فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341337
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341337 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور کہا جب شوریٰ کے ممبران تین مساوی رائے رکھتے ہوں تو طرفین میرے بیٹے عبد اللہ کی بات کو قبول کریں لیکن ہر گز یہ اجازت نہ دی کہ حسن بن علی اورعبد اللہ بن عباس شوریٰ کے ممبر یا اس کے مشاور ہوں، بلکہ اس نے کہا کہ اگر یہ لوگ جلسہ میں آزاد سامعین کی طرح آنا چاہیں تو شرکت کرسکتے ہیں۔(۱)

۱۲۔ اصولی طور پر کیا ہوجاتا اگر عمر، ابوبکر کی طرح علی کو جانشینی کے لئے منتخب کرتے اور اسی طرح بہت سی خرابیوں کو روک سکتے دیتے؟

اس صورت میں بنی امیہ ،معاویہ سے مروان تک نہ سرکشی کی قدرت رکھتے، اور نہ اس کی جرأت اور رکھتے ، جاگیر کا مسئلہ ،بیت المال کو غارت کرنا، لوگوں کے کمزوراوربے بنیاد اعتقاد، حاکم وقت کی کوتاہیاں، اور جاہلیت کے آداب و رسوم کا مستحکم ہونا جس نے اسلام پر ضرب لگائی ،یہ تمام واقعات ہرگز رونما نہ ہوتے۔

امام کی بے مثال عقلی ، جسمی اور اخلاقی قوت اور اس کے علاوہ تمام ہمت و شجاعت، جومنافقوں اورشقیوں سے مقابلہ میں ختم ہوئی یہ سب اسلام کے تمام آسمانی اصولوں، لوگوں کو جذب کرنے، اور مختلف قوم و ملت کے افراد کو اسلام کی دعوت دینے اور اس کی ترویج وغیرہ میں صرف ہوتی اورحقیقت میں دنیا اور آدمی کو ایک نئی سرنوشت اور روشن و تابناک مستقبل حاصل ہوتا۔(۲)

۱۳۔ عمر نے ایک طرف تو عبد الرحمن بن عوف کو مومن یکتا کے خطاب سے نوازا کہ اس کا ایمان زمین پر موجود لوگوں کے آدھے ایمان سے زیادہ سنگین ہے اور دوسری طرف اس مشہور ومعروف مالدار کو ''فرعون امت'' کے لقب سے نوازا ہے(۳) اور حقیقتاً تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ عبدالرحمن بن عوف قریش کا مشہور و معروف مالدار تھا اور مرنے کے بعدبے پناہ دولت میراث میں چھوڑی تھی۔

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۱۲، الامامة والسیاسة ج۱ ص ۲۴۔

(۲) ماخوذ از ''مرد نامتناہی'' ص ۱۱۴۔

(۳) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۲۴۔

۲۶۱

اس کی دولت کا ایک حصہ یہ تھاکہ اس کے پاس ایک ہزار گائے، تین ہزار بکری اور سو گھوڑے تھے اور مدینے کے ''جرف'' علاقے کو بیس گائے کے ذریعہ پانی سے سیراب کرکے کھیتی کرتا تھا۔اس کی چار بیویاں تھیں اور جب اس کا انتقال ہوا تو ہر بیوی کو ۸۰ ہزار دینار میراث کے طور پر ملا اور یہ اس کی دولت میں سے آٹھویں حصہ کا ایک چوتھائی حصہ تھا جو اس کی بیویوں تک پہونچا اور جب اس نے اپنی ایک بیوی کو بیماری کی حالت میں طلاق دیا تو ۸۳ ہزار دینار اسے بطور میراث دیکر اس سے مصالحت کی۔(۱)

کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخص کا ایمان روئے زمین پر موجود افراد کے آدھے ایمان سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟

۱۴۔ عبد الرحمن نے عثمان کو منتخب کرتے وقت مکر و فریب سے کام لیا اور سب سے پہلے حضرت علی سے پیشنہاد کیا کہ کتاب خدا و سنت پیغمبر اور شیخین کی سیرت کے مطابق عمل کریں، جب کہ وہ جانتا تھا کہ شیخین کا طورو طریقہ، قرآن و سنت سے مطابقت کی صورت میں ایک جداگانہ امر نہیں ہے اور قرآن و سنت کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ان تمام چیزوں کے باوجود اس کا اصرا رتھا کہ علی کی بیعت ان تینوں شرطوں پر ہونی چاہیئے اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ امام علی تیسری شرط کو قبول نہیں کریں گے لہذا جب حضرت نے اس تیسری شرط کو رد کردیا تو عبد الرحمن نے فوراً اس چیز کی خبر اپنے برادر نسبتی عثمان کو دیدی اور انہوں نے فوراً اسے قبول کرلیا۔

۱۵۔ امام کے لئے حکومت وسیلہ تھی نہ کہ ہدف، جب کہ آپ کے مخالف کے لئے ہدف تھی نہ وسیلہ۔

اگر امام خلافت کو اسی نگاہ سے دیکھتے جس سے عثمان دیکھ رہے تھے تو بہت زیادہ آسان تھا کہ ظاہراً عوف کے بیٹے کی شرط کو قبول کرلیتے لیکن عمل کے وقت اسے قبول نہ کرتے، لیکن حضرت نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپ کبھی بھی حق کو باطل کے ذریعے حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے۔

۱۶۔ امام ابتدا ء سے ہی خلیفہ دوم کے فریب اور ان کے نمائندوں کی نیت سے باخبر تھے یہی وجہ خلافت سے محروم ہوگئے صرف امام ہی اس نتیجہ سے آگاہ نہ تھے بلکہ عبداللہ بن عباس جیسا نوجوان بھی جب

______________________

(۱) الغدیر ج۸ ص ۲۹۱ مطبوعہ نجف و ص ۲۸۴ مطبوعہ لبنان۔

۲۶۲

شوری کے نمائندوں کی فہرست سے باخبرہوا تواس نے کہا کہ عمر چاہتے ہیں کہ عثمان خلیفہ بنیں۔(۱)

۱۷۔ عمر نے محمد بن مسلمہ کو حکم دیا کہ اگر اقلیت نے اکثریت کی موافقت نہ کی تو فوراً ان کوقتل کردینا اور اگر دونوں گروہ مساوی ہوں اور دوسرے گروہ نے اس گروہ کی جس میں عبدالرحمن ہے موافقت نہیں کی تو فوراً انھیں قتل کردینا اوراگر شوریٰ کے ممبران تین دن تک جانشین کا تعین نہ کرسکیں تو سب کو قتل کردینا۔ان دھمکیوں کے مقابلے میں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اس آزادی پر مبارکباد، دنیا کی کس حکومت کا قانون ہے کہ اگر اقلیت اکثریت کے مقابلے میں ہو تو اسے قتل کردیا جائے؟ !

حکومت اسلامی کی باگ ڈور دس سال تک اس سنگدل شخص کے ہاتھوں میں تھی، جو نہ صحیح تدبیر رکھتا تھا نہ مروت اور نہ لوگوں سے محبت رکھتا تھا لہذا لو گ اس کے بارے میں کہتے تھے۔

درّةُ عمر اهیبُ من سیفِ الحجاج

عمر کا تازیانہ حجاج کی تلوار سے زیادہ خطرناک تھا۔عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے کی وجہ سے بنی امیہ کو بہت زیادہ ترقی نصیب ہوئی اور اتنی قدرت و جرأت ملی کہ ابو سفیان جو عثمان کے رشتہ داروں میں سے تھا ایک دن وہ احد گیااور اسلام کے بزرگ سردار جناب حمزہ کی قبر پر جو ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے پیرسے ٹھوکر مار کر کہتا ہے : اے ابا یعلی! اٹھو اوردیکھو جس چیز کے لئے ہم نے لڑائی لڑی تھی وہ آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔(۲) عثمان کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں ایک دن اس کے تمام رشتہ دار اس کے گھر میں موجود تھے اس وقت اسی بوڑھے ملحد نے سب سے مخاطب ہوکر کہا:''خلافت کو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں منتقل کرتے رہو اور اپنے عہدہ داروں کو بنی امیہ میں سے منتخب کرو کیونکہ حاکمیت کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف نہیں ہے نہ کوئی جنت ہے اور نہ کوئی دوزخ ۔( ۳)

______________________

(۱) کامل ابن اثیر ج۲ ص ۴۵ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۳ ص ۹۳۔

(۲) نقش وعاظ در اسلام، ص ۱۵۱۔

(۳) الاستیعاب، ج۲، ص ۲۹۰۔

۲۶۳

آٹھویں فصل

خاندان رسالت، حضرت علی ـکی نظر میں

امام علی علیہ السلام کی پچیس سالہ زندگی جو پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد شروع ہوتی ہے اور آپ کی ظاہری خلافت کے شروع ہونے پر ختم ہوتی ہے ایک ایسا حساس اورقابل درس حصہ ہے جس میں سے بعض کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اور بقیہ حصے کو یہاں پر بیان کر رہے ہیں اس میں سے کچھ حصے حسب ذیل ہیں:

۱۔ خلفاء ثلاثہ کے مقابلے میں امام کا رویہ اور ان کے ساتھ برتاؤ۔

۲۔ مسلمانوں کو احکام اور اسلامی مسائل کی تعلیم دینا۔

۳۔ امام ـ کی اجتماعی خدمات۔

اس کے پہلے کہ امام کی خلفاء کے مقابلے میں آپ کے رویے کو بیان کریں، ضروری ہے کہ خاندان رسالت کے سلسلے میں حضرت کے نظریہ کو بیان کریں یا خود امام ـ کی اصطلاح میں ''آل محمد'' کے حالات کو بیان کریں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اسلام کی نشرو اشاعت میں حضرت علی علیہ السلام کا خلفاء کے ساتھ ہمکاری کرنااس وجہ سے نہ تھا کہ امام ان لوگوں کو حق کا محور اور واقعی خلیفہ و حاکم سمجھتے تھے ،بلکہ آنحضرت ان کی ہمکاری اور سیاسی و علمی مشکلات کوحل کرنے کے ساتھ ساتھ خاندان رسالت استادان حق ،صحیح پیشوااور حقیقی حاکم جانتے تھے خودواضح لفظوں فرماتے ہیں:

''لایقاسُ بآلِ محمدٍ صلی اللّٰه علیه وآله وسلم من هذه الامة احدُ و لایساویٰ بهم من جرتْ نعمتهُم علیه ابداً'' (۱)

اس امت میں کسی شخص کا مقابلہ بھی خاندان رسالت سے نہیں ہوسکتا اور جو لوگ ان کی نعمتوں سے مستفیدہوئے ہیں ہرگز ان کے برابر نہیں ہوسکتے۔

دوسرے مقام پر امام ،آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علمی فضائل کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''هُم موضعُ سرِّه و ملجأُ امرِه و عَیبةُ عِلمهِ و موئلُ حکمِه و کهوفُ کتبهِ و

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ۲۔

۲۶۴

جبالُ دینِه، بهم أقامَ انحنائَ ظهرِه و أذهبَ ارتعادَ فرائضه'' (۱)

خاندان پیغمبر کے افراد پیغمبر کے رازوں کے محافظ اوران کے حکم پر عمل کرنے والے، اوران کے علوم کا ذخیرہ، اوران کی کتابوں کے محافظ ہیں۔ وہ لوگ ایسے مضبوط پہاڑ ہیں جو اسلام کی سرزمین کو زلزلہ سے محفوظ رکھتے ہیں، پیغمبر نے ان لوگوں کے وسیلے سے اپنی پشت کو سیدھا کیا اور اپنے کو آرام و سکون بخشا۔حضرت علی علیہ السلام ایک مقام پر ان لوگوں کو دین کی اساس و بنیاد اور ایمان و یقین کے ستون سے تعبیر کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ ان لوگوںکے رفتارو گفتار کو دیکھ کر جو لوگ غلو کرتے ہیں ان کو غلو سے روکا اور جو حق کی راہ میں پیچھے رہ گئے ہیں ان کو واپس منزل پر لایا جا سکتا ہے۔

''هم اساسُ الدین و عمادُ الیقین الیهم یفیئُ الغالی و بهم یلحقُ التالی'' (۲)

ایک اور مقام پر آپ ارشاد فرماتے ہیں :

''انظروا اهلَ بیتِ نبیکم فالزموا سَمْتَهم و اتبعوا أثرَهم فلن یُخرجوکم من هدی و لن یعیدوکم فی ردیً فان لبدوا فالبدوا و ان نهضوا فانهضوا و لا تسبقوهم فتضلوا و لا تتأخروا عنهم فتهلکوا'' (۳)

خاندان رسالت کے بارے میں فکر و تدبر سے کام لو اور ان کے راستے پر چلو کیونکہ ان کی پیروی تمہیں راہ حقیقت سے دور نہیں کرسکتی اور گمراہی کی طرف نہیں لے جائے گی اگر وہ کسی مقام پر رک جائیں تو تم بھی رک جاؤ اور اگر اٹھ جائیں تو تم بھی اٹھ جاؤ کبھی بھی ان پر سبقت نہ کرنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور ان سے منھ بھی نہ موڑنا ورنہ برباد ہو جاؤ گے۔

امام اہل بیت نبوت کی معرفت و شناخت کو خدا و پیغمبر کی معرفت کے بعد جانتے ہیں۔

''فانه من ماتَ منکم علی فراشِه و هو علی معرفةِ حقِ ربِه و حقِ رسولِه و اهلِ بیتِه مات

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۲۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۲۔

(۳) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۹۳۔

۲۶۵

شهیداً'' (۱)

تم میں سے جو شخص بھی خود اپنے بستر پر مرجائے اور اپنے پروردگار کے حق اوراپنے پیغمبر کے حق اور خاندان رسالت کے حق کی معرفت رکھتا ہو تو وہ دنیا سے شہید اٹھا ہے۔امام نے اپنے کلام میں کہ خاندان رسالت کے حق کی معرفت، خدا و رسالت کے حق کی معرفت کے ہمراہ ہے اس حدیث کو واضح اور روشن کردیا ہے جسے محدثین نے پیغمبر اسلام سے نقل کیا ہے ۔

من مات ولم یعرفْ امام َزمانِه ماتَ میتة ًجاهلیة

جومرجائے اور اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے

امام ایک مقام پر ہر زمانے میں فیض الہی جاری رہنے کے متعلق اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''الا ان مثلَ آلِ محمدٍ صلی الله علیه و آله و سلم کمثلِ نجومِ السماء اذا خوی نجمُ طلعَ نجم'' (۲)

خاندان رسالت کی مثال آسمان کے ستاروں کی طرح ہے کہ اگر ایک ڈوبتا ہے تو دوسرا نکلتا ہے۔

امام نے خاندان رسالت کے فضائل و کمالات کے متعلق اس سے بہت زیادہ کہا ہے کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے(۳) نمونہ کے طور پر چند حدیثوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، حضرت ان کے اسماء مبارک کے سلسلے میں فرماتے ہیں:

''ألا بابی و امی هم من عِدةٍ اسماء هم فی السمائِ معروفة و فی الارضِ مجهولة'' (۴)

میرے ماں باپ قربان ہوں اس گروہ پر جن کے نام آسمانوں پر مشہور اور زمین پر مجہول ہیں۔

امام ـ کی درج ذیل حدیث اگر چہ حق کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں ہے لیکن اس کا مصداق کامل خاندان رسالت ہے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۸۵۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۹۶۔

(۳) نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ نمبر ۹۳ ۹۶ ۱۰۸ ۱۱۹ ۱۴۷ ۱۵۳ ۱۶۰ ۲۲۴ و مکتوب نمبر ۱۷ کلمات قصار ۱۰۱۔

(۴) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۸۲۔

۲۶۶

''عقلوا الدینَ عقلَ وعایةٍ و رعایةٍ لا عقلَ سُماعٍ و روایةٍ فان رواةَ العلمِ کثیر و رعاتُه قلیل'' (۱)

دین و اصول اور فروع کی حقیقت کو حد کمال و عقل تک پہچانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے نہ یہ کہ صرف سن کر پہچانا ہے کیونکہ علم کے دعوے دار بہت ہیں اور اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔

امام نے اگر چہ ذیل کے کلام میں ان کے باعظمت مقام کو بیان کیا ہے لیکن اپنے دوسرے کلام میں ان کی ولایت و رہبری کی تصریح کی ہے اور ان لوگوں کو اس امت کا ولی و حاکم اور پیغمبر کا جانشین اور ان کے منصبوں کا (سوائے نبوت کے) وارث قرار دیاہے۔

''و لهم خصائصُ حقِ الولایة و فیهم الوصیةُ و الوراثة'' (۲)

ولایت و امامت کی خصوصیتیں (علم اور اعجاز) ان کے پاس ہیں اور پیغمبر کی وصیت ان کے بارے

میں ہے اور یہ لوگ پیغمبر کے وارث ہیں۔

حضرت علی کے بیانات کی روشنی میں جب خاندان رسالت کی عظمت واضح ہو گئی اور خود آپ بھی اسی خاندان کی ایک اہم فرد ہیں۔ تو اب ضروری ہے کہ امام کی خلفاء کے بارے میں امام کے رویے کی اہم تاریخی حوالوں کے ساتھ وضاحت کریں۔

_______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۲۳۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۲۔

۲۶۷

امام خلفاء کی فکری اور قضاوتی آماجگاہ تھے

منصب خلافت سے کنارہ کشی کرنے کے بعد امام پچیس سال تک خاموش رہے اور مکمل طور پر خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آپ امور رہبری میں ہر طرح کی مداخلت سے کنارہ کشی کئے ہوئے تھے، اگرچہ سیاسی رہبری اور منصب خلافت پر دوسروں نے قبضہ کرلیا تھا اور منصوب و معزول کرنا اور اسلامی اموال ان کے ہاتھ میں تھا، اس کے باوجود اس امت کے تنہا معلم اور لوگوں کی فکروں کی آماجگاہ جن کے علم کے مقابلے میں سبھی خاضع تھے وہ علی بن ابی طالب تھے۔ا س زمانے میں امام ـ کی اہم ترین خدمات یہ تھیں کہ نئے اسلام کے قضاوت کی رہبری کرتے تھے ،جب بھی ان کو کوئی مشکل پیش آتی تھی فوراً اس مسئلہ کے حل کے لئے حضرت کی طرف رجوع کرتے تھے اور کبھی کبھی خود امام بغیر اس کے کہ لوگ ان کی طرف رجوع کرتے خلیفہء وقت کی مسئلہ قضاوت میں راہنمائی کرتے تھے اور جو اس کے جاری کردہ حکم میں غلطیاں ہوتی تھیں اس پر متوجہ کرتے اور بہترین اورفیصلوں کے ذریعے پیغمبر کے صحابیوں کے ذہنوں کو جلا بخشتے تھے۔اگرچہ امام ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور خود کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وصی و جانشین اور امت کے تمام امور کی رہبری کے لئے بہترین فردجانتے تھے، لیکن جب بھی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحتوں پر کوئی وقت آتا تھا تو ہر طرح سے مدد کرتے تھے بلکہ جانبازی اور فداکاری سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے سے تمام مشکلات کا استقبال کرتے تھے۔امام کی منزلت اس سے بالتر اور آپ کی روح اس سے بزرگ تر تھی کہ آپ کے بارے میں بعض یہ خیال کریں کہ چونکہ خلافت کی باگ ڈور ان سے لے لی گئی لہٰذا حکومت کے کسی بھی امور میں مداخلت نہ کریں اور کسی بھی مشکل کو حل نہ کریں، تاکہ اسلامی معاشرہ ناراض ہو جائے اور خلافت غیر مستحکم ہو جائے اور حکومت کا تختہ پلٹ جائے ، نہیں امام ایسے شخص نہ تھے ،وہ اسلام کے پروردہ تھے اور اسلام کی آغوش میں انھوں نے تربیت پائی تھی اور جب پیغمبر اسلام شجر اسلام کی آبیاری کر رہے تھے اس وقت آپ نے بہت زحمتیں برداشت کیں اور اسلام کی راہ میں خون نثار کیا، آپ کا ایمان اور پاکیزہ فکر اس بات کے لئے راضی نہ تھی کہ اسلام کی مشکلات اور مسلمانوں کے دشوار امور کے مقابلے میں مکمل خاموش رہیں اور ہر طرح کی مداخلت سے پرہیز کریں۔امام ـ کا اہم ہدف یہ تھا کہ پوری دنیا میں اسلام پھیل جائے اور مستحکم ہو جائے اور امت کے افراد معارف الٰہی ،دین کے اصول و فروع سے باخبر اور یہودیوں اور نصرانیوں کے دانشمندوں کے نزدیک اسلام کی عظمت محفوظ ہو جائے جو اس نئے مذہب کی طرف گروہ در گروہ تحقیق کے لئے مدینہ آرہے تھے

۲۶۸

اور جہاں تک امام کے امکان میں تھا اور حکومت ، مزاحمت ایجاد نہیں کرتی تھی بلکہ کبھی کبھی آپ کے سامنے دست سوال دراز کرتی تھی تو آپ ان کی رہنمائی اور رہبری سے منھ نہیں پھیرتے تھے بلکہ ہمیشہ استقبال کرتے تھے۔امام نے اس خط میں جو مالک اشتر کے ذریعے مصر والوں کے نام لکھا تھا اس میں آپ نے اس حقیقت کی وضاحت اور خلفاء کے ساتھ مدد اور رہنمائی کرنے کی وجہ کوبھی بیان کیا ہے۔

''فامسکتُ یدی حتی رأیتُ راجعةَ الناسِ قدرجعتْ عن الاسلامِ یدعون الی محقِ دینِ محمدٍ فخشیتُ ان لم انصرْ الاسلامَ و اهلَه ان أَری فیه ثلماً او هدماً تکونُ المصیبةُ به علَّ اَعظمَ من فوتِ ولایتِکم التی انما هی متاعُ ایامٍ قلائلٍ یزولُ منها ما کانَ کمایزولُ السراب'' (۱)

میں نے ابتدا میں خلفاء کی مدد کرنے سے پرہیز کیا (اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا) یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ایک گروہ نے اسلام سے منھ پھیر لیا ہے اور لوگوں کو دین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مٹانے کی دعوت دے رہا ہے مجھے خوف محسوس ہوا کہ اگر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کے لئے نہ اٹھوں تو اسلام کے اندر رخنہ یا ویرانی دیکھنا پڑے گی اور یہ مصیبت میرے لئے اس چند روزہ حکومت سے دوری سے زیادہ بڑی ہوگی جو سراب کی طرح زائل ہو ۔امام کا یہ نامہ آپ کی روح کی پاکیزگی اور اس اسلامی معاشرہ کے امور میں مداخلت کی علت کو بیان کر ہا ہے کہ جس کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں تھی جنہیں امام تسلیم نہیں کرتے تھے۔

حضرت علی ،رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتقال کے بعد خلفاء اور آپ کے اصحاب نے اپنی مشکلات کے حل کے لئے حضرت علی کی طرف رجوع کیا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان لوگوںنے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حضرت علی کے علم و فضل و قضاوت کے بارے میں سنا تھا کہ آپ نے فرمایا:

''اعلمُ امتی بالسنةِ و القضائِ علیُّ بنُ ابی طالب'' (۲)

میری امت میں اسلامی سنت اور قضاوت کے احکام کی سب سے زیادہ معلومات رکھنے والے

_______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ نامہ ۶۲۔

(۲) کفایة الطالب، مطبوعہ نجف، ص ۱۹۰۔

۲۶۹

علیبن ابی طالب ہیںِ ان لوگوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا تھا کہ حضرت نے زید بن ثابت اور ابی ابن کعب وغیرہ کی معرفی کرتے وقت حضرت علی کے بارے میں فرمایا: ''اقضاکم علی''(۱) یعنی تم میں سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے علی بن ابی طالب ہیں۔

ابھی پیغمبر کی آواز صحابیوں کے کانوں سے ٹکراہی رہی تھی کہ پیغمبر نے فرمایا:

''انا مدینةُ العلم و علی بابُها فمن اراد المدینةَ فلیاتِها من بابها'' (۲)

میں شہر علم ہوں اورعلی اس کا دروازہ ہیں جو شخص بھی چاہتا ہے کہ شہر میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ شہر کے دروازے سے داخل ہو۔جی ہاں، خلفاء اور پیغمبر کے اصحاب اپنی مشکلوں کے حل کے لئے کیوں نہ مولائے متقیان حضرت علی کی طرف رجوع کریں اور ان کے بتائے ہوئے مشورے پر عمل کریں؟ اس لئے کہ ان لوگوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھاکہ جب اہل یمن نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : کسی ایسے شخص کو ہماری رہبری کے لئے بھیجئے جو ہمیں دینسکھا سکے اور سنت اسلامی کی ہمیں تعلیم دے سکے اور خدا کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرسکے'' اس وقت پیغمبر اسلام نے حضرت علی کی طرف دیکھا اور فرمایا:

''یا علُّى انطلقْ الی اهل الیمن ففقههم فی الدین و علمْهم السننَ و احکم فیهم بکتابِ اللّه... اذهب ان الله سیهدی قلبک و یثبت لسانک'' (۳)

اے علی، یمن جاؤ اور ان لوگوں کو خدا کے دین کی تعلیم دو اور اسلامی سنتوں سے ان کو آشنا کرو اور قرآن مجید کے ذریعے ان کے فیصلے کرو (پھر آپ نے علی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا) جاؤ خدا تمہارے قلب کو حق کی طرف رہبری کرے گا اور تمہاری زبان کو خطا و غلطیوں سے محفوظ رکھے گا۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا حضرت علی کے بارے میں اس قدر مستجاب ہوئی کہ امام ـ نے فرمایا: اس وقت سے لے کرآج تک کسی بھی مشکل میں گرفتار نہیں ہوا۔

______________________

(۱) کفایة الطالب، مطبوعہ نجف، ص ۱۰۴۔

(۲) مرحوم آیت اللہ میر حامد حسین ہندی نے اپنی کتا ب عبقات الانوار کی ایک جلد میں اس حدیث کی سند کو جمع کیاہے۔

(۳) کنز العمال ج۶ ص ۳۹۲۔

۲۷۰

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں حضرت علی کی قضاوت

امیر المومنین صرف خلفاء کے زمانے میں ہی بہترین قاضی اورامت کے بہترین فیصلہ کرنے والے نہیں تھے بلکہ پیغمبر کے زمانے میں بھی یمن اور مدینے میں لوگوں کے مسلّم قاضی تھے، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے فیصلوں کو سراہا ہے اور اسی لئے اپنے بعد جامعہ اسلامی کے لئے بہترین فیصلہ کرنے والے کے عنوان سے حضرت علی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے یہاں پر ہم آپ کے فیصلوں میں سے دو فیصلے بعنوان نمونہ پیش کر رہے ہیں جو پیغمبر کے زمانے میں کئے تھے اور حضرت نے اس کی تصدیق بھی کی تھی۔

۱۔ جس زمانے میں حضرت علی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے یمن میں رہ رہے تھے اس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا۔

ایک گروہ نے شیر کا شکار کر کے ایک گہرے گڈھے میں اسے رکھا اور چاروں طرف سے اس کی محافظت کرنے لگے کہ اچانک ان میں سے ایک کا پیر لڑکھڑا یا اس نے اپنے کو بچانے کے لئے دوسرے کا ہاتھ پکڑااور اس نے تیسرے کا ہاتھ پکڑا اور اس نے چوتھے کا ہاتھ پکڑااورسب کے سب اس گڈھے میں گر پڑے اور شیر نے ان پر حملہ کر دیا اور اور شیر کے حملے کی وجہ سے وہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے، ان کے رشتہ داروں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ امام علی اس واقعے سے مطلع ہوئے اور فرمایا: میں تمہارا فیصلہ کروں گا اور اگر میرے فیصلے پر راضی نہ ہو تو اس مسئلہ کو پیغمبر کی خدمت میں پیش کرو تاکہ وہ تمہارا فیصلہ کریں۔ پھر آپ نے فرمایا: جن لوگوں نے اس گڈھے کو کھودا ہے وہ لوگ ان چاروں مرنے والے افراد کا دیہ اس طرح سے ادا کریں۔

پہلے مرنے والے شخص کے وارث کو ایک چوتھائی دیہ ادا کریں اور دوسرے شخص کے وارث کو ایک تہائی دیہ ادا کریں اور تیسرے شخص کے وارث کو آدھا دیہ ادا کریںاور چوتھے شخص کے وارث کو پورا دیہ دیں۔

جب امام سے پوچھا گیا کہ پہلے شخص کے وارث کو کیوں ایک چوتھائی دیہ دیا جائے، حضرت نے جواب میں فرمایا: کیونکہ اس کے بعد تین آدمی مرے ہیں اور اسی ترتیب کودوسرے مقام پر فرماتے ہیں : دوسرے شخص کے وارث کو ایک تہائی حصہ دیں کیونکہ اس کے بعد دو آدمی مرے ہیں، اور تیسرے شخص کے وارث کو آدھا دیہ دیں کیونکہ اس کے بعد ایک آدمی مرا ہے اور چوتھے شخص کے وارث کو پورا دیہ دیں

۲۷۱

کیونکہ وہ آخری آدمی ہے جو مرا ہے۔(۱)

جی ہاں، مرنے والوں کے ورثاء نے امام کے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور مدینے کے لئے روانہ ہوگئے اور پیغمبر کی خدمت میں اس مسئلہ کو پیش کیا آنحضرت نے فرمایا:

''القضاء کما قضی علی'' (۲)

محدثین شیعہ و اہل سنت دونوں نے امام علی کے اس فیصلے کو بعینہ اسی طرح نقل کیا ہے، لیکن شیعہ محدثین نے اس فیصلے کودوسرے انداز سے بھی نقل کیا ہے، اس نقل کے مطابق ۔

امام نے فرمایا: پہلا شخص شیر کا لقمہ بنا ہے اس لئے اس کا دیہ کسی پر نہیں ہے لیکن پہلے شخص کے وارثوں کو چا ہیئے کہ دوسرے شخص کے ورثاء کوایک تہائی دیہ دیں اور دوسرے شخص کے ورثاء تیسرے شخص کے ورثاء کو آدھا دیہ دیں اور تیسرے شخص کے ورثاء چوتھے شخص کے ورثاء کو پورا دیہ دیںشیعہ دانشمند پہلی حدیث کو معتبر نہیں مانتے ہیں کیونکہ اس حدیث کی سند میں غیر معتبر افراد موجود ہیں لیکن دوسری حدیث کی پر مکمل یقین رکھتے ہیں، اس فیصلے میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ امام نے چوتھے فردکی دیت کو پہلے تینوں افراد کے اولیاء کے درمیان برابر برابر تقسیم کیا ہے اس ترتیب کے ساتھ کہ ایک تہائی دیہ کو پہلے والے کے ورثاء دوسرے والے کے ورثاء کو ادا کریں۔ اور دوسرے والے کے ورثاء اس کا دوتہائی (ایک تہائی اپنا حق جو پہلے والے سے لیا ہے ادا کریں) تیسرے والے کے ورثاء کو ادا کریں اور تیسرے والے پورا دیہ ادا کریں۔ یعنی دوتہائی جو پہلے لیا تھا ایک تہائی لے لیں اور ایک مکمل دیہ چوتھے والے کے ورثاء کو ادا کریں اور اس طرح سے چوتھے شخص کا دیہ پہلے والے تین افراد پر برابر برابر تقسیم ہو جائے گا ۔(کتاب جواہر الکلام ج۶ کتاب دیات، ''بحث تزاحم موجبات''کی طرف رجوع فرمائیں)

۲۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ایک گروہ کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دو آدمی مسجد میں وارد

ہوئے اور اپنے اختلاف کو بیان کیا جس کا خلاصہ یہ ہے:

_______________________

(۱) ذخائر العقبیٰ مولف: محب طبری ص ۸۴ ،کنز العمال ج۲ ص ۳۹۳، وسائل الشیعہ ج۱۹ ص ۱۷۵۔

(۲) کنز العمال ج۲ ص ۳۹۳، وسائل الشیعہ ج۱۹ ص ۱۷۵ باب۴ موجبات ضمان۔

۲۷۲

ایک گائے نے اپنی سینگھ سے کسی کے جانور کو مار ڈالا، تو کیا گائے کا مالک جانور کی قیمت کا ضامن ہے؟

مسلمانوں میں سے ایک شخص فوراً بول اٹھا اور کہا: ''لاضمان علی البہائم'' یعنی غیر مکلف جانور کسی کے مال کا ضامن نہیں ہے۔

شیخ کلینی کے اصول کافی میں نقل کرنے کے مطابق پیغمبر نے ابوبکر اورعمر سے کہا کہ ا س اختلاف کا فیصلہ کریں ان دونوںنے کہا:''بهیمة قتلت بهیمةً ما علیها من شیئ'' (۱) یعنی ایک جانور نے دوسرے جانور کو مارا ہے اور جانور کے لئے کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس وقت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ وہ فیصلہ کریں ۔ امام نے کلی قانون، جس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے، سے اس مشکل کو حل کردیا اور فرمایا: اس کا نقصان اس شخص کے ذمہ ہے جس نے کوتاہی کیا ہے اور اس نے جانور پالنے کی شرطوں پر عمل نہیں کیا ، ہے اور اگر جانور کے مالک نے اپنے جانور کی صحیح دیکھ بھال اور اس کی حفاظت کی ہے لیکن گائے کے مالک نے اپنے وظیفے سے کوتاہی کی اور اسے آزاد چھوڑ دیا تو گائے کا مالک ضامن ہے اور ضروری ہے کہ اس جانور کا دیہ دے ، لیکن اگر واقعہ اس کے برعکس ہے تو اس پر کوئی ضمانت نہیں ہے ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عظیم اور کلی فیصلہ سننے کے بعد آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے کہا:

''الحمد لله الذی جعل فی امتی من یقضی بقضاء النبیین''

یعنی خداوندعالم کا شکر کہ اس نے ہمارے خاندان میں ایسے شخص کو قرار دیا ہے جس کا فیصلہ پیغمبروں کے فیصلے کی طرح ہے۔(۲)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں حضرت علی کے فیصلے صرف انہی دو فیصلوں میں منحصر نہیں ہیں، بلکہ مولائے متقیان نے پیغمبر کے زمانے میں ایسے ایسے حیرت انگیز فیصلے کئے ہیں جو آج بھی تاریخی اور روائی (روایتوں کی) کتابوں میں موجود ہیں۔(۳)

______________________

(۱) اصول کافی ج۷ ص ۳۵۲ حدیث ۶ ۷۔

(۲) صواعق محرقہ، ص ۷۵، مناقب ابن شہر آشوب، ج۱، ص ۴۸۸۔

(۳) مرحوم مجلسی نے بحار الانوار میں کچھ فیصلوں کا تذکرہ کیا ہے، بحار الانوار ج۴ ص ۲۴۰۔ ۲۱۹، کی طرف رجوع فرمائیں۔

۲۷۳

نویں فصل

حضرت علی اور خلیفہ اول کی سیاسی مشکلیں

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صحابیوں اور چاہنے والوں کے درمیان جو حضرت علی کے فضائل بیان کئے اس کی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد علمی اور فکری مسائل میںحضرت علی امت کے عظیم مرجع قرار پائے یہاں تک کہ وہ افراد بھی جنھوں نے حضرت علی کو خلافت سے دور کر دیاتھا اپنی علمی، سیاسی ، عقیدتی مشکلوں میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے مدد طلب کرتے تھے۔

خلفاء کا امام سے مد دطلب کرنا تاریخ اسلام کاایک مسلّم باب ہے اور بہت زیادہ قطعی سندیں اس سلسلے میں موجود ہیں اور کوئی بھی انصاف پسند اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ امام ـ قرآن و سنت، اصول و فروع اوراسلام کے سیاسی مصلحتوں میں اعلم تھے صرف کتاب ''الوشیعہ'' کے مولف نے اس تاریخی حقیقت کا کنایةً و اشارتاً انکار کیا ہے اور خلیفۂ دوم کو دسیوں جعلی اور تاریخی سندوںکے ساتھ امت میں سب سے اعلم اور افقہ شمار کیا ہے(۱) ہم فی الحال اس سلسلے میں بحث نہیں کریں گے کیونکہ بہت زیادہ تاریخی شواہد موجودہیں کہ خلیفۂ دوم نے مدد کے لئے حضرت علی کی طرف رجوع کیا تھا اور تاریخ نے اسے اپنے دامن میں محفوظ رکھاہے جوان کی بات کا جواب ہے، لہذا جواب دینے سے بہتر یہ ہے کہ خلفاء میں سے ہر ایک کی علمی اور سیاسی مدد جو انھوںنے امیرالمومنین سے مانگی تھی، اسے پیش کیا جائے۔

______________________

(۱)مقدمہ الوشیعہ ،ص ن

۲۷۴

حضرت علی اورابوبکر کی علمی و سیاسی مشکلیں

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ خلیفۂ اول نے حضرت علی سے سیاسی، فقہی، عقائدی، تفسیر قرآن اور احکام اسلامی جیسے اہم مسئلوں میں مدد لی تھی اور حضرت کی رہنمائیوں سے پورا فائدہ اٹھایا تھا ، یہاں پر چند نمونے ذکر کر رہے ہیں۔

رومیوں کے ساتھ جنگ

اسلامی حکومت کے دشمنوں میں سے بدترین دشمن روم کے بادشاہ تھے جو ہمیشہ شمال کی جانب سے

اسلامی حکومت کو ڈرایا کرتے تھے، پیغمبر اسلام (ص) اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک روم کے خطروں سے غافل نہ تھے۔

۷ ھ میں آپ نے ایک گروہ کو جعفر بن ابی طالب کی سپہ سالاری میں شام کے اطراف میں روانہ کیا، لیکن لشکر اسلام نے اپنے تین سپہ سالاروں کو کھو دینے کے بعد بغیر نتیجہ مدینہ واپس آگئے اس خسارے کی تلاش کرنے کے لئے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۹ ھ میں ایک عظیم لشکر کے ہمراہ تبوک کی جانب عازم ہوئے لیکن دشمن سے مقابلہ کئے بغیر مدینہ واپس آگئے اس سفر میں ایسے اہم اور واضح نتائج سامنے آئے کہ جو تاریخ میں محفوظ ہیں، اس کے باوجود روم کی جانب سے ہونے والے خطرے نے پیغمبر کو متفکر رکھا، اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب کہ آپ بیمار تھے مہاجرین اورانصار سے سپاہیوں کا انتخاب کیااورانھیں شام کے ساحل کی طرف روانہ کردیا، لیکن یہ لشکر کسی وجہ سے مدینے سے باہر نہیں گیا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انتقال ہوگیا جب کہ لشکر اسلام نے مدینے سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر پناہ لے رکھی تھی۔پیغمبر اسلام (ص)کے انتقال کے بعدمدینہ کی سیاسی فضا جو بحران کا شکار ہوگئی تھی، خاموش ہوگئی اور ابوبکر نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے رکھی تھی۔خلیفہ نے پیغمبر (ص)کے اس فرمان کو جو رومیوں سے جنگ کے متعلق آپ نے جاری کیا تھا اس میں دو دلی کا مظاہرہ کیا، لہذا صحابیوں کے کچھ گروہ سے مشورہ کیااور جس نے بھی جو نظریہ پیش کیااس سے یہ قانع اور مطمئن نہیں ہوا آخر میں حضرت علی سے مشورہ کیاامام ـ نے اسے پیغمبر اسلام کے حکم جاری کرنے کی رغبت دلائی اور فرمایا کہ اگر رومیوں سے جنگ کرو گے تو کامیاب رہو گے خلیفہ امام کی اس تشویق اور رغبت سے خوشحال ہوگیااورکہا: تم نے بہترین فال کی طرف اشارہ کیا ہے اور خیر و نیکی کی بشارت دی ہے۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۱۲۳، مطبوعہ نجف۔

۲۷۵

یہودیوں کے بزرگ علماء کے ساتھ مناظرہ

پیغمبر اسلام (ص)کے انتقال کے بعد یہودیوں اور نصرانیوں کے بزرگ علماء و دانشوروں نے مسلمانوں کے روح و ذہن کوکمزور کرنے کے لئے اسلام کی طرف قدم بڑھایا اور بہت سے سوالات کئے جن میں سے بعض یہ ہیں:یہودیوں کے علماء کاایک گروہ مدینہ آیا اور خلیفۂ اول سے کہا: اس وقت تم اپنے پیغمبر کے جانشین ہو تو تم میرے سوال کا جواب دو کہ خدا کہاںہے؟ کیاوہ آسمانوں پر ہے یا زمین پر؟

ابوبکر نے جو جواب دیا اس سے وہ لوگ مطمئن نہ ہوئے انہوں نے کہا کہ خدا عرش پر ہے جس پر یہودیوں نے تنقید کی اور کہا کہ ایسی صورت میں زمین کوخدا سے خالی ہونا چاہیئے، ایسے حساس موقع پر حضرت علی علیہ السلام اسلام کی مدد کوپہونچے اور مسلمانوں کی آبروکی آبرو کو بچا لیا کرلیا ، امام نے منطقی جواب دیتے ہوئے کہا:

''ان اللّه این الاین فلا این له، جل أن یحویٰه مکان فهو فی کل مکان بغیر مماسّة و لامجاورة ، یحیط علماً بما فیها و لا یخلوا شیء من تدبیره'' (۱)

تمام جگہوں کو خداوند عالم نے پیدا کیا ہے اور وہ اس سے زیادہ بلند و بالا ہے کہ جگہیں اسے اپنی آغوش میں لیں، وہ ہرجگہ ہے لیکن کسی نے لمس نہیں کیا ہے، اورنہ ہی کسی کا پڑوسی ہے ،تمام چیزیں اس کے علم میں ہیں اور کوئی چیز بھی اس کی تدبیر سے باہر نہیں ہے۔حضرت علی علیہ السلام نے اس جواب میں خدا کے ہر جگہ ہونے پر واضح استدلال کیاہے اوریہودی علماء کو اتنا تعجب میں ڈال دیاکہ وہ مولائے کائنات کے کلام کی حقانیت اورآپ پیغمبر کے اصلی جانشین ہونے کا اعتراف کرنے لگے۔

امام نے اپنے پہلے جملے میں (تمام جگہوں کوخدا نے پیداکیا ہے) دلیل توحید سے استفادہ کیا ہے اوراس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ دنیا میں قدیم بالذات خدا کے سوا کوئی اور نہیں ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ مخلوق ہے، خدا وندعالم کے لئے ہر طرح کے مکان سے نفی کیا ہے، کیونکہ اگر خدا کسی مکان میں ہوتا تو ضروری تھا کہ شروع ہی سے اس کے ساتھ ہوتا، جب کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے سب اسی کی مخلوق ہے ۔کہ انہی میں مکان بھی ہے لہٰذا کوئی بھی چیز اس کے ہمراہ نہیں ہو سکتی واضح لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اگر خدا کے لئے کوئی جگہ یا مکان فرض کیا جائے تو یہ مکان بھی خدا کی ذات کی طرح یا قدیم ہوگایا مخلوق

______________________

(۱) ارشاد مفید، چاپ قدیم، ص ۱۰۷۔

۲۷۶

خدا شمار ہو گا، پہلا فرض برہان توحید کے ساتھ ساز گار نہیں ہے اور یہ کہ کائنات میں خدا کے سوا کوئی قدیم نہیں ہے،سازگار نہیں ہے، اور دوسرافرض اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ فرضی مکان ،مخلوق خدا ہے،اس پر شاہد کہ اس کو مکان کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خدا تھا اور یہ مکان نہیں تھا بعد میں اس نے خلق کیا۔

امام ـ نے اپنے دوسرے جملے میں(وہ ہر جگہ موجود ہے بغیر اس کے کہ کوئی اسے لمس کرسکے یا اسکا ہمسایہ ہوسکے) خداوند عالم کے صفات میں سے ایک صفت پر اعتماد کیا ہے او روہ یہ کہ اس کا وجود لامتناہی ہے اور لامتناہی ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ہرجگہ ہو اورہر چیز پر قدرت وا حاطہ رکھتاہو، اور یہ کہ خدا جسم نہیں رکھتا یعنی موجودات میں ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرتا اور کسی کی ہمسایگی نہیں کر سکتا۔

کیا یہ مختصر اور پر معنی عبارت حضرت علی علیہ السلام کے وسیع علم اور علم الہی سے معمور ہونے کا پتہ نہیں دیتی؟

البتہ صرف یہ تنہا موردنہیں تھا کہ امام نے، یہودیوں کے علماء اوردانشمندوں کے مقابلے میں خدا کے صفات کے سلسلے میں بحث کی ہے بلکہ دوسرے اور تیسرے خلیفہ کے زمانے میں اور خود اپنی خلافت کے زمانے میں اکثر و بیشتر یہودیوں سے بحث کی ہے۔

ابونعیم اصفہانی نے حضرت علی اور علماء یہود کے چالیس افراد کے درمیان ہوئے مناظرے کو نقل کیا ہے، اور اگر امام ـ کے اس مناظرے کی شرح لکھی جائے تواس کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے یہاں پراس کی تفصیل کا مقام نہیں ہے۔(۱)

امام کے بحث کا طریقہ یہ تھا کہ وہ سامنے والے کی علمی سطح دیکھ کر بحث کرتے تھے، کبھی بہت دقیق دلیل پر پیش کرتے تو کبھی واضح او رروشن مثالوں اور تشبیہوں سے بات واضح کرتے تھے۔

______________________

(۱) حلیة الاولیائ، ج۱، ص ۷۲۔

۲۷۷

عیسائی دانشمند کواطمینان بخش جواب

سلمان کہتے ہیں:پیغمبر(ص) کے انتقال کے بعد عیسائیوں کا ایک گروہ ایک پادری کی سربراہی میں مدینہ آیا اور خلیفہ کے سامنے سوال کرنا شروع کرکیا، خلیفہ نے ان لوگوں کو حضرت علی کے پاس بھیجا ان لوگوںنے امام سے سوال کیا کہ ''خدا کہاں ہے؟'' امام ـ نے آگ جلائی اور پھر اس سے پوچھا بتاؤ آگ کا رخ کدھر ہے ،عیسائی دانشمند نے جواب دیا چاروںطرف آگ ہے اورآگ کا سامان اور پشت نہیں ہے اور آگ پشت و رخ نہیں رکھتی۔ امام نے فرمایا: اگر آگ جسے خدا نے پیدا کیا ہے اس کا کوئی خاص رخ نہیں ہے تواس کا خالق جو ہرگز اس کے مشابہ نہیں ہے اور اس سے بہت بلند و بالا ہے وہ پشت و رخ رکھتا ہو، مشرق و مغرب کواسی خدا نے پیداکیا ہے اور جس طرف بھی رخ کرو گے اس طرف خدا ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔(۱)

امام نے نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے فکری اور عقائدی مسئلوں میں خلیفہ کی مدد کی بلکہ جب بھی خلیفہ ، قرآن کریم کے کلموں کے معنی کی تفسیر کرنے سے عاجز ہو جاتے تھے تو ان کی مدد کرتے تھے ،چنانچہ جب ایک شخص نے ابوبکر سے اس آیت ''وفاکہة و أبا متاعاً لکم و لانعامکم''(۲) میں لفظ ''أب'' کا معنی پوچھا انہوں نے بہت تعجب سے کہا میں کہاں جاؤں، اگر بغیر علم و آگاہی کے خدا کے کلام کی تفسیر کروں۔جب یہ خبر حضرت علی علیہ السلام کے پاس پہونچی تو آپ نے فرمایا: ''أب'' سے مراد ہری بھری گھاس ہے۔(۳) اور عربی میں کلمۂ ''أب'' کے معنی ہری گھاس کے ہیں تو اس پرخود آیت پر واضح طور پر دلالت کررہی یہ کہ

کیونکہ آیت ''فاکہة و أباً'' کے بعد بغیر کسی فاصلے کے ارشاد قدرت ہوتا ہے: ''متاعاً لکم و لانعامکم'' یعنی یہ دونوں تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے فائدے کے لئے ہیںاور جو کچھ

انسان کے فائدے کے لئے ہے وہ ''میوہ'' ہے اور جو کچھ حیوان کے لئے باعث لذت اور زندگی ہے وہ ''ہری گھاس'' ہے جو یقیناً صحرائی ہری بھری گھاس ہے۔

______________________

(۱) قضاء امیر المومنین مطبوعہ نجف ۱۳۶۹ھ ص ۹۶۔

(۲) سورۂ عبس، آیت ۳۲۔ ۳۱؛ اور میوے اور چارا (یہ سب کچھ) تمہارے اورتمہارے چارپایوں کے فائدے کے لئے بنایا ہے۔

(۳) الدر المنثور ج۶ ص ۳۱۷، ارشاد ص ۱۰۶۔

۲۷۸

ایک شرابی کے بارے میں حضرت علی کا فیصلہ

خلیفہ اول نے نہ صرف امام ـ سے قرآن کے مفاہیم سے آگاہی حاصل کی بلکہ، فروع دین اور احکام میں حضرت سے ہمیشہ مدد لیتے رہے۔

حکومت کے سپاہی ایک شرابی کو پکڑ کر خلیفہ کے پاس لائے تاکہ شراب پینے کی وجہ سے اس پر حد جاری کریں۔ وہ اس بات کا دعوی کر رہا تھا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ شراب حرام ہے کیونکہ ہم نے ایسے معاشرے میں پرورش پائی ہے جو آج تک شراب کو حلال سمجھتے ہیں، خلیفہ فیصلہ کرنے سے عاجز آگیا فوراً کسی کو حضرت علی کے پاس بھیجا اور ان سے اس مشکل کا حل دریافت کیا۔ امام نے فرمایا:دو معتبر افراد ا شرابی کا ہاتھ پکڑ کر مہاجرین و انصار کے پاس لے جائیں اور ان لوگوں سے پوچھیں کہ کیا ابھی تک آیت تحریم خمر (شراب کو حرام قرار دینے والی آیت) کو اس مرد کے سامنے پڑھا ہے یا نہیں ؛ اگر ان لوگوں نے گواہی دی کہ ہاں ہم نے آیت حرمت کو اس کے سامنے پڑھا ہے تو ضروری ہے کہ اس پر خدا کی طرف سے معین کردہ حد جاری ہو اور اگر ان لوگوںنے گواہی نہیں دی تو ضروری ہے کہ یہ شخص توبہ کرے کہ آئندہ کبھی بھی اپنے ہونٹ کو شراب سے تر نہیں کرے گا اور پھر اسے چھوڑ دیا جائے۔خلیفہ نے امام کے حکم کی پیروی کی اوراسے آزاد کردیا۔(۱)

یہ بات صحیح ہے کہ امام نے خلفاء کے زمانے میں خاموشی اختیار کی اور کوئی بھی عہدہ نہیں لیا، لیکن کبھی بھی اسلام کے دفاع اوردین مقدس کی حمایت سے غافل نہیں رہے۔تاریخ کے دامن میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ''رأس الجالوت'' (یہودیوں کے پیشوا) نے درج ذیل مطالب کے بارے میں ابوبکر سے سوال کیا اوراس کے متعلق قرآن کا نظریہ دریافت کیا۔

۱۔ زندگی اور ہر زندہ موجودات کی بقا کیاہے؟

۲۔ بے جان چیز جس نے کلام کیا ہے وہ کیا ہے؟

۳۔ وہ چیز جو ہمیشہ کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے کیا ہے؟

جب یہ خبر امام ـ کے پاس پہونچی تو آپ نے فرمایا:

______________________

(۱) اصول کافی ج۲ حدیث ۱۶، ارشاد مفید ص ۱۰۶ ،مناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۴۸۹۔

۲۷۹

زندگی کی بقا قرآن کی نظر میں ''پانی'' ہے(۱) وہ بے جان چیز جس نے گفتگو کی وہ زمین و آسمان ہیں جنہوں نے خداکا حکم پاتے ہی اپنی اطاعت کا اظہار کیا(۲) اور جو چیز ہمیشہ کم و زیادہ ہوتی ہے وہ دن اور رات ہیں۔(۳)

جیسا کہ امام کے اس بیان سے واضح و روشن ہوتا ہے امام معمولاً اپنے کلام کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیتوں سے استناد کرتے تھے اور یہ ان کے کلام کی حقانیت کو مزید بڑھا دیتاتھا۔(۴)

____________________

(۱)''و جعلنا من الماء کُلَ شیئٍ حی'' سورۂ انبیاء آیت ۳۰؛ یعنی ہم نے پانی سے ہر زندہ موجودات کو پیدا کیا۔

(۲)''فقال لها و للأرض أئتیا طوعاً او کرهًا قالتا أتینا طائعین ؛ سورۂ حم سجدہ ، آیت ۱۱؛ تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں آؤ خوشی سے یا کراہت سے دونوں نے عرض کی ہم خوش خوش حاضر ہیں (اور حکم کے پابند ہیں)

(۳)''یولجُ اللیلَ فی النهارِ و یولجُ النهارَ فی اللیل'' سورۂ لقمان، آیت ۲۹؛ یعنی خدا ہی رات کو ( بڑھا کے) دن میں داخل کردیتا ہے (تو رات بڑھ جاتی ہے) اور دن کو (بڑھا کے) رات میں داخل کردیتا ہے (تو دن بڑھ) جاتا ہے۔

(۴)بحار الانوار ج۴ ص ۲۲۴۔

۲۸۰