فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341212
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341212 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دسویں فصل

حضرت علی علیہ السلام اور خلیفۂ دوم کوسیاسی مشورے

امام علی علیہ السلام کا سب سے بڑا مقصد اسلام کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کومحفوظ کرنا تھا۔ اسی بنا پر اگرچہ آپ اپنے کو پیغمبر کا برحق جانشین مانتے تھے اور آپ کی عظمت و برتری دوسروں پر واضح و آشکار تھی، اس کے باوجود جب بھی خلافت مشکل میں گرفتار ہوتی تھی تو آپ بلند ترین افکار اور عالی ترین نظروں سے اسے حل کردیتے تھے، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ امام نے خلیفہء دوم کے زمانے میں مشورے اور بہت زیادہ سیاسی، اجتماعی اور علمی مشکلوں کو حل کیا ہے ،بہت سی جگہیں جہاں پر عمر نے سیاسی مسئلوں میں حضرت علی کی رہنمائیوں سے استفادہ کیا ہے ان میں سے سے چند چیزوں کو ذکر کر رہے ہیں۔

ایران فتح کرنے کے متعلق مشورہ

۱۴ھ میں قادسیہ کی سرزمین پر اسلام کی فوج او رایرانی فوج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی اورایرانی فوج کا کمانڈر رستم فرّخ زاد، اور اس کے لشکر کے کچھ افراد قتل کردیئے گئے اور پورے عراق پر مسلمانوں کا سیاسی اور فوجی تسلط ہوگیا اور مدائن جو ساسانی بادشاہوں کی حکومت کا مرکز تھا مسلمانوں کے قبضے میں ہوگیا او رایرانی فوج کے سپہ سالار پیچھے ہٹ گئے۔

ایران کے فوجی سپہ سالاروں اور مشیروں کواس بات کا خوف تھا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ اسلام کی فوج دھیرے دھیرے بڑھتی رہے اور پورے ملک کو اپنے قبضے میں لے لے، ا س خطرناک حملے کے مقابلے کے لئے پارسی بادشاہ ، یزدگرد (ایرانی بادشاہ)نے فیروزان کی سپہ سالانی میں ایک لاکھ پچاس ہزار سپاہیوں کی فوج بنائی تاکہ ہر طرح کے حملے سے مقابلہ کریں اور اگر حالات سازگار ہوں تو خود حملہ کردیں۔

(عمار یاسر کے بقول) اسلام کی فوج کا سپہ سالار سعد وقاص ، جس کی کوفہ پر حکومت تھی اس نے عمر کو خط لکھا اور اسے حالات سے باخبر کیا کہ کوفہ کی فوج جنگ کرنے کے لئے تیار ہے اور قبل اس کے کہ دشمن ان پر حملہ کریں وہ لوگ دشمن پر رعب و دبدبہ بٹھانے کے لئے جنگ شروع کردیں۔

۲۸۱

خلیفہ مسجد میں گئے اور تمام بزرگ صحابیوں کو جمع کیااوران لوگوں کواپنے ارادے سے باخبر کیا کہ میں مدینہ چھوڑ رہا ہوں اور کوفہ اور بصرہ کے درمیان قیام کروں گا تاکہ وہاں رہ کر فوج کی رہبری کروں ۔ اس وقت طلحہ کھڑا ہوا اور خلیفہ کے اس اقدام کی تعریف کی اور ایسی تقریر کی جس کے ایک ایک لفظ سے چاپلوسی کی بو آرہی تھی۔

عثمان بھی اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے نہ صرف خلیفہ کے مدینہ چھوڑ نے کی تعریف کی بلکہ خلیفہ سے کہا کہ شام اور یمن کی فوج کے پاس خط لکھو کہ وہ لوگ اس جگہ کو چھوڑ دیں اور تم سے آکر مل جائیں اور تم اتنے زیادہ سپاہیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے اور دونوں نظریوں پر تنقید کی اور فرمایا: ''وہ سرزمین جو محنت و مشقت اور ابھی ابھی مسلمانوں کے تصرف میں آئی ہے اس کا اسلام کی فوج سے خالی رہنا صحیح نہیں ہے اگر یمن اور شام کے مسلمانوں کو وہاں سے ہٹا دو گے تو ممکن ہے حبشہ کی فوج یمن اور روم کی فوج شام کواپنے قبضے میں کرلیں، اور مسلمانوں کی اولادیں اورعورتیں جو یمن اور شام میں زندگی بسر کر رہی ہیں مصیبتوں میں گرفتار ہو جائیں۔ اور اگر مدینے کو چھوڑ کر چلے گئے تو اطراف و جوانب کے عرب اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے اورایسا فتنہ پیدا کردیں گے جس کا نقصان اس فتنہ سے زیادہ ہوگا جس کے مقابلے کے لئے جارہے ہو۔ اور (امور سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈوروں کی۔ جو انھیں ایک جگہ ملا کر رکھتا ہے پس اگر ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے اگر تو اسلامی فوج کے سپاہیوں کی کمی کی بنا پر فکر مند ہے تو مسلمان جو ایمان رکھتے ہیں سپرد کردیں ،تیری مثال چکی کی اس لکڑی کی ہے جو بیچ میں رہتی ہے اور جنگ کی چکی کو اسلام کے سپاہیوں کے ذریعے انجام دے، جنگ کے میدان میں تمہارا جانا دشمنوں کی جرأت میں اضافہ کا سبب ہوگا، کیونکہ وہ لوگ یہ فکر کرتے ہیں کہ تم اسلام کے پیشوا و حاکم ہو اور تمہارے علاوہ مسلمانوں کا کوئی رہبر نہیں ہے اور اگر اس کودرمیان سے اٹھالیں تو ان لوگوںکی مشکل حل ہو جائے گی اور یہ فکر، ان کے جنگ کی حرص اور کامیابی حاصل کرنے کا باعث بنے گی۔(۱) خلیفہ امام کی بات سننے کے

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۴۴، تاریخ طبری ج۴ ص ۲۳۸۔ ۲۳۷، تاریخ کامل ج۳ ص ۳، تاریخ ابن کثیر ج۷ ص ۱۰۷، بحار الانوارج۹ ص ۵۰۱مطبوعہ کمپانی۔

۲۸۲

بعد جنگ پر جانے سے باز آگیا اور کہا یہ رائے و ارادہ علی کا ارادہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان کے حکم کی پیروی کروں۔(۱)

بیت المقدس فتح کرنے کے بارے میں مشورہ

بیت المقدس فتح کرنے کے سلسلے میں عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کیا اور حضرت کے حکم کی پیروی کی۔

مسلمانوں کو شام فتح کئے ہوئے صرف ایک مہینہ گزرا تھا اوران لوگوں کا ارادہ تھا کہ بیت المقدس کی طرف چڑھائی کریں، اسلامی فوج کے علمبردار ابوعبیدہ جرّاح اور معاذ بن جبل تھے۔

معاذ نے ابوعبیدہ سے کہا: خلیفہ کو خط لکھو اور بیت المقدس کی طرف چڑھائی کے متعلق سوال، کرو ابو عبیدہ نے خط لکھا، خلیفہ نے مسلمانوں کے سامنے خط پڑھااوران لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔

امام ـ نے عمر کو شوق و رغبت دلایاکہ اپنے سپہ سالاروں کو خط لکھو کہ بیت المقدس کی طرف بڑھتے رہیں اور بیت المقدس فتح کرنے کے بعد ٹھہر نہ جائیں بلکہ سرزمین قیصر میں داخل ہوں اور اس بات سے مطمئن رہیں کا کامیابی انھیں ہی ملے گی کیونکہ پیغمبر نے اس فتح و کامرانی کی خبر دی ہے۔

خلیفہ نے فوراً قلم و کاغذ منگایا اور ابوعبیدہ کو خط لکھا اوراسے جنگ جاری رکھنے اور بیت المقدس کی طرف بڑھنے کا حکم اور رغبت دلایا اور لکھا کہ پیغمبر کے چچازاد بھائی نے مجھے بشارت دی ہے کہ بیت المقدس تمہارے ہاتھوں سے فتح ہوگا۔(۲)

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۴۴، تاریخ طبری ج۴ ص ۲۳۸۔ ۲۳۷، تاریخ کامل ج۳ ص ۳، تاریخ ابن کثیر ج۷ ص ۱۰۷، بحار الانوارج۹ ص ۵۰۱مطبوعہ کمپانی۔

(۲)ثمرة الاوراق، حاشیهٔ المستطرف میں، تحقیق: تقی الدین حموی ج۲ ص ۱۵، مطبوعہ مصر ۱۳۶۸ھ۔

۲۸۳

تاریخ اسلام کی ابتدا

ہر قوم کی ایک ابتدائی تاریخ ہوا کرتی ہے جس میں لوگ اپنے تمام واقعات و حادثات کو پرکھتے ہیں، مسیحی قوم کی تاریخ کا آغاز حضرت عیسیٰ کی ولادت سے ہوتا ہے اور اسلام سے پہلے عربوں کی تاریخ ''عام الفیل'' سے شمار ہوتی تھی، بعض قوموں کی تاریخ کاآغاز عمومی ہوتا ہے اور بعض قومیں حادثات وغیرہ سے اپنی تاریخ کو یاد کرتی ہیں مثلاً قحط والا سال، جنگ کا سال، وغیرہ۔

عمر کی خلافت کے تیسرے سال تک مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں تھی جسے خطوط اور تمام قرارداداورحکومت کے امور اس تاریخ سے مخصوص ہوتے، تو پھر ان خطوط کا کیا کہنا جو فوج کے سپہ سالاروں کے لئے لکھا جاتا تھا اورتمام خطوط میں صرف مہینوں کا نام لکھا جاتا تھا، لیکن تاریخی سال کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا، یہ کام اسلامی نظام میں نقص کے علاوہ خط موصول کرنے والوں کے لئے بھی مشکلیں ایجاد کر رہا تھا کیونکہ ممکن تھا کہ دو مختلف حکم سپہ سالار کے پاس یا حاکم وقت کے پاس پہونچے اور راستے کی دوری اور خطوط میں تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہیں جان پائیں کہ پہلے کون سا خط لکھا گیا ہے۔خلیفہ نے تاریخ اسلام کی ابتدا اور اس کے تعیین کے لئے پیغمبر کے تمام صحابیوں کو جمع کیا لوگوںنے اپنے اپنے حساب سے نظریہ پیش کیا بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام کی ولادت کی تاریخ سے اسلامی تاریخ کا آغاز ہو اور بعض لوگوں نے کہا کہ عید بعثت (۲۷ رجب معراج پیغمبر) سے تاریخ کی ابتدا ہو ، انھیں انہی نظریوں میں حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنا نظریہ پیش کیا کہ جس دن پیغمبر اسلام نے سرزمین شرک کو چھوڑا اور سرزمین اسلام پر قدم رکھا اسی سے اسلامی تاریخ کا آغاز کیا جائے، عمر نے تمام نظریوں میں سے حضرت علی علیہ السلام کے نظریہ کو پسند کیااور پیغمبر اسلام کی ہجرت کو تاریخ اسلام کی ابتدا قرار دیا اوراسی دن سے تمام خطوط، سندیں، اور حکومت کے دفاتر وغیرہ میں ہجری سال لکھا جانے لگا۔(۱) بے شک یہ بات صحیح ہے کہ ولادت پیغمبر یا پیغمبر کی بعثت ایک بڑا واقعہ ہے لیکن ان دونوں دنوں میں اسلام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اجاگر نہ تھا، پیغمبر کی ولادت کے دن اسلام کا وجود نہیں تھا اور پیغمبر کی بعثت کے دن اسلام کا کوئی قانون و قاعدہ نہ تھا، لیکن ہجرت کے دن کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی طاقت و قدرت اور کامیابی اور اسلامی حکومت کی تشکیل کا دن تھا اور اس دن پیغمبر نے سرزمین شرک کو چھوڑا تھا اور مسلمانوں کے لئے اسلامی وطن بنایا تھا۔

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۱۲۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۲۵۳، کنز العمال ج۵ص ۲۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۱۳ مطبوعہ مصر۔

۲۸۴

خلیفۂ دوم کے زمانے میں لوگ صرف حضرت علی کی طرف رجوع کرتے تھے

پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد مختلف قوم و ملت میں اسلام پھیلنے کی وجہ سے مسلمان نئے مسائل سے روبرو ہوا جس کا حکم قرآن مجید اور پیغمبر کی حدیث میں موجود نہیں تھا، کیونکہ احکام وفروعات سے مربوط آیتیں محدود ہیں، اورتھیں واجبات و محرمات سے متعلق پیغمبر اسلام کی جو حدیثیں امت کے درمیان موجود تھیں ان کی تعداد چار سو سے زیادہ نہیں تھی(۱) یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سے مسئلوں کے حل کے لئے جس کے بارے میں قرآنی نص اور حدیث پیغمبر وارد نہیں ہوئی ہے مشکلوں میں گرفتار ہوئے۔

ان مشکلوں نے ایک گروہ کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ ان مسئلوں میں اپنی عقل او رائے پر عمل کریں اورغیر صحیح معیاروں کے ذریعے اس مسئلہ کا حکم معین کریں۔ اس گروہ کو ''اصحاب رائے'' کہتے ہیں، وہ لوگ کتاب و سنت سے قطعی اور شرعی دلیل سے استناد کرنے کے بجائے موضوعات کا مطابق مصالح و مفاسد کے حل نکالتے تھے اور ظن و گمان کے ذریعے خدا کے حکم کو معین کرتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلہ دیتے تھے۔

خلیفۂ دوم نے بہت سی جگہوں پر نص کے مقابلے میں خود اپنی رائے پر عمل کیا ہے اور وہ جگہیں آج بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہیں لیکن اصحاب کی رائے کے متعلق انداز دوسرا تھا ان کے بارے میں کہتے ہیں۔

''صاحبان رائے'' پیغمبر اسلام کی سنتوں کے دشمن ہیں وہ لوگ پیغمبر کی حدیث کو یاد نہیں کرسکتے تھے اسی لئے اپنی رائے کے مطابق فتوی دیتے تھے ، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا، آگاہ ہو جاؤ کہ ہم پیروی کرتے ہیں خود سے کوئی کام نہیں کرتے اور ہم تابع ہیں بدعت نہیں کرتے، ہم لوگ پیغمبر کی حدیثوں پر عمل کریں گے اور گمراہ نہیں ہوں گے''

______________________

(۱) رشید رضا، مولف: المنار اپنی کتاب ''الوحی المحمدی'' دوسرا ایڈیشن، ص ۲۲۵، پر لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی تمام حدیثیں جو فروع اور احکام سے متعلق ہمارے پاس ہیںان میں سے اگر تکر ار ہوئی حدیث کو حذف کردیا جائے تو چار سو سے زیادہ نہیں ہونگی۔ اور یہ احتمال دینا کہ پیغمبر کی حدیثیں اس سے زیادہ ہیں اور ہم تک نہیں پہونچی ہیں یہ ضعیف ہے لہذا پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد جتنی حدیثیں امت کے پاس موجود ہیںاتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ ہیں۔

۲۸۵

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ عمر نے نص کے مقابلے میں اپنی رائے پر عمل کیا ہے اور بہت سی جگہوں پر دلیل نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے خود اپنی رائے اور نظریہ پر عمل کیا لیکن بہت سے مقامات پر باب علم پیغمبر حضرت امیر المومنین کی طرف رجوع کیا۔ پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کے مطابق حضرت امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر کے علوم کا خزانہ اور احکام خداوندی کے وارث تھے اور قیامت تک جن چیزوں کی امت کو ضرورت ہوگی ان تمام چیزوں کے کے جاننے والے تھے اورامت پیغمبر میں ان سے بڑا عالم کوئی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں مقام پر جن میں سے کچھ جگہوں کو تاریخ نے اپنے دامن میں جگہ دی خلیفۂ دوم نے امام کے علوم سے استفادہ کیا ہے اور اس کی زبان پر ہمیشہ یہ جملہ یا اس سے مشابہ جملہ ورد رہتا تھا۔

''عجزت النسائُ ان یلدنَ مثلَ علی بن ابی طالب''

عورتیں اس بات سے عاجز ہیں کہ علی جیسی شخصیت کو پیدا کرسکیں۔

''اللهم لا تبقنی لمعضلة لیس لها ابن ابی طالب ''

خداوندا! مجھے ایسی مشکل میں گرفتار نہ کرنا جس کے حل کے لئے علی بن ابی طالب نہ ہوں۔

(وہ جگہیں جہاں پر عمر نے اپنی رائے و نظریہ پر نص کے مقابلے میں عمل کیا ہے) اس میں سے کچھ جگہوں کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔

۱۔ ایک شخص نے عمر سے اپنی بیوی کے بارے میں شکایت کیا کہ شادی کے چھٹے مہینے بعد ہی اسے بچہ ہوا ہے عورت نے بھی اس بات کو قبول کرلیااور کہا کہ شادی سے پہلے میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ خلیفہ نے حکم دیدیا کہ اس عورت کو سنگسار کردیاجائے ، لیکن امام نے حد جاری کرنے سے منع کردیا اور فرمایا کہ قرآن کی نظر میںعورت چھ مہینے کے عرصہ میں بچہ پیدا کرسکتی ہے کیونکہ آیت میں حمل اوردودھ پلانے کی کل مدت ۳۰ مہینہ معین ہوئی ہے۔

( .وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ) (۱)

اور اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ بڑھائی کی (کل مدت) تیس مہینہ ہے۔

______________________

(۱) سورۂ احقاف، آیت ۱۵۔

۲۸۶

قرآن کی دوسری آیت میں صرف دودھ پلانے کی مدت دو سال بیان ہوئی ہے۔

( وَفِصَالُهُ فِیْ عَامَیْنِ ) (۱) اور اس کے دودھ بڑھانے کی مدت دو سال ہے۔

اگر تیس مہینے سے دو سال کم کریں تو حمل کے لئے چھ مہینہ کی مدت باقی رہے گی۔عمر نے ا مام ـ کے منطقی کلام سننے کے بعد کہا:''لولا علی لهلک عمر'' (۲)

۲۔ خلیفۂ دوم کی عدالت میں یہ ثابت ہوا کہ پانچ آدمیوں نے عفت کے منافی عمل انجام دیا ہے خلیفہ نے تمام آدمیوں کے بارے میں ایک ہی فیصلہ کیا ، لیکن امام نے ان کے حکم کو باطل قرار دیدیا اور فرمایا کہ ان لوگوںکے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے اگر ان کے حالا ت مختلف ہوںگے تو کہ خدا کا حکم بھی مختلف ہوگا۔تحقیق و جستجو کے بعد امام نے فرمایا:

ان میں سے ایک کو قتل کرادو، دوسرے کو سنگسار کرادو، تیسرے کو سو کوڑے مارو ، چوتھے کو پچاس کوڑے لگائواور پانچویں کو نصیحت کرو۔

خلیفہ نے جب امام کا مختلف فیصلہ سنا تو بہت تعجب ہوا اور امام سے اس کا سبب دریافت کیا ، تو امام ـ نے فرمایا:

پہلا شخص کافر ذمی ہے اور کافر ذمی کی جان اس وقت تک محترم ہے جب تک احکام ذمی پر عمل کرے، لیکن اگر احکام ذمی کی رعایت نہ کرے تو اس کی سزا قتل ہے اوردوسرے نے عورت شوہر دار سے زنا کیا ہے۔ اور اسلام میں اس کی سزا سنگسار کرنا ہے اور تیسرا شخص کنوارا ہے جس نے اپنے کو گناہوں سے آلودہ کیا ہے اس کی سزا سو تازیانہ ہے چوتھا شخص غلام ہے اور اس کی سزا آزاد شخص کی آدھی سزا کے برابر ہے اور پانچواں شخص پاگل ہے۔(۳)

اس وقت خلیفہ نے کہا:''لاعشتُ فی امةٍ لست فیها یا ابا الحسن!''

میں ایسے لوگوں کے درمیان نہ رہوں جن میں اے ابو الحسن آپ نہ ہوں۔

______________________

(۱) سورۂ لقمان، آیت ۱۴۔

(۲) مناقب شہر ابن آشوب ج۱ ص ۴۹۶، بحار ج۴۰ ص ۳۳۲۔

(۳) شیخ طوسی تہذیب ج۱۰ ص ۵۰احکام زنا حدیث ۱۸۸۔

۲۸۷

۳۔ ایک غلام جس کے پیر میں زنجیر بندھی تھی کہیں جارہا تھا، دو آدمیوں کے درمیان ا س کے وزن کے متعلق اختلاف ہوگیا اور ان میں سے ہر ایک یہ کہہ رہا تھا کہ اگر اس کی بات صحیح نہ ہوگی تو اس کی زوجہ کو تین طلاق والی ہو جائیگی ۔ دونوں غلام کے مالک کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ زنجیر کو کھول دے، تاکہ اس کو وزن کریں اس نے کہا: میں اس کے وزن سے آگاہ نہیں ہوں اور میں نے نذر بھی کی ہے کہ اس کی زنجیر کو نہیں کھولوں گا مگر یہ کہ اس کے وزن کا صدقہ دوں۔

اس مسئلہ کو خلیفہ کے پاس پیش کیا گیا، انہوں نے حکم دیا کہ اس وقت غلام کا مالک زنجیر کھولنے سے معذور ہے لہذا یہ دونوں اپنی اپنی بیویوں سے جدا ہوجائیں ، ان لوگوںنے خلیفہ سے گذارش کی کہ اس مسئلہ کو حضرت علی کے سامنے پیش کیا جائے، امام نے فرمایا: زنجیر کے وزن سے آگاہی بہت آسان ہے۔ اس وقت آپ نے حکم دیا کہ ایک بڑا طشت لایا جائے او رغلام سے کہا کہ اس کے بیچ میں کھڑا ہو جائے، پھر امام نے زنجیر کو نیچے کردیا اور اس میں ایک دھاگا باندھا اور طشت کو پانی سے بھر دیا۔ پھر زنجیر کو اس تاگے کے ذریعے اوپر کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ پوری زنجیر پانی سے باہر آگئی اس وقت حکم دیا کہ زنجیر کو دھاگے کے ذریعہ اوپر کھینچیں تاکہ وہ پانی سے اوپر آجائے۔ پھر فرمایا کہ طشت کو ٹوٹے پھوٹے لوہوں سے بھر دو تاکہ پانی اپنی اصلی جگہ تک آجائے اور آخر میں فرمایا کہ ان ٹوٹے ہوئے لوہوں کو کھینچیں کیونکہ اس کا وزن وہی زنجیر کا وزن ہے اور اس طریقے سے تینوں افراد کی مشکل حل ہوگئی۔(۱)

۴۔ ایک عورت جنگل میں پیاسی تھی اور تشنگی نے اس پر سخت غلبہ کیا مجبوراً اس نے ایک چرواہے سے پانی مانگا اس نے اس شرط پر پانی دینے کا وعدہ کیا کہ عورت خود کو اس کے حوالے کرے، خلیفۂ دوم نے اس عورت کے حکم کے متعلق امام سے مشورہ کیا حضرت نے فرمایا: کہ عورت اس کو انجام دینے میں مجبور تھی اور مضطر و مجبور پر کوئی حکم نہیں ہے۔(۲)

یہ واقعہ اور اسی طرح کے دوسرے واقعات ، جن میں سے بعض کو بیان کیا ہے یہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام اسلام کے مکمل قوانین سے باخبر تھے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں اور خلیفہ ان چیزوں سے بے خبر تھے۔

______________________

(۱) شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ ج۳ ص ۹۔

(۲) سنن بیہقی ج۸ ص ۲۳۶، ذخائر العقبیٰ ص ۸۱، الغدیر ج۶ص ۱۲۰۔

۲۸۸

۵۔ ایک پاگل عورت نے عفت کے خلاف عمل کیا، خلیفہ نے اسے مجرم قراردیا لیکن امام نے اسے پیغمبر اسلام کی ایک حدیث یاد دلاتے ہوئے عورت کو آزاد کردیا اور حدیث یہ ہے تین لوگوں سے حکم اٹھالیا گیا ہے جس میں سے ایک دیوانہ ہے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے۔(۱)

۶۔ایک حاملہ عورت نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کواسی حالت میں سنگسار کرد یں امام نے حد جاری کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ تم اس کی جان لینے کا حق رکھتے ہو نہ کہ اس بچے کی جو کہ اس کے پیٹ میں ہے۔(۲)

۷۔ کبھی کبھی امام مشکلوں کو حل کرنے کے لئے نفسیاتی اصولوں سے استفادہ کرتے تھے، ایک دن ایک عورت نے اپنے بیٹے سے بیزاری ظاہر کی اوراس کی ماں ہونے سے انکار کردیا اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ابھی کنواری ہے جب کہ اس نوجوان کا اصرار تھا کہ یہ میری ماں ہے خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کی طرف غلط نسبت دینے کی وجہ سے نوجوان کو تازیانہ مارا جائے۔ جب اس واقعہ کی خبر امام کو ملی تو امام نے اس عورت اور اس کے رشتہ داروں کو بلایا تاکہ اس عورت کی شادی ان میں سے جس سے بھی چاہیں کردیں اور ان لوگوںنے بھی حضرت علی کو اپنا وکیل بنادیا۔ امام نے اسی نوجوان کی طرف رخ کر کے کہا: میں نے اس عورت کا عقد تمہارے ساتھ پڑھا اور اس کی مہر ۴۸۰ درہم ہے پھر ایک تھیلی نکالی جس میں اتنا ہی درہم تھا اور عورت کے حوالے کیا اور اس جوان سے کہا: اس عورت کا ہاتھ پکڑو اور پھر میرے پاس نہ آنا، مگر یہ کہ شادی وغیرہ کے آثار تمہاری شکل و صورت سے ظاہر ہوں۔

عورت نے جب یہ کلام سنا تو چیخ اٹھی اور کہا:''الله ، الله هو النار، هو و الله ابنی!'' یعنی خدا کی پناہ، خدا کی پناہ، اس کا نتیجہ آگ ہے خدا کی قسم یہ میرا بیٹا ہے پھر اس نے انکار کرنے کی وجہ کو تفصیل سے بیان کیا۔(۳)

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۲ ص ۹۵، الغدیر ج۶ ص ۱۰۲۔

(۲) ذخائر العقبیٰ ص ۸۰، الغدیرج۶ ص ۱۱۰۔

(۳) کشف الغمہ ج۱ ص ۳۳، بحار الانوار ج۴۰ ص ۲۷۷۔

۲۸۹

گیارہویں فصل

عثمان اور معاویہ کی علمی مشکلات کا حل کرنا

امام کا علمی اور فکری میدان میں مدد کرنا صرف ابوبکر وعمر کی خلافت تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ سرپرست اوردین کے حامی و دلسوز کے عنوان سے اسلام اور مسلمانوں کی خلافت کے مختلف دور میں علمی اور سیاسی مشکلوں کو حل کرتے تھے۔ انہی میں سے تیسرے خلیفہ نے بھی امام کے بلند ترین افکار او ران کی عظیم و آگاہانہ رہنمائیوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عثمان نے امام کی رہنمائیوں سے استفادہ کیا تھا بلکہ تعجب کا مقام یہ ہے کہ معاویہ نے بھی امام سے بغض و عداوت رکھنے کے باوجود اپنے علمی اور فکری مشکلوں کے حل کے لئے امام کی طرف دست سوال بڑھایاتھا اور کچھ لوگوں کو خفیہ طور پر امام کے پاس بھیجا تاکہ بعض مسئلوں کا جوا ب امام ـ سے دریافت کریں۔

مثلاً کبھی کبھی روم کا حاکم، معاویہ سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کرتا تھا اور اس سے جواب طلب کرتا تھا ۔ معاویہ اپنی عزت و آبرو بچانے کے لئے (چونکہ اس نے اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ کہا تھا) کچھ لوگوں کو حضرت علی کے پاس بھیجتا تھا تاکہ وہ کسی بھی صورت سے ان سے ان سوالوں کے جوابات حاصل کر کے معاویہ کے پا س لے آئیں۔

خلیفۂ سوم اور معاویہ نے جو اپنی علمی مشکلات کے رفع کے لئے امام ـ کی طرف رجوع کیا ان کے چند نمونے ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔

۱۔ اسلام میںعورتوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اگر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے اورعورت کا عدہ ختم ہونے سے پہلے ہی شوہر مر جائے تو عورت دوسرے وارثوں کی طرح شوہر کی میراث کی حقدار ہے کیونکہ جب تک عدہ ختم نہ ہو اس وقت تک شوہر و بیوی کا رشتہ برقرار ہے۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ایک بیوی انصار میں سے تھی اور دوسری بنی ہاشم میں سے ،کسی وجہ سے مرد نے اپنی بیوی کو جوانصار سے تھی طلاق دیدیا اور کچھ دنوں کے بعد اس کا انتقال ہوگیا انصار والی عورت خلیفہ کے پاس گئی اور کہا ابھی میرا عدہ ختم نہیں ہوا ہے

۲۹۰

مجھے میری میراث چاہئیے عثمان فیصلہ کرنے سے معذور ہوگئے لہذا اس معاملے کو امام کے پاس بھیجا حضرت نے فرمایا کہ اگر انصار والی عورت یہ قسم کھا کر کہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد تین مرتبہ حائض نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنے شوہر سے میراث لے سکتی ہے۔

عثمان نے ہاشمی عورت سے کہا: یہ فیصلہ تمھارے پسر عم علی نے کیا ہے۔ اور میں نے اس سلسلے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔

اس نے جواب دیا: میں علی کے فیصلے پر راضی ہوں۔ وہ قسم کھائے اور میراث لے لے۔(۱)

محدثین اہلسنت نے اس واقعے کو دوسرے انداز سے لکھا ہے جن کی عبارتیں شیعہ فقہا کے فتووں سے متفق نہیں ہیں۔(۲)

۲۔ جس شخص نے فریضہ ٔ حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھا ہے ا سکو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرے ،قرآن کریم کا اس سلسلے میں ارشاد ہے:( وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًاً ) (۳) جب تم احرام کی حالت میں ہو تو خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرنا تم پر حرام ہے، لیکن اگر وہ شخص جو حالت احرام میں نہ ہو اور خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرے تو کیا حالت احرام میں رہنے والا شخص اس کا گوشت کھا سکتا ہے؟ یہ وہی مسئلہ ہے جس میں خلیفۂ سوم نے امام کے نظریہ کی پیروی کی ہے، اس کے پہلے خلیفہ کی نظریہ تھی کہ حالت احرام میں رہنے والا غیر محرم کے شکار کئے ہوئے جانور کا گوشت کھا سکتا ہے اتفاق سے وہ خود بھی حالت احرام میں تھے کہ اور کچھ لوگوں اسی طرح کے گوشت سے کھانا تیار کر کے ان کو دعوت دی تھی اور یہ اس میں جانا چاہتے تھے ،جب امام نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تب ان کا نظریہ بدلا۔

ان سے حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام(ص) کا ایک واقعہ بیان کیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے، واقعہ یہ تھاکہ پیغمبر اسلام (ص)جب حالت احرام میں تھے تو کچھ لوگ ان کے لئے بھی

_______________________

(۱) مستدرک الوسائل ج۳ ص ۱۶۶۔

(۲) کنز العمال ج۳ ص ۱۷۸، ذخائر العقبیٰ ص ۸۰۔

(۳) سورۂ مائدہ آیت ۹۶۔

۲۹۱

اسی طرح کی غذا لے کر آئے، حضرت نے فرمایا: میں حالت احرام میں ہوں، یہ کھانا ایسے لوگوں کو دیدو جو حالت احرام میں نہ ہوں۔جس وقت امام نے اس واقعہ کو نقل کیا اس وقت بارہ آدمیوں نے تائید کرتے ہوئے اس کی گواہی دی ، پھر علی علیہ السلام نے فرمایا: رسول اسلام نے نہ صرف ہمیں اس طرح کے گوشت کھانے سے منع کیا ہے بلکہ پرندوں کے انڈے یا شکار ہوئے پرندوں کے گوشت سے بھی منع کیاہے۔(۱)

۳۔ اسلام کے مسلّم عقائد میں سے ہے کہ کافر پر مرنے کے بعد سخت عذاب ہوگا،عثمان کی خلافت کے زمانے میں ایک شخص نے اس اصل اسلامی عقیدہ پر اعتراض کرنے کے لئے ایک کافر کی کھوپڑی نکالی اسے خلیفہ کے پاس لے گیا اور کہا: اگر کافر مرنے کے بعد آگ میں جلے گا تو اس کھوپڑی کو بھی گرم ہونا چاہیئے جب کہ میں اس کے بدن پر ہاتھ مس کرتا ہوں پھر بھی مجھے کوئی حرارت محسوس نہیں ہوتی! خلیفہ اس کا جواب دینے سے عاجز ہوگئے اور امام کی طرف رجوع کیا، امام نے معترض کو جواب دیا اور فرمایا کہ ایک لوہا (جس سے آگ نکالتے ہیں ) اور ایک پتھر (جس سے آگ نکلتی ہے) لایا جائے اور پھر دونوں کو آپس میں ٹکرایا اس سے شعلہ نکلااس وقت آپ نے فرمایا: میں لوہے او رپتھر پر ہاتھ پھیر رہاہوں مگر حرارت کا احساس نہیں ہوتا جب کہ دونوں حرارت رکھتے ہیں اور خاص حالات کی وجہ سے اپنا کام کر تے، یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ قبر میں کافر کا عذاب بھی ایسا ہو۔

خلیفہ امام کا جواب سن کر بہت خوش ہوے اور کہا :''لولا علی لهلک عثمان'' (۲)

وہ مواردجہاں معاویہ نے امام کی طرف رجوع کیا ہے۔

اسلامی تواریخ نے سات مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کے سامنے دست سوال پھیلایا ہے اور اپنی شرمندگی اورندامت کو علم امام ـ کے وسیلے سے دور کیاہے۔

اُذینہ کہتے ہیں: ایک شخص نے معاویہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، معاویہ نے کہا: اس

موضوع کے متعلق علی سے سوال کرو۔ سائل نے کہا: میں نہیں چاہتاکہ ان سے پوچھوں،میں چاہتا ہوں کہ تم سے سوال کروں۔

______________________

(۱) کنز العمال ج۳ ص ۵۳، مستدرک الوسائل ج۲ ص ۱۱۹۔

(۲) الغدیر ج۸ ص ۲۱۴ منقول از کتاب عاصمیزین الفتی فی شرح سورهٔ هل أتی

۲۹۲

اس نے کہا کیوں تم ایسے شخص سے سوال نہیں کرنا چاہتے جس کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے: ''علی سے میری نسبت ایسی ہی ہے جیسی موسیٰ کی ہارون سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے''، عمر نے اپنی مشکلوں کو امام کے سامنے پیش کرتے تھے۔(۱) جب امام کی شہادت کی خبر معاویہ تک پہونچی تو اس نے کہا: ''فقہ وعلم مرگیا'' معاویہ کے بھائی نے اس سے کہا: تمہاری یہ بات شام کے لوگ تمہاری زبان سے نہ سنیں۔(۲) ان مقامات کی فہرست جہاں پر معاویہ نے حضرت علی سے مدد طلب کی ہے۔(۳)

۱۔ ایسے شخص کے بارے میں حکم معلوم کرنا جو بہت دنوں سے قبروں کو کھود کر کفنوں کو چراتا تھا۔

۲۔ ایسے شخص کے بارے میں حکم معلوم کرنا جس نے کسی کو قتل کردیا اور اس کا دعویٰ تھاکہ میں نے اسے ایسی حالت میں قتل کیا ہے جب کہ وہ میری بیوی کے ساتھ زنا کررہا تھا۔

۳۔ دو آدمیوں کا ایک لباس کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا اس میں سے ایک شخص نے دو گواہ پیش کیا کہ یہ مال اس کا ہے او ردوسرے کا دعویٰ تھا کہ اس نے کسی اجنبی سے یہ لباس خریدا ہے۔

۴۔ ایک شخص نے ایک لڑکی سے شادی کی لیکن لڑکی کے باپ نے اس لڑکی کے بجائے دوسری لڑکی کو اس کے حوالے کیا۔

۵۔ حاکم روم نے کچھ سوالات ، کہکشاں، قوس و قزح وغیرہ کے بارے میں معاویہ سے کیا تھا اوراس نے کسی اجنبی کو عراق بھیجا تاکہ ان تمام سوالوں کے جوابات علی سے دریافت کرے۔

۶۔ روم کے حاکم نے دوبارہ اسی طرح کے سوالات معاویہ سے پوچھے اور اپنا جزیہ (ٹیکس) اداکرنے کی یہ شرط رکھی کہ سوالوں کے صحیح جوابات دے۔

۷۔ تیسری مرتبہ پھرروم کی جانب سے کچھ سوالات معاویہ کی طرف پہونچے اور ان کے جوابات طلب کئے عمر و عاص نے کسی نہ کسی بہانے سے ان تمام سوالوں کے جوابات امام سے حاصل کرلئے۔

______________________

(۱) ذخائر العقبیٰ ص ۷۹۔-----(۲) الاستیعاب ج۲ ص ۴۲۶۔-----(۳) علی و الخلفاء ، ص ۳۲۴۔ ۳۱۶۔

۲۹۳

بارہویں فصل

حضرت علی علیہ السلام کی سماجی خدمات

خلافت سے حضرت علی علیہ السلام کوکی محرومیت کا زمانہ ،مسلمانوںکے سارے امور سے کنارہ کشی کا زمانہ نہیں تھا،اس دور میں آپ نے بہت زیادہ علمی اور سماجی خدمات انجام دیںجن کی مثال تاریخ کے صفحات پر کسی اور کے لئے نہیں ملتی حضرت علی علیہ السلام ان سے نہیں تھے جو معاشرے کے مسائل اور ضروریات کو صرف ایک نظر اور وہ بھی خلافت کی نظر سے دیکھتے ،اور وہ سوچتے کہ جب خلافت چھن گئی توساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائوں گا ،اس کے باوجود نہ کہ آپ کو سیاسی رہبری سے محروم کر دیا گیا تھابہت ساری ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے اور اس وصیت کی تاسی کرتے ہوئے جس کوجناب یعقوب نے اپنے فرزندوں سے کی تھی(۱) مختلف طریقوں سے سماج کی خدمت کی۔خلفاء ثلاثہ کے زمانے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی اہم ترین خدمتیں یہ تھیں:

۱۔علماء یہود و نصاری کےعلمی حملےکےمقابلے میں اسلام کے مقدس عقائد اوراصول کی حفاظت اور ان کے شبہات کے جوابات دینا۔

۲۔ خلافت کے مشکل مسائل کی راہنمائی اور صحیح ہدایت کرنا ، خصوصاً قضاوت کے مسائل کا حل کرنا۔

۳۔سماجی خدمات انجام دینا، ان میں کچھ بہت اہم ہیںجن کو ذیل میں ذکر کر رہے ہیں۔

۱۔ فقیروں او ریتیموں کی خبر گیری

اس بارے میں پر صرف اسی آیت کا ذکر کرنا کافی ہے( الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً ً ) (۲) (جو لوگ رات کو، دن کو چھپا کے یا دکھا کے ]خدا کی راہ میں[ خرچ کرتے ہیں)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اگرچہ یہ آیت پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں حضرت علی کی سماجی خدمات کو بیان کرتی ہے

______________________

(۱) قرآن کریم (سورۂ یوسف، آیت ۶۷) کے مطابق حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے وصیت کی کہ جب شہر مصر میں داخل ہوں تو ایک دروازے سے داخل نہ ہوں بلکہ مختلف دروازوں سے وارد ہوں۔----(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۷۴۔

۲۹۴

لیکن یہ اس خدمت کا سلسلہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بھی جاری تھا۔ اور حضرت ہمیشہ یتیموں اور فقیروں کی خبر گیری کیا کرتے تھے اور آپ زندگی کے آخری لمحے تک فقیروں پر انفاق کرتے رہے۔ اس سلسلے کے بہت سے شواہدتاریخ کے دامن میں آج بھی موجود ہیں جن کی تفصیل یہاں پر ممکن نہیں ہے۔

۲۔ غلاموں کو آزاد کرنا

اسلام میں مستحب مئوکد ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے رسول اسلام (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

''من اعتقَ عبداً مومناً اعتقَ اللّهُ العزیزُ الجبارِ بکل عضوٍ عضواً له من النار'' (۱)

اگر کوئی شخص ایک مومن غلام کو آزاد کرے تو خداوند عزیز و جبار اس غلام کے بدن کے ہر حصے کے مقابلے میں آزاد کرنے والے کے بدن کے حصے کو جہنم کی آگ سے آزاد کرے گا۔

حضرت علی علیہ السلام دوسرے تمام فضائل و خدمات کی طرح اس سلسلے میں بھی سب سے آگے تھے اور اپنی مزدوری کی اجرت سے (نہ کہ بیت المال سے) ہزاروں غلاموں کو خریدا اور آزاد کیا۔

امام جعفر صادق نے اس حقیقت کی گواہی دی ہے اور فرمایاہے:

''ان علیاً اعتق الفَ مملوک من کد یده'' (۲)

علی (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں سے جمع کی ہوئی رقم سے ہزار غلاموں کو آزاد کیاتھا۔

______________________

(۱) روضۂ کافی ج۲ ص ۱۸۱۔

(۲) فروغ کافی ج۵ ص ۷۴، بحار الانوار ج۴۱ ص ۴۳۔

۲۹۵

۳۔ زراعت او ردرخت کاری

پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں اور ان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ایک مشغلہ کھیتی باڑی اورپیڑ پودھے لگانا تھا، حضرت نے اس ذریعے سے بہت ہ خدمتیں انجام دی تھیںاور لوگوں پر خرچ کیا تھا، اس کے علاوہ بہت سی جائدادیں جنہیں خود آباد کیا تھا وقف کیا تھا۔امام جعفر صادق اس بارے میں فرماتے ہیں کہ''کان امیر المومنین یضرب بالمرِّ و یستخرج الارضین'' (۱)

حضرت امیر المومنین بیلچہ چلاتے تھے اور زمین کے دل سے چھپی ہوئی نعمتوں کو نکالتے تھے۔

اسی طرح آپ ہی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی نظر میں زراعت سے زیادہ محبوب کوئی کام نہیں ہے۔

(۲) ایک شخص نے حضرت علی کے پاس ایک وسق(۳) خرمے کی گٹھلی دیکھی اس نے پوچھا یاعلی ان خرمے کی گٹھلیوں کوجمع کرنے کا کیا مقصد ہے؟

آپ نے فرمایا: یہ تمام کے تمام خدا کے حکم سے خرمے کے پیڑ میں تبدیل ہو جائیں گے۔راوی کہتا ہے کہ امام نے ان گٹھلیوں کو زمین میں دبا دیا کچھ دنوں کے بعد وہاں کھجور کا باغ تیار ہوگیا اورامام نے اسے وقف کردیا۔(۴)

۴۔ چھوٹی نہریں کھودنا

عرب جیسی تپتی اور سوکھی زمین میں نہریں بنانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔

امام جعفرصادق فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام (ص)نے انفال(۵) میں سے ایک زمین کو حضرت علی کے حوالے کیا اور امام نے وہاں نہر کھودی جس کا پانی اونٹ کی گردن کی طرح فوارہ کے ساتھ نکل رہا تھا۔

______________________

(۱) فروغ کافی، ج۵، ص ۷۴، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۴۳۔----(۲) بحار الانوار ج۳۲ ص ۲۰۔

(۳) ایک وسق ساٹھ صاع کے برابر اور ہر صاع ایک من ہے۔ (ایرانی من تین کلو کاہوتاہے ۔رضوی)

(۴) مناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۳۲۳، بحار الانوار ج۶۱ ص ۳۳۔

(۵) وہ زمینیں جو بغیر جنگ و جدال کے مسلمانوں نے حاصل کی ہوں جس میں کچھ انفال نبوت سے مخصوص ہے اور رسول اسلام(ص) نے اسے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں خرچ کرتے تھے۔

۲۹۶

فرمایا: یہ نہر خانۂ کعبہ کے زائرین اورجو لوگ یہاں سے گزریں گے ان کے لئے وقف ہے ،کسی کو حق نہیں ہے کہ اس کا پانی بیچے اور میرے بچے اسے میراث میں نہیں لیں گے۔(۱)

آج بھی مدینہ سے مکہ جاتے وقت راستے میں ایک علاقہ ہے جسے ''بئر علی'' کہتے ہیں امام نے وہاں پر کنواں کھودا تھا ۔

امام جعفر صادق کے بعض ارشادات سے استفادہ ہوتا ہے کہ امیر المومنین نے مکہ اور کوفہ کے راستوں میں بہت سے کنویں کھودے تھے۔(۲)

۵۔ مسجدوں کی تعمیر کرنا

مسجدوں کی تعمیر اور تاسیس کرنا خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کی علامت ہے ،اور امام نے بہت سی مسجدیں بنائی تھیںجن جس میں سے کچھ مسجدوں کا نام تاریخ نے درج کیا ہے اور وہ یہ ہیں:

مدینہ میں مسجد الفتح ، قبر جناب حمزہ کے پاس، کوفہ، میقات ،بصر ہ میں مسجدیں۔(۳)

۶۔ مکان و جائداد کا وقف کرنا

حدیث و تاریخ کی متعدد کتابوں میں حضرت علی علیہ السلام کے موقوفات کے نام تحریر ہیں ،ان موقوفات کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ معتبرمئورخین کے نقل کرنے کے مطابق ان کی سالانہ آمدنی ۴۰ ہزار دینار تھی جو تمام محتاجوں اور فقیروں پر خرچ ہوتی تھی ۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اتنی زیادہ آمدنی کے باوجود حضرت امیر اپنے اخراجات کے لئے تلوار بیچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔(۴)

جی ہاں، کیوں علی علیہ السلام نے ان موقوفات میں سے کچھ اپنے لئے باقی نہ رکھا؟ کیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہیں فرمایا ہے ''جو شخص بھی اس دنیا سے اٹھ جائے تو مرنے کے بعد اسے کوئی چیز فائدہ نہیں پہونچاتی مگر یہ کہ اس نے تین چیزیں چھوڑی ہوں، نیک اور صالح اولاد جواس کے لئے استغفار کرے، سنت حسنہ جو

________________

(۱) فروغ کافی، ج۷، ص ۵۴۳، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص ۳۰۳۔

(۲،۳) مناقب ، ج۱، ص ۳۲۳، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۳۲۔

(۴) کشف المحجہ ، ص ۱۲۴، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۴۳۔

۲۹۷

لوگوں کے درمیان رائج ہو، نیک کام جس کا اثر اس کے مرنے کے بعد بھی باقی رہے۔(۱) حضرت علی علیہ السلام کے وقف نامے اسلام میں احکام وقت کے لئے ایک منبع و مدرک ہونے کے علاوہ ، آپ کی سماجی خدمات پر ٹھوس ثبوت ہیں۔ان وقف ناموںسے آگاہی پیدا کرنے کیلئے وسائل الشیعہ، ج۱۳کتاب الوقوف و الصدقات کی طرف رجو ع کیجیئے۔

_____________________

(۱) وسائل الشیعہ ج۱۳ ص ۲۹۲۔

۲۹۸

پانچواں حصہ

حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے کے واقعات

پہلی فصل

حضرت علی ـکی خلافت کی طرف مسلمانوں کے رجحان کی علت

امام علی علیہ السلام کی زندگی کے چار اہم حصوں کے واقعات کو ہم بیان کرچکے ہیں اس وقت امام علی علیہ السلام کی زندگی کے پانچویں حصے کا ذکر کر رہے ہیں، زندگی کا وہ حصہ جس میں آپ منصب خلافت و رہبری پر فائز ہوئے. اور اس دور ان آپ بہت سے رونما ہونے والے واقعات اور نشیب و فراز سے دوچار ہوئے. ان تمام واقعات کی تشریح و توضیح ہم سے ممکن نہیں ہے، اس لئے ہم مجبور ہیں کہ گذشتہ بحثوں کی طرح ان واقعات بہت زیادہ اہم ہیں صرف انہیں بیان کریں۔

اس فصل میں سب سے پہلی بحث، مہاجرین وانصار کی ہے کہ انھوں نے کس وجہ سے امام کو اپنا رہبر اور خلیفہ مانا، وہ رغبت جو خلفاء ثلاثہ کے سلسلے میں بے مثال تھی اور بعد میں بھی اس جیسی دیکھنے کو نہ ملی ،پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امام کے دوست بہت اقلیت میں تھے اور مہا جرین و انصار میں سے مومن و صالح افراد کے علاوہ کوئی بھی آپ کی خلافت کا خواہاں نہیں تھا لیکن خلافت اسلامی کے ۲۵سال گذرجانے کے بعد تاریخ نے ایسی کروٹ بدلی کہ تمام لوگوں کی نظریںعلی کے علاوہ کسی پرنہ تھیں ۔ عثمان کے قتل کے بعد تمام مسلمان شور وولولہ اور تیز آواز کے ساتھ امام ـ کے دروازے پر جمع ہو گئے اور بیعت کے لئے بہت زیادہ اصرارکرنے لگے۔

اس رجحان کی وجہ کو خلیفہ سوم کی خلافت کے زمانے کے تلخ واقعات میں معلوم کیا جاسکتا ہے ایسے واقعات جو خود ان کے قتل کا سبب بنا اور مصری اور عراقی انقلابیوں کو اس بات پرمجبور کیا کہ جب تک اسلامی خلیفہ کا کام تمام نہ ہو جائے اپنے وطن واپس نہیں جا ئیں ۔

۲۹۹

عثمان کے خلاف قیام کرنے کی علت

عثمان کے خلاف اقدام کرنے کی اصلی وجہ ،عثمان کا اموی خاندان سے خاص لگائو اور الفت تھی ۔ وہ خود اسی خاندان کی ایک فرد تھے ،وہ اس نجس و ناپاک خاندان کی عزت واکرام کے علاوہ کتاب وسنت کی بے حرمتی کرنے میں اپنے پہلے کے دو خلیفوں سے بھی آگے تھے ۔

ان کے اس مزاج اور خاندان امیہ سے لگائو سے ہر ایک واقف تھا،جس وقت خلیفئہ دوم نے شوریٰ کے عہد ہ داروں کا انتخاب کیا عثمان پر تنقید کرتے ہوئے کہا.

میں دیکھ رہا ہوں کہ قریش نے تمہیں اپنا رہبر چن لیا ہے اور تم نے بنی امیہ ۔اور بنی ابی معط ۔ کو لوگوں پر مسلط کر دیا ہے اور بیت المال کو انہی لوگوں سے مخصوص کردیا ہے اس وقت عرب کے خطرناک گروہ تم پر حملہ کریں گے

۳۰۰