قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت0%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اﷲ الحاج الشیخ محسن الآراکی مدظلہ العالی
زمرہ جات: صفحے: 180
مشاہدے: 39216
ڈاؤنلوڈ: 3140

تبصرے:

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39216 / ڈاؤنلوڈ: 3140
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سے سوال کرو اور اس کی محبت کے وسیلے سے اس کی طرف رخ کرو، اور دوسرے لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لئے قرآن کو وسیلہ قرار نہ دو، اس لئے کہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی وسیلہ نہیں ہے، اور یاد رکھو! کہ وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ہے جس کی بات تصدیق شدہ ہے، جس کے لئے قرآن روز قیامت شفاعت کردے اس کے حق میں شفاعت قبول ہے اور جس کا عیب قرآن روز قیامت بیان کردے اس کا عیب تصدیق شدہ ہے''۔

اس کے بعد حضرت قرآن سے لوگوں کی جدائی کے خطرے کو گوش گزار فرماتے ہیں، پھر ان کو اس آسمانی کتاب کی پیروی اور اسے فکر و عمل میں نمونہ قرار دینے کی طرف دعوت دیتے ہیں:

''یُنَادِی مُنَادٍ یَومَ الْقِیَامَةِ أََلاَ إنّ کُلَّ حَارِثٍ مُبْتَلیٰ فِی حَرثِهِ وَ عَاقِبَةِ عَمَلِهِ غَیرَ حَرَثَةِ القُرآنِ فَکُونُوا مِن حَرَثَتِهِ وَأََتْبَاعِهِ وَ اسْتَدِلُّوهُ عَلٰی رَبِّکُم وَ اسْتَنْصِحُوهُ عَلٰیٰ أََنْفُسِکُمْ وَ اتَّهِمُوْا عَلَیهِ آرَائَکُمْ وَاسْتَغِشُّوْا فِیهِ أََهْوَائَکُمْ'' 1

جس وقت قیامت برپا ہوگی اور خلائق حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لئے کھڑے ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا دے گا اور اہل قیامت کو اس حقیقت کی خبر دے گا کہ:

(1)نہج البلاغہ ، خطبہ 175۔

۶۱

''ہاں اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ آج ہر کھیتی کرنے والا اپنی کھیتی اور اپنے عمل کے آثار و نتائج اور محصول وانجام میں مبتلاہے، لیکن جو لوگ اپنے دل میں قرآن کا بیج بونے والے تھے یعنی دنیا میں اپنے عقائد واعمال قرآن کے احکام و ہدایات کی بنیاد پر قائم رکھے تھے صرف وہی لوگ کامیاب ہیں، لہٰذا تم لوگ انھیں لوگوں میں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ، اسے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں رہنما بناؤ اور اس سے اپنے نفسوں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور اپنے خیالات کو متہم قرار دو اور اپنی خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو''۔

تنبیہ و آگاہی

ہر موجود و مخلوق منجملہ اس کے انسان کی زندگی اور حیات ایک محدود چیز ہے۔ یہ زندگی ایک خاص نقطۂ زمان (ولادت) سے شروع ہوتی ہے اور ایک خاص نقطۂ زمان میں موت کے ذریعہ ختم ہو جاتی ہے۔ انسان اس محدود زمانہ میں مسلسل متحرک اور ہست و بود کی حالت میں ہے، اور اس کی شخصیت مختلف شکلیں اور صورتیںاختیار کرتی رہتی ہے۔ انسان کی شخصیت جو کہ اس کے عقائد و نظریات سے ابھر کر وجود میں آتی ہے اس کے اعمال و کردار کا مصدر و منشأ ہوتی ہے۔ انسان کے اعمال و کردار بھی روز قیامت مجسم ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے اعمال کے آثار و نتائج دیکھ رہا ہوگا۔

۶۲

لیکن جو بات یہاں پر قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ جب تک انسان اس دنیا سے کوچ نہیں کرتا ہر لمحہ اپنے عقائد و افکار اور اعمال و کردار کا محاسبہ کر کے اپنے ماضی کا جبران اور اس کی اصلاح کرسکتا ہے اور اپنی تقدیر کے رخ کو دنیوی اوراخروی سعادت و کامیابی کی طرف موڑ سکتا ہے۔ کتنے ہی انسان ایسے ہیں جوایک لمحہ میں سنبھل گئے اور ایک حقیقی توبہ و انابت کے ذریعے اپنے اندھیرے گھپماضی کو روشن و سعادتمند مستقبل سے بد ل دیا اور سینکڑوں سال کے راستے کوایک رات میں طے کرلیا، اس لئے کہ: معرفت کا ہر لمحہ عمر جاودانی ہے

لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ماضی کے محاسبہ، جبران، اصلاح اور تدارک کا امکان فقط اس دنیا میں ہے اوراس دنیا ئے فانی سے رحلت اور موت کے بعد اصلاح و تدارک کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔

اگر انسان عالم دنیا میںاپنے اعمال و کردار کو قرآن اور الٰہی احکام و معارف کی بنیاد پر قائم رکھے اور حضرت علی ـ کے ارشاد کے مطابق قرآن کی بنیاد پر کھیتی کرنے والا ہو تو وہ عالم آخرت میں ان کے آثار و محصول سے فیضیاب اور خوش ہوگا۔

عمل اور اصلاح کا موقع صرف دنیا میں پایا جاتا ہے اور عالم آخرت اصلاح و تدارک کی جگہ نہیںہے:''اَلْیَومَ عَمَل وَ لاحِسَاب وَ غَداً حِسَاب وَ لاعَمَل'' 1

آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں، اور کل کا دن، حساب کا ہے عمل کا نہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ جو کہ دنیا و آخرت کی حقیقت کے عالم، ان کے درمیان رابطے سے آشنا اور مسلمانوں کے خیر خواہ و دلسوز ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:

(1)بحار الانوار، ج32، ص 354۔

۶۳

''فَکُوْنُوْا مِنْ حَرَثَةِ الْقُرآن'' یعنی اگر سعادت کے طلبگار ہو تو اپنی کھیتی قرآن کے بابرکت کشت زار میں قرار دو، ان لوگوںمیں ہو جاؤ جو کہ اس آسمانی کتاب کے حیات بخش احکام و ہدایات پرعمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرتے ہیں، قرآن کریم کو نمونہ قرار دو تاکہ کبھی نقصان و خسارہ نہ اٹھاؤ۔

قرآن کی تاثیر اور کامیابی کا راز

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر اسکیم، دستور العمل اور سیاست کی کامیابی کے لئے خصوصاً تربیتی، ثقافتی اور اجتماعی مسائل کے متعلق تین بنیادی شرطوں کا ہونا ضروری ہے:

۔ اسکیم اور دستور العمل کا ملحوظ خاطر مقصد تک پہنچنے کے لئے درست اور صحیح ہونا۔

۔ اسکیم اور اس کے دستور العمل پر ایمان و اعتقاد رکھنا۔

۔ اسکیم میں ذکر شدہ احکام اور دستور العمل کی بنیاد پر عمل کرنا۔

واضح ہے کہ اگر تینوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی جائے گی تواس اسکیم اور دستور العمل کی افادیت جیسا کہ چاہئے ظاہر نہ ہوگی اور ملحوظ خاطر مقصد حاصل نہ ہوگا۔

۶۴

یہ بات ہم سب کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام اور ہم مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل ہے۔ لیکن اس بات کا صرف کہنا اور ظاہری اقرار کافی نہیںہے، اقرار و اظہار اس صورت میں قرآن اور اس کے حیات بخش احکام پر ایمان سمجھا جائے گا جبکہ قلبی اعتقاد و یقین کی غمّازی کرے اور انسان روح و دل کی گہرائی سے قرآن اور اس کے حیات بخش دستورات و ہدایات پر ایمان رکھتا ہو اور الٰہی ارشادات و پیغامات کے سامنے سراپا تسلیم ہو۔ ایسے ہی ایمان و یقین اور اعتقاد کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت میں قرآن کی افادیت کی شرط کا، یعنی قرآن کے حیات بخش دستورات و ہدایات کی بنیاد پر عمل کا تحقق ہوتا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الْکِتَابُ لارَیبَ فِیهِ هُدیً لِلمُتَّقِینَ٭ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیْبِ وَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّارَزَقنٰهُم یُنفِقُونَ ٭ وَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِمَا أُنزِلَالیکَ وَ مَا أُنزِلَ مِن قَبلِکَ وَ بِالآخِرَ ةِ هُم یُوقِنُونَ ٭ أُولٰئِکَ عَلٰی هُدیً مِن رَّبِّهِم وَ أُولٰئِکَ هُمُ المُفْلِحُونَ)1

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیںہے، یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے ہدایت ہے، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنھیں (اے رسول) ہم نے آپ پر اور آپ سے پہلے والوں پر نازل کیا ہے اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں۔

البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایمان کے بہت سے درجے ہیں اور اسلامی معاشرہ

(1)سورۂ بقرہ، آیت 2 تا 5۔

۶۵

اس صورت میںاپنے مشکلات پر قابو اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کر کے عزت و عظمت کا امیدوار اور قرآن کریم کی لفظوں میں دنیوی واخروی فلاح و کامیابی کا امیدوار ہوسکتا ہے جبکہ معاشرہ کے ثقافتی عہدہ دار افراد، دینی حکومت اور قرآن کے احکام و ہدایات پر تہ دل سے ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں، نہ یہ کہ دین اور لوگوں کے دینی کلچر کی صرف کچھ باتوں سے استفادہ کر کے جاہ و منصب حاصل کرنے کے لئے اپنے کو قرآن کا معتقد ظاہر کریں۔

قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو کہ الٰہی احکام و ہدایات پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف مسلمانوں کو فریب دینے اوراپنے دنیوی مقاصد تک پہنچنے کے لئے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، منافقین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی ظاہری ، باطنی او رعملی خصوصیات قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہیں۔

بہرحال جس نکتہ پر ہم یہاں تاکید کر رہے ہیں، یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں کہ قرآن کے ا حکام و ہدایات کی بنیاد پر زندگی بسر کریں اور یہ آسمانی کتاب ہم لوگوں کو سعادتمندبنائے تو لازم ہے کہ تمام لوگ خصوصاً معاشرہ کے ثقافتی امور کے عہدہ دار افراد قرآن پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں اور اس الٰہی کتاب کے سامنے حضرت ابراہیم ـ کے مانند سراپا تسلیم ہوں، یعنی قرآن کے حیات بخش احکام و ہدایات کو بغیر کسی چون و چرا کے قبول کرتے ہوں۔

۶۶

حضرت ابراہیم ، قرآن کریم میں تسلیم و بندگی کا نمونہ

قرآن کریم الٰہی احکام و اوامر کے سامنے حضرت ابراہیم ـ کے سراپا تسلیم ہونے کے واقعہ کو تسلیم و رضا کا نمونہ بیان کرتا ہے نیز مشکلات کے مقابلہ آپ کی کامیابی اور مشرکین پر غلبہ کا راز، خداوند متعال پر توکل، ایمان اور صبر و استقامت کو بتاتا ہے اور ہم سے چاہتا ہے کہ ہم امر خدا اور قرآن کریم کے بارے میں ایسے ہی ایمان و اعتقاد کے حامل ہوں اور عملاً الٰہی احکام جاری کرنے میں حضرت ابراہیم ـ کی طرح ثابت قدم ہوں۔

ہم یہاں حضرت ابراہیم ـ کا واقعہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل ـ کو ذبح کرنے کے سلسلہ میں خداوند متعال کا حکم بجا لانے کے متعلق مختصر طور پر بیان کر رہے ہیں تاکہ اسی کے ضمن میں توحیدی مکتب فکر میں خدا محوری اور حق پرستی کی روح کو واضح کر کے قرآن اور اس کے احکام کے بارے میں اپنی کمیوں کودیکھیں اور اس کی روشنی میں عزیز قارئین کو معاشرہ کے اصلی مشکلات سے آشنا کریں۔

قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر الٰہی میںایسا تھا کہ حضرت ابراہیم ـ سو سال لاولد رہیںاور مسلسل ناامیدی کے ساتھ طویل انتظار کے بعد صاحب اولاد ہوںاور یہ آپ کی دیرینہ تمنا پوری ہو، فطری بات ہے کہ ہر انسان زندگی میں ایک نیک بیٹے کی تمنا رکھتا ہے اور فرزند صالح کے وجود کواپنے وجود کی بقا سمجھتا ہے۔

۶۷

حضرت اسماعیل ـ کی ولادت کے بعد حضرت ابراہیم ـ خداوند متعال کی طرف سے مامور ہوئے کہ اپنے بیٹے کوان کی مادر گرامی کے ساتھ مکہ کی سرزمین پر لے جائیں تاکہ سخت سے سخت حالات میں ایسی وادی میں تنہا چھوڑ دیں کہ جہاں آب و حیات کے آثار بالکل دکھائی نہیں دیتے پھر حکم الٰہی بجالانے کی خاطر سرزمین مکہ کو ترک کردیں، ایک مدت کے بعد واپسی کے وقت جبکہ آپ کا بیٹا بڑا ہوگیا اور ایک ایسا باادب اور خوبصورت جوان نظر آرہا ہے کہ جس کے جمال زیبا کو دیکھ کر ہر انسان کی آنکھ چوندھیا جاتی ہے اور جس کا پھول جیسا مکھڑا باپ کے تمام ہم و غم کو بھلا دیتا ہے نیز جدائی اور مشکلات کے رنج کو دور کردیتا ہے، ایسا سپوت کہ جس میں نبوت کی صلاحیت نمایاں ہے اس سے کمال عشق و محبت کی حالت میں اچانک آپ کو خواب میں وحی ہوتی ہے کہ تم اپنے فرزند کو راہ خدا میں قربان کردو۔

۶۸

سچ مچ مناسب ہے کہ خدا، قرآن اور احکام الٰہی پر اپنے ایمان و اعتقاد اور خدا کے سامنے اپنے مراتب تسلیم کو حضرت ابراہیم ـ کے ایمان اور مرتبۂ تسلیم و رضا کے ساتھ تولیں تاکہ اس فاصلہ کو بہتر طور سے سمجھ سکیں جو ہمارے اور ان چیزوں کے درمیان ہے جو قرآن اور خداوند متعال ہم سے چاہتا ہے اور دینی اعتقاد کی بنیاد پر ایمان وعمل کی تقویت کے لئے پہلے سے زیادہ آمادہ ہو جائیں۔ اگر جبرئیل ایسا حکم ہم آپ کو دیتے، جو کہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنے فرزند کی قربانی پر مبنی ہے وہ بھی بیداری میں نہ کہ خواب میں، تو ہم اس کے سننے کی تاب نہ رکھتے تو بھلا پھر یہ کیسے ممکن ہوتا کہ اپنے بیٹے کی قربانی میں الٰہی فرمان و حکم کو عملی جامہ پہنائیں، لیکن حضرت ابراہیم ـ بے دھڑک فوراً حکم الٰہی کو بجالانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور بغیر اس کے کہ وحی شدہ حکم کے صحیح ہونے میں شک و شبہہ کریں کہ آیا کون سی مصلحت بے گناہ بیٹے کو ذبح کرنے میں ہے؟ اس بات کو اپنے بیٹے سے پیش کرتے ہیں:

(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّی أَریٰ فِی الْمَنَامِ اَنِّی أَذبَحُکَ فَاْنظُرْ مَاذَا تَرَیٰ قَالَ یَا أَََبَتِ افْعَلْ مَاتُؤمَرْ سَتَجِدُنِ اِن شَائَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِینَ)1

(1)سورۂ صافات، آیت 102۔

۶۹

(پھر جب وہ فرزند اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انھوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمھیں ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتاؤ کہ تمھارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے)

حضرت ابراہیم ـ فرماتے ہیں کہ: میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ تمھیں راہ خدا میں ذبح کر رہا ہوں، تمھاری مرضی کیا ہے؟ حضرت ابراہیم ـ کا ایمان و تسلیم اس مرتبہ پر ہے، اب بیٹے کے ایمان و تسلیم کا مرتبہ دیکھئے اور خدا اور اپنے باپ کے حکم کے سامنے بیٹے کی اطاعت کو ملاحظہ فرمائیے، اسی طرح ان انسانوں کے اخلاص وایمان سے کہ قلم و بیان جن کے وصف سے عاجز ہے حیرت کیجئے اور اپنے کو مسلمان کہنے میں احتیاط و ہوشیاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیئے۔

حضرت اسماعیل ـ جیسے فرزند کہ جنھوں نے امر خدا کے سامنے تسلیم و رضا کا سبق اپنے باپ سے حاصل کیا تھا، اظہار موافقت سے بڑھ کر ایک جواب کے ذریعے اپنے باپ کو حکم الٰہی پر عمل کرنے میں تشویق دلاتے ہیں کہ خدانخواستہ حکم خدا چھوٹ نہ جائے۔

نیز حضرت اسماعیل ـ بغیر اس کے کہ اپنے ذبح ہونے کے فلسفہ کے متعلق سوال کریں اور بغیر اس کے کہ باپ کواپنی ذمہ داری انجام دینے کے متعلق سوچنے پر مجبور کریں، اپنے بابا سے کہتے ہیں:(یَا أََبَتِ افْعَلْ مَاتُؤْمَرْ سَتَجِدُنِ ِنْ شَائَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِینَ) 1 اے بابا اپنے فریضہ کوانجام دیجئے، ان شاء اللہ آپ مجھے صابر اور

(1)سورۂ صافات، آیت 102۔

۷۰

ثابت قدم پائیں گے۔ البتہ عظیم انسان تمام فرائض اور بڑی سے بڑی ذمہ داری کے پورا کرنے میں خداوند متعال سے مدد چاہتے ہیں اور اس پر توکل کر کے قدم اٹھاتے اور تمام کاموں میں اس سے کمک اور مدد طلب کرتے ہیں اور نہایت ادب کے ساتھ اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ اگر خدا چاہے اور اگر وہ مدد کرے تو میں فلاں کام کو انجام دوں گا۔

خداوند متعال حضرت ابراہیم ـ کی جھلک اور اپنے سامنے سراپا تسلیم ہونے کی حالت کو خود ابراہیم کی زبان مبارک سے اس طرح بیان فرماتا ہے:

(اِنِّ وَجَّهْتُ وَجْهي لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضَ حَنِیفاً وَ مَا أَنَا مِنَ المُشْرِکِینَ)1

میرا رخ (خالص ایمان کے ساتھ) پوری طرح اس خدا کی طرف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں باطل سے کنارہ کش ہوں اور ہرگز مشرکوں میں سے نہیںہوں۔

ہمیں چاہئے کہ خدا اور قرآن کے بارے میں حضرت ابراہیم ـ کے اعتقاد و ایمان کے مانند اعتقاد و ایمان رکھیں، اسی صورت میں قرآن کریم سے استفادہ کی دوسری بنیادی شرط یعنی قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر معاشرہ کی ہدایت ہوسکے گی۔

اس بنا پر قرآن کا وجود، پختہ ایمان اوردلی اعتقاد کے بغیر ہرگز انسان اور معاشرہ کو سعادتمند نہیں بنائے گا، البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ایمان و اعتقاد کے علاوہ جو چیز

ہدایت قرآن کی اسکیم اور دستور العمل کو وجود بخشتی ہے وہ تیسری شرط کا پایا جانا ہے یعنی فردی و اجتماعی زندگی میں قرآن کے احکام و ہدایات اور اس کے حیات بخش دستور العمل کو وجود میں لانا اور ان پر عمل کرنا۔

(1)سورۂ انعام، آیت 79۔

۷۱

دوسری فصل

قرآن کی تفہیم و تفسیر

اصلی مشکل

گزشتہ فصل کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہدایت الٰہی کی کتاب ہے اور ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس پر ایمان رکھیں، فردی و اجتماعی زندگی میں اس کے احکام پر عمل کر کے اور اسے نمونہ قرار دے کر اپنی زندگی اور معاشرہ کو قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر قائم کریں تاکہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند اور کامیاب ہوجائیں۔

اب ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اس بات کے باوجود کہ قرآن، فردی و اجتماعی بیماریوں کا یہ نسخۂ شافیہ مسلمانوں کے معاشروں میں، منجملہ ان کے ہمارے انقلابی اور اسلامی معاشرہ میں موجود ہے لیکن پھر بھی ہم کیوں اسی طرح بعض مشکلات خصوصاً ثقافتی مشکلات سے دوچار ہیں؟

ممکن ہے گزشتہ مطالب سے استفادہ کرتے ہوئے جواب میں کہا جائے کہ چونکہ قرآن اور اس کے نجات بخش احکام پر کماحقّہ عمل نہیں ہوتا۔ یہ جواب اگرچہ صحیح سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں قرآن پر عمل کماحقّہ نہیں کیا جاتا؟

حقیقت میں وہ کون سے عوامل و اسباب ہیں کہ جن کی بنا پر قرآن کا رنگ معاشرہ میں پھیکا پڑ جاتا ہے اور دھیرے دھیرے لوگ قرآن، دینی ثقافت و مکتب فکر اور الٰہی اقدار سے جدا ہو جاتے ہیں؟

۷۲

چونکہ موضوع بحث ''قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں'' ہے، لہٰذا ہم مذکورہ سوال کواس طرح پیش کرسکتے ہیں کہ حضرت علی ـ ہمارے معاشرہ کی اصلی مشکل کس چیز میں سمجھتے ہیں اور اس کے حل کے لئے کس راستہ کی نشاندہی فرماتے ہیں؟

اس سوال کے جواب اور اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کے ارشاد کی توضیح کے لئے ہم پہلے ایک مقدمہ پیش کرتے ہیں پھر اصل بحث شروع کریں گے۔ جیسا کہ پچھلی فصل میں بیان کیا گیا خدا اوردستورات الٰہی پر ایمان اور اوامر خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا، قرآن کریم کی رہنمائیوں سے فیضیاب ہونے اور ہدایت کی سب سے بڑی اصل شرط ہے۔

حضرت ابراہیم ـ کے مانند ایمان و یقین اور تسلیم و رضا کو روح و جان کے اندر سرایت کرنا چاہئے تاکہ شیطانی جالوں سے محفوظ رہیں۔ معرفت کے ''مَشعر'' میں ایسے سنگریزے اکٹھا کرنا چاہئے کہ قرآن کی طرف رجوع کے وقت ''نفس امارہ کے شیطان'' کو ان سنگریزوں سے ''رمی'' کریں۔

ہمیں چاہئے کہ نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں اور کلام خدا کو نفسانی خواہشات پر مقدم رکھیںاور نفس کو قرآن کریم کے سمجھنے میں خود پسندی اور کج فکری سے باز رکھیں تاکہ قرآن کریم کو سمجھنے اور آیات الٰہی کی طرف رجوع کے وقت خطا و غلطی سے دو چار نہ ہوں، اس لئے کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی بھی نیت اور کسی بھی روش کے ساتھ قرآن کو سمجھنا چاہے تو اس سے صحیح استفادہ کرسکتا ہو۔

۷۳

ایک جملہ میں، اگر ہم نے خدا کی بندگی کو قبول کر لیا ہے تو لازم ہے کہ اپنے کو پوری طرح اس کے حوالے کردیں اوردل کو خدا کے ارادہ و مشیت کے سپرد کردیں اور تمام وجود کے ساتھ یقین و اعتقاد رکھیں کہ خدا اپنے بندوں سے بہتر ان کی مصلحتوں کو جانتا ہے اور اپنے بندوں کی صلاح اور نفع کے علاوہ امر و نہی نہیں کرتا۔

صرف ایسے ہی اعتقاد و ایمان کے ساتھ اس کتاب الٰہی کے صحیح سمجھنے اور اس کے حیات بخش ہدایات سے فیضیاب ہونے کا امکان انسانوں کے لئے حاصل ہوسکتا ہے۔

اس بنا پر ہدایت الٰہی سے فیضیاب ہونے کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی بنیادی شرط ہر طرح کی کج فکری اور خود پسندی سے پرہیز کرنے اور تسلیم و رضا کی روح رکھنا ہے۔

ماہر ڈاکٹر اس نسخہ میں جو کہ وہ اپنے بیمار کے لئے لکھتا ہے، کچھ دواؤں کے استعمال کو لازم قرار دیتا ہے اور کچھ غذائیں کھانے کو تجویز کرتا ہے اور ایسی دوا اور غذا کھانے سے منع کرتا ہے جو کہ علاج اور شفا کو تاخیر میں ڈال دیتی ہے یا جس سے شفا کا امکان نہیں رہ جاتا، لیکن کیا ڈاکٹر کے تمام حکم بیمار کی خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں؟

ممکن ہے بیمار، بعض تجویز شدہ دواؤں کو نہایت رغبت کے ساتھ استعمال کرے اور بعض ممنوع غذاؤں سے شوق کے ساتھ پرہیز کرے، لیکن اکثر مریض کی خواہشات ڈاکٹر کے حکم اور تجویز سے میل نہیں کھاتیں۔ کبھی کبھی مریض اچار اور کھٹائی کھانے کی شدید خواہش رکھتا ہے لیکن ڈاکٹر اچار اور کھٹائی کے استعمال کو بیمار کے لئے زہر قاتل سمجھتا ہے۔

۷۴

ایسے مواقع پر ممکن ہے بیمار اس چیز کی شدید رغبت کے زیر اثر ڈاکٹر کی تشخیص میں شک کرے اور اس کو کھانے کے لئے اپنی طرف سے توجیہیں گڑھے، البتہ انسان جسمانی بیماریوں کے موقع پر اپنی صحت و سلامتی کی نہایت خواہش کی بنا پر بہت کم ڈاکٹر کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اکثر کوشش کرتا ہے کہ ان کو اپنی شخصی خواہشات پر ترجیح دے اور معالج ڈاکٹر کے احکام پر کامل طور سے عمل کرے، لیکن روحانی امراض کے موقع پر ایسے انسان کم نہیں ہیں جو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو قضاوت و فیصلہ کا معیار قرار دیتے ہیں اور باطل کج فکریوں، نادرست ذہنیتوں اور غلط خواہشات کی بنیاد پر دین و احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح کرنے لگتے ہیں۔

واضح ہے کہ ایسی روح کے ساتھ قرآن اور دین کا صحیح سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ حتی اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ کوئی شخص واقعاً دین و قرآن کو صحیح سمجھنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے فریب اور دوسروں کے گمراہ کرنے کا ارادہ اس کے بارے میں محال ہو، تب بھی وہ دین و قرآن کو صحیح نہیں سمجھ سکتا چونکہ وہ خود پسندی، کج فکری اور غلط ذہنیت کے ساتھ قرآن و دین کو سمجھنا چاہتا ہے، خود پسندی، کج فکری، غلط ذہنیتوں اور نفسانی خواہشات کی تاثیر کو اس کے آیات و روایات کے سمجھنے میں کالعدم نہیں سمجھا جاسکتا۔

البتہ ان افراد کی داستان، جو کہ دیدہ و دانستہ، علم و آگاہی کے ساتھ اور جان بوجھ کر لوگوں کو فریب دینے اور دینی تہذیب و ثقافت کو نابود کرنے کے لئے ''مختلف قرائتوں'' کے نام سے دینی احکام و دستورات میں تحریف کرتے ہیں، ایک جداگانہ داستان ہے کہ جس کو اپنی جگہ پر بیان کریں گے اور اس مخالف دین تفکر کے اسباب و علل کو نہج البلاغہ کی روشنی میں تحقیق کے ساتھ مختصر طور پر ذکر کریں گے۔ اب ہم دیکھیں کہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام و ہدایات کو سمجھنے کا صحیح راستہ حضرت علی ـ کی نظر میں کیا ہے؟

۷۵

حضرت علی ـ کی وصیت قرآن کے متعلق

امیر المومنین حضرت علی ـ کا وہ نورانی بیان، جس میں عالم قیامت، روز محشر، اس دن پیروان قرآن کے اپنے اعمال سے راضی ہونے اور قرآن سے روگردانی کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی ہے، اس میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں:''فَکُونُوا مِنْ حَرَثَةِ الْقُرآنِ وَ اَتْبَاعِهِ'' 1 قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، ''وَ استَدِلُّوہُ عَلیٰ رَبِّکُم'' قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الٰہی رہنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرتا ہے ایمان لاؤ۔

وَاسْتَنْصِحُوهُ عَلٰی أَنفُسِکُمْ، اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دلسوز ہے جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔

اس بنا پر حضرت علی ـ مسلمانوں اور دنیا و آخرت کی سعادت کے مشتاق لوگوں کو

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 175۔

۷۶

وصیت فرماتے ہیں کہ قرآن کو اپنا رہنما قرار دیں اور اس کی مخلصانہ نصیحتوں پر کان دھریں، اس لئے کہ (إنّ هٰذَا الْقُرآنَ یَهْدِْ لِلَّتِي هي أَقوَمُ وَ یُبَشِّرُ المُؤمِنِینَ الَّذِینَ یَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُم أَجرًا کَبِیراً) 1

''بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے''۔

جو نکتہ یہاں پر قابل تاکید ہے، یہ ہے کہ اس آیۂ شریفہ کے مضمون پر ایمان و اعتقاد رکھنا دل و جان سے لازم ہے، اس لئے کہ جب تک کہ قرآن کے متعلق ایسا ایمان و اعتقاد انسان کی روح پر حاکم نہ ہو او رجب تک انسان اپنے کو کامل طور سے خدا کے اختیار میں نہ دے اور اپنے کو کج فکری، خود پسندی اور نفسانی خواہشات سے پاک و صاف نہ کرے ہر لمحہ ممکن ہے شیطانی وسوسوں کے جال میں پھنس جائے اور گمراہ ہو جائے، پھر جب بھی قرآن کی طرف رجوع کرے گا تو ناخواستہ طور پر قرآن میں بھی ایسے مطالب اور آیات ڈھونڈے گا جو کہ اس کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتے ہوں۔

واضح ہے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفسانی خواہشات اور حیوانی میلانات کے موافق نہیںہیں۔ انسان اپنی طبیعت کے مطابق خواہشات رکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش کے مطابق ہو، اس بنا پر فطری بات ہے کہ جہاں قرآن انسان کے حیوانی و نفسانی خواہشات کے برخلاف بولے گا انسان اس

(1)سورۂ اسرائ، آیت 9۔

۷۷

سے ذرا سا بھی خوش نہ ہوگا اور جہاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواہشات کے موافق ہوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔

البتہ یہ تمام فعل و انفعالات اور تاثیر و تاثرات اس کے اندر ہی اندر مخفی طور پر انجام پائیں گے لیکن اس کے آثار انسان کے اقوال و افعال میں ظاہر ہوں گے، لہٰذا عقل اس بات کو واجب و لازم قرار دیتی ہے کہ قرآن کی طرف رجوع سے پہلے، انسان اپنے ذہن کو ہر طرح کی خود پسندی اور کج فکری سے پاک و صاف کر لے اور اپنے تمام نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے منھ موڑ لے تاکہ ایک خدا پسند اور خدا پرست روح کے ساتھ قرآنی مکتب میں قدم رکھے، اس صورت میں انسان زانوئے ادب تہ کرتا ہے اور نہایت شوق و رغبت کے ساتھ الٰہی معارف کو قبول کرتا ہے۔

تفسیر بالرائے

واضح ہے کہ نفسانی خواہشات سے ہاتھ اٹھانا او رالٰہی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نہ صرف ایک آسان کام نہیں ہے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نہیں ہیں ان کے لئے نفسانی خواہشات سے چشم پوشی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، اسی وجہ سے اسے جہاد اکبر بھی کہا جاتا ہے۔

۷۸

معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر بالرائے کا روحی اور نفسیاتی محرّک یہیں سے پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف انسان بندگی کی روح کمزور ہونے کے سبب اپنی نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کو چھوڑ نہیں سکتا اور دوسری طرف شیطان اس حالت سے مناسب فائدہ حاصل کرتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے کام لیتا ہے کہ ایسے انسان کے فکر و ذہن کو قرآن ودین سے غلط تفسیر کی طرف موڑ دے اور اسے گمراہ کردے۔

خصوصاً اگر یہ شخص اجتماعی اور سماجی لحاظ سے ثقافتی مرتبہ کا حامل ہو، شیطان کا وسوسہ، اس کی کوشش اور اس قسم کھائے ہوئے دشمن کی حرص ایسے انسان کے منحرف اور گمراہ کرنے میں سینکڑوں گنا بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ شیطان جانتا ہے کہ ایسے انسان کو منحرف کرنے سے ایک گروہ کودین سے منحرف کردے گا کہ وہ گروہ ممکن ہے اس انسان کی باتیں سنتا اور مانتا ہو۔ایسے لوگ نہ کم تھے اور نہ ہیں جو کہ تہذیب نفس اور روح کی پاکیزگی کے بغیر، خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ، قرآن کی طرف رجوع کرنے سے پہلے فتویٰ صادر کرتے ہیں اور بغیر اس کے کہ تھوڑی سی بھی علمی صلاحیت اور ضرورت بھر مہارت رکھتے ہوں، اظہار نظر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن بھی ہمارا ہی نظریہ رکھتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ ایسے انسان اپنے نفسانی خواہشات اور باطل افکار و نظریات پر دینی اور قرآنی رنگ چڑھانے کے لئے مجمل آیات اور بحسب ظاہرمبہم سے مبہم آیات سے تمسک کرتے ہیں۔

۷۹

بدیہی ہے کہ ایسی روحی، خود پسندی اور کج فکری کی حالت سے نہ صرف قرآن کے صحیح سمجھنے کے لئے کوئی ضمانت باقی نہیں رہ جاتی، بلکہ فطری طور پر غلط فہمی اور حق سے منحرف ہونے کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔

قرآن کی اس طرح کی تفسیر و فہم کو دینی مکتب فکر میں تفسیر بالرائے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دین و قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ برے قسم کا معاملہ اور برتاؤ سمجھا جاتا ہے۔

قرآن دین اور آیات الٰہی کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کو استہزاء (مذاق) سمجھتا ہے اور صریحی طور پر اس سے منع کرتا ہے:

(وَ لاتَتَّخِذُوْا آیاتِ اللّٰهِ هُزُواً وَ اذْکُرُوْا نِعمَةَ اللّٰهِ عَلَیکُمْ وَ مَاأَنزَلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکمَةِ یَعِظُکُمْ بِهِ وَ اتَّقُوْا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰهَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمٍ)1

یعنی ''خبردار! آیات الٰہی کو مذاق نہ بناؤ اور خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اس نے کتاب و حکمت کو تمھاری نصیحت کے لئے نازل کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو! کہ وہ ہر شے کا جاننے والا ہے''۔

جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ وہ لوگ قرآن کریم کی ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہیں جو اس پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں، اور جو لوگ خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی نفسانی خواہشات کے لئے دینی اور قرآنی توجیہیں گڑھیں اور اپنی رائے سے کلام خدا کی تفسیر و توجیہ کریں، وہ خدا پر ایمان رکھنے سے بے بہرہ ہیں۔

یہاں پر مناسب ہے کہ اس سلسلہ میں چند روایتوں پر توجہ کریں:

قال رسول اللّٰه ۖ : قال اللّٰه جلّ جلاله: مَا آمَنَ بِی مَن فَسَّرَ بِرَأیِهِ کَلامِی'' 2 پیغمبر ، خداوند متعال کا قول نقل فرماتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے: وہ شخص ہرگز مجھ

(1)سورۂ بقرہ، آیت 231۔

(2)توحید صدوق ، ص 68۔

۸۰