فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341277
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341277 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مسلمانوں کا اتحاد

مسلمانوں کا متحد ہونا امام علیہ السلام کی سب سے بڑی خواہش و آرزو تھی آپ بخوبی جانتے تھے کہ اسی اتحاد نے پیغمبر اسلام کے زمانے میں بڑے بڑے سرکشوں کے دلوں پر اپنا رعب بٹھا رکھا تھا اور بڑی بڑی طاقتوں کو ختم کردیا تھا اور اسلام کا پیغام بہت تیزی سے پھیل رہا تھا لیکن اگر یہی اتحاد و وحدت مسئلہ رہبری کے وقت ختم ہوگیا تو مسلمان بہت سی مصیبتوں اور مشکلات اور اختلاف کا شکار ہوجائیں گے خصوصاً قریش کے بعض گروہ جو اسلام کے دشمن تھے اور بہانہ تلاش کر رہے تھے تاکہ اسلام کے اوپر حملہ کریں۔

مہاجرین کے درمیان بہانہ کی تلاش میں سہیل بن عمرو، حارث بن ہشام، عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے جو زمانہ قدیم سے مسلمانوں خصوصا انصار کے دشمن تھے، لیکن کسی علت کی وجہ سے ظاہراً اسلام لائے اور کفر و بت پرستی کو چھوڑ دیا. جب انصار، سقیفہ میں شکست کھانے کے بعد امام کی حمایت میں اٹھے اور لوگوںکو آپ کی پیروی کی دعوت دی تو یہ افراد بہت زیادہ ناراض ہوئے اور اہل خلافت سے کیا کہ انصار سے گروہ خزرج کو بیعت کے لئے بلائیں اور اگر بیعت کرنے سے انکار کریں تو ان سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔

ان تینوں افراد(سہیل بن عمرو، حارث بن ہشام، عکرمہ بن ابوجہل) نے مجمع عام میں تقریریں کیں. ابوسفیان بھی ان کے ساتھ ہولیا. ان لوگوں کے مقابلے میں انصار کاایک خطیب ثابت بن قیس مہاجرین پر تنقید کرنے کے لئے اٹھا اور ان کی تقریروں کا جواب دیا۔مہاجرین وانصار کے درمیان مدتوں بحث و مباحثہ تقاریر اور اشعار کے ذریعے جنگ چلتی رہی اور طرفین کی تقریر و اشعار کو ابن ابی الحدید نے اپنی شرح میں بیان کیا ہے۔(۱)

ان حالات کو مد نظر رکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کیوں امام علیہ السلام نے خاموشی کو مسلحانہ قیام پر ترجیح دی اور کس طرح دور اندیشی اورتدبیر سے اسلام کی کشتی کو طوفان کے تھپیڑ وں سے نکال کر ساحل نجات کی طرف رہبری کی. اگر مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق سے الفت نہ ہوتی اور برے انجام واختلاف اور تفرقہ بازی کا ڈر خوف نہ ہوتا تو آپ ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ مقام و منصب رہبری آپ کے علاوہ کسی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۶ ص ۴۵۔ ۲۳

۱۶۱

دوسرے کے پاس ہوتا۔

واقعہ سقیفہ ہی کے زمانے میں حضرت علی کے ایک محب نے آپ کی شان میں کچھ اشعار کہے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے:

''میں نے ہرگز یہ فکر نہیں کیا تھا کہ امت کی رہبری کو بنی ہاشم کے خاندان اورامام ابوالحسن سے چھین لیں گے''

کیا حضرت علی سب سے پہلے شخص نہیں ہیں جنھوں نے تمہارے قبلہ کی طرف نماز پڑھی؟ اور کیا قرآن اورسنت پیغمبر کا تم سے زیادہ علم نہیں رکھتے؟

کیا وہ پیغمبر کے سب سے قریبی نہ تھے؟ کیا وہ، وہ شخص نہیں ہیں کہ جبرئیل نے جس کی پیغمبر کو غسل و کفن ودفن دیتے وقت مدد کی؟(۱)

جب امام اس کے اشعار سے باخبر ہوئے تو آپ نے ایک قاصد بھیجا کہ اس کو جاکر اشعار پڑھنے سے منع کردے اور آپ نے فرمایا:

''سَلاٰمَةُ الدِّیْنِ اَحَبُّ اِلَیْنٰا مِنْ غَیْرِهِ''

اسلام کا تمام اختلافات سے محفوظ و سالم رہنا ہمارے لئے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے۔

جنگ صفین میں بنی اسد کے قبیلے کے ایک شخص نے امام سے پوچھا: کس طرح سے قریش نے آپ کو مقام خلافت سے دور کردیا؟ حضرت علی اس کے بے موقع سوال سے ناراض ہوگئے، کیونکہ آپ کے سپاہیوں کے بعض گروہ خلفاء کو مانتے تھے اور اس طرح کے مسائل کی وجہ سے سپاہیوں کے درمیان اختلاف ہو جاتا لہذا امام نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:

اس احترام کا خیال کرتے ہوئے کہ تو پیغمبر پر ایمان لایا اور یہ کہ ہر مسلمان کو سوال کرنے کا حق ہے تمھیں مختصراً اس سوال کا جواب دے رہا ہوں. امت کی رہبری پر میرا حق تھا اور میرے اور پیغمبر کے درمیان جو رشتہ تھا وہ دوسروں سے بہتر تھا لیکن بعض گروہوں نے اس سے بخل کیا اور بعض گروہ نے اس سے

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۶، ص ۲۱

۱۶۲

چشم پوشی کرلی اور میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا خدا ہے اور سب کواسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جانا ہے۔(۱)

یہ تمام مطالب جو بیان ہوئے ہیں وہ سب حضرت علی کی خاموشی کی علتیں تھیں آپ نے اسلام کی حفاظت کے لئے اپنے حق کو چھوڑ دیا اور پچیس سال تک خاموشی کی زندگی بسر کرتے رہے اور زہر سے زیادہ تلخ شربت خاموشی پیتے سے رہے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۵۷

۱۶۳

دوسری فصل

خلفائے ثلاثہ کی خلافت اور امیر المومنین کا طریقۂ کار

اہلسنت کے محقق و دانشمند ،جنھوں نے نہج البلاغہ شرحیں لکھی ہیں امام کے بیانات کو خلافت کے سلسلے میں اپنی شائستگی کا تجزیہ کیاہے اوران تمام چیزوں سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ امام کا مقصد ان بیانوں سے خلافت کے متعلق اپنی شائستگی دکھانا ہے بغیر اس کے کہ پیغمبر کی طرف سے ان کی خلافت پر نص وارد ہو۔دوسرے لفظوں میں، چونکہ حضرت علی پیغمبر کے سب سے قریبی رشتہ دار اور داماد تھے اورعلم و دانش کے اعتبار سے سب سے بلند تھے اور عدالت کے اجراء کرنے اور سیاست سے باخبر اور حکومت چلانے میں مہارت وغیرہ کی وجہ سے پیغمبر کے تمام صحابہ سے افضل تھے اس لئے بہتر تھا کہ امت آپ کو خلافت کے لئے منتخب کرتی، لیکن چونکہ امت کے سرداروں نے ان کے علاوہ دوسروں کو منتخب کیا تھا اسی لئے امام نے اس طرح شکوہکیا ہے: میں خلافت و ولایت کے لئے دوسروں سے زیادہ سزاوار ہوں۔وہ حق جس کا امام ہمیشہ یاتذکرہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جس دن سے پیغمبر کا انتقال ہوا ہے اسی دن سے مجھے لوگوںنے اس حق سے محروم کردیا ہے وہ شرعی حق نہیں تھا جو صاحب شریعت کی طرف سے انھیں دیا گیا تھاکہ دوسروں کوان پر مقدم کرنا شریعت کے قوانین کی مخالفت کرنا تھا. بلکہ یہ حق ایک فطری حق تھا اور ہر شخص پر لازم تھا کہ بہترین فرد کے ہوتے ہوئے دوسروں کو منتخب نہ کریں اور امت کی باگ ڈور کو امت کے سب سے زیادہ علم رکھنے والے صاحب بصیرت اور لیاقت رکھنے والے کے سپرد کرے لیکن اگر کوئی گروہ مصلحت کی وجہ سے اس فطری قانون کی پیروی نہ کرے اور اس کام کواس شخص کے حوالے کردے جو علم، قدرت اور روحی و جسمی اعتبار سے کم مرتبہ رکھتا ہو توایسی صورت میں جو شخص ان تمام امور میں اعلیٰ مراتب پر فائز ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان سے گلہ و شکوہ کرے اور کہے:

''فَوَ اللّٰهِ مَازِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّی مُستأَثَراً عَلیّ مُنْذ أن قَبْض اللّٰهُ نَبِیَّهُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلهِ وَسَلَّمْ حَتّٰی یَوْمَ النّٰاسِ هٰذَا'' (۱)

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۵

۱۶۴

خدا کی قسم ، جس دن خدا نے پیغمبر کی روح کو قبض کیا اس دن سے آج تک میں اپنے حق سے محروم رہا ہوں۔

امام علیہ السلام نے یہ گلہ اس وقت کیا جب طلحہ و زبیر نے آپ سے لڑنے کے لئے پرچم کو بلند کیا تھا اور بصرہ کو اپنا مورچہ بنایا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ شارحین نہج البلاغہ نے جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خلافت کے لئے حضرت علی کی شائستگی ، ذاتی تھی ،یہ ان کی خام خیالی ہے اور امام کی باتوں کو ذاتی شائستگی پر حمل نہیں کر سکتے کیونکہ ذاتی شائستگی خلفاء پر آپ کی سخت تنقید کی مجوز نہیں بن سکتی اس لئے کہ

اولاً: امام نے اپنی تقریر میں بعض موقعوں پر پیغمبر اسلام کی وصیت پر تکیہ کیا ہے ، مثلاً جب آپ خاندان نبوت کا تعارف کراتے ہیں تو فرماتے ہیں:

''هم موضعُ سرِّهُ و ملجأ امرِه و عِیبةُ علمِه و موئِلُ حکمِه و کهوفُ کتبِه و جبالُ دینِه... لایقاسُ بآلِ محمدٍصلی اللّٰه علیه وآله وسلم من هذه الامة احد... هم أساسُ الدینِ و عمادُ الیقینِ الیهم یفیئُ الغالی و بهم یلحقُ التالی. و لهم خصائصُ حقِ الولایة و فیهم الوصیةُ و الوراثة'' (۱)

خاندان نبوت پیغمبر کے رازدار اوران کے فرمان کی پناہ گاہ ، ان کے علم و حکمت کا منبع و مخزن ان کی کتاب کی حفاظت کرنے والے، اور ان کے مذہب کو مستحکم کرنے والے ہیں، امت میں سے کسی شخص کا بھی قیاس ان سے نہیں کرسکتے. وہ دین کی اساس اور ایمان و یقین کے ستون ہیں راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگ ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور پناہ لینے والے ان سے ملحق ہوتے ہیں اور امامت کی خصوصیات (علوم و معارف اور دوسرے تمام شرائط امامت) ان کے پاس ہیں اور پیغمبر کی وصیت ان کے بارے میں ہے اور یہی لوگ پیغمبر کے وارث ہیں۔

اس جملے سے کہ پیغمبر کی وصیت ان لوگوں کے بارے میں ہے امام کی مراد کیاہے؟

لفظ ولایت پر غور کرنے کے بعد''ولهم خصائص الولایة'' واضح ہوتا ہے کہ وصیت سے مراد

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۲

۱۶۵

ان لوگوں کے لئے خلافت کی وصیت اور ولایت کی سفارش ہے جو غدیر کے دن اور دوسرے دنوں میں بطور واضح بیان ہوئے ہیں۔

ثانیاً: لیاقت و صلاحیت اور شائستگی ہی صرف حق کو ثابت نہیں کرتی جب تک کہ دوسرے شرائط بھی موجود نہ ہوں. مثلاً لوگوں کا انتخاب کرنا جب کہ امام نے اپنے بیان میں اپنے حق کے متعلق کہا ہے اور کہا کہ پیغمبر کے بعد ان کا حق پامال کیا گیا. دوسرے لفظوں میںیوں کہوں کہ اسلام میں رہبری کی مشکل کا حل اگر مشورہ، مذاکرہ، یا عمومی افکار ہو تو ایسی صورت میں وہ شخص (جو گرچہ تمام جہتوں سے دوسروں پر فضیلت و برتری رکھتا ہے) اگر ایسے مقام و منصب کے لئے منتخب نہ ہو تو اپنے کو صاحب حق نہیں کہہ سکتا تاکہ لوگوں کے تجاوز کو ایک قسم کے ظلم و ستم سے تعبیر کرے اور جواس کی جگہ پر منتخب ہوا ہے اس پر اعتراض کرے. جب کہ تمام خطبوں میں امام علیہ السلام کا لہجہ اس کے برخلاف ہے، وہ اپنے کو اس خلافت کا مکمل حقدار سمجھتے تھے اور اس پر تجاوز کرنے کو اپنے اوپر ایک قسم کے ظلم و ستم سے تعبیر کرتے تھے اور قریش کو اپنے حق کا غاصب بتایا، چنانچہ آپ نے فرمایا: بار الہا! قریش کے مقابلے میں اور جن لوگوں نے ان کی مدد کی ہے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما،کیونکہ ان لوگوںنے مجھ سے قطع تعلق کیا ہے اور میرے عظیم منصب کو حقیر سمجھا ہے اور ان لوگوں نے آپس میں یہ طے کیاہے کہ خلافت کے سلسلے میں جو کہ میرا حق ہے جنگ کریں۔(۱)

کیا ایسے تند جملوں کوذاتی شائستگی کے حوالے سے توجیہ کرسکتے ہیں؟ اگر مسئلہ خلافت عمومی افکار اور بزرگ اصحاب سے رجوع کر کے حل کیا جاسکتا تو کس طرح امام علی علیہ السلام فرماتے کہ ''وہ لوگ میرے مسلّم حق کے بارے میں مجھ سے لڑائی و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے''؟

جس وقت صفین میں حضرت علی اور معاویہ کے درمیان جنگ ہو رہی تھی ایک شخص حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: قریش نے آپ کو کس طرح سے مقام خلافت سے دور کر دیا جب کہ آپ ان تمام لوگوں سے افضل و برتر تھے؟

امام اس کے بے وقت سوال سے ناراض ہوگئے لیکن نرمی اور ملایمت سے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

____________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۱۶۷،''اللهم انی استعینک علی قریش...''

۱۶۶

''ایک گروہ نے بخل سے کام لیا اور ایک گروہ نے چشم پوشی کی اور ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا خدا ہے اور سب کو اسی کی بارگاہ میں واپس جانا ہے''(۱)

واقعہ سقیفہ گزرنے کے بعد ایک دن ابوعبیدہ بن جراح نے امام سے کہا: اے ابوطالب کے بیٹے،تم خلافت کو کتنا محبوب رکھتے ہو اوراس کے حریص ہو. امام نے اس کے جواب میں کہا: خدا کی قسم تم ہم سے زیادہ خلافت کے لالچی ہو، جب کہ لیاقت اور شرائط کے اعتبار سے اس سے بہت دور ہو اور میں اس سے بہت نزدیک ہوں میں اپنے حق کو طلب کر رہا ہوں اور تم میرے اور میرے حق کے درمیان مانع ہو رہے ہو. او رمجھے میرے حق سے روک رہے ہو''(۲)

یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے کہ خلفاء کی خلافت پراس طرح کی تنقیدوں کو ذاتی لیاقت و شائستگی سے توجیہ کریں. یہ تمام بیانات او رتعبیریں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ امام ـ خلافت کو اپنا حقیقی حق سمجھتے تھے. اور اپنے سے ہر طرح کے انحراف کو حق سے انحراف جانتے تھے، اور ایسا حق نص اور تعیین الہی کے علاوہ کسی کے لئے ثابت نہیں ہے۔

اس طرح کی تعبیروں کواصلحیت اور اولویت سے بھی تفسیرنہیں کر سکتے ،اور جن لوگوں نے امام کے کلام کی اس طریقے سے تفسیر کی ہے وہ اپنے غلط نظریے کوبھی صحیح سمجھتے ہیں۔

البتہ بعض موقعوں پر امام نے اپنی لیاقت و شائستگی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور مسئلہ نص کو نظرانداز کیا ہے مثلاً آپ فرماتے ہیں:جب ''پیغمبر کی روح قبض ہوئی تو ان کا سر میرے سینے پر تھا میں نے انھیں غسل دیا. اور فرشتے میری مدد کر رہے تھے گھر کے اطراف سے نالہ و فریاد کی آوازیں بلند تھیں ،فرشتے گروہ بہ گروہ زمین پر آتے تھے اور نماز جنازہ پڑھ کر واپس چلے جاتے تھے اور میں ان کی آوازوں کو سنتا تھاپس کون شخص مجھ سے پیغمبر کی زندگی او رموت میں ان کی جانشینی و خلافت کے لئے مجھ سے زیادہشائستہ ہے؟(۳)

____________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۷۵

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۶۷

(۳) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۹۲

۱۶۷

خطبہ شقشقیہ جو آپ کا مشہور خطبہ ہے حضرت اپنی لیاقت و شائستگی کو لوگوں کے سامنے یوں پیش کرتے ہیں:

''اما واللّهِ لقد تقمصَّها ابنُ ابی قحافه و انه لیعلمُ ان محلی منها محلُ القطبِ من الرّحی ینحدرُ عنی السیلُ و لایرقی الیَّ الطیر...'' (۱)

خدا کی قسم! ابوقحافہ کے بیٹے نے خلافت کو لباس کی طرح سے اپنے بدن پر پہن لیا ہے جب کہ وہ جانتا ہے کہ خلافت کی چکی میرے اردگرد چل رہی ہے ہمارے کوہسار وجود سے بہت سے علوم کے چشمے جاری ہوتے ہیں اور کسی کی فکر بھی ہماری کمترین فکر تک نہیں پہونچ سکتی۔

بعض موقعوں پر آپ قرابت و رشتہ داری کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ''و نحن الاعلون نسباً و الاشدون برسول الله نوطاً'' (۲) ہمارا نسب سب سے بلند ہے اور رسول خدا سے ہم بہت قریب ہیں۔

البتہ امام علیہ السلام نے جو یہاں پر پیغمبر سے رشتہ داری کو بیان کیا ہے وہ صرف اہل سقیفہ کے مقابلے میں ہے چونکہ ان لوگوں نے پیغمبر کے ساتھ اپنی رشتہ داری کو بیان کیا تھا اسی وجہ سے امام علیہ السلام جب ان کے طریقہ کار سے آگاہ ہوئے تو ان کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا:

''اِحْتَجُّوْا بِالشَّجَرَةِ وَ اَضٰاعُوْا الثَّمَرَةِ'' (۳)

(انہوں نے شجرہ سے تو استدلال کیا ہے مگر پھل کو ضایع کردیاہے ۔مترجم)

____________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۳

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۵۷

(۳) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۶۴

۱۶۸

تیسری فصل

حضرت علی ـسے بیعت لینے کا طریقہ

یہ باب تاریخ اسلام کا سب سے دردناک اور تلخ ترین باب ہے جس نے بیدار دلوں کو سخت غم و اندوہ میں مبتلا کردیاہے اور ان کے دل سوز غم سے جل رہے ہیں. تاریخ کے اس باب کواہلسنت کے دانشمندوں نے اپنی کتابوں میں مختصر اور بہت کم لکھا ہے لیکن علمائے شیعہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، شایدقارئین کرام میں کچھ ایسے بھی افراد ہوںجو خانۂ وحی پر تجاوز و زیادتی کرنے والوں کے واقعات کواہلسنت کے مؤرخین اور محدثین کی زبان سے سننا چاہتے ہوں. اسی وجہ سے اس باب میںہم واقعات کو اہلسنت کے مصادر و مدارک سے تحریر کر رہے ہیںتاکہ شکی اور دیر میں یقین کرنے والے افراد اس تلخ واقعہ پر یقین کرلیں. اس باب میں اس چیز کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جسے مشہور مؤرخ ابن قتیبہ دینوری نے اپنی کتاب ''الامامة و السیاسة'' میں نقل کیا ہے ہم اس باب کا تجزیہ اور تحلیل بعد میں کریں گے، تمام مؤرخین اہلسنت اس بات پر متفق ہیں کہ ابھی سقیفہ کی بیعت کو زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ خلافت کے ماننے والوں نے ارادہ کیا کہ حضرت علی ، عباس، زبیر اور تمام بنی ہاشم سے ابوبکر کی بیعت لیں، تاکہ ابوبکر کی خلافت میں اتحاد و اتفاق نظر آئے اور ہر قسم کی رکاوٹ اور مخالفت، خلافت کے راستے سے ختم جائے۔واقعہ سقیفہ کے بعد بنی ہاشم او رمہاجرین کے بعض گروہ اور امام کے ماننے والے بعنوان اعتراض حضرت فاطمہ زہرا (س) کے گھر میں جمع ہوگئے تھے. فاطمہ زہرا (س) کے گھر میں رہنے کی وجہ سے کہ جو پیغمبر کے زمانے میں ایک خاص اہمیت کا حامل تھا اہل خلافت کے لئے مانع ہو رہا تھا کہ وہ فاطمہ کے گھر پر حملہ کریں اور وہاں پر موجود افراد کو زبردستی مسجد میں لے جا کر ان سے بیعت لیں۔مگر آخر میں ہوا وہی، انھوںنے جیسا سوچا تھا ویسا ہی کرڈالا اور اس گھر کو جو وحی الہی کا مرکز تھا نظرانداز کردیا. خلیفہ نے عمر کو ایک گروہ کے ساتھ بھیجا تاکہ جس طرح بھی ممکن ہو پناہندگان کو فاطمہ کے گھر سے نکال کر سب سے بیعت لے لیں، عمر جن لوگوں کے ساتھ آئے ان میں اسید بن حضیر و سلمہ بن سلامہ و ثابت بن قیس اور محمد بن سلمہ بھی تھے۔(۱) حضرت فاطمہ (س)کے گھر کی طرف آئے تاکہ پناہ لینے والوں

______________________

(۱) ابن ابی الحدید نے ان تمام لوگوں کا نام اپنی شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۵۰ پر لکھا ہے۔

۱۶۹

کو خلیفہ کی بیعت کرنے کی دعوت دیں اور اگر ان لوگوں نے اب کی درخواست کا صحیح جواب نہیں دیا تو ان کو زبردستی گھر سے نکال کر مسجد کی طرف لے آئیں. عمر نے گھر کے سامنے بلند آواز سے کہا کہ تمام پناہ لینے والے جلد سے جلد گھر سے باہر آجائیں لیکن ان کے کہنے کا کوئی اثر نہ ہوا اور لوگ گھر سے باہر نہ نکلے۔

اس وقت عمر نے لکڑی منگوائی تاکہ گھر میں آگ لگادیں اور گھر کو پناہ لینے والوں پر گرادیں لیکن اسی کے ساتھیوں میں سے ایک شخص آگے بڑھا تاکہ خلیفہ کواس کام سے منع کرے اس نے کہا کہ تم کس طرح اس گھر میں آگ لگاؤ گے جب کہ اس گھر میں پیغمبر کی بیٹی موجود ہیں؟ انہوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا : فاطمہ کا اس گھر میں موجود ہونا میرے کام کے انجام دینے کو روک نہیں سکتا۔

اس وقت حضرت فاطمہ دروازے کے پیچھے آئیں اور کہا:

''میں نے کسی کو بھی ایسا نہ دیکھا کہ جو برے وقت میں تمہاری طرح سے ہوتا تم نے رسول خدا کے جنازے کو ہمارے درمیان چھوڑ دیا اور خود اپنی خواہش سے خلافت کے بارے میں فیصلہ کرلیا کیوں اپنی حکومت کو ہم پر تحمیل کر رہے ہو اور خلافت کو جو کہ ہمارا حق ہے ہمیں واپس نہیں کرتے؟

ابن قتیبہ لکھتا ہے:

عمر نے اس مرتبہ لوگوں کو گھر سے نہیں نکالا اور اپنے ارادے سے باز آگئے اور پھر خلیفہ کے پاس آئے اور تمام حالات سے آگاہ کیا خلیفہ جانتے تھے کہ پناہ لینے والوں سے مخالفت کی وجہ سے کہ جس میں مہاجرین اور بنی ہاشم کی بزرگ شخصیتیں تھیں ان کی حکومت کی ساکھ مستحکم نہیں ہوگی. اس مرتبہ انہوں نے اپنے غلام قنفذ کو حکم دیا کہ جائے اور علی کو مسجد میں لے کر آئے وہ دروازے کے پاس آیا اور علی علیہ السلام کو آواز دی اور کہا: رسول خدا کے خلیفہ کے حکم سے مسجد میں آئیے۔

جب امام نے قنفذ کے منھ سے یہ جملہ سنا، تو کہا:اتنی جلدی رسول خدا پر کیوں جھوٹ کی تہمت لگا رہے ہو؟

پیغمبر نے کب انھیں اپنا جانشین بنایا ،کہ وہ رسول خدا کا خلیفہ ہوں؟

۱۷۰

غلام ناامید ہو کر واپس چلا گیا اور خلیفہ کو سارے حالات سے آگاہ کیا۔

خلیفہ کی طرف سے باربار دعوت کے مقابلے میں پناہ لینے والوں کے دفاع اور مقاومت نے خلیفہ کو سخت ناراض اور غصہ میں ڈال دیا. بالآخر عمر دوسری مرتبہ اپنے گروہ کے ساتھ فاطمہ (س) کے گھر آئے جب جناب فاطمہ نے حملہ آوروں کی آواز سنی تو دروازے کے پیچھے سے نالہ و فریاد بلند کیا اور کہا:

''اے بابا! پیغمبر خدا ، آپ کے مرنے کے بعد خطاب کے بیٹے اور قحافہ کے بیٹے نے کتنی مصیبتوں اور پریشانیوں میں گرفتار کردیا ہے۔

حضرت فاطمہ (س) کی نالہ و فریاد جو ابھی اپنے بابا کے سوگ میں بیٹھی تھیں اتنا دردناک تھا کہ عمر کے ساتھ آنے والے افراد زہرا کے گھر پر حملہ کرنے سے باز آگئے اور وہیں سے روتے ہوئے واپس چلیگئے، لیکن عمر اور ایک گروہ جو حضرت علی اور بنی ہاشم سے بیعت لینے کے لئے اصرار کر رہا تھا ان لوگوں کو زور و زبردستی کر کے گھر سے باہر نکالا اور اصرار کیا کہ حتماً ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کریں. امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر بیعت نہ کریں تو کیا ہوگا؟ ان سب نے کہا: قتل کردیئے جائیں گے۔

حضرت علی علیہ السلام نے کہا: کس میں جرأت ہے جو خدا کے بندے اور رسول خدا کے بھائی کو قتل کرے ؟

حضرت علی نے جب خلیفہ کے نمائندوں کو سختی سے جواب دیاتو وہ لوگ ان کو ان کے حال پر چھوڑ گئے۔

امام علیہ السلام نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور درد دل کے لئے رسول خدا کی قبر کے پاس گئے اور وہی جملہ جو ہارون نے موسیٰ سے کہا تھا اسے دہرایا اور کہا: اے بھائی! آپ کے مرنے کے بعد اس گروہ نے مجھے مجبور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیں۔(۱)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۱۳۔ ۱۲

۱۷۱

خانۂ وحی پر حملے کے بارے میں تاریخ کا انصاف

سقیفہ کے بعد کے حوادث تاریخ اسلام اور امیر المومنین (ع) کی زندگی کے دردناکترین اور تلخ ترین حوادث میں سے ہیں اس بارے میں حقیقت بیانی اور صاف گوئی ایک ایسے گروہ کی رنجش کا سبب بنے گا جو ان واقعات کے بیان کرنے میں تعصب سے کام لیتے ہیں اور حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نہ ہو اور ان کی پاکیزگی و قداست محفوظ رہے، کیونکہ حقیقت کو پوشیدہ اور برعکس بیان کرنا تاریخ اور آئندہ آنے والی نسل کے ساتھ ایک خیانت ہے اور ہرگز ایک آزاد مؤرخ اس بدترین خیانت کو اپنے لئے نہیں خریدتا اور دوسروں کی نگاہ میں اچھا بننے کے لئے حقیقت کو پوشیدہ نہیں کرتا۔ابوبکر کے خلیفہ بننے کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ خانۂ وحی اور حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ ہے اس ارادے سے کہ پناہ لینے والے حضرت زہرا(س) کے گھر کو چھوڑ کر بیعت کرنے کے لئے مسجد میں آئیں اس موضوع کی صحیح تشریح اور نتیجہ گیری کے لئے ضروری ہے کہ قابل اطمینان منابع و مأخذ ہوں،چاہے وہ صحیح نتیجہ دیں یا غلط، اور ضروری ہے کہ ان باتوں کا تجزیہ کریں اور پھر اس واقعہ کے نتیجے کے بارے میں انصاف کریں اور وہ تین باتیں یہ ہیں:

۱۔ کیا یہ صحیح ہے کہ خلیفہ کے سپاہیوں نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت فاطمہ (س) کے گھر کو جلادیں؟ اور اس بارے میں انھوں نے کیا کیا؟

۲۔ کیا یہ صحیح ہے کہ امیر المومنین کوبڑی بے دردی اور اذیت کے ساتھ مسجد لے گئے تاکہ ان سے بیعت لیں؟

۳۔ کیا یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کی بیٹی اس حملے میں شدید طور پر زخمی ہوئیں اور آپ کے شکم میں موجود بچہ ساقط ہوگیا؟

اس واقعہ کے تین حساس موضوع پر علمائے اہلسنت کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہوئے گفتگو کریں گے۔

اسلامی تعلیمات میں سب سے اہم تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہو مگر یہ کہ پہلے اجازت لے اور اگر گھر کا مالک مہمان قبول کرنے سے معذور ہو اور عذر خواہی کرے تو اسے قبول کرے اور بغیر اس کے کہ ناراض ہو وہیں سے واپس چلا جائے۔(۱) قرآن مجید نے اس اخلاقی تعلیم کے علاوہ ہر اس گھر کو جس میں خدا کی عبادت ہوتی ہے اور اس کا صبح و شام ذکر ہوتا ہے اسے محترم اور لائق احترام جانا ہے۔

______________________

(۱) سورۂ نور، آیت ۲۸۔ ۲۷،''یا ایها الذین آمنوا لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا...''

۱۷۲

( فِی بُیُوتٍ اذِنَ اﷲُ انْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیهَا اسْمُهُ یُسَبِّحُ لَهُ فِیهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ) (۱)

خداوند عالم نے اس گھر کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے کہ جس میں پاک و پاکیزہ افراد صبح و شام خدا کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ان گھروں کا احترام خدا کی عبادت و پرستش کی وجہ سے ہے کہ جو اس میں انجام دیا جاتا ہے اور یہ ان خدا کے بندوں کی وجہ سے ہے جو اس گھر میں خدا کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہیں ورنہ اینٹ اور مٹی کبھی بھی نہ احترام کے لائق رہے ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔

مسلمانوں کے تمام گھروں کے درمیان قرآن مجید نے پیغمبر کے گھر کے بارے میں مسلمانوں کو خصوصی حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ اِلاَّ َانْ یُؤْذَنَ لَکُمْ ) (۲)

اے صاحبان ایمان! پیغمبر کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ کا گھر ان تمام محترم اور باعظمت گھروں میں سے ہے جس میں زہرا او ران کے بچے خدا کی تقدیس (و تسبیح) کرتے تھے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عائشہ یا حفصہ کا گھر پیغمبر کا گھر ہے لیکن آپ کی عظیم المرتبت بیٹی جو دنیا و آخرت کی سب سے عظیم بی بی ہیں ان کا گھر پیغمبر کا گھر نہیں ہے ، ان کا گھر یقینا پیغمبر کا گھر ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ خلیفہ کے ماننے والوں نے پیغمبر کے گھر کا کتنا احترام کیا، خلافت کے ابتدائی حالات کی تحقیق و جستجو کرنے کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خلیفہ کے مامور کردہ سپاہیوں نے قرآن مجید کی ان تمام آیتوں کو نظر انداز کردیا اور پیغمبر کے گھر کی عزت کا کوئی خیال نہ کیا.اہلسنت کے بہت سے مؤرخین نے پیغمبر کے گھر پر حملہ کو مبہم اور غیر واضح طریقے سے لکھا ہے اور کچھ نے واضح اور روشن طور پر تحریر کیا ہے۔

______________________

(۱)سورۂ نور، آیت ۳۶، (بہت سے مفسرین کا کہنا ہے کہ بیوت سے مراد وہی مساجد ہیں جب کہ مسجد گھر کے مصادیق میں سے ایک ہے نہ یہ کہ فرد پر منحصر ہے۔

(۲) سورۂ احزاب، آیت ۵۳

۱۷۳

طبری جو خلفاء سے کے بارے میں بہت متعصب تھا اس نے صرف اتنا لکھا ہے کہ عمر ایک گروہ کے ساتھ زہرا کے گھر کے سامنے آئے اور کہا:خدا کی قسم! اس گھر میں آگ لگادوں گا مگر یہ کہ اس میں پناہ لینے والے بیعت کرنے کے لئے اس گھر کو چھوڑ دیں۔(۱) لیکن ابن قتیبہ دینوری نے اس میں مزید اضافہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ خلیفہ نے صرف یہی جملہ نہیں بلکہ انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ گھر کے چاروں طرف لکڑیاں جمع کرو اور پھر کہا:

اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے یا گھر چھوڑ کر باہر آجائوورنہ اس گھر میں آگ لگا کر سب کو جلا دیں گے۔

جب عمر سے کہا گیا کہ اس گھر میں پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ ہیں تو انہوں نے کہا: ہوا کریں۔(۲)

عقد الفرید(۳) کے مؤلف نے اپنی کتاب میں کچھ اور اضافے کے ساتھ تحریر کیا ہے وہ کہتا ہے:

''خلیفہ نے عمر کو حکم دیا کہ پناہ لینے والوں کو گھر سے نکال دو اور اگر باہر نہ آئیں تو ان سے جنگ کرنا اسی وجہ سے عمر نے آگ منگوایا تھا کہ گھر کو جلادیں اس وقت جب فاطمہ کے روبرو ہوے پیغمبر کی بیٹی نے ان سے کہا: اے خطاب کے بیٹے! کیا تو میرا گھر جلانے آیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں. مگر یہ کہ دوسروں کی طرح (علی بھی) خلیفہ کی بیعت کریں''

جب علمائے شیعہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس واقعہ کی تفصیل وضاحت کے ساتھ ملتی ہے۔

سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میں حضرت زہرا کے گھر پر حملہ کو بڑی تفصیل سے لکھ کر حقیقت کو

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۲۰۲، مطبع دائرة المعارف، طبری کی عبارت یہ ہے:

''أتی عمر بن خطاب منزل علی فقال: لاحرقن علیکم او لتخرجن الی البیعة'' ابن ابی الحدیدنے اپنی شرح ج۲ ص۵۶ میں اس جملے کو جوہری کی کتاب ''سقیفہ'' سے بھی نقل کیا ہے۔

(۲)الامامة والسیاسة ج۲ ص ۱۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱ ص ۱۳۴، اعلام النساء ج۳ ص ۱۲۰۵

(۳) ابن عبد ربہ اندلسی متوفی ۴۹۵ھ عبارت اس طرح ہے:

''بعث الیهم ابوبکر عمربن خطاب لیخرجهم من بیت فاطمة و قال له ان ابوا فقاتلهم. فاقبل بقبس من النار علی ان یضرم علیهم الدار فلقیته فاطمة فقالت یابن الخطاب أجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم أو تدخلوا فیما دخلت فیه الامة'' عقد الفرید ج۲ ص ۲۶۰، تاریخ ابی الفداء ج۱ ص ۱۵۶، اعلام النساء ج۳ ص ۱۲۰۷

۱۷۴

واضح کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔

عمر نے آگ جمع کیا پھر دروازے کو دھکہ دیا اور گھر میں داخل ہوگئے لیکن حضرت زہرا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔(۱)

شیعہ بزرگ عالم دین مرحوم سید مرتضی نے اس واقعہ کے سلسلے میں بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے مثلاً آپ نے امام جعفر صادق کی اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا کہ حضرت علی نے بیعت نہیں کیا یہاں تک کہ آپ کا گھر دھوئیں میں چھپ گیا۔(۲)

اب ہم یہاں پر واقعے کی اصل وجہ کے بارے میں گفتگو کریں گے اور صحیح فیصلے کے ذریعے زندہ ضمیر اور بیدار قلب کو آگاہ کریں گے اور واقعے کی تفصیلات کو اہلسنت کی کتابوں سے پیش کریں گے۔

حضرت علی کو کس طرح مسجد لے گئے

تاریخ اسلام کا یہ باب بھی گذشتہ باب کی طرح بہت تلخ و دردناک ہے کیونکہ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ حضرت علی جیسی شخصیت کواس انداز سے مسجد لے جائیں گے کہ معاویہ ۴۰ سال کے بعد اس چیز کو بطورطعنہ پیش کرے وہ امیر المومنین کو خط لکھتے ہوئے آپ کے اس دفاع کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے آپ خلفاء کے زمانے میں روبرو ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ خلیفہ تمہاری مہار پکڑے ہوئے ایک نافرمان اونٹ کی طرح بیعت کے لئے مسجد کی طرف کھینچتے ہوئے لائے۔(۳)

امیر المومنین علیہ السلام نے معاویہ کو جواب دیتے ہوئے اشارتاً اصل موضوع کو قبول کرتے ہوئے اسے اپنی مظلومیت بتاتے ہوئے لکھا:

''(اے معاویہ) تو نے لکھا ہے کہ میں ایک نافرمان اونٹ کی طرح بیعت کے لئے مسجد میں لایا گیا. خدا کی قسم تو نے چاہا کہ مجھ پر تنقید کرے لیکن حقیقت میں میری تعریف کی ہے تو نے چاہا کہ مجھے رسوا

______________________

(۱) اصل سلیم ص۷۴ طبع نجف اشرف

(۲)والله ما بایع علی حتی رأی الدخان قد دخل بیته'' تلخیص الشافی ج۳ ص ۷۶

(۳) معاویہ کے خط کی عبارت کو ابن ابی الحدید نے اپنی شرح (ج۱۵ ص ۱۸۶) میں نقل کیا ہے۔

۱۷۵

کرے، لیکن خود تم نے اپنے کو رسوا و ذلیل کیا مسلمان اگر مظلوم ہو تو وہ قابل اعتراض نہیں ہے۔(۱) صرف ابن ابی الحدید ہی نے امام علیہ السلام پر ہوئی جسارت کو تحریر نہیں کیا ہے بلکہ اس سے پہلے ابن عبدر بہ نے اپنی کتاب عقد الفرید ج۲ ص ۲۸۵، پر اور ان کے بعد ''صبح الاعشی'' کے مؤلف نے (ج۱، ص ۱۲۸) پر بھی نقل کیا ہے۔قابل تعجب بات یہ ہے کہ ابن ابی الحدید جب امام علیہ السلام کے نہج البلاغہ کے اٹھائیسویں خطبہ کی شرح کرتا ہے تو حضرت علی اور معاویہ کے نامہ کو نقل کرتا ہے اور واقعہ کے صحیح ہونے کے بارے میں ذرا بھی شک نہیں کرتا، لیکن اپنی کتاب کے شروع میں جب وہ ۲۶ ویں خطبہ کی شرح سے فارغ ہوتا ہے تو اصل واقعہ سے انکار کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس طرح کے مطالب کو صرف شیعوں نے نقل کیا ہے اور ان کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کیا ہے۔(۲)

حضرت زہرا کے ساتھ ناروا سلوک

تیسرا سوال یہ تھا کہ کیا حضرت علی سے بیعت لیتے وقت پیغمبر کی بیٹی کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیاتھا اور ان کو صدمہ پہونچا تھا یا نہیں ؟شیعہ دانشمندوں کی نظر میں اس سوال کا جواب ان گذشتہ دو جوابوں سے زیادہ دردناک ہے کیونکہ جب ان لوگوں نے چاہا کہ حضرت علی کو مسجد لے جائیں اس وقت حضرت زہرا نے ان کا دفاع کیا اور حضرت فاطمہ نے اپنے شوہر کے بچانے میں بہت زیادہ جسمانی اور روحانی تکلیفیں برداشت کیں کہ زبان و قلم جن کے لکھنے اور کہنے سے عاجز ہے۔(۳) لیکن اہلسنت کے دانشمندوں نے خلیفہ کے مقام ومنصب کا دفاع کرتے ہوئے تاریخ اسلام کے اس باب کو لکھنے سے پرہیز کیا ہے یہاں تک کہ ابن ابی الحدید نے بھی اپنی شرح میں ایسے مسائل میں سے جاناہے کہ مسلمانوں کے درمیان صرف شیعوں نے انہیں نقل کیا ہے۔(۴)

______________________

(۱) نہج البلاغہ، نامہ ۲۸

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۶۰

(۳) شیعہ کتابوں میں سلیم بن قیس نے تفصیل کے ساتھ (صفحہ ۷۴ کے بعد) بیان کیا ہے۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۶۰

۱۷۶

شیعوں کے بزرگ عالم دین مرحوم سید مرتضی کہتے ہیں:

شروع شروع میں محدثین اور مؤرخین نے جو کچھ بھی پیغمبر کی بیٹی کے ساتھ جسارتیںہوئیں اس کو لکھنے سے پرہیز نہیں کیا تھا اور ان کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ خلیفہ کے حکم سے عمر نے حضرت فاطمہ کے پہلو پر دروازہ گرایا اور جو بچہ آپ کے شکم میں تھا وہ ساقط ہوگیا اور قنفذ نے عمر کے حکم سے حضرت زہرا کو تازیانہ مارا تاکہ علی ـکے ہاتھوں کو چھوڑ دیں، لیکن بعد میں جب یہ دیکھا کہ اگر ایسے ہی نقل کرتے رہے تو خلفاء کے اوپر آنچ آئے گی لہذا اسی وقت سے اس واقعے کو تحریر کرنے سے پرہیز کرنے لگے۔(۱)

سید مرتضی کے کلام پر گواہ یہ ہے کہ اہلسنت کے مؤرخین و محدثین نے اس واقعہ کو بہت ہی نظر انداز کیا اورلکھنے سے پرہیز کیا مگر پھربھی ان کی کتابوں میں یہ واقعہ موجود ہے. شہرستانی نے معتزلہ کے رئیس ابراہیم بن سیار مشہور عظام سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے:

عمر نے بیعت لینے کے وقت دروازہ کو حضرت زہرا کے پہلو پر گرایا اور جو بچہ آپ کے شکم میں تھا وہ ساقط ہوگیا پھر اس نے حکم دیا کہ گھر کوگھر والوں سمت جب کہ گھر میں علی و فاطمہ حسن و حسین کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا۔(۲)

______________________

(۱) تلخیص الشافی ج۳ ص ۷۶، شافی سید مرتضی کی کتاب ہے جس کو شیخ طوسی نے خلاصہ کیا ہے۔

(۲) ملل و نحل ج۲ ص۹۵

۱۷۷

انسانوں کی انسانوں پر حکومت

وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ خلفاء کی خلافت کو ''انسانوں کی انسانوں پر حکومت'' یاقانون ''مشورہ'' کی توجیہ کریں. وہ ان دو گروہ میں سے ایک ہیں:

۱۔ جو لوگ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی اصول کو آج کی فکروں اورتعلیمات سے تطبیق کریں اور اس کے ذریعے سے مغربی اور مغرب زدہ لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ کردیںاور ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دیں کہ انسانوں کی لوگوں پر حکومت یہ آج کی نئی فکر نہیں ہے بلکہ چودہ سو سال پہلے اسلام کے اندر ایسی فکر موجود تھی اور پیغمبر کی وفات کے بعد ان کے صحابہ نے خلیفہ منتخب کرتے وقت اس کا سہارا لیا تھا۔

اس گروہ نے اگرچہ اس راہ میں خلوص نیت کے ساتھ قدم اٹھایا لیکن افسوس اسلامی مسائل کی تحقیق نہیں کیا اوراس کے ماہروںکی طرف بھی رجوع نہیں کیا اور ایک بے کار و بے ہودہ اور دھوکہ دینے والے موضوع پر بھروسہ کر رکھا جس کی وجہ سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں۔

۲۔ ایک گروہ جو کسی علت کی بنا پر شیعہ علماء سے گلہ رکھتے ہیں اور کبھی کبھی بعض تحریکوں کی وجہ سے سنیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور مختلف قسم کی اخلاقی خرابیوں اور عقیدتی انحرافات سے مقابلہ کرنے کے بجائے مومن نوجوانوں بلکہ سادہ لوح افراد کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں اور ان کے شیعی عقیدوں کو کمزور کردیتے ہیں۔

۱۷۸

پہلے گروہ کی غلطیوں کا جبران ہوسکتا ہے اور اگر ان کو صحیح اور قابل اعتماد حوالے دیئے جائیں تو وہ اپنی غلطیوں اور بھٹکی ہوئی راہ سے واپس آجائیں گے لہذا ان کے بارے میں ناسزا کہنا درست نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ بہترین خدمت یہ ہے کہ ہمیشہ ان سے رابطہ بنائیں رکھیںاور اپنے فکری اور علمی رابطے کو ان سے منقطع نہ کریں۔

لیکن دوسرے گروہ کی اصلاح اور ہدایت کرنا بہت مشکل ہے ،علاوہ اس کے کہ وہ گلہ رکھتے ہیں دین کے متعلق صحیح اور زیادہ معلومات نہیں رکھتے، لہذا انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے، سوائے اس کے کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ سادہ لوح نوجوان اور دینی معلومات سے بے بہرہ افراد ان کے جال میں نہ پھنس جائیں اور اگر پھنس جائے تو کوشش کی جائے کہ ان کے دلوں سے سارے شبھات دور ہو جائیں ۔

کیاعقل اور شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ حاکم کے مامور کئے ہوئے لوگ نیزے کے زور پر کسی کے گھر پر حملہ کریں اور اس گھر میں پناہ لئے ہوئے افراد کو مسجد میں لائیں اور ان سے بیعت لیں؟

کیا ڈیموکریسی کے معنی یہی ہیں کہ حاکم کے گروہ کا سردار بعض گروہوں کو حکم دے کہ مخالف یا حمایت نہ کرنے والے افراد سے جبراً و زبردستی بیعت لیں اور اگر وہ لوگ بیعت نہ کریں تو ان سے جنگ کی جائے ؟

تاریخ شاہد ہے کہ گروہ حاکم کے تمام افراد سے پہلے عمر نے بیعت لینے اور ووٹ حاصل کرنے میں بہت زیادہ اصرار کیا بلکہ جنگ تک کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔

زبیر بھی حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں پناہ لئے ہوئے تھے اور ابھی خاندان رسالت سے انہوں نے بغاوت نہیں کی تھی جب سپاہیوں نے حضرت فاطمہ کے گھر میں پناہ لینے والوں کو گھر سے نکالنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں اس وقت زبیر ننگی تلوارلے کر گھر سے باہر آئے اور کہا ہم ہرگز بیعت نہیں کریں گے نہ صرف یہ کہ بیعت نہیں کریں گے بلکہ سب کے لئے ضروری ہے کہ علی کی بیعت کریں۔

۱۷۹

زبیر اسلام کا مشہور پہلوان، بہادر اورتلوار چلانے میں ماہر تھا اور اس کے تلوار کا لگایا ہوا زخم دوسروں کے لگائے ہوئے تلوار کے زخم کے درمیان نمایاں رہتا تھا اس وجہ سے سپاہیوںنے خطرہ محسوس کیا اور سب نے مل کر یکبارگی حملہ کر کے اس کے ہاتھ سے تلوار کو چھین لیا اورایک بہت بڑا قتل عام ہونے سے بچالیا ، آخر عمر جو اتنا اصرار کر رہے تھے اس کی فداکاری کی وجہ کیاتھی؟ کیا حقیقت میں عمر خلوص نیت سے اس واقعہ میں پیش پیش تھے یا یہ کہ ان کے اور ابوبکر کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا تھا؟

امیر المومنین علیہ السلام جس وقت خلافت کے نمائندوں کے دبائو میں تھے اور ہمیشہ قتل کی دھمکیوں سے ڈرائے جاتے تھے اس وقت آپ نے عمر سے کہا:

''اے عمر اس (خلافت )کو لے لو کیونکہ وہ تمہارا آدھا مال ہے اور مرکب خلافت کوابوبکر کے لئے محکم باندھ دو تاکہ کل تمہیں واپس کردے۔(۱) اگر ابوبکر کے لئے بیعت کا لینا حقیقت میں ڈیموکریسی کے اصول کے مطابق ہوتا او راس آیت ''امرہم شوری بینہم'' کا مصداق ہوتا، تو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کیوں وہ افسوس کر رہے تھے کہ کاش میں نے یہ تین کام انجام نہ دئیے ہوتے:

۱۔ اے کاش میں نے فاطمہ کے گھر کا احترام اوراس کی حفاظت کیا ہوتا اور حملہ کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا یہاں تک کہ اگر انھوں نے سپاہیوں کے لئے دروازہ بند کردیاتھا۔

۲۔ اے کاش سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر نہ لیتا اور اسے عمر اور ابوعبیدہ کے حوالے کردیتا اور خود ان کا وزیر یامعاون ہوتا۔

______________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۱۲، خطبہ شقشقیہ میں تقریبا اسی مفہوم کو بیان کیاہے:لشد ما تشطرا ضرعیها...

۱۸۰