فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341220
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341220 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

محاصرہ میں خلیفہ کا مختلف لوگوں کو خط بھیجنا

عثمان نے محاصرہ کے ایام میں معاویہ کو خط لکھا کہ مدینے کے لوگ کافر ہوگئے ہیںاور بیعت کو توڑ دیا ہے لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے اچھے جنگ کرنے والوں کو مدینہ روانہ کرو، لیکن معاویہ نے عثمان کے خط کو کوئی اہمیت نہ دی، اور کہا کہ میں پیغمبر کے صحابیوں کی مخالفت نہیں کروں گا۔ خلیفہ نے مختلف خط یزید بن اسد بجلی کو شام اور عبد اللہ بن عامر کو بصرہ بھیجا اوراسی طرح حج کے موسم میں تمام حاجیوں کے نام خط لکھا ،اس سال حاجیوں کے سرپرست ابن عباس تھے، لیکن کوئی بھی مؤثر ثابت نہ ہوا، کچھ لوگ خلیفہ کی مدد کے لئے گئے لیکن مدینہ پہونچنے سے پہلے ہی ان کے قتل سے آگاہ ہوگئے۔

عثمان کے قتل میں جلدی،مروان کی غلط تدبیر کا نتیجہ تھا

محاصرہ کرنے والے خلیفہ کے گھر پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان لوگوں کی صرف یہ کوشش تھی کہ کھانا پانی گھر میں نہ پہونچے تاکہ خلیفہ اور ان کے ساتھی محاصرہ کرنے والوں کی بات مان لیں ، لیکن مروان کی یہ غلط تدبیر کہ انقلابیوں پر حملہ کر کے ایک شخص یعنی عروہ لیثی کو اپنی تلوار سے قتل کر ڈالنا یہی سبب بنا کہ تمام محاصرین خلیفہ کے گھر میں داخل ہوجائیں ۔ اس اجتماعی ہجوم میں خلیفہ کے تین ساتھی عبد اللہ بن وہب، عبد اللہ عوف اور عبد اللہ بن عبدالرحمن مارے گئے۔ ہجوم کرنے والے عمر و بن حزم انصاری کے گھر سے دار الخلافہ پر چڑھے اور خلیفہ کے آنگن میں اتر گئے، گھر کے اندر عثمان کا غلام ناقل، مالک اشتر اور عمر و بن عبید کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ بنی امیہ، جو خلیفہ اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت کرنے والے تھے سب کے سب بھاگ گئے اور رسول کی بیوی ام حبیبہ (ابوسفیان کی بیٹی) نے ان لوگوں کو اپنے گھر میں چھپالیا،اسی لئے تاریخ میں یہ حادثہ ''یوم الدار'' کے نام سے مشہور ہے ،خلیفہ کا قتل محمد بن ابی بکر، کنانہ بن بشر تحبیبی، سودان بن حمر ان مرادی ، عمر و بن حمق اورعمیر بن صابی کے ہاتھوں ہوا۔ خلیفہ کے قتل کے وقت ان کی بیوی نائلہ نے اپنے کو اپنے شوہر کے زخمی نیم جان بدن پر گرادیاجس کی وجہ سے ان کی دو انگلیاں کٹ گئیں لیکن انہوں نے عثمان کا سر جدا ہونے سے بچالیا مگر ہجوم کرنے والوں کی تلواروں نے ان کا کام تمام کردیا۔ اور کچھ لمحوں بعد ان کا بے روح جسم گھر کے گوشے میں گراپڑاتھا۔

۳۴۱

تیسری فصل

قتل عثمان کے بعد لوگوں کا حضرت علی ـ کی بیعت کرنا

خلیفۂ سوم کا پیغمبر کے صحابیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور لوگوں کو بے جا تحفہ و ہدیہ دینا، اور حکومت کے امور کو بنی امیہ کے غیر شائستہ افراد کے ہاتھوں میں دینا وغیرہ یہ سب ان کے قتل کا سبب بنئ۔ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو عثمان مصر اور عراق کے انقلابیوں اور پیغمبر کے صحابیوں کے ہاتھوں خود اپنے ہی گھر میں قتل کیا گیااور اس کے اصلی ساتھی اور محافظ انہیں تنہا چھوڑ کر مکہ فرار ہوگئے۔(۱) خلیفۂ سوم کے قتل کی خبر مدینہ اور اس کے اطراف کے مسلمانوں کے لئے بہت تعجب خیز تھی اور ہر شخص آئندہ کی رہبری کے لئے فکرمند تھا اور صحابہ میں سے کچھ لوگ مثلاً طلحہ و زبیر اور سعد وقاص وغیرہ اپنے آپ کو خلیفہ کے لئے نامزد کئے ہوئے تھے اور دوسروں سے زیادہ اپنے آپ کو خلافت کا مستحق سمجھ رہے تھے۔

انقلابیوں کو معلوم تھا کہ عثمان کے قتل کی وجہ سے اسلامی ملکوں کی حالت درہم برہم ہو جائے گی اسی وجہ سے ان لوگوں نے چاہا کہ جتنی جلدممکن ہواس خلاء کو پورا کردیں اور خلیفہ چننے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے پہلے اپنے وطن واپس نہیں جائیں۔ وہ لوگ ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو ان پچیس سال میں اسلامی تعلیمات اور سنت پیغمبر کا وفادار رہا ہو اور وہ حضرت علی کے علاوہ کوئی اور نہ تھا، کیونکہ دوسرے لوگ کسی نہ کسی طرح سے اپنے کو حُب دنیا سے آلودہ چکے تھے اور کسی نہ کسی جہت سے عثمان کے کمزور پہلوئوںمیں مشترک تھے، طلحہ و زبیر اور ان کی طرح دوسرے افراد نے خلیفہ سوم کے زمانے میں دنیاوی امور تک پہنچے اور مال و دولت جمع کرنے اوراس شہر میں اور اس شہرمیں قصر حاصل کرنے میں مصروف تھیاور پیغمبر کی سنت بلکہ شیخین کی سنت کو بھی نظر انداز کرچکے تھے۔

باوجودیکہ حضرت علی کا نام سب سے زیادہ لوگوں کی زبان پر تھا اور جب خلیفہ کے گھر کو انقلابیوں نے محاصرہ کر رکھا تھا امیر المومنین پیغام پہونچانے کے لئے دونوں گروہوں کے درمیان مورد اعتماد تھے اور

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۵۶ طبع بولاق۔

۳۴۲

سب سے زیادہ کوشش کر رہے تھے کہ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوجائے کہ اور دونوں گروہ راضی ہوں، لیکن جو علت سقیفہ کے ماجرے میں علی کو دور کرنے کی سبب بنی تھی، سب کے سب (غیر از جوانی) اسی حالت پر باقی تھی اور اگر انقلابیوں کا مصمم ارادہ اور لوگوں کا دبائونہ ہوتا تو وہی چیز چوتھی مرتبہ بھی امام کو اس مسئلہ سے جدا کردیتی اور خلافت کسی بزرگ صحابی کو مل جاتی اور معاشرہ کوالہی و حقیقی حکومت سے محروم کر دیتی۔

اگر عثمان کی موت فطری ہوتی اور مدینہ کی فضا اچھی ہوتی تو کبھی بھی بزرگ صحابہ جو عثمان کی خلافت کے زمانے میں بہت زیادہ مال ومقام کے مالک بن گئے تھے ، حکومت علی کی تائید نہیں کرتے اور جو شورٰی بنائی جاتی مل جل کر اس میں رخنہ اندازی کرتے، بلکہ سیاسی کھلاڑی ایسا رول اد کرتے کہ شورٰی بننے کی نوبت نہیں آتی اور خلیفہ وقت کو مجبور کرتے کہ جن کووہ لوگ پسند کرتے ہیں اسے خلیفہ بنائے جس طرح عمرکو ابوبکر نے خلافت کے لئے چنا تھا۔

یہ گروہ جانتا تھا کہ اگر علی علیہ السلام کی حکومت قائم ہوگئی تو ان کے تمام مال کو جمع کرالیں گے اور ان میں سے کسی کو کوئی کام نہیں سونپیں گے، ان لوگوں نے اس حقیقت کو امام کی نورانی پیشانی میں پڑھ لیا تھا اور حضرت کے مزاج سے پوری طرح واقف تھے لہٰذا جب آنحضرت نے طلحہ و زبیر کو کسی کام میں شامل نہیں کیا تو ان دونوں نے فوراً اپنے وعدے کو توڑ دیااور جنگ جمل کا محاذ قائم کردیا

جن وجوہات کی بنا پر امام کوسقیفہ میں حکومت سے دور کیا گیا وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ حضرت علی کے ہاتھوں صحابہ کرام کے رشتہ داروں کا قتل۔

۲۔ بنی ہاشم اوردوسرے قبیلے خصوصاً بنی امیہ کے درمیان پرانی دشمنی۔

۳۔ حضرت علی کا سختی سے حدود الٰہی کاجاری کرنا۔

قتل عثمان کے بعد نہ صرف یہ وجوہات اپنی جگہ پر باقی تھیں بلکہ دوسری وجہیں بھی جو قدرت کے اعتبار سے ان سے کم نہ تھیںوہ بھی شامل ہو گئیں اوراس سے بھی اہم یہ تھا کہ پیغمبر کی بیوی عائشہ نے امام کی مخالفت کی تھی۔ عثمان کی حکومت کے زمانے میں عائشہ ایک اہم سیاسی شخصیت کی مالک تھیں۔

۳۴۳

انھوں نے لوگوں کو کئی مرتبہ عثمان کو قتل کرنے کے لئے کہا تھا اور شاید اسی وجہ سے وہ کبھی پیغمبر کا لباس صحابہ کو دکھاتیں اور کہتیں تھیں کہ ابھی یہ لباس پرانا نہیں ہوا ہے لیکن ان کے دین میں تبدیلیاں ہوگئی ہیں۔(۱)

مسلمانوں کے درمیان جو عائشہ کا ا حترام تھا اور بہت زیادہ حدیثیں جو پیغمبر سے نقل کی تھیں وہ ان کے سیاسی فائدے ہونے کے لئے کافی تھیںاور اس شخص کے لئے زحمت کا باعث تھیں جو ان کی مخالفت کرتا تھا۔

عائشہ کی مخالفت حضرت علی علیہ السلام سے درج ذیل امور کی بنا پر تھی:

۱۔ علی نے داستان ''افک ''میں عائشہ کے طلاق کے بارے میں اپنی رائے دی تھی۔

۲۔ پیغمبر کی بیٹی اورفاطمہ کو حضرت علی سے کئی فرزند ہوئے لیکن پیغمبر کے ذریعے عائشہ کو کوئی اولاد نہ ہوئی۔

۳۔ عائشہ کو معلوم تھا کہ علی ان کے باپ کی خلافت سے راضی نہیں ہیں اور انھیں خلافت و فدک کا غاصب مانتے ہیں۔

ان کے علاوہ قبیلہ تیم سے طلحہ عائشہ کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور زبیر ان کا بہنوئی (اسماء کے شوہر) تھے اور یہ دونوں خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے پوری کوشش کر رہے تھے۔

حضرت علی کی حکومت سے عائشہ کی ناراضگی پر یہ درج ذیل داستان جسے طبری نے نقل کیا ہے بہت واضح و روشن ثبوت ہے۔

جب عثمان کا قتل ہوا توعائشہ مکہ میں تھیں اور اعمال حج انجام دینے کے بعد مدینہ روانہ ہوئیں، آدھے راستہ میں ''سرح'' نامی جگہ پر عثمان کے قتل اور مہاجرین و انصار کا علی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کی انہیں خبر ملی اور یہ خبر سن کر وہ اس قدر ناراض ہوئیں کہ موت کی آرزو کرنے لگیں اورکہا: اے کاش آسمان میرے سر پر گرجاتا، پھر وہیں سے مکہ واپس چلی گئیں اور کہا: عثمان مظلوم قتل ہوا ہے خدا کی قسم میں اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اقدام کروں گی۔

عثمان کے قتل کی خبر دینے والے نے جرأت دکھاتے ہوئے کہا: آپ تو کل تک لوگوں سے کہتی تھیں کہ عثمان کو قتل کردو وہ کافر ہوگیا ہے ،کس طرح آج انہیں مظلوم سمجھ رہی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا:

______________________

(۱) تاریخ ابو الفداء ج۱ ص ۱۷۲۔

۳۴۴

بلوائیوں نے پہلے ان سے توبہ کرائی ہے اور پھر انہیں قتل کیا ہے۔(۱)

انقلابیوں کی حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت

عوامل مذکور کی بنا پر ممین تھا کہ امام کو چوتھی مرتبہ بھی خلافت سے محروم کردیا جائے، انقلابیوں کی قدرت اور لوگوں کے دبائو نے ان منفی عوامل کو بے اثر کردیا اور پیغمبر اسلام کے صحابہ گروہی شکل میں علی کے گھر آئے اور آنحضرت سی کہا کہ خلافت کے لئے آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے۔(۲)

ابو مخنف کتاب ''الجمل'' میں لکھتا ہے:عثمان کے قتل کے بعد مسلمانوں کا ایساعظیم اجتماع مسجد میں ہوا کہ مسجد لوگوں سے بھر گئی ، اس اجتماع کا مقصد خلیفہ کا انتخاب تھا، مہاجرین و انصار کی عظیم شخصیتوں مثلاً عمار یاسر، ابو الھیثم بن یہان، رفاعہ بن رافع، مالک بن عجلان اور ابو ایوب انصاری وغیرہ نے رائے پیش کی کہ علی کے ہاتھوں پر بیعت کی جائے۔ سب سے پہلے عمار نے حضرت علی کے بارے میں جوگفتگو کی وہ یہ تھی ''تم لوگوں نے پچھلے خلیفہ کا حال دیکھ لیا ہے اگر تم نے جلدی نہیں کیا تو ممکن ہے پھر ایسی ہی مشکل میں گرفتار ہو جاؤ اس منصب کے لئے علی سب سے زیادہ شائستہ ہیں۔ اورتم سب ان کے فضائل اور سوابق سے آگاہ ہو، اس وقت پورے مجمع نے ایک آواز ہو کر کہا ہم ان کی ولایت و خلافت پر راضی ہیں اس وقت سب وہاں سے اٹھے اور حضرت علی کے گھر گئے۔(۳)

تمام افراد امام کے گھر جس انداز سے آئے تھے اس کی توصیف امام یوں بیان کرتے ہیں :''فتداکوا علیَّ تداک الابل الهیم یوم وردها و قدارسلها راعیها و خلعت مثانیها حتی ظننت انهم قاتلیَّ او بعضهم قاتل بعض ولد''

ان لوگوں کا اژدحام پیاسے اونٹ کی طرح تھا جسے شتر بان نے رسی کھول کر آزاد کر دیا ہو اسی طرح ہم پر ہجوم لائے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید مجھے قتل کردیں یا ان میں سے بعض لوگ میرے سامنے بعض لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔(۴)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۵ ص ۷۳، طبع بولاق۔----(۲) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۵۲طبع بولاق۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۸۔-----(۴) نہج البلاغہ خطبہ۵۳۔

۳۴۵

آنحضرت خطبہ شقشقیہ میں گھر میں داخل ہوتے وقت مہاجرین وانصار کے اژدحام کی اس طرح وضاحت کی ہے۔

''لوگ بجُّو (ایک درندہ جانور ہے) کی گردن کے بال کی طرح میرے اطراف جمع تھے اور ہر طرف سے مجھ پر ہجوم کئے ہوئے تھے ، یہاں تک کہ حسن و حسین بھیڑ میں دب گئے اور میرا لباس اورردا پھٹ گئی اورچاروں طرف سے بکریوں کے گلہ کی طرح مجھے گھیر لیا ، تاکہ میں ان کی بیعت کو قبول کروں۔(۱)

جی ہاں، امام نے ان کی درخواست کا جوا ب دیتے ہوئے فرمایا: تمہارا حاکم بننے سے بہتر یہ ہے کہ تمہارا مشاور بنوں ، ان لوگوں نے قبول نہیں کیا اورکہا، جب تک آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کرلیں گے آپ کو جانے نہیں دیں گے، امام نے کہا: جب تم لوگ اتنا اصرار کر رہے ہو تو ضروری ہے کہ بیعت مسجد میں انجام دی جائے، کیونکہ میری بیعت مخفیانہ اور بغیر تمام مسلمانوں کی مرضی کے نہیں ہونی چائیے ۔

مجمع کے آگے آگے چلتے ہوئے امام علی مسجد پہونچے مہاجرین وانصار نے ان کی بیعت کی، پھر دوسرے گروہ بھی مسجد میں پہونچے اور بیعت کی سب سے پہلے جن لوگوں نے امام کی بیعت کی وہ طلحہ و زبیر تھے پھر ان کے بعد ہر ایک نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ، صرف چند لوگوں نے بیعت نہیں کیا۔(۲)

سب کے سب آپ کی خلافت و رہبری پر راضی تھے لوگوں نے ۲۵ ذی الحجہ کو امام کے ہاتھوں پر بیعت کی۔(۳)

______________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۳۔

(۲)وہ لوگ یہ ہیں محمد بن مسلمہ، عبداللہ بن عمر، اسامہ بن زید، سعد وقاص، کعب بن مالک، عبد اللہ بن سلام، طبری کے مطابق یہ سب کے سب عثمانی اور ان کے چاہنے والے تھے (تاریخ طبری، ج۵، ص ۱۵۳؛ اور بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان لوگوں نے بیعت کیا تھا لیکن جنگ جمل میں شرکت نہیں کیا)

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۴، ص ۸۹۔

۳۴۶

حقیقی بیعت

اسلامی خلافت کی تاریخ میں کوئی بھی خلیفہ حضرت علی کی طرح تمام لوگوں کی رائے سے منتخب نہیں ہوا، ان کا انتخاب مہاجرین و انصار میں سے صحابہ ، قرّائ، صلحائ، فقہا و غیرہ کے ذریعے نہیں ہوا تھا، یہ صرف امام کی واحد شخصیت ہے جو سب کی مرضی سے منتخب ہوئے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خلافت و رہبری اس طرح سے حضرت علی تک پہنچی۔

امام اپنے ایک کلام میں بیعت کرنے والوں کے اژدحام اور لوگوں کی طرف سے بہترین استقبال او ربیعت کے متعلق فرماتے ہیں:

''حتی انقطعت النعل و سقط الرّداء ووُطیء الضعیف و بلغ من سرور الناس ببیعتهم ایای ان ابتهج بها الصغیر و هدج الیها الکبیر و تحامل نحوها العلیل و حسرت الیها الکعاب'' (۱)

جوتے کا بند (فیتا) ٹوٹ گیا ، عبا کاندھوں سے گرگئی، او رکمزور لوگ بھیڑ میں دب گئے اور میرے ہاتھوں پر بیعت کرنے کے بعد لوگوں کی خوشی کا عالم یہ تھا کہ بچے خوش ہوئے اور بوڑھے ا ور ناتواں میری بیعت کے لئے آئے اور لڑکیوںنے اس بیعت کا منظر دیکھنے کے لئے اپنے چہروں سے نقابیں پلٹ دیں۔عبد اللہ بن عمر نے امام کی بیعت نہیں کی، اسے کیا معلوم کہ خلافت لینا امام کا ہدف و مقصد نہیں ہے اور کبھی بھی اس کے لئے جنگ و جدال نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف حق کے قیام اور عدالت کو جاری کرنے اور مجبوروں اور لاچاروںکے حقوق کی ادئیگی کے لئے منصب خلافت کو قبول کیاہے۔

بیعت کے دوسرے دن یعنی ۲۶ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو عبد اللہ امام کے پاس اس ارادے سے آیا کہ شک و وسوسہ کے ذریعہ امام کو خلافت سے دور کردے۔ اس نے کہا: بہتر ہے کہ آپ خلافت چھوڑ دیں اور شوریٰ کے حوالے کردیں کیونکہ تمام لوگ آپ کی خلافت پرراضی نہیں ہیں۔

امام نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: تجھ پر افسوس، میں نے ان لوگوں سے نہیں کہا تھا کہ میری بیعت کریں ۔ کیا تم نے ان لوگوں کا اژدحام نہیں دیکھا؟ اے نادان اٹھ اور دور ہوجا۔ عمر کے بیٹے نے جب مدینہ کے حالات کو اپنے لئے بہتر نہ پایا تو مکہ چلا گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مکہ خدا کا حرم اور جائے امن ہے اور امام وہاں کا ہمیشہ احترام کریں گے۔(۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ، عبدہ خطبہ، ۲۲۴۔----(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۱۰۔

۳۴۷

صحیح تاریخ اور امام کے اقوال اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ امام ـ کی بیعت کرنے میں لوگوں پر کوئی جبر و زبردستی نہیں تھی اور بیعت کرنے والوں نے اپنی پوری رضایت سے، اگرچہ مختلف اہداف کے تحت، علی کے ہاتھوں پر بعنوان رہبر بیعت کی، خود طلحہ و زبیر، جو اپنے کو حضرت کا مثل سمجھتے تھے، بیعت سے استفادہ کرنے یا لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے مہاجر و انصار کے ساتھ امام ـ کے ہاتھوں پر بیعت کی، طبری نے ان دونوں کی بیعت کے سلسلے میں دو طرح کی روایت نقل کی ہے ،لیکن وہ روایتیں کو جو اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے امام کے ہاتھوں پر بیعت اپنی رضایت سے کیا تھا دوسری طرح کی روایت سے زیادہ اور شاید یہی وجہ ہوئی کہ اس عظیم مورخ نے دوسری روایت سے زیادہ پہلی روایت پر اعتماد کیا ہے۔(۱)

امام کا کلام پہلی روایت کو ثابت کرتا ہے جس وقت ان دو آدمیوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑا اور سنگین جرم کے مرتکب ہوئے تو ان دونوں نے لوگوں کے درمیان مشہور کردیا کہ ہم لوگوں نے شوق و رغبت سے بیعت نہیں کی تھی۔ امام نے دونوں کا جواب دیا:''زبیر کی فکر یہ ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے بیعت کی ہے نہ کہ اپنے دل سے، ہرگز ایسا نہیں تھا بلکہ اس نے بیعت کا اعتراف کیا اور اپنی رشتہ داری کا دعوی کیا۔ اسے چاہئے کہ جو کچھ اس نے کہا ہے اس پر دلیل پیش کرے، یا یہ کہ جس بیعت کو اس نے توڑ دیا ہے دوبارہ اس بیعت کو انجام دے۔(۲)

امام نے طلحہ و زبیر کے ساتھ گفتگو کر کے اس مسئلہ کو اور بھی واضح کردیا ہے اور لوگوں نے جو بیعت کے لئے اصرار کیا ہے اس کے بارے میں فرمایا :

''واللّه ما کانت لی فی الخلافة رغبة و لا فی الولایة اربة و لکنکم دعوتمونی الیها و حمَّلتمونی علیها'' (۳)

خدا کی قسم مجھے خلافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اس میں میرا کوئی مقصد نہ تھا تم لوگوںنے اس کے لئے دعوت دی۔ اور خلافت لینے کے لئے بہت اصرار کیا۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۵۳۔ ۱۵۲، طبع بولاق، اس مطلب کو تین طریقے سے نقل کیا ہے۔

(۲) شرح نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ، ۷۔------(۳) شرح نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۲۰۰۔

۳۴۸

جھوٹی تاریخ

سیف بن عمر ان جھوٹے مئورخوںمیں سے ہے جس نے اپنی روایتوں میں تاریخی چیزوں کو جعلی اور بے اساس مطالب سے بدلنے کی کوشش کی ہے وہ اس سلسلے میں کہتا ہے کہ طلحہ و زبیر نے مالک اشتر کی تلوار سے ڈر کر بیعت کی تھی۔(۱)

یہ مطلب ، طبری کے اس مطلب سے بالکل برعکس ہے جسے اس نے پہلے نقل کیا ہے اور خود امام کے کلام سے مطابقت نہیں رکھتا ،آزادی اور امام علیہ السلام کی حکومت کے بالکل خلاف ہے جن چند لوگوں نے امام کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی امام نے انھیںان کے حال پر چھوڑ دیا، اور ان سے کوئی واسطہ نہ رکھا، یہاں تک کہ جب امام ـ سے کہا گیا کہ کسی کو ان کے پاس بھیجیں تو امام نے جواب دیا۔ مجھے ان کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

تاریخ طبری ''مستند'' ہے اور ان روایتوں کی سندیں مشخص ہیں لہذا جھوٹی اور بے اساس روایت کی شناخت ممکن ہے، اس طرح کی روایتوں کاہیرو سیف بن عمر ہے جس کا مقصد خلفاء ثلاثہ کے لئے فائدہ پہنچانا اور خاندان رسالت کو نقصان پہنچانا ہے ۔

ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ''تہذیب التہذیب'' میں سیف ابن عمر کے بارے میں لکھا ہے :

''وہ جعلی اور جھوٹی خبریں گڑھنے والا آدمی ہے، دانشمندوں کی نظر میں اس کی بیان کردہ تمام باتیں غیر معتبر اور تمام حدیثیں بے کار ہیں اوراس پر زندیق ہونے کا الزام بھی ہے۔(۱)

لیکن افسوس کہ اس کی جعلی روایتیں تاریخ طبری کے علاوہ تمام تاریخی کتابوں مثلاً تاریخ ابن عساکر، کامل ابن اثیر، البدایہ و النہایہ اورتاریخ ابن خلدون وغیرہ میں موجود ہیںسب نے بغیر تحقیق کے طبری کی پیروی کی ہے ان لوگوںنے خیال کیا ہے کہ جو کچھ طبری نے نقل کیا ہے وہ عین حقیقت ہے۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۵، ص ۱۵۷۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۴، ص ۹ ۔

(۳) تہذیب التہذیب ج۴ ص ۲۹۶۔

۳۴۹

اختلافات کی جڑ

امام کوعثمان کی تیرہ سالہ حکومت سے جو چیز ملی وہ بہت زیادہ نعمتیں اور مال غنیمت تھے جو مسلمانوںکو مختلف ملکوں سے حاصل ہوتے تھے، علی علیہ السلام کے لئے مال غنیمت اور زیادہ نعمتیں ایسی مشکل نہ تھی کہ امام اسے حل نہیں کر سکتے تھے مبلکہ مشکل یہ تھی کہ انہیں کیسے تقسیم کیا جائے ، کیونکہ خلیفۂ دوم کی حکومت کے آخری زمانے اور عثمان کے دور حکومت میں پیغمبر کی سنت اور خلیفہ اول کے طور و طریقے میں تبدیلی آگئی تھی۔ اور ایک گروہ نے زور زبردستی یا خاندان خلافت سے وابستگی کی بناء پر مال غنیمت کو اپنا مال سمجھ رکھا تھا جس کی وجہ سے شدید طبقاتی اختلاف اور عجیب وناراضگی رونما ہوگئی تھی۔

پیغمبر اسلام کے زمانے اور خلیفہ اول کے زمانے میں ۱۵ھ(۱) یا ۲۰ھ(۲) تک مال غنیمت جمع نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ فوراً ہی اسے مسلمانوں کے درمیان مساوی تقسیم کردیا جاتاتھا، لیکن خلیفۂ دوم نے بیت المال تاسیس کیا، اور لوگوں کا حسب مراتب وظیفہ معین کیا اور اس کام کے لئے ایک خاص رجسٹر بنایا گیا ابن ابی الحدید نے مسلمانوں کے حقوق کی مقدار کواس طرح بیان کیا ہے۔

پیغمبر کے چچا حضرت عباس کے لئے ہر سال ۱۲ ہزار ، پیغمبر کی ہر بیوی کے لئے۱۰ہزار اور عائشہ کے لئے ۲ ہزار اضافی، مہاجرین میں سے اصحاب بدر کے لئے ۵ ہزار ، اور انصار کو ۴ہزار اصحاب احد اور حدیبیہ کے لئے ۴ہزار اور حدیبیہ کے بعد کے اصحاب کے لئے ۳ہزار ، اور جن لوگوں نے پیغمبر کے انتقال کے بعد جنگوںمیں شرکت کی تھی رتبے کے اعتبار سے ۲۵۰۰ ۲۰۰۰ ۲۰۰۱۵۰۰ وظیفے معین ہوئے۔(۱)

عمر کا یہ دعویٰ تھا کہ اس طرح سے ہم اشراف کو اسلام کی طرف جذب کریں گے ، لیکن اپنی عمر کے آخری سال میں کہا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو جس طرح سے پیغمبر مال و دولت کو برابر برابر تقسیم کرتے تھے میں بھی اسی طرح مساوی تقسیم کروں گا۔(۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن الحدید طبع مصر ج۳ ص ۱۵۴۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۱۴۳۔

۳۵۰

عمر کے اس کام سے اسلام میں طبقاتی نظام پیدا ہوگیا اور عثمان کے دور میں یہی نظام بہت زیادہ اوراختلاف بہت عمومی ہوگیا۔

علی علیہ السلام جو ایسے ماحول میں خلیفہ منتخب ہوئے تھے چاہتے تھے کہ لوگوں کو پیغمبر کی روش کی طرف دوبارہ واپس پلٹا دیں اور طبقاتی نظام کو لوگوں کے درمیان سے ختم کردیں اور مال غنیمت کو برابر برابر تقسیم کریں ۔ یقینا آپ کو اس سلسلے میں بہت زیادہ مشکلیںپیش آئیں ، کیونکہ مال غنیمت کو لوگوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنے سے کچھ لوگوں کے منافع خطرے میں پڑ جاتے۔

۳۵۱

چوتھی فصل

حضرت علی علیہ السلام سے مخالفت کے اسباب

امام علی کے انتخاب کے بعد مسلمانوں کے درمیان جو اختلاف و جدائی پیدا ہوئی وہ بالکل الگ تھی اور خلفاء ثلاثہ کے دور اقتدار میں کبھی بھی ایسا اختلاف نہیں تھا، یہ بات حقیقت ہے کہ خلیفۂ اول اختلاف اور جھگڑے کے ذریعے منتخب ہوئے اور انہیں ان لوگوںکے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑاجو خلافت کو خدا کی جانب سے انتصابی مقام جانتے تھے لیکن زیادہ دنوں تک یہ سلسلہ باقی نہ رہا اورحالات ٹھیک ہوگئے اور مخالف گروہوں نے اسلام کی عالیترین مصلحتوں کے مد نظر اپنی زبانوں کو بند کر رکھا اور اپنے حقوق کو نظر انداز کردیا۔

خلیفہ اول و دوم کا انتخاب اگرچہ بغیر اختلاف کے نہ تھا مگر کچھ ہی دنوں میں شور و غل ختم ہوگیا اور دونوں خلیفہ نے حالا ت پر قابو پالیا، لیکن حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ بننے کے بعد ایک گروہ کھلم کھلا مخالفت کرنے لگا اور امت کے درمیان سخت ترین شگاف پیدا کردیا۔حضرت علی علیہ السلا م کی حکومت سے مخالفت کی وجہ بہت قدیمی تھی مخالفوں کے رشتہ دار حضرت علی کے ہاتھوں جنگوں میں مارے جاچکے تھے۔ بیعت کے دن ولید بن عتبہ نے علی علیہ السلام سے کہا ، میرے باپ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں سے قتل ہوئے تھے اور کل تم نے میرے بھائی عثمان کی حمایت نہیں کی اور اسی طرح سعید بن العاص کا باپ بھی جنگ بدر کے دن تمہارے ہاتھوں قتل ہوا ہے اور تم نے مروان کو عثمان کے سامنے بیوقوف اور کم عقل بتایاہے۔لیکن اصل میں جن چیزوں کو مخالفین نے بہانہ بنایا وہ دو مسئلے تھے:

۱۔ بیت المال کے تقسیم کرنے میں تبعیض اورفرق کو ختم کرنا۔

۲۔ خلیفہ سوم کے غیر شائستہ نمائندوں کو معزول کرنا۔

یہی دو موضوع سبب بنے کہ دنیا پرست اور جاہ و مقام پرست گروہ امام ـ کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوا تاکہ اپنے مال و دولت کو جو ناحق طریقے سے جمع کیا تھا علی کی جمع آوری سے محفوظ کرلیں۔

امام ـ چاہتے تھے کہ اپنے زمانۂ حکومت کو رسول اسلام کے دور حکومت کی طرف پلٹا دیں، اور آپ کی سیرت و رہبری کو مکمل طور پر زندہ کریں۔ لیکن افسوس رسول خدا کے زمانے کا تقویٰ اور پرہیزگاری لوگوں کے درمیان سے ختم ہوچکا تھا ۔ اخلاق عمومی بدل چکا تھا اور لوگ پیغمبر کے طور طریقے کو بھول گئے تھے معاشرے اور لوگوں کے درمیان غیر مناسب تبعیض رسوخ کرچکی تھی اور حکومت کی باگ ڈور ناشائستہ اور غیر صالح افراد کے ہاتھوں میں تھی۔

۳۵۲

عمر کی معین کردہ شوریٰ میں قریش کے سرمایہ دار عبد الرحمن بن عوف نے علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ اگر خدا کی کتاب او رسنت پیغمبر اور شیخین کی سیرت پر عمل کریں تو میں آپ کی بیعت کروں گا۔ لیکن حضرت علی نے اس شرط کو قبول نہیں کیا اور اس سے کہا: خدا کی کتاب اور سنت پیغمبر اور اپنی تشخیص پر عمل کروںگا نہ کہ سابق کے دونوں خلیفہ کی سیرت پر۔ امام کا عبدالرحمن بن عوف کی پیشنہاد کو نہ ماننا سبب بناکہ حضرت بارہ سال تک حکومت سے محروم رہیں اورعثمان حکومت کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لیں۔اب جب کہ حکومت امام ـ کے ہاتھوں میں تھی ، وقت آگیا تھا کہ بیت المال کی تقسیم میں پیغمبر اسلام کی سنت کو زندہ کیا جائے، بیت المال کے سلسلے میں پیغمبر کاطریقہ کار یہ تھاکہ کبھی بھی مال کو ذخیرہ نہیں کرتے تھے بلکہ تمام مال کو برابر مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا کرتے تھے اورعجم ، عرب، کالے، گورے میںکوئی فرق نہیں رکھتے تھے۔

بیت المال تقسیم کرنے سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کا خطبہ:

حضرت علی علیہ السلام نے بیت المال کو تقسیم کرنے کا حکم دینے سے پہلے خطبہ ارشاد فرمایا :

''اے لوگو! کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے غلام اور کنیز پیدا نہیں ہوا بلکہ سب کے سب آزادپیدا ہوئے ہیں خداوند عالم نے تم میں سے بعض کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور جو مشکلوں میں گرفتار ہے اسے چاہئے کہ صبر و تحمل سے کام لے اور صبر و تحمل کے ذریعہ خدا پر احسان نہ کرے، اس وقت بیت المال ہمارے سامنے حاضر ہے اور اسے کالے، گورے، دونوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کروں گا''۔(۱)

جب امام ـ کا بیان یہاں تک پہونچا تو مروان نے طلحہ و زبیر سے کہا: علی کے اس کلام سے مراد تم لوگ ہو او رتمہارے اوردوسروں میں کوئی فرق نہ ہوگا۔

______________________

(۱) اصول کافی، ج۸، ص ۶۸۔

۳۵۳

اسکافی نے اپنی کتاب ''نقض عثمانیہ'' جو کتاب عثمانیہ (تالیف جاحظ) پر نقد ہے میں امام ـ کے کلام کو مکمل وضاحت کے ساتھ نقل کیا ہے، وہ لکھتا ہے:

علی بیعت کے دوسرے دن یعنی ۱۹ ذی الحجہ ۳۵ ھ بروز شنبہ منبر پر گئے اور ایک مفصل تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

''اے لوگو! میں تمہیں پیغمبر کے بہترین راستے پر گامزن کروں گا اور معاشرے میں اپنے قانون کو نافذ کروں گا۔ جو کچھ میں حکم دوں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کروں اسے انجام نہ دو (پھر منبر ہی پر سے آپ نے داہنے اور بائیں طرف نگاہ کی اور فرمایا)

اے لوگو! جب بھی میں اس گروہ کو جو دنیا کی محبت میں غرق ہے اور بہت زیادہ مال و دولت، پانی و سواری اور غلاموں اور خوبصورت کنیزوں کا مالک ہے اگر اسے دنیاوی محبت سے نکال کر شرعی حقوق سے آشنا کروں تو وہ لوگ مجھ پر اعتراض نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ ابوطالب کے بیٹے نے ہم لوگوں کو اپنے حقوق سے محروم کردیا ہے جو لوگ یہ فکر کرتے ہیں کہ پیغمبر کی ہمنشینی کی وجہ سے دوسروں پر فضیلت رکھتے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیئے کہ ملاک فضیلت کوئی اور چیز ہے صاحب فضیلت وہ شخص ہے جو خدا اور پیغمبر کی آواز پر لبیک کہے اور قوانین اسلام کو قبول کرے ایسی صورت میں تمام لوگ حقوق کے اعتبار سے دوسروں کے برابر ہو جائیں گے تم لوگ خدا کے بندے ہو اور مال، خدا کا مال ہے اور تم لوگوں کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا ۔ اور کوئی بھی کسی دوسرے پر فضیلت نہیں رکھتا، کل تم لوگوں کے درمیان بیت المال تقسیم ہوگا اس میں عرب و عجم دونوں برابر ہوں گے۔(۱)

بیت المال تقسیم کرنے کا طریقہ

امام ـ نے اپنے کاتب عبید اللہ بن ابی رافع(۲) کو حکم دیا کہ مہاجرین و انصار میں سے ہر ایک کو تین تین دینار دیدو۔

_____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۷، ص ۳۷۔

(۲) ابو رافع کا گھر اصل شیعہ اور بزرگ خاندان میں سے ہے جو ابتدا سے خاندان رسالت سے محبت کرتا ہے اور ابورافع خود پیغمبر کے صحابیوں میں سے ہے اور علی کا چاہنے والا ہے۔

۳۵۴

اس وقت سہل بن حنیف انصاری نے اعتراض کیااور کہا: کیایہ بات مناسب ہے کہ ہم اس کالے آدمی کے برابر و مساوی ہوںجو کل تک ہمارا غلام تھا؟امام ـ نے اس کے جواب میں کہا کہ قرآن کریم میں اسماعیل (عرب) کے فرندوں اور اسحاق کے فرزندوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

گذشتہ حکمرانوں کی معزولی

امام ـ کا اہم ترین سیاسی فیصلہ یہ تھا کہ پچھلے خلیفہ کے معین کردہ حاکموں کو جن میںسر فہرست معاویہ تھا کو معزول کردیں۔ جب سے حضرت علی علیہ السلام نے خلافت کو قبول کیا اسی دن سے سوچ لیا تھا کہ عثمان کے زمانے کے جتنے بھی حکمرانوںنے بیت المال اور دوسری چیزوں کواپنے خاص سیاسی مقصد اور غرض کے لئے استعمال کیا یا اسے اپنے یا اپنے بیٹوں سے مخصوص کردیا تھااور قیصر و کسریٰ کی طرح حکومت قائم کرلی تھی ان سب کو معزول کردیں گے ۔ امام ـ کا عثمان پر یہ اعتراض تھا کہ اس نے معاویہ کو حکومت شام کے لئے باقی رکھا تھا اور لوگوں نے کئی مرتبہ اس اعتراض کو امام ـ سے سنا تھا، امام ـ ۳۶ ھ کے اوائل ہی میں صالح اور متدین افراد کو اسلام کے بزرگ شہروں کے لئے معین کردیا تھا۔ عثمان بن حنیف کوبصرہ ، عمار بن شہاب کو کوفہ ، عبیداللہ بن عباس کو یمن ، قیس بن سعد کو مصراورسہل بن حنیف کو شام کے لئے معین کیا اور سہل بن حنیف جو آدھے راستے سے واپس آگیا اس کے علاوہ سبھی اپنے اپنے علاقوں میں پہنچے اور حکومت کی ذمہ داریوں کو سنبھالا ۔(۱)

گذشتہ حکمرانوں خصوصاً معاویہ کی معزولی کا چرچا اسی زمانے میں اور بعد میںبھی تھا،ناآگاہ افراد اس معزولی کو امام ـ کی سیاسی غلطی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیںکہ چونکہ علی سیاسی مکرو فریب سے دور تھے اور جھوٹ او رظاہر سازی کو خداوند عالم کی مرضی کے خلاف سمجھتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے معاویہ اوراس جیسوں کو حکومت سے معزول کردیا ، جس کے نتیجے میں تلخ حوادث سے دوچار ہوئے لیکن اگر آپ پچھلے حکمرانوں کو معزول نہ کرتے اور ان کو ایک زمانے تک باقی رکھتے اور پھر انھیں معزول کرتے تو کبھی بھی جمل، صفین نہروان کی جنگ سے سامنا نہیں کرتے، اور اپنی حکومت میں کامیاب ہوتے۔ یہ کوئی نئی بات

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۵، ص ۱۶۱۔

۳۵۵

نہیں ہے بلکہ امام ـ کی حکومت کے اوائل ہی میں بعض لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے یہ درخواست کی تھی لیکن آپ نے ان کی باتوں کو نہیں مانا تھا۔

مغیرہ بن شعبہ جو عرب کے چارسیاسی لوگوں میں سے ایک تھا جب امام ـ کے ارادے سے باخبر ہوا تو امام ـ کے گھر آیا اور آپ سے چپکے سے کہا: مصلحت یہی ہے کہ عثمان کے حکمرانوں کو ایک سال تک ان کے منصب پر باقی رہنے دیں ۔ اور جس وقت لوگوں سے آپ بیعت لیں او رآپ کی حکومت، خاور سے باختر'' تک قائم ہو جائے، اور مکمل طریقے سے حکومت کے حالات پر مسلط ہو جائیں اس وقت جس کو چاہے معزول کردیں اور جس کو چاہیں اس کے مقام پر باقی رکھیں۔

امام ـ نے اس کے جواب میں کہا:''واللّه لا أداهن فی دینی و لا أعطی الدنی فی أمری'' یعنی خدا کی قسم میں دین میں سستی نہیں کروں گا اور حکومت کے امور کو پست افراد کے ہاتھوں نہیں دوں گا۔

مغیرہ نے کہا: اگر آپ اس وقت میری بات عثمان کے تمام حکمرانوں کے متعلق قبول نہیں کرتے تو کم از کم معاویہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیجئے تاکہ وہ شام کے افراد سے آپ کی بیعت لے، اور پھر اپنے اطمینان و سکون کی خاطر معاویہ کو اس کے منصب سے معزول کردیجیئے گا امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم، دودن کے لئے بھی اجازت نہیں دوں گا کہ معاویہ لوگوں کی جان و مال پر مسلط ہو۔

۳۵۶

مغیرہ علی کا جواب سن کر مایوس ہوگیا اور آپ کے گھر سے چلا گیا دوسرے دن پھر امام ـ کے گھر آیا اور معاویہ کو معزول کرنے پر آپ کے نظریہ کی تائید کی اور کہا: آپ کے شایان شان یہ نہیں ہے کہ زندگی میں مکرو فریب سے داخل ہوں۔ جتنی جلدی ہو معاویہ کو بھی اس کے منصب سے معزول کردیں۔

ابن عباس کہتے ہیں: میں نے علی علیہ السلام سے کہا کہ اگر مغیرہ نے معاویہ کواس کے منصب پر باقی رہنے کی درخواست کی ہے تو اس کا مقصد صرف اچھائی اور بہترین مصلحت کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن اپنی دوسری درخواست میں اس کے برخلاف ہدف رکھتا ہے لیکن میری نظر میں مصلحت یہی ہے کہ معاویہ کو اس کے منصب سے دور نہ کریں۔ اورجب تمہاری بیعت کرلے اور شام کے لوگوں سے تمہارے لئے بیعت لے تو میں خود اسے شام سے باہر کردوں گا، لیکن امام ـ نے ان کی درخواست کو بھی قبول نہیں کیا۔(۱)

اب وقت آگیا ہے کہ خلیفہ سابق کے حکمرانوں کی معزولی، خصوصاً معاویہ کی معزولی کو سیاسی،سماجی اسلامی معاشرے کی مصلحت، اسی طرح خود امام ـ کی مصلحتوں کا جائزہ لیں۔

اس سے ہٹ کر کہ غیر صالح سابقہ حکمرانوں کو باقی رکھنااسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف تھا کیا سیاسی اصول اور مملکتی امور کی تدبیر حکمرانوں کے باقی رکھنے میں تھی یا یہ کہ یہاں تقویٰ اور سیاست ایک تھی۔ اور اگر امام ـ کے علاوہ کوئی اورمسند خلافت پر بیٹھتا جب بھی سابق حکمرانوں کی معزولی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا؟ اگر عثمان کے بعد معاویہ خلافت کے لئے منتخب ہوتا، تب بھی سابق حکمرانوں کی معزولی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا؟

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۵، ص ۱۶۰۔

۳۵۷

معاویہ کی معزولی میں امام ـ کی عجلت کی وجہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض لوگ مثلاً معاویہ جیسے افراد کو منصب پر باقی رکھنا تقویٰ اور طہارت و پاکیزگی کے برخلاف تھا اور امام ـ تمام چیزوں سے باخبر تھے لیکن اصل بحث یہ ہے کہ ایسے افراد کا باقی رکھنا سیاست و تدبیر اور دور اندیشی کے مطابق تھا؟ اگر فرد غیر متقی ،امام ـ کی جگہ ہوتا اور اسی گروہ کے ذریعہ منتخب ہوتا جس کے ذریعے امام منتخب ہوئے تو کیاایسے افراد کو اس کے مقام و منصب پر باقی رکھتا؟ یایہ کہ امام ـ کی دور اندیشی اور شخصی مصلحت (تقوی اور اسلام کے عالی مصلحت کے علاوہ) کابھی تقاضا تھا کہ ایسے افراد کو ان کے منصب و مقام سے دور کردیاجائے اور اسلام کے حساس شعبوں کو ایسے افراد کے سپرد کیا جائے جو مسلمانوں اورانقلابیوں کی مرضی کے مطابق ہو؟بعض لوگ پہلے نظریہ کے موافق ہیںان کا کہنا ہے کہ امام ـ کے تقوے کی وجہ سے لوگ اسلامی منصب سے دور ہوئے، ورنہ امام ـ کی شخصی مصلحت کا تقاضا تھا کہ معاویہ کو نہ چھیڑیں اور مدتوں اس کے ساتھ نرم برتاؤ کرتے رہیں تاکہ جنگ صفین و نہروان جیسے حادثوں سے روبرو نہ ہوں۔لیکن دوسرے محققین مثلاً مصر کے عظیم دانشورعباس محمود عقادامؤلف ''کتاب عبقریة الامام علی'' اسی طرح اس دور کے اہل قلم حسن صدر دوسرے نظریہ کی تائید کرتے ہیں اوردلیلوں کے ذریعے ثابت کرتے ہیں کہ اگر امام ـ اس کے علاوہ کوئی صورت اپناتے تو بہت زیادہ مشکلات سے دو چار ہوتے اور معاویہ اور اس کے مانند افراد کی معزولی امام ـ کے تقوے کے مطابق تھی، بلکہ حکومت کی دور اندیشی اور آئندہ نگری اس بات کا تقاضہ کر رہی تھی کہ ایسے فاسد عناصر کو خلافت سے دور کردیں۔یہ بات صحیح ہے کہ معاویہ کو معزول کرنے کے بعد امام ـ شامیوں کی مخالفت کی وجہ سے بہت سی مشکلوں سے روبرو ہوئے لیکن اگر اس کو معزول نہ کرتے تو صرف شامیوں کی ہی مخالفت سے دوچار نہ ہوتے بلکہ مظلوم انقلابیوں کی مخالفت سے امام ـ کو روبرو ہونا پڑتا اور یہی سبب بنتا کہ دن بہ دن مخالفتیں بڑھتی رہتیں اور اسلامی معاشرہ میں اس سے بھی زیادہ اختلاف ہوتا۔یہاں مناسب ہے کہ ان دلیلوں کو بھی پیش کردوں۔

۱۔ امام ـ محروم اور مظلوم انقلابیوں کے ذریعے منصب خلافت پر آئے تھے جو عثمان کے ظلم و بربریت سے تنگ آکر مدینہ میں جمع ہوگئے تھے اورانھیں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا مظلوم انقلابیوں کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ طلحہ و زبیر جیسے افراد کو بھی خاموش کردیاتھا اور حضرت علی کی بیعت کے لئے آمادہ کرلیا تھا۔

اس انقلابی گروہ نے امام ـ کے ہاتھوں پر اس مقصد کے تحت بیعت کی تھی کہ اسلامی ملک میں ہٹ دھرمی ، خود غرضی اور انانیت کا خاتمہ ہو جائے اور فساد و تباہی برپا کرنے والوں حکومت متزلزل ہو جائے۔

۳۵۸

اس گروہ کے ساتھ محترم و متدین صحابہ بھی تھے جو پچھلے خلیفہ سے مکمل طور پر ناراض تھے لیکن خاموشی اور کنارہ کشی اختیار کئے ہوئے تھے اور خلیفہ کے قتل ہونے کے بعد امام علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کیاتھا۔

ادھر معاویہ کا ظلم و جور کسی پر پوشیدہ نہ تھا اگر علی علیہ السلام نے اس سلسلے میں کوتاہی یا بے توجہی کی ہوتی تو آپ کا کام معاویہ کے ساتھ ایک سازش اور انقلابیوں اور متدین صحابہ کے اہداف کی پامالی کے علاوہ کچھ نہ ہوتا، معاویہ جیسے افراد کی وضعیت امام ـ کے مومن فداکاروں کی نظر میں ایک سیاسی مصلحت اور ریاکاری شمار ہوتی اور جتنا زیادہ معاویہ اس کام کو اپنی پاکیزگی کے لئے استفادہ کرتا علی علیہ السلام کو اتنا ہی زیادہ نقصان ہوتا۔ لوگوں کے تند احساسات اور طوفان کو صرف معاویہ کی معزولی ہی ختم کرسکتی تھی اگر امام ـ معاویہ کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے تو اپنی حکومت کے آغاز ہی میں اپنے اکثر طرفداروں کو کھو دیتے، اور دوبارہ وہ لوگ گناہوں اور سرکشی کے لئے آمادہ ہو جاتے اور علی علیہ السلام کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور بہت ہی کم لوگ وفاداروں میں باقی رہتے جو ہر حال میں امام ـ کے نظریات پر باقی رہتے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلام کی مرکزی حکومت میں اختلاف اور جدائی پیدا ہو جاتی اور وہ گروہ جو امام ـ کی پوشیدہ طور پر مخالفت کر رہاتھا وہ مخالف و موافق گروہوں کی شکل میں ابھر کر سامنے آجاتا اور امام ـ کی حکومت کی عمر کا چراغ پہلے ہی دن خاموش ہو جاتا۔

۲۔ اگر ہم فر ض کرلیں کہ جوشیلے انقلابی امام ـ کی معاویہ کے ساتھ ہمراہی کو قبول کرلیتے اور امام کے لشکر میں اختلاف و جدائی بھی نہیں ہوتی، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ معاویہ امام ـ کی رحمدلی اور دعوت کے مقابلے میں کیساعکس العمل پیش کرتا۔ کیاعلی کی دعوت کو قبول کرتا؟ اور شام کے لوگوں سے ان کی بیعت کراتا، جس کی وجہ سے امام ـ شام کی طرف سے مطمئن ہو جاتے؟ یا یہ کہ معاویہ اپنی چالاکی اور سیاسی چالوں سے یہ سمجھ لیتاکہ یہ ہمراہی اور نیکی چند دنوں سے زیادہ کی نہیں ہے اور علی علیہ السلام حکومت پر مکمل قبضہ پانے کے بعد تمام اسلامی حکومتوں سے اسے دور کردیں گے اور اس کی خود غرضی کو ختم کردیں گے؟

معاویہ کی شیطانی حرکتیں اور دور اندیشی کسی پرپوشیدہ نہیں ہیں وہ حضرت علی کو تمام لوگوں سے زیادہ پہچانتاتھا۔ اور وہ جانتا تھا کہ ان کی حکومت میں خود غرضی اور بیت المال کو اپنی سیاسی غرض میں خرچ نہیں کرسکتا اور اگر امام اس کو ہمکاری کے لئے دعوت د ے رہے ہیں تو صرف وقتی طور پر دوستی اور مصلحت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے۔ اور بعد میں اس کے مشن کو قلع و قمع کریں گے اور شام جیسی بزرگ سرزمین پیغمبر کے صحابیوں اور نیک لوگوں کے ہاتھوں میںسپرد کر دیں گے۔

۳۵۹

ان باتوں کی روسے معاویہ ہرگز امام علی علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہیں کرتا، بلکہ ان سے عثمان کے پیراہن کی طرح، شامیوں کے درمیان اپنی شخصیت کو مستحکم کر نے اور قتل عثمان میں علی کی شرکت کا الزام لگانے کے لئے لوگوں کے ساتھ ہوگیا۔

ابن عباس جانتے تھے کہ امام ـ معاویہ کے ساتھ زیادہ نہیں رہ سکتے تھے بلکہ اس وقت تک کے لئے جب تک حضرت حالات پر قابو پالیتے ، معاویہ خوب جانتا تھا کہ علی کی اس کے ساتھ مصلحت وقتی طور پر ہے لہذا وہ قطعی طور پر امام ـ کی دعوت کو قبول نہ کرتا بلکہ مکروفریب سے کام لیتا۔

بہترین موقع جو چھوٹ جاتا

معاویہ کے پاس جو سب سے بڑا بہانہ اور حربہ تھا وہ عثمان کے خون کا بدلہ تھا اگر وہ ابتدا ہی میں اس موقع سے استفادہ نہ کرتا ، تو اس حربہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا۔

معاویہ نے عثمان کے خون آلود پیراہن کو عثمان کی بیوی ''نائلہ'' کی انگلیوں کے ساتھ جو شوہر کے دفاع میں کٹ گئیں تھیں شام کے منبر کے اوپر لٹکا دیا تاکہ شامیوں کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے آمادہ کرے جس کے لئے معاویہ نے دعویٰ کیا تھا کہ علی کے اشارے پر ہی عثمان کا قتل ہوا ہے اگر وہ ابتدا ہی میں حضرت علی کی دعوت کو قبول کرلیتا تو ہرگز وہ عثمان کے قتل کو امام ـ سے منسوب نہ کرپاتا اور عثمان کی مظلومیت کو امام ـ کے خلاف بیان نہ کرتا، معاویہ کے پاس عثمان کا قتل ایک ایساقوی حربہ تھا جو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف استعمال کرتا ، اور اس حربہ کا استعمال اس صورت میں ممکن تھاکہ جب علی کی دعوت کو قبول نہ کرتا کیونکہ امام کی بیعت کرنے کی صورت میں امام ـ کی رہبری کو صحیح ثابت کرتا اورادھر عثمان کا خون بھی خشک ہو جاتا اوراس طرح وہ بہترین موقع گنوا بیٹھتا۔

موروثی حکومت کی برقراری

کئی سال سے معاویہ نے اپنی چالاکی ،اور بے حساب و کتاب تحفے تحائف کے ذریعے، عظیم اور بزرگ شخصیتوں کو جلا وطن کر کے جواس کی حکومت کے خلاف تھے اور بہت زیادہ تبلیغ کر کے اور خلیفہ وقت کی نظر عنایت کو جذب کر کے ایک موروثی سلطنت و حکومت کا مقدمہ فراہم کرلیا تھا اور وہ عثمان کے قتل یا موت کا منتظر تھا کہ اپنی دیرینہ آرزؤں کو عملی جامہ پہنا سکے۔

۳۶۰