فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341341
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341341 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابن زمعہ نے انہیں زمین پر گرادیا،اور کہا جاتا ہے کہ جحوم ،عثمان کے غلام نے انہیں اٹھایا اور پھر بہت تیز ز مین پر اس طرح سے گرایا کہ ان کے دانت ٹوٹ گئے اس وقت حضرت علی نے اعتراض کیا اور کہا :صرف ولید کی شکایت پر تم پیغمبر کے صحابی پر یہ ظلم کررہے ہو؟

با لآخر امام عبداللہ کو اپنے گھر لے گئے لیکن عثمان نے اسے مدینہ سے باہر نکلنے پر پابندی لگادی وہ مدینے ہی میں رہے یہاں تک کہ ۳۲ ھ میں ( عثمان کے قتل ہونے سے ۳ سال پہلے) اس دنیا سے کوچ کر گئے۔(۱)

عبداللہ بن مسعود جب بستر بیماری پر تھے تو ان کے دوست و احباب ان کی عیادت کے لئے آئے ، ایک دن عثمان نے بھی ان کی عیادت کی اور دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے :

عثمان : کس چیز کی وجہ سے فکرمند ہو ؟

عبداللہ : اپنے گنا ہوںکی وجہ سے۔

عثمان : کیا چاہتے ہو ؟

عبد اللہ : خدا کی وسیع ترین رحمت۔

عثمان: تمہارے لئے طبیب کا انتظام کروں ۔

عبداللہ : حقیقی طبیب نے بیمار کیاہے۔

عثمان: حکم دیدوں کہ تمہاری سابقہ پنشن ادا کردی جائے (۲سال سے ان کی پنشن روک دی گئی تھی)۔

عبداللہ: جس دن مجھے ضرورت تھی اس دن تم نے منع کردیا تھا اور آج جب کہ مجھے ضرورت نہیں ہے دینا چاہتے ہو؟

عثمان : ( یہ مال ) تمہا رے بچوں اور وارثوں تک پہونچے گا۔

عبداللہ : خدا ان لوگوں کو رزق دینے والاہے ۔

______________________

(۱) ۔حلیتہ الاولیاء ج ۱ ص۱۳۸۔

۳۲۱

عثمان: خدا سے میرے لئے استغفار کرو۔

عبداللہ: خدا سے یہی چا ہونگا کہ میرا حق تجھ سے لے لے۔

جب عبداللہ نے اپنے کو موت سے قریب پایا تو عماراور ایک روایت کی بنا پر زبیر کو اپنا وصی قرار دیا کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا ،یہی وجہ تھی کہ رات میں نماز جنازہ ہوئی اور دفن کر دیئے گئے،عثمان جب اس واقعہ سے با خبر ہوے توعمار سے پوچھا کہ کیوں عبداللہ کے مرنے کی خبر مجھے نہیں دی ، عمار نے کہا انہوں نے وصیت کیا تھا کہ تم ان کی لاش پر نماز نہ پڑھو، زبیر نے عثمان اور عمار کی گفتگو سننے کے بعد اس شعر کو پڑھا۔

لاعرفنک بعدا لمو ت تندبنی

وفی حیاتی ما زودتنی زادی

میں تجھے دیکھ رہا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد مجھ پر رو رہا ہے ، حالانکہ جب میں زندہ تھا تو نے میرا حق ادا نہیں کیا ۔

جناب عبداللہ بن مسعود پیغمبر کے جلیل القدر صحابی اور بزرگ قاریوں میں سے تھے اور جن کے بارے میں حضرت امیرالمومنین نے فرمایا تھا کہ''علم القر آن وعلم السنة ثم انتهی وکفی به علماً'' (۱)

ان پر ایسا ظلم وستم کرنا حقیقت میں بغیر کسی عکس العمل کے نہ تھا ، جب خلافت ایسے برے کام انجام دے تو لوگوں کے درمیان بدبینی اور انتقام لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اگر اس عمل کی تکرار کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے خلاف بغاوت اور انقلاب لانے کی فکر پیدا ہو جائے گی اور جو چیز نہیں ہو نی چاہیئے وہ ہو جاتی ہے ۔

______________________

(۱)یعنی:قرآن و سنت کو سیکھا اور آخر تک پہنچایا یا ان کے لئے یہی کافی ہے،انساب ج۵،ص۳۶۔تاریخ ابن کثیرج۷ص۱۶۳

۳۲۲

۲۔عمار یاسر پر ظلم وستم

یہ صرف عبداللہ بن مسعود نہ تھے جو خلیفہ کی بے توجہی کا نشانہ بنے ،بلکہ عمار یاسر بھی ان کے ظلم و ستم کانشانہ بنے ، ان پر ظلم وستم اور اہانت کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ نے بیت المال کے بعض زیورات کو اپنے

اہل وعیال کے لئے مخصوص کردیا تھا ، اور جب لوگ یہ دیکھ کر بہت غصہ ہوئے تو وہ اپنے دفاع اور صفائی کے لئے منبر پر گئے اور کہا: مجھے جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی بیت المال سے لونگا ، اور ان لوگوں کو سخت سزا دوں گا (جو اعتراض کریں گے) علی نے خلیفہ کا جواب دیتے ہوئے کہا: تمہیںاس کام سے رو کا جائے گا۔

عمار نے کہا : خدا کی قسم میں وہ پہلا شخص ہوں جسے اس کی وجہ سے سزا دی جائے گی اس وقت عثمان نے تند لہجہ میں کہا ، اے بڑے پیٹ والے میرے سامنے تمہاری یہ ہمت ؟اسے پکڑ لو ، انھیں پکڑ لیا گیا اور اتنا مارا کی حالت غیر ہو گئی عمار کے دوستوں نے انہیں پیغمبر کی بیوی ام سلمہ کے گھر پہونچایا ، جب انہیں ہوش آیا تو کہا .خدا کا شکر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مجھ پر ظلم وستم ہوا ہے جب عائشہ کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انہوں نے پیغمبر کا بال ،لباس اور نعلین باہر نکالا اور کہا ابھی پیغمبر کا بال ،لباس ، اور نعلین پرانا نہیں ہوا ہے اور عثمان نے ان کی سنت کو نظر انداز کردیا ہے عثمان عائشہ کی باتیں سن کر بہت غصہ ہوے مگر انہیں کوئی جواب نہیں دیا ۔

۳۲۳

ام سلمہ نے پیغمبر کے بزرگ ساتھی کی خوب تیما داری کی اور قبیلئہ بنی مخزوم کے افراد جو عمار کے ہم خیال تھے ام سلمہ کے گھر آتے جاتے تھے، یہ بات عثمان کو بہت بری لگی اور انہوں نے اعتراض کیا ، ام سلمہ نے عثمان کو پیغام بھجوایا : تم خود لوگوں کو اس کام پر مجبور کرتے ہو۔(۱)

ابن قتیبہ نے اپنی کتاب'' الا ما مة والسیا سة '' میں عمار پر ظلم و ستم کے واقعہ کو دوسری طرح نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :پیغمبر کے تمام صحابی ایک جگہ جمع ہوئے اور خلیفہ وقت کے نام خط لکھا اور اس میں ان کے ظلم وستم اور کمزوریوں کے بارے میںیہ تحریر کیا ۔

۱۔خلیفہ نے چندچیزوں میں پیغمبر کی سنت اور شیخین کی مخالفت کی ہے ۔

۲۔ افریقہ سے آئے ہوئے مال غنیمت کو ، جو کہ رسول اور ان کے اہلبیت (ع ) اور یتیموں اور مسکینوں کا حق تھا ، مروان کے سپرد کردیا ۔

۳۔عثمان نے اپنی بیوی نائلہ اور اپنی بیٹی کے لئے مدینے میں سات گھر بنوائے۔

۴۔ مروان نے بیت المال کی رقم سے مدینہ میں بہت سے ''قصر '' بنوائے ۔

۵۔ عثمان نے تمام سیا سی امور امویوںکے سپرد کر دیا تھا اور مسلمانوں کے تمام امور کی دیکھ بھال

______________________

(۱)انساب ج۵ ص۴۸

۳۲۴

ایسے نوجوان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی جس نے ہر گز رسول خدا کو نہ دیکھا تھا۔

۶۔ کوفہ کے حاکم ولید بن عتبہ نے شراب پی کر مستی کے عالم میں صبح کی نماز چاررکعت پڑھائی اور پھر ما مو مین کو مخاطب کرکے کہاہے کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو کچھ اور رکعتوں میں اضافہ کروں ۔

۷۔ ان تمام چیزوں کے باوجود ، عثمان نے ولید پر شراب پینے کی حد جاری نہیں کی ۔

۸۔ مہا جروانصار کو چھوڑ دیا ہے اور ان سے مشورہ وغیرہ نہیں کرتا۔

۹۔بادشاہوں کی طرح مدینے کے اطراف کی تمام زمینوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے ۔

۱۰۔ وہ لوگ جنہوں نے ہر گز پیغمبر کے زمانے کو درک نہیں کیا تھا اور نہ کبھی جنگ میں شرکت کی تھی اور نہ اس وقت ہی دین کا دفاع کررہے ہیں ، انہیں بہت زیادہ مال ودولت دیا اور بہت زیادہ زمین ان کے نام کردی ہے ، اس کے علاوہ بھی بہت سی خلاف ورزیاں ہیں ۔

ایک گروہ جس میں دس آدمی شامل تھے ان کے توسط سے یہ خط لکھا گیا لیکن عکس العمل کی وجہ سے لوگوںنے اس پر دستخط نہیں کیا اوراسے عمار کے حوالے کیا کہ عثمان تک پہونچا دیں، وہ عثمان کے گھر آئے اس وقت مروان اور بنی امیہ کے دوسرے گروہ عثمان کے اردگرد بیٹھے تھے، عمار نے خط عثمان کے حوالے کیا خلیفہ خط پڑھنے کے بعد لکھنے والو ں کے نام سے باخبر ہوگیا لیکن وہ سمجھ گیا کہ ان میں سے کوئی بھی ڈر کے مارے ان کے گھر نہیں آیا ہے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے عمار کو مخاطب کر کے کہا: میرے ساتھ تمہاری جرأت بہت بڑھ گئی ہے مروان نے خلیفہ سے کہا: اس کالے غلام نے لوگوں کو تمہارے خلاف بھڑکایا ہے اگر اسے قتل کردیا گویا تم نے اپنا اوردوسروں کا بدلہ لے لیا ہے۔

۳۲۵

عثمان نے کہا: اسے مارو۔

سب نے انھیں اتنا مارا کہ بہت زیادہ زخمی ہوگئے اور حالت غیر ہوگئی، پھر اسی حالت میں انھیں گھر سے باہر پھینک دیا گیا۔

ام سلمہ پیغمبر کی بیوی اس واقعہ سے باخبر ہوئیں اور انھیں اپنے گھر لے آئیں ۔ قبیلۂ بنی مغیرہ کے لوگ جوعمار کے ہم فکر و خیال تھے اس واقعہ سے بہت زیادہ ناراض ہوئے۔ جب خلیفہ نماز ظہر پڑھنے کے لئے مسجد میں آئے ا س وقت ہشام بن ولید نے عثمان سے کہا: اگر عمار ان زخموں کی وجہ سے مر گئے تو بنی امیہ کے ایک شخص کو قتل کر ڈالوں گا۔

عثمان نے جواب میںکہا: تم ایسا نہیں کر سکتے۔

اس وقت علی کی طرف متوجہ ہوے دونوں کے درمیان سخت لہجہ میں گفتگو ہوئی۔ یہاں گفتگو طولانی ہونے کی وجہ سے ہم نقل کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔(۱)

پانچویں وجہ، بزرگ شخصیتوں کو جلا وطن کرنا

پیغمبر اسلام (ص)کے بہت سے صحابی اور دوست جو امت کے درمیان حسن سلوک اور تقوے میں بہت مشہور تھے ان کو عثمان نے کوفہ سے شام اورشام سے ''حمص'' اور مدینہ سے ''ربذہ'' کی طرف جلا وطن کردیا۔

تاریخ اسلام کا یہ باب بہت ہی دردناک باب ہے اور اس کا مطالعہ کرنے والا ایک ظالم و ستمگر حکومت و خلافت کا احساس کرتا ہے اورہم اس باب میں چند کی طرف مختصرا ً اشارہ کریں گے اور چونکہ تقریباً سبھی لوگ ابوذر کی جلا وطنی سے باخبر ہیں(۲) لہذا ان کے حالات نقل نہیں کریں گے اور عثمان کی خلافت کے زمانے میںجودوسرے بزرگ جو جلا وطن ہوئے ہیں ان کے حالا ت قلمبند کر رہے ہیں۔

______________________

(۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۲۹۔

(۲) شخصیتہای اسلامی شیعہ، ج۱، ص ۸۔

۳۲۶

مالک اشتر اور ان کے ساتھیوں کی جلاوطنی

جیسا کہ بیان ہوچکاہے خلیفۂ سوم نے لوگوں کے دبائو کی بنا پر کوفہ کے بدترین حاکم و لید بن عتبہ کو حاکم کے منصب سے معزول کر کے سعید بن عاص اموی کو کوفہ کا حاکم بنادیا اور اسے حکم دیا کہ قرآن کے قاریوں اور مشہور و معروف افراد کے ساتھ اچھا روابط رکھے، یہی وجہ تھی کہ کوفہ کے نئے حاکم کی مالک اشتر اوران کے دوستوںکے ساتھ اوراسی طرح صوحان کے بیٹے زید اور صعصعہ کے ساتھ نشست و گفتگو ہوتی تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوفہ کے حاکم نے مالک اشتر اوران کے ہمفکروں کو خلیفہ کا مخالف جانااورا س سلسلے میں اس نے خلیفہ سے خفیہ طور پر خط و کتابت کی اور اپنے خط میں لکھا :

مالک اشتر اور ان کے ساتھی قرآن مجید کے قاری ہیں لیکن میں ان کی موجودگی میں اپنا فریضہ انجام نہیں دے سکتا ، خلیفہ نے حاکم کوفہ کو جواب دیا کہ اس گروہ کو جلاوطن کر کے شام بھیج دو، اور اسی کے ساتھ مالک اشتر کو بھی خط لکھا : تم اپنے دل میں کچھ ایسی باتیں چھپائے ہو کہ اگر اس کو ظاہر کیا تو تمھاراخون بہانا حلا ل ہو جائے گا اور مجھے ہرگز اس بات کی امید نہیں ہے کہ تم اس خط کو دیکھنے کے بعد اپنے مشن سے دور ہو جائو گے مگر یہ کہ تم پر سخت بلا و مصیبت نازل ہو، جس کے بعد تمہاری زندگی ختم ہو جائے ، جیسے ہی میرا خط تمہارے پاس پہونچے فوراً شام کی طرف چلے جانا۔

جب خلیفہ کا خط کوفہ کے حاکم کے پاس پہونچا تو اس نے دس آدمیوں پر مشتمل گروہ جس میں کوفہ کے صالح اور متدین افراد تھے ، جلاوطن کر کے شام بھیج دیا جن کے درمیان مالک اشتر کے علاوہ صوحان کے بیٹے زید و صعصعہ اور کمیل بن زیاد نخعی ، حارث عبد اللہ حمدانی وغیرہ جیسی اہم شخصیتیں شامل تھیں۔

۳۲۷

قرآن کریم کے قاریوں اور بہادر و توانا خطیبوں اور متقیوں کے اس گروہ نے شام کے حاکم معاویہ کی زندگی کو بھی عذاب بنادیا تھا اور قریب تھا کہ وہاں کے افراد شام کے حاکم او رخلافت عثمان کے خلاف انقلاب برپا کردیں، لہذا معاویہ نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس گروہ کا شام میں موجود رہنا خلافت کے لئے خطرہ کا باعث ہے اس نے اپنے خط میں لکھا :

''تم نے ایسے گروہ کو شام میں جلاوطن کر کے بھیجا ہے کہ جس نے ہمارے شہر و دیار میں ہنگامہ اور جوش و خروش پیدا کردیا ہے، میں ہرگز مطمئن نہیں ہوں کہ شام بھی کوفہ کی طرح مشکلات میں گرفتار نہ ہو، اور شامیوں کی فکر صحیح و سالم اور استحکام کو خطرہ و مشکل نہ ہو ، معاویہ کے خط سے خلیفہ کے اندر خوف پیدا ہو گیا، خلیفہ نے جواب میں لکھا کہ اس گروہ کو حمص (شام کا ایک دوردراز پسماندہ علاقہ) جلاوطن کر کے بھیج دو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خلیفہ نے ارادہ کیا کہ اس گروہ کو دوبارہ کوفہ بھیج دے لیکن سعید بن عاص حاکم کوفہ نے خلیفہ کو اس چیز سے منع کردیا اور اسی وجہ سے وہ لوگ حمص جلاوطن ہوئے۔(۱)

جو لوگ خلیفۂ سوم کے نمائندوں کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ایک شہر سے دوسرے شہر جلا وطن ہوئے

ان کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگ حق بات اور خلافت کے نمائندوں پر تنقید کیا کرتے تھے وہ لوگ یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ بھی سیرت پیغمبر پر چلے۔

خلیفہ کے شایان شان یہ تھا کہ کوفہ کے حاکم کی بات سننے کے بجائے کچھ امین اور سچے افراد کو کوفہ بھیجتے، تاکہ وہ حقیقت کا پتہ لگاتے اورایسے اہم کام میں صرف ایک نمائندہ کی بات پر اکتفا نہ کرتے۔

______________________

(۱)الانساب ج۵ ص ۴۳۔ ۳۹؛ اس کی تفصیل تاریخ طبری ج۳ ص ۳۶۸۔ ۳۶۰؛ (حادثہ کا سال ۳۳ھ) میں بیان ہوئی ہے۔

۳۲۸

جلاوطن ہونے والے افراد کون تھے؟

۱۔ مالک اشتر: اس عظیم شخصیت کا نام ہے جس نے پیغمبر (ص)کے زماکو درک کیا تھا اور کسی ایک مورخ نے ، ان کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں لکھا ہے، اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بیان میں ان کی اس طرح سے تعریف و توصیف کی ہے کہ آج تک کسی کی بھی اس طرح تعریف نہیں کی ۔(۱)

جب مالک اشتر کی وفات کی خبر امام کو ملی بہت زیادہ غمگین ہوئے اور کہا:

''و ما مالک؟ لوکان من جبل لکان فنداً و لو کان من حجر لکان صلداً أما و الله لیهدن موتک عالماً و لیفرحن عالماً علی مثل مالک فلیبک البواکی و هل موجود کمالک''؟ (۲)

کیا تم جانتے ہو کہ مالک کیسا آدمی تھا؟ اگر وہ پہاڑ تھا تو اس کی سب سے بلند چوٹی تھا (کہ اس پر سے پرندے پرواز نہیں کرسکتے) اور اگر وہ پتھر تھا تو بہت سخت پتھر تھا اے مالک تمہاری موت نے ایک دنیا کو غمگین اوردوسری دنیا کو خوشحال کردیا، مالک پر رونے والوں کی طرح گریہ کرو۔ کیا مالک کے جیسا کوئی موجود ہے؟

۲۔ زید بن صوحان: ان کی شخصیت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ ابوعمر واپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے۔

''یہ اپنے قبیلے کے بہت ہی با فضیلت، بزرگ اور دیندار تھے ،جنگ قادسیہ میں اپنا ایک ہاتھ قربان کرچکے تھے اور جنگ جمل میں امام علی کے رکاب میں جام شہادت نوش کیا۔(۳)

______________________

(۱) نہج البلاغہ، نامہ ۳۸،''فقد بعثت الیکم عبداً من عباد الله لاینام ایام الخوف...''

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۶ ص۷۷ (۳) استیعاب ج۱ ص ۱۹۷۔

۳۲۹

خطیب بغدادی لکھتا ہے: زید راتوں کو عبادت کرتے اوردن کو روزہ رکھتے تھے۔(۱)

۳۔ صعصعہ: زید کے بھائی صعصعہ بھی آپ ہی کی طرح بزرگ و باعظمت اور دیندار تھے۔

۴۔ عمر وبن حمق خزاعی: پیغمبر کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور آپ کی بہت سی حدیثیں یاد کئے ہوئے تھے، انھوں نے جب رسول اسلام کو دودھ سے سیراب کیا تھا تو رسول اسلام نے ان کے لئے دعا کی تھی اور فرمایا تھا خداوند ااسے اس کی جوانی سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔(۲)

ان افراد کی آشنائی سے ہمیں دوسرے جلاوطن افراد کی شناسائی ہوتی ہے، کیونکہ بحکم ''الانسان علی دین خلیلہ'' یہ سب کے سب ایک ہی فکر و نظر رکھتے تھے اور متحد تھے اور خلیفہ وقت کی غلط روش اور اس کے کارندوں پر ہمیشہ تنقید و اعتراض کیا کرتے تھے ان تمام افراد کی زندگی کے حالات اور ان کے علمی ، سیاسی اور معنوی مقامات کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ بحث طولانی ہو جائے گی، لہذا اپنی گفتگو کو مختصر کر رہے ہیں اور دوسرے افراد جو جلاوطن ہوئے ہیں ان کی اہم خصوصیات کو بیان کر رہے ہیں۔

کعب بن عبدہ نے اپنی دستخط کے ساتھ خلیفہ سوم کو خط لکھا اوراس میں کوفہ کے حاکم وقت کے برے کاموں کی شکایت لکھی، اورخط کوابو ربیعہ کے حوالے کیا، جس وقت قاصد نے خط ،عثمان کے سپرد کیا فوراً اسے گرفتار کرلیا گیا۔ عثمان نے کعب کے تمام ہمفکروں کو جنھوںنے (بغیر دستخط کے) اجتماعی طور پر خط لکھا تھا اورابو ربیعہ کودیا تھا اس سے پوچھا لیکن اس نے ان لوگوں کا نام بتانے سے انکار کیا ۔ خلیفہ نے قاصد کو سزا دینے کے لئے کہا: لیکن علی علیہ السلام نے اسے اس کام سے روک دیا ۔ پھر عثمان نے اپنے کوفہ کے حاکم سعد بن العاص کو حکم دیا کہ کعب کو ۲۰ تازیانے مارو جائے اور اسے رے جلاوطن کر کے بھیج دو۔(۳)

عبدالرحمن بن حنبل جمحی، پیغمبر کے صحابی کو مدینہ سے خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا گیا ، ان کا جرم یہ تھا کہ خلیفہ کے عمل پر ، یعنی وہ مال غنیمت جوافریقہ سے آیاتھا اوراسے مروان کو دیدیا، اعتراض کیا تھا اوراس سلسلے میں یہ شعر بھی کہا تھا۔

______________________

(۱) معارف ابن قتیبہ ص ۱۷۶۔

(۲) تاریخ بغداد ج۸ ص ۴۳۹۔

(۳) انساب ج۵ ص ۴۳۔ ۴۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۳۷۳۔ ۳۷۲۔

۳۳۰

و اعطیت مروان خمس الغنیمة

آثرته و حمیت الحمیٰ

مال غنیمت کا ۱۵ حصہ مروان کودیدیا اوراسے دوسروں پر مقدم سمجھا اور اپنے رشتہ داروں کی حمایت کی یہ مرد مجاہد جب تک عثمان زندہ رہا خیبر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۵۰۔

۳۳۱

دوسری فصل

مقدمہ کا واقعہ اورعثمان کا قتل

پانچ عوامل کا عکس العمل

جو پانچ وجہیں ہم نے بیان کیں ان کی وجہ سے تمام اسلامی مملکتوں سے اعتراضات ہونے لگے اور خلیفہ اور اس کے تمام نمائندوں پر الزامات لگنے لگے ان تمام لوگوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ سب کے سب صحیح اسلامی راستے سے منحرف ہوگئے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ صحابیوں اور مسلمانوں نے ہمیشہ خلیفہ سے درخواست کیا کہ اپنی روش کو بدل دیں یا یہ کہ مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔

اس مخالفت و اعتراض کی عظمت اس وقت ظاہر ہوگی جب ہم بعض اعتراض کرنے والوں کے نام اور ان کی گفتگو سے آشنا ہوں ۔

۱۔ امیر المومنین علیہ السلام نے عثمان کے طور طریقہ پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے، چاہے وہ قتل سے پہلے ہو یا قتل کے بعد ۔ انہی میں سے ایک یہ ہے جو امام کا خلیفہ کے کاموں سے متعلق یہ نظریہ ہے جس دن آپ نے مہاجرین کے فرزندوں کو شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دی، تو آپ نے فرمایا:

''یَا أَبْنَاء الْمُهٰاجِرِیْنَ انفروا علی ائمة الکفر و بقیة الاحزاب و اولیاء الشیطان انفروا الی من یقاتل علی دم حمّال الخطایا فو اللّهِ الذی فلق الحبة و برأ النسمة انه لیحمل خطایا هم الی یوم القیامة لاینقص من اوزارهم شیئاً'' (۱)

اے مہاجرین کے بیٹو! کفر کے سرداروں اور شیطان کے باقی بچے ہوئے دوستوں اور گروہوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ جاؤ تاکہ اس کو قتل کرسکو جس کی گردن پر بہت سے گناہ ہیں ( یعنی عثمان کو قتل کیا ہے) اس خدا کی قسم کہ جس نے دانہ کو شگافتہ اورانسان کو پیدا کیا وہقیامت تک دوسروں کے گناہوں کو اپنے ذمہ لیتا رہے گا جب کہ دوسروں کے گناہوں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔

___________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص ۱۹۴، (طبع جدید)

۳۳۲

امام نے اپنی خلافت کے دوسرے دن ایک تقریر کے دوران فرمایا:

''ألا ان کل قطیع أقطعها عثمان و کل مال أعطاه من مال الله فهو مردود فی بیت المال'' (۱)

ہر وہ زمین جسے عثمان نے دوسروں کو دیدیا ہے اورہر وہ مال جو خدا کے مال میں سے ہے اور وہ کسی کو دیا ہے ضروری ہے کہ وہ بیت المال کو واپس کیا جائے۔

امام کا یہ کلام اوردوسرے کلام خلیفہ کے کاموں کو روشن کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ واضح و ہ کلمات ہیں جو آپ نے خطبہ شقشقیہ میں بیان کیا ہے۔

''الی ان قام ثالث القوم نافجاً حضنیه، بین نثیله و معتلفه ،و قام معه بنو أبیه یخضمون مال الله خضم الابل نبتة الربیع'' (۲)

(غرض اس قوم کا تیسرا آدمی پیٹ پھیلائے اپنے گوبر اور چارے کے درمیان کھڑا ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے بھائی بند کھڑے ہوئے جو خدا کا مال اس طرح خوش ہو کرکھارہے تھے جیسے اونٹ موسم بہار کی گھاس خوش ہوہو کر کھاتاہے ، رضوی )

۲۔ پیغمبراسلام کی بیوی ،نے سب سے زیادہ عثمان کے کاموں کو غلط بتاتی تھیں، جب عمار پر عثمان کی طرف سے ظلم و ستم ہوا اور عائشہ کو اس کی خبر ملی تو پیغمبر کے لباس اور نعلین کو باہر لائیں اور کہا کہ ابھی پیغمبر کا لباس اور جوتیاںپرانی نہیں ہوئی ہیں تم نے ان کی سنت کو فراموش کردیاہے۔

ان دنوں جب مصریوں اورکچھ صحابیوںنے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھا اس وقت عائشہ مدینہ چھوڑ کر خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئیں جب کہ مروان بن حکم، زید بن ثابت او رعبد الرحمن بن عتاب نے عائشہ سے درخواست کی تھی کہ اپنا سفر ملتوی کردیں کیونکہ مدینہ میں ان کے رہنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ عثمان کے سر سے یہ بلا ٹل جائے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۱۴۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۳۔

۳۳۳

عائشہ نے نہ صرف ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا، بلکہ کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کاش تمہارے اور تمہارے دوست جن کی تم مدد کر رہے ہو، کے پیر میں پتھر ہوتا تو تم دونوں کو دریا میں ڈال دیتی، یا اسے ایک بوریہ میں رکھ کردریا میں ڈال دیتی۔(۱)

عثمان کے بارے میں عائشہ کی باتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں ہم نے پیش کیا ہے۔بس اتنا کافی ہے کہ جب تک وہ عثمان کے قتل اور علی کی بیعت سے باخبر نہ تھیں مستقل عثمان پر اعتراض و تنقید کر رہی تھیں، لیکن جب حج کے اعمال سے فارغ ہوئیں او رمدینہ کا سفر کیا اوردرمیان راہ ''سرف'' نامی مقام پر عثمان کے قتل او ربیعت علی سے باخبر ہوئیں تو فوراًنظریہ کو بدل دیااور کہا کاش آسمان میرے سر پر گرجاتا، یہ جملہ کہا اور لوگوں سے کہا کہ مجھے مکہ واپس لے چلو کیونکہ خدا کی قسم عثمان مظلوم ماراگیا ہے اور میں اس کا بدلہ لوں گی۔(۲)

۳۔ عبدالرحمن بن عوف بھی عثمان پر اعتراض کرنے والوں میں سے ہیں وہ ایسا شخص ہے کہ چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ میں عثمان کی کامیابی اسی کے مکرو فریب سے ہوئی تھی۔جس وقت عثمان نے اپنے تعہد کو جو سنت پیغمبر اور شیخین کی روش پر چلنے کے لئے کیا تھا اس کو توڑ ڈالا ،تو لوگوں نے عبد الرحمن پر اعتراض کیا اور کہا یہ سب خرابیاں تمہاری وجہ سے ہیں تو اس نے جواب میں کہا مجھے اس بات کی امید نہ تھی کہ نوبت یہاں تک پہونچ جائے گی، اب میں اس سے کبھی گفتگو نہیں کروں گا اور پھر عبد الرحمن نے اس دن سے آخر دم تک عثمان سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ جب عثمان، عبد الرحمن کی حالت بیماری میں عیادت کرنے آئے تو اس وقت عبد الرحمن نے خلیفہ کی طرف سے اپنے چہرے کو موڑ لیا اور ان سے بات نہیں کی ۔(۳)

جی ہاں، وہ افراد جنہوںنے خلیفہ کے خلاف اعتراضات کئے اورا ن کے قتل کے مقدمات فراہم کئے بہتر ہے ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے جن کا ذکر کیا ہے دو اہم چیزوں کا ذکر کرنا مناسب ہے وہ یہ کہ طلحہ و زبیر سب سے زیادہ ان پر اعتراض کرتے تھے ، بہرحال ، لوگوں کا نام اور مخالفین کی گفتگو ؤں اور خلیفہ کو ان کے منصب سے گرانے والے افراد کے نام کے لئے تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کریں، کیونکہ ہمارا مقصد عثمان کی خلافت کی معزولی کو بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھ پر کیسے بیعت کی؟

______________________

(۱)الانساب ج۵ ص ۴۸۔----(۲) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۷۷۔------(۳) انساب الاشراف، ج۵، ص ۴۸۔

۳۳۴

عثمان کے گھر کا محاصرہ

شورش کی پانچوں عوامل نے اپنا کام کر دکھایا او رعثمان کا اپنے نقائص اورخلافت پر اعتراض سے بے توجہی سبب بنی کہ اس وقت کے اسلام کے اہم مراکز، مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر کچھ لوگ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر اور خلیفہ کو کتاب الہی اور سنت پیغمبر و سیرت شیخین کی مخالفت سے روکنے کے لئے مدینہ روانہ ہوں کہ مدینے میں رہنے والے اپنے ہمفکروں کے ساتھ کوئی راہ حل تلاش کریں خلیفہ توبہ کریں اور حقیقی اسلام کی طرف پلٹیں، یا مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔

بلاذری اپنی کتاب ''انساب الاشراف'' میں لکھتے ہیں:

۳۴ ھ میں خلیفہ کی سیاست سے مخالفت کرنے والے تین شہروں کوفہ ، بصرہ اور مصر سے مسجد الحرام میں جمع ہوئے اور عثمان کے کاموں پر گفتگو کرنے لگے۔ اور سب نے ارادہ کیا کہ خلیفہ کے برے کاموں پر گواہ و شاہد بن کر اپنے اپنے شہر واپس جائیں اور جو لوگ اس سلسلے میں ان کے ہم خیال ہیں ان سے گفتگو کریں ، اور آئندہ سال انہی دنوں میں ملاقات کریں اور خلیفہ کے بار ے میں کوئی فیصلہ کریں۔ اگر وہ اپنے غلط کاموں سے باز آجائیں تو اس کے حال پر چھوڑ دیں، لیکن اگر باز نہ آئے تو اسے اس منصب سے الگ کردیں۔

اسی وجہ سے دوسرے سال (۳۵ ھ) میںمالک اشتر کی سرداری میں کوفہ سے ایک ہزار کا لشکر، حُکیم بن جبلَّہ عبدی کی سرداری میں بصرہ سے ڈیڑھ سو آدمیوں کا لشکر ، کنانہ بن بشر سکونی تجیبی اورعمر اور بدیل خزاعی کی سرپرستی میں مصر سے چار سو یا اس سے زیاد ہ افراد کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا۔ اور مہاجر و انصار کے بہت سے افراد جو خلیفہ کے طریقہ کے مخالف تھے وہ بھی ان سے ملحق ہو گئے۔(۱)

______________________

(۱) الغدیر، ج۹، ص ۱۶۸۔

۳۳۵

مسعودی لکھتاہے:

چونکہ عبد اللہ بن مسعود، عمار یاسرا ور محمد بن ابی بکر، خلیفہ کی نظر میں بے توجہی کا شکار تھے، قبیلۂ ''بنی زُھر'' عبد اللہ کی حمایت میں اور ''بنی مخزوم'' عمار کی حمایت میں اور تیم، محمد بن ابی بکر کی وجہ سے اور ان تین گروہوں کے علاوہ دوسرے افراد بھی انقلابیوں کے ساتھ مل گئے اور خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔

مصریوں نے خلیفہ کو جوخط لکھا اس کا مضمون یہ ہے:

اما بعد: خداوند عالم کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ خود اس کو بدل ڈالیں، خدا کے واسطے، خدا کے لئے، پھر خدا کے واسطے آخرت میں اپنے حصہ کو فراموش نہ کرو ، خدا کی قسم، ہم لوگ خدا کے لئے غضبناک ہوتے ہیں اور خدا ہی کے لئے خوشحال ہوتے ہیں، ہم اپنی اپنی تلواروں کواپنے کاندھوں سے اتار کر زمین پر نہیں رکھیں گے جب تک تمہارے سچے توبہ کی خبر ہم تک نہ پہونچ جائے یہی ہمارا پیغام ہے۔(۱)

______________________

(۱) مروج الذہب ج۳ ص ۸۸ طبع بیروت سال ۱۹۷۰۔

۳۳۶

مخالفوں کے سامنے خلیفہ کا تعہد

گھر کا محاصرہ سبب بنا خلیفہ اپنے کاموں پر سنجیدگی سے سوچیںاور محاصرہ ختم کرنے کی سبیل نکالیںلیکن وہ شورش کی تہ سے آگاہ نہیں تھے اور معاشرے کے اچھے لوگوں کو برے لوگوں کے درمیان تشخیص نہیں دے پارہے تھے،انہوں نے گمان کیا کہ شاید مغیرہ بن شعبہ یا عمرو عاص کے وسیلے سے یہ ناگہانی بلا ٹل جائے گی، اس وجہ سے اس نے ان دونوں کو انقلابیوں کی آگ خاموش کرنے کے لئے گھر کے باہر بھیجا، جب انقلابی لوگوں نے ان منحوس چہروں کو دیکھا توان کے خلاف نعرے لگانے لگے ۔ اور مغیرہ سے کہا: اے فاسق و فاجر واپس جا واپس جا ، اور عمرو عاص سے کہا: اے خدا کے دشمن واپس چلا جا کہ تو امین و ایماندار نہیں ہے اس وقت عمر کے بیٹے نے خلیفہ سے حضرت علی کی عظمت کے بار ے میں بتایا اور کہا کہ صرف وہی اس شورش کی آگ کو خاموش کرسکتے ہیںلہٰذا خلیفہ نے حضرت سے درخواست کی کہ اس گروہ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر کی دعوت دیجئے ۔امام نے اس کی درخواست کو اس شرط پر قبول کیا کہ جن چیزوں کی میں ضمانت لوں خلیفہ اس پر عمل کرے، علی علیہ السلام نے ضمانت لی کہ خلیفہ، کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر

عمل کریں انقلابیوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ضمانت قبول کرلیا اور وہ سب آنحضرت کے ساتھ عثمان کے پاس آئے اور ان کی سخت مذمت کی انہوں نے بھی ان لوگوں کی باتوں کو قبول کرلیا اور یہ طے پایا کہ عثمان تحریری طور پر تعہد دیں۔

چنانچہ تعہد نامہ اس طرح سے لکھا گیا:

''یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین عثمان کی طرف سے ان لوگوں کے نام ہے جن لوگوں نے ان پر تنقید کی ہے ، خلیفہ نے یہ عہد کیا ہے کہ خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سنت پر عمل کرے گا، محروموں کی مدد کرے گا ڈرے اور سہمے افراد کو امان دیں گے، جلاوطن کئے ہوئے لوگوں کو ان کے وطن واپس بلائے گا، اسلامی لشکر کو دشمنوں کی سرزمین پر نہیں روکے گا، ...علی علیہ السلام مسلمانوں اور مومنوں کے حامی ہیں اور عثمان پر واجب ہے کہ اس تعہد پر عمل کرے''۔

۳۳۷

زبیر ، طلحہ، سعد وقاص، عبد اللہ بن عمر، زید بن حارث، سہل بن حنیف، ابو ایوب وغیرہ نے گواہ کے طور پر اس تعہد نامہ کے نیچے دستخط کئے یہ خط ذیقعدہ ۳۵ھ میں لکھا گیا اور ہر گروہ کو اسی مضمون کا خط ملا اوروہ اپنے اپنے شہر واپس چلا گیا اس طرح خلیفہ کے گھر کا محاصرہ ختم ہوگیا اور لوگ آزادانہ طور پر آنے جانے لگے۔(۱)

انقلابیوں کے چلے جانے کے بعد، امام نے دوبارہ خلیفہ سے ملاقات کی اوران سے کہا: تم پر ضروری ہے کہ تم لوگوں سے بات کرو تاکہ وہ لوگ تمہاری باتوں کو سنیں اور تمہارے حق میں گواہی دیں، کیونکہ انقلاب کی آواز تمام اسلامی ملکوں تک پہونچ چکی ہے اور بعید نہیں کہ دوسرے شہروں سے پھر کئی گروہ مدینہ پہونچ جائیں اور پھر دوبارہ تم مجھ سے درخواست کرو کہ میں ان سے بات کروں۔ خلیفہ کوحضرت علی کی صداقت پر پورا بھروسہ تھا لہٰذا گھر سے باہر آئے اوراپنے بے جا کاموں کی وجہ سے شرمندگی کا اظہار کیا۔

امام نے اتحاد مسلمین اور مقام خلافت کی عظمت کے لئے بہت بڑی خدمت انجام دی، اگر عثمان اس کے بعد حضرت علی کی ہدایت و رہنمائی پر عمل کرتے تو کوئی بھی واقعہ ان کے ساتھ پیش نہ آتا، لیکن افسوس خلیفہ ارادے کے ضعیف اور بے جا بولنے والے تھے اور ان کو مشورہ دینے والے حقیقت شناس اور سچے نہ

______________________

(۱) الانساب ج۵ ص ۶۲۔

۳۳۸

تھے اور مروان بن حکم جیسے افراد نے ان کی عقل و دور اندیشی کو چھین لیا تھا لہذا مصریوں کے چلے جانے کے بعد خلیفہ نے مروان کے شدید اصرار پر بہت ہی غیر شائستہ فعل انجام دیا، عثمان نے چاہاکہ مصریوں کے ساتھ اپنی ملاقات کودوسرے انداز سے پیش کریں اوراس طرح سے بیان کریںکہ مدینہ سے مصر شکایتیں پہونچی تھیںاور وہ لوگ یہاں تحقیق کرنے کے لئے آئے تھے اور جب ان لوگوں نے دیکھا کہ تمام شکایتیں بے اساس ہیں تو وہ لوگ اپنے وطن واپس چلے گئے۔

جب یہ بات لوگوں نے خلیفہ کی زبان سے سنی تو مخالفین کی طرف سے اعتراض و تنقیدہونے لگی، سب ان سے کہہ رہے تھے کہ خدا سے ڈرو! توبہ کرو! اعتراض اتنا شدید تھا کہ خلیفہ نے دوسری مرتبہ پھر اپنی باتیں واپس لے لیں، اور قبلہ کی طرف دونوں ہاتھ بلند کیا اور کہا:

''پروردگارا! میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیرے پاس واپس آؤں گا''(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۳۸۵، طبع اعلمی بیروت۔

۳۳۹

انقلابیوں کے سرداروں کو قتل کرنے کا حکم دینا

قریب تھا کہ مصریوں کی آفت جائے کیونکہ وہ لوگ مدینے سے مصر کی طرف روانہ ہوچکے تھے لیکن راستے میں ''ایلہ'' نامی مقام پر لوگوں نے عثمان کے غلام کو دیکھا کہ مصر کی طرف جارہا ہے، ان لوگوں کو شک ہوا کہ شاید وہ عثمان کا خط لے کر مصرکے حاکم عبداللہ بن ابی سرح کے پاس جا رہا ہے اسی وجہ سے اس کے سامان کی تلاشی لینے لگے، اس کے پانی کے برتن میں سے رانگے (قلع) کا ایک پائپ نکلا جس کے اندر خط رکھا تھا ،خط میں حاکم مصر کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا جیسے ہی عمر و بن بدیل مصر میں داخل ہو اسے قتل کردینا، اور کنانہ ، عروہ، اور ابی عدیس کے ہاتھوں کو کاٹ دینا اور اسی طرح خون میں تڑپتاہوا چھوڑ دینا اور پھر ان لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دینا۔ خط دیکھنے کے بعد مصری اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے، اور سب کے سب آدھے ہی راستے سے مدینہ واپس آگئے۔ اور علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور انھیں خط دکھایا ۔ علی علیہ السلام خط لے کر عثمان کے گھر آئے اور اسے دکھایا عثمان نے قسم کھا کر کہا کہ یہ تحریر ان کے کاتب کی اور مہر انہی کی ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں، حقیقت میں بات یہی تھی کہ خلیفہ اس خط سے بالکل بے خبر تھے اور ان کے ساتھیوں مثلاً مروان بن حکم کا کام تھا خلیفہ کی مہر حمران بن ابان کے پاس تھی کہ اس کے بصرہ جانے کے بعد مہر مروان کے پا س تھی۔(۱) مصریوں نے خلیفہ کے گھر کا دوبارہ محاصرہ کرلیااور ان سے ملاقات کرنے کو کہا اور جب لوگوں نے عثمان کودیکھا تو اس سے پوچھا: کیا تم نے اس خط کو لکھا ہے؟ عثمان نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے، گروہ کے نمائندہ نے کہا: اگر ایسا خط تمہاری اطلاع کے بغیر لکھا گیا ہے تو تم خلافت اور مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لینے کے لائق نہیں ہو، لہٰذا جتنی جلدی ہو خلافت سے کنارہ کشی اختیار کر لو، خلیفہ نے کہا کہ خدا نے جو لباس میرے بدن پر ڈالا ہے اسے میں ہرگز اتار نہیں سکتا، مصریوں کے انداز گفتگو نے بنی امیہ کو ناراض کردیا ، لیکن بجائے اس کے کہ اصلی علت کو بیان کریں، علی کے علاوہ انھیں کوئی اور نظر نہیں آیا اور مصریوں کی طرف سے مقام خلافت پرہونے والی جسارت کا الزام ان پر لگایا، امام نے ان لوگوں کوتیز ڈانٹا اور کہا کیا تم نہیں جانتے کہ اس وادی میں میرے پاس کوئی اونٹ نہیں ہے یعنی مرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اس وقت کہا:

______________________

(۱) مروج الذہب ج۲ ص ۳۴۴۔

۳۴۰