فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 341308
ڈاؤنلوڈ: 5170

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 341308 / ڈاؤنلوڈ: 5170
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

راستہ جاننے والوں کے ساتھ انجان راستوں سے بصرہ کی طرف چلے گئے۔(۱) اگر امام ـ کو ان لوگوں کے بصرہ جانے کی خبر پہلے ملی ہوتی تو درمیان راہ سے ہی انھیں گرفتار کرلیتے اور ان کو گرفتار کرنا بہت آسان تھا اور پھر ان سے مقابلے کی نوبت نہیں آتی، کیونکہ زبیر کا اتحاد طلحہ کے ساتھ ظاہری اتحاد تھاان میں سے ہر ایک کی آرزو یہی تھی کہ حکومت خود سنبھالے، اور دوسرے کو اس سے بے دخل کردے ان دونوں کے اندر اس قدر نفاق تھا کہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت دونوں کے درمیان اختلاف ظاہر ہوگیا تھا ۔ یہاں تک کہ بصرہ جاتے وقت نماز کی امامت کے لئے دونوں میں اختلاف ہوا او ردونوں یہی چاہتے تھے کہ امامت کی ذمہ داری خود اس کے ذمے ہو او راسی اختلاف کی وجہ سے عائشہ کے حکم سے دونوں جماعت کی امامت سے محروم ہوگئے اور امامت کی ذمہ داری زبیر کے بیٹے عبداللہ کو مل گئی۔ معاذ کہتے ہیں کہ خداکی قسم اگر یہ دونوں علی پر کامیابی حاصل کرلیتے تو خلافت کے مسئلے میں کبھی بھی متحد نہیں ہوتے۔(۲) امام ـ کے بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں لیکن امام ـ نے ان کی باتوں پر توجہ نہ دی ۔ علی علیہ السلام نے اس وقت ایک خطبہ دیا جسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں:

''وَ اللّٰهِ لَا أَکُوْنُ کَالضّبْعِ تَنَامُ عَلٰی طُوْلِ اللَّدَمِ حَتّٰی یَصِلُ اِلَیْهَا طَالِبُهَا وَ یَخْتَلُهَا رَاصِدُهَا. وَ لٰکِنِّی اَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ اِلٰی الْحَقِّ الْمُدْبِرِ عَنْهُ وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِیْعِ الْعَاصِیِ الْمُرِیْبِ أبَداً حَتَّی یَأتِیَ عَلَیَّ یَوْمِی'' (۳)

خدا کی قسم، اب میں اس بجو کی طرح (خاموش) نہ بیٹھوں گا جو مسلسل تھپتھپایا جاتا ہے کہ وہ سو جائے تاکہ اس کا طلب گار پہونچ جائے اور دھوکہ دیکر اچانک اس پر قابو پالے، بلکہ میں حق کی طرف بڑھنے والوں اور میری آواز سن کر اطاعت کرنے والوں کو ساتھ لیکر حق سے پیٹھ پھیرنے والے نافرمانوں پر جو شک میں مبتلا ہیں ان پر ہمیشہ اپنی تلوار چلاتا رہوں گا یہاں تک کہ میری موت کا دن آجائے۔علی نے اپنے اس کلام سے اپنے پروگرام کا اعلان کردیا اور سرکشوں باغیوںکے مقابلے میں خاموش نہ رہنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کی کامیابی کے لئے دوبارہ اپنی فوج بنانے کا سوچنے لگے۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۵، ص ۱۶۹۔

(۲) تاریخ طبری، ج۵، ص ۱۶۹۔

(۳) نہج البلاغہ، خطبہ ۶۔

۳۸۱

فوج کو دوبارہ جمع کرنا

امام ـ کو جب ناکثین کے فرار ہونے کی خبر ملی تو آپ نے ارادہ کیا کہ بصرہ تک ان کا پیچھا کریں لیکن ،جو گروہ امام کے ہمراہ تھا اس کی تعداد سات سو یا نو سو سے زیادہ نہ تھی اگرچہ اس میں اکثر ربذہ کے مہاجرین و انصار کے بہادر سپاہی تھے جس میں سے بعض نے جنگ بدر میں بھی شرکت کی تھی لیکن یہ تعداد اس گروہ کے مقابلے کے لئے جو جنگ کرنے کے لئے آمادہ کیاگیا تھا اس کے علاوہ اطراف کے قبائل کو بھی ملایا گیا تھا، بہت کم تھی، یہی وجہ تھی کہ امام ـ نے چاہا کہ اپنی فوج کو دوبارہ جمع کریں او روہ قبائل جو اطراف میںرہ رہے تھے اور امام ـ کے مطیع و فرمابردار تھے ان سے مدد لیں۔ اسی لئے عدی بن حاتم خود اپنے قبیلے (طیّ) گئے اور ان لوگوں کو پیمان شکنوں کی نافرمانی اور علی علیہ السلام کی روانگی کی خبر دی اور قبیلے کے سرداروں کی بزم میں یہ کہا :

''اے قبیلۂ طیّ کے بزرگو! تم لوگوں نے پیغمبر کے زمانے میں ان کے ساتھ جنگ کرنے سے پرہیز کیا اور خدا اور اس کے پیغمبر کی واقعہء ''مرتدان'' میں مدد کی ، آگاہ ہو جاؤ کہ علی تمہارے پاس آنے والے ہیں، تم نے جاہلیت کے دور میں دنیاکے لئے جنگ کیااور اب اسلام کے دور میں آخرت کے لئے جنگ کرو، اگر دنیا چاہتے ہو تو خدا کے پاس بہت زیادہ مال غنیمت ہے ،میں تم لوگوںکو دنیا و آخرت کی دعوت دیتا ہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں علی علیہ السلام اور اسلام کے بزرگ مجاہدین، مہاجر و انصار جنگ بدر میں شرکت کرنے والے اور شرکت نہ کرنے والے تمہاری طرف والے ہیں، تاخیر نہ کرو جلدی سے اٹھ جاؤ اور امام کے استقبال کے لئے جلدی دوڑپڑو''۔

عدی کی تقریر نے لوگوں میں ایک عجیب شور و ہیجان پیدا کردیا اور ہر طرف سے لبیک لبیک کی صدا بلند ہونے لگی اورسب نے امام ـ کی نصرت و مدد کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا،جب امام ـ ان کے پاس پہونچنے توایک ضعیف شخص حضرت کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اس طرح سے آپ کو خوش آمدید کہا:

۳۸۲

''مرحبا اے امیر المومنین ! خدا کی قسم۔ اگر ہم آپ کی بیعت نہ بھی کرتے جب بھی آپ کو پیغمبر کا عزیز اور آپ کے روشن و منور ماضی کی وجہ سے آپ کی مدد کرتے ،آپ جنگ کرنے کے لئے نکلیں اور قبیلۂ طی کے تمام افراد آپ کے ہمراہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی شخص آپ کی فوج میں شامل ہونے سے دریغ نہیں کرے گا''۔

عدی کی محنتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ قبیلۂ طی کے افراد امام ـ کی فوج سے ملحق ہوگئے اور آپ کی فوج نے دوبارہ ایک بڑے لشکر کی شکل اختیار کرلی۔

قبیلۂ طیّ کے نزدیک ہی قبیلئہ بنی اسد رہ رہا تھا اس قبیلہ کا ایک سردار جس کا نام ''زفر'' تھا اور مدینہ میں امام ـ کا ملازم تھا اس نے امام ـ سے اجازت لی تاکہ وہ بھی اپنے قبیلے میں جائے اور لوگوں کو امام علیہ السلام کی نصرت کے لئے آمادہ کرے، اس نے اپنے قبیلے کے لوگوں سے گفتگو کی اور کامیاب ہوگیا اور ایک گروہ کوامام ـ کی نصرت کے لئے تیار کرلیا اور اپنے ساتھ امام ـکے لشکرمیں لایا، لیکن زفر کی محنتوں کا نتیجہ کامیابی کے اعتبار سے عدی کی طرح نہ تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ عدی اپنے گھرانے اور اپنے باپ حاتم کے جود و سخاوت کی وجہ سے اپنی قوم میں بہت زیادہ مشہور اور محترم جانا جاتا تھا جب کہ زفر کی شخصیت ایسی نہ تھی ،اس کے علاوہ قبیلۂ طی کے لوگوں نے ''حادثۂ مرتدان'' میں اپنے محکم عقیدے اور اسلامی طور و طریقے کا خوب مظاہرہ کیا تھا۔ اور پیغمبر کی وفات کے بعد ان میں سے ایک بھی آدمی مرتد نہ ہوا ،جب کہ قبیلۂ بنی اسد کے کافی لوگ مرتد ہوگئے تھے اور دوسری مرتبہ قبیلۂ طی کی کوششوں سے وہ اسلام کی طرف واپس آئے تھے۔(۱)

______________________

(۱) الامامة و السیاسة، ص ۵۴۔ ۵۳۔

۳۸۳

بصرہ کے راستے میں ناکثین کی سرگذشت

طلحہ و زبیر پیغمبر(ص) کے صحابیوں میں سے تھے لیکن ان کی شخصیت و قدرت اتنی معروف نہ تھی کہ وہ تنہا مرکزی حکومت کے خلاف اقدام کرتے اور مکہ سے بصرہ تک سپاہیوں کی رہبری کرتے اگر رسول خدا کی بیوی (عائشہ) ان کے ہمراہ نہ ہوتیں اور اگر امویوں کی بہت زیادہ دولتیں ان کے پاس نہ ہوتیں تو مکہ ہی میں انکی سازشیںناکام اور ان کے ارادے خاک میں مل جاتے۔

جی ہاں، وہ عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے مکہ سے بصرہ کے لئے روانہ ہوئے تھے کہ

علی ہی ان کے قاتل ہیں یا قاتلوں کو رغبت دلائی تھی اور راستہ بھر ''یالثارات عثمان'' کا نعرہ لگا رہے تھے لیکن یہ نعرہ اتنا مضحکہ خیز تھا کہ خود عثمان کے قریبی ساتھی بھی سن کر ہنس رہے تھے ذیل کے دو واقعے اس بات پر شاہد و گواہ ہیں:

سعید بن عاص نے ''ذات عرق'' میں ناکثین کے قافلے جس کے سردار طلحہ و زبیر تھے سے ملاقات کیا ۔ سعید جو خود بنی امیہ کی آل سے تھا مروان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہاں جار ہے ہو؟ مروان نے جواب دیا: ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینے جارہے ہیں ۔ سعیدنے کہا: کیوں اتنی دور جارہے ہو، کیونکہ عثمان کے قاتل وہی لوگ ہیں جو تمہارے پیچھے پیچھے آرہے ہیں

۳۸۴

(یعنی طلحہ و زبیر)۔(۱)

ابن قتیبہ نے اس واقعہ کو اور بھی زیادہ واضح لفظوں میں لکھا ہے، وہ لکھتا ہے :

جب طلحہ و زبیر اور عائشہ سرزمین ''ابو طاس'' پر خیبر کی طرف سے پہونچے ، تو سعید بن عاص مغیرہ ابن شعبہ کے ساتھ کالے کمان کے ہمراہ عائشہ کے پاس گیااور کہا: کہاں جارہی ہیں؟

انہوں نے کہا: بصرہ۔

سعید نے کہا: وہاں کیاکریں گی؟

اس نے کہا: عثمان کے خون کا بدلہ لوں گی۔

سعید نے کہا: اے ام المومنین ! عثمان کے قاتل آپکی رکاب میںہیں۔ پھر وہ مروان کے پاس گیا اور یہی گفتگو اس سے بھی کی اور کہا کہ عثمان کے قاتل یہی طلحہ او ر زبیر ہیں جو اس کو قتل کر کے حکومت اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے تھے، لیکن چونکہ وہ اپنے مقصد تک نہیں پہونچ سکے ہیں اس لئے چاہتے ہیں کہ خون کو خون سے اور گناہ کو توبہ سے دھو ڈالیں۔

مغیرہ بن شعبہ ،حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کا داہنا بازو سمجھا جاتا تھا(جنگ جمل سے پہلے) ایک دن لوگوں کے مجمع میں گیا اور کہا: اے لوگو! اگر ام المومنین کے ہمراہ باہر نکلے ہو تو ان کے لئے نیک نتیجہ کی دعا کرو اور اگر عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے نکلے ہو تو عثمان کے قاتل یہی تمہارے سردار ہیں ۔ اوراگر علی پر تنقیدو اعتراض کے لئے نکلے ہو تو ان پر تم نے کیا اعتراض کیاہے تم لوگوں کو خدا کا واسطہ ، تم

لوگوں نے جو ایک سال سے دو فتنے (عثمان کا قتل اور علی کے ساتھ جنگ) پیدا کر رکھے ہیں ان سے پرہیز کرو۔ لیکن سعیدو مغیرہ میں سے کسی کا کلام بھی ان پر مؤثر نہ ہوا، لہٰذا سعیدیمن کی طرف اور مغیرہ طائف کی طرف چلا گیا اور دونوں میں سے کسی نے بھی جنگ جمل اور صفین میں شرکت نہیں کی۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۴۷۲۔

۳۸۵

تیز تیز قدم بڑھانا

طلحہ و زبیر نے امام ـ کی گرفتاری سے بچنے کے لئے مکہ اور بصرہ کے درمیان کے راستے کو بہت تیزی سے طے کرتے تھے اسی وجہ سے تیز رفتار اونٹ کی تلاش میں تھے تاکہ جتنی جلد ہو عائشہ کو بصرہ پہونچا دیں۔ درمیان راہ ''قبیلۂ عرینہ'' کے ایک عرب کودیکھا جو ایک تیز رفتار اونٹ (نر اونٹ) پر سوار ہے اس سے کہا کہ تم اپنا اونٹ بیچ دو اس نے اونٹ کی قیمت ایک ہزار درہم بتائی ۔ خرید نے والے نے اعتراض کیا اور کہا کہ کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟ کہاں ایک اونٹ کی قیمت ایک ہزار درہم ہے؟ اونٹ کے مالک نے کہا: تم اس کے کمالات سے باخبر نہیں ہو کوئی بھی اونٹ تیز چلنے میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ خرید نے والے نے کہا: اگر تم کو یہ معلوم ہو جائے کہ کس کے لئے یہ اونٹ خرید رہے ہیں تو تم بغیر درہم لئے ہی اسے ہدیہ کردو گے اس نے پوچھا: کس کے لئے خرید رہے ہو؟

اس نے کہا: ام المومنین عائشہ کے لئے۔

اونٹ کے مالک نے پیغمبر (ص)کے احترام میں بڑے ہی خلوص کے ساتھ اونٹ کو ہدیہ کردیااور اس کے بدلے میں کوئی چیز نہ لی۔

خریدار اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اسے اس جگہ پر لایا جہاں پر عائشہ کا قافلہ تھا اور اس اونٹ کے بدلے میں اسے ایک مادہ اونٹ اور چار سو یا چھ سو درہم دیااور اس سے درخواست کی کہ اس بیابانی راستہ طے کرنے میں کچھ دور تک ہماری مدد کرے، اس نے ان کی درخواست کو قبول کیا۔

راہنما، جو اس سرزمین کے متعلق سب سے زیادہ معلومات رکھتا تھا وہ کہتا ہے کہ ہم جس آبادی اور کنویں کے پاس سے گزرتے تھے عائشہ اس کا نام پوچھا کرتی تھیں یہاں تک کہ جب ہم سرزمین ''حوأب'' سے گزرے تو کتوں کے بھونکنے کی آواز بلند ہوئی۔ ام المومنین نے عماری سے سر باہر نکالا اور پوچھا یہ کون سی جگہ ہے؟ میں نے کہا: یہ حوأب ہے عائشہ نے جیسے ہی میری زبان سے حوأب کا نام سنا چیخ پڑیں اور فوراً اونٹ کے بازو کو تھپتھپا کر اسے بٹھا دیا اور کہا: خدا کی قسم، میں وہی عورت ہوں جو سرزمین حوأب سے گزر رہی ہے تو اور وہاںکے کتے اس کے اونٹ پر بھونک رہے ہیں، اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا اورچیخ کر کہا مجھے واپس لے چلو ۔

۳۸۶

عائشہ کے رکنے کی وجہ سے قافلہ بھی ٹھہر گیا اور اونٹ کو بٹھا دیاگیا، لوگ چلنے کے لئے اصرا رکرتے رہے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اور عائشہ دوسرے دن بھی وہیں ٹھہری رہیں ، بالآخر ان کے بھانجے عبد اللہ بن زبیر نے آکر کہا، جتنی جلدی ہو یہاں سے چلئیے کیونکہ علی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ ہم لوگ گرفتار ہو جائیں۔(۱)

طبری نے تعصب اور واقعہ پر پردہ ڈالتے ہوئے اس واقعے کودوسرے انداز سے لکھا ہے لیکن ابن قتیبہ جو اس سے پہلے گزرا ہے (وفات ۲۷۶ھ) اس نے لکھا ہے :

''جس وقت ام المومنین سر زمین حوأب کے نام سے باخبر ہوئیں تو طلحہ کے بیٹے سے کہا: میں واپس جانا چاہتی ہوں کیونکہ رسول خدا نے اپنی بیویوں کے درمیان جن میں میں بھی موجود تھی کہا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے ایک عورت سرزمین حوأب سے گزر رہی ہے اور وہاں کے کتے اس پر بھونک رہے ہیں'' پھر میری طرف رخ کرکے کہا: حمیرا وہ عورت تم نہ ہونا'' اس وقت طلحہ کے بیٹے نے دوبارہ چلنے کے لئے اصرار کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ان کے بھانجے عبد اللہ ابن زبیر نے منافقانہ قسم کھائی کہ ''اس سرزمین کا نام حوأب نہیں ہے اور ہم پہلی ہی رات حوأب سے گزر چکے ہیںاور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ صحرا میں رہنے والے ایک گروہ کو لائے اور سب نے جھوٹی گواہی دی کہ یہ سرزمین حوأ ب نہیں ہے، اسلام کی تاریخ میں یہ پہلی جھوٹی گواہی ہے پھر قافلہ بصرہ کی جانب چلنے لگا اور پھر بصرہ کے نزدیک اس شہر پر قبضہ کرنے کے لئے روک دیاگیا ، عثمان بن حنیف علی کی طرف سے وہاںکے حاکم تھے۔(۲)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج ۳ ص۹۷۵

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۹، ص ۳۱۲۔

۳۸۷

عہد و پیمان توڑ نے والے بصرہ کے قریب:

جب ناکثین کا کاروان بصرہ کے قریب پہونچاتو قبیلۂ تمیم کے ایک شخص نے عائشہ سے درخواست کی کہ بصرہ میں داخل ہونے سے پہلے وہاں کے حاکم کو اپنے ہدف و مقصد سے آگاہ کر دیجئیے ،اس وجہ سے عائشہ نے بصرہ کی اہم شخصیتوں کے نام خط لکھا اور خود ''حفیر'' نامی جگہ پر قیام کیااور اپنے خط کے جواب کا انتظار کیا۔

ابن ابی الحدید، ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ طلحہ او رزبیر نے بھی بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف کو خط لکھا اور ان سے درخواست کیا کہ دار الامارہ کو ان کے حوالے کردیں۔ جب ان لوگوں کا خط عثمان بن حنیف کے پاس پہونچا تو انھوںنے احنف بن قیس کو بلایا اور اسے خط کے مضمون سے آگاہ کیا احنف نے بطور مشورہ کہا، ان لوگوں نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اقدام کیا ہے جب کہ خود انہی لوگوں نے عثمان کو قتل کیاہے اور میری رائے تو یہی ہے کہ ان سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ تم حاکم ہو اور لوگ تمہارے حکم کو مانیں گے لہٰذا اس سے پہلے کہ وہ لوگ تمہاری طرف بڑھیں تم خود ان کی طرف جاؤ۔ عثمان نے کہا: میرا بھی نظریہ یہی ہے لیکن میں امام ـ کے حکم کا منتظر ہوں۔

۳۸۸

احنف کے جانے کے بعد حکیم بن جبلۂ عبدی آیا عثمان نے طلحہ و زبیر کا خط اس کے سامنے پڑھا اس نے بھی احنف ہی کی بات دہرائی اور کہا مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان سے مقابلہ کرنے کے لئے جاؤں ۔ اگر ان لوگوںنے امیر المومنین کی اطاعت کی تو کوئی بات نہیں ، لیکن اگر ایسانہ کیا تو ان سے جنگ کریں گے۔ عثمان نے کہا: اگر ان سے مقابلہ کرنے کی بات ہے تو میں خود اس کام کے لئے سب سے زیادہ سزاوار ہوں۔ حکیم نے کہا: جتنی جلدی ہو اس کام کو کر ڈالیئے کیونکہ اگر ناکثین بصرہ میںداخل ہوگئے تو چونکہ ان کے ہمراہ پیغمبر کی بیوی ہیں، ان کی وجہ سے تمام لوگ ان کی طرف چلے جائیں گے اور آپ کو اس مقام سے معزول کردیں گے۔

انہی حالات میں امام ـ کا خط عثمان بن حنیف کے پاس پہونچا جس میں آپ نے طلحہ و زبیر کے عہد و پیمان توڑ نے اور بصرہ کی طرف سفر کرنے کے متعلق لکھا تھا اور حکم دیا کہ ان لوگوں کو اپنے عہد و پیمان بجالانے کی دعوت دیں اگر ان لوگوںنے قبول کرلیا تو ان لوگوں سے اچھے برتاؤ کریں اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیںکہ خدا دونوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے امام ـ نے خط ''ربذہ'' سے بھیجا تھااور وہ خط حضرت کے حکم سے آپ کے منشی عبد اللہ نے لکھا تھا۔(۱)

______________________

(۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۵۹۔

۳۸۹

حاکم بصرہ نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیااورامام ـ کا خط ملنے کے بعد فوراً ہی بصرہ کی دو عظیم شخصیتوں ، عمران بن حصین اور ابو الاسود دوئلی(۱) کو بلایا اور ان لوگوں کو ذمہ داری سونپی کہ بصرہ سے باہر جائیں اور جس جگہ ناکثین نے پڑاؤ ڈالا ہے وہاں جاکر طلحہ و زبیر سے ملاقات کریں اور ان سے بصرہ میں لشکر لانے کی وجہ دریافت کریں ،وہ لوگ فوراً ہی ناکثین کے لشکر کی طرف روانہ ہوگئے اور عائشہ ،طلحہ اور زبیر سے ملاقات کی۔

عائشہ نے ان لوگوں کے جواب میں کہا کہ ایک گروہ نے مسلمانوں کے امام کو بغیرکسی غلطی کے قتل کر ڈالا اور محترم و ناحق خون بہا یا اور حرام مال کو برباد کردیا اور محترم مہینے کی حرمت کو پامال کردیا میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ اس گروہ کے جرم کا پردہ فاش کروں اور لوگوں سے کہوں کہ اس سلسلے میں کیا کیا جائے۔(۲)

(ایک قول کی بنا پر کہا کہ) میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ فوج اور سپاہیوں کو تیار کروں ،اور ان کی مدد سے عثمان کے دشمنوں کو سزا دوں۔یہ دونوں ام المومنین کے پاس سے اٹھے اور طلحہ و زبیر کے پاس گئے اور ان لوگوں سے کہا کس لئے آئے ہو؟ جواب دیا عثمان کے خون کا انتقام لینے کے لئے۔ حاکم بصرہ کے لوگوں نے پوچھا کیا آپ لوگوں نے علی کی بیعت نہیں کی ہے؟ جواب دیا ہم لوگوں نے مالک اشتر کی تلوار کے خوف سے بیعت کی تھی اس کے بعد حاکم کے نمائندے حاکم کے پاس واپس آئے اور انھیں عہد و پیمان توڑنے والوں کے ہدف سے باخبر کیا۔

امام ـ کے گورنر نے اردہ کیا کہ لوگوں کی مدد سے دشمن کوبصرہ میں داخل ہونے سے روکیں، اس وجہ سے شہر اور اطراف میں اعلان کیا گیا کہ تمام لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں، حاکم بصرہ کے مقرر نے اپنے آپ کو اجنبی ظاہر کرتے ہوئے کوفہ کے قبیلۂ ''قیس'' کا رہنے والا بتایا اور کہا:

''اگر اس گروہ کا کہنا ہے کہ اپنی جان پجانے کے لئے بصرہ آئیں ہیں تو وہ غلط بیانی سے کام

______________________

(۱) حضرت علی کے خاص شاگرداورعلم نحو کے موجد۔

(۲) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۷۴۔

۳۹۰

لے رہے ہیں، کیونکہ وہ لوگ حرم الہی (مکہ) میں تھے جہاں فضامیں رہنے والے پرندے بھی امن و امان میں رہتے ہیں اور اگر یہاں عثمان کے خون کا بدلہ لینے آئے ہیں تو عثمان کے قاتل بصرہ میں نہیں ہیں کہ ان سے بدلہ لینے آئے ہیں ۔ اے لوگو! ہم پر واجب ہے کہ ان کے مقابلے کے لئے اقدام کریںاور وہ لوگ جہاں سے آئے ہیں انھیں وہیں واپس کردیں۔

اسی دوران اسود نام کے ایک شخص نے اٹھ کر کہا وہ لوگ ہمیں عثمان کا قاتل نہیں سمجھتے بلکہ وہ لوگ یہاں اس لئے آئے ہیں کہ ہم سے مدد طلب کریں اورعثمان کے خون کا بدلہ لیں۔ اگرچہ اسود کی بات کی اکثر لوگوںنے مخالفت کی مگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ بصرہ میں بھی طلحہ وزبیر کے حامی اور چاہنے والے موجود ہیں۔

ناکثین کا قافلہ اپنے پڑائو سے بصرہ کی طرف روانہ ہوگیا اور عثمان بن حنیف بھی اپنا لشکر لے کر چلے تاکہ انھیں بصرہ آنے سے روک دیں اور ''مربد'' نامی جگہ پر دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے۔ طلحہ و زبیر کے سپاہی دا ہنی طرف اور عثمان بن حنیف اور ان کے ساتھی بائیں طرف کھڑے ہوگئے ۔ طلحہ وزبیر نے عثمان کی مظلومیت اور اس کے فضائل بیان کئے اور لوگوں کو ان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے دعوت دیا ان کے چاہنے والوں نے ان کی تصدیق کی۔ لیکن عثمان بن حنیف کے ساتھی دونوں کی باتوں کو جھٹلانے کے لئے کھڑے ہوئے اور دونوں کے درمیان جھگڑا ہونے لگا ، لیکن عثمان کے ساتھیوں کے درمیان ذرہ برابر بھی شگاف پیدا نہ ہوا۔

جب عائشہ نے یہ حالات دیکھے توانہوںتقریر میں کہا:

''لوگ ہمیشہ عثمان کے نمائندوںکی شکایت کرتے تھے اور تمام باتیں مجھ سے آکر کہتے تھے لیکن میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اسے ایک متقی و پرہیزگار اور وفادار اور شکایت کرنے والوں کو دھوکہ باز اور جھوٹا پایااور جب اعتراض کرنے والے طاقت ور ہوگئے تو ان کے گھر پر حملہ کردیا اور حرمت کے مہینے میںبے گناہ ان کو قتل کردیا۔آگاہ ہو جاؤ جو کچھ تمہارے لئے شائستہ ہے اور تمہارے غیر کے لئے شائستہ نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ قاتلوں کو پکڑ لو او ران پر خدا کا حکم جاری کرو (پھر اس آیت کو پڑھا:

۳۹۱

( الَمْ تَرَی اِلَی الَّذِینَ ُوتُوا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ الَی کِتَابِ اﷲِ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُم ) (۱)

عائشہ کی تقریر نے حاکم بصرہ کے دوستوں کے درمیانشگاف پیدا کردیا، ایک گروہ عائشہ کی باتوں کی تصدیق تو دوسرا گروہ ان کی باتوں کو جھٹلا رہا تھا خود عثمان بن حنیف کے لشکر نے ایک دوسرے پر اینٹ پتھر پھینکنے شروع کردیئے اس کے بعدعائشہ ''مربد'' سے ''دباغین'' کی طرف چلی گئیں جب کہ عثمان کے ساتھی دو حصوں میں بٹ گئے اور بالآخر اس میں سے ایک گروہ ناکثین سے مل گیا۔

ناکثین کی باز پرس :

جس جگہ عائشہ نے قیام کیا تھا وہاں قبیلۂ بنی سعد کے ایک شخص نے ان سے کہا ''اے ام المومنین! قتل عثمان سے بڑھ کر اس ملعون اونٹ پر بیٹھ کر آپ کا گھر سے نکلنا ہے، خدا کی جانب سے آپ کے لئے حجاب اور احترام تھا مگر آپ نے اس کو چاک اور اپنا احترام کھودیا، اگر آپ اپنی مرضی سے آئی ہیں تو یہیں سے واپس چلی جائیے اور اگر مجبور کر کے آپ کو لایا گیا ہے تواس سلسلے میں لوگوں سے مدد لیجیئے۔اسی قبیلہ کا ایک جوان طلحہ و زبیر کی طرف مخاطب ہوا اور کہا:

اے زبیر ، تم تو پیغمبر کے حواریوں میں سے ہو اور اے طلحہ تم نے خود اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ کو آسیب (دکھ درد) سے بچایا تمہاری ماں(عائشہ) کو تمہارے ہمراہ دیکھ رہا ہوں کیا تم اپنی عورتوں کو بھی ساتھ لائے ہو؟ انھوں نے جواب دیا نہیں ، اس نے کہا:اس وقت میں تم سے الگ ہو رہا ہوں پھر اس کے بعد چند اشعار کہے جس کا پہلا شعر یہ ہے:

صنتمُ حلائلَکم و قُد تُم أمَّکم------هذا لعمرک قِلةَ الانصاف

اپنی بیویوں کو پردہ میں چھپا رکھا ہے لیکن اپنی ماں(عائشہ) کو بازار میں لائے ہو تمہاری جان کی قسم یہ بے انصافی کی علامت ہے۔(۲) اس وقت حکیم بن جبلۂ عبدی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ حاکم بصرہ کی مدد کرنے کے لئے اقدام کیا اور اس کے اور طلحہ و زبیر کی فوج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی عائشہ نے دونوں گروہوں کو جدائی کا حکم دیا اور کہاکہ یہاں سے اٹھ کر قبرستان ''بنی مازن'' کی طرف چلے جائیں اور جب وہاں پہونچے تورات کی تاریکی دونوں گروہوں کے درمیان حائل ہو گئی اور حاکم بھی شہر واپس آگئے۔عائشہ کے ساتھی ''دار الرزق'' نامی جگہ پر جمع ہوئے اور اپنے کو جنگ کے لئے آمادہ کیادوسرے دن حکیم بن جبلۂ عبدی نے ان پر حملہ کردیا، شدید جنگ ہوئی دونوں فوج کے درمیان ،دونوں گروہ کے کچھ لوگ قتل اور زخمی ہوئے۔

______________________

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۲۳۔------(۲) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۸۲، الکامل بن اثیر، ج۳ ص ۲۱۴۔ ۲۱۳۔

۳۹۲

دونوں گروہوں کے درمیان وقتی صلح

اس واقعہ کے مؤرخین نے یہاں تک متفقہ طور پر وہی لکھا ہے جسے ہم نے تحریر کیاہے لیکن اصل گفتگو، بعد کے واقعہ سے متعلق ہے کہ کس طرح ان دو گروہوںنے جنگ روکی اور نتیجے کا انتظار کرنے لگے، یہاں پر طبری اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے جزری نے ''کامل'' میں اس واقعہ کو دو طریقے سے لکھا ہے لیکن دوسری صورت حقیقت سے زیادہ قریب لگتی ہے ہم دونوں صورتوں کو تحریر کر رہے ہیں۔

الف: طلحہ و زبیر کی بیعت کے بارے میں استفسار

طبری لکھتا ہے کہ دونوں گروہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مدینہ کے لوگوں کے پاس خط لکھا جائے اور طلحہ و زبیر کی حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا جائے، اگر مدینہ کے لوگوں نے گواہی دی کہ طلحہ و زبیر کی بیعت آزادانہ اور اختیاری تھی تو لازم ہے کہ یہ دونوں افراد مدینہ واپس جائیں اور عثمان بن حنیف کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کریں اور اگر ان لوگوں نے گواہی دی کہ کہ ان دونوں نے خوف و ڈر اور مجبوری کی حالت میں بیعت کیا تھا تو اس صورت میں عثمان بصرہ کو چھوڑ دیں اور دار الامارہ اور بیت المال اور جو بھی چیزیں حکومت سے مربوط ہیں طلحہ و زبیر کے حوالے کردیں۔

طبری نے اپنی کتاب تاریخ طبری میں اس صلح نامہ کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ کعب بن سور کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی اور وہ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ جمعہ کے دن مسجد نبوی میں تمام اہل مدینہ کو اہل بصرہ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا لیکن اسامہ کے علاوہ کسی نے بھی اس کا جواب نہیں دیا اسامہ نے کہا: ان لوگوں کی بیعت اختیاری نہیں تھی بلکہ خوف و ڈر اور مجبوری کی وجہ سے تھی، اس وقت لوگ بہت سخت ناراض ہوئے اور چاہا کہ اسے قتل کردیں اگر صھیب و محمد ابن مسلمہ وغیرہ اسے نہ بچاتے تو لوگ اسے قتل کر ڈالتے ، کعب نے مسجد نبوی میں جو کچھ بھی دیکھا تھا بصرہ آکر لوگوںکو بتادیا یہ واقعہ سبب بنا کہ طلحہ و زبیر نے عثمان کے پاس پیغام بھیجا کہ دار الامارہ کو چھوڑ دیں کیوں کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان دونوں کی بیعت شوق و رغبت کی بنیاد پر نہ تھی۔

اس واقعہ کی بنا پر صلح کا ہونا بہت بعید لگتاہے، یہ واقعہ کی جہات سے حقیقت سے بعید معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ:

۳۹۳

۱۔ اس کا نقل کرنے والا سیف بن عمر ہے اور محققین اُسے صالح اور سچا نہیں سمجھتے، لیکن افسوس کہ تاریخ طبری میں (۱۱ہجری سے ۳۶ ہجری تک کے واقعات) اسی کے نقل سے بھرے پڑے ہیں۔

۲۔ بصرہ سے مدینہ اور پھر مدینہ سے بصرہ واپس آنے میں کافی وقت درکار ہوتاہے، اور ناکثین جانتے تھے کہ امام ـ مدینہ سے روانہ ہوچکے ہیں اور ان کے تعاقب میں ہیں، اس بنا پر ہرگز عہد و پیمان توڑ نے والوں کے لئے مصلحت نہ تھی کہ ایسے حساس خطرے کے ماحول میں ایسی شرط قبول کریں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور شہر پر قبضہ کرنے اور حاکم بصرہ کو معزول کرنے سے باز آجائیں اور جواب کا انتظار کریں۔

۳۔ ایسے لوگ ایسی شرطوں کوقبول کرتے ہیں جو مطمئن ہوتے ہیں کہ پیغمبر کے صحابی ان کی بیعت کو خوف و ڈر اور مجبوری کی بیعت قرار دیں گے۔ جب کہ ایسا اطمینان ان کے اندر موجود نہیں تھا ، بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قضیہ برعکس تھا، لہذا سیف بن عمر سے منقول طبری کی روایت کے مطابق صرف ایک آدمی نے وہ بھی امام کی بیعت سے منھ موڑ نے والے نے ان دونوںکے لئے گواہی دی اور خود بقول سیف، دوسرے لوگ خاموش رہے۔

۴۔ سب سے اہم دلیل اس بات پر کہ ان کی بیعت مجبوری کی بنا پر نہ تھی یہ ہے کہ ایک گروہ مثلاً سعد وقاص ، عبد اللہ بن عمر، اسامہ او رحسان وغیرہ نے بیعت کرنے سے انکار کیا تھااور تمام چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی مگر کسی نے بھی ان پر اعتراض نہیں کیا لہذااگر طلحہ و زبیر بھی بیعت نہیں کرنا چاہتے تووہ بھی بیعت نہ کرنے والوں میں شامل ہو جاتے، چنانچہ جب امام ـ اس واقعے سے آگاہ ہوئے تو زبیر کے بارے میں فرمایا:

۳۹۴

''زبیرخیال کرتا ہے کہ اس نے ہاتھ پر بیعت کیا ہے لیکن دل سے بیعت کا مخالف تھا بہر حال اس نے اپنی بیعت کا خود اقرار کیا ہے لیکن اس کا دعوی یہ ہے کہ وہ دل میں مخالفت کو چھپائے ہوئے تھا تو ضروری ہے کہ وہ اپنے ا س دعوے پر گواہ پیش کرے اور اگر گواہ نہ لائے تو اس کی بیعت باقی ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ مطیع و فرمانبرداررہے''۔(۱)

عہد و پیمان توڑ نے والوں کے مارے جانے کے بعد امام ـ نے ان دونوں کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے:

''اَللّٰهُمَّ اِنَّهُمَا قَطَعٰانِیْ وَ ظَلْمٰانِیْ وَ نَکَثٰا بَیْعَتِیْ وَ الَّبا النَّاسَ عَلیَّ فَاحْلُلْ مَا عَقْدًا وَ لَا تَحْکُمْ لَهُمَا مَا أَبْرَمَا وَ أَرِهِمَا الْمَسَائَ ةَ فِیْمَا أمَّلاً وَ عَمْلاً وَ لَقَدْ اِسْتَتْبَتَهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ وَ أَسْتَانَیْتَ بِهِمَا أَمَامَ الْوَقَاعِ فَغَمَطَا النِّعْمَةَ وَ ورَدَّا الْعَافِیَةَ'' ۔(۲)

خداوندا! ان دونوں نے (جان بوجھ کر) مجھ سے قطع رحم کیا اور دونوں نے مجھ پر ظلم کیااور میری بیعت توڑ دی اور لوگوں کو میرے خلاف اکسایا ۔

خداوندا! انھوں نے جو گرہیں لگائی ہیںانھیں کھول دے اور انھوں نے جو کیا ہے اسے مضبوط نہ ہونے دے اور ان کی امیدوں اور کرتوتوں کا برا نتیجہ دکھادے میں نے جنگ چھڑنے سے پہلے ان سے بیعت پر استقلال چاہا اور انھیں موقع دیتا رہا لیکن انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا۔

ب: امام ـ سے مسئلہ کا حل دریافت کرنا

صلح کی دوسری صورت یہ لکھی ہے کہ عثمان بن حنیف نے ناکثین سے یہ کہاکہ میں امام ـ کے حکم کا پابند ہوں اور کسی بھی صورت میں ان کی باتوں کو قبول نہیں کروں گا مگر یہ کہ یہ لوگ امام ـ کو خط لکھیں اور ان سے مسئلہ کا حل دریافت کریں۔(۳)

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ، ۸۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۳۳۔

(۳) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۸۶؛ کامل ج، ص ۲۱۶؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۹ ص ۳۱۹؛ ابن الحدید نے صلح کی قرارداد بھی لکھا ہے۔

۳۹۵

ابن قتیبہ اپنی کتاب ''الامامة و السیاسة'' میںمزید لکھتا ہے کہ دونوں گروہوں نے آپس میں طے کیا کہ عثمان بن حنیف اپنے منصب پر باقی رہیں اور دار الامارہ اور بیت المال بھی انہی کے اختیار میں رہے اور طلحہ و زبیر جہاں بھی چاہیں رہیں یہاں تک کہ امام ـ کی طرف سے کوئی پیغام آجائے۔ اگر امام ـ سے توافق ہو گیا تو کوئی بات نہیں ، لیکن اگرایسا نہیں ہوا تو ہر شخص آزاد ہے کہ جس راہ کو چاہے انتخاب کرے اس بات پر عہد و پیمان لیا گیااو دونوں طرف سے کچھ لوگوں کو اس پر گواہ بنایا گیا۔(۱)

قتیبہ کا اس طرح سے نقل کرنا صحیح لگتا ہے البتہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ واقعاً ناکثین نے تہہ دل سے توافق کیاتھا بلکہ وہ لوگ ظاہری طور پرتوافق کرکے دار الامارہ پر اسی رات حملہ کر کے قبضہ کرنا چاہتے تھے تاکہ بصرہ پر عثمان بن حنیف کی حکومت بصرہ کمزور ہو جائے۔چنانچہ تاریخ میں ہے کہ عائشہ نے زید بن صوحان کو خط لکھا اور اس خط میں اسے اپناخاص بیٹا کہا او ردرخواست کیا کہ ان کے لشکر سے ملحق ہو جائے یا کم از کم اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہے اور علی کی مدد نہ کرے۔ زید نے ان کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا خداکی رحمت ام المؤمنین کے شامل حال ہو انھیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھیں اور ہم لوگوںکو حکم دیا گیا ہے کہ جہاد کریں انہوں نے اپنا فریضہ چھوڑ دیاہے اور ہم لوگوں کو اپنے فریضے (گھر میں بیٹھنے) کو انجام دینے کے لئے دعوت دیتی ہیں اور وہ چیز جو ہم لوگوں پر فرض تھی خود اس پر اقدام کیاہے اور ہم لوگوں کو اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے منع کر رہی ہیں۔

ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ ناکثین کے سردار آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اگر علی سپاہ لے کر یہاں پہونچ گئے تو ہم سب کا خاتمہ کردیں گے، اسی وجہ سے اطراف کے قبیلوں کے سردار کے پاس خط لکھا اور بعض قبیلوں کی موافقت (مثلاً ازد، ضبّہ اور قیس بن غیلان) حاصل کرلی لیکن بعض قبیلے امام ـ ہی کے وفادار رہے۔(۲)

______________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۶۴۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۹ ص ۳۲۱۔ ۳۲۰۔

۳۹۶

آٹھویں فصل

خونریز پوزش

ایسے حالات ہوگئے تھے کہ ناکثین کے سردار اپنے کو طاقتور سمجھنے لگے اور ابھی عثمان کے پاس خط بھیجے ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک سردرات میں نماز عشاء کے وقت یاایک قول کی بنا پر نماز صبح کے وقت مسجد اور دار الامارہ پر حملہ کردیا اور مسجد و دار الامارہ اور زندان کے محافظوں کو قتل کر کے (کہ جن کی تعداد میں اختلاف ہے) شہر کے اہم مقامات پر قبضہ کرلیااور پھر لوگوں کواپنا ہمنوا بنانے کے لئے تمام سرداروں نے تقریریں کیں۔

طلحہ نے مقتول خلیفہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہا: خلیفہ نے گناہ کیا تھا مگر پھر توبہ کرلیا تھا ہم نے ابتداء میں چاہا تھا کہ ان کو سمجھائیں ، لیکن ہمارے نادان لوگوںنے ہم پر غلبہ پیدا کرکے ان کو قتل کردیا ابھی یہیں تک کہنے پائے تھے کہ لوگوں نے کہا: تم نے جو خطوط خلیفہ کے متعلق لکھے تھے اس کا مضمون اس کے برعکس تھا، تم نے تو ہم لوگوں کو ان کے خلاف اقدام کرنے کی دعوت دی تھی۔

اس وقت زبیر اٹھا اور اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا : میری طرف سے تو کوئی خط تم لوگوں تک نہیں پہونچا اس وقت قبیلۂ ''عبد القیس'' کا ایک شخص کھڑا ہوااور چاروں خلیفہ کی خلافت کی سرگذشت بیان کی اس کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ تمام خلفاء کا انتخاب تم لوگوں یعنی مہاجرین و انصار نے کیا اور ہم لوگوں سے مشورہ تک نہیں لیا یہاں تک کہ تم لوگوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور پھر بھی ہم لوگوں سے مشورہ نہیں لیااب کیا بات ہوئی کہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ؟

کیا انھوں نے مال و دولت دبالیاہے کیاحق کے خلاف عمل کیاہے؟ یا خلاف شرع قدم اٹھایا ہے؟ اگریہ کچھ نہیں ہے تو یہ شور و ہنگامہ کیسا ہے؟

۳۹۷

اس کی ٹھوس اور منطقی بات نے دنیا پرستوں کے غصے کو اور زیادہ کردیا اور انہوں نے چاہا کہ اسے قتل کردیں لیکن اس کے قبیلے والوں نے اسے بچالیا لیکن دوسرے دن حملہ کرکے اسے اوراس کے ستر ساتھیوںکو قتل کردیااور حکومتی امور کو یعنی نماز جماعت سے لے کربیت المال تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اپنے مقصد میں کچھ حد تک کامیاب ہوگئے ۔(۱)

حاکم بصرہ کا انجام

حاکم بصرہ کا امام ـ کے بارے میں ثابت قدم رہنا ناکثین کے سخت غصہ کا سبب بنا، لہذا جیسے ہی عثمان کے پاس پہونچے توانہیں مارا پیٹا اور ان کے سر اور داڑھی کے بال اکھیڑ ڈالے ، پھر انکو قتل کرنے کے لئے مشورہ کرنے لگے اورآخرمیں یہ طے کیا کہ انہیں رہا کردیں ، کیونکہ ان لوگوں کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کا بھائی سہیل بن حنیف مدینہ میںسخت انتقام لے گا۔

عثمان بن حنیف مولائے کائنات سے ملنے کے لئے بصرہ سے روانہ ہوئے اور جب امام نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو مذاق میں کہا جب تم یہاں سے گئے تھے توبوڑھے تھے اوراب ایک خوبصورت جوان کی طرح واپس ہوئے ہو عثمان نے تمام واقعات سے امام ـ کو باخبر کیا

جو افراد اس خونریز یورش میں قتل ہوئے ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، طبری نے اپنی تاریخ اور جزری نے اپنی کتاب کامل میں مرنے والوں کی تعداد ۴۰ لکھی ہے لیکن ابن ابی الحدید نے ان کی تعداد ۷۰ اور ابو مخنف نے (اپنی کتاب جمل میں) ان کی تعداد ۴۰۰تحریرکی ہے۔(۲)

اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ناکثین کے گروہ نے اس گروہ پر جو مسجد ، دارالامارہ اور قیدخانہ کے محافظ تھے، دھوکہ اور فریب سے حملہ کیا اور تمام لوگوں کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۸۵؛ کامل ج۳ ص ۲۱۷؛الامامة والسیاسة ج۱ ص ۶۵۔

(۲) شرح ابن ابی الحدید ج۹ ص ۳۲۱۔

۳۹۸

حکیم بن جبلّہ کا اقدام

اسی دوران حکیم بن جبلّہ کو عثمان کے اس دردناک واقعہ اور دار الامارہ کے محافظوں کے دردناک قتل نے سخت رنجیدہ کردیا۔ چنانچہ قبیلہ عبدالقیس کے تین سو افراد کے ساتھ ارادہ کیا کہ (طلحہ و زبیر کے لشکر سے) جنگ کرنا چاہا اسی وجہ سے انہوں نے چار گروہ اپنے تین بھائیوں کی ہمراہی اور ہر گروہ کے لئے ایک کمانڈر (سردار) معین کیا تاکہ ناکثین پر حملہ کریں۔ ناکثین نے حکیم سے مقابلہ کرنے کی تشویق دلانے کے لئے

پہلی مرتبہ رسول خدا کی بیوی کو اونٹ پر بٹھایا اور ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرلیا یہی وجہ ہے کہ حکیم کے قیام کرنے والے دن کو ''جمل کے دن''سے تعبیر کیا ہے اور اس کی اہمیت کے لئے اس جمل کے پہلے مشہور دن کو چھوٹی صفت اور دوسرے جمل کے دن کوبڑی صفت سے منسوب کیا ہے۔

اس جنگ میں حکیم کے تمام تین سو سپاہی اوران کے تینوں بھائی قتل ہوگئے اس طرح سرزمین بصرہ کی حکومت بغیر کسی اختلاف کے طلحہ و زبیر کے ہاتھوں میں آگئی، لیکن ان میں سے ہر ایک حکومت و حاکمیت چاہتا تھا نماز جماعت کی اقتدا کے سلسلے میں بہت سخت اختلاف ہوگیاکیونکہ اس وقت جس کی اقتدا میں نماز ہوتی لوگ اس کی حکومت تصور کرتے ۔جب عائشہ کو ان دونوں کے اختلاف کی خبر ملی تو حکم دیا کہ دونوں اس مسئلہ سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور نماز کی امامت کی ذمہ داری طلحہ و زبیر کے بیٹوں کو سونپ دی۔ لہذا ایک دن عبداللہ بن زبیر اور دوسرے دن محمد بن طلحہ نماز کی امامت کرتے تھے۔

۳۹۹

اور جب بیت المال کے دروازے کو کھولا گیااور ان لوگوں کی نگاہیں مسلمانوں کی بے انتہا دولت پر پڑی تو زبیر نے اس آیت کی تلاوت کی:

( وَعَدَکُمْ اﷲُ مَغَانِمَ کَثِیرَةً تَاخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَکُمْ هَذِهِ ) ۔(۱)

خداوند عالم نے بے شمار مال غنیمت کا تم سے وعدہ کیا ہے جسے تم حاصل کر رہے ہو اور اس مال و دولت کو تمہارے سامنے رکھ دیا ہے۔

پھر کہتا ہے : بصرہ کے لوگوں سے زیادہ اس دولت کے ہم سزاوار اور حقدار ہیں اس وقت تمام مال کو ضبط کرلیا۔ اور جب امام ـ نے بصرہ پر قبضہ کرلیا تو تمام مال کو ''بیت المال'' میں واپس کردیا۔(۲)

______________________

(۱) سورۂ فتح ، آیت ۲۰۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ج۹ ص ۳۲۲؛ تاریخ طبری ج۳ کامل ،ج۳

۴۰۰