فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341231
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341231 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فدک کے مسئلہ میں کوئی ابہام نہیں تھا

ان تمام واضح اور روشن دلیلوں کے بعد، کیوں اور کس دلیل سے فدک کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کیا گیا؟ خلیفۂ مسلمین کے لئے ضروری ہے کہ امت کے حقوق کی حفاظت اور ان کے منافع کی حمایت کرے، اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر نے اسے وقتی طور پر اپنے خاندان کی ایک فرد کو دیا تھا تو ضروری تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے رہبر کو دیدیا جاتا، تاکہ اس کے زیر نظر مسلمانوں کے صحیح امور میں خرچ ہوتا، اور یہ ایسی بات ہے جس پر سبھی متفق ہیں لیکن قوم کے حقوق کی حفاظت اور لوگوں کے عمومی منافع کی حمایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کی فردی آزادی اورذاتی ملکیت کو نظر انداز کردیا جائے اور لوگوں کے ذاتی مال کو عمومی مال کے طور پر جمع کیا جائے اور پھر اسے عمومی مال قرار دیا جائے۔

اسلامی قانون جس طرح سے اجتماعی چیزوں کو محترم جانتا ہے اسی طرح کسی کے ذاتی و شخصی مال کو جو شرعی طریقے سے حاصل ہو اسے بھی محترم سمجھتا ہے ،اور خلیفہ جس طرح سے عمومی اموال کی حفاظت میں کوشاں رہتا ہے اسی طرح لوگوں کے ذاتی مال اور حقوق کی جن کا اسلام نے حکم دیاہے ان کی بھی حفاظت کرتا رہے کیونکہ جس طرح عمومی مصالح کی رعایت کے بغیر عمومی مال کو کسی شخص کو دینا لوگوں کے حقوق کے ساتھ ناانصافی ہے ، اسی طرح کسی کی ذاتی ملکیت کو جواسلامی قانون کے اعتبار سے مالک ہے اس سے چھین لینا لوگوں کے حقوق سے نا انصافی ہے اگر پیغمبر کی بیٹی کا اپنی ملکیت فدک کے بارے میں دعوی کرنا

قانون قضاوت کے مطابق تھا اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے گواہوں کو جمع کیا تھا اور عدالت کے قاضی کی نظر میں مسئلہ فدک میں کوئی نقص نہ تھا تو ایسی صورت میں قاضی کا صحیح نظریہ دینے سے پرہیز کرنا یا حقیقت مسئلہ کے برخلاف نظریہ پیش کرنا لوگوں کی مصلحتوں کے خلاف اقدام کرنا ہے اور یہ ہے ایسا سنگین جرم جس کی اسلامی قانون میں سخت مذمت کی گئی ہے۔

مسئلہ فدک کا بعض حصہ اس بات پر شاہد ہے کہ ا سکے اندر نقص نہ تھا اور اسلام کے قضائی قانون کی بنیاد پر خلیفہ پیغمبر کی بیٹی کے حق میں اپنا نظریہ پیش کرسکتا تھا، کیونکہ :

پہلے یہ کہ، مورخین کے نقل کے مطابق جیسا کہ گذر چکا ہے خلیفہ نے حضرت زہرا کی طرف سے گواہ پیش کرنے کے بعدچاہا کہ فدک کو اس کے حقیقی مالک کو واپس کردے اور اسی وجہ سے انہوں نے ایک کاغذ پر فدک کو حضرت زہرا کی ملکیت قرار دے کر ان کے سپرد کردیا، لیکن جب عمر اس بات سے آگاہ ہوے تو خلیفہ پر غصہ ہوئے اور نامہ لے کر پھاڑ ڈالا۔

۲۲۱

اگر حضرت زہرا کے گواہ ،مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھے ،اور فدک کی سند میں کوئی کمی تھی تو خلیفہ کبھی بھی ان کے حق میںرائے نہیں دیتا اور حقیقی طور پر ان کی ملکیت کی تصدیق نہ کرتا۔

دوسرے یہ کہ ، جن لوگوں نے پیغمبر کی بیٹی کی حقانیت پر گواہی دی تھی وہ یہ افراد تھے:

۱۔ حضرت امام امیر المومنین ۔

۲۔ حضرت امام حسن ۔

۳۔ حضرت امام حسین ۔

۴۔ رباح، پیغمبر کا غلام۔

۵۔ ام ایمن۔

۶۔ اسماء بنت عمیس۔

کیا ان افراد کی گواہی حضرت زہرا کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں تھی؟

اگر فرض کریں کہ حضرت زہرا اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے سوائے حضرت علی اور ام ایمن کے کسی کو عدالت میں نہیں لائیں تو کیا ان دو افراد کی گواہی ان کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھی؟

ان دو گواہوں میں سے ا یک گواہ حضرت امیر المومنین ـ ہیں کہ جن کی عصمت و طہارت پر آیت تطہیر کی مہر لگی ہوئی ہے اور پیغمبر کے فرمان کے مطابق ''علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور وہ حق کا محور ہیں اور حق انہی کے اردگرد طواف کرتا ہے'' ان تمام چیزوں کے باوجو دخلیفہ نے امام کی گواہی کو یہ بہانہ بنا کر قبول نہیں کیا کہ ضروری ہے کہ دو آدمی یا ایک آدمی اور دو عورتیں گواہی دیں۔

تیسرے یہ کہ، اگر خلیفہ نے حضرت زہرا کی گواہی اس لئے قبول نہیں کیا کہ تعداد معین افراد سے کم تھی تو ایسی صورت میں قضاوت اسلام کا قانون یہ ہے کہ وہ مدعی سے قسم کا مطالبہ کرے کیونکہ اسلامی قوانین میں مال و دولت اور قرض کے مسئلوں میں ایک گواہ کی گواہی کو قسم کے ساتھ قبول کرکے فیصلہ کرسکتے ہیں ،تو پھر خلیفہ نے اس قانون کے جاری کرنے سے کیوں پرہیز کیا اور جھگڑے کو ختم نہیں کیا؟

۲۲۲

چوتھے یہ کہ، خلیفہ نے ایک طرف حضرت زہرا کی گفتگو اور ان کے گواہوں (حضرت علی اور ام ایمن) کی تصدیق کی اور دوسری طرف عمر او رابوعبیدہ کی (ان لوگوں نے گواہی دیا تھا کہ پیغمبر نے فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا تھا) تصدیق کی۔ اور پھر فیصلہ کرنے کے لئے اٹھے او رکہا کہ سب کے سب صحیح اور سچے ہیں، کیونکہ فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر اس کی آمدنی سے اپنے خاندان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے اور باقی اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے جب کہ ضروری تھا کہ خلیفہ عمر او رابوعبیدہ کی گفتگو پر سنجیدگی سے غور کرتے کیونکہ ان دونوں نے یہ گواہی نہیں دی تھی کہ فدک عمومی مال میں سے تھا بلکہ صرف اس بات کی گواہی دی تھی کہ پیغمبر نے بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا تھا، اور یہ بات حضرت زہرا کے مالک ہونے کے ذرہ برابر بھی مخالف نہ تھی کیونکہ پیغمبر اسلام کواپنی بیٹی کی طرف سے اجازت تھی کہ بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیں۔

خلیفہ کا وقت سے پہلے فیصلہ اورفدک لینے کا اس کا باطنی رجحان سبب بنا کہ خلیفہ ان دونوں کی اس گواہی کے بہانے کہ پیغمبر اسلام بقیہ مال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے حضرت زہرا کی ملکیت ہونے سے انکار کردے جب کہ ان دونوں کی گواہی پیغمبر کی بیٹی کے دعوے کے مخالف نہیں تھی۔

اہمبات یہ کہ خلیفہ نے حضرت فاطمہ زہرا(س) سے وعدہ کیا تھا کہ فدک کے سلسلے میں ہمارا طریقہ وہی رہے گا جو پیغمبر کا طریقہ تھا اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا تو پھر کیوں انہوں نے حضرت زہرا سے رضایت چاہی؟ اور اگر ذاتی ملکیت تھی یعنی پیغمبر کی بیٹی کی ملکیت تھی تو اس طرح کا وعدہ جب کہ مالک اپنی ملکیت سپردکرنے سے ا نکار کرے اس میں تصرف کے جواز باعث نہیں بن سکتا۔

ان تمام چیزوں کے علاوہ اگر فرض کریں کہ خلیفہ کے پاس یہ اختیارات نہیں تھے مگر وہ مہاجرین اور انصار سے رائے مشورہ اور ان کی رضایت حاصل کرنے کے بعد فدک پیغمبر کی بیٹی کے حوالے کرسکتا تھا، توکیوں انہوں نے یہ کام نہیں کیا اور حضرت زہرا کے شعلہ ور غضب کا اپنے کو مستحق قرار دیا؟

۲۲۳

پیغمبر کی زندگی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیاتھا اور پیغمبر نے مسلمانوں کی رضایت کو حاصل کر کے مشکل کو حل کردیاتھا جنگ بدر میں پیغمبر کا داماد ابو العاص (جو پیغمبر کی پروردہ بیٹی زینب کا شوہر تھا:مترجم) گرفتار ہوا تو مسلمانوں نے اس کے علاوہ اس کے ستر افراد کو بھی گرفتار کرلیا، پیغمبر کی طرف سے اعلان ہوا کہ جن کے رشتہ دار گرفتار ہوئے ہیں وہ کچھ رقم دے کر اپنے اسیروں کو آزاد کرسکتے ہیں۔ ابو العاص ایک شریف انسان اور مکہ کا تاجر تھا او رزمانہ جاہلیت میں اس کی شادی پیغمبر کی پروردہ بیٹی سے ہوئی تھی، لیکن بعثت کے بعد اپنی بیوی کے برخلاف اسلام قبول نہیں کیا اور جنگ بدر میں مسلمانوں کے مقابلے میں شریک ہوااور گرفتار ہوگیا اس کی بیوی ان دنوں مکہ میں تھی زینب نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنے اس ہار کو فدیہ قرار دیا جو آپ کی(پرورش کرنے والی ) ماں خدیجہ نے شادی کی رات دیا تھا جب پیغمبر کی نظر زینب کے ہار پر پڑی تو بہت زیادہ گریہ کیا اور ان کی ماں خدیحہ کی فدا کاری و قربانی یاد آگئی جنھوں نے سخت مشکلات کے زمانے میں آپ کی مدد کی تھی اور اپنی تمام دولت کو اسلام کی کامیابی و ترقی کے لئے خرچ کیا تھا۔

پیغمبر اسلام (ص) عمومی اموال کے احترام کی رعایت کرنے کے لئے اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہ ہار تمہارا ہے اور اس پر تمہارا ہی اختیار ہے اگر دل چاہے تو اس ہار کو واپس کردو اور ابوالعاص کو بغیر فدیہ لئے ہوئے رہا کردو آپ کے صحابیوں نے آپ کی درخواست کو قبول کرلیا۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:(۱)

''میں نے زینب کے واقعہ کو اپنے استاد ابوجعفر بصری علوی کے سامنے پڑھا تو انھوں نے اس کی

______________________

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۴، ص ۱۶۱۔

۲۲۴

تصدیق کی اور کہا:کیا فاطمہ کی عظمت و منزلت زینب سے زیادہ نہ تھی ؟کیا بہتر نہیں تھا کہ خلیفہ فاطمہ کو فدک واپس کر کے ان کے قلب کو خوشحال کردیتا؟اگرچہ فدک تمام مسلمانوں کا مال تھا۔

ابن ابی الحدید مزید لکھتے ہیں:

میں نے کہا کہ فدک اس روایت کے مطابق کہ ''گروہ انبیاء بطور میراث کچھ نہیں چھوڑتے'' مسلمانوں کا مال تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ مسلمانوں کا مال حضرت زہرا کو دیدیتے؟

استاد نے کہا: کیا زینب کا وہ ہار جو اس نے اپنے شوہر ابوالعاص کی رہائی کے لئے بھیجا تھا وہ مسلمانوں کا مال نہ تھا؟ میں نے کہا:

پیغمبر صاحب شریعت تھے اور تمام امور کے نفاذ او راجراء کا حکم ان کے ہاتھوں میںتھا لیکن خلفاء کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔

استاد نے میرے جواب میں کہا: میں یہ نہیں کہتا کہ خلفاء زبردستی مسلمانوں سے فدک چھین لیتے اور فاطمہ کے ہاتھوں میں دیدیتے، بلکہ میراکہنا یہ ہے کہ کیوں حاکم وقت نے فدک دینے کے لئے مسلمانوں کو راضی نہیں کیا؟ کیوں پیغمبر کی طرح نہ اٹھے اوران کے اصحاب کے درمیان نہیں کہا کہ اے لوگو! زہرا تمہارے نبی کی بیٹی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ پیغمبر کے زمانے کی طرح فدک کا نخلستان (کھجور کا باغ) ان کے ہاتھ میں رہے کیا تم لوگ خود اپنی مرضی سے راضی ہو کہ فدک فاطمہ کے حوالے کردیا جائے ؟

آخر میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

ہمارے پاس استاد کی باتوں کا جواب نہ تھا اور صرف بطور تائید کہا: ابوالحسن عبد الجبار بھی خلفاء کے بارے میں ایساہی اعتراض رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگرچہ ان کاطور طریقہ شرع کے مطابق تھا لیکن جناب زہرا کا احترام اور ان کی عظمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ۔

۲۲۵

چھٹیں فصل

کیاانبیاء میراث نہیں چھوڑتے؟

اس بارے میں قرآن کا نظریہ

ابوبکر نے پیغمبر کی بیٹی کو میراث نہ دینے کے لئے ایک حدیث کا سہارالیاجس کا مفہوم خلیفہ کی نظر میں یہ تھا کہ پیغمبران خدا بطور میراث کوئی چیز نہیں چھوڑ تے اور ان کی وفات کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں صدقہ ہوتی ہیں۔ قبل اس کے کہ اس حدیث کے متن کو نقل کریں جس سے خلیفہ نے استناد کیا ہے، ضروری ہے کہ اس مسئلے کو قرآن سے حل کریں کیونکہ قرآن مجید حدیث صحیح کو حدیث باطل سے پہچاننے کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر قرآن نے اس موضوع کی تصدیق نہیں کیا تو اس حدیث کو (اگرچہ ابوبکر ناقل ہوں) صحیح حدیث شمار نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے من گھڑت او رباطل حدیث شمار کیاجائے گا۔

قرآن کریم کی نظر میں اور اسلام میں میراث کے احکام کی روسے پیغمبروں کی اولاد یا ان کے وارثوں کو مستثنیٰ کرنا قانون میراث کے مطابق غیر منطقی بات ہے اور جب تک قطعی دلیل ان آیات ارث کو تخصیص نہ دے میراث کے تمام قوانین تمام افراد کو کہ انہی میں پیغمبر کی تمام اولادیں اور وارثین ہی شامل ہیں۔

اس جگہ سوال کرنا چاہیئے کہ کیوں پیغمبر کی اولاد میراث نہیں لے سکتی؟ ان کی رحلت کے بعد ان کا گھر اور تمام زندگی کے اسباب ان سے کیوں لے لیا جائے؟ آخر پیغمبر کے وارث کس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد تمام لوگ گھر سے باہر نکال دیئے جائیں؟

اگرچہ پیغمبر کے وارثوں کو میراث سے محروم کرنا عقلا بعید ہے لیکن اگر وحی کی طرف سے قطعی اور صحیح دلیل موجود ہو کہ تمام انبیاء کوئی چیز بعنوان میرا ث نہیں چھوڑتے اور ان کا ترکہ عمومی مال شمار ہوتا ہے تو ایسی صورت میں''اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا'' حدیث کو قبول کریں گے اور غلط فہمی کو دور کردیں گے او رمیراث سے مربوط آیتوں کو صحیح حدیث کے ذریعے تخصیص دیں گے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کی حدیثیں پیغمبر سے وارد ہوئی ہیں؟

۲۲۶

وہ حدیث جو خلیفہ نے نقل کی ہے اس کو پہچاننے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم کو قرآن کی آیتوں سے ملائیں اگر قرآن کے مطابق ہو تو قبول کریں گے اور اگر قرآن کے مطابق نہ ہوتو اسے رد کردیں گے۔ جب ہم قرآنی آیتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ قرآن نے دو جگہوں پر پیغمبر کی اولادکی میراث کا تذکرہ کیاہے اور ان کے میراث لینے کو ایک مسلّم حق بیان کیا ہے وہ آیتیں جو اس مطلب کو بیان کرتی ہیں یہ ہیں:

۱۔ یحییٰ نے زکریا سے میراث پائی

( وَانِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَکَانَتْ امْرَاتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا ) (سورۂ مریم، آیت ۵، ۶)

اور میں اپنے (مرنے کے) بعد اپنے وارثوں(چچا زاد بھائیوں) سے ڈرجاتا ہوں(کہ مبادا دین کو برباد کریں) اور میری بی بی (ام کلثوم بنت عمران) بانجھ ہے پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند) عطا فرما، جو میری او ریعقوب کی نسل کی میراث کا مالک ہو اور اسے میرے پروردگار او را س کو اپنا پسندیدہ بنا۔

اس آیت کو ا گر ہر اس شخص کے سامنے پڑھایا جائے جو لڑائی جھگڑوں سے دور ہو تو وہ یہی کہے گا کہ حضرت زکریا نے خداوند عالم سے ایک بیٹا طلب کیا تھا جو ان کا وارث ہو کیونکہ ان کو اپنے دوسرے وارثوں سے خطرہ اور خوف محسوس ہو رہا تھا اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی دولت و ثروت ان لوگوں تک پہونچے، وہ کیوں خوف محسوس کر رہے تھے اس کی وضاحت بعد میں کریں گے۔

آیت میں ''یرثنی'' سے مراد میراث میں سے مال لینا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لفظ مال کی وراثت کے علاوہ دوسری چیزوں میں استعمال نہیں ہوتا مثلاً نبوت اور علوم کا وارث ہونا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک دوسرے والے معنی کے ساتھ کوئی قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک یہ مال سے میراث لینا مراد ہوگا نہ کہ علم اور نبوت سے میراث لینا۔(۱)

_____________________

(۱) جی ہاں، کبھی کبھی یہی لفظ کسی خاص قرینے کی وجہ سے میراث علم میں استعمال ہوتا ہے مثلا''ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا'' (فاطر، آیت ۳۲) یعنی ہم نے اس کتاب کو اس گروہ سے جس کو نے چنا ہے ان کو میراث میں دیا، یہاں پر لفظ ''کتاب'' واضح و روشن قرینہ ہے کہ یہاں مال میں میراث مراد نہیں ہے بلکہ قرآن کے حقائق سے آگاہی کی میراث مراد ہے۔

۲۲۷

یہاں ہم ان قرینوں کو پیش کر رہے ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ''یرثنی و یرث من آل یعقوب'' سے مراد مال میں میراث ہے نہ کہ علم و نبوت میں میراث لینا۔

۱۔ لفظ ''یرثنی'' اور ''یرث'' سے یہ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہی مال میں میراث ہے نہ کہ غیرمیں، اور جب تک اس کے برخلاف کوئی قطعی دلیل نہ ہو جب تک اس کو اس معنی سے خارج نہیں کرسکتے، اگر آپ قرآن میں اس لفظ کے تما م مشتقات کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ پورے قرآن میں (سوائے سورۂ فاطر آیت ۳۲ کے) مال میں وراثت کے متعلق استعمال ہوا ہے اور یہ خود بہترین دلیل ہے کہ ان دو لفظوں کو اس کے اسی معروف و مشہور معنی میں استعمال کریں۔

۲۔ نبوت اور امامت خداوند عالم کا فیض ہے جو مسلسل مجاہدت ، فداکاری اور ایثار کے ذریعے باعظمت انسان کو نصیب ہوتا ہے اور یہ فیض بغیر کسی ملاک کے کسی کو دیا نہیں جاتا اس لئے یہ قابل میراث نہیں ہے بلکہ ایک ایسے باعظمت و مقدس گروہ میں ہے کہ ملاک نہ ہونے کی صورت میں ہرگز کسی کو دیا نہیں جاتا اگرچہ پیغمبر کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔یہی وجہ تھی کہ زکریا نے پروردگار عالم سے بیٹے کی درخواست نہیں کی جو نبوت و رسالت کا وارث ہو اور اس بات کی تائید قرآن مجید میں ہے کہ:

( اَللهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَه ) (۱)

خداوند عالم سب سے زیادہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔

۳۔ حضرت زکریا نے صرف خدا سے بیٹے کی تمنا ہی نہیں کی بلکہ کہا کہ پروردگار اسے میرا پاک و پاکیزہ اور پسندیدہ وارث قرار دے اگر اس سے مراد مال میں میراث ہو تو صحیح ہے کہ حضرت زکریا اس کے حق میں دعا کریں کہ ''و اجعلہ رب رضیاً'' (خدایا) اسے مورد پسند قرار دے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ مال کا وارث کوئی غیر سالم شخص ہو، لیکن اگر اس سے مراد نبوت و رسالت کا وارث ہو، تو اس طرح سے دعا کرنا صحیح نہیں ہوگا اور یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم خدا سے دعا کریں کہ خدایا ایک علاقہ کے لئے پیغمبر بھیج دے اور اسے پاک و مورد پسند قرار دے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ

______________________

(۱) سورۂ انعام ، آیت ۱۲۴۔

۲۲۸

ایسی دعا پیغمبر کے بارے میں جو خداوند عالم کی جانب سے مقام رسالت و نبوت پر فائز ہو باطل ہو جائے گی۔

۴۔ حضرت زکریا اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ''میں اپنے عزیزوں اور چچازاد بھائیوں سے خوف محسوس کرتا ہوں'' لیکن ابتدا میں زکریا کے ڈرنے کی کیا وجہ تھی؟

کیا انھیں اس بات کا خوف تھا کہ ان کے بعد رسالت و نبوت کا منصب ان نا اہلوں تک پہونچ جائے گا اسی لئے انھوں نے اپنے لئے خدا سے ایک بیٹے کی تمنا کی؟ یہ احتمال بالکل بے جا ہے کیونکہ خداوند عالم نبوت و رسالت کے منصب کو ہرگز نااہلوں کو نہیں دیتا کہ ان کو اس بات کا خوف ہو۔ یا حضرت زکریا کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کے بعد دین اور اس کے قوانین ختم ہو جائیں گے اور ان کی قوم الگ الگ گروہوں میں ہو جائے گی؟ اس طرح کا خوف بھی انھیں نہیں تھا کیونکہ خداوند عالم اپنے بندوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی ہدایت کے فیض سے محروم نہیں کرتا اور مسلسل اپنی حجت ان کی رہبری کے لئے بھیجتا ہے اور ان لوگوں کو بھی بغیر رہبر کے نہیں چھوڑتا۔

اس کے علاوہ اگر مراد یہی تھی تو ایسی صورت میں زکریا کو بیٹے کی دعا نہیں کرنی چاہئیے تھی، بلکہ صرف اتنا ہی کافی تھا کہ دعا کرتے کہ پروردگار ا ان لوگوں کے لئے پیغمبر بھیج دے (چاہے ان کی نسل سے ان کا وارث ہو چاہے دوسرے کی نسل سے) تاکہ ان کو جاہلیت کے دور سے نجات دیدے حالانکہ زکریا نے وارث کے نہ ہونے پر خوف محسوس کیا۔

دو سوالوں کا جواب

مورد بحث آیت کے سلسلے میں دواعتراض ذکر ہوا ہے جس کی طرف اہلسنت کے بعض دانشمندوں نے اشارہ کیا ہے یہاں پر ہم دونوں سوالوں کا جائزہ لے رہے ہیں

الف: حضرت یحییٰ اپنے والد کے زمانے میں منصب نبوت پر فائز ہوئے لیکن ہرگز ان کے مال سے میراث نہیں لی کیونکہ اپنے والد سے پہلے ہی شہید ہوگئے اس لئے ضروری ہے کہ لفظ ''یرثنی'' کو نبوت میں وارث کے عنوان سے تفسیر کریں نہ کہ مال میں وراثت سے۔

۲۲۹

جواب:

ہر حالت میں اس اعتراض کا جواب دینا ضروری ہے چاہے اس سے مراد مال کا وارث ہو یا نبوت کا وارث ہو، چونکہ نبوت میں وارث ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کے بعد منصب نبوت پر فائز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کی تفسیر میں دونوں نظریوں پر اشکال ہوا ہے اور تفسیر، مال میں وارث ہونے سے مخصوص نہیں ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ یحییٰ کا زکریا سے میراث پانا صرف ان کی دعاؤں کی وجہ سے نہ تھا بلکہ ان کی دعا صرف یہ تھی کہ خداوند عالم انھیں صالح بیٹا عطا کرے اور بیٹے کی تمنا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ زکریا کا وارث بنے، خدا نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اگرچہ حضرت زکریا نے جو اس بیٹے کی تمنا کی اس مقصد (یحییٰ کا ان سے میراث لینا) میں کامیاب نہ ہوئے۔

مورد بحث آیت میں تین جملے استعمال ہوئے ہیں جن کی ہم وضاحت کر رہے ہیں:

( فَهَبْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ) پروردگارا! مجھے ایک بیٹا عطا کر۔

( یَرِثُنِی وَ یَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوْب ) میرا اور یعقوب کے خاندان کا وارث ہو۔

''وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیّاً'' پروردگارا! اسے مورد پسند قرار دے۔ان تین جملوں میں پہلا اور تیسرا جملہ بطور درخواست استعمال ہوا ہے جو حضرت زکریا کی دعا کو بیان کرتاہے یعنی انھوں نے خدا سے یہ دعا کی کہ مجھے لائق و پسندیدہ بیٹا عطا کر، لیکن غرض اور مقصد یا دوسرے لفظوں میں علت غائی، مسئلہ وراثت تھا۔جب کہ مسئلہ وراثت دعا کا جزء نہ تھا اور جس چیز کی جناب زکریا نے خدا سے دراخواست کی تھی وہ پوری ہوگئی اگرچہ ان کی غرض و مقصد پورا نہ ہوا او ران کا بیٹا ان کے بعد موجود نہ رہا کہ ان کے مال یا نبوت کا وراث ہوتا۔(۱) وراثت جزء دعا نہ تھی بلکہ امید تھی جو اس درخواست پر اثر انداز ہوئی، اس بات پر بہترین گواہیہ ہے کہ دعا کی عبارت اور زکریا کی درخواست دوسرے سورہ میں اس طرح وارد ہوئی ہے ،اور وہاں پر اصلاً وراثت کا تذکرہ نہیں ہے۔

______________________

(۱) بعض قاریوں نے '' یرثنی '' کو جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور اسے جواب یا '' ھَب ''(کہ جو صیغہ امر ہے) کی جزا جانا ہے یعنی'' ان تهب ولیاً یرثنی '' اگر بیٹا عطا کرے گا تو وہ میرا وارث ہوگا۔

۲۳۰

( هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً انَّکَ سَمِیعُ الدُّعَاء ) (۱)

اس وقت زکریا نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں دعا کی پروردگارا! مجھے اپنی جانب سے ایک صالح اور پاکیزہ بیٹا عطا فرما اور تو اپنے بندوں کی دعا کو سننے والا ہے۔ اب آپ اس آیت میں ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ اس درخواست میں وراثت دعا کا حصہ نہیں ہے بلکہ درخواست میں پاکیزہ نسل کا تذکرہ ہے اور سورۂ مریم میں ''ذریت'' کی جگہ پر لفظ ''ولیاً'' اور ''طیبة'' کی جگہ پر لفظ ''رضیاًّ'' استعمال ہوا ہے۔

ب: مورد بحث آیت میں ضروری ہے کہ زکریا کا فرزند دو آدمیوں سے میراث لے ایک زکریا سے دوسرے یعقوب کے خاندان سے جیسا کہ ارشاد قدرت ہے: ''یرثنی و یرث من آل یعقوب'' یعقوب کے خاندان کی تمام وراثت ، نبوت کی وراثت کا حصہ نہیں بن سکتی۔

جواب: آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ زکریا کا فرزند، خاندان یعقوب کے تمام افراد کا وارث ہو ، بلکہ آیت کا مفہوم لفظ ''مِن'' سے جو کہ تبعیض کا فائدہ دیتی ہے ،یہ ہے کہ اس خاندان کے بعض افراد سے میراث حاصل کرے نہ کہ تمام افراد سے، اور اس بات کے صحیح ہونے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی ماں سے یعقوب کے خاندان کے کسی فرد سے میراث حاصل کریں. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس یعقوب سے مراد کون ہے کیا وہی یعقوب بن اسحاق مراد ہیں یا کوئی دوسرا فی الحال مشخص نہیں ہے۔

۲: سلیمان نے داؤد سے میراث پائی

( وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُود ) (۲)

سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ سلیمان نے مال و سلطنت کو حضرت داؤد سے بطور میراث حاصل کیا اور یہ خیال کرنا کہ اس سے مراد علم کا وارث ہونا تھا دولحاظ سے باطل ہے۔

______________________

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۳۸۔------(۲) سورۂ نمل، آیت ۱۶۔

۲۳۱

۱۔ اصطلاح میں کلمہ ''ورث'' کے معنی مال سے میراث لینا ہے اور علم کی وراثت مراد لینا تفسیر کے برخلاف ہے جو قرینہ قطعی کے بغیر صحیح نہیں ہوگا۔

۲۔ چونکہ اکتسابی علم استاد سے شاگرد کی طرف منتقل ہوتا ہے اور مجازاً یہ کہنا صحیح ہے کہ '' فلاں شخص اپنے استاد کے علم کا وارث ہے'' لیکن مقام نبوت اور علوم الہی وہبی ہیں اور اکتسابی اور موروثی نہیں ہیں اور خدا جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتاہے لہٰذا وراثت کی تفسیر اس طریقے کے علوم و معارف اور مقامات او رمنصبوں سے اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک قرینہ موجود نہ ہو کیونکہ بعد میں آنے والے پیغمبر نے نبوت اور علم کو خدا سے لیا ہے نہ کہ اپنے والد سے۔

اس کے علاوہ اس آیت سے پہلے والی آیت میں خداوند عالم داؤد اور سلیمان کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ) (۱)

اور اس میں شک نہیں کہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اوردونوں نے (خوش ہو کر) کہا خدا کا شکر جس نے ہم کو اپنے بہتیرے ایماندار بندوں پر فضیلت دی۔

کیا آیت سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ خداوند عالم نے دونوں کو علم و دانش عطا کیا او رسلیمان کا علم وہبی تھا نہ کہ موروثی؟

سورۂ نمل اور سورۂ مریم کی آیتوں کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت الہی کا پچھلے پیغمبروں کے بارے میں یہ ارادہ نہیں تھا کہ ان کی اولادیںان کی میراث نہ لیں، بلکہ ان کی اولادیں بھی دوسرں کی اولادوں کی طرح ایک دوسرے سے میراث حاصل کریں۔یہی وجہ ہے کہ صریحی طور پر وہ آیتیں جو یحییٰ اور سلیمان کی اپنے والد سے میراث لینے کے متعلق ہیں انہیں حضرت فاطمہ نے اپنے خطبہ میں جو آپ نے پیغمبر کے بعد مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا تھا بیان کیا اور ان دونوں آیتوں سے استناد کرتے ہوئے اس فکر کے غلط ہونے پر استدلال کیا اور فرمایا:

______________________

(۱) سورۂ نمل، آیت ۱۵۔

۲۳۲

''هذا کتاب الله حکماً عدلاً و ناطقاً فصلاً یقول ''یرثنی و یرث من آل یعقوب '' و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

یہ کتاب خدا حاکم اور عادل و گویا ہے اور بہترین فیصلہ کرنے والی ہے جس کا بیان یہ ہے کہ (یحییٰ نے) مجھ (زکریاسے) اور یعقوب کے خاندان سے میراث پائی (پھر کہا) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔

______________________

(۱) احتجاج طبرسی، ج۱، ص ۱۴۵، (مطبوعہ نجف اشرف)

۲۳۳

پیغمبر(ص) سے منسوب حدیث

گذشتہ بحث میں قرآن کی آیتوں نے یہ ثابت کردیا کہ پیغمبروں کے وارث ،پیغمبروں سے میراث پاتے تھے اور ان کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں (میراث) غریبوں اور محتاجوں میں بعنوان صدقہ تقسیم نہیں ہوتی تھیں، اب اس وقت ہم ان روایتوں کی تحقیق کریں گے جنہیں اہلسنت کے علماء نے نقل کیا ہے اور خلیفہ اول کے اس عمل کی توجیہ کی ہے جو انھوں نے حضرت زہرا کو ان کے باپ کی میراث لینے سے محروم کردیاتھا۔

ابتدا میں ہم ان حدیثوں کو نقل کررہے ہیں جو حدیث کی کتابوںمیں وارد ہوئی ہیں پھر ان کے معنٰی کو بیان کریں گے ۔

۱۔'' نَحْنُ مَعَاشِرُا لْاَنْبِیَائِ لَانُوْرِثُ ذَهْبًا وَلَا فِضَّةً وَلَا اَرْضًا وَلَا عِقَاراً وَلَا دَاراً وَلٰکِنَّا نُوَرِّثُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةَ وَالْعِلْمَ وَالسُّنَّةَ''

ہم گروہ انبیاء سونا، چاندی، زمین اور گھر وغیرہ بطور میراث نہیں چھوڑتے، بلکہ ہم ایمان ، حکمت ، علم او رحدیث بعنوان میراث چھوڑتے ہیں۔

۲۔'' اِنَّ الْاَنْبِیَائَ لَایُوْرثون''

بے شک انبیاء کوئی چیز بھی بعنوان میراث نہیں چھوڑتے (یا ان کی چیزیں میراث واقع نہیں ہوتیں)

۳۔'' اِنَّ النَّبِیَّ لَایُوْرثُ''

بے شک پیغمبر کوئی چیز میراث نہیں چھوڑتے (یا میراث واقع نہیں ہوتی)

۴۔'' لَانُوْرث، مَا تَرَکْنَاه صَدْقَةً''

ہم کوئی چیز میراث نہیں چھوڑتے بلکہ جو چیز ہمارے بعد باقی رہتی ہے وہ صدقہ ہے۔

۲۳۴

یہ ان تمام حدیثوں کی اصلی عبارتیں ہیں جنھیں اہلسنت نے نقل کیا ہے خلیفہ اول نے حضرت زہرا کو ان کے باپ کی میراث نہ دینے کے لئے چوتھی حدیث کا سہارا لیا، اس سلسلے میں پانچویں حدیث بھی ہے جسے ابوہریرہ نے نقل کیا ہے لیکن چونکہ معلوم ہے کہ ابوہریرہ صاحب نے یہ حدیث گڑھی ہے جیسا کہ (خود ابوبکر جوہری کتاب ''السقیفہ'' کے مولف نے اس حدیث کے متن کی غرابت کا اعتراف کیا ہے)(۱)

اس لئے ہم نے اسے نقل کرنے سے پرہیز کیا ہے اب ہم ان چاروں حدیثوں کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔

پہلی حدیث کے سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس حدیث سے مراد یہ نہیں ہے کہ انبیاء کوئی چیز میراث میں نہیں چھوڑتے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی عمر کو سونے چاندی ، مال و دولت کے جمع کرنے میں خرچ کریں اور اپنے وارثوں کے لئے مال و دولت چھوڑیں اور ان کی جو یادگاریں باقی ہیں وہ سونا چاندی نہیں ہیں، بلکہ علم و حکمت اور سنت ہیں،اسکا مطلب یہ نہیں کہ اگر پیغمبرنے اپنی پوری زندگی لوگوں کی ہدایت و رہبری میں صرف کی اور تقوی اور زہد کے ساتھ زندگی بسر کی تو ان کے انتقال کے بعد اس حکم کی بناء پر کہ پیغمبر کوئی چیز بطور میراث میں نہیں چھوڑتے، ان کے وارثوں سے فورا ان کا ترکہ لے کر صدقہ دیدیں۔

واضح لفظوں میں اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبروں کی امتیں یا ان کے ورثاء ا س بات کے منتظر نہ رہیں کہ وہ اپنے بعد مال ودولت بطور میراث چھوڑیں گے، کیونکہ وہ لوگ اس کا م کے لئے نہیں آئے تھے،بلکہ وہ اس لئے بھیجے گئے تھے کہ لوگوں کے درمیان دین و شریعت، علم و حکمت کو پھیلائیں اور انہی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۲۰۔

۲۳۵

چیزوں کو اپنی یادگار چھوڑیں، شیعہ دانشمندوں نے اسی مضمون میں ایک حدیث امام صادق سے نقل کی ہے اور یہ اس بات پر گواہ ہے کہ پیغمبر کا مقصد یہی تھا۔

امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

''انَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَائِ َوذَالِکَ اَنَّ الْاَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِرْهَماً وَلَادِیْنَاراً وَاِنَّمَا وُرِثُوْا اَحٰادِیْثَ مِنْ اَحَادِیْثِهِمْ'' (۱)

علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ پیغمبروں نے درہم و دینار ورثہ میں نہیں چھوڑا ہے بلکہ (لوگوں کے لئے) اپنی حدیثوں میں سے حدیث کو یادگار چھوڑا ہے

اس حدیث اور اس سے مشابہ حدیث کامراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی شان مال کو جمع کر کے میراث میں چھوڑ نا نہیں ہے ،بلکہ ان کی عظمت و شان کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی امت کے لئے علم و ایمان کو بطور میراث چھوڑیں، لہذا یہ تعبیر اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ اگر پیغمبر کوئی چیز میراث میں چھوڑ دیںتو ضروری ہے کہ ان کے وارثوں سے لے لیا جائے۔اس بیان سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ دوسری اور تیسری حدیثوں کا مقصد بھی یہی ہے اگرچہ مختصر اور غیر واضح نقل ہوئی ہیں۔ حقیقت میں جو پیغمبر نے فرمایا: وہ صرف ایک ہی حدیث ہے جس میں کتر بیونت کر کے مختصرا نقل کیا گیا ہے ۔اب تک ہم نے شروع کی تین حدیثوں کی بالکل صحیح تفسیر کی ہے اوران کے قرآن سے اختلافات کو جو پیغمبروں کی اولادوں کے وارث ہونے بتاتاہے، اسے برطرف کردیا۔

مشکل چوتھی حدیث میں ہے، کیونکہ مذکورہ توجیہ اس میں جاری نہیں ہوگی،کیونکہ حدیث میں صراحتاً موجود ہے کہ پیغمبریا پیغمبروں کا ترکہ صدقہ کے عنوان سے لے لینا چاہئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس حدیث کا مقصد یہی ہے کہ یہ حکم تمام پیغمبروں کے لئے ہے تو اس صورت میں اس کا مفہوم قرآن کے مخالف ہوگا اور پھر معتبر نہیں ہو گی، اور اگر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم صرف پیغمبر اسلام کے لئے نافذ ہے اور تمام پیغمبروں کے درمیان صرف وہ اس خصوصیت کے

______________________

(۱)مقدمۂ معالم ص۱ منقول از کلینی ۔

۲۳۶

حامل ہیں، تو ایسی صورت میں اگرچہ کلی طور پر قرآن مجید کے مخالف نہیں ہے، لیکن قرآن مجید کی متعدد آیتوں کے مقابلے میں عمل کرنا خصوصاً میراث اور اس کے وارثوں کے درمیان تقسیم کرنا، جو کلی و عمومی ہے پیغمبر اسلام کو بھی شامل کرتی ہے بشرطیکہ یہ حدیث اس قدر صحیح و معتبر ہو کہ ان قرآنی آیتوں کی تخصیص کردے، لیکن افسوس کہ یہ حدیث کہ جس پر خلیفہ اول نے اعتماد کیا ہے اس قدر غیر معتبر ہے جس کوہم یہاںبیان کر رہے ہیں۔

۱۔ پیغمبر کے صحابیوں میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے اور صرف اس کو نقل کرنے میں خلیفہ اول فردفرید ہیں۔

اور ہم نے جو یہ کہا ہے کہ حدیث نقل کرنے میں صرف وہی ہیں تو یہ غلط عبات نہیں ہے بلکہ یہ مطلب تاریخ کے دامن میں تحریر ہے اور مسلمات میں سے ہے چنانچہ ابن حجر نے تنہا اس حدیث کے نقل کرنے کی بنا پر ان کی اعلمیت کا اعتراف کیا ہے۔(۱)

جی ہاں، صرف تاریخ میں جو چیز بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور عباس کے درمیان پیغمبر کی میراث کے بارے میں جواختلاف تھا۔(۲) عمر نے دونوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے اسی حدیث کا سہارا لیا جسے خلیفہ اول نے نقل کیا تھا اور اس مجمع میں سے پانچ لوگوںنے اس کے صحیح ہونے پر گواہی دی۔(۳) ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

پیغمبر کی رحلت کے بعد صرف ابوبکر نے اس حدیث کو نقل کیا تھا ،ان کے علاوہ کسی نے اس

حدیث کو نقل نہیں کیا اور کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ مالک بن اوس نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ البتہ، عمر کی خلافت کی زمانے میں بعض مہاجرین نے اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے۔(۴)

______________________

(۱) صواعق محرقہ ص ۱۹۔

(۲) حضرت علی علیہ السلام کا عباس سے اختلاف جس طرح سے اہلسنت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے وہ محققین شیعہ کی نظر میں غیر قابل قبول ہے۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۲۹، صواعق محرقہ ص ۲۱۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۶ ص ۲۲۷۔

۲۳۷

ایسی صورت میں کیا یہ صحیح ہے کہ خلیفہ جو کہ خود بھی مدعی ہے ایسی حدیث کو بطور گواہ پیش کرے کہ اس زمانے میں اس کے علاوہ کسی کو بھی اس حدیث کی اطلاع نہ ہو؟

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت اپنے علم پر عمل کرسکتا ہے اوراپنے کینہ اپنے علم و آگاہی کی بنیاد پر فیصلہ کرے، اور چونکہ خلیفہ نے اس حدیث کو پیغمبر سے سنا تھا لہٰذااپنے علم کی بنیادپر اولاد کی میراث کے سلسلے میں جو آیتیں ہیں انہیں تخصیص دیدیں،اور پھر اسی اساس پر فیصلہ کریں، لیکن افسوس، خلیفہ کامتضادکردار اور فدک دینے میں کشمکش کا شکار ہونا اور پھر دوبارہ فدک واپس کرنے سے منع کرنا (جس کی تفصیل گذر چکی ہے) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انہیں حدیث کے صحیح ہونے پر یقین و اطمینان نہ تھا۔

اس بناء پر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلیفہ نے پیغمبر کی بیٹی کو ان کے باپ کی میراث نہ دینے میں اپنے علم کے مطابق عمل کیا ہے اور قرآن مجیدکی آیتوں کو اس حدیث سے جو پیغمبر سے سنا تھا مخصوص کردیا ہے؟

۲۔اگر خداوند عالم کا پیغمبر کے ترکہ کے بارے یہ حکم تھا کہ ان کا مال عمومی ہے اور مسلمانوں کے امور میں صرف ہو، تو کیوں پیغمبر نے اپنے تنہا وارث سے یہ بات نہیں بتائی؟ کیا یہ بات معقول ہے کہ پیغمبر اپنی بیٹی سے اس حکم الہی کو جو خود ان سے مربوط تھا پوشیدہ رکھیں؟ یا یہ کہ ان کو باخبر کردیں مگر وہ اسے نظر انداز کردیں؟

نہیں ۔ یہ ایساہرگز ممکن نہیں ہے ،کیونکہ پیغمبرکی عصمت اور آپ کی بیٹی کا گناہ سے محفوظ رہنا اس چیز کے لئے مانع ہے کہ اس طرح کا احتمال ان کے بارے میں دیا جائے؛ بلکہ ضروری ہے کہ حضرت فاطمہ کے انکار کواس بات پر گواہ سمجھیں کہ ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ حدیث ان لوگوںکی من گھڑت ہے جن لوگوں نے سیاسی طور پر یہ ارادہ کیا کہ پیغمبر کے حقیقی وراث کو ان کے شرعی حق سے محروم کردیں۔

۳۔ وہ حدیث جس کو خلیفہ نے نقل کیا تھا اگر واقعاً وہ صحیح تھی تو پھر کیوں فدک مختلف سیاستوںکا شکار رہااور ہر نئے خلیفہ اپنے دوران حکومت میںمتضاد کردار اداکیا؟ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک خلفاء کے زمانے میں ایک آدمی کے پاس نہ تھا کبھی فدک ان کے حقیقی مالکوں کو واپس کیا گیا تو کبھی حکومت کے قبضے میں رہا، بہرحال ہر زمانے میں فدک ایک حساس مسئلہ اور اسلام کے

۲۳۸

پیچیدہ مسائل کے طور پر تھا۔(۱) جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ عمر کی خلافت کے دور میں فدک علی علیہ السلام اور عبا س کو واپس کر دیا گیا تھا(۲) خلافت عثمان کے زمانے میں مروان کی جاگیر تھا معاویہ کے خلافت کے دور میں اور امام حسن بن علی کی شہادت کے بعد فدک تین آدمیوں کے درمیان (مروان، عمر وبن عثمان، یزید بن معاویہ) تقسیم ہوا پھر مروان کی خلافت کے دوران تمام فدک اسی کے اختیار میں تھا اور مروان نے اسے اپنے بیٹے عبد العزیز کو دے دیا، اور خود اس نے بھی اپنے بیٹے عمر کے نام ہبہ کردیا۔عمر بن عبد العزیز نے اپنی حکومت کے زمانے میں حضرت زہرا کی اولادوں کے حوالے کردیا اور جب یزید بن عبدالملک نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو فدک کو حضرت فاطمہ کے بچوں سے واپس لے لیا اور کافی عرصے تک بنی مروان کے خاندان میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں جاتارہایہاں تک کہ ان کی حکومت کا زمانہ ختم ہوگیا۔

بنی عباس کی خلافت کے زمانے میں بھی فدک مختلف لوگوں کے پاس رہا، ابو العباس سفاح نے اسے عبد اللہ بن حسن بن علی کے حوالے کردیا، ابو جعفر منصور نے اسے واپس لے لیا ، مہدی عباسی نے اسے اولاد فاطمہ کو واپس کردیا موسی بن مہدی اوراس کے بھائی نے اسے واپس لے لیا یہاں تک خلافت مامون تک پہونچی اور اس نے فدک اس کے حقیقی مالک کو واپس کردیا اور جب متوکل خلیفہ ہوا تواس نے فدک کو اس کے حقیقی مالک سے چھین لیا۔(۳) اگر پیغمبر کے فرزندوں کو پیغمبر کے ترکہ سے محروم کرنے والی حدیث صحیح اور مسلّم ہوتی تو فدک کبھی بھی دربدر کی ٹھوکر نہ کھاتی۔

۴۔ پیغمبر اسلام نے فدک کے علاوہ دوسری چیزیں بھی ورثہ میں چھوڑیں، لیکن خلیفہ اول نے تمام

______________________

(۱) اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے کتاب الغدیر مطبوعہ نجف ج۷ ص ۱۵۶ تا ۱۹۶ ، پڑھ سکتے ہیں۔

(۲) یہ عبارت امام ـ کی اس نامہ سے سازگار نہیں ہے جو آپ نے عثمان بن حنیف کو لکھا تھا آپ وہاں لکھتے ہیں:''کانت فی ایدنا فدک من کل ما اظلته السماء فشحت علیها نفوس قوم و سخت عنها نفوس قوم آخرین و نعم الحکم لله'' یعنی وہ چیز جس پر آسمان نے اپنا سایہ کیا ہے اس میں سے صرف فدک میرے اختیار میں ہے جب کہ بعض گروہ نے اسے لالچ کی نگاہ سے دیکھا اور دوسری گروہ نے اسے نظر انداز کردیاواہ کیاخوب ہے خدا کا فیصلہ۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۷۔ ۲۱۶۔

۲۳۹

ورثے میں سے صرف فدک کو ہی زبردستی چھین لیا اور باقی تمام مال رسول خدا کی بیویوں کے گھر میں موجود تھا اور بالکل اسی طرح ان کے ہاتھوں میں باقی رہا اور خلیفہ نے کبھی بھی ان کی طرف رخ نہیں کیا اور کسی کو بھی اس کے لئے نہ بھیجا کہ جاکر گھروں کے حالات معلوم کرے کہ کیا وہ خود پیغمبر کی ملکیت ہے یا حضرت نے اپنی زندگی ہی میں اپنی بیویوں کو دیدیا تھا۔

ابوبکر نے نہ یہ کہ اس سلسلے میں تحقیق نہیں کیا بلکہ پیغمبر کے جوار میں دفن ہونے کے لئے اپنی بیٹی عائشہ سے اجازت مانگی ،کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو پیغمبر کا وارث مانتے تھے۔

انہوں نے نہ یہ کہ ازدواج پیغمبر کے گھروںکو نہیں لیا بلکہ رسول خدا کی انگوٹھی، عمامہ، تلوار، سواری، لباس وغیرہ جو حضرت علی کے ہاتھ میں تھے توواپس نہیں لیا اورا س سلسلے میں کبھی کوئی گفتگو بھی نہیں کی۔

ابن ابی الحدید معتزلی اس تبعیض کودیکھ کر اتنا مبہوت ہوگئے کہ وہ چاہتے تھے کہ خود اپنی طرف سے اس کی توجیہ کریں لیکن ان کی توجیہ اتنی بے اساس اور غیر معقول ہے کہ وہ نقل اورتنقید کے لائق نہیں ہے(۱)

کیا میراث سے محروم ہونا صرف پیغمبر کی بیٹی سے مخصوص تھا ،یاان میں تمام ورثاء بھی شامل تھے، یا اصلاً محرومیت کی بات ہی نہ تھی صرف سیاسی مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ حضرت فاطمہ زہرا کو ان کی میراث سے محروم کردیا جائے؟

۵۔ اگر شریعت اسلامی میں پیغمبر کے وارثوں کا ان کی میراث سے محروم ہونا یقینی امر تھا تو کیوں پیغمبر کی بیٹی نے جن کی عصمت پر آیت تطہیر کا پہرہ ہے اپنے شعلہ ور خطبہ میں اس طرح فرمایا:

''یابن ابی قحافة أفی کتاب الله ان ترث أباک و لاارث ابی؟ لقد جئت شیئاً فریاًّ افعلی عمد ترکتم کتاب الله فنبذتموه وراء ظهورکم و و زعمتم ان لا خطَّ لی و لاارث من ابی و لارحم بیننا؟ افخصّکم الله بآیة اخرج ابی منها ام هل تقولون: ان اهل ملتین لایتوارثان؟ او لست أنا و ابی من اهل ملة واحدة ام أنتم اعلم بخصوص القرآن و عمومه من ابی و ابن عمّی؟ فدونکها مخطومة مرحولة تلقاک یوم حشرک

_____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص۲۶۱۔

۲۴۰