فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341481
ڈاؤنلوڈ: 5178

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341481 / ڈاؤنلوڈ: 5178
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایسے پر آشوب ماحول میں امام علی ـ، پیغمبر کے غسل وکفن میں مشغول تھے اور انجمن سقیفہ اپنے کام میں مشغول تھی ۔ ابو سفیان جو بہت بڑا سیاسی اور سوجھ بوجھ رکھتاتھا مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کر نے کے لئے حضرت علی ـ کے گھر آیا اور آپ سے کہنے لگا اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں اورآپ کو مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے لوگوں کے سامنے روشناس کرائوں،کیو نکہ اگر میں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو عبد مناف کے فرزندوں میں سے کوئی بھی آپ کی مخالفت کے لئے نہیں اٹھے گااور آخر میں پورا عرب آپ کو اپنا حا کم وسردار قبول کرلے گا لیکن حضرت علی ـ نے ابو سفیان کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی کیونکہ اس کی نیت سے آگاہ تھے آپ نے فرمایا فی الحال میں پیغمبر کی تجہیز وتکفین میں مصروف ہوں۔

ابو سفیان کی درخواست کے وقت یا اس کے پہلے عباس نے بھی حضرت علی ـ سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے حضرت علی ـکے ہاتھ پر بیعت کریں لیکن حضرت نے ان کی درخواست کو قبول نہیں کیا۔

تھوڑی دیر گزری تھی کہ تکبیر کی آواز کانوں سے ٹکرائی حضرت علی ـ نے عباس سے اس کا سبب پوچھا عباس نے کہا ۔

میں نے نہیں کہا تھا کہ دوسرے لوگ بیعت لینے میں تم پر سبقت کر رہے ہیں؟.میں نے تم سے نہیں کہا تھاکہ اپنا ہاتھ بڑھائوتاکہ تمھاری بیعت کریں ؟لیکن تم حاضر نہ ہوئے اور دوسروں نے تم پر سبقت حاصل کرلی ۔

کیا عباس اور ابو سفیان کی درخواست عاقلانہ تھی ؟

اگر حضرت علی ـ، عباس کی درخواست قبول کر لیتے اور پیغمبر اسلام کے انتقال کے فوراً بعدبڑی بڑی شخصیتوں کو بیعت کی دعوت دیتے تو یقینا سقیفہ میں لوگ جمع نہیں ہو سکتے تھے یا اصلاً سقیفہ کا وجود ہی نہ ہوتا ، کیونکہ دوسرے افراد کے اندر ہر گزاتنی جرأ ت نہ تھی کہ خلافت اسلامی جیسے اہم مسئلہ پر ایک گروہ کے مختصر سے مجمع میں تبادلئہ خیالات کرتے ،اور ایک شخص کو چند آدمیوں کی رائے سے جانشین کے لئے منتخب کر تے۔

بہر حال ،پیغمبراسلام(ص) کی عمومی دعوت اور چند اہم شخصیتوں کا حضرت علی کے ہاتھوں پر خصوصی بیعت کرنا حقیقت سے دور تھا اور تاریخ نے اس بیعت کے سلسلے میں بھی وہی فیصلہ کیا ہے جو ابوبکر کی بیعت کے بارے میں کیا ہے ، اس لئے کہ حضرت علی ـ کی جانشینی دوحال سے خالی نہیں تھی یا امام ـ ،خدا کی طرف سے ولی وحاکم منصوص تھے یانہیں تھے ؟

۱۴۱

پہلی صورت میں ۔ بیعت لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور خلافت کے لئے رائے لینا اور اس منصب پر قبضہ کرنے کے لئے کسی کو خلیفہ بنانا خدا کی معین کی ہو ئی چیزوں کی توہین کرنا ہے اور خلافت کے موضوع کو جو الہی منصب ہے اور یہ کہ خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے معین ہو اس قانون کی توہین کرتا ہے اور اُسے ایک انتخابی مقام ومنصب قرار دینا ہے، جب ایک متدین اور حقیقت پسند انسان اپنی شخصیت و منزلت کی حفاظت کے لئے حقیقت اور اصلیت میں تحریف نہیں کرتا، اور حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرتا تو کس طرح سے امام معصوم ایسا کر سکتاہے ؟

دوسری صورت میں : ۔خلافت کے لئے حضرت علی ـ کا انتخاب بالکل اسی طرح ہوتا جس طرح سے خلافت کے لئے ابو بکرکا انتخاب ہوا ، اور ابو بکر کے جگری دوست خلیفئہ دوم (عمر) ابو بکر کے انتخاب کے سلسلے میں بہت دنوں تک یہی کہتے رہے ۔

کانت بیعةابی بکر فلتة وقی الله شرها ۔(۱)

یعنی ابوبکر کا خلافت کے لئے منتخب ہونا ایک جلد بازی کاکام تھا اور خدانے اس کے شرکو روک دیا ،ان تمام چیزوں سے اہم بات یہ کہ ابو سفیان اپنی درخواست میں ذرہ برابر بھی حسن نیت نہیں رکھتا تھا اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ،اضطراب اور گروہ بندی پیدا کردے اورعربوں کو پھرسے جاہلیت کے اندھیرے میں ڈال دے اور اسلام کے نئے اور ہرے بھرے درخت کو ہمیشہ کے لئے خشک کردے ۔

وہ حضرت علی ـ کے گھر آیا اور امام ـ کی مدح میں اشعار پڑھا جس کے دو شعر کا ترجمہ یہاں پیش کررہے ہیں ۔

اے ہاشم کے بیٹو،اپنی خاموشی کو ختم کردو تاکہ لوگ خصوصاًقبیلئہ تیم اور قبیلئہ عد ی کے لوگ تمہارے

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۳ص۵.۲ سیر ہ ابن ہشام ج۴ ص۸.۳

۱۴۲

مسلم حق کو لالچی نگاہوں سے نہ دیکھیں ۔

خلافت کا حق تمھیں ہے اور تمھاری طرف آیا ہے اور اس کے لئے حضرت علی کے علاوہ کوئی شائستگی ولیاقت نہیں رکھتا ہے(۱)

لیکن حضرت علی ـ کنا بتہً اس ناپاک نیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :توایسی فکر میں ہے جس کے اہل ہم نہیں ہیں ۔

طبری لکھتا ہے :

علی ـ نے اس کی ملامت کی اور کہا تیرا ہدف فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو ہمیشہ ، اسلام کے لئے کینہ پرور ثابت ہوا ہے مجھے تیرے وعظ ونصیحت کی ضرورت وحاجت نہیں ہے(۲)

ابوسفیان، مسلمانوں کے درمیان پیغمبر کی جانشینی کے اختلافی مسئلے سے بخوبی واقف تھا اور اس سلسلے میں اس نے یہ نظریہ پیش کی۔

میں ایک ایسا طوفان دیکھ رہا ہوں جسے خون کے علاوہ کوئی دوسری چیز خاموش نہیں کرسکتی(۳)

ابوسفیان اپنے نظریہ میں بہت صحیح تھا ،اور اگر خاندان بنی ہاشم کی قربانی اور عفو ودر گذ رنہ ہوتی تو اس اختلافی طوفان کو قتل وغارت گری کے علاوہ کوئی دوسری چیز روک نہیں سکتی تھی۔

______________________

(۱)الد رجات الر فیعہ ص۸۷

بنی هاشم لاتُطمِعُواالناس فیکم

ولاسیماتیم ابن مرّة اوعدی

فما الامرالا فیکم و الیکم

ولیس لها الاابو حسن علٍ

(۲) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدیدج۲ص۴۵

(۳)''انی لأری عجاجة لایُطفؤُها الاالدم'' شرح نہج البلاغہ ج۲ص۴۴جوہری کی کتاب السقیفہ سے ماخوذ۔

۱۴۳

بغض وکینہ رکھنے والا گروہ

جاہل عرب کے بہت سے قبیلے بدلہ لینے اور بغض وکینہ رکھنے میںبہت مشہورتھے ،جب ہم تاریخ جاہلیت عرب کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے حادثے ہمیشہ بڑے بڑے حادثات میں تبدیل ہوتے تھے ،اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر بدلہ لینے کی فکر کبھی ختم نہیں ہوتی تھی یہ بات صحیح ہے کہ وہ لوگ اسلامی تعلیمات کی بناء پر ایک حد تک جاہلیت سے دور ہوئے تھے اور نئی زندگی حاصل کر لی تھی لیکن ایسا نہیں تھا کہ ان کے اس طرح کے احساسات مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے ،اور کوئی اثر ان کے اندر باقی نہ تھا ،بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی کم وبیش بدلہ لینے کی حس ان کے اندر باقی تھی ۔

یہ بات بغیر کسی دلیل کے نہ تھی کہ حباب بن منذرنے جوگروہ انصار کا بہادر شخص اور گروہ انصار کے لئے خلافت کا امید وار تھاسقیفہ میں خلیفہ دوم کی طرف رخ کرکے کہا تھا ۔

ہم تمہاری خلافت و جانشینی کے ہر گز مخالف نہیں ہیں اور نہ اس کام پرحسد کرتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں چلی جائے کہ ہم نے شرک کو مٹانے اور اسلام کو پھیلانے کے لئے اسلامی جنگوں میں ان کے باپ دادا اوران کے فرزندوں کو قتل کیا ہے کیونکہ مہاجرین کے اعزاء و احباب انصار کے فرزندوں اور نوجوانوں کے ہاتھ قتل ہوئے ہیں. چنانچہ اگر انہی افراد کے ہاتھ میں حکومت آجائے تو ہماری حالت یقینا تبدیل ہو جائے گی۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

میں نے کتاب ''سقیفہ'' تالیف احمد بن عبد العزیز جوہری کو ۶۱۰ھ میں استاد ابن ابی زید رئیس بصرہ سے پڑھی، اور جب بحث حباب بن منذر کی گفتگو تک پہونچی تو میرے استاد نے کہا حباب کی پیشنگوئی بہت عاقلانہ تھی اور جس چیز کا اسے خوف تھا وہ یہ کہ مسلم بن عقبہ مدینہ پر حملہ کرے گا اور اس شہر کویزید کے حکم سے محاصرہ میں رکھا جائے گا اورہوا بھی یہی بنی امیہ نے جنگ بدرمیں قتل ہونے والے اپنے تمام افراد کا بدلہ انصار کے بیٹوں سے لے لیا۔

پھر استاد نے ایک اور مطلب کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا:

۱۴۴

جس چیز کی حباب نے پیشنگوئی کی تھی پیغمبر نے بھی اس کی پیشنگوئی کی تھی، آپ بعض عربوں کے بغض و کینہ اور اپنے خاندان کے ساتھ بدلہ لینے کے متعلق خوف زدہ تھے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ان کے بہت سے رشتہ داروں کو مختلف جنگوں میں بنی ہاشم کے جوانوںنے قتل کیا تھا اور اس سے بھی آگاہ تھے کہ اگر حکومت کی باگ ڈور دوسروں کے ہاتھ میں چلی گئی تو ممکن ہے خاندان رسالت سے بدلہ لینے کی جرأت ان کے اندر پیدا ہوجائے اسی وجہ سے آپ ہمیشہ حضرت علی کے بارے میں سفارش کرتے تھے اور انھیں اپنا وصی اور امت کے حاکم کے عنوان سے پہچنواتے تھے، تاکہ جو مقام و مرتبہ ا ور منزلت خاندان رسالت کی ہو اس کی وجہ سے علی ـاوران کے اہلبیت کا خون محفوظ رہے، لیکن کوئی کیا کرسکتا ہے تقدیر نے تمام چیزوں کو بدل ڈالا اور حکومت دوسروں کے ہاتھوں میں آگئی اور پیغمبر کی پیشنگوئی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکی اور جو چیز نہیں ہونی چاہیئے تھی وہ ہوگئی اور ان کے خاندان کا کتنا پاک و پاکیزہ خون بہا دیا گیا۔(۱)

اگرچہ رئیس بصرہ کی بات شیعہ نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے ، کیونکہ شیعہ عقیدہ کے مطابق، پیغمبر نے خدا کے حکم سے حضرت علی کوامت کی رہبری کے لئے منصوب اور معین کیا او رحضرت علی کو منتخب کرنے کی وجہ ان کے اور ان کے اہلبیت کے خون کی حفاظت کرنا مقصود نہیں تھی بلکہ حضرت علی کے اندر وہ خوبیاں تھیں کہ ایسا بابرکت مقام و منزلت ان کے لئے ہوا۔

لیکن بہرحال اس کی تحلیل بالکل صحیح تھی کیونکہ اگر حکومت کی باگ ڈور حضرت علی کے خاندان کے ہاتھوں میں ہوتی تو کبھی بھی کربلاکا خونین واقعہ نہ ہوتا اور امام کے بچے بنی امیہ اور بنی عباس کے جلادوں کے ہاتھ شہید نہ ہوتے اور خاندان رسالت کا پاکیزہ خون مٹھی بھر مسلمان نما افراد کے ہاتھوں نہ بہتا۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص۵۳

۱۴۵

بامقصد خاموشی

حقیقت ہے کہ اسلامی معاشرہ اور خاندان رسالت کو عجیب مشکلات سے دوچار کر دیا تھا اور ہر لمحہ اس بات کا ڈر تھا کہ مسلمانوں کے درمیان خلافت کے موضوع پر جنگ چھڑ جائے اور اسلامی معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے اور عرب قبیلوں کے تازہ مسلمان، جاہلیت اور بت پرستی کے دور کی طرف پلٹ جائیں ،اسلامی تحریک، ابھی نئی نئی اور جواں سال تحریک تھی اور ابھی اس تحریک نے لوگوں کے دلوں میں جڑ نہیں پکڑی تھی اور ان میں سے اکثریت نے دل کی گہرائیوں سے اس تحریک کو قبول نہیں کیا تھا۔

ابھی حضرت علی او ر پیغمبر کے بہت سے باوفا اصحاب پیغمبر کے غسل و کفن اوردفن سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ اصحاب کے دو گروہ آپس میں خلافت کے مدعی ہوگئے او راس راہ میں بہت زیادہ مشکلات کھڑی کردیں وہ دو گروہ یہ تھے:

۱۔ انصار ، خصوصاً قبیلۂ خزرج جو مہاجرین سے پہلے ایک مقام پر جسے سقیفہ بنی ساعدہ کہتے ہیں جمع ہوگئے تھے اورچاہا تھاکہ تمام امور کی ذمہ داری سعد بن عبادہ رئیس خزرج کے حوالہ کریں اوراسے پیغمبر کا جانشین منتخب کریں. لیکن چونکہ انصار کے قبیلے میں اتحاد و اتفاق نہ تھا اور ابھی بھی پرانے کینے ان کے دلوں میں جڑ پکڑے ہوئے تھے خصوصاً اوس و خزرج کے قبیلے والے اپنے اپنے کینوں کونہیں بھولے تھے. انصار کا گروہ داخلی مخالفت کی وجہ سے ایک دوسرے کے مقابلے میں آگیا اور قبیلۂ اوس کے لوگ سعد کی پیشوائی میں جو کہ خزرج سے تھا مخالفت کی اور نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس راہ میں ان کی مدد نہ کی بلکہ خواہش ظاہر کی کہ امت کی باگ ڈور مہاجرین میں سے کسی کے ہاتھ میں ہو۔

۲۔ مہاجرین،اوران سب کے رئیس ابوبکر اور ان کے ہم فکر ہیں کی تعدا د سقیفہ میں بہت کم تھی لیکن اس علت کی بناء پر جس کا اشارہ ہم کرچکے ہیں انہوں نے ابوبکر کے لئے ووٹ جمع کرلیا اور کامیابی کے ساتھ سقیفہ سے باہر آئے او رمسجد تک آتے آتے بہت زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ کرلیا. اور ابوبکر خلیفہ رسول کے عنوان سے منبر رسول خدا پر بیٹھے اور لوگوں کو بیعت و اطاعت کی دعوت دی۔

۱۴۶

تیسرا گروہ اور مسئلہ خلافت

ان دو گروہوں کے مقابلے میں ایک گروہ اور بھی موجود تھا جو روحانی اور معنوی طاقت سے سرشار تھا اور اس گروہ میں حضرت علی جیسی شخصیت اور بنی ہاشم کے افراد اور کچھ اسلام کے سچے ماننے والے موجود تھے جو خلافت کو حضرت علی کا حق سمجھتے تھے اور ان کودوسرے افراد کے مقابلے میں خلافت و رہبری کے لئے ہر طرح سے لائق و شائستہ جانتے تھے۔

ان لوگوں نے خود مشاہدہ کیا کہ ابھی پیغمبر کا جنازہ دفن بھی نہ ہوا تھا کہ گروہ مہاجرین و انصار خلافت کے مسئلے پر جنگ و جدال کرنے لگے۔

اس گروہ نے اپنی مخالفت کی آواز کو مہاجرین وانصار بلکہ تمام مسلمانوں تک پہونچانے کے لئے یہ اعلان کردیاکہ ابوبکر کا انتخاب غیر قانونی اورنص پیغمبر اور اصول مشورہ کے خلاف تھا ،اسی وجہ سے وہ لوگ حضرت زہرا کے گھر میں جمع ہوئے اور سقیفہ میں حاضر نہیں ہوئے ،لیکن یہ اجتماع آخر کار ختم ہوا اورخلافت ابوبکر کی مخالفت کرنے والے مجبور ہوکر حضرت زہرا کے گھر سے باہر نکل کر مسجد کی طرف چلے گئے۔

ایسے حالات میں تیسرے گروہ پر بہت اہم ذمہ داری آپڑی، خصوصاً امام علیہ السلام کے لئے کہ آپ نے خود مشاہدہ کیا کہ خلافت و رہبری اپنے اصلی محور سے خارج ہوگئی. جس کے نتیجہ میں بہت سے امور اپنے اصلی محور سے خارج ہو جائیں گے اسی وجہ سے امام نے خاموشی اختیار کرنا مناسب نہ سمجھاک،یونکہ غیر مناسب کام پر خاموش رہنے کی وجہ سے ان کی تائید ہوجاتی، اور امام ـ جیسی عظیم شخصیت کا ایسی صورت حال میں خاموش رہنے کی وجہ سے ممکن تھا کہ ان لوگوں کے لئے حقانیت کی دلیل بن جاتی اور ان کی خلافت ثابت ہو جاتی، لہذا آپ نے خاموشی ختم کردی. اوراپنا سب سے پہلا وظیفہ انجا دیا یعنی خطبہ کے ذریعے حقانیت کو یاد دلایااور مسجد نبوی میں جو آپ سے زبردستی بیعت لینا چاہ رہے تھے اس مہاجرین کے گروہ کو مخاطب کر کے کہا:

۱۴۷

اے گروہ مہاجر، اس حکومت کو حضرت محمد مصطفی نے جس اساس و بنیاد پر قائم کیاہے اس سے خارج نہ کرو اور اپنے گھروں میں داخل نہ کرو ،خدا کی قسم پیغمبر کا خاندان اس امر کے لئے زیادہ سزوار ہے کیونکہ ان کے خاندان میں ایسے افراد موجود ہیں جو مفاہیم قرآن اور دین کے اصول و فروع کی مکمل معلومات رکھتے ہیں اور پیغمبر کی سنتوں سے واقف ہیں اور اسلامی معاشرے کو اچھی طرح سے چلا سکتے ہیں اور ظلم و فساد کو روک سکتے ہیں اور مال غنیمت کو برابر برابر تقسیم کرتے ہیں، ایسے افراد کی موجودگی میں یہ منصب دوسروں تک نہیں پہونچ سکتا، ایسا نہ ہو کہ تم خواہشات نفسانی کی پیروی کرو اور صراط مستقیم سے بھٹک کر حقیقت سے دور ہو جاؤ۔(۱)

اس بیان میں امام علیہ السلام نے خلافت کے لئے اپنی لیاقت و شائستگی کو آسمانی کتابوں کا علم رکھنے اور پیغمبر کی سنتوں اور اپنی روحانی طاقت کو معاشرے کی رہبری کے شایان شان جانا ہے اور اگر پیغمبر سے اپنے رشتہ کی طرف بھی اشارہ کرتے تو مہاجرین کی طرح کا ایک استدلال ہو جاتا کہ انھوں نے پیغمبر کی طرف اپنے کو نسبت دی ہے شیعہ روایتوں کے مطابق امیر المومنین بنی ہاشم کے گروہ کے ساتھ ابوبکر کے پاس گئے اور خلافت کے لئے اپنے کو سزاوار بتایا اور اپنے ان تمام فضائل و کمالات یعنی علم کتاب و سنت، اسلام قبول کرنے میں سبقت وغیرہ اور جنگ کے میدان میں ثابت قدم اور فصاحت و بلاغت و غیرہ کو بیان کیا اور فرمایا:

______________________

(۱) الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۱۱

۱۴۸

''میں پیغمبر کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کے مقام و منصب کا حقدار ہوں، میں ان کا وزیراور وصی اوراسرار کا گنجینہ اور علوم کے خزانہ کا مخزن ہوں میں ہی صدیق اکبر اور میں ہی فاروق اعظم ہوں میں پہلا وہ شخص ہو ں جو ان پر ایمان لایا میں مشرکوں سے جنگ کرنے میں سب سے زیادہ ثابت قدم، کتاب خدا اور پیغمبر کی سنت کا سب سے زیادہ جاننے والا، دین کے اصول و فروع پر تم سب سے زیادہ نگاہ رکھنے والا، اور گفتگو کرنے میں تم سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور ہر معاملے میں تم سب سے زیادہ مستحکم ہوں.توپھر کیوں اس میراث میں ہمارے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہو۔(۱)

امیر المومنین علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں خلافت کو اس شخص کا حق جانتے ہیں جو حکومت کو چلانے میں تمام لوگوں سے زیادہ اہلیت رکھتا ہو اور تمام قوانین الہی وغیرہ پر مکمل تسلط رکھتا ہو جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:

''اے لوگو،حکومت کی قیادت کے لئے سب سے اچھا شخص وہ ہے جو تمام الہی قوانین کو جانتا ہو. اگر کسی شخص کے اندر یہ تمام شرائط موجود نہیں ہوں. اور خلافت کی تمنا کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ تو اپنے اس عمل اور فکر سے باز آجا، لیکن اگر وہ اپنی ضد پر باقی رہا تو اسے قتل کردیاجائے گا۔(۲)

یہ منطق فقط حضرت علی علیہ السلام ہی کی نہیں ہے بلکہ آپ کے بعض مخالفین کا بھی یہی نظریہ ہے ، اور انہوں نے حضرت علی کے لئے خلافت کا اعتراف کیا ہے اور ان کا یقین وایمان بھی یہی ہے کہ کسی غیر کو ان کے اوپر مقدم کرنا گویا ایک بڑے اور اہم حق کو پامال کرناہے۔جب ابوعبیدۂ جراح کو اس بات کی خبر ملی کہ حضرت علی نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ہے تو امام کی طرف رخ کر کے کہتا ہے:''امت کی باگ ڈور کو ابوبکر کے حوالے کردو اوراگر زندہ رہ گئے اور لمبی عمر نصیب ہوئی تو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے تم سب سے زیادہ حقدار ہو کیونکہ تمہیں تمام فضائل کا ملکہ حاصل ہے اور مستحکم ایمان اورعالم علم لدنی اور حقیقتوں کا درک کرنا اور اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا اور پیغمبر کا بھائی و داماد ہونا

______________________

(۱) احتجاج طبرسی ج۱ ص ۹۵

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۶۸ ،''ایها الناس ان احق الناس بهذا الامر اقواهم علیه . .

۱۴۹

یہ تمام فضائل و کمالات سب پر واضح و آشکار ہیں۔(۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے حق خلافت کی واپسی کے لئے صرف متوجہ اور متنبہ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اکثر مؤرخین کی تحریر کے مطابق اکثر رات میں آپ نے پیغمبر کی بیٹی اور اپنے نور چشم حسنینکے ہمراہ انصار کے سرداروں سے ملاقات کی تاکہ خلافت کو اس کے صحیح مقام پر واپس لائیں. لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے قابل اطمینان جواب نہیں دیا. اور یہ عذر پیش کیا کہ اگر حضرت علی دوسروں سے پہلے خلافت کی فکر کرتے اور ہم سے بیعت طلب کرتے تو ہم لوگ انہی کے ہاتھ پہ بیعت کرتے اور کبھی بھی دوسروں کی بیعت نہ کرتے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے جواب میں کہا کہ کیا یہ بات درست تھی کہ میں پیغمبر کے جنازے کو بغیر غسل و کفن گھر کے ایک گوشہ میں چھوڑ دیتا اور خلافت کی فکر کرکے لوگوں سے بیعت لیتا؟ پیغمبر اسلام کی بیٹی نے حضرت علی کی بات کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: علی ـاپنے وظیفہ میں دوسروں سے بہت زیادہ آشنا تھے وہ گروہ جس نے علی کے حق کو ان سے چھین لیا ہے خدا اس کا حساب لے گا۔(۲)

امام علیہ السلام کااس سلسلے میں یہ پہلا کام تھا جو تجاوز کرنے والے گروہ کے مقابلے میں انجام دیاتھا تاکہ توجہ وتذکراور گروہ انصار کے بزرگوں کی مدد سے اپنے حق کو غاصبوں سے واپس لے لیں، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس راہ میں امام کو کوئی نتیجہ نہ ملا، اور آپ کا حق پامال کردیا گیا، اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے پرآشوب اور حساس ماحول میں امام کا فریضہ کیا تھا؟ کیا آپ کا فریضہ صرف یہ تھا کہ آپ اپنی نگاہوں سے اس منظر کو دیکھتے رہیں اور خاموش بیٹھ جائیں یا اس کی حفاظت کے لئے قیام کریں؟

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص۱۲

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ص ۱۲ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۴۷ معاویہ کے نامہ سے مأخوذ۔

۱۵۰

امام کے لئے صرف ایک راستہ تھا

امام علیہ السلام کا خلافت کے سلسلے میں مسجد پیغمبر میں مہاجرین اور انصار کو متوجہ کرنے کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں پر حقیقت آشکار ہوگئی اور آپ نے تمام مسلمانوں پر حجت تمام کردیا، لیکن خلیفہ اور ان کے ہم فکر و خیال افراد منصب خلافت پر اپنا قبضہ جمائے رہے اور دھیرے دھیرے ایک طاقت بن کر ابھرنے لگے اور زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں میں خلافت مستحکم ہونے لگی اور رفتہ رفتہ لوگ اس حکومت کو ''اصل حکومت'' شمار کرنے لگے اور اسی کے پیرو ہوگئے۔

ایسے حساس ماحول میں جب کہ ہر لمحہ خاندان رسالت کو نقصان اور حکومت وقت کو فائدہ ہو رہا تھا حضرت علی جیسی شخصیت کا فریضہ کیا تھا؟ امام کے سامنے صرف دو راستے تھے ایک یہ کہ خاندان رسالت کے مردوں اور اپنے سچے ماننے والوں اور پیروی کرنے والوں کی مدد سے قیام کرتے اور اپنے حق کوان لوگوں سے واپس لے لیتے ، یا یہ کہ مکمل طور پر خاموشی اختیار کرکے تمام عمومی و اجتماعی امور سے کنارہ کشی کرلیتے اور جتنا ممکن ہو تااپنے اخلاقی و فردی فریضے پر عمل کرتے۔

تمام قرائن و شواہد (جو آئندہ بیان ہوں گے) سے واضح ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام اگر ایسے حالات میں قیام کرتے تو اس نئے اسلام اور نئے معاشرۂ اسلامی کو کوئی فائدہ نہیں پہونچتا لہذا امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ دوسرا راستہ اپناتے۔

پیغمبر اسلام امت کے مرتد ہونے سے خوف زدہ تھے

۱۔ قرآن کریم کی آیتیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام اپنی زندگی میں اسلامی معاشرہ کے مستقبل کے لئے بہت فکر مند تھے، اور مسلسل ناخوشگوار واقعات دیکھنے کے بعد اس احتمال نے انھیں زیادہ سوچنے پر مجبور کردیاتھا کہ کہیں کچھ لوگ ہمارے بعد اپنے جاہلیت کے ماحول کو پھر سے اختیار کرلیں اور سنت الہی کو بھول جائیں۔

یہ خیال اس وقت اور محکم ہوگیاجب جنگ احد میں پیغمبر کے مرنے کی خبر پھیلا کر لوگ میدان جنگ سے فرار ہوگئے اور پیغمبر نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکثر مسلمانوں نے راہ فرار اختیار کرلی. اور پہاڑوں اور دوسرے مقامات پر پناہ لے لی اور بعض افراد نے چاہا کہ منافقوں کے سردار (عبد اللہ ابن ابی) سے بات کرکے ابوسفیان سے امان نامہ لے لیں. اور ان کا ایمان و عقیدہ اتنا پستی کی طرف آگیا کہ خداوند عالم کے متعلق بدگمانی کرنے لگے اورغلط فکریں کرنے لگے. قرآن مجید نے اس راز کا پردہ فاش کردیا (ارشاد قدرت ہے)

۱۵۱

( طَائِفَة قَدْ اهَمَّتْهُمْ َنْفُسُهُمْ یَظُنُّونَ بِاﷲِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ یَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنْ الْامْرِ مِنْ شَیْئٍ ) (۱)

اور ایک گروہ جن کو اس وقت بھی (بھاگنے کی شرم سے) جان کے لالے پڑے تھے خدا کے ساتھ (خواہ مخواہ) زمانہ جاہلیت کی ایسی بدگمانیاں کرنے لگے (اور) کہنے لگے بھلا کیا یہ امر (فتح) کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے۔

قرآن کریم نے دوسری آیت میں پیغمبر کی رحلت کے بعد صحابہ کے درمیان اختلاف و کشیدگی کی بھی خبر دی ہے ارشاد قدرت ہوتا ہے:( وَمَا مُحَمَّد ِلاَّ رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ َفَایْن مَاتَ َوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی َعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَضُرَّ اﷲَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اﷲُ الشَّاکِرِینَ ) (۲)

اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو صرف رسول ہیں ان سے پہلے اور بھی بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں پھر کیا اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو تم الٹے پاؤں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے اور جو الٹے پاؤں پھرے گا (بھی) تو (سمجھ لو) ہرگز خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑے گا اور عنقریب خدا شکر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دے گا۔

یہ آیت پیغمبر کے اصحاب کے دو گروہوں میں تقسیم ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے (ایک ''عصر جاہلیت کی طرف واپس جانا، دوسرے'' ثابت قدم اور شکر گذار ہونا) کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد ممکن ہے مسلمان اختلاف اور گروہوں میں تقسیم ہو جائیں۔

۲۔ سقیفۂ بنی ساعدہ میں موجود افراد کا اگر جائز لیا جائے تو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ اس دن کس طرح سے ایک دوسرے کے رازوں کا پردہ فاش ہو رہا تھا اورایک بار پھر قومی اور خونی تعصب اور جاہلیت کی فکریں پیغمبر کے صحابہ کی زبانی زندہ ہوگئیں تھیں، اور یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ ابھی مکمل طور پر اسلامی تربیت ان کے اندر نفود نہیں ہوئی ہے اور اسلام وایمان صرف ان کے جاہلیت کے چہرے پر پڑا ہے۔

اس تاریخی واقعہ کی تحقیق کرنے کے بعد یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ سقیفہ میں جمع

______________________

(۱) سورۂ آل عمران آیت ۱۵۳

(۲) سورۂ آل عمران آیت ۱۴۴

۱۵۲

ہونے کا ہدف اور ان تقریروں اور لڑائیوں کا مقصد ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ نہ تھا، اور ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ خلافت کے لباس کو خود پہن لے جب کہ حق یہ تھا کہ امت کی بہترین فرد اس خلافت کے لباس کو پہنے ،اور جو چیز اس مجمع یا انجمن سقیفہ میں بیان نہیں ہوئی تھی وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت اور مفاد کا تذکرہ اور خلافت کوایسے شخص کے سپرد کرنا جو اپنی ذہانت و عقلمندی علم و دانش اور بہترین اخلاقی و معنوی روح کے ذریعے اسلام کی کشتی کو نجات کے ساحل تک پہونچاناتھا۔

ایسے حالات میںجب کہ اسلامی عقیدہ لوگوں کے دلوںمیں رسوخ نہیں کیا تھا اور جاہلیت کی رسم و عادت او رپیروی ان کے ذہنوں سے نہیں نکلی تھی اور ہر طرح کی خانہ جنگی، گروہ بندی، معاشرے کو بکھیر دینے اور بہت زیادہ افراد کے بت پرستی اور شرک کی طرف جانے کا امکان تھا۔

۳۔ان تمام چیزوں سے واضح و روشن حضرت علی علیہ السلام کی وہ گفتگو ہے جو آپ نے سقیفہ کے واقع ہونے سے پہلے کی تھی آپ نے اپنی گفتگو میں اتحاد اسلامی کی اہمیت اوراختلاف و تفرقہ کے برے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے مثلاً جب ابوسفیان نے چاہا کہ حضرت علی کو بیعت لینے کے لئے راضی کرے اور اس کے ذریعے اپنے بدترین مقاصد کو عملی جامہ پہنائے تواس وقت امام نے مجمع کی طرف رخ کر کے فرمایا:

''فتنہ و فساد کی موجوں کو نجات کی کشتی سے توڑ دو اور تفرقہ و اختلاف سے پرہیز کرو اور فخر و مباہات ، تکبر و غرور کو دل سے نکال دو. اگر میں کچھ کہوں تو لوگ کہیں گے کہ حکومت کے لالچی ہیں اور اگر خاموشی سے بیٹھ جاؤں تو لوگ کہتے ہیں کہ موت سے ڈرتے ہیں. خدا کی قسم ابوطالب کے بیٹے کے نزدیک موت سے مانوس ہونا ماں کے پستان سے مانوس ہونے سے زیادہ بہتر ہے، اگر علم و آگاہی کے بعد خاموشی اختیار کریں تو گویا ہم بھی انھیں میں سے ہوگئے اور اگر تم بھی ہماری طرح ان چیزوںسے باخبرہوتے توتم بھی گہرے کنویںمیںڈالی ہوئی رسی کی طرح پریشان ولرزاں ہوتے۔''(۱)

جس علم و آگاہی کے متعلق آپ گفتگو کر رہے تھے وہ اختلاف و تفرقہ کا وحشتناک نتیجہ تھا آپ جانتے تھے کہ خلافت کے لئے قیام یا خانہ جنگی کا ہوناا سلام کے مٹ جانے اورلوگوں کا جاہلیت کے

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۵

۱۵۳

عقیدے پر واپس ہو جانے کا باعث تھا۔

۴۔ جس وقت پیغمبر کے انتقال کی خبر نو مسلم قبیلوں کے درمیان منتشر ہوئی اسی وقت ایکگروہ اپنے بزرگوں کے مذہب کی طرف واپس جانے کے لئے تیار ہوگیا اور مرکزی حکومت کی مخالفت کے لئے آمادہ ہوگیا اور جزیہ دینے سے انکار کردیا. سب سے پہلے جو کام مرکزی حکومت نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ جو جنگ کے لئے آمادہ تھا ان کو تیار کیا تاکہ دوبارہ مرکزی حکومت کی اطاعت اور اسلامی قوانین سے انکار نہ کیا جا سکے. اور اس کے نتیجہ میں دوسرے قبیلے والوں کے ذہنوں سے اپنے اپنے مذہب کی طرف واپس جانے کا خیال ہمیشہ کے لئے نکل جائے گا۔

بعض قبیلوں کے مذہب اسلام سے پھر جانے کے علاوہ، یمامہ میں ایک اور فتنہ برپا ہوگیا اور وہ نبوت کا دعوی کرنے والے افراد تھے مثلاً مسیلمہ و سجاح و طلیحہ وغیرہ۔

ایسے حالات میں جب مہاجرین و انصار کے درمیان اتحاد کا خاتمہ ہوچکا تھااوراطراف کے قبیلے والے اپنے پرانے مذہب کی طرف جانے پر آمادہ تھے ،نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے نجد، اور یمامہ میں کھڑے ہوگئے ،ایسے ماحول میں امام کے لئے مناسب نہیں تھا کہ آپ بھی ایک اور محاذ قائم کرتے اوراپنے حق کے لئے قیام کرتے، امام اس خط میں جو آپ نے مصر کے لوگوںکے نام لکھا تھا اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خدا کی قسم، میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ عرب خلافت کو پیغمبر کے خاندان سے لے لیں گے یاہمیں اس کے لینے سے روک دیں گے مگر ہوا وہی، دیکھتے ہی دیکھتے لوگ فلاں شخص کی بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے. یہ دیکھ کر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا یہاں تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پھرنے والے اسلام سے پھر گئے اورحضرت رسول خدا کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ اسلام میں کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے بھی اگر ہم نے اسلام اوراہل اسلام کی نصرت نہ کی تو (اس کوتاہی کی وجہ سے) میرے سر پر وہ مصیبت آپڑے گی جو تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے نکل جانے (کی مصیبت) سے بھی بڑی ہوگی (وہ حکومت) جو حقیقت میں چند دنوں سے زیادہ نہیں ہے

۱۵۴

اور اس کی بودوباش اسی طرح نابود ہوجائے گی جس طرح سراب نابود ہوجاتاہے، یا جیسے بادل چھنٹ جاتا ہے، غرض ان بدعتوں (کے ہجوم) میں ، میں اٹھ کھڑا ہوا یہاں تک کہ باطل کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ نیست و نابود ہوگیا اوردین کو اطمیان نصیب ہوا اور تباہی سے بچ گیا۔(۱)

عثمان کی خلافت کے آغاز میں اس شوریٰ نے جو خلافت کے تعیین کے لئے بنائی گئی تھی جب عثمان کے حق میں رائے دیا اس وقت امام علیہ السلام اس شوریٰ کے عہدہ داروں سے مخاطب ہوئے اور کہا:

''تم خوب جانتے ہو کہ میں منصب خلافت کا تم سب سے زیادہ حقدار ہوں لیکن جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق درست رہے گامیں خلافت سے کنارہ کشی کر سکتا ہوں اگرچہ میرے اوپر ظلم و ستم ہوتا رہے اور اگر میں خاموشی سے کام لوں تو صرف اس بنا پر کہ خدا کے نزدیک میرا اجر و ثواب ملتا رہے گا۔(۲)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

جب علی ـ کو لوگوں نے خلافت سے معزول کردیاتوآپ نے مکمل خاموشی اختیار کرلی ایک دن آپ کی محترم و باعظمت بیوی فاطمہ زہرا نے انھیں اپنے حق کو واپس لینے کے لئے قیام و تحریک کی خاطر متوجہ کیا تواسی وقت مؤذن کی آواز ''اشہد ان محمداً رسول اللہ'' بلند ہوئی آپ نے حضرت زہرا کی طرف رخ کر کے کہا: کیا تم پسند کرو گی کہ زمین پر سے یہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے؟ فاطمہ (س) نے کہا: ہرگز نہیں امام نے فرمایا: یہی بہترین راستہ ہے جسے میں نے اختیار کیاہے۔(۳)

اس موضوع کی اہمیت کے مد نظر اس سلسلے میں کچھ مزیدبحث کریں گے تاکہ امام کے مسلحانہ قیام کے نتائج کی صحیح سندوں کے ساتھ تحقیق کرسکیں۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، نامہ ۶۲

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ا۷

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۱ ص ۱۱۳

۱۵۵

اعلیٰ مقصد کی اہمیت

اجتماعی مسئلوں میں بہت کم ہی مسئلے ایسے ہوتے ہیں جو اہمیت اوردقت کے لحاظ سے مدیریت اور رہبری کے مقام تک پہونچتے ہیں. رہبری کے شرائط اتنے زیادہ دقیق اوراہمیت کے حامل ہیں کہ بڑے اجتماع کے درمیان فقط چند ہی لوگ شرائط پر پورے اتریں گے۔

ہر طرح کی رہبری کے دوران، آسمانی رہبروں کے مراتب دوسرے رہبروں سے بہت سنگین اوران کے فرائض بہت عظیم ہوتے ہیں اور دنیاوی رہبر سماج کے انتخاب کرنے کے بعد ایسے مقام و مرتبہ پر پہونچتے ہیں۔

الہی و معنوی رہبری میں مقصد، مقام و منصب کی حفاظت سے زیادہ بلند و باعظمت ہوتا ہے اور رہبر اس لئے قیام کرتا ہے کہ مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہونچائے اور اگر اس کے سامنے دو راستے ہوں اور مجبور ہو کہ ایک کو چھوڑ دے اوردوسرے کو قبول کرے تو مقصد کے اصول و اساس کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ رہبری کو چھوڑ دے اور مقصد کو اپنے مقام و منصب رہبری سے زیادہ مقدس قرار دے۔

پیغمبر اسلام کے انتقال کے بعد حضرت امیر المومنین علیہ السلام بھی ایسے ہی اہم مسئلہ سے دو چار ہوئے، جب کہ رہبری اور حاکمیت سے ان کا مقصد اس پودے کی دیکھ بھال تھی جو پیغمبر اسلام کے ہاتھوں حجاز کی سر زمین پر لگایا گیا تھا اور ضروری تھا کہ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک تناور اور مضبوط درخت میں تبدیل ہو جائے اور اس کی تمام شاخیں پوری دینا پر چھا جائیں اور لوگ اس کے سائے میں آرام کریں. اور اس کے بابرکت پھلوں سے استفادہ کریں۔

۱۵۶

پیغمبر کے ا نتقال کے بعد امام علیہ السلام اس بات سے بخوبی آگاہ ہوگئے کہ ہم ایسے حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں کہ اگر حکومت پر قبضہ کرنے اوراپنے حق و مقام کے لئے اصرار کریں توایسے حالات رونما ہوں گے کہ پیغمبر اسلام کی تمام زحمتیں او رجواس مقدس مقصد میں آپ کا خون بہا ہے بے کار ہو جائے گا۔

پرانے کینے اور بغض و حسد

اسلامی معاشرہ ان دنوں بہت زیادہ مشکلات و اختلافات اور تفرقہ کا شکار تھا کہ ایک چھوٹی سی خانہ جنگی یا معمولی سی خوں ریزی مدینہ کے اندر یا باہر ایک زبردست جنگ کا سبب بن جاتی. بہت سے قبیلے والے جو مدینہ یا مدینہ سے باہر زندگی بسر کر رہے تھے ان کو حضرت علی سے کوئی محبت و انسیت نہیں تھی بلکہ ان سے بغض او رحسد و کینہ کواپنے دل میں رکھے تھے کیونکہ حضرت علی ہی تھے جنہوں نے ان قبیلوں کے کفر کے پرچم کو سر نگوں کیا تھا او ران کے پہلوانوں کو ذلت کے ساتھ زمین پر گرایا تھا۔

اگرچہ ان لوگوں نے بعد میں اسلام سے اپنے رشتے کو مضبوط کرلیا تھا اور ظاہراً خدا پرستی اور اسلام کی پیروی کر رہے تھے لیکن اسلام کے جانبازوں سے اپنے دل میں بغض و عداوت کو چھپائے ہوئے تھے۔

ایسے حالات میں اگر امام علیہ السلام اپنی قدرت کاملہ سے اپنا حق لینے کے لئے مسلحانہ قیام کرتے تو اس کے نتیجے میں یہ صورتیں پیش آتیں۔

۱۵۷

۱۔ اس جنگ میں امام کے بہت سے عزیز اور ساتھی جو آپ کی امامت و رہبری پر جان و دل سے معتقد تھے شہید ہو جاتے. البتہ جب بھی ان افراد کی قربانیوں کی وجہ سے حق اپنی جگہ واپس آجاتا تو مقصد کے پیش نظر ان کی جانبازی و فداکاری پر اتنا افسوس نہ ہوتا، لیکن جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے. ان افراد کے شہید ہوجانے کے بعد بھی حق، صاحب حق کے پاس واپس نہیں آپاتا۔

۲۔ صرف حضرت علی ہی اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے نہ بچھڑتے، بلکہ بنی ہاشم او رحضرت علی کے سچے پیرو اور دوستوں کے قیام کی وجہ سے پیغمبر کے بہت زیادہ صحابی جو امام کی خلافت پر راضی نہ تھے ان کا ساتھ نہ دیتے اور قتل ہو جاتے اور نتیجتاً مسلمانوں کی قدرت مرکز میں کمزور ہوجاتی، یہ گروہ اگرچہ رہبری کے مسئلے میں امام کے مقابلے میں کھڑا تھا لیکن دوسرے امور میں امام کے مخالف نہیں تھا اور شرک و بت پرستی، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں قدرت مند شمار کیا جاتا تھا۔

۳۔ مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے، دور دراز میں رہنے والے قبیلے جن کی سرزمین پر اسلام کا پودا ابھی قاعدے سے ہرا بھرا نہ ہوا تھا وہ اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں سے مل جاتے اورایک طاقت بن کر ابھرتے اور ممکن تھا کہ مخالفوں کی قدرت و طاقت اور مرکز میں صحیح رہبری نہ ہونے کی وجہ سے، توحید کے چراغ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کردیتے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے اس تلخ و دردناک حقیقت کو بہت نزدیک سے محسوس کیا تھا اسی لئے مسلحانہ قیام پر خاموشی کو ترجیح دیا. بہتر ہے کہ اس مطلب کوامام علیہ السلام کی زبان مبارک سے سنیں۔

عبد اللہ بن جنادہ کہتا ہے:

میںعلی ـکی حکومت کے اوائل میں مکہ سے مدینہ آیا میں نے دیکھا کہ تمام لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے اورامام کی آمد کے منتظرتھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ علی اپنی تلوار لٹکائے ہوئے گھر سے باہر آئے. تمام لوگوں کی نگاہیں ان کی طرف تھیں یہاں تک کہ آپ مسند خطابت پر جلوہ افروز ہوئے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کیا۔

۱۵۸

''اے لوگو، آگاہ رہو! جب پیغمبر اسلام ہمارے درمیان سے اٹھ گئے تو اس وقت ضروری تھا کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ حکومت کے سلسلے میں نزاع و اختلاف نہ کرتا اور اسے لالچی نگاہوں سے نہ دیکھتا کیونکہ ہم ان کی عترت کے وارث اوران کے ولی ہیں لیکن توقع کے خلاف ، قریش کے ایک گروہ نے ہمارے حق کی طرف ہاتھ بڑھایا. خلافت کو ہم سے چھین لیا اور اس پر قابض ہوگئے، خدا کی قسم، اگر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اوراختلاف کا ڈرنہ ہوتا اور پھر ان کے اسلام سے بت پرستی اور کفر کی طرف پلٹ جانے کا خطرہ نہ ہوتا اوراسلام کے مٹ جانے اور ختم ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو نقشہ کچھ او رہی ہوتا جس کا تم مشاہدہ کرتے۔(۱)

کلبی کہتا ہے:

جب علی ـ ، طلحہ وزبیر جیسے لوگوں کو بے وفائی اورعہد شکنی پر متنبہ کرنے کے لئے بصرہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''جس وقت خدا نے اپنے پیغمبر کی روح قبض کیا اس وقت قریش نے اپنے کو محترم سمجھ کر اپنے آپ کو ہم پر مقدم سمجھا اورہمارے حق کو ہم سے چھین لیا، لیکن میں نے صبر و بردباری کو اس کام سے بہتر سمجھا کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف اور ان کا خون بہہ جائے، کیونکہ لوگوںنے ابھی ابھی اسلام قبول کیا تھا اوردینی بیداری ان کے اندر ابھی ابھی سرایت ہوئی تھی. اور تھوڑی سی غفلت انھیں خراب کردیتی اورایک معمولی شخص بھی انھیں بدل ڈالتا۔(۲)

ابن ابی الحدید جو حضرت علی سے محبت اور خلفاء سے تعصب رکھتا ہے صحابہ کے بعض گروہ جو حضرت علی سے کینۂ و عداوت رکھتے تھے ان کے بارے میں لکھتا ہے :

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱ ص ۳۰۷

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۸ ص۳۰

۱۵۹

تجربہ سے یہ ثابت ہے کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ کینہ اور حسد کی آگ فراموش ہوجاتی ہے اور کینوں سے بھرے ہوئے دل سرد ہو جاتے ہیں اور اسی طرح زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک نسل ختم ہو جاتی ہے تو دوسری نسل اس کی جانشین بن جاتی ہے اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیرینہ کینہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہو جاتا ہے ،جس دن حضرت علی مسند خلافت پر بیٹھے پیغمبر کو گزرے ہوئے پچیس سال ہوچکے تھے اور امید یہ تھی کہ اس طولانی مدت میں لوگ اپنے دلوں سے کینہ و عداوت کو بھلا بیٹھے ہوں گے لیکن امید کے برخلاف حضرت علی کے مخالفوں کی روح و مزاج بدلے نہیں تھے اور علی ـ سے کینہ و عداوت جو پیغمبر کے زمانے یا ان کے بعد لئے ہوئے ختم نہیں ہوئے تھے یہاں تک کہ فرزندان قریش، ان کے جوان اور نئی نسلیں جنھوں نے اسلام کے خونین جنگوں، واقعہ کودیکھا بھی نہ تھا اور امام کی شجاعت و بہادری کو جنگ بدر، احد وغیرہ میںقریش کے خلاف مشاہدہ نہیں کیا تھا اپنے بزرگوں کی طرح حضرت علی سے بہت سخت دشمنی و عداوت رکھتے تھے اور ان سے کینے کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے۔

چنانچہ امام علیہ السلام ایسے حالات میں پیغمبر کے انتقال کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے اور حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور مخالفین کے دل میں حسد کی آگ بھڑکنے لگی، اور ایسے ایسے حالات رونماہوئے کہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام مٹنے اور مسلمان نابود ہونے لگے اورجاہلیت اسلامی ملکوں سے ختم نہ ہوئی۔(۱)

امام علیہ السلام اپنی ایک تقریر میں اپنے مسلحانہ قیام کے نتیجہ کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

پیغمبر کے انتقال کے بعد میں نے اپنے کام میں بہت غور و فکر کی او رقریش کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے اپنے اہلبیت کے علاوہ کسی کو اپنا مددگار و ناصر نہ پایا لہذا ان کی موت پر راضی نہ ہوا اور اس آنکھ کو جس میں خس و خاشاک تھے اسے بند کرلیا اور گلے میں جو ہڈی اٹکی تھی اسے نگل گیااور زہرسے زیادہ تلخ حوادث و واقعات پر صبر کیا۔(۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۱ ص ۱۱۴ خطبہ ۳۱۱

(۲)فَنَظَرْتُ فَاِذَا لَیْسَ لِیْ مُعِیْن الّٰا اَهْلُ بَیْتِیْ فَضَنَنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ وَ اغْضَیْتُ عَلٰی الْقَذٰیٰ وَ شَرِبْتُ عَلَی الشّٰجٰی وَ صَبَرْتُ عَلَی اَخْذِ الْکَظَمِ وَ عَلَی اَمرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ، نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۲۶ اور خطبہ نمبر ۲۱۲میں بھی ایساہی مضمون ہے۔

۱۶۰