احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)0%

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مؤلف: عالم اہل سنت ،علامہ جلال الدین سیوطی
زمرہ جات:

مشاہدے: 9087
ڈاؤنلوڈ: 3494

تبصرے:

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 59 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9087 / ڈاؤنلوڈ: 3494
سائز سائز سائز
احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مؤلف:
اردو

اکیسویں حدیث:

اہل بیت امت مسلمہ کے لئے امان ہیں

اخرج ابن ابی شیبة ،و مُسدَّد فی مسندیهما ،والحکیم الترمذی ،فی نوادر الاصول ،و ابو یعلی و الطبرانی ،عن سلمة بن اکوع ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((النجوم امان لاهل السماء و اهل بیتی امان لامتی ))

ترجمہ:۔ابن ابی شیبہ(١) اور مسدد (٢)نے اپنی اپنی '' مسندوں'' میں اور حکیم ترمذی (٣)نے اپنی کتاب'' نوادر الاصول ''میں نیز ابو یعلی و طبرانی نے سلمہ بن اکوع (٤)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : جیسے اہل آسمان کیلئے ستارے باعث امان ہیں اسی طرح میری امت کیلئے میرے اہل بیت امن و نجات کے مرکز ہیں ۔ (٥)

بائیسویں حدیث :

دو چیزوں سے تمسک رکھنے والا کبھی گمراہ نہ ہوگا

اخرج البزار ، عن ابی هریرة ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((انی خلفت فیکم اثنین لن تضلوا بعد هما کتاب اﷲ و نسبتی و لن یفترقا حتی یردا علیَّ الحوض))

بزار (٦)نے ابو ہریرہ (٧)سے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان کے ہو تے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ،اور وہ کتاب خدا اور میرا نسب ہے(یعنی میری نسل اور عترت) جو کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے ،یہاں تک کہ وہ باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوںگے ۔(٨)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)ابو بکر عبد ﷲبن محمد بن ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان کوفی ؛ موصوف ١٥٩ ھ میں پیدا ہوئے، اور ٢٥٣ ھ میں وفات پائی ، آپ مقام رصافہ میں استاذ تھے ، اور آپ کااپنے زمانہ کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ، آپ کے حالات زندگی درج ذیل کتابوں میںملاحظہ کریں :

طبقات ابن سعد ج ٦،ص ٢٧٧ ۔ فہرست ندیم ص٢٢٩۔ تاریخ بغداد ج ١٠ ص ١٧ ، ٦٦۔ تذکرة الحفاظ ج ٢،ص ٤٣٣، ٤٣٢۔ شذارات الذہب ج٢،ص ٨٥۔

(٢) ابو الحسن مسدد بن مُسَرْ ہد اسدی بصری ؛ یہ وہ فرد ہیں جن سے ابوذرعہ ، بخاری ، ابودائود ، قاضی اسمعیل ، اور ابو حنیفہ وغیرہ نے حدیثیں نقل کی ہیں ، آپ پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے بصرہ میں مسند کی تالیف پر کام شروع کیا ، چنانچہ آپ کو اپنے زمانہ کا امام المصنفین اور حجت کہا جاتا ہے ، آپ کی امام احمد بن حنبل سے خط و کتابت جاری رہتی تھی ، آپ کی موت ٢٢٨ ھ میں واقع ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

طبقات حنابلہ ج١، ص ٤٥٣ ، ٣٤١ ۔ الاعلام ج ٨، ص ١٠٨۔ ابن سعد ج ٦،ص ٢٧٧ ۔

(٣) ابو عبد اﷲ محمد بن علی بن حسن بن شیر ملقب بہ حکیم ترمذی ؛ آپ کا خراسان کے بزرگ اساتذہ میں شمار ہوتا تھا ، آپ اپنے باپ اور قتیبہ بن سعید و دیگر لوگوںسے حدیث نقل کرتے تھے، آپ کی اہم ترین تالیف نوادر الاصول فی معرفةاخبار الرسول ، ختم الولایہ ، علل الشریعہ والفروق ہیں ،آپ کی موت ٢٨٥ ھ میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابو میںملاحظہ کریں:

طبقات الشا فعیہ حنابلہ ج٢، ص٢٠۔ الاعلام ج ٧، ص١٥٦۔ معجم المؤلفین ج١٠، ص ٣١٥۔

(٤)سلمہ بن عمرو بن اکوع ؛ آپ عرب کے مشہور شجاع لوگوں میں سے تھے ، آپ کی پیدائش ہجرت کے چھ سال قبل ہوئی ، اور بیعت الشجرہ میں رسول کے ہاتھوں پر جان نثاری کی غرض سے بیعت کی ، اور رسول کے ساتھ سات جنگوں میں شریک ہوئے ، اور ٧٤ ہجری میں وفات پائی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

الاصابة ج ٣، ص ١١٨۔ طبقات ابن سعد ج ٤،ص ٣٨ ۔

(٥)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

مستدرک الصحیحین ج ٣، ص ٤٥٧۔

جو حدیث اس کتاب میں نقل ہوئی ہے اس کے الفاظ میں تھوڑا سا فرق پایا جاتا ہے

کنزالعمال ج ٦، ص٦١٢۔ ج٧، ص ٢١٧۔ مجمع الزوائد ج ٩،ص ١٧٤۔ ( نقل از طبرانی )

محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٧۔

محب الدین طبری نے اس حدیث کوحضرت علی ـ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''النجوم امان لاهل السماء فاذا ذهبت النجوم ذهب اهل السماء و اهل بیتی امان لاهل الارض فاذا ذهب اهل بیتی ذهب اهل الارض'' ۔

ستارے آسمان والوں کیلئے امان ہوتے ہیں لہٰذا جب بھی ستارے آ سمان سے ختم ہوجائیںتو آسمان والے بھی ختم اور نابود ہوجائینگے، اسی طرح میرے اہل بیت اہل زمین کیلئے امان ہیں لہٰذا اگر اہل بیت روئے زمین سے چلے جائیں تو اہل زمین کا بھی خاتمہ ہوجائیگا

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد طبری کہتے ہیں: یہ حدیث میں نے احمد بن حنبل کی کتاب المناقب سے نقل کی ہے

(٦) ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بزار بصری مؤلف ِ'' المسند'' ؛ آپ نے بصرہ سے بغداد کی طرف ہجرت کی ، اور وہاں پر محدث جیسے عہدے پر فائز ہوگئے ، دوبار اصفہان سفر کیا ، اور سہلہ میں ٢٩١ ھ میں وفات پائی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

تذکرة الحفاظ ج٢ ، ص ٦٥٤، ٦٥٣۔ ذکر اخبار اصفہان ج ١، ص ١٠٤ ۔ لسان المیزان ج١، ص ٢٣٧۔ تاریخ بغداد ج٤، ص ٣٣٤۔

(٧)ابو ہریرہ عبد الرحمن بن صخر ( یا عمیر بن عامر ) دوسی ؛ دور جاہلیت میںموصوف کا نا م عبد الشمس تھا ، اور آپ فتح خیبر کے موقع پر مدینہ آئے، اور ٧ ھ میں اسلام قبول کیا ، انھوں نے اگر چہ رسول کی ساتھ بہت کم زما نہ گزارا ہے مگر آپ نے دیگر تمام صحابہ سے زیادہ حدیثیں نقل کی ہیں !ابن حجر کہتے ہیں: اہل حدیث کے عقیدہ کے لحاظ سے ابوہریرہ سب سے زیادہ حدیث نقل کرنے والے فرد ہیں ، بہر حال آپ کی وفات ٥٨ ھ میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

الاصابة ج ٢، ص ٢٠٧ ، ١٩٩۔ تذکرة الحفاظ ج١، ص ٣٧، ٣٢ ۔

حضرت ابو ہریرہ کے مزید حالات معلوم کرنے کیلئے کتاب ابو ہریرہ مؤلفہ عبد الحسین شرف الدین دیکھئے .مترجم

(٨) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٣۔

تیئیسویں حدیث:

اہل بیت اور کتاب خدا سے تمسک رکھنے والا گمراہ نہ ہوگا

اخرج البزار ، عن علی رضی اﷲ عنه ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((انی مقبوض، وانی قد ترکت فیکم الثقلین ،کتاب اﷲ و اهل بیتی ، وانکم لن تضلوا بعدهما))

بزار نے علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! اس حال میں کہ میری عنقریب روح قبض ہونے والی ہے تمھارے درمیان دو گرانقدر(١) چیزیں چھوڑ رہا ہوں : کتاب خدا اور میرے اہل بیت ، ان کے ہوتے ہو ئے تم ہرگز ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔(٢)

چوبیسویں حدیث:

اہل بیت کی مثال سفینۂ نوح جیسی ہے

اخرج البزار ، عن عبد اﷲ بن الزبیر ؛ان النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال :((مثل اهل بیتی مثل سفینة نوح من رکب فیها نجا ، ومن تخلف عنها غرق ))

بزارعبد اﷲ بن زبیر(٣) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے، جو ا س پر سوار ہوا تھا اس نے نجات حاصل کی اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا تھا ۔(اسی طرح جو اہل بیت (ع) کا دامن تھامے گا وہ نجات حاصل کرے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا ) (٤)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)عربی زبان کے مشہور لغوی جناب ابن منظور لفظ '' ثقل '' کے ذیل میں کہتے ہیں: عرب لوگ ہر اس چیز کونفیس کہتے ہیں جو ان کے نزدیک نفیس ، ارزشمند اور گران قیمت ہو کہ جس کی حفاظت میں نگہبانی کی ضرورت پڑے ، چنانچہ اس بات کی وجہ تسمیہ کہ رسول اسلام نے قرآن اور اہل بیت کو کیوں اس لفظ ( ثقلین)سے تعبیر کیا ؟ اس میں کیا وجہ تھی ؟تو کہتے ہیں چونکہ اہل بیت اور قرآن عظمت و فضیلت کے اعتبارسے بلند شان رکھتے تھے لہٰذا رسول نے ان دونوں چیزوں کو اس لفظ سے تعبیر کیا ،اور انھیں لفظ ثقل سے تشبیہ دی ،لیکن ثعلب لغوی کہتے ہیں: اہل بیت اور قرآن کی تشبیہ رسول نے اس لئے دی ہے کہ ان دو چیزوں کی پیروی بہت گران ، اور دشوار ہے ، (اور ثقل کے لغوی معنی بھی گران اور وزنی کے ہیں)

دیکھئے : لسان المیزان ج١١، ص ٨٨۔

(٢)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٣۔

(٣)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٨۔ المعجم الکبیر ج١،ص ١٢٥۔ ذخائر العقبی ص ٢٠۔ منتخب کنزالعمال ج٥، ص ٩٢۔

(٤) ابو بکر عبد اﷲ بن زبیر بن عوام بن خویلد قرشی اسدی ؛ واحدی کے قول کے مطابق موصوف ٢ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٧٣ ھ میں وفات پائے ، موصوف فتح افریقہ میں عثمان کی جانب سے لشکر میں شریک تھے ، دوسری جانب حضرت علی ـ کے دور خلافت کے ابتداء میں حضرت علی ـ کے خلاف جنگ جمل بھڑکانے والوں میں سے تھے ، اور حضرت کی شہادت کے بعد انھوں نے معاویہ کی بیعت کرلی ، لیکن معاویہ اور یزید کے انتقال کے بعد انھوں نے چاہا اپنے لئے لوگوں سے بیعت اخذ کریں لیکن عبد الملک بن مروان نے حجاج بن ثقفی کی سپہ سالاری میں ایک لشکر ان کی سرکوبی کیلئے بھیجا، چنانچہ ان کے درمیان جنگ ہوئی اور عبد اﷲ بن زبیر ٧٣ ھ میں مارے گئے ، آپ کے حالا ت زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

الاصابة ج ٤،ص ٧١ ، ٦٧۔ الاعلام ج ٤،ص ٢١٨۔

پچیسویں حدیث :

حدیث سفینہ

اخرج البزار ، عن بن عباس؛قال:قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((مثل اهل بیتی مثل سفینة نوح ،من رکب فیها نجا ، ومن تخلف عنها غرق))

بزار ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میرے اہل بیت کے مثال سفینۂ نوح جیسی ہے، ا س پرجو سوار ہوا تھااس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا تھا۔(اسی طرح جو اہل بیت (ع) کا دامن تھامے گا وہ نجات حاصل کرے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا ) (١)

چھبیسویں حدیث:

حدیث سفینہ اور حدیث باب حطہ

اخرج الطبرانی ، عن ابی ذر ؛ سمعت رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((مثل اهل بیتی فیکم مثل سفینة نوح فی قوم نوح ،من رکبها نجا ، ومن تخلف عنها هلک ، ومثل باب حطة فی بنی اسرائیل ))

طبرانی نے ابوذر (٢)سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تمھارے درمیان میرے اہل بیت کے مثال بالکل ویسی ہے جیسی قوم نوح میں کشتی نوح کی تھی، جو ا س پر سوار ہوا اس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ،اور میرے اہل بیت کی مثال تم میں باب حطہ (٣) جیسی ہے بنی اسرائیل میں ۔(٤)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ٨٦٨۔ حلیة الاولیاء ج٤، ص ٣٠٦۔ کنزالعمال ج٦، ص١٦ ٢۔

(٢) ابوذر جندب بن جنادہ غفاری ؛ آ پ کا شمار سابق اسلام لانے میں ہوتا ہے ،اور آپ ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ، آپ نے بیعت کرنے کے فوراًبعد مسلمان ہونے کا اظہار کردیا تھا ، اور پھر اپنے قبیلہ کی طرف تبلیغ کرنے آئے، اور کچھ مدت کے بعد مدینہ چلے آئے ، آپ علم ، تقوی ، زہد ، جہاد ، اور صدق و اخلاص میں بے مثال تھے ، چنانچہ علامہ ذہبی کہتے ہیں: آپ کیلئے بہت فضائل اور مناقب ہیں منجملہ ان کے رسول کا یہ قول مشہور ہے :

''ما اظلت الخضراء ولا اقلت الغبراء اصدق لهجة من ابی ذر''

اس نیلے آسمان نے سایہ نہیں کیا، اور اس زمین نے کسی کو اپنی پشت پر نہیں اٹھایا کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو

آپ رسول کی وفات کی بعد شام چلے گئے ، اور حضرت عمر کی وفات تک یہیں رہے ، اور حضرت عثمان کے زمانے میں دمشق میں سکونت اختیار کی، آپ فقیروں کی طرفداری میں بولتے اور ان کی حق تلفی کے بارے میںان کی مدد کرنے پر لوگوں کوابھارتے اور اکسایا کرتے تھے ، اسی وجہ سے معاویہ نے ان کی عثمان کے پاس شکایت کی ، جس کی بناپر آپ کو عمر کے آخری ایام میں دمشق سے جلا وطن کرکے ربذہ بھیج د یا گیا !! پھرآپ کی یہیں وفات ہوگئی،علامہ مدائنی کے قول کے مطابق ابن مسعود نے آپ پر نماز میت ادا کی

دیکھئے : الاعلام ج ٢،ص ١٣٦۔

(٣) حطہ کے لغوی معنی جھڑنے اور نیچے گرنے کے ہیں ، باب حطہ ایک دروازہ تھا جس کے لئے خداوند متعال نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ اس کے اندر سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا ہے تاکہ ان کے سارے گناہ ان سے جھڑ جائیں اور وہ بخش دئے جائیں ، اس سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٥٨ اور سورہ اعراف کی آیت نمبر ١٦١ دیکھئے

علامہ سید شرف الدین باب حطہ سے اہل بیت کی وجہ تسمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

خدا وند متعال نے اپنے حکم کے سامنے اس دروازے کو تواضع اور انکساری کا ایک مظہر قرار دیا تھا ، یعنی اس دروازے کو خدا نے تواضع اور انکساری کا مظہر قرار دیا تھا ،اور خدا کا یہی امر سبب قرار پایا کہ بنی اسرائیل کے گناہوں کی مغفرت کا موجب ہوا ، اسی طرح اہل بیت کے سامنے اسلامی امت کا سر تسلیم جھکانا، اور انکی صدق دل سے اطاعت کرنا : گویا اہل بیت کے سامنے اس فعل کا انجام دینا خدا کی تواضع و انکساری کا ایک مظہر ہے، اور ان کے سامنے سر جھکاناگویا حکم خدا کے سامنے سر جھکانا ہے،اور خدا کی نظروں میں یہی چیز تمام مسلمین کیلئے مغفرت کاسبب ہے مزید اطلاع کیلئے کتاب '' المراجعات'' دیکھئے .مترجم

(٤)اس حدیث کو طبرانی نے دو طرح نقل کیا ہے اگرچہ یہ دونوں حدیثیں ایک ہی جیسی ہیں لیکن ایک میں کچھ لفظ زیادہ آئے ہیں جو اس طرح ہے :

((مثل اهل بیتی مثل سفینة نوح من رکبها نجا ، ومن تخلف عنها غرق ومن قاتلنا فی آخر الزمان فکانما قاتل مع الدجال ))

میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے ، جو ا س پر سوار ہوا تھا اس نے نجات حاصل کی تھی، اور جس نے روگردانی کی تھی وہ غرق ہوگیا تھا ،(اسی طرح ہم سے جو متمسک رہے گا وہ نجات پائے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا) اورجس نے بھی ہم سے آخری زمانے میں جنگ کی گویا اس نے دجال کی طرف سے جنگ کی.

المعجم الکبیر ج ١، ص ١٢٥۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ٢٦ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔

حلیة الاولیاء ج٤، ص ٣٠٦۔ مرقاة المصابیح ج ٥،ص ٦١٠۔ تاریخ بغداد ج ١٢،ص ١٩۔ کنوزالحقائق ص١٣٢۔ ذخائر العقبی ص ٢٠۔ الصواعق المحرقة ص ٧٥۔ ینابیع المودة ص ٢٨۔ نزل الابرار ص ٣٣۔ میزان الاعتدال ج١،ص ٢٢٤۔ ا لخصائص الکبری ج ٢،ص ٢٦٦ ۔المعجم الصغیر ص٧٨ ۔ زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔

ستائیسویں حدیث :

حدیث سفینہ اور حدیث باب حطہ بنی اسرائیل میں

اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن ابی سعید الخدری ؛ قال: سمعت رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول : ((انما مثل اهل بیتی کمثل سفینة نوح من رکبها نجا ، ومن تخلف عنها غرق ، و انما مثل اهل بیتی فیکم مثل باب حطة فی بنی اسرائیل من دخله غُفِر له ))

طبرانی ،''المعجم الاوسط ''میںابی سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا کہ آ پ نے فرمایا: میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے ، جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا ،اور میرے اہل بیت کی مثال تم میں ویسی ہے جیسے باب حطہ ہے بنی اسرائیل میں جو اس میں داخل ہو گیا تھا وہ بخش دیا گیا تھا ۔ (١)( اسی طرح میرے اہل بیت کے قلعہ محبت میں داخل ہوگا وہ بخش دیا جائے گا)

اٹھائیسویں حدیث :

محمد و آل محمد کی محبت اسلام کی بنیاد ہے

اخرج البخاری فی تاریخه ، عن الحسن بن علی؛ قال: قال سول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((لکل شیء اساس و اساس الاسلام حب اصحاب رسول اﷲ وحب اهل بیته ))

ابن نجار(٢) اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام حسن مجتبی نے فرمایا : جس طرح ہر چیز کی ایک بنیاد اور اساس ہوتی ہے ،اسی طرح اسلام کی بنیاد رسول کے اصحاب کی دوستی اور آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کی محبت ہے۔ (٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:

مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٨ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔ المعجم الصغیر للطبرانی ص ١٧٠ ۔ المعجم الاوسط للطبرانی ۔ فیض القدیر ج٤، ص ٣٥٦۔ جواہر العقدین سمہودی ج٢، ص ٧٢۔(قلمی نسخہ ، ظاہریہ کتاب خانہ دمشق ).

(٢) ابو عبد اﷲ محمد بن محمود بن حسن بن ہبة اﷲ بن محاسن بغدادی ؛ آپ ٥٧٨ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٦٤٣ ھ میں وفات پائی

دیکھئے : تذکرة الحفاظ ج ٤ ،ص ١٤٢٨۔

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل میں کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

تفسیر در منثور ج ٦،ص ٧ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٨۔

انتیسویں حدیث:

رسول اسلام اولاد فاطمہ زہرا ء کے باپ اور عصبہ ہیں

اخرج الطبرانی ،عن عمر ؛ قال: قال سول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ((کل بنی انثی فان عصبتهم لابیهم ما خلا ولد فاطمة، فانی عصبتهم فاناابوهم))

طبرانی نے عمر ابن خطاب (١)سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : ہر عورت کے بچوں کی نسل ان کے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے ،لیکن فاطمہ کی اولاد میری طرف منسوب ہے،بیشک میں ان کا باپ ہوں ۔(٢)

تیسویں حدیث :

رسول خدا اولاد فاطمہ کے ولی اور عصبہ ہیں

اخرج الحاکم عن جابر ،عن فاطمة الزهرا(س)؛ قال: قال سول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( کل بنی ام ینتمون الی عصبة الاولد فاطمة فاناولیهم واناعصبتهم))

حاکم نے جابر سے ، انھوں نے حضرت فاطمہ زہرا سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : ہر ماں کی اولاد اپنے باب کے خاندان کی طرف منسوب ہوتی ہے ،لیکن فاطمہ کی اولاد میری طرف منسوب ہے، میں ان کا ولی اور منسوب الیہ ہوںہوں ۔(٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

١ الْعَصَبَة (بالتحریک) یہ عاصب کی جمع ہے جیسے طالب کی جمع طلبة، باپ کی جانب سے رشتہ داروں کو عصبہ کہا جاتاہے

(١) ابو حفص عمر بن الخطاب بن نفیل عدوی ؛ موصوف ہجرت کے چالیس سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے ، اور آپ نے ہجرت کے پانچویں سال اسلام قبول کیا ، ا و ر ١١ ہجری میں خلیفۂ اول کی حیثیت سے مسند نشین ہوئے ، اور تیرہ سال حکومت کی جس میں بہت سے ممالک پر فتحیابی حاصل کی ، اور ٢٣ ھ میں ابو لولو فیروز پارسی شخص کے ہاتھوں زخمی ہوئے ، اور تین دن کے بعد زخموں کی تاب نہ لاکر دنیا سے چل بسے

دیکھئے : صفوة ا لصفوة ج١، ص١٠١۔ تاریخ طبری ج٢،ص ١٨٧۔

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

المعجم الکبیر جلد ١ ،ص ١٢٤۔ کنز العمال جلد ٦،ص ٢٢٢٠۔ الصواعق المحرقة ص١٨٥۔ ذخائر العقبی ص ١٢١۔

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

المعجم الکبیر ج ١ ،ص ١٢٤۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢٢٢٠۔ تاریخ بغداد ج١٢١،ص ٢٨٥۔ مقتل الخوارزمی ج٢ ،ص٨٨۔ مجمع الزوائد ج٩،ص١٧٢۔

اکتیسویں حدیث:

حضرت فاطمہ زہرا ء کے دونو ں بیٹے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند ہیں

اخرج الحاکم ،عن جابر ؛ قال:قال سول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( کل بنی ام ینتمون الی عصبة ینتمون الیهم الاولدی فاطمة فاناولیهماوعصبتهما))

حاکم جابر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول نے فرمایا: ہر ماں کے بچے اپنے آبائی خاندان کی طرف منسوب ہوتے ہے ،لیکن میری بیٹی فاطمہ کے دو نوں بچے میری طرف منسوب ہیں، میں ان کا ولی اور رشتہ دار ہوں ۔(١)

بتیسویں حدیث:

رسول خدا کے سببی اور نسبی رشتے بروز قیامت منقطع نہ ہوں گے

اخرج الطبرانی فی الاوسط ، عن جابر ؛ انه سمع عمر بن الخطاب یقول الناس حین تزوج بنت علی :الا تهنئونی ، سمعت رسول اﷲ (ص) یقول :((ینقطع یوم القیامة کل سبب و نسب الا سببی و نسبی ))

طبرانی نے'' المعجم الاوسط ''میں جابر سے نقل کیا ہے کہ میں نے عمر کو لوگوں سے یہ کہتے ہوئے اس وقت سنا کہ جب ان کی بنت علی سے شادی برقرار ہوئی :تم مجھے مبارک باد کیوں نہیں پیش کرتے کیونکہ میں نے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: روز قیامت تمام سببی اور نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے سببی اور نسبی رشتوں کے ۔ (٢)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

مستدرک الصحیحین ج ٣،ص ١٦٤۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔ منتخب کنز العمال ج ٥،ص ٢١٦۔

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

المعجم الکبیر ج ١ ،ص ١٢٤۔ حلیة الاولیاء ج٧،ص ٣١٤۔

تینتیسویں حدیث :

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلسلۂ نسب و سبب کبھی نہ ٹوٹے گا

اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((کل سبب و نسب منقطع یوم القیامة الا سببی و نسبی ))

طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے رسول نے ارشاد فرمایا :

میرے سببی اور نسبی رشتوں کے علاوہ روز قیامت تمام سببی اور نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے۔(١)

چونتیسویں حدیث :

رسول خدا کا سببی اور دامادی رشتہ کبھی نہ ٹوٹے گا

اخرج ابن عساکر، فی تاریخه ، عن ابن عمر ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( کل نسب و صهر منقطع یوم القیامة الا نسبی وصهری))

ابن عساکر(٢)نے اپنی تاریخ میں ابن عمر (عبداﷲ)سے نقل کیا ہے رسول نے ارشاد فرمایا :

میرے نسبی اور دامادی رشتوں کے علاوہ روز قیامت تمام نسبی اور دامادی رشتے منقطع ہو جائیں گے۔ (٣)

پینتیوسویں حدیث:

اہل بیت سے مخالفت کرنے والے شیطانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں

اخرج الحاکم ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((النجوم امان لاهل الارض من الغرق ، و اهل بیتی امان لامتی من الاختلاف ، فاذا خالفها قبیلة اختلفوا فصاروا حزب ابلیس ))

حاکم ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے فرمایا :جس طرح ستارے اہل زمین کو (پانی میں)غرق ہو نے سے محفوظ رکھتے ہیں اسی طرح میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف و تفرقہ سے بچانے والے ہیں ، لہٰذا اگر کسی گروہ اور قبیلہ نے ان کی مخالفت کی تو وہ شیطانی گروہ میں شامل ہوجائے گا ۔ (٤)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

طبرانی؛ المعجم الکبیر ج١، ص ١٢٩۔ مناوی ؛ فیض القدیر ج٥،ص ٣٥،۔ تاریخ بغداد ج١،ص ٢٧١ ، رافعی؛ التدوین ج٢،ص ٩٨۔ ہیثمی؛ مجمع الزوائد ج٩ ،ص ١٧٣۔

ہیثمی کہتے ہیں : اس حدیث کے راوی موثق ہیں

محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٦۔

ہیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : جب بنت عبد المطلب جناب صفیہ کے بیٹے کا انتقال ہوا تو صفیہ اس پر رو رہی تھی ، اس وقت رسول نے صفیہ سے فرمایا :

''یا عمة ! من توفی له ولد فی الاسلام کان له بیت فی الجنة یسکنه''

اے پھو پھی جان! آ پ رورہی ہیں جبکہ جس شخص کا ایک مسلمان بیٹا فوت ہوجائے تو گویا اس نے جنت میں ایک گھر بنایا ، جس میں وہ سکونت اختیار کریگا ، جب صفیہ رسول کے پاس سے رخصت ہوکر چلنے لگیں تو ایک شخص نے صفیہ سے کہا : اے صفیہ! محمد کی رشتہ داری تجھے کچھ فائدہ نہیں دے گی ، صفیہ یہ سنکر دوبارہ بلند آواز سے رونے لگیں ، جس کو رسول نے بھی سنا ، رسول یہ سنکر غمگین ہوئے، کیونکہ آپ صفیہ کا بہت احترام کرتے تھے ، اس لئے آپ نے صفیہ سے کہا:

''یا عمة ! تبکین وقد قلت لک ما قلت ''

اے پھو پھی جان! آپ کو جو بات کہنی تھی وہ کہہ چکا ہوں، اس کے باوجود آپ رورہی ہیں ؟

صفیہ نے کہا: میں اپنے بیٹے پر نہیں رو رہی ہوں بلکہ میرا رونا اس لئے ہے ،پھرآپ نے وہ سب بتا دیا جو اس مرد نے کہا تھا ، اس وقت رسول بہت ناراض ہوئے ، اور بلال سے اس طرح فرمایا :'' یا بلال ھجر بالصلاة '' اے بلال نماز کا اعلان کردو ، چنانچہ بلال نے اعلان کیا ، جب لوگ جمع ہوئے تو آپ نے فرمایا :

''ما بال اقوام یزعمون ان قرابتی لا تنفع ، ان کل سبب و نسب ینقطع یوم القیامة الا نسبی وان رحمی موصولة فی الدنیا والآخرة ''

ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ گمان کرتے ہیں کہ میری رشتہ داری کوئی فائدہ نہیں دے گی ؟ یقیناً ہر رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائیگا سوائے میرے رشتہ کے ،چاہے وہ سببی ہو یا نسبی ، پس میرا رشتہ دنیا وآخرت دونوں جگہ باقی رہے گا

(٢)ابو القاسم علی بن حسن بن ہبة اﷲ بن عبد اﷲ بن حسین دمشقی محدث شام ؛

موصوف پایہ کے مؤرخ اور حافظ تھے ، آپ کی مشہور کتاب تاریخ مدینة دمشق ہے آپ ٤٩٩ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٥٧١ ھ میں وفات پائی

دیکھئے : الاعلام ج ٥،ص ٨٢۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

معجم کبیر ج ١،ص ١٢٤۔ کنز العمال ج ٦،ص١٠٢۔ فتح البیان ج٧،ص ٣٤۔ فیض القدیر ٥،ص ٣٥۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٥٨۔ الفصول المہمة ص ٢٨۔

(٤) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج ٦،ص٢١٧۔ منتخب کنز العمال ج٥،ص ٩٤۔ جمع الجوامع ج ١،ص ٤٥١۔ الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٤٩۔

چھتیسویں حدیث :

اولاد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عذاب میں مبتلا نہ ہوگی

اخرج الحاکم ،عن انس؛ قال:قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( وعدنی ربی فی اهل بیتی من اقر منهم بالتوحید ولی با لبلاغ انه لا یعذبهم))

حاکم نے انس (١)سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : میر ے رب نے میرے اہل بیت کے بارے میں مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جوبھی ان(میرے اہل بیت ) میں سے توحید کا اقرار اور میری رسالت کو تسلیم کرے گا اسے عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا ۔ (٢)

سینتیسویں حدیث :

اہل بیت رسول میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا

اخرج ابن جریر فی تفسیره ،عن ابن عباس؛فی قوله تعالی :( وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ) ، قال:(( من رضی محمد ان لا یدخل احد من اهل بیته النار)).

ابن جریر طبری(٣)نے اپنی تفسیر میں آیہ ٔ( وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ) اور تمھارا پرورد گار عنقریب اس قدر عطا کرے گا کہ تم خوش ہوجاؤ [(٤) کی تفسیر کے ذیل میں ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ہے : رسول اسلام کی رضایت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اہل بیت میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا ۔(٥)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)ابو حمزہ انس بن مالک بن نصر انصاری ؛ موصوف ہجرت کے دس سال قبل پیدا ہوئے ، او ر ٩٣ ھ میں وفات پائی ، ایک مدت تک رسول کے خادم رہے ، لیکن آنحضرت کی وفات کے بعد آپ دمشق پھر بصرہ چلے گئے ،بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :

اسد الغابة ج ١،ص ١٢٧۔ تذکرة الحفاظ ج ١،ص ٤٥، ٤٤۔

(٢)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج ٦،ص٢١٧۔ منتخب کنز العمال ج٩،ص٩٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص١٥٠۔

(٣)ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر طبری ؛ ٢١٤ ھ میں شہر آمل ایران میں پیدا ہوئے ، ٢٨ شوال شام کو ٣١٠ ھ میں وفات پائی ، آپ مسلمانوں کے بہت بڑے عالم دین اور گرانبہا کتابوں کے مؤلف جانے جاتے ہیں ، ان کی مشہور کتابیں یہ ہیں :

''جامع البیان فی تفسیر القرآن''۔'' تاریخ الامم والملوک ( تاریخ طبری ) ''.

بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :

الانساب ج ٩،ص ٤١۔ تذکرة الحفاظ ج٢،ص٧١٦، ٧١٠۔

(٤) سورة ضحی آیت نمبر پانچ (٥)

(٥) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

مناوی ؛ فیض القدیر ج٤،ص٧٧،۔تفسیر طبری ج ٣٠، ص ٢٣٢۔ فضائل الخمسة ج٢،ص ٦٥۔ محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص١٩۔ کنز العمال ج ٦،ص٢١٥۔ منتخب کنز العمال ج٩،ص٩٢۔ الصواعق المحرقة ص٩٥۔ الدر المنثور ج ٦،ص ٣٦١۔