابی بصیرت میں کمی ،اندھے اور بہرے پن کا سبب ہوتے ہیں اس کے برعکس یہ چیزیں بے عملی اور گناہ وفساد کا باعث ہوتی ہیں ۔

گذشتہ صفحات میں ہم نے روایات کی روشنی میں عمل اور بصیرت کے درمیان مثبت رابطہ کی وضاحت کی تھی اسی طرح اس رابطہ کے دوسرے رخ کو بھی احادیث کی روشنی میں ہی پیش کررہے ہیں ۔

۳۳۱

بے عملی سے خاتمۂ بصیرت

اسلامی روایات سے یہ صاف واضح ہوجاتا ہے کہ برے اعمال سے بصیرت ختم ہوتی رہتی ہے قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پراس حقیقت کا اظہار واعلان کیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

( أفرأیت من اتّخذ الٰهه،هواه وأضلّه ﷲ علیٰ علمٍ وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوةً فمن یهدیه من بعد ﷲ ) ( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کراسے گمراہی میں چھوڑ دیا اور اسکے کان اوردل پرمہرلگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے ''

جن لوگوں نے خدا کو چھوڑکر کسی دوسرے معبود کی عبادت کرکے شرک اختیار کیا ﷲ ان سے بصیرت سلب کرلیتا ہے اور ان کے کانوں اور دلوں پر مہر لگادیتا ہے آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے اور طے ہے کہ جب ﷲ کسی بندہ سے بصیرت سلب کرلے تو پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اسی کو قرآن مجیدان الفاظ میں بیان کرتا ہے :

( کذلک یُضلّ ﷲ الکافرین ) ( ۲ )

''ﷲاسی طرح کافروں کو گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ''یہ جملہ دراصل گذشتہ تفصیل کا اجمالی بیان ہے

( کذلک یُضل ﷲ من هومسرف مرتاب ) ( ۳ )

'' اسی طرح خدا زیادتی کرنے والے اور شکی مزاج انسانوں کو انکی گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے''

اس لئے کہ اسراف گمراہی کی طرف لے جاتا ہے

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے :

( وما یُضلّ به الا الفاسقین ) ( ۴ )

''اور گمراہی صرف انکا حصہ ہے جو فاسق ہیں ''

____________________

(۱) سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

(۲)سورئہ غافرآیت۷۴۔

(۳)سورئہ غافرآیت ۳۴۔

(۴)سورئہ بقرہ آیت۲۶ ۔

۳۳۲

یا :( ویُضلّ ﷲ الظالمین ) ( ۱ )

''ﷲ ظالمین کو گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ''

اس کا مطلب یہ ہے کہ فسق اورظلم ،گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( کَلا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۲ )

''نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ''

انسان جب گنا ہوں اور معصیتوںکا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے یہی اعمال ایک ٹیلہ کی شکل میں جمع ہو کر اس کے قلب کے سامنے رکاوٹ بن جاتے ہیں اور پھر خدا اور حق اسے نظر نہیں آتے ۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی القَوْم َ الظَّالِمِیْنَ ) ( ۳ )

''ﷲ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ''

( ان ﷲ لا یهدی القوم الکافرین ) ( ۴ )

''ﷲکافروں کی ہدایت نہیں کرتا ''

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی القَوْمَ الْفاسقین ) ( ۵ )

''یقینا ﷲ بدکار لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ''

____________________

(۱)سورئہ ابراہیم آیت۲۷۔

(۲)سورئہ مطففین آیت۱۴۔

(۳)سورئہ قصص آیت۰ ۵۔

(۴)سورئہ مائدہ آیت ۶۷۔

(۵)سورئہ منافقون آیت۶۔

۳۳۳

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی من هوَ مُسْرِف کَذَّا ب ) ( ۱ )

''بیشک ﷲ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی ہدایت نہیں کرتا ''

( انَّ اللّٰهَ لَایَهْدِی من هُوکاذب کفار ) ( ۲ )

''ﷲ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کی ہدایت نہیں کرتا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(لولا تکثیر فی کلامکم ،وتمزیج فی قلوبکم، لرأیتم ما أریٰ و سمعتم ما اسمع )( ۳ )

''اگر تمہارے کلام میں کثرت نہ ہو تی اور قلوب آلودہ نہ ہوتے تو تم بھی وہی دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں اور وہی سنتے جومیں سنتاہوں ''

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(کیف یستطیع الهدیٰ من یغلبه الهویٰ )( ۴ )

''جس پرہویٰ وہوس غالب ہو وہ کیسے ہدایت پاسکتا ہے ؟''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(انکم ان أمّرْتُم علیکم الهویٰ أصمّکم وأعماکم وأرداکم )( ۵ )

''اگر تم نے اپنے اوپر ہویٰ وہوس کوغالب کرلیاتو وہ تمہیں بہرا،اندھا اور پست بنادیں گی ''

اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل باطل اور فضول باتیں کرنااور دلوں میں حق و باطل کا گڈمڈہونایہ

____________________

(۱)سورئہ غافرآیت۲۸۔

(۲)سورئہ زمرآیت۳۔

(۳)المیزان ج۵ص۲۹۲۔

(۴)غرر الحکم ج۲ ص ۹۴۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۲۶۴۔

۳۳۴

آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرابنا دیتا ہے ۔

امام محمد باقر نے فرمایا :

(مامن عبد الا وفی قلبه نکتة بیضائ،فاذا أذنب خرج فیتلک النکتة،نکتة سودائ،فاذا تاب ذهب ذٰلک السواد،وان تمادیٰ فی الذنوب زادذلک السواد حتیٰ یغطّی البیاض،فاذا غطّیٰ البیاض لم یرجع صاحبه الیٰ خیرأبداً،وهو قول ﷲ عزّوجل: ( بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۱ )

''ہر انسان کے دل میں ایک سفیدی ہوتی ہے انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سفیدی میںایک سیاہ نقطہ نمودار ہوجاتا ہے اگر گناہگار تو بہ کرلیتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہوجاتی ہے لیکن اگر گناہوں کا سلسلہ جاری رہے تو سیاہی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ سیاہی دل کی سفیدی کو ڈھانپ لیتی ہے اور جب سفیدی پوشیدہ ہوجاتی ہے تو ایسا انسان کبھی خیر کی جانب نہیں پلٹ سکتا ۔ یہی خدا وند عالم کے قول(بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون)'نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے'کے معنی ہیں''

یہی سیاہی جب قلب پر چھاجاتی ہے تو اسکے لئے حجاب بن جاتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان سے بصیرت سلب ہوجاتی ہے بہ الفاظ دیگر انسان جب گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے تو بصیرت ختم ہوجاتی ہے ۔

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(ماشیء أفسد للقلب من الخطیئة،ان القلب لیواقع الخطیئة فماتزال به حتیٰ تغلب علیه فیصیر أسفله أعلاه،وأعلاه أسفله ،قال رسول ﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۲ )

____________________

(۱)نوررالثقلین ج۵ص۵۳۱۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۳۳۵

''خطا سے بڑھ کر قلب کو فاسد کرنے والی کوئی شئے نہیں ہے ،بیشک جب دل میں کوئی برائی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اسی میں باقی رہ کر اس پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے تو اسکا نچلا حصہ اوپر اور اوپری حصہ نیچے ہو جاتا ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :(انّ المؤمن اذا أذنب کانت نکتة سوداء فی قلبه،فاذا تاب ونزع واستغفرصقل قلبه، وان ازداد زادت فذلک الرین الذی ذکره ﷲتعالیٰ فی کتابه ( کلّا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوایکسبون ) ( ۱ )

''مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے اگر تو بہ واستغفارکرلے تو اسکا قلب صیقل ہوجاتا ہے لیکن اگر گناہوں میں زیادتی ہوتی رہے تو یہی (رین) یعنی زنگ بن جاتا ہے جسے خدا نے آیت (کلاّبل ران علیٰ قلوبھم)میں فرمایا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(انْ أطعت هواک اصمک وأعماک )( ۲ )

''اگر تم ہویٰ وہوس کی اطاعت کروگے تو وہ تمہیں بہرا اور اندھا بنادے گی''

فقدان بصیرت برے اعمال کا سبب

جس طرح برائیوں اور گناہوں سے گمراہی پیدا ہوتی ہے اسی کے برعکس ضلالت و گمراہی بھی گناہ اور بد عملی کاسبب ہوتی ہے اور اس طرح جہالت و ضلالت اور فقدان بصیرت کے باعث شقاوت و بدبختی ظلم واسراف جیسے برے اعمال وجود میں آتے ہیں ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( قالوا ربّنا غلبت علیناشِقوتنا وکنّا قوما ضالّین ) ( ۳ )

____________________

(۱)نورالثقلین ج۵ص۵۳۱۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)سورئہ مومنون آیت ۱۰۶۔

۳۳۶

''وہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ہم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم لوگ گمراہ ہوگئے تھے''

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا :

(لاورع مع غیّ )( ۱ )

''گمراہی کے بعد کوئی پارسائی نہیں رہتی ''

مولائے کائنات نے،معاویہ بن ابی سفیان کواپنے خط میں تحریر فرمایاہے:

(امریء لیس له بصر یهدیه،ولا قائد یرشده،قد دعاه الهویٰ فأجابه،وقاده الضلال فاتّبعه، فهجرلاغطاً،وضلّ خابطاً )( ۲ )

''(مجھے تیرا جوخط ملا ہے )یہ ایک ایسے شخص کا خط ہے جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور نہ راستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو اس نے لبیک کہدی اور گمراہی نے کھینچا تو اسکے پیچھے چل پڑا اور اسکے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من زاغ ساء ت عنده الحسنة،وحسنت عنده السیئة،وسکرسکرالضلالة )( ۳ )

''جوکجی میں مبتلا ہوا،اسے نیکی برائی اور برائی نیکی نظر آنے لگتی ہے اور وہ گمراہی کے نشہ میں چور ہوجاتا ہے ''

لہٰذا معلوم ہوا کہ بصیرت اور عمل میں دوطرفہ مستحکم رابطہ ہے یہ رابطہ مثبت انداز میں بھی

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۳۴۵۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۷۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۳۱۔

۳۳۷

ہے اور منفی صورت میں بھی ۔جسے اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے ۔

۱۔بصیرت ،عمل صالح کی طرف لے جاتی ہے ۔

۲۔عمل صالح، بصیرت و ہدایت کا سبب ہوتا ہے ۔

۳۔ضلالت اور فقدانِ بصیرت، ظلم وجور جیسے دیگر برے اعمال اور گناہوںکا سبب ہوتی ہے ۔

۴۔برے اعمال اورظلم وجور سے بصیرت ختم ہوجاتی ہے ۔

خلاصۂ کلام

حدیث شریف کے فقرہ ''کففت علیہ ضیعتہ''کے بارے میں جو گفتگو ہوئی ا س سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان جب خواہشات نفس کی مخالفت کرکے اپنے خواہشات کو ارادئہ الٰہی کا تابع بنادیتا ہے اور مالک کی مرضی کا خواہاں ہوتا ہے تو خدا اسے نور ہدایت اور بصیرت عنایت فرمادیتا ہے اور تاریک راستوںمیں اسکا ہاتھ تھام لیتا ہے ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( یاأیّها الذین آمنوا اتقوا ﷲ وآمنوا برسوله یُؤتکم کِفلین من رحمته ویجعلْ لکم نوراً تمشون به ) ( ۱ )

''اے ایمان والو! ﷲسے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آئو تا کہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوبڑے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی میں چل سکو ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( یاأیّها الذین آمنوا انْ تتّقوا ﷲ یجعلْ لکم فرقاناً ) ( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت۲۸۔

(۲)سورئہ انفال آیت۲۹۔

۳۳۸

''ایمان والو! اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کروگے تو وہ تمہیں حق وباطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کردے گا ''

( واتّقوا ﷲ و یعلمکم ﷲ ) ( ۱ )

'' اوراللہ سے ڈرو تاکہ اللہ تمہیں علم عطاکرے''

حضرت علی سے مروی ہے :

(هُدی من أشعر قلبه التقویٰ )( ۲ )

''وہ ہدایت یافتہ ہے جس نے تقویٰ کو اپنے دل کا شعار بنالیا ''

(هُدی من تجلبب جلباب الدّین )( ۳ )

''وہ ہدایت یافتہ ہے جس نے دین کا لباس اوڑھ لیا''

(من غرس أشجارالتُقیٰ،جنیٰ ثمار الهدیٰ)(۴)

''جس نے تقویٰ کے درخت بوئے وہ ہدایت کے پھل کھائے گا''

والحمد للہ رب العالمین

محمد مہدی آصفی

۱۰ ذی القعدہ ۱۴۱۲ قم

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۲۸۲۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۳۱۱۔

(۳)گذشتہ حوالہ۔

(۴)غررالحکم ج۲ ص۲۴۵۔

۳۳۹

فہرست

حرف اول ۵

مقدمہ ٔ مؤلف ۸

حدیث قدسی ۹

حدیث قدسی ۱۰

پہلی فصل ۱۱

''ہویٰ'' (خواہش)قرآن وحدیث ۱۱

کی روشنی میں ۱۱

بنیادی محرکات ۱۲

۱۔فطرت: ۱۳

۲۔عقل : ۱۳

۳۔ارادہ: ۱۳

۴۔ضمیر: ۱۳

۵۔قلب ،صدر،: ۱۳

۶۔ہویٰ(خواہشیں): ۱۳

''ہویٰ'' کی اصطلاحی تعریف ۱۴

''ہویٰ''کے خصوصیات ۱۴

۱۔چاہت میںشدت ۱۵

۲۔خواہشات میں تحرک کی قوّت ۱۷

۳۔خواہشات اور لالچ کی بیماری ۱۸

۳۴۰