فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341370
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341370 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور تمہیں گھر کے اندر قتل کردیں گے۔(۱)

بنی امیہ جو عثمان کے مزاج سے واقف تھے انہوں نے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد ان کو اپنے حصار میں لے لیا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اسلامی منصب اور مقام ان کے درمیان تقسیم ہوگیا اور ان لوگوںکی جرأت اس حدتک بڑھ گئی کہ ابو سفیان قبرستان احد گیااور پیغمبر اسلام کے چچا جناب حمزہ کی قبر پر جو ابو سفیان سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے ،ٹھوکرمار کر کہا'' ابو یعلی ،اٹھو اور دیکھو کہ جس چیز کے لئے تم نے ہم سے جنگ کی تھی اب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے''۔

خلیفہ سوم کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں بنی امیہ کے افرادایک جگہ پر جمع ہوئے ابو سفیان ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

اس وقت جب کہ خلافت قبیلہ تیم اور عدی ۔کے بعد تمہارے ہاتھوں تک پہونچی ہے ہوشیار رہو کہ خلافت تمہارے خاندان سے باہر نہ جائے ،اور اسے ایک کے بعددوسرے تک پہونچاتے رہو کیونکہ خلافت کا مقصد حکومت اور رہبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنت و جہنم کا وجود نہیں ہے۔(۲)

ابوسفیان کی اس بات نے خلیفہ کی شخصیت کو سخت مجروح کیا، جو لوگ وہاں پر حاضر تھے انہوں نے

اس کو چھپانے کی پوری کوشش کی لیکن آخر کار حقیقت نے اپنا کام کر دیکھایا۔مسلمانوں کے خلیفہ کے لئے سزاوار یہ تھاکہ وہ ابو سفیان کی خبر لیتے اور مرتد کی حد اس پر جاری کرتے .لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ یہ کہ ایسا نہیں کیا بلکہ اکثر ابو سفیان پر لطف ِ کرم کی بارش کی اور بہت زیادہ مال غنیمت بطور تحفہ بھیجا رہا۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۸۷۱

(۲)الاستیعاب ج۲ص۶۹۰

۳۰۱

بغاوت کی علت

خلیفہ دوم نے جس شوریٰ کا انتخاب کیا تھا اس شوری کے ذریعے ۳ محرم ۲۴ھ کو عثمان منصب خلافت کے لئے منتخب ہوگئے اور ۱۲سال حکومت کرنے کے بعد ۱۸ذی الحجہ ۳۵ھ کو مصر اور عراق کے انقلابیوں اورمہاجروانصار کے بعض گروہ کے ہاتھوں قتل ہوے ،اسلام کے معتبر مورخین نے عثمان کے قتل ہونے اور مسلمانوں کے بغاوت کی علت کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے، اگر چہ بعض مئورخین نے، مقام خلافت کے احترام میں ان واقعات کے رونما ہونے کی علت کی وضاحت کرنے سے پرہیز کیاہے، درج ذیل وجہوں کو بغاوت کی بنیاد اور مسلمانوں کے بعض خطرناک گروہوں کے حملہ کرنے کی علت کہا جا سکتا ہے ۔

۱۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۲۔بنی امیہ کے درمیان بیت ا لمال کا تقسیم ہونا۔

۳۔اموی حکومت کی تشکیل اور اسلامی منصبوں پرغیر شائستہ افراد کا تقرر۔

۴۔پیغمبر اسلام کے بعض صحابہ کو مصیبت و تکلیف دینا جو خلیفہ اور ان کے دوستوں پر تنقید کرتے تھے۔

۵۔پیغمبر کے بعض صحابیوں کوشہربدر کرنا جو خلیفہ کی نظر میں ان کے لئے مضرتھے ۔

پہلی وجہ ۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۱۔خلیفہ نے اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ کو کوفہ کا گورنر معین کیا وہ ایسا شخص تھا جس کے بارے میں قرآن مجید نے دو جگہوں پر اس کے فسق وفجور اور اسلامی احکام سے سرکشی وبغاوت کا تذکرہ کیاہے۔(۱)

______________________

(۱)شرح ابن ابی الحدید ج۲قدیم ایڈیشن ص۱۰۳،

۳۰۲

آیت :( َاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا ) ( حجرات۶)وآیت( َفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ) (سجدہ۱۸)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں آیتیں اسی کے بارے میںنازل ہوئی ہیں.اور دوسری آیت نازل ہونے کے بعد حسان بن ثابت نے یہ اشعار کہا۔

انزل الله فی الکتاب العزیر

فی علی وفی الولید قرآنا

فتبینواالولید اذذاک فاسقاً

وعلی مبوء صدق ایمانا

فا سق کی نگاہ میں جو چیز قابل اہمیت نہیں ہے وہ حدود الہی اور اعلی مقام و منصب کی رعایت نہ کر نا ہے اس زمانے کے حاکم سیاسی امور کی دیکھ بھال کے علاوہ جمعہ وجماعت کی نمازبھی پڑھاتے تھے، یہ نالائق حاکم (ولید) نے نشے کی حالت میںنماز صبح کو چاررکعت پڑھا دیا ،اور محراب تک کو نجس کر دیا وہ نشے میں اتنا مد ہوش تھا کہ لوگوں نے اس کے ہاتھ سے انگو ٹھی اتار لی اور اسے احساس تک نہ ہوا۔

کوفہ کے لوگ شکایت کرنے کے لئے مدینہ روانہ ہوئے اور اس واقعہ کی تفصیل خلیفہ کے سامنے پیش کی لیکن افسوس کہ خلیفہ نے نہ یہ کہ صرف ان کی شکایت نہ سنی بلکہ ان لوگوں کو دھمکی بھی دی اور کہا : کیاتم نے دیکھا ہے کہ میرے بھائی نے شراب پیا ہے ؟ ان لوگوںنے جواب دیا .ہم نے اس کو شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن اسے مستی کے عالم میں دیکھاہے اور اس کے ہاتھوں سے انگوٹھی اتار لی مگر وہ متوجہ نہیں ہوااس واقعہ کے گواہ کچھ مومن وغیور افراد بھی تھے ان لوگوں نے حضرت علی اور عائشہ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا ۔ عائشہ جو عثمان سے سخت ناراض تھیں ، انہوں نے کہا عثمان نے خدا کے احکام کو ترک کر دیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے ۔

امیر المومنین نے عثمان سے ملاقات کی اور خلیفہ دوم کی وہ بات جوانہوں نے شوری کے دن ان کے بارے میں کہی تھی انہیں یاد دلایا اور کہا ،بنی امیہ کے بیٹوں کو لوگوں پر مسلط نہ کرو اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ ولید کوگورنری کے منصب سے معزول کردو اور اس پر حد الہی جاری کرو،

۳۰۳

طلحہ اور زبیرہ نے بھی ولید کے منتخب ہونے پر اعتراض کیا اور خلیفہ سے کہا کہ اس کو تازیانہ لگایا جائے خلیفہ نے تمام لوگوں کی باتوں سے مجبور ہو کر سعیدبن العاص کو جو بنی امیہ کے شجرئہ خبیثہ سے تھا کوفہ کی گورنری کے لئے منتخب کیا ،جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تواس نے محراب ومنبر اور دارالامامہ کو پاک کرایا اور ولید کو مدینہ بھیج دیا ۔صرف ولید کو معزول کرنے سے ہی لوگ راضی نہ ہوئے بلکہ لوگوںکایہ کہنا تھا کہ خلیفہ کو چاہئیے کہ جو سزا اسلام نے شراب پینے والے کے لئے معین کی ہے اپنے بھائی پروہ جاری کریں ،عثمان چونکہ اپنے بھائی کو بہت چاہتے تھے لہٰذا اسنہوںنے اُسے قیمتی لباس پہنایا اور اسے ایک کمرے میں بیٹھا دیا تا کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص اس پر حد الہی جاری کرے ،جو لوگ مائل تھے کہ اس پر حد جاری کریں ولید نے انھیں دھمکی دی تھی بالآخر امام علی نے تازیانہ اپنے ہاتھ میں لیا اور بغیر تاخیر کے اس پر حد جاری کی اور اس کی دھمکی اور ناراضگی کی کوئی پروا ہ نہ کی۔(۱)

۲۔ انسان کی اجتماعی زندگی کا ایک رکن عادلانہ قانون کی حکومت ہے تا کہ معاشرے کے تمام لوگوں کی جان ومال وعزت و آبرو کی حفاظت ہو سکے،اور اس سے بھی زیا دہ اہم قانون کا جاری کرنا ہے اور قانون گزار ، قانون کو جاری کرتے وقت دوست ودشمن اور اپنے اورپرائے کو نہ دیکھے اس صورت میں قانون عملی جامہ پہنے گا اور پورے طور پر عدالت سامنے آئے گی۔

الہی نمائندوں نے خدا کے قوانین کو بغیر کسی ڈرا ورخوف کے جاری کیا اور کبھی بھی انسانی الفت ومحبت ، رشتہ داری ، مادی منفعت سے متأ ثر نہیں ہوئے ،پیغمبر اسلام نے خود اسلامی قانون کوسب سے پہلے جاری کیا،اور اس آیت کے واضح وروشن مصداق تھے( وَلَا یَخَافُوْنَ لَومَةلَائِمٍ ) (۲) فاطمہ مخزومی جس نے چوری کی تھی اسکے بارے میں آپ کا ایک چھوٹا جملہآپ کی اجتماع عدالت پر واضع و روشن دلیل ہے۔فاطمہ مخزومی ایک مشہور ومعروف عورت تھی جس کی چوری پیغمبر کے سامنے ثابت ہو گئی تھی اور یہ طے پایا کہ عدالت کا حکم اس پر جاری ہو ،ایک گروہ نے اس پر قانون نہ جاری کرنے کی کوشش کی اور اسامہ بن زید کو پیغمبر کے پاس بھیجا تا کہ اس مشہور ومعروف عورت کا ہاتھ کا ٹنے سے پیغمبر کو منع کرے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات سے بہت سخت ناراض ہوئے اور فرمایا۔

_____________________

(۱)۱۔مسنداحمدج۱ص۱۴۲،سنن بیہقی ج۸ص۳۱۸،اسدالغابہ ج۵ص۹۱،کامل ابن اثیرج۴۲۳۔ الغدیر ج۸ ص۱۷۲ منقول الانساب بلاذری ج۵ص۳۳ سے ماخوذ.

(۲)سورئہ مائدہ،۵۴

۳۰۴

خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرے تو میں حکم خدا کو جاری کروں گا اور حکم خدا کے مقا بلے میں فاطمہ مخدومی اور فاطمہ محمدی دونوں برابر ہیں۔(۱)

پچھلی امتوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب بھی ان کے درمیان کوئی بڑا شخص چوری کرتا تھا تو اسے معاف کردیتے تھے اور اس کی چوریوں کو نظر انداز کردیتے تھے ،لیکن اگر کوئی عام آدمی چوری کرتا تھا توفوراً اس پرحکم الہی جاری کرتے تھے ۔

پیغمبراسلام(ص) نے امت اسلامی کی اس طرح سے تربیت کی ،لیکن آپ کے انتقال کے بعد دھیرے دھیرے اسلامی معاشرے میں قوانین کے جاری کرنے میں رخنہ پڑ گیا ،خصوصاًخلیفہ دوم کے زمانے میں عرب اور غیر عرب، حسب ونسب، ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے مقابلے میں وجود میں آیا لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ انقلاب اور شورش برپا ہو ، عثمان کی خلافت کے زمانے میں اسلامی قانون کے اجراء میں تبعیض شباب پر تھی ،اور یہی چیز لوگوں کی نارا ضگی کا سبب بنی اور لوگ خلیفہ اور ان کے اطرافیوں سے متنفر ہو گئے ۔

مثلاً. خلیفہ دوم ایک ایرانی بنام ابو لولو جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا کے ہاتھوں مارے گئے تھے قتل کرنے کی علت کیا تھی یہاںپر بیان کرنا مقصود نہیں ہے، ہم نے اس کا تذکرہ '' علی اور شوریٰ ''میں عمر کے قتل ہونے کی علت میںبیان کیا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ کے قتل کا مسلئہ اسلامی عدالت سے حل کرنا چاہیئے تھا اور اس کے قاتل اور محرک افراد (اگر محرک تھے) کو اسلامی قاعدہ اور قانون کے مطابق سزا دینی چاہیئے تھی لیکن یہ بات صحیح نہیں تھی کہ خلیفہ کے بیٹے یا اس کے رشتہ دار اس کے قاتل کو سزادیں یا اسے قتل کریں چہ جائیکہ کہ قا تل کے رشتہ دار وں اور دوستوں تک کو سزا دیں یا قتل کریں ، بغیر اس کے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل ہونا ثابت ہواور بغیر سزا کے انھیں قتل کردیں ،

لیکن افسوس کہ خلیفہ کے قتل کے بعد یا ان کے حالت احتضار ہی میں خلیفہ کے بیٹے عبیداللہ نے دو بے گناہوں (ہرمزان اور ابولولو کی بیٹی جفینہ)کو اس الزام میں کہ اس کے باپ کے قتل کرنے میں شامل تھے قتل کر ڈالا اور اگر صحابیوں سے ایک صحابی نے اس کے ہاتھ سے تلوار نہ لی ہوتی اور اسے نہ روکا

______________________

(۱)۔الاستیعاب ج۴ ۳۷۴

۳۰۵

ہوتا تو مدینہ میں جتنے بھی قیدی تھے انھیں قتل کر ڈالتا۔عبید اللہ کے اس جرم نے مدینہ میں تلا طم برپا کردیا ،اور مہاجرین وانصارنے عثمان سے بے حداصرار کیا کہ اسے سزا دیں .اور ابولٔولوکی بیٹی اور بہو کو انکے خون کا بدلہ اس سے لیں۔(۱)

خودحضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اصرار کیا کہ عبیدا للہ کو سزادو ، اور خلیفہ سے کہا :بے گناہوں کو قتل کرنے کا انتقام عبیداللہ سے لو ،کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے ،لیکن جب عثمان کی طرف سے مایوس ہو گئے اس وقت آپ نے عبیداللہ کو مخاطب کرکے کہا :اگر کسی دن تو میرے ہاتھو ں میں آگیا تومیں تجھے ہرمزان کے بدلے میں قتل کردوںگا۔(۲)

عبید اللہ کو سزادلانے اور عثمان کی بے توجہی کی وجہ سے اعتراض روز بروز بڑھتا رہا اوراب بھی ابولولو کی بیٹی اور ہرمزان کے ناحق خون بہالوگوں کے درمیان جوش وخروش تھا ،خلیفہ نے جب خطرہ محسوس کیا تو عبیداللہ کو حکم دیا کہ مدینہ سے کوفہ کی طرف چلا جائے اور بہت وسیع زمین اس کے حوالے کر دی اور اس جگہ کا ،کویفة ابن عمر(عمر کے بیٹے کا چھوٹا کوفہ)نام رکھا۔

______________________

(۱)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷(طبع بیروت)۔

(۲)انساب بلاذ ر:ی ج ۵ ص ۲۴۔

۳۰۶

بے جاعذر

مسلمان تاریخ لکھنے والوں نے خلیفہ سوم اور ان کے ہم فکروں کے دفاع میں معذوری کوپیش کیا ہے جو بچگانہ معذوری کے مانند ہے ہم یہا ں پر ان میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۔جب عثمان نے عبیداللہ کے بارے میں عمروعاص سے مشورہ کیا تو عمر و عاص نے کہا کہ ، ہرمزان کاقتل اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا حاکم کوئی اور شخص تھا اور مسلمانوں کی ذمہ داری تمہارے ہا تھوں میں نہ تھی اور اس طرح تم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ،اس عذرکا جواب واضح ہے:

الف:۔مسلمانوں کے ہر حاکم وسرپرست پر لازم ہے کہ مظلوم کا حق ظالم سے دلوائے ،چاہے وہ ظالم اس کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے یا دوسرے شخص کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے ،کیونکہ حق ثابت اور پائیدار ہوتا ہے اورزمانہ کاگزرنا اور حاکم کا بدلنا ہر گز فریضہ کو نہیں بدلنا۔

ب:۔وہ حاکم کہ جن کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا خود انہوں نے اس واقعہ کی تفتیش کا حکم دیا تھا،جب خلیفہ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی کہ آپ کے بیٹے عبیداللہ نے ہرمزان کو قتل کر ڈالاہے تو انہوں نے اس قتل کی وجہ پوچھی ،لوگوں نے کہا یہ بات مشہور ہے کہ ہرمزان نے ابو لولو کو حکم دیا تھا کہ تمہیں قتل کردے خلیفہ نے کہا :

میرے بیٹے سے پوچھو ،اگر اس کے پاس کوئی گواہ ہے تو میرا خون ہرمزان کے خون کے برابر ہے لیکن اگر اس کے بر عکس ہے

۳۰۷

تو اس کو قتل کردیا جائے۔(۱)

کیا بعد میں آنے والے خلیفہ پر واجب نہیں تھا کہ اپنے پہلے کے خلیفہ کے حکم کو جاری کرے؟کیونکہ عمرکے بیٹے کے پاس نہ کوئی گواہ تھا کہ ہرمزان اس کے باپ کے قتل میں شریک، اور نہ ہی ہرمزان نے ابو لولو کو قتل کرنے کاحکم دیا تھا ۔

۲۔یہ بات صحیح ہے کہ ہرمزان اور ابولولوکی چھوٹی بیٹی کا خون ناحق بہایا گیا لیکن اگر مقتول کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کے خون کا ولی مسلمانوں کاخلیفہ اور امام ہے، اسی وجہ سے عثمان نے اس مقام ومنصب سے خوب استفادہ کیا اور قاتل کو آزاد چھوڑ دیا اور اس کے گناہوں کو معاف کردیا۔(۲)

اس عذر کی بھی پچھلے عذر کی طرح کوئی اہمیت نہیں ہے ، اس لئے کہ ہرمزان ،قارچ(ککر متاّ) کی طرح نہ تھا جو زمین سے اگاتھااور اس کا کوئی وارث ورشتہ دار نہ تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک زمانے تک شوشتر کا حاکم تھا۔(۳)

اور ایسی شخصیت بغیر وارث کے نہیں ہوسکتی اس بنا پر خلیفہ کا فریضہ یہ تھا کہ اس کے وارث کو تلاش کرتے اور تمام کاموں کی ذرمہ داریاں اس کے سپرد کرتے۔

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس کا کو ئی وارث نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کا تمام حق، مال مسلمانوں کا حق تھا اور جب تمام مسلمان اس کے قتل بخش دیتے اس وقت خلیفہ اس کے قصاص کو نظر انداز کردیتے ،لیکن افسوس کہ واقعہ اس کے بر خلاف تھا اورمولف طبقات کے نقل کرنے کے مطابق چند افراد کے علاوہ تمام مسلمان عبیداللہ سے قصاص کا مطالبہ کررہے تھے ۔(۴)

______________________

(۱)۔سنن بیہقی (چاپ آفیست )ج۸ص۶۱۔

(۲)۔سنن بیہقی (چاپ آفست)ج۸ص۶۱۔

(۳) قاموس الرجال ج۹ص۳۰۵۔

(۴)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷۔

۳۰۸

امیر المومنین نے بہت سختی سے عثمان سے کہا ،اقد الفاسق فانّه' أتیٰ عظیماًًقتل مسلما ًبل اذنب ۔(۱)

اور جس وقت خلیفہ نے عبیداللہ کو آزادکرنا چاہاتوامام علی نے فوراً اعتراض کیا اور کہا :خلیفہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جو مسلمان کا حق ہے اسے نظرانداز کردے۔(۲) اس کے علاوہ ، اہل سنت کی فقہ کے مطابق ، امام اور اسی طرح دوسرے اولیاء (مثل باپ اورماں) کویہ حق حاصل ہے کہ قاتل کو قتل کریں یا اس سے دیت لیں ،لیکن ہرگز اسے معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔(۳)

۳۔ اگر عبیداللہ قتل ہو جاتا تو مسلمانوں کے دشمن خوشحال ہو تے کہ کل ان کاخلیفہ ماراگیا اور آج اس کے بیٹے کو مارڈالاگیا۔(۴)

یہ عذر بھی قرآن و سنت کی نظر میں بے وقعت ہے کیونکہ ایسے اثرورسوخ رکھنے والے شخص کا قصاص مسلمانوں کے افتخار کا باعث تھا اور عملی طور پر یہ ثابت کردیتا کہ ان کاملک ،قانون وعدالت کا ملک ہے، اور خلاف ورزی کرنے والے چاہے جس مقام ومنصب پر ہوں قانون کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں اور ان کامقام و منصب عدالت جاری کر تے وقت مانع نہیں ہوتا۔

دشمن اس وقت خوشحال ہوتا جب وہ دیکھتا ہے کہ حاکم ورہبر قوانین الہی کا مذق اڑارہے ہیں ، اور اپنی خواہشات کو حکم الہی پرمقدم کر رہے ہیں ۔

۴۔کہتے ہیں کہ ہر مزان، خلیفہ کو قتل کر نے میں شامل تھا کیونکہ عبدالرحمن بن ابو بکر نے گواہی دی کہ ابو لولو اور ہرمزان اور جفین کو ہم نے آپس میں آہستہ آہستہ بات کرتے ہوئے دیکھا اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ایک خنجر زمین پر گر ا جس میں دو نوک تھے ،اور اس کا دستہ بیچ میں تھا ،اور خلیفہ بھی اسی خنجر سے قتل ہوا۔(۵)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵ص۲۴۔

(۲)قاموس الرجال ج۹ ص۳۰۵منقول از شیخ مفید

(۳)الغدیر ج۸(طبع نجف)(بدائع الصنایع ملک العلماء حنفی سے گفتگو)

(۴)تاریخ طبری ج۵ص۴۱

(۵)تاریخ طبری ج۲ص۴۲

۳۰۹

اسلامی عدالت میں اس عذر کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ اس سے ہٹ کر کہ گواہی دینے والا ایک شخص ہے ایسے لوگوں کاایک جگہ ہونا جو مدتوں سے دوست رہے ہوں اور ان میں سے ایک لڑکی ہو ،خلیفہ کے قتل کرنے پر گواہ نہیں بن سکتا شاید ہرمزان نے اس وقت خلیفہ کو قتل کرنے سے منع کیا ہو کیا صرف وہم وگمان کے ذریعے دوسروں کا خون بہایا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اس طرح کی گواہی اور ثبوت کسی بھی عدالت میں قابل قبول ہے ؟جی ہاں تمام بے جا عذر سبب بنے کہ ہرمزان کا قاتل لمبے عر صے تک آزادانہ زندگی گزارے،لیکن امام علی نے اس سے کہا تھا کہ اگر کسی دن تم میرے قبضے میں آگئے تو تم سے ہرمزان کا قصاص ضرور لیں گے۔(۱) جس وقت امام نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،عبیداللہ کوفہ سے شام بھاگ گیا، امام نے فرمایا ،اگر آج بھاگ گیا ہے تو ایک نہ ایک دن ضرور ہاتھ آئے گا ،زیا دہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہاتھوں یا مالک اشتر یا عماریاسر (بہ اختلاف تاریخ ) کے ہاتھوں قتل ہوا۔

دوسری وجہ، بنی امیہ کے درمیان بیت المال کا تقسیم ہونا

پیغمبر اسلام(ص) کی خلافت وجانشینی ایک مقدس واعلیٰ مقام ہے جسے تمام مسلمان نبوت ورسالت کے منصب کے بعد سب سے اہم مقام سمجھتے ہیں ،اور ان لوگوں کا اختلاف صرف مسئلہ خلافت کے بارے میں ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہونا چاہئیے یا لوگ خود خلیفہ کا انتخاب کریں، ان لوگوں کے درمیان اختلاف یہ نہ تھا کہ مقام خلافت کا رتبہ بڑھ جائے اور اسلامی خلافت کی موقعیت کو اہم شمار کریں .اسی مقام خلافت کے احترام کی وجہ سے امیر المو منین ـ نے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خلیفہ سوم سے یہ کہا:

''وانی انشدک االلّه ان لا تکون امام هذه الامةالمقتول،فانه کان یقال یقتل فی هذه الامةامام یفتح علیها القتل والقتال الی یوم القیامة'' (۲)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵،ص۲۴۔

(۲)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۱۵۹۔

۳۱۰

میں تجھے خدا کی قسم دیتاہوں کہ اس امت کے مقتول پیشواکی طرح نہ ہونا،کیونکہ کہا جاتا تھاکہ اس امت کا پیشوا مارا جائے گا جس کے قتل کی وجہ سے قیامت تک کے لئے قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،

مہاجرین و انصار اوردیگر مسلمانوں کے درمیان اسلامی خلافت اور خلیفہ مسلمین کی عظمت ورفعت کے باوجود اسلام کی دوسری بزرگ شخصیتیں مختلف جگہوں سے مدینہ آگئیں ،اور مہاجرین و انصار کی مددسے خلیفہ سوم کو قتل کرکے پھر اپنے اپنے شہر واپس چلی گئیں۔

عثمان کے خلاف شورش وانقلاب کی ایک دو وجہیں نہیں تھیں، انقلاب لانے کی ایک وجہ حدود الہی کا جاری نہ ہوناتھا جس کا تذکرہ ہم مختصر اً کر چکے ہیں اور دوسری وجہ جس پر ہم بحث کر رہے ہیں یعنی خلیفہ کا اپنے رشتہ داروں کو بے حساب بیت المال سے مددکرنا اور ان کا خرچ دینا تھا ،اگر چہ تاریخ نے ان تمام چیزوں کو نہیں لکھا ہے یہاں تک کہ طبری نے بھی کئی مرتبہ اس بات کو صراحت سے کہا ہے ، میں اکثر لوگوں کے تحمل نہ کرنے کی وجہ سے بعض اعتراض کو جومسلمانوں نے خلیفہ کے خلاف کیئے تھے ،تحریر نہیں کیا ہے(۱) لیکن وہی چیز یں جنہیں تاریخ نے لکھا ہے ، بیت المال سے متعلق عثمان کے کردار کوبخوبی واضح وروشن کرتا ہے ۔مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیتیں اور دوسرے سامان جو انہوں نے اپنے اعزہ واحباب کو دیئے تھے ،وہ بہت زیادہ تھے جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

عثمان نے فدک کے علاقہ کو جو مدتوں حضرت زہرا اور خلیفہ اول کے درمیان مورد بحث تھا مروان کو دیدیا اور یہ ملکیت ایک کے بعد ایک مروان کی اولادوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزنے اسے حضرت زہرا کی اولاد وں کو واپس کردیا۔

پیغمبر اسلام کی بیٹی نے کہا تھاکہ میرے بابا نے فدک مجھے دیا تھا ،لیکن ابو بکر کا یہ دعوی تھا کہ یہ صدقہ ہے اور دیگر صدقوں کی طرح یہ بھی محفوظ رہے اور اس کی آمدنی مسلمانوں کے امور میں خرچ ہو بہر حال کسی بھی صورت سے عثمان کا مروان کوفدک دینا صحیح نہیں تھا ،بہت سے مورخین نے عثمان کی اس حرکت پر ان کو

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۵ص۱۰۸و۱۱۳ و۲۳۲۔

۳۱۱

آڑے ہاتھ لیا اور سب نے یہی لکھا کہ'' تمام لوگوں نے جو ان پر اعتراض ہوئے یہ ہے کہ انہوں نے فدک کو جو رسول اسلام کا صدقہ تھا مروان کودیدیا ''(۱) اے کاش خلیفہ اسی پر اکتفاء کرتے اور اپنے چچا زاد بھائی اور داماد کو اس کے علاوہ کچھ اور نہ دیتے،لیکن افسوس کہ اموی خاندان کے ساتھ خلیفہ کی الفت و محبت ولگائو کی کوئی حدنہ تھی ،انہوں نے اتنے ہی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ۲۷ ہجری میں اسلامی فوج نے افریقہ سے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کیا تھا جس کی قیمت تقریباً ڈھائی میلین (۲۵لاکھ ) دینار تھی اس کا پانچواں حصہ (۵لاکھ ) جسے قرآن کریم نے خمس کے چھ موارد میں تقسیم کیا ہے بغیر کسی دلیل کے اپنے داماد مروان کو دیدیا، اور اس طرح سے انہوں نے سب سے مخالفت مول لی ،چنانچہ بعض شعراء نے بعنوان اعتراض یہ شعر کہا(۲)

وأعطیت مروان خمس العبا

د ظلماًلهم وحمیت الحمی(۳)

وہ خمس جو خدا کے بندوں سے مخصوص ہے بغیر کسی دلیل کے مروان کو دیدیا اور اپنے رشتہ داروں کا خیال کیا۔

بیت المال کے بارے میں اسلام کا نظریہ

ہر عمل ایک ونظریہ کی حکایت کرتا ہے، خلیفہ کاعمل اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور ہدیہ و تحفہ وغیرہ دینے کو صلئہ رحمی اور رشتہ داروں کی خدمت کرنا جانتے تھے۔اب یہ دیکھنا ہے کہ بیت المال چاہے مال غنیمت ہو یازکات کی طرح دوسرے اموال کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے یہاں ہم پیغمبر اسلام(ص) اورامیر المومنین کے چند اقوال کو پیش کررہے ہیں ۔

۱۔پیغمبر اسلام (ص)مال غنیمت کے بارے میں فرماتے ہیں

للّه خمسه واربعة اخماس للجیش (۴)

______________________

(۱)ابن قتیبہ دینوری ،معارف ص۸۴۔---(۲)سورئہ انفال آیت ۴۱۔----(۳)سنن بیہقی ج۶ص۳۲۴۔

(۴)سنن بیہقی ج۶ ص۳۲۴۔

۳۱۲

اس میں سے پانچواں خدا کا حصہ اور باقی ۴۵لشکر اسلام کا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ خدا س سے بے نیاز ہے کہ وہ اپنے لئے حصہ معین کرے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس ۵/ ۱کو ایسے کاموں میں خرچ کیا جائے جن میں خدا کی مرضی شامل ہو ۔

۲۔جب پیغمبر اسلام نے معاذبن جبل کو یمن روانہ کیا توانہیں حکم دیا کہ لوگوں سے کہنا۔

''ان اللّه قدفرض علیکم صدقة اموالکم نوخذ من اغنیاء کم فتردّالی فقراء کم'' (۱)

خدا وند عالم نے تم پر زکواة واجب کی ہے جو تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور فقیروں کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

۳۔ امیر المومنین نے اپنے مکہ کے حاکم کو لکھا :

جو کچھ خدا کا مال تمہارے پاس جمع ہوا ہے اس کا حساب وکتاب کرو اور اسے کثیر العیال اور بھوکوں کو دیدو ، اور اس بات کا خیال رہے کہ وہ یقینافقیروں اور محتاجوں کو ملے ۔

تاریخ میں ہے کہ دو عورتیں دو نژاد کی ایک عرب اور دوسری آزادکردہ ،مولائے کائنات کے پاس آئیں اور دونوں نے حاجت پیش کی ،امام نے ہر ایک کو ۴۰ درہم کے علاوہ کھانے پینے کا سامان دیا نژادوہ عورت جو عرب سے نہیں تھی اس نے اپنا حصہ لیا اور چلی گئی لیکن عرب عورت نے جاہلیت کی فکر رکھنے کے وجہ سے امام سے کہاکیا آپ مجھے اتنی ہی مقدار میں دیں گے جتنا غیر عرب کو دیا ہے ؟امام ـ نے جواب میں کہا ، میں خد ا کی کتاب قرآن میں اسماعیل کے بیٹوں کی اسحاق کے بیٹوں پر فضیلت وبرتر ی نہیں دیکھتا؟(۲)

ان حدیثوں اور صراحتوں کے ہوتے ہوئے اور یہ کہ خلیفہ اول ودوم کا طریقہ خلیفہ سوم سے علیحدہ تھا اس کے باوجود عثمان نے اپنی پوری خلافت کے درمیان بہت زیا دہ تحفے وہدیہ لوگوں کو دیئے کہ کسی بھی صورت میں اس کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ۔

اگر ان ہدیوں اورکو ان نیک لوگوںکو دیا جاتاجن کی گذشتہ زندگی اسلام کے لئے باعث افتخار تھی ،تو

______________________

(۱)الاموال ص۵۸۰۔

(۲)نہج البلاغہ نامہ ۶۷۔

۳۱۳

اتنی ملامت نہیں ہوتی ، لیکن افسوس کہ وہ گروہ لایق فضل وکرم قرار پایا جس کی اسلام میں کوئی فضیلت نہیں تھا۔

مروان بن حکم حضرت امیر المومنین کا سخت ترین دشمن تھا ، جس وقت اس نے حضرت علی سے اپنی بیعت توڑی اور جنگ جمل میں گرفتار ہوا اور امام حسین کی شفاعت کرنے سے آزاد ہوا ،تو امام کے بیٹوں نے امام سے کہا ، مروان دوسری مرتبہ پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرے گا ، امام نے فرمایا ۔

مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے کیا عثمان کے قتل کے بعد اس نے میرے ہاتھوں پر بیعت نہیں کیا؟ اس کی بیعت یہودیوں کی بیعت کی طرح ہے جو مکروفریب اور بے وفائی میں بہت مشہور ہیں، اگر خود اپنے ہاتھوں پر بیعت کرے تودوسرے دن مکرو فریب کے ساتھ اسے توڑ دے گا اس کے لئے حکومت چھوٹی چیز ہے جیسے کتا خود اپنی ناک چاٹتاہے،وہ چاربچوں کاباپ ہے اور امت مسلمہ کواس سے اور اس کے بچوں سے ایک روز شدید جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔(۱)

______________________

(۱)سنن بیہقی ج۶ص۳۴۸۔

۳۱۴

تیسری وجہ، اموی حکومت کی تشکیل

عثمان کے خلاف شورش کی تیسری وجہ ،اسلام کے حساس مر کزوں پر امویوں کی ظالمانہ حکومت تھی وہ بھی ایسی حکومت جو بچے اور بوڑھے کو نہیں جانتی تھی اور خشک وتر کو جلا دیتی تھی ، اصل بات یہ تھی کہ خلیفہ سوم کو بنی امیہ سے بہت ہی زیاوہ الفت ومحبت تھی اور رشتہ دارکی محبت کو ٹ کوٹ کر بھری تھی ، اپنے رشتہ داروں کی اس درخواست کی تکمیل کے لئے کہ ایک اموی حکومت تشکیل دی جائے عقل وخرد ، مسلمانوں کی مصالح و مفاسداور اسلام کے قوانین کی عثمان کی نظر میںکوئی اہمیت نہیں تھی اور بنی امیہ سے بیحد محبت کی وجہ سے بہت زیادہ غلط انجام پاتے تھے ۔

اس بات کی بھی یاددہانی ضروری ہے کہ ان کی محبت سارے مسلمانوں سے نہ تھی بلکہ ان کی محبت کا ربط صرف اپنے رشتہ داروں سے تھا ، اور دوسرے افراد ان کے غیظ وغضب سے امان میں نہیں تھے ،یعنی شجرئہ اموی سے بے شمار محبت کی وجہ سے ابوذر ،عمار ،عبداللہ بن مسعود وغیرہ پر بہت خشمگین رہتے تھے ، جس وقت ابو ذر کو ایسی سرزمین جہاں آب ودانہ نہ تھا یعنی ، ربذہ بھیجا اور اس عظیم مجاہد نے وہاں تڑپ تڑپ کر جان دیدی ،اس وقت ان کی محبت جوش میں نہ آئی جس وقت عمار خلافت کے بکے ہوئے کارمندوںکے لات گھونسوں سے زخمی ہوئے اوراور بے ہوش ہوگئے، خلیفہ پر ذرہ برابربھی اثر نہ ہوا ۔

۳۱۵

خلیفہ کا خاندان ،بنی ابی معیط ،کے ساتھ لگائو چھپنے والا نہیں تھا،یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے بھی اس بات کا احساس کرلیا تھاتبھی تو انہوں نے ابن عباس سے کہا تھا :

''لوولیها عثمان لحمل بنی ابی معیط علی رقاب الناس ولو فعلها لقتلوه'' (۱)

اگر عثمان خلافت کی با گ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گا تو ابی معیط ،کے بیٹوں کو لوگوں پرمسلط کردے گا اور اگر اس نے ایسا کیا تو لوگ اسے قتل کردیں گے۔

جس و قت عمر نے شوری تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس میں عثمان کو بھی داخل کیا توان کی طرف رخ کرکے کہا ، اگر خلافت تمہارے ہاتھوں میں آجائے تو اس وقت خدا سے خوف کھانا اور ابی معیط کی آل کولوگوں پرمسلط نہ کرناجب عثمان نے ولید بن عتبہ کو کوفہ کاگورنر بنایا،توامیرالمومنین اور طلحہ وزبیرنے عمر کی بات یاد دلائی اور عثمان سے کہا :

''الم یوصک عمرالا تحمل آل بنی محیط وبنی امیه علی رقاب الناس ؟'' (۲)

کیا عمر نے تم کو نصیحت نہیں کی تھی کہ آل بنی محیط اور بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا؟

لیکن ہوا وہی کے سارے معیار ان کی مکمل محبت و غالب ہو گئی ،اور اسلام کے تمام حساس واہم مرا کز امویوں کے ہاتھوں میں آگئے ،اور ایساہوا کہ ایک گروہ قدرت و حکو مت میں مست اور دوسرا گروہ مال جمع کرنے میں مشغول ہو گیا جب کہ نزدیک اور دورکے علاقے کے مسلمان خلیفہ کے رشتہ داروں کو غرامت دینے والے تھے ۔

حقیقت میں عثمان نے خاندان بنی امیہ کے بوڑھے شخص ،ابو سفیان کی پیروی کی جو عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے والے دن ان کے گھر آیا ورجب اس نے دیکھا کہ وہاں سب کے سب بنی امیہ سے ہیں تواس

______________________

(۱) انساب بلاذری ج۵،۱۶۔

(۲)انساب بلاذری ج۵ص۳۰۔

۳۱۶

نے کہا کہ خلافت کویکے بعد دیگرے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا۔(۱)

ابو موسی اشعری یمنی کوفہ کا حاکم تھا، اور یہ چیز خلیفہ کے ساتھیوں کے لئے برداشت کے قابل نہیں تھاکہ ایک غیر اموی شخص اس عہدے پرفائز ہو ،یہی وجہ تھی کہ شبل بن خالد نے ایک خصوصی جلسہ میں جس میں سب کے سب اموی تھے کہا:کیوں اتنی زیادہ زمین ابو موسی اشعری کو دیدیا ہے ؟،خلیفہ نے کہا :تمہاری نظر میں کون بہتر ہے ؟شبل نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا ،اس وقت اس کی عمر سولہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔(۲)

اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ حاکم کوفہ سعید بن عاص اموی نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ عراق قریش کے جوانوں کی چراگاہ ہے۔

اگر حکومت عثمان میں کام کرنے والوں کی فہرست کو تاریخ کے اوراق سے نکالا جائے تو اس وقت خلیفہ سوم کی بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ نے کہا تھا ۔

''لو ان بیدی مفاتیح الجنّة لاعطیتهابنی امیه حتی ید خلوامن اخرهم'' (۳)

اگر جنت کی کنجی میرے ہاتھوں میں ہوتی تو اسے بنی امیہ کو دیدیتا تاکہ بنی امیہ کی آخری فردبھی جنت میں داخل ہوجائے۔

اسی بے جااور بے حساب محبت کا نتیجہ تھا کہ لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم وستم اور حکومت کے سیاسی رہنمائوں کے ظلم و جبر سے عاجز ہو گئے تھے اور خلیفہ کے خلاف ایسی مخالفتیں معاشرے میں پروان چڑھنے لگیں جنہوں نے عثمان کی خلافت اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میںگورنروں کے سلسلے میں صرف کوفہ اور مصر میں جو تبدیلیاں دیکھنے کو آئیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کی سیاست یہ تھی کہ سارے امور امویوں کے ہاتھوں میں ہوں۔

______________________

(۱)استیعاب ج۲ص۶۹۰۔

(۲) تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر۔ انساب بلاذری ۔

(۳)مسند احمد بن جنل ج۱ص۶۲۔

۳۱۷

جس وقت خلیفہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،مغیرہ بن شعبہ کوکوفہ کی گورنری سے معزول کرکے سعد وقاص کو اس کی جگہ پر منصوب کردیا ،اس مورد میںبظاہر اچھا کام کیاکیونکہ سعد وقاص کا مقام ومر تبہ جو کہ فاتح عراق تھا .مغیرہ بن شعبہ سے جونا زیبا اور غلط کاموں میں مشہور تھابہت بلند تھا بلکہ اس کا ان سے مقابلہ نہیں تھا ،لیکن حقیقت میں سعدوقاص کو منصوب کرنے کا مقصد کچھ دوسرا تھا کیونکہ ایک سال کے بعد انہوں نے سعد وقاص کو ہٹا کر اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ بن ابی معیط کو کوفہ کا گورنر بنا دیا ،۲۷ ہجری میں عمروعاص کو مصر سے جزیہ لینے کی ذمہ داری سے ہٹا کر اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر میں جزیہ لینے کے لئے معین کردیا،۳۰ ہجری میں ابو موسی اشعری کو ،جو خلیفہ دوم کے زمانے سے بصرہ کا حاکم تھا ،معزول کر کے اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ بن عامر جو بالکل نوجوان (۱۶سال کا)تھا بصرہ کا حاکم بنا دیا ۔(۱)

یہ تمام موارد جوذ کر ہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ عثمان کی ہمیشہ یہی کو شش تھی کہ ایک اموی حکومت تشکیل پاجائے ۔

چوتھی وجہ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ پر ظلم وستم

عثمان کے خلاف شورش و بغاوت کی چوتھی وجہ پیغمبر کے صحابہ کی بے حرمتی تھی ،جو خود عثمان کی طرف سے یا ان کی طرف سے معین کئے ہوئے شخص کے ہاتھوں انجام ہوتی تھی ، اس سلسلے میں یہاںصرف دو نمونے پیش کر رہا ہوں ۔

۱۔ عبداللہ بن مسعود پر ظلم وستم

عبداللہ بن مسعود پیغمبر اسلام (ص)کے بزرگ صحابی تھے، تاریخ اسلام میں جن کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور صحابہ کے بارے میں جو کتابیں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں انکے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوی ایمان والے اورقرآن کی تعلیم کے ذریعے معارف اسلامی کی اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔(۲)

______________________

(۱)تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر ،انساب بلاذری۔

(۲)استیعاب ج۱،ص۳۷۳،اصابہ ج۲،۳۶۹،اسد الغابہ۔

۳۱۸

وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر مسجدالحرام میں اور قریش کی انجمن کے سامنے بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کی ، تا کہ خدا کے کلام کو قریش کے اندھے دلوں تک پہنچائیں ،جی ہاں دو پہر کے وقت جب قریش کے سردار جمع ہوکر تبا دلہ خیال کررہے تھے ،کہ اچانک عبداللہ نے'' مقام ابراہیم''کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز میں سورئہ رحمن کی چند آیتوں کی تلاوت کی ، قریش نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا ، ابن ام عبد ، کیا کہہ رہا ہے ؟ ایک نے کہا جو قرآن محمد پر نازل ہواہے اسے ہی پڑھ رہا ہے، اس وقت سب کے سب اٹھے اور عبداللہ پر سب وشتم اور ان کے چہرے پر طمانچہ مارکر ان کی آواز کو خاموش کردیا ، عبد اللہ زخمی چہرے کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگئے، لوگوں نے ان سے کہا ،تم سے ہمیں اس بات کا خوف تھا ، عبداللہ نے ان کے جواب میں کہا دشمنان خدا آج کی طرح کبھی بھی میری نگاہ میں اتنے ذلیل وحقیر نہ تھے ،اور پھر کہا کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو میں کل پھر اسی کام کو دوبارہ کروں! ان لوگوں نے کہا جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے اس کو جتنا انہوں نے سن لیا بس وہ ہی کافی ہے(۲) یہ اس صحابی کے تابناک زندگی کے خوشنمااوراق ہیں جس نے اپنی عمر کو جوانی کی ابتداء سے مسلمانوں کو قرآن سکھانے اور توحید کا درس دینے میں صرف کیا تھااور وہ ا ن چھ افراد میں سے ہے جن کے بارے میں ذیل کی آیت نازل ہوئی ۔(۲)

( وَلاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْئٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) (انعام۵۲)

اور (اے رسول) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار سے اس کی خوشنودی کی تمنا میں دعائیں مانگا کرتے ہیں ان کو اپنے پاس سے نہ دھتکارو، نہ ان کے (حساب و کتاب کی) جوابدہی تمہارے ذمہ ہے اور نہ تمہارے (حساب و کتاب کی) جوابدہی کچھ ان کے ذمہ ہے تاکہ تم انھیں (اس خیال سے) دھتکار بتاؤ تو تم ظالموں (کے شمار) میں ہو جاؤ گے۔

______________________

(۱)سیرئہ ابن ہشام ج۱،ص۳۳۷۔

(۲)تفسیر ی طبری ج۷،ص۱۲۸،مستدرک حاکم نیشا پوری ج۳،ص۳۱۹۔

۳۱۹

عبداللہ کی عظمت کے بارے میں اس سے زیادہ تاریخ نے بیان کیا ہے حق تو یہ ہے کہ یہاں تفصیل سے بیان کیا جاتا لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ایسے مومن اور خدمت گزار صحابی جس کی خطا صرف یہ تھی کہ اس نے کوفہ کے حاکم ولیدبن عتبہ کا ساتھ نہیں دیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ۔

سعدو قاص کوفہ کا حاکم تھا عثمان نے اسے اس منصب سے ہٹادیا اور اپنے رضاعی بھائی ولید بن عتبہ کو ان کی جگہ معین کردیا ، ولید نے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بیت المال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اسکی کنجی عبداللہ بن مسعود کے پاس تھی ،عبداللہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا ولید نے اس کی خبر عثمان کو بھیجی ،عثمان نے عبداللہ بن مسعود کے نام خط لکھا اور ولید کو بیت المال کی کنجی نہ دینے پر ملامت کیا، عبداللہ نے خلیفہ کے خوف وڈر کی وجہ سے کنجی حاکم کی طرف پھینک دی اور کہا:

کیسا دن آگیا کہ سعد وقاص کو ان کے منصب سے دور کر دیا گیا اور ان کی جگہ پر ولید بن عتبہ کو منصوب کردیا گیا ،خدا کا کلام سچا ہے بہترین حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رہنمائی وہدا یت ہے، ان کے لئے بدترین امورانکی نئی باتیں ہیں جن کا اسلام نے حکم نہیں دیا ہے جو چیز بھی شرعی نہ ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ جہنم ہے ۔

عبداللہ نے یہ با تیں کہیں اور چونکہ عثمان نے انھیں مدینہ بلایا تھا لہذا مدینے کی طرف روانہ ہو گئے کوفہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو ے اور مدد کر نے کا وعدہ کیا انہوں نے کہا خلیفہ کی اطاعت مچھ پر فرض ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں وہ پہلا شخص بنوں جو فتنہ وفساد کا دروازہ کھولتا ہے وہ جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوے سیدھے مسجد گئے اوروہاں خلیفہ کو منبر پرمصروف گفتگو پایا ۔

بلاذری لکھتے ہیں : جب عثمان کی نگاہ عبداللہ بن مسعود پر پڑی تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوے اور کہا ابھی ابھی تمہارے درمیان ایک بد بودار جانور آیا ہے وہ جاندار جو خود اپنی غذا پر چلتا ہے اور اس پر قے کر کے اسے خراب کردیتا ہے۔

عبداللہ نے جیسے ہی یہ سنا جواب دیا ،کہ میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں پیغمبر کا صحابی،جنگ بدر کا سپاہی اور بیعت الرضوان ،میں بیعت کرنے والا ہوں ۔ اس وقت عائشہ نے اپنے کمرے سے فریا د بلند کی ،عثمان ! کیوں پیغمبر کے صحا بی کی توہین کررہے ہو؟چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں شروآفت سے بچنے کیلئے عبداللہ کو خلیفہ کے حکم سے مسجد سے باہر نکال دیا گیا۔

۳۲۰