قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت0%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اﷲ الحاج الشیخ محسن الآراکی مدظلہ العالی
زمرہ جات: صفحے: 180
مشاہدے: 52676
ڈاؤنلوڈ: 3794

تبصرے:

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 52676 / ڈاؤنلوڈ: 3794
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

1۔ فوجی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کا ایک عام ہتھکنڈا علنی اور ظاہری جنگ و مبارزہ ہے یعنی وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان ممالک او ران کے افراد پر فوجی حملہ اور ان کو قتل و غارت کر کے اپنے مقاصد تک پہنچیں۔

اس صورت میں اگر چہ ممکن ہے کہ وہ کچھ مسلمانوں کو شہید کردیں اور اسلامی ملک کے لئے نقصانات کا سبب بنیں، لیکن وہ اس طرح اپنے مقاصد تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے اور نہ صرف مسلمان راہ دین میں قتل ہونے سے نقصان نہیں اٹھاتے بلکہ اپنے دین و اعتقاد میں اور زیادہ محکم و راسخ ہو جاتے ہیں۔ دینی مکتب فکر میں اس دنیا کی زندگی کا مقصد، برحق دینی اعتقادات او رعبادت و بندگی کے سائے میں انسان کا تکامل اور قرب الٰہی کی منزل تک پہنچنا ہے کہ جس کی معراج کا جلوہ، راہ خدا میں شہادت کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

دشمنوں کی اس اسٹراٹجی ( strategy ) اور لشکر کشی کے مقابلہ میں قرآن کا موقف بھی یہ ہے کہ:(وَ قَاتِلُوهُم حَتَّیٰ لاتَکُونَ فِتنَة وَ یَکُونَ الدِّینُ کُلُّهُ لِلّٰهِ) 1 تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

اس جنگ میں مسلمانوں کا نعرہ بھی یہ ہے کہ:(هَل تَرَبَّصُونَ بِنَا ِلاَّ ِحْدَیٰ الحُسنَیَینِ وَ نَحنُ نَتَرَبَّصُ بِکُم أَن یُّصِیبَکُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِن عِندِهِ أَو بِأَیدِینَا فَتَرَبَّصُوا إنّا مَعَکُم مُتَرِبِّصُونَ) 2 (اے رسول !) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم ہمارے لئے دو نیکیوں (کامیابی اور شہادت) میں سے ایک کے علاوہ انتظار کر رہے ہو اور ہم تمھارے بارے میں اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ خدا اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے تمھیں عذاب میں مبتلا کردے لہذا اب عذاب کا انتظار کرو ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔

(1) سورۂ انفال، آیت 39 ۔

(2)سورۂ توبہ، آیت 52 ۔

۱۴۱

2۔ ثقافتی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے دشمنوں کا دوسرا اہم ہتھکنڈا، ثقافتی اور فکری کام ہیں کہ ان میں سے اہم یہ ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے انھیں شبہات میں مبتلا کرنا ہے۔

واضح ہے کہ جو ہتھکنڈے اور آلات و وسائل اس قسم کے حملہ میں استعمال کئے جاتے ہیں، وہ نیز اس کے طریقے اور نتائج فوجی حملہ سے بالکل مختلف ہیں۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن ترقی یافتہ اسلحوں کے ساتھ مسلمانوں کے جسم کوپاش پاش کرنے اور قتل و غارت کے لئے میدان میں آتا ہے تو دوسری قسم میں قلم اور بیان کے اسلحوں کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ ان کے افکار و عقائد کو گمراہ اور فاسد کردے۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن پوری سنگدلی کے ساتھ مسلمان سپاہیوں سے روبرو ہوتا ہے تو ثقافتی حملہ میں خوشروئی، دلسوزی اور خیر خواہی کی صورت میں وارد ہوتا ہے۔ اگر فوجی حملہ میں مسلمان واضح طور پر دشمن کو پہچانتے ہیں تو ثقافتی حملہ میں دشمن شناسی کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اگر فوجی حملہ میں دشمن زمین کے اندر بارودی سرنگیں بچھا کر او رنت نئے ترقی یافتہ جنگی اسلحوں کو استعمال کر کے کوشش کرتا ہے کہ خاکی جسموں کو نابود کردے تو ثقافتی حملہ میں اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ شیطانی جال بچھا کر اور بے بنیاد شبہے پیش کرکے روحوں اور فکروں کو چھین لے اور انسانوں کو اندر سے کھوکھلا کر کے انھیں اپنے منافع کی طرف کھینچ لائے۔

۱۴۲

اگر فوجی حملہ میں دشمن طاقت رکھتا ہے کہ صرف چند مسلمان مجاہدین کو پست مادی دنیا سے خارج کردے تو ثقافتی حملہ میں شیاطین گھات میں بیٹھے ہیں تاکہ مسلمان قوم کے عظیم سرمائے ان معصوم جوانوں کو، جو کہ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے، گمراہی اور بے دینی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں۔ اگرچہ دشمن اس دین ستیز ہتھکنڈے سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکیں گے اور مسلمان قوم خصوصاً مسلمان تعلیم یافتہ جوانوں کا طبقہ، کہ جس نے فوجی حملوں میں بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کی ہے، اس بات سے زیادہ ہوشیار ہے کہ دشمن کے فوجی میدان کو ثقافتی حملہ کے میدان میں بدلنے سے غافل رہے، لیکن قرآن کریم نے ثقافتی حملہ کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کے عظیم خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے آثار و نتائج کے ناقابل تلافی ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس بارے میں مسلمانوں کو تنبیہ کر کے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام قوتوں کے ساتھ دین اور خدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں۔

ثقافتی حملہ کے متعلق قرآن کی تنبیہ

چونکہ فوجی حملہ کے برخلاف ثقافتی حملہ کے برے نتائج و خطرات لوگوں کے دینی افکار و اعتقادات کو متأثر کرتے ہیں اور غفلت کی صورت میں مسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نیز انسانیت خطرے میں پڑجاتی ہے، لہذا قرآن بھی حد سے زیادہ حساسیت کے ساتھ اسے قابل توجہ قرار دیکر اس سے ہوشیار کرتا ہے۔

مسلمان اہل فہم و بصیرت پر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ظاہری جنگ اور فوجی فتنہ کے محاذ پر شکست کے آثار و نتائج، بہ نسبت ثقافتی حملہ سے غفلت کے آثار و نتائج کے بہت کم ہیں، اس لئے کہ فوجی حملہ میں مسلمانوں کی چند دنوں کی زندگی معرض خطر میں پڑتی ہے لیکن ثقافتی فتنہ اور حملہ میں دین و عقائد او رمسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نہایت خطرے سے دو چار ہوجاتی ہے۔

۱۴۳

اسی وجہ سے قرآن نے بھی ''دین میں فتنہ اور ثقافتی حملہ'' کو فوجی چڑھائی سے زیادہ بڑا سمجھ کر مسلمانوں کو اس سے غفلت کرنے سے ڈرایا ہے اور فوجی جنگ اور فتنہ کی اہمیت اور اس کے خطرے کو ثقافتی حملہ کے مقابلہ میں کم سمجھا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ اقْتُلُوهُم حَیثُ ثَقِفتُمُوهُم وَ أَخرِجُوهُم مِن حَیثُ أَخرَجُوکُم وَ الفِتنَةُ أَشَدُّ مِنَ القَتلِ) 1 اور ان مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جس طرح انھوں نے تم کو آوارہ وطن کردیا ہے تم بھی انھیں نکال باہر کردو اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے۔

البتہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مخالفین، صدر اسلام اور آیات قرآن کے نزول کے زمانہ میں زیادہ تر جنگ کے میدانوں میں ظاہری مقابلوں اور فوجی حملوں کے ساتھ اس بات کے درپے تھے کہ اسلام اور مسلمین کو نابود کردیں، لیکن ان سب کے باوجود قرآن کی حساسیت اور تشویش دینی اور ثقافتی فتنہ کے خطرے کے متعلق فوجی حملے کے خطرے سے زیادہ ہے۔

قرآن فرماتا ہے:(وَالفِتنَةُ أکبَرُ مِنَ القَتلِ) 2 فتنہ (فکر شرک) اور اس کا

گناہ فوجی حملہ اور قتل و غارت سے زیادہ خطرناک ہے کہ ثقافتی فتنہ کے زیادہ خطرناک ہونے کی دلیل اس سے پہلے واضح طور سے بیان کی گئی۔

(1)سورۂ بقرہ، آیت 191 ۔

(2)سورۂ بقرہ، آیت 217 ۔

۱۴۴

شرک نئے بھیس میں

عقیدۂ شرک نے عقیدۂ توحید کے مقابلہ میں ہمیشہ پوری تاریخ میں بعض بشر کے افکار کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ جن لوگوں نے خدا کی بندگی قبول کرنے اور خالق کائنات کے سامنے تسلیم سے روگردانی کی ہے اور جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے دین حق قبول کرنے سے ناخوش ہوکر مختلف طریقوں سے اس سے روکتے رہے ہیں۔

واضح بات ہے کہ عقیدۂ شرک کے طرفدار ہر زمانے میں اس زمانے کے افکار کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کر تے ہیں اور مناسب ہتھکنڈے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ لہذا صدر اسلام میں اس لحاظ سے کہ عقیدۂ شرک بت پرستی کی شکل میں ظاہر تھا، شرک کے سرغنے اور جو لوگ بندگی ِخدا اوردین حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے وہ پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کی تبلیغ کرتے تھے اور انسانوں کو وحدانیت قبول کرنے سے روکتے تھے۔ ان کارستانیوں کی اصل وجہ بھی یہ تھی کہ دین اور توحیدی ثقافت و مکتب فکر کی حاکمیت کی صورت میں ان کے نفسانی خواہشات پورا کرنے کی گنجائش باقی نہ رہ جاتی۔

آج بھی عقیدۂ شرک کی تبلیغ ماڈرن طریقے سے اور علمی نظریہ کی صورت میں مختلف مجامع میں کی جا رہی ہے۔ اگر صدر اسلام میں صرف بتوں اور معبودوں کی پوجا کی جاتی تھی اور دنیا پرست انسان لوگوں کے افکار کو بے حس کرنے کے لئے ان کی تبلیغ کرتے تھے، تو آج عقیدۂ شرک کے طرفدار اس کوشش میں ہیں کہ انسانوں کی تعداد کے برابر خیالی بت تراش کر انسانوں کی فکر و عقل کو خداوند متعال سے پھیر کر شیطانی اوہام، خیالات او روسوسوں کی طرف موڑ دیں۔

۱۴۵

ہم دیکھتے ہیں کہ ''سیدھے راستوں اور دین کی مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کا بھی یہی حال ہے، جیسا کہ اس کے عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے، اس نظریہ سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص جوبات بھی خدا اور دین کے متعلق دینی کتابوں سے سمجھے اسی کو اسے چاہئے کہ اپنے اعتقاد و عمل کی بنیاد قرار دے، کیونکہ وہی حق اور عین واقعیت ہے۔

اس بنا پر انسانوں کی تعداد اور خدا و دین کے متعلق ان کی مختلف فکروں کے اعتبار سے بہت سے فردی اور خصوصی خدا اور ادیان بن جاتے ہیں۔

واضح ہے کہ یہ بات روح توحید سے جو کہ ''لا الہ الا اللہ'' کے نعرہ میں جلوہ گر ہے، تضاد رکھتی ہے اور بالکل اس کے مقابلہ میں قرار پاتی ہے۔

بہرحال چونکہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ حساس موضوع یعنی توحید و شرک کا مسئلہ، کہ اس کی دنیا و آخرت کی سعادت اسی سے تعلق رکھتی ہے، درمیان میں ہے، ضروری ہے کہ انسان اپنے عقائد و افکار پر نظر ثانی اور غور و فکر کرے، اپنے عقائد و افکار کو قرآن اور اہلبیت کے علوم کی کسوٹی پر پرکھے اور ہوا و ہوس سے دور رہ کر منطق و عقل سلیم کے ساتھ اپنے عقائد و افکار کی اصلاح کرے او رخود کو گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے نجات دے۔

البتہ خود شکنی اور ہوائے نفس پر غلبہ حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت نبی اکرم نے اسے جہاد اکبر سمجھا ہے، خصوصاً اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ شیاطین اور دشمنان توحید و اسلام اس کی تشویق کریں اور اپنے سیاسی اور سامراجی مقاصد تک پہنچنے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے اسے ایک عالمی شخصیت بنانے کا لالچ دیں۔

اگر چہ ایسی حالت میں انسان کا سنبھل جانا او رجہاد اکبر کے میدان میں قدم رکھنا نیز شیاطین اور د شمنان اسلام کے وعدوں اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا ایک انوکھا اور معجزنما کام ہے لیکن ناممکن نہیںہے۔ تاریخ میں ایسے افراد کم نہیں ہیں جو کہ ایک لحظہ میں سنبھل گئے اور اپنے کو نفسانی خواہشات اور جنی اور انسی شیطانوں کے جال سے چھڑا کر ہلاکت سے نجات حاصل کرلی اور توحید کی آغوش میں واپس آگئے۔

۱۴۶

''دین میں فتنہ'' واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی

قرآن کریم نے مسلمانوں کو سعادت و تکامل تک پہنچنے کے راستوں کی نشاندہی کی ہے اور ایک ایسے روشن چراغ کے مانند جو کبھی خاموش نہیں ہوسکتا، ہدایت کا صراط مستقیم حقیقت کے طلبگار انسانوں کو دکھایا ہے۔

حضرت محمد مصطفی نے بھی شرک و کفر کے گردو غبار کو انسانیت کے چہرے سے صاف کیا اور امید و کامیابی کا بیج حقیقت کے پیاسے انسانوں کے دل و جان میں بوکر اسے بارور اور پرثمر بنایا نیز حکومت کو توحید کی بنیاد پر قائم کیا۔

اس درمیان ایسے انسان کم نہ تھے جو کہ مصلحت اندیشی کے لحاظ سے مسلمان ہوتے تھے اور ان کا ایمان زبان کے مرحلہ سے آگے نہیں بڑھتا تھا نیز توحید ان کے دلوں میں جگہ نہ پاتی تھی۔

ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگ جو کہ اپنے نفسانی خواہشات کو خدا کی رضا اور پیغمبر کے احکام پر مقدم رکھیں، جو کہ باطن میں اسلام اور پیغمبر کے دشمن تھے، وہ پیغمبر کے زمانۂ حیات میں مصلحت نہیں دیکھتے تھے کہ آشکار اور علانیہ مخالفت کے لئے اٹھیں، نیز حکومت الٰہی کو گرانے، امام معصوم کی مخالفت اور لوگوں کو ائمۂ معصومین (ع) کی رہبری سے محروم کرنے کا نقشہ برملا کریں۔ لہذا یہ شیطان اور دنیا پرست انسان اس بات کے منتظر تھے کہ پیغمبر دنیا سے گزر جائیں تو پھر اپنے منحوس منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں۔

قرآن کریم اس سازش کو پیش نظر رکھ کر ہوشیار کرتا ہے:(أحَسِبَ النَّاسُ أَن یُّترَکُوا أَن یَّقُولُوا آمَنَّا وَ هُم لایُفتَنُونَ) 1 کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور وہ فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے؟ ایک دن امیر ا لمومنین حضرت علی ـ قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے اور لوگوں کواس الٰہی حبل المتین کے محور پر جمع رہنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے رہے تھے اور اہل سعادت و شقاوت کو جنت و جہنم کی خبر دے رہے تھے کہ ایک شخص نے اٹھ کر فتنہ کے متعلق سوال کیا اور حضرت سے خواہش کی کہ اس بارے میں حضرت پیغمبر کا ارشاد بیان فرمائیے۔

(1) سورۂ عنکبوت، آیت 2 ۔

۱۴۷

حضرت نے جواب میں فرمایا: جب خداوند متعال نے اس آیۂ کریمہ(أَحَسِبَ النَّاسُ...) کو نازل فرمایا اور لوگوں کودین میں فتنہ واقع ہونے اور نہایت بڑے امتحان سے خبردار کیا، تو میں نے سمجھا کہ یہ فتنہ پیغمبر کی وفات کے بعد ہوگا۔

میں نے پیغمبر سے سوال کیا کہ یہ فتنہ جو کہ دین میں واقع ہوگا اور خداوند متعال نے جس کی خبر دی ہے کون سا فتنہ ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

تو پیغمبر نے فرمایا کہ: میری امت میرے بعد فتنہ سے دوچار ہوگی۔

یہاں پر اس بات سے قبل کہ پیغمبر اپنی وفات کے بعد کے فتنوں کی قسموں کو بیان کریں، حضرت علی ـ اس خوف سے کہ کہیں راہ خدا میں شہادت کی کامیابی سے محروم ہو جائیں حضرت پیغمبر اسلام کو جنگ احد کی یاد دلاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یقینا آپ کو یاد ہے کہ جنگ احد میں عالم اسلام کی کیسی بڑی بڑی شخصیتوں (مثلاً حضرت حمزہ سید الشہداء وغیرہ) نے سبقت حاصل کر لی تھی اور شہادت کی عظیم کامیابی پر فائز ہوئے اور میرے اور راہ خدا میں شہادت (اولیائے الٰہی کے اس معشوق) کے درمیان جدائی ہوگئی اور یہ جدائی مجھے بہت گراں لگی۔

آپ کو یاد ہے کہ آپ نے مجھے میری تمنا حاصل ہونے کی بشارت دی اور فرمایا: راہ خدا میں شہادت تمھیں ملنے والی ہے اور میں اسی طرح شہادت کے انتظار میں ہوں۔

یا رسول اللہ! آیا وہ فتنہ جو کہ آپ کے بعد واقع ہوگا میری شہادت تک پہنچے گا؟

پیغمبر نے جواب میں فرمایا کہ ہاں تم اپنی تمنا کو پہنچو گے۔

۱۴۸

پھر پیغمبر امیر المومنین سے پوچھتے ہیں کہ جس وقت تم ایسے فتنے سے دوچار ہوگے تو تم کہاں تک صبر کرو گے؟

حضرت نے فرمایا: یا رسول اللہ! یہاں صبر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے کہ اس پر شکر کرتا ہوں اور اسے اپنے لئے بشارت و خوشخبری سمجھتا ہوں۔

اس وقت حضرت پیغمبر اکرم ان فتنوں کے گوشوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے اور لوگوں کو ان سے ہوشیار کرتے ہیں۔

پیغمبر کے بعد فتنوں کی پیشین گوئی

حضرت پیغمبر اسلام حضرت علی ـ کو حضرت کی تمناپوری ہونے اور شہادت کی بشارت سے متعلق اطمینان دلانے کے بعد حضرت سے خطاب فرماتے ہیں اور ان فتنوں کی قسموں کو بیان فرماتے ہیں جو کہ دنیا پرست افراد کے ہاتھوں دین میں واقع ہوں گے۔

آنحضرت اپنے ارشاد میں فتنہ کی تین اہم قسموں کو بیان فرماتے ہیں:

''یَاعَلِیُّ! إنّ الْقَومَ سَیُفتَنُونَ بِاَموَالِهِم وَ یَمُنُّونَ بِدِینِهِم عَلٰی رَبِّهِم وَ یَتَمَنَّونَ رَحمَتَهُ وَ یَأمَنُونَ سَطوَتَهُ یَستَحِلُّونَ حَرَامَهُ بِالشُّبهَاتِ الْکَاذِبَةِ وَ الأَهوَائِ السَّاهِیَةِ، فَیَستَحِلُّونَ الْخَمرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحتَ بِالهَدِیَّةِ وَ الرِّبَا بِالبَیعِ''1

اے علی! عنقریب لوگوں کو ان کے اموال کے ذریعہ آزمایا جائے گا اور وہ اپنے

دین کے ذریعہ اپنے رب پر احسان رکھیں گے اور اس کی رحمت کی تمنا کریں گے اور خود کو اس کے غلبہ سے محفوظ سمجھیں گے جھوٹے شبہات اور بیہودہ خواہشوں کے سبب حرام کو حلال قرار دیں گے اور شراب کو آبِ جو، رشوت کو تحفہ اور سود کو تجارت قرار دیکر حلال سمجھ لیں گے۔

(1) بحار الانوار، ج32، ص 241 ۔

۱۴۹

1۔ مالی فتنہ

سب سے پہلا مسئلہ کہ حضرت پیغمبر اکرم جس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، اموال میں فتنہ ہے۔ جو لوگ اسلامی فقہ سے آگاہ ہیں ان پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کے عملی احکام کا ایک عظیم حصہ اموال، کسب و اکتساب، تجارت اور اقتصادی امور سے متعلق ہے۔

اسلام میں لوگوں کے حقوق کی طرف سب سے زیادہ اور اچھی طرح شارع مقدس نے توجہ دی ہے۔

خرید و فروش اور کسب و تجارت کے وہ اصول و ضوابط اور قواعد و احکام کہ شرع مقدس نے مسلمانوں کے لئے جن کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے وہ ایسے اصول و قواعد ہیں جو کہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کے حقیقی مصالح کی بنیاد پر تشریع اور نافذ کئے گئے ہیں تاکہ لوگ ان پر عمل کر کے سالم زندگی اور دنیوی و اخروی سعادت سے بہرہ مند ہوں۔ چونکہ معاشرہ میں سب سے زیادہ اقتصادی روابط بیع و شراء اور خرید و فروخت کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں، اجتماعی زندگی کا وجود و قوام اور انسانوں کے درمیان تعلق و تعاون ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے میں لین دین اور معاملات پر ا ستوار ہے او ردوسری طرف انسان کے اندر حرص اور لالچ کے جذبہ کی وجہ سے سودی معاملات جو کہ اسلام کی نظر میں سب سے زیادہ منفور اور بدترین قسم کے معاملات ہیں جو کہ لوگوں کے درمیان رائج رہے ہیں، لہذا قرآن نے سودی معاملات اور سودی لین دین سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔

۱۵۰

قرآن کا لہجہ اس کام سے منع کرنے کے متعلق نہایت سخت ہے یہاں تک کہ اسے خداوند متعال سے جنگ کے مانند سمجھتا ہے:(فَاِن لَّم تَفعَلُوا فَأذَنُوا بِحَربٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ) 1 اگر تم نے سودی معاملات سے ہاتھ نہیں کھینچا تو سمجھ لو کہ خدا اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کیا ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ: میرے بعد لوگ اپنے اقتصادی روابط اور اموال میں فتنہ سے دوچار ہوں گے اور ربا (سود) کی حرمت کے متعلق قرآن کے صریحی حکم کو نظر انداز کردیں گے اور خرید و فروخت کے بہانے سے، بیہودہ حیلوں کے ذریعہ سود کھائیں گے۔

2۔ اعتقادی فتنہ

جس بات کی ہر ایک عقلمند انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ تصدیق کرتا ہے اور تصدیق کے بعد اسے اس کے لوازم کا پابند ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم تمام انسان خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ خداوند متعال ہی نے عالم کو خلق کیا ہے او رہم کو وجود کی

(1) سورۂ بقرہ، آیت 279 ۔

۱۵۱

نعمت سے بہرہ مند کیا ہے اور اس لئے کہ ہم انسان تکامل و سعادت تک پہنچیں اپنے بہترین بندوں کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیج کر اپنی نعمت کو ہم پر تمام کردیا ہے۔

دین و ہدایت کا شکر و سپاس، جو کہ نعمت وجود کے بعد سب سے بڑی الٰہی نعمت ہے، خدا کی بندگی اور عبودیت قبول کرنے کے علاوہ تحقق نہیں پیدا کرسکتا کہ یہ بھی انسان کے حق میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف خداوند متعال ہی انسانوں پر احسان کرتا ہے کہ اس نے اپنی نعمت ان کے حق میں تمام کی ہے اور ان کے پاس ہدایت ودین حق کو بھیجا ہے۔ سچ ہے کہ کتنے کم ہیں ایسے لوگ جو کہ اپنی ناقدری اور بے وقعتی کو پہچانتے ہیں اور خدا کی عظمت اور ان نعمتوں کی بزرگی کو سمجھتے ہیں جو انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں او ر اپنے حق میں خدا کے لطف و کرم کو درک کرتے ہیں۔

سچ ہے کہ کتنی بری اور ناپسند بات ہے اور کتنی بڑی ناشکری ہے کہ نادان انسان خدا پر احسان جتائے کہ اس نے اس کی ہدایت و رہنمائی کو قبول کیا ہے، وہ اس بات سے غافل ہے کہ خدا نے خود ہم پر احسان کیا ہے اس لئے کہ اس نے ہم کو دین حق کی ہدایت کی ہے۔

قرآن کریم حضرت پیغمبر اکرم کو خطاب کر کے فرماتا ہے:(یَمُنُّونَ عَلَیکَ أَن أَسلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِسلامَکُم بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلیَکُم أن هَدَاکُم لِلاِیمَانِ) 1 یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو

(1) سورۂ حجرات، آیت 17 ۔

۱۵۲

آپ کہہ دیجئے کہ ہمارے اوپر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو یہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دیدی ہے۔

یہ تم پر واجب و لازم ہے کہ بندگی ، اطاعت اور عبادت کے ساتھ اس حق کو شائستہ طور سے ادا کرو، نہ یہ کہ ایمان لانے کے بہانے سے اپنے کو صاحب حق سمجھو او رخداوند متعال سے تقاضا کرو۔

اس بنا پر دینی مکتب فکر میں اصل، خدا کے سامنے تسلیم، بندگی اور عبودیت ہے، نہ کہ خدا کے سامنے انانیت اورتکبر ۔

حضرت پیغمبر اکرم خدا کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کے بجائے انانیت، تکبر اور استکباری جذبہ رکھنے کو دین میں فتنہ کا ایک مظہر بتاتے ہیں۔

آنحضرت فرماتے ہیں: میرے بعد دین میں فتنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر یہ ہوگا کہ لوگ بجائے اس کے کہ دین و ہدایت کی نعمت پر خدا کے شکر گزار ہوں اور دین حق کی خاطر اس کے ممنون ہوں، خود خدا پر احسان جتائیں گے کہ دین کو قبول کیا ہے، اپنے کو صاحب حق اور خدا کا قرضخواہ سمجھیں گے اور خدا سے (قرض کا تقاضا کرنے کے مانند) جزا اور رحمت کی امید رکھیں گے اسی طرح ایمان لانے کے عوض (متکبرانہ طریقے سے) اپنے کو کسی بھی طرح کی سزا کا مستحق نہ سمجھیں گے، اگرچہ خداوند متعال کوئی بھی جزا و سزا، بغیر دلیل کے کسی بندے کو نہیں دیتا، لیکن پیغمبر اکرم ایسا جذبہ رکھنے کو ''دین میں فتنہ'' سمجھتے ہیں، اس لئے کہ ایسا جذبہ رکھنے والے جس وقت دینی احکام کی پابندی ان کے نفسانی خواہشات کے موافق نہیں ہوتی تو آسانی کے ساتھ غلط توجیہیں کر کے خود کو اور دوسروں کو فریب دینے لگتے ہیں۔

اس بنا پر خدا کے سامنے ایسا استکباری اور متکبرانہ جذبہ رکھنا، دین کی حقیقت اوراسلام کی روح (کہ صرف دین خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے) کے موافق نہیں ہے۔

۱۵۳

3۔ جھوٹی توجیہیں خطرناک ترین فتنہ

دین میں سب سے زیادہ خطرناک فتنہ، کہ جس نے پیغمبر کو بھی تشویش میں رکھا اور پیغمبر نے اسے حضرت علی ـ سے بیان کرتے ہوئے اس سے ہوشیار کیا تھا، وہ دین میں تحریف کی سازش اور اس کا فتنہ نیز منزل اعتقاد میں الٰہی محرمات کو حلال کرنا ہے۔ اگر چہ منزل عمل میں احکام شریعت کی رعایت نہ کرنا اور پروردگار کی خدائی کے سامنے استکباری جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ انسان اپنے دین مخالف اعمال اور گناہوں کے لئے غلط اور جھوٹی توجیہیں گڑھنے لگے اور اپنے نفسانی خواہشات پر دین و شریعت کا رنگ چڑھانے لگے۔

اس صورت میں شیطان تمام قوتوں کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہے تاکہ احکام دین کی تحریف اور شبہات پیدا کرنے میں ان کی مدد کرے۔

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں فتنہ پرور افراد اپنے نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے غلط افکار و تخیلات، جھوٹی توجیہات اور شبہات کے ذریعہ اس بات کے درپے ہیں کہ الٰہی محرمات کو حلال کردیں اور دین خدا کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

جس بات کی یاد دہانی ضروری ہے اور حضرت پیغمبر اکرم بھی فتنوں اور فتنہ پروروں کے سامنے حضرت علی ـ کے فریضہ کے بیان میں جس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں، وہ ایسی فتنہ انگیزیوں کے باقی رہنے کا مسئلہ ہے جو کہ امام زمانہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور تک جاری رہے گا۔ جو کچھ پیغمبر اکرم نے شراب کو اس بہانے حلال کرنے کے عنوان سے کہ شراب وہی حلال کشمش ہے، یا رشوت کو تحفہ اور ہدیہ کے بہانے سے حلال سمجھنے، اور سود خواری کو خرید و فروخت کے بہانے حلال سمجھنے کو بیان کیا ہے، وہ صرف ان فتنوں کے چند نمونے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے، نہ یہ کہ یہ مسئلہ فقط انھیں چیزوں میں منحصر ہے۔

۱۵۴

آج بھی ایسے افراد مسلمانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں جو ظاہری طور سے مسلمان ہیں اور ہرگز اپنے کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھتے، لیکن باطنی اور روحی لحاظ سے وہ ایسے نہیں ہیں کہ احکام الٰہی کو تہ دل اور رغبت کے ساتھ قبول کریں۔

یہ لوگ جن میں سے بعض اجتماعی حیثیتوں کے بھی حامل ہیں ایک طرف مغربی ثقافت اور مکتب فکر سے متأثر ہو کر خود باختگی کا شکار ہوگئے ہیں اور اپنی دینی شخصیت سے فاصلہ اختیار کرلئے ہیں، اور دوسری طرف ان کی معلومات دین کے معارف کے متعلق ناکافی ہیں۔حالانکہ ان لوگوں میں دین کے خصوصی مسائل کے متعلق اظہار نظر کی تھوڑی سی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ بس مسند قضاوت پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی دشمنان دین کی تشویق اور شیطان کے وسوسوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور شعوری یا لاشعوری طور پر ایسی باتیں کہتے ہیں جو اسلام کے دائرہ سے خارج ہو جانے اور انکار دین کا باعث ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ اسلام کے قوانین صدر اسلام اور اس زمانہ کے لوگوں سے مخصوص ہیں اور اس کے احکام صدر اسلام کے معاشروں کے مناسب اور موافق تھے، لیکن زمانۂ حال اور اکیسویں صدی میں قرآن اور احکام اسلام معاشرہ کی رہبری کے لئے کافی نہیں ہیں لہذا اس کے احکام کو انسانوں کی صوابدید اور پسند کے مطابق تبدیل کرنا چاہئے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ اکیسویں صدی کے لوگ اپنے زمانہ کے مطابق ایک نبی و پیغمبر کے محتاج ہیں، ایسی باتیں اگر چہ انکار دین کے معنی میں سمجھی جاتی ہیں، لیکن خود یہ باتیں پہلے درجہ میں دین و احکام دین کی صحیح شناخت نہ رکھنے کی نشانی ہیں۔

ضروری ہے کہ ایسے افکار و نظریات کے حامل افراد اظہار نظر اور زبان کھولنے سے پہلے صحیح طور سے اپنی بات کے معنی اور ان کے لوازم و نتائج پر توجہ دیں۔ اس صورت میں شاید ایسی باتیں کہنے سے پرہیز کریں کہ جن سے ''دین میں فتنہ'' کی بو آتی ہے، اور خود کو دشمنان اسلام و قرآن اور شیطان کے جال سے چھڑا لیں۔

۱۵۵

عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ماحول کو تاریک کرنا

جو کچھ اب تک بیان کیا گیا اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ دین و قرآن کے دشمنوں کے ہتھکنڈے اور وسائل فوجی حملہ اور فتنہ میں، ثقافتی یلغار اور فکری حملہ اور فتنہ کے ہتھکنڈوں سے بالکل مختلف ہیں۔ کہا گیا کہ وہ لوگ فوجی حملہ کے برخلاف فکری فتنہ جاری رکھنے میں آشکارا طور پر انکار دین اور لوگوں کے دینی مکتب فکر کی مخالفت کا موقف ظاہر نہیں کرتے اور علانیہ طور سے اپنے قلبی اعتقادات کو ظاہر نہیں کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں جو لوگ ان کی باتیں سنتے ہیں وہ ان کی باتوں میں غور و فکر کر کے یا ان کو قبول کر لیتے ہیں یا ان کے بطلان کو سمجھ جاتے ہیں اور ہر حال میں ان کے باطل عقائد کو قبول کرنے کی صورت میں جو گمراہی آجاتی ہے وہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہ جو کچھ ہوا ہے اسے فتنہ کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ فریب اور افکار میں تحریف کے ذریعہ گمراہ نہیں کیا گیا ہے۔

جو کچھ آج ہمارے معاشرہ میں ثقافتی فتنہ کے عنوان سے پایا جاتا ہے اور قرآن اور دینی مکتب فکر کے دشمن پوری کوشش کے ساتھ فکری حملہ کے ذریعہ اس کو انجام دے رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ معاشرہ کے ثقافتی اور فکری ماحول کو اس طرح آشفتہ اور تیرہ و تار بنادیں کہ لوگ خصوصاً طالب علم جوان طبقہ، حق و باطل کی تشخیص کی قدرت کھو بیٹھے اور لاشعوری طور پر ان کے باطل اور گمراہ کن افکار و اعتقادات کے جال میں پھنس جائے۔

واضح سی بات ہے کہ اگر ایک ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ فکری انحراف سے دوچار ہو جائے تو اس معاشرہ کے عام لوگوں کے انحراف اور گمراہی کا میدان بھی ہموار ہو جاتا ہے کہ''اِذَا فَسَدَ الْعَالِمُ فَسَدَ الْعَالَمُ'' جب عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے تو سارا عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے۔

۱۵۶

اس بنا پر مذکورہ ثقافتی فتنہ کہ جس سے پیغمبر اکرم نے خبردار کیا ہے، وہ ان خطرناک ترین امور میں سے ہے جو کہ لوگوں کی دنیا و آخرت کی سعادت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ایسے خطروں سے مقابلے کے لئے اسلامی حکومت کو چاہئے کہ حقائق دین بیان کرنے اور قرآن کے مکتب فکر اور معارف کو نشر کرنے کی قدرت کے اعتبار سے اتنی قوی ہو، اور پرائمری (مکتب) سے لیکر کالج اور یونیورسٹی تک کے تعلیمی نظام نیز ملک کے تمام ثقافتی مراکز کو اپنی دقیق نظارت کے تحت رکھے اتنا کہ اسلام کے دشمن اور بدخواہ افراد ثقافتی اور فکری ماحول کو پرآشوب کر کے دوسروں کو گمراہ کرنے پر قادر نہ ہوں۔

دوسری طرف علمائے دین کا اہم ترین فریضہ بھی لوگوں کی ہدایت و اصلاح کرنا (خصوصاً معاشرہ کے جوان طبقہ کی اصلاح اور ہدایت جو کہ دینی معارف اور قرآنی علوم سے کافی آشنائی نہیں رکھتے) اور ثقافتی فتنہ کا مقابلہ کرنا ہے۔

یہ دینی علماء کا فریضہ ہے کہ توضیح و تفصیل کے ساتھ عوام او رجوان نسل کو ثقافتی اوراعتقادی خطروں سے اور دشمنان دین کی سازش سے آگاہ کریں اور انھیں شیطانی جالوں سے بچائیں۔ اور یہ دیندار لوگ ہی ہیں جو کہ باعمل دینی علماء کی حمایت و نصرت کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت کے لئے اہم اور بڑے فرائض کے انجام دینے میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

جیسا کہ کتاب کے شروع میں بیان کیا تھا اب ہم اس حصہ میں حضرت علی ـ کی نظر سے نہج البلاغہ میں مذکورہ دینی ثقافت اور مکتب فکر کے مخالفین کے علل و مقاصد کو ذکر کر تے ہیں۔ پہلے ہم حضرت علی ـ کی نظر سے مذکورہ افراد کا تعارف کرائیں گے پھر بحث کو دینی مکتب فکر اور قرآنی تعلیمات و احکام کی مخالفت میں ان افراد کے علل و مقاصد کو بیان کر کے ختم کردیں گے۔

۱۵۷

دینی معارف میں تحریف کرنے والے حضرت علی ـ کی نظر میں

امیر المومنین حضرت علی ـ ان لوگوں کو جو حقائق دین میں تحریف کرنا اور لوگوں کی دینی تہذیب و ثقافت کو برباد کرنا چاہتے ہیں، عالم نما جاہل کہتے ہیں۔

حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:''وَ آخَرُ قَد تُسَمَّی عَالِمًا لَیسَ بِهِ'' 1 قرآن کے سچے پیرووں کے مقابل ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو کبھی کبھی معاشرہ کے درمیان عالم و دانشور تصور کیا جاتا ہے، اس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ اسے علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ایسے لوگ حقیقت سے خالی اورعاریتی عناوین سے سوء استفادہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوال قارئین کے سامنے آئے کہ تو پھر جو کچھ یہ لوگ علمی اور دینی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ وہ لوگ جو اپنی باتوں کو دین و قرآن سے ماخوذ قرار دیتے ہیں ان کو حضرت علی ـ جواب دیتے ہیں:''فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِن جُهَّالٍ'' 2 یہ لوگ جو کچھ دین سے اپنے اخذ شدہ مفاہیم اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور دین کی مختلف قرائتوں کے بہانے سے دین پر اپنے باطل عقائد لادنا چاہتے ہیں، وہ ایسی جہالتیں ہیں جو کہ دوسرے جاہل و نادان انسانوں سے لی گئی ہیں اور وہ انھیں دینی معارف اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں۔

شاید آپ کو تعجب ہو کہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ جہل و نادانی کو دوسروں سے حاصل کرتے ہیں؟ دوسروں سے جہل و نادانی کے حاصل کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس بات کے لئے کہ ہم حضرت علی ـ کے کلام کے ا عجاز سے واقف ہوں اور حق سے منحرف افراد

(1) نہج البلاغہ ، خطبہ 86 ۔

(2)نہج البلاغہ ، خطبہ 86 ۔

۱۵۸

کے مقابل اصلاح و ہدایت سے متعلق اپنی ذمہ داری سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہوں، دوسروں کی ان جہالتوں او رنادانیوں سے جو آج علمی سوغاتوں کے نام سے بیان کی جارہی ہیں، عالم نما جاہلوں کے اقتباس کے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

آج کل مغرب میں یہ فلسفی فکر رائج ہے کہ حصول علم انسان کے لئے نا ممکن ہے اور انسان کو چاہئے کہ ہر چیز میں شک کرتاہو اور ہرگز کسی چیز کے بارے میں یقین پیدا نہ کرے۔

اس نظریہ کے طرفدار معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں کسی مطلب اور بات کا یقین رکھتا ہوں تو یہ اس کی نافہمی اور حماقت کی نشانی ہے، اس لئے کہ کسی چیز کا علم ممکن ہی نہیں ہے۔

وہ لوگ اس شک و جہل پر بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ علم و دانش اور عقل مندی کی علامت یہ ہے کہ انسان کسی مطلب کا ، خواہ دینی ہو یا غیر دینی، یقین نہ کرے۔ ایسی اٹکل پچو باتیں تقریباً ایک سو سال سے اہل یورپ کے درمیان چھڑی ہوئی ہیں اور اس سے پہلے شکّاکین کی فکری بنیاد رہی ہیں۔

آج کل ہمارے معاشرہ میں بھی کچھ لوگ ان کی جاہلانہ باتوں کومبنیٰ قرار دیکر اسی بات کے درپے ہیں کہ لوگوں کے دینی معتقدات میں شک و شبہہ پیدا کر کے، اس بہانے سے کہ ہم کسی چیز کے متعلق یقینی معرفت نہیں حاصل کرسکتے، ان کو اپنے دینی اعتقادات میں

(1) شکّاکین: قدیم یونان میں حکماء کا ایک گروہ تھا، جو اس بات کا قائل تھا کہ تجربہ سے ماوراء کسی بھی چیز کا علم محال ہے اور کسی امر میں قطعی رائے اور حکم کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور تمام امور کو شک و شبہہ کے ساتھ دیکھنا چاہئے (مترجم)۔

۱۵۹

سست اور کمزور کردیں اور اپنے نفسانی خواہشات اور مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں۔

نرالی بات یہ ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کو علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بافہم اور نکتہ سنج لوگ ان کو قبول کرلیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ پوری تاریخ میں ایسے شیطان صفت انسانوں کے وجود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِن جُهَّالٍ وَ أََضَالِیلَ مِن ضُلَّالٍ'' 1 وہ لوگ ایک گمراہ او رجاہل گروہ سے جاہلانہ اور گمراہ کن باتیں لے لیتے ہیں اور ان کو علمی مطالب کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی علمی بات یہ ہے کہ ہر چیز میں شک کرنا چاہئے اور بشر کو کسی چیز میں علم و یقین نہیں پیدا کرنا چاہئے، دینی امور میں ہر شخص جو بھی سمجھتا ہے وہی حق ہے، اس لئے کہ اصلاً کوئی حق و باطل وجود نہیں رکھتا، حق و باطل کے لئے ہر شخص کی ذاتی سمجھ کے علاوہ کوئی معیار نہیں پایا جاتا۔

''وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ اَشْرَاکاً مِن حَبَائِلَ غُرُورٍ وَ قَولِ زُورٍ'' 2 اس گمراہ و نادان گروہ اور عالم نما جاہلوںنے مکر و فریب اور جھوٹی باتوں کے جال بچھا دیئے ہیں اور لوگوں کو اپنے گمراہ کن اقوال و اعمال سے فریب دیتے ہیں۔

''قَد حَمَلَ الْکِتَابَ عَلٰی آرَائِهِ'' 3 یہ لوگ قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں اور اس کی آیات کو اپنے افکار و خیالات پر حمل کرتے ہیں اور حق کو اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کے مطابق قرار دیتے ہیں۔

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

(2)گزشتہ حوالہ ، خطبہ 86 ۔

(3)گزشتہ حوالہ ، خطبہ 86 ۔

۱۶۰