قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت0%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اﷲ الحاج الشیخ محسن الآراکی مدظلہ العالی
زمرہ جات: صفحے: 180
مشاہدے: 52706
ڈاؤنلوڈ: 3794

تبصرے:

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 52706 / ڈاؤنلوڈ: 3794
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پھر حضرت علی ـ ان افراد کے تبلیغاتی ہتھکنڈوں کو قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: وہ لوگ لوگوں کی توجہ اور دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے لوگوں کو گناہان کبیرہ اور ان کے برے انجام سے محفوظ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے ا نجام دینے کی تشویق کرتے ہیں اور جرائم و معاصی کے ارتکاب کو لوگوں کی نظر میں آسان اور بے اہمیت بنادیتے ہیں۔

یہ لوگ حقیقت میں ان حرمت شکنیوں کے ذریعہ لوگوں میں دینی غیرت اور خدا ترسی کے جذبہ کو کمزور کردیتے ہیں۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: یہ لوگ بحث و گفتگو میں ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ ہم شبہات کے مواقع پر توقف کرتے ہیں اور مشکوک و مشتبہ احکام اور باتیں کہنے سے پرہیز کرتے ہیں، حالانکہ یہ لوگ دین و شریعت کے احکام و موازین سے بے خبر اور شبہات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔

باتوں میں اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ ہم خلاف دین احکام اور بدعتوں سے الگ رہتے ہیں، حالانکہ بدعتوں ہی کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں چنانچہ دین کے بارے میں وہ جو بات اپنی رائے سے کہتے ہیں، وہ بدعت ہے۔

ایسے انسان اگر چہ صورت میں انسان ہیں لیکن ان کا قلب و روح جانوروں کا قلب و روح ہے، کیونکہ یہ نہ تو باب ہدایت کو پہچانتے ہیں کہ اس کا اتباع کر کے ہدایت یافتہ ہو جائیں، اور نہ ضلالت و گمراہی کے دروازے کو پہچانتے ہیں کہ اس سے الگ رہیں، یہ افراد در حقیقت زندوں کے درمیان چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔

۱۶۱

پھر حضرت علی ـ لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: حق و باطل واضح ہو جانے اور ہر ایک کو پہچاننے کے بعد آخر تم لوگ کدھر جارہے ہو اور تمھیں کس سمت موڑا جارہا ہے؟ جبکہ حق کے عَلَم قائم ہیں اور اس کی آیات اور نشانیاں واضح ہیں، منارے نصب کئے جاچکے ہیں اور تمھیں بھٹکایاجارہا ہے اور تم بھٹکے جارہے ہو، دیکھو تمھارے درمیان تمھارے نبی کی عترت (اہلبیت) موجود ہے، یہ سب حق کے زمامدار، دین کے عَلَم اور صداقت کی زبان ہیں، انھیں قرآن کریم کی بہترین منزل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسے اونٹ چشمہ پر وارد ہوتے ہیں۔

تمھیں اہلبیت رسول کے انوار ہدایت سے روشنی حاصل کرنا چاہئے، تو پھر کیوں اپنے کو علوم اہلبیت سے محروم کئے ہو اور حیران و سرگرداں کیوں ہو؟

قرآن کریم حضرت علی ـ کے بیان سے بھی زیادہ سخت بیان کے ساتھ ان عالم نما جاہلوں کا نام لیتا ہے اور لوگوں کو ان کی فریب کاریوں سے ڈارتے ہوئے فرماتا ہے:''وَ کَذٰلِکَ جَعَلنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِینَ الاِنسِ وَ الجِنِّ یُوحِی بَعضُهُم اِلٰی بَعضٍ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُوراً وَ لَو شَائَ رَبُّکَ مَافَعَلُوهُ فَذَرْهُم وَ مَایَفتَرُونَ'' 1 اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انس و جن کے شیاطین کو ان کا دشمن قرار دیا ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دھوکہ دینے کے لئے مہمل باتوں کے اشارے کرتے ہیں اور اگر خدا چاہ لیتا تو یہ ایسا نہ کرسکتے ، لہذا اب آپ انھیں ان کے افترا کے حال پر چھوڑ دیں۔

انبیاء کے دشمن اور ہدایت الٰہی کے مخالف اگر چہ ظاہری صورت میں انسان ہیں، لیکن چونکہ ان کی تمام کارستانیاں اور کوششیں، دوسروں کو گمراہ کرنے، شبہوں اور وسوسوں میں ڈالنے، لوگوں کے دینی اعتقادات کو کمزور کرنے اور ہدایت الٰہی کا مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتیں، لہذا قرآن ان کو شیاطین انس کہتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی سے روکتا ہے۔

(1) سورۂ انعام، آیت 112 ۔

۱۶۲

قرآن کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کا برتاؤ

جو لوگ خدا پر ایمان اوراس کے لوازم کے اعتبار سے ذرا سا بھی قوی نہیں ہیں اور شائستہ و بائستہ طور سے ایمان ان کے قلب و روح میں رسوخ نہیں کئے ہے، وہ لوگ نفسانی خواہشات اور خدا کی خواہش نیز دینی اقدار کے درمیان تعارض کے موقع پر خوشروئی کا اظہار نہیں کرتے اور روحی اعتبار سے چاہتے ہیں کہ دینی احکام و اقدار کی اپنی نفسانی خواہشات کی جہت میں من مانی طور پر تفسیر و توجیہ کریں۔ اور اگر دین و قرآن کی تفسیر ان کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتی ہے تو اس گروہ کو بہت اچھا لگتا ہے، کیونکہ ایک طرف اپنی نفسانی خواہشات کو بھی حاصل کرلیتے ہیں اور دوسری طرف بظاہر اسلام کے دائرہ سے خارج بھی نہیں ہوتے اور اسلامی معاشرہ میں مسلمان ہونے کی خصوصیات اور مراعات سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔

اسی طرح واضح سی بات ہے کہ جن لوگوں کی روح و جان میں ا یمان و تقویٰ راسخ نہیں ہے اور الٰہی احکام نیز دینی اقدار کے ذرا سا بھی پابند نہیں ہیں وہ بھی دین و قرآن سے حاصل کردہ ایسے من پسند مطالب کا استقبال کرتے ہیں اور جو لوگ دین و قرآن اور دینی اقدار کی تفسیر و توجیہ ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق کرتے ہیں وہ ان کی پیروی کرتے ہیں، انھیں اپنا نمونہ قرار دیتے ہیں اور ان کی تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ نیز فطری طور پر ایسے لوگ دینی علماء کے اس گروہ سے اچھا سلوک نہیں رکھتے جو کہ قرآن و احکام کی تفسیر و توجیہ حق کے مطابق کرتے ہیں اور لوگوں کے ذوق و شوق اور پسند کے موافق نہیں کرتے ہیں۔

۱۶۳

بہت افسوس ہے کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دینی متون و کتب کی مختلف قرآئتوں کے بہانے سے اس بات کے درپے ہیں کہ اپنے نفسانی میلانات و خواہشات پر دینی رنگ چڑھائیں اور اپنے دنیوی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے دین خدا اور قرآن کریم کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ مذکورہ حالت کی پیشین گوئی کے ساتھ اپنے زمانہ اور آخری زمانہ میں قرآن کی غربت و مہجوریت کے متعلق شکوہ کرتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں:

''اِلَی اللّٰهِ اَشْکُو مِن مَعشَرٍ یَعِیشُونَ جُهَّالًا وَ یَمُوتُونَ ضُلاَّلاً وَ لَیسَ فِیهِم سِلْعَة أَبْوَرُ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِهِ وَ لاسِلْعَة أَنفَقُ بَیْعاًوَ لا أَغْلَیٰ ثَمَناً مِنَ الْکِتَابِ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِهِ'' 1

میں خداوند متعال کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مرجاتے ہیں تو ضلالت کے ساتھ، ان کے نزدیک کوئی متاع،

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 17 ۔

۱۶۴

کتابِ خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے جبکہ اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس کی برحق تفسیر کی جائے، اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اور فائدہ مند نہیں ہے جبکہ اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے اور اسے اس کے مواضع سے ہٹا دیا جائے۔

اسی طرح امیر المومنین حضرت علی ـ آخری زمانہ کے لوگوں کے درمیان قرآن اور معارف دین کی حیثیت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ إنّهُ سَیَأتِی عَلَیکُمْ مِن بَعدِی زَمَان لَیسَ فِیهِ شَیئ أَخْفَیٰ مِنَ الْحَقِّ وَ لا أَظْهَرَ مِنَ الْبَاطِلِ وَ لااَکْثَرَ مِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ وَ لَیسَ عِندَ أَهلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَة اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِهِ وَ لا أَنفَقَ مِنهُ اِذَا حُرِّفَ عَن مَوَاضِعِهِ وَ لا فِی الْبِلادِ شَیئ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعرُوفِ وَ لا أَعرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ فَقَد نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُهُ وَ تَنَاسَاهُ حَفَظَتُهُ فَالْکِتَابُ یَومَئِذٍ وَ اَهلُهُ طَرِیدَانِ مَنفِیَّانِ وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِی طَرِیقٍ وَاحِد ٍ لا یُؤوِیهِمَا مُؤوٍ فَالْکِتَابُ وَ اَهلُهُ فِی ذَالِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیهِم وَ مَعَهُمْ وَ لَیْسَا مَعَهُمْ لإنّ الضَّلالَةَ لاتُوَافِقُ الْهُدَیٰ وَ اِنِ اجْتَمَعَا فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلٰی الْفُرْقَةِ وَافْتَرَقُوْا عَلیٰ الْجَمَاعَةِ کَأَنَّهُم أَئِمَّةُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ ِمَامَهُمْ''1

''یقینا میرے بعد تمھارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 147 ۔

۱۶۵

سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ نمایاں نہ ہوگی، سب سے زیادہ رواج خدا اور رسول پر افتراء کا ہوگا اور اس زمانے والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس سے زیادہ کوئی فائدہ مند بضاعت نہ ہوگی اگر اس کے مفاہیم کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے، شہروں میں ''منکَر'' سے زیادہ معروف اور ''معروف'' سے زیادہ منکَرکچھ نہ ہوگا، حاملان کتاب کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن قرآن کو بھلادیں گے، کتاب اور اس کے واقعی اہل، شہر بدر کردیئے جائیں گے اور دونوں ایک ہی راستہ پر اس طرح چلیں گے کہ کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا، کتاب اور اہل کتاب اس دور میں لوگوں کے درمیان رہیں گے لیکن واقعاً نہ رہیں گے، انھیں کے ساتھ رہیں گے لیکن حقیقتاً الگ رہیں گے، اس لئے کہ گمراہی، ہدایت کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے چاہے دونوں ایک ہی مقام پر رہیں، لوگوں نے افتراق پر اتحاد اوراتحاد پر افتراق کرلیا ہے جیسے یہی قرآن کے امام اور پیشوا ہیں اور قرآن ان کا امام و پیشوا نہیں ہے''۔

نہایت ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ آئندہ کے افراد اور دینی حالات کے متعلق قرآن اور نہج البلاغہ کی ان پیشین گوئیوں کو قابل توجہ قرار دے اور اپنے معاشرہ پر غالب و حاکم ثقافتی اور فکری حالت کو بھی ملاحظہ کریں اور اس کا ان پیشین گوئیوں سے مقائسہ کریں تاکہ خدانخواستہ اگر معاشرہ کا دینی ماحول غلط سمت میں دیکھیں تو خطرہ کا احساس کریںاور معاشرہ کے دینی ماحول کی اصلاح کریں، ہر زمانہ کے لوگوں کو چاہئے کہ ولی فقیہ اور دینی علماء کی پیروی کے ذریعہ اپنے عقیدتی حدود اور دینی اقدار کی حفاظت و حراست کا انتظام کریں اور قرآن کو نمونہ قرار دیکر اپنے کو آخری زمانہ کے فتنوں سے محفوظ رکھیں اور ان پیشین گوئیوں کا مصداق قرار پانے سے ڈریں اور پرہیز کریں۔

۱۶۶

بہرحال امیر المومنین حضرت علی ـ ایسی پیشین گوئی فرماتے ہیں کہ: ''ایک زمانہ میرے بعد آنے والا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی چیز حق سے زیادہ مخفی اور کوئی چیز باطل سے زیادہ مشہو رنہ ہوگی، اس زمانہ میں خدا اور رسول خدا پر افتراء سب سے زیادہ امور میں سے ہوگا جو کہ عالم نما جاہل اور دنیا پرست منافقین اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انجام دیں گے۔

لوگوں کو حضرت علی ـ کی تنبیہ

جو بات اس خطبہ میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ایک سخت تنبیہ لوگوں کے لئے سمجھی جاتی ہے یہ ہے کہ آئندہ تمام لوگوں کے ماحول اور روحی کیفیت کی تصویر کشی ہے۔ جو کچھ اب تک قرآن کریم کی آیات اور حضرت علی ـ کے کلام سے اس کتاب میں زیر بحث و گفتگو قرار دیا گیا ہے اگرچہ وہ تمام لوگوں سے خطاب ہے، لیکن ان میں زیادہ تر روئے سخن معاشرہ کے خواص اور ان لوگوں کی طرف ہے جو معاشرہ کے کلچر اور ماحول کو تحت تاثیر قرار دینے والے ہیں۔

اس خطبہ میں حضرت علی ـ معاشرہ کے بعض خواص پر غالب و حاکم روح کی توضیح کے بعد، کہ وہ لوگ اپنے د نیوی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ افترا اور جھوٹ کی نسبت خدا اور پیغمبر کی طرف دیتے ہیں اور دین و قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کر کے لوگوں کو گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، تمام لوگوں پر غالب و حاکم مکتب فکر اور ماحول کے متعلق اس طرح پیشینگوئی فرماتے ہیں: اس زمانہ کے لوگ بھی ایسے ہیں کہ اگر قرآن اور کتاب خدا کی صحیح اور برحق تفسیر و توضیح کی جائے تو وہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ گھٹیا اور بے قیمت چیز ہے، اور اگر ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر کی جائے تو ان کی نظر میں وہ سب سے زیادہ رائج اور پر رونق چیز ہے۔

۱۶۷

اس زمانہ میں دینی تعلیمات اور الٰہی اقدار لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ ناپسند اور برے سمجھے جائیں گے اور مخالف دین چیزیں سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب سمجھی جائیں گی۔

باخبر لوگوں پر یہ بات پوشید ہ نہیں ہے کہ قرآن کے دشمن اور سامراجی طاقتیں آج اس بات کے درپے ہیں کہ ایسے مکتب فکر اور ماحول کو ہمارے معاشرہ پر حاکم کریں۔

وہ لوگ ثقافتی اور فکری حملہ کی سازش کر کے دینی مقدسات پر حملہ اور مخالف دین چیزوں کی تبلیغ کے ساتھ چاہتے ہیں کہ دھیرے دھیرے اسی ماحول کو ہمارے معاشرہ پر غالب و حاکم کردیں کہ جس کی امیر المومنین حضرت علی ـ نے پیشین گوئی کی ہے اور لوگوں کو اس میں مبتلا ہونے سے ڈرایاہے۔

حضرت علی ـ اس کے آگے ارشاد فرماتے ہیں: ''اس زمانہ میں کلام خدا سے آشنا افراد سے بے اعتنائی کے علاوہ، اور حافظان قرآن سے، کہ جن کا فریضہ دینی اقدار کی حفاظت و پاسداری ہے، انجام فریضہ میں غفلت و فراموشی کے علاوہ کوئی تحرک نہیں دیکھا جائے گا۔

اس زمانہ میں قرآن اور اس کے سچے پیرو اور علمائے دین اگرچہ لوگوں کے درمیان ہوں گے لیکن درحقیقت ان سے جدا ہوں گے اور لوگ بھی ان سے دور ہوں گے اس لئے کہ وہ ان کو گوشہ نشین اور کنارہ کش کر کے ان کی پیروی نہیں کریں گے۔ وہ حضرات اگرچہ لوگوں کے درمیان ہی زندگی بسر کریں گے لیکن لوگوں کے دل ان کے ساتھ نہ ہوں گے کیونکہ جو راستہ لوگ اختیار کریں گے گمراہی ہوگی اور وہ راہ قرآن کے ساتھ، جو کہ راہ ہدایت ہے، جمع نہیں ہوسکتا۔

۱۶۸

آخر میں حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''فَاجْتَمَعَ الْقَومُ عَلٰی الْفُرقَةِ وَ افْتَرَقُوا عَلیٰ الْجَمَاعَةِ کَأَنَّهُم أَئِمَّةُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ ِمَامَهُمْ''

لوگ اس زمانہ میں افتراق و اختلاف پر اجتماع کریں گے۔ گویا اس بات پر توافق کرلیں گے کہ قرآن اور حقیقی مفسرین سے موافقت نہ کریں، اور اس حال میں کہ گویا خود کو قرآن کا رہبر سمجھیں گے اور قرآن کی تفسیر و توجیہ اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کریں گے، عالم نما جاہلوں کی پیروی کر کے، حقیقی مفسرین، دینی علماء اور سچے مسلمانوں سے جدا ہو جائیں گے اور ان سے فاصلہ اختیار کرلیں گے،بجائے اس کے کہ فکر و عمل میں قرآن کو اپنا امام، رہبر اور راہنما قرار دیں، قرآن کو پیچھے چھوڑ کر اس کی امامت و رہبری سے روگردانی کریں گے او ردین و قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کریں گے۔

اس وقت دین و قرآن کے دشمنوں نے مسلمان قوم کو ان کی دینی شخصیت سے کھوکھلا کرنے کے لئے اپنی تمام قوتیں صرف کردی ہیں اور اس کوشش میںہیں کہ ان کے دینی عقائد کمزور کر کے ان کی شخصیت، آزادی اور استقلال کو چھین لیں۔

ان حالات کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر بہت ضروری ہے کہ ملت مسلمان خصوصاً دینی علماء خطرہ کو سمجھیں اور ہوش میں آجائیں اور ا پنے کو ہرگز اسلام و قرآن کے دشمنوں کے خطرے سے محفوظ نہ سمجھیں۔

اس درمیان، جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا، اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے عالمی دشمن اور کفر اپنے سامراجی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، لوگوں کے دینی مکتب فکر کے مقابلہ اورثقافتی حملہ میں، فوجی حملہ کے برخلاف، اسلام اور امت اسلامی سے اپنی دشمنی کو علانیہ طور پر ظاہر نہیں کرتے۔

اس حملہ میں وہ لوگ ایسے انسانوں کو اپنا آلۂ کار بناتے ہیں جو ظاہر میں مسلمان ہیں اور اسلامی معاشرہ میں زندگی گزارتے ہیں، جو ایک طرف اجتماعی اور ثقافتی عہدوں اور حیثیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور دوسری طرف دینی معارف کے سلسلہ میں کچھ مطالعہ رکھتے ہیں اگر چہ وہ بہت کم او رناقص ہوتا ہے، یہ افراد شعوری یا لاشعوری طور پر بیگانہ طاقتوں کا آلۂ کار بن کر دینی معارف کو تحریف کر کے لوگوں کی گمراہی کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔

۱۶۹

قرآن کریم کی بہت سی آیات اور ائمۂ معصومین (ع) کی روایات میں ان افراد کی مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ان کی باتیں سننے سے پرہیز کریں اس لئے کہ یہ افراد دنیوی اوراخروی سعادت کے حصول سے باز رہنے اور گمراہی کا سبب ہوجاتے ہیں۔

معارف دین کی تحریف کرنے میں عالم نما جاہلوں کا سبب، حضرت علی کی نظر میں

جیسا کہ ہم نے اس کے پہلے بیان کیا، قرآن کریم اسلامی معاشرہ میں ایسے انسانوں کی کارستانیوں کا نام ''فتنہ'' رکھتا ہے اور جو لوگ قرآن اور دین کے معارف و حقائق میں تحریف کرنے کے درپے ہوتے ہیں انھیں ایسا فتنہ پرداز سمجھتا ہے جو دینی معارف میں تحریف کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے میں شیطان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اب ممکن ہے یہ سوال پیش کیا جائے کہ ایسے لوگ باوجودیکہ حق کو جانتے ہیں اور ان اوہام اور جہالتوں سے جو کہ دوسروں سے عاریت میں لئے ہیں، واقف ہیں، تو پھر کیوں اپنی فریب کاریوں کی توجیہ کر کے دوسروں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟

دوسری لفظوں میں جو افراد دینی معارف میں تحریف کرتے ہیں اور حقائق دین میں تحریف کر کے لوگوں کی گمراہی کے اسباب فراہم کرتے ہیں، وہ نفسیاتی اور روحی اعتبار سے کون سی مشکل رکھتے ہیں کہ جس کے حل کرنے کے لئے دین خدا سے کھلواڑ کر بیٹھتے ہیں؟ حقیقت میں ''دین میں فتنہ'' جو کہ معارف دین میں تحریف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، وہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟

امیر المومنین حضرت علی ـ اس سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:''إنّمَا بَدْئُ وُقُوْعِ الْفِتَنِ اَهْوَائ تُتَّبَعُ وَ اَحْکَام تُبْتَدَعُ'' 1 جو بات روحی اعتبار سے انسان

(1) نہج البلاغہ ، خطبہ 50 ۔

۱۷۰

کے اندر ایسے انحراف کا سبب بنتی ہے اور فتنہ کی جڑ سمجھی جاتی ہے اس سے مراد ''نفسانی خواہشات'' ہیں جو فتنے دین میں پیدا کئے جاتے ہیں ان کا سرچشمہ نفسانی خواہشات اور دنیاوی اغراض و میلانات ہیں۔

جو لوگ دینی معارف میں تحریف کر کے لوگوں کو گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں وہ ایسے افراد ہیں جو خداوند متعال کے مقابل تسلیم و بندگی کی روح نہیں رکھتے یا شیطانی وسوسوں کے زیرا ثر، تسلیم و بندگی کی روح کھو بیٹھے ہیں۔

تسلیم و بندگی کی روح اس بات کی مقتضی ہے کہ انسان خدا اور اس کے احکام کے مقابل سراپا تسلیم ہو اور قول و فعل میں شریعت اور دینی اقدار و تعلیمات کا پابند ہو۔ اس روح کا پایا جانا اس وجہ سے لازم ہے کہ ممکن ہے دین و شریعت کے بہت سے احکام انسان کی نفسانی خواہشات کے موافق نہ ہوں او رانسان رغبت اور چاہت کے ساتھ نہ ان کو قبول کرے اور نہ ان پر عمل کرے۔

لوگ ایسے موقع پر ہمیشہ دو راہے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ناگزیر انھیں ایک راستہ انتخاب کرنا پڑتا ہے، یا خدا اور شریعت کی خواہش کو منتخب کریں اور خواہش نفس کی مخالفت کریں، یا اپنے نفس کی خواہش کو خدا کی خواہش اور دینی اقدار پر مقدم کریں۔ ایسے افراد کم نہیں ہیں کہ اس عظیم امتحان میں جن کے اوپر نفسانی خواہشات غالب آجاتی ہیں اور جو شیطان کے وسوسہ اور بہکاوے سے نفسانی خواہشات و میلانات کو خدا اور دینی تعلیمات پر مقدم کرتے ہیں۔

انہیں کے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہیں کہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں ہم اپنے کو دینی اعتقادات و تعلیمات کا پابند نہیں رکھتے، البتہ ہم دینی تعلیمات کی تحریف اور مخالفت کے درپے بھی نہیں ہیں۔

۱۷۱

دین کے ساتھ اس طرح کا سلوک اگر چہ معصیت ہے لیکن اس کو ''دین میں فتنہ'' نہیں سمجھا جاتا اور ایسا جذبہ فتنہ کی جڑ نہیں ہے، اس لئے کہ کوئی شخص اس صورت میں فریب کاری کے ذریعہ گمراہی کی طرف کھینچ کر نہیں لایا گیا ہے۔

خدا اور احکام الٰہی کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کا فقدان اس وقت ''دین میں فتنہ'' کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے جبکہ اس روح سے عاری افراد جھوٹی توجیہیں کر کے دین کی تفسیر اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کرنے لگیں۔

ایسے افراد خصوصاً اگر اجتماعی حیثیت کے اعتبار سے ایسے مرتبہ پر ہوں کہ ایک گروہ ممکن ہے ان کی باتیں سنتا ہو تو دوسروں سے زیادہ شیطان ایسے لوگوں کی طمع کرتا ہے، اس لئے کہ یہ اشخاص ایسی خواہشات رکھتے ہیں کہ ایک طرف دین و شریعت نے انسان کو ان سے منع کیا ہے اور دوسری طرف ان امور کو چھوڑ نا اور ان کو نظر انداز کرنا ان افراد کے لئے روح بندگی کمزور ہونے کے سبب بہت سخت ہے، اور دوسری طرف یہ افراد ایسی قوتوں کے مالک ہیں جن سے استفادہ کر کے حق کو خود ان پر مشتبہ کیا جاسکتا ہے۔ شیطان اس سنہری موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرتا ہے اور ایسے افراد کے دل و جان میں گھس کر ان کو فتنہ اور گمراہی کی سمت موڑ کر ان کی تشویق و ترغیب کرتا ہے۔

شیطان اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان افراد کی نفسانی خواہشات کو ان کی نگاہوں کے سامنے مجسم کر کے پیش کرتا ہے اور ان سے استفادہ کے شوق کی آگ کو ان کے دل میں بھڑکا دیتا ہے۔ دوسری طرف ا ن کے دل میں ایسے وسوسے ڈالتا ہے کہ جو کچھ علمائے دین نے دینی فرائض و تعلیمات کے عنوان سے بیان کیا ہے، کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ وہی ہے جسے خدا اور دین نے ہم سے چاہا ہے؟

۱۷۲

ایسے افراد جب دیکھتے ہیں کہ قرآن، علوم اہلبیت اور علماء دین کے بیانات کے ہوتے ہوئے وہ اپنی نفسانی خواہشات تک نہیں پہنچ سکتے تو ایک نیا راستہ نکالتے ہیں تاکہ اپنی خواہشات کو بھی پورا کرلیں اور ظاہری طور پر دائرۂ اسلام سے خارج بھی نہ ہوں نیز دینی معاشرہ کی اجتماعی حیثیتوں اور خصوصیتوں کے بھی حامل رہیں۔ اس بنا پر جو چیز اندر سے ان کو انحراف و گمراہی کی طرف کھینچ لاتی ہے وہ تسلیم و بندگی کا جذبہ نہ رکھنا اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا ہے۔

امیر المومنین حضرت علی ـ اس سوال کے جواب میں کہ کون سا عامل اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ افراد اسلامی معاشرہ میں ''دین میں فتنہ'' برپا کرتے ہیں، ارشاد فرماتے ہیں کہ ان تمام فتنوں کی جڑ جو کہ دین میں واقع ہوتے ہیں نفسانی خواہشات ہیں کہ مذکورہ اشخاص ان سے صرف نظر نہیں کرسکتے اور ان کو حاصل کرنے کے لئے دینی احکام و تعلیمات کے مقابل نیا راستہ ایجاد کر کے فتنہ پھیلاتے ہیں۔

لیکن جو نیا راستہ وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے پیدا کرتے ہیں وہ کیا ہے؟

حضرت علی ـ فرماتے ہیں کہ: ''وہ لوگ نئے نئے احکام اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق گڑھ کر ایجاد کرلیتے ہیں اور ان کی نسبت اسلام کی طرف دیتے ہیں اور خود ساختہ اور بے بنیاد تفسیروں او رتوجیہوں کے ذریعہ حقائق دین کی تحریف کرتے ہیں اور قرآن و آیات الٰہی کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں۔ نتیجہ میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو دین اور قرآن کریم کی حقیقت کے موافق نہیں ہے اور لوگوں کو قرآن اور دینی تعلیمات کے خلاف دوسری سمت موڑ دیتے ہیں۔

۱۷۳

البتہ واضح ہے کہ یہ افراد اس طرح عمل کرتے ہیں کہ لوگ ان کے شیطانی مقاصد سے باخبر نہ ہوں، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس صورت میں لوگ ان کی پیروی نہ کریں گے۔

اسی بنا پر حضرت علی ـ ان تمام فتنوں اور دین میں ایجاد کی جانے والی بدعتوں کی جڑ، تسلیم و بندگی کا فقدان اور خواہش نفس کو قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے خواص کو ہوا و ہوس کی پیروی سے منع کرتے ہیں نیز اس بات سے باخبر کرتے ہیں کہ کہیں آیۂ(أَرَأَیتَ مَنِ اتَّخَذَ الٰهَهُ هَوٰاهُ) 1 (کیا تم نے اس کو دیکھا ہے جس نے اپنا خدا اپنی خواہش کو بنالیا ہے؟) کا مصداق نہ ٹھہر جائیں۔

البتہ جو لوگ شیطان کا سب سے بڑا آلۂ کار بن کر آج دینی معارف میں تحریف کا کام انجام دے رہے ہیں وہ شاید ابتدا میں ایسا ارادہ نہ رکھتے ہوں۔

کتنے ہی افراد ایسے تھے جو کہ ابتدا میں سچے مسلمانوں کا جزء اور قرآن و معارف دین کے سچے مبلغ شمار کئے جاتے تھے، لیکن بیچ راستے میں سمت کو بدل کر مخالفین اسلام کے گروہ سے مل گئے اور خدا کی ولایت سے خارج ہو کر شیطان کی ولایت و سرپرستی کو قبول کرلیا۔

(1) سورۂ فرقان، آیت 43 ۔

۱۷۴

اسی طرح ایسے انسان بھی بہت زیادہ ہیں جو کہ برسوں ضلالت و گمراہی میں رہنے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے بعد توبہ کر کے دامن اسلام میں واپس آگئے اور باقی عمر اپنے مکروہ و ناپسند ماضی کی تلافی میں صرف کردی۔

بہرحال پوری زندگی میں انسانوں کے افکار و نظریات کی یہ تبدیلی ایک ایسا امر ہے جو انسانوں کی زندگی میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے، لیکن جس بات کی طرف توجہ دینا ضرور ی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی نظر میں کوئی بھی گناہ، دین میں فتنہ سے بڑا اور اس سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ لوگ حق کو پہچاننے اور دین کے احکام و معارف سے آشنا ہونے کے بعد بھی یہ کوشش کریں کہ لوگوں کو ان کی آشنائی اوران پر عمل کرنے سے روکیں۔

بہر صورت ہم جس بات کی طرف آخر میں تمام لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں اور خداوندمتعال سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی توفیق عطا فرمائے، وہ امیر المومنین حضرت علی ـ کا یہ گرانقدر ارشاد ہے:

''حَاسِبُوُا أَنْفُسَکُم قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا'' 1 تم لوگ خود اپنے عقائد، افکار اور اعمال کا محاسبہ کرو اور اپنا فیصلہ ضمیر و وجدان سے کرو اور قبل اس کے کہ خدا سے توبہ و انابت کا وقت ہاتھ سے نکل جائے، قرآن اور دین حق کے سائے میں واپس آجاؤ، اور خود کو شیطان اورنفس امارہ کے جال سے چھڑا لو، اور سخت انجام اور بری عاقبت سے ڈرو۔

(1) بحار الانوار، ج 8، ص 145 ۔

۱۷۵

ہم اپنے اس بیان کا خاتمہ قرآن کریم کی اس تنبیہ پر کر رہے ہیں:

''ثُمَّ کَانَ عَاقِبَةَ الَّذِینَ أسَائُ وا السُّوأیٰ أَن کَذَّبُوا بِاٰیَاتِ اللّٰهِ وَ کَانُوا بِهَا یَستَهزِئُ ونَ'' 1

اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ہوا کہ انھوںنے خدا کی نشانیوں کو جھٹلا دیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے۔

ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو راہ حق کی ہدایت کرے۔

والسلام علی من اتبع الهدیٰ

(1) سورۂ روم، آیت 10 ۔

۱۷۶

فہرست

حرف اول 2

مقدمہ 5

پہلی فصل 8

دینی معاشرہ میںقرآن کا مرتبہ 8

انسان کے اختیار میں صرف قرآن آسمانی کتاب ہے 8

قرآن کا بولنا 10

پیغمبر اور قرآن کی توضیح و تفسیر 13

دو نکتوں کی یاد دہانی 16

زندگی میں قرآن کا اثر 17

قرآن، کلی طور پر راہنمائی کرتا ہے 19

قرآن کی کلی راہنمائی کا ایک نمونہ 21

اسلامی حکومت کی تشکیل میں عطائے الٰہی کی جھلک 23

اجتماعی مشکلات کا حل قرآن کی پیروی میں ہے 24

قرآن کی ہدایات کے مطابق اجتماعی امور کا نظم و نسق 27

اجتماعی زندگی میںمقصد کا اثر 28

بے نیازی، قرآن کی پیروی میں 34

قرآن سب سے بڑی بیماری کی دوا 36

بعض بلاؤں کی حکمت 41

قرآن کریم کی ظاہری اور حقیقی تعظیم 48

قرآن، حقیقی نور 51

۱۷۷

قرآنی چراغ اور آئینے 55

قیامت کے دن پیروان قرآن کی کامیابی 59

تنبیہ و آگاہی 62

قرآن کی تاثیر اور کامیابی کا راز 64

حضرت ابراہیم ، قرآن کریم میں تسلیم و بندگی کا نمونہ 67

دوسری فصل 72

قرآن کی تفہیم و تفسیر 72

اصلی مشکل 72

حضرت علی ـ کی وصیت قرآن کے متعلق 76

تفسیر بالرائے 78

حضرت علی ـ کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرہیز کے سلسلہ میں 82

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے 84

دینی پلورال ازم1 یا مختلف قرائتوں کے قالب میں دین کا انکار 88

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت 95

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے 97

تفسیر قرآن یعنی تفصیل احکام، نبی ا ور ائمۂ معصومین سے مخصوص ہے 101

علوم اہلبیت کا سمجھنا قرآن سمجھنے کا مقدمہ 103

قرآن کی تفسیر قرآن سے 104

قرآن فہمی میں عقلائی اصول و قواعد کی رعایت 106

مفسرین کی فہم کا ان کی صلاحیتوں کے مطابق ہونا 107

کلامی قرائن پر توجہ کی ضرورت 108

۱۷۸

قرآن کریم اور کلامی محاسن 109

تیسری فصل 111

قرآن اور ثقافتی حملہ 111

حق و باطل کا تضایف1 111

دین کی حقیقت حاصل نہ ہونے کا شبہہ 117

تکرار وسوسہ شیطانوں کا اہم اسلحہ 121

متشابہات سے استناد، قرآن کے مقابلہ میںایک دوسری سازش 122

قرآن میں متشابہات کی حکمت 124

حق و باطل کو مخلوط کرنا، گمراہوں کا دوسرا اسلحہ 131

مختلف قرائتیں، قرآن سے مقابلہ کا ایک حربہ 133

دینی ثقافت کے مخالفین کا مقصد قرآن کی روشنی میں 135

''دین میں فتنہ'' کے مقابلہ میں قرآن کا موقف 140

1۔ فوجی فتنہ 141

2۔ ثقافتی فتنہ 142

ثقافتی حملہ کے متعلق قرآن کی تنبیہ 143

شرک نئے بھیس میں 145

''دین میں فتنہ'' واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی 147

پیغمبر کے بعد فتنوں کی پیشین گوئی 149

1۔ مالی فتنہ 150

2۔ اعتقادی فتنہ 151

3۔ جھوٹی توجیہیں خطرناک ترین فتنہ 154

۱۷۹

عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ماحول کو تاریک کرنا 156

دینی معارف میں تحریف کرنے والے حضرت علی ـ کی نظر میں 158

قرآن کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کا برتاؤ 163

لوگوں کو حضرت علی ـ کی تنبیہ 167

معارف دین کی تحریف کرنے میں عالم نما جاہلوں کا سبب، حضرت علی کی نظر میں 170

۱۸۰