فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341211
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341211 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لیکن خلافت، اہلسنت کے دانشمندوں کی نظر میں ایک عام اور مشہور منصب ہے اور اس مقام کا مقصد صرف ظاہری چیزوں اور مسلمانوں کی مادیات کی حفاظت کے علاوہ کچھ نہیں ہے. خلیفۂ وقت عمومی رائے مشوروں سے سیاسی اقتصادی اور قضائی امور کو چلانے کے لئے منتخب ہوتا ہے اور وہ شئون و احکامات جو پیغمبر کے زمانے میں بطور اجمال تشریع ہوئے ہیں اور پیغمبر کسی علت کی بنا پر اسے بیان نہ کرسکے ہوں، اس کے بیان کرنے کی ذمہ داری علماء اور اسلامی دانشمندوں پر ہے کہ اس طرح کی مشکلات کو اجتہاد کے ذریعے حل کریں۔

حقیقت خلافت کے بارے میں اس مختلف نظریہ کی وجہ سے دو مختلف گروہ مسلمانوں کے درمیان وجود میں آگئے او روہ بھی دو حصوں میں بٹ گئے اور آج تک یہ اختلاف باقی ہے۔

پہلے نظریہ کے مطابق امام، پیغمبر کے بعض امور میں شریک اور اس کے برابر ہے اور جو شرائط پیغمبر کے لئے لازم ہیں وہی شرائط امام کے لئے بھی ضروری ہیں. ان شرائط کو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں:

۱۔ پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم ہو یعنی اپنی پوری عمر میں گناہ کے قریب نہ جائے اوردین کے حقائق واحکام بیان کرنے، لوگوں کے اسلامی و مذہبی سوالوں کے جوابات دینے میں خطا کا مرتکب نہ ہو. امام کو بھی ایساہی ہونا چاہئے اوردونوں کے لئے ایک ہی دلیل ہے۔

۲۔ پیغمبر، شریعت کو سب سے زیادہ اور بہتر طور پر جانتا ہو اور مذہب کی کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ نہ ہو. اور امام بھی جو کہ شریعت کی ان چیزوں کو مکمل کرنے اور بیان کرنے والا ہے جو پیغمبر کے زمانے میں بیان نہیں ہوئی ہیں، ضروری ہے کہ دین کے احکام و مسائل کوسب سے زیادہ جانتاہو۔

۳۔ نبوت ایک انتصابی مقام ہے نہ انتخابی، اور پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ خدا اس کی معرفی کرے اور اسی کی طرف سے مقام نبوت پر منصوب ہو کیونکہ تنہا اسی کی ذات ہے جو معصوم کو غیر معصوم سے جدا کرتا ہے اور صرف خدا ان لوگوں کو پہچانتا ہے جو غیبی عنایتوں کی وجہ سے اس مقام پر پہونچے ہیں او ردین کی تمام جزئیات سے واقف و آگاہ ہیں۔

۱۲۱

یہ تینوں شرطیں جس طرح سے پیغمبر کے لئے معتبر ہیں اسی طرح امام اور اس کے جانشین کے لئے معتبر ہیں. لیکن دوسرے نظریہ کے مطابق، نبوت کی کوئی بھی شرط امامت کے لئے ضروری نہیں ہیں نہ معصوم ہونا ضروری ہے نہ عادل ہونا اورنہ ہی عالم ہونا ضروری ہے نہ شریعت پر مکمل دسترسی ضروری ہے نہ انتصاب ہونا، اورنہ عالم غیب سے رابطہ ہونا ضروری ہے بلکہ بس اتنا کافی ہے کہ اپنے ہوش و حواس اور تمام مسلمانوں کے مشورے سے اسلام کی شان و شوکت کی حفاظت کرے اور قانون کے نفاذ کے لئے امنیت کو جزا قرار دے، او رجہاد کے ذریعے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرے۔

ابھی ہم اس مسئلہ کو (کہ کیا مقام امامت ایک انتصابی مقام ہے یا ایک انتخابی مقام اور کیا پیغمبر کے لئے ضروری تھا کہ وہ خود کسی کو اپنا جانشین معین کریں یاامت کے حوالے کردیں) ایک اجتماعی طریقے سے حل کرتے ہیں. اور قارئین محترم کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اجتماعی اور فرہنگی حالات خصوصاً پیغمبر کے زمانے کے سیاسی حالات سبب بنے کہ خود پیغمبر اپنی زندگی میں جانشینی کی مشکلات کو حل کریں اور اس کے انتخاب کو امت کے حوالے نہ کریں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذہب اسلام، جہانی مذہب اور آخری دین ہے اور جب تک رسول خدا زندہ رہے امت کی رہبری کو اپنے ذمے لئے رہے اور آپ کی وفات( شہادت) کے بعد ضروری ہے کہ امت کی رہبری امت کے بہترین فرد کے ذمے ہو، ایسی صورت میں پیغمبر کے بعد رہبری ،کیا ایک مقام تنصیصی (نص یا قرآنی دلیل )ہے یا مقام انتخابی؟

یہاں پر دو نظریے ہیں:

شیعوں کا نظریہ ہے کہ مقام رہبری ، مقام تنصیصی(نص) ہے اور ضروری ہے کہ پیغمبر کا جانشین خدا کی طرف سے معین ہو. جب کہ اہلسنت کا نظریہ ہے کہ یہ مقام انتخابی ہے اورامت کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبر کے بعد ملک و امت کے نظام کو چلانے کے لئے کسی شخص کو منتخب کریں، اور ہر گروہ نے اپنے نظریوں پر دلیلیں پیش کی ہیں جو عقاید کی کتابوں میں ہیں یہاں پر جو چیز بیان کرنے کی ضرورت ہے وہ پیغمبر کے زمانے میں حاکم کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرناہے تاکہ دونوں نظریوں میں سے ایک نظریہ کو ثابت کرسکیں۔

۱۲۲

پیغمبر اسلام کے زمانے میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ پیغمبر کا جانشین خدا کے ذریعے خود پیغمبر کے ہاتھوں معین ہو. کیونکہ اسلامی معاشرہ کو ہمیشہ ایک خطرناک مثلث یعنی روم، ایران، اورمنافقین کی طرف سے جنگ،فساداوراختلاف کا خطرہ لاحق تھا،اسی طرح امت کے لئے مصلحت اسی میں تھی کہ پیغمبر سیاسی رہبر معین کر کے تمام امتیوں کو خارجی دشمن کے مقابلے میں ایک ہی صف میں لاکر کھڑا کردیں. اور دشمن کے نفوذ اور اس کے تسلط کو ( جس کی اختلاف باطنی بھی مدد کرتا) ختم کردیں اب ہم اس مطلب کی وضاحت کر رہے ہیں۔

اس خطرناک مثلث کا ایک حصہ بادشاہِ روم تھا. یہ ایک عظیم طاقت شبہ جزیرہ کے شمال میں واقع تھی جس کی طرف سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیشہ اور زندگی کے آخری لمحے تک فکر مند ہے.. سب سے پہلی لڑائی مسلمانوں کی روم کے عیسائی فوج کے ساتھ ۸ ھ میں فلسطین میں ہوئی. اس جنگ میں اسلام کے تین عظیم سپہ سالار یعنی جعفر طیار، زید بن حارثہ اورعبد اللہ بن رواحہ شہید ہوگئے اور اسلامی فوج کی بہت بڑی شکست ہوئی۔

کافروںکی فوج کے مقابلے سے اسلام کی فوج کے پیچھے ہٹنے سے قیصر کی فوج کے حوصلے بلند ہو گئے اور ہر لمحہ یہ خطرہ بنا رہاکہ کہیں نئی اسلامی حکومت کے مرکزپر حملہ نہ ہوجائے۔

اسی وجہ سے پیغمبر ۹ ھ میں بہت زیادہ فوج کے ساتھ شام کے اطراف کی طرف روانہ ہوئے تاکہ ہر طرح کی فوجی لڑائی میں خود رہبری کریں. اس سفر میں اسلامی فوج نے زحمت و رنج برداشت کر کے اپنی دیرینہ حیثیت کو پالیا اور اپنی سیاسی زندگی کو دوبارہ زندہ کیا. لیکن اس کھوئی ہوئی کامیابی پر پیغمبر مطمئن نہیں ہوئے اور اپنی بیماری سے چند دن پہلے فوج اسلام کو اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں دے کر حکم دیا کہ شام کے اطراف میں جائیں اور جنگ میں شرکت کریں۔

اس مثلث کادوسرا خطرناک حصہ ایران کا بادشاہ تھا.یہ سبھی جانتے ہیں کہ ایران کے خسرو نے شدید غصہ کے عالم میں پیغمبر کے خط کو پھاڑا تھا. اور پیغمبر کے سفیر کو ذلیل و خوار کر کے اپنے محل اور ملک سے نکالاتھا، صرف یہی نہیں بلکہ یمن کے گورنر کو نامہ لکھا تھا کہ پیغمبر کو گرفتار کرلے. اور اگر وہ گرفتاری نہ دیں توانھیں قتل کردے۔

۱۲۳

خسرو پرویز، اگر چہ پیغمبر کے زمانے میں ہی مرگیا تھا لیکن یمن کو آزاد کرنے کا مسئلہ (جو مدتوں تک ایران کے زیر نظر تھا) خسرو ایران کی نظروں سے پوشیدہ نہ تھا. اورغرور و تکبر نے ایران کے سیاست دانوں کواس بات کی اجازت نہ دی کہ اس طرح کی قدرت (پیغمبر اسلام )کو برداشت کرسکیں۔

اور اس مثلث کا تیسرا خطرہ گروہ منافقین کی طرف سے تھا جو ہمیشہ ستون پنجم (مدد و طاقت) کی طرح مسلمانوں کے خلاف سازش میں لگے تھے، یہاں تک کہ ان لوگوںنے کہ جنگ تبوک میں جاتے وقت راستے میں پیغمبر اسلام کو قتل کرنا چاہا منافقین کے بعض گروہ آپس میں یہ کہتے تھے کہ رسول خدا کی موت کے بعداسلامی تحریک ختم ہو جائے گی اور سب کے سب آسودہ ہو جائیں گے۔(۱)

پیغمبر کے انتقال کے بعد ابوسفیان نے بے ہودہ قسم کے مکر و حیلے اپنائے اورچاہا کہ حضرت علی کے ساتھ بیعت کر کے مسلمانوں کو دو حصوںمیں تقسم کر کے ایک دوسرے کو روبرو کردے اوراچھے لوگوں کو برائیوں کی طرف راغب کرے. لیکن حضرت علی اس کی سازش سے باخبر تھے ،چنانچہ اس کو ہوشیار کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! فتنہ و فساد برپا کرنے کے علاوہ تیرا کوئی اور مقصد نہیں ہے اور صرف آج ہی تونہیں چاہتا کہ فتنہ و فساد برپا کرے بلکہ تو چاہتا ہے کہ ہمیشہ فتنہ و فساد ہوتا رہے ،جا مجھے تیری ضرورت نہیں ہے۔(۲)

منافقوں کی تخریب کاری (فتنہ و فساد) اس حد تک پہونچ گئی تھی کہ قرآن مجید نے سورۂ آل عمران، نساء ، مائدہ، انفال، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح، مجادلہ، حدید، منافقون او رحشر میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

کیاایسے سخت دشمنوں کے بعد جو اسلام کے کمین میں بیٹھے تھے صحیح تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے بعد نو بنیاد اسلامی معاشرے کے لئے دینی و سیاسی رہبر وغیرہ کو معین نہ کرتے؟ اجتماعی محاسبہ کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر پر ضروری تھا کہ رہبر کا تعیین کریںاور تاکہ اپنے بعد ہونے والے تمام اختلاف کو روک دیںاور

______________________

(۱) سورۂ طور، آیت ۳۲۔ ۳۰

(۲) کامل ابن اثیر ج۲ ص ۲۲۰، العقد الفرید ج۲ ص ۲۴۹

۱۲۴

ایک محکم دفاعی طاقت کو وجود میں لا کر وحدت اسلامی کی بنیاد کو محفوظ کریں، اور ہر ناگوار حادثہ رونما ہونے سے پہلے اور یہ کہ رسول اسلام کے انتقال کے بعد ہر گروہ یہ کہے کہ رہبر ہم میں سے ہو یہ سوائے رہبر معین کئے ممکن نہ تھا۔

مذکورہ باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نظریہ باکل صحیح ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اپنے بعد ہونے والے رہبر کو خود معین کریں شایدیہی وجہیں تھیںکہ پیغمبر بعثت کی ابتداء سے آخر عمر تک مسئلہ جانشینی کو ہمیشہ بیان کرتے رہے اور اپنے جانشین کوآغاز رسالت میں بھی اور آخر زمانہ رسالت میںبھی معین کیا ،ان دونوں کی توضیح ملاحظہ کیجئے۔

دلیل عقلی، فلسفی اوراجتماعی حالات سے قطع نظر کہ یہ سب کی سب میرے نظریئے کی تائید کرتی ہیں ، وہ حدیثیںاو رورایتیں جو پیغمبر اسلام سے وارد ہوئی ہیں علمائے شیعہ کے نظریہ کی تصدیق کرتی ہیں.پیغمبر اکرم نے اپنی رسالت کے زمانے میں کئی دفعہ اپنے جانشین اوروصی کومعین کیا ہے اور امامت کے موضوع کو عمومی رائے اور انتخاب کے ذریعے ہونے والی بحث کو ختم کردیا ہے۔

پیغمبر نے نہ صرف اپنی آخری عمر میں اپنا جانشین معین کیا تھا، بلکہ آغاز رسالت میں کہ ابھی سو آدمیوں کے علاوہ کوئی ان پر ایمان نہ لایا تھا اپنے وصی و جانشین کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

جس دن خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اپنے رشتہ داروں کو خدا کے عذاب سے ڈرائیں اورعمومی دعوت سے پہلے انھیں مذہب توحیدقبول کرنے کے لئے بلائیں،تو اس مجمع میں جس میں بنی ہاشم کے ۴۵ سردار موجود تھے، آپ نے فرمایا:''تم میں سے سب سے پہلے جو میری مدد کرے گا وہی میرا بھائی ، وصی اور میرا جانشین ہوگا''

جس وقت حضرت علی ان کے درمیان سے اٹھے اور ان کی رسالت کی تصدیق کی. اسی وقت پیغمبر نے مجمع کی طرف رخ کر کے کہا: ''یہ جوان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہے''

مفسرین و محدثین کے درمیان یہ حدیث ''یوم الدار'' اور حدیث ''بدء الدعوة'' کے نام سے مشہور ہے۔

پیغمبر نے نہ صرف آغاز رسالت میں بلکہ مختلف مناسبتوں اور سفرو حضر میں حضرت علی کی ولایت و جانشینی کو صراحت سے بیان کیا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی ایک عظمت و صراحت کے اعتبار سے ''حدیث غدیر'' کے برابر نہیں ہے

اب ہم واقعہ غدیر کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں:

۱۲۵

واقعۂ ِ غدیر خم

پیغمبر اسلام ۱۰ ھ میں وظیفۂ حج اور مناسک حج کی تعلیم کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہوئے اور اس مرتبہ یہ حج پیغمبر اسلام کا آخری حج تھااسی وجہ سے اسے ''حجة الوداع'' کہتے ہیں. و ہ افراد جو پیغمبر کے ہمراہ حج کرنا چاہتے تھے یا حج کی تعلیمات سے روشناس ہونا چاہتے تھے پیغمبر کے ہمراہ روانہ ہوئے جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔

حج کے مراسم تمام ہوئے ،پیغمبر اسلام مدینے کے لئے روانہ ہوئے جب کہ بہت زیادہ لوگ آپ کی خدا حافظی کے لئے آئے سوائے ان لوگوں کے جو مکہ میں آپ کے ہمراہ ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ کے ہمراہ تھے وہ پہلے ہی روانہ ہوگئے. جب یہ قافلہ بے آب و گیاہ جنگل بنام ''غدیر خم'' پہونچا جو جحفہ(۱) سے تین میل کی دوری پر واقع ہے ،وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور پیغمبر کو ٹھہر نے کا حکم دیا پیغمبر نے بھی سب کو ٹھہر نے کا حکم دیدیا تاکہ جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی پہونچ جائیں۔

قافلے والے اس بے آب و گیاہ اور بے موقع ، دوپہر کے وقت ، تپتے ہوئے صحرا میں اور گرم و تپتی ہوئی زمین پر پیغمبر کے اچانک رک جانے سے متعجب تھے، لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے: لگتاہے خدا کی طرف سے کوئی اہم حکم آگیاہے اور حکم کی اتنی ہی اہمیت ہے کہ پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ اس سخت حالت میں آگے بڑھنے سے سب کو روک دیں اور خدا کے پیغام کو لوگوں تک پہونچائیں۔

رسول اسلام پر خد اکا یہ فرمان نازل ہوا:

( یَاَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا ُنزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس ) (۲)

______________________

(۱) جحفہ: رابغ سے چند میل دور مدینے کے راستے میں واقع ہے اور حاجیوں کی ایک میقات میں سے ہے۔

(۲) سورۂ مائدہ آیت ۶۷

۱۲۶

اے پیغمبر، جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے پہونچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو کہ) تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہونچایااور (تم ڈرو نہیں ) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اگر آیت کے مفہوم پر غور کیا جائے تو چند نکات سامنے میں آتے ہیں:

۱۔ وہ حکم جسے پہونچانے کے لئے پیغمبر کو حکم دیا گیا وہ اتنا عظیم اوراہم تھا کہ (بر فرض محال) اگر پیغمبر اس کے پہونچانے میں خوف کھاتے اور اسے نہیں پہونچاتے تو گویا آپ نے رسالت الہی کو انجام نہیں دیا بلکہ اس پیغام کے پہونچانے کی وجہ سے آپ کی رسالت مکمل ہوئی۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ''ما انزل الیک'' سے مراد ہرگز قرآن مجید کی تمام آیتیں اور اسلامی احکامات نہیں ہیں کیونکہ اگر پیغمبر ،خداوند عالم کے تمام احکامات کو نہ پہونچائیں تو اپنی رسالت کو انجام نہیں دیا ہے تو یہ ایک ایساواضح اور روشن امر آیت کے نزول کا محتاج نہیں ہے، بلکہ اس حکم سے مراد ایک خاص امر کا پہونچانا ہے تاکہ اس کے پہونچانے سے رسالت مکمل ہو جائے اوراگر یہ حکم نہ پہونچایا جائے تو رسالت عظیم اپنے کمال تک نہیں پہو نچ سکتی، اس بنا پر ضروری ہے کہ یہ حکم اسلامی اصول کا ایک اہم پیغام ہو تاکہ دوسرے اصول و فروع سے ارتباط رکھے ہواور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر کی رسالت کے بعد اہم ترین مسئلہ شمار ہو۔

۲۔معاشرے کو دیکھتے ہوئے پیغمبر اسلام کو یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے اس پیغام کو پہونچاتے وقت لوگوں کی طرف سے انھیں ضرر پہونچے لیکن خداوند عالم ان کے ارادے کوقوت و طاقت دینے کے لئے ارشاد فرماتا ہے:( وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس )

اب ہم ان احتمالات کا تجزیہ کریں گے جو ماموریت کے سلسلے میں مفسرین اسلامی نے بیان کئے ہیں کہ کون سا احتمال آیت کے مفہوم سے نزدیک ہے۔شیعہ محدثین اور اسی طرح اہلسنت کے ۳۰ بزرگ محدثین(۱) نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت غدیر خم

______________________

(۱) مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر، ج۱ ص ۱۹۶ تا ۲۰۹ تک ان تیس افراد کے نام و خصوصیات مکمل طریقے سے بیان کئے ہیں جن کے درمیان بہت سے نام مثلاً طبری ، ابونعیم اصفہانی، ابن عساکر، ابو اسحاق حموینی، جلال الدین سیوطی وغیرہ شامل ہیں اور پیغمبر کے صحابی میں ابن عباس ، ابو سعید خدری و براء ابن عازب وغیرہ کے نام پائے جاتے ہیں۔

۱۲۷

میں نازل ہوئی ہے جس میں خدا نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ حضرت علی کو ''مومنوں کا مولی'' بنائیں۔

پیغمبر کے بعد ولایت و جانشینی عظیم اوراہم موضوعات میں سے ہے اور اس کے پہونچانے سے رسالت کی تکمیل ہوئی ہے نہ یہ کہ امر رسالت میں نقص شمار کیا جائے۔

اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ پیغمبر اسلام اپنے اجتماعی اور سیاسی حالات کی رو سے اپنے اندر رعب و ڈر محسوس کرتے کیونکہ حضرت علی جیسے شخص کی وصایت اور جانشینی جن کی عمر ۳۳ سے زیادہ نہ تھی، کا اعلان ایسے گروہ کے سامنے جو عمر کے لحاظ سے ان سے بہت بڑے تھے ،بہت زیادہ دشوار تھا۔(۱)

اس کے علاوہ اس مجمع میں پیغمبر کے اردگرد بیٹھے لوگوں کے بہت سے رشتہ داروں کاخونمختلف جنگوں میں حضرت علی کے ہاتھوں بہا تھا اورایسے کینہ توز افراد پر ایسے شخص کی حکومت بہت دشوار مرحلہ تھا، اس کے علاوہ حضرت علی پیغمبر کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اورایسے شخص کو خلافت کے لئے معین کرنا کم ظرفوں کی نگاہ میں،رشتہ دار کو بڑھاواد ینا تھا۔

لیکن ان تمام سخت حالات کے باوجود خداوند عالم کا حکیمانہ ارادہ یہ تھا کہ اس تحریک کو دوام بخشنے کے لئے حضرت علی کو خلافت و جانشینی کے لئے منتخب کیا جائے اوراپنے پیغمبر کی رسالت کو رہبر و رہنما کا تعیین کر کے پایہ تکمیل تک پہونچایاجائے۔

______________________

(۱) خصوصاً ان عربوں پر جو اہم منصبوں کو قبیلے کے بزرگوں کے شایان شان سمجھتے تھے اورنوجوانوں کو اس بہانے سے کہ وہ تجربہ نہیں رکھتے ان کو اس کا اہل نہیں سمجھتے تھے اسی لئے جب پیغمبر نے عتاب بن اسید کو مکہ کا حاکم اوراسامہ بن زید کو فوج کا سپہ سالار بنا کر تبوک بھیجا تو بہت سے اصحاب پیغمبر اور دوستوں نے اعتراض کیا۔

۱۲۸

واقعہ غدیر کی تشریح :

۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم کی سرزمین پر دو پہر کا تپتا ہوا سورج چمک رہا تھا اور اکثر مؤرخین نے مجمع جن کی تعداد ۷۰ ہزار سے ۱۲۰ ہزار تک بیان کی ہے اس جگہ پر پیغمبر کے حکم سے ٹہرے ہوئے تھے او راس روز رونما ہونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کر رہے تھے اور شدید گرمی کی وجہ سے اپنی رداؤں کو دو حصوں میں تہہ کر کے ایک حصے کو سر پر اوردوسرے حصے کو پیر کے نیچے رکھے ہوئے تھے۔

ایسے حساس موقع پر ظہر کی اذان پورے بیابان میں گونج اٹھی اور مؤذن کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی ،

لوگ نماز ظہر ادا کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے اور پیغمبر نے اس عظیم الشان مجمع میں جس کی سرزمین غدیر پر مثال نہیں ملتی نماز ظہرباجماعت ادا کی، پھر لوگوں کے درمیان اس منبر پر جو اونٹ کے کجاووں سے بنایا گیا تھا تشریف لائے اور بلند آواز سے یہ خطبہ پڑھا۔

تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر ہمارا ایمان ہے اور اسی پر بھروسہ ہے اور برے نفس اور خراب کردار سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ اس کے علاوہ گمراہوں کا کوئی ہادی و رہنما نہیں ہے وہ خدا جس نے ہر شخص کی ہدایت کی اس کو گمراہ کرنے والا کوئی نہیں ہے. میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد خدا کا بندہ اور اسی کی طرف سے بھیجا ہوا ہے۔

اے لوگو، عنقریب میں تمہارے درمیان سے خدا کی بارگاہ میں واپس چلا جاؤ ں گا اور میں مسئول ہوں اور تم بھی مسئول ہو میرے بارے میں کیا فکر کرتے ہو؟

۱۲۹

پیغمبر کے صحابیوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے خدا کے مذہب کی تبلیغ کی اور ہم لوگوں کے ساتھ نیکی کی اور ہمیشہ نصیحت کی اوراس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں خدا آپ کو جزائے خیر دے۔

پیغمبر نے پھر مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا:

کیا تم گواہی نہیں دو گے کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہے؟ جنت و جہنم اور موت حق ہیں اور قیامت بغیر کسی شک وتردید کے ضرور آئے گی اور خداوند عالم ان لوگوں کو جو قبروں میں دفن ہیں دوبارہ زندہ کرے گا؟

پیغمبر کے صحابیوں نے کہا: ہاں ہاں ہم گواہی دیتے ہیں۔

پھر پیغمبر نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑ کر جارہا ہوں کس طرح ان کے ساتھ برتاؤ کرو گے ؟ کسی نے پوچھا: ان دوگرانقدر چیز سے کیا مراد ہے؟

پیغمبر اسلام نے فرمایا: ثقل اکبر جو خدا کی کتاب ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں ہے اس کو مضبوطی سے پکڑلو تاکہ گمراہ نہ ہوجاؤ اور ثقل اصغر میری عترت اور میرے اہلبیت ہیں میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میری یہ دونوں یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی۔

اے لوگو، کتاب خدا او رمیری عترت پر سبقت نہ لے جانا بلکہ ہمیشہ اس کینقش قدم پر چلناتاکہ تم محفوظ رہ سکو، اس موقع پر پیغمبر نے حضرت علی کو ہاتھوں پر بلند کیا یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دیکھائی دینے لگی اور سب نے حضرت علی کو پیغمبر کے ہاتھوں پر دیکھا اورانھیں اچھی طرح سے پہچانا اور جان لیا کہ اس اجتماع او رٹھہرنے کا مسئلہ حضرت علی سے مربوط ہے اور سب کے سب پوری توجہ اور دلچسپی کے ساتھ آمادہ ہوئے کے پیغمبر کی باتوں کو غور سے سنیں۔

۱۳۰

پیغمبر نے فرمایا: اے لوگو، تمام مومنین میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟

پیغمبر کے صحابیوں نے جواب دیا خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتا ہے۔

پیغمبر نے پھر فرمایا: خداوند عالم میرا مولااور میں تم لوگوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے زیادہ ان پر حق تصرف رکھتا ہوں. اے لوگو! جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں علی بھی اس کے مولا اور رہبر ہیں۔

رسول اسلام نے اس آخری جملے کی تین مرتبہ تکرار کی(۱) اور پھر فرمایا:

پروردگارا ،تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتا ہو او رتواسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھتا ہو۔

خدایا علی کے چاہنے والوں کی مدد کر اوران کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر، خدایا علی کو حق کا محور قرار دے۔

پھر فرمایا: دیکھو جو بھی اس بزم میں شریک نہیں ہے ان تک یہ پیغام الہی پہونچا دینا اور دوسروں کو اس واقعہ کی خبردے دینا۔

ابھی یہ عظیم الشان مجمع اپنی جگہ پر بیٹھا ہی تھا کہ وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور پیغمبر اسلام کو خوشخبری دی کہ خدا نے آج تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت کو مومنین پر تمام کردیا۔(۲)

اس وقت پیغمبر کی تکبیر بلند ہوئی اور فرمایا:

خداکا شکر کہ اس نے اپنے دین کو کامل کردیا اور نعمتوں کو تمام کردیا اور میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے خوشنود ہوا۔

پیغمبر اسلام منبر سے اترے اور آپ کے صحابی گروہ در گروہ حضرت علی کو مبارکباد دیتے رہے اور انھیں اپنا مولی اور تمام مومنین زن و مرد کا مولا مانا اس موقع پر رسول خدا کا شاعر حسان بن ثابت اپنی جگہ سے اٹھا او رغدیر کے اس عظیم و تاریخی واقعہ کو اشعار کی شکل میں سجا کر ہمیشہ کے لئے جاویدان بنا دیا یہاں اس مشہور قصیدے کے دو شعر کا ترجمہ پیش کرتے ہیں:

______________________

(۱) احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ''مسند'' میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر نے اس جملے کی چار مرتبہ تکرا رکی۔

(۲)الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِْسْلاَمَ دِینًا ً سورۂ مائدہ، آیت۳

۱۳۱

پیغمبر نے حضرت علی سے فرمایا: اٹھو میں نے تمہیں لوگوں کی راہنمائی اور پیشوائی کے لئے منتخب کیا جس شخص کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے. اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ علی کے سچے پیرو اور ان کے حقیقی چاہنے والے بنو۔(۱)

جو کچھ اب تک بیان کیا گیا وہ اس عظیم تاریخی واقعہ کا خلاصہ تھا جواہلسنت کے دانشمندوں نے بیان کیا ہے شیعہ کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے. مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب احتجاج(۲) میں پیغمبر کا ایک تفصیلی خطبہ نقل کیاہے تفصیل کے خواہشمند قارئین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

غدیر کا واقعہ کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا

خداوند عالم کا حکیمانہ ارادہ یہ ہے کہ عظیم تاریخی واقعہ غدیر ہر زمانے اور ہر صدی میں لوگوں کے دلوں میں زندہ اور کتابوں میں بطور سند لکھا رہے ،ہر زمانے میں اسلام کے محققین ،تفسیر ، حدیث، کلام اور تاریخ کی کتابوں میں اس کے متعلق گفتگو کریں اور مقررین و خطباء اپنی تقریروں، وعظ و نصیحت اور خطابتوں میں اس واقعہ کا تذکرہ کریں اور اسے حضرت علی کا ایسا فضائل شمار کریں جو غیر قابل انکار ہو نہ، صرف مقررین اور خطیب بلکہ بہت سارے شعراء اور دیگر افراد نے بھی اس واقعے سے ستفادہ کیا ہے اور اپنے ادبی ذوق کو اس واقعہ میں غور و فکر کرکے او رصاحب ولایت کے ساتھ حسن خلوص سے پیش آکر اپنی فکروں کو جلا بخشی ہے اور عمدہ و عالی ترین قصائد مختلف انداز اور مختلف زبانوں میں کہہ کر اپنی یادگار یںچھوڑی ہیں۔ اسی وجہ سے بہت کم ایسا تاریخی واقعہ ہے جو غدیر کے مثل تمام دانشمندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہو بلکہ تمام افراد خصوصاً محدثین ، متکلمین، فلسفی ، خطیب و شاعر، مؤرخ اور تاریخ لکھنے والے سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور سب نے کچھ نہ کچھ اس سلسلے میں لکھا ہے۔

______________________

(۱ ) فقالَ له قم یاعلی فاننی

رضیتک من بعدی اماماً و هادیاً

فمن کنت مولاه فهذا ولیه

فکونوا له اتباع صدق موالیاً

(۲) احتجاج طبرسی ج۱ ص ۸۴ ۔ ۷۱ ، طبع نجف

۱۳۲

اس حدیث کے ہمیشہ باقی رہنے کی ایک علت، اس واقعہ کے بارے قرآن مجید کی دو آیتوں کا نازل ہونا ہے(۱) اور جب تک قرآن باقی ہے یہ تاریخی واقعہ بھی باقی رہے گا اور کبھی بھی ذہنوں سے بھلایا نہیں جاسکتا ، اسلامی معاشرہ نے شروع سے ہی اسے ایک مذہبی عید شمار کیاہے اور تمام شیعہ آج بھی اس دن عید مناتے ہیں اور وہ تمام رسومات اور خوشیاں جو دوسری عیدوں میں انجام دیتے ہیں اس عید میں بھی انجام دیتے ہیں۔

تاریخ کی کتابیں دیکھنے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸ ذی الحجہ کا دن مسلمانوں کے درمیان '' عید غدیر'' کے نام سے مشہور ہے. یہاں تک کہ ابن خلکان، مستعلی بن المستنصر کے بارے میں کہتا ہے:

۴۸۷ ھ میں ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر کے دن لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کیا۔(۲)

العبیدی المستنصر باللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس کا انتقال ۴۸۷ھ میں اس وقت ہوا جب ذی الحجہ مہینے کی بارہ راتیں باقی تھیں اور یہ رات ۱۸ ذی الحجہ یعنی شب غدیر تھی۔(۳)

تنہا ابن خلکان نے ہی اس رات کو غدیر کی رات نہیں کہا ہے بلکہ مسعودی(۴) اور ثعلبی(۵) نے بھی اس رات کو امت اسلامی کی معروف و مشہور رات کہا ہے۔

اس اسلامی عید کی بازگشت خود عید غدیر کے دن ہوتی ہے کیونکہ پیغمبر نے اس دن مہاجرین و انصار، بلکہ اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ علی کے پاس جائیں اور ان کی اس عظیم فضیلت پر انھیں مبارکباد دیں۔

زید بن ارقم کہتے ہیں: مہاجرین میں سب سے پہلے جس نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی وہ ابوبکر، عمر،

______________________

(۱) سورۂ مائدہ آیت ۳ اور ۶۷

(۲،۳) وفیات الاعیان ج۱ ص ۶۰ و ج۲ ص ۲۲۳

(۴) التنبیہ و الاشراف ص ۸۲۲

(۵) ثمار القلوب ۵۱۱

۱۳۳

عثمان، طلحہ اور زبیر تھے اور بیعت اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا۔

اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ۱۱۰ صحابیوں نے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے البتہ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اتنے زیادہ گروہوں میں سے صرف اتنی تعداد میں لوگوں نے واقعہ غدیر کو نقل کیا ہے بلکہ صرف اہلسنت کے ۱۱۰ دانشمندوںنے واضح طور پر نقل کیا ہے .یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر نے اپنے خطبے کو ایک لاکھ کے مجمع میں بیان کیا لیکن ان میں سے بہت زیادہ لوگ حجاز کے نہیں تھے اور ان سے حدیث نقل نہیں ہوئی ہے اور ان میں سے جن گروہوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے تاریخ نے اسے اپنے دامن میں جگہ تک نہیں دیا ہے ، اور اگر لکھا بھی ہے تو ہم تک نہیں پہونچا ہے۔

دوسری صدی ہجری جو کہ ''تابعین'' کا زمانہ ہے ۸۹ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس صدی کے بعد جتنے بھی حدیث کے راوی ہیں سب کے سب اہل سنت کے دانشمند اورعلماء ہیں اور اس میں ۳۶۰ افراد نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور بہت زیادہ لوگوں نے اس کی حقانیت اور صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

تیسری صدی میں ۹۲ دانشمندوں نے، چوتھی صدی میں ۴۳ دانشمندوں نے ، پانچویں صدی میں ۲۴ دانشمندوں نے، چھٹی صدی میں بیس دانشمندوں نے، ساتویں صدی میں ۲۱ دانشمندوں نے، آٹھویں صدی میں ۱۸ دانشمندوں نے ،نویں صدی میں ۱۶ دانشمندوں نے، دسویں صدی میں ۱۴ دانشمندوں نے، گیارہویں صدی میں ۱۲ دانشمندوں نے، بارہویں صدی میں ۱۳ دانشمندوں نے، تیرہویں صدی میں ۱۲ دانشمندوں نے اور چودہویں صدی میں ۲۰ دانشمندوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

۱۳۴

کچھ محدثین و مؤرخین نے صرف اس حدیث کے نقل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس کی سند اور اس کے مفاد و مفہوم کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔

اسلام کے بزرگ مؤرخ طبری نے ایک کتاب بنام ''الولایة فی طریق حدیث الغدیر'' لکھا ہے اور اس حدیث کو ۷۰ سے زیادہ طریقوں سے پیغمبر سے نقل کیا ہے۔

ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ''ولایت'' میں اس حدیث کو ۱۰۵ افراد سے نقل کیا ہے۔

ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو جعانی کے نام سے مشہور ہے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے نقل کیا ہے ، جن لوگوں نے اس تاریخی واقعہ کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں ان کی تعداد ۲۶ ہے۔

شیعہ دانشمندوں نے اس اہم اور تاریخی واقعے کے متعلق بہت قیمتی کتابیں لکھی ہیں اور تمام کتابوں میں سب سے جامع اور عمدہ کتاب ''الغدیر'' ہے جو عالم تشیع کے مشہور و معروف دانشمند علامہء مجاہد مرحوم آیت اللہ امینی کی تحریر کردہ ہے، امام علی ـ کی حالات زندگی لکھنے والوں نے اس کتاب سے ہمیشہ بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔

۱۳۵

چوتھا باب

پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اور خلافت سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی

پہلی فصل

حضرت علی کی پچیس سالہ خاموشی

حضرت علی کی زندگی کے اہم واقعات جو پیغمبر کی زندگی میں رونما ہوئے تھے ان کی تحقیق و جستجو تمام ہوگئی. اگرچہ اس حصے میں تفصیلی تحقیق اورمکمل معلومات حاصل نہ ہوسکی اور امام کے بہت سے حالات و واقعات اس زمانے میں جب آپ اس سے رونما ہوئے تھے لیکن اہمیت کے لحاظ سے دوسرے مرحلے میں تھے لہذا بیان نہیں ہوئے ہیں. لیکن وہ عظیم واقعات جو امام کی شخصیت کو اجاگر کرتے ہیں یا آپ کے ایمان و عظمت کو واضح و روشن کرتے ہیں ترتیب سے بیان کئے جاچکے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کے فضائل و کمالات او رحسن اخلاق سے ایک حد تک آشنا ہوچکے ہیں۔

اب ہم امام علیہ السلام کی زندگی کے دوسرے حصے کو جو آپ کی زندگی کا چوتھا مرحلہ ہے اس کی کا تجزیہ کررہے ہیں۔

حضرت علی کی زندگی کے تین مرحلوں نے آپ کی عمر عزیز کے ۳۳ سال لے لئے، اورامام اس مختصر سی مدت میں اسلام کے سب سے بڑے شجاع و بہادر او راسلام کے عظیم الشان رہبر کی حیثیت سے پہچانے گئے. اور پوری تاریخ اسلام میں پیغمبر کے بعد کوئی بھی شخص فضیلت ، تقویٰ، علم و دانش، خدا کی راہ میں جہاد مکوشش، برادری و مواسات، غریبوں اوریتیموںکی دیکھ بھال وغیرہ میں آپ کے ہم رتبہ نہ تھا. اور تمام جگہوں پر خصوصاً حجاز و یمن میں آپ کی شجاعت و بہادری، فداکاری ، جانبازی، اور پیغمبر کی مہر و محبت علی کے ساتھ مشہور تھی۔ ان تمام کمالات کے بعد ضروری تھا کہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد اسلام کا محور او ر اسلامی معاشرہ کی باگ ڈور حضرت علی کے ہاتھوں میں ہوتی، لیکن جب تاریخ کے صفحات پر نظر پڑتی ہے

۱۳۶

تو اس کے برخلاف نظر آتا ہے کیونکہ امام اپنی زندگی کے چوتھے مرحلے میں جو ایک چوتھائی صدی تھی اور وہ شرائط و حالات جو رونما ہوئے تھے اس عمومی جگہ سے اپنے آپ کو کنارے کرکے خاموشی اختیار کرلی تھی نہ کسی جنگ میں شرکت کی نہ کسی عمومی جلسے میں رسمی طور پر تقریر فرمائی. تلوار کو نیام میں رکھ لیا تھا اورتنہائی کی زندگی بسر کرنے لگے یہ خاموشی اور طولانی کنارہ کشی اس شخص کے لئے جواس کے پہلے ہمیشہ عمومی مجمع میں رہا ہو اور اسلام کی دوسری عظیم شخصیت اور مسلمانوں کے لئے ایک عظیم رکن کی حیثیت سے شمار ہو اس کے لئے یہ سہل و آسان نہ تھا. روح بزرگ، حضرت علی سے چاہتی تھی کہ خود اس پر مسلط ہو جائے اور خود کو نئے حالات جو ہر اعتبار سے سابقہ حالات سے مخالف تھے، تطبیق کرے۔اس خاموشی کے زمانے میں امام چند چیزوں میں مصروف تھے جو درج ذیل ہیں:

۱۔ خدا کی عبادت: وہ بھی ایسی عبادت جو حضرت علی کی شخصیت کی شایان شان تھی یہاں تک کہ امام سجاد اپنی تمام عبادت و تہجد کواپنے دادا کی عبادت کے مقابلے میں بہت ناچیز جانتے ہیں۔

۲۔ قرآن کی تفسیر اور آیتوں کی مشکلات کو حل اور شاگردوں کی تربیت کرتے تھے وہ بھی ابن عباس جیسے شاگرد جو امام کے بعد سب سے بڑے مفسر قرآن کے نام سے مشہور ہوئے۔

۳۔ تمام فرقوں اور مذہبوں کے دانشمندوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے، خصوصاً وہ تمام یہودی اورعیسائی جو پیغمبر کی وفات کے بعد اسلام کے سلسلے میں تحقیق کرنے کے لئے مدینہ آئے تھے. ان لوگوں نے ایسے ایسے سوالات کئے تھے کہ جس کا جواب حضرت علی ، جو توریت اورانجیل پر مکمل تسلط رکھتے تھے اورجیسا کہ ان کی گفتگو سے بھی واضح تھا،کے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا، اگر یہ فاصلہ امام کے ذریعے پرُ نہ ہوتا تو جامعہ اسلامی شدید شکست کھا جاتا، اور جب امام علیہ السلام نے تمام سوالوں کا محکم اور مدلل جواب دیدیا تو وہ خلفاء جو پیغمبر کی جگہ بیٹھے تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور عظیم خوشی کے آثار نظر آئے۔

۴۔ بہت زیادہ ایسے نئے مسائل کا حل پیش کرنا جس کا اسلام میںو جود نہ تھااور اس کے متعلق قرآن مجید اور حدیث پیغمبر موجود نہ تھی یہ امام ـ کی زندگی کا ایک حساس پہلو ہے اور اگر صحابیوں کے درمیان حضرت علی ـ جیسی شخصیت موجود نہ ہوتی ۔ جوپیغمبر اسلام کی تصدیق کے مطابق امت کی سب سے دانا اور قضاوت و فیصلہ کرنے میں سب سے اہم شخصیت تھی تو صدراسلام کے بہت سے ایسے مسائل بغیر جواب کے رہ جاتے اور بہت سی گتھیاں نہ سلجھتیں.

۱۳۷

یہی نئے نئے رونما ہونے والے حادثات وواقعات ثابت کرتے ہیں کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد ایک آگاہ اور معصوم، مثل پیغمبر کے لوگوں کے درمیان موجود ہو جو اسلام کے تمام اصول وفروغ پر کافی تسلط رکھتا ہو اور اس کا علم وکمال امت کو غیر شرعی اور بے جا عمل اور وہم و گمان سے دور کردے اور یہ تمام عظیم خصوصیتیں پیغمبر کے تمام دوستوں صحابیوں کی تصدیق کی بنیاد پر حضرت علی ـ کے علاوہ کسی اور میں نہ تھیں،

امام ـ کے کچھ فیصلے اور قرآن مجید کی آیتوں سے ان کو ثابت کرنا وغیرہ حدیث وتاریخ کی کتابوں میں تحریر ہیں(۱)

۵۔جب خلافت پر بیٹھنے والے سیاسی مسائل یا مشکلات کی وجہ سے مجبور ولاچار ہوئے تو ان کی نگاہ میں تنہا امام ـ مورد اعتماد تھے جو ان کے سروں پر منڈلاتی ہوئی مشکلات کو حل کرتے اور ان کی راہ ہموار کر تے ان میں سے بعض مشورے نہج البلاغہ اور تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ،

۶۔پاک ضمیر اور پاکیزہ روح رکھنے والوں کی تربیت تاکہ وہ امام ـ کی رہبری اور معنوی تصرف کے زیر نظر معنوی کمالات کی بلندیوں کو فتح کر سکیں اور وہ چیز یں جسے آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے وہ دل کی نورانی آنکھوں اور باطنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ۔

۷۔بہت زیادہ بیوہ اور یتیموں کی زندگی کے روز مرہ کے امور کے لئے کوشش وتلاش کرنا یہاں تک کہ امام ـ نے خود اپنے ہا تھوں سے باغ لگایا اور آب پاشی کے لئے نہریں نکال کر اسے خدا کی راہ میں وقف کر دیا۔

یہ تمام فعالیت اور امور کا انجام دینا امام ـ کا وہ کارمانہ تھا جوآپ نے ا س ۲۵۔سالہ دور میں انجام دیا تھا ، لیکن یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ اسلام کے بڑے بڑے تاریخ دانوں نے امام ـ کی زندگی کے ان خدمات کو زیادہ اہمیت نہیں دی ، اور امام ـ کی زنذگی کے اس دور کی خصوصیات و جزئیات کو صحیح

______________________

(۱)۔ محقق عالیقدر جناب شیخ محمد تقی شو ستری نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا ترجمہ فارسی میں بھی ہواہے

طریقے سے نہیں لکھا ہے جب کہ یہی تاریخ داں جب بنی امیہ اور بنی عباس کے سپہ سالاروں کے حالات لکھتے ہیں تو اتنادقیق اور تفصیلی گفتکو کرتے ہیں کہ کوئی بھی چیز باقی نہ رہ جائے ۔

۱۳۸

کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ امامـ کی پچیس سالہ زندگی کے خصوصیات مبہم اور غیرواضح ہوں مگر ظالموں کی تاریخ ،جنایت و بدبخت محققین اور معاویہ ،مروان اور خلفا ء بنی عباس کے بیٹوں کی عیاشی وشرابخوری کی تاریخ بہت ہی دقت و محنت سے لکھی جائے ،اور ان محفلوں میں پڑھے جانے والے اشعار وہ باتیں جو خلفاء اور ناچ ورنگ کی محفل منعقد کرنے والوں کے درمیان ہوئیں اور وہ راز ونیاز جو رات کے اندھیرے میں طے ہوئے تھے وہ تاریخ اسلام، کے نام سے اپنی اپنی کتابوں میں لکھیں ؟ نہ صرف ان کی زندگیوں کا صرف یہ حصہ لکھا بلکہ ان کے حاشیہ نشینوںنوکروں ، اور ان کے علاوہ خادموں اور بکریوں ،اور زیور وآلات ،عورتوں اور محبوبائوں کے آرائش وسنورنے ،اور ان کی زندگی کے خصوصیات تک کو اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیا لیکن جب اولیاء خدا اور حق شناس افراد کی بات آتی ہے تو وہی ،اگر ان کی جانثاری اور فدا کار ی نہ ہوتی تو ہرگز یہ نالائق گروہ خلافت وسرداری کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں نہ دیتے گویا ان کی فکریں زنجیروں سے بندھی ہوں ۔اور تاریخ کے ان ابواب سے اتنی تیزی سے گزرنا چاہتے ہیں کہ جلد ازجلد تاریخ کا یہ حصہ ختم ہو جائے ۔

اسلام کا پہلا ورق جدا ہو گیا

اس فصل کا پہلا ورق اس وقت جدا ہو گیاجب پیغمبر اسلام(ص) کا سر امام ـ کے سینے پر تھااور آپ کی روح ،خدا کی بارگاہ میں چلی گئی ،حضرت علی ـ اس واقعہ کو اپنے ایک تاریخی(۱) خطبے میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

''پیغمبر کے صحابہ جو آپ کی تاریخی زندگی کے محافظ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا اور اس کے پیغمبر دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں دوری اختیار نہیں کی جب کہ بڑے بڑے طاقتور لوگ بھاگ گئے اور جنگ سے پیچھے ہٹ گئے ،میں نے اپنی جان کو پیغمبر خدا کی راہ میں قربان کرنے سے ذریغ نہ کیا جب رسول خدا کا انتقال ہوا اس وقت ان کا سر میرے سینے پر تھا ، اور میرے ہاتھوں

______________________

(۱)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۹۲۔''لقد علم المستحفظون من اصحاب محمد ۖ'' .

۱۳۹

پر ان کی روح بدن سے جدا ہوئی اور میں نے بطور تبرک اپنے ہاتھوں کو چہرے پر ملا، اس وقت ہم نے ان کے بدن کو غسل دیا اور فرشتوں نے ہماری مددکی، فرشتوں کاایک گروہ زمین پر آتا تھا تودوسرا چلا جاتا تھا اور ان کے ہمہمہ کی آواز جب کہ وہ پیغمبر کے جنازے پر نماز پڑھ رہے تھے میرے کانوں سے ٹکرارہی تھی یہاں تک کہ ہم نے انھیں ان کی قبر میں رکھ دیا۔پیغمبر کی زندگی میں بھی اور ان کی رحلت کے بعد بھی کوئی مجھ سے زیادہ سزاوار نہیں ہے '' پیغمبر کے انتقال کے بعد بعض گروہ نے خاموشی اختیار کرلی اور دوسرا گروہ پوشیدہ طور پر راز ورموزتلاش کرنے میں مصروف ہو گیا۔

پیغمبر کی رحلت کے بعد سب سے پہلا واقعہ جس سے مسلمان روبرو ہوئے وہ عمر کی طرف سے پیغمبر کی وفات کو جھٹلانا تھا۔ اس نے پیغمبر کے گھر کے سامنے شوروغوغا کرنا شروع کردیااور جو لوگ یہ کہتے تھے کہ پیغمبر کا انتقال ہو گیا ہے ان کو دھمکی دیتا تھا،جب کہ عباس اور ابن مکتوم ان آیتوں کی تلاوت کررہے تھے جس کے مفہوم سے واضح ہو رہا تھا کہ پیغمبر کا انتقال ہوگیا ہے مگر اس کا لوگوں پر کوئی اثر نہ پڑا یہاں تک کہ عمر کا دوست ابوبکر جو مدینہ کے باہر تھا وہ آیا، اور جیسے ہی اس حالات سے باخبر ہوا تو اس نے بھی اسی آیت(۱) کو پڑھا کہ جس کودوسروں نے اس سے پہلے پڑھا تھااور عمر کو خاموش کردیا۔

جس و قت حضرت علی ـ پیغمبر کو غسل دے رہے تھے اس وقت اصحاب کا ایک گروہ ان کی مدد کررہا تھا اور غسل وکفن کے ختم ہونے کا انتظار کررہا تھا ،اور خود پیغمبر کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے آمادہ ہورہا تھا اور اکثر افراد سقیفئہ بنی سا عدہ میں پیغمبر کے جانشین کا انتخاب کررہے تھے اگرچہ سقیفہ میں تمام امور کی باگ ڈور انصار کے ہاتھوں میں تھی لیکن جب ابو بکر وعمر اور ابو عبیدہ جو مہاجرین میں سے تھے اس واقعہ سے با خبر ہوئے تو پیغمبر کا جسم اطہر جو غسل کے لئے آمادہ تھا چھوڑ کر سقیفہ میں انصار کے ساتھ شریک ہو گئے ،اور لفظی تکراراور مار پیٹ کے بعد ابو بکر پانچ آدمی کے ووٹ سے رسول خدا(ص) کے خلیفہ منتخب ہوئے ،جب کہ مہاجرین میں ان تین آدمیوں کے علاوہ کوئی بھی اس چیز سے آگاہ نہ تھا۔(۲)

______________________

(۱) سورۂ زمر، آیت ۳۰، (انک میت و انهم میتون )تم مرجاؤ گے اور دوسرے بھی مرجائیں گے۔

(۲)سقیفہ کی تاریخ اور کس طرح ابو بکر ۔۵ ۔ آدمیوں کی رائے سے خلیفہ بنے اگر تفصیل جاننا ہو تو میری کتاب ، رہبری امت اور پیشوائی در اسلام کا مطالعہ کریں چونکہ ہم نے ان دونوں کتاب میں واقعۂ سقیفہ کو تفصیل سے لکھا ہے لہذا یہاں پر مختصر تحریر کیا ہے ۔

۱۴۰